Saturday, 6 February 2016

**کیا پسی کو چاٹنے سے **

کیا پسی کو چاٹنے سے واقعی بھی مدہوشی اور گرم ہونے کے عالم میں لڑکی چلی جاتی ہے ، یا یہ صرف کہانیوں اور پورن موویز تک محدود ہے،
آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے اس بارے میں....؟؟؟
کیا لڑکوں کو بھی اپنا ڈک چسوانے میں ووہی مزہ ملتا ہے یا بس صرف اور صرف دیکھا دیکھی ہے ....؟؟؟؟
لڑکے اور لڑکیاں کومنٹس میں یا ان باکس میں اپنا تجربہ بتا سکتے ہیں ....
ایڈمن رمتا جوگی
کھا اور بولے تم نے برا فروخت کیے ہیں آج؟؟؟ میں نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا جی حاجی صاحب۔۔۔ وہ اصل میں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے پوچھا تو میں نے سوچا کہ گاہک واپس نہیں جانا چاہیے تو میں نے وہ فروخت کر دیے۔ یہ سن کر حاجی صاحب مسکرائے اور میری کمر پر تھپکی دیتے ہوئے بولے بہت خوب بھئی، یعنی اب تم سیکھ گئے ہو۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کونسے فروخت کیے اور کتنے میں میں نے بتایا تو انہوں نے کہا بہت خوب، تم نے تو 100 روپے زیادہ کی بچت کروا دی۔ آج سے تم صرف جیولری اور کاسمیٹکس نہیں بلکہ انڈر گارمنٹس بھی سیل کیا کرو گے۔
پھر حاجی صاحب نے فارغ وقت پر رات کے 9 بجے کے قریب جب بازار میں رش بالکل ختم ہوگیا تھا مجھے مختلف سائز کے برا کے بارے میں اور انکے ڈیزائن کے بارے میں بتایا ، کونسے برا کہاں پڑے ہیں، دیسی برا، پھر ایمپورٹڈ برا اور پھر بی بیلے اور آئی ایف جی کے برا بھی دکھائے جو کافی مہنگے تھے، ایک ایک برا 1000 روپے تک کا بھی تھا۔ اسکے بعد حاجی اقبال صاحب نے مجھے خواتین کے انڈر وئیر کے بارے میں بھی متایا اس میں سمال، میڈیم اور لارج کے بعد ایکسٹرا لارج سائز تک کے انڈر وئیر تھے۔ پھر اس دن سے میں نے برا بھی سیل کرنا شروع کر دیے، کبھی میں جیولری وغیرہ دکھاتا تو کبھی برا اور انڈر وئیر سیل کرتا۔ دونوں طرف میری توجہ ہوگئی تو جاجی صاحب میری کارکردگی سے کافی خوش ہوئے اور 4 ماہ کے بعد میری تنخواہ 6 سے بڑھا کر 7000 کر دی جسکی مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس دوران انکل باسط بھی مہینے میں ایک دو بار چکر لگا کر میری کارکردگی کے بارے میں حاجی صاحب سے پوچھ لیتے تھے۔
یہاں میں نے ایک چیز نوٹس کی تھی کہ لوکل عورتیں تو حاجی صاحب سے ہی برا طلب کرتی تھیں، مگر جو کچھ ماڈرن قسم کی عورتیں ہوتی تھیں وہ زیادہ تر مجھے ہی کہتی تھیں برا دکھانے کے لیے، اور میں انکی ظاہری حالت کے مطابق اچھی کوالٹی اور لو کوالٹی کے برا دکھاتا تھا۔
اس دوران حاجی صاحب نے مجھے ایک موبائل بھی لے دیا تھا تاکہ ضرورت کے وقت میں ان سے رابطہ کر سکوں۔ پھر کبھی مال ختم ہوتا تو حاجی صاحب لاہور سے مال لینے چلے جاتے اور اس دن صبح سے رات تک دکان پر میں اکیلا ہی ہوتا اور اگلے دن حاجی صاحب کو پچھلے دن کا حساب دے دیتا۔ پھر ایک دن میں دکان پر فارغ ہی بیٹھا تھا کہ میرے نمبر پر ایک کال آئی میں نے ہیلو کہا تو آگے سے ایک خاتون کی آواز آئیں انہوں نے ہیلو کے جواب میں کہا کیسے ہو سلمان بیٹا؟؟ مجھے آواز تو جانی پہچانی لگی مگر میں سمجھ نہیں سکا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ میں نے کہا جی میں ٹھیک ہوں مگر آپ کون؟ تو اس پر وہ بولیں ارے بیٹا میں تمہاری سلمی آنٹی بات کر رہی ہوں، تمہارے انکل سے تمہارا نمبر لیا تھا۔ سلمی آنٹی کا نام سن کر میں نے کہا جی آنٹی میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں آپ کیسی ہیں؟؟ آنٹی نے کہا کہ وہ بھی بالک ٹھیک ہیں۔ پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد آنٹی نے مجھے کہا کہ بیٹا تم سے ایک کام ہے، کہتے ہوئے شرم بھی آرہی ہے ، مگر پھر تم تو اپنے بچوں کی طرح ہی ہو، تو سوچ رہی ہوں تمہیں ہی کہوں، باسط تو مجھے جانے نہیں دیتے بازار۔ اور خود وہ فارغ نہیں انہیں چھٹی ہی نہیں ملتی راتے کو تھکے ہوئے گھر آتے ہیں تو اس وقت میں انہیں کہ نہیں پاتی۔
میں نے کہا آنٹی میں آپکے بچوں کی طرح ہی ہوں آپ بلا جھجک بتائیں کیا کام ہے۔ آنٹی کچھ دیر خاموش رہیں، پھر بولیں بیٹا وہ مجھے اصل میں کچھ چیزیں چاہیے تھیں۔ وہ تم سے منگوانی تھیں۔ میں نے کہا آںٹی آپ حکم کریں آپکو جو چاہیے میں لے کر حاضر ہوجاوں گا۔ پھر آنٹی بولیں بیٹا تمہیں تو پتا ہی ہے دکانوں پر کس طرح کے مرد کھڑے ہوتے ہیں، اور وہ عورتوں کو کسیے گندی گندی نظروں سے دیکھتے ہیں تو اس لیے میں تو یہ لینے دکان پر خود جاتی نہیں تمہارے انکل ہی میرے لیے لے کر آتے ہیں مگر اب وہ مصروف بہت ہیں اور مجھے ضرورت بھی بہت ہے۔ میں نے کہا آنٹی آپ بلا جھجک بولیں کیا چاہیے آپکو۔ مجھے کچھ کچھ سمجھ لگ گئی تھی کہ آنٹی کو کیا کام ہے، مگر پھر بھی کنفرم کر لینا ضروری تھا۔ پھر سلمی آنٹی نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہا بیٹا وہ کافی دنوں سے میں سوچ رہی تھی کہ باسط سے اپنے لیے بریزئیر منگواوں مگر انکو وقت نہیں مل رہا اور میں بازار سے خود جا کر کبھی لائی نہیں، مجھے باسط نے بتایا تھا کہ جس دکان پر تم کام کرتے ہو وہاں پر برا وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اگر تم میرے لیے لے آو گے تو میری بڑی مشکل آسان ہوجائے گی۔
