Wednesday, 10 February 2016

سیریل قاتل

جنسی جذبوں کی داستان پر مشتمل ایک منفرد ناول
(تحریر: ایمائل زین ۔۔۔۔۔ اردو کہانی کے لیے خصوصی تحریر)

صارم اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کے سامنے شام کا ایک گھٹیا اخبار پڑھا تھا جسےوہ وقت گزاری کے لیے پڑھ رہا تھا۔ شام کے اکثر اخبارات کی گھٹیا خبریں اُسے لطیفے سے کم نہیں لگتی تھیں اور وہ اُنھیں دلچسپی کی خاطر پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی توجہ کا مرکز ایسی ہی ایک خبر تھی۔ خبر کے مطابق:
"شہر کے مضافاتی علاقے سے ایک نوجوان شخص بری حالت میں ملا جس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ ڈاکٹروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس کو ایک سے زائد لڑکیوں نے کئی دن تک مسلسل جنسی فعل کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نوجوان کو فوری طبی امداد دی گئی لیکن وہ اندرونی و بیرونی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔"
صارم نے مزے لے لے کر یہ خبر کئی بار پڑھی اور زیرِ لب مسکرایا۔ اُس نے سوچا، ایسی لڑکیاں مجھے کیوں نہیں ملتیں جو میری آگ بجھاسکیں۔ پھر اُس نے اپنے اس خیال پر زوردار قہقہہ لگایا اور اخبار تہ کرکے رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔
صارم مقامی پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ اُس کا جسم کسرتی اور بھرپور تھا۔ اُسے پولیس میں بھرتی ہوئے بہ مشکل ایک سال کا عرصہ گزرا تھا لیکن اُس نے علاقے میں اپنی جان پہچان بنالی تھی۔ اُس کی عادت تھی کہ وہ لوگوں میں گھل مل جاتا، ہنسی مذاق کرتا اور بوڑھوں کا خیال رکھتا۔ اسی لیے اُس کے علاقے کے لوگ اُسے پسند کرتے تھے۔ اکثر جب کوئی شخص اُس کی تعریف کرتا تو وہ ہنس کر کہتا: "ارے کیا خاک اچھا ہوں میں۔ اتنا اچھا ہوتا تو آج تک کنوارا نہ ہوتا۔"
۔۔۔۔۔
نادر رکشہ چلاتا تھا۔ اُس کی شادی کو ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا لیکن محبت کا خمار تھا کہ اُترنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اُس کی بیوی، ناہیدہ ایک سیدھی سادی، کم تعلیم یافتہ مگر خوب صورت عورت تھی۔ سہاگ رات کو جب نادر نے اُس کے جسم سے کپڑے کا ایک ایک تار دور کردیا، تو اُسے لگا جیسے اُسے دنیا ہی میں حور مل گئی ہے۔ لمبے بال، صاف رنگت، پتلی کمر اور سینہ اتنا اُبھرا ہوا کہ ہوش گم ہوجائیں۔ شادی کی پہلی رات جب تک نادر تھک کر چور نہیں ہوگیا، اُس نے ناہیدہ کو ذرا بھی دم لینے نہیں دیا۔ کبھی اوپر، کبھی نیچے، کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف۔ اگلی صبح ناہیدہ کے کنوارے جسم کا انگ انگ اُس کے عورت بن جانے کی گواہی دے رہا تھا۔
نادر کا جی چاہتا تھا کہ وہ سب کام چھوڑ دے اور چوبیس گھنٹے اپنی بیوی کے ساتھ رہے۔ وہ گھر سے نکلتے وقت ناہیدہ پر آخری نظر ڈالتا تو ناہیدہ کا سینہ اُسے دعوت دیتا نظر آتا اور اُس کا جی چاہتا کہ وہ گھر ہی میں رہے۔ وہ سواریوں کے انتظار میں کھڑا ہوتا تو آتے جاتے ہر لڑکی کے سراپے میں ناہیدہ تلاش کرتا۔ ہر خوب صورت لڑکی کو دیکھ کر اُسے ناہیدہ یاد آتی اور اُس کے جسم میں ہلچل پیدا ہوجاتی۔
جولائی کا مہینہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ نادر سواری کا انتظار کرتے ہوئے ناہیدہ کے خیالات میں گم ہوچکا تھا کہ ایک نسوانی آواز اُس کو خیالات کی دنیا سے باہر لے آئی۔
"نور آباد جاؤگے؟"
دو خوب صورت لڑکیاں ہاتھوں میں بھاری تھیلے لیے جواب کی منتظر تھیں۔ نادر نے فوراً ہاں کردی۔ مناسب کرایہ طے ہوگیا۔ تمام راستے نادر آئینے کی مدد سے اپنی دونوں سواریوں کا کڑی نظروں سے جائزہ لیتا رہا۔ دونوں لڑکیوں کی عمر 25 سال کے لگ بھگ تھی۔ لباس کی تراش خراش سے اونچے گھر کی لگتی تھیں۔ ایک نے ڈھیلا ڈھالا چھوٹا سا کرتا اور چست جینز پہن رکھی تھی جب کہ دوسری نے کھلے گریبان کی چست قمیص اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ پسینے میں بھیگی ہوئی ہونے کی وجہ سے دونوں کے باریک کپڑے اُن کے جسم سے چپکے ہوئے تھے اور زیر جامے واضح دکھائی دیتے تھے۔ نادر کی نگاہوں میں ناہیدہ کا جسم پھرنے لگا۔ وہ واحد نسوانی جسم جسے نادر نے ہر ہر زاویے سے مکمل طور پر دیکھا اور جانچا تھا۔
ان ہی خیالات میں منزل آگئی۔ لڑکیوں نے اُتر کر کرایہ ادا کیا۔ ایک لڑکی بولی:
"مہربانی کرکے یہ سامان اندر رکھوادیں۔ کافی وزنی ہے۔"
نادر نے اُٹھ کر تھیلے اُٹھائے اور لڑکیوں کے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔ ایک کمرے میں اُس نے تھیلے رکھ دیے اور واپس جانے کے لیے مڑا۔
"بہت بہت شکریہ۔ باہر گرمی بہت ہے۔ میں آپ کو ٹھنڈا شربت پلاتی ہوں۔"
چست قمیص والی نے کہا۔ نادر نے شکریہ ادا کرکے جانا بھی چاہا لیکن اُس لڑکی نے اصرار کرکے روک لیا۔ نادر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ لڑکی کمرے سے جانے کے لیے مڑی تو نادر کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ لان کی باریک قمیص سے جھانکتا ہوا سیاہ بریزر اور ہلتے ہوئے بڑے بڑے کولہوں نے نادر کے لیے درجہ حرارت مزید بڑھادیا اور اُس کے ہونٹ خشک ہونے لگے۔ اُس نے کسی پیاسے مسافر کی طرح اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ اُس لڑکی نے آنے میں دیر نہیں کی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ واپس لوٹی تو اُس کے ہاتھ میں شربت سے بھرا گلاس تھا۔ شاید گرمی کی وجہ سے اُس نے دوپٹا اتار پھینکا تھا اور اُس کی چست قمیص کو پھاڑنے کے لیے چھاتیاں بے چین نظر آرہی تھیں۔ نادر نے خود پر قابو پاتے ہوئے گلاس لیا اور جلدی جلدی گھونٹ بھرنے لگے۔ لڑکی اُس کے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ شربت ختم کرکے نادر جیسے ہی واپس جانے کے لیے اُٹھا اُسے شدید چکر آیا۔ اُس نے کرسی کا ہتھا پکڑکر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور فرش پر گرپڑا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
۔۔۔۔۔
اُن کے سامنے اپنا شکار بے ہوش پڑا تھا۔ اگرچہ اُن کا ارادہ آج شکار کرنے کا نہیں تھا لیکن خریداری سے واپسی پر رکشے والے کی نگاہوں نے اُنھیں خیال دلایا کہ کیوں نہ اسے ہی پھانسا جائے۔ رومانہ نے اُسے شربت میں نشہ آور دوا ملاکر پلادی تھی اور وہ بے چارا جو پہلے ہی نوجوان جسموں کے حسن میں مدہوش ہورہا تھا، ہوش سے بالکل ہی ہاتھ دھوبیٹھا۔
رومانہ اور صوفیہ نے ایک نظر رکشہ ڈرائیور پر ڈالی اور فیصلہ کیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں۔ رومانہ آگے بڑھی اور اُس کے کپڑے اُتارنے لگی۔ اُس کی بے تابی دیکھ کر صوفیہ مسکرائی اور ثنا کو فون کرنے لگی۔ عیاشی کا وقت قریب آپہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔
نادر کی آنکھیں کھلیں تو کمرے میں نیم تاریکی کا سماں تھا۔ ایک کونے میں لگا زیرو بلب کمرے میں روشنی کا واحد منبع تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کون سی جگہ ہے او ر کیا وقت ہوا ہے۔ اچانک اُسے عجیب سا احساس ہوا۔ اُس نے اپنے بدن کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل برہنہ تھا۔ اُس کے ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے اور ٹانگوں کو بھی سختی سے باندھا گیا تھا۔اُس نے ذہن پر زور دیا۔ اُسے آہستہ آہستہ تمام واقعہ یاد آنے لگا۔ "کیا مجھے ان لڑکیوں نے اغوا کرلیا ہے؟ کیا تاوان طلب کیا جائے گا؟ کیا میں نے کوئی جرم کیا تھا؟ کیا میرا ریپ کیا جائے گا؟" نادر کو جھرجھری آگئی۔
"کوئی ہے؟؟؟" وہ چلایا۔
اچانک دروازہ کھلا اور کمرہ دل آویز خوش بو سے مہک اُٹھا۔ نادر کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ دوپہر کی مسافر لڑکیوں میں سے ایک لڑکی اُس کے سامنے لباسِ شب خوابی میں کھڑی تھی۔ اُس لباس میں وہ نیم برہنہ ہی تھی۔
"رومانہ، ثنا۔۔۔ دیکھو، ہمارے شکار کو ہوش آگیا ہے۔" لڑکی نے مسکراتے ہوئے آواز لگائی۔
پھر وہ لڑکی قریب آگئی۔۔۔ اتنا قریب کہ اُس کی سانسوں کی گرمی نادر کو محسوس ہونے لگی۔ لڑکی کی تیز نگاہیں نادر کے جسم کے اُن اعضا پر جمی تھیں جنھیں وہ چھپانا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنے آپ میں سمٹنے کی ناکام کوشش کی۔ اور پھر دروازے پر دو لڑکیاں نظر آئیں۔ ایک لڑکی نے چست شرٹ اور جینز پہنی ہوئی تھی جب کہ دوسری نے جسم کو ڈھکنے کے لیے کپڑوں کے دو چیتھڑوں سے زیادہ زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ بلاشبہ تینوں لڑکیاں حسن و جمال میں بے مثال تھیں۔ کچھ لمحات کے لیے نادر اپنا خوف کی سردی بھول کر حسن کی گرمی محسوس کرنے لگا۔ تینوں لڑکیوں کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ رومانہ آگے بڑھی اور نادر کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کا ہاتھ رفتہ رفتہ نیچے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ اب اُس کی ناف تک پہنچ چکی تھی۔ نادر کو گدگدیاں محسوس ہونے لگیں۔ وہ خوف اور لذت کے درمیان تلوار پر لٹکا ہوا تھا۔ پھر اچانک رومانہ نے نادر کا خاص عضو پکڑلیا۔ نادر کے منہ سے ایک سسکاری نکلی اور اس کے ساتھ ہی اُس کی کمر پر صوفیہ نے زوردار لات رسید کی۔ وہ درد سے کراہ اُٹھا۔ تینوں مسکرانے لگیں۔
"نہیں میری جان، مزا لینے کا حق صرف ہمیں ہے۔ تمھیں تو بس درد برداشت کرنا ہے۔" صوفیہ نے دل ربا ادا سے کہا لیکن اُس کے تیور خوف ناک تھے جن کا عکس نادر کی آنکھوں میں واضح دکھائی دے رہا تھا۔
ثنا قریب آئی اور اُس نے اپنے جسم کی اوپری دھجی اتار پھینکی۔ نادر کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ ثنا کی بھاری چھاتیاں تمام تر صورتِ حال بھلاکر اُس کے جذبات جگانے لگیں۔ بلاشبہ وہ جنسی حسن سے بھرپور لڑکی تھی۔ ثنا نے اُس کا سر پکڑ کر اپنے سینے پر دبادیا۔
"چوسو اسے۔" ثنا نے کہا اور نادر چھوٹے بچوں کی طرح چوسنے لگا۔ اچانک اُس کے ہونٹوں کی گرفت چھاتیوں سے ڈھیلی پڑنے لگی۔ اُسے لگا کہ وہ فارغ ہونے والا ہے۔ رومانہ اُس کے عضو کو منہ میں لیے لالی پاپ کی طرح چوسے جارہی تھی۔ نادر نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کیفیت کا بھرپور مزا لینا چاہا۔ لیکن اگلے ہی پل صوفیہ نے اس کے بال کھینچے اور اپنے ناخن اس کے شانے میں گھسادیے۔ درد کی ایک لہر سے وہ جھٹکا کھاکر رہ گیا اور اُس کا جنسی جوش اچانک ہوا ہونے لگا۔ رومانہ بے خبر نہیں تھی۔ اُس نے اس ادا سے عضوِ خاص کی پذیرائی کی کہ وہ ڈھیلا نہ پڑا اور پھر طوفان بہ نکلا۔ کچھ قطرے رومانہ کے منہ پر پڑے جس کا بدلہ اُس نے اس طرح لیا کہ باقی تمام مادہ اپنے ہاتھ میں لے کر نادر کے منہ پر مل دیا۔ کراہیت سے اُس کو قے آتے آتے رہ گئی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس کا منہ ثنا کی چھاتیوں پر نہیں رہا۔ ثنا نے اُس کے بال پکڑے اور ایک بار پھر اس کے منہ میں اپنی دائی چھاتی پھنسادی۔ صوفیہ اب اُس کی ٹانگوں کے پاس آچکی تھی اور اس کی رانوں کو سہلارہی تھی۔ رومانہ نے اپنا لباسِ شب خوابی اُتار دیا۔ اُس کا جسم سانولا تھا لیکن چھاتیوں اور کولہوں کی گولائی غضب کی تھی۔ کوئی دوسرا موقع ہوتا تو نادر اس قیامت جسم کو دیکھ کر ہوش گنوا بیٹھا ہوتا لیکن اس وقت تو اُس کے ہوش پہلے ہی ٹھکانے پر نہیں تھی۔ اُسے اجنبی جگہ سے خوف تھا، اجنبی لڑکیوں کا ڈر تھا، اپنے انجام کی فکر تھی، اور چہرے پر لگی غلاظت سے کراہیت ہورہی تھی۔ اس صورتِ حال میں اُس سے کچھ بھی سوچا نہیں جارہا تھا۔
صوفیہ نے اپنی شرٹ اتاری اور عضوِ نازک منہ میں لے کر پہلے ہی لمحے میں چوسنے کے ساتھ ساتھ دانتوں سے ہلکا سا کاٹ ڈالا۔ نادر چیخ کر رہ گیا۔ اُسے شدید درد ہونے لگا۔ رومانہ اُٹھی اور ثنا کے جسم سے لباس کی دوسری دھجی بھی الگ کرنے لگی۔ اب صرف رومانہ تھی جس کے جسم پر پینٹ باقی تھی۔ وہ اوندھی لیٹ گئی اور نادر کا جسم سہلانے لگی۔ صوفیہ اُس کے پاس آئی اور آہستہ سے اُس کی پینٹ بھی اُتار دی۔ اب کمرے میں عریانیت کا راج تھا۔ چار برہنہ جسم مدہوش تھے، نشے میں اور درد میں۔
نادر کے خاص عضو میں ایک بار پھر جان پڑنے لگی۔ اگرچہ نادر کو کافی کم زوری محسوس ہورہی تھی۔ اُس نے پچھلے دنوں کئی بار اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی تھی۔ اُس میں سکت نہیں تھی اور درد کا احساس الگ۔ رومانہ کبھی اُسے ایک لات رسید کرتی تو کبھی اُس کے بال پکڑ کر کھینچ ڈالتی۔ صوفیہ اُس کی ٹانگوں کے اوپر آکر بیٹھ گئی اور اُس کا عضو اپنے اندامِ نہانی میں ڈالنے لگی۔ نادر کو کپکپی چڑھنے کا احساس ہورہا تھا۔ اُس کا عضو صوفیہ کے جسم میں ذرا سا داخل ہوا اور پھر اچانک صوفیہ پورا بیٹھ گئی۔ دھپ کی آواز سے عضوِ خاص نے صوفیہ کی دنیا سے وصل کیا۔ صوفیہ کی ہلکی سی چیخ اور نادر کی سسکاری سنائی دی۔ رومانہ اب صوفیہ کے سامنے آکر ایسے کھڑی ہوگئی کہ اُس کا منہ عین رومانہ کی ٹانگوں کے بیچ میں آباد جنگل پر تھا۔ صوفیہ اپنی زبان سے اُس جنگل کو سیراب کرنے لگی اور آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہوتے ہوئے نادر کا عضو اندر باہر کرنے لگی۔ ثنا اب نادر کو مجبور کررہی تھی کہ وہ اس کی چھاتیاں منہ میں لیے رکھے۔ وہ عجیب مشکل میں تھا۔ ایک ساتھ تین لڑکیوں کو سنبھالنے کا اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور اب اُسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کس کی طرف توجہ کرے۔
صوفیہ نے اُس کے اوپر اُچھلنے کی رفتار تیز کردی تھی اور اچانک نادر کے منہ سے 'آہ آہ' کی آوازیں نکلنے لگیں۔ صوفیہ فوراً اُس کے اوپر سے ہٹ گئی۔ شاید اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب نادر کسی بھی وقت فارغ ہوسکتا ہے۔ ثنا نے اپنے ناخن اُس کے جسم میں کھبودیے اور صوفیہ اُس کے عضو کو اپنی مٹھی میں لے کر زور سے مسلنے لگی جب کہ اُس کا منہ اب تک رومانہ کے جنگل ہی پر تھا۔ اور نادر ایک بار پھر چھوٹ گیا۔ اُس نے اس خیال سے آنکھیں بند کرلیں کہ دوبارہ اُس کا منہ گندا کیا جائے گا۔ اب کی بار صوفیہ نے سارا مادہ اُٹھاکر اُس کی کمر پر مل دیا۔ نادر کو مزید الجھن ہونے لگی۔
اب رومانہ نے صوفیہ کی جگہ سنبھال لی۔ وہ نادر کی ٹانگوں پر آبیٹھی اور اُس کے عضو کو سہلانے لگی۔ وہ کسی مردہ کی طرح لڑھکا پڑا تھا۔ ثنا نے نادر کے سینے پر پاؤں رکھا اور صوفیہ کے ساتھ ہم آغوش ہوگئی۔ کافی محنت کے بعد عضوِ خاص میں زندگی کی رمق نظر آئی اور رومانہ نے ذرا سی بھی دیر کیے بغیر اُسے اپنے اندر داخل کرلیا۔ اُس کی اچھل کود کی وجہ سے کمرے میں پچ پچ کی آواز گونج رہی تھی اور اُس کی چھاتیاں کسی گیند کی طرح ہل رہی تھیں۔ دس منٹ بعد نادر کو محسوس ہوا کہ وہ ایک بار پھر فارغ ہونے لگا ہے لیکن اب اُسے چکر آرہے تھے اور اُس کی ٹانگوں سے جان نکلی جارہی تھی۔ اُس کی سسکاریوں کے باوجود رومانہ اُس سے الگ نہ ہوئی اور وہ اُس کی اندامِ نہانی ہی میں چھوٹ گیا۔ فارغ ہوتے ہی اُسے شدید چکر آئے، اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور پھر اُسے کوئی ہوش نہ رہا۔

