Tuesday, 2 February 2016

====== میں جیت گئی =====



میرا نام عاصمہ ہے اور میں پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہوں اور پڑھائی کے سلسلہ میں لندن میں مقیم ہوں میں یہاں اپنے بھائی کے ساتھ ایک تین کمروں کے فلیٹ میں رہتی ہوں جہاں میرے بھائی عدنان کے ساتھ اس کا ایک دوست ماجد بھی رہتا ہے میرا بھائی گذشتہ چار سال سے لندن میں مقیم ہے جبکہ اس کا دوست بھی چار سال سے اسی کے ساتھ اسی فلیٹ میں رہتا ہے میں ایک سال پہلے یہاں آئی ہوں اور اسی فلیٹ میں رہتی ہوں میں 5 فٹ 5 انچ قد کی مالک نیلی آنکھوں اور براﺅن بالوں والی 19 سال کی ایک خوب صورت لڑکی ہوں پاکستان میں میں ایک کو ایجوکیشن کالج میں پڑھتی تھی جہاں میرے کلاس فیلوز اور کالج کے دوسرے لڑکے مجھ پر اکثر لائن مارتے تھے لیکن میں نے کبھی کسی پر دھیان نہیں دیا اسی دوران میرا ایڈمشن لندن کے ایک کالج میں ہوگیا اور میں یہاں آگئی جہاں میرا بھائی عدنان پہلے سے موجود تھا میں چاہتی تھی کہ میں اپنے بھائی سے علیحدہ رہوں لیکن مجھے میرے گھروالوں نے یہاں آنے کی اجازت ہی اسی شرط پر دی کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ رہوں گی میں یہاں آئی تو میرے بھائی کا دوست ماجد میرے اعصاب پر چھا گیا 5 فٹ 10 انچ قد والا سانولے رنگ کا سمارٹ جسم کا یہ نوجوان تقریباً25 سال کی عمر کا ہوگا غضب کا خوب صورت یہ لڑکا ہمیشہ مجھ سے دور رہنے کی کوشش کرتا دوسرے پاکستانی لڑکوں کی طرح اس نے کبھی بھی مجھ سے زیادہ فری ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ مطلب کی بات بھی وہ مجھ سے کبھی کبھار کرتا تھا وہ اسی وقت گھر آتا جب میرا بھائی بھی موجود ہوتا اگر کبھی ایسا موقع آتا کہ میں گھر میں اکیلی ہوتی تو ماجد بھی گھر سے باہر چلا جاتا اور اس وقت واپس آتا جب عدنان گھر آجاتا میں نے کئی بار اس کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار کترا جاتا اور مجھے نظر انداز کرجاتا جیسا کہ اس کے ساتھ کسی نے بات ہی نہ کی ہو جیسے جیسے وہ مجھے نظر انداز کرتا مجھ میں اسے پانے کی خواہش بڑھتی جاتی مجھے اس بات کا بھی خدشہ رہتا کہ میں اگر کبھی اس کے ساتھ کوئی بات کروں تو یہ بھائی کو نہ بتا دے لیکن اس کے باوجود میں اکثر اس کو لفٹ کراتی رہتی لیکن ہر بار مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہ لڑکا آزاد ماحول میں رہنے کے باوجود یہاں کی خرافات سے دور تھا حالانکہ میرا بھائی کئی بار ویک اینڈ پر کلب وغیرہ چلا جاتا اورجب واپس آتا تو اس کے منہ سے شراب کی بدبو بھی آرہی ہوتی لیکن ماجد ایسی تمام باتوں سے بہت دور تھا یہی وجہ تھی کہ میں اسے من ہی من میں چاہنے لگی تھی ایک بار جب اس کی طبیعت خراب تھی اور وہ دن بھر گھر پر ہی رہا اور میں بھی جلدی کالج سے واپس آگئی جبکہ میرا بھائی ابھی جاب پر تھا میں نے اس کے لئے چائے بنائی اور اس کو پیش کی اس نے میرے ہاتھ سے چائے کا کپ لیا اور خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر پینے لگا میں بھی کپ لے کر اسی کے کمرے میں کرسی پر بیٹھ گئی اور اس کے ساتھ باتیں کرنے لگی وہ مجھے کسی بات کا جواب دے دیتا اور کسی پر خاموش رہتا وہ مجھے اگنور کررہا تھا لیکن میںڈھیٹ بن کر اس کے سامنے بیٹھی رہی اور دل میں سوچا کہ دیکھتی ہوں مجھے یہ کب تک اگنور کرتا ہے باتوں کے دوران میں نے اس سے یہ پوچھ ہی لیا کہ وہ مجھے اگنور کیوں کرتا ہے تو کہنے لگا کہ تم میرے دوست کی بہن ہو اور میرے خیال میں دوست کی بہن اپنی بہن کے برابر ہوتی ہے میں نے اس سے کہا کہ دوست کی بہن دوست بھی تو ہو سکتی ہے تو خاموش ہوگیا میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں چاہتی ہوں اور تم کو حاصل کرکے رہوں گی تو کہنے لگا عاصمہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے اگر تمہارے بھائی کو معلوم ہوگیا تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا بلکہ سارا الزام مجھ پر ڈال دے گا میں نہیں چاہتا کہ ہماری دوستی میں دراڑ آئے تو میں نے اس کو کہا کہ تم اس کی فکر نہ کرو یہ بات مجھ پر چھوڑ دو اس روز مجھے کافی حد تک کامیابی ہوئی مجھے لگا کہ اس کے اندر بھی دل ہے اور میں اس کے دل تک پہنچ سکتی ہوں اب مجھے اس کے دل میں خدشات کو دور کرنا تھا خیر اسی طرح وقت گزرتا گیا اور اگلے دو ہفتے تک مجھے مزید کوئی کامیابی نہ مل سکی اسی دوران میرے بھائی کو رات کے وقت ایک جاب مل گئی جہاں پہلے والی جاب سے ڈبل تنخواہ تھی میں نے بھائی سے بات کی کہ وہ یہ جاب نہ کرے میں رات کے وقت گھر میں اکیلی ہوں گی تو کہنے لگا اکیلی کیوں ماجد بھی تو گھر میں ہی ہوتا ہے ماجد بھی اس وقت ہمارے پاس ہی موجود تھا میں نے اس وقت بھائی سے کہا کہ ماجد تو ایسے ہوتا ہے جیسے گھر میں کوئی ہے ہی نہیں آپ ہوتے ہیں تو مجھے اکیلے پن کا احساس نہیں ہوتا آپ کے ساتھ باتیں بھی کرلیتی ہوں لیکن ماجد تو مجھ سے بات کرنے سے بھی دوڑتا ہے میری بات سن کر عدنان بھائی ہنسنے لگے اور ماجد کو مخاطب ہوکر کہنے لگے کیوں ماجد کیا بات ہے عاصمہ تمہاری شکایت کررہی ہے تو ماجد نے ایک بار نظر اٹھا کر پہلے عدنان پھر میری طرف دیکھا اور پھر اپنے لیپ ٹاپ پر نگاہیں مرکوز کرلیں میں نے کہا کہ یہ تو ایسے مجھ سے بھاگتے ہیں جیسے میں ان کو کھا جاﺅں گی چھ ماہ ہوگئے ماجد نے مجھ سے کبھی براہ راست بات نہیں کی اور آپ کہتے ہیں کہ مجھے اکیلے پن کا احساس نہیں ہوگا میں نے مزید کہا کہ عدنان بھائی جب کبھی آپ گھر نہ ہوں اور ماجد گھر آجائیں اور گھر میں آپ کو نہ پاکر یہ تو باہر نکل جاتے ہیں مجھے لگتا ہے اگر آپ نے نائٹ ڈیوٹی والی جاب شروع کرلی تو یہ بھی گھر نہیں آیا کریں گے میری بات سن کر بھائی ہنسنے لگے اور ماجد کو ایک بار پھر مخاطب ہوکر کہنے لگے ماجد کیا یہ سچ کہہ رہی ہے تو اس نے ایک بار پھر اپنا سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ عدنان بھائی بول پڑے اور کہنے لگے ماجد مجھے تم پر اور عاصمہ دونوں پر اعتماد ہے میرا خیال ہے کہ میری عدم موجودگی میں آئندہ عاصمہ کو اکیلے پن کا احساس نہیں ہوگا عدنان بھائی کی بات سن کر ماجد بولا کہ عدنان اصل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی بات شروع ہی کی تھی کہ عدنان بھائی پھر بول پڑے بس اب یہ ٹاپک بند اور عاصمہ جاﺅ چائے بنا کر لاﺅ میں اٹھ کر کچن میں چلی گئی واپس آئی تو کمرے کا ماحول تبدیل ہوگیا تھا اور دونوں قہقہے لگا کر ہنس رہے تھے میں چائے کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوئی تو ان کو ہنستے ہوئے دیکھ کر پوچھ لیا کہ کیا بات ہے تو عدنان بھائی بولے ماجد کے آفس میں ایک افریقی لڑکی اس کو لفٹ کرارہی ہے بڑٹش پاسپورٹ ہے اس کے پاس میں نے اس کو کہا ہے کہ اچھا ہے اس سے شادی کرلو نیشنلٹی مل جائے گی یہ مان نہیں رہا میں نے اس کو کہا ہے کہ خود نہیں کرنی تو میری کرا دو تو بھی نہیں مان رہا عدنان بھائی کی بات سن کر میں بولی ماجد کے لئے تو نہیں عدنان بھائی آپ کے لئے ٹھیک ہے آپ شادی کرلیں میری بات سن کر پھر قہقہہ لگا اور پھر اس موضوع پر مزید بات ہوئی اور ساتھ میں ہم لوگ چائے بھی پیتے رہے اس دوران میں نے نوٹ کیا کہ ماجد بات کرتے کرتے چور آنکھوں سے مجھے دیکھتا ہے اور پھر مجھ سے نظریں ملتے ہی نگاہ دوسری طرف کرلیتا ہے جس پر مجھے خوشی محسوس ہوئی کہ آخر کار مجھے کامیابی مل رہی ہے میرے خیال میں یہ پہلی بار تھا کہ ماجد میری طرف نظر اٹھا کر دیکھ رہا تھا پہلے تو مجھ سے بات بھی کرتا تو اپنی نظر نیچی رکھتا تھا بھائی نے ماجد سے کہا کہ کل سے تم اپنی جاب پر جاتے ہوئے عاصمہ کواس کے کالج ڈراپ کردیا کرنا اور واپسی یہ خود لوکل پر آجایا کرے گی میں رات کو ڈیوٹی پر ہوا کروں گا تم اس کا خیال رکھنا مجھے کوئی شکایت نہ ملے اور عاصمہ تم بھی ماجد کو زیادہ تنگ نہ کرنا ورنہ تمہاری بھی خیر نہیں اگلے روز صبح صبح ناشتے کے بعد ماجد جاب پر جانے لگا تو میں فٹ سے اس کی گاڑی کا فرنٹ دروازہ کھول کر بیٹھ گئی وہ گاڑی میںبیٹھا اور ایک نظر مجھے دیکھ کر گاڑی چلانے لگا وہ گاڑی چلاتے ہوئے خاموش تھا میں نے بات شروع کی اور کہنے لگی ماجد آپ جتنا دور بھاگو گے میں اتنا ہی پاس آﺅں گی اور میں نے کہا تھا کہ میں تم کو پسند کرتی ہوں اور تم کو حاصل کرکے رہوں گی وہ میری باتیں خاموشی سے سنتا رہا اور مجھے کالج کے باہر ڈراپ کرکے چلا گیا دوپہر کو میں گھر آئی تو عدنان بھائی سو رہے تھے میں نے کپڑے مشین میں ڈال کر دھوئے اور ٹی وی لگا کر دیکھنے لگی شام کو ماجد آئے تو میں نے ان کو بھی چائے پیش کی اتنے میں عدنان بھائی بھی اٹھ گئے اور جاب پر جانے کے لئے تیار ہونے لگے میں نے ان سے پوچھا کہ آج رات کے کھانے کا کیا موڈ ہے تو عدنان بھائی کہنے لگے میں تو جاب پر ہوں گا بہتر ہے جب تک میری رات کی جاب ہے آپ لوگ باہر سے ہی کھانا کھا لیا کرنا میں یہ بات سن کر اچھل پڑی کہ ماجد کے ساتھ میں پہلی بار آج آﺅٹنگ اور ہوٹلنگ کے لئے جاﺅں گی بھائی کے جاب پر جانے کے بعد میں ٹی وی دیکھتی رہی جبکہ ماجد اپنا لیپ ٹاپ لے کر اپنے کمرے میں گھس گیا رات کو دس بجے تو میں ماجد کے کمرے کا دروازہ ناک کئے بغیر کھولا اور ان سے کہا کہ آج کیا آپ نے بھوک ہڑتا ل کررکھی ہے اگر ایسا ہے بھی تو اس میں میرا کیا قصور ہے آپ کو کچھ نہیں کھانا تو مجھے تو بھوکا نہ رکھیں میری بات سن کر ماجد مسکرائے اور اپنا لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھ کر اٹھ گئے اور کہنے لگے تم آدھا گھنٹہ مزید انتظار کرو میں کے ایف سی سے کچھ لے کر آتا ہوں میں نے کہا نہیں آپ گھر کچھ نہ لائیں میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی اور باہر ہی کھا کر آئیں گے میری بات سن کر وہ میری طرف دیکھنے لگا پھر کہنے لگا چلو ٹھیک ہے میں نے کہا ٹھہرو میں چینج کرلوں تو کہنے لگا کیا چینج کرنا ہے اچھی بھلی تو ہو میں نے اس کی بات سنی اور اس سے کہا کہ اگر آپ کو ٹھیک لگتی ہوں تو ایسے ہی چلی جاتی ہوں ورنہ دوسرے کپڑے پہن لیتی ہوں اس نے میری بات ان سنی کردی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا میں بھی اس کے پیچھے ہی باہر آگئی اور گاڑی میںبیٹھ گئی اس نے گاڑی چلا دی اور خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا میں نے اس خاموشی کو توڑا اور اس سے پوچھا کہ آپ مجھے جان بوجھ کر اگنور کیوں کرتے ہو کیا میں آپ کو اچھی نہیں لگتی یا مجھ میں کوئی کمی ہےعاصمہ میری بات سنو اگر تم نے آئندہ ایسی بات کی تو میں تمہارے بھائی کو بتا دوں گاتم چاہے ساری دنیا کو بتادو میں تم سے اس وقت تک پوچھتی رہو گی جب تک مجھے میری بات کا جواب نہیں مل جاتاعاصمہ تم میرے دوست کی بہن ہو اور میرے لئے قابل احترام ہوتو میں کب کہہ رہی ہوں کہ میں تمہارے دوست کی بہن نہیں ہوں کیا دوست کی بہن بھی دوست نہیں بن سکتینہیں ایسی بات نہیں اگر تمہارے بھائی کو معلوم ہوگیا تو وہ کیا سوچے گایہ سب کچھ تم مجھ پر چھوڑ دوپھر بھی مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتاکیوں اچھا نہیں لگتا اس کی کوئی خاص وجہ بھی تو بتاﺅ شائد میں بھی اس کو برا سمجھنے لگوں”میں تم سے بحث نہیں کرسکتا“اس نے تنگ آکر کہاتو پھر میری بات مان لیں میں آپ کو یہ بتادوں کو میں آپ کو پسند کرتی ہوں اور آپ کو حاصل کرکے ہی رہوں گی ہاں اگر میں آپ کو اچھی نہیں لگتی تو مجھے بتادیںاس نے کے ایف سی کے سامنے گاڑی کھڑی کی اور خود دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور تھوڑی دیر کے بعد دو حلال برگر اور دو کوک لے آیا میں نے اس سے کہا کہ کھانا لے کر گھر نہیں جانا بلکہ یہاںقریب کسی پارک میں چلتے ہیں جہاں بیٹھ کر کھائیں گے وہ میری بات سن کر خاموش رہا اور گاڑی چلانے لگا تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک پارک کے سامنے گاڑی کھڑی کردی اور ہم دونوں نے ایک بنچ پر بیٹھ کر برگر کھایا اس دوران بھی میں نے اس کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ خاموش رہا لیکن میں ہمت نہیں ہاری اگلے روزجمعہ کا دن تھاصبح کے وقت جب وہ مجھے کالج چھوڑنے گیا تو راستے میں پھر بات چیت کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن حسب معمول مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس دن شام کو جب بھائی کے جاب پرجانے لگا تو میں نے ان سے کہا بھائی آج آپ جاب پر نہ جائیںکیوں خیر تو ہے نہنہیں ایسے ہی آج میرا آﺅٹنگ کے لئے دل کررہا ہے جب سے لندن آئی ہوں کبھی بھی آپ مجھے آﺅٹنگ کے لئے نہیں لے کر گئےمیں تو نہیں لے کر جاسکتا تم ماجد کے ساتھ چلی جاناوہ تو بے ذوق سے بندے ہیں نہ خود کہیں جاتے ہیں نہ کہیں مجھے لے کر جائیں گےمیری بات سن کر عدنان بھائی ہنسنے لگے اور کہنے لگے نہیں ایسی بات نہیں وہ ہے تو بہت زندہ دل آدمی لیکن تم سے تھوڑا ریزرو رہتا ہےمجھ سے ریزرو کیوں رہتے ہیںیہ مجھے معلوم نہیںخیر چھوڑیں اس بات کو اگر آپ مجھے لے جاسکتے ہیں تو لے جائیں وہ مجھے نہیں لے کر جائیں گے اگر ان کے ساتھ جانے کے لئے کہنا ہے تو صاف کہہ دیں کہ میں نہ جاﺅںنہیں ایسی بات نہیں تم اس کو کہہ دینا تم کو لے جائے گاوہ نہیں مانیں گے آپ خود ان کو کہہ دیں تو شائد آپ کی بات مان لیںٹھیک ہے اس وقت تو وہ جاب پر مصروف ہوگا جب آئے تو میری فون پر بات کروا دینا میں اس کو کہہ دوں گابھائی کی بات سن کر میں خوش ہوگئی میرا پلان کامیاب ہوگیا تھا بھائی چلے گئے تو میں نے اٹھ کر غسل کیا اوربلیو جینز کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ پہن لی اور ہلکا سا میک اپ کرکے تیار ہوگئی میں نے آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر خود کو دیکھا تو میں بہت خوب صورت لگ رہی تھی میں جب سے لندن میں آئی تھی آج پہلی بار میں نے میک اپ کیا تھا حالانکہ میرے پاس میک اپ کا سامان موجود تھا لیکن میںکبھی بھی تیار نہیں ہوئی تیار ہونے کے بعد میں ماجد کا انتظار کرنے لگی تھوڑی دیر کے بعدوہ آیا میں نے دروازہ کھولا تو اس نے مجھے دیکھا اور ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک کر رہ گیا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ سنبھل گیا اور اندر داخل ہوگیا میں نے دروازہ بند کیا اور اندر آکر اس کے لئے چائے بنائی چائے کے بعد میں نے اس سے کہا ماجد آج کہیں آﺅٹنگ کے لئے نہ جائیںاس نے مجھے بغیر دیکھے ہوئے کہا میں نہیں جاسکتا اگر جانا ہے تو عدنان سے کہہ دینا وہ لے کر چلا جائےمیں نے بھائی سے پوچھ لیا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ آپ کے ساتھ چلی جاﺅںمجھے تو اس نے نہیں کہاآپ ان سے فون پر بات کرلیںمیں نہیں کرتا اس سے بات اور نہ ہی تم کو لے کر جاﺅں گامیں نے ماجد کی بات سنی اور اپنے فون سے بھائی کا نمبر ملایا جب بیل گئی تو میں نے فون ماجد کو پکڑا دیایہ کیا ہےبھائی سے بات کرلیں”نہیں میں نہیں کرتا “اس نے فون میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا میں نے فون پکڑ لیا اور جیسے ہی بھائی نے فون اٹھایا میں نے رونے والے انداز میں کہابھائی میں نے کیا کہا تھا ماجد مجھے نہیں لے کر جائیں گے آپ خود ہی مجھے انکار کردیتےنہیں ایسے کیسے ہوسکتا ہے تم میری بات ماجد سے کراﺅوہ آپ سے بات کرنے کو بھی تیا ر نہیں”ٹھیک ہے میں اس سے خود اس کو فون کرتا ہوں“ بھائی نے فون بند کردیااگلے ہی لمحے ماجد کے فون پر بیل ہونے لگی ماجد نے میری طرف غضب ناک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فون اٹھایاہیلو کیا حال ہے۔۔۔۔۔۔۔کیا میں کیسے لے جاسکتا ہوں اس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا میری بات تم سمجھتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔۔اچھا اوکے لے جاتا ہوںدوسری طرف سے بھائی نے جانے ماجد کو کیا کہا اس نے میری طرف دیکھا اور فون بند کردیا اور مجھے کہنے لگا ٹھیک ہے لیکن جانا کہاں ہےکسی کلب میں چلتے ہیںڈانس وغیرہ دیکھیں گےنہیں میں تم کو کلب میں نہیں لے جاسکتانہیں جانا تو میں پھر بھائی سے بات کرتی ہوںایک تو تم بھائی کی دھمکی بہت دیتی ہو تمہارا بھائی مجھ پر ڈی سی تو نہیں لگا ہوا کہ میں اس کے ڈر سے تمہاری ہر جائز نا جائز بات مان لوتو ٹھیک ہے آپ بھائی سے بات کرلیں اور ان کو کہہ دیں کہ میں نہیں لے جاسکتاٹھیک ہے لیکن ایک بات سن لو وہاں جاکر کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کرنی اور تم تیار ہوجاﺅں میں بھی چینج کرلیتا ہوںمیں تیار ہوں آپ تیار ہولیں ویسے اسی طرح بھی آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہواس نے میری طرف پھر مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور اپنے کمرے میں گھس گیا تھوڑی دیر کے بعد کپڑے چینج کرکے باہر نکل آیا اور مجھے کہنے لگا چلو جلدی کرو اور واپس بھی جلدی آنا ہےاس وقت رات کے تقریباً نو بج رہے تھے میں جلدی سے باہر نکلی اور گاڑی میں بیٹھ گئی اس نے دروازہ لاک کیا اور گاڑی میں آبیٹھا اور ڈرائیونگ کرنے لگا ہم لوگ سنٹرل لندن کے ایک بڑے کلب کے باہر پہنچ گئے جہاں اس نے ایک جگہ گاڑی پارک کی اور ہم لوگ اندر چلے گئے اندر داخل ہوئے تو اندر تیزانگلش میوزک چل رہا تھا اور تیز روشنیوں میں لڑکے لڑکیاں اچھل کود رہے تھے وہ مجھے لے کر کلب میں ایک سائیڈ پر ایک ٹیبل پر آبیٹھا میں میوزک اور ڈانس کرتے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی اور میرا دل کررہا تھا کہ میں بھی ماجد کے ساتھ ڈانس کروںتھوڑی دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد میں نے ماجد سے کہا کہ یہاں ایسے ہی بیٹھیں رہیں گے یا کوئی ڈرنک وغیرہ بھی لینی ہے مجھے کہنے لگا تم بیٹھو میں کوک لے کر آتا ہوں میں نے اس سے کہا نہیں آپ بیٹھیں میں لے کر آتی ہوں وہ اٹھنے لگا لیکن میں اس سے پہلے اٹھ چکی تھی جس پر وہ بیٹھ گیا اور اس نے اپنے پرس سے مجھے کچھ رقم دی میں نے کاﺅنٹر پر جاکر بیئر کے دو گلاس لئے اور ٹیبل پر آگئی بیئر دیکھ کر وہ غصے کے انداز میں بولا یہ کیا لے آئی ہو میں نے تم سے کہا تھا کوک لانی ہے لیکن تم بیئر اٹھا لائی میں نے اس سے کہا کہ آپ کو بیئر نہیں پینی تو نہ پئیں میں دونوں گلاس پی لوں گی اور آپ کے لئے کوک لے آتی ہوں اس نے مجھے کہا میں نہیں پیتا اور تم کو بھی نہیں پینے دوں گا لیکن میں نے ضد کی تو وہ خاموش ہوگیا میں پھر اٹھی اور اس کے لئے کوک لے آئی اور ٹیبل پر بیٹھ کر بیئر کا گلاس اٹھا لیا جیسے ہی میں نے بیئر کا پہلا گھونٹ لیا اف ف ف ف ف اتنی کڑوی مجھے الٹی(قے) آنے لگی لیکن میں جیسے تیسے وہ گھونٹ پی گئی ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر جیسے جیسے میرے حلق سے نیچے جارہی تھی میرے اندر ٹھنڈ پڑتی جارہی تھی میں نے پہلے گھونٹ کے بعد گلاس ٹیبل پر رکھ دیا اور پہلے ماجد کی طرف دیکھا پھر ڈانس کرنے والوں کو دیکھنے لگی ماجد بھی ایک ایک گھونٹ کوک پی رہا تھا تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنا گلا س پھر اٹھایا اور پورا گلاس بیئر اپنے اندر انڈیل لیا اور گلاس دوسری طرف رکھ کر دوسرا گلاس اپنے پاس کرلیا ماجد نے یہ گلاس میرے سامنے سے اٹھایا اور ٹیبل کے نیچے پڑی باسکٹ میں انڈیل دیا میں نے اس پر اس سے احتجاج کیا لیکن اس نے میری بات ان سنی کردی خیر میں خاموش ہوگئی اور ڈانس دیکھنے لگی تھوڑی دیر کے بعد مجھے ہلکا ہلکا سا نشہ ہونے لگا مجھے ایسے معلوم ہورہا تھا جیسے میں ہوا میں اڑ رہی ہوں میرے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑنے لگا میرا دل کررہا تھا کہ میں بھی دوسرے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کروں لیکن میں ماجد کی موجودگی کی وجہ سے خاموش تھی آخر میں نے ہمت کرکے ماجد سے کہہ دیاماجد چلیں آپ اور میں بھی ڈانس کریںنہیںچلیں نہتم حد سے بڑھ رہی ہو میں اسی لئے تم کو نہیں لا رہا تھااب آگئے ہیں تو تھوڑا سا ڈانس کرلیںنہیں میں نہیں کرسکتاتو ٹھیک ہے میں اکیلی ہیں چلی جاتی ہوںچلی جاﺅمیں اٹھی اور دوسرے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کرنے لگی مجھے ایک سرور سا مل رہا تھا ڈانس کے دوران ہی اچانک ایک افریقی نژاد لڑکا میرے پاس آیا اور مجھے اپنے ساتھ ڈانس کی دعوت دی میں نے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کے ساتھ ناچنے لگی اچانک ہی اس لڑکے نے ڈانس کرتے کرتے میرے جسم کوچھونا شروع کردیا ایک دو بار میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا لیکن وہ باز نہ آیا اور