میں پہلے یہ سمجھ گیا تھا آنٹی کی ہچکچاہٹ سے مگر انکے منہ سے سننے کے بعد میں نے کہا آنٹی اس میں شرمانے والی کونسی بات ہے، یہاں تو پتا نہیں کتنی عورتیں آتی ہیں جنہیں میں برا فروخت کرتا ہوں، اگر آپکو چاہیے تو آپکے لیے بھی لیتا آوں گا۔ آنٹی نے کہا بہت بہت شکریہ بیٹا، تم نے تو میری مشکل آسان کر دی۔ پھر کب آوگے تم؟؟ میں نے کہا آنٹی کل جمعہ ہے، دکان بند ہوگی مجھے چھٹی ہے، تو میں کل ہی لیکر آپکی طرف آجاوں گا۔ آنٹی خوش ہوکر بولیں ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ بس پھر تم کل ہی آجاو۔ اچھا پھر کل ہی ملتے ہیں، یہ کہ کر آنٹی شاید فون بند کرنے لگیں تو میں نے جلدی جلدی کہا، آنٹی آنٹی بات تو سنیں۔۔۔ میر ی آواز سن کر آنٹی نے ہاں بولو؟ میں نے کہا آنٹی اپنا سائز تو بتائیں مجھے کیسے پتا لگے گا کہ کونسے سائز کے لینے ہیں، اس پر آنٹی بولیں اوہ۔۔۔۔ مجھے یاد ہی نہی سائز بتانے کا اچھا ہوا تم نے خود ہی پوچھ لیا۔ بیٹا تم 38 نمبر کا لے آنا۔ 38 سائز کا سن کر میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ باسط انکل کے تو مزے ہیں انکو اتنے بڑے مموں والی بیوی ملی ہے۔ پھر میں نے فورا ہی پوچھا اچھا آنٹی فوم والے لانے ہیں یا نیٹ والے یا پھر کاٹن میں؟؟؟ آنٹی نے کچھ سوچا اور پھر بولیں بیٹا ایسا نہیں ہوسکتا تم مختلف لے آو مجھے جو پسند آئے گا میں وہی لے لوں گی؟؟؟ میں نے کہا کیوں نہیں آنٹی میں زیادہ لے آوں گا پھر اس میں سے آپ اپنی پسند کے مطابق جو رکھنا ہوا رکھ لیجیے گا۔ اچھا آنٹی یہ بھی بتا دیں آپکو اپنے لیے انڈر وئیر بھی چاہیے یا پھر صرف برا ہی چاہیے۔ یہ سن کر آنٹی نے کہا نہیں بیٹا بس برا ہی چاہیے۔ پھر اچانک بولیں اچھا سنو سنو۔۔۔۔ انڈر وئیر بھی 2 لے آنا مگر چھوٹے سائز کے۔ میں نے کہا چھوٹے سائز کے؟؟؟ آنٹی نے ہچکچاتے ہوئے کہا ہاں بیٹا مجھے تو ضرورت نہیں مگر وہ شمائلہ اب بڑی ہوچکی ہے نہ تو اسکے لیے چاہیے ہیں ، تو اسکے سائز کے مطابق چھوٹے انڈر وئیر بھی لے آنا۔ میں نے دل ہی دل میں انکی بیٹی شمائلہ کی گانڈ کے بارے میں سوچا تو وہ واقعی ابھی چھوٹے سائز کے انڈر وئیر کے قابل ہی تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی آپ بے فکر ہوجائیں میں لے آوں گا۔
فون بند کر کے میں اب سوچنے لگا کہ حاجی صاحب کو کیا کہوں گا؟؟؟ پھر جب حاجی صاحب آگئے تو میں نے حاجی صاحب کو بتایا کہ باسط انکل نے اپنی وائف کے لیے کچھ برا منگوائے ہیں تو وہ میں لے جاوں ؟ وہ خود آتے ہوئے زرا ہچکچا رہے تھے؟؟ حاجی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ہا ہا ہا اس میں ہچکچانے والی کونسی بات ہے وہ کونسا عورتوں سے لیکر جائیں گے، یہاں تو عورتیں بھی لے جاتی ہیں وہ مرد ہو کر شرما رہا ہے، مگر پھر انہوں نے بغیر کوئی اور بات کیے کہا، ٹھیک ہے لے جانا، مگر مفت میں نہ دے آنا پیسے لے لینا ان سے۔ میں نے کہا جی حاجی صاحب وہ تو ظاہری بات ہے پیسے لوں گا۔ پھر میں نے حاجی صاحب کی موجودگی میں ہی 38 سائز ے 7 برا پسند کیے اور ایک شاپر میں ڈال لیے اور پھر چھوٹے سائز کے 2 انڈر وئیر اٹھائے اور وہ بھی اسی شاپر میں ڈال دیے۔ حاجی صاحب نے کہا ارے اتنے زیادہ کا اچار ڈالے گا کیا ؟؟؟ میں نے کہا حاجی صاحب جو وہ رکھنا چاہیں گے رکھ لیں گے باقی میں اسی طرح واپس لے آوں گا۔ انہوں نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے مگر دھیان سے لانا۔
اگلے دن صبح 11 بجے میں باسط انکل کے گھر پہنچ گیا۔ جمعہ کا دن تھا سرکاری چھٹی نہ ہونے کے باعث باسط انکل گھر پر نہیں تھے جبکہ انکی بیٹی شمائلہ ابھی سکول سے واپس نہیں آئی تھیں۔ شمائلہ سے چھوٹی بیٹی ابھی جو 10 سال کی تھی اسکی طبیعت خراب تھی جسکی وجہ سے وہ سکول نہیں گئی اور گھر پر ہی ایک کمرے میں سو رہی تھی۔ میں گھر گیا تو سلمی آنٹی نے بہت خوش ہوکر مجھے اند ر بلا لیا۔ مگر وہ کچھ کچھ مجھ سے شرما بھی رہی تھیں ۔ انہوں نے مجھے اسی کمرے میں بٹھا دیا جہاں باسط انکل کے ہوتے ہوئے بیٹھا تھا۔ یہ مین کمرہ تھا اس میں ٹی وی بھی لگا ہوا تھا۔ مجھے بٹھا کر آنٹی کچن میں چلی گئیں اور کچھ ہی دیر میں میٹھے شربت کا ایک گلاس بنا کر میرے لیے لے آئیں۔ میرے سامنے پڑی ٹیبل پر سلمی آنٹی جھکی اور شربت کا جگ جو ایک بڑی ٹرے میں تھا میرے سامنے رکھا، جس دوران وہ جھکیں انکی قمیص سے انکے بڑے بڑے 38 سائز کے ممے قمیص سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے، میری نظر انکی قمیص کے اندر موجود مموں اور انکے بیچ گہری لائن پر پڑی تو مجھے کچھ کچھ ہونے لگا، میں نے فورا ہی اپنا چہرہ نیچے کر لیا۔ آنٹی بھی فورا ہی سیدھی ہوگئیں پھر وہ میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئیں اور بولیں بیٹا پانی پیو۔
انکی نظریں میرے ہاتھ میں موجود شاپر پر تھیں۔ مگر وہ مجھ سے شاپر مانگتے ہوئے ہچکچا رہی تھیں۔ گرمی زیادہ تھی میں نے جلدی جلدی شربت کا ایک گلاس پیا اور پھر آنٹی کی طرف دیکھا۔ آنٹی نے اس وقت سفید رنگ کی ایک قمیص پہن رکھی تھی اور گلے میں دوپٹہ لے رکھا تھا، قمیص باریک تھی اور گرمی کی وجہ سے شاید آنٹی نے آج شمیص بھی نہیں پہنی تھی جسکی وجہ سے انکا کالے رنگ کا برا بھی سفید قمیص میں سے بڑا واضح نظر آرہا تھا۔ انکو ایسی حالت میں دیکھ کر مجھے اپنے انڈر وئیر میں بے چینی محسوس ہونے لگی تھی، مگر میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ شلوار میں موجود ہتھیار اپنا سر نہ ہی اٹھائے تو اچھا ہے ورنہ سلمہ آنٹی نے نوٹ کر لیا تو شرمندگی ہوگی۔ شربت پینے کے بعد آنٹی نے شاپر کو دیکھتے ہوئے پوچھا اور بیٹا تمہارا کام کیسا جا رہا ہے، میں نے کہا آنٹی کام تو اچھا جا رہا ہے، اور بہت جلدی میں سیکھ بھی گیا ہوں، اب تو اقبال صاحب دکان پر ہوں یا نہ ہوں پوری دکان میں ہی سنبھالتا ہوں، چاہے کسی کو اپنے لیے برا لینے ہوں یا میک اپ کا سامان ، سب کچھ میں ہی ڈیل کرتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میں نے شاپر پکڑ کر اس میں ہاتھ ڈالا اور سارے برا نکال کر آنٹی کےسامنے ٹیبل پر رکھ دیے۔