جاری ہے۔۔۔

نازک گڑیا


ارسلان رات کو بستر پر لیٹا تو شدید تھکن کے باوجود اُسے نیند میں جانا خاصا دشوار محسوس ہوا۔ اُس کی آنکھوں میں بار بار وہی ایک منظر گھومتا رہا جس نے اُس کے دل و دماغ میں ہلچل مچارکھی تھی۔ کوئی شخص غیر متوقع طور پر اچانک آپ کے قریب اور بہت قریب آجائے تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات اور احساسات آپ کے قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں۔
اُس رات اُس کی کزن کی شادی ہوئی تھی۔ رخصتی کے بعد جب واپسی کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ بھی ہائی۔روف کے پاس آکر کھڑا ہوگیا جس میں اُسے گھر جانا تھا۔ ہائی روف کی سب سے پچھلی کھڑکی کی طرف اُس کی ایک چھوٹی کزن نمرا بیٹھی تھی جو نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ اُس نے اشارے سے پاس بلایا۔ ارسلان اُس کے پاس گیا تو نمرا اُس کے کانوں کے پاس آکر بولی کہ آج بہت اچھے لگ رہے ہو اور پھر فوراً اُس کے گال چوم لیے۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ارسلان اُس وقت تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ یہ سب کیا ہوگیا۔ لیکن جب اُس رات وہ بستر پر سونے لیٹا تو اُسے یہی منظر ستاتا رہا، اُس کے دل میں جذبات اور خواہشات کا سمندر ابلنے لگا۔
نمرا کا گھر ارسلان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ کئی دن بعد کسی کام سے اُس کا جانا نمرا کے گھر ہوا تو گھر میں صرف نمرا اور اُس کی امی یعنی ارسلان کی خالہ ہی تھیں۔ خالہ باورچی خانے میں کام کررہی تھیں تو ارسلان نے تھوڑی دیر کے لیے دوسرے کمرے میں جاکر کمپیوٹر کھول لیا۔ تھوڑی دیر بعد نمرا آئی اور اُس کا ہاتھ تھام کر اپنا سر اُس کے کاندھے پر رکھا اور اُس کے پاس بیٹھ گئی۔ ارسلان کے جذبات ایک بار پھر قابو سے باہر ہونے لگے۔ اُس نے نمرا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرائی اور اُس نے اپنے ہونٹ ارسلان کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ دنیا کے سارے ذائقے ہونٹوں کے ملاپ کے مقام پر جمع ہونے لگے، مدہوشی چھانے لگی، فضا میں رنگ بھر گئے؛ لیکن خالہ جان گھر ہی میں تھیں۔ اُنھیں لمحے بھر کا لطف لینے کے بعد الگ ہونا پڑا۔ دل میں جذبات کا ایک طوفان تھا جسے سنبھالنا پڑا۔ ارسلان وہاں سے اُٹھ گیا اور خالہ کےگھر سے اُسے جو سامان لینا تھا وہ لے کر اپنے چلا آیا۔ گرمی کے بہانے اُس نے نہانے کے لیے غسل خانے کا رُخ کیا اور پھر۔۔۔ وہ طوفان ایک ریلے کی صورت میں بہادیا۔
لیکن وہ آگ جو ایک بوسے سے جل اُٹھی تھی وہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ گال پر بوسے نے اگر چنگاری لگائی تھی تو ہونٹوں پر بوسے نے ایک الاؤ روشن کردیا تھا۔ سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، وہی ایک خیال تھا۔ زندگی کی تمام تر خواہشات اُس ایک مرکز کے گرد دائرے میں گھومنے لگیں، خیالات سکڑگئے، سارے رنگ اور رعنائیاں نمرا تک محدود ہوگئے۔
ایک دن نمرا کے گھر والے ارسلان کے گھر آئے ہوئے تھے۔ نمرا کے امتحانات ہونے والے تھے، شاید اسی لیے وہ تیاری کی خاطر اپنے گھر پر ہی رُک گئی۔ ارسلان کے ذہن میں یک دم ایک خیال کوندا۔ اُسے محسوس ہوا کہ اس سے بہتر موقع اُسے اتنی آسانی سے نہیں مل سکے گا۔ وہ گھر میں دوست سے ملنے کا بہانا کرکے نمرا کے گھر کی طرف ہولیا۔ نمرا اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
’’آپ؟ یہاں کیسے؟‘‘ نمرہ نے متحیر انداز میں پوچھا۔
’’اپنی گڑیا کے لیے آیا ہوں۔‘‘ ارسلان نے رومانوی انداز میں جواب دیا۔
ارسلان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اُس نے نمرا کو پانی لانے کا کہا اور خود ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھ گیا۔ پانی پلانے کے بعد نمرا جب گلاس رکھ کر آئی تواس سے پہلے کہ وہ ارسلان کے برابر میں صوفے پر بیٹھتی، اُس نے نمرا کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی گود میں بٹھالیا۔ اُس نازک سی گڑیا کا وزن برداشت کرنا اُس کے لیے مشکل نہ تھا۔ دو جسم جیسے یک جان ہوگئے۔ دھڑکنوں کی رفتار تیز ہوگئی، دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں ایسے بھینچا ہوا تھا کہ سینے کے اُبھار محسوس ہورہے تھے۔ کچھ وقت تو ہونٹوں کے وصل ہی میں گزرگیا۔ گیلے ہونٹ تشنگی بجھانے سے قاصر تھے، آگ ٹھنڈی کرنے میں ناکام تھے۔ ارسلان نے تھوڑی جھجک کے بعد اپنے ہاتھوں سے نمرا کا جسم ٹٹولنا شروع کیا۔ دل کے قریب پہنچ کر جیسے آگے بڑھنے کا جی ہی نہیں کیا۔ اُس کی انگلیاں پستان کے گرد دائرہ بنانے لگیں۔ نمرا کو سب کچھ یاد تھا مگر کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ وہ روکنا چاہتی بھی تھی اور نہیں بھی۔ لیکن جب ارسلان نے آگے بڑھنے میں دیر کی تو نمرا نے خود ہی اپنی قمیص اُتارکر اُس کے مدہوش ہونے کا سامان پیدا کردیا۔ ارسلان کی آنکھیں حسن سے خیرہ ہونے لگیں۔ چھوٹا سا بریزر (Brassiere) نمرا کے سینے پر دو رس بھرے پھلوں کو چھپانے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا۔ ارسلان نے اُس پر بوسوں کی بارش کردی۔ وہ اُسے چومتا رہا اور نمرا کے پاس جیسے الفاظ ہی نہیں رہے، اُس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ دنیا کی کسی زبان کی لغت میں نہیں ملتے۔ وہ محبت کی زبان تھی، بے قابو جذبات کے بہاؤ کی زبان۔ اُسے بس وہی انسان سمجھ سکتا تھا جس کی گود میں وہ سوار تھی، جس کی آغوش میں اُس کا جسم پھڑک رہا تھا۔ ارسلان کا ہاتھ اُس کی کمر پر پہنچا اور بریزر کا کانٹا (hook) کھول دیا۔ بے قابو ہوتی پستانوں (breasts) کو آزادی مل گئی، بریزر ڈھیلا پڑگیا۔ نمرا کے جسم کو چومتے چومتے ارسلان کے ہونٹ اُن دو پھلوں کی طرف آگئے جسے آج تک کسی نے نہیں چکھا تھا۔ چھوٹی سی چونچ (nipple) پر ارسلان کے ہونٹ محسوس ہوئے تو نمرا نے ایک سسکار بھری اور پھر ارسلان کا نام پکارنے لگی۔
ارسلان نے اُسے صوفے پر بٹھادیا اور اپنی شرٹ اُتارکر اُس کی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا۔ نمرا بے خودی کے عالم میں مدہوش آنکھوں سے سب کچھ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے یہ کسی فلم کا منظر ہو۔ ارسلان نے اُس کی شلوار نیچے کرنا شروع کی تو اُس نے بے جان سے مزاحمت کی۔ ایسی مزاحمت جس کا پیغام تھا کہ دیکھو، میں لاکھ منع کروں لیکن تم کرگزرو، مجھے برہنہ کردو، میرے حسن سے اپنی آنکھیں بھرلو! اور ارسلان نے ایسا ہی کیا۔
نمرا صوفے پر برہنہ حالت میں گری ہوئی تھی۔ اس کی ٹیک صوفے پر لگی تھی اور ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں۔ کھلے ہوئے بال اُس کے کاندھوں پر بکھرے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسی کوئی دودھ سے دُھلی پری آسمان سے صوفے پر آگری ہو۔ نہ جانے کتنی دیر تک ارسلان اُس کے جسم پر اپنے ہونٹوں کے سجدے سجاتا رہا اور اُس کا ہاتھ نمرا کے سینے پر موجود دو پھلوں کو نچوڑ نچوڑ کر اُن سے وہ رَس نکالنے کی کوشش کرتا رہا جو شاید اب تک اُن میں بھرا ہی نہیں تھا۔
نمرا نے اپنے لرزتے ہاتھ ارسلان کی پینٹ پر رکھے تو اُس نے جھٹ سے پینٹ اُتار دی۔ اُس کا آلہ اُس کے زیر جامہ (underwear) سے نکلنے کے لیے کچوکے ماررہا تھا۔ اُس نے نمرا کو صرف ایک بار چومنے کی مہلت ہی دی اور پھر وہ آخری پردہ بھی گرادیا۔ دو جسم فطری لباس میں ایک دوسرے کے قریب موجود تھے۔۔۔ بے حد قریب! ایک دوسرے میں سماجانے کی جدوجہد کرتے ہوئے۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرے۔ کسی بھی وقت نمرا کے گھر والے واپس آسکتے تھے۔
نمرا کی ٹانگوں کے بیچ میں چھوٹا سا باغ آباد تھا۔ ارسلان کے پے در پے بوسوں نے جلد ہی اس باغ کو گیلا کردیا۔ نمرا نے اُس کی گردن کے گرد اپنے ہاتھوں کا گھیرا ڈالا تو اُس نے بے اختیار ہوکر اُسے اپنی گود میں اُٹھالیا اور ہونٹوں کو چومتا ہوا غسل خانے کی طرف بڑھ گیا۔ شاور کے نیچے کھڑے ہوکر اُس نے نمرا کو سینے سے لگالیا اور شاور کھول دیا۔ پانی دونوں کے جسم کو چھوکر بہنے لگا تو دونوں جسم جیسے سورج کی طرح چمکنے لگے۔ ارسلان کا ایک ہاتھ اُس کے آلے کے ساتھ زور آزمائی کرنے لگا یہاں تک کہ اُس کے جذبات کا ریلا پانی کے ساتھ بہہ نکلا۔
اُن دو پریمیوں کا بس چلتا تو وہ ساری زندگی قربت کے ان ہی لمحات میں گزار دیتے لیکن وقت جیسے جیسے گزرتا گیا اُن کے قربت کا موقع سمٹتا چلا گیا۔بڑی مشکل سے دونوں نے ایک دوسرے کو خود سے علاحدہ کیا اور ایک دوسرے کو کپڑے پہنانے میں مدد دی۔ ارسلان نے دروازے پر پہنچ کر نمرا کو اپنی بانہوں میں بھرکر ایک بھرپور بوسا دیا اور اگلی بار محبت کا مزید لطف دینے کا وعدہ کرکے گھر لوٹ آیا۔

**وہ تیرا میرا ملنا**


سدرہ جس طرح اُس کی زندگی سے اچانک گئی تھی، اُسی طرح اچانک واپس چلی آئی۔ وہ دونوں اسکول میں دو سال تک ایک ہی جماعت میں رہے تھے اور دونوں کی آپس میں بات چیت نہ بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم۔ لیکن جس قدر بھی تعلق تھا، وہ عمومی نوعیت کا تھا۔ اُس میں ذاتی نوعیت کا تو شائبہ تک نہیں تھا، خصوصاً رومی کی جانب سے۔ سدرہ کے انداز میں اکثر گرم جوشی کچھ زیادہ ہوتی لیکن رومی کے ذہن میں کوئی دوسری بات نہیں تھی۔
اسکول کے دِنوں میں سدرہ باقی لڑکیوں سے خاصی مختلف تھی۔ چھوٹے بال کندھوں کو چھوتے ہوئے، بھرا بھرا فربہ جسم، بھولی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں غیر معمولی چمک۔ اُس کے رکھ رکھاؤ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی اچھے گھر کی لڑکی ہے۔
اور پھر اسکول ختم ہوا تو تعلقات بھی جیسے ختم ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد سب ایک دوسرے کو بھول بھال گئے۔ دو سال بعد ایک دن رومی کے پاس سدرہ کا فون آگیا۔ اور پھر ٹیلی فونک رابطوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اب کی بار اس تعلق کی نوعیت عمومی نہیں، کافی ذاتی تھی۔ وہ دونوں گھنٹوں ایک دوسرے سے فون پر باتیں کرتے، بے مقصد باتیں۔ دن بھر کے معمولات، پرانی یادیں، پسند ناپسند۔۔۔ اور کتنے ہی ایسے موضوعات جو بات جاری رکھنے کا بہانا بنانے کے لیے بارہا دہرائے جاتے۔ فاصلے سمٹنے لگے۔دِلوں کے درمیان فاصلہ عجیب نوعیت کا ہوتا ہے۔ بڑھنے پر آئے تو پل بھر میں بہت طویل ہوجاتا ہے، اور گھٹنے پر آئے تو یک دم سمٹ جاتا ہے۔ یوں، رومی اور سدرہ بھی اتنی تیزی سے قریب آئے کہ اُنھیں سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔ اور اس راہ میں سنبھلنے کے مواقع ملیں بھی تو کون اُن سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔ کچھ ہی دِنوں میں بات اظہارِ محبت اور پھر انتہائی محبت تک جاپہنچی۔ گفت گو کا ذریعہ اگرچہ فون تک محدود تھا لیکن بات فون سے کہیں آگے نکل چکی تھی۔ جب وہ دو آوازیں ایک دوسرے کی سماعت سے ٹکراتیں تو جسم میں برقی رو سی دوڑ جاتی۔ ایک عجیب گرمائش کا احساس ہوتا۔
اور پھر ایک شام سدرہ نے ملاقات کی پیش کش کردی۔ وہ صرف ملاقات کی پیش کش نہیں تھی، بل کہ ساتھ ہی یہ اطلاع کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، اپنے اندر بہت سے معانی سموئے تھی۔ ان پوشیدہ معانی کے خیال نے رومی کو اندر تک لرزادیا۔
رومی جلدی سے تیار ہوکر سدرہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ دو جسموں کے درمیان فاصلہ گھٹنے کا وقت آپہنچا تھا۔ سدرہ کا گھر ڈھونڈنے میں اُسے کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی۔ علاقہ اُس کا جانا پہچانا تھا۔ وہ اُسے دروازے ہی پر کھڑی مل گئی۔ رومی کو دیکھتے ہی اُس کا چہرہ کھل اُٹھا۔ سدرہ نے پیلے رنگ کی باریک قمیص اور چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ انتہائی تنگ اور چست قمیص نے اُس کے جسم کے نشیب و فراز خاصے واضح کردیے تھے۔ رہی سہی کسر اُس کا کھلا گریبان پوری کررہا تھا جس سے اس بھرپور جسم میں موجود جنت کا معمولی سا نظارا واضح تھا۔ سدرہ گھر میں داخل ہونے کے لیے مڑی تو اُس کی پشت نے رومی کے اندر مکمل آگ بھڑکادی۔ باریک پیلی قمیص کے ساتھ اُس کا سیاہ بریزر قیامت خیز امتزاج پیش کررہا تھا۔ رومی کا دل کیا کہ آگے بڑھے اور اسی وقت اس بھرے ہوئے جسم کو اپنی خالی بانہوں میں بھرلے۔
گھر میں خاموشی چھائی تھی لیکن رومی کے دل میں ایک ہنگاما برپا تھا۔ سدرہ نے اُسے اپنے بیڈروم میں بٹھادیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں۔۔۔ دوبدو دل کی باتیں کرنے میں جھجک محسوس ہوتی تھی۔ پھر اچانک سدرہ نے رومی کا ہاتھ پکڑلیا اور یہ جیسے جذبات کی ٹرین کا بھرپور انداز میں اپنی آمد کا اعلان تھا۔ وہ سرک کر سدرہ کے قریب آیا اور اُس کی کمر پر عین بریزر کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔ سدرہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ایک دم گُم صُم ہوگئی۔ رومی اُس کی کمر سہلارہا تھا۔اور سدرہ اُس کے بہکتے ہوئے ہاتھ کی منزل کا بہ آسانی اندازہ کرسکتی تھی۔ پھر وہ ہاتھ آگے بڑھا اور سدرہ کے نشیب و فراز ناپنے لگا۔ سدرہ کی سانسوں میں ایک سسکار تھی۔ ایک پکار تھی۔
سدرہ پوری طرح رومی کی طرف مڑگئی۔ اُس کا دوپٹا سینے سے ڈھلک چکا تھا لیکن اُسے اب ہوش نہیں تھا۔ فون پر گفت گو فاصلوں کو اس قدر سمیٹ چکی تھی کہ اب حقیقت میں مزاحمت کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔ رومی نے جھک کر گردن کو چوما، پھر ذرا سا نیچے گریبان کے پاس چوما، اور پھر اُس سے بھی نیچے سینے کو۔۔۔ رومی میں اس نئی دنیا کھوجنے کی تڑپ کسی بھی سیاح سے بڑھ کر تھی۔
"رومی! قمیص اتار دو۔" سدرہ نے رومی کی کھوج کو آسان بنانے کی از خود پیش کش کرڈالی اور رومی نے اُس کی بات پر ایسے عمل کیا جیسے وہ ہپناٹائز ہوچکا ہو۔ سیاہ بریزر میں سدرہ کا بھرپور گورا جسم رومی کے جذبات کو انتہائی بلندی پر لے گیا۔ وہ دیوانوں کی طرح اُسے چومنے اور اُس پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر اُس نے ہمت کی اور ہاتھ پیچھے کرکے بریزر کھول دیا۔ دو گلابی نشانوں نے اُسے ایسا بپھرا ہوا شیر بنادیا تھا جس پر قابو پانا خود اُس کے بس میں بھی نہیں تھا۔ وہ اب سدرہ کے جسم کو چوم نہیں، چوس رہا تھا۔ اور سدرہ نے دونوں ہاتھوں سے اُس کا سر اپنے سینے پر دبایا ہوا تھا۔
پھر سدرہ کے ہاتھ حرکت میں آئے اور بے قراری سے رومی کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگے۔رومی کی شرٹ اتری تو سدرہ کا نشہ بھی عروج پر پہنچ گیا۔ رومی نے اُسے بانہوں میں بھرا اور بستر پر سیدھا لٹادیا۔ اُس کے بعد سدرہ کا پاجامہ اور رومی کی پینٹ کو جسم سے دور ہونے میں ایک منٹ سے بھی کم لگا۔ حالانکہ سدرہ کے چوڑی دار پاجامے کو اُتارنے میں رومی کو اتنی مشکل ہوئی کہ اس کا دل پاجامہ تار تار کردینے کو کیا۔ وہ دونوں اب دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھے۔ صرف اُن کی پھولی ہوئی سانسیں تھیں جو پورے کمرے میں سنائی دے رہی تھیں۔ سدرہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ یہ اشارہ تھا کہ اب سب کچھ تمھارے ہی حوالے ہے رومی۔ اور رومی اس پیغام سے اچھی طرح واقف تھا۔
"تیل کہاں ہے؟" رومی نے سوال کیا۔
"کیوں؟" سدرہ نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اُسے یہ سوال انتہائی غیرمتوقع لگا۔ اور سدرہ کے جوابی سوال کا رومی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تھا۔ یا یوں کہیے کہ اُس کے پاس جواب کے لیے مناسب الفاظ نہیں تھے۔
"ارے جان! بس چاہیے ہے نا۔ تم بتاؤ، کہاں رکھا ہے؟"
"اُدھر کونے میں، میز پر۔" سدرہ نے ایک اُلجھن کے ساتھ اشارہ کیا۔ یہ وہ بات تھی جو کبھی اُن کے درمیان فون پر نہیں ہوئی تھی۔
رومی چیتے کی سی پھرتی سے میز کی طرف لپکا اور تیل کی بوتل اُٹھاکر واپس اپنی جنت کی طرف بڑھا۔ اُس نے سدرہ کی دونوں ٹانگیں کھولیں اور تیل ٹپکایا۔ اب گیلے پن کے ساتھ چکناہٹ بھی شامل ہوچکی تھی جس نے آگے کا کام آسان کرنا تھا۔ رومی نے اپنے آلے پر بھی تیل لگایا اور پھر انتہائی وصل کے لیے بے حد قریب آگیا۔ایک انوکھے تجربے کے احساس کی سردی اور جذبات کی گرمی کی آمیزش نے اُن دونوں کو ہر چیز سے لاتعلق کردیا تھا۔ بس دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ آج سب کچھ ہوجانے دو۔ اور وہ سب کچھ ہوگیا۔ رومی، سدرہ کے اندر داخل ہوا تو درد کے مارے اُس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ اُس نے ایک آہ بھری۔ "رومی! آرام سے۔۔۔ درد ہورہا ہے۔"
لیکن اس پیغام کا اثر بالکل برعکس ہوا اور اس نے رومی کی رفتار سست کرنے کے بجائے مزید بڑھا دی۔ اُس کے دونوں ہاتھ سدرہ کے سینے کو دبا رہے تھے اور وہ سدرہ کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں وصل کی انتہائی حالت میں موجود تھا۔ دو جسم ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے تو اُن کی آواز پورے کمرے میں سنائی دیتی تھی۔ اور پھر جیسے ندی بہہ نکلی۔ دونوں نے بستر کی چادر کو اچھا خاصا گیلا کردیا تھا لیکن جذبات کا طوفان تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ رومی کچھ دیر کے لیے سدرہ کے اوپر ہی دراز ہوگیا۔
پھر جگہیں بدلنے لگیں۔ کبھی کوئی اوپر تو کبھی کوئی نیچے۔ ایک طویل سفر طے کرکے پہنچنے والا طوفان اتنی جلدی کیسے تھم سکتا تھا۔ یوں ہی کافی وقت گزر گیا۔ دونوں جسم پیار کی پھوار میں بھیگے پڑے تھے۔ سدرہ نے ہمت کی اور رومی کا ہاتھ تھام کرکے غسل خانے میں لے آئی۔ دونوں جسموں پر پانی بہنے لگا اور جیسے جیسے پیار کا گزشتہ رنگ اترا، نیا رنگ چڑھنے لگا۔ رومی کا جی چاہا کہ سدرہ کو اب کبھی لباس زیب تن نہ کرنے دے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں سے سدرہ کو لباس پہنایا اور اس بہانے اُس کے جسم کو محسوس کرتا رہا۔ رومی کے لمس نے سدرہ کی سانسوں کو بے ترتیب کیے رکھا۔ اور جب رومی رخصت ہوا تو سدرہ کی آنکھوں میں دوبارہ ملاقات کا دعوت نامہ واضح نظر آرہا تھا۔

