Sunday, 14 February 2016

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ


ہائے جانانہ کی مہماں داریاں
اور مجھ دل کی بدن آزاریاں

ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر
تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں

اُف، شکن ہائے شکم، جانم تیری
کیا کٹاریں ہیں، کٹاریں کاریاں

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ
پھر تری مجبوریاں، ناچاریاں

تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار
تیرے دُودھوں سے ہیں چشمے جاریاں

دُکھ غرورِ حُسن کے جانا ہے کون
کس نے سمجھیں حسن کی دشواریاں

اپنے درباں کو سنبھالے رکھیے
ہیں ہَوَس کی اپنی عزت داریاں

ہیں سِدھاری کون سے شہروں کی طرف
لڑکیاں وہ دل گلی کی ساریاں

خواب جو تعبیر کے بس کے نہ تھے
دوستوں نے ان پہ جانیں واریاں

خلوتِ مضرابِ سازِ ناز میں
چاہئیں ہم کو تیری سِسکاریاں

لفظ و معنی کا بہم کیوں ہے سخن
کس زمانے میں تھیں ان میں یاریاں

مجھ سے بد طَوری نہ کر او شہریار
میرے جوتوں کے ہیں تلوے خاریاں

کھا گئیں اُس ظالمِ مظلوم کو
میری مظلومی نما عیاریاں 

جون ایلیاء

Thursday, 11 February 2016

سرخ قبر کی رات

سرخ قبر کی رات

اس رات کو یاد کرتا ہوں تو ایک عجیب سا احساس ذہن کے تاریک گوشوں سے نکل کر سامنے آ جاتا ہے۔ کیا احساس ہے وہ؟ کچھ نہ کرنے کا احساسِ فخر؟ یا کچھ نہ کرنے کا احساسِ افسوس؟
میں ان دنوں ایم بی بی ایس فائنل ایئر کا طالبِ علم تھا۔ ایک دوست جو کراچی جا رہا تھا، اس کے ساتھ تین چار دنوں کے لیے کتابوں اور دوائیوں سے نکل کر جینے کے لیے ساتھ ہولیا۔
صبح سویرے کراچی کے مڈل کلاس کے علاقے تھرٹین ڈی کے ایک فلیٹ پر پہنچے۔ ہمارا میزبان ایک مشہور ڈرامہ ڈائریکٹر تھا جو اس وقت باہر تھا۔ عریاں اور نیم عریاں فلمی پوسٹرز، شراب کی بوتلوں میں واٹر پلانٹس اور کمروں میں زیرو پاور کے سرخ بلب اس دو کمروں اور ایک بڑے ہال والے فلیٹ کی ذہنی کیفیات کے آئینہ دار تھے۔ فلیٹ کا ملازم تھر کا رہنے والا ایک عجیب خاموش طبیعت لڑکا تھا، سماً بکماً ٹائپ کا۔ شام کو آنکھ کھلی تو ڈائریکٹر دوست ابھی تک شوٹ سے واپس نہیں آیا تھا۔ ہم نے چائے وغیرہ پی اور میں اور میرا دوست بوریت دور کرنے کے لیے شطرنج کھیلنے لگ گئے۔ آہستہ آہستہ فلیٹ ڈائریکٹر کے جاننے والوں، جن میں چند پروڈیوسر حضرات، چند ٹیکنیکل لوگ اور کچھ ایکٹرز وغیرہ شامل تھے، سے بھرنا شروع ہوگیا
ان میں سے کچھ کام مانگنے اور اکثر اپنے پیسے مانگنے آئے تھے۔ ڈائریکٹر واپس آیا تو ہمیں دیکھ کر اپنی مصروفیات اور تعلقات کے بارے میں بتا بتا کر اپنی ترقی کو مزید ہوائیں دیتا رہا۔ اس دوران وہ باقی لوگوں کو بھی نمٹاتا رہا۔
مجھے کچن میں کھانے وغیرہ کا کوئی خاص سلسلہ نظر نہیں آیا تو تقریباً نو بجے میں کھانا کھانے باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو بڑے کمرے سے موسیقی کے ساتھ لوگوں کی اونچی آوازیں آرہی تھیں۔ دروازے کو دھکیلنے کی کوشش کی تو بند تھا۔ میں کچھ کنفیوز ہوکر ساتھ والے کمرے کی طرف بڑھا جہاں صبح سویا تھا۔ وہ تھری لڑکا خاموش سرجھکائے وظائف کی کوئی کتاب کھولے پڑھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ اس سارے ماحول سے عادی اور عاری تھا۔
میں بیٹھا ہی تھا کہ میرا دوست مجھے ڈھونڈتا ہوا پہنچ گیا۔’یار ڈاکٹر، کہاں چلا گیا تم؟۔۔۔ آؤ ادھر آؤ ایک چیز دکھاؤں۔۔۔ خاص دعوت ہے‘۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا لے گیا۔
جیسے ہی میں نے اندر قدم رکھا، شراب کی بو اور دھوئیں کے کثیف بادلوں میں اتر گیا۔ کچھ دیکھنے کے قابل ہوا تو سرخ بلب کی روشنی اور دھوئیں میں پہلی نشست پر دروازے کے پاس ہی میری عمر کا ایک موٹا سا لڑکا نظر آیا۔ اس نے پھولوں والی ایک تنگ شرٹ پہن رکھی تھی جس میں سے اس کے موٹے کالے بازو اور پیٹ باہر لٹکے ہوئے تھے۔ اس کے اوپر ایک صحت مند گہرے سانولے رنگ کی لڑکی تقریباً نیم دراز تھی۔ اس کا لباس عجیب سا تھا۔ پیلے رنگ کی کاٹن کی تنگ بلکہ بہت ہی تنگ چولی، جس کے بازو غائب تھے اور لمبائی ناف سے ذرا اوپر تک۔ گلا کچھ چوڑا، کالے رنگ کی برا اور جلد کے ساتھ چپکی ہوئی تنگ پتلون جو کہ پیروں تک تھی۔ اس کی شکل، اس کا انداز اور اس کا لباس، میں گھبرا گیا۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں پر مہندی لگی تھی۔ میرا دوست ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ والی نشست پر لے گیا
لڑکی کا اوپر کا دھڑ دوسرے شخص پر تھا جس نے کلف لگا ہوا کاٹن کا سفید سوٹ پہن رکھا تھا۔ بھری مونچھیں، بھرا چہرہ، لڑکی سے بے زاری یا لاتعلقی کا اظہار کر رہا تھا۔ اس کی توجہ شراب کے گلاس پر تھی جو لڑکی اس سے چھین کر خود پینا چاہ رہی تھی۔تیسرا شخص کھلاڑی مانند جسم والا، ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ سب اندر پیتے رہے تھے اور اب تقریبا تیسرے یا چوتھے آسمان پر محوِپرواز تھے۔ ان کا تعارف میرا دوست آہستگی سے کروا چکا تھا۔ سفید کاٹن والا شخص پولیس میں ایس ایچ او تھا جسے اس لئے بھی شامل کیا گیا تھا کہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔ میری موجودگی کو کوئی نوٹس میں نہیں لایا۔
موٹے لڑکے نے اچانک دھکا دے کر اس لڑکی کو ہال کے بیچ میں کھڑا کر دیا۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی اس پلیئر تک گئی اور اس میں ایک کسیٹ ڈال کر اسے آن کردیا۔کسی تیز انگلش میوزک سے پورا ہال دھمک اٹھا اور اسی بات پہ اس نے بے ہنگم انداز میں ناچنا شروع کر دیا۔ناچ کیا تھا، چھلانگیں تھیں۔اونچی نیچی چھلانگیں۔لوٹ پوٹ۔
’نہیں نہیں یہ والا نہیں۔ بند کرو۔ دوسرا لگاؤ۔۔۔مجرا لگاؤ۔‘ بہت سی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔وہ لڑکی، کیا نام تھا اس کا؟ شاید ثنا۔ وہ دھم سے بیٹھ گئی۔ اس قدر پی چکی تھی کہ وہ کچھ کر نہیں پا رہی تھی۔ موٹا لڑکھڑاتا ہوا اٹھا۔ لڑکی کو ایک لات ماری اور پوچھا! وہ مجرے والی کیسٹ نہیں لائی؟ لڑکی نے اس کو ماں کی گالی دی۔ ساری محفل زعفران زار ہو گئی۔ بولی ’میرے پرس میں ہے۔ لگاؤ اس میں۔ میرا موڈ آف کر دیا تم لوگوں نے۔ ایک پیگ لگاؤ۔‘ ایک شخص کے ہاتھ سے اس نے بھرا ہوا گلاس لیا اور ایک ہی سانس میں چڑھا گئی۔
کیسٹ لگائی گئی، گانا شروع ہوا ’ان آنکھوں کی مستی کے افسانے ہزاروں ہیں‘ لڑکی فرش پہ بیٹھی بیٹھی دوبارہ موڈ میں آنے لگی۔ واہ! واہ! کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اب وہ طوائفوں کے انداز میں پرفارم کرنے کی کوشش میں تھی۔ مگر وہ بس کوشش ہی تھی۔ وہ اٹھی، لہراتی ہوئی کبھی پروڈیوسر پہ، کبھی ایس ایچ او پہ اور کبھی ہماری گود میں بھی آ گرتی۔ وہ اس کو جگہ جگہ سے دبوچتے اور دوسرے پہ پھینک دیتے۔ یہ سب کچھ کافی دیر تک ہوتا رہا۔
کمرے میں کوئی اے سی نہیں تھا۔ بند کمرے میں دھوئیں، گرمی، شور، اچھل کود اور اتنے لوگوں کی بھاری سانسوں میں، میں پسینہ پسینہ ہو چکا تھا۔ میں سب کچھ ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی تھرڈ کلاس سینما میں ہوں اور اس پشتو، پنجابی فلم میں بھی، جو سامنے چل رہی ہے۔میں نے دوست کو باہر چلنے کا اشارہ کیا اور وہ مشفقانہ انداز میں سر ہلا کر مجھے باہر لے آیا
پندرہ بیس منٹ بعد ہم پھر اسی گھٹیا سینما میں داخل ہو گئے۔ فلم آگے نکل چکی تھی۔ سارے وِلن اپنی اپنی آگ بجھانے کو تیار بیٹھے تھے جو اس نے اب تک بھڑکائی تھی۔ اس کا لباس اب بہت ناکافی تھا اور وہ چھوٹی سی چولی اس موٹے کے ہاتھ میں تھی جسے وہ بار بار سونگھتا تھا۔ اچانک ایک شخص اٹھا، اس نے ثنا کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھا۔ باتھ روم سے گزر کر ایک دوسرا کمرہ تھا جو باہر سے لاک کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی ڈرائنگ روم سے اندر نہ آسکے۔ اس شخص کے اس اقدام پہ قہقہے اور داد کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ثنا اس کو تھپڑ مارتی ہوئی اس کے ساتھ جا رہی تھی۔ میرا دوست، میں اور باقی سب ہال میں رہ گئے تھے۔
میں اس ماحول کو اب دوسری طرح دیکھ رہا تھا۔میرے اندر اب تک کوئی جنسی جذبہ بیدار نہیں ہو سکا تھا۔ مجھے خود پہ حیرت بھی تھی کہ کیا مسئلہ تھا۔ یا شاید پہلی بار سچ مچ یہ سب کچھ دیکھ کر میں ڈر گیا تھا۔ حالانکہ جب بھی ہم دوستوں نے مل کر کوئی ٹرپل ایکس فلم دیکھی تو پانچ منٹ کے بعد ہی ہم سب کو ٹینشن شروع ہو جاتی اور ہر کوئی سگریٹ سلگانے پہ آجاتا، وہ بھی جو نہیں پیتے۔
اب کمرے میں بزنس، گالی گلوچ اور شراب کی کمی کا ذکر ہو رہا تھا۔ ڈائریکٹر اس دوران کہیں غائب تھا۔ ہاں! وہ چھت پہ کسی نئی لڑکی کا آڈیشن لے رہا تھا۔ وہ لڑکی اور اس کی ماں دونوں بہت پرکشش تھیں
ایس ایچ او کو گھر جانے کی جلدی تھی۔ اس کی بیوی کا فون پہ فون آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دوسروں سے پہلے وہ نشہ بہاتی گنگا میں ہاتھ دھو کر گھر جائے۔ وہ بہت ضبط کیئے ہوئے تھا۔ اپنے آپ کو کھول نہیں رہا تھا جبکہ دوسرے اب تک بیسیوں لڑکیوں، شراب کے مختلف برانڈز اور شاندار محفلوں کو یاد کر چکے تھے۔
جو پروڈیوسر اسے لایا تھا، اس پر طنز کیا جا رہا تھا کہ اس بار اس نے کوئی خاص چیز نہیں منگوائی۔’بس ٹھیک ہے‘ اور وہ مصر تھا کہ اتنی جلدی میں اس سے بہتر اور کیا آتی حالانکہ وہ کوشش کر چکا تھا دوسری لڑکی کے لئے۔
دوسرے کمرے سے جونہی وہ شخص واپس آیا، سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، گویا اب کون؟ ’یار مجھے گھر جلدی پہنچنا ہے، پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے‘ ایس ایچ او نے سب کو درخواست کی، جو درخواست نہیں اطلاع تھی۔
’ہاں ہاں آپ ہو آئیں، ہم تو آج یہاں ہیں، ثنا بھی یہیں ہے۔‘

ایس ایچ او لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور باتھ روم سے ہوتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ پہلا آدمی اس کی جگہ پہ آ کے بیٹھ گیا۔ ایک سگریٹ سلگایا،’شراب ختم ہو گئی کیا؟‘ اس نے موٹے لڑکے سے پوچھا۔
’ابے اور کتنی پیئے گا بہن ۔۔۔؟‘ اس موٹے نے ہنستے ہوئے کہا۔
’تیری ماں نے سارا نشہ اتار دیا ہے، منگا! کچھ کر‘ اسی طرح کی اور باتیں ہوتی رہیں۔ کسی نے اٹھ کر ٹیپ چلا دیا۔ میرے تصور میں ثنا فرش پر بیٹھ کر ڈانس کرنے لگی۔۔۔کبھی وہ بلی کی طرح چلتے ہوئے کسی کے قریب جاتی، کبھی بندر کی طرح اچھلنے لگتی یا پھر ناگن کی طرح زمین پہ لوٹنے لگتی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہ مجھے ریکھا، مینا کماری یا ہیما مالنی کی طرح رقص کرتی ہوئی نظر آئے مگر وہ تو قابو میں ہی نہیں آ رہی تھی
اچانک دھوئیں سے میرا جی متلانے لگا۔مجھے چکر آ رہے تھے۔ میں تیزی سے باتھ روم گیا۔ زور سے قے آئی اور سب کھایا پیا باہر آگیا۔ میں کوشش کرتا رہا کہ میری آواز باہر نہ جائے۔ واش بیسن میں منہ دھویا۔ میری نظر کے سامنے آدھ کھلے دروازے پر پڑی۔ ثنا اور ایس ایچ او دونوں بالکل برہنہ پلنگ پہ پڑے تھے۔ ثنا ایک لاش لگ رہی تھی اور ایس ایچ او اسے زور زور سے چانٹے بھی مار رہا تھا کہ وہ ہوش میں آئے مگر لاش کو کیا فرق پڑتا ہے۔
مجھے ہوش آیا۔ میں نے دروازہ آہستہ سے بھیڑ دیا۔
ذرا ٹھیک ہو کر دوبارہ اس ہال میں آیا۔ میرا دوست جو بہت پی چکا تھا، بڑے غور سے کسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی اسی جانب دیکھا مگر کچھ سمجھ نہیں سکا۔ کیا ایسی چیز ہے جسے وہ اتنے غور سے دیکھ رہا ہے۔۔۔ہاں ڈاکٹر۔۔کہاں گئے تھے تم؟ ٹھیک تو ہو؟۔۔۔۔یار میں اوپر جا رہا ہوں۔۔۔چلو گے؟۔۔۔ہاں؟ نہیں تم جاؤ میں آتا ہوں۔
میں اسے انتظار میں چھوڑ کر چھت پر آگیا۔ ڈائریکٹر صاحب ایک تاریک گوشے میں لڑکی اور اس کی ماں کو لئے سکرپٹ ڈسکس کر رہے تھے
میں دور شہر کی جگمگاتی علامتوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔اب مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔میرے کان گرم نہیں ہو رہے تھے۔میری ٹانگوں میں کوئی لرزش نہیں تھی۔ میری دھڑکنیں بے ترتیب نہیں تھیں۔۔۔۔بس مجھے نیند آ رہی تھی مگر کہاں جاؤں۔۔۔۔ہال؟ نہیں ڈرائنگ روم۔۔۔؟ نہیں۔ صبح والا کمرہ۔۔۔۔؟ اس میں پہلے ہی چار لوگ سو رہے ہیں۔ چھت۔۔۔؟ ہاں! چھت ٹھیک ہے۔۔۔۔میں سو گیا۔
فجر کے بعد میرا دوست آیا اور نیند کی حالت میں مجھے نیچے ہال میں لے آیا۔دو تین لوگ سو رہے تھے۔ ایک کونے میں بستر خالی تھا۔ اس نے مجھے وہاں سلا دیا۔ میں پھر سو گیا۔
کوئی دس بجے گرمی سے جاگا۔ میرا پورا جسم اینٹھ چکا تھا۔ منہ کڑوا اور حلق خشک ہو چکا تھا۔ پاس رکھے واٹر کولر سے پانی پیا۔ رات کا پانی تھا۔ جی چاہا تھوک دوں، پھر بھی پی گیا۔ باہر سے پروڈیوسر اور دوسرے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں جلدی سے باتھ روم میں گھس گیا۔ شاور کھول کر بہت دیر تک اس کے نیچے بیٹھا رہا۔ نہا کر ، تولیا باندھ کر میں نے اس کمرے کا دروازہ کھولا جہاں رات کو لوگ جا رہے تھے۔
دروازہ کھلتے ہی سامنے شلوار قمیض پہنے ثنا کھڑی نظر آئی۔وہ موٹی موٹی سرخ آنکھیں لئے راستہ روکے کھڑی تھی۔ کچھ دیر دیکھتی رہی۔میرے سینے کے بالوں پہ موجود پانی کے قطرے کو انگلی کی پور پہ اٹھا کر اپنے چہرے کے قریب لے گئی۔۔۔۔تم ڈاکٹر ہو؟ اس نے پوچھا۔ میں اسے دیکھتا رہا
تم مجھ سے ناراض ہو؟
نہیں، کیوں؟
پھر تم رات کو میرے پاس کیوں نہیں آئے؟
تمہیں کیا پتا کون کون تمہارے پاس آیا تھا؟
تم نہیں آئے باقی سب آئے تھے۔۔۔۔کچھ دو بار بھی۔
میرا آنا بھی ضروری تھا؟
شاید۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نہ میرے گال پہ ایک بوسہ دیا اور ہنستی ہوئی چلی گئی جہاں پروڈیوسر، موٹا لڑکا اور داڑھی والا اسے واپس لے جانے کے لئے بیٹھے تھے