آنٹی نے برا پر نظر پڑتے ہی پہلے تو بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا جیسے اطمینان کر رہی ہوں کہ ہمیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر نطریں چرا چرا کر برا کی طرف دیکھنے لگیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ واقعی دکان پر جاتے ہوئے شرماتی ہونگی غیر مردوں سے اپنے اندر پہننے والی چیزیں لیتے ہوئے۔ مگر پچھلے کچھ مہینوں کے دوران میں ایک اچھا سیلز مین بن چکا تھا، اور عورتوں کو برا دکھانے کا کافی تجربہ بھی ہوگیا تھا۔ میں نے سب سے پہلے ایک کالے رنگ کا ہی فوم والا برا اٹھایا اور آنٹی کی طرف کھسک کر بیٹھ گیا، وہ میں نے آںٹی کے سامنے کیا اور آنٹی کو دکھاتے ہوئے بولا، یہ دیکھیں آنٹی یہ بہت اچھی چیز ہے۔ بہت سوفٹ ہے اور اسکے اندر فوم بھی لگا ہوا ہے جس سے سائز تھوڑا بڑا محسوس ہوتا ہے اور خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب کی بار آںٹی کے ہاتھ کانپتے ہوئے لگ رہے تھے، انہوں نے کانپتے ہاتحوں سے میرے ہاتھ سے برا پکڑا اور اسکو بغور دیکھنے لگیں، مگر انکے چہرے سے پریشان واضح ہورہی تھی۔ میں نے پھر آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ نے پہلے بھی کالے رنگ کا برا ہی پہن رکھا ہے، یہ رنگ تو آپکے پاس ہے۔ آپ یہ رہنے دیں، سرخ رنگ میں دیکھ لیں، یہ کہ کر میں نے انکے ہاتھ سے برا پکڑ لیا اور سرخ رنگ کا فوم والا برا اٹھا کر انہیں پکڑا دیا۔
آنٹی نے ہچکچاتے ہوئے کہا میرا سائز تو پہلے ہی بہت بڑا ہے اس سے تو اور بھی بڑا نظر آئے گا۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں آنٹی آپکا سائز تو آئیڈیل ہے، مردوں کو یہی سائز پسند ہوتا ہے اور اگر تھوڑے بڑے بھی لگیں گے تو بھی برے نہیں لگیں گے بلکہ آپکی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ یہ سن کر سلمی آنٹی زیر لب مسکرائیں اور بولیں اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں مگر مجھے تو لگتا ہے کہ میرا سائز ضرورت سے زیادہ بڑا ہے۔ سلمی آںٹی کی ہچکچاہٹ آہستہ آہستہ کم ہورہی تھی۔ پھر میں نے کہا آنٹی پہلے آپ یہ پہن کر چیک کر لیں پھر میں آپکو اور بھی دکھا دیتا ہوں۔ آنٹی نے کہا نہیں پہننے کی کیا ضرورت ہے، بعد میں دیکھ لوں گی نہ۔ میں نے کہا ارے آنٹی فائدہ کیا پھر اپنی دکان ہونے کا۔۔۔ یہ تو آپ دکان سے جا کر بھی اس طرح بغیر دیکھے لا سکتی ہیں، اگر سائز بعد میں خراب نکلے تو چیج کرنا پڑتا ہے۔ اب میں آیا ہی ہوا ہوں تو آپ پہن کر چیک کرلیں اگر مناسب ہو تو ٹھیک نہیں تو میں کوئی اور دکھا دوں گا۔ میری بات سن کر آنٹی نے سوچا کہ سلمان کہ تو صحیح رہا ہے۔ یہی سوچ کر وہ سرخ رنگ کا فوم والا برا لے کر اٹھیں اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
کمرے میں جا کر آنٹی نے دروازہ اندر سے بند کر لیا اور تھوڑی دیر کے بعد باہر آئیں تو اب انکی قمیص کے نیچے کالے کی بجائے سرخ رنگ کا برا نظر آرہا تھا۔ آنٹی میرے قریب آئیں تومیں نے پوچھا آنٹی کیسا لگا برا؟؟؟ آںٹی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ٹھیک ہے، مگر مجھے لگ رہا ہے کہ اس سے سائز اور زیادہ بڑا لگنے لگا ہے۔ میں نے آنٹی کے مموں کو گھورتے ہوئے کہا ارے نہیں آنٹی، یہ تو بہت خوبصورت لگ رہا ہے آپ پر۔ انکل باسط تو آپکا یہ سرخ رنگ کا برا دیکھیں گے تو لٹو ہوجائیں گے آپ پر۔ میری بات سن کر آنٹی شرماتے ہوئے بولیں، چل بدمعاش۔۔ پھر میں نے آنٹی سے پوچھا، آنٹی سائز تو ٹھیک ہے نا اس برا کا؟؟؟ آںٹی نے کہا ہاں بیٹا ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا اور کوئی الجھن وغیرہ یا فٹنگ کا کوئی مسئلہ تو نہیں؟؟ آنٹِ نے کہا نہیں بیٹا بالکل صحیح ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر میں نے آنٹی کو ایک نیٹ کا برا دکھایا۔ یہ ہلکے نیلے رنگ کا برا تھا جس کے اوپری حصے پر جالی دار نیٹ لگی ہوئی تھی۔ اس برا میں سے مموں کا اوپر حصہ واضح نظر آتا تھا جبکہ نپل اور اس سے نچلا حصہ ڈھکا رہتا تھا میں نے آںٹی کو برا پکڑایا اور کہا آنٹی یہ بھی چیک کرلیں۔ آنٹی نے میرے ہاتھ سے وہ برا پکڑا اور اسکو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگیں، پھر بولیں اس میں سے تو نظر آئیں گے۔۔ میں نے کہا جی آنٹی، یہ بہت سیکسی برا ہے، اثر خواتین میرے سے نیٹ کا برا لے کر جاتی ہیں۔ میری بات سن کر آنٹی آہستہ آواز میں بولیں، ہاں مگر تمہارے انکل سیکسی نہیں ہیں نہ۔ آنٹی نے یہ بات بڑی آہستہ آواز میں کہی تھی مگر میں نے سن لی، مگر میں انجان بنا رہا اور آںٹی سے پوچھا، آنٹی آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟؟؟ آنٹی بولیں نہیں بیٹا کچھ نہیں۔ میں یہ چیک کر لیتی ہوں۔
