Thursday, 4 February 2016

==میں کہ اک عورت ہوں۔۔۔==

میں کہ اک عورت ہوں۔۔۔
رات کے آٹھ بجے ہیں۔۔۔۔۔۔
باہر جا رہی ہوں۔۔۔ روٹیاں خریدنے کو۔۔۔
نہ میں سجی بنی ہوں۔۔۔ نہ میرے کپڑے جاذب نظر ہیں۔۔۔
مگر یہاں سرعام۔۔۔
یہ ساتویں گاڑی ہے۔۔۔ مرے پیچھے پڑی ہے۔۔۔
کہتے ہیں، شوہر ہے یانہیں، میرے سنگ سیر کرو۔۔۔
جو بھی چاہو گی تجھے لے دوں گا۔۔۔
یہاں تندورچی ہے۔۔۔
وقت ساڑھے آٹھ ہوا ہے۔۔۔
آٹا گوندھ رہا ہے مگر پتہ نہیں کیوں مجھے دیکھ کر آنکھیں مار رہا ہے۔۔۔
نان دیتے ہوئے اپنا ہاتھ مرے ہاتھ سے مس کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔
سڑک عبور کی تو گاڑی سوار مری طرف آیا۔۔۔
گاڑی سوار قیمت پوچھ رہا ہے۔۔۔ رات کے کتنے؟
میں نہیں جانتی تھی راتوں کی قیمت کیا ہے۔۔۔
یہ میرا ملک ہے۔۔۔
میری ہتھیلیاں نم ہیں۔۔۔ لگتا ہے بول نہیں پاو ¿ں گی۔۔۔
ابھی میری خجالت اور رنج کا پسینہ خشک نہیں ہوا تھا
کہ گھر پہنچ گئی۔۔۔
انجنیئر کو دیکھا۔۔۔ ایک شریف مرد جو دوسری منزل پر
بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا ہے۔۔۔
سلام جناب۔۔۔ بیگم ٹھیک ہیں؟ آپ کی پیاری بیٹی ٹھیک ہے؟
والسلام، تم ٹھیک ہو؟ خوش ہو؟ نظر نہیں آتی ہو؟
سچ تو یہ ہے آج رات میرے گھر کوئی نہیں۔۔۔
اگر ممکن ہے تو آ جاو، نیلوفر کا کمپیوٹر ٹھیک کر دو۔۔
بہت گڑ بڑ کرتا ہے۔۔۔ یہ میرا موبائل ہے، آرام سے جتنی بات چاہے کرنا۔۔
میں دل مسوستے ہوئی کہتی ہوں، بہت اچھا۔۔۔ اگر وقت ملا تو ضرور۔۔
یہ سرزمین اسلام ہے۔۔۔
یہ اولیا اور صوفیا کی سرزمین ہے۔۔۔
یہاں اسلامی قوانین رائج ہیں۔۔۔ مگر یہاں جنسی مریضوں نے مادہ منویہ بکھیر رکھا ہے۔۔۔
دین، نہ مذہب، نہ قانون.... اور نہ تمارا نام حفاظت کر سکتا ہے۔۔۔
یہ ہے اسلامی جمہوریہ....
اور میں ایک عورت ہوں
میرا شوہر چاہے تو چار عقد کرے اور چالیس عورتوں سے تعلق،
میرے بال مجھے جہنم میں لے جائیں گے
اور مردوں کے بدن کا عطر انہیں بہشت میں لے جائے گا
مجھے کوئی عدالت میسر نہیں ہے
اگر میرا مرد طلاق دے تو باغیرت کہلائے
اگر میں طلاق مانگوں تو کہیں:
حد سے گذر گئی، شرم کھو بیٹھی۔۔۔
میری بیٹی کو بیاہ کے لیے میری اجازت درکار نہیں
مگر باپ کی اجازت لازمی ہے۔۔۔
میں دو کام کرتی ہوں، وہ کام سے آتا ہے آرام کرتا ہے
میں کام سے آ کر پھر کام کرتی ہوں اور اسے
سکون فراہم کرنا مرا ہی کام ہے۔۔۔
میں کہ ایک عورت ہوں۔۔۔
مرد کو حق ہے کہ مجھے دیکھیں، مگر غلطی سے اگر
مرد پر مری نگاہ پڑ جائے
تو میں آوارہ اور کثیف خیال کہلاو ں۔۔۔
میں ایک عورت ہوں، اپنے تمام محدود پن کے بعد بھی عورت ہوں۔۔۔
کیا مری پیدائش میں کوئی غلطی تھی؟
یا وہ مقام غلط تھا جہاں میں بڑی ہوئی۔۔۔
میرا جسم، میرا بدن، میرا وجود
ایک اعلٰی لباس والے مرد کی سوچ اور عربی زبان کے چند فقروں کے نام بیع ہے
اپنی کتاب بدل ڈالوں یا سرزمین کے مردوں کی سوچ۔۔۔
یا کمرے کے کونے میں محبوس رہوں۔۔
میں نہیں جانتی
میں نہیں جانتی کہ کیا میں دنیا میں برے مقام پر پیداہوئی ہوں ،
یا برے موقعے پر پیدا ہوئی ہو۔

==ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ==

ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﺮﻣﯿﻢ ﻭ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺭﻗﻢ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﺍُﺱ ﻧﮑﮌ ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﺍ ﺗﺎﺟﺮ , ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻫﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ -
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺎ ﮐﺮﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ۔ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺪﻋﺎ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﭩﭙﭩﺎ ﮔﺌﮯ , ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ: ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﭙﯿﮑﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻫﺮ ﻭﻗﺖ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﻫﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺍﺩﮬﺮﺗﮏ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻫﻮ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠھ ﺳﮯ ﭼﻨﺪﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ .. ؟؟"
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ , ﺻﺎﺣﺐ, ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﯿﻠﺌﮯ , ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺖِ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﯽ ﺍﺷﺪ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ, ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ , ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ ﮔﺎ.
ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻻﺅ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﺪﮦ ﺩﻭﮞ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮎ ﺩﯾﺎ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮎ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﻞ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﮯ" , ﯾﮧ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮨﺎﺗﮫ ﮨﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮐﮭﯿﺌﮯ۔ "
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻟﮕﯽ،، ﮐﮧ ﻓﻮﺭﺍً ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔۔
ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ۔ ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ ..؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ , ﺁﭖ ﺗﯿﻦ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﯾﺪﯾﮟ۔
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ ؟.
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ , ﮨﻤﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ 8 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ۔
ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﮏ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ, ﺁﺝ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﮔﺎ۔۔ !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ , ﺳﻠﯿﻘﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﯿﺰ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺳﻖ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﮨﺪﺍﮨﺖ
ﭘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯽ ﺑﮯ ﺗﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ ﻭ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کرنے کا سلیقہ سیکھو اور اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دو
تم ایک عظیم قوم ہو۔