کیا پسی کو چاٹنے

کیا پسی کو چاٹنے سے واقعی بھی مدہوشی اور گرم ہونے کے عالم میں لڑکی چلی جاتی ہے ، یا یہ صرف کہانیوں اور پورن موویز تک محدود ہے،
آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے اس بارے میں....؟؟؟
کیا لڑکوں کو بھی اپنا ڈک چسوانے میں ووہی مزہ ملتا ہے یا بس صرف اور صرف دیکھا دیکھی ہے ....؟؟؟؟
لڑکے اور لڑکیاں کومنٹس میں یا ان باکس میں اپنا تجربہ بتا سکتے ہیں ....
ایڈمن رمتا جوگی
کھا اور بولے تم نے برا فروخت کیے ہیں آج؟؟؟ میں نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا جی حاجی صاحب۔۔۔ وہ اصل میں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے پوچھا تو میں نے سوچا کہ گاہک واپس نہیں جانا چاہیے تو میں نے وہ فروخت کر دیے۔ یہ سن کر حاجی صاحب مسکرائے اور میری کمر پر تھپکی دیتے ہوئے بولے بہت خوب بھئی، یعنی اب تم سیکھ گئے ہو۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کونسے فروخت کیے اور کتنے میں میں نے بتایا تو انہوں نے کہا بہت خوب، تم نے تو 100 روپے زیادہ کی بچت کروا دی۔ آج سے تم صرف جیولری اور کاسمیٹکس نہیں بلکہ انڈر گارمنٹس بھی سیل کیا کرو گے۔
پھر حاجی صاحب نے فارغ وقت پر رات کے 9 بجے کے قریب جب بازار میں رش بالکل ختم ہوگیا تھا مجھے مختلف سائز کے برا کے بارے میں اور انکے ڈیزائن کے بارے میں بتایا ، کونسے برا کہاں پڑے ہیں، دیسی برا، پھر ایمپورٹڈ برا اور پھر بی بیلے اور آئی ایف جی کے برا بھی دکھائے جو کافی مہنگے تھے، ایک ایک برا 1000 روپے تک کا بھی تھا۔ اسکے بعد حاجی اقبال صاحب نے مجھے خواتین کے انڈر وئیر کے بارے میں بھی متایا اس میں سمال، میڈیم اور لارج کے بعد ایکسٹرا لارج سائز تک کے انڈر وئیر تھے۔ پھر اس دن سے میں نے برا بھی سیل کرنا شروع کر دیے، کبھی میں جیولری وغیرہ دکھاتا تو کبھی برا اور انڈر وئیر سیل کرتا۔ دونوں طرف میری توجہ ہوگئی تو جاجی صاحب میری کارکردگی سے کافی خوش ہوئے اور 4 ماہ کے بعد میری تنخواہ 6 سے بڑھا کر 7000 کر دی جسکی مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس دوران انکل باسط بھی مہینے میں ایک دو بار چکر لگا کر میری کارکردگی کے بارے میں حاجی صاحب سے پوچھ لیتے تھے۔
یہاں میں نے ایک چیز نوٹس کی تھی کہ لوکل عورتیں تو حاجی صاحب سے ہی برا طلب کرتی تھیں، مگر جو کچھ ماڈرن قسم کی عورتیں ہوتی تھیں وہ زیادہ تر مجھے ہی کہتی تھیں برا دکھانے کے لیے، اور میں انکی ظاہری حالت کے مطابق اچھی کوالٹی اور لو کوالٹی کے برا دکھاتا تھا۔
اس دوران حاجی صاحب نے مجھے ایک موبائل بھی لے دیا تھا تاکہ ضرورت کے وقت میں ان سے رابطہ کر سکوں۔ پھر کبھی مال ختم ہوتا تو حاجی صاحب لاہور سے مال لینے چلے جاتے اور اس دن صبح سے رات تک دکان پر میں اکیلا ہی ہوتا اور اگلے دن حاجی صاحب کو پچھلے دن کا حساب دے دیتا۔ پھر ایک دن میں دکان پر فارغ ہی بیٹھا تھا کہ میرے نمبر پر ایک کال آئی میں نے ہیلو کہا تو آگے سے ایک خاتون کی آواز آئیں انہوں نے ہیلو کے جواب میں کہا کیسے ہو سلمان بیٹا؟؟ مجھے آواز تو جانی پہچانی لگی مگر میں سمجھ نہیں سکا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ میں نے کہا جی میں ٹھیک ہوں مگر آپ کون؟ تو اس پر وہ بولیں ارے بیٹا میں تمہاری سلمی آنٹی بات کر رہی ہوں، تمہارے انکل سے تمہارا نمبر لیا تھا۔ سلمی آنٹی کا نام سن کر میں نے کہا جی آنٹی میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں آپ کیسی ہیں؟؟ آنٹی نے کہا کہ وہ بھی بالک ٹھیک ہیں۔ پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد آنٹی نے مجھے کہا کہ بیٹا تم سے ایک کام ہے، کہتے ہوئے شرم بھی آرہی ہے ، مگر پھر تم تو اپنے بچوں کی طرح ہی ہو، تو سوچ رہی ہوں تمہیں ہی کہوں، باسط تو مجھے جانے نہیں دیتے بازار۔ اور خود وہ فارغ نہیں انہیں چھٹی ہی نہیں ملتی راتے کو تھکے ہوئے گھر آتے ہیں تو اس وقت میں انہیں کہ نہیں پاتی۔
میں نے کہا آنٹی میں آپکے بچوں کی طرح ہی ہوں آپ بلا جھجک بتائیں کیا کام ہے۔ آنٹی کچھ دیر خاموش رہیں، پھر بولیں بیٹا وہ مجھے اصل میں کچھ چیزیں چاہیے تھیں۔ وہ تم سے منگوانی تھیں۔ میں نے کہا آںٹی آپ حکم کریں آپکو جو چاہیے میں لے کر حاضر ہوجاوں گا۔ پھر آنٹی بولیں بیٹا تمہیں تو پتا ہی ہے دکانوں پر کس طرح کے مرد کھڑے ہوتے ہیں، اور وہ عورتوں کو کسیے گندی گندی نظروں سے دیکھتے ہیں تو اس لیے میں تو یہ لینے دکان پر خود جاتی نہیں تمہارے انکل ہی میرے لیے لے کر آتے ہیں مگر اب وہ مصروف بہت ہیں اور مجھے ضرورت بھی بہت ہے۔ میں نے کہا آنٹی آپ بلا جھجک بولیں کیا چاہیے آپکو۔ مجھے کچھ کچھ سمجھ لگ گئی تھی کہ آنٹی کو کیا کام ہے، مگر پھر بھی کنفرم کر لینا ضروری تھا۔ پھر سلمی آنٹی نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہا بیٹا وہ کافی دنوں سے میں سوچ رہی تھی کہ باسط سے اپنے لیے بریزئیر منگواوں مگر انکو وقت نہیں مل رہا اور میں بازار سے خود جا کر کبھی لائی نہیں، مجھے باسط نے بتایا تھا کہ جس دکان پر تم کام کرتے ہو وہاں پر برا وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اگر تم میرے لیے لے آو گے تو میری بڑی مشکل آسان ہوجائے گی۔
میں پہلے یہ سمجھ گیا تھا آنٹی کی ہچکچاہٹ سے مگر انکے منہ سے سننے کے بعد میں نے کہا آنٹی اس میں شرمانے والی کونسی بات ہے، یہاں تو پتا نہیں کتنی عورتیں آتی ہیں جنہیں میں برا فروخت کرتا ہوں، اگر آپکو چاہیے تو آپکے لیے بھی لیتا آوں گا۔ آنٹی نے کہا بہت بہت شکریہ بیٹا، تم نے تو میری مشکل آسان کر دی۔ پھر کب آوگے تم؟؟ میں نے کہا آنٹی کل جمعہ ہے، دکان بند ہوگی مجھے چھٹی ہے، تو میں کل ہی لیکر آپکی طرف آجاوں گا۔ آنٹی خوش ہوکر بولیں ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ بس پھر تم کل ہی آجاو۔ اچھا پھر کل ہی ملتے ہیں، یہ کہ کر آنٹی شاید فون بند کرنے لگیں تو میں نے جلدی جلدی کہا، آنٹی آنٹی بات تو سنیں۔۔۔ میر ی آواز سن کر آنٹی نے ہاں بولو؟ میں نے کہا آنٹی اپنا سائز تو بتائیں مجھے کیسے پتا لگے گا کہ کونسے سائز کے لینے ہیں، اس پر آنٹی بولیں اوہ۔۔۔۔ مجھے یاد ہی نہی سائز بتانے کا اچھا ہوا تم نے خود ہی پوچھ لیا۔ بیٹا تم 38 نمبر کا لے آنا۔ 38 سائز کا سن کر میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ باسط انکل کے تو مزے ہیں انکو اتنے بڑے مموں والی بیوی ملی ہے۔ پھر میں نے فورا ہی پوچھا اچھا آنٹی فوم والے لانے ہیں یا نیٹ والے یا پھر کاٹن میں؟؟؟ آنٹی نے کچھ سوچا اور پھر بولیں بیٹا ایسا نہیں ہوسکتا تم مختلف لے آو مجھے جو پسند آئے گا میں وہی لے لوں گی؟؟؟ میں نے کہا کیوں نہیں آنٹی میں زیادہ لے آوں گا پھر اس میں سے آپ اپنی پسند کے مطابق جو رکھنا ہوا رکھ لیجیے گا۔ اچھا آنٹی یہ بھی بتا دیں آپکو اپنے لیے انڈر وئیر بھی چاہیے یا پھر صرف برا ہی چاہیے۔ یہ سن کر آنٹی نے کہا نہیں بیٹا بس برا ہی چاہیے۔ پھر اچانک بولیں اچھا سنو سنو۔۔۔۔ انڈر وئیر بھی 2 لے آنا مگر چھوٹے سائز کے۔ میں نے کہا چھوٹے سائز کے؟؟؟ آنٹی نے ہچکچاتے ہوئے کہا ہاں بیٹا مجھے تو ضرورت نہیں مگر وہ شمائلہ اب بڑی ہوچکی ہے نہ تو اسکے لیے چاہیے ہیں ، تو اسکے سائز کے مطابق چھوٹے انڈر وئیر بھی لے آنا۔ میں نے دل ہی دل میں انکی بیٹی شمائلہ کی گانڈ کے بارے میں سوچا تو وہ واقعی ابھی چھوٹے سائز کے انڈر وئیر کے قابل ہی تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی آپ بے فکر ہوجائیں میں لے آوں گا۔
فون بند کر کے میں اب سوچنے لگا کہ حاجی صاحب کو کیا کہوں گا؟؟؟ پھر جب حاجی صاحب آگئے تو میں نے حاجی صاحب کو بتایا کہ باسط انکل نے اپنی وائف کے لیے کچھ برا منگوائے ہیں تو وہ میں لے جاوں ؟ وہ خود آتے ہوئے زرا ہچکچا رہے تھے؟؟ حاجی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ہا ہا ہا اس میں ہچکچانے والی کونسی بات ہے وہ کونسا عورتوں سے لیکر جائیں گے، یہاں تو عورتیں بھی لے جاتی ہیں وہ مرد ہو کر شرما رہا ہے، مگر پھر انہوں نے بغیر کوئی اور بات کیے کہا، ٹھیک ہے لے جانا، مگر مفت میں نہ دے آنا پیسے لے لینا ان سے۔ میں نے کہا جی حاجی صاحب وہ تو ظاہری بات ہے پیسے لوں گا۔ پھر میں نے حاجی صاحب کی موجودگی میں ہی 38 سائز ے 7 برا پسند کیے اور ایک شاپر میں ڈال لیے اور پھر چھوٹے سائز کے 2 انڈر وئیر اٹھائے اور وہ بھی اسی شاپر میں ڈال دیے۔ حاجی صاحب نے کہا ارے اتنے زیادہ کا اچار ڈالے گا کیا ؟؟؟ میں نے کہا حاجی صاحب جو وہ رکھنا چاہیں گے رکھ لیں گے باقی میں اسی طرح واپس لے آوں گا۔ انہوں نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے مگر دھیان سے لانا۔
اگلے دن صبح 11 بجے میں باسط انکل کے گھر پہنچ گیا۔ جمعہ کا دن تھا سرکاری چھٹی نہ ہونے کے باعث باسط انکل گھر پر نہیں تھے جبکہ انکی بیٹی شمائلہ ابھی سکول سے واپس نہیں آئی تھیں۔ شمائلہ سے چھوٹی بیٹی ابھی جو 10 سال کی تھی اسکی طبیعت خراب تھی جسکی وجہ سے وہ سکول نہیں گئی اور گھر پر ہی ایک کمرے میں سو رہی تھی۔ میں گھر گیا تو سلمی آنٹی نے بہت خوش ہوکر مجھے اند ر بلا لیا۔ مگر وہ کچھ کچھ مجھ سے شرما بھی رہی تھیں ۔ انہوں نے مجھے اسی کمرے میں بٹھا دیا جہاں باسط انکل کے ہوتے ہوئے بیٹھا تھا۔ یہ مین کمرہ تھا اس میں ٹی وی بھی لگا ہوا تھا۔ مجھے بٹھا کر آنٹی کچن میں چلی گئیں اور کچھ ہی دیر میں میٹھے شربت کا ایک گلاس بنا کر میرے لیے لے آئیں۔ میرے سامنے پڑی ٹیبل پر سلمی آنٹی جھکی اور شربت کا جگ جو ایک بڑی ٹرے میں تھا میرے سامنے رکھا، جس دوران وہ جھکیں انکی قمیص سے انکے بڑے بڑے 38 سائز کے ممے قمیص سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے، میری نظر انکی قمیص کے اندر موجود مموں اور انکے بیچ گہری لائن پر پڑی تو مجھے کچھ کچھ ہونے لگا، میں نے فورا ہی اپنا چہرہ نیچے کر لیا۔ آنٹی بھی فورا ہی سیدھی ہوگئیں پھر وہ میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئیں اور بولیں بیٹا پانی پیو۔
انکی نظریں میرے ہاتھ میں موجود شاپر پر تھیں۔ مگر وہ مجھ سے شاپر مانگتے ہوئے ہچکچا رہی تھیں۔ گرمی زیادہ تھی میں نے جلدی جلدی شربت کا ایک گلاس پیا اور پھر آنٹی کی طرف دیکھا۔ آنٹی نے اس وقت سفید رنگ کی ایک قمیص پہن رکھی تھی اور گلے میں دوپٹہ لے رکھا تھا، قمیص باریک تھی اور گرمی کی وجہ سے شاید آنٹی نے آج شمیص بھی نہیں پہنی تھی جسکی وجہ سے انکا کالے رنگ کا برا بھی سفید قمیص میں سے بڑا واضح نظر آرہا تھا۔ انکو ایسی حالت میں دیکھ کر مجھے اپنے انڈر وئیر میں بے چینی محسوس ہونے لگی تھی، مگر میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ شلوار میں موجود ہتھیار اپنا سر نہ ہی اٹھائے تو اچھا ہے ورنہ سلمہ آنٹی نے نوٹ کر لیا تو شرمندگی ہوگی۔ شربت پینے کے بعد آنٹی نے شاپر کو دیکھتے ہوئے پوچھا اور بیٹا تمہارا کام کیسا جا رہا ہے، میں نے کہا آنٹی کام تو اچھا جا رہا ہے، اور بہت جلدی میں سیکھ بھی گیا ہوں، اب تو اقبال صاحب دکان پر ہوں یا نہ ہوں پوری دکان میں ہی سنبھالتا ہوں، چاہے کسی کو اپنے لیے برا لینے ہوں یا میک اپ کا سامان ، سب کچھ میں ہی ڈیل کرتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میں نے شاپر پکڑ کر اس میں ہاتھ ڈالا اور سارے برا نکال کر آنٹی کےسامنے ٹیبل پر رکھ دیے۔