**والا پٹھان**

میرا نام صدف ہے اور میری عمر تیس سال ہے ، میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ کالج کے زمانے سے مجھے سیکس کا شوق ہوااسکی بنیادی وجہ سیکسی اسٹوریز اور موویز تھا مگر شادی سے پہلے ایک دفعہ بھی مجھے سیکس کرنے کا موقع نہ مل سکا۔پھر میری شادی ہوگئی اسوقت میری عمر چوبیس سال تھی آج بھی میرا فگر غضب کا ہے ، اور اس وقت تو اچھے اچھے مردوں کی نظریں میرے تعاقب میں ہوتی تھیں۔ اب میں ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود بھی کافی سیکسی ہوں۔میرے شوہر ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ٹیکسٹائل انجینیر ہیں۔میری سیکس لائف بہت اچھی گذر رہی تھی۔شادی کے بعد میرے شوہر کا تبادلہ فیکٹری سے دور کراچی میں ہوگیا، مجھے بھی انکے ساتھ شفٹ ہونا پڑا مگر میرے شوہر کو ابھی یہاں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگنا تھا وہ ابھی ایک ہفتہ میں ایک بار گھر آتے تھے۔ایک دن میں وہ ایک بار سے زیادہ میرے ساتھ سیکس نہیں کرتے تھے۔جس سے میری سیکس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ سارا دن انکا تو آرام کرتے ہی گذر جاتا تھا اور نئے نئے کھانوں کی فرمائش میں۔ اور میں تڑپتی رہتی تھی کچھ عرصہ تو میں ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارتی رہی مگر پھر مجھ کو ضد ہو گئی اور میں نے وہ سب کچھ کر لیا جسکا کوئی شریف عورت سوچ نہیں صکتی تھی۔اس وقت میں ایک بچے کی ماں بن چکی تھی مجھے معلوم تھا سیکس کیا ہوتا ہے ، میرا بچہ آپریشن سے ہوا تھا اسی وجہ سے میری چوت ابھی تک بہت ٹائٹ تھی۔

یہ گرمیوں کے دن تھے میرے شوہر دو دن پہلے ہی اپنی جاب پر گئے تھے، اور اس بار وہ مجھ سے سیکس نہ کرسکے تھے کیونکہ مجھے ماہواری آرہی تھی، انکے جانے کے بعد میں فارغ ہوئی تھی اور اب بری طرح دل مچل رہا تھا سیکس کرنے کو مگر کچھ نہیں سوجھتا تھا کہ کیا کروں،میں گھر میں اکیلی تھی میرا بچہ پیٹ بھر کر میرا دودھ پی کر سو چکا تھا اور میں بھی لیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی میں نے اسوقت قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی اسکے نیچے کچھ نہیں کیونکہ میرے گھر کس کو آنا تھا یہاں ہمارا کوئی جاننے والا نہں تھا اور نہ محلے میں کسی سے اتنی سلام دعا ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی میں اس سوچ میں ڈوبی کہ اس گرمی میں کون آگیا؟ دروازے تک گئی کہ دیکھوں کون ہے میں نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا کون ہے؟تو باہر سے آواز سنائی دی: بی بی جی قالین خریدنا ہے؟

ایکدم میرے دماغ کی بتی جل اٹھی میں نے سوچا اس گرمی میں کون ہوگا جو گھر سے باہر ہوگا اسی مرد کے ساتھ اپنے سیکس کی خواہش پوری کرلوں۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک پسینے میں شرابور مظبوط جسم والا پٹھان مرد کچھ قالین اٹھائے میرے دروازے کے باہر کھڑا تھا اسکی عمر میرے مطابق چالیس سال تو ہوگی، میں نے پوچھا کیا قیمت ہے قالین کی؟

اس نے کہا بی بی جی آپ پہلے پسند کر لو پھر قیمت بھی طے کر لیتے ہیں۔میں نے کہا اچھا اندر آجاؤ اس نے ایک لمحے کو سوچا پھر قالین اٹھا کر اندر آگیا، میں نے اسکے اندر آنے کے بعد ذرا سا سر باہر کر کے دیکھا تو پوری گلی میں سناٹا تھا۔میں نے دروازہ بند کیا تو دیکھا پٹھان میرے پیچھے کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا میں نے صحن میں رکھی ایک ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کی جانب اشارہ کیا یہاں بیٹھ جاؤ اور سارے قالین زمین پر رکھ دو میں خود پسند کر لونگی کونسا لینا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا بی بی جی تھوڑا پانی مل سکتا ہے پینے کو میں کچن میں گئی وہاں سے ایک بوتل اور گلاس لا کر ٹیبل پر رکھی مگر اس دوران اسکو متوجہ کرنے کے لیے میں نے دوپٹہ گلے میں ڈال لیا اور بالکل جھک کر بوتل اور گلاس ٹیبل پر رکھا جس سے لازمی اسکی نظر میرے بڑے بڑے دودھ سے بھرے مموں پرپڑی ہوگی۔ میں نے بوتل رکھنے کے بعد سیدھی ہو کر ایک نظر اسکو دیکھا وہ بغور مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔ میں اب دوبارہ جھک جھک کر قالین دیکھنے لگی اسی دوران ایک سائڈ سے میں نے اپنا دوپٹہ نیچے گرا دیا تاکہ وہ اچھی طرح کپڑوں کے اندر چھپے میرے حسن کا نظارہ کر لے ۔ ویسے مفت کا مال کیسا بھی ہو کوئی مرد نہیں چھوڑتا۔ پھر میں تو ایک اچھی خاصی سیکسی عورت تھی۔

میں نے محسوس کیا کہ وہ پانی پینے کے دوران مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں خوش ہو رہی تھی کہ کام بنتا نظر آرہا ہے۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی رہی کہ تم کہاں رہتے ہو کہاں سے لائے ہو یہ قالین وغیرہ وغیرہ، پھر میں باتوں باتوں میں اسکے قریب گئی اور اسکے چہرے پر ہمت کر کے ہاتھ پھیرا اور کہا اتنی گرمی میں اتنی محنت کیوں کرتے ہو۔ دیکھو کتنا پسینہ بہہ رہا ہے ، اس نے ایکدم میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا بی بی جی کیا چاہتی ہوتم؟

میں نے بھی ڈھٹائ سے جواب دیا وہ ہی جو ایک عورت ایک مرد سے اور ایک مرد ایک عورت سے چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی اسکی آنکھوں میں چمک آگئی، وہ ایکدم اٹھا اور مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا، میں نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا ایسے نہیں پہلے تم غسل کر لو مجھے تم سے بو آرہی ہے وہ اپنے سفید سفید دانت نکالتا ہوا کہنے لگا کدھر ہے نہانے کی جگہ میں نے اسکو ہاتھ کے اشارے سے بتایا اور کہا نہانے کے بعد اس کمرے میں آجانا ، وہ کچھ کہے بغیر باتھ روم میں گھس گیا، میں بھی جلدی سے کمرے میں چلی گئی اور جاکر روم اسپرے کردیا اور لائٹ جلا دی، ذرا دیر بعد ہی روم کا دروازہ کھلا اور وہ پٹھان کمرے میں داخل ہوگیاوہ نہانے کا تولیہ لپیٹ کر ہی کمرے میں آگیا تھا اور اسکے کپڑے اسکے دوسرے ہاتھ میں تھے میں اسکی عقلمندی دیکھ کر خوش ہوئی، آتے ہی وہ بیڈ پر اچھل کر بیٹھ گیا، اب میں نے اسکو غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اچھا خاصہ خوبصورت مرد تھا ہلکی ہلکی داڑھی تھی اسکی اورتھوڑی بڑی مونچھیں۔ سرخ سفید رنگت اور مظبوط چوڑا سینہ جس پر با ل ہی بال بھرے تھے۔ میں تو دیکھ کر خوشی سے پاگل ہونے لگی، وہ بیڈ پر سے کھسکتا ہوا میرے نزدیک آیا اور ایک ہاتھ بڑھا کر میری کمر میں ڈالا اور مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ چپکا لیا، کہنے لگا بی بی تم بہت خوبصورت ہے تم کو ایسا مزہ دے گا کہ تم یاد کرے گا۔میں بھی تو مزہ ہی چاہتی تھی اپنے مطلب کی بات سن کر اسکے منہ سے بہت خوشی ہوئی ، میں نے بے شرموں کی طرح اسکے لنڈ پر ہاتھ لگایا تو محسوس کیا وہ ڈھیلا پڑا ہے۔ اس نے میری ہمت دیکھ کر تولیہ ہٹا دیا اب جو میں نے دیکھا تو ایک لمحہ کو سہم گئی کیونکہ اسکا لنڈ سخت نہ ہونے کے باوجود اتنا بڑا اور موٹا لگ رہا تھا کہ میرے شوہر کا سخت ہونے کے بعد بھی ایسا نہ تھا میں نے اس سے پوچھا اسکو سخت کرو، تو وہ بولا میری بلبل یہ کام تم کو کرنا ہے باقی کام میں خود کرلونگا۔ میں نے اسکے لنڈ کو ہاتھ لگایا تو اس میں تھوڑی سختی محسوس کی مگر اس طرح نہیں کہ وہ میری تو کیا کسی کی چوت میں بھی جا سکتا۔ میں نے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کیا اور نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو ہاتھ میں لے کر مسلنا شروع کیا ، ذرا دیر میں وہ سخت ہونے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو ایک لمبے اور موٹے ڈنڈے کی شکل اختیار کر گیا ، اب میرے دل میں ڈر جاگ اٹھا کہ یہ لنڈ تو میری نازک سے چوت کو بری طرح سے پھاڑ ڈالے گا، مگر پھر سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا میں یہ لنڈ ضرور اپنی چوت میں لونگی۔ اب اس نے کہا تم بھی اپنے کپڑے اتارو میں نے مزید انتظار نہیں کیا اور فٹا فٹ اپنے کپڑے اتارکر اسکی طرح پوری ننگی ہوگئی، وہ میرے ممے دیکھ کر پاگل سا ہوگیا اور مجھے دبوچ کر بے تحاشہ میرے ممے چوسنے لگا اس کے اس پاگل پن سے مجھے تکلیف ہورہی تھی، مگر میں نے سیکس کی خواہش پورا کرنے کے لیے اسکو برداشت کیا، وہ حقیقتاً جنگلی لگ رہا تھا ، اس کے اسطر ح پاگلوں کی طرح چوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی سے گیلی ہورہی تھی، میں اب اسکا لنڈ اپنی چوت سے نگلنے کے لیے بے تاب تھی مگر وہ تھا کہ دودھ پینے سے باز نہیں آرہا تھا۔میں نے بڑی کوشش کے بعد خو د کو اس سے آزاد کیا اور فوراً بیڈ پر لیٹ کر ٹانگیں تھوڑی سی کھول کر اسکو اپنی گیلی اور گرم چوت کا نظارہ کروایا۔اب وہ بھی پاگل ہوکر چھلانگ لگا کر میرے نزدیک آیا اور میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے انہیں مزید کھولا۔اب میری تڑپتی چوت اسکی نظروں کے سامنے تھی اس نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اپنا لمبا ڈنڈے جیسا لنڈ میری چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور تھوڑا سا زور لگایا، جس سے اسکے لنڈ کا ہیڈ میری چوت میں ضرور داخل ہوا مگر مجھے ایسا لگا جیسے پہلی بار کسی لنڈ کو چوت میں لیا ہو، اتنی تکلیف کہ برداشت سے باہر تھا میں نے اس کو ظاہر تو نہیں ہونے دیا مگر اتنا ضڑور کہا میں نے اتنا موٹا لنڈ پہلے کبھی نہیں لیا ذرا دھیان سے اور آرام سے کرنا، اس نے کہا فکر نہ کر میری جان تجھے ایسا مزہ دونگا کہ یاد کرے گی۔ اسکی اس بات کا اندازہ تو تھا مجھے کہ یہ مزہ ضرور دے گا مگر کتنا درد دے گا اسکا اندازہ نہیں تھا اس نے کہا تو کہ فکر نہ کر مگر اگلے ہی لمحے مجھے فکر لاحق ہوگئی جب اس نے تھوڑا سا لنڈ باہر کر کے دوبارہ سے اندر کیا تو وہ دوبارہ اسی جگہ آکر اٹک گیا ، اس نے کہا واہ تیری چوت تو کنواری لڑکیوں جیسی لگتی ہے، اب برداشت تو کرنا پڑے گا میں بھی تڑپ رہا ہوں ایک مدت سے کوئی ملا نہیں چودنے کو مگر آج تیری اور اپنی خواہش پوری کرونگا اب روک مت مجھے تو نے خود دعوت دی ہے۔میرے پاس اسکی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں خود بھی یہ مرد کھونا نہیں چاہتی تھی۔