آنٹی ایک بار پھر اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں تو اس بار میں بھی آنٹی کے پیچھے پیچھے برا اٹھا کر چل پڑا۔ آنٹی دروازہ بند کرنے لگیں تو مجھے دروازے پر ہی دیکھ کر بولیں کیا بات ہے؟؟ میں نے کہا آنٹی آپ بار بار قمیص اتاریں گی، پھر برا پہن کر قمیص دوبارہ پہنیں گی، پھر دوبارہ سے باہر آکر دوسرا برا لیں گی، میں یہیں کمرے کے باہر ہی کھڑا ہوجاتا ہوں، آپ برا پہن کر چیک کریں، جو ٹھیک لگے وہ رکھ لیں، اور پھر وہ اتار کر مجھے سے دوسرا برا مانگ لیں، میں باہر سے ہی آپکو پکڑا دوں گا اس طرح آپکا وقت بچے گا۔ آنٹی نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ اور دروازہ بند کر لیا۔ کچھ دیر کے بعد دروازہ کھلا تو آنٹی نے ایک ہاتھ باہر نکال کر برا میری طرف بڑھایا اور بولیں یہ ٹھیک نہیں، کافی تنگ ہے کوئی اور دکھاو۔ میں نے آںٹی کا گورا گورا بازو دیکھا اور ایک لمحے کے لیے سوچا کتنا مزہ آئے اگر میں یہ بازو پکڑ کر آنٹی کو ایسے ہی باہر کھینچ لوں، مگر میں نے فورا ہی اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اور ایک اور نیٹ کا برا جو پنک کلر کا تھا آنٹی کی طرف بڑھا دیا۔ آنٹی نے وہ برا پکڑا اور پھر سے دروازہ بند کر لیا۔ تھوڑے انتظار کے بعد دروازہ کھلا اور آنٹی نے کہا بیٹا اسکا سائز بالکل ٹھیک ہے، اور میں نے شیشے میں دیکھا ہے ، یہ اچھا بھی لگ رہا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی وہ اتار کر آپ ایک سائیڈ پر رکھ دیں میں آپکو اور برا پکڑاتا ہوں۔ آنٹی نے ٹھیک ہے کہ کر برا اتارنا شروع کیا، مگر اس بار وہ شاید دروازہ بند کرنا بھول گئی تھیں۔ میں نے تھوڑا سا آگے ہوکر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو آنٹی کی کمر میری طرف تھی، انکے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر تھے اور وہ اپنے برا کی ہک کھول رہی تھیں۔ کیا چکنی اور خوبصورت کمر تھی آنٹی کی، دیکھ کر مزہ آگیا تھا، نیچے شلوار میں انکے بڑے بڑے چوتڑ بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے ، دل کر رہا تھا کہ ابھی آگے بڑھوں اور ان چوتڑوں کی لائن میں اپنا لن پھنسا دوں۔ آنٹی نے برا اتار کر سامنے پڑی میز پر رکھ دیا اور واپس مڑنے لگیں۔ جیسے ہی آنٹی واپس مڑیں، میں ایکدم سے پیچھے ہوگیا اور ایسے ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے مجھے کچھ پتا ہی نہ ہو۔
پھر آنٹی کا دوبارہ ایک بازو باہر آیا اور آنٹی نے کہا بیٹا اور کونسا برا ہے وہ بھی دکھا دو۔ میں نے ایک اور برا جو کاٹن کا تھا اور سکن کلر کا تھا وہ آگے بڑھا دیا، آنٹی نے کلر دیکھ کر کہا بیٹا یہ کلر تو پڑے ہیں پہلے بھی میرے پاس۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں آنٹی، آپ پہن کر تو دیکھیں ہو سکتا ہے یہ آپکو پسند آجائے۔ دراصل میں آنٹی کو دوبارہ دیکھنے کا چانس لینا چاہتا تھا، اسی لیے میں نے سوچا، ابھی آںٹی یہ پہن کر کہ دیں گی کہ نہیں کوئی اور دو، تو 2 بار مزید آنٹی کو دیکھنے کا چانس مل سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے اس دوران آنٹی کے 38 سائز کے ممے بھی دیکھنے کو مل جائیں۔ ایک بات ماننے والی تھی کہ 40 سال کی عمر ہونے کے باوجود آنٹی کا جسم بہت سیکسی تھا۔ انہوں نے اپنے جسم کو نہ تو زیادہ موٹا ہونے دیا تھا اور نہ ہی انکا جسم لٹکنا شروع ہوا تھا، اس عمر میں عام طور پر پاکستانی خواتین یا تو بہت موٹی ہوجاتی ہیں، یا پھر انکا ماس لٹکنا شروع ہوجاتا ہے، مگر آنٹی کا جسم ایسا بالکل نہیں تھا۔ خیر آنٹی نے اب دوبارہ میرے ہاتھ سے سکن کلر کا برا پکڑ لیا تھا اور اس بار پھر پہلے ہی کی طرح انہوں نے دروازہ بند نہیں کیا تھا۔
جیے ہی آنٹی نے میرے ہاتھ سے برا پکڑا میں پھر سے آگے کو کھسکا اور آنٹی کے درشن کرنے کے لیے دروازے میں موجود تھوڑی سی جگہ سے آنٹی کا جسم دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ جیسے ہی میں آگے بڑھ کر اندر دیکھنے لگا ، اس وقت آنٹی کا چہرہ میری جانب ہی تھا، مگر انکی نظریں اپنے ہاتھ میں موجود برا پر تھیں۔ اور وہ آہستہ آہستہ دوسری جانب مڑ رہی تھیں۔ اسی دوران میں نے خوش قسمتی سے آنٹی کے 38 سائز کے ممے دیکھ لیے ۔ واہ۔۔۔۔۔ کیا ممے تھے۔ دل کیا کہ انکواپنے منہ میں لیکر انکا سارا دودھ پی جاوں، مگر فی الحال مجھے جوتے کھانے سے ڈر لگ رہا تھا اس لیے میں نے اس خواہش کو دل میں ہی دبا لیا۔ اس عمر میں بھی آنٹی کے ممے چوسنے لائق تھے۔ گو کہ انکے مموں پر براون رنگ کا دائرہ کچھ زیادہ ہی بڑا تھا، اور انکے نپل بھی کچھ بڑے تھے، مگر وہ کسی بھی مرد کو اپنی طرف کھینچجنے کے لیے بہترین ممے تھے۔ اب آںٹی اپنا منہ دوسری طرف کر چکی تھیں اور سکن کلر کا برا پہن رہی تھیں، آنٹی کے دوسری طرف شیشہ ماجود تھا جو مجھے نظر نہیں آرہا تھا،برا پہننے کے بعد آنٹی نے اپنے آپ کو اس شیشے میں دیکھا، مگر شاید انہیں یہ برا پسند نہیں آیا تو انہوں نے وہ برا اتارا اور واپس مڑگئیں، اس دوران میں فورا ہی واپس پیچھے ہوکر کھڑا ہوگیا تھا۔
میں تو پیچھے ہوگیا، مگر میرا لن جو اس وقت میری شلوار میں تھا وہ کھڑا ہوکر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا تھا۔ آنٹی ایک بار پھر باہر ہوئیں، یعنی اپنا بازہ باہر نکالا اور برا مجھے پکڑایا، اس دوران میں نے ایک اور برا آںٹی کو پکڑایا۔ اسی طرح ، 2, 3 برا مزید آنٹی نے چیک کیے۔ اس دوران دروازہ تھوڑا سا اور کھل گیا تھا اور اب میرے لیے اندز کا نظارہ پہلے سے بہت بہتر ہوگیا تھا۔ اب مجھے آنٹی کے سامنے موجود آئینہ بھی نظر آرہا تھا، اور جس وقت آنٹی اپنا برا اتار رہی تھیں اور دوسرا برا پہن رہی تھیں، اس دوران میں نے آںٹی کے مموں کا بڑی باریک بین