آنٹی نے برا پر نظر پڑتے ہی پہلے تو بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا جیسے اطمینان کر رہی ہوں کہ ہمیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر نطریں چرا چرا کر برا کی طرف دیکھنے لگیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ واقعی دکان پر جاتے ہوئے شرماتی ہونگی غیر مردوں سے اپنے اندر پہننے والی چیزیں لیتے ہوئے۔ مگر پچھلے کچھ مہینوں کے دوران میں ایک اچھا سیلز مین بن چکا تھا، اور عورتوں کو برا دکھانے کا کافی تجربہ بھی ہوگیا تھا۔ میں نے سب سے پہلے ایک کالے رنگ کا ہی فوم والا برا اٹھایا اور آنٹی کی طرف کھسک کر بیٹھ گیا، وہ میں نے آںٹی کے سامنے کیا اور آنٹی کو دکھاتے ہوئے بولا، یہ دیکھیں آنٹی یہ بہت اچھی چیز ہے۔ بہت سوفٹ ہے اور اسکے اندر فوم بھی لگا ہوا ہے جس سے سائز تھوڑا بڑا محسوس ہوتا ہے اور خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب کی بار آںٹی کے ہاتھ کانپتے ہوئے لگ رہے تھے، انہوں نے کانپتے ہاتحوں سے میرے ہاتھ سے برا پکڑا اور اسکو بغور دیکھنے لگیں، مگر انکے چہرے سے پریشان واضح ہورہی تھی۔ میں نے پھر آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ نے پہلے بھی کالے رنگ کا برا ہی پہن رکھا ہے، یہ رنگ تو آپکے پاس ہے۔ آپ یہ رہنے دیں، سرخ رنگ میں دیکھ لیں، یہ کہ کر میں نے انکے ہاتھ سے برا پکڑ لیا اور سرخ رنگ کا فوم والا برا اٹھا کر انہیں پکڑا دیا۔
آنٹی نے ہچکچاتے ہوئے کہا میرا سائز تو پہلے ہی بہت بڑا ہے اس سے تو اور بھی بڑا نظر آئے گا۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں آنٹی آپکا سائز تو آئیڈیل ہے، مردوں کو یہی سائز پسند ہوتا ہے اور اگر تھوڑے بڑے بھی لگیں گے تو بھی برے نہیں لگیں گے بلکہ آپکی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ یہ سن کر سلمی آنٹی زیر لب مسکرائیں اور بولیں اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں مگر مجھے تو لگتا ہے کہ میرا سائز ضرورت سے زیادہ بڑا ہے۔ سلمی آںٹی کی ہچکچاہٹ آہستہ آہستہ کم ہورہی تھی۔ پھر میں نے کہا آنٹی پہلے آپ یہ پہن کر چیک کر لیں پھر میں آپکو اور بھی دکھا دیتا ہوں۔ آنٹی نے کہا نہیں پہننے کی کیا ضرورت ہے، بعد میں دیکھ لوں گی نہ۔ میں نے کہا ارے آنٹی فائدہ کیا پھر اپنی دکان ہونے کا۔۔۔ یہ تو آپ دکان سے جا کر بھی اس طرح بغیر دیکھے لا سکتی ہیں، اگر سائز بعد میں خراب نکلے تو چیج کرنا پڑتا ہے۔ اب میں آیا ہی ہوا ہوں تو آپ پہن کر چیک کرلیں اگر مناسب ہو تو ٹھیک نہیں تو میں کوئی اور دکھا دوں گا۔ میری بات سن کر آنٹی نے سوچا کہ سلمان کہ تو صحیح رہا ہے۔ یہی سوچ کر وہ سرخ رنگ کا فوم والا برا لے کر اٹھیں اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
کمرے میں جا کر آنٹی نے دروازہ اندر سے بند کر لیا اور تھوڑی دیر کے بعد باہر آئیں تو اب انکی قمیص کے نیچے کالے کی بجائے سرخ رنگ کا برا نظر آرہا تھا۔ آنٹی میرے قریب آئیں تومیں نے پوچھا آنٹی کیسا لگا برا؟؟؟ آںٹی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ٹھیک ہے، مگر مجھے لگ رہا ہے کہ اس سے سائز اور زیادہ بڑا لگنے لگا ہے۔ میں نے آنٹی کے مموں کو گھورتے ہوئے کہا ارے نہیں آنٹی، یہ تو بہت خوبصورت لگ رہا ہے آپ پر۔ انکل باسط تو آپکا یہ سرخ رنگ کا برا دیکھیں گے تو لٹو ہوجائیں گے آپ پر۔ میری بات سن کر آنٹی شرماتے ہوئے بولیں، چل بدمعاش۔۔ پھر میں نے آنٹی سے پوچھا، آنٹی سائز تو ٹھیک ہے نا اس برا کا؟؟؟ آںٹی نے کہا ہاں بیٹا ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا اور کوئی الجھن وغیرہ یا فٹنگ کا کوئی مسئلہ تو نہیں؟؟ آنٹِ نے کہا نہیں بیٹا بالکل صحیح ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر میں نے آنٹی کو ایک نیٹ کا برا دکھایا۔ یہ ہلکے نیلے رنگ کا برا تھا جس کے اوپری حصے پر جالی دار نیٹ لگی ہوئی تھی۔ اس برا میں سے مموں کا اوپر حصہ واضح نظر آتا تھا جبکہ نپل اور اس سے نچلا حصہ ڈھکا رہتا تھا میں نے آںٹی کو برا پکڑایا اور کہا آنٹی یہ بھی چیک کرلیں۔ آنٹی نے میرے ہاتھ سے وہ برا پکڑا اور اسکو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگیں، پھر بولیں اس میں سے تو نظر آئیں گے۔۔ میں نے کہا جی آنٹی، یہ بہت سیکسی برا ہے، اثر خواتین میرے سے نیٹ کا برا لے کر جاتی ہیں۔ میری بات سن کر آنٹی آہستہ آواز میں بولیں، ہاں مگر تمہارے انکل سیکسی نہیں ہیں نہ۔ آنٹی نے یہ بات بڑی آہستہ آواز میں کہی تھی مگر میں نے سن لی، مگر میں انجان بنا رہا اور آںٹی سے پوچھا، آنٹی آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟؟؟ آنٹی بولیں نہیں بیٹا کچھ نہیں۔ میں یہ چیک کر لیتی ہوں۔
آنٹی ایک بار پھر اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں تو اس بار میں بھی آنٹی کے پیچھے پیچھے برا اٹھا کر چل پڑا۔ آنٹی دروازہ بند کرنے لگیں تو مجھے دروازے پر ہی دیکھ کر بولیں کیا بات ہے؟؟ میں نے کہا آنٹی آپ بار بار قمیص اتاریں گی، پھر برا پہن کر قمیص دوبارہ پہنیں گی، پھر دوبارہ سے باہر آکر دوسرا برا لیں گی، میں یہیں کمرے کے باہر ہی کھڑا ہوجاتا ہوں، آپ برا پہن کر چیک کریں، جو ٹھیک لگے وہ رکھ لیں، اور پھر وہ اتار کر مجھے سے دوسرا برا مانگ لیں، میں باہر سے ہی آپکو پکڑا دوں گا اس طرح آپکا وقت بچے گا۔ آنٹی نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ اور دروازہ بند کر لیا۔ کچھ دیر کے بعد دروازہ کھلا تو آنٹی نے ایک ہاتھ باہر نکال کر برا میری طرف بڑھایا اور بولیں یہ ٹھیک نہیں، کافی تنگ ہے کوئی اور دکھاو۔ میں نے آںٹی کا گورا گورا بازو دیکھا اور ایک لمحے کے لیے سوچا کتنا مزہ آئے اگر میں یہ بازو پکڑ کر آنٹی کو ایسے ہی باہر کھینچ لوں، مگر میں نے فورا ہی اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اور ایک اور نیٹ کا برا جو پنک کلر کا تھا آنٹی کی طرف بڑھا دیا۔ آنٹی نے وہ برا پکڑا اور پھر سے دروازہ بند کر لیا۔ تھوڑے انتظار کے بعد دروازہ کھلا اور آنٹی نے کہا بیٹا اسکا سائز بالکل ٹھیک ہے، اور میں نے شیشے میں دیکھا ہے ، یہ اچھا بھی لگ رہا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی وہ اتار کر آپ ایک سائیڈ پر رکھ دیں میں آپکو اور برا پکڑاتا ہوں۔ آنٹی نے ٹھیک ہے کہ کر برا اتارنا شروع کیا، مگر اس بار وہ شاید دروازہ بند کرنا بھول گئی تھیں۔ میں نے تھوڑا سا آگے ہوکر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو آنٹی کی کمر میری طرف تھی، انکے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر تھے اور وہ اپنے برا کی ہک کھول رہی تھیں۔ کیا چکنی اور خوبصورت کمر تھی آنٹی کی، دیکھ کر مزہ آگیا تھا، نیچے شلوار میں انکے بڑے بڑے چوتڑ بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے ، دل کر رہا تھا کہ ابھی آگے بڑھوں اور ان چوتڑوں کی لائن میں اپنا لن پھنسا دوں۔ آنٹی نے برا اتار کر سامنے پڑی میز پر رکھ دیا اور واپس مڑنے لگیں۔ جیسے ہی آنٹی واپس مڑیں، میں ایکدم سے پیچھے ہوگیا اور ایسے ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے مجھے کچھ پتا ہی نہ ہو۔
پھر آنٹی کا دوبارہ ایک بازو باہر آیا اور آنٹی نے کہا بیٹا اور کونسا برا ہے وہ بھی دکھا دو۔ میں نے ایک اور برا جو کاٹن کا تھا اور سکن کلر کا تھا وہ آگے بڑھا دیا، آنٹی نے کلر دیکھ کر کہا بیٹا یہ کلر تو پڑے ہیں پہلے بھی میرے پاس۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں آنٹی، آپ پہن کر تو دیکھیں ہو سکتا ہے یہ آپکو پسند آجائے۔ دراصل میں آنٹی کو دوبارہ دیکھنے کا چانس لینا چاہتا تھا، اسی لیے میں نے سوچا، ابھی آںٹی یہ پہن کر کہ دیں گی کہ نہیں کوئی اور دو، تو 2 بار مزید آنٹی کو دیکھنے کا چانس مل سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے اس دوران آنٹی کے 38 سائز کے ممے بھی دیکھنے کو مل جائیں۔ ایک بات ماننے والی تھی کہ 40 سال کی عمر ہونے کے باوجود آنٹی کا جسم بہت سیکسی تھا۔ انہوں نے اپنے جسم کو نہ تو زیادہ موٹا ہونے دیا تھا اور نہ ہی انکا جسم لٹکنا شروع ہوا تھا، اس عمر میں عام طور پر پاکستانی خواتین یا تو بہت موٹی ہوجاتی ہیں، یا پھر انکا ماس لٹکنا شروع ہوجاتا ہے، مگر آنٹی کا جسم ایسا بالکل نہیں تھا۔ خیر آنٹی نے اب دوبارہ میرے ہاتھ سے سکن کلر کا برا پکڑ لیا تھا اور اس بار پھر پہلے ہی کی طرح انہوں نے دروازہ بند نہیں کیا تھا۔
جیے ہی آنٹی نے میرے ہاتھ سے برا پکڑا میں پھر سے آگے کو کھسکا اور آنٹی کے درشن کرنے کے لیے دروازے میں موجود تھوڑی سی جگہ سے آنٹی کا جسم دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ جیسے ہی میں آگے بڑھ کر اندر دیکھنے لگا ، اس وقت آنٹی کا چہرہ میری جانب ہی تھا، مگر انکی نظریں اپنے ہاتھ میں موجود برا پر تھیں۔ اور وہ آہستہ آہستہ دوسری جانب مڑ رہی تھیں۔ اسی دوران میں نے خوش قسمتی سے آنٹی کے 38 سائز کے ممے دیکھ لیے ۔ واہ۔۔۔۔۔ کیا ممے تھے۔ دل کیا کہ انکواپنے منہ میں لیکر انکا سارا دودھ پی جاوں، مگر فی الحال مجھے جوتے کھانے سے ڈر لگ رہا تھا اس لیے میں نے اس خواہش کو دل میں ہی دبا لیا۔ اس عمر میں بھی آنٹی کے ممے چوسنے لائق تھے۔ گو کہ انکے مموں پر براون رنگ کا دائرہ کچھ زیادہ ہی بڑا تھا، اور انکے نپل بھی کچھ بڑے تھے، مگر وہ کسی بھی مرد کو اپنی طرف کھینچجنے کے لیے بہترین ممے تھے۔ اب آںٹی اپنا منہ دوسری طرف کر چکی تھیں اور سکن کلر کا برا پہن رہی تھیں، آنٹی کے دوسری طرف شیشہ ماجود تھا جو مجھے نظر نہیں آرہا تھا،برا پہننے کے بعد آنٹی نے اپنے آپ کو اس شیشے میں دیکھا، مگر شاید انہیں یہ برا پسند نہیں آیا تو انہوں نے وہ برا اتارا اور واپس مڑگئیں، اس دوران میں فورا ہی واپس پیچھے ہوکر کھڑا ہوگیا تھا۔
میں تو پیچھے ہوگیا، مگر میرا لن جو اس وقت میری شلوار میں تھا وہ کھڑا ہوکر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا تھا۔ آنٹی ایک بار پھر باہر ہوئیں، یعنی اپنا بازہ باہر نکالا اور برا مجھے پکڑایا، اس دوران میں نے ایک اور برا آںٹی کو پکڑایا۔ اسی طرح ، 2, 3 برا مزید آنٹی نے چیک کیے۔ اس دوران دروازہ تھوڑا سا اور کھل گیا تھا اور اب میرے لیے اندز کا نظارہ پہلے سے بہت بہتر ہوگیا تھا۔ اب مجھے آنٹی کے سامنے موجود آئینہ بھی نظر آرہا تھا، اور جس وقت آنٹی اپنا برا اتار رہی تھیں اور دوسرا برا پہن رہی تھیں، اس دوران میں نے آںٹی کے مموں کا بڑی باریک بین