مجھے کہنے لگا تم بہت خوب صورت ہو مجھے تمہارے ساتھ ڈانس کرکے بہت اچھا لگ رہا ہے کیا تم میری گرل فرینڈبنو گی میں اس کی بات سن کر تپ گئی لیکن بولی کچھ نہ میں ڈانس چھوڑ کر واپس آنے لگی تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور کہنے لگا خوب صورت لڑکی میرے ساتھ ڈانس کرتی رہو میں نے اس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اب میں ماجد کی طرف دیکھنے لگی اس نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو اٹھ کر آیا اور لڑکے کو جانے کیا کہا اور مجھے بازو سے پکڑ کر ٹیبل پر آگیا یہاں آتے ہی اس نے مجھے اچھی خاصی سنائیں لیکن میں چپ رہی بیئر میرے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ کررہی تھی مجھے قے آرہی تھی لیکن میں اسے ضبط کئے بیٹھی رہی آخر کب تک تھوڑی دیر بعد مجھے قے آگئی اور میں نے ٹیبل پر ہی قے کردی جس سے میرے کپڑے بھی خراب ہوگئے ایک کے بعد دوسری اور تیسری جانے کتنی بار یہاںبیٹھے بیٹھے مجھے قے آئی اور میں بے حال سی ہوکر ٹیبل کے اوپر اوندھے منہ گر گئی پھر ماجد مجھے پکڑ کر گاڑی تک لایا اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر خود گاڑی چلانے لگا راستے میں میں جانے کیا کہتی رہی مجھے نہیں معلوم کہ کب گھر آیا اور ماجد مجھے کب اور کیسے گاڑی سے اتار کر میرے کمرے میں لایا مجھے نیند آگئی صبح میں نو بجے کے قریب اٹھی تو ٹی وی لاﺅنج میں عدنان بھائی اور ماجد باتیں کررہے تھے مجھے لگا کہ ماجد نے سب کچھ بھائی کو بتادیا ہوگا اور اب میرا یہاں مزید رہنا ممکن نہیں رہے گا آج ہی بھائی میری واپسی کی ٹکٹ کروا کے واپس بھجوادیں گے خیر میں انہی سوچوں میں تھی کہ میری نظر میرے کپڑوں پر پڑی میں نے دیکھا کہ رات والے کپڑے میرے جسم پر نہیں تھے بلکہ سونے کے لئے گھر میں رکھی شلوار قمیص میرے جسم پر تھی میں حیران رہ گئی کہ رات کو ماجد نے میرے کپڑے بھی تبدیل کردیئے تھے خیر میں باہر نکلی ماجد اور بھائی کو گڈ مارننگ کہا بھائی نے مجھے دیکھا اور کہنے لگے اٹھ گئی شہزادی صاحبہ صبح سے چائے کے انتظار میں بیٹھیں ہیں مجھے سونا تھا لیکن ماجد نے مجھے سونے نہیں دیا بتا رہا تھا کہ تم لوگ رات کو کلب میں گئے تھے عاصمہ تم نے دیکھا ماجد بہت اچھا ڈانس کرتا ہےمیں گھبرائی ہوئی تھی کچھ نہ بولی اور باتھ روم میں گھس گئی نہا کر فریش ہوئی اور پھر کچن میں جاکر چائے بنائی اور ان کے پاس ہی آن بیٹھی اور انتظار کرنے لگی کہ کب بھائی میری کلاس لینا شروع کرتے ہیں مگر ایسا کچھ نہ ہوا تھوڑی دیر کے بعد بھائی چائے پی کر سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلے گئے اور میں نے چور نظروں سے ماجد کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر ہلکا ہلکا سا مسکرا رہا تھا میں نے نظریں نیچی کرلیں اور تھوڑی دیر بعد پھر نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور اس کو کہا سوریکس بات کی سوریوہ میں نے آپ کو رات کو بہت تنگ کیانہیں کوئی بات نہیں اس میں تمہارا کیا قصور ہےمیں خاموش ہوگئی اور تھوڑ ی دیر کے بعد پھر بولی ” میرے کپڑے رات کو آپ نے چینج کئے تھے“وہ تھوڑا سامسکرایا اور پھر کہنے لگا ہاںآپ نے رات والے واقعہ بھائی کو بھی بتادیا ہے یا نہیںنہیں ویسے تم ہو واقعی ہی بہت خوب صورتمیں اس کی بات سن کر خوش ہوگئی اور اس کی طرف دیکھنے لگی اب مجھے اس سے شرم آرہی تھی آخر کار میں جیت گئی تھی ماجد میری زندگی میں آنے والا پہلا لڑکا تھا اور میں پہلی بار اس کے منہ سے اپنی تعریف سن رہی تھیمیں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور بیڈ پر اوندھی ہوکر لیٹ گئی مجھے اب ہر چیز اچھی لگ رہی تھی اور ہر چیز پر پیار آرہا تھا میں نے تکیہ لیا اور اس کے زور سے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا خیر اب ہماری دوستی کی شروعات ہوچکی تھی اب ہر روز ہم لوگ کسی نہ کسی جگہ آﺅٹنگ کے لئے جاتے لیکن کبھی بھی ماجد نے مجھے چھوا بھی نہیں تھا دن گزرتے گئے ایک روز میری طبیعت خراب تھی اور میں کالج نہ گئی ماجد اپنی جاب پر چلے گئے میں اپنے کمرے میں ہی لیٹی رہی جبکہ بھائی اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے نو بجے کے قریب مجھے دروازہ کھلنے کی آواز آئی میں نے سوچا بھائی اٹھے ہوں گے کسی کام کے لئے دروازہ کھولا ہوگا میں اپنے کمرے میں ہی لیٹی رہی تھوڑی دیر کے بعد مجھے ٹی وی لاﺅنج سے آوازیں آنے لگیں ان میں بھائی کے ساتھ کسی خاتون کی بھی آواز شامل تھی دونوں انگریزی زبان میں کچھ بول رہے تھے میں اٹھی اور دروازہ ہلکا سا کھول کر دیکھا تو عدنان بھائی ایک گوری خاتون کے ساتھ باتیں کررہے تھے تھوڑی دیر کے بعد دونوں کسنگ کرنے لگے میں ان کو دیکھ کر ہاٹ ہوگئی اور پھر سے دروازہ بند کرکے بستر پر لیٹ گئی وہ گوری خاتون ایک گھنٹہ سے زائد وقت گھر میں موجود رہی اور پھر چلی گئی بھائی پھر اپنے کمرے میں جاکر سو گئے شام کے وقت بھائی اٹھے تو میں نے ان کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں نے ان کو کسی خاتون کے ساتھ دیکھا ہے کھانے کے بعد بھائی بھی چلے گئے تھوڑی دیر کے بعد ماجد آئے اور ہم لوگ آﺅٹنگ کے لئے باہر گئے جہاں میں نے تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا تو اس نے بتایا کہ وہ لڑکی سپین نژاد ہے اور اس کی بھائی کے ساتھ کافی عرصہ سے دوستی ہے تمہارے آنے سے پہلے وہ اکثر گھر آتی تھی لیکن تمہارے آنے کے بعد عدنان نے اسے گھر آنے سے منع کردیا تھا آج بھی عدنان کو معلوم نہیں تھاکہ تم کالج نہیں گئی اسی لئے اس کو بلا لیا خیر تم اس کے سامنے یہ ظاہر نہ کرنا کہ تم نے اس کو دیکھا ہے ورنہ وہ شرمندہ ہوگا اس دن کے بعد مجھے خواہش ہونے لگی کہ ماجد بھی میرے ساتھ کسنگ کرے لیکن وہ شائد پتھر کا بنا ہوا تھا ایک دن جب ہم لوگ آﺅٹنگ سے واپس آئے میں نے چائے بنائی اور ساتھ میں بسکٹ لے آئی میں نے ایک بسکٹ اٹھایا اور ماجد کے منہ میں ڈال دیا وہ میری طرف دیکھنے لگا خیر اس نے کہا کچھ نہیں اور بسکٹ کھا لیا اب میں توقع کررہی تھی کہ وہ بھی مجھے بسکٹ کھلائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا خیر چائے کے بعد میں نے برتن اٹھائے اور اس کے پاس آکرصوفے پر اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے جسم کے ساتھ میرا جسم ٹچ ہورہا تھا وہ تھوڑا سا دوسری طرف سرکا اور میں پھر اس کے ساتھ ہوگئی وہ مزید سرکا اور میں مزید آگے ہوگئی پھر اس کی طرف جگہ ختم ہوگئی میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی وہ بھی میری طرف دیکھنے لگا میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور اس کے ہونٹوں پر ایک کس کردی اس نے مجھے پیچھے ہٹایا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا میں بھی اٹھی اور اس کے پیچھے ہی اس کے کمرے میں چلی گئی اور اس کو جپھی ڈال لی میں نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے جکڑ لیا آج میں نے کسی بھی مرد کو پہلی بار جپھی ڈالی تھی میرے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا اس نے بغیر کچھ بولے خود کو چھڑایا اور کمرے سے نکل کرخاموشی سے گھر سے باہر نکل گیا میں اس کی سرد مہری سے سخت نالاں تھی کافی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا میں اس کے پیچھے ہی اس کے کمرے میں چلی گئی اور اسکے ساتھ ہی اس کے بستر پر لیٹ گئی اس نے مجھے ایک بار روکا اور کچھ کہنے لگا لیکن میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کا منہ بند کردیا میں نے لیٹے لیٹے اس کو جپھی ڈال لی اور اپنی آنکھیں بند کرلیںاب اس نے بھی اپنے بازو میرے گرد کرلئے مجھے کافی سکون ملا تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو دیکھا وہ اپنی آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا میں نے سر کو اوپر اٹھایا اور اس کو ہونٹوں پر کس کردی اس نے اب اپنی آنکھیں کھول لیں اور مجھے اندھا دھند کسنگ کرنے لگا میں اس کی کسنگ سے مست ہوگئی اور خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا اس کا منہ میرے منہ پر اور اس کا ایک ہاتھ میرے مموں پر تھا اور وہ ہاتھ سے ہلکا ہلکا میرے مموں کو دبا رہا تھا جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا میں جیسے ساتویں آسمان پر اڑ رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد اس نے اپنا ہاتھ میری ٹی شرٹ کے اندر ڈال لیا اور میرے ممے کو پکڑ لیا اور میں سمٹ کر رہ گئی اس نے اپنی دو انگلیوں سے میرے نپل کو پکڑا اور اس کو ہلکا سا مسلا جس سے میرے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آواز نکل گئی تھوڑی دیر کے بعد اس نے میری ٹی شرٹ ہاتھ سے اوپر کی اور اپنا سر اٹھا کر میرے ایک نپل کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگا اف ف ف ف ف ف ف کیا مزہ تھا میں مزے سے منمنا اٹھی میں آج ایک نئے مزے سے شناسا ہورہی تھی اور چاہتی تھی کہ جلدی سے جلدی اس کی انتہا کو پہنچوں مگر مزہ بڑھتا جارہا تھا اور جیسے جیسے مزے میں اضافہ ہورہا تھا میری خواہش مزید بڑھتی جارہی تھی تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھا اور مجھے بھی بازو سے پکڑ کر اٹھا یااور میری ٹی شرٹ اتار دی میں نے نیچے سے بریزیئر نہیں پہنا تھا جیسے ہی اس نے میرے مموں کو دیکھا اس کے منہ سے واﺅﺅﺅﺅﺅﺅ کا لفظ نکل گیا وہ پاگلوں کی طرح میرے مموں کو چوسنے لگا میں آہ آہ آہ کررہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے مجھے کھڑا کیا اور میری جینز بھی اتار دی اور پھر میرے انڈر ویئر کو بھی نیچے کردیا اب میں اس کے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھی مجھے بے حد شرم آرہی تھی میں نظریں نیچی کئے کھڑی رہی اب وہ اپنے کپڑے اتار رہا تھا پہلے اس نے اپنی ٹی شرٹ اور پھر نیکر اتار دی جب وہ بھی میری طرح ننگا ہوگیا تو اس نے میری ٹھوڑی پکڑ کر میرا منہ اوپر کیا اور میرے ہونٹوں پر ایک کس کردی میں ابھی بھی اپنی نظریں نیچی کئے کھڑی تھی اس نے ایک کے بعد دوسری کس لی اب وہ میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا یہ دوسری کس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی میں نے اپنے دونوں بازو اس کے جسم کے گرد ڈال کر اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا اب مجھے اپنی ٹانگوں پر کسی سخت چیز لگنے کا احساس ہوا خیر میں اس کے ساتھ چمٹی رہی وہ چیز آہستہ آہستہ مزید سخت ہورہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کئے تو میں نے اس کو پیچھے نہ ہونے دیا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگی اس کے ہونٹوں سے مجھے عجیب سے مٹھاس مل رہی تھی اب مجھے اپنی پھدی سے پانی نکلتا محسوس ہورہا تھا پھر کچھ منٹ کے بعد میں نے اپنا منہ پیچھے کیا اور اس کا جسم دیکھا تو اس کا سینہ بالوں سے بھرا ہوا اور چوڑا تھا اس کا جسم کسی اتھلیٹ کی طرح مسکیولر تھا اب میری نظریں مزید نیچے چلی گئیں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان اس کا لن جو کافی لمبا تھا مجھے اس کی حقیقی لمبائی تو معلوم نہیں لیکن کم از کم یہ سات انچ لمبا ہوگا اس سے پہلے میں نے کافی بار نیٹ پر سیکسی سائٹوں پر بلیو فلمیں اور تصویریں دیکھی تھیں لیکن کسی بھی ایشیائی باشندے کا اتنا لمبا لن نہیں دیکھا تھا چند لمحے میں اس کو غور سے دیکھتی رہی مجھے اس کو دیکھتے ہوئے دیکھ کر ماجد مسکرا کر پوچھنے لگا کیا دیکھ رہی ہو میں نے انکار میں سرہلایا اور ایک بار پھر اس کے ساتھ چمٹ گئی اس نے پھر مجھے کسنگ شروع کردی اور پھر مجھے اس نے بیڈ پر لٹا دیا اور میرے ہونٹوں کے بعد میرے کانوں کوچوسنے لگا اب میرے مزے میں مزید اضافہ ہوگیا کانوں کے بعد اس نے میری گردن پر اور پھر پیٹ سے ہوتا ہوا میری ناف کے گرد اپنی زبان چلانے لگا اب یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا اور مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میری پھدی سے پہلے سے زیادہ پانی نکل رہا ہے اب مجھے بیڈ بھی نیچے سے گیلا محسوس ہورہا تھا میں نے ماجد سے کہا اب بس کرو لیکن وہ باز نہ آیا اس نے میری ناف سے اپنی زبان ہٹائی اور پھر میری ٹانگوں کے درمیان میں آکر بیٹھ گیا اب اس نے میری دونوں ٹانگیں اپنے کولہوں کے گرد کرلیں اور اپنے لن کو ہاتھ سے پکڑ کر میری پھدی کے اوپر رگڑنے لگا میرے منہ سے ام م م م م م م کی آواز نکل گئی میرا دل کررہاتھا کہ اب ماجد جلدی سے اس کو اندر کردے لیکن وہ شائد ابھی مجھے مزید بے چین کرنا چاہتا تھا اس نے تقریباً دو منٹ تک اپنے لن کو میری پھدی کے اوپر رگڑا اب میں اپنی انتہا کو پہنچ رہی تھی میری ٹانگیں اچانک کپکپائیں اور میری پھدی سے ایک پچکاری نکل گئی اور ساتھ ہی میرا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا لیکن وہ رکا نہیں اب وہ تھوڑا سا جھکا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر پھر سے چوسنے لگا اس کا لن ابھی بھی میری پھدی کے ساتھ ٹچ ہورہا تھا لیکن اندر نہیں تھا مجھے اس کی چبھن محسوس ہورہی تھی لیکن یہ چبھن تکلیف دہ نہیں بلکہ مزہ دینے والی تھی تھوڑی دیر کی کسنگ کے بعد میں پھر سے تیار ہونے لگی اور اس کو رسپانس دینے لگی جس پر وہ سیدھا ہوا اور پھر سے اپنے ہاتھ سے لن کو پکڑ کر اس کو میری پھدی پر سیٹ کرکے اس کو تھوڑا سا رگڑا اور پھر اس پر تھوڑا سا دباﺅ دیا مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی میرے منہ سے ہائی امی جی ی ی ی ی ی کی آواز نکل گئی میں اس کے نیچے پڑی پڑی تھوڑا سا نیچے کو گھسک گئی اور اس کا لن میری پھدی سے باہر نکل گیا لیکن تکلیف نہیں رکی وہ پھر سے سیدھا ہوا اور اپنے لن کو پھر ٹارگٹ پر فٹ کر کے اس نے ایک ہلکا سا جھٹکا دیا میری تکلیف مزید بڑھ گئی مجھے ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے کوئی لوہے کا گرم راڈ میری پھدی کے اندر میرے جسم کو چیرتا ہوا اندر گھسے جارہا ہے میں نے پھر نیچے کو گھسکنے کی کوشش کی لیکن اب اس نے مجھے اس طرح سے قابو کررکھا تھا کہ میں اپنی کوشش میں ناکام رہی میں نے اپنے دونوں بازو اس کے سینے پر رکھے اور اس کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن وہ پھر بھی نہ پیچھے ہٹا وہ میری پھدی پر اپنے لن کا دباﺅ مزید بڑھاتا جارہا تھا اور میری تکلیف بڑھتی جارہی تھی اچانک اس نے ایک زور سے جھٹکا دیا اور مجھے محسوس ہوا کہ میری پھدی پھٹ گئی ہے میرے منہ سے ایک چیخ نکل گئی میں نے اس سے کہا ماجد میں مرجاﺅں گی اس کو باہر نکالو مگر اس نے میری بات ان سنی کرکے ایک اور جھٹکا دیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے میں مرے جارہی ہوں مجھے چھوڑ دو میں مر گئی پلیز ماجد پلیززززززززز میں مر گئی مجھے چھوڑ دو مگر جیسے اس کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی تھی اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور جھٹکا دے دیا اور پھر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا میرا سر ایک طرف ڈھلک گیا اور پھر ہوش رہا اور نہ تکلیف چند لمحے بعد مجھے اس وقت کسی چیز کا احساس ہوا جب وہ میرے اوپر لیٹا ہوا تھا اور اپنے ہاتھوں سے میرے گال تھپتھپا رہا تھا” عاصمہ میری جان کیا ہوا ہوش میں آﺅ“ میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو پھر سے تکلیف کا احساس ہوا اس کا لن ابھی بھی میری پھدی کے اندر تھا میں نے آنکھیں کھولتے ہی پھر چیخنا شروع کردیا ماجد میں مر گئی مجھے چھوڑ دو اس کو باہر نکالو میں مر جاﺅں گی اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور اس نے میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا عاصمہ جتنی تکلیف ہونا تھی ہوچکی پہلی بار ہر لڑکی کو ایسی ہی تکلیف ہوتی ہے لیکن اب مزے آئیں گے تھوڑی دیر وہ ایسے ہی میرے اوپر لیٹا رہا اس نے مجھے کسنگ بھی شروع کردی اور اپنے ہاتھ سے میرے مموں کے نپل بھی مسل رہا تھا کبھی میرے مموں کو دباتا کچھ دیر کے بعد میری تکلیف تھوڑ ی سی کم ہوئی تو وہ پھر سے سیدھا ہوگیا اور اپنے لن کو اس نے میری پھدی سے نکالنا شروع کردیا میں سمجھی کہ اب کام ختم ہوگیا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ ابھی تو کام شروع ہونے والا ہے ابھی اس کا لن پورا باہر نہیں نکلا تھا کہ اس نے ہلکے سے اپنے لن کو پھر میری پھدی کے اندر ڈال دیا مجھے پھر تکلیف کا احساس ہوا لیکن یہ تکلیف پہلے کی نسبت کافی حد تک کم تھی اب وہ رکا نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اپنے لن کو میری پھدی کے اندر باہر کرتا رہا چند لمحوں کے بعد مجھے تکلیف کے ساتھ مزہ بھی آنے لگا تقریباً دو منٹ کے بعد میں پھر سے چھوٹ گئی لیکن وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھا اب میرے منہ سے آہ آئی ئی آہ اف ف ف میں مر گئی آہ ہ ہ ام م م م م (مزے اور تکلیف دونوں کی آواز) آوازیں آرہی تھیں تقریباً دو منٹ مزید جھٹکے دینے کے بعد اس نے تیزی سے اپنے لن کو میری پھدی سے باہر نکالا اور اس کے لن سے ایک پچکاری نکل کر میرے پیٹ پر گر گئی اب وہ فارغ ہوگیا تھا میں کافی حد تک نڈھا ل ہوچکی تھی اور میرا جسم ٹھنڈا ہورہا تھا وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا اور اس نے بیڈ سے ایک چادر بھی اوپر لے لی وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا تھوڑی دیر کے بعد وہ میرے اوپر سے اٹھ کر پہلو میں آن لیٹا اس نے میرا سر اپنے کندھے پر رکھ لیا میری پھدی کے اندر اب بھی تکلیف ہورہی تھی ایک عجیب سی چبھن ہورہی تھی میں اس کے کندھے پر سر رکھ کر لیٹ گئی ہمارے اوپر چادر تھی میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اپنا ایک ہاتھ اس کے سینے پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں سے اس کے سینے کے بالوں کی کنگھی کرنے لگی تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد اس کے لن میں پھر سے حرکت محسوس ہوئی اس نے مجھے پھر سے کسنگ شروع کی لیکن میں نے اس کو پیچھے کردیا اور اسے بتایا کہ مجھے ابھی تک تکلیف ہورہی ہے تو وہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا اب تکلیف نہیں ہوگی لیکن میں مزید کوئی رسک نہیں لیناچاہتی تھی خیر تھوڑی دیر کے بعد مجھے نیند آگئی اگلے روز علی الصبح اس نے مجھے اٹھایا اور کہنے لگا تم اٹھو اور اپنے کپڑے پہن کر اپنے کمرے میں چلی جاﺅ تھوڑی دیر بعد عدنان آنے والا ہے میں اٹھ کر باتھ روم چلی گئی میں نے اپنی پھدی کو پانی سے صاف کیا جیسے ہی پانی میری پھدی کے ساتھ لگا مجھے پھر سے جلن شروع ہوگئی پھر واپس آکر کپڑے پہننے لگی اور ماجد اٹھ کر باتھ روم چلا گیا میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ پر خون کے دھبے لگے ہوئے تھے میں ان کو دیکھ کرخوف زدہ ہوگئی ماجد واپس آیا تو میں نے اس کو خون کے دھبے دکھائے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ تمہاری پھدی سے خون نکلا ہے تمہاری سیل ٹوٹ گئی ہے جس سے یہ خون نکلا ہے اس نے بیڈ شیٹ اٹھاکر الماری میں رکھی اور دوسری بیڈ شیٹ بچھا کر لیٹ گیا میں اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی اور لیٹتے ہی مجھے نیند آگئی صبح مجھے ماجد نے ہی اٹھایااگلے روز بھی مجھے اپنی پھدی میں ہلکی سی جلن محسوس ہوتی رہی اس رات بھی جب عدنان بھائی جاب پر چلے گئے تو ماجد مجھے اپنے کمرے میں لے گیا لیکن میں نے اس کو کسنگ کے علاوہ کچھ نہ کرنے دیا کیونکہ مجھے ابھی بھی تکلیف محسوس ہورہی تھی اس سے اگلے روز ماجد نے پھر میرے ساتھ سیکس کیا اس کے بعد ہم لوگ ہر روز اکٹھے سوتے ہیں اور دوسرے یا تیسرے دن سکیس بھی کرلیتے تھے ہم لوگوں نے جب بھی سیکس کیا پہلے سے کئی گنا زیادہ مزہ آیا تقریباً دو ماہ بعد عدنان بھائی کو شک ہوگیا کہ میرے اور ماجد کے درمیان کچھ چل رہا ہے اس نے اس بارے میں مجھ سے بات کی تو میں نے اس کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے پھر بھائی نے ماجد سے بات کی تو اس نے بھی انکار کردیا لیکن عدنان بھائی نے کچھ دنوں کے بعدماجد سے کہا کہ وہ اپنے لئے کسی اور جگہ رہائش کا بندوبست کرلے جس کے بعد ماجد یہاں سے کسی اور جگہ چلا گیا اور ماجد بھائی نے بھی رات کی جگہ دن کی ڈیوٹی والی جاب ڈھونڈ لی اب بھی میں ماجد کے ساتھ کبھی کبھی دن کے وقت مل لیتی ہوں لیکن اس کے بعد اس کے ساتھ صرف ایک بار سیکس کا موقع ملا ہے
THE END