اب اس نے کہا تیار ہو جاؤ میرا لنڈ کھانے کے لیے اور یہ کہہ کر پورا لنڈ باہر نکال لیا، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ اچانک مجھے اسکا سخت لنڈ اپنی چوت پر محسوس ہوا اسکے بعد بس ایسا لگا جیسے میری چوت پھٹ گئی ہے اور تکلیف کی انتہا تھی اسکا لنڈ آدھا میری چوت میں داخل ہوچکا تھا وہ بھی چہرے سے پریشان لگ رہا تھا ، پھر اس نے میری جانب دیکھا اور پیاربھرے انداز میں بولامیری بلبل تھوڑا برداشت کر لے پھر مزے ہی مزے کرنا۔ میں سمجھ رہی تھی اس کی بات کو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر یہ تکلیف کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ خیر تھوڑی دیر میں تکلیف کم ہونا شروع ہوئی اتنی دیر وہ میرے جسم کو بری طرح جگہ جگہ سے کاٹتا رہا اور مجھے مست کرتا رہا ، اب میں نے اسکا منہ اپنے مموں سے ہٹایا جہاں وہ کاٹ رہا تھا وہ میرا مطلب سمجھ گیا اور لنڈ کو تھوڑا باہر کر کے پھر سے اندر کیا اور میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھنے لگا اسکو میرے چہرے پر سکون نظر آیا تو وہ ایک بار پھر جنگلی کا روپ دھار گیا اور اس بار ایک ہی جھٹکے میں پورا لنڈ میری چوت میں داخل کردیا مجھے شدید تکلیف اپنی چوت اور پیٹ میں محسوس ہوئی اسکا لنڈ میری بچہ دانی کو ٹھوک رہا تھا۔ جس سے مجھے تکلیف ہورہی تھی۔ مگر اب کی بار وہ نہیں رکا اور لنڈ کو اندر باہر کرنے لگا اسکا لنڈ رگڑتا ہوا اندر باہر ہورہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ابھی تک میری چوت اسکے قابل نہیں ہوئی۔ مگر ذرا دیر کی کوشش کے بعد میری چوت پورا پورا ساتھ دینے لگی۔میری فارغ ہوچکی تھی جس سے میری چوت پوری گیلی ہوگئی تھی اور وہ اب شڑاپ شڑاپ میری چوت کو چود رہا تھا، اب میں بے مزے کی بلندیوں کا سفر کرنے لگی مگر وہ تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور مسلسل مجھے چودے جارہا تھا۔میں سانسیں بے ترتیب تھیں اور بری طرح اچھل رہی تھی میں ہر ہر جھٹکے پر۔ وہ تو لگتا تھا جیسے صدیوں سے بھوکا ہے اس بری طرح مجھے چود رہا تھا کہ بس مگر اسکی اس چدائی میں جو مزہ تھا وہ کبھی میرے شوہر نے نہیں دیا تھا۔ پھر اس نے مجھے کمر کے نیچے دونوں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور گود میں بٹھا لیا اب اسکا پورا لنڈ میری چوت میں اور میں اسکی گود میں بیٹھی تھی یوں سمجھ لیں کہ اسکے لنڈ کی سواری کر رہی تھی۔ میرے بڑے بڑے ممے اسکے چوڑے سینے سے دب کر پچکے ہوئے تھے اور میرے مموں سے دودھ نکل کر اسکے سینے پر لگ گیا تھاوہ اچھال اچھال کر مجھے اس بری طرح چود رہا تھا کہ میرا برا حال تھا مگر میں اس سب کو روک نہیں سکتی تھی مجھے تو اب چدنا ہی تھا چاہے وہ کیسے بھی چودے۔ تھوری دیر اسی طرح چودنے کے بعد اور مجھے بے حال کرنے کے بعد اس نےلنڈ باہر نکالا اور مجھے دوبارہ سے بیڈ پر لٹایا مگر کروٹ سے اور بیڈ کے کنارے پر پھر میری ایک ٹانگ اپنے کندھے پر رکھی اور اپنی ایک ٹانگ نیچے زمین پر پھر اسکے بعد اس نے دوبارہ سے اپنا ڈنڈا میری چوت میں ایسے ڈالا جیسے وہ اسی کے لیے بنی ہو اور وہ ہی اسکا مالک ہو۔ بس اب کی بار ایک اور نیا مزہ تھا میں اس دوران پتہ نہیں کتنی بار فارغ ہوچکی تھی مجھ میں مزاحمت کی ہمت بھی نہیں تھی اسکا لنڈ اند ر کیا گیا میں پھر سے نشے کی کیفیت سے دوچار ہونے لگی۔ اب اسکا ایک ہاتھ میں گانڈ پر تھا اور ایک ہاتھ میرے ایک ممے کو دبوچے ہوئے بری طرح مسل رہا تھا ذرا دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ایک انگلی اپنے منہ میں لی اور اچھی طرح اس پر اپنا تھوک لگایا پھر اس کو میری گانڈ میں داخل کردیا میں ایکدم سے اچھل پڑی کیونکہ آج تک میں نے خود کبھی اپنی گانڈ میں انگلی نہیں کی تھی ایک مرد کی انگلی سے تو کرنٹ لگنا ہی تھا۔اور میرے شوہر نے تو صرف میرے کولہوں کو چوما تھا کبھی میری گانڈ نہیں ماری تھی۔ مجھے اسکے ارادے کا اندازہ ہوا تو خوف سے میری حالت خراب ہونے لگی۔مگر اگلے ہی سیکنڈ اسکا لنڈ کے جھٹکوں سے میں سب بھول کر صرف اسکے لنڈ کو اپنی چوت میں محسوس کر کے مدہوش ہوتی رہی۔ اب اس نے سب چھوڑ کر پورالنڈ اندر ڈال کر میرے اوپر لیٹ گیا اور مجھے کمر کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر کس کے دبوچ لیا اب فارغ ہونے کی باری اسکی تھی۔ پھر اس کے لنڈ نے کھولتا ہوا لاوا اگلنا شروع کیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم کی حرارت بڑھ رہی ہے اور میں ذرا دیر میں پگھل کر پانی بن جاؤں گی۔اسکا لنڈ تقریبا دومنٹ تک لاوا اگلتا رہا۔ اس نے اپنی منی کا آخری قطرہ تک میری چوت کی نذر کردیا۔ اور پھر اسی طرح لیٹا رہا اور لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔میں تقریباً بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ پھر وہ میرے اوپر سے ہٹ گیا اور کہنے لگا ایسا مزہ مجھے میری بیوی نے پہلی رات دیا تھا اسکا بھی ایسا ہی حال کیا تھا میں نے۔ اب مجھ میں تھوڑی طاقت پیدا ہوئی تو دیکھا اسکا لنڈ میری چوت کے خون سے تر تھا شاید میری چوت پھٹ چکی تھی۔اس بری طرح میں کبھی نہیں چدی تھی۔ 

پھر وہ اٹھ کر میرے روم کے باتھ روم میں گیا اور اپنا لنڈ دھو کر واپس آیا اور مجھ سے کہا اٹھو اور میرا لنڈ منہ میں لو اب تمہاری گانڈ کی باری ہے ، میں یہ سنتے ہی چیخنے لگی نہیں ایسا مت کرو دوبارہ میری چوت مار لو مگر مجھے گانڈ سے مت چودو مگر اس نے میرا انکار سن کر ایک زوردار تھپڑ میرے چہرے پر رسید کیااور کہا پٹھان سے چدوانے کا شوق ہے تو سب برداشت کرو اب۔اسکا تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے پھر میں نے دل میں سوچا اگر اس جنگلی کو مزید انکار کیا تو یہ مار مار کر بھرتا نکال دے گا اور کرے گا اپنی مرضی ، خود اس مصیبت کو دعوت دی ہے اب بھگتنا تو پڑے گا۔ یہ سوچ کر میں نے پھر سے اسکا لنڈ منہ میں لیا نہ جانے کس مٹی کا وہ بنا تھا اور کیا وہ کھاتا تھا اسکا لنڈ اس تیزی سے دوبارہ سخت ہوا جیسے ابھی کچھ کیا ہی نہیں تھا اس نے۔مگر میں اسکے سائز سے خوفزدہ تھی یہ میری گانڈ میں جاکر تو برا حال کرے گا میرا۔ پھر اس نے کہا فکر مت کر میری بلبل بہت خیال سے تیری گانڈ ماروں گا۔ میں سمجھ چکی تھی کتنا خیال کر سکتا ہے وہ جنگلی۔مگر اب میں کچھ کر نہیں سکتی تھی آخر کار اس نے مجھے چدائی کا وہ مزہ دیا تھا جس کے لیے ساری زندگی ترسی تھی میں۔اب اسکو گانڈ دینے میں کوئی حرج تو نہیں تھا مگر فکر تکلیف کی ہی تھی۔اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا میری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھی وہ مجھے سہاارا دے کر چلاتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک لایا اور کہا آگے جھکو اور دونوں ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھومیں نے ایسا ہی کیا اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک کریم اٹھائی اور ہاتھ پر لگا کر اچھی طرح میری گانڈ پر مل دی اسکے اس طرح ملنے سے مجھے مزہ آرہا تھا۔اب وہ ہی کریم اس نے اپنے لنڈ پر بھی ملی اور پھر مجھے کہا تھوڑا اپنی گانڈ کو اونچا کرو میں نے ایسا ہی کیا اب اسکا لنڈ میری گانڈ پر دستک دے رہا تھا اس نے تھوڑا سا زور لگایا اور میری تکلیف کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا اسکا لنڈ ابھی تھوڑا سا ہی اندر گیا تھا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو نکل کر ٹیبل کو گیلا کرنے لگےمگر وہ جیسے ان سب باتوں سے لاپرواہ تھا نہ اسے میرے رونے کی آواز اور نہ میرے آنسو رکنے پر مجبور کر رہے تھے۔اس نے مزید وقت ضائع کیا نہ میری جانب دیکھا بس شروع ہو گیا میری گانڈ کا سوراخ چوڑا کرنے میں۔ اس کے زور دار دھکوں سے میرا سر بار بار ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرا رہا تھا۔ اب اسکا پورا لنڈ میری گانڈ میں راج کر رہا تھا اور میں تکلیف کی شدت کو روکتے روکتے اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس طرح مزہ نہیں آرہا تو مجھے حکم دیا کہ میں فرش پر گھٹنے رکھ کر اپنا پورا جسم بیڈ پر ڈال دوں اور اس طرح وہ میرے پیچھے دوبارہ سے آیا اور ایک بار پھر سے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈالا اور دوبارہ سے جھٹکے دینا شروع ہوگیا، اب کی بار تقریباً بیس منٹ تک مسلسل جھٹکے دینے کے بعد وہ میری گانڈ میں فارغ ہوا میرا حال یہ تھا کہ میں خود سے کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس نے ہی مجھے بیڈ پر لٹایا اور مجھے زور دار پپیاں دینے کے بعد اپنے کپڑے پہن کر اپنے قالین اٹھا کر چلا گیا ۔ میں نے ہمت کر کے درازہ لاک کیا اور واپس کسی طرح لڑکتی ہوئی آکر بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔ پتہ نہیں کتنی دیر اسی طرح پڑی رہنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میرا بیٹا نہ اٹھ گیا ہو میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور جا کر دیکھا تو میرا بیٹا سو رہا تھا۔ میں باتھ روم گئی اور خود کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر روم میں آکر ایک ٹیبلیٹ کھائی جو کہ برتھ کنٹرول ٹیبلیٹ تھی۔ میرے شوہر ابھی اور بچہ نہیں چاہتے تھے لہٰذا ہم لوگ اس طرح اس پروگرام پر عمل کر رہے تھے۔ 

اگلے دن پھر اسی وقت وہ پٹھان پھر سے آیا اور ایک بار پھر مجھے سیکس کا بھرپور مزہ دے کر گیا مگر اس بار میں نے اس سے شرط رکھی کہ تم میری گانڈ میں اپنا لنڈ نہیں ڈالو گے۔ وہ بھی مان گیا اور صرف میری چوت کو ہی اپنی گرم منی سے بھر کر چلا گیا۔ بس پھر کیا تھا مجھے تو مزے لگ گئے اب شوہر نہ بھی ہو تو مجھے بہت مزے سے چودنے والا مل گیا تھا ، مگر ایک دن اس نے کیا کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو اور پٹھانوں کو بھی لے آیا اور ان تینوں نے مل کر مجھے بہت بری طرح چودا اس دن میرا حال ایسا تھا کہ جیسے میں مر جاؤں گی میرے بدن میں بالکل جان نہیں تھی۔ اگلے دن پھر وہ پٹھان آیا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا بلکہ اسکو چلتا کیا ۔ پھردن تک وہ مسلسل آتا رہا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا پھر کچھ مہینے بعد میرے شوہر کا تبادلہ پھر کسی اور جگہ ہوگیا۔ پھر نہیں معلوم وہ اتنے زبردست لنڈ والا پٹھان کدھر گیا۔n

**میری آنکھوں کے سامنے میری بیوی کا ریپ**

ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم ہنی مون سے
واپس آرہے تھے کہ ایک سنسان لنک روڈ پر
ہماری کار اچانک بند ہو گئی۔ میں نے کافی
کوشش کی مگر سلف سٹارٹ نہ ہو سکی۔ میں نے
بیگم سے کہا: تم اندر ہی بیٹھو، میں فرنٹ
کھول کر دیکھتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے گاڑی
کا دروازہ کھولا اور فرنٹ کھول کر تار اور
بیٹری چیک کر نے لگا۔ کافی کوشش کے باوجود
کار سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ اتنے میں بیگم
بھی گاڑی سے باہر آگئی۔ بیگم بولی: کیا ہوا؟
کیا گاڑی زیادہ خراب ہو گئی ہے؟ میں نے کہا:
لگتا ہے گاڑی زیادہ ہی خراب ہو گئی ہے۔ 

سور ج تیزی سے غروب ہوتا جا رہا تھا۔ اور دن
کی روشنی بھی تیزی سے مدھم پڑ رہی تھی۔ میر
پوی کوشش تھی کہ گاڑی سٹارٹ ہو جائے۔ کیوں
کہ وہ مین روڈ نہیں تھا بلکہ ایک چھوٹا سا
لنک روڈ تھا، جو کہ ہمارے گھر کی طرف شارٹ کٹ
تھا۔ ہمیں کیوں کہ دیر ہو چکی تھی میں نے
سوچا کہ اس لنک روڈ سے جلد گھر پہنچ جائیں
گے۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ گاڑی اس طرح
اچانک خراب ہو جائے گی۔ 

جب کافی کوشش کے باوجود گاڑی سٹارٹ نہیں ہو
رہی تھی تو بیگم کے چہرے پر پریشانی اور ڈر
کے آثار نمایاں نظر آنے لگے تھے۔ کیوں کہ اس
روڈ پر آئے دن ڈاکو ئوں کی وارداتیں معمول
کا حصہ تھیں۔ 