Wednesday, 10 February 2016

سیریل قاتل

جنسی جذبوں کی داستان پر مشتمل ایک منفرد ناول
(تحریر: ایمائل زین ۔۔۔۔۔ اردو کہانی کے لیے خصوصی تحریر)

صارم اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کے سامنے شام کا ایک گھٹیا اخبار پڑھا تھا جسےوہ وقت گزاری کے لیے پڑھ رہا تھا۔ شام کے اکثر اخبارات کی گھٹیا خبریں اُسے لطیفے سے کم نہیں لگتی تھیں اور وہ اُنھیں دلچسپی کی خاطر پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی توجہ کا مرکز ایسی ہی ایک خبر تھی۔ خبر کے مطابق:
"شہر کے مضافاتی علاقے سے ایک نوجوان شخص بری حالت میں ملا جس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ ڈاکٹروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس کو ایک سے زائد لڑکیوں نے کئی دن تک مسلسل جنسی فعل کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نوجوان کو فوری طبی امداد دی گئی لیکن وہ اندرونی و بیرونی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔"
صارم نے مزے لے لے کر یہ خبر کئی بار پڑھی اور زیرِ لب مسکرایا۔ اُس نے سوچا، ایسی لڑکیاں مجھے کیوں نہیں ملتیں جو میری آگ بجھاسکیں۔ پھر اُس نے اپنے اس خیال پر زوردار قہقہہ لگایا اور اخبار تہ کرکے رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔
صارم مقامی پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ اُس کا جسم کسرتی اور بھرپور تھا۔ اُسے پولیس میں بھرتی ہوئے بہ مشکل ایک سال کا عرصہ گزرا تھا لیکن اُس نے علاقے میں اپنی جان پہچان بنالی تھی۔ اُس کی عادت تھی کہ وہ لوگوں میں گھل مل جاتا، ہنسی مذاق کرتا اور بوڑھوں کا خیال رکھتا۔ اسی لیے اُس کے علاقے کے لوگ اُسے پسند کرتے تھے۔ اکثر جب کوئی شخص اُس کی تعریف کرتا تو وہ ہنس کر کہتا: "ارے کیا خاک اچھا ہوں میں۔ اتنا اچھا ہوتا تو آج تک کنوارا نہ ہوتا۔"
۔۔۔۔۔
نادر رکشہ چلاتا تھا۔ اُس کی شادی کو ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا لیکن محبت کا خمار تھا کہ اُترنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اُس کی بیوی، ناہیدہ ایک سیدھی سادی، کم تعلیم یافتہ مگر خوب صورت عورت تھی۔ سہاگ رات کو جب نادر نے اُس کے جسم سے کپڑے کا ایک ایک تار دور کردیا، تو اُسے لگا جیسے اُسے دنیا ہی میں حور مل گئی ہے۔ لمبے بال، صاف رنگت، پتلی کمر اور سینہ اتنا اُبھرا ہوا کہ ہوش گم ہوجائیں۔ شادی کی پہلی رات جب تک نادر تھک کر چور نہیں ہوگیا، اُس نے ناہیدہ کو ذرا بھی دم لینے نہیں دیا۔ کبھی اوپر، کبھی نیچے، کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف۔ اگلی صبح ناہیدہ کے کنوارے جسم کا انگ انگ اُس کے عورت بن جانے کی گواہی دے رہا تھا۔
نادر کا جی چاہتا تھا کہ وہ سب کام چھوڑ دے اور چوبیس گھنٹے اپنی بیوی کے ساتھ رہے۔ وہ گھر سے نکلتے وقت ناہیدہ پر آخری نظر ڈالتا تو ناہیدہ کا سینہ اُسے دعوت دیتا نظر آتا اور اُس کا جی چاہتا کہ وہ گھر ہی میں رہے۔ وہ سواریوں کے انتظار میں کھڑا ہوتا تو آتے جاتے ہر لڑکی کے سراپے میں ناہیدہ تلاش کرتا۔ ہر خوب صورت لڑکی کو دیکھ کر اُسے ناہیدہ یاد آتی اور اُس کے جسم میں ہلچل پیدا ہوجاتی۔
جولائی کا مہینہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ نادر سواری کا انتظار کرتے ہوئے ناہیدہ کے خیالات میں گم ہوچکا تھا کہ ایک نسوانی آواز اُس کو خیالات کی دنیا سے باہر لے آئی۔
"نور آباد جاؤگے؟"
دو خوب صورت لڑکیاں ہاتھوں میں بھاری تھیلے لیے جواب کی منتظر تھیں۔ نادر نے فوراً ہاں کردی۔ مناسب کرایہ طے ہوگیا۔ تمام راستے نادر آئینے کی مدد سے اپنی دونوں سواریوں کا کڑی نظروں سے جائزہ لیتا رہا۔ دونوں لڑکیوں کی عمر 25 سال کے لگ بھگ تھی۔ لباس کی تراش خراش سے اونچے گھر کی لگتی تھیں۔ ایک نے ڈھیلا ڈھالا چھوٹا سا کرتا اور چست جینز پہن رکھی تھی جب کہ دوسری نے کھلے گریبان کی چست قمیص اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ پسینے میں بھیگی ہوئی ہونے کی وجہ سے دونوں کے باریک کپڑے اُن کے جسم سے چپکے ہوئے تھے اور زیر جامے واضح دکھائی دیتے تھے۔ نادر کی نگاہوں میں ناہیدہ کا جسم پھرنے لگا۔ وہ واحد نسوانی جسم جسے نادر نے ہر ہر زاویے سے مکمل طور پر دیکھا اور جانچا تھا۔
ان ہی خیالات میں منزل آگئی۔ لڑکیوں نے اُتر کر کرایہ ادا کیا۔ ایک لڑکی بولی:
"مہربانی کرکے یہ سامان اندر رکھوادیں۔ کافی وزنی ہے۔"
نادر نے اُٹھ کر تھیلے اُٹھائے اور لڑکیوں کے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔ ایک کمرے میں اُس نے تھیلے رکھ دیے اور واپس جانے کے لیے مڑا۔
"بہت بہت شکریہ۔ باہر گرمی بہت ہے۔ میں آپ کو ٹھنڈا شربت پلاتی ہوں۔"
چست قمیص والی نے کہا۔ نادر نے شکریہ ادا کرکے جانا بھی چاہا لیکن اُس لڑکی نے اصرار کرکے روک لیا۔ نادر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ لڑکی کمرے سے جانے کے لیے مڑی تو نادر کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ لان کی باریک قمیص سے جھانکتا ہوا سیاہ بریزر اور ہلتے ہوئے بڑے بڑے کولہوں نے نادر کے لیے درجہ حرارت مزید بڑھادیا اور اُس کے ہونٹ خشک ہونے لگے۔ اُس نے کسی پیاسے مسافر کی طرح اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ اُس لڑکی نے آنے میں دیر نہیں کی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ واپس لوٹی تو اُس کے ہاتھ میں شربت سے بھرا گلاس تھا۔ شاید گرمی کی وجہ سے اُس نے دوپٹا اتار پھینکا تھا اور اُس کی چست قمیص کو پھاڑنے کے لیے چھاتیاں بے چین نظر آرہی تھیں۔ نادر نے خود پر قابو پاتے ہوئے گلاس لیا اور جلدی جلدی گھونٹ بھرنے لگے۔ لڑکی اُس کے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ شربت ختم کرکے نادر جیسے ہی واپس جانے کے لیے اُٹھا اُسے شدید چکر آیا۔ اُس نے کرسی کا ہتھا پکڑکر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور فرش پر گرپڑا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
۔۔۔۔۔
اُن کے سامنے اپنا شکار بے ہوش پڑا تھا۔ اگرچہ اُن کا ارادہ آج شکار کرنے کا نہیں تھا لیکن خریداری سے واپسی پر رکشے والے کی نگاہوں نے اُنھیں خیال دلایا کہ کیوں نہ اسے ہی پھانسا جائے۔ رومانہ نے اُسے شربت میں نشہ آور دوا ملاکر پلادی تھی اور وہ بے چارا جو پہلے ہی نوجوان جسموں کے حسن میں مدہوش ہورہا تھا، ہوش سے بالکل ہی ہاتھ دھوبیٹھا۔
رومانہ اور صوفیہ نے ایک نظر رکشہ ڈرائیور پر ڈالی اور فیصلہ کیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں۔ رومانہ آگے بڑھی اور اُس کے کپڑے اُتارنے لگی۔ اُس کی بے تابی دیکھ کر صوفیہ مسکرائی اور ثنا کو فون کرنے لگی۔ عیاشی کا وقت قریب آپہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔
نادر کی آنکھیں کھلیں تو کمرے میں نیم تاریکی کا سماں تھا۔ ایک کونے میں لگا زیرو بلب کمرے میں روشنی کا واحد منبع تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کون سی جگہ ہے او ر کیا وقت ہوا ہے۔ اچانک اُسے عجیب سا احساس ہوا۔ اُس نے اپنے بدن کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل برہنہ تھا۔ اُس کے ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے اور ٹانگوں کو بھی سختی سے باندھا گیا تھا۔اُس نے ذہن پر زور دیا۔ اُسے آہستہ آہستہ تمام واقعہ یاد آنے لگا۔ "کیا مجھے ان لڑکیوں نے اغوا کرلیا ہے؟ کیا تاوان طلب کیا جائے گا؟ کیا میں نے کوئی جرم کیا تھا؟ کیا میرا ریپ کیا جائے گا؟" نادر کو جھرجھری آگئی۔
"کوئی ہے؟؟؟" وہ چلایا۔
اچانک دروازہ کھلا اور کمرہ دل آویز خوش بو سے مہک اُٹھا۔ نادر کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ دوپہر کی مسافر لڑکیوں میں سے ایک لڑکی اُس کے سامنے لباسِ شب خوابی میں کھڑی تھی۔ اُس لباس میں وہ نیم برہنہ ہی تھی۔
"رومانہ، ثنا۔۔۔ دیکھو، ہمارے شکار کو ہوش آگیا ہے۔" لڑکی نے مسکراتے ہوئے آواز لگائی۔
پھر وہ لڑکی قریب آگئی۔۔۔ اتنا قریب کہ اُس کی سانسوں کی گرمی نادر کو محسوس ہونے لگی۔ لڑکی کی تیز نگاہیں نادر کے جسم کے اُن اعضا پر جمی تھیں جنھیں وہ چھپانا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنے آپ میں سمٹنے کی ناکام کوشش کی۔ اور پھر دروازے پر دو لڑکیاں نظر آئیں۔ ایک لڑکی نے چست شرٹ اور جینز پہنی ہوئی تھی جب کہ دوسری نے جسم کو ڈھکنے کے لیے کپڑوں کے دو چیتھڑوں سے زیادہ زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ بلاشبہ تینوں لڑکیاں حسن و جمال میں بے مثال تھیں۔ کچھ لمحات کے لیے نادر اپنا خوف کی سردی بھول کر حسن کی گرمی محسوس کرنے لگا۔ تینوں لڑکیوں کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ رومانہ آگے بڑھی اور نادر کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کا ہاتھ رفتہ رفتہ نیچے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ اب اُس کی ناف تک پہنچ چکی تھی۔ نادر کو گدگدیاں محسوس ہونے لگیں۔ وہ خوف اور لذت کے درمیان تلوار پر لٹکا ہوا تھا۔ پھر اچانک رومانہ نے نادر کا خاص عضو پکڑلیا۔ نادر کے منہ سے ایک سسکاری نکلی اور اس کے ساتھ ہی اُس کی کمر پر صوفیہ نے زوردار لات رسید کی۔ وہ درد سے کراہ اُٹھا۔ تینوں مسکرانے لگیں۔
"نہیں میری جان، مزا لینے کا حق صرف ہمیں ہے۔ تمھیں تو بس درد برداشت کرنا ہے۔" صوفیہ نے دل ربا ادا سے کہا لیکن اُس کے تیور خوف ناک تھے جن کا عکس نادر کی آنکھوں میں واضح دکھائی دے رہا تھا۔
ثنا قریب آئی اور اُس نے اپنے جسم کی اوپری دھجی اتار پھینکی۔ نادر کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ ثنا کی بھاری چھاتیاں تمام تر صورتِ حال بھلاکر اُس کے جذبات جگانے لگیں۔ بلاشبہ وہ جنسی حسن سے بھرپور لڑکی تھی۔ ثنا نے اُس کا سر پکڑ کر اپنے سینے پر دبادیا۔
"چوسو اسے۔" ثنا نے کہا اور نادر چھوٹے بچوں کی طرح چوسنے لگا۔ اچانک اُس کے ہونٹوں کی گرفت چھاتیوں سے ڈھیلی پڑنے لگی۔ اُسے لگا کہ وہ فارغ ہونے والا ہے۔ رومانہ اُس کے عضو کو منہ میں لیے لالی پاپ کی طرح چوسے جارہی تھی۔ نادر نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کیفیت کا بھرپور مزا لینا چاہا۔ لیکن اگلے ہی پل صوفیہ نے اس کے بال کھینچے اور اپنے ناخن اس کے شانے میں گھسادیے۔ درد کی ایک لہر سے وہ جھٹکا کھاکر رہ گیا اور اُس کا جنسی جوش اچانک ہوا ہونے لگا۔ رومانہ بے خبر نہیں تھی۔ اُس نے اس ادا سے عضوِ خاص کی پذیرائی کی کہ وہ ڈھیلا نہ پڑا اور پھر طوفان بہ نکلا۔ کچھ قطرے رومانہ کے منہ پر پڑے جس کا بدلہ اُس نے اس طرح لیا کہ باقی تمام مادہ اپنے ہاتھ میں لے کر نادر کے منہ پر مل دیا۔ کراہیت سے اُس کو قے آتے آتے رہ گئی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس کا منہ ثنا کی چھاتیوں پر نہیں رہا۔ ثنا نے اُس کے بال پکڑے اور ایک بار پھر اس کے منہ میں اپنی دائی چھاتی پھنسادی۔ صوفیہ اب اُس کی ٹانگوں کے پاس آچکی تھی اور اس کی رانوں کو سہلارہی تھی۔ رومانہ نے اپنا لباسِ شب خوابی اُتار دیا۔ اُس کا جسم سانولا تھا لیکن چھاتیوں اور کولہوں کی گولائی غضب کی تھی۔ کوئی دوسرا موقع ہوتا تو نادر اس قیامت جسم کو دیکھ کر ہوش گنوا بیٹھا ہوتا لیکن اس وقت تو اُس کے ہوش پہلے ہی ٹھکانے پر نہیں تھی۔ اُسے اجنبی جگہ سے خوف تھا، اجنبی لڑکیوں کا ڈر تھا، اپنے انجام کی فکر تھی، اور چہرے پر لگی غلاظت سے کراہیت ہورہی تھی۔ اس صورتِ حال میں اُس سے کچھ بھی سوچا نہیں جارہا تھا۔
صوفیہ نے اپنی شرٹ اتاری اور عضوِ نازک منہ میں لے کر پہلے ہی لمحے میں چوسنے کے ساتھ ساتھ دانتوں سے ہلکا سا کاٹ ڈالا۔ نادر چیخ کر رہ گیا۔ اُسے شدید درد ہونے لگا۔ رومانہ اُٹھی اور ثنا کے جسم سے لباس کی دوسری دھجی بھی الگ کرنے لگی۔ اب صرف رومانہ تھی جس کے جسم پر پینٹ باقی تھی۔ وہ اوندھی لیٹ گئی اور نادر کا جسم سہلانے لگی۔ صوفیہ اُس کے پاس آئی اور آہستہ سے اُس کی پینٹ بھی اُتار دی۔ اب کمرے میں عریانیت کا راج تھا۔ چار برہنہ جسم مدہوش تھے، نشے میں اور درد میں۔
نادر کے خاص عضو میں ایک بار پھر جان پڑنے لگی۔ اگرچہ نادر کو کافی کم زوری محسوس ہورہی تھی۔ اُس نے پچھلے دنوں کئی بار اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی تھی۔ اُس میں سکت نہیں تھی اور درد کا احساس الگ۔ رومانہ کبھی اُسے ایک لات رسید کرتی تو کبھی اُس کے بال پکڑ کر کھینچ ڈالتی۔ صوفیہ اُس کی ٹانگوں کے اوپر آکر بیٹھ گئی اور اُس کا عضو اپنے اندامِ نہانی میں ڈالنے لگی۔ نادر کو کپکپی چڑھنے کا احساس ہورہا تھا۔ اُس کا عضو صوفیہ کے جسم میں ذرا سا داخل ہوا اور پھر اچانک صوفیہ پورا بیٹھ گئی۔ دھپ کی آواز سے عضوِ خاص نے صوفیہ کی دنیا سے وصل کیا۔ صوفیہ کی ہلکی سی چیخ اور نادر کی سسکاری سنائی دی۔ رومانہ اب صوفیہ کے سامنے آکر ایسے کھڑی ہوگئی کہ اُس کا منہ عین رومانہ کی ٹانگوں کے بیچ میں آباد جنگل پر تھا۔ صوفیہ اپنی زبان سے اُس جنگل کو سیراب کرنے لگی اور آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہوتے ہوئے نادر کا عضو اندر باہر کرنے لگی۔ ثنا اب نادر کو مجبور کررہی تھی کہ وہ اس کی چھاتیاں منہ میں لیے رکھے۔ وہ عجیب مشکل میں تھا۔ ایک ساتھ تین لڑکیوں کو سنبھالنے کا اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور اب اُسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کس کی طرف توجہ کرے۔
صوفیہ نے اُس کے اوپر اُچھلنے کی رفتار تیز کردی تھی اور اچانک نادر کے منہ سے 'آہ آہ' کی آوازیں نکلنے لگیں۔ صوفیہ فوراً اُس کے اوپر سے ہٹ گئی۔ شاید اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب نادر کسی بھی وقت فارغ ہوسکتا ہے۔ ثنا نے اپنے ناخن اُس کے جسم میں کھبودیے اور صوفیہ اُس کے عضو کو اپنی مٹھی میں لے کر زور سے مسلنے لگی جب کہ اُس کا منہ اب تک رومانہ کے جنگل ہی پر تھا۔ اور نادر ایک بار پھر چھوٹ گیا۔ اُس نے اس خیال سے آنکھیں بند کرلیں کہ دوبارہ اُس کا منہ گندا کیا جائے گا۔ اب کی بار صوفیہ نے سارا مادہ اُٹھاکر اُس کی کمر پر مل دیا۔ نادر کو مزید الجھن ہونے لگی۔
اب رومانہ نے صوفیہ کی جگہ سنبھال لی۔ وہ نادر کی ٹانگوں پر آبیٹھی اور اُس کے عضو کو سہلانے لگی۔ وہ کسی مردہ کی طرح لڑھکا پڑا تھا۔ ثنا نے نادر کے سینے پر پاؤں رکھا اور صوفیہ کے ساتھ ہم آغوش ہوگئی۔ کافی محنت کے بعد عضوِ خاص میں زندگی کی رمق نظر آئی اور رومانہ نے ذرا سی بھی دیر کیے بغیر اُسے اپنے اندر داخل کرلیا۔ اُس کی اچھل کود کی وجہ سے کمرے میں پچ پچ کی آواز گونج رہی تھی اور اُس کی چھاتیاں کسی گیند کی طرح ہل رہی تھیں۔ دس منٹ بعد نادر کو محسوس ہوا کہ وہ ایک بار پھر فارغ ہونے لگا ہے لیکن اب اُسے چکر آرہے تھے اور اُس کی ٹانگوں سے جان نکلی جارہی تھی۔ اُس کی سسکاریوں کے باوجود رومانہ اُس سے الگ نہ ہوئی اور وہ اُس کی اندامِ نہانی ہی میں چھوٹ گیا۔ فارغ ہوتے ہی اُسے شدید چکر آئے، اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور پھر اُسے کوئی ہوش نہ رہا۔