==20 سال بعد سجدہ کرنے والے انسان کی کہانی :==

رات کے کوئ 2 بج رھے تھے جب کہ اسکی تمام فیملی سو رھی تھی تو وہ اپنے بیڈ سے اٹھ گیا اور ٹی وی لاونج میں بیٹھ کر سی ڈی پلیئر میں بلو پرنٹ موی انسرٹ کردی، اور بلو پربٹ مووی دیکھنے لگا،،،،،جب کہ وہ اس بلو فلم میں مکمل طور پر دنیا سے بے حبر ھوا کہ اچانک دروازہ کھلا اور اسکی بیٹی نے وہ سب دیکھا جو اسکو دکھانا نھی چاھیئے تھا،،،
بیٹئ : شرم آآنی چاھیئے آپ کو ڈیڈی شرم آنی چاھیئے
والد: بب،،،،بی،،،،،،،،بیٹی،،،،،،!!
لیکن وہ کچھ نہ سن کر روتے ھوے اپنے کمرے میں چلی گی،
کچھ وقت وہ حاموش رھا سوچتا رھا اور پھر اسکی آنکھیں آنسو سے تر ھوی،،،، 2 بجے سے آزان تک وہ حاموشی سے روتا رہا، آزان کی آواز سن کر وہ حود بحود وضو بنانے اٹھا اور مسجد چلا گیا،،، فجر کی نماز میں بھی اسکی وھی کنڈیشن رھی، اور تواتر سے روتا رھا، مسجد میں نمازی حیران تھے کہ یہ بندہ آج پہلی بار مسجد میں دکھای دیا ھے اور مسلسل رو رھا ھے تو انھوں نے وجہ دریافت کی،
" بھای جان ،،،!! آپکی طبیعت ٹھیک ھے نہ،،،؟ آپ تو ٹھیک ھوں نہ،،،؟
لیکن اس نے کسی کو جواب نھی دیا،،،،، مسجد میں اسکا کلوز دوست بھی تھا اس نے اس بندے سے پوچھا کہ
" بھای کیا ھوا،،،،!! مجھ سے شیئر کرو،،،!! کوی مسلہ ھے کیا جو اتنا رو رھے ھوں،!
" میرے دوست ،،!!
" 20 سال میں یہ میرا پہلا سجدہ ھے جو میں نے اپنے رب کو کیا ھے،،،!!"
اتنا کہہ کر وہ مسجد سے اٹھا اور گھر میں داحل ھوا،،، لیکن اسکو احساس ھوا کہ گھر میں کچھ مسلہ ھے ،،
گھر میں داحل ھوتے ھی اسکی بیوی اس سے لپٹ گی اور کہا،،،
" ھنی،،،،!! ھماری بیٹی وفات پا گی ھے،،،،!!"
اسکی بیٹی کی وفات اسی رات ھوچکی تھی جیسے ھی اس نے یہ الفاظ سنے تو اسکے کانوں میں "شرم آآنی چاھیئے آپ کو ڈیڈی شرم آنی چاھیئے " اسکے بیٹی کے آخری الفاظ گونجنے لگے، بار بار وھی الفاظ گونج رھے تھے، کیونکہ یہی اسکی بیٹی کے آخری الفاظ تھے،
رات سے دفن تک وہ رو رھا تھا، اپنی بیٹی کے دفن کے وقت جب اپنی بیٹی کو قبر میں لیٹاتے ھوے اپنی بانھوں میں آخری بار لیا تو وہ مسکرایا، وہ ایسا اور اتنی دیر مسکرایا کہ سب لوگوں نے واضح طور پر اسکو مسکراتے ھوے دیکھا،،،،،اسکے جاننے والے کافی حیران ھوے کہ پورے دن سے رونے والا انسان اچانک ایسے مسکرایا کیسے،انھوں نے اس سے پوچھا، " آپ کیوں ایسے مسکراے اگر چہ آپ مسلسل رو رھے تھے،
اس نے جواب دیا،" اپنی بیٹی کو دفن کرنے سے پہلے اس نے میرے دل میں ایمان کا وہ نور ٹرانسفر کیا ھے جو انشاء اللہ روزِ قیامت تک میرے سینے اور دل میں رھے گا،"
اسی وقت سے اسکا ایمان مضبوط ھوتا گیا نماز اور دوسرے اعمال کی کیئر کرتا رھا اور یوں وہ مکمل طور پر چینج ھوا،
اللہ پاک نے اس سے اسکی بیٹی لے لی تھی لیکن " شرم آآنی چاھیئے آپ کو ڈیڈی شرم آنی چاھیئے" کے الفاظ سے اللہ نے بیٹی کے بدلے اسکو اللہ کی پہچان دی۔
معزز قارئین،،،،!! 20 سال سے اس نے اللہ کو یاد تک نھی کیا تھا سجدہ تک نھی کیا تھا،ھم سب کو اللہ سبحان و تعالی نے کافی ٹائم دیا ھے کہ ھم ایمپرو کریں حود کو، بھت نمازیں قضاء کی بھت دوسروں کا حق مارا بھت ملاوٹ کی بھت چوری چکاری چغلی غیبت کی،،، بھت ھوگیا،،، بھت اللہ کی نافرمانی کردی،،، آئیں توبہ کریں،،،، اس سے پہلے کہ وہ ھماری کوی محبوب چیز ھم سے لیں اور ھم کو احساس کرادیں کہ سدھر جاو،،، نھی تو اگلی باری تیری ھے،،،،،،،
اللہ پاک آپ کو پڑھنے کا اجر دیں،،،،،،،!! —
اور نیک عمل کرنے کی توفیق۔