**"میں دیکھتی رہ گئی"**

ملتان کے بارے میں تو آپ سب جانتے ھی ھوں گے ۔ پاکستان کا سب سے قدیمی شہر اور میں اسی شہر کے پوش علاقے گلگشت کی رہائشی ھوں ۔ بینک میں جاب ھے اور اچھی زندگی گزار رہی ھوں ۔میرا نام انیلا، عمر 25، جسم سمارٹ، فگر دوست کہتی ھیں "نیلی۔۔۔ تو قیامت ھے قیامت" سینہ 34 ،کمر27، کولہے 32، یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں شانی کی وجہ سے بہت پریشان تھی ۔ شانی میرا بوائے فرینڈ اور سب کچھ ھے۔ شانی میرا پڑوسی ھے۔ وہ 19 سال کا معصوم صورت جوان انتہائی خوبصورت آنکھیں مناسب قد اور گورا چٹا پٹھان ھے۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب کشش ھے۔ جو دیکھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی ھے۔ میری سب فرینڈز کی رال بہتی تھی اُسے دیکھتے ھی وہ گیلی ھو جاتی تھیں۔ اور جب وہ ھاتھ ملاتا یا پھر قریب بیٹھتا تو۔۔۔۔اُس کے بدن سے عجیب لہریں نکلتی محسوس ھوتیں اور بے اختیار اُسکی بانہوں میں جانے اور اُس سے لپٹنے کو دل کرتا ۔ میں شانی کے سارے بدن سے واقف تھی ۔ اُسے ھر جگہ سے کئی بار پیار کر چکی تھی مگر جی کبھی نہیں بھرا تھا اُس سے ۔ میں جانتی تھی وہ میرے علاوہ کسی کو نہیں چاھتا اور نہ ھی قریب جاتا ھے ۔ مگر مجھے نہیں معلوم تھا یہ میری خوش فہمی ھے۔

کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی کہ شانی مجھ سے دور رہنے کی کوشش کر رہا ھے ۔میں پوچھتی تو وہ ٹال جاتا ۔ مگر مجھے لگ رہا تھا کہیں کوئی چکر ضرور ھے ۔

کیونکہ وہ اب مجھ سے کترا تا تھا اور جب بھی میرے سامنے آتا تو اسکی نظریں جھک جاتی تھیں۔ اب ناں ھی وہ مجھ سے پیار کرتا اور نہ ھی کوئی کس وغیرہ۔ میں اسی وجہ سے کافی پریشان تھی۔ کیونکہ میری خواھش پوری نہیں ھو رھی تھی ۔ میں اُس کیساتھ مزہ لینے کی عادی ھو چکی تھی۔ او اب مجھے مزہ کی طلب تھی مگر شانی تھا کہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ خیر اسی دوران مجھے جاب کے سلسلے میں راجن پور جانا پڑا ۔راجن پور میں میری رھائش کا انتظام ایک بنگلے میں کیا گیا تھا ۔۔ 4 گھنٹے کے سفر کے بعد میں تھک گئی جب میں راجن پور پہنچھی تو اس وقت شام کے 7 بجے تھے گرمیوں کے دن تھے ۔ بنگلے میں میرے علاوہ ایک 16 سالہ لڑکا تھا ۔ گیٹ اُس نے کھولا اور بتایا وہ چوکیدار کا بیٹا ھے اور اپنے باپ کی جگہ رات کیلئے آیا ۔کیونکہ اُس کا باپ بیمار ھو گیا گرمی لگ گئی جبھی وہ یہاں آیا ھے۔لڑکا دکھنے میں کم عمر لگتا تھا ۔

اُس نے مجھے روم دکھایا میں اندر گئی تو اندر کافی حبس تھی۔ میں نے لڑکے سے پوچھا اےسی کیوں نہیں چلایا ؟

وہ بولا باجی "بجلی نہیں ھے اور جنریٹر بھی خراب ھے" 8 بجے بجلی آجا ئے گی۔

میں نے اسے کہا چلو تم کچھ ٹھنڈا لے آؤ۔

وہ مڑ کر چلا گیا ۔ تو میں نے اپنا بیگ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور واش روم گئی جب باھر نکلی تو پسینے سے مکمل بھیگ چکی تھی ۔ روم میں لڑکا کولڈ ڈرنک لئے کھڑا تھا ۔ میں کمرے سے باھر آتے ھوئے بولی اندت بہت گرمی ھے ۔ باھر آجاؤ سامنے لان میں لوھے کی کرسیاں تھیں میں وھاں بیٹھی ۔ اور اسے کہا لاؤ مجھے دو ۔ یہ کہتے ھی جب میں لڑکے کی جانب دیکھا تو ۔۔ مجھے حیرت ھوئی اُس کی نظریں میرے سینے کا ابھاروں پر مرکوز تھیں۔ میں نے اپنی آنکھیں جھکا کر اپنے سینے کی جانب دیکھا تو ۔۔ وھاں کا نظارہ ھی پر کشش تھا ۔ صورتحال یوں تھی کہ پسینے سے میری سفید لان کی شرٹ میرے بدن پر چپک گئی تھی اور بلیک بریزئر صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ بلکہ میرے سینے کے سڈول ابھاروں کی گولائیاں بھی دکھ رہی تھیں۔ میں نے پھر نظریں اُٹھا کر لڑکے کو دیکھا تو وہ اب بھی میرے اپھاروں کو دیکھے جا رھا تھا ۔ میں مسکرا دی ۔ اور میرے ذھن میں اپنی پیاس بجھانے کی ترکیب آگئی ۔ میں پہلے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اب میں سیدھی ھو کر آگے کی طرف جھک گئی ۔ ایسا کرنے سے میرے گلے میں سے میرے گورے ممے صاف دکھنے لگے ۔ لڑکا بس میرے مموں کو گھورے جا رھا تھا ۔ اُسے آس پاس کا کچھ ھوش نہیں تھا لگتا تھا اُس نے زندگی میں پہلی بار یہ نظارہ دیکھا ھے ۔ میں نے اُسکی ٹانگوں کے بیچ دیکھا تو مجھے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا ۔ وھا ں سے اُس کی قمیض تمبو بنی ھوئی تھی۔ میں یہ دیکھتے ھی گرم ھو گئی ۔ میں نے اُ س کی طرف دیکھا اور کہا کیا دیکھ رہے ھو ۔ وہ ھڑ بڑا گیا ۔ اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا آسکا حلق خشک ھو گیا تھا شاید وہ کچھ ناں بولا ۔ میں نے اُسے کہا بیٹھو وہ میرے سامنے بیٹھ گیا میں نے نام پوچھا تو اُس نے گلو بتایا ۔