جاری ہے۔۔۔

نازک گڑیا


ارسلان رات کو بستر پر لیٹا تو شدید تھکن کے باوجود اُسے نیند میں جانا خاصا دشوار محسوس ہوا۔ اُس کی آنکھوں میں بار بار وہی ایک منظر گھومتا رہا جس نے اُس کے دل و دماغ میں ہلچل مچارکھی تھی۔ کوئی شخص غیر متوقع طور پر اچانک آپ کے قریب اور بہت قریب آجائے تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات اور احساسات آپ کے قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں۔
اُس رات اُس کی کزن کی شادی ہوئی تھی۔ رخصتی کے بعد جب واپسی کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ بھی ہائی۔روف کے پاس آکر کھڑا ہوگیا جس میں اُسے گھر جانا تھا۔ ہائی روف کی سب سے پچھلی کھڑکی کی طرف اُس کی ایک چھوٹی کزن نمرا بیٹھی تھی جو نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ اُس نے اشارے سے پاس بلایا۔ ارسلان اُس کے پاس گیا تو نمرا اُس کے کانوں کے پاس آکر بولی کہ آج بہت اچھے لگ رہے ہو اور پھر فوراً اُس کے گال چوم لیے۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ارسلان اُس وقت تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ یہ سب کیا ہوگیا۔ لیکن جب اُس رات وہ بستر پر سونے لیٹا تو اُسے یہی منظر ستاتا رہا، اُس کے دل میں جذبات اور خواہشات کا سمندر ابلنے لگا۔
نمرا کا گھر ارسلان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ کئی دن بعد کسی کام سے اُس کا جانا نمرا کے گھر ہوا تو گھر میں صرف نمرا اور اُس کی امی یعنی ارسلان کی خالہ ہی تھیں۔ خالہ باورچی خانے میں کام کررہی تھیں تو ارسلان نے تھوڑی دیر کے لیے دوسرے کمرے میں جاکر کمپیوٹر کھول لیا۔ تھوڑی دیر بعد نمرا آئی اور اُس کا ہاتھ تھام کر اپنا سر اُس کے کاندھے پر رکھا اور اُس کے پاس بیٹھ گئی۔ ارسلان کے جذبات ایک بار پھر قابو سے باہر ہونے لگے۔ اُس نے نمرا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرائی اور اُس نے اپنے ہونٹ ارسلان کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ دنیا کے سارے ذائقے ہونٹوں کے ملاپ کے مقام پر جمع ہونے لگے، مدہوشی چھانے لگی، فضا میں رنگ بھر گئے؛ لیکن خالہ جان گھر ہی میں تھیں۔ اُنھیں لمحے بھر کا لطف لینے کے بعد الگ ہونا پڑا۔ دل میں جذبات کا ایک طوفان تھا جسے سنبھالنا پڑا۔ ارسلان وہاں سے اُٹھ گیا اور خالہ کےگھر سے اُسے جو سامان لینا تھا وہ لے کر اپنے چلا آیا۔ گرمی کے بہانے اُس نے نہانے کے لیے غسل خانے کا رُخ کیا اور پھر۔۔۔ وہ طوفان ایک ریلے کی صورت میں بہادیا۔
لیکن وہ آگ جو ایک بوسے سے جل اُٹھی تھی وہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ گال پر بوسے نے اگر چنگاری لگائی تھی تو ہونٹوں پر بوسے نے ایک الاؤ روشن کردیا تھا۔ سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، وہی ایک خیال تھا۔ زندگی کی تمام تر خواہشات اُس ایک مرکز کے گرد دائرے میں گھومنے لگیں، خیالات سکڑگئے، سارے رنگ اور رعنائیاں نمرا تک محدود ہوگئے۔
ایک دن نمرا کے گھر والے ارسلان کے گھر آئے ہوئے تھے۔ نمرا کے امتحانات ہونے والے تھے، شاید اسی لیے وہ تیاری کی خاطر اپنے گھر پر ہی رُک گئی۔ ارسلان کے ذہن میں یک دم ایک خیال کوندا۔ اُسے محسوس ہوا کہ اس سے بہتر موقع اُسے اتنی آسانی سے نہیں مل سکے گا۔ وہ گھر میں دوست سے ملنے کا بہانا کرکے نمرا کے گھر کی طرف ہولیا۔ نمرا اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
’’آپ؟ یہاں کیسے؟‘‘ نمرہ نے متحیر انداز میں پوچھا۔
’’اپنی گڑیا کے لیے آیا ہوں۔‘‘ ارسلان نے رومانوی انداز میں جواب دیا۔
ارسلان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اُس نے نمرا کو پانی لانے کا کہا اور خود ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھ گیا۔ پانی پلانے کے بعد نمرا جب گلاس رکھ کر آئی تواس سے پہلے کہ وہ ارسلان کے برابر میں صوفے پر بیٹھتی، اُس نے نمرا کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی گود میں بٹھالیا۔ اُس نازک سی گڑیا کا وزن برداشت کرنا اُس کے لیے مشکل نہ تھا۔ دو جسم جیسے یک جان ہوگئے۔ دھڑکنوں کی رفتار تیز ہوگئی، دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں ایسے بھینچا ہوا تھا کہ سینے کے اُبھار محسوس ہورہے تھے۔ کچھ وقت تو ہونٹوں کے وصل ہی میں گزرگیا۔ گیلے ہونٹ تشنگی بجھانے سے قاصر تھے، آگ ٹھنڈی کرنے میں ناکام تھے۔ ارسلان نے تھوڑی جھجک کے بعد اپنے ہاتھوں سے نمرا کا جسم ٹٹولنا شروع کیا۔ دل کے قریب پہنچ کر جیسے آگے بڑھنے کا جی ہی نہیں کیا۔ اُس کی انگلیاں پستان کے گرد دائرہ بنانے لگیں۔ نمرا کو سب کچھ یاد تھا مگر کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ وہ روکنا چاہتی بھی تھی اور نہیں بھی۔ لیکن جب ارسلان نے آگے بڑھنے میں دیر کی تو نمرا نے خود ہی اپنی قمیص اُتارکر اُس کے مدہوش ہونے کا سامان پیدا کردیا۔ ارسلان کی آنکھیں حسن سے خیرہ ہونے لگیں۔ چھوٹا سا بریزر (Brassiere) نمرا کے سینے پر دو رس بھرے پھلوں کو چھپانے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا۔ ارسلان نے اُس پر بوسوں کی بارش کردی۔ وہ اُسے چومتا رہا اور نمرا کے پاس جیسے الفاظ ہی نہیں رہے، اُس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ دنیا کی کسی زبان کی لغت میں نہیں ملتے۔ وہ محبت کی زبان تھی، بے قابو جذبات کے بہاؤ کی زبان۔ اُسے بس وہی انسان سمجھ سکتا تھا جس کی گود میں وہ سوار تھی، جس کی آغوش میں اُس کا جسم پھڑک رہا تھا۔ ارسلان کا ہاتھ اُس کی کمر پر پہنچا اور بریزر کا کانٹا (hook) کھول دیا۔ بے قابو ہوتی پستانوں (breasts) کو آزادی مل گئی، بریزر ڈھیلا پڑگیا۔ نمرا کے جسم کو چومتے چومتے ارسلان کے ہونٹ اُن دو پھلوں کی طرف آگئے جسے آج تک کسی نے نہیں چکھا تھا۔ چھوٹی سی چونچ (nipple) پر ارسلان کے ہونٹ محسوس ہوئے تو نمرا نے ایک سسکار بھری اور پھر ارسلان کا نام پکارنے لگی۔
ارسلان نے اُسے صوفے پر بٹھادیا اور اپنی شرٹ اُتارکر اُس کی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا۔ نمرا بے خودی کے عالم میں مدہوش آنکھوں سے سب کچھ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے یہ کسی فلم کا منظر ہو۔ ارسلان نے اُس کی شلوار نیچے کرنا شروع کی تو اُس نے بے جان سے مزاحمت کی۔ ایسی مزاحمت جس کا پیغام تھا کہ دیکھو، میں لاکھ منع کروں لیکن تم کرگزرو، مجھے برہنہ کردو، میرے حسن سے اپنی آنکھیں بھرلو! اور ارسلان نے ایسا ہی کیا۔
نمرا صوفے پر برہنہ حالت میں گری ہوئی تھی۔ اس کی ٹیک صوفے پر لگی تھی اور ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں۔ کھلے ہوئے بال اُس کے کاندھوں پر بکھرے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسی کوئی دودھ سے دُھلی پری آسمان سے صوفے پر آگری ہو۔ نہ جانے کتنی دیر تک ارسلان اُس کے جسم پر اپنے ہونٹوں کے سجدے سجاتا رہا اور اُس کا ہاتھ نمرا کے سینے پر موجود دو پھلوں کو نچوڑ نچوڑ کر اُن سے وہ رَس نکالنے کی کوشش کرتا رہا جو شاید اب تک اُن میں بھرا ہی نہیں تھا۔
نمرا نے اپنے لرزتے ہاتھ ارسلان کی پینٹ پر رکھے تو اُس نے جھٹ سے پینٹ اُتار دی۔ اُس کا آلہ اُس کے زیر جامہ (underwear) سے نکلنے کے لیے کچوکے ماررہا تھا۔ اُس نے نمرا کو صرف ایک بار چومنے کی مہلت ہی دی اور پھر وہ آخری پردہ بھی گرادیا۔ دو جسم فطری لباس میں ایک دوسرے کے قریب موجود تھے۔۔۔ بے حد قریب! ایک دوسرے میں سماجانے کی جدوجہد کرتے ہوئے۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرے۔ کسی بھی وقت نمرا کے گھر والے واپس آسکتے تھے۔
نمرا کی ٹانگوں کے بیچ میں چھوٹا سا باغ آباد تھا۔ ارسلان کے پے در پے بوسوں نے جلد ہی اس باغ کو گیلا کردیا۔ نمرا نے اُس کی گردن کے گرد اپنے ہاتھوں کا گھیرا ڈالا تو اُس نے بے اختیار ہوکر اُسے اپنی گود میں اُٹھالیا اور ہونٹوں کو چومتا ہوا غسل خانے کی طرف بڑھ گیا۔ شاور کے نیچے کھڑے ہوکر اُس نے نمرا کو سینے سے لگالیا اور شاور کھول دیا۔ پانی دونوں کے جسم کو چھوکر بہنے لگا تو دونوں جسم جیسے سورج کی طرح چمکنے لگے۔ ارسلان کا ایک ہاتھ اُس کے آلے کے ساتھ زور آزمائی کرنے لگا یہاں تک کہ اُس کے جذبات کا ریلا پانی کے ساتھ بہہ نکلا۔
اُن دو پریمیوں کا بس چلتا تو وہ ساری زندگی قربت کے ان ہی لمحات میں گزار دیتے لیکن وقت جیسے جیسے گزرتا گیا اُن کے قربت کا موقع سمٹتا چلا گیا۔بڑی مشکل سے دونوں نے ایک دوسرے کو خود سے علاحدہ کیا اور ایک دوسرے کو کپڑے پہنانے میں مدد دی۔ ارسلان نے دروازے پر پہنچ کر نمرا کو اپنی بانہوں میں بھرکر ایک بھرپور بوسا دیا اور اگلی بار محبت کا مزید لطف دینے کا وعدہ کرکے گھر لوٹ آیا۔

**وہ تیرا میرا ملنا**


سدرہ جس طرح اُس کی زندگی سے اچانک گئی تھی، اُسی طرح اچانک واپس چلی آئی۔ وہ دونوں اسکول میں دو سال تک ایک ہی جماعت میں رہے تھے اور دونوں کی آپس میں بات چیت نہ بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم۔ لیکن جس قدر بھی تعلق تھا، وہ عمومی نوعیت کا تھا۔ اُس میں ذاتی نوعیت کا تو شائبہ تک نہیں تھا، خصوصاً رومی کی جانب سے۔ سدرہ کے انداز میں اکثر گرم جوشی کچھ زیادہ ہوتی لیکن رومی کے ذہن میں کوئی دوسری بات نہیں تھی۔
اسکول کے دِنوں میں سدرہ باقی لڑکیوں سے خاصی مختلف تھی۔ چھوٹے بال کندھوں کو چھوتے ہوئے، بھرا بھرا فربہ جسم، بھولی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں غیر معمولی چمک۔ اُس کے رکھ رکھاؤ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی اچھے گھر کی لڑکی ہے۔
اور پھر اسکول ختم ہوا تو تعلقات بھی جیسے ختم ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد سب ایک دوسرے کو بھول بھال گئے۔ دو سال بعد ایک دن رومی کے پاس سدرہ کا فون آگیا۔ اور پھر ٹیلی فونک رابطوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اب کی بار اس تعلق کی نوعیت عمومی نہیں، کافی ذاتی تھی۔ وہ دونوں گھنٹوں ایک دوسرے سے فون پر باتیں کرتے، بے مقصد باتیں۔ دن بھر کے معمولات، پرانی یادیں، پسند ناپسند۔۔۔ اور کتنے ہی ایسے موضوعات جو بات جاری رکھنے کا بہانا بنانے کے لیے بارہا دہرائے جاتے۔ فاصلے سمٹنے لگے۔دِلوں کے درمیان فاصلہ عجیب نوعیت کا ہوتا ہے۔ بڑھنے پر آئے تو پل بھر میں بہت طویل ہوجاتا ہے، اور گھٹنے پر آئے تو یک دم سمٹ جاتا ہے۔ یوں، رومی اور سدرہ بھی اتنی تیزی سے قریب آئے کہ اُنھیں سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔ اور اس راہ میں سنبھلنے کے مواقع ملیں بھی تو کون اُن سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔ کچھ ہی دِنوں میں بات اظہارِ محبت اور پھر انتہائی محبت تک جاپہنچی۔ گفت گو کا ذریعہ اگرچہ فون تک محدود تھا لیکن بات فون سے کہیں آگے نکل چکی تھی۔ جب وہ دو آوازیں ایک دوسرے کی سماعت سے ٹکراتیں تو جسم میں برقی رو سی دوڑ جاتی۔ ایک عجیب گرمائش کا احساس ہوتا۔
اور پھر ایک شام سدرہ نے ملاقات کی پیش کش کردی۔ وہ صرف ملاقات کی پیش کش نہیں تھی، بل کہ ساتھ ہی یہ اطلاع کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، اپنے اندر بہت سے معانی سموئے تھی۔ ان پوشیدہ معانی کے خیال نے رومی کو اندر تک لرزادیا۔
رومی جلدی سے تیار ہوکر سدرہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ دو جسموں کے درمیان فاصلہ گھٹنے کا وقت آپہنچا تھا۔ سدرہ کا گھر ڈھونڈنے میں اُسے کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی۔ علاقہ اُس کا جانا پہچانا تھا۔ وہ اُسے دروازے ہی پر کھڑی مل گئی۔ رومی کو دیکھتے ہی اُس کا چہرہ کھل اُٹھا۔ سدرہ نے پیلے رنگ کی باریک قمیص اور چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ انتہائی تنگ اور چست قمیص نے اُس کے جسم کے نشیب و فراز خاصے واضح کردیے تھے۔ رہی سہی کسر اُس کا کھلا گریبان پوری کررہا تھا جس سے اس بھرپور جسم میں موجود جنت کا معمولی سا نظارا واضح تھا۔ سدرہ گھر میں داخل ہونے کے لیے مڑی تو اُس کی پشت نے رومی کے اندر مکمل آگ بھڑکادی۔ باریک پیلی قمیص کے ساتھ اُس کا سیاہ بریزر قیامت خیز امتزاج پیش کررہا تھا۔ رومی کا دل کیا کہ آگے بڑھے اور اسی وقت اس بھرے ہوئے جسم کو اپنی خالی بانہوں میں بھرلے۔
گھر میں خاموشی چھائی تھی لیکن رومی کے دل میں ایک ہنگاما برپا تھا۔ سدرہ نے اُسے اپنے بیڈروم میں بٹھادیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں۔۔۔ دوبدو دل کی باتیں کرنے میں جھجک محسوس ہوتی تھی۔ پھر اچانک سدرہ نے رومی کا ہاتھ پکڑلیا اور یہ جیسے جذبات کی ٹرین کا بھرپور انداز میں اپنی آمد کا اعلان تھا۔ وہ سرک کر سدرہ کے قریب آیا اور اُس کی کمر پر عین بریزر کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔ سدرہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ایک دم گُم صُم ہوگئی۔ رومی اُس کی کمر سہلارہا تھا۔اور سدرہ اُس کے بہکتے ہوئے ہاتھ کی منزل کا بہ آسانی اندازہ کرسکتی تھی۔ پھر وہ ہاتھ آگے بڑھا اور سدرہ کے نشیب و فراز ناپنے لگا۔ سدرہ کی سانسوں میں ایک سسکار تھی۔ ایک پکار تھی۔
سدرہ پوری طرح رومی کی طرف مڑگئی۔ اُس کا دوپٹا سینے سے ڈھلک چکا تھا لیکن اُسے اب ہوش نہیں تھا۔ فون پر گفت گو فاصلوں کو اس قدر سمیٹ چکی تھی کہ اب حقیقت میں مزاحمت کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔ رومی نے جھک کر گردن کو چوما، پھر ذرا سا نیچے گریبان کے پاس چوما، اور پھر اُس سے بھی نیچے سینے کو۔۔۔ رومی میں اس نئی دنیا کھوجنے کی تڑپ کسی بھی سیاح سے بڑھ کر تھی۔
"رومی! قمیص اتار دو۔" سدرہ نے رومی کی کھوج کو آسان بنانے کی از خود پیش کش کرڈالی اور رومی نے اُس کی بات پر ایسے عمل کیا جیسے وہ ہپناٹائز ہوچکا ہو۔ سیاہ بریزر میں سدرہ کا بھرپور گورا جسم رومی کے جذبات کو انتہائی بلندی پر لے گیا۔ وہ دیوانوں کی طرح اُسے چومنے اور اُس پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر اُس نے ہمت کی اور ہاتھ پیچھے کرکے بریزر کھول دیا۔ دو گلابی نشانوں نے اُسے ایسا بپھرا ہوا شیر بنادیا تھا جس پر قابو پانا خود اُس کے بس میں بھی نہیں تھا۔ وہ اب سدرہ کے جسم کو چوم نہیں، چوس رہا تھا۔ اور سدرہ نے دونوں ہاتھوں سے اُس کا سر اپنے سینے پر دبایا ہوا تھا۔
پھر سدرہ کے ہاتھ حرکت میں آئے اور بے قراری سے رومی کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگے۔رومی کی شرٹ اتری تو سدرہ کا نشہ بھی عروج پر پہنچ گیا۔ رومی نے اُسے بانہوں میں بھرا اور بستر پر سیدھا لٹادیا۔ اُس کے بعد سدرہ کا پاجامہ اور رومی کی پینٹ کو جسم سے دور ہونے میں ایک منٹ سے بھی کم لگا۔ حالانکہ سدرہ کے چوڑی دار پاجامے کو اُتارنے میں رومی کو اتنی مشکل ہوئی کہ اس کا دل پاجامہ تار تار کردینے کو کیا۔ وہ دونوں اب دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھے۔ صرف اُن کی پھولی ہوئی سانسیں تھیں جو پورے کمرے میں سنائی دے رہی تھیں۔ سدرہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ یہ اشارہ تھا کہ اب سب کچھ تمھارے ہی حوالے ہے رومی۔ اور رومی اس پیغام سے اچھی طرح واقف تھا۔
"تیل کہاں ہے؟" رومی نے سوال کیا۔
"کیوں؟" سدرہ نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اُسے یہ سوال انتہائی غیرمتوقع لگا۔ اور سدرہ کے جوابی سوال کا رومی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تھا۔ یا یوں کہیے کہ اُس کے پاس جواب کے لیے مناسب الفاظ نہیں تھے۔
"ارے جان! بس چاہیے ہے نا۔ تم بتاؤ، کہاں رکھا ہے؟"
"اُدھر کونے میں، میز پر۔" سدرہ نے ایک اُلجھن کے ساتھ اشارہ کیا۔ یہ وہ بات تھی جو کبھی اُن کے درمیان فون پر نہیں ہوئی تھی۔
رومی چیتے کی سی پھرتی سے میز کی طرف لپکا اور تیل کی بوتل اُٹھاکر واپس اپنی جنت کی طرف بڑھا۔ اُس نے سدرہ کی دونوں ٹانگیں کھولیں اور تیل ٹپکایا۔ اب گیلے پن کے ساتھ چکناہٹ بھی شامل ہوچکی تھی جس نے آگے کا کام آسان کرنا تھا۔ رومی نے اپنے آلے پر بھی تیل لگایا اور پھر انتہائی وصل کے لیے بے حد قریب آگیا۔ایک انوکھے تجربے کے احساس کی سردی اور جذبات کی گرمی کی آمیزش نے اُن دونوں کو ہر چیز سے لاتعلق کردیا تھا۔ بس دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ آج سب کچھ ہوجانے دو۔ اور وہ سب کچھ ہوگیا۔ رومی، سدرہ کے اندر داخل ہوا تو درد کے مارے اُس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ اُس نے ایک آہ بھری۔ "رومی! آرام سے۔۔۔ درد ہورہا ہے۔"
لیکن اس پیغام کا اثر بالکل برعکس ہوا اور اس نے رومی کی رفتار سست کرنے کے بجائے مزید بڑھا دی۔ اُس کے دونوں ہاتھ سدرہ کے سینے کو دبا رہے تھے اور وہ سدرہ کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں وصل کی انتہائی حالت میں موجود تھا۔ دو جسم ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے تو اُن کی آواز پورے کمرے میں سنائی دیتی تھی۔ اور پھر جیسے ندی بہہ نکلی۔ دونوں نے بستر کی چادر کو اچھا خاصا گیلا کردیا تھا لیکن جذبات کا طوفان تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ رومی کچھ دیر کے لیے سدرہ کے اوپر ہی دراز ہوگیا۔
پھر جگہیں بدلنے لگیں۔ کبھی کوئی اوپر تو کبھی کوئی نیچے۔ ایک طویل سفر طے کرکے پہنچنے والا طوفان اتنی جلدی کیسے تھم سکتا تھا۔ یوں ہی کافی وقت گزر گیا۔ دونوں جسم پیار کی پھوار میں بھیگے پڑے تھے۔ سدرہ نے ہمت کی اور رومی کا ہاتھ تھام کرکے غسل خانے میں لے آئی۔ دونوں جسموں پر پانی بہنے لگا اور جیسے جیسے پیار کا گزشتہ رنگ اترا، نیا رنگ چڑھنے لگا۔ رومی کا جی چاہا کہ سدرہ کو اب کبھی لباس زیب تن نہ کرنے دے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں سے سدرہ کو لباس پہنایا اور اس بہانے اُس کے جسم کو محسوس کرتا رہا۔ رومی کے لمس نے سدرہ کی سانسوں کو بے ترتیب کیے رکھا۔ اور جب رومی رخصت ہوا تو سدرہ کی آنکھوں میں دوبارہ ملاقات کا دعوت نامہ واضح نظر آرہا تھا۔

**والا پٹھان**

میرا نام صدف ہے اور میری عمر تیس سال ہے ، میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ کالج کے زمانے سے مجھے سیکس کا شوق ہوااسکی بنیادی وجہ سیکسی اسٹوریز اور موویز تھا مگر شادی سے پہلے ایک دفعہ بھی مجھے سیکس کرنے کا موقع نہ مل سکا۔پھر میری شادی ہوگئی اسوقت میری عمر چوبیس سال تھی آج بھی میرا فگر غضب کا ہے ، اور اس وقت تو اچھے اچھے مردوں کی نظریں میرے تعاقب میں ہوتی تھیں۔ اب میں ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود بھی کافی سیکسی ہوں۔میرے شوہر ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ٹیکسٹائل انجینیر ہیں۔میری سیکس لائف بہت اچھی گذر رہی تھی۔شادی کے بعد میرے شوہر کا تبادلہ فیکٹری سے دور کراچی میں ہوگیا، مجھے بھی انکے ساتھ شفٹ ہونا پڑا مگر میرے شوہر کو ابھی یہاں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگنا تھا وہ ابھی ایک ہفتہ میں ایک بار گھر آتے تھے۔ایک دن میں وہ ایک بار سے زیادہ میرے ساتھ سیکس نہیں کرتے تھے۔جس سے میری سیکس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ سارا دن انکا تو آرام کرتے ہی گذر جاتا تھا اور نئے نئے کھانوں کی فرمائش میں۔ اور میں تڑپتی رہتی تھی کچھ عرصہ تو میں ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارتی رہی مگر پھر مجھ کو ضد ہو گئی اور میں نے وہ سب کچھ کر لیا جسکا کوئی شریف عورت سوچ نہیں صکتی تھی۔اس وقت میں ایک بچے کی ماں بن چکی تھی مجھے معلوم تھا سیکس کیا ہوتا ہے ، میرا بچہ آپریشن سے ہوا تھا اسی وجہ سے میری چوت ابھی تک بہت ٹائٹ تھی۔

یہ گرمیوں کے دن تھے میرے شوہر دو دن پہلے ہی اپنی جاب پر گئے تھے، اور اس بار وہ مجھ سے سیکس نہ کرسکے تھے کیونکہ مجھے ماہواری آرہی تھی، انکے جانے کے بعد میں فارغ ہوئی تھی اور اب بری طرح دل مچل رہا تھا سیکس کرنے کو مگر کچھ نہیں سوجھتا تھا کہ کیا کروں،میں گھر میں اکیلی تھی میرا بچہ پیٹ بھر کر میرا دودھ پی کر سو چکا تھا اور میں بھی لیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی میں نے اسوقت قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی اسکے نیچے کچھ نہیں کیونکہ میرے گھر کس کو آنا تھا یہاں ہمارا کوئی جاننے والا نہں تھا اور نہ محلے میں کسی سے اتنی سلام دعا ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی میں اس سوچ میں ڈوبی کہ اس گرمی میں کون آگیا؟ دروازے تک گئی کہ دیکھوں کون ہے میں نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا کون ہے؟تو باہر سے آواز سنائی دی: بی بی جی قالین خریدنا ہے؟

ایکدم میرے دماغ کی بتی جل اٹھی میں نے سوچا اس گرمی میں کون ہوگا جو گھر سے باہر ہوگا اسی مرد کے ساتھ اپنے سیکس کی خواہش پوری کرلوں۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک پسینے میں شرابور مظبوط جسم والا پٹھان مرد کچھ قالین اٹھائے میرے دروازے کے باہر کھڑا تھا اسکی عمر میرے مطابق چالیس سال تو ہوگی، میں نے پوچھا کیا قیمت ہے قالین کی؟

اس نے کہا بی بی جی آپ پہلے پسند کر لو پھر قیمت بھی طے کر لیتے ہیں۔میں نے کہا اچھا اندر آجاؤ اس نے ایک لمحے کو سوچا پھر قالین اٹھا کر اندر آگیا، میں نے اسکے اندر آنے کے بعد ذرا سا سر باہر کر کے دیکھا تو پوری گلی میں سناٹا تھا۔میں نے دروازہ بند کیا تو دیکھا پٹھان میرے پیچھے کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا میں نے صحن میں رکھی ایک ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کی جانب اشارہ کیا یہاں بیٹھ جاؤ اور سارے قالین زمین پر رکھ دو میں خود پسند کر لونگی کونسا لینا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا بی بی جی تھوڑا پانی مل سکتا ہے پینے کو میں کچن میں گئی وہاں سے ایک بوتل اور گلاس لا کر ٹیبل پر رکھی مگر اس دوران اسکو متوجہ کرنے کے لیے میں نے دوپٹہ گلے میں ڈال لیا اور بالکل جھک کر بوتل اور گلاس ٹیبل پر رکھا جس سے لازمی اسکی نظر میرے بڑے بڑے دودھ سے بھرے مموں پرپڑی ہوگی۔ میں نے بوتل رکھنے کے بعد سیدھی ہو کر ایک نظر اسکو دیکھا وہ بغور مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔ میں اب دوبارہ جھک جھک کر قالین دیکھنے لگی اسی دوران ایک سائڈ سے میں نے اپنا دوپٹہ نیچے گرا دیا تاکہ وہ اچھی طرح کپڑوں کے اندر چھپے میرے حسن کا نظارہ کر لے ۔ ویسے مفت کا مال کیسا بھی ہو کوئی مرد نہیں چھوڑتا۔ پھر میں تو ایک اچھی خاصی سیکسی عورت تھی۔

میں نے محسوس کیا کہ وہ پانی پینے کے دوران مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں خوش ہو رہی تھی کہ کام بنتا نظر آرہا ہے۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی رہی کہ تم کہاں رہتے ہو کہاں سے لائے ہو یہ قالین وغیرہ وغیرہ، پھر میں باتوں باتوں میں اسکے قریب گئی اور اسکے چہرے پر ہمت کر کے ہاتھ پھیرا اور کہا اتنی گرمی میں اتنی محنت کیوں کرتے ہو۔ دیکھو کتنا پسینہ بہہ رہا ہے ، اس نے ایکدم میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا بی بی جی کیا چاہتی ہوتم؟

میں نے بھی ڈھٹائ سے جواب دیا وہ ہی جو ایک عورت ایک مرد سے اور ایک مرد ایک عورت سے چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی اسکی آنکھوں میں چمک آگئی، وہ ایکدم اٹھا اور مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا، میں نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا ایسے نہیں پہلے تم غسل کر لو مجھے تم سے بو آرہی ہے وہ اپنے سفید سفید دانت نکالتا ہوا کہنے لگا کدھر ہے نہانے کی جگہ میں نے اسکو ہاتھ کے اشارے سے بتایا اور کہا نہانے کے بعد اس کمرے میں آجانا ، وہ کچھ کہے بغیر باتھ روم میں گھس گیا، میں بھی جلدی سے کمرے میں چلی گئی اور جاکر روم اسپرے کردیا اور لائٹ جلا دی، ذرا دیر بعد ہی روم کا دروازہ کھلا اور وہ پٹھان کمرے میں داخل ہوگیاوہ نہانے کا تولیہ لپیٹ کر ہی کمرے میں آگیا تھا اور اسکے کپڑے اسکے دوسرے ہاتھ میں تھے میں اسکی عقلمندی دیکھ کر خوش ہوئی، آتے ہی وہ بیڈ پر اچھل کر بیٹھ گیا، اب میں نے اسکو غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اچھا خاصہ خوبصورت مرد تھا ہلکی ہلکی داڑھی تھی اسکی اورتھوڑی بڑی مونچھیں۔ سرخ سفید رنگت اور مظبوط چوڑا سینہ جس پر با ل ہی بال بھرے تھے۔ میں تو دیکھ کر خوشی سے پاگل ہونے لگی، وہ بیڈ پر سے کھسکتا ہوا میرے نزدیک آیا اور ایک ہاتھ بڑھا کر میری کمر میں ڈالا اور مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ چپکا لیا، کہنے لگا بی بی تم بہت خوبصورت ہے تم کو ایسا مزہ دے گا کہ تم یاد کرے گا۔میں بھی تو مزہ ہی چاہتی تھی اپنے مطلب کی بات سن کر اسکے منہ سے بہت خوشی ہوئی ، میں نے بے شرموں کی طرح اسکے لنڈ پر ہاتھ لگایا تو محسوس کیا وہ ڈھیلا پڑا ہے۔ اس نے میری ہمت دیکھ کر تولیہ ہٹا دیا اب جو میں نے دیکھا تو ایک لمحہ کو سہم گئی کیونکہ اسکا لنڈ سخت نہ ہونے کے باوجود اتنا بڑا اور موٹا لگ رہا تھا کہ میرے شوہر کا سخت ہونے کے بعد بھی ایسا نہ تھا میں نے اس سے پوچھا اسکو سخت کرو، تو وہ بولا میری بلبل یہ کام تم کو کرنا ہے باقی کام میں خود کرلونگا۔ میں نے اسکے لنڈ کو ہاتھ لگایا تو اس میں تھوڑی سختی محسوس کی مگر اس طرح نہیں کہ وہ میری تو کیا کسی کی چوت میں بھی جا سکتا۔ میں نے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کیا اور نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو ہاتھ میں لے کر مسلنا شروع کیا ، ذرا دیر میں وہ سخت ہونے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو ایک لمبے اور موٹے ڈنڈے کی شکل اختیار کر گیا ، اب میرے دل میں ڈر جاگ اٹھا کہ یہ لنڈ تو میری نازک سے چوت کو بری طرح سے پھاڑ ڈالے گا، مگر پھر سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا میں یہ لنڈ ضرور اپنی چوت میں لونگی۔ اب اس نے کہا تم بھی اپنے کپڑے اتارو میں نے مزید انتظار نہیں کیا اور فٹا فٹ اپنے کپڑے اتارکر اسکی طرح پوری ننگی ہوگئی، وہ میرے ممے دیکھ کر پاگل سا ہوگیا اور مجھے دبوچ کر بے تحاشہ میرے ممے چوسنے لگا اس کے اس پاگل پن سے مجھے تکلیف ہورہی تھی، مگر میں نے سیکس کی خواہش پورا کرنے کے لیے اسکو برداشت کیا، وہ حقیقتاً جنگلی لگ رہا تھا ، اس کے اسطر ح پاگلوں کی طرح چوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی سے گیلی ہورہی تھی، میں اب اسکا لنڈ اپنی چوت سے نگلنے کے لیے بے تاب تھی مگر وہ تھا کہ دودھ پینے سے باز نہیں آرہا تھا۔میں نے بڑی کوشش کے بعد خو د کو اس سے آزاد کیا اور فوراً بیڈ پر لیٹ کر ٹانگیں تھوڑی سی کھول کر اسکو اپنی گیلی اور گرم چوت کا نظارہ کروایا۔اب وہ بھی پاگل ہوکر چھلانگ لگا کر میرے نزدیک آیا اور میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے انہیں مزید کھولا۔اب میری تڑپتی چوت اسکی نظروں کے سامنے تھی اس نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اپنا لمبا ڈنڈے جیسا لنڈ میری چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور تھوڑا سا زور لگایا، جس سے اسکے لنڈ کا ہیڈ میری چوت میں ضرور داخل ہوا مگر مجھے ایسا لگا جیسے پہلی بار کسی لنڈ کو چوت میں لیا ہو، اتنی تکلیف کہ برداشت سے باہر تھا میں نے اس کو ظاہر تو نہیں ہونے دیا مگر اتنا ضڑور کہا میں نے اتنا موٹا لنڈ پہلے کبھی نہیں لیا ذرا دھیان سے اور آرام سے کرنا، اس نے کہا فکر نہ کر میری جان تجھے ایسا مزہ دونگا کہ یاد کرے گی۔ اسکی اس بات کا اندازہ تو تھا مجھے کہ یہ مزہ ضرور دے گا مگر کتنا درد دے گا اسکا اندازہ نہیں تھا اس نے کہا تو کہ فکر نہ کر مگر اگلے ہی لمحے مجھے فکر لاحق ہوگئی جب اس نے تھوڑا سا لنڈ باہر کر کے دوبارہ سے اندر کیا تو وہ دوبارہ اسی جگہ آکر اٹک گیا ، اس نے کہا واہ تیری چوت تو کنواری لڑکیوں جیسی لگتی ہے، اب برداشت تو کرنا پڑے گا میں بھی تڑپ رہا ہوں ایک مدت سے کوئی ملا نہیں چودنے کو مگر آج تیری اور اپنی خواہش پوری کرونگا اب روک مت مجھے تو نے خود دعوت دی ہے۔میرے پاس اسکی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں خود بھی یہ مرد کھونا نہیں چاہتی تھی۔

اب اس نے کہا تیار ہو جاؤ میرا لنڈ کھانے کے لیے اور یہ کہہ کر پورا لنڈ باہر نکال لیا، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ اچانک مجھے اسکا سخت لنڈ اپنی چوت پر محسوس ہوا اسکے بعد بس ایسا لگا جیسے میری چوت پھٹ گئی ہے اور تکلیف کی انتہا تھی اسکا لنڈ آدھا میری چوت میں داخل ہوچکا تھا وہ بھی چہرے سے پریشان لگ رہا تھا ، پھر اس نے میری جانب دیکھا اور پیاربھرے انداز میں بولامیری بلبل تھوڑا برداشت کر لے پھر مزے ہی مزے کرنا۔ میں سمجھ رہی تھی اس کی بات کو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر یہ تکلیف کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ خیر تھوڑی دیر میں تکلیف کم ہونا شروع ہوئی اتنی دیر وہ میرے جسم کو بری طرح جگہ جگہ سے کاٹتا رہا اور مجھے مست کرتا رہا ، اب میں نے اسکا منہ اپنے مموں سے ہٹایا جہاں وہ کاٹ رہا تھا وہ میرا مطلب سمجھ گیا اور لنڈ کو تھوڑا باہر کر کے پھر سے اندر کیا اور میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھنے لگا اسکو میرے چہرے پر سکون نظر آیا تو وہ ایک بار پھر جنگلی کا روپ دھار گیا اور اس بار ایک ہی جھٹکے میں پورا لنڈ میری چوت میں داخل کردیا مجھے شدید تکلیف اپنی چوت اور پیٹ میں محسوس ہوئی اسکا لنڈ میری بچہ دانی کو ٹھوک رہا تھا۔ جس سے مجھے تکلیف ہورہی تھی۔ مگر اب کی بار وہ نہیں رکا اور لنڈ کو اندر باہر کرنے لگا اسکا لنڈ رگڑتا ہوا اندر باہر ہورہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ابھی تک میری چوت اسکے قابل نہیں ہوئی۔ مگر ذرا دیر کی کوشش کے بعد میری چوت پورا پورا ساتھ دینے لگی۔میری فارغ ہوچکی تھی جس سے میری چوت پوری گیلی ہوگئی تھی اور وہ اب شڑاپ شڑاپ میری چوت کو چود رہا تھا، اب میں بے مزے کی بلندیوں کا سفر کرنے لگی مگر وہ تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور مسلسل مجھے چودے جارہا تھا۔میں سانسیں بے ترتیب تھیں اور بری طرح اچھل رہی تھی میں ہر ہر جھٹکے پر۔ وہ تو لگتا تھا جیسے صدیوں سے بھوکا ہے اس بری طرح مجھے چود رہا تھا کہ بس مگر اسکی اس چدائی میں جو مزہ تھا وہ کبھی میرے شوہر نے نہیں دیا تھا۔ پھر اس نے مجھے کمر کے نیچے دونوں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور گود میں بٹھا لیا اب اسکا پورا لنڈ میری چوت میں اور میں اسکی گود میں بیٹھی تھی یوں سمجھ لیں کہ اسکے لنڈ کی سواری کر رہی تھی۔ میرے بڑے بڑے ممے اسکے چوڑے سینے سے دب کر پچکے ہوئے تھے اور میرے مموں سے دودھ نکل کر اسکے سینے پر لگ گیا تھاوہ اچھال اچھال کر مجھے اس بری طرح چود رہا تھا کہ میرا برا حال تھا مگر میں اس سب کو روک نہیں سکتی تھی مجھے تو اب چدنا ہی تھا چاہے وہ کیسے بھی چودے۔ تھوری دیر اسی طرح چودنے کے بعد اور مجھے بے حال کرنے کے بعد اس نےلنڈ باہر نکالا اور مجھے دوبارہ سے بیڈ پر لٹایا مگر کروٹ سے اور بیڈ کے کنارے پر پھر میری ایک ٹانگ اپنے کندھے پر رکھی اور اپنی ایک ٹانگ نیچے زمین پر پھر اسکے بعد اس نے دوبارہ سے اپنا ڈنڈا میری چوت میں ایسے ڈالا جیسے وہ اسی کے لیے بنی ہو اور وہ ہی اسکا مالک ہو۔ بس اب کی بار ایک اور نیا مزہ تھا میں اس دوران پتہ نہیں کتنی بار فارغ ہوچکی تھی مجھ میں مزاحمت کی ہمت بھی نہیں تھی اسکا لنڈ اند ر کیا گیا میں پھر سے نشے کی کیفیت سے دوچار ہونے لگی۔ اب اسکا ایک ہاتھ میں گانڈ پر تھا اور ایک ہاتھ میرے ایک ممے کو دبوچے ہوئے بری طرح مسل رہا تھا ذرا دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ایک انگلی اپنے منہ میں لی اور اچھی طرح اس پر اپنا تھوک لگایا پھر اس کو میری گانڈ میں داخل کردیا میں ایکدم سے اچھل پڑی کیونکہ آج تک میں نے خود کبھی اپنی گانڈ میں انگلی نہیں کی تھی ایک مرد کی انگلی سے تو کرنٹ لگنا ہی تھا۔اور میرے شوہر نے تو صرف میرے کولہوں کو چوما تھا کبھی میری گانڈ نہیں ماری تھی۔ مجھے اسکے ارادے کا اندازہ ہوا تو خوف سے میری حالت خراب ہونے لگی۔مگر اگلے ہی سیکنڈ اسکا لنڈ کے جھٹکوں سے میں سب بھول کر صرف اسکے لنڈ کو اپنی چوت میں محسوس کر کے مدہوش ہوتی رہی۔ اب اس نے سب چھوڑ کر پورالنڈ اندر ڈال کر میرے اوپر لیٹ گیا اور مجھے کمر کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر کس کے دبوچ لیا اب فارغ ہونے کی باری اسکی تھی۔ پھر اس کے لنڈ نے کھولتا ہوا لاوا اگلنا شروع کیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم کی حرارت بڑھ رہی ہے اور میں ذرا دیر میں پگھل کر پانی بن جاؤں گی۔اسکا لنڈ تقریبا دومنٹ تک لاوا اگلتا رہا۔ اس نے اپنی منی کا آخری قطرہ تک میری چوت کی نذر کردیا۔ اور پھر اسی طرح لیٹا رہا اور لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔میں تقریباً بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ پھر وہ میرے اوپر سے ہٹ گیا اور کہنے لگا ایسا مزہ مجھے میری بیوی نے پہلی رات دیا تھا اسکا بھی ایسا ہی حال کیا تھا میں نے۔ اب مجھ میں تھوڑی طاقت پیدا ہوئی تو دیکھا اسکا لنڈ میری چوت کے خون سے تر تھا شاید میری چوت پھٹ چکی تھی۔اس بری طرح میں کبھی نہیں چدی تھی۔ 

پھر وہ اٹھ کر میرے روم کے باتھ روم میں گیا اور اپنا لنڈ دھو کر واپس آیا اور مجھ سے کہا اٹھو اور میرا لنڈ منہ میں لو اب تمہاری گانڈ کی باری ہے ، میں یہ سنتے ہی چیخنے لگی نہیں ایسا مت کرو دوبارہ میری چوت مار لو مگر مجھے گانڈ سے مت چودو مگر اس نے میرا انکار سن کر ایک زوردار تھپڑ میرے چہرے پر رسید کیااور کہا پٹھان سے چدوانے کا شوق ہے تو سب برداشت کرو اب۔اسکا تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے پھر میں نے دل میں سوچا اگر اس جنگلی کو مزید انکار کیا تو یہ مار مار کر بھرتا نکال دے گا اور کرے گا اپنی مرضی ، خود اس مصیبت کو دعوت دی ہے اب بھگتنا تو پڑے گا۔ یہ سوچ کر میں نے پھر سے اسکا لنڈ منہ میں لیا نہ جانے کس مٹی کا وہ بنا تھا اور کیا وہ کھاتا تھا اسکا لنڈ اس تیزی سے دوبارہ سخت ہوا جیسے ابھی کچھ کیا ہی نہیں تھا اس نے۔مگر میں اسکے سائز سے خوفزدہ تھی یہ میری گانڈ میں جاکر تو برا حال کرے گا میرا۔ پھر اس نے کہا فکر مت کر میری بلبل بہت خیال سے تیری گانڈ ماروں گا۔ میں سمجھ چکی تھی کتنا خیال کر سکتا ہے وہ جنگلی۔مگر اب میں کچھ کر نہیں سکتی تھی آخر کار اس نے مجھے چدائی کا وہ مزہ دیا تھا جس کے لیے ساری زندگی ترسی تھی میں۔اب اسکو گانڈ دینے میں کوئی حرج تو نہیں تھا مگر فکر تکلیف کی ہی تھی۔اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا میری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھی وہ مجھے سہاارا دے کر چلاتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک لایا اور کہا آگے جھکو اور دونوں ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھومیں نے ایسا ہی کیا اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک کریم اٹھائی اور ہاتھ پر لگا کر اچھی طرح میری گانڈ پر مل دی اسکے اس طرح ملنے سے مجھے مزہ آرہا تھا۔اب وہ ہی کریم اس نے اپنے لنڈ پر بھی ملی اور پھر مجھے کہا تھوڑا اپنی گانڈ کو اونچا کرو میں نے ایسا ہی کیا اب اسکا لنڈ میری گانڈ پر دستک دے رہا تھا اس نے تھوڑا سا زور لگایا اور میری تکلیف کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا اسکا لنڈ ابھی تھوڑا سا ہی اندر گیا تھا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو نکل کر ٹیبل کو گیلا کرنے لگےمگر وہ جیسے ان سب باتوں سے لاپرواہ تھا نہ اسے میرے رونے کی آواز اور نہ میرے آنسو رکنے پر مجبور کر رہے تھے۔اس نے مزید وقت ضائع کیا نہ میری جانب دیکھا بس شروع ہو گیا میری گانڈ کا سوراخ چوڑا کرنے میں۔ اس کے زور دار دھکوں سے میرا سر بار بار ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرا رہا تھا۔ اب اسکا پورا لنڈ میری گانڈ میں راج کر رہا تھا اور میں تکلیف کی شدت کو روکتے روکتے اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس طرح مزہ نہیں آرہا تو مجھے حکم دیا کہ میں فرش پر گھٹنے رکھ کر اپنا پورا جسم بیڈ پر ڈال دوں اور اس طرح وہ میرے پیچھے دوبارہ سے آیا اور ایک بار پھر سے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈالا اور دوبارہ سے جھٹکے دینا شروع ہوگیا، اب کی بار تقریباً بیس منٹ تک مسلسل جھٹکے دینے کے بعد وہ میری گانڈ میں فارغ ہوا میرا حال یہ تھا کہ میں خود سے کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس نے ہی مجھے بیڈ پر لٹایا اور مجھے زور دار پپیاں دینے کے بعد اپنے کپڑے پہن کر اپنے قالین اٹھا کر چلا گیا ۔ میں نے ہمت کر کے درازہ لاک کیا اور واپس کسی طرح لڑکتی ہوئی آکر بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔ پتہ نہیں کتنی دیر اسی طرح پڑی رہنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میرا بیٹا نہ اٹھ گیا ہو میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور جا کر دیکھا تو میرا بیٹا سو رہا تھا۔ میں باتھ روم گئی اور خود کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر روم میں آکر ایک ٹیبلیٹ کھائی جو کہ برتھ کنٹرول ٹیبلیٹ تھی۔ میرے شوہر ابھی اور بچہ نہیں چاہتے تھے لہٰذا ہم لوگ اس طرح اس پروگرام پر عمل کر رہے تھے۔ 

اگلے دن پھر اسی وقت وہ پٹھان پھر سے آیا اور ایک بار پھر مجھے سیکس کا بھرپور مزہ دے کر گیا مگر اس بار میں نے اس سے شرط رکھی کہ تم میری گانڈ میں اپنا لنڈ نہیں ڈالو گے۔ وہ بھی مان گیا اور صرف میری چوت کو ہی اپنی گرم منی سے بھر کر چلا گیا۔ بس پھر کیا تھا مجھے تو مزے لگ گئے اب شوہر نہ بھی ہو تو مجھے بہت مزے سے چودنے والا مل گیا تھا ، مگر ایک دن اس نے کیا کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو اور پٹھانوں کو بھی لے آیا اور ان تینوں نے مل کر مجھے بہت بری طرح چودا اس دن میرا حال ایسا تھا کہ جیسے میں مر جاؤں گی میرے بدن میں بالکل جان نہیں تھی۔ اگلے دن پھر وہ پٹھان آیا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا بلکہ اسکو چلتا کیا ۔ پھردن تک وہ مسلسل آتا رہا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا پھر کچھ مہینے بعد میرے شوہر کا تبادلہ پھر کسی اور جگہ ہوگیا۔ پھر نہیں معلوم وہ اتنے زبردست لنڈ والا پٹھان کدھر گیا۔n

**میری آنکھوں کے سامنے میری بیوی کا ریپ**

ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم ہنی مون سے
واپس آرہے تھے کہ ایک سنسان لنک روڈ پر
ہماری کار اچانک بند ہو گئی۔ میں نے کافی
کوشش کی مگر سلف سٹارٹ نہ ہو سکی۔ میں نے
بیگم سے کہا: تم اندر ہی بیٹھو، میں فرنٹ
کھول کر دیکھتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے گاڑی
کا دروازہ کھولا اور فرنٹ کھول کر تار اور
بیٹری چیک کر نے لگا۔ کافی کوشش کے باوجود
کار سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ اتنے میں بیگم
بھی گاڑی سے باہر آگئی۔ بیگم بولی: کیا ہوا؟
کیا گاڑی زیادہ خراب ہو گئی ہے؟ میں نے کہا:
لگتا ہے گاڑی زیادہ ہی خراب ہو گئی ہے۔ 

سور ج تیزی سے غروب ہوتا جا رہا تھا۔ اور دن
کی روشنی بھی تیزی سے مدھم پڑ رہی تھی۔ میر
پوی کوشش تھی کہ گاڑی سٹارٹ ہو جائے۔ کیوں
کہ وہ مین روڈ نہیں تھا بلکہ ایک چھوٹا سا
لنک روڈ تھا، جو کہ ہمارے گھر کی طرف شارٹ کٹ
تھا۔ ہمیں کیوں کہ دیر ہو چکی تھی میں نے
سوچا کہ اس لنک روڈ سے جلد گھر پہنچ جائیں
گے۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ گاڑی اس طرح
اچانک خراب ہو جائے گی۔ 

جب کافی کوشش کے باوجود گاڑی سٹارٹ نہیں ہو
رہی تھی تو بیگم کے چہرے پر پریشانی اور ڈر
کے آثار نمایاں نظر آنے لگے تھے۔ کیوں کہ اس
روڈ پر آئے دن ڈاکو ئوں کی وارداتیں معمول
کا حصہ تھیں۔ 