بیگم نے کہا؛ آپ گھر فون کیجئے، تاکہ مکینک
بھیج دیں اور ساتھ ہی دوسری گاڑی لے آئیں۔
میں فوراً اپنا موبائیل نکالا لیکن سگنل
بہت کم تھے۔ میں نے بات تو پھر بھی ہو جائے
گی۔ چاہے کٹ کٹ کر ہو۔ لیکن میں نے جیسے ہی
موبائیل نمبر ملا کر اپنے کان پر رکھا مجھے
پیچھے سے ایک بھاری آواز سنائی دی۔ "موبائیل
مجھے دے دو" میں آواز سن کر کانپ گیا۔ دیکھا
تو ایک بڑی مونچھوں والا لمبا چوڑ آدمی کھڑا
تھا۔ پہلے تو میں چونک گیا۔ پھر میں نے ہمت
کر کے پوچھا کہ تم کون ہو؟ یہ کہنا ہی تھا کہ
جھاڑیوں اور درختوں کے پیچھے سے تین آدمی
اور نکل آئے۔ جن میں سے دو کے ہاتھوں میں
پسٹل اور ایک کے ہاتھ میں لمبی گن تھی۔
انہوں نے تیزی کے ساتھ مجھے پکڑ کر قابو کر
لیا یہ کہتے ہوئے کہ ہم اچھی طرح بتاتے ہیں
کہ ہم کون ہیں۔ ''باندھ دو سالے کو" میں نے
چھڑوانے کی کوشش کی لیکن ان کے آگے میرا بس
نہ چلا۔ انہوں نے میرے منہ پر ٹیپ لگا کر
درخت کے ساتھ کس کر باندھ دیا۔ مجھے درخت پر
کس کر باندھنے کے بعد ان میں سے ایک نے کہا:
''استاد، مال ٹائیٹ ہے" یہ کہتے ہی انہوں نے
میری بیگم کو چاروں طرف سے جکڑ لیا اور پکڑ
لیا۔ جب وہ چلائی تو انہوں نے اس کے منہ پر
ٹیپ لگا دی۔ میری بیگم کے منہ سے اوں اوں کی
آواز نکل رہی تھی اور وہ ہاتھ جوڑ کر رحم کی
اپیل کر رہی تھی۔ان میں سے ایک نے میر بیگم
کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔ جب کہ
دوسرے نے اس کی ٹانگوں کو قابو کر لیا۔ اور
ان کے سردار نے میری بیوی کی گانڈ کے نیچے
دونوں ہاتھوں سے سہارا دے دیا۔ سردار نے
ہاتھ دباکر کہا: ''گانڈ تو بہت ہی نرم ہے"
میرا غصے سے برا حال ہو رہا تھا۔ میں خود کو
آزاد کرانے کی پوری کوشش کر رہا تھا جس سے
درخت خوب ہل رہا تھا۔لیکن میں ناکام ہو کر
اپنی بیوی کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ 
سردار نے میری بیوی سے کہا: دیکھو اگر تم نے
زیادہ مزاحمت کی تو ہم تمھارے کپڑ ے پھاڑ
دیں گے اور تمھیں واپس ننگا ہو کر جانا پڑ ے
گا۔ اس لیے جیسا ہم کہتے ہیں ویسا ہی کرو۔
لیکن میر ی بیوی نے چھڑوانے کی کوشش جاری
رکھی۔ جیسے ہی 
میر ی بیگم نے چھڑ وانے کے لیے اوپر جھٹکا
لگایا ۔ میر ی بیوی کی ایک ٹانگ اس ڈاکو کے
ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن شلوار کا پہنچا اس کے
ہاتھ میں ہی رہا۔جس سے میری بیوی کے ایک
چوتڑ سے شلوار پھسل گئی۔ کیوں کہ میر ی بیوی
زیادہ تر الاسٹک پہنتی تھی۔ ناڑا استعما ل
نہیں کر تی تھی۔ 
سردار نے کہا: یہ تو خود ہی کام آسان ہو گیا۔
اسے نے کہا کہ اسے کار کی ڈگی پر الٹا کر کے
لٹا دو۔ انہوں نے میر ی بیگم کو الٹا کر کے
لٹا دیا۔ اور سردار نے میر ی بیگم کی گانڈ سے
قمیض کا کپڑا اوپر کیا۔ اور پھر الاسٹک نیچے
کر دی جس سے بیگم کی گانڈ بالکل ننگی ہو گئی۔
ان میں سے ایک نے کہا: ٹارچ کی لائٹ مارو،
سالی کی گانڈ کا اچھی طرح نظارہ تو کریں"
سردار کے اشارے پر ایک ڈا کو نے میر ی بیگم
کی گانڈ سے جس سے الاسٹک والی شلوار اتری
ہوئی تھی ۔جیسے ہی ٹارچ روشن کی سب ڈاکو
میری بیگم کو گانڈ دیکھ کر جیسے پاگل ہی ہو
گئے ہوں۔کوئی کہنے لگا کیا ہی گوری اور نرم
گانڈ ہے تو کوئی کہنے لگا ، میں تو اس کی
موٹی گانڈ کے مزے لوں گا۔ ہر ڈاکو اپنے اپنے
الفاظ میں میری بیگم کی گانڈ کی تعریف کر
رہا تھا۔ سب سے پہلے سردار نے میری بیگم کی
گانڈ کو گہرہ چما دیا۔ اور پھر سب شروع ہو
گئے۔کوئ چوم رہا تھا تو کوئی دونوں چوتڑوں
پر اپنی زبان پھیر رہا تھا۔ ان سب کے
شلواروں کے پیشاب والی جگہ ابھری ہوئی تھی۔
اب میر ی بیگم بھی بے بس ہو چکی تھی، اسے پتا
چل گیا تھا کہ میں اب خود کو نہیں بچا سکتی۔
سردار نے کہا : تم اس کے گانڈ کے دونوں چوتڑ
پھیلا دو۔ سے نے بیگم کے چوتڑ کھول دیے۔ اور
ساتھ کھڑے ڈاکو نے گانڈ کے سوراخ پر روشنی
ڈالی۔
سردار نے بیگم کی گانڈ کا سوراخ کئ بار
چوما۔ اور پھر گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان
پھیرنے لگ گیا۔ سردار میری بیوی کی گانڈ کا
سوراخ اس طرح چاٹ رہا تھا کہ چاٹتے ہوئے
اندر کی طرف کھینچ رہا تھا۔ بیگم بے بس ہو
چکی تھی اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ بیگم
کمزور سی کوشش کر رہی تھی۔ شاید اب اس میں
اور مزاحمت کی ہمت نہ رہی تھی۔ بیگم کی گوری
اور بڑی گانڈ روشنی میں خوب چمک رہی تھی۔
ارد گرد گھنا جنگل تھا۔ اور روڈ سنسان تھا۔
ٹوٹے پھوٹے روڈ کی سنگینی اور خطرناکی کا
اندازہ اس بات سے ہو رہا تھا کہ اس دوران
کوئی بھی گاڑی وہاں سے نہ گذری۔ بیگم کے منہ
سے ہلکی ہلکی اوں اوں کی آواز کیڑوں کے
رینگنے کی آوازوں کے ساتھ مل کر عجیب سماں
پیدا کر رہی تھی۔ جب کہ سردار نے بیگم کی
پوری گانڈ اور دونوں چوتڑ چاٹ چاٹ کر لال
اور گیلے کر دیے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ
لوگ ڈاکو نہیں ہیں بلکہ کوئی ریپ گینگ ہے۔
کیوں کہ ان کے پاس سب جدید چیزیں موجود
تھیں۔ ان کے پاس ایک بیگ بھی تھا۔ اور سب
ہلکے ہلکے نشے میں لگ رہے تھے۔ اس بات کا
اندازہ یوں ہوا کہ انہوں نے بیگم کے کانوں
کی رنگس اور سونے کے لاکٹ تک نہیں اتارے
تھے۔ اور نہ ہی میری جیب سے پرس چھینا تھا
اور موبائیل آف کی حالت میں بے دھیانی کے
ساتھ زمین پر گرا پڑا تھا۔ بس نمودار ہوتے
ہی سیکس کی ہوس مٹانے لگ گئے۔ کافی دیر تک
سردار نے میر ی بیگم کی گانڈ کو چاٹا اور جی
بھر کے چوما۔ اس کا ایک ہاتھ شلوار کے اوپر
سے بار بار اپنے لنڈ کو پکڑ رہا تھا۔پھر
سردا ر پیچھے ہٹا اور کہا اس کی باقی شلوار
بھی کھینچ کر اتار دو۔ ساتھ کھڑے ڈاکو نے
بیگم کی باقی شلوار بھی نیچے کھینچ کر اتار
دی۔ جس سے بیگم کا نیچے والا پوار حصہ ننگا
ہو گیا۔ اور بیگم آدھے لباس میں رہ گئی۔
یعنی اب بیگم کے جسم پر صرف قمیض اور برا
باقی تھے۔ جیسے ہی بیگم کی سارے شلوار اتری
اور نیچے والا پورا حصہ ننگا ہوا ، ایک بار
پھر سب ڈاکو بیگم کو پائوں سے گانڈ تک بالکل
ننگا دیکھ کر ٹوٹ پڑے۔کوئی گانڈ سے پائوں تک
ہاتھ پھیرنے لگ گیا تو کوئی اوپر سے نیچے تک
کسنگ کرنے لگ گیا۔ سردار نے کہا اس کے منہ پر
اب ٹیپ اتار دو۔ ان میں سے ایک نے جونہی بیگم
کے منہ سے ٹیب اتاری ۔ اس سے پہلے کہ میری
بیگم چلاتی اس نے اپنے ہونٹ بیگم کے ہونٹوں
سے ملا کر بیگم کی آواز بند کردی۔ اور نازک
نازک ہونٹوں کا رس چوسنے لگ گیا۔ اب منظر یہ
تھا کہ سردار بیگم کی گانڈ کے سوراخ میں
انگلی ڈال اور نکال رہا تھا تو کبھی سوراخ
چاٹ اور چوتڑ چوم رہا تھا۔ جب کہ مولو نامی
ڈاکو میری بیگم کے دونوں پائوں کی انگلیاں
منہ میں لے کر باری باری چوس رہا تھا۔ اور
ساتھ ساتھ بیگم کے پیروں کو ملا کر شلوار کے
اوپر سے ہی اپنے لنڈ پر رگڑ رہا تھا۔ جب کہ
ایک ڈاکو مسلسل بیگم کے چوتڑوں اور ٹانگوں
کے جوڑ پر ہاتھ گھمائے اور کس کیے جا رہا
تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اب بیگم کو بھی
سیکسی جھٹکے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ شاید اب
اسے بھی مزہ آنے لگا تھا۔ سردار نے کہا :
کاچھی تم ذرا اسے نیچے کھینچو اب میں سالی
کے پھر سے ہونٹ چوس لوں ، بڑا مزہ ہے اس کے
ہونٹوں میں تو۔ کاچھی جو اس وقت بیگم کے
ہونٹ چوس رہا تھا اس نے بیگم کے ہونٹ چھوڑ
دیے اور سردار نے اس کی جگہ لے لی۔ جب بیگم
کو انہوں نے تھوڑا نیچے سر کا دیا تو اس کے
پائوں زمین پر لگ گئے اور پیٹ بند ڈگی پر
رہا۔یعنی انہوں نے بیگم کو ڈوگی پوز میں کر
دیا۔ سب سے پہلے سردار نے اپنی قمیض اتاری
اور ساتھ ہی باقی تینوں نے بھی اپنی اپنی
قمیضیں اتاردیں۔ جیسے وہ اسردار کے ہی
انتظار میں تھے۔سردار بدستور بیگم کے ہونٹ
چوس رہا تھا۔ جب کہ مولو بیگم کی گانڈ میں دو
انگلیاں تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا۔اسی
لمحے کاچھی بیگم کی چوت میں دو اور پھر تین
انگلیاں اندر باہر کر رہا تھا۔ یہ منظر جاری
تھا کہ چوتھے ڈاکو نے بیگم کی قمیض اوپر کی
اور برا کی ہُکس کھو ل دیں۔اور سردار نے
بیگم کی لان کی پتلی قمیض ایک ہی جھٹکے میں
کھینچ کر پھاڑ دی۔ اور پھر تمام قمیض کو
باری باری چیر کر پھاڑ ڈالا۔ اب میری بیگم
بالکل ننگی ہو چکی تھی۔ سردار نے اپنی شلوار
کا ناڑا کھول دیا۔ جس کے ساتھ ہی کالا سا لنڈ
نمودر ہوگیا۔
سردار نے بیگم کی گالوں کو دبا کر زبردستی
منہ کھول کر لنڈ کو بیگم کےمنہ میں ڈال دیا۔
اور بیگم کو بالوں سے پکڑ کر منہ اوپر نیچے
کرنے لگا۔ جب کہ مولو بیگم کی چوت کو زبان سے
چاٹنے لگا اور کاچھی گانڈ کو چاٹنے لگ گیا۔
سردار کے لنڈ کو بیگم کا منہ شاید بہت مزہ دے
رہا تھا جس سے سردار کے منہ سے آہ۔۔۔آہ۔۔۔آہ
۔۔۔کی آوازیں نکل رہی تھیں۔جب کہ چوٹھا
ڈاکو جو پٹھان لگ رہا تھا۔ وہ بیگم کے ایک
ہاتھ سے اپنے لند کو مساج کروا رہا تھا۔
بیگم ساتھ نہیں دے رہی تھی لیکن وہ خود ہی
بیگم کے ہاتھ کی مٹھ بنا کر اوپر نیچے کر رہا
تھا ۔ میری پیاری بیگم کے جسم سے چار غیر مرد
کھیل رہے تھے۔دو گانڈ اور چوت چاٹ رہے تھے
اور ایک لند چسوا رہا تھا اور ایک مٹھ کا کام
لے رہا تھا۔بیگم اب بالکل ڈھیلی ہو گئی تھی
اور خود کو ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ نے
پر مجبور ہو چکی تھی۔ اگلے ہی لمحے سردار
بیگم کے سر کے بالوں کو پکڑ کر پاگلوں کی طرح
اوپر نیچے کرنے لگا اور ساتھ ہی وہ بیگم کے
منہ میں فارغ ہوگیا ۔ اور بیگم کا منہ اس کی
منی سے بھر گیا۔بیگم نے اس کی منی باہر
پھینک دی۔سردار گاڑی کی ڈگی سے دور نیچے
زمین پر آکر بیٹھ گیا۔اور اب لالا یعنی
پٹھان نے اپنا لند بیگم کے منہ میں ڈال دیا۔
اس دوران مولو نے بیگ سے ایک چادر نکالی اور
کہا اسے نیچے لٹا کر چودتے ہیں۔اس کے بعد وہ
بیگم کو میرے ساتھ والے درخت کے پاس اٹھا کر
لے آئے۔اور چادر بچھا کر بیگم کو سیدھا لٹا
دیا.

پھر وہ میری بیگم کو نہ جانے کیوں اس درخت کے
پاس لے آئے جہاں میں بندھا ہوا تھا۔شاید اس
لیے کہ اس کے نیچے تھوڑا بہت نرم گھا س تھا۔
وہاں لاکر انہوں نے بیگم کو سیدھا لٹا دیا۔
میری بیگم نے ٹانگیں سکیڑ رکھی تھیں۔ مولو
نے میری بیگم کی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں
پھیلا کر کھو ل دیں اور اپنا لمبا سا لنڈ جو
میرے لنڈ سے کافی لمبا اور موٹا تھا ایک
جھٹکے میں میری بیگم کی چوت میں پورا اندر
ڈال دیا اور پاگلوں کی طرح اندر باہر جھٹکے
مارنے لگ گیا۔میر ی بیگم بنیادی طور پر ایک
شریف عورت تھی اور کبھی کسی مرد سے زیادہ
بات تک نہیں کی تھی۔ لیکن آج اس کی چوت میں
کسی غیر مرد کا لنڈ تیزی سے اندر باہر ہو رہا
تھا۔ اور خوب مزے لوٹ رہا تھا شادی شدہ
پرائی چوت کے۔ اس دوران لالا پھر سے بیگم کے
ہاتھوں کی مٹھ بنا کر مز ے لینے لگ گیا۔ اور
کاچھی نے اپنا لنڈ جو کہ لمبا کم اور موٹا
زیادہ تھا بیگم کے منہ میں ڈال دیا ۔ جب کے
سردار یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا۔
میرے بیگم میرے سامنے چُد رہی تھی۔ مولو
اپنے لنڈ کو میر ی پیاری بیگم کی نازک چوت
میں ہتھوڑے کی ٹھوک رہا تھا۔ بیگم کی طرف سے
مزاحمت نام کی کوئی چیز نہ رہی تھی۔ بیگم کی
چوت کا سوراخ مولو کے لنڈ کو بھر پور مزے دے
رہا تھا۔ اور منہ سے کاچھی کا لنڈ لطف اندوز
ہو رہا تھا۔ جب کہ ہاتھ کے مزے لالا اٹھا نے
لگا تھا۔ لالا نے کہا: ماڑا، اس کو الٹا کرو
، ہم اس کی گانڈ میں پانی بھرے گا۔ یہ سن کر
کاچھی سیدھا لیٹ گیا او بیگم کو الٹا کر کے
اپنے اوپر لٹا لیا۔ مولو نے میر ی بیگم کی
ٹانگیں کھول دیں۔ اور کاچھی نے اپنا لنڈ
میری بیگم کی چوت میں پورا ڈال دیا۔ اس کے بس
میں ہوتا تو شاید ٹٹے بھی ڈال دیتا۔ جب کہ
مولو نے اپنا لنڈ بیگم کے منہ میں ڈال دیا
اور کہا کہ چوسو۔ بیگم نے نہیں چوسا۔ اس نے
پسٹل اٹھا کر کہا کہ چوسو ورنہ یہ پورا برسٹ
تمھارے شوہر کی کھوپڑی میں اتار دوں گا۔
لیکن بیگم نے پھر بھی نہ چوسا ۔ اس نے ایک
ہوائی فائر کیا۔ جس سے بیگم ڈر گئی۔ اور
مولو کا لنڈ چوسنے لگ گئی۔ جب کہ کاچھی بیگم
کی چوت میں لنڈ اندر باہر کرنے لگ گیا۔ اب
لالا کو بیگم کی گانڈ مارنے کا موقع مل گیا۔
اس نے بیگم کی گانڈ میں انگلی ڈال کر راستہ
بنانا شروع کر دیا۔پہلے ایک انگلی ڈالی،
پھر دو اور پھر تین انگلیاں ڈال کر اندر
باہر کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے اپنا گورا
مگر موٹا لنڈ بیگم کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ
کر زور لگایا لیکن مشکل سے لنڈ کی ٹوپی ہی
اندر گئی۔ جیسے ہی لنڈ کی ٹوپی اندر گئی
بیگم نے چیخ ماری۔ لیکن لالا نے ایک زور دار
جھٹکے سے لنڈ کو زبردستی آدھا اندر گھسیڑ
دیا۔ اور اندر باہر کرنے لگا۔ اب منظر یہ
تھا کہ بیگم کے تینوں سوراخ یعنی چوت، گانڈ
اور منہ لنڈوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اور اندر
باہر ہو رہے تھے۔ لالا نے بیگم کی گانڈ سے
لنڈ نکالا اور اچھی طرح تھوک لگا گر دوبارہ
ڈال دیا اور اس بار پورے کا پورا اندر چلا
گیا۔ بیگم کی چوت اور گانڈ میں لنڈ تیزی سے
اندر باہر ہورہے تھے۔ جب کہ منہ میں بھی ایک
لنڈ چوسائی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ لالا کا لنڈ
بیگم کی گانڈ میں بہت زیادہ پھنس کر آیا
تھا۔ لیکن وہ میری بیگم کے درد کی بالکل
پرواہ نہیں کر رہا تھا۔ بیگم جتنا چلاتی وہ
اور زور سے جھٹکا مارتا۔ کچھ دیر بیگم کے
تینوں سواخوں کی چدائی جاری رہی۔ پھر وہ آپس
میں جگہیں تبدیل کرنے لگ گئے۔ کبھی مولو
گانڈ مارنے لگ جاتا اور کاچھی چوت۔ تو کبھی
مولو چوت مارنے لگ جاتا تو کاچھی گانڈ۔ لیکن
لالا مسلسل گانڈ ہی مارتا رہا۔ اگلے ہی لمحے
لالا پاگلوں کی طرح بیگم کو جھٹکے مارتا ہوا
گانڈ کے اندر ہی فارغ ہوگیا۔ اور سردار کے
ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔ اس دوران مولو جو کہ
بیگم کے منہ کو چود رہا تھا وہ گانڈ مارنے کے
لیے بڑھا۔ بیگم کی گانڈ سے لالا کی منی باہر
نکل رہی تھی۔ مولو نے اسی منی کو اپنے لنڈ پر
لگایا اور اپنا لنڈ میری بیگم کی سوجی ہوئی
گانڈ میں ڈال دیا۔ ایک طرف کاچھی میری بیگم
کی چوت میں لنڈ تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا
اور ساتھ ساتھ بیگم کے بڑے بڑے ممے بھی چوس
رہا تھا۔ جس سےبیگم کے منہ خود بخود
اسس۔۔۔اسس۔۔۔اف۔۔۔کی آوازیں نکلنے لگی
تھیں۔ شاید اب بیگم کو بھی بہت مزہ آنے لگ
گیا تھا۔ بیگم دو لنڈوں کے پہلے ہی ٹھنڈا کر
چکی تھی اور باقی دو لنڈ ابھی تک بیگم کی چوت
اور گانڈ میں ایک ساتھ ہلچل مچائے ہوئے تھے۔
مولو کالنڈ جب خشک ہو جاتا تو وہ گانڈ سے
نکال کر بیگم کے منہ سے چسوانے لگ جاتا ۔ اور
پھر سے گانڈ میں ڈال دیتا۔ یہ سلسلہ جاری
تھا کہ پہلے مولو بیگم کی گانڈ میں فارغ
ہوگیا اور اگلے ہی لمحے کاچھی بیگم کی چوت
کو گرم پانی سے بھر دیا۔بیگم نے ابھی سکھ کا
سانس لیا ہی تھا کہ سردار جو کہ سب سے پہلے
کار کی بند ڈگی پر بیگم کے منہ میں ہی فارغ
ہو چکا تھا وہ بیگم کے قریب آیا اور بیگم کے
بوبس چوسنے شروع کر دیے۔ بوبس چوستا ہوا چوت
تک آجاتا اور پھر بوبس اور گردن تک چلا
جاتا۔پھر جب وہ ایک بار نیچے آیا تو پاگلوں
کی طرح بیگم کے دونوں چوتڑ پھیلا دیے چوت کو
کے لبوں کو اپنے منہ میں لے کر اندر کی طرف
کھینچتا ہوا چوسنے لگ گیا۔ جس سے بیگم بھی
بہت گرم ہونے لگی تھی۔ بیگم بھی سیکس میں
چور لگ رہی تھی۔ اور مزے میں اپنی گانڈ کے
دونوں چوتڑ اوپر نیچے اور دائیں بائیں کر
رہی تھی۔ اور یہ سب وہ مدہوشی کی حالت میں کر
رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ سسکیاں بھی بھر رہی
تھی۔یہ منظر دیکھ کر نہ جانے کیوں خود بخود
ہی میرا لنڈ بھی کھڑا ہونے لگ گیا، جو کہ
میری شلوار سے ظاہر ہو رہا تھا ۔میرا لنڈ
اتنا زیادہ اکڑ گیا کہ میرا غصہ بھی ماند پڑ
گیا۔ اور مجھے اپنی ہی بیگم کا سین کسی
سیکسی مووی کا مزہ دینے لگ گیا۔ میں نے کبھی
سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنی ہی بیگم کو چدتا
دیکھ کر مجھے اس طرح سیکس آ سکتا ہے۔بیگم کی
چوت اچھی طرح چاٹنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ
چوت کے سوراخ میں گھسیڑ دیا۔اور اندر باہر
کرنے لگا۔جب اچانک سردار کی نظر میری شلوار
کے ابھرے ہوئے حصے پر پڑی تو سردار نے کہا :
اس کا ایک ہاتھ کھول دو ، اور منہ سے ٹیپ ہٹا
دو۔ اب تو بیگم بھی سرادر کا خوب ساتھ دے رہی
تھی۔ اور آگے پیچھے جھٹکے مار مار کر سردار
کے لنڈ کی اندر باہر کی رفتار بڑھانے میں
سردار کی مدد کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ ایک بار
بیگم نے سردار کو اس کی کمر سے اپنی بانہوں
میں بھر لیا۔ اور زور زور سے سیکسی سسکیاں
بھرنے لگی۔ یہ بیگم کے فارغ ہونے کی علامت
لگ رہی تھی۔ پھر بیگم اور سردار ایک ساتھ
فارغ ہوگئےاور ساتھ ہی میری شلوار بھی مٹھ
مارنے کی وجہ سے منی سے بھر گئی۔