===== رابعہ کے ساتھ ایک خوبصورت دن ====


ان دنوں کی بات ھے، جب میں لاھور میں قیام پذیر تھا۔

ھم کل دو افراد ایک مکان میں رھتے تھے۔ مالک مکان ھمارے اوپر ھی رھتے تھے۔ مالک مکان سے ھمارے تعلّقات شروع شروع میں اتنے اچھّے نھیں تھے، مگر ایک دو واقعات ایسے ھوئے، جس میں اتّفاقیہ طور پر ھمارے ذریعے سے قدرت نے مالک مکان کی مدد کروا دی تھی۔ اس طرح سے آھستہ آھستہ مالک مکان بھی ھم سے نرم رویّہ رکھنے لگا، جو بعد میں اچھّی خاصی سلام دعا میں بدل گیا۔ حتّیٰ کہ ھم ایک دوسرے سے ضرورت کی چیزیں، جس میں سب سے زیادہ اھم چیز استری تھی، لے لیتے تھے۔
تقریباْ پینتالیس سالہ مالک مکان کا نام امجد خان تھا، اور وہ ایک سرکاری نوکری کرتا تھا۔ اس کی اولاد میں ایک جوان بیٹی (رابعہ) اور دو چھوٹے چھوٹے بیٹے (سلیم اور کلیم ) شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی تھی، جو بیچاری کسی وجہ سے دونوں آنکھوں سے محروم ھو چکی تھی۔ اس کی بیٹی میٹرک پاس کر چکی تھی، اور دونوں بیٹے پرائمری میں زیر تعلیم تھے۔
میرا کمرے کا ساتھی بھی میری طرح ایک پرائیویٹ جاب کرتا تھا۔ سارا دن کام کرنے کے بعد، ایک دن ھماری عید کا ھوتا تھا، اور وہ دن ھوتا تھا، اتوار کا۔ اتوار کے دن ھم دونوں لیٹ اٹھنے کے عادی تھے۔ بارہ ایک بجے تک ھم تیّار ھو کر باھر گھومنے پھرنے چلے جاتے تھے ۔ مالک مکان بھی ھماری اس روٹین سے واقف ھو چکے تھے، کیونکہ اتوار کے دن ھمارے کمرے کو اکثر تالہ لگا رھتا تھا۔
ایک اتوار میرے کمرے کے ساتھی نے اپنے گاؤں جانا تھا، تو اس کے جانے کے بعد، میں کمرے پر ھی لیٹ رھا۔ اس دن گرمی بھی بے حد پڑ رہی تھی۔ (لاھور میں رھنے والے زیادہ بہتر جانتے ھوں گے، کہ لاھور میں گرمی کتنے غضب کی پڑتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!) میں نے فل سپیڈ میں پنکھا لگایا ھوا تھا، اور آنکھیں موندے لیٹا ھوا تھا، کہ اچانک کمرے پر دستک ھوئی۔ میں نے آکھیں کھول کر دروازے پر توجّہ دی۔ اسی اثناٴ میں دوبارہ دستک ھوئی، تو مجھے معلوم ھوا، کہ دستک باھر والے دروازے پر نہیں، بلکہ اس دروازے پر ھو رھی ھے، جو مالک مکان کے گھر کی طرف کھلتا تھا، اور ھر وقت دونوں طرف سے بند ھی رھتا تھا۔ یہ میرے لئے اچھّی خاصی حیرانی کی بات تھی۔ خیر، میں اٹھّا، اور دروازہ کھولنا چاھا، تو دروازہ کھل گیا، کیونکہ دروازے کی دوسری جانب والی کنڈی بھی کھلی ھوئی تھی، اور وھاں مالک مکان کی بیٹی رابعہ کھڑی ھوئی تھی۔ ( رابعہ صرف اس وقت ھمارے دروازے پر دستک دیتی تھی، جب انتہائی مجبوری ھوتی تھی، ورنہ وہ گھر میں ھی بند رھنے والی لڑکی تھی۔) میں نے حیرانی سے اسے دیکھا، اور اس کے ابّو کا پوچھا۔ اس نے بتایا، کہ اس کے ابّو ایک کام سے گئے ھیں، اور اس کے دونوں بھائی بھی اس کے باپ کے ساتھ ھی ھیں۔ اس کو استری چاھئے تھی۔ میں نے استری اٹھّا کر اس کو دے دی۔ اس نے خاموشی سے استری لی، اور واپس مڑی۔ مگر جاتے جاتے اس نے آنکھوں ھی آنکھوں میں مجھے ایک مخصوص انداز سے دیکھا۔ یہ وہ انداز تھا، جو کہ میں نے اکثر اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محسوس کیا تھا۔ میں کوئی دودھ پیتا بچّہ نہیں تھا، کہ اس طرح کے اشارے کا مطلب نہ سمجھتا، مگر میں اس محلّے میں ابھی رھنا چاھتا تھا، اور پردیس میں رھتے ھوئے، کسی محلّے میں رھنے کے لئے آپ کو اپنا کردار انتہائی مضبوط رکھنا پڑتا ھے۔ خصوصاْ جب آپ بغیر فیملی کے، بطور " چھڑے " ( bechular) رہ رھے ھوں۔ یہی وجہ تھی، کہ میں نے ابھی تک محلّے میں اپنی طرف اٹھنے والی ھرلڑکی کی نظر کو اگنور کیا تھا۔ میں صرف برے وقت سے بچنا چاھتا تھا، ورنہ تو میں بھی جوان مرد تھا، میرے اندر بھی مخصوص گرمی حد درجہ موجود تھی۔ میں بھی گندم کا آٹا کھاتا تھا۔ میں بھی آج کے ماحول میں ھی جی رھا تھا، اور عورت کی شدید طلب میرے اندر بھی موجود رھتی تھی۔ میرے لن میں بھی کھجلی ھوتی رھتی تھی، اور یہ کھجلی اس وقت اور بھی دوچند ھو جایا کرتی تھی، جب محلّے کی کوئی بھی جوان لڑکی مجھے لفٹ کرواتی تھی۔
میری اتنے دن کی احتیاط کے باوجود، اس دن میں نے رابعہ کو پہلی بار ایک جوان مرد کی نظر سے دیکھا۔
رابعہ ایک سلجھی ھوئی جوان لڑکی تھی، جس کی عمر اندازاْ اٹھارہ سے بیس سال کے درمیان تک رھی ھو گی۔ اس کا قد مجھ سے دو تین انچ کم ھی ھو گا۔ وہ ایک انتہائی خوب صورت اور تیکھے نقوش والی لڑکی تھی۔اس دن اس نے گلابی رنگ کے پھولوں والا سوٹ پہن رکھّا تھا، جس میں وہ کافی پر کشش لگ رھی تھی۔ میں نے محلّے میں دو تین لڑکوں کو اس کے پیچھے چکّر لگاتے دیکھا تھا۔ لیکن ابھی تک رابعہ کا کسی کے ساتھ کوئی چکّر میرے علم میں نہیں آ سکا تھا۔

اور آج رابعہ بھی میرے اتنے نزدیک پہلی بار آ کر کھڑی ھوئی تھی۔ اس سے پہلے تو میں نے اس کو دور دور سے ھی دیکھا تھا۔ اس دیکھنے میں اور آج کے دیکھنے میں ایک فرق بھی موجود تھا۔

اس سے پہلے میں نے اس کو اس انداز میں دیکھا تھا، کہ اس کے ھونے یا نہ ھونے سے مجھے کوئے فرق نہیں پڑتا۔
مگر، آج تو وہ اتنے پاس کھڑی تھی، اور آج تو میرے اندر کا تھوڑا بہت پرہیز بھی دم توڑ رھا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی، کہ ھم ایسی جگہ کھڑے تھے، جہاں سے کسی بھی محلّے والے کی نظر ھم پر نہیں پڑ سکتی تھی، لہٰذا کوئی ھم کو چیک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ حسن آج اتنے خاص انداز سے سجا ھوا میرے سامنے موجود تھا، تو اگر میں اس پر خصوصی توجّہ نہ دیتا،تو میرے حسن پرست ھونے میں شک آ جاتا۔

اور میری کسی بھی قابلیّت پر شک کی گنجائش بھی موجود نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!

میں نے اس دن پہلی دفعہ اس کی مسکراھٹ کا جواب مثبت انداز میں دیا تھا۔
اس کے چہرے پر آنے والی مسکراھٹ ایک دم سے گہری ھو گئی۔ میں نے محسوس کیا، کہ اس کی مسکراھٹ نے سیدھا میرے دل پر اثر کیا ھے۔ اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ میں نے ادھر ادھر دیکھے بغیر، اسے اندر کھینچ لیا۔
وہ اس کے لئے تیّار نہ تھی۔ میرے اس طرح سے کھینچ لینے پر اس کے تو ھوش اڑ گئے۔ اب وہ گریز کا مظاھرہ کر رھی تھی، اور اپنے آپ کو میری گرفت سے چھڑانے کی مکمّل کوشش کر رھی تھی، مگر وہ مرد ھی کیا، جو ایک بار گرفت میں آئی ھوئی جوان لڑکی کو ، اور کچھ نہیں تو، کم از کم، بنا ھلکا سا کسّ اور ٹچ کئے، چھوڑ دے۔ سو میں نے بھی اب موقع غنیمت جانا، اور اس کو اپنے ساتھ لٹا لیا۔ لٹانے سے پہلے میں نے ایک ھاتھ پیچھے کو کر کے کمرے کی کنڈی لگا دی تھی۔ باھر والی کنڈی تو پہلے ھی لگی ھوئی تھی۔
اب میں نے رابعہ کی ایک نہ چلنے دی، اور اس پر ٹوٹ پڑا۔
اس کے منہ سے عجیب قسم کی آوازیں نکل رھی تھیں، جو کہ میرے منہ میں ھی کہیں گم ھو رھی تھیں، وجہ صاف تھی، کہ اس کا منہ میرے منہ میں تھا۔ میں انتہائی شدید ترین انداز میں اس کی کسّنگ کر رھا تھا۔ وہ بیچاری ففٹی ففٹی ھو رھی تھی۔ ایک طرف تو اس کے اندر بھی میری طلب موجود تھی، جو کہ کسی نہ کسی طرح سے وہ ظاھر بھی کر رھی تھی، مگر دوسری طرف، وہ اس اچانک کارروائی کے لئے قطعی تیّار نہ تھی۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہ ھو گا، کہ صرف ایک ھی مسکراھٹ سے وہ اس طرح سے پھنس جائے گی۔ اس کے سامنے یقیناْ میرا ایک امیج بنا ھوا تھا۔ وہ سمجھتی تھی، کہ آج تک کسی بھی مسکراھٹ کا جواب نہ دینے والا، اوّل تو ایک نگاہ التفات تک نہیں ڈالے گا، اور اگر ایسا ممکن ھو بھی گیا، تو بھی وہ آج زیادہ سے زیادہ ھنس کر ھاتھ وغیرہ تھامنے تک ھی رھے گا۔ وہ بھی اگر اس کے اندر کوئی گرمیٴ جذبات نے سر اٹھایا، تب ، ، ، ، !
اسے کیا معلوم تھا، کہ اس کی آج کی ایک ھی مسکراھٹ، اس کو سیدھا میرے نیچے پہنچا دے گی۔
میرے ھاتھ بہت تیزی سے اس کے جوانی سے بھر پور وجود کی پیمائش کر رھے تھے۔ جب میں نے اس کی چھاتی پر ھاتھ رکھّے، تو میرے اندر سرور کی ایک خاص قسم کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی چھاتی بے حد نرم و نازک محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے اس کی قمیض کو اوپر کرنا چاھا، تو اس نے مزاحمت تیز کر دی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میری گرفت اس پر ھلکی ھو رھی ھے۔ چنانچہ میں نے اس کو قابو کرنے کے لئے اپنا وجود اس پر ڈال دیا۔ اب وہ میرے نیچے دب گئی۔ اس سے وہ بجائے مزاحمت کرنے کے، میری طرف رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں نے ھلکی سرگوشی میں اس سے کہا، " اگر تو میرے ساتھ تعاون کرو گی، تو میرے ساتھ تم بھی مزہ اٹھا سکتی ھو، لیکن اگر مجھے روکو گی، تو بھی میں زبردستی سب کچھ کر گزروں گا، مگر اس صورت میں تمھیں بے حد اذیّت اٹھانا ھو گی۔ اور یہ تو تم بھی جانتی ھو، کہ اس کمرے میں ، میں نے تمھیں نہیں بلایا، بلکہ تم خود چل کر میرے کمرے تک آئی ھو۔ میں جانتا ھوں، کہ تم ھمیشہ سے میری قربت چاھتی ھو ۔ تمھاری آج کی مسکراھٹ بھی اسی لئے تھی، کہ میں تمھارے قریب آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوراب اگر میں راضی ھو ھی گیا ھوں، تو تم کیوں اس طرح کر رھی ھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟ "
میری باتوں کے جواب میں اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ شائد اس نے تصوّر میں مجھے اپنے ساتھ زبر دستی کرتے ھوئے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔

میری باتوں نے اس پر اثر ڈالا، اور جواب میں اس کی مزاحمت ختم ھو گئی۔


اب وہ میرے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رتھی تھی۔

اس کو آمادہ دیکھ کر میرے اندر مستی کی تحریک تیز ھو گئی۔ اب میں اس کے جسم کی جوانی سے کھل کر کھیل سکتا تھا۔ میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی،
" تھینکس رابی، (اس کے گھر والے اسے مختصراْ رابی کے نام سے ھی پکارتے تھے۔ ویسے اس کا اصل نام رابعہ تھا۔) اب دیکھنا، آج میں تم کو کتنا مزہ دیتا ھوں۔ میرے ساتھ گزارے گئے یہ لمحات تمہیں ساری عمر یاد نہ رھیں، تو کہنا۔ "
میری اس بات سے اس کا چہرہ سرخ ھو گیا، اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
اس کے بعد میں اس کے وجود سے ھٹ گیا، اور اس کے برابر میں لیٹ گیا۔ میں جان چکا تھا، کہ ھمارے پاس وقت اتنا زیادہ نہیں ھے۔ اس لئے میں نے سب سے پہلے اس کو دوبارہ سے گرم کرنا شروع کر دیا۔ مجھے معلوم تھا، کہ اگر میں نے ابھی سے اس سے کپڑوں کا مطالبہ کر دیا، تو وہ فطری شرم و حیا کے باعث انکار کر سکتی ھے۔
میں پہلے اس کے جذبات کو مکمّل گرم کر دینا چاھتا تھا، تا کہ جب کپڑوں کا مطالبہ کروں، تو وہ بلا چون و چرا مان جائے، یا کم سے کم دیر لگائے۔
رابعہ کے تعاون کا یہ نتیجہ نکلا، کہ میرا کام آسان ھو گیا۔ کیونکہ اب رابعہ بھی میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میں نے اس کی کسّنگ سٹارٹ کی، تو اس نے بھی جواب دیا، اور اپنا ھاتھ میرے بازو کے اوپر سے میری کمر پر ٹکا لیا۔ اس کی آنکھیں بند ھونا شروع ھو رھی تھیں۔ میں نے کم و بیش تین چار منٹ تک مسلسل اس کی کسّنگ کی۔ اس دوران میرا ایک ھاتھ اسکی کمر پر حرکت کرتا رھا، جبکہ دوسرا ھاتھ میں نے اس کے سر کے نیچے دے رکھّا تھا۔
چند منٹ کی کسّنگ نے رابی کے جذبات کو اچھّی خاصی تحریک دے ڈالی تھی۔ اس کی سانسوں کی آوازیں بتا رھی تھیں، کہ اس وقت وہ اپنے کنٹرول سے آؤٹ ھو چکی ھے۔ اوپر سے میرا ھاتھ اس کی کمر سے ھوتا ھوا اب اس کے سینے پر مصروف عمل تھا۔ میری ٹانگیں بھی اس کے وجود سے رگڑ کھا رھی تھیں۔ اگر مجھے ٹانگوں کے رستے اس کے جسم کی گرمی اپنے اندر منتقل ھوتی محسوس ھو رھی تھی، تو یقیناْ میرے بدن کی حرارت بھی اس کے اندر لازمی طور پر اتررھی ھو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا ھتھیار تو لگاتار رابی کی ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ھو ھو کر، اس کی پھدّی کو دعوت مبارزت ( جنگ میں اپنے مدّ مقابل کو مقابلے کے لئے للکارنا۔ جنگ کے لئے دعوت دینا۔ ) دے رھا تھا۔

اب میں نے اس کے سینے کے اندر ھاتھ ڈالا، اور اندر سے اس کی چھاتیوں کو انتہائی نرمی سے دبانا شروع کیا ۔

جب میرا ھاتھ اس کی چھاتی سے ٹچ ھوا تھا، تو اس کے منہ سے ایک خاص آواز بر آمد ھوئی تھی، جو اس کی اندرونی کیفیّت کو ظاھر کر رھی تھی۔
یقیناْ وہ بھی میری حرکتوں سے سرور میں ڈوبی جا رھی تھی۔ ورنہ اس کا تنفّس اتنا تیز نہ ھوتا۔
میں نے کچھ دیر مزید اس کے کپڑوں کو برداشت کرتے ھوئے اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھّی۔ رابی بار بار اپنے سر کو دائیں بائیں حرکت دے رھی تھی۔ میری محنت رنگ لا رھی تھی، اور رابی اب اس مرحلے پر آ رھی تھی، جب جلد ھی وہ میرے ایک اشارے پر کپڑے بھی اتار دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ھاتھ مسلسل اپنے کام میں مصروف تھے۔ رابی کے ھونٹ سرخ ھو چکے تھے۔ میں نے اپنے ھاتھ سے رابی کے ایک ممّے کو نپل سے پکڑ کر ھلکا سامسلا، تو رابی کے منہ سے سسکاری نکل گئی، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔

میں بھی بس یہی دیکھنا چاھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

جس ھاتھ سے میں رابی کے ممّوں کو مسل رھا تھا، اسی ھاتھ کو میں اندر سے ھی رابی کی کمر تک لے گیا۔ اس کام کے لئےمجھے رابی کی کسّنگ تیز کرنا پڑی تھی، مگر فائدہ یہ ھوا، کہ میں بنا کسی اعتراض کا سامنا کیے، رابی کا برا کھولنے میں کامیاب ھو گیا۔
برا کی ھک کھولنے کے بعد، میرا ھاتھ رابی کے ممّوں کے لمس سے صحیح معنوں میں آشنا ھوا۔ اس کے بدن کا لمس واقعی کمال کا مزہ رکھتا تھا۔ میرے اندر کرنٹ دوڑ گیا۔ میں نے اس کے ممّوں کو دبایا، تو رابی کی آنکھیں کھل گئیں، مگر میرے ساتھ بات کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔، ، ، اس کے ھونٹوں پر ابھی تک میرے ھونٹوں کا قبضہ تھا۔
میں کم و بیش، دو منٹ تک اس کے ممّوں کو دباتا رھا، کبھی میں اس کے ممّوں کو نرمی سے مسلتا، تو کبھی میں اس کے نپلز کو پکڑ کر اوپر سے رگڑنا شروع کر دیتا۔ حتّیٰ کہ مجھے محسوس ھو گیا، کہ اب رابی کے کپڑے اتروائے جا سکتے ھیں۔ چنانچہ میں نے رابی کے کان میں سرگوشی کی۔
"رابی ، میری ایک بات مانو گی؟" جواب میں، رابی نے مجھے دیکھا، تو مجھے اندازہ ھوا، کہ اس کی آنکھیں از حد سرخ ھو چکی تھیں۔ ، ، ، ، تب مجھے معلوم ھوا، کہ رابی بھی اس قبیل سے تعلّق رکھتی تھی، کہ جو لوگ جب بھی سیکس کے لئے تیّار ھوتے ھیں، تو ان کی آنکھیں سرخ ھو جاتی ھیں۔ (میری زندگی میں میرا ایسی چند ایک ایسی لڑکیوں سے واسطہ پڑا ھے، جن کی آنکھیں سیکس کے دوران، یا سیکس کے شروع میں ھی، مکمّل طور پر سرخ ھو جاتی تھیں۔ ، ،یہ سرخی ، آنکھوں کے عام سرخ ھونے سے سے کافی حد تک زیادہ ھوتی تھی۔ شائد آپ میں سے بھی کسی دوست کے ساتھ ایسا اتّفاق ھوا ھو۔ ) میں جان چکا تھا، کہ اب رابی تیّار ھے۔ چنانچہ میرے کہنے پر اس نے ذرا سے تردّد کے بعد، اپنے کپڑے اتاردئے۔
ی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کر چکا تھا۔ رابی نے اپنی شلوار تو اتار دی تھی، مگر اس نے ابھی تک اپنا انڈر ویئر نہیں اتارا تھا۔ میں نے اس کو اپنے ساتھ لٹایا، اور اپنے ھاتھ اس کے ممّوں پر رکھ دئے۔ اس نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے اس کی کسّنگ کرنی چاھی، تو اس نے آگے سے اپنے ھونٹ کھولنے میں بھی دیر لگائی۔
میں نے محسوس کیا، کہ کپڑے اتارنے کے بعد، ایک دم سے رابی کا موڈ تبدیل ھو گیا ھے، اور وہ اب میرا ساتھ دینے کی بجائے، کافی گھبرائی گھبرائی سی لگ رھی ھے۔
،،،،،،،،،، یقیناْ رابی ٹینشن محسوس کر رھی تھی، مگر میں بھی کیا کرتا، مجھے رابی نے ھی شروع میں اکسایا تھا۔ اب جبکہ میں اس حالت تک آ گیا تھا، تو میرے لئے ھر گز ھر گز ممکن نہیں تھا، کہ میں رابی کو ایسے ھی جانے دیتا۔ اب تو جب تک میرے فوجی کی گرمی نہ نکل جاتی، وہ چین نہ پاتا، اور اس کا چین، رابی کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں موجود تھا۔
، ، ، ، اپنے لن کی گرمی کا خیال اس وقت سب خیالات پر حاوی تھا۔ میں نے رابی کی کسّنگ شروع کر دی، چنانچہ کچھ ھی دیر میں رابی پھر سے گرم ھو کر میرا ساتھ دینے لگی۔
اب وہ چدنے کے لئے مکمّل طور پر تیّار تھی۔
میں نے اس کا انڈر ویئر کھینچ کر نیچے کیا، اور اتار دیا۔ اب وہ ٹوٹل برھنہ حالت میں میرے سامنے موجود تھی۔ اس کے سینے پر موجود ابھار دودھیہ رنگت کے حامل تھے جن پر گلابی رنگ کے نپل موجود تھے۔اس حسینہ کا بدن بالکل بے داغ تھا۔ (مطلب حسین جسم پر کوئی داغ نہیں تھا۔ ورنہ تو وہ پہلے سے چدی ھوئی تھی ۔ ) اس کی گول مٹول رانوں کا نظّارہ بھی مجھے پاگل کئے دے رھا تھا۔ اس کے پیٹ میں بھی وہ کشش موجود تھی، جو ایک لڑکی کے پیٹ میں اس وقت تک موجود رھتی ھے، جب تک کہ وہ ماں نہیں بن جاتی۔
اس کا پیٹ بے حد کشش رکھتا تھا۔
اس کے پیٹ کے نیچے وہ مقام موجود تھا، جس کی خاطر اتنی محنت ھوئی تھی۔

، ، ، ، اس کی پھدّی ۔ ۔ !

اس کی پھدّی بھی بالوں سے صاف تھی۔ شائد اس نے آج یا کل ھی صفائی کی تھی۔

میں نے مزید وقت ضائع کئے بغیر، اس کے بدن پر ھاتھ پھیرتے ھوئے، اس کی ٹانگوں کی طرف آ گیا۔ ( قارئین کی وضاحت کے لئے عرض کرتا چلوں، کہ یہ سب کارروائی تیس منٹ سے بھی کم وقت میں انجام پائی تھی۔ کہانی میں ایک ایک بات کی وضاحت کرنی ضروری ھے، تا کہ آپ سب کو ایسے محسوس ھو، کہ یہ سب آپ کے سامنے ھی ھو رھا ھے، اور آپ سب یہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رھے ھیں۔)

اب میں نے اس کی رانوں پر ایک دو بار ھاتھ پھیرا، یہ اس کے جذبات کو چھیڑنے کے لئے تھا، اور رابی اس پر اچھّی خاصی مچل گئی۔ میں مسکرایا، اور اس کے دیکھنے پر گویا ھوا۔ " پلیز، گیٹ ریڈی ٹو بی فکڈ، مائی ڈئر سویٹ ھارٹ، Please Get Ready To Be) Fucked, My Dear Sweet Heart.)
میری اس بات کے جواب میں رابی شرم سے سرخ ھو گئی۔ میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں، اور اپنے دائیں بائیں پھیلا دیں۔ اس کی پھدّی سے اس وقت ایک خاص قسم کا لیس دار مادّہ نکل رھا تھا۔ میرے لن کے سوراخ پر بھی چند قطرے پانی جمع ھو کر نکل رھا تھا۔ رابی نے کہا، " پلیز، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ھے۔ میری ماں جاگ گئی ھو گی۔ ، ، ، میں مسکرا دیا۔ یقیناْ وہ یہ چاھتی تھی، کہ میں جلد سے جلد اس کی پھدّی میں اپنا لن اتاردوں۔ ، ، ، میں نےپوچھا، "اگر تم کنواری ھو، تو تمھیں درد ھو گا۔ برداشت کر لو گی ؟ " ، ، ، جواب میں اس نے کہا، کہ وہ برداشت کر لے گی۔ ۔ ۔ (بعد میں پتا چلا، کہ وہ تو اس درد کے مرحلے سے چھے ماہ پہلے ھی گزر چکی ھے۔ )
میں نے اس کی ٹانگیں پکڑیں، اور اپنے لن کا ٹوپہ اس کی پھدّی پر سیٹ کیا۔ ایک نظر اس کی طرف دیکھا، اور ایک دھکّا لگایا۔ میرے لن کی ٹوپی اس کی پھدّی میں گھس گئی۔ اس کے چہرے پر تکلیف محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے آگے کو ھوتے ھوئے، اس کے ھونٹ اپنے ھونٹوں میں لے لئے، نیچے سے میں نے اپنی پوزیشن کا خاص خیال رکھّا تھا، کہ میرا لن اس انداز میں اس کی پھدّی پر سیٹ رھے، کہ میرے ایک ھی دھکّے سے اس کی پھدّی میں گھس جائے۔
اس کی کسّنگ کے دوران ھی، میں نے اچانک ایک جاندار دھکّا لگایا، اور اس کی پھدّی کی گہرایئوں میں اپنا لن اتار دیا۔
اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ میرے منہ میں ھی کہیں دب گئی۔ ، ، ، !
(میں سوچ رھا تھا، کہ آج کنواری لڑکی کی سیل توڑنے کا موقع ملا ھے، مگر بعد میں پتہ چلا تھا، کہ وہ درد اسے اس وجہ سے ھو رھا تھا، کہ اس نے کافی دنوں کے بعد سیکس کیا تھا، اور یہ اس کے لئے صرف تیسری بار ھی تھا۔ اس لئے ابھی اس کی پھدّی اتنی رواں نہیں تھی۔ )
چند سیکنڈ کے توقّف کے بعد، میں نے چپّو چلانا شروع کر دئے۔ (ایک بات کا تو میں اندازہ لگا چکا تھا، کہ رابی کنواری نہیں تھی۔ وہ اس سے پہلے بھی کسی نہ کسی مرد سے چدوا چکی تھی، مگر یہ سوال بعد میں بھی ھو سکتے تھے۔ ابھی تو بہت کام باقی تھا۔)
میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ ھٹا لیا تھا، کیونکہ اب وہ میرا لن برداشت کر چکی تھی۔ لہٰذا کسی قسم کی چیخ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ویسے بھی باہر بارش شروع ھو گئی تھی، اور اب اس کےباپ اور اس کے بھائیوں کے آنے کا موھوم سا امکان بھی نہیں رہ گیا تھا۔( میں تو پچھلے آدھے گھنٹے سے بند کمرے میں رابی کے ساتھ مصروف تھا، اسی وجہ سے مجھے پتہ ھی نہیں چل سکا تھا، کہ باھر کب بادل آئے، اور بارش بھی برسنے لگ گئی۔ ) میں بے فکری سے اس کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس نے بھی اب انجوائے کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں چاھتا تھا، کہ وہ میرے ستاھ فارغ نہ ھو، بلکہ اس کے فارغ ھونے کے بعد بھی، کم از کم، پانچ سات منٹ تک میں اس کی چدائی کرتا رھوں، تا کہ بعد میں وہ اس چدائی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے یاد رکھّے۔ اس کی سیکسی آوازیں بھی نکل رھی تھیں، مگر میں اس کے منہ پر کبھی کبھی ھاتھ بھی رکھ دیتا تھا، مبادا اس کی آواز باھر چلی جائے، اور کوئی سن لے۔ حالانکہ باھر بارش میں کسی کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
کچھ دیر میں نے آھستگی سے جھٹکے لگائے، پھر میں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی۔ ساتھ ساتھ میں اس کو چھیڑ بھی رھا تھا۔ اس سے وہ جلد ھی فارغ ھو گئی۔
میں نے اس پوزیشن میں پانچ منٹ تک اس کو چودا۔ پھر میں نے اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا۔ وہ مان نہیں رھی تھی، تب میں نے کہا، اگر وہ مجھ سے جلد جان چھڑانا چاھتی ھے، تو اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آنا ھی ھو گا۔ وہ اٹھی، اور جھک گئی۔ اس سے اس کی پھدّی بالکل واضح ھو گئی۔ یہ میرے لئے بے حد دلفریب نظّارہ تھا۔ اس کی گیلی پھدّی، گول مٹول رانیں۔ (لمبی، گوری اور گول مٹول رانیں ھمیشہ سے میری کمزوری رھی ھیں۔) میں نے اس کے پیچھے سے آ کر اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیا، اور ایک ھی جھٹکے سے اپنا لن اس کی پھدّی میں ڈال دیا۔ میں نے اس کی کمر سے اس کو پکڑ لیا تھا، ورنہ وہ لازمی طور پر آگے کو گر جاتی۔
اس انداز میں ، کم از کم پانچ منٹ مزید میں نے اس کی جم کر چدائی کی۔ اب میں نے سوچا، کہ بس کر دینی چھاھئے۔ ، ، چنانچہ میں نے اس کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھا کر شروع ھو گیا۔ دو منٹ کے جاندار سٹروکس سے میں اس کی پھدّی میں ھی فارغ ھو گیا۔ اس نے کوشش کی تھی، کہ میں اپنا پانی باھر نکالوں، مگر میں نے اس کو ھلنے بھی نہیں دیا۔
( وہ کیا ھے ناں، کہ جب تک میں اپنا پانی عورت کی پھدّی میں نہ نکالوں، مجھے سیکس کا مزہ ھی نہیں آتا۔) ا
اس کے بعد میں نے واش روم کا رخ کیا۔ کپڑے وغیرہ پہن کر میں فارغ ھوا، تو وہ بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی۔ کافی دیر تک تو وہ مجھ سے نظریں ھی نہیں ملا سکی تھی۔ آخر اس نے مجھ سے گلہ کیا، کہ میں نے پانی نکالتے وقت کوئی بھی احتیاط نہیں کی۔ اس پر میں نے اس کو ایک خاص قسم کی ورزش کروائی۔ تکلیف کے باوجود اس نے وہ ورزش کی، کیونکہ وہ ماں بننے کی بدنامی سے بچنا چاھتی تھی۔اس کے بعد میں نے اس کو مزید تسلّی دیتے ھوئے کہا، کہ آج شام کو میں اس کو ایک خاص چیز لا دوں گا۔ اس کے استعمال سے وہ حاملہ ھونے سے محفوظ رھے گی۔ اس کے بعد میں نے اس سے سوال کیا، کہ کیا اس نے مزہ محسوس کیا، یا کہ وہ ناراض ھے؟ ، جواب میں وہ مسکرائی، اور میرے سینے پر ایک مکّا مارتے ھوئے میرے ساتھ لگ گئی۔ میں بھی خوشی سے جھوم اٹھّا۔ یقیناْ میری مردانہ کارکردگی حوصلہ افزاء تھی۔
اس کے بعد, میرے گال پر ایک کس کرتے ھوئے وہ جانے لگی، تو میں نے اس کو پکڑ کر پوچھا۔ " ایک بات تو بتاؤ، تم کنواری نہیں ھو۔ سچّ سچّ بتانا۔ کس کے ساتھ کیا ھے؟ "
میری اس بات پر اس نے شرماتے ھوئے بتایا، کہ پہلی اور دوسری دفعہ اس نے اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ اسی کمرے میں کیا تھا، جب اسی طرح اس کا باپ کسی کام سے باھر گیا ھوا تھا، اور اس کی والدہ سوئی ھوئی تھی۔ یہ آج سے چھے ماہ پہلے کی بات ھے۔ اس کے بعد اس کا کزن دوبئی چلا گیا۔
میں نے اس سے کہا، کہ آج کے کام میں جلد بازی موجود تھی۔ آئندہ اگر وہ موقع دے، تو میں اس کو اس سے بھی زیادہ مزہ دے سکتا ھوں۔ میری بات کے جواب میں اس نے مصنوعی ناراضگی سے مجھے دیکھا، اور مکّا لہراتی ھوئی چلی گئی۔

=== اس کی بیوی ===

وہ دونوں تیسری منزل کے ایک کمرے میں تھے یہ چھوٹا سا کمرہ اپنی ہلکی نیلی روشنی کیساتھ باہر سے یوں دکھائی دیتا گویا ترین کا کوئی ٹھنڈا ڈبہ ہے جس طرح ریلوے والے گرمی کے موسم میں ”فردوس سیمیں” یا ” خواب سیمیں ” وغیرہ شاعرانہ نام رکھ کر بعض خاص گاڑیوں میں جوڑ دیتے ہیں۔
بارشوں کا زمانہ قریب قریب ختم ہو چکا تھا۔ مکانوں میں بسنے والی مخلوق نے پسینے، بدبو اور گھٹن سے نجات پائی تھی۔ فضا میں خصوصاً رات کے وقت خنکی ہونے لگی تھی۔ ہاں جب کوئی بڑا سا کالے رنگ کا پتنگ اپنی تیز بھنبھناہٹ کیساتھ اندھا دھند کسی برقی قمقمے کے چکر کاٹنے لگتا تو ظاہر ہو جاتا کہ برکھا رت ابھی گئی نہیں۔
نجمہ ٹھیک اسی طرح سیدھی مانگ نکالا کرتی، نوجوان نے کہا، مگر کبھی کبھی وہ گدی تک مانگ لے جاتی۔ یہ طریقہ اس نے ایک بنگالن سے سیکھا تھا۔
نسرین چپ رہی نظریں فرشی سنگھار میز کے آئینے پر جمائے جس میں اسے اپنا دھندلا دھندلا نیلگوں عکس دکھائی دے رہا تھا وہ بالوں میں کنگھی کرتی رہی جیسا کہ سونے سے پہلے بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے۔ نوجوان اس کے پاس ہی چاندنی پر کہنیوں کے بل اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ یوں لیٹنے سے اسکی سفید سلک کی قیمض اور خاکی زین کی پتلون میں جابجا سلوٹیں پڑ گئی تھیں۔ اس نے چند لمحے جواب کا انتظار کیا اور پھر کہنا شروع کیا۔ ” کبھی کبھی نجمی اپنے داہنے کان کے پاس سے اپنے بھورے بالوں کی ایک لٹ نکال کر لام(ل) سا بنا لیا کرتی جو اس کے سرخ و سفید
بھرے بھرے گال پر بہت بھلا لگتا۔

نسرین کے چہرے پر خفیف سی اضمحلال کی کیفیت پیدا ہوئی مگر زبان سے اب بھی اس نے کچھ نہ کہا وہ سوچ رہی تھی یہ کیسا مرد ہے جس کے پاس بات کرنے کو بیوی کے سوا اور کوئی موضوع ہی نہیں۔ وہ دو گھنٹے سے برابر اسی عورت کا ذکر سنے جا رہی تھی جو اب دنیا میں موجود نہ تھی ان دو گھنٹوں میں میں اس نوجوان کی متاہل زندگی کے تمام اہم واقعات اور اسکی مرحوم بیوی کی بہت سے عادتوں اور خصلتوں سے واقف ہوچکی تھی۔ یہ کہ اسے بچپن ہی سے اپنی بیوی سے عشق تھا۔ یہ کہ نجمہ کا باپ انکی شادی کیخلاف تھا مگر ماموں اور چچا حق میں تھے۔ یہ کہ نجمہ لمبے قد کی تھی۔ اسے گانا سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ ہنستی تو اسکے بائیں گال میں گڑھا پڑ جاتا۔ اسے حنا کا عطر بہت مرغوب تھا۔


وہ کروشیے سے مور بہت اچھا بنایا کرتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سفر بہت لمبا تھا مگر اسکی سہمی ہوئی نظروں نے جلد ہی ستاروں کو ڈھونڈ نکالا تھا۔ اسکو دیکھ کر اس کا ڈر گم ہونے لگا تھا۔ یہاں تک کہ وہ باپ کے کندھے سے لگ کر سو گئی۔ آنکھ کھلی تو خود کو ایک اجنبی کے گھر پایا وہ کئی دن تک روتی بلکتی رہی مگر باپ کی صورت دیکھنا اسے پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کو نسرین کی آنکھ کھلی تو سورج خاصا نکل آیا تھا اٹھتے ہی سب سے پہلے اسے جو احساس ہوا یہ تھا کہ نوجوان اسکے بستر پر موجود نہیں، اس نے سوچا غسل خانے میں ہو گا اور وہ کھلے کھلے بستر پر کروٹیں بدلنے لگی۔ جب پاؤ گھنٹہ گزر گیا اور نوجوان کہیں نظر نہ آیا تو اسے الجھن ہونے لگی۔
ثمن جھاڑو لیے کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا
” وہ رات والے بابو کہاں ہیں؟”
” چلے گئے ”
چلے گے؟ اس نے تعجب سے پوچھا۔
جی ہاں۔ صبح ہی صبح۔” ہم سو رہے تھے دروازہ بھی تو کھلا ہی چھوڑ گئے۔
ویسے تو سب خیریت ہے ناں؟ بے ساختہ اسکے منہ سے نکل گیا۔
جی سب خیریت ہے ۔ ثمن اسکا مطلب فوراً سمجھ گیا تھا۔ میں نے اٹھتے ہی سب دیکھ بھال لیا تھا۔
اپنے گھٹیا پن پر اسے شرم آ گئی، مگر وہ دوسرے ہی لمحہ اس خیال نے اس پر تسلط جما لیا کہ وہ نوجوان کیوں چلا گیا اس نے سوچا رات اسے میرا طعنہ برا لگا وہ بڑا حساس تھا۔ اوپر اوپر سے ہنستا بولتا رہا صبح ہوتے ہی چل دیا۔
منہ ہاتھ دھو کر نیچے پھوپھی کے پاس جانے کو تھی کہ اچانک کسی کے جلد جلد سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آئی نوجوان گیا نہیں تھا۔ وہ رومال میںکچھ باندھے لئے آ رہا تھا۔
” معاف کرنا” اس نے اپنے پھولے ہوئے سانس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ میں تمہیں بتائے بغیر ہی چلا گیا۔ میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ یہ لو۔ یہ کہہ کر اس نے رومال نسرین کے ہاتھ میں دیدیا۔
کیا ہے؟ نسرین نے پوچھا۔
گوشت ترکاری، یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگا جیسے اس نے کوئی شرارت کی ہو۔
گوشت ترکاری؟ کس نے کہا تھا لانے کو؟
” خفا کیوں ہوتی ہو، بات یوں ہے جب نجمی زندہ تھی میں یونہی منہ اندھیرے اسے جگائے بغیر گھر سے نکل جاتا ہوا خوری کی ہوا خوری ہو جاتی اور گھر کا سودا بھی لے آتا ہمیں نوکر رکھنے کی توفیق نہیں تھی۔ بس یونہی مل بانٹ کے کام کیا کرتے وہ گھر کا اور میں باہر کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو گوشت کیا عمدہ اور تازہ ہے آدھا دست کا اور آدھا پشت کا۔ اور گردا رونگے میں۔ نوکر کا باپ بھی ایسا گوشت نہیں لا سکتا اور پھر ذرا کچنال تو دیکھو، آج ہی شہر میں آئی ہے۔ پھر پیاز بھی ہے، ہری مرچیں بھی اور ادرک بھی اور دھنیا بھی۔”
نوجوان داڑھی بھی منڈاتا آیا تھا۔ تھوڑا سا صابن اسکے کانوں کی لوؤں پر ابھی تک لگا رہ گیا تھا۔ نسرین کا جی چاہا کہ دوپٹہ کے دامن سے صابن کو پونجھ دے مگر وہ ایسا نہ کر سکی۔
آپ نے ناحق تکلیف کی۔ نسرین نے کہا۔ ” خیر اب لے آئے تو میں ثمن کو بلواتی ہوں۔
یہ کیوں؟
میں کھانا خود پکاؤں گا۔ جب نجمی زندہ تھی تو کبھی کبھی میں ہنڈیا پکایا کرتا وہ سامنے مونڈھے پر بیٹھی مجھے بتاتی رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” ہمارا ثمن بہت ہوشیار ہے۔ ” نسرین نے کہا۔ ایسا کھانا پکاتا ہے کہ زبان چٹخارے لیتی رہ جاتی ہے۔
نہیں صاحب، نوجوان نے قطعی فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔نجمی کچنال ایک خاص ترکیب سے پکایا کرتی تھی وہ ترکیب تو وہ جانتی تھی یا میں جانتا ہوں۔ مہربانی کر کے آپ انگیٹھی ، کوئلے اور چاقو منگوا دیجیے۔
نسرین نے اس سلسلہ میں کچھ اور کہنا مناسب نہ سمجھا اور خاموش سیڑھیوں سے اتر گئی۔
آؤ بیٹا، نسرین کی پھوپھی نے اسے دیکھ کر اگلدان میں پیک تھوکتے ہوئے کہا۔ میں ابھی ابھی ثمن سے کہہ رہی تھی کہ تمہارا اور اسکا ناشتہ اوپر لے جائے۔
میں ناشتہ نہیں کرونگی، اس کیلئے اوپر بھیج دو۔
تم چپ چپ کیوں ہو؟
نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکل سے تو بڑا گم زبان معلوم ہوتا ہے۔
نسرین نے کچھ جواب نہ دیا۔
کیا کر رہا ہے اسوقت؟ پھوپھی نے پوچھا۔
ہنڈیا کا سودا خرید کر لایا ہے خود ہی پکانے بیٹھا ہے۔ نسرین کی پھوپھی کھکھلا کر ہنس پڑی۔
سچ۔
ہاں، ہاں۔
بڑا ہی سیدھا سادہ ہے۔
خبطی ہے پورا، رات پھر اپنی مری ہوئی بیوی کی باتیںکر کے دماغ چاٹ گیا۔ ثمن کو اسکے پاس بھیج دینا ہاتھ بٹاتا رہیگا۔ میں ذرا نوبہار کے ہاں جاتی ہوں۔
نسرین کا خیال تھا کہ وہ کم سے کم ایک گھنٹہ نوبہار کے ہاں ضرور ٹھہرے گی مگر پاؤ گھنٹہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ اٹھ آئی۔ سیدھی اوپر کی منزل میں پہنچی دیکھا کہ کمرے کے باہر دالان میں انگیٹھی دہک رہی ہے اور نوجوان اسکے پاس ہی ایک چھوٹی سی دری پر آلتی پالتی مارے بیٹھا پیاز کتر رہا ہے۔ آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔ پانی بہہ رہا ہے اس سے ذرا ہٹ کے ثمن بیٹھا بڑے مزے سے یہ تماشہ دیکھ رہا ہے۔

” ثمن ” نسرین نے کسی قدر سختی سے کہا” تم بیٹھے منہ کیا تک رہے ہو۔ صاحب سے پیاز لے کر کیوں نہیں کترتے؟

میں تو کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں۔ ثمن نے منہ بنا کر کہا۔ پر صاحب مانتے ہی نہیں۔ مجھ سے آگ جلانے کو کہا میں نے آگ جلا دی۔
اچھا تم نیچے جاؤ۔
جب ثمن چلا گیا، تو نسرین نے کہا:
حضرت یہ اس عمر میں ہنڈیا پکانے کی کیا سوجھی ہے۔ لائیے پیاز مجھے دے دیجیے اور جا کر آنکھوں پر چھینٹے دیجیے اور اس نے ہاتھ بڑھا کر نوجوان کی گود سے پیاز کی رکابی خود ہی اٹھا لی، نوجوان نے مزاحمت نہ کی، دو گھنٹے کیبعد جب وہ دونوں دسترخوان پر کھانا کھانے بیٹھے تو نوجوان نے کہا۔
” معاف کرنا میری وجہ سے تم کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی، بات یہ ہے کہ نجمی۔۔۔۔۔۔۔
” واہ کیا مزے کا کھانا پکایا ہے۔؟ نوجوان نے پہلا نوانہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔ نجمی کے ہاتھ کا مزہ یاد آ گیا۔
چلئے زیادہ بنائیے نہیں۔ چپاتیاں تو دیکھیے کیسی ٹیڑھی بینگی ہیں۔
چپاتیاں نجمی کو بھی پکانی نہیں آتی تھیں اور میں زیادہ تر تنور ہی سے روٹیاں لگوا کر لایا کرتا تھا۔
مجھے تنور کی روٹی زہر لگتی ہے۔
کبھی کبھی ہم کوئی سستا سا خانساماں بھی رکھ لیا کرتے، مگر وہ پندرہ بیس روز سے زیادہ نہ ٹکتا۔ چپکے چپکے کسی اچھے گھر کی ٹوہ میں رہتا اور پھر کھسک جاتا۔
کھانے سے فارغ ہو کر دونوں کمرے میں فرش پر آ بیٹھے۔
”آپ نے کہا تھا”نسرین نے کہا۔ آجکل آپ کسی دوست کے ہاں رہتے ہیں۔
ہاں نجمی کے مرنے کیبعد میں نے امی جان اور زہری کو تو گاؤں بھیج دیا تھا اور خود ایک دوست کے ہاں اٹھ آیا تھا۔ یہ دوست بھی میری طرح اکیلا ہی ہے۔ ہم دونوں مکان کے کرائے، کھانے پینے کے خرچ اور نوکر کی نتخواہ میں ساجھی ہیں۔
اور آدھی تنخواہ آپ امی جان کو بھیج دیتے ہیں؟
ہاں مگر وہ ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے کچھ نہ کچھ لوٹاتی رہتی ہیں۔ کبھی گرم پتلون سلوانے کیلئے کبھی نیا بوٹ خریدنے کیلئے۔
نسرین نے محسوس کیا کہ اسکی ماں اسے بہت چاہتی ہو گی۔
اپنی ہمشیرہ کی کیا عمر بتائی تھی آپ نے؟
دس برس، بڑی پیاری بچی ہے۔
اسکولجاتی ہے؟
نہیں گھر پر مولوی صاحب سے پڑھتی ہے، سینا پرونا اسے دادی سکھاتی ہے۔ اس نے ایک بکری پالی ہے۔ دودھ سے سفید ایک بھی کالا بال نہیں۔ زہرہ اسکی بڑی دیکھ بھال کرتی ہے۔ کھیت سے یونٹ توڑ لاتی ہے اپنے ہاتھ سے کھلاتی ہے۔ ہمارے گاؤں کے پاس ہی چھوٹی سی ندی بہتی ہے۔ وہ اسے وہاں پانی پلانے لے جاتی ہے۔ ایک دن کیا ہوا کہ وہ بکری پانی پی رہی تھی کہ ایک بڑا سا کتا آیا وہ جو زور زور سے بھونکا تو بکری ڈر کر ندی میں گر پڑی۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ وہ اسکے ساتھ بہہ چلی۔ اس پر زہرہ نے چیخ چیخ کر برا حال کر لیا۔ اتفاق سے ایک کسان ادھر سے گزرا، شور سن کر دوڑا ہوا آیا۔ بڑی مشکل سے بکری کو نکالا تب زہرہ کی جان میں جان آئی۔
نسرین یہ سادہ سا بے رنگ واقعہ بڑی دلچسپی سے سنتی رہی۔
اب نوجوان پر کچھ کچھ غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ وہ گاؤ تکیے کے سہارے لیٹ گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی آنکھیں بند ہوگئیں اور وہ سو گیا۔
نسرین اٹھی، الماری کے خانے سے سفید ململ کا دوپٹہ اور گوٹا اٹھا لائی اور نوجوان کے قریب ہی فرش پر بیٹھ کر دوپٹہ میں گوٹا ٹانکنے لگی، مگر تھوڑی ہی دیر میں اسکا جی اکتا گیا اور وہ بھی پلنگ پر جا کر لیٹ گئی۔
تیسرے پہر ایک رکشہ منگوایا گیا اور وہ دونوں بازار جانے کی تیاری کرنے لگے۔ نوجوان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اسے کوئی تحفہ خرید کر دینا چاہتا ہے۔ اس نے بغیر کسی شم و حجاب کے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ نسرین بیس روپے تک کی جو چیز چاہے خرید سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی اسے توفیق نہیں۔
” یہ سچ ہے ” اس نے کہا، کہ اتنے کم داموں کی کوئی چیز تمہارے لائق نہیں ہو سکتی مگر میرا جی چاہتا ہے کہ میری کوئی چیز خواہ وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو تمہارے پاس بطور یادگار رہے۔

اور وہ اس کیساتھ چلنے پر رضامند ہو گئی تھی۔ پھوپھی کی اجازت دینے میں تامل ہوا تھا مگر ایک تو نسرین خود جانے پر مصر تھی دوسرے نوجوان کے چہرے سے ایسی معصومیت برس رہی تھی کہ کسی برے ارادے کا گمان تک نہ ہوتا تھا اور وہ خاموش رہ گئی۔

اور اب نسرین نیلے رنگ کا برقعہ اوڑھے نوجوانکے پہلو میں رکشہ میں بیٹھی تھی۔ شہر کی کھلی سڑکوں پر ہزاروں، عورتوں، مردوں کے بہتے ہوئے ہجوم میں یہ جوڑا بھی تھا۔ اسے دیکھ کر کسی کو یہ سوچنے کی پرواہ نہ تھی کہ انکا رشتہ زن و شوہر کے سوا اور بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
وہ رکشہ سے اتر کر کئی بازاروں میں سے گزرے کئی دکانوں میں گئے۔ جب وہ سڑک پر چلتی تو وہ اسکے آگے پیچھے راستہ صاف کرتا اسے آنے جانیوالی گاڑیوں موٹروں اور ہجوم کی دھکابیل سے بچاتا یوں اپنی حفاظ میں لے جاتا گویا وہ کوئی بہت مقدس چیز ہے جس کا دامن تک کسی سے چھو جانا اسے گوارا نہیں۔ جب وہ کسی دکان میں داخل ہوتے تو اسکی فرمائش کی چیزیں دکاندار سے منگوا منگوا کر ایسی تکریم سے پیش کرتا کہ دیکھنے والے یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتے کہ یہ کوئی نیا جوڑا ہے اور یہ کہ شوہر بیوی سے کماش عشق رکھتا ہے۔
نسرین نے بڑی قیمت کی کوئی ایک چیز نہیں خریدی بلکہ روز مرہ کی چھ چھوٹی چھوٹی چیزیں خریں۔ جن میں بعض کی واقعی اسے ضرورت تھی، مثلاً ایک تو چمچا خریدا۔ ایک ریشمی ازار بند کچھ چھوٹی بڑی سوئیاں، دو تین مختلف رنگوں کے تاگے کچھ ریلیں، کچھ کروشیا کی سلائیاں، ایک فریم، دو تین مختلف غازے اور بس، ان سب چیزوں پر بیس روپے سے کچھ ہی خرچ ہوئے۔ ہر ایک چیز خریدنے کیبعد وہ بڑی ادا کیساتھ پوچھتی، باقی کیا بچا؟
واپسی پر نوجوان اسے ایک ریستوران میں لے گیا اور ٹھنڈی اور گرم کئی قسم کی چیزیں منگوائیں اور نسرین کو اپنی مرضی کیخلاف کئی چیزیں کھانی پڑیں۔
جس وقت وہ گھر پہنچے، اچھا خاصا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ نسرین کی پھوپھی بڑے اضطراب سے اسکی راہ دیکھ رہی تھی۔ جب وہ صحیح سلامت گھر پہنچ گئے تو اسکی جان میں جان آئی۔
ثمن سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے چنانچہ شام سے اوپر کی سیڑھیوں کا دروازہ بند کر دیا گیا۔
نسرین نے پچھلی رات کیطرح پھر کمرے کی ہلکی نیلی روشنی میں کنگھی کرنی شروع کی۔ نوجوان پھر اسکے پاس ہی چاندنی پر لیٹ گیا کچھ دیر دونوں خاموش رہے پھر نوجوان نے کہا۔
” نسرین میں نے تمہیں نجمی کی بہت سے باتیں بتائیں مگر ایک بات نہیں بتائی۔” نوجوان نے یہ بات ایسے گھمبیر لہجے میں کہی تھی کہ نسرین بے ساختہ کہہ اٹھی۔
وہ کیا؟
نوجوان کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا۔
وہ یہ کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باوفا نہیں تھی؟
کیا مطلب؟ نسرین نے اور بھی معتجب ہو کر پوچھا۔
مطلب یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ کسی اور کو چاہتی تھی۔
جھوٹ ہے۔
نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں۔
مجھے ثبوت مل گیا تھا۔
وہ کیا؟
نوجوان لمحہ بھر کیلئے خاموش رہا۔ پھر بولا۔
اسکے خط۔ میں نے غلطی سے اسکے نام کا ایک خط کھول لیا تھا۔

یہ کہتے کہتے نوجوان ایک سخت افسردہ ہو گیا اور اس نے گردن جھکا لی۔

اور تم پھر بھی اسے چاہتے رہے؟
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ بھرائی ہوئی آواز میں نوجوان کے منہ سے نکلا۔ اسکے سوا چارہ ہی نہ تھا۔
کئی لمحے خاموشی رہی جسے توڑنے کی کسی میں خواہش پیدا نہ ہوئی۔
کیا وہ جانتی تھی کہ تم اسکے اس راز سے واقف ہو؟ بالآخر نسرین نے پوچھا۔
نہیں، میں نے آخری دم تک اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا۔ اسکی موت سے چند منٹ پہلے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ سخت نزع میں ہے اور مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے مگر میں اس سے آنکھ نہ ملاتا تھا۔ البتہ دلداری اور تشفی کے کلمے برابر میرے منہ سے نکلتے رہے۔ یہاں تک کہ اس نے آخری ہچکی لی اور رخصت ہو گئی۔
کچھ لمحے پھر خاموشی رہی جس کو خود ہی نوجوان نے توڑا۔
آخر اس پر یہ ظاہر کرنے کا فائدہ بھی کیا تھا۔
اس رات پچھلی شب کی بہ نسبت جلد ہی روشنی گل کر دی گئی۔ نوجوان پھر جلد ہی سو گیا۔ نسرین برابر ستاروں کو جھلملاتے دیکھتی رہی۔
پچھلے پر اچانک نوجوان نے سوتے ہی سبکی لی اور پھر تیز تیز سانس لینے شروع کر دیے۔ نسرین نے سر اٹھا کر اسکے چہرے کیطرف دیکھا، کچھ دیر سوچتی رہی پھر جسطرح کوئی بچہ سوتے سوتے ڈر جائے تو ماں اسے چھاتی سے چمٹا لیتی ہے۔ نسرین نے بھی اسی طرح اس کا سر اپنے بازو میں لے کر اسے اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔

تحریر: غلام عباس

=== انجام ===


مشال نے جیسے ہی کالج میں قدم رکھا تو اسے گھبراہٹ سی ہونے لگی

گھبراہٹ کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کالج پہلی بار جا رہی تھی مشال گریجوایشن کی طلبہ تھی اور یہ اسکا گریجوایشن میں یہ دوسرا سال تھا
مشال کے ابو کا پشاور سے اسلام آباد ٹرانسفر ہو گیا تھا تو مشال کو بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی یہاں آنا پڑا تو ظاہری سی بات ہے نیا کالج نئے لوگ پتا نہیں کیسا ہو گا سب کچھ
گھبرائے دل کے ساتھ مشال اپنی کتابیں اپنی چھاتی سے لگائے کالج میں داخل ہو گئی مشال نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ کلاس کے بارے میں وہ کسی سے پوچھ کر انسلٹ کروانے کی بجائے کالج انتظامیہ سے مدد لے لیگی
جلد ہی مشال کو اپنی کلاس مل گئی
مشال دھڑکتے دل کے ساتھ کلاس میں داخل ہوئی کلاس میں پچیس تیس کے قریب لڑکے لڑکیاں تھے جو سب اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ رہے تھے
مشال جانتی تھی کہ دو چار دن تو یہ برداشت کرنا ہی پڑیگا
کلاس سٹارٹ ہو گئی مگر میشال کو آج لیکچر کی سمجھ نہیں آ رہی تھی مموں پے لگی وہ کسی انجان کی کہنی اور بنڈ پر وہ رینگتا ہاتھ رہ رہ کر یاد آ رہا تھا بہت عجیب محسوس کر رہی تھی آج مشال
اکنامکس کی ٹیچر چلی گئی تو کلاس میں میتھ کی ٹیچر آ گئی مدیحہ نے میشال سے پوچھا خیر تو ہے آج پریشان لگ رہی ہو
میشال ہڑبڑا کر بولی کک کچھ نہیں وہ تھوڑا سر میں درد ہے
میں کینٹین سے ڈیسپرین لے کر آتی ہوں مدیحہ بولی اور اٹھ کر کھڑی ہونے لگی تو میشال نے ہاتھ سے پکڑ کر مدیحہ کو نیچے بیٹھا دیا
میتھ کی ٹیچر لیکچر کے بعد باہر چلی گئی تو پیچھے بیٹھی انم اور صدف آگے کو ہوئیں اور مدیحہ سے پوچھا نیچے کچھ چبھا تھا جو اٹھی تھی
مدیحہ نہیں یہ میشال کے سر میں درد ہے تو اس کے لئیے ڈیسپرین لانے کے لئیے اٹھی تھی صدف اٹھو یار چائے پی کر آتے ہیں تینوں کھڑی ہو گئیں تم بھی چلو یار یہاں اکیلی بیٹھ کر مکھیاں مارنی ہیں انم نے میشال کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
آپ جاؤ میرے سر میں درد ہے مجھے نہیں جانا اٹھو چائے پی کر ٹھیک ہو جائیگا تیرا درد انم بولی اور تینوں ہنس دیں میشال اٹھ کر انکے ساتھ کینٹین میں آ گئی
ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے صدف نے زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا میشال اک دم چونکی تینوں اک ساتھ ہاہاہا ہنسیں.
میشال نے باقی ٹیبلوں پر نظر ڈالی تو سب لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنی طرف متوجہ پایا
کینٹین والا انکل جلدی سے ٹیبل پر آ گیا جی صدف بی بی کیا لاؤں صدف چائے لے آؤ صدف کا لحجہ ایسا تھا جیسے وہ اس کالج کی ڈون ہو
انکل آرڈر لے کر چلا گیا اور دو مینٹ میں چائے لے آیا اک گولی ڈیسپرین بھی لا دیں انکل مدیحہ بولی مشال نہیں بس چائے سے ٹھیک ہو جائیگا صدف نے چائے کا سیپ لیتے ہوئے مشال کی طرف دیکھا اور چائے کا گھونٹ پی کر بولی درد ہے بھی یا ہمیں گولی دے رہی ہو
نننہیں اب ٹھیک ہے مشال بولی صدف کا پوچھنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ مشال ہکلانے لگی
چائے پی کر سب اٹھ گئیں اور بیڈمینٹن کے گراؤنڈ کی طرف چل دیں وہاں کچھ دیر گیم کر کے چاروں کلاس میں آ کر بیٹھ گئیں
کلاس ختم ہوئی تو سب کالج سے نکل آئیں مشال کو پھر بس پر گھر جانا تھا جسکی وجہ سے وہ پھر گھبرا رہی تھی
اتنی سہمی کیوں ہو پہلے کبھی بس میں سفر نہیں کیا مدیحہ نے میشال کی حالت دیکھ کر سوال کیا
صبح گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی تو صبح بھی بس میں آئی تھی
یار بس کے مزے بس میں ہی ہیں انم جوش سے بولی ہاں جب وقت آتا ہے تو ایسے ڈرتی ہو جیسے مر جاؤ گی صدف بولی یار ڈر کی بات نہیں میں نہیں چاہتی کہ کسی کی امانت میں خیانت کروں تو جو صبح کر رہی تھی وہ خیانت نہیں تھی مدیحہ بولی
مشال ان کے پاس کھڑی انکی باتیں سن رہی تھی اور صبح والے واقع کو لے کر اسے کچھ کچھ سمجھ آ رہی تھی کہ وہ کس موضوع پر بات کر رہی ہیں
اتنے میں بس آ گئی میشال نے ان سب کو بائے کیا اور گاڑی میں سوار ہونے کے لئے آگے بڑھی اور جلد ہی بس میں سوار ہو گئی اب سوار ہوتے ہوتے ہوئے میشال کو کسی نے ٹچ نہیں کیا
مشال ایک سیٹ کے ساتھ اپنی نرم و نازک بنڈ لگا کر کھڑی بس میں کافی رش تھا مشال کے سامنے اک آدمی آ کر کھڑا ہو گیا جس کی عمر لگ بھگ پینتیس سے چالیس سال ہوگی اچھی پرسنیلٹی تھی اور اس آدمی نے بلیک کلر کا ٹو پیس پہنا ہوا تھا.
بس جھٹکے سے چلی اور وہ آدمی مشال کے ساتھ جا لگا
گانڈ پہلے ہی سیٹ کے ساتھ لگی تھی جسکی وجہ سے مشال کا پیچھے ہونا نا ممکن تھا اس آدمی نے دونوں ہاتھوں سے بس کے اپر لگے ہینڈل کو پکڑا ہوا تھا مشال تنے ہوئے بتیس کے ممے اس آدمی کی چھاتی میں دب گئے تھے میشال پیچھے ہونا چاہ رہی تھی مگر یہ ممکن نہیں تھا
کچھ دیر بعد مشال کو اس آدمی کی زیپ والی جگہ پھولتی محسوس ہوئی اسکی زیپ والی جگہ میشال کی ناف سے نیچے پھدی سے تھوڑی اپر محسوس ہو رہی تھی
مشال کی سانسیں تیز ہونے لگیں جس سے اس کے تنے ہوئے ممے اپر نیچے ہونے لگے
مشال کو گھٹن سی ہونے لگی تھی پر اسے اندر ہی اندر کچھ اچھا بھی لگ رہا تھا
اس آدمی نے اپنا بایاں ہاتھ نیچے کیا اور اپنی زیپ والی جگہ پر لے گیا جب ہاتھ مشال کے پیٹ پر ٹچ ہوا تو مشال کے جسم میں ایک مزے کی لحر دوڑ گئی
اس آدمی نے زیپ والی جگہ پر کچھ کیا اور دوبارا ہاتھ اپر لے گیا مشال کی ناف کے نیچے کوئی سخت چیز چبھ رہی تھی جو اسے اچھی بھی لگ رہی تھی
اسکے دل میں خواہش پیدا ہونے لگی اس چیز کو چھونے کی جو اس کو چبھ کر اک الگ سا ہی لطف دے رہی تھی
وہ آدمی مزید اپنا نیچلا دھڑ مشال کی طرف دھکیل رہا تھا جیسے وہ مشال کے پیٹ میں وہ چیز اتارنا چاہ رہا ہو
مشال اپنا دایاں ہاتھ نیچے لے گئی جیسے ہی مشال کے ہاتھ کی انگلیاں اس آدمی کے گرم اور تنے ہوئی لن سے ٹچ ہوئیں مشال نے اک دم ہاتھ پیچھے کھینچ لیا
اتنے میں مشال کا سٹاپ آ گیا
پیچھے ہٹیں میرا سٹاپ آ گیا ہے مشال نے نظریں جھکائے اس آدمی سے کہا
مشال کے اتنا بولنے کی دیر تھی کہ وہ آدمی ہڑبڑا گیا اور جلدی سے ہاتھ نیچے لے جا کر ایسے کرنے لگا جیسے پینٹ میں کچھ چھپا رہا ھو
اتنے میں بس رکی اور مشال نے اک نظر اس آدمی پے ڈالی اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور ہونٹ کچھ کہنے کے لئیے کھلنے ہی لگے تھے کہ میشال چل دی..
بس سے اتر کر میشال بھاری قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی بڑی مشکل سے گھر پہنچی کتابیں رکھ کر سیدی واش روم گھس گئی بس میں جو ہوا تھا اسکی وجہ سے مشال کی پھدی گیلی ہو گئی مگر اس کے اندر لگی انجانی سی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی
چینج کر کے میشال کچن میں چلی گئی اور کھانا بنانے کچھ دیر بعد میشال کے ابو بھی آ گئے باپ بیٹی نے ملکر کھانا کھایا اور حیدر صاحب واپس آفس کے لئیے روانہ ہو میشال کچن میں برتن رکھ کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی آج جو دو سیکسی حادثے اس کے ساتھ ہوئے تھے وہ اس کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنے لگے
مشال کو پتہ ہی نا چلا کہ کب اسکا ہاتھ اسکی شلوار میں گھس کر اسکا پھدی کے دانے کو مسلنے لگا مشال کے زیہن میں اس وقت اس اجنبی آدمی کی پھولی ہوئی زیپ والی جگہ اور اسکا نیچے ہاتھ لے جا کر اس سخت اور گرم چیز کا باہر نکال کر اس کے جسم پر دبانا اسکا ہاتھ نیچے لے جا کر اس گرم سخت چیز کو چھونا سب گھوم رہا تھا جیسے جیسے وہ سوچ رہی تھی اسکی پھدی پر ہاتھ کی سپیڈ بھی ویسے ویسے تیز ہو رہی تھی
اچانک باہر کار کے ہارن سے مشال خیالی سیکس سے باہر آئی اور اسے پتا چلا کہ اسکا بایاں ہاتھ اس کی پھدی کو بغیر اجازت چھیڑ رہا تھا
مشال جلدی سے اٹھ کر باہر آئی گیٹ کھولا اور اس کے ابو گاڑی اندر لے آئے گاڑی کھڑی کر کے حیدر صاحب گاڑی سے باہر نکل آئے
آپ آج جلدی آ گئے ہیں پاپا خیر تو ہے گاڑی ورکشاپ میں تھی تو دفتر سے چھٹی لے کر گاڑی لے کے آ گیا
باپ بیٹی اندر چلے گئے مشال چائے بنانے کچن کی طرف چل دی اور حیدر صاحب ٹی وی دیکھنے لگے.
اک طرف بیٹھی تین لڑکیوں کی طرف مشال چل دی اور ان کے ساتھ بیٹھ گئی اتنے میں کلاس میں ٹیچر آ گئی
ٹیچر نے آتے ہی پوچھا کلاس میں کون نعی لڑکی آئی ہے
مشال کھڑی ہو گی ھیلو مس آئی ایم مشال ٹیچر نائیس نیم مس میں آپکی اکنامکس کی ٹیچر روبینہ ھوں اور مشال کو بیٹھنے کا کہہ کر مس روبینہ پڑھانے لگ گئیں
مشال کے ساتھ بیٹھی تین لڑکیوں میں سے اک لڑکی مشال کے کان کے پاس منہ لا کر بولی بہت کان کھاتی ہے یہ مس روبینہ
مشال کو یہ سن کر عجیب لگا اس نے اک نظر اس لڑکی کی طرف دیکھا لڑکی نے ہاتھ بڑھایا آئی ایم مدیحہ پیار سی مجھے سب لاڈو بلاتے ہیں مشال نے اس سے ہاتھ ملایا اور سرگوشی سی آواز میں بو لی آئی ایم مشال
پھر مشال لیکچر کی طرف دھیان دینے لگی اور وہ تینوں آپس میں باتیں کرنے لگ گئیں
کلاس کے بعد مشال گھر جانے کے لئیے کالج گے گیٹ پر کھڑی اپنے پاپا کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ تینوں لڑکیاں بھی آ گئیں انکا روخ مشال کی طرف ہی تھا آتے ہی سب نے باری باری مشال سے ہاتھ ملایا
ہیلو مشال آئی ایم انم اینڈ آئی ایم صدف مشال نے ہلکی سی مسکراہٹ سے انہیں بھی ہیلو بولا اور اپنا تعارف کروایا پھر سب خاموش ہو گئی مشال نے محسوس کیا کہ مدیحہ اسکی طرف کچھ زیادہ ہی دیکھ رہی ہے جس سے مشال کو الجھن سی ہونے لگی.
اتنے میں مشال کے ابو آ گئے اور مشال ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف چل دی
سارے رستے مشال چپ رہی گھر پہنچ کر مشال کے ابو حیدر صاحب نے مشال سے پوچھا کیسا رہا کالج کا پہلا دن تو مشال نے منہ سا بنا کر کہا بس ٹھیک رہا
مشال کے ابو سمجھ گئے بیٹا پہلا دن تھا نیا کالج ہے شاید اس لئیے تمہیں آج مزہ نہیں آیا آہستا آہستا سب ٹھیک ہو جائیگا مشال کے ابو نے کہا
مشال نے جلدی سے کھانا گرم کر کے ٹیبل پر لگا دیا اور کھانا کھانے لگے
بیٹا تم اس وقت صرف دو سال کی تھی جب تمہاری ماں کا انتقال ہوا تھا آخری دنوں میں تمہاری ماں بس مجھے یہی کہتی رہی مشال کا خیال رکھنا اور آج بھی میرے کانوں میں تمہاری ماں کے وہ کہے الفاظ گونجتے ہیں
مشال ابو میں سب جانتی ہوں میری وجہ سے آپ نے شادی بھی نہیں کی سوتیلی ماں مجھے پیار نہیں دے گی اس ڈر کی وجہ سے
حیدر صاحب اٹھے اور دوبارہ آفس چلے گئے مشال نے برتن اٹھائے اور کچن میں رکھ کر سو گئی
شام کو مشال کے ابو نے ہی آ کر اسے جگایا اور باپ بیٹی رات نو بجے باہر کسی ہوٹل میں کھانا کھانے چلے گئے
گیارہ بجے واپس آئے اور اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے
صبح جلد ہی مشال اٹھ گئی اور ناشتہ کر کے باپ بیٹی نکلنے لگے تو گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی مشال کے ابو نے کافی کوشش کی مگر بات نا بنی گاڑی کا بونٹ رکھتے ہوئے احمد صاحب بولے بیٹا آج بس سے چلی جاؤ
مشال نے برا سا منہ بنا کر اپنے ابو کی طرف دیکھا مشال کے ابو نے کانوں کو پکڑ کر کہا سوری بے بی دوبارہ نہیں ہو گا مشال نے اپنے ابو کی چھاتی پے ماتھا رکھ دیا احمد صاحب نے اپی بیٹی کا کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کیا اور ماتھ پر بالوں سے چوم کر مشال کو رخصت کر دیا
مشال بس سٹاپ پر پہنچی تو وہاں کافی رش تھا مشال سٹاپ پر عورتوں والی سائیڈ پر جا کر کھڑی ہو گئی اور بس کا انتظار کرنے لگی مشال کا دھیان اس طرف تھا جدھر سے بس آنی تھی
مگر بس دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی مشال نے اپنے دائیں طرف کھڑے مردوں کی طرف سرسری سی نگاہ ڈالی تو مشال کو اپنے نازک سے چہرے اور چھاتی پر تنے ہوئے بتیس سائیز کے مموں پر لوگوں کو دیکھتے ہوئے پایا
مشال نے جلدی سے نظر گھما لی اور پھر سے جدھر سے گاڑی آنی تھی اس طرف دیکھنے لگی اسے انجانی سی لوگوں کی نظر اپنے مموں پر محسوس کر کے فیلنگس آ رہی تھی مشال جہاں بھی گئی تھی اپنے ابو کے ساتھ گاڑی میں گئی تھی شائید یہی وجہ تھی کہ اسے آج لوگوں کو اسطرح اپنے مموں پر متوجہ دیکھ کر کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا
سڑک پر دیکھتے ہوئے بس مشال کی نظر کے سامنے نمودار ہوئی بس آ کر سٹاپ پر رکی کچھ لوگ اترے مگر اس سے چار گنا زیادہ لوگ بس میں سوار ہونے کے لئے تیار تھے مشال کے مموں پر کسی کی کہنی لگی تو مشال نے جلدی سے اس طرف دیکھا اتنے میں پیچھے سے اسے اپنی نرم سی پھولی ہوئی بنڈ (گانڈ) پر کسی کا ہاتھ رینگتا محسوس ہوا اس سے پہلے کہ مشال پیچھے دیکھتی اس ہاتھ کی انگلی مشال کی بنڈ کی دراڑ میں آئی اور بنڈ کو موری پر آتے ہی انگلی اک دم سے آگے ہوئی اور جھٹکے سے مشال بس پر چڑھ ئی
آگے پیچھے اتنے لوگ ہونے کی وجہ سے مشال یہ حرکت کرنے والے کو دیکھ نا پائی
مشال بہت گھبرا گئی تھی کیونکہ ایسا آج تک اس کے ساتھ نہیں ہوا تھا مشال سہمی سی کھڑی تھی اتنے میں بس چل پڑی تیس مینٹ کے سفر کے بعد مشال اپنے کالج کے سٹاپ پر اتری اور گھبرائی سی کلاس میں انہی تین لڑکیوں کے پاس جا بیٹھی
پانچ مینٹ میں ہی میشال چائے لے کر آ گئی اور باپ بیٹی چائے پینے لگے
ابو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں کل کھانا کھا کر ہی آ گئے تھے مشال نے چائے کا سیپ لیتے ہوئے کہا
شام کو چلیں گے بیٹا ابھی میں کچھ دیر آرام کر لوں حیدر صاحب نے جواب دیا
پھر مشال کے نئے کالج اور حیدر صاحب کے نئے آفس کے بارے میں کچھ باتیں ہوئیں چائے ختم ہو گئی مشال برتن لے کر کچن میں چلی گئی حیدر صاحب اپنے کمرے میں چلے گے اور مشال بھی کچن سے فارغ ہو کر اپنے روم میں کتابیں لے کر بیٹھ گئی
نصاب تھوڑا پیچھے تھا اس لئیے مشال کو تھوڑی سخت محنت کرنا تھی
شام کو باپ بیٹی گھر لاک کر کے ایف ٹین پارک آ گئے گاڑی ایک طرف پارک کر کے باپ بیٹی پارک کے اندر چلے گئے
پارک میں فٹ پاتھ کے دونوں طرف لائیٹیں لگی ہوئی تھیں باپ بیٹی فٹ پاتھ پر چلنے لگے کچھ آگے جا کر ایک جگہ ایک لائیٹ بند تھی
جب وہ دونوں وہاں سے گزرے تو مشال کو فٹ پاتھ کے دائیں طرف کھسر پھسر سنائی دی مشال نے غور کیا تو اسے ایک جھٹکا سا لگا اور جسم میں ایک لہر سی اٹھی جس سے اسکی پھدی نے منہ کھول کر بند کیا لٹرکی ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹی تھی اور اسکا پتہ نہیں شوھر تھا یا عاشق وہ اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا لڑکی اس پر جھکی ہوئی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مگن تھے
اک دم مشال کو اپنے باپ کے ساتھ ہونے کا احساس ہوا اور وہ چپ چاپ آگے چل دی حیدر صاحب کو شاید کچھ نظر نہیں آیا تھا جو وہ مشال سے نارمل باتیں کرتے ہوئے ہی چل رہے تھے پھر اک دم مشال کو یاد آیا کہ اس کے ابو کی نظر کافی کمزور ہے انکو سچ میں پتہ نہیں چلا کیونکہ کافی اندھیرا بھی تھا
تھوڑا آگے جا کر اک ٹک شاپ آ گئی وہاں سے باپ بیٹی نے چیپس لئیے اور فٹ پاتھ کے ساتھ سیمنٹ کے بنے ہوئے اک بنچ پر بیٹھ کر کھانے لگے
جہاں وہ بیٹھے تھے کافی اندھیرا تھا باپ بیٹی چیپس کھا رہے تھے کہ اک جوڑا سرگوشی میں باتیں کرتا ان کے پاس سے گزرا اور دیوار کے ساتھ لگے درختوں میں کہیں غائیب ہو گیا
مشال کے دل میں ان کو دیکھنے کی خواہش جاگنے لگی کہ وہ کرتے کیا ہیں مگر حیدر صاحب کہ ساتھ ہونے کی وجہ سے اسکا وہاں سے جانا نا ممکن تھا
باپ بیٹی وہاں آدھا گھنٹہ بیٹھے رہے مشال لگاتار ان درختوں کی طرف دیکھ رہی تھی کہ شاید کچھ نظر آ جائے مگر اندھیرے کی وجہ سے اس کچھ نظر نہیں آ رہا تھا مشال کے جسم میں حلچل سی مچی تھی اور یہی سوچی جا رہی تھی کہ وہ کیا کر رہے ہونگے
مشال کافی حیران تھی اسلام آباد کا ماحول دیکھ کر کیونکہ اس سے پہلے اس نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا اور یہاں آ کر تو اس نے لن کو جسم کے ساتھ محسوس بھی کر لیا تھا
چلو مشال بھوک لگی ہے کہیں کھانا کھاتے ہیں مشال سیکسی سوچوں میں کھوئی ہوئی جججی ابو چلیں
باپ بیٹی اٹھ کر چل پڑے مگر مشال پلٹ پلٹ کر پیچھے دیکھ رہی تھی پر جلد ہی دونوں گاڑی میں تھے اور اک ہوٹل سے کھانا کھا کر گھر آ گئے
مشال سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ لاک کر کے چینج کرنے لگی
پہلے قمیض اتارا پھر شلوار اب مشال صرف وائیٹ برا اور وائیٹ پینٹی میں تھی اچانک مشال کی نظر اپنے ڈریسنگ پر گئی اور وہ چلتی ہوئی شیشے کے سامنے پہنچ گئی اور اپنے جسم کو گھوم گھوم کر آگے پیچھے سے دیکھنے لگی مشال کو اپنے ہی جسم کو ننگا دیکھنے کا مزہ آ رہا تھا
پھر مشال نے برا کا لاک پیچھے ہاتھ لے جا کر کھولا اور برا کو بازؤں سے نکال کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا
اب مشال کے ہاتھ اس کے دودھ سے سفید مموں پر تھے جن سے وہ اپنے مموں کو مسل رہی تھی اور چٹکی میں اپنے پینک کلر کے نیپلوں کو مسل رہی تھی
مشال کی پھدی میں خارش سی ہونے لگی اور مشال کے کا دایاں ہاتھ بے اختیار ہی پھدی تک پہنچ گیا اور پھدی سے کھیلنے لگا
کچھ دیر بعد مشال کی پینٹی بھی برا کے ساتھ پڑی تھی اور مشال کے دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی پھدی کے دانے کو مسل کر مشال پر انجانی سی خماری طاری کر رہی تھی مشال اپنے بیڈ کی طرف بڑھی اور لیٹ کر پھدی کے دانے کو مسلنے لگی پھدی سی پانی رس رہا تھا جسے وہ انگلی کے ساتھ لگا کر دانے پر مسل رہی تھی اسے بہت مزہ آ رہا تھا اور بیچینی (آگ) بڑھتی جا رہی تھی
دایاں ہاتھ پھدی پر اور بایاں ہاتھ مموں کو دبا رہے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشال کی سانسیں بھی تیز ہو رہی تھیں پھر بس کے واقع کو سوچ کر یہ سب کرنے کا مشال کو اور مزہ آنے لگا
جسم اکڑنے لگا اور مشال کے ہاتھ کی سپیڈ بھی دگنی ہو گی اور مموں کو دبانے کی بجائے اب مشال تقریبا انہیں نوچ رہی تھی آہ.....
سسسسسسی آہ
منہ سے خارج ہوا اور مشال کو جھٹکنے لگنے لگے پھدی پر چلنے والے ہاتھ کی انگلیاں مشال کی پھدی سے نکلنے والے گرم پانی سے بھیگنے لگیں
ہر لگنے والا جھٹکا مشال کو اور ہی دنیا میں لے جا رہا تھا چند سیکنڈ میں ہی مشال ٹھنڈی ہو گئی مشال کی آنکھیں بند تھیں اور چند سیکنڈ پہلے کے اس مزے اور اس کے بعد آئے اس سکون کو محسوس کر کے مشال کو نیند آنے لگی اور جلد ہی وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی
ٹیبل پر پڑے کلاک نے شور مچا مچا کر مشال کو جگا دیا
مشال اٹھ کر بیٹھ گئی اور ہاتھوں کے مکے بنا کر آنکھیں مسلنے لگی
اور رات جو کچھ اس نے کیا تھا سب اس کے دماغ میں کسی مووی کی طرح چلنے لگا
مشال کے چہرے پر ہلکی سی مسکان آ گئی وہ اٹھ کر دوبارہ شیشے کے سامنے آ گئی اور اپنا بے داغ دودھ سا سفید جسم شیشے میں دیکھ کر خوش ہونے لگی 32 کے گول گورے ممے جن پر پینک کلر کے نیپل تھے نیچے گورا اور بلکل جسم سے چپکا ہوا پیٹ، گہرا بیلی بٹن ناف سے تھوڑا نیچے جا کر اک چھوٹی سی پھدی مشال نے ٹانگیں پھیلا لیں اور اپنی پھدی کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی مگر شیشے میں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا مشال آگے کو جھکی تو پھدی کے آپس میں چپکے ہوئے ہونٹ دیکھنے لگی دائیں ہاتھ کی انگلی پھدی کے کے ہونٹوں میں پھیری تو مشال کہ منہ سے سسسسسی نکل گئی
کچھ دیر پھدی کی دراڑ میں انگی پھیر کر مشال باتھ روم گھس گئی اور نہا کر ناشتہ بنا لیا باپ بیٹی نے ناشتہ کیا اور گھر لاک کر کے نکل پڑے
کالج کے گیٹ پر مشال کو اتار کر حیدر صاحب اپنے آفس کی طرف نکل گئے
کلاس میں داخل ہوئی تو سب سے اگلے بینچ پر بیٹھے اک ہینڈسم پر مشال کی نظر پڑی جو اکنامکس کی بک پر نظر جمائے بیٹھا تھا مشال چلتی ہوئی اپنی ان تین دوستوں کے پاس چلی گئی سب کو ہیلو کیا مدیحہ دیوار کی طرف ہو گئی اور مشال اس کےساتھ بیٹھ گئی
ساڑھے آٹھ ہو گئے مگر ٹیچر ابھی تک نہیں آئی تھی کالج کا ایک ملازم آیا اور یہ بتا کر چلا گیا کہ آپکی ٹیچر کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی آج چھٹی ہے کلاس نہیں ہو گئی
چلو اٹھو آج میں نے تم سب سے ایک راز کی بات کرنی ہے صدف نے کہا
انم اور مدیحہ اٹھ کر کھٹری ہو گئیں مشال نے ٹانگیں کلوز کر مدیحہ کو نکلنے کے لئیے جگہہ دی
تم بھی چلو یار چلو اٹھو مدیحہ نے مشال سے کہا
تم شاید بھول رہی ہو یہ صرف ہمارے ساتھ بیٹھتی ہے ہماری گروپ میمبر نہیں
اب یہ بھی ہماری فرینڈ ہے اسکو بھی ساتھ ملا لیتی ہیں صدف اگر یہ رازدار بن کر ہمارا ساتھ دے سکتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے کہو ہم سے دور ہی رہے
مشال کو اسکا یہ لحجہ اچھا نہیں لگا نہیں آپ جاؤ صدف کو شاید میرا آپ کے ساتھ رہنا اچھا نہیں لگتا
چل اٹھ صدف بولی مشال کھڑی ہو گئی صدف کلاس سے باہر آ گئی باقی تینوں اس کے پیچھے چلتی ہوئیں کالج کی بیلڈینگ کے پیچھے آ گئیں
صدف وہاں نیچے گھاس پر بیٹھ گئی اور وہ تینوں بھی صدف کے آس پاس بیٹھ گئیں
صدف نے اک لمبا سانس لیا اور بولی میں نے پوری پلاننگ کر لی ہے کل ہم چاروں گیارا بجے سائیں بابا کے پاس چلیں گیں لیکن ایک ساتھ نہیں باری باری کسی کو شک نا ہو کہ ہم ایک دوسری کو جانتی ہیں بارہ بجے سائیں بابا کھانا کھانے جاتے ہیں سب سے پہلے جائیگی مدیحہ اور بابا کے بالکل سامنے بیٹھ جائیگی پھر میں جاؤں گی اور مدیحہ کے پیچھے بیٹھ جاؤں گی پھر انم آئے اور میرے پیچھے بیٹھ جائے بارہ بجے جیسے ہی بابا جائے بارہ بج کر پانچ مینٹ پر مشال اندر آ جائے مدیحہ بابے کی وہ جادو والی کتاب اٹھائیگی اور مجھے پکڑائیگی پھر میں انم کو دونگی اور مشال تم آ کر پوچھنا بابا جی کدھر ہیں کافی لوگ ھونگے وہ کہہ دیں گے کھانا کھانے گئے ہیں باتیں کرتے کرتے بیٹھ جانا انم سے کتاب پکڑ کر دوپٹے میں چھپا لینا ٹھیک بارا بج کر پندرہ مینٹ پر اٹھنا اور کتاب لے کر اپنے گھر چلی جانا
یہ غلط ہے یار چوری کرنا گناہ ہے میں یہ سب نہیں کر سکونگی مشال پریشان ہو کر بولی
میں نے کہا تھا یہ بزدل ہے اس سے کچھ نہیں ہو گا چلو اٹھو اور دبارہ ہم میں سے کسی کے پاس سے بھی گزری تو تیرا وہ حال کرونگی کے دنیا یاد رکھیگی صدف غصے میں پھنکارتے ہوئے بولی
یییہ ککککیسی دددوستی ہے جس کا آغاز ہی چوری سے ہو مشال نے ڈرتے ہوئے کہا
تم ساتھ تو چل کر دیکھو ہمارے تمہیں دوستی کا پتہ چلے اور اس کتاب سے ہم اتنی طاقت وار ہو جائیں گیں کہ ہم جو چاہیں گیں وہ ہو گا
کچھ دیر بعد مشال بولی مجھے سوچنے کے لئیے وقت چاھئیے
ہمارے نمبر لے لو اور رات آٹھ بجے تک ہمیں کال کر کے بتا دینا
مدیحہ نے صدف کے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مشال نے نمبر لے لئیے اور اٹھ کر چلی گئی
تھوڑی دیر بعد باقی تینوں بھی کلاس میں آ گئیں اور ساتھ ہی بیٹھ گئیں
باقی کا سارا دن بس ایسے ہی گزرہ اور چھٹی کے بعد مشال اپنے ابو کے ساتھ گھر آ گئی دوپہر کا کھانا بنایا اور دونوں باپ بیٹی کھانے لگے
کیا بات ہے مشال آج سارے رستے بھی چپ رہی اور اب بھی خاموش ہو کیا ہوا کسی نے کچھ کہا حیدر صاحب نے کھانا کھاتے ہوئے پوچھا
نہیں ابو سر میں تھوڑا درد ہے کھانا کھا کر پین کلر لے لونگی ٹھیک ہو جائگا
کھانا کھا کر حیدر صاحب چلے گئے مشال نے برتن وغیر سنبھالے اور اپنے کمرے میں آ کر سوچنے لگی کہ کیا کرے اسے بار بار مدیحہ کی کہی وہ بات یاد آ رہی تھی کہ اس سے طاقتوار ہو جائیگی کافی سوچ بچار کے بعد مشال نے فیصلہ کر لییا کہ اگر غلط لگا تو انکو چھوڑ دیگی کالج کی پہلی دوستیں ہیں انکو نا ہی ناراض کیا جائے اور طاقت وار بھی ہو جائیگی
شام سات بجے مشال نے مدیحہ کو فون کر کے کہا کہ وہ تیار ہے مدیحہ نے خوش ہوتے ہوئے اسے کہا کہ ٹھیک ہے میں ان دونوں کو بھی بتاتی ہوں اور صبح کلاس میں بیٹھ کر باقی پلاننگ کرینگے بائے کہ کر مدیحہ نے کال کٹ کر دی
اگلے دن انہوں نے پہلا پیریڈ پڑھا اور 10 بجے کالج سے باہر آ گئیں
ٹیکسی پکڑی اور چاروں سائیں بابا کے حجرے کے پاس ہی اتر گئیں پلانینگ کے مطابق بابا جی کھانا کھانے گئے کتاب چوری کی اور مشال لے گھر چلی گئی بابا جی کو اس وقت تو نا پتا چلا اور وہ باقی تینوں نے بابا جی سے جھوٹی موٹھی بیماری کے تعویز لئیے اور وہ بھی نکل آئیں
باہر آ کر مشا ل کو کال کی اور صبح اسے کتاب کالج ساتھ لانے کا کہ کر خوشی خوشی تینوں اپنے اپنے گھر چل دیں
مشال بارہ بجے گھر پہنچ گئی اور اس جادو والی کتاب کو اپنے کمرے میں رکھ دیا فریش ہو کر دوپہر کا کھانا بنانے لگ گئی گاڑی کی پییییی کی آواز آئی مشال جلدی سے باہر گئی اور گیٹ کھول دیا حیدر صاحب گاڑی اندر لے آئے
حیدر صاحب کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور مشال کھانا لے آئی
اچھا کیا فون کر کے بتا دیا ورنہ میں کالج کے گیٹ پر ہی کھڑا رہ جاتا حیدر صاحب بولے
ابو ٹیچر بیمار تھی تو سوچا گھر چلی جاؤں کالج میں بھی تو فارغ تھی کھانا کھاتے ہوئے مشال نے اپنے ابو سے کہا
حیدر صاحب کھانا کھا کر چلے گئے مشال کچن سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئی
آج کی گئی چوری کے بارے میں مشال سوچنے لگی آخر اس کتاب میں کیا ہے جو ان تینوں کو یہ کتاب چوری کرنی پڑی
مشال وہ کتاب اٹھا کر لے آئی اور کھول کر دیکھنی لگی وہ کتاب بہت قدیم تھی اور پرینٹ نہیں ہوئی تھی بلکہ ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی اس میں مختلف قسم کے جادو لکھے ہوئے تھے مشال ورق پلٹ رہی تھی کہ اچانک اسکی نظر
اک منتر پر پڑی جہاں بڑا کر کے لکھا ہوا تھا
اس منتر سے عورت چڑیل بن سکتی ہے چڑیل بننے کا طریقہ شرتیں درج ہونے کے ساتھ اسکی قیمت بھی لکھی تھی
چڑیل بننے کے لئیے عورت کنواری ہو کسی مرد نے چھووا نا ہو اور چڑیل بن جانے کے بعد اسی وقت جنوں کا شہنشاہ آئیگا جو اسکا کنوارا پن ختم کریگا اور بدلے میں اسے اتنی طاقت دے جائیگا کہ جو وہ چاہیگی ہو گا یعنی کنوارا پن قیمت ہے چڑیل بننے کی
مشال نے کتاب رکھی اور لیٹ کر سوچنے لگی کہ یہ کتاب کیوں چرائی صدف نے آخر وہ کیا چاہتی ہے
بہت سے سوال تھے جن کا جواب وہ چاہتی تھی مگر کون دیتا اسے سوچتے سوچتے نا جانے کب اسے نیند آ گئی
گاڑی کے ہارن سے مشال کی آنکھ کھلی ٹائیم دیکھا تو ساڑھے پانچ ہو رہے تھے مشال نے دوپٹہ گلے میں ڈالا اور اٹھ کر مین گیٹ کھلا حیدر صاحب گاڑی لے کر اندر آ گئے پھر باپ بیٹی نے ڈینر کیا اور اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے
مشال کالج کے گیٹ پر اتر گئی اور حیدر صاحب گاڑی لے کر چلے گئے کلاس میں جاتے ہوئے اسے اپنی طرف آتا ھوا وہی لڑکا دکھائی دیا جسے اس نے اپنی کلاس میں دیکھا تھا
ہیلو آئی ایم زوہیب سب مجھے زیبی کہتے ہیں اس نے مشال کی طرف ہاتھ بڑھایا مشال نے ہاتھ ملایا اور جواب دیا میں مشال ہوں
ہم ایک ہی کلاس میں ہیں زیبی بولا
جی مجھے پتا ہے مشال نے جواب دیا
شام کو میں کرکٹ کے گراونڈ میں پریکٹس کرتا ہوں آپ آنا گپ شپ لگائینگے زیبی نے مشال کے چہرے پر نظر لگائے کہا
مشال کچھ بولنے ہی والی تھی کہ صدف آ گئی اور وہ بولتے بولتے چپ ہو گئی
چلو کلاس میں چلو صدف مشال کا بازو پکڑ کر بولی اور مشال کو تقریبا کھینچتے ہوئے لے کر چل پڑی
صدف مشال کا بازو پکڑے ہی بینچ پر بیٹھ گئی اور کھینچ کر اسے بھی ساتھ بیٹھا لیا
میری بات دھیان سے سنو مشال
تم اس کالج میں نئی ہو تمہیں ابھی سب کو جاننا چاہئے پھر کسی سے دوستی کرنی چاہئیے زیبی بہت دھوکہ باز لڑکا ہے نا جانے کتنی لڑکیوں سے اس نے جھوٹا پیارا کیا اور انکو استعمال کر کے چھوڑ دیا میرا اک دوست کی حیثیت سے فرض بنتا ہے کہ تمکو ایسے بھیڑیئے سے بچاؤں آگے تمہاری مرضی صدف اتنا بول کر چپ ہو گئی
صدف میں آ رہی تھی تو آ گے سے مل گیا میں کونسا اسے خود ملنے گئی تھی تم نے بتا دیا تو اب اس سے دور رہونگی مشال نے سرد لہجے میں کہا
اچھا چھوڑو وہ کتاب لائی ہو صدف نے بات بدلتے ہوئے پوچھا ہاں بیگ میں ہے نکال کر دوں مشال نے کہا
مس روبینہ آنے والی ہے پیریڈ کے بعد بیڈمینٹن کے گراؤنڈ میں چلیں گیں پھر وہاں بیٹھ کر اسکا مطالعہ کریں گیں صدف نے جواب دیا
ٹیچر کلاس میں آ گئی اور پڑھائی ہونے لگی پیریڈ ختم ہوا تو چاروں دوستیں بیڈ مینٹن کے گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ گئیں مشال نے بیگ سے کتاب نکال کر صدف کو دی تو صدف نے کتاب نیچے رکھ کر کھول دی
سب کتاب پر جھک گئیں کتاب کے پہلے پیج پر لکھا ہوا تھا اس میں لکھے گئے ہر عمل کی قیمت ساتھ درج ہے جو عمل پورا ہونے پر عامل کو ادا کرنا ہو گی ادا نا کرنے کی صورت میں نقصان کا عامل خود زمہ دار ہو گا
مدیحہ یار کیا قیمت ہو گی ان عملوں کی
صدف یار ہر عمل کے بعد اسکی قیمت درج ہے دیکھ لیتے ہیں
صدف نے پیج پلٹا تو اس میں پہلا منتر تھا اپنی مرضی کی کوئی اک خواہش پوری کریں.
انم چلو یہ کر کے دیکھتے ہیں
صدف تمہیں بہت جلدی ہے کہیں سکون سے بیٹھ کر کریں گے کالج میں یہ ٹھیک نہیں ہے
انم تو پھر کہاں کریں
صدف میرے گھررررر تو امی ابو اور دو بھائی ہوتے ہیں تو وہاں تو مشکل ہے
انم میرے بھی نہیں ہو سکتا ہماری تو کمبائین فیملی ہے
مدیحہ میری تین بڑی بہنیں گھر ہوتی ہیں تو ادھر بھی نہیں کر سکتے
صدف مشال تمہارے گھر ہو سکتا ہے کیا
مشال صبح آٹھ سے بارہ بجے تک گھر خالی ہوتا ہے پھر ابو لنچ کرنے آتے ہیں اور دو بجے چلے جاتے ہیں اور پھر چھے بجے سے پہلے واپس نہیں آتے
انم تو تمہاری امی تو گھر ہونگیں اور بہن بھائی بھی
مشال نہیں میں اور ابو اکیلے رہتے ہیں
صدف باقی فیملی کہاں ہے
مشال امی فوت ہو گئی تھیں جب میں تین دن کی تھی پھر ابو نے شادی نہیں کی بس میں اور ابو ہی ہیں
صدف یار بہت دکھ ہو رہا ہے تم اکیلے رہتے ہو
پھر مشال بولی دو بجے میری طرف آ جانا وہاں تجربے کریں گے
سب نے او کے کیا اور کلاس میں چل دیں
کلاس کے بعد مشال اپنے ابو کے ساتھ گھر آ گئی دونوں نے ساتھ لنچ کیا اور حیدر صاحب دوبارہ آفس چلے گئے
مشال نے صدف کو کال کر دی کہ ابو چلے گئے ہیں اور اپنے گھر کا پورا ایڈریس بھی سمجھا دیا
بیس مینٹ بعد تینوں مشال کے گھر میں تھیں تینوں نے چائے پی اور مشال کے گھر میں بنے اک چھوٹے سے لان میں آ کر بیٹھ گئیں
میں نے ساری کتاب پڑھی ہے ہم سب سے پہلے ہوا میں اڑنے والا جادو کریں گیں
آؤ منتر یاد کر لیں سب نے اپنا اپنا منتر یاد کر لیا مشال نے اپنے موبائیل کو ویڈو رکارڈنگ پر لگا کر سیٹ کر کے رکھ دیا تا کہ سب کی ویڈیو بن جائے پھر سب گھٹنے فولڈ کر کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئیں
پھر صدف نے سب کو بتایا کہ جب ہمارے منتر کا رزلٹ آنے لگا تو ہمیں اسکی نشانی ملیگی جو بھی ہو آنکھیں مت کھولنا جب نیچے اترنا ہوا تو منتر کے آخری دو لفظ ساتھ نا پڑھنا نیچے آ جائیں گیں
سب نے آنکھیں بند کیں اور آواز ملا کر منتر پڑھنے لگیں جیسے ترانہ پڑھ رہی ہوں
پہلے تو دس مینٹ ایسے ہی گزر گئے پھر اچانک آندھی آ گئی اور ساتھ بادل بھی گرجنے لگا اک دم ان کی آواز بند ہو گئی پھر صدف تیز تیز منتر پڑھنے لگی اور ساتھ ہی باقی تینوں بھی لگ گئی پھر اک دم آندھی اور بادلوں کی گرج بند ہو گئی اور سب کو اپنے جسم اپر کو اٹھتے محسوس ہونے لگے اور تھوڑے سے اپر جا کر رک گئے
ان کے جسم اب زمین سے تقریبا ایک سے ڈیڈھ فٹ اپر ھوا میں تھے سب چپ ہو گئیں صدف آنکھیں بند کئے ہی بولی ہاں کون کون اپنے آپ کو ہوا میں محسوس کر رہی ہے سب نے بتایا کہ ہم سب ہوا میں ہیں
پھر صدف نے کہا چلو نیچے چلتے ہیں آخری دو لفظ چھوڑ کر سب منتر پڑھنے لگیں اور دو مینٹ میں ہی سب نیچے آ گئیں
سب نے آنکھ کھول دیں اور اٹھ کر اپنی کامیابی کی خوشی میں ناچنے اور جپھیاں ڈالنے لگیں
اندر آ کر سب بیٹھ گئیں اور آج کی کامیابی پر باتیں کرنے لگیں اچانک مشال کو خیال آیا کہ ہم نے اس منتر کی قیمت تو ادا ہی نہیں کی
صدف تجربہ تو ہمارا کامیاب ہو گیا اسکی قیمت تو ادا کر لیں سب سنجیدہ ہو گئیں
صدف نے کتاب کھولی اور اس منتر کی قیمت دیکھنے لگیں منتر کے ساتھ اس کی قیمت تین قطرے خون کے بہانے ہیں مشال اندر سے ایک سوئی لے آئی اور سب نے اپنی انگلیوں سے تین تین خون کے قطرے نکال دئیے
پھر تینوں جانے کے لئیے اٹھی گئیں صدف اور مدیحہ گیٹ سے نکل گئیں جب انم گزرنے لگی تو مشال کے کان کے پاس منہ لے جا کر بولی میرا اک کام ہے چھوٹا سا میں گھر جا کر فون کروں گی اور باہر نکل گئی مشال ان کے گلی سے مڑنے تک ان کو جاتے پیچھے سے دیکھتی رہیں جب وہ مڑ گئیں تو مشال نے گیٹ بند کیا اور اپنے کمرے میں آ کر گئی کچھ دیر بعد مشال کو یاد آیا کہ کتاب تو وہ ادھر ہی چھوڑ گئی ہیں اور مشال کے ابو کے آنے کا بھی ٹائم ہو رہا ہے
وہ اٹھ کر ڈرائینگ روم میں آئی اور کتاب کو اپنے کمرے میں الماری کے اندر رکھ کر لیٹ گئی
مشال کے موبائیل کی گھنٹی بجی انم کا فون تھا
مشال نے کال رسیو کی ہیلو اسلام و علیکم کہا
انم نے سلام کا جواب دیا ہاں کیا کام ہے جناب
یار سمجھ نہیں آ رہی تمہیں کہوں یا نا انم بولی
یار ہم دوستیں ہیں تم بولو مشال نے اسے اپنائیت سے کہا
وہ میرا ایک کزن ہے تو ہم نے ملنا ہے جگہہ کا انتظام نہیں ہو رہا تمہارے گھر کوئی نہیں ہوتا تو کیا تم ہمیں ملوا سکتی ہو
آ جانا میرا گھر گھس تو نہیں جائیگا مشال ہنس کر بولی
تھینکس یار مجھے یعقین تھا کہہ تم انکار نہیں کرو گی
اچھا بتا کب آنا ہے مشال نے پوچھا
کل ہی ملوا دو یار
مشال کو کالج کے گیٹ پر اتار کر حیدر صاحب گاڑی لے کر چلے گئے
کلاس میں مشال جیسے ہی داخل ہوئی سب سے پہلے زیبی پر ہی نظر پڑی جو اداس سا بیٹھا تھا
مشال کی نظر جیسے ہی اسکی نظر سے ٹکرائی تو اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکان آ گئی
مشال نے بھی ہلکی سی سمائیل پاس کی اور اپنی جگہہ پر جا بیٹھی
کچھ دیر بعد انم، مدیحہ اور صدف بھی آ گئیں ہاتھ ملائے سب نے اور انم صدف کے ساتھ بیٹھ گئی
انم: کیسی ہو مشال؟
مشال: میں تو ٹھیک ہوں پر تم آج بہت نکھری ہوئی ہو خیر تو ہے نا
سبز کلر کے سوٹ میں انم کمال لگ رہی تھی
انم: خیر ہی یار
مشال: خیر ہی تو نہیں آج تم جتنی پیاری تم لگ رہی مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہیں اس سے گناہ ہی نا ہو جائے
انم: گناہ کونسا پہلی دفہ ہونا ہے اور یار پلیز آہستا بولو صدف اور مدیحہ کو پتا نا دچل جائے
مشال: کیا مطلب یانی تم اس کے ساتھ سب کچھ
انم: ہاں تو اس میں کیا غلط ہے شادی کے بعد بھی تو کرنا ہی ہے ہم نے تو آج کیوں ترسیں
مشال: بہت فاروڈ ہو یار تم تو اور صدف، مدیحہ کو اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا
انم: یار یہ باتیں بتانے والی نہیں ہوتیں ہم ایک ہی سیکٹر میں رہتی ہیں بات کھل گئی تو ہمارا رشتہ ٹوٹ جائیگا
اچھا چھوڑو یہ بتاؤ کہ آج فائینل ہے نا کوئی مسلہ تو نہیں
مشال: نو پرابلم بس تم تیار رہنا ابو کے جاتے ہی کال کر دونگی تم آ جانا
مشال کل جو ویڈیو بنائی تھی وہ تو دیکھاؤ صدف نے مشال کی کمر پر انگلی چبھو کر کہا
چلو کینٹین میں چل کر دیکھتے ہیں مشال نے پیچھے سر گھما کر کہا
چلو اٹھو مدیحہ اور انم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں
کینٹین میں انہوں نے کافی کا آرڈر دیا اور بیٹھ کر ساری ویڈیو دیکھی اور اپنی کامیابی پر خوش ہونے لگیں
کافی پی کر تینوں نے باقی کی کلاس لی اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیں
مشال کے ابو کھانا کھا کر جیسے ہی نکلے اس نے انم کو کال کر کے بتا دیا آ جاؤ ڈھائی گھنٹے ہیں اب ھمارے پاس اس نے او کے کہا اور کال بند کر دی
بیس مینٹ کے بعد ڈور بیل بجی مشال نے جا کر گیٹ کھولا انم اور اسکا کزن اندر آ گئے
گیٹ بند کیا اور مشال نسے انہیں ڈرائینگ روم میں لا کر بیٹھا دیا
اور خود کچن میں چائے بنانے لگی اور وہ دونوں باتیں کرنے لگے
کچھ ہی دیر میں ان دونوں کے لئیے مشال چائے اور پیسٹریاں لے آئی وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھے تھے مشال نے ان کے سامنے چائے رکھی اور خود ان کے سامنے بیٹھ گئی
کیا نام ہے بھائی کا انم صاحبہ چائے کا سیپ لیتے ہوئے پوچھا
فرحان خالد (انم نے بس اتنا ہی کہا اور چپ ہو گئی)
مشال: کیا کرتے ہیں بھائی
انم: اکاونٹینٹ ہیں
فرحان بھائی کو بھی کوئی بات کرنے دو یا انکی جگہہ بھی تم ہی بولتی ہو
انم: نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس کم بولتے ہیں
مشال اچھا تم لوگ اٹھو اور میرے کمرے میں جا کر گپ شپ کرو میں باہر لان میں پودوں کو پانی دے کر آتی ہوں مشال نے مسکرا کر کہا اور اٹھ کر باہر لان میں آ گئی وہ دونوں اٹھ کر اندر چلے گئے
جیسے ہی دروازہ بند ہونے کی آواز آئی مشال جلدی سے اپنے کمرے کی کھڑکی کے ساتھ آ کر لگ گئی جو گھر کے پچھلی طرف کھلتی تھی
مشال نے کھڑکی کالج سے آتے ہی کھول دی تھی انم کا لائیو سیکس دیکھنے کے لئیے
مشال نے آنکھ لگا کر اندر دیکھا تو وہ دونوں ایک دوسر کے گلے لگے ہوئے تھے اور فرحان انم کی کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور دائیں طرف سے گردن پر بھی چومیوں کی برسات کر رہا تھا
فرحان ہاتھ چلتے ہوے انم کی بونڈ پر چلا گئے اور بونڈ کو سہلانے لگے
یہ سب دیکھتے ہوئے مشال کی پھدی میں بھی کھجلی ہونے لگی
فرحان نے انم کی کمیز اٹھائی اور شلوار کے اندر ہاتھ ڈال دئیے انم کے روئی جیسے نرم چیتڑوں کو فرحان نے مٹھیوں میں بھینچ لیا اور انم کو اپنی طرف دبانے لگا
فرحان نے گردن سے ہونٹ اٹھائے اور انم کے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ دئیے انم پاگلوں کی طرح فرحان کے ہونٹ چوسنے لگی جیسے انہیں کھا ہی جائیگی
فرحان نے انم کی شلوار سے ہاتھ نکالا اور کمیز کا گھیرا آگے پیچھے سے پکڑا اور اپر کو اٹھاتے ہوئے انم کے گلے سے نکال دیا
دودھ جیسے گورے جسم پر کالے رنگ کی برا قیامت ڈھا رہی تھی انم کی سانس تیز ہوئی جا رہی تھی جس سے چونتیس سائیز کے ممے اپر نیچے ہو کر اک الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے
فرحان نے انم کے پیچھے آ کر اسے پیچھے سے باہوں میں لے لیا اور انم کے بازؤں کے نیچے سے ہاتھ گزار کر مموں پر رکھ دئیے انم کے ہاتھ بھی فرحان کے ہاتھوں پر آ گئے فرحان ارام آرام سے انم کے ممے مسلنے لگا
باہر کھڑی مشال کے ہاتھ بھی اپنے ہی مموں سے کھیلنے لگے
ممے مسلتا مسلتا فرحان نیچے بیٹھ گیا اور انم کی شلوار کو نیچے کھینچنے لگا شلوار پھسلتی ہوئی پاؤں میں آ کر رک گئی انم نے باری باری دونوں پاؤں اٹھائے فرحان نے شلوار اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اور دوبارہ کھڑے ہو کر پیچھے سے انم کو باہوں میں لے لیا اور مموں کو ہاتھوں میں لے کر گردن کو چومنے لگا
مشال کو انم کی بالوں سے پاک پھدی نظر آ رہی تھی اور اسکا ہاتھ بھی اسی کی شلوار میں گھس کر پھدی کے ساتھ چھیڑ خانیاں کر رہا تھا
انم گھومی اور اسکی چھاتی فرحان کی چھاتی سے جا لگی فرحان نے اپنا دایاں بازو انم کی بونڈ کے نیچے رکھا اور اٹھا کر بیڈ پر بیٹھا دیا
اور خود انم کے سامنے کھڑا ہو گیا انم نے فرحان کی پینٹ کی زیپ کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کر فرحان کا پانچ انچ لمبا لن باہر نکال لیا اور ٹوپی کو چاٹنے لگی فرحان نے ہاتھ پیچھے لیجا کر انم کے برا کا لاک کھول کر انم کے مموں کو آزاد کر دیا انم کے ممے بالکل جسم کے ساتھ چپکے تھے لٹکنے والی بات ہی جھوٹی تھی
فرحان کا آدھا لن انم منہ میں بھر کر قلفی کی طرح جوسے مار رہی تھی
فرحان نے کندھوں سے پکڑ کر انم کو پیچھے کو لیٹا دیا اور کہنیاں انم کی بغلوں کے پاس رکھ کر اس کے اپر لیٹ کر انم کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوسنے لگا پھر پورے منہ کو چوم کر گردن کو چوما اور تھوڑا سا نیچے کھسک کر ممے چوسنے لگا انم کا تھوڑا سا منہ کھلا ہوا تھا اور ہاتھ فرحان کے سر کو ایسے ممے پر دھکیل رہے تھے جیسے چاہ رہی ہو کہ پورا ممہ منہ میں گھس جائے
باہر کھڑی مشال کا بھی برا ہال تھا اور پھدی پانیوپانی ہوئی جا رہی تھی دایاں ہاتھ پھدی پر اور بایاں مموں کی رگڑائی میں مصروف تھا
باری باری فرحان نے ممے چوسے اور پیٹ کو چومتا ہوا ناف تک پہنچ گیا ناف میں جب زبان ڈال کر گھمائی تو انم کی بونڈ اک دم اپر کو اٹھنے لگی اور فرحان کے بال اب انم کی مٹھیوں میں تھے
باہر کھڑی مشال کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی اندر چلی جائے اور انم کا گلہ دبا کر خود فرحان کے نیچے لیٹ جائے
فرحان نے ناف چھوڑی اور اپنے دونوں گھٹنے انم کی ٹانگوں کے درمیان رکھ کر بیٹھ گیا
فرحان نے انم کے گھٹنے فولڈ کئیے اور اپر اٹھا کر مموں کے ساتھ لگا دئیے
پھر گھٹنے تھوڑے پیچھے سرکائے اور جھک کر انم کی گانڈ پر زبان رکھی اور رگڑتے ہوئے پھدی کی دراڈ جہاں سے شعروع ہوتی ہے وہاں سے باہر نکال دی انم کو جھرجھری سی آ گئی
باہر کھڑی مشال یہ سین دیکھ کر پاگل ہو گئی اور اپنا نیچلا ہونٹ دانتوں میں لیکر چبانے لگے اور پھدی کو سہلانا بھول کر پھدی کو نوچنے لگی
فرحان پھدی کے دانے کو زبان سے چھیڑنے لگا اور پھر پھدی کے اندر زبان ڈال کر زبان سے انم کو چودنے لگا پھدی چاٹ کر فرحان کھڑا ہوا اور سارے کپڑے اتار کر انم کی ٹانگوں میں آ گیا
اپنے دائیں بائیں سے انم کی ٹانگیں گزار کر فرحان نے اپنے لوڑے کا ٹوپا پھدی کی دراڑ میں پیھرا اور پھدی کے منہ پر رکھ کر دھکا مارا لوڑا آدھا اندر گھس گیا سسسسسسیییی انم کے منہ سے خارج ہوئی فرحان نے تھوڑا سا لن باہر نکالا اور دوبارہ دھکا مارا پورا لن پھدی کے اندر اور ٹٹے انم کی گانڈ سے جا ٹکرائے آآآہ سسسسیییی انم کے منہ سے نکل گئی
فرحان آگے کو جھکا اور انم کو کندھوں سے پکڑ کر دھکے مارنے لگا انم کی سسکاریاں مسلسل جاری تھیں فرحان نے اپنے ہونٹ انم کے ہونٹوں پر رکھ دئیے انم زور زور سے ہونٹ چوسنے لگی فرحان نے سپیڈ مزید تیز کر دی انم نے فرحان کو ٹانگوں کی لپیٹ میں لے لیا اور اپنی طرف دبانے لگی
فرحان انم کی جدائی اندر چل رہی تھی باہر مشال کی انگلی مشال کی پھدی میں چل رہی تھی
فرحان ہونٹ چھوڑے اور مموں کو پکڑ لیا اک ہاتھ سے فرحان ایک ممہ دبا رہا تھا اور دوسرے کو منہ میں بھر کر چوس رہا تھا
فرحان نے فل جوش سے دھکے مارنے شعروع کر دئیے اور انم بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر فرحان کو جوابی دھکے مارنے لگی
انم کا جسم اکڑنے لگا اور ٹانگوں کی گرفت بھی سخت ہو گئی جس کی وجہ سے فرحان سے اب ٹھیک سے دھکے بھی نہیں لگ رہے تھے
اک دم انم نے گانڈ اپر اٹھا دی اور فرحان کی گردن کو بازؤں میں لے لیا اس کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے
فرحان بھی رک گیا مشال جب پوری طرح فارغ ہو گئی تو جسم ڈھیلا چھوڑ دیا بازو بھی ڈھیلے ہو گئے اور ٹانگیں بھی انم کی ڈھیلی پڑ گئیں
فرحان کا کام بھی اینڈ پر تھا اس نے آٹھ دس دھکے زور کے مارے اور لن نے پھدی میں منی چھوڑ دی فرحان انم کے اپر ہی گر گیا فرحان کی سانس پھول گئی تھیں اور انم کا بھی نشہ اتر چکا تھا
باہر مشال بھی فارغ ہو گئی تھی اور شلوار سے ہاتھ نکال کر آ کر لان میں نیچے گھاس پر لیٹ گئی تھی
انم اور فرحان نے بھی کپڑے پہنے اور لان میں آ گئے مشال سے اجازت لی اور ہاتھ ملا کر نکل گئے
مشال نے اٹھ کر گیٹ بند کیا اور باتھ روم میں گھس گئی
نہا کر مشال ننگی ہی باتھ روم سے نکل آئی اور شیشے کے سامنے آ کر کھڑی ھو گئی
دھل کر مشال کا گورا جسم اور بھی نکھر گیا تھا
مشال کو اپنا ہی سیکسی جسم دیکھ کر مزہ آ رہا تھا کچھ دیر مشال شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے جسم سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہی پھر کپڑے پہنے اور کتابیں لے کر بیٹھ گئی
کچھ دیر حیدر صاحب بھی آ گئے اور فریش ہو کر ٹی وی دیکھنے لگے
مشال چائے لیکر آ گئی باپ بیٹی چائے پینے لگے
حیدر صاحب چائے پی کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور مشال برتن رکھ کر پھر پڑھنے لگی
آٹھ بجے مشال نے کھانا بنا لیا باپ بیٹی نے کھانا کھایا اور نارمل باتیں ھوئیں
مشال نے برتن سمبھالے اور دونوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے
صبح ناشتے کے بعد دوں گھر سے نکلے اور حیدر صاحب مشال کو کالج کے گیٹ پر اتار کر چلے گئے
مشال جیسے ہی کالج میں داخل اسے سامنے سے زیبی اسکی ہی طرف آتا دکھائی دیا
مشال کے سامنے آ کر اس نے اک کاغظ کا ٹکڑا مشال کے ہاتھ میں دے دیا
مشال نے خاموشی سے وہ کاغظ کا ٹکڑا پکڑ لیا اور بغیر رکے سیدھی کلاس میں آ کر بیٹھ گئی
مدیحہ انم اور صدف پہلے ہی اپنی جگھ پر بیٹھی ہوئی تھیں مشال آ کر انم کے ساتھ بیٹھ گئی اور تینوں سے ہاتھ ملایا
انم آج بہت خوش تھی اور اس کی خوشی کی وجہ مشال جانتی تھی
کیسی رہی ملاقات مشال نے انم کی ران پر چٹکی کاٹ کر پوچھا
کچھ نا پوچھ یار بہت سکون کی نیند آئی رات اور ساری رات بھی فرحان کے نیچے ہی گزاری انم نے سسسسی کر کے جواب دیا اور اپنا نیچلا ہونٹ دانتوں میں لے کر کاٹنے لگی
گھر والے کہاں تھے جو رات بھی فرحان صاحب کے نیچے گزار دی مشال نے حیران ہو کر پوچھا
یار سب گھر ہی تھے سپنے میں ساری رات فرحان کے نیچے رہی انم نے لمبی سانس کھینچ کر جواب دیا
اچھا اچھا میں سمجھی سچ میں دوبارہ گھوڑا بھگالیا مشال نے اتنا کہہ کر زور سے آنکھیں بند کر لیں
اتنے میں ٹیچر آ گئی اور کلاس سٹارٹ ہو گئی
گیارہ بجے تک پڑھائی چلی پھر تینوں اٹھ کر کالج کی بیلڈنگ کی بیک سائیڈ پر آ کر بیٹھ گئیں اور صدف نے جادو کی کتاب نکال لی اور سب کو مخاطب کر کے
بولی آج ھم چھٹی کے بعد مشال کے گھر چل کر یہ عمل کریں گیں
سب کتاب پر جھک گئیں اک منتر لکھا تھا جسے آنکھیں بند کر کے پڑھنا تھا پھر اسکی کوئی نشانی ملنی تھی نشانی ملتے ہی منتر چھوڑ کر اپنی کسی بھی قسم کی اک خواہش کرنی تھی جو اسی وقت پوری ہو جانی تھی
سب نے اوکے کیا اور کینٹین میں چائے پینے چل دیں
چائے پر معمول کی بات چیت ہوئی اور کلاس دوبارہ سٹارٹ ہو گئی
چھٹی کے بعد مشال اپنے ابو کے ساتھ گھر آ گئی دونوں نے لنچ کیا اور حیدر صاحب دوبارہ آفس چلے گئے
حیدر صاحب کے جاتے ہی مشال نے انم کو کال کر دی کہ ابو چلے گئے ہیں آ جاؤ کال کاٹ کر مشال اپنے کمرے میں چلی گئی
اچانک مشال کو وہ کاغظ یاد آ گیا جو صبح زیبی نے اسے دیا تھا
مشال نے برا میں ہاتھ ڈالا اور کاغظ نکال لیا جب اسے کھول کر دیکھا تو اس میں زیبی کا نمبر لکھا تھا اور ساتھ بس اتنا ہی لکھا تھا کہ مجھے کال کرنا تم سے ضروری بات کرنی ہے
مشال بیڈ پر بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کال کرے یا نا کرے اسکو صدف کی زیبی کے بارے میں کہی باتیں یاد آنے لگیں کہ وہ لڑکیوں کو اپنے
چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور استمال کر کے چھوڑ دیتا ہے
مشال سوچ رہی تھی کہ اس نے کیا بات کرنی ہو گی مجھ سے جو کال کا کہا کال کروں یا نا کروں پھر اس نے خود ہی فیصلہ کر لیا کہ وہ اسکو کال کر لیگی پر اسکی باتوں میں نہیں آئیگی
اتنے میں ڈور بل بجی مشال نے وہ کاغظ کا ٹکڑا واپس برا میں رکھا اور جا کر دروازہ کھول دیا مدیحہ انم اور صدف اندر آ گئیں مشال نے دروازہ لاک کیا اور انکو لے کر ٹی وی لاؤج میں لے آئی تینوں صوفے پر بیٹھ گئیں
مشال کچن میں گئی اور ان کے لئے کول ڈرنک اور چپس لے آئی
چاروں بیٹھ کر چپس کھانے لگیں اور آج جو کرنے جا رہی تھیں اس پر ڈسکس کرنے لگیں
کچھ دیر بعد چاروں اٹھیں اور گھر کے لان میں آ کر بیٹھ گئیں
صدف نے سب کو منتر یاد کروایا چاروں گھاس پر بنڈیں رکھ کر بیٹھ گئیں اور آنکھیں بند کر کے منتر پڑھنے لگیں پہلے پچیس تیس مینٹ تو کچھ نا ہوا پھر اچانک بادل گرجا اور تینوں سہم گئیں اور زبانیں بھی رک گئیں منتر جاری رکھو صدف اک دم بولی اور چاروں پھر سے انچی انچی منتر پڑھنے لگیں بارش ہونے لگی جو پانچ مینٹ
تک انکو بھگوتی رہی پھر اک دم سے بارش رک گئی چلو اپنی اپنی خواہش کرو دل میں اور دل میں ہی گیارہ بار دہراؤ سب نے اپنی خواہش دہرائی اور آنکھیں کھول کر اٹھ کر کھڑی ہو گئیں
چاروں نے اپنے اپنے کپڑے دیکھے جو کچھ دیر پہلے بارش میں بھیگ گئے تھے پر اب خوشک تھے
چاروں اندر آ گئیں اور اک دوسری کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگیں
مشال چلو دیکھو اس عمل کی قیمت کیا ہے صدف نے کتاب کھولی اور دیکھ کر بولی جو بھی خواہش کی ہے جب تک بوری نا ہو کسی کو بتانا مت اور ہمارے جسموں پر جو کچھ بھی ہے کپڑے جوتے زیور جو بھی ہم نے عمل کرتے وقت پہنا تھا سب کچھ اتار کر اسکو جلانا ہے اگر کوئی بھی چیز رکھی تو نقصان ہوگا
صدف چلو اٹھو جلدی نکلو گھر چل کر سب کچھ اتار کر جلا دیتے ہیں
وہ تینوں نکل گئیں مشال نے بھی گیٹ لاک کیا اور جلدی سے اپنے کمرے میں جاکر کپڑے اتارنے شعروع کر دئیے
پہلے شلوار اتاری پھر قمیض اب برا اور پینٹی رہ گئے تھے اس نے پینٹی اتاری پھر برا بھی اتار دی وہ کاغظ کا ٹکڑا برا کے ساتھ نیچے جا گرا
مشال نے اس سے نمبر نوٹ کیا اور کاغظ
کو کپڑوں کے اوپر پھینک کر الماری سے ٹراؤزر ٹی شرٹ نکال کر پہنی کپڑوں کو باہر لا کر رکھا اور آگ لگا دی
جب سب کچھ جل گیا تو مشال نے راکھ کو اک شاپر میں ڈال کر ڈسٹبین میں پھینکا اور اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹ گئی
نا چاھتے ھوۓ بھی مشال کی آنکھیں بند ھونے لگیں اور جلد ھی نیند کی دیوی نے اسے اپنی گود میں لے لیا
نوکیا ٹون نے مشال کو نیند سے بیدار کر دیا سیل اٹھا کر دیکھا تو حیدر صاحب کال کر رھے تھے مشال نے کلاک کی طرف دیکھا تو چھے بج رھے تھے
مشال جلدی سے اٹھی اور تقریبا بھاگتی ھوئی گیٹ تک پھنچی
گیٹ کھولا تو حیدر صاحب گاڑی لے کر اندر آ گۓ
پاپا میں سوئی تھی تو پتا نھیں چلا معازرت کے انداز میں مشال نے یہ الفاظ بولے
مجھے پتا چل گیا تھا بیٹا حیدر صاحب نے جواب دیا اور دونوں اندر چلے گۓ
حیدر صاحب فریش ھونے چلے گۓ اور مشال کچن میں گھس گئ مشال کھانا بنانے لگی حیدر صاحب ٹی وی دیکھنے لگے
آٹھ بجے دونوں نے ڈنر کیا اور اپنے اپنے کمرے میں چلے گۓ
مشال نے فون اٹھایا اور زیبی کو کال لگا دی
زیبی: ھیلو
مشال: اسلام و علیکم
زیبی: و علیکم اسلام جناب کیا حال ھیں
مشال: ٹھیک ھوں آپ سنائیں
زیبی: میں بھی ٹھیک ھوں
مشال: کیا بات کرنی تھی مجھ سے؟
زیبی: صدف کے بارے میں بات کرنی تھی
مشال: ہاں بولو
زیبی: مشال مجھے تم سے ھمدردی ہے پلیز اس سے دور رہا کرو
مشال: کیوں کیا ہوا؟
زیبی: وہ اچھی لڑکی نہیں ہے
مشال: کیا غلط ہے اس میں مجھے بھی تو پتا چلے؟
زیبی: وہ نشہ کرتی ھے اور جسکو بھی دوست بناتی ھے اسکو بھی اس کام پر لگا دیتی ھے
مشال: تمہیں کیا لگتا ھے میں کسی کے کہنے پر یہ سب کر لونگی میرا دماغ کام کرتا ہے ابھی
زیبی: مجھے تم سے ہمدردی ہے اس لۂیے بتا دیا آگے تمہاری مرضی
مشال: او-کے تھینکس
زیبی: اک بات اور مجھے تم اچھی لگتی ہو مجھ سے دوستی کرو گی
مشال: دوستی میں کوئی حرج تو نہیں پر مجھے بھی تمہارے بارے میں پتا چلا ھے کہ جب آۓ دن تم کسی نا کسی لڑکی کے ساتھ چکر چلاتے ھو پھر اس کی زندگی تباہ کر کے اسے چھوڑ دیتے ہو
زیبی: یہ تم سے صدف نے کہا ھو گا؟ ھے نا؟
مشال: جس نے بھی کہا ھے تو ایسے ھی نا؟
زیبی: یار ایسا کچھ نہیں ھے تم یعقین کرو یا نا کرو
مشال: جیسے صدف کے بارے میں تم نے بتایا ایسے ہی صدف نے تمہارے بارے میں بتایا ھے مجھے.
اب مجھے نہیں پتا کہ آپ جھوٹ بول رہے ھیں یا صدف یہ تو تم دونوں کو ھی پتا ھو گا کہ تم کیوں اک دوسرے کی برائی کرتے ھو.
زیبی: اب کیا بتاؤں یار تمہیں
مشال: جو سچ ہے بتا دو ورنہ اک دن تو سچ سامنے آ ہی جائیگا
زیبی: جب ھم فرسٹ ائر میں کالج آئے تھے تب سے یہ میرے پیچھے پڑی ہے لیکن اسکی بری حرکتوں کا مجھے پتا تھا اس لیۓ میں نے اسے منہ نہیں لگایا کبھی پر آج بھی اسے امید ھے کہ میں اسے اپنا لونگا پر مجھے اس سے سخت نفرت ھے اسی لۓ مجھ سے دور رہنے کی ہدایت کر رہی تھی تمہیں
مشال نے خاموشی سے زیبی کی پوری بات سنی اور بس باۓ کہہ کر کال بند کر دی
مشال کو سمجھ نہیں آ رہی تھی سچ صدف بول رہی ھے یا زیبی
اچانک مشال کے زیہن میں آیا کہ انم سے پوچھتی ہوں وہ سچ بتا دیگی اس ڈر سے کہ کہیں میں فرحان اور انم کے اس دن والے کارنامے کے بارے میں مدیحہ اور صدف کو نا بتا دوں
یہ خیال آتے ھی مشال نے صدف کو کال ماری
ھیلو اسلام و علیکم
انم: وعلیکم اسلام
مشال: کیسی ھو مسز فرحان
انم مسکراتے ھوۓ میں ٹھیک ھوں تم سناؤ
مشال: میں بھی ٹھیک ھوں
انم: خیر تو ھے اس وقت کال کی؟
مشال: کچھ پوچھنا تھا تمسے
انم: ہاں بولو کیا پوچھنا ہے
مشال: صدف اور زیبی کا کیا چکر ہے اور پلیز جھوٹ مت بولنا میرا تمسے وعدہ ہے کبھی بھی بات اوپن نہیں ھو گی
انم: یار کیا بتاؤ جب ھم فرسٹ ائیر میں تھے تب سے صدف زیبی کے پیچھے پڑی ہے لیکن وہ الگ مزاج کا لڑکا ہے اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور وہ صدف کی بری عادات سے بھی واقف ہے اس لیۓ اسکو منہ نہیں لگاتا پر صدف کی بھی ضد ہے اسے ایک بار حاصل ضرور کرنا ہے
مشال نے پوری بات خاموشی سے سنی اور اک لمبی سانس چھوڑ کر بولی زیبی کا کسی اور میں انٹرسٹ ہے جو صدف کو منہ نہیں لگاتا
انم: نعیں یار وہ کسی پر دھیان نہیں دیتا اپنے آپ میں رہتا ہے
مشال: دفہ ہو ہمیں کیا اچھا ٹھیک ہے میں رکھتی ہوں کل کالج ملتے ہیں
انم: اوکے باۓ
مشال نے بھی باۓ کیا اور کال بند کر دی
مشال اندر ہی اندر خوش تھی کہ زیبی ویسا نہیں جیسا صدف نے بتایا تھا اور زیبی کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کب اسے نیند آ گئ.
الارم کے شور نے مشال کو سپنوں کی دنیا سے باہر نکال دیا
مشال نے بند آنکھوں سے ہی بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑے کلاک کے بٹن پر ھاتھ مارا تو الارم کا شور ایسے بند ھوا جیسے کسی نے اسکا گلہ دبا دیا ہو
مشال نے اک لمبی سے انگڑائی لی اور بیڈ سے اتر کر باتھ روم میں جا کھسی
فریش ہو کر مشال ناشتہ تیار کرنے لگی اور جیدر صاحب آفس کے لۓ تیار ھونے لگے
دونوں نے ناشتہ کیا اور گھر کو لاک کر کے گاڑی میں بیٹھ گئے
حیدر صاحب نے مشال کو کالج کے گیٹ پر اتارا اور خود آفس کے لۓ راوانہ ھو گۓ
مشال سیدھی کلاس میں چلی گئ آج اسے مدیحہ اور انم ھی نظر آئیں صدف ان کے ساتھ نہیں تھی
مشال نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور انم کے ساتھ بیٹھتے ہی پوچھا صدف کہاں ہے
انم: یار اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے مشال پریشان ھو گئی
انم: یار تم کیوں پریشان ہوتی ہو یاد ہے کل ہم نے اک عمل کیا تھا جس میں ھم نے اک اک خواہش کی تھی رات دس بجے مجھے صدف کا فون آیا تھا تو خوشی سے بولی انم میری خواہش پوری ھو گئ میرا سوتیلا شرابی باپ مر گیا ہے
مشال: کیا مطلب سوتیلا باپ؟
انم: یار صدف کا والد فوت ھو گیا تھا پھر اسکی ماں نے دوبارہ شادی کر لی یہ جو اب فوت ھوا ھے اس کے ساتھ.
یہ بہت بڑا شرابی تھا صدف کی ماں جو تھوڑا بہت سلائی کڑھائی سے کماتی تھی وہ بھی چھین کر لے جاتا تھا اور اپنے نشے پورے کرتا تھا اس لئے صدف نے یہ خواہش کر لی
اتنے میں ٹیچر آ گئی اور کلاس سٹارٹ ھو گئ مشال کا دھیان آج پڑھائی میں نہیں جا رہا تھا اسے صدف پر غصہ آ رہا تھا جیسا بھی تھا تھا تو اسکا باپ ہی اسکی قاتل صدف ہی مشال کے دل میں بار بار آ رہا تھا مشال کو صدف سے نفرت سی ھونے لگی.
کلاس ختم ہوئی تو تینوں کینٹین میں جا بیٹھیں
مدیحہ نے کافی کا آرڈر دیا اور آپس میں باتیں کرنے لگیں
ھیلو مشال! پیچھے سے مشال کو مردانا آواذ سنائی دی تینوں نے گھوم کر پیچھے دیکھا تو زیبی تھا
اسلام و علیکم کیا حال ہے ساتھ مشال کی طرف ہاتھ بڑھایا
مشال نے ہاتھ ملایا اور زیبی ہاتھ باندھ کر مشال کی کرسی کے ساتھ کھڑا ہو گیا جیسے اسکا کوئی ملازم ہو
مشال: جاؤ کافی بن گئی ہے ھمارے لۓ لے کر آؤ
زیبی جا کر کافی والی ڈش اٹھا لایا اور سب کو دی
مدیحہ اور انم حیران تھیں کہ یہ اتنی اکڑ اور انا پرست زیبی آج کیسے مشال کے اشاروں پر ناچ رھا ھے
وہ جلد ہی سمجھ گئیں کہ کل مشال نے یہی خواہش کی ہو گی کہ زیبی اس کے کہنے پر چلے اسکا غلام بن کر رہے
وہ کافی پینے لگیں اتنے میں اک لڑکی نے آ کر بتایا کہ سعدیہ کھیلتے ہوئے سلیپ ھو گئی اور اسکی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے جتنی کافی پی تھی تینوں نے وہیں چھوڑی اور بیڈ مینٹن کے گراؤنڈ پہنچ گئیں
کافی لڑکیاں سعدیہ کے آس پاس کھڑی تھیں اور ڈسپینسر اسکی ٹانگ پر پٹی باندھ رہاتھا
مدیحہ انم کے کان کے پاس منہ لے جا کر بولی میری خواہش بھی پوری ہو گئ ھے اب ٹورنامینٹ میں خود کھیلونگی
سعدیہ کو ایمبولنس میں ڈال کر لے گئے سب اپنی اپنی کلاس میں چلی گئیں وہ تینوں وہیں اک سیمنٹ کے بنے ھوئے بینچ پر بیٹھ گئیں مدیحہ نے خوش ھوتے ھوئے مشال کو بتایا کہ سلیکشن کمیٹی نے مجھے ریجیکٹ کر کے اس سعدیہ کو چنا تھا اس سال کے ٹورنامینٹ کے لۓ میں نے خواہش کی تھی کہ سعدیہ کی ٹانگ ٹوٹ جائے اور میں کھیلوں اسکی جگہ لو میرا بھی کام ھو گیا
مشال: یار اسکی ٹانگ نا تڑواتی ویسے خواہش کر لیتی پھر بھی تو تمہارا کام ھو ہی جانا تھا
مدیحہ: بیڈمینٹن میرا پیشن ھے اس کے لئے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں
پھر تینوں اٹھ کر کلاس میں چلی گئیں باقی کی کلاس لی پھر سب اپنے اپنے گھر آ گئیں
مشال نے جلدی سے کھانا بنا لییا باپ بیٹی نے لنچ کیا مشال برتن اٹھا کر کچن میں رکھ کر چائے لے آئی حیدر صاحب کو چائے دے کر مشال واپس کچن میں چلی گئی اور برتن دھونے لگی حیدر صاحب نے چائے ختم کی اور اٹھ کر واپس آفس کے لئے نکل گئے
مشال کچن سے فارغ ھو کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور جاتے ہی بیڈ پر گر گئ اور آنکھیں بند کرلیں
کچھ دیربعد مشال کے فون کی گھنٹی بجنے لگی مشال نے موبائیل کی سکرین پر انم کا نمبر دیکھا
کال رسیو کی
مشال: اسلام و علیکم
انم: واعلیکم اسلام
مشال: خیر ہے؟
انم: اک گڈ نیوز ہے یار (انم بہت خوش لگ رہی تھی)
مشال: جلدی بتاؤ
انم: میرا اور فرحان کا رشتہ پکا ہو گیا ہے گریجوایشن کے بعد ہماری شادی ہو جائیگی
مشال: مبارک ہو اور اک سویٹ سی پارٹی تو اب بنتی ہے
انم: اوکے بابا دے دونگی اور جانتی ہو یہ سب کیسے ہوا؟
مشال: ہاں کیسے ھوا؟
انم: کل میں نے یہ خواھش کی تھی یار
مشال: اوح. . . اچھا اچھا
مزید تھوڑی بہت گپ شپ ہوئی اور کال بند ہو گئی
مشال نے فون رکھا اور ذیبی کے بارے میں سوچنے لگی

THE END

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...