بیگم نے کہا؛ آپ گھر فون کیجئے، تاکہ مکینک
بھیج دیں اور ساتھ ہی دوسری گاڑی لے آئیں۔
میں فوراً اپنا موبائیل نکالا لیکن سگنل
بہت کم تھے۔ میں نے بات تو پھر بھی ہو جائے
گی۔ چاہے کٹ کٹ کر ہو۔ لیکن میں نے جیسے ہی
موبائیل نمبر ملا کر اپنے کان پر رکھا مجھے
پیچھے سے ایک بھاری آواز سنائی دی۔ "موبائیل
مجھے دے دو" میں آواز سن کر کانپ گیا۔ دیکھا
تو ایک بڑی مونچھوں والا لمبا چوڑ آدمی کھڑا
تھا۔ پہلے تو میں چونک گیا۔ پھر میں نے ہمت
کر کے پوچھا کہ تم کون ہو؟ یہ کہنا ہی تھا کہ
جھاڑیوں اور درختوں کے پیچھے سے تین آدمی
اور نکل آئے۔ جن میں سے دو کے ہاتھوں میں
پسٹل اور ایک کے ہاتھ میں لمبی گن تھی۔
انہوں نے تیزی کے ساتھ مجھے پکڑ کر قابو کر
لیا یہ کہتے ہوئے کہ ہم اچھی طرح بتاتے ہیں
کہ ہم کون ہیں۔ ''باندھ دو سالے کو" میں نے
چھڑوانے کی کوشش کی لیکن ان کے آگے میرا بس
نہ چلا۔ انہوں نے میرے منہ پر ٹیپ لگا کر
درخت کے ساتھ کس کر باندھ دیا۔ مجھے درخت پر
کس کر باندھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا:
''استاد، مال ٹائیٹ ہے" یہ کہتے ہی انہوں نے
میری بیگم کو چاروں طرف سے جکڑ لیا اور پکڑ
لیا۔ جب وہ چلائی تو انہوں نے اس کے منہ پر
ٹیپ لگا دی۔ میری بیگم کے منہ سے اوں اوں کی
آواز نکل رہی تھی اور وہ ہاتھ جوڑ کر رحم کی
اپیل کر رہی تھی۔ان میں سے ایک نے میر بیگم
کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔ جب کہ
دوسرے نے اس کی ٹانگوں کو قابو کر لیا۔ اور
ان کے سردار نے میری بیوی کی گانڈ کے نیچے
دونوں ہاتھوں سے سہارا دے دیا۔ سردار نے
ہاتھ دباکر کہا: ''گانڈ تو بہت ہی نرم ہے"
میرا غصے سے برا حال ہو رہا تھا۔ میں خود کو
آزاد کرانے کی پوری کوشش کر رہا تھا جس سے
درخت خوب ہل رہا تھا۔لیکن میں ناکام ہو کر
اپنی بیوی کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ 
سردار نے میری بیوی سے کہا: دیکھو اگر تم نے
زیادہ مزاحمت کی تو ہم تمھارے کپڑ ے پھاڑ
دیں گے اور تمھیں واپس ننگا ہو کر جانا پڑ ے
گا۔ اس لیے جیسا ہم کہتے ہیں ویسا ہی کرو۔
لیکن میر ی بیوی نے چھڑوانے کی کوشش جاری
رکھی۔ جیسے ہی 
میر ی بیگم نے چھڑ وانے کے لیے اوپر جھٹکا
لگایا ۔ میر ی بیوی کی ایک ٹانگ اس ڈاکو کے
ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن شلوار کا پہنچا اس کے
ہاتھ میں ہی رہا۔جس سے میری بیوی کے ایک
چوتڑ سے شلوار پھسل گئی۔ کیوں کہ میر ی بیوی
زیادہ تر الاسٹک پہنتی تھی۔ ناڑا استعما ل
نہیں کر تی تھی۔ 
سردار نے کہا: یہ تو خود ہی کام آسان ہو گیا۔
اسے نے کہا کہ اسے کار کی ڈگی پر الٹا کر کے
لٹا دو۔ انہوں نے میر ی بیگم کو الٹا کر کے
لٹا دیا۔ اور سردار نے میر ی بیگم کی گانڈ سے
قمیض کا کپڑا اوپر کیا۔ اور پھر الاسٹک نیچے
کر دی جس سے بیگم کی گانڈ بالکل ننگی ہو گئی۔
ان میں سے ایک نے کہا: ٹارچ کی لائٹ مارو،
سالی کی گانڈ کا اچھی طرح نظارہ تو کریں"
سردار کے اشارے پر ایک ڈا کو نے میر ی بیگم
کی گانڈ سے جس سے الاسٹک والی شلوار اتری
ہوئی تھی ۔جیسے ہی ٹارچ روشن کی سب ڈاکو
میری بیگم کو گانڈ دیکھ کر جیسے پاگل ہی ہو
گئے ہوں۔کوئی کہنے لگا کیا ہی گوری اور نرم
گانڈ ہے تو کوئی کہنے لگا ، میں تو اس کی
موٹی گانڈ کے مزے لوں گا۔ ہر ڈاکو اپنے اپنے
الفاظ میں میری بیگم کی گانڈ کی تعریف کر
رہا تھا۔ سب سے پہلے سردار نے میری بیگم کی
گانڈ کو گہرہ چما دیا۔ اور پھر سب شروع ہو
گئے۔کوئ چوم رہا تھا تو کوئی دونوں چوتڑوں
پر اپنی زبان پھیر رہا تھا۔ ان سب کے
شلواروں کے پیشاب والی جگہ ابھری ہوئی تھی۔
اب میر ی بیگم بھی بے بس ہو چکی تھی، اسے پتا
چل گیا تھا کہ میں اب خود کو نہیں بچا سکتی۔
سردار نے کہا : تم اس کے گانڈ کے دونوں چوتڑ
پھیلا دو۔ سے نے بیگم کے چوتڑ کھول دیے۔ اور
ساتھ کھڑے ڈاکو نے گانڈ کے سوراخ پر روشنی
ڈالی۔
سردار نے بیگم کی گانڈ کا سوراخ کئ بار
چوما۔ اور پھر گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان
پھیرنے لگ گیا۔ سردار میری بیوی کی گانڈ کا
سوراخ اس طرح چاٹ رہا تھا کہ چاٹتے ہوئے
اندر کی طرف کھینچ رہا تھا۔ بیگم بے بس ہو
چکی تھی اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ بیگم
کمزور سی کوشش کر رہی تھی۔ شاید اب اس میں
اور مزاحمت کی ہمت نہ رہی تھی۔ بیگم کی گوری
اور بڑی گانڈ روشنی میں خوب چمک رہی تھی۔
ارد گرد گھنا جنگل تھا۔ اور روڈ سنسان تھا۔
ٹوٹے پھوٹے روڈ کی سنگینی اور خطرناکی کا
اندازہ اس بات سے ہو رہا تھا کہ اس دوران
کوئی بھی گاڑی وہاں سے نہ گذری۔ بیگم کے منہ
سے ہلکی ہلکی اوں اوں کی آواز کیڑوں کے
رینگنے کی آوازوں کے ساتھ مل کر عجیب سماں
پیدا کر رہی تھی۔ جب کہ سردار نے بیگم کی
پوری گانڈ اور دونوں چوتڑ چاٹ چاٹ کر لال
اور گیلے کر دیے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ
لوگ ڈاکو نہیں ہیں بلکہ کوئی ریپ گینگ ہے۔
کیوں کہ ان کے پاس سب جدید چیزیں موجود
تھیں۔ ان کے پاس ایک بیگ بھی تھا۔ اور سب
ہلکے ہلکے نشے میں لگ رہے تھے۔ اس بات کا
اندازہ یوں ہوا کہ انہوں نے بیگم کے کانوں
کی رنگس اور سونے کے لاکٹ تک نہیں اتارے
تھے۔ اور نہ ہی میری جیب سے پرس چھینا تھا
اور موبائیل آف کی حالت میں بے دھیانی کے
ساتھ زمین پر گرا پڑا تھا۔ بس نمودار ہوتے
ہی سیکس کی ہوس مٹانے لگ گئے۔ کافی دیر تک
سردار نے میر ی بیگم کی گانڈ کو چاٹا اور جی
بھر کے چوما۔ اس کا ایک ہاتھ شلوار کے اوپر
سے بار بار اپنے لنڈ کو پکڑ رہا تھا۔پھر
سردا ر پیچھے ہٹا اور کہا اس کی باقی شلوار
بھی کھینچ کر اتار دو۔ ساتھ کھڑے ڈاکو نے
بیگم کی باقی شلوار بھی نیچے کھینچ کر اتار
دی۔ جس سے بیگم کا نیچے والا پوار حصہ ننگا
ہو گیا۔ اور بیگم آدھے لباس میں رہ گئی۔
یعنی اب بیگم کے جسم پر صرف قمیض اور برا
باقی تھے۔ جیسے ہی بیگم کی سارے شلوار اتری
اور نیچے والا پورا حصہ ننگا ہوا ، ایک بار
پھر سب ڈاکو بیگم کو پائوں سے گانڈ تک بالکل
ننگا دیکھ کر ٹوٹ پڑے۔کوئی گانڈ سے پائوں تک
ہاتھ پھیرنے لگ گیا تو کوئی اوپر سے نیچے تک
کسنگ کرنے لگ گیا۔ سردار نے کہا اس کے منہ پر
اب ٹیپ اتار دو۔ ان میں سے ایک نے جونہی بیگم
کے منہ سے ٹیب اتاری ۔ اس سے پہلے کہ میری
بیگم چلاتی اس نے اپنے ہونٹ بیگم کے ہونٹوں
سے ملا کر بیگم کی آواز بند کردی۔ اور نازک
نازک ہونٹوں کا رس چوسنے لگ گیا۔ اب منظر یہ
تھا کہ سردار بیگم کی گانڈ کے سوراخ میں
انگلی ڈال اور نکال رہا تھا تو کبھی سوراخ
چاٹ اور چوتڑ چوم رہا تھا۔ جب کہ مولو نامی
ڈاکو میری بیگم کے دونوں پائوں کی انگلیاں
منہ میں لے کر باری باری چوس رہا تھا۔ اور
ساتھ ساتھ بیگم کے پیروں کو ملا کر شلوار کے
اوپر سے ہی اپنے لنڈ پر رگڑ رہا تھا۔ جب کہ
ایک ڈاکو مسلسل بیگم کے چوتڑوں اور ٹانگوں
کے جوڑ پر ہاتھ گھمائے اور کس کیے جا رہا
تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اب بیگم کو بھی
سیکسی جھٹکے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ شاید اب
اسے بھی مزہ آنے لگا تھا۔ سردار نے کہا :
کاچھی تم ذرا اسے نیچے کھینچو اب میں سالی
کے پھر سے ہونٹ چوس لوں ، بڑا مزہ ہے اس کے
ہونٹوں میں تو۔ کاچھی جو اس وقت بیگم کے
ہونٹ چوس رہا تھا اس نے بیگم کے ہونٹ چھوڑ
دیے اور سردار نے اس کی جگہ لے لی۔ جب بیگم
کو انہوں نے تھوڑا نیچے سر کا دیا تو اس کے
پائوں زمین پر لگ گئے اور پیٹ بند ڈگی پر
رہا۔یعنی انہوں نے بیگم کو ڈوگی پوز میں کر
دیا۔ سب سے پہلے سردار نے اپنی قمیض اتاری
اور ساتھ ہی باقی تینوں نے بھی اپنی اپنی
قمیضیں اتاردیں۔ جیسے وہ اسردار کے ہی
انتظار میں تھے۔سردار بدستور بیگم کے ہونٹ
چوس رہا تھا۔ جب کہ مولو بیگم کی گانڈ میں دو
انگلیاں تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا۔اسی
لمحے کاچھی بیگم کی چوت میں دو اور پھر تین
انگلیاں اندر باہر کر رہا تھا۔ یہ منظر جاری
تھا کہ چوتھے ڈاکو نے بیگم کی قمیض اوپر کی
اور برا کی ہُکس کھو ل دیں۔اور سردار نے
بیگم کی لان کی پتلی قمیض ایک ہی جھٹکے میں
کھینچ کر پھاڑ دی۔ اور پھر تمام قمیض کو
باری باری چیر کر پھاڑ ڈالا۔ اب میری بیگم
بالکل ننگی ہو چکی تھی۔ سردار نے اپنی شلوار
کا ناڑا کھول دیا۔ جس کے ساتھ ہی کالا سا لنڈ
نمودر ہوگیا۔
سردار نے بیگم کی گالوں کو دبا کر زبردستی
منہ کھول کر لنڈ کو بیگم کےمنہ میں ڈال دیا۔
اور بیگم کو بالوں سے پکڑ کر منہ اوپر نیچے
کرنے لگا۔ جب کہ مولو بیگم کی چوت کو زبان سے
چاٹنے لگا اور کاچھی گانڈ کو چاٹنے لگ گیا۔
سردار کے لنڈ کو بیگم کا منہ شاید بہت مزہ دے
رہا تھا جس سے سردار کے منہ سے آہ۔۔۔آہ۔۔۔آہ
۔۔۔کی آوازیں نکل رہی تھیں۔جب کہ چوٹھا
ڈاکو جو پٹھان لگ رہا تھا۔ وہ بیگم کے ایک
ہاتھ سے اپنے لند کو مساج کروا رہا تھا۔
بیگم ساتھ نہیں دے رہی تھی لیکن وہ خود ہی
بیگم کے ہاتھ کی مٹھ بنا کر اوپر نیچے کر رہا
تھا ۔ میری پیاری بیگم کے جسم سے چار غیر مرد
کھیل رہے تھے۔دو گانڈ اور چوت چاٹ رہے تھے
اور ایک لند چسوا رہا تھا اور ایک مٹھ کا کام
لے رہا تھا۔بیگم اب بالکل ڈھیلی ہو گئی تھی
اور خود کو ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ نے
پر مجبور ہو چکی تھی۔ اگلے ہی لمحے سردار
بیگم کے سر کے بالوں کو پکڑ کر پاگلوں کی طرح
اوپر نیچے کرنے لگا اور ساتھ ہی وہ بیگم کے
منہ میں فارغ ہوگیا ۔ اور بیگم کا منہ اس کی
منی سے بھر گیا۔بیگم نے اس کی منی باہر
پھینک دی۔سردار گاڑی کی ڈگی سے دور نیچے
زمین پر آکر بیٹھ گیا۔اور اب لالا یعنی
پٹھان نے اپنا لند بیگم کے منہ میں ڈال دیا۔
اس دوران مولو نے بیگ سے ایک چادر نکالی اور
کہا اسے نیچے لٹا کر چودتے ہیں۔اس کے بعد وہ
بیگم کو میرے ساتھ والے درخت کے پاس اٹھا کر
لے آئے۔اور چادر بچھا کر بیگم کو سیدھا لٹا
دیا.

پھر وہ میری بیگم کو نہ جانے کیوں اس درخت کے
پاس لے آئے جہاں میں بندھا ہوا تھا۔شاید اس
لیے کہ اس کے نیچے تھوڑا بہت نرم گھا س تھا۔
وہاں لاکر انہوں نے بیگم کو سیدھا لٹا دیا۔
میری بیگم نے ٹانگیں سکیڑ رکھی تھیں۔ مولو
نے میری بیگم کی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں
پھیلا کر کھو ل دیں اور اپنا لمبا سا لنڈ جو
میرے لنڈ سے کافی لمبا اور موٹا تھا ایک
جھٹکے میں میری بیگم کی چوت میں پورا اندر
ڈال دیا اور پاگلوں کی طرح اندر باہر جھٹکے
مارنے لگ گیا۔میر ی بیگم بنیادی طور پر ایک
شریف عورت تھی اور کبھی کسی مرد سے زیادہ
بات تک نہیں کی تھی۔ لیکن آج اس کی چوت میں
کسی غیر مرد کا لنڈ تیزی سے اندر باہر ہو رہا
تھا۔ اور خوب مزے لوٹ رہا تھا شادی شدہ
پرائی چوت کے۔ اس دوران لالا پھر سے بیگم کے
ہاتھوں کی مٹھ بنا کر مز ے لینے لگ گیا۔ اور
کاچھی نے اپنا لنڈ جو کہ لمبا کم اور موٹا
زیادہ تھا بیگم کے منہ میں ڈال دیا ۔ جب کے
سردار یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا۔
میرے بیگم میرے سامنے چُد رہی تھی۔ مولو
اپنے لنڈ کو میر ی پیاری بیگم کی نازک چوت
میں ہتھوڑے کی ٹھوک رہا تھا۔ بیگم کی طرف سے
مزاحمت نام کی کوئی چیز نہ رہی تھی۔ بیگم کی
چوت کا سوراخ مولو کے لنڈ کو بھر پور مزے دے
رہا تھا۔ اور منہ سے کاچھی کا لنڈ لطف اندوز
ہو رہا تھا۔ جب کہ ہاتھ کے مزے لالا اٹھا نے
لگا تھا۔ لالا نے کہا: ماڑا، اس کو الٹا کرو
، ہم اس کی گانڈ میں پانی بھرے گا۔ یہ سن کر
کاچھی سیدھا لیٹ گیا او بیگم کو الٹا کر کے
اپنے اوپر لٹا لیا۔ مولو نے میر ی بیگم کی
ٹانگیں کھول دیں۔ اور کاچھی نے اپنا لنڈ
میری بیگم کی چوت میں پورا ڈال دیا۔ اس کے بس
میں ہوتا تو شاید ٹٹے بھی ڈال دیتا۔ جب کہ
مولو نے اپنا لنڈ بیگم کے منہ میں ڈال دیا
اور کہا کہ چوسو۔ بیگم نے نہیں چوسا۔ اس نے
پسٹل اٹھا کر کہا کہ چوسو ورنہ یہ پورا برسٹ
تمھارے شوہر کی کھوپڑی میں اتار دوں گا۔
لیکن بیگم نے پھر بھی نہ چوسا ۔ اس نے ایک
ہوائی فائر کیا۔ جس سے بیگم ڈر گئی۔ اور
مولو کا لنڈ چوسنے لگ گئی۔ جب کہ کاچھی بیگم
کی چوت میں لنڈ اندر باہر کرنے لگ گیا۔ اب
لالا کو بیگم کی گانڈ مارنے کا موقع مل گیا۔
اس نے بیگم کی گانڈ میں انگلی ڈال کر راستہ
بنانا شروع کر دیا۔پہلے ایک انگلی ڈالی،
پھر دو اور پھر تین انگلیاں ڈال کر اندر
باہر کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے اپنا گورا
مگر موٹا لنڈ بیگم کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ
کر زور لگایا لیکن مشکل سے لنڈ کی ٹوپی ہی
اندر گئی۔ جیسے ہی لنڈ کی ٹوپی اندر گئی
بیگم نے چیخ ماری۔ لیکن لالا نے ایک زور دار
جھٹکے سے لنڈ کو زبردستی آدھا اندر گھسیڑ
دیا۔ اور اندر باہر کرنے لگا۔ اب منظر یہ
تھا کہ بیگم کے تینوں سوراخ یعنی چوت، گانڈ
اور منہ لنڈوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اور اندر
باہر ہو رہے تھے۔ لالا نے بیگم کی گانڈ سے
لنڈ نکالا اور اچھی طرح تھوک لگا گر دوبارہ
ڈال دیا اور اس بار پورے کا پورا اندر چلا
گیا۔ بیگم کی چوت اور گانڈ میں لنڈ تیزی سے
اندر باہر ہورہے تھے۔ جب کہ منہ میں بھی ایک
لنڈ چوسائی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ لالا کا لنڈ
بیگم کی گانڈ میں بہت زیادہ پھنس کر آیا
تھا۔ لیکن وہ میری بیگم کے درد کی بالکل
پرواہ نہیں کر رہا تھا۔ بیگم جتنا چلاتی وہ
اور زور سے جھٹکا مارتا۔ کچھ دیر بیگم کے
تینوں سواخوں کی چدائی جاری رہی۔ پھر وہ آپس
میں جگہیں تبدیل کرنے لگ گئے۔ کبھی مولو
گانڈ مارنے لگ جاتا اور کاچھی چوت۔ تو کبھی
مولو چوت مارنے لگ جاتا تو کاچھی گانڈ۔ لیکن
لالا مسلسل گانڈ ہی مارتا رہا۔ اگلے ہی لمحے
لالا پاگلوں کی طرح بیگم کو جھٹکے مارتا ہوا
گانڈ کے اندر ہی فارغ ہوگیا۔ اور سردار کے
ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔ اس دوران مولو جو کہ
بیگم کے منہ کو چود رہا تھا وہ گانڈ مارنے کے
لیے بڑھا۔ بیگم کی گانڈ سے لالا کی منی باہر
نکل رہی تھی۔ مولو نے اسی منی کو اپنے لنڈ پر
لگایا اور اپنا لنڈ میری بیگم کی سوجی ہوئی
گانڈ میں ڈال دیا۔ ایک طرف کاچھی میری بیگم
کی چوت میں لنڈ تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا
اور ساتھ ساتھ بیگم کے بڑے بڑے ممے بھی چوس
رہا تھا۔ جس سےبیگم کے منہ خود بخود
اسس۔۔۔اسس۔۔۔اف۔۔۔کی آوازیں نکلنے لگی
تھیں۔ شاید اب بیگم کو بھی بہت مزہ آنے لگ
گیا تھا۔ بیگم دو لنڈوں کے پہلے ہی ٹھنڈا کر
چکی تھی اور باقی دو لنڈ ابھی تک بیگم کی چوت
اور گانڈ میں ایک ساتھ ہلچل مچائے ہوئے تھے۔
مولو کالنڈ جب خشک ہو جاتا تو وہ گانڈ سے
نکال کر بیگم کے منہ سے چسوانے لگ جاتا ۔ اور
پھر سے گانڈ میں ڈال دیتا۔ یہ سلسلہ جاری
تھا کہ پہلے مولو بیگم کی گانڈ میں فارغ
ہوگیا اور اگلے ہی لمحے کاچھی بیگم کی چوت
کو گرم پانی سے بھر دیا۔بیگم نے ابھی سکھ کا
سانس لیا ہی تھا کہ سردار جو کہ سب سے پہلے
کار کی بند ڈگی پر بیگم کے منہ میں ہی فارغ
ہو چکا تھا وہ بیگم کے قریب آیا اور بیگم کے
بوبس چوسنے شروع کر دیے۔ بوبس چوستا ہوا چوت
تک آجاتا اور پھر بوبس اور گردن تک چلا
جاتا۔پھر جب وہ ایک بار نیچے آیا تو پاگلوں
کی طرح بیگم کے دونوں چوتڑ پھیلا دیے چوت کو
کے لبوں کو اپنے منہ میں لے کر اندر کی طرف
کھینچتا ہوا چوسنے لگ گیا۔ جس سے بیگم بھی
بہت گرم ہونے لگی تھی۔ بیگم بھی سیکس میں
چور لگ رہی تھی۔ اور مزے میں اپنی گانڈ کے
دونوں چوتڑ اوپر نیچے اور دائیں بائیں کر
رہی تھی۔ اور یہ سب وہ مدہوشی کی حالت میں کر
رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ سسکیاں بھی بھر رہی
تھی۔یہ منظر دیکھ کر نہ جانے کیوں خود بخود
ہی میرا لنڈ بھی کھڑا ہونے لگ گیا، جو کہ
میری شلوار سے ظاہر ہو رہا تھا ۔میرا لنڈ
اتنا زیادہ اکڑ گیا کہ میرا غصہ بھی ماند پڑ
گیا۔ اور مجھے اپنی ہی بیگم کا سین کسی
سیکسی مووی کا مزہ دینے لگ گیا۔ میں نے کبھی
سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنی ہی بیگم کو چدتا
دیکھ کر مجھے اس طرح سیکس آ سکتا ہے۔بیگم کی
چوت اچھی طرح چاٹنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ
چوت کے سوراخ میں گھسیڑ دیا۔اور اندر باہر
کرنے لگا۔جب اچانک سردار کی نظر میری شلوار
کے ابھرے ہوئے حصے پر پڑی تو سردار نے کہا :
اس کا ایک ہاتھ کھول دو ، اور منہ سے ٹیپ ہٹا
دو۔ اب تو بیگم بھی سرادر کا خوب ساتھ دے رہی
تھی۔ اور آگے پیچھے جھٹکے مار مار کر سردار
کے لنڈ کی اندر باہر کی رفتار بڑھانے میں
سردار کی مدد کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ ایک بار
بیگم نے سردار کو اس کی کمر سے اپنی بانہوں
میں بھر لیا۔ اور زور زور سے سیکسی سسکیاں
بھرنے لگی۔ یہ بیگم کے فارغ ہونے کی علامت
لگ رہی تھی۔ پھر بیگم اور سردار ایک ساتھ
فارغ ہوگئےاور ساتھ ہی میری شلوار بھی مٹھ
مارنے کی وجہ سے منی سے بھر گئی۔

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...