**میری زندگی کا انوکھا تجربہ**

میں ٣٠ سال کی ایک آرمی افسر کی بیوی ہوں.اور میرا ایک سات سال کا بیٹا بھی ہے.مگر اس کے باوجود میں نے اپنے آپ کو اس طرح سنبھال کر رکھا ہوا ہے،کہ میں ابھی بھی ایک خوبصورت جسم کی مالک ہوں.اور میری شکل انڈین فلم سٹار پریتی زنٹا سے ملتی ہے.میں نے ٣ میہنے پہلے مسز آرمی بیوٹی کونٹیسٹ جیتا ہے.میرے بوبز میرے جسم کے لحاظ سےکافی بڑےہیں،اور میراقد پانچ اشاریہ چھ انچ لمبا نازک جسم اور لمبی اور سڈول ٹانگیں ہیں.میری نند کی شادی ایک نیوی افسر سے ہوئی ہے،جس کا نام راجندر ہے.جس کو ہم پیارسے راج کہتے ہیں راج ایک ہنڈسم اور کسرتی جسم کا مالک ہے،کہی بار میں نے یہ محسوس کیا ہے کے وہ جب بھی ہمارے ہاں آتا ہے یا مجھے کہی ملتا ہے اس کی نظر میری چھاتیوں پر ہوتی ہے،جومجھے بہت برا محسوس ہوتا ہے.اس لیے میں کوشش کرتی ھوں کہ اس کے سامنے کم سے کم رہومگر ایک دن سب کچھ تبدیل ہو گیا کیونکہ میرے میاں کی پوسٹنگ نورتھ سیکشن میں ہوگی.مگر وہاں فمیلی کا کوئی انتظام نہیں تھا تو میرے میاں اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں واپس اپنے شہر ساس سسر کے پاسس چلی جاتی ہوں.مگر میری نند نے جو ہمارے گھر کے قریب ہی رہتی تھی،نے مجھے اپنے گھر رہنے کی آفر کی جو ہم نے منظور کر لی.کیونکہ ہمارا بچہ ایک اچھے سکول میں پڑھتا تھا اور دوسری جگہ جانے میں اس کی تعلیم کا حرج ہوتا وہ سکول کے ہاسٹل میں رہتا تھا.اور صرف ویک اینڈ پر گھر آتا تھا،تو میں میاں کے جانے کے بعد اپنی نند کے گھرشفٹ ہوگئی راج زیادہ تر کام کے سلسلے میں گھر سے باھرہی رہتا تھا.اور ابھی تک ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی میں اور میری نند ہم دونوں گھر پر اکیلی ہوتی تھی.تو میں بوریت دوڑ کرنے کے لیے گھر کے کام اس کا ساتھ بٹانے لگی،آہستہ آہستہ میں راج کے ساتھ فری ہو گئی.ایک رات جب راج ڈیوٹی کے لیے جارہا تھا کہ اچانک لائٹ چلی گئی تو وہ اندھیرے میں کچن میں آیا جہاں میں کام کر رہی تھی تو اس کا ہاتھ میں نے اپنی چھاتی پر محسوس کیا اس نے سوری کیا اور کہا کہ میں موم بتی ڈونڈھ رہا ہوں اور چلا گیا،اس کی نظر میں یہ سب کچھ اچانک ہوا مگر مجھے پتہ تھا کہ

سب کچھ اس نے جان بوجھ کر کیا ہے کیونکہ اس نے اپنے ہاتھ سے میرے بوبز کو ہلکا سا دبایا تھا رات کو جب میں سونے کے لیے لیٹی تو اس کے ہاتھ کا لمس میں نے محسوس کیا میری عجیب سی فیلنگ ہو رہی تھی چارمیہنے ہو گیے تھے میرے شوھر کو گہے ہوے مجھے ایسا لگا جیسے راج میرے ساتھ لیٹا ہوا ہے میں نے اپنے بوبز کو دبانا شروع کر دیا اور میری چوت سے ہلکا سا پانی نکلنے لگا اور میں اسی طرح سو گئی اگلے چند دن کسی ایکسیڈنٹ کے بغیر نکل گے مگر جب بھی راج میرے پاسس سے گزرتا اس کی پینٹ کے سامنے کا ابھار صاف نظر آتا پر میں نے اس کو کوئی رسپانس نہیں دیا ایک رات میں پانی لینے کے لیے کچن میں جارہی تھی مجھے کچن میں جانے کے لیے راج اور جیا( میری نند کا نام) کے کمرے کے پاس سے گزرنا پڑتا ہے جیسے ہی میں ان کے روم کے پاس پونچی میں نے کچھ آوازیں سنیں میں رک گئی تو پتہ چلا کہ وہ سکس کر رہے میرے جذبات مچل گئے مگر تھوڑا برا بھی لگا کہ میں کسی کی نجی زندگی میں دخل اندازی کر رہی ہوں میں کچن میں چلی گئی پانی پیتے هوے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور میرا چہرہ خون سے سرخ ہوگیا ہے اور میرے بوبز سخت ہونے لگے ان کی نیپل مجھے اپنی نائٹی میں سے نظر آرہی تھی پانی پی کر واپس آتے هوے میں راج کے روم کے پاس رک گئی آوازیں ابھی تک آرہی تھی اچانک ہی بلا ارادہ میں نے جھک کر ان کے روم کی کی ہول سے اندر دیکھا تو مجھے ایک جٹکا لگا میں نے دیکھا کہ راج نیچے لیٹا ہوا تھا اور جیا اس کے اوپر بیٹھی اس کا لن چوپ رہی تھی اور اس کی پیٹھ راج کی طرف تھی اور وہ اس کی چوت کو چاٹ رہا تھا جیا نے دونوں ہاتھوں سے اس کے لن کو پکڑھا ہوا تھا اور چوپے لے رہی تھی میں وہاں سے باوجود کوشش کے آنکھیں نہیں ہٹا سکی مجھے ایسا فیل ہو رہا تھا کہ جیسے جیا کی جگه میں ہوں اور راج کا لن میں اپنے اندر محسوس کر رہی تھی پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی پوزیشن چینج کر لی اب جیا پیٹ کے بل نیچے لیٹ گئی اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا لی اور اسی طرح راج اس کی گانڈ کو چاٹنے لگا اور ایک انگلی اس کی چوت میں ڈال دی اور جیا کے منہ سے سیکسی آوازیں نکل رہی تھیں اب راج نے اسی سٹائل میں اس کے اندراپنا لن ڈال دیا اور اس کو چودنے لگا اور میں واپس اپنے روم میں آگئی مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور مجھ پر سکس کا فل نشہ طاری تھا میں نے ایک ہاتھ سے اپنے بوبز کو مسلنا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی کو اپنی چوت میں ڈال لیا اور اندر باھر کرنے لگی اس وقت مجھے اپنے شوہر کی کمی بڑی شدت کے ساتھ محسوس ہوئی اور اسی طرح سکس کی ماری میں سو گئی دو تین دنوں کے بعد میں نے راج کو دوسری نظر سے دیکھنا شروح کر دیا ویکینڈ پر جیا نے کالونی کی دوسری عورتوں کے ساتھ پکنک پر جانے کا پروگرام بنا لیا اور مجھے اور میرے بیٹے کو بھی چلنے کو کہا مگر میں نے خرابی طبیعت کا بہانہ بنا کر اس کو ٹالدیا

تھوڑی دیر کے بعد جیا اور میرا بیٹا دونوں گاڑی میں بیٹھ کر ان کے ساتھ پکنک پر چلے گنے اب گھر میں راج اور میں اکیلے تھے میں نے خیال میں ہی خود کو راج کی گود میں بیٹھا ہوا دیکھا کہ میں اس کے پاجامہ کے ابھار کو قریب سے دیکھ رہی ہوں اور اور ابھار کے نیچے اس کے موٹے تازے لن کو اپنے ہاتھوں سے فیل کر رہی ہوں اور وہ میری چوت پر ہاتھ پھیر رہا ہے پندرہ بیس منٹ کے بعد جب مجھے یقین ہو گیا کہ جیا اور دوسرے لوگ پکنک کے لیے نکل گیے ہیں میں اپنے روم سے باہر آئ اور راج لاؤنج میں بیٹھا نیوز پیپر پڑھ رہاتھا میں نے اس کو کہا کہ میں باتھ کرنے جارہی ہوں اور نوکرانی ابھی تک نہیں آئ اس لیے میں اپنے روم کا ڈور کھلا چھوڑ رہی ہوں کہ جب وہ آئے تو صفائی کرلے یہ کہ کر میں اپنے روم میں چلی آئی میرے روم میں ائر کندشن لگا ہوا تھا مگر اٹیچ باتھ روم آگ کی طرح گرم تھا اس وقت موسم بھی گرمی کا تھا میں نے اپنے سارے کپڑھےاتار دیے اور بیڈ پر اس طرح لیٹ گئی کہ ڈور سے میری ننگی پیٹھ نظر آرہی تھی میں نے ایک ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز کو دبانا شروع کر دیا اور آرام سے اپنی گیلی چوت پر بھی ہاتھ پھیرنے لگی میں امید کر رہی تھی کہ وہ میرا اشارہ سمجھ گیا ہوگا اور خود ہی میرے روم میں آ جاۓ گا کچھ دیر کے بعد ایسا لگا کہ کسی نے ڈور کے ہینڈل کو آہستہ سے نیچے کیا ہو میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ بوبز سے ہٹا کر آنکھوں پر اس طرح رکھ لیا جیسے میں سو رہی ہوں مجھے تھوڑا سا یہ ڈر بھی تھا کہ نوکرانی نہ آجاۓ کی طرف آیا تو میںنے اپنے لفٹ بازو کے نیچے سے دیکھا کہ راج روم کی ڈور کے پاس کھڑا مجھے ننگی حالت میں دیکھ رہا ہے اس نے آہستہ سے ڈور بند کر کے اندر سے لاک لگا دی اور اپنا کرتا اور پاجامہ اتارنے لگا میں ابھی تک اس طرح سے ناٹک کر رہی تھی کہ جیسے میں سو رہی ہو وہ آہستہ سے چلتا ہوا میرے بیڈ کے پاسس بیٹھ گیا اور آہستہ سے میرے بوبز کی نپلس پر ہاتھ پھیرنے لگا میں نے بڑھی مشکل سے اپنی آہ روکی میں اپنے بازو کے نیچے سے دیکھ سکتی تھی کہ وہ آرام کے ساتھ میری لیفٹ نیپل پر زبان پھیرنے لگا اور رایٹ والی چھاتی کو بڑھے پیار کے ساتھ ہلکا سا دبانے لگااب میری برداشت سے باہر کام ہو گیا تھا اور میں صیح نشے میں ہو گئی تھی اور کوشش کے باوجود اپنی سکسی آوازوں کو نہ روک سکی اب میرے منہ سے ہلکی ہلکی آہ آہ آہ او او آہ نکلنے لگی اب میں نے اپنا دوسرا ہاتھ آنکھوں سے اٹھایا اوراس کو اچانک اساس ہوا کہ میں جاگ گئی ہوں اس نے ادھر ادھر ہاتھ مارنا شروع کر دیا اور سوری کہتے هوے پیچھے ہٹ گیا تو میں نے اس کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کراسے قریب کر کے اس کے ہونٹوں پر ایک کس کردی جس کا جواب اس نے بڑھی گرم جوشی کے ساتھ دیا اور اس کو پتہ چل گیا کہ یہ سب کچھ میری مرضی سے ہو رہا ہے تو اس کی ساری ججک ختم ہو گئی اور وہ پرجوش طریقے سے مجھے گالوں پرکس کرتا کبھی میرے ہونٹوں پر بوبز پر میرے چہرے پریہاں تک کے اس نے میرے بدن کا اوپر والا حصہ سارا چوم ڈالا مگر جب اس نے کان کی لووں پرجب اس نے زبان پھیری تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں کسی اور دنیا میں پوںچ گئی ہوں اس طرح لگتا تھا کہ جیسے اسے اس کام کا بہت سارا تجربہ ہے پتہ نہیں کہ یہ سب کچھ اس نے کتنی لڑکیوں کے ساتھ کیا ہو گا مگر حقیقی مہنوں میں وہ ایک لوو برڈ تھا اسی طرح چومتے چاٹتے وہ نیچے کی طرف جانے لگا جہاں میری نازک گیلی چوت اس کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہی تھی اس نے میری ٹانگوں کو ہلکا سا کھولا اور اپنی گرم گرم زبان کی نوک پیاسی چوت پر رکھ دی اور اس کو دھیرے سے چاٹنے لگا اور دوسرا ہاتھ اس کا ابھی تک میری چھاتیوں پر تھااس نے میری چوت کے ہونٹوں کو کھول کر اپنی انگلی اندر باہر کرنے لگا جس کی وجہ سے میرا پانی نکلنے لگا تو اس نے اپنا ہاتھ نکل لیا اس وقت جب میرا دل کرتا تھا کہ وہ سب کچھ اندر ڈال دے اورتھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک بارپھر میری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا اور ایک ہاتھ کی انگلی میری گانڈ کے سوراخ میں آرام سے ڈال دی یہ سب کچھ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا کیونکہ میرا شوھر ایک سیدہ سادہ آدمی تھا وہ تھوڑی دیر کس وغیرہ کر کے اندر ڈال دیتا تھا مگر یہ سب کچھ کر کے آدمی اصل سکس کا مزہ اٹھاتا ہےمیری چوت پہلے ہی پانی چھوڑ چکی تھی اس نے اپنا منہ میرے کانوں کے ساتھ لگا لیا آہستہ اور بڑے پیار کا ساتھ وہ میری تعریف کرنے لگا کہ میں بہت خوبصورت ہوں اس نے کہا کہ وہ ہر وقت میرے سپنے دیکھا کرتا تھا اور خیالوں ہی میں وہ کہی بار مجھے چود چکا تھا اس نے بتایا کہ جب اس نے مجھے پہلی بار دیکھا تھا اسی ٹائم سے اس نے مجھے پسند کر لیا تھا اس کی باتیں اور ٹچ کرنا مجھے کسی اور دنیا میں لے آیا تھا اب اس نے ایک بار پھر میری چوت کو چاٹنا شروع کیا اب کیبار اس نے میری چوت اور گانڈ کے درمیان والی جگہ پر بڑے لاڈ کے ساتھ اپنی زبان کی نوک پھیری تو میں اپنا آپ پر کنٹرول نہ کر سکی اور زور زور سے چلانے لگی آہ آہ آہ وو وو .... آئ لوو یو جانی آہ.مر گئی اور جب اس نے میری گانڈ پر زبان پھیری تو ایسا لگا کہ جیسے کسی نے مجھے بجلی کا شاک دیا ہو ایک دم سے میرا سارا جسم کانپنے لگااس نے مجھے نیچے لٹا کر میری ٹانگیں اٹھا لی اور اپنے لن کو میری چوت پر رگڑنے لگا اب مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں نے اس کو پکڑ کر اندر ڈالنا چاہ تو اس نے میرا ہاتھ ہٹا دیا اب ایک بار پھر میری چوت نے پانی چھوڑ دیا اب اس نے ایک دم سے اپنا راڈ میری چوت پر فٹ کیا اور ہلکا سا دبایا تو میری چیخ نکل گئی کیونکہ اس کا راڈ میرے شوہر کے راڈ سے کافی بڑا اور موٹا تھا اور جب دوسری بار اس نے زور لگایا تو سیدھا میرے اندر چلا گیا تھوڑی دیر تک تو مجھے تکلیف ہوئی مگر اتنے سارے پیار کے آگے یہ کچھ بھی نہیں تھی کافی دیر اسی طرح چودنے کے بعد اس نے مجھے اوپر بٹھا لیا اب میں اوپر سے نیچے اور وہ نیچے سے اوپر سٹروک لگا رہا تھا جب اس کا پانی نکلنے والا ہوتا وہ باھر نکل لیتا اب اس نے مجھے ٹیڑھا کر کے پیچھے سے میرے اندر ڈال دیا اور زور زور سے سٹروک لگانے لگا روم میں ائر کنڈیشن ہونے کے باوجود ہمارے جسم پسینے کے پانی سے بھرے هوے تھے اب اس نہ ایک بار پھر مجھے سیدھا لٹا لیا اور سٹروک شروع کر دیے اب میری آواز کے ساتھ اس کی آواز بھی شامل ہو گئی تھی ہم دونوں آہ آہ وو وو کرنے لگے اب اس نے سپیڈ تیز کر لی تو مجھے پتہ چل گیا کہ اس کی منزل قریب ہے تھوڑی دیر کے بعد مجھے ایسا لگا کے جیسے کسی نے میری چوت میں گرماگرم لاوا چھوڑ دیا ہو ایسا لگتا تھا کہ جیسے ساری دنیا تھم گئی ہو اور میں ایک دم سے بلکل ٹھنڈی ہو گئی اور اسی طرح کہ اس کا لن میری چوت کے اندر ہی تھا ہم دونوں ایک ساتھ لیٹ گنے اور باتیں کرتے میں سو گئی کافی دیر کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ میں بیڈ پر نائٹی پہنے اکیلی لیٹی ہوئی ہوں میں سوچنے لگی کہ کیا یہ سب کچھ خواب تھا باہر سے آوازیں آرہی تھیں ایسا لگتا تھا کہ جیا اور میرا بیٹا واپس آگے ہیں اور کھانے کی خوشبو آ رہی تھی اتنے میں راج نے مجھے آواز دی کہ کھانا تیار ہے میں کپڑھے پہن کر ڈائنگ روم میں گئی تو سارے بیٹھے هوے کھانا کھا رہے تھے راج نے جیا کو بتایا کہ اس کی طبھیت صبح سے ہی خراب تھی اور یہ اپنے روم میں سارا دن سوتی رہی تو میں نے بھی اس کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور میری طرف دیکھ کر ہلکے سے آنکھ ماردیتو مجھے پتہ چلا کہ یہ سب کچھ خواب نہیں حقیقت تھی اور میری زندگی کا سب سے بہترین تجربہ تھا راج کے ساتھ میں نے بہت ٹائم گزارا ایسا لگتا تھا کہ وہہی میرا شوھر اور میرا لوور ہے اس کے ساتھ میں نے ہر طرح سے سکس کیا کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ جیا کتنی لکی ہے کہ اس کو اتنا اچھا شوھر ملا مگر کچھ ٹائم کے بعد جیا نے اس کو چھوڑ دیا کہ یہ ایک آوارہ اور عیاش شخص ہے کچھ لوگ ہیرے کی اس وقت قدر نہیں کرتے جب وہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور بعد میں پچھتاوا ان کی زندگی کا روگ بن جاتا ہے

**لیسبین سکس**


آج کل کی پاکستانی لڑکیاں سیکس کی بہت زیادہ شوقین ہو چکیں ہیں ان کی چوت میں جب تک بڑا لن نہٰں چلا جاتا ان کو ساری ساری رات نیند نہیں آتی پھر یہ اپنے نیٹ فرینڈ کو لائیو پھدی دکھاتی ہیں تو کبھی مست مست ممے دکھا کے چدائی لگواتی ہیں تاکہ وہ ان کو چودنے آ جائے ان کی پھدے آ کے چود لے جب وہ چود لیتا ہے تب ان کی چوت کو قرار مل جاتا ہے میں ان کو اچھی طرح سے سمجھتی ہوں کیونکہ میں بھی ان میں سے ہی ایک چدائی کی شوقین لڑکی ہوں میرا بطھی دل کرتا ہے کوئی میری پھدی مارے اس طرح کی کہانیاں پڑھ کے میرا دل کرتا ہے کاش میرا بھی بھائی ہوتا میری پھدی میرا بھائی چود لیتا

لیکن میں بد قسمت ہوں کیونکہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے جو میری گیلی رہنے والی پھدی کو لن سے بھر دے لن اس میں دال دے اور میری ترستی چوت میں ٹھنڈک ڈال دے تنور کی طرح میری پھدی رہنے لگی ہے کوئی اس پہ ترس نہیں کرتا میں مکیا کروں میں آجکل پریشان بھی رہتی ہوں میری کئی ایک سیکسی کہانیاں ہیں جن کو میں شیئر کرنا چہتی ہوں لیکن ڈرتی ہوں کہیں آپ لوگ مجھے بلیک میل نا کرنا شروع کر دیں اور بدلے میں جو مانگیں شائد میں اتنے دوستوں کو نا دے سکوں جی ہاں میں اپنی پھدی سینکڑوں مردوں کو تو نہٰں دے سکتی ناں میرے بارے آپ لوگ سن لیں میرا تعارف ضروری ہے تو میرا تعارف جانیں اور میری پھدی لینی ہو تو ای میل کیا جاسکتا ہے

میرا نام رابعہ ہےمیں میں بہت گرم سیکسی جلد ہاٹ ہونے اور جلد ہاٹ کرنے والی کمال کی ماڈڑن لڑکی ہوں میری پھدی ہر وقت لن کو ترستی رہتی ہے لیکن اچھا لن نایاب ہو گیا ہے للی نما لن عام ہیں اصلی گھوڑے والا اسٹائل کا موٹ؁ ہیڈ والا لناب نہیں ملتا پینڈو لن کبھی کبھی ایسے مل جاتے ہیں لیکن ان میں بھی وہ اب نہیں رہی جوہر میں رہتی ہوں اور میں ٢٢ سال کی ہوں اور میں ایک کالج میں پڑھتی ہوں وہاں میری ایک دوست بھی ہے جو مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اور ہم دونوں ہر وقت ایک ساتھ ہی رہتے ہیںاس کا نام نیہا ہے وہ بھی سیکسی مست کرنے والی لڑکی ہے ا سکی پھدی بھی لن مانمگتی رہتی ہےاور ہم دونوں ایک سے کپڑے پہنتے ہیں اور ایک دوسرے سے پیار بھی بہت کرتے ہیںاور وہ بہت ہی خوبصورت پاکستانی لڑکیاں ہے اور یہ کہانی ہم دونوں کی ہی ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہےنیہا کے گھر میں کوئی بھی نہیں تھا اور میں نیہا کے ساتھ مارکیٹ گئی ہوئی تھی جب ہم مارکیٹ سے آئے تو ہم نیہا کے گھر ہی گئے تھے وہاں کوئی بھی نہیں تھا ہم نے وہاں تھوڑا آرام کیا اور بھی ہم دونوں سو گئے شام میں نیہا کی امی کا فون آیاکہ آج وہ لوگ گھر پر نہیں آئے گے میں نیہا کے پاس ہی روک جاؤں اور میں نے بھی اپنے گھر پر کال کی اور میں بھی نیہا کے گھر روک گئی اور ہم نے رات خوب مزے کیے اور رات میں ہم نے ایک مووی بھی دیکھی اور پھر ہم نے کھانا کھایا اور لیٹ گئے اور پھر مجھے ایسی ہی نیہا کو کِس کرنے کی لگی اور میں نے نیہا کو کِس کی اور ہم پھر سے باتیں کرنے لگے اور پھر نیہا نے مجھے کِس کیاور پھر وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور پھر نیہا نے اپنے بوب دبانا شروع کر دیئے اور مجھے دیکھنے لگی اور میں بھی اس کو دیکھ رہی تھی پھر نیہا نے مجھے دوبارہ کِس کی اور میں بھی اس کو کِس کرنے لگی ہم ایکدوسرے کی پھدی ہونٹوں اور سیکسی بوبز کی دیوانی ہو چکیں ہیں ان کے بنا ہم کو سکون نہیں ملتا کاش کوئی او ربھی تیسری لڑکی ہو جو ہمارے گروپ کا حصہ بن جائے تاکہ ہم تینوں مل کے سیکس گروپ سیکس خاص طور پہ انجوائے کر سکیں

پھر ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ زبردست انداز میں مست جوان سکس کرنے کے لیئے یتار تھیں اور میں نے اسکی جوانی کو پیار سے سہلاتے ہوئے اس سے لپٹ کر اسکے جسم کو چوستی چاٹتی اور اسکی لیسبین چوت کو ننگھی کرکے اسکو اپنی زبان سے چاٹنے لگی تھی اور وہ ساتھ ہی جو میں کر رہی تھی وہ میرے ساتھ کر رہی تھی اور اس طرح ہم ایک دوسرے کی لیسبین چوت کو انگلیوں سے چودنے کے ستھ ایک دوسرے کے جسم کے ممے اور نپلز کو بھی چوستے رہے کوئی 15 سے 25 منٹ کے سکس کے دوران ہم نے اپنی لیسبین چوت کو ایک دوسرے کی پھدی سے ملا کر رگر کر بھی چودا تھا اور ہماری جونای کی سکسی سسکیاں نکل رہی تھی اور اسی طرح ہم فارغ ہوگئے تھے ار میرے جسم کی آگ اور اسکے جسم کی گرمی بھی مٹ رہی تھی اور اسطرح سے ہم پاکستانی لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ سکس کرتی ہیں اور پھر جب تک لنڈ نہ مل جائے سکس کرتی رہتی ہیں چدائی کا

اور پھر ہم دونوں سو گئے اور ہم میں عادت ہوگئی تھی ایک دوسرے کے ساتھ پاکستانی لڑکیاں والا سکس کرنے کا پھر نیہا نے سوچا کیوں نہ میں اپنا آپریشن کروا لوں کہ میں اپنے اندر ایک لڑکے کا لنڈ لگوا لوں اور پھر ہم پاکستانی لڑکیاں والا نہیں بلکہ لڑکا لڑکی والا سکس کرینگیاور پھر میں اور نیہا ایک ڈاکٹر کے پاس گئے اور ہم نے ڈاکٹر کو کہا کہ نیہا کو لڑکا بنا دیں ہم اس کام کے انھیں بہت پیسے دیں گے اور وہ راضی ہو گئے اور پھر انہوں نے نیہا کا آپریشن کیا اور اس کو ایک لڑکا بنادیااور یہ راز مجھے اور نیہا کو پتا ہےاور اب ہم دونوں کو نہ شادی کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہم کسی لڑکے سے ملتے ہےجب بھی موڈ ہوتا ہے یا تو نیہا کے گھر یا پھر میرے گھر پر مل لیتے ہیں یہ ہیں ہم دو دوستوں پاکستانی لڑکیاں چدائی کی کہانی یہ کہانی سچی ہے

**بس کا سفر**




میرانام کمال ہے اور میری عمر 38 سال کے قریب ہے میرا تعلق جڑانوالہ شہر سے ہے اور میں اپنی بیوی راحیلہ اور تین بچوں کے ساتھ لاہور میں رہتا ہوں راحیلہ کی عمر 30 سال کے قریب ہے اس کا قد چارفٹ سات انچ اور جسم تھوڑا سا فربہ ہے مگر سرخی مائل سفید رنگ اور تیکھے نین نقش کی وجہ سے وہ بہت خوب صورت دکھائی دیتی ہے اس کے کولہے باہر کو نکلے ہوئے ہیں جو اس کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیںدیکھنے والا کوئی بھی شخص یہ اندازہ نہیں کرسکتا کہ وہ تین بچوں کی ماں ہے راحیلہ طبیعت کے لحاظ سے شرمیلی اور کم گو ہے جبکہ بیڈ پر بہت ہی گرم ہے میں اور راحیلہ دونوں لاہور میں سرکاری ملازمت کرتے ہیں جبکہ ہمارے بچے مقامی سکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ گذشتہ سال کا واقعہ ہے جب بڑی عید کی آمد آمد تھی اور ہم لوگوں نے ماں باپ کے ساتھ عید منانے کا فیصلہ کیا اور بچوں کو میں نے اپنے بھائی کے ساتھ جڑانوالہ روانہ کردیا جبکہ میں اور راحیلہ نے دفتر سے چھٹیاں نہ ملنے کی وجہ سے عید سے ایک روز پہلے جڑانوالہ جانے کا فیصلہ کیا عید سے ایک روز پہلے ہم لوگ دوپہر کے بعد گھر سے نکلے اور لاری اڈا پہنچ گئے جہاں اے سی بسوںمیں ایڈوانس بکنگ ہوچکی تھی جس کا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایسا ہوگا ورنہ میں بھی ایڈوانس بکنگ کروالیتا خیر سیٹیں نہ ملنے کی وجہ سے ہم لوگوں نے نان اے سی بس میں جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے سٹاپ پر پہنچ گئے جہاں پر بہت ہی رش تھا ایسا لگ رہا تھا کہ سارا لاہور ہی جڑانوالہ جانے کے لئے یہاں امڈآیا ہے سٹاپ پر راحیلہ کے علاوہ کوئی بھی خاتون نہیں تھی تمام مسافر مرد تھے جس کو دیکھ کر میں اور ر احیلہ دونوں پریشان ہوگئے کہ اس رش میں کیسے سفر کریں گے خیر اب کیا ہوسکتا تھا ہمیں ہر صورت جانا تھا
کمال ہم لوگ اس رش میں کیسے جائیں گے‘ راحیلہ نے مجھ سے فکر مند ہوکر پوچھا
روحی(راحلیہ کا نک نیم) ہمیں اسی رش میں ہی جانا پڑے گا ہمارے پاس اور کوئی چوائس نہیںہے‘ میں نے اس کو جواب دیا
کافی دیر انتظار کے بعد بس سٹاپ پر آگئی ابھی بس سٹاپ پر رکی ہی نہیں تھی کہ لوگ اس کی طرف لپک پڑے ہم دونوں بھی بس کی طرف ہوئے میں نے اپنی بیوی کو بس میں سوار کرایا اور خود بھی دروازے پر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا اسی اثناءمیں باہر سے مسافروں کا ایک دھکا لگا اور ہم دونوں بس کے اندر پہنچ گئے اس دھکے کے ساتھ ہی میں اور روحی علیحدہ علیحدہ ہوگئے چند سیکنڈ میں ہی بس فل ہوگئی اب بس میں کسی کے پیر رکھنے کی بھی گنجائش نہ تھی میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو راحیلہ بس کے درمیان میں ایک ہاتھ چھت کے ساتھ لگے ہینڈل کو پکڑے کھڑی تھی جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ سامنے والی سیٹ کی پشت پر تھا اس نے دونوں ہاتھوں سے سیٹ اور اوپر والے ہینڈل کو پکڑ رکھا تھا جبکہ میں اس سے کافی دور بس کے عقبی حصہ میں تھا جہاں سے میں نے حرکت کرکے روحی کے پاس پہنچنے کی کوشش کی لیکن میرے آگے کھڑے مسافر چلانے لگے جس پر میں وہیں کھڑا ہوگیا میں نے نوٹ کیا کہ روحی کے پیچھے ایک بھاری بھر کم شخص کھڑا ہوا ہے جس کا قد لمبا اور کپڑے میلے کچیلے تھے اس نے ڈریس پینٹ اور شرٹ پہن رکھی تھی روحی کا سر اس کی چھاتی پر آرہا تھا اس شخص نے روحی کے ہاتھ کے پاس ہی ایک ہاتھ سے چھت والے ہینڈل کو پکڑا ہوا تھا جبکہ روحی کے اگلی سائیڈ پر بھی ایک شخص کھڑا ہوا تھا جو دیکھنے میں سلجھا ہوا لگ رہا تھا ان دونوں کے درمیان میں کھڑی روحی بچی لگ رہی تھی میں نے ایک بار پھر سے حرکت کرکے روحی کے پاس پہنچنے کی کوشش کی لیکن اپنی جگہ سے ایک انچ بھی آگے نہ جاسکا بلکہ الٹا پاس کھڑے مسافروں کی بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا ‘ میں نوٹ کررہا تھا کہ روحی کے پیچھے کھڑا ہوا شخص روحی کے مموں کی طرف غور سے دیکھ رہا ہے مجھے اپنی ”پراپرٹی“ کی طرف گھورنے پر اس شخص پر بہت غصہ آرہا تھا لیکن میں کچھ بھی نہیں کرسکااور چپ چاپ وہیں کھڑا رہااور بے بسی کی حالت میں اپنی بیوی کی طرف دیکھتار ہاتھوڑی دیر بعد ایک جھٹکے کے ساتھ ہی بس چل پڑی اور پیچھے کھڑا ہوا شخص روحی کے بالکل ساتھ لگ گیا روحی نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا کیوں کہ بس میں رش کی وجہ سے ہر شخص کی یہی حالت تھی سڑک کی حالت بہت خراب تھی اور اس کے علاوہ بس بھی کوئی انگریز کے دور کی کھٹارہ حالت میں تھی جو عید کے رش کی وجہ سے سڑک پر آگئی بس سڑک پر جھٹکے لے کر چل رہی تھی ہر جھٹکے کے ساتھ پیچھے کھڑا ہوا شخص روحی کے ساتھ پیچھے سے مزید جڑنے کی کوشش کررہا تھا اور اس کے ساتھ رگڑ کھارہا تھا جبکہ رش کی وجہ سے روحی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھی کیا ہورہا ہے میں نے غصے سے اس شخص کی طرف دیکھا اور میرا دل کیا کہ میں فوری طورپر اس کے پاس پہنچ جاﺅں اور اس کو پیچھے کردوں مگر میں ایسا نہ کرسکا دوسرے مسافروں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ شخص کیا حرکت کررہا تھا میں نے ایک مرتبہ اونچی آواز میں بول کر اس شخص کو پیچھے ہونے کے لئے کہنے کا بھی سوچا لیکن پھر سوچا کہ تمام مسافروں کی توجہ اپنی بیوی کی طرف کروانے میں بے عزتی ہوگی اس لئے خاموش ہوگیا رش کی وجہ سے روحی کا دوپٹہ بھی اس کے سر سے اتر گیا تھا اور کندھوں پر آگیا تھا جس کی وجہ سے اس کے مموں کا نظارہ مزید بہتر انداز سے ہورہاتھا جس سے وہ شخص خوب انجوائے کررہا تھا تھوڑی دیر بعد اس شخص کا حوصلہ مزید بڑھ گیا اور بس کے جھٹکے کے ساتھ ہی اس نے خود کو مزید آگے کرلیا اور روحی کے ساتھ مزید جڑ گیامیں دیکھ رہا تھا کہ کوئی بھی دوسرا مسافر اس کی اس حرکت کا نوٹس نہیں لے رہا تھا جبکہ بس جھٹکے لے لے کر چل رہی تھی جس پر وہ شخص روحی کے ساتھ اپنے جسم کو رگڑنے کی کوشش کررہا تھا اس نے ایک بار آگے پیچھے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کوئی دوسرامسافر تو اس کی طرف نہیں دیکھ رہا اس نے جیسے ہی میری طرف نگاہ کی میں نے اپنی نظر دوسری طرف کرلی اور پھر چند سیکنڈ کے بعد اسی طرف دیکھنے لگا اچانک بس نے ایک اور جھٹکا لگا اور اس شخص نے خود کو مزید آگے کرنے کی کوشش کی اور یک دم روحی نے غصے کے ساتھ اس کی طرف دیکھا لیکن اس کو کہا کچھ نہیں معلوم نہیں کہ اس نے کیا حرکت کی تھی روحی نے نیچے جس ہاتھ سے سیٹ کو پکڑ رکھا تھا اس سے اپنے دوپٹے کو ٹھیک کیا اسی دوران بس کو ایک اور جھٹکا لگا اور روحی تھوڑا سا آگے کو گھسک گئی لیکن وہ شخص بھی آگے ہوگیا اب روحی اپنے آگے اور پیچھے کھڑے دونوں افراد کے درمیان سینڈ وچ بن گئی تھی اب روحی کا بیلنس بھی تھوڑا سا خراب ہوگیا اس نے دونوں ہاتھوں سے چھت کے ساتھ لگے ہینڈل پکڑ لئے جس کے ساتھ ہی اس کے جسم کے خدوخال مزید عیاں ہوگئے اور پیچھے کھڑا شخص تھوڑا سا آگے کو ہونے کی کوشش کرنے لگا چند سیکنڈ کے بعد اس شخص نے اپنے دونوں ہاتھ چھت پر لگے ہینڈل سے ہٹائے اور انہیں روحی کے کولہوں پر رکھ دیا جس سے روحی چونک گئی مگر شرم کی وجہ سے اس نے کچھ نہ کہااس شخص نے چند لمحے کے لئے اپنے ہاتھ ایک جگہ پر ساکت رکھے اورپھر اپنے ہاتھوں کو اس کے پیٹ کی طرف بڑھا دیا اور اس نے روحی کے دونوں ممے پکڑ لئے روحی نے ایک بار پھر غصے کی حالت میں اس کی طرف دیکھا مگر کچھ نہ بول سکی اس وقت وہ بے بس نظر آرہی تھی پیچھے کھڑے ہوئے شخص نے تھوڑی دیر بعد روحی کے ممے دبانے شروع کردیئے جبکہ روحی بدستور دونوں ہاتھوں سے اوپر والا ہینڈل پکڑے آگے کی طرف دیکھتی رہی پانچ چھ منٹ کے بعد اس شخص نے اپنے ہاتھ نیچے کی طرف روحی کی کمر پر لاکر روک دیئے اور اس کی کمر کا سائز لینا شروع کردیا پھر اس نے اپنے ہاتھوں کو تھوڑا سا مزید نیچے کیا اور پیچھے سے روحی کی قمیض اوپر کو کردی روحی نے ایک بار پھر پیچھے کو گردن کرکے اس شخص کو غصے بھری نظروں سے دیکھا اور اپنا ایک ہاتھ نیچے کر کے تھوڑا سا اپنی جگہ سے کھسکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی مگر ایک سینٹی میٹر بھی آگے پیچھے نہ ہوسکی اس وقت روحی کی قمیض پیچھے سے اس کے چوتڑوں سے اوپر ہوگئی تھی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ قمیض کے نیچے سے اس کے پیٹ پر رکھ دیئے تھے اور روحی کا نازک اور نرم جسم چھو رہا تھا اچانک بس نے ایک اور جھٹکا لیا اور اس شخص نے اپنے ہاتھ اوپر کرکے اس کے بریزیئر کے نیچے ڈال کر اس کے ممے براہ راست پکڑ لے اور ان کو دبانا شروع کردیا روحی کے ہونٹوں کو تھوڑی سی جنبش آئی اور وہ منہ میں کچھ بڑبڑائی لیکن اس نے کچھ نہ کہا وہ جانتی تھی کہ اس نے اگر اسے کچھ کہا تو ساری بس کے مسافروں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوجائے گی اور وہ لوگ جان جائیں گے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا تھا جو کہ اس کے لئے بہت شرمساری کی بات تھی روحی نے خود کو آگے پیچھے کرکے اس شخص سے جان چھڑانے کی کوشش کی مگر وہ ہل بھی نہ سکی میں نوٹ کررہا تھا کہ وہ بے چینی سے اپنے جسم کو ادھر ادھر کررہی ہے لیکن وہیں پر کھڑی رہی اس نے اپناایک ہاتھ چھت والے ہینڈل سے ہٹایا اور اسے نیچے کرلیا یقینا وہ اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کررہی تھی اس کے چہرے سے عیاں ہورہاتھا کہ وہ کچھ کرنے کی کوشش کررہی ہے اس کے چہرے سے خوب بھی عیاں ہورہاتھا کہ اگر دوسرے مسافروں کو معلوم ہوگیا تو اس کی بہت بے عزتی ہوگی اس شخص نے اپنا چہرہ تھوڑا سا نیچے کو کیا اور روحی کے کان میں کچھ کہا جس سے وہ ایک لمحے کے لئے ساکت ہوگئی اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اس نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی نیچے کرلیا اور اس سے اس شخص کے بازو مضبوطی سے پکڑ لئے اور انہیں پیچھے کرنے کی جدوجہد کرنے لگی روحی کا چہرہ آگے کی طرف تھا اور اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات عیاں تھے میں نے اپنی نظر تھوڑی سی نیچے کی تو محسوس کیا کہ اس شخص کا ایک ہاتھ نیچے حرکت کررہا تھا مجھے معلوم ہوگیا کہ اس شخص کا ہاتھ روحی کی پھدی پر ہے اور وہ اپنی انگلی اس کی پھدی کے اندر باہر کررہاہے
حیرت کی بات ہے کہ یہ سین دیکھ کر میری پینٹ میں بھی حرکت شروع ہوگئی اور میرا لن کھڑا ہونا شروع ہوگیا جس پر میں خود کو قصور وار ٹھہرانے لگا کہ مجھے کوئی ٹیکسی کرلینی چاہئے تھی چند سیکنڈ تک روحی کی آنکھیں بند رہیں اور وہ اپنے دانت چٹختی رہی پھر اچانک اس نے اپنی آنکھیں کھول لیں جیسا کہ اس کو کچھ یاد آگیا ہو اس نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی شائد مجھے ڈھونڈ رہی تھی اس نے مجھ سے نظریں ملائیں اور سوالیہ انداز سے میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ مجھے اس شخص سے نجات دلاﺅ مگر میں نے اس کو ایسے ظاہر کیا جیسا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے اس نے اپنی نظروں ہی نظروں میں کچھ کہنا چاہا مگر میں جان بوجھ کر لاعلم بن گیا اس نے اپنی نظر تھوڑی سی نیچی کرکے میری توجہ نیچے کرانے کی کوشش کی جہاں اس کی فرنٹ سائیڈ پر قمیض کے نیچے اس شخص کا ہاتھ حرکت کررہا تھا مگر میں نے نظر نیچی نہ کی اور اپنی نظر سے ہی اس کی توجہ ہینڈ ل کی طرف متوجہ کرائی اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنا بیلنس برقرار رکھے وہ اب بے بسی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اس کی مدد کی آخری امید بھی ختم ہورہی تھی وہ بہت ہی خوف زدہ اور ڈری ہوئی لگ رہی تھی اس وقت میں شرم کے مارے پانی پانی ہورہا تھا کہ میں اپنی بے بس بیوی کے لئے کچھ نہیں کرپارہا تھا روحی کے پیچھے کھڑا ہوا شخص تھوڑا سا نیچے ہوا اور اس نے اپنے ہاتھ مزید نیچے کرنے کی کوشش کی جبکہ میری بیوی اس کی طرف بے بسی سے دیکھ رہی تھی شائد وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ خاتون بے بس ہوگئی ہے اب کسی کی توجہ بھی اپنی طرف نہیں کراسکتی جس پر اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا اس نے اپنا ایک ہاتھ میری بیوی کے ممے پر رکھ دیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی پھدی میں انگلی اندر باہر کررہا تھا جبکہ میری بیوی اپنی تمام تر قوت نیچے سے اس کا ہاتھ اوپر کرکے اپنی پھدی سے ہٹانے کی کوشش کررہی تھی اس شخص نے نیچے سے اپنے ہاتھ سے روحی کا ہاتھ جھٹک دیا اور میری بیوی ششدر رہ گئی اس نے اپنے اوپر والے ہاتھ سے روحی کو اپنے ساتھ ٹچ کرلیا روحی کھسک کر آگے ہوگئی پھر اس شخص نے اپنا اوپر والا ہاتھ نیچے کو کیا اور سانس اپنے اندر کو کھینچا اور نیچے سے اپنے جسم کو تھوڑی سی حرکت دی اور مجھے ایسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ہاتھ سے نیچے کسی چیز کو ایڈجسٹ کررہا تھا میں سمجھ گیا کہ اس نے اپنی پینٹ کی زپ کھول لی ہے اور اپنا لن باہر نکال رہا ہے میں نے نیچے کو دیکھا تو مجھے اس کے لن کی ایک جھلک نظر آئی میں اس کی موٹائی دیکھ کر اندازہ کررہا تھا کہ وہ بہت لمبا ہوگا اچانک ایک جھٹکا لگا اور مسافر ادھر ادھرہوئے اور میں یہ سین اب دیکھنے سے قاصر ہوگیا اس شخص نے اپنے ہاتھ سے نیچے کچھ کیا اور پھر ایک جھٹکا لگا مجھے نظر آیا کہ روحی کی قمیض پیچھے سے اس کے چوتڑوں سے اوپر ہوگئی ہے اور شلوار کولہوں سے نیچے ہوچکی ہے وہ شخص اپنے ہاتھ سے اپنے لن کو ایڈجسٹ کررہا تھا ایک لمحے کے بعد یہ سین بھی آﺅٹ ہوگیا اس نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کئے اور میری بیوی کی کمر پر رکھ دیئے یقینا اس نے اپنا لن کہیں فٹ کردیا تھا اچانک پھر سے جھٹکا لگا اور میری بیوی کا بیلنس خراب ہوگیا اور اس کا اوپر ہینڈل سے ہاتھ چھٹ گیا اب وہ پیچھے کی طرف جھک گئی تھی اس کا سارا وزن اس شخص کی چھاتی پر آگیا تھا اس نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور نیچے سے خود کو تھوڑا سا آگے کو کردیا
روحی نے اپنا منہ کھول لیا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس شخص کی طرف دیکھنے لگی میں سمجھ گیا کہ اس شخص نے اپنا لن پیچھے سے روحی کی پھدی میں داخل کردیا ہے اچانک ایک اور جھٹکا لگا اور اس شخص نے کمر سے پکڑ کر روحی کو تھوڑا سا اوپر اور پھر اپنی طرف کیا روحی کے منہ تھوڑا سا اور کھل گیا اور اس نے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا شائد اب وہ سمجھ چکی تھی کہ اب وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی اس نے اپنا سر پیچھے کھڑے شخص کی چھاتی کی طرف ڈھلکا دیا بس مسلسل جھٹکے لے رہی تھی جس کی وجہ سے اس کا بیلنس خراب ہورہا تھا جبکہ اس شخص نے نیچے سے اس کو کمر سے پکڑ رکھا تھا اور وہ اسے مسلسل آگے پیچھے اور اوپر نیچے کررہا تھا ہر بار آگے پیچھے ہونے پر روحی اپنے ہونٹوں کو تھوڑا سا کھولتی اور پھر بند کرلیتی اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بھی نکل کر اس کے گالوں تک آگئے ہیں اس شخص نے ایک بار پھر آگے پیچھے دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر اس نے اپنا کام شروع کردیا اس نے ایک بار پھر روحی کے کان میں کچھ کہا اور اس نے آنکھیں بند کئے کئے ہی اپنے جسم کو تھوڑا سا اس طریقہ سے نیچے کیا جیسا کہ اپنی ٹانگوں کو کھول رہی ہویک دم روحی کے آگے کھڑے شخص نے پیچھے مڑ کر دیکھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی شائد وہ جان چکا تھا کہ یہاں اس کے پیچھے کیا ہورہا ہے اس نے اپنی سمت چینج کی اور اپنا منہ روحی کی طرف کرلیا اس نے بھی اپنے دونوں ہاتھ چھت والے ہینڈل سے ہٹا لئے اور نیچے کرکے ان سے روحی کے ممے دبانے لگا روحی نے ایک بار آنکھیں کھول کر اس کو بے بسی سے دیکھا اور حیرت زدہ رہ گئی پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اس کے چہرے سے حیرت ‘ خوف اور شرمندگی کے آثار تھے وہ کچھ بھی کہہ یا کرنہیں سکتی تھی اوپر سے اس کے کپڑے ٹھیک دکھائی دے رہے تھے مگر اگر کوئی نیچے دیکھ لے تو اس کی قمیض اوپر کو اور شلوار کولہوں سے نیچے تھی پیچھے سے ایک لن اس کی ٹانگوں کے درمیان میں آگے پیچھے ہورہا تھا میں نے آج تک کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میری بیوی بھری بس کے درمیان میں اپنے پیچھے کھڑے شخص سے چد رہی ہوگی اور اس کے آگے کھڑا شخص اس کے ممے دبا رہا ہوگا آس پاس کے لوگ بے خبر ہوں گے میری بیوی چپ چاپ آنکھیں بند کئے کھڑی ہوگی اور میں بس کے آخری حصہ میں یعنی اس سے چند فٹ کے فاصلے پر کھڑا کچھ بھی نہ کرسکوں گااسی دوران اس نے ایک بار پھر مجھے بے بسی سے دیکھا اور نظروں ہی نظروں میں کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن میں نے اس کو ایسے ہی ظاہر کیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے میری بیوی اپنا پورا جسم ساکت کئے کھڑی تھی اس نے اپنا جسم ان دونوں کے حوالے کردیا تھا پیچھے سے ایک شخص اپنا لن اس کی ٹانگوں کے درمیان ڈال کر آگے پیچھے کررہا تھا اور اس نے اس کی کمر مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی جبکہ سامنے والا شخص اس کے ممے دبار رہا تھا اب روحی بے بسی کی صورت حال میں تھی اب پیچھے والے شخص نے اپنے جسم کا نیچلا حصہ تیزی سے آگے پیچھے کرنا شروع کردیا تھا تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا روحی نے پھر سے آنکھیں بند کرلی ہیں اور وہ اپنے ہونٹ کھول اور بند کررہی ہے اور وہ اپنے جسم کو پیچھے والے شخص کی حرکت کے ساتھ موو کررہی ہے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میری شرمیلی سی بیوی بس میں چدائی کو انجوائے کررہی ہے یا وہ چاہتی ہے کہ وہ جلدی سے اپنا کام مکمل کرلے مجھے اپنی پینٹ گیلی لگنے لگی میرے لن سے ہلکا ہلکا سا پانی نکل رہا تھا
میں دیکھ رہا تھا کہ پیچھے والے شخص کے آگے ہوتے ہی روحی اپنے ہونٹ کھول لیتی اور پیچھے کی طرف حرکت کرنے پر منہ بند کرلیتی اب پیچھے والے شخص نے نیچے سے تیزی کے ساتھ ہلنا شروع کردیا اور پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ آگے کو ہوا اور اس نے روحی کو چھاتی سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیامیں سمجھ گیا کہ وہ فارغ ہورہا ہے پھر اس کے جسم نے ایک دو جھٹکے لئے اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اس لمحے روحی نے میری طرف دیکھا اور میں حسب معمول اس کی طرح لاعلموں کی طرح دیکھنے لگا جیسا کہ اس کو کہہ رہا ہوں بس بہت جھٹکے لے رہی ہے اپنا بیلنس برقرار رکھنا پھر اس نے اپنی آنکھیں دوسری طرف موڑ لیں ایک منٹ تک پیچھے کھڑے شخص نے اس کو اپنے ساتھ لگائے رکھا اور پھر روحی نے اپنے جسم کو پہلے کی طرح تھوڑا سا نیچے کیا جیسا کہ اپنی ٹانگوں کو مزید کھول رہی ہو ‘ پھر پیچھے کھڑے شخص نے سامنے والے شخص کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر غبیصانہ مسکراہٹ تھی دونوں کی نظریں ملیں اور پھر پیچھے والے شخص نے روحی کا چہرہ اپنی طرف موڑ لیا اور دوسرے شخص نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کر کے کچھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور پھر اس نے بھی نیچے سے اپنے جسم کو حرکت دینا شروع کردی روحی مسلسل آنکھیں بند کئے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑے اور اپنا وزن پہلے والے شخص کی چھاتی پر ڈالے ہوئے تھی دس منٹ تک ایسے ہی رہنے کے بعد دوسرے شخص نے اپنے جسم کو پیچھے کی طرف کیا اور پھر سے ایک ہاتھ سے نیچے کچھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور پھر مسکرا کر پیچھے والے شخص کی طرف دیکھا جس نے ایک ہاتھ سے روحی کا چہرہ اوپر کو کیا اور اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا روحی نے اپنے ہاتھ نیچے کی طرف کئے جیسا کہ وہ بھی کچھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کررہی ہو اچانک بس نے جھٹکا لیا مسافر ادھرادھر ہوئے اور نیچے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے ایک لمحہ کے لئے آیا روحی اپنی شلوار اوپر کررہی تھی پھر جھٹکا لگا اور منظر غائب ہوگیا اس وقت بس جڑانوالہ کی حدود میں داخل ہوچکی تھی کنڈیکٹر نے ایک نواحی علاقے کے سٹاپ کا نام لے کر آواز دی میں نے اپنی بیوی اور اس نے میری طرف دیکھا میں نے اس کو نیچے اترنے کے لئے اشارہ کیا اور ہم دونوں نیچے اتر گئے اتر کر کنڈیکٹر کو کرایہ ادا کیا اور کھیتوں کے درمیان پگڈنڈی پر چلنے لگے روحی کی چال میں روانی نہیں تھی میں نے دیکھا کہ اس کی قمیض پر آگے اور پیچھے بڑے بڑے گیلے سپاٹ پڑے ہوئے تھے میں نے اس کی طرف دیکھاتو وہ نظریں نیچی کئے جارہی تھی
تم کچھ ڈھیلی ڈھیلی سی لگ رہی ہو کیا خیریت تو ہے ‘ میں نے چپ توڑنے کے لئے سوال کیا
ہاں میں ٹھیک ہوں‘ روحی
تو پھر اتنی تھکی تھکی کیوں لگ رہی ہوں
نہیں کچھ نہیں بس سفر کی وجہ سے ہے
گھر جاکر فریش ہوئے کھانا کھایا ہمارے لئے علیحدہ کمرے کا بندوبست تھا کمرے میں جاتے ہی میں نے دروازہ بند کیا اور روحی پر پل پڑا اس کے کپڑے اتروائے جس وقت روحی کپڑے اتار رہی تھی اس نے دیکھا کہ قمیض اور شلوار پر بڑے بڑے داغ ہیں اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے نظریں دوسری طرف کرلیں اس نے کپڑے سائیڈ پر رکھ دیئے میں نے اس کو پکڑ کر لٹا دیا اور اس کے ساتھ چھیڑ خوانی کرنے لگا میں نے غور کیا کہ روحی کی پھدی پر چھوٹے چھوٹے بال تھے جن پر سفید رنگ کی کوئی چیز لگی ہوئی تھی میں سمجھ گیا کہ یہ انہی دونوں کی منی ہے میں نے روحی کو گرم کیا اور پھر اس کی پھدی کے اندر اپنا لن ڈال دیا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے ایک ایسے تالاب میں اپنا لن ڈال دیا ہے جو مختلف مردوں کی منی سے بھرا ہوا ہے روحی آنکھیں بند کئے انجوائے کررہی تھی
اس روز سے آج تک میں نے کبھی بھی اشاروں کنایوں میں بھی روحی کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ مجھے اس سارے واقعہ کا علم ہے اور نہ ہی روحی نے مجھے احساس دلایا کہ اس کے ساتھ کچھ ہوا ہے
اس کے علاوہ یہ بات حقیقت ہے کہ میں جب بھی روحی کے ساتھ سیکس کرنے لگتا ہوں میرے ذہن میں وہی سین آجاتے ہیں جس کی وجہ سے مجھے پہلے کی نسبت زیادہ شہوت آتی ہے اور میں زیادہ جوش کے ساتھ سیکس کرتا ہوں

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...