==دیکھ کر نہیں چل سکتے اندھے ہو کیا==

ارسلان زور سے دھاڑا۔ ہسپتال کے گیٹ سے نکلتے وقت اپنی پریشانی میں مگن وہ میلے کچیلے لباس میں ملبوس ایک نوجوان سے ٹکرا گیا تھا۔ ایک تو سیاہ رنگت جو ارسلان کو ویسے ہی سخت نا پسند تھی اوپر سے اس کا لباس؛ لگ رہا تھا کہ وہ کسی گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ اتنے بڑے ہسپتال میں بھی آ دھمکتے ہیں دو ٹکے کے یہ لوگ۔ ارے بابا جاؤ کسی سرکاری ہسپتال میں یہاں علاج کروانے والا تھوبڑا ہے کیا تمہارا؟ وہیں کھڑے کھڑے ارسلان نے اس نوجوان کو کھری کھری سنا دیں۔
اماں کے دل کی سرجری ہوئی تھی۔ کسی پیچیدگی کی وجہ سے خون زیادہ بہہ گیا تھا اور اب خون درکار تھا۔ ڈاکٹرز نے چند گھنٹوں کا وقت دیا تھا کہ اگر خون کا بندوبست ہو جائے تو جان بچ سکتی ہے۔ بدقسمتی سے اب پتہ نہیں اماں کا خون گروپ ایسا نایاب تھا یا ہسپتال کے پاس سٹاک نہیں تھا بہرحال خون ہسپتال سے دستیاب نہیں ہوا۔ اچانک اسے اماں کی حالت یاد آئی تو وہ سب کچھ بھول بھال کر پھر باہر کی طرف دوڑا۔ تمام رشتہ داروں ، دوستوں اور احباب کو خون کے لیے کہا تھا مگر عین وقت پر کسی کو کوئی بیماری نکل آئی تو کسی میں خون کم پڑ گیا۔ کوئی شہر سے باہر چلا گیا تو کوئی شہر میں ہوتے ہوئے بھی غائب ہو گیا۔ اب وہ قریب ہی واقع شہر کے سب سے بڑے بلڈ بینک کی طرف جا رہا تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ وہاں سے تو خون مل ہی جائے گا۔ مگر وہاں پہنچنے پر بھی اسے انکار کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ اماں کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف اسکی بیوی تھی۔ ارسلان: اماں کی حالت بگڑ رہی ہے تم کہاں ہو؟
کیا جواب دیتا وہ۔ اچانک اسے اپنے ماموں کا خیال آیا۔ اماں کا اور انکا خون گروپ ایک ہی تھا۔ لیکن پچھلے دس سال سے ان کی اوراماں کی بول چال نہیں تھی۔ ارسلان نے سوچا شائد بہن کی حالت کا سن کر بھائی کا دل نرم پڑ جائے۔ ساتھ ہی اس نے ماموں کا نمبر ڈائل کیا، ایک دو دفعہ گھنٹی بجنے کے بعد دوسری طرف سے ماموں کی آواز آئی۔ ارے ارسلان بیٹا: خلاف توقع ماموں کا لہجہ نہایت نرم تھا۔ کیا ہوا بیٹے خیر تو ہے ناں؟ ارسلان نے ساری بات بتا دی۔ ماموں بولے تم فکر نہ کرو بیٹے میں اپنے بیٹے کو ابھی بھیجتا ہوں اسکا بھی یہی خون گروپ ہے۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو گا۔ اس نے فون بند کیا اور ہسپتال کی طرف واپس چل پڑا۔ ابھی آدھے راستے میں ہی تھا کہ اسکی بیوی کا فون پھر آ گیا۔ یا اللہ خیر ارسلان کے دل سے دعا نکلی۔ اسکی بیوی کہہ رہی تھی کہ خون کا بندوبست ہو گیا ہے۔ تم آ جاؤ جلدی سے۔