میں نے کہا " گلو تم کیا کرتے ھو ؟

وہ بولا " باجی میں زمینو ں پر کام کرتا ھوں"

میں نے پوچھا " تمہاری شادی ھو گئی ؟"

وہ کچھ شرماتے ھوئے بولا ناں باجی ابھی کہاں"

مین نے کہا " گلو تمہارے یہاں تو جلدی شادی کر دیتے ھیں ناں سب کی ؟"

وہ بولا " ھاں باجی پر بابا کہتے ھیں ابھی تو چھوٹا ھے۔ مگر میری امی کہتی ھیں اسکی شادی کردو مگر بابا نہیں مانتا"

میں نے پوچھا ۔ کبھی کسی لڑکی سے پیار کیا ھے ؟

وہ بولا " یہ کیا ھوتا ھے جی ؟"

میں نے کہا " کوئی لڑکی اچھی لگی ھو اور اُسے چومنے کادل کیا ھو کبھی ؟"

وہ بولا " نا ں باجی ناں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ھے "۔

میں سمجھ گئی یہ زیرو میٹر ھے ۔۔۔ اسکے گھوڑے پر سواری کرنے کا الگ ھی سواد آئے گا ۔ کچھ دیر ھم وھیں بیٹھے رھے پھر بجلی آگئی تو میں اندر کمرے میں آگئی اور اے سی آن کیا دوپٹہ اتارا اور بیڈ پر لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد گلو آیا اور کھانے کا پوچھا میں نے کہا تم کھانا لے آؤ مگر میں کھاؤن گی دیر سے ۔ وہ کھانا لینے چلا گیا ۔ تو میں نے باتھ لیا اور ٹراؤزر اور ڈھیلی شرٹ بغیر پرریزئر کے پہن لی ۔ لیپ ٹاپ نکالا کچھ کام وغیرہ کرنے لگی تو گلو کھانے لے کر آچکا تھا اس نے دروازے پر دستک دی تو میں نے اندر بلایا اس نے بتا کھانا لگا دوں باجی ؟ میں نے کہا نہیں تم پہلے مجھے دبادو کچھ دیر میں بہت تھک گئی ھوں ۔

اور میں یہ کہتی ھوئی اُٹھ کر بیڈ پر ٹانگیں سامنے کی طرف کرکے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔

اور اُسے ھاتھ سے اشارہ کیا یہاں آؤ

وہ پاس آیا تو میں نے پاؤں کی جانب اسے بیٹھنے کو کہا

جیسے ھی وہ ٹانگیں لٹکا کر بیڈ پر میرے قریب بیٹھا میں نے اپنا پاؤں اُٹھا کر اسکی گود میں رکھ دیا اور کہا گلو۔ ذرا دھیرے سے دبا دو۔

اسنے میرے پاؤں کو اپنے کھردرے ھاتھوں میں پکڑا اور دبانے لگا ۔ آسکے ھاتھ بہت سخت تھے ۔

وہ کبھی میری انگلیاں دباتا اور کبھی ایڑھی ۔ میں نے کہا

" گلو پنڈلی اور گٹھنا بھی دباؤ نا "

اس نے بنا کچھ کہے میری نرم ملائم پنڈلی کو دبانے لگا اور پھر وہ گھٹنے کی طرف اپنا ھاتھ بڑھانے لگا ۔اسکے ھاتھ بہت سخت تھے مجھے سکون مل رہا تھا مگر میری گرمی بڑھتی جا رھی تھی ۔ مجھے شانی یاد آنے لگا ۔ شانی میری جان مجھے بہت مسلتا تھا ۔ اسکے ھاتھ بہت نرم تھے ۔ مگر آج پہلی بار میرے بدن کو کھردرے ھاتھوں کا لمس مل رھا تھا ۔ کچھ دیر بعد میں نیچھے کی جانب کھسک گئی اور میری رانوں کے بلکل بیچ گلو آگیا ۔ میں اپنی دوسری ٹانگ گلو کی گود میں رکھی تو نیچے سے اُسکا ہتھیار میزائل کی طرح اوپر کی جانب منہ کیئے کھڑا تھا میری ٹانگ اسکے لوڑے پر رکھ دی ۔ ٹانگ ٹچ ھوتے ھی آسکے لوڑے نے جھٹکا مارا میرے منہ سے سسکاری نکل گئی " آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ گلو۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ھے سخت سا تمہاری گود میں "؟

گلو نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنے لنڈ کو پکڑا اور اپنی ٹانگوں کے ببیچ دبایا جیسے ھی ھاتھ چھوڑا وہ پھر سر اٹھا کر کھڑا ھو گیا ۔

اس نے دوبارہ دبانے کی کوشش کی مگر لنڈ پھر سے لوھا ھو گیا ۔

میں اُٹھ بیٹھی اور اس کے لنڈ کو اپنے ھاتھ میں لیتے ھوئے بولی لاؤ میں دیکھتی ھوں کیا ھے اسیے۔

میں نے جیسے ھی اسکا لنڈ پکڑا مجھے ایک دم جھر جھری آگئی ۔اُف وہ بہت لمبا موٹا اور بہت زیادہ سخت تھا کسی ڈنڈے کی طرح ۔

میں نے گلو کو بیڈ پر لٹایا اور لپٹ گئی اُس سے ۔ اور بے تحاشا آسے چومنے لگی وہ ۔ چپ چاپ پڑا رھا ۔ میں کبھی اسکا ماتھا چومتی اور کبھی اسکے گال پھر میں نے اسکے خشک ھونٹ اپنے لبوں یں لیئے اور چوسنے لگی ۔ اب وہ بھی چوسنے لگا تھا ۔ میں ایک ھاتھ سے مسلسل اس کے تنے ھوئے لوڑے کو مسلے جا رھی تھی ۔ کافی دیر چوسنے کے بعد میں اُٹھی اور اپنی شرٹ اور ٹراؤزر دونوں اتار دئے ۔ میں نے گلو سے کہا

"تم بھی اپنے کپڑے اتارو "

وہ بولا " باجی مجھے شرم آتی ھے "

میں اسکے لنڈ کو پکڑتے ھوئے بولی " تمہیں شرم آتی ھے ناں اس بیچارے کو تو نہیں آتی۔"

پھر میں نے خود ھی گلو کی شرٹ اوپر کی ار گلے سے نکال دی ۔ اور اُس کی شلوار کا ازاربند کھولا اور شلوار ڈھیلی کر دی ۔ پھر میں نے پاؤن کی طرف جا کر اسکی شلوار کھینچ کر اتار دی ۔ گلو ننگا ھوتے ھی سمٹ گیا اور اپنے لںڈ کو ٹانگوں میں چھپانے لگا ۔

