Thursday, 11 February 2016

سرخ قبر کی رات

سرخ قبر کی رات

اس رات کو یاد کرتا ہوں تو ایک عجیب سا احساس ذہن کے تاریک گوشوں سے نکل کر سامنے آ جاتا ہے۔ کیا احساس ہے وہ؟ کچھ نہ کرنے کا احساسِ فخر؟ یا کچھ نہ کرنے کا احساسِ افسوس؟
میں ان دنوں ایم بی بی ایس فائنل ایئر کا طالبِ علم تھا۔ ایک دوست جو کراچی جا رہا تھا، اس کے ساتھ تین چار دنوں کے لیے کتابوں اور دوائیوں سے نکل کر جینے کے لیے ساتھ ہولیا۔
صبح سویرے کراچی کے مڈل کلاس کے علاقے تھرٹین ڈی کے ایک فلیٹ پر پہنچے۔ ہمارا میزبان ایک مشہور ڈرامہ ڈائریکٹر تھا جو اس وقت باہر تھا۔ عریاں اور نیم عریاں فلمی پوسٹرز، شراب کی بوتلوں میں واٹر پلانٹس اور کمروں میں زیرو پاور کے سرخ بلب اس دو کمروں اور ایک بڑے ہال والے فلیٹ کی ذہنی کیفیات کے آئینہ دار تھے۔ فلیٹ کا ملازم تھر کا رہنے والا ایک عجیب خاموش طبیعت لڑکا تھا، سماً بکماً ٹائپ کا۔ شام کو آنکھ کھلی تو ڈائریکٹر دوست ابھی تک شوٹ سے واپس نہیں آیا تھا۔ ہم نے چائے وغیرہ پی اور میں اور میرا دوست بوریت دور کرنے کے لیے شطرنج کھیلنے لگ گئے۔ آہستہ آہستہ فلیٹ ڈائریکٹر کے جاننے والوں، جن میں چند پروڈیوسر حضرات، چند ٹیکنیکل لوگ اور کچھ ایکٹرز وغیرہ شامل تھے، سے بھرنا شروع ہوگیا
ان میں سے کچھ کام مانگنے اور اکثر اپنے پیسے مانگنے آئے تھے۔ ڈائریکٹر واپس آیا تو ہمیں دیکھ کر اپنی مصروفیات اور تعلقات کے بارے میں بتا بتا کر اپنی ترقی کو مزید ہوائیں دیتا رہا۔ اس دوران وہ باقی لوگوں کو بھی نمٹاتا رہا۔
مجھے کچن میں کھانے وغیرہ کا کوئی خاص سلسلہ نظر نہیں آیا تو تقریباً نو بجے میں کھانا کھانے باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو بڑے کمرے سے موسیقی کے ساتھ لوگوں کی اونچی آوازیں آرہی تھیں۔ دروازے کو دھکیلنے کی کوشش کی تو بند تھا۔ میں کچھ کنفیوز ہوکر ساتھ والے کمرے کی طرف بڑھا جہاں صبح سویا تھا۔ وہ تھری لڑکا خاموش سرجھکائے وظائف کی کوئی کتاب کھولے پڑھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ اس سارے ماحول سے عادی اور عاری تھا۔
میں بیٹھا ہی تھا کہ میرا دوست مجھے ڈھونڈتا ہوا پہنچ گیا۔’یار ڈاکٹر، کہاں چلا گیا تم؟۔۔۔ آؤ ادھر آؤ ایک چیز دکھاؤں۔۔۔ خاص دعوت ہے‘۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا لے گیا۔
جیسے ہی میں نے اندر قدم رکھا، شراب کی بو اور دھوئیں کے کثیف بادلوں میں اتر گیا۔ کچھ دیکھنے کے قابل ہوا تو سرخ بلب کی روشنی اور دھوئیں میں پہلی نشست پر دروازے کے پاس ہی میری عمر کا ایک موٹا سا لڑکا نظر آیا۔ اس نے پھولوں والی ایک تنگ شرٹ پہن رکھی تھی جس میں سے اس کے موٹے کالے بازو اور پیٹ باہر لٹکے ہوئے تھے۔ اس کے اوپر ایک صحت مند گہرے سانولے رنگ کی لڑکی تقریباً نیم دراز تھی۔ اس کا لباس عجیب سا تھا۔ پیلے رنگ کی کاٹن کی تنگ بلکہ بہت ہی تنگ چولی، جس کے بازو غائب تھے اور لمبائی ناف سے ذرا اوپر تک۔ گلا کچھ چوڑا، کالے رنگ کی برا اور جلد کے ساتھ چپکی ہوئی تنگ پتلون جو کہ پیروں تک تھی۔ اس کی شکل، اس کا انداز اور اس کا لباس، میں گھبرا گیا۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں پر مہندی لگی تھی۔ میرا دوست ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ والی نشست پر لے گیا
لڑکی کا اوپر کا دھڑ دوسرے شخص پر تھا جس نے کلف لگا ہوا کاٹن کا سفید سوٹ پہن رکھا تھا۔ بھری مونچھیں، بھرا چہرہ، لڑکی سے بے زاری یا لاتعلقی کا اظہار کر رہا تھا۔ اس کی توجہ شراب کے گلاس پر تھی جو لڑکی اس سے چھین کر خود پینا چاہ رہی تھی۔تیسرا شخص کھلاڑی مانند جسم والا، ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ سب اندر پیتے رہے تھے اور اب تقریبا تیسرے یا چوتھے آسمان پر محوِپرواز تھے۔ ان کا تعارف میرا دوست آہستگی سے کروا چکا تھا۔ سفید کاٹن والا شخص پولیس میں ایس ایچ او تھا جسے اس لئے بھی شامل کیا گیا تھا کہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔ میری موجودگی کو کوئی نوٹس میں نہیں لایا۔
موٹے لڑکے نے اچانک دھکا دے کر اس لڑکی کو ہال کے بیچ میں کھڑا کر دیا۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی اس پلیئر تک گئی اور اس میں ایک کسیٹ ڈال کر اسے آن کردیا۔کسی تیز انگلش میوزک سے پورا ہال دھمک اٹھا اور اسی بات پہ اس نے بے ہنگم انداز میں ناچنا شروع کر دیا۔ناچ کیا تھا، چھلانگیں تھیں۔اونچی نیچی چھلانگیں۔لوٹ پوٹ۔
’نہیں نہیں یہ والا نہیں۔ بند کرو۔ دوسرا لگاؤ۔۔۔مجرا لگاؤ۔‘ بہت سی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔وہ لڑکی، کیا نام تھا اس کا؟ شاید ثنا۔ وہ دھم سے بیٹھ گئی۔ اس قدر پی چکی تھی کہ وہ کچھ کر نہیں پا رہی تھی۔ موٹا لڑکھڑاتا ہوا اٹھا۔ لڑکی کو ایک لات ماری اور پوچھا! وہ مجرے والی کیسٹ نہیں لائی؟ لڑکی نے اس کو ماں کی گالی دی۔ ساری محفل زعفران زار ہو گئی۔ بولی ’میرے پرس میں ہے۔ لگاؤ اس میں۔ میرا موڈ آف کر دیا تم لوگوں نے۔ ایک پیگ لگاؤ۔‘ ایک شخص کے ہاتھ سے اس نے بھرا ہوا گلاس لیا اور ایک ہی سانس میں چڑھا گئی۔
کیسٹ لگائی گئی، گانا شروع ہوا ’ان آنکھوں کی مستی کے افسانے ہزاروں ہیں‘ لڑکی فرش پہ بیٹھی بیٹھی دوبارہ موڈ میں آنے لگی۔ واہ! واہ! کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اب وہ طوائفوں کے انداز میں پرفارم کرنے کی کوشش میں تھی۔ مگر وہ بس کوشش ہی تھی۔ وہ اٹھی، لہراتی ہوئی کبھی پروڈیوسر پہ، کبھی ایس ایچ او پہ اور کبھی ہماری گود میں بھی آ گرتی۔ وہ اس کو جگہ جگہ سے دبوچتے اور دوسرے پہ پھینک دیتے۔ یہ سب کچھ کافی دیر تک ہوتا رہا۔
کمرے میں کوئی اے سی نہیں تھا۔ بند کمرے میں دھوئیں، گرمی، شور، اچھل کود اور اتنے لوگوں کی بھاری سانسوں میں، میں پسینہ پسینہ ہو چکا تھا۔ میں سب کچھ ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی تھرڈ کلاس سینما میں ہوں اور اس پشتو، پنجابی فلم میں بھی، جو سامنے چل رہی ہے۔میں نے دوست کو باہر چلنے کا اشارہ کیا اور وہ مشفقانہ انداز میں سر ہلا کر مجھے باہر لے آیا
پندرہ بیس منٹ بعد ہم پھر اسی گھٹیا سینما میں داخل ہو گئے۔ فلم آگے نکل چکی تھی۔ سارے وِلن اپنی اپنی آگ بجھانے کو تیار بیٹھے تھے جو اس نے اب تک بھڑکائی تھی۔ اس کا لباس اب بہت ناکافی تھا اور وہ چھوٹی سی چولی اس موٹے کے ہاتھ میں تھی جسے وہ بار بار سونگھتا تھا۔ اچانک ایک شخص اٹھا، اس نے ثنا کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھا۔ باتھ روم سے گزر کر ایک دوسرا کمرہ تھا جو باہر سے لاک کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی ڈرائنگ روم سے اندر نہ آسکے۔ اس شخص کے اس اقدام پہ قہقہے اور داد کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ثنا اس کو تھپڑ مارتی ہوئی اس کے ساتھ جا رہی تھی۔ میرا دوست، میں اور باقی سب ہال میں رہ گئے تھے۔
میں اس ماحول کو اب دوسری طرح دیکھ رہا تھا۔میرے اندر اب تک کوئی جنسی جذبہ بیدار نہیں ہو سکا تھا۔ مجھے خود پہ حیرت بھی تھی کہ کیا مسئلہ تھا۔ یا شاید پہلی بار سچ مچ یہ سب کچھ دیکھ کر میں ڈر گیا تھا۔ حالانکہ جب بھی ہم دوستوں نے مل کر کوئی ٹرپل ایکس فلم دیکھی تو پانچ منٹ کے بعد ہی ہم سب کو ٹینشن شروع ہو جاتی اور ہر کوئی سگریٹ سلگانے پہ آجاتا، وہ بھی جو نہیں پیتے۔
اب کمرے میں بزنس، گالی گلوچ اور شراب کی کمی کا ذکر ہو رہا تھا۔ ڈائریکٹر اس دوران کہیں غائب تھا۔ ہاں! وہ چھت پہ کسی نئی لڑکی کا آڈیشن لے رہا تھا۔ وہ لڑکی اور اس کی ماں دونوں بہت پرکشش تھیں
ایس ایچ او کو گھر جانے کی جلدی تھی۔ اس کی بیوی کا فون پہ فون آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دوسروں سے پہلے وہ نشہ بہاتی گنگا میں ہاتھ دھو کر گھر جائے۔ وہ بہت ضبط کیئے ہوئے تھا۔ اپنے آپ کو کھول نہیں رہا تھا جبکہ دوسرے اب تک بیسیوں لڑکیوں، شراب کے مختلف برانڈز اور شاندار محفلوں کو یاد کر چکے تھے۔
جو پروڈیوسر اسے لایا تھا، اس پر طنز کیا جا رہا تھا کہ اس بار اس نے کوئی خاص چیز نہیں منگوائی۔’بس ٹھیک ہے‘ اور وہ مصر تھا کہ اتنی جلدی میں اس سے بہتر اور کیا آتی حالانکہ وہ کوشش کر چکا تھا دوسری لڑکی کے لئے۔
دوسرے کمرے سے جونہی وہ شخص واپس آیا، سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، گویا اب کون؟ ’یار مجھے گھر جلدی پہنچنا ہے، پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے‘ ایس ایچ او نے سب کو درخواست کی، جو درخواست نہیں اطلاع تھی۔
’ہاں ہاں آپ ہو آئیں، ہم تو آج یہاں ہیں، ثنا بھی یہیں ہے۔‘

ایس ایچ او لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور باتھ روم سے ہوتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ پہلا آدمی اس کی جگہ پہ آ کے بیٹھ گیا۔ ایک سگریٹ سلگایا،’شراب ختم ہو گئی کیا؟‘ اس نے موٹے لڑکے سے پوچھا۔
’ابے اور کتنی پیئے گا بہن ۔۔۔؟‘ اس موٹے نے ہنستے ہوئے کہا۔
’تیری ماں نے سارا نشہ اتار دیا ہے، منگا! کچھ کر‘ اسی طرح کی اور باتیں ہوتی رہیں۔ کسی نے اٹھ کر ٹیپ چلا دیا۔ میرے تصور میں ثنا فرش پر بیٹھ کر ڈانس کرنے لگی۔۔۔کبھی وہ بلی کی طرح چلتے ہوئے کسی کے قریب جاتی، کبھی بندر کی طرح اچھلنے لگتی یا پھر ناگن کی طرح زمین پہ لوٹنے لگتی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہ مجھے ریکھا، مینا کماری یا ہیما مالنی کی طرح رقص کرتی ہوئی نظر آئے مگر وہ تو قابو میں ہی نہیں آ رہی تھی
اچانک دھوئیں سے میرا جی متلانے لگا۔مجھے چکر آ رہے تھے۔ میں تیزی سے باتھ روم گیا۔ زور سے قے آئی اور سب کھایا پیا باہر آگیا۔ میں کوشش کرتا رہا کہ میری آواز باہر نہ جائے۔ واش بیسن میں منہ دھویا۔ میری نظر کے سامنے آدھ کھلے دروازے پر پڑی۔ ثنا اور ایس ایچ او دونوں بالکل برہنہ پلنگ پہ پڑے تھے۔ ثنا ایک لاش لگ رہی تھی اور ایس ایچ او اسے زور زور سے چانٹے بھی مار رہا تھا کہ وہ ہوش میں آئے مگر لاش کو کیا فرق پڑتا ہے۔
مجھے ہوش آیا۔ میں نے دروازہ آہستہ سے بھیڑ دیا۔
ذرا ٹھیک ہو کر دوبارہ اس ہال میں آیا۔ میرا دوست جو بہت پی چکا تھا، بڑے غور سے کسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی اسی جانب دیکھا مگر کچھ سمجھ نہیں سکا۔ کیا ایسی چیز ہے جسے وہ اتنے غور سے دیکھ رہا ہے۔۔۔ہاں ڈاکٹر۔۔کہاں گئے تھے تم؟ ٹھیک تو ہو؟۔۔۔۔یار میں اوپر جا رہا ہوں۔۔۔چلو گے؟۔۔۔ہاں؟ نہیں تم جاؤ میں آتا ہوں۔
میں اسے انتظار میں چھوڑ کر چھت پر آگیا۔ ڈائریکٹر صاحب ایک تاریک گوشے میں لڑکی اور اس کی ماں کو لئے سکرپٹ ڈسکس کر رہے تھے
میں دور شہر کی جگمگاتی علامتوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔اب مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔میرے کان گرم نہیں ہو رہے تھے۔میری ٹانگوں میں کوئی لرزش نہیں تھی۔ میری دھڑکنیں بے ترتیب نہیں تھیں۔۔۔۔بس مجھے نیند آ رہی تھی مگر کہاں جاؤں۔۔۔۔ہال؟ نہیں ڈرائنگ روم۔۔۔؟ نہیں۔ صبح والا کمرہ۔۔۔۔؟ اس میں پہلے ہی چار لوگ سو رہے ہیں۔ چھت۔۔۔؟ ہاں! چھت ٹھیک ہے۔۔۔۔میں سو گیا۔
فجر کے بعد میرا دوست آیا اور نیند کی حالت میں مجھے نیچے ہال میں لے آیا۔دو تین لوگ سو رہے تھے۔ ایک کونے میں بستر خالی تھا۔ اس نے مجھے وہاں سلا دیا۔ میں پھر سو گیا۔
کوئی دس بجے گرمی سے جاگا۔ میرا پورا جسم اینٹھ چکا تھا۔ منہ کڑوا اور حلق خشک ہو چکا تھا۔ پاس رکھے واٹر کولر سے پانی پیا۔ رات کا پانی تھا۔ جی چاہا تھوک دوں، پھر بھی پی گیا۔ باہر سے پروڈیوسر اور دوسرے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں جلدی سے باتھ روم میں گھس گیا۔ شاور کھول کر بہت دیر تک اس کے نیچے بیٹھا رہا۔ نہا کر ، تولیا باندھ کر میں نے اس کمرے کا دروازہ کھولا جہاں رات کو لوگ جا رہے تھے۔
دروازہ کھلتے ہی سامنے شلوار قمیض پہنے ثنا کھڑی نظر آئی۔وہ موٹی موٹی سرخ آنکھیں لئے راستہ روکے کھڑی تھی۔ کچھ دیر دیکھتی رہی۔میرے سینے کے بالوں پہ موجود پانی کے قطرے کو انگلی کی پور پہ اٹھا کر اپنے چہرے کے قریب لے گئی۔۔۔۔تم ڈاکٹر ہو؟ اس نے پوچھا۔ میں اسے دیکھتا رہا
تم مجھ سے ناراض ہو؟
نہیں، کیوں؟
پھر تم رات کو میرے پاس کیوں نہیں آئے؟
تمہیں کیا پتا کون کون تمہارے پاس آیا تھا؟
تم نہیں آئے باقی سب آئے تھے۔۔۔۔کچھ دو بار بھی۔
میرا آنا بھی ضروری تھا؟
شاید۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نہ میرے گال پہ ایک بوسہ دیا اور ہنستی ہوئی چلی گئی جہاں پروڈیوسر، موٹا لڑکا اور داڑھی والا اسے واپس لے جانے کے لئے بیٹھے تھے

کیا پسی کو چاٹنے

کیا پسی کو چاٹنے سے واقعی بھی مدہوشی اور گرم ہونے کے عالم میں لڑکی چلی جاتی ہے ، یا یہ صرف کہانیوں اور پورن موویز تک محدود ہے،
آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے اس بارے میں....؟؟؟
کیا لڑکوں کو بھی اپنا ڈک چسوانے میں ووہی مزہ ملتا ہے یا بس صرف اور صرف دیکھا دیکھی ہے ....؟؟؟؟
لڑکے اور لڑکیاں کومنٹس میں یا ان باکس میں اپنا تجربہ بتا سکتے ہیں ....
ایڈمن رمتا جوگی
کھا اور بولے تم نے برا فروخت کیے ہیں آج؟؟؟ میں نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا جی حاجی صاحب۔۔۔ وہ اصل میں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے پوچھا تو میں نے سوچا کہ گاہک واپس نہیں جانا چاہیے تو میں نے وہ فروخت کر دیے۔ یہ سن کر حاجی صاحب مسکرائے اور میری کمر پر تھپکی دیتے ہوئے بولے بہت خوب بھئی، یعنی اب تم سیکھ گئے ہو۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کونسے فروخت کیے اور کتنے میں میں نے بتایا تو انہوں نے کہا بہت خوب، تم نے تو 100 روپے زیادہ کی بچت کروا دی۔ آج سے تم صرف جیولری اور کاسمیٹکس نہیں بلکہ انڈر گارمنٹس بھی سیل کیا کرو گے۔
پھر حاجی صاحب نے فارغ وقت پر رات کے 9 بجے کے قریب جب بازار میں رش بالکل ختم ہوگیا تھا مجھے مختلف سائز کے برا کے بارے میں اور انکے ڈیزائن کے بارے میں بتایا ، کونسے برا کہاں پڑے ہیں، دیسی برا، پھر ایمپورٹڈ برا اور پھر بی بیلے اور آئی ایف جی کے برا بھی دکھائے جو کافی مہنگے تھے، ایک ایک برا 1000 روپے تک کا بھی تھا۔ اسکے بعد حاجی اقبال صاحب نے مجھے خواتین کے انڈر وئیر کے بارے میں بھی متایا اس میں سمال، میڈیم اور لارج کے بعد ایکسٹرا لارج سائز تک کے انڈر وئیر تھے۔ پھر اس دن سے میں نے برا بھی سیل کرنا شروع کر دیے، کبھی میں جیولری وغیرہ دکھاتا تو کبھی برا اور انڈر وئیر سیل کرتا۔ دونوں طرف میری توجہ ہوگئی تو جاجی صاحب میری کارکردگی سے کافی خوش ہوئے اور 4 ماہ کے بعد میری تنخواہ 6 سے بڑھا کر 7000 کر دی جسکی مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس دوران انکل باسط بھی مہینے میں ایک دو بار چکر لگا کر میری کارکردگی کے بارے میں حاجی صاحب سے پوچھ لیتے تھے۔
یہاں میں نے ایک چیز نوٹس کی تھی کہ لوکل عورتیں تو حاجی صاحب سے ہی برا طلب کرتی تھیں، مگر جو کچھ ماڈرن قسم کی عورتیں ہوتی تھیں وہ زیادہ تر مجھے ہی کہتی تھیں برا دکھانے کے لیے، اور میں انکی ظاہری حالت کے مطابق اچھی کوالٹی اور لو کوالٹی کے برا دکھاتا تھا۔
اس دوران حاجی صاحب نے مجھے ایک موبائل بھی لے دیا تھا تاکہ ضرورت کے وقت میں ان سے رابطہ کر سکوں۔ پھر کبھی مال ختم ہوتا تو حاجی صاحب لاہور سے مال لینے چلے جاتے اور اس دن صبح سے رات تک دکان پر میں اکیلا ہی ہوتا اور اگلے دن حاجی صاحب کو پچھلے دن کا حساب دے دیتا۔ پھر ایک دن میں دکان پر فارغ ہی بیٹھا تھا کہ میرے نمبر پر ایک کال آئی میں نے ہیلو کہا تو آگے سے ایک خاتون کی آواز آئیں انہوں نے ہیلو کے جواب میں کہا کیسے ہو سلمان بیٹا؟؟ مجھے آواز تو جانی پہچانی لگی مگر میں سمجھ نہیں سکا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ میں نے کہا جی میں ٹھیک ہوں مگر آپ کون؟ تو اس پر وہ بولیں ارے بیٹا میں تمہاری سلمی آنٹی بات کر رہی ہوں، تمہارے انکل سے تمہارا نمبر لیا تھا۔ سلمی آنٹی کا نام سن کر میں نے کہا جی آنٹی میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں آپ کیسی ہیں؟؟ آنٹی نے کہا کہ وہ بھی بالک ٹھیک ہیں۔ پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد آنٹی نے مجھے کہا کہ بیٹا تم سے ایک کام ہے، کہتے ہوئے شرم بھی آرہی ہے ، مگر پھر تم تو اپنے بچوں کی طرح ہی ہو، تو سوچ رہی ہوں تمہیں ہی کہوں، باسط تو مجھے جانے نہیں دیتے بازار۔ اور خود وہ فارغ نہیں انہیں چھٹی ہی نہیں ملتی راتے کو تھکے ہوئے گھر آتے ہیں تو اس وقت میں انہیں کہ نہیں پاتی۔
میں نے کہا آنٹی میں آپکے بچوں کی طرح ہی ہوں آپ بلا جھجک بتائیں کیا کام ہے۔ آنٹی کچھ دیر خاموش رہیں، پھر بولیں بیٹا وہ مجھے اصل میں کچھ چیزیں چاہیے تھیں۔ وہ تم سے منگوانی تھیں۔ میں نے کہا آںٹی آپ حکم کریں آپکو جو چاہیے میں لے کر حاضر ہوجاوں گا۔ پھر آنٹی بولیں بیٹا تمہیں تو پتا ہی ہے دکانوں پر کس طرح کے مرد کھڑے ہوتے ہیں، اور وہ عورتوں کو کسیے گندی گندی نظروں سے دیکھتے ہیں تو اس لیے میں تو یہ لینے دکان پر خود جاتی نہیں تمہارے انکل ہی میرے لیے لے کر آتے ہیں مگر اب وہ مصروف بہت ہیں اور مجھے ضرورت بھی بہت ہے۔ میں نے کہا آنٹی آپ بلا جھجک بولیں کیا چاہیے آپکو۔ مجھے کچھ کچھ سمجھ لگ گئی تھی کہ آنٹی کو کیا کام ہے، مگر پھر بھی کنفرم کر لینا ضروری تھا۔ پھر سلمی آنٹی نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہا بیٹا وہ کافی دنوں سے میں سوچ رہی تھی کہ باسط سے اپنے لیے بریزئیر منگواوں مگر انکو وقت نہیں مل رہا اور میں بازار سے خود جا کر کبھی لائی نہیں، مجھے باسط نے بتایا تھا کہ جس دکان پر تم کام کرتے ہو وہاں پر برا وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اگر تم میرے لیے لے آو گے تو میری بڑی مشکل آسان ہوجائے گی۔
میں پہلے یہ سمجھ گیا تھا آنٹی کی ہچکچاہٹ سے مگر انکے منہ سے سننے کے بعد میں نے کہا آنٹی اس میں شرمانے والی کونسی بات ہے، یہاں تو پتا نہیں کتنی عورتیں آتی ہیں جنہیں میں برا فروخت کرتا ہوں، اگر آپکو چاہیے تو آپکے لیے بھی لیتا آوں گا۔ آنٹی نے کہا بہت بہت شکریہ بیٹا، تم نے تو میری مشکل آسان کر دی۔ پھر کب آوگے تم؟؟ میں نے کہا آنٹی کل جمعہ ہے، دکان بند ہوگی مجھے چھٹی ہے، تو میں کل ہی لیکر آپکی طرف آجاوں گا۔ آنٹی خوش ہوکر بولیں ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ بس پھر تم کل ہی آجاو۔ اچھا پھر کل ہی ملتے ہیں، یہ کہ کر آنٹی شاید فون بند کرنے لگیں تو میں نے جلدی جلدی کہا، آنٹی آنٹی بات تو سنیں۔۔۔ میر ی آواز سن کر آنٹی نے ہاں بولو؟ میں نے کہا آنٹی اپنا سائز تو بتائیں مجھے کیسے پتا لگے گا کہ کونسے سائز کے لینے ہیں، اس پر آنٹی بولیں اوہ۔۔۔۔ مجھے یاد ہی نہی سائز بتانے کا اچھا ہوا تم نے خود ہی پوچھ لیا۔ بیٹا تم 38 نمبر کا لے آنا۔ 38 سائز کا سن کر میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ باسط انکل کے تو مزے ہیں انکو اتنے بڑے مموں والی بیوی ملی ہے۔ پھر میں نے فورا ہی پوچھا اچھا آنٹی فوم والے لانے ہیں یا نیٹ والے یا پھر کاٹن میں؟؟؟ آنٹی نے کچھ سوچا اور پھر بولیں بیٹا ایسا نہیں ہوسکتا تم مختلف لے آو مجھے جو پسند آئے گا میں وہی لے لوں گی؟؟؟ میں نے کہا کیوں نہیں آنٹی میں زیادہ لے آوں گا پھر اس میں سے آپ اپنی پسند کے مطابق جو رکھنا ہوا رکھ لیجیے گا۔ اچھا آنٹی یہ بھی بتا دیں آپکو اپنے لیے انڈر وئیر بھی چاہیے یا پھر صرف برا ہی چاہیے۔ یہ سن کر آنٹی نے کہا نہیں بیٹا بس برا ہی چاہیے۔ پھر اچانک بولیں اچھا سنو سنو۔۔۔۔ انڈر وئیر بھی 2 لے آنا مگر چھوٹے سائز کے۔ میں نے کہا چھوٹے سائز کے؟؟؟ آنٹی نے ہچکچاتے ہوئے کہا ہاں بیٹا مجھے تو ضرورت نہیں مگر وہ شمائلہ اب بڑی ہوچکی ہے نہ تو اسکے لیے چاہیے ہیں ، تو اسکے سائز کے مطابق چھوٹے انڈر وئیر بھی لے آنا۔ میں نے دل ہی دل میں انکی بیٹی شمائلہ کی گانڈ کے بارے میں سوچا تو وہ واقعی ابھی چھوٹے سائز کے انڈر وئیر کے قابل ہی تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی آپ بے فکر ہوجائیں میں لے آوں گا۔
فون بند کر کے میں اب سوچنے لگا کہ حاجی صاحب کو کیا کہوں گا؟؟؟ پھر جب حاجی صاحب آگئے تو میں نے حاجی صاحب کو بتایا کہ باسط انکل نے اپنی وائف کے لیے کچھ برا منگوائے ہیں تو وہ میں لے جاوں ؟ وہ خود آتے ہوئے زرا ہچکچا رہے تھے؟؟ حاجی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ہا ہا ہا اس میں ہچکچانے والی کونسی بات ہے وہ کونسا عورتوں سے لیکر جائیں گے، یہاں تو عورتیں بھی لے جاتی ہیں وہ مرد ہو کر شرما رہا ہے، مگر پھر انہوں نے بغیر کوئی اور بات کیے کہا، ٹھیک ہے لے جانا، مگر مفت میں نہ دے آنا پیسے لے لینا ان سے۔ میں نے کہا جی حاجی صاحب وہ تو ظاہری بات ہے پیسے لوں گا۔ پھر میں نے حاجی صاحب کی موجودگی میں ہی 38 سائز ے 7 برا پسند کیے اور ایک شاپر میں ڈال لیے اور پھر چھوٹے سائز کے 2 انڈر وئیر اٹھائے اور وہ بھی اسی شاپر میں ڈال دیے۔ حاجی صاحب نے کہا ارے اتنے زیادہ کا اچار ڈالے گا کیا ؟؟؟ میں نے کہا حاجی صاحب جو وہ رکھنا چاہیں گے رکھ لیں گے باقی میں اسی طرح واپس لے آوں گا۔ انہوں نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے مگر دھیان سے لانا۔
اگلے دن صبح 11 بجے میں باسط انکل کے گھر پہنچ گیا۔ جمعہ کا دن تھا سرکاری چھٹی نہ ہونے کے باعث باسط انکل گھر پر نہیں تھے جبکہ انکی بیٹی شمائلہ ابھی سکول سے واپس نہیں آئی تھیں۔ شمائلہ سے چھوٹی بیٹی ابھی جو 10 سال کی تھی اسکی طبیعت خراب تھی جسکی وجہ سے وہ سکول نہیں گئی اور گھر پر ہی ایک کمرے میں سو رہی تھی۔ میں گھر گیا تو سلمی آنٹی نے بہت خوش ہوکر مجھے اند ر بلا لیا۔ مگر وہ کچھ کچھ مجھ سے شرما بھی رہی تھیں ۔ انہوں نے مجھے اسی کمرے میں بٹھا دیا جہاں باسط انکل کے ہوتے ہوئے بیٹھا تھا۔ یہ مین کمرہ تھا اس میں ٹی وی بھی لگا ہوا تھا۔ مجھے بٹھا کر آنٹی کچن میں چلی گئیں اور کچھ ہی دیر میں میٹھے شربت کا ایک گلاس بنا کر میرے لیے لے آئیں۔ میرے سامنے پڑی ٹیبل پر سلمی آنٹی جھکی اور شربت کا جگ جو ایک بڑی ٹرے میں تھا میرے سامنے رکھا، جس دوران وہ جھکیں انکی قمیص سے انکے بڑے بڑے 38 سائز کے ممے قمیص سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے، میری نظر انکی قمیص کے اندر موجود مموں اور انکے بیچ گہری لائن پر پڑی تو مجھے کچھ کچھ ہونے لگا، میں نے فورا ہی اپنا چہرہ نیچے کر لیا۔ آنٹی بھی فورا ہی سیدھی ہوگئیں پھر وہ میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئیں اور بولیں بیٹا پانی پیو۔
انکی نظریں میرے ہاتھ میں موجود شاپر پر تھیں۔ مگر وہ مجھ سے شاپر مانگتے ہوئے ہچکچا رہی تھیں۔ گرمی زیادہ تھی میں نے جلدی جلدی شربت کا ایک گلاس پیا اور پھر آنٹی کی طرف دیکھا۔ آنٹی نے اس وقت سفید رنگ کی ایک قمیص پہن رکھی تھی اور گلے میں دوپٹہ لے رکھا تھا، قمیص باریک تھی اور گرمی کی وجہ سے شاید آنٹی نے آج شمیص بھی نہیں پہنی تھی جسکی وجہ سے انکا کالے رنگ کا برا بھی سفید قمیص میں سے بڑا واضح نظر آرہا تھا۔ انکو ایسی حالت میں دیکھ کر مجھے اپنے انڈر وئیر میں بے چینی محسوس ہونے لگی تھی، مگر میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ شلوار میں موجود ہتھیار اپنا سر نہ ہی اٹھائے تو اچھا ہے ورنہ سلمہ آنٹی نے نوٹ کر لیا تو شرمندگی ہوگی۔ شربت پینے کے بعد آنٹی نے شاپر کو دیکھتے ہوئے پوچھا اور بیٹا تمہارا کام کیسا جا رہا ہے، میں نے کہا آنٹی کام تو اچھا جا رہا ہے، اور بہت جلدی میں سیکھ بھی گیا ہوں، اب تو اقبال صاحب دکان پر ہوں یا نہ ہوں پوری دکان میں ہی سنبھالتا ہوں، چاہے کسی کو اپنے لیے برا لینے ہوں یا میک اپ کا سامان ، سب کچھ میں ہی ڈیل کرتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میں نے شاپر پکڑ کر اس میں ہاتھ ڈالا اور سارے برا نکال کر آنٹی کےسامنے ٹیبل پر رکھ دیے۔
آنٹی نے برا پر نظر پڑتے ہی پہلے تو بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا جیسے اطمینان کر رہی ہوں کہ ہمیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر نطریں چرا چرا کر برا کی طرف دیکھنے لگیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ واقعی دکان پر جاتے ہوئے شرماتی ہونگی غیر مردوں سے اپنے اندر پہننے والی چیزیں لیتے ہوئے۔ مگر پچھلے کچھ مہینوں کے دوران میں ایک اچھا سیلز مین بن چکا تھا، اور عورتوں کو برا دکھانے کا کافی تجربہ بھی ہوگیا تھا۔ میں نے سب سے پہلے ایک کالے رنگ کا ہی فوم والا برا اٹھایا اور آنٹی کی طرف کھسک کر بیٹھ گیا، وہ میں نے آںٹی کے سامنے کیا اور آنٹی کو دکھاتے ہوئے بولا، یہ دیکھیں آنٹی یہ بہت اچھی چیز ہے۔ بہت سوفٹ ہے اور اسکے اندر فوم بھی لگا ہوا ہے جس سے سائز تھوڑا بڑا محسوس ہوتا ہے اور خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب کی بار آںٹی کے ہاتھ کانپتے ہوئے لگ رہے تھے، انہوں نے کانپتے ہاتحوں سے میرے ہاتھ سے برا پکڑا اور اسکو بغور دیکھنے لگیں، مگر انکے چہرے سے پریشان واضح ہورہی تھی۔ میں نے پھر آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ نے پہلے بھی کالے رنگ کا برا ہی پہن رکھا ہے، یہ رنگ تو آپکے پاس ہے۔ آپ یہ رہنے دیں، سرخ رنگ میں دیکھ لیں، یہ کہ کر میں نے انکے ہاتھ سے برا پکڑ لیا اور سرخ رنگ کا فوم والا برا اٹھا کر انہیں پکڑا دیا۔
آنٹی نے ہچکچاتے ہوئے کہا میرا سائز تو پہلے ہی بہت بڑا ہے اس سے تو اور بھی بڑا نظر آئے گا۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں آنٹی آپکا سائز تو آئیڈیل ہے، مردوں کو یہی سائز پسند ہوتا ہے اور اگر تھوڑے بڑے بھی لگیں گے تو بھی برے نہیں لگیں گے بلکہ آپکی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ یہ سن کر سلمی آنٹی زیر لب مسکرائیں اور بولیں اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں مگر مجھے تو لگتا ہے کہ میرا سائز ضرورت سے زیادہ بڑا ہے۔ سلمی آںٹی کی ہچکچاہٹ آہستہ آہستہ کم ہورہی تھی۔ پھر میں نے کہا آنٹی پہلے آپ یہ پہن کر چیک کر لیں پھر میں آپکو اور بھی دکھا دیتا ہوں۔ آنٹی نے کہا نہیں پہننے کی کیا ضرورت ہے، بعد میں دیکھ لوں گی نہ۔ میں نے کہا ارے آنٹی فائدہ کیا پھر اپنی دکان ہونے کا۔۔۔ یہ تو آپ دکان سے جا کر بھی اس طرح بغیر دیکھے لا سکتی ہیں، اگر سائز بعد میں خراب نکلے تو چیج کرنا پڑتا ہے۔ اب میں آیا ہی ہوا ہوں تو آپ پہن کر چیک کرلیں اگر مناسب ہو تو ٹھیک نہیں تو میں کوئی اور دکھا دوں گا۔ میری بات سن کر آنٹی نے سوچا کہ سلمان کہ تو صحیح رہا ہے۔ یہی سوچ کر وہ سرخ رنگ کا فوم والا برا لے کر اٹھیں اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
کمرے میں جا کر آنٹی نے دروازہ اندر سے بند کر لیا اور تھوڑی دیر کے بعد باہر آئیں تو اب انکی قمیص کے نیچے کالے کی بجائے سرخ رنگ کا برا نظر آرہا تھا۔ آنٹی میرے قریب آئیں تومیں نے پوچھا آنٹی کیسا لگا برا؟؟؟ آںٹی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ٹھیک ہے، مگر مجھے لگ رہا ہے کہ اس سے سائز اور زیادہ بڑا لگنے لگا ہے۔ میں نے آنٹی کے مموں کو گھورتے ہوئے کہا ارے نہیں آنٹی، یہ تو بہت خوبصورت لگ رہا ہے آپ پر۔ انکل باسط تو آپکا یہ سرخ رنگ کا برا دیکھیں گے تو لٹو ہوجائیں گے آپ پر۔ میری بات سن کر آنٹی شرماتے ہوئے بولیں، چل بدمعاش۔۔ پھر میں نے آنٹی سے پوچھا، آنٹی سائز تو ٹھیک ہے نا اس برا کا؟؟؟ آںٹی نے کہا ہاں بیٹا ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا اور کوئی الجھن وغیرہ یا فٹنگ کا کوئی مسئلہ تو نہیں؟؟ آنٹِ نے کہا نہیں بیٹا بالکل صحیح ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر میں نے آنٹی کو ایک نیٹ کا برا دکھایا۔ یہ ہلکے نیلے رنگ کا برا تھا جس کے اوپری حصے پر جالی دار نیٹ لگی ہوئی تھی۔ اس برا میں سے مموں کا اوپر حصہ واضح نظر آتا تھا جبکہ نپل اور اس سے نچلا حصہ ڈھکا رہتا تھا میں نے آںٹی کو برا پکڑایا اور کہا آنٹی یہ بھی چیک کرلیں۔ آنٹی نے میرے ہاتھ سے وہ برا پکڑا اور اسکو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگیں، پھر بولیں اس میں سے تو نظر آئیں گے۔۔ میں نے کہا جی آنٹی، یہ بہت سیکسی برا ہے، اثر خواتین میرے سے نیٹ کا برا لے کر جاتی ہیں۔ میری بات سن کر آنٹی آہستہ آواز میں بولیں، ہاں مگر تمہارے انکل سیکسی نہیں ہیں نہ۔ آنٹی نے یہ بات بڑی آہستہ آواز میں کہی تھی مگر میں نے سن لی، مگر میں انجان بنا رہا اور آںٹی سے پوچھا، آنٹی آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟؟؟ آنٹی بولیں نہیں بیٹا کچھ نہیں۔ میں یہ چیک کر لیتی ہوں۔
آنٹی ایک بار پھر اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں تو اس بار میں بھی آنٹی کے پیچھے پیچھے برا اٹھا کر چل پڑا۔ آنٹی دروازہ بند کرنے لگیں تو مجھے دروازے پر ہی دیکھ کر بولیں کیا بات ہے؟؟ میں نے کہا آنٹی آپ بار بار قمیص اتاریں گی، پھر برا پہن کر قمیص دوبارہ پہنیں گی، پھر دوبارہ سے باہر آکر دوسرا برا لیں گی، میں یہیں کمرے کے باہر ہی کھڑا ہوجاتا ہوں، آپ برا پہن کر چیک کریں، جو ٹھیک لگے وہ رکھ لیں، اور پھر وہ اتار کر مجھے سے دوسرا برا مانگ لیں، میں باہر سے ہی آپکو پکڑا دوں گا اس طرح آپکا وقت بچے گا۔ آنٹی نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ اور دروازہ بند کر لیا۔ کچھ دیر کے بعد دروازہ کھلا تو آنٹی نے ایک ہاتھ باہر نکال کر برا میری طرف بڑھایا اور بولیں یہ ٹھیک نہیں، کافی تنگ ہے کوئی اور دکھاو۔ میں نے آںٹی کا گورا گورا بازو دیکھا اور ایک لمحے کے لیے سوچا کتنا مزہ آئے اگر میں یہ بازو پکڑ کر آنٹی کو ایسے ہی باہر کھینچ لوں، مگر میں نے فورا ہی اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اور ایک اور نیٹ کا برا جو پنک کلر کا تھا آنٹی کی طرف بڑھا دیا۔ آنٹی نے وہ برا پکڑا اور پھر سے دروازہ بند کر لیا۔ تھوڑے انتظار کے بعد دروازہ کھلا اور آنٹی نے کہا بیٹا اسکا سائز بالکل ٹھیک ہے، اور میں نے شیشے میں دیکھا ہے ، یہ اچھا بھی لگ رہا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی وہ اتار کر آپ ایک سائیڈ پر رکھ دیں میں آپکو اور برا پکڑاتا ہوں۔ آنٹی نے ٹھیک ہے کہ کر برا اتارنا شروع کیا، مگر اس بار وہ شاید دروازہ بند کرنا بھول گئی تھیں۔ میں نے تھوڑا سا آگے ہوکر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو آنٹی کی کمر میری طرف تھی، انکے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر تھے اور وہ اپنے برا کی ہک کھول رہی تھیں۔ کیا چکنی اور خوبصورت کمر تھی آنٹی کی، دیکھ کر مزہ آگیا تھا، نیچے شلوار میں انکے بڑے بڑے چوتڑ بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے ، دل کر رہا تھا کہ ابھی آگے بڑھوں اور ان چوتڑوں کی لائن میں اپنا لن پھنسا دوں۔ آنٹی نے برا اتار کر سامنے پڑی میز پر رکھ دیا اور واپس مڑنے لگیں۔ جیسے ہی آنٹی واپس مڑیں، میں ایکدم سے پیچھے ہوگیا اور ایسے ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے مجھے کچھ پتا ہی نہ ہو۔
پھر آنٹی کا دوبارہ ایک بازو باہر آیا اور آنٹی نے کہا بیٹا اور کونسا برا ہے وہ بھی دکھا دو۔ میں نے ایک اور برا جو کاٹن کا تھا اور سکن کلر کا تھا وہ آگے بڑھا دیا، آنٹی نے کلر دیکھ کر کہا بیٹا یہ کلر تو پڑے ہیں پہلے بھی میرے پاس۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں آنٹی، آپ پہن کر تو دیکھیں ہو سکتا ہے یہ آپکو پسند آجائے۔ دراصل میں آنٹی کو دوبارہ دیکھنے کا چانس لینا چاہتا تھا، اسی لیے میں نے سوچا، ابھی آںٹی یہ پہن کر کہ دیں گی کہ نہیں کوئی اور دو، تو 2 بار مزید آنٹی کو دیکھنے کا چانس مل سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے اس دوران آنٹی کے 38 سائز کے ممے بھی دیکھنے کو مل جائیں۔ ایک بات ماننے والی تھی کہ 40 سال کی عمر ہونے کے باوجود آنٹی کا جسم بہت سیکسی تھا۔ انہوں نے اپنے جسم کو نہ تو زیادہ موٹا ہونے دیا تھا اور نہ ہی انکا جسم لٹکنا شروع ہوا تھا، اس عمر میں عام طور پر پاکستانی خواتین یا تو بہت موٹی ہوجاتی ہیں، یا پھر انکا ماس لٹکنا شروع ہوجاتا ہے، مگر آنٹی کا جسم ایسا بالکل نہیں تھا۔ خیر آنٹی نے اب دوبارہ میرے ہاتھ سے سکن کلر کا برا پکڑ لیا تھا اور اس بار پھر پہلے ہی کی طرح انہوں نے دروازہ بند نہیں کیا تھا۔
جیے ہی آنٹی نے میرے ہاتھ سے برا پکڑا میں پھر سے آگے کو کھسکا اور آنٹی کے درشن کرنے کے لیے دروازے میں موجود تھوڑی سی جگہ سے آنٹی کا جسم دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ جیسے ہی میں آگے بڑھ کر اندر دیکھنے لگا ، اس وقت آنٹی کا چہرہ میری جانب ہی تھا، مگر انکی نظریں اپنے ہاتھ میں موجود برا پر تھیں۔ اور وہ آہستہ آہستہ دوسری جانب مڑ رہی تھیں۔ اسی دوران میں نے خوش قسمتی سے آنٹی کے 38 سائز کے ممے دیکھ لیے ۔ واہ۔۔۔۔۔ کیا ممے تھے۔ دل کیا کہ انکواپنے منہ میں لیکر انکا سارا دودھ پی جاوں، مگر فی الحال مجھے جوتے کھانے سے ڈر لگ رہا تھا اس لیے میں نے اس خواہش کو دل میں ہی دبا لیا۔ اس عمر میں بھی آنٹی کے ممے چوسنے لائق تھے۔ گو کہ انکے مموں پر براون رنگ کا دائرہ کچھ زیادہ ہی بڑا تھا، اور انکے نپل بھی کچھ بڑے تھے، مگر وہ کسی بھی مرد کو اپنی طرف کھینچجنے کے لیے بہترین ممے تھے۔ اب آںٹی اپنا منہ دوسری طرف کر چکی تھیں اور سکن کلر کا برا پہن رہی تھیں، آنٹی کے دوسری طرف شیشہ ماجود تھا جو مجھے نظر نہیں آرہا تھا،برا پہننے کے بعد آنٹی نے اپنے آپ کو اس شیشے میں دیکھا، مگر شاید انہیں یہ برا پسند نہیں آیا تو انہوں نے وہ برا اتارا اور واپس مڑگئیں، اس دوران میں فورا ہی واپس پیچھے ہوکر کھڑا ہوگیا تھا۔
میں تو پیچھے ہوگیا، مگر میرا لن جو اس وقت میری شلوار میں تھا وہ کھڑا ہوکر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا تھا۔ آنٹی ایک بار پھر باہر ہوئیں، یعنی اپنا بازہ باہر نکالا اور برا مجھے پکڑایا، اس دوران میں نے ایک اور برا آںٹی کو پکڑایا۔ اسی طرح ، 2, 3 برا مزید آنٹی نے چیک کیے۔ اس دوران دروازہ تھوڑا سا اور کھل گیا تھا اور اب میرے لیے اندز کا نظارہ پہلے سے بہت بہتر ہوگیا تھا۔ اب مجھے آنٹی کے سامنے موجود آئینہ بھی نظر آرہا تھا، اور جس وقت آنٹی اپنا برا اتار رہی تھیں اور دوسرا برا پہن رہی تھیں، اس دوران میں نے آںٹی کے مموں کا بڑی باریک بین

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...