ماموں کا لڑکا پہنچ گیا ہو گا اس نے سوچا اور تشکر سے اسکی آنکھیں بھیگ گئں۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے تپتے صحرا میں ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہوں۔ من کر رہا تھا اس فرشتہ صفت کے پاؤں میں بیٹھ جائے۔ دل ہی دل میں وہ ماموں کا مشکور ہو رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ یہ ماموں تھے۔ فون کان سے لگاتے ہی اس نے ماموں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے خون کا بندوبست کر دیا تھا۔ دوسری طرف سے ماموں حیران ہو کر بولے نہیں بیٹا میں نے تو تمہیں اس لیے فون کیا تھا کہ میرے لڑکے نے ابھی ایک مہینہ پہلے ہی کسی کو خون دیا ہے اس لیے وہ نہیں آ سکے گا۔ بہرحال خوشی کی بات ہے اگر خون کا بندوبست ہو گیا ہے تو۔ ہم شام کو چکر لگائیں گے۔ یا اللہ پھر یہ فرشتہ کون ہے۔ انہی سوچوں میں گم وہ ہسپتال پہنچ گیا۔ آتے ہی سب سے پہلے خون عطیہ کرنے والے کمرے میں گیا۔ وہاں موجود عملے سے اس نے پوچھا اماں کو خون دینے والے صاحب کہاں ہیں۔ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے ایک بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔
جونہی ارسلان کی نظر اس بیڈ پر پڑی وہ سن ہو کر رہ گیا۔ اس کی ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہ رہی۔ یہ وہی میلے کچیلے لباس میں ملبوس سیاہ رنگت والا دو ٹکے کا نوجوان تھا۔ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ وہ اسکی طرف بڑھا۔
تم۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔ ۔ ۔ کس نے تمہیں۔ ۔ ۔ ۔ بے ربط سے الفاظ اسکے مونہہ سے نکلنے لگے۔ اس نوجوان نے اسے بتایا کہ ارسلان کا کوئی دوست اس کے پاس اپنی گاڑی ٹھیک کروا رہا تھا جب ارسلان نے اپنے اس دوست کو خون کے لیے فون کیا تھا۔ وہ دوست تو تیار نہیں تھا لیکن میرا یہی خون گروپ تھا اس لیے میں آ گیا۔ صاحب اپنے پاس بہت خون ہے مسکراتے ہوئے اس نوجوان نے ارسلان سے کہا۔ ارسلان نے اس کے ہاتھوں کا تھام لیا۔ اس کے کپڑوں میں سے آنے والی ڈیزل کی بو اسے ایسے لگ رہی تھی کہ جیسے مشک و کافور ہو۔ اس کی سیاہ رنگت پرساری دنیا کی سفیدیاں قربان کرنے کا من کر رہا تھا۔ فرط جذبات میں ارسلان اس سے بولا:
"جانتے ہو میری ماں کو خون دینے سے بڑا احسان کیا کیا ہے تم نے مجھ پر؟ تم نے مجھے آج یہ سکھا دیا ہے کہ میں اگر بادلوں پر بھی سواری شروع کر دوں تو بھی زمین کا ایک ذرہ بھی میرے لیے حقیر نہیں ہے۔ کہ سیاہ رنگتوں کے پیچھے شیشے کی طرح صاف دل ہوسکتے ہیں۔ کہ بدبودار لباس کے پیچھے خوشبودار بدن ہو سکتے ہیں۔"

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...