میں نے قریب جا کر اس کی ٹانگیں کھولیں تو ۔۔ اسکے لںڈ کو دیکھتی ھی رھ گئی ۔ ٹیوب لوئٹ کی مرکری روشنی میں اسکا سانولا لنڈ۔ اُف ۔۔۔ کوئی 8 انچ لمبا اور ڈھائی انچ موٹا ۔۔۔۔ جھٹکے مارتا مجھے اپنی طرف بلا رہا تھا ۔ میں حیران اس لیئے تھی کہ بظاھر بچہ دکھنے والا یہ لڑکا کتنا پاور فل لنڈ کا مالک ھے۔۔۔واھ۔۔۔۔۔ میں نے اسے لٹایا اور اسکے گھوڑے جتنے لنڈ کو اپنے دونوں ھاتھوں سے دبانے اور سہلانے لگی ۔ چند لمحوں بعد میں اسکی ٹوپی منہ میں لی اور چوسنے لگی ۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔ کیا ٹیسٹ تھا اسکا ۔

کافی دیر اسے چوسنے کے بعد میں نے اس سے کہا گلو اب میں تھک گئی ھوں تم مجھے چومو اور اپنی زبان سے میرے پورے بدن کا مساج کرو ۔

وہ چپ چاپ اٹھ بیٹھا اور مجھے چومنے لگا ۔۔وہ بلکل اناڑی تھا ۔۔ مگر اسکی بے تابی مجھے مست کر رہی تھی ۔۔۔ وہ بے صبروں کی طر ح اور بھوکوں کی طرح مجھے چوس رھا تھا نچوڑ رہا تھا ۔ اپنی زبان سے میرے ممے چوسے ۔۔۔میرے اکڑے ھوئے گلابی رنگ کے نپلز کو چوسا ۔۔ میرے دودھ دبا دبا کر بہت سا جوس پیا ۔ پھر وہ میرے پیٹ کو چومتا ھوا ٹانگو کے عین بیچ ۔۔۔ میری خوبصورت جھیل پر آکر ٹہر گیا اور اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ پھر اپنی زبان نکالی اور میری کشتی کے بادبان کو سہلانے لگا اپنی زبان سے ۔۔ میری سسکاریا نکلنے لگیں ۔ آہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف اوھ ۔۔۔ گلو ۔۔۔۔۔

چوس لو اسکا سارا پانی پی جاؤ ۔۔۔ یار۔۔۔ میری چوت اب پانی سے چکنی ھو چکی تھی ۔۔ گلو نے وہ سارا پانی اپنی زبان سے چوس لیا ۔۔۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رھا تھا میں بے قابو ھو رہی تھی ۔ میں نے گلو سے کہا اپنے لوڑے کو اس میں ڈال دو وہ بولا "باجی مجھے نہیں آتا "

اھو میں بولی پاگل اسے کھول اور اپنے لنڈ کا ٹوپا اس میں پھنسا کر اندر ڈال دے ۔۔

اس نے ایسے ھی کیا مگر اسکا لوڑا بہت موٹا تھا اندر ھی نہیں گھس رہا تھا ۔۔ میں جلدی سے اٹھی اور پرس میں سے کریم نکالی اور اسکے ٹوپے پر لگا دی اسکے آدھے لنڈ تک اور اسے کہا اب ڈالو۔ میں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں اور اپنی چوت کے لپس کو اپنی انگلیوں سے کھول دیا گلو نے ۔۔ اپنے لنڈ کا ٹوپا سوراخ پر رکھ کر سارا وزن مجھ پر ڈال دیا ۔۔۔ مجھے اپنی چوت میں شدید تکلیف ھوءی مگر میں برداشت کرتی رھی وہ بس اندر ھی دھکیلتا رہا ۔۔ بڑی مشکل سے ٹوپا اندر گھسا ۔۔ میں سانس روکے پڑی تھی ۔ میں نے سانس لیا اور اسے کہا پیچھے ھو کر دھکا مارو ۔ گلو پیچھے ھوا اور پھر اس نے زور سے دھکا مارا تو میری چیخ نکل گئی ۔۔۔۔۔۔ آہ

مر گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ گلو ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ رک جاؤ ۔۔۔ کچھ دیر رکنے کے بعد گلو کو کہا کہ اب وہ آگے پیچھے ہو ۔۔ وہ دھکے لگانے لگا تو مجھے پھر سے مزہ آنے لگا ۔۔ درد ختم ھو کر مزہ آنے لگا ۔۔ گلو کا آدھا لنڈ میری چوت میں پھنس پھنس کر جا رہا تھا ۔۔ اسکے لنڈ کی رگڑ سے مجھے بہت سکون مل رہا تھا مگر تشنگی بڑھتی جا رھی تھی گلو نان سٹاپ دھکے لگائے جا رہا تھا ۔

مجھے مزہ آنے لگا ۔۔۔ اہ اوہ ۔۔ گلو ۔۔۔ میری جان ۔۔۔ زرا زور سے ۔۔ گلو نے میری آواز سنتے ھی اپنی رفتار بڑھائی ۔۔۔ مسلسل 20 منٹ کی چدائی کے بعد میں چھوٹ گئی مگر ۔۔ گلو کا لنڈ اب بھی ویسا تنا ھوا تھا ۔۔ کچھ دیر ریست کے بعد ۔۔ گلو ایک بار پھر مجھ پر سوار ھو گیا اب کی بار مجھے بہت مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ گلو کا لںڈ بھی کافی اندر تک جا رہا تھا اور میری اندر کی دیواروں کو چوٹ مرتے ھوئے مجھے پاگل کر رہا تھا آخر کا ر گلو نے ایک زوردار دھکا مارا اوور مجھے مموں سے پکڑ کر زور سے جکڑ لیا اور اسکے لنڈ نے لاوا اگل دیا جو میری چوت کو ٹھنڈا کرتا ھوا باھر تک بہہ آیا ۔۔ ھم کافی دیر یونہی پڑے رہے ۔۔پھر میں وہاں جتنے دن رہھ ھم روز 4 سے 5 بار سیکس کرتے۔۔۔ میری چوت کافی کھل چکی تھی ۔ اور شانی بھی بھول چکا تھا ۔۔ پھر وھاں سے واپسی پر میں نے گلو کو موبائل سیٹ اور کچھ رقم دی اور کہا میں جب بھی بلاؤں تم ملتان آجانا ۔۔ اوراسکے بعد وہ کئی بار ملتان آیا میں نے اسے اپنی فرینڈز سے بھی ملوایا پارٹی سیکس بھی کیا جس کی ویڈیو میں نے شانی کو بھجوائی ۔ کیسی لگی آپکو میری کہانی ۔کمنٹس ضرور کریں

**مسز ثمرہ طارق خان**

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسز ثمرہ طارق خان کے ساتھ میری سیکس سٹوری تو کافی عرصہ پہلے ہی بن گئی تھی ۔۔۔ لیکن بوجہ انہوں نے مجھے اس کو پبلش کرنے کی اجازت نہ دی -- اس لیئے میں نے اسے لکھ تو لیا ۔۔۔ لیکن ان کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ۔۔۔ میں اس کہانی کو نیٹ پر شا ئع نہ کروا سکا ۔۔۔ لیکن اب جبکہ وہ یہاں سے انگلینڈ شفٹ ہو گئیں ہیں اور جاتے جاتے مجھے اس کو شائع کرنے کی اجازت بھی دے گئیں ہیں اس لیئے اب میں اس سٹوری کو ان کی اجازت سے اپ لوڈ کر رہا ہوں ۔۔ ۔۔۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب دیسی پاپا ۔۔دیسی بابا۔۔۔ اور دودھ والی ۔۔۔ سائیٹ پر (ان میں سے آخری دو سائیٹس اب بند ہو گئیں ہیں شاید ) میری سٹوریز شائع ہونا شروع ہوئیں تھیں ۔۔۔ ویسے تو سب ہی سٹوریز کا ردِعمل اچھا آتا تھا لیکن جب میری سٹوری " چھوٹی باجی " نیٹ پر چھپی ۔۔ تو میری اس کہانی کو باقی کہانیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی پسند کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔خاص کر خواتین میں یہ کہانی بہت پاپولر ہوئی تھی ان دنوں سٹوری کے آخر میں ہم لوگ اس پر
اپنی رائے دینے کے لیئے اپنا ای میل ایڈریس بھی دیا کرتے تھے ۔چنانچہ سٹوری شائع ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی مجھے سٹوری کے بارے میں اپنی پسندیدگی کی بہت سی ستائیشی قسم کی ای میلذ ملیں ۔۔۔۔ ان ہی میلز میں اسلام آباد سے ایک خاتون کی شارٹ سی میل بھی آئی تھی اس نے بس اتنا ہی لکھا تھا ۔۔۔
ہائے۔۔۔مجھے تمہاری سٹوری بہت پسند آئی ہے ۔۔۔ کیا یہ رئیل ہے؟؟؟؟؟؟؟
اس پر میں نے اس کو جواب میں لکھا کہ نہ صرف یہ۔۔۔سٹوری بلکہ میری شائع ہونے والی دوسری سٹوریز میں بھی کافی حد تک حقیقت کا عنصر موجود ہوتا ہے ۔ باقی زیبِ داستاں کے لیئے تھوڑا بہت نمک مرچ تو لگانی ہی پڑتی ہے اوراس کے ساتھ ہی میں نے ۔۔سٹوری پسند کرنے پر اس کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔۔۔۔ اگلے دن اس نے جواب میں لکھا کہ شکریہ تو آپ کا بنتا ہے کہ جو اپنی سٹوریوں سے ہمیں اتنا زیادہ مزہ دیتے ہو۔۔۔ اس میل کے جواب میں ۔۔۔ میں نے اس خاتون کو لکھا کہ ۔۔۔۔۔ محترمہ آپ صرف سٹوری پڑھ کے ہی مزہ لیتی ہو۔۔یا۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔وہ خاتون کہ جن کا نام مسز ثمرہ طارق خان تھا۔۔۔۔۔ میری میل میں چُھپی اس ۔۔یا۔۔۔۔ کا مطلب سمجھ گئیں ۔۔۔اور ۔۔پھر اس کے بعد بڑی ہی پابندی سے ہم لوگ ہی ایک دوسرے کو ای میل کرنا شروع ہو گئے ( افسوس کہ میرا وہ میل اڈریس کسی نے ہیک کرلیا تھا ورنہ میں ان کی میل سے چیدہ چیدہ اقتباسات کو یہاں ضرور درج کرتا )۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ان کی میل سے مجھے پتہ چلا کہ وہ ایک شادی شدہ خاتون ہے اور اس کا خاوند انگلینڈ میں ہوتا ہے اور اس نے بھی وہاں جانے کے لیئے اپلائی کیا ہوا ہے۔۔۔۔اور انگلینڈ کی قومیت ملنے پر وہ بھی وہاں پر شفٹ ہو جائیں گی مزید یہ کہ انہوں نے ایم بی اے کیا ہوا تھا اور ان دنوں وہ اسلام آباد میں اپنے سسر کی فیکڑی کی دیکھ بھال کر رہی ہے ای میل سے چلنے والا یہ سلسلہ جلد ہی ایم ایس این مسینجر ( ان دنوں یہی Messenger ہوا کرتا تھا ) تک جا پہنچا ۔۔۔۔ اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ شروع شروع میں وہ میرے ساتھ بڑی ہی محتاط اور مہذ ب قسم کی باتیں کیا کرتی تھی ۔۔۔۔ اور پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے اپنی چیٹ میں وہ بڑے ہی نپے تلے۔۔ اور محتاط قسم کے الفاظ استعمال کیا کرتی تھی ۔۔۔۔۔اور مجھے ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی تھی ۔۔۔۔۔۔ ادھر میری کوشش یہی تھی کہ وہ میرے ساتھ کھل کر بات کرے تا کہ معاملہ کچھ آگے بڑھے ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں ان سے ایسی کوئی بات بھی نہ کرنا چاہتا تھا ۔۔ کہ جس سے وہ بِدک کر بھاگ جائے ۔۔۔۔۔ یا ناراض ہو جائے۔۔۔۔ اس لیئے میں ان کے ساتھ چیٹ میں بڑا ہی محتاط رہا کرتا تھا ۔۔لیکن ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔ اپنے پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیئے ۔۔۔ میں اپنی اس گفتگو میں بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے گاہے بگاہے سیکس کا تڑکا بھی لگا دیا کرتا تھا ۔۔۔۔جسے کبھی تو وہ نظر انداز کر دیتی تھی اور کبھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا جواب دے دیتی تھی۔۔
پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ میں نے ان سے چیٹ کرتے ہوئے اس میں سیکس کا عنصر بڑھا دیا۔۔۔ پہلے تو وہ تھوڑا ہچکچائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تھوڑے نخرے ٹخرے اور میرے منت ترلوں کے بعد وہ تھوڑی سی لائین پر آ گئی۔۔۔ (اور ۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ جلد یا بدیر ۔اس نے ادھر آنا ہی تھا )۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس۔۔۔۔!!!! ۔۔۔ جیسا کہ خاص کر پاکستانی عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ بے شک اندر سے لن لینے کے لیئے ان کا من شدید تڑپ رہا ہو ۔۔لیکن وہ کبھی بھی اس بات کو اپنے پارٹنر پر ظاہر نہیں کریں گی ۔۔۔ہاں اس کے برعکس ۔۔۔ پہلے پہلے تو وہ بہت لیئے دیئے رکھتی ہیں اور ۔۔آپ پوچھیں نہ پوچھیں وہ اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے کی بھر پُور کوشش کرتی رہتی ہیں ۔۔ اور اگر کوئی ان کے ساتھ کوئی ایسی ویسی بات کر بھی دے تو اپنے فرینڈ کے سامنے وہ ایسے پوز کرتیں ہیں کہ جیسے ان کو ایسے کاموں سے گھن آتی ہے۔۔۔۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ جب انہیں ۔۔۔ اس بات کا یقین ہو جائے کہ اگلا بندہ ان کے راز کو راز رکھے گا ۔۔۔ اور ۔۔ان کو کبھی بھی بلیک میل نہیں کرے گا ۔۔۔تو پھر وہ بندے کے ساتھ فری ہو جاتیں ہیں ۔۔۔ اور آپ کے من کی مراد پوری کر دیتی ہیں ۔۔ لیکن اس کام کے لیئے ان کو اعتماد دلانا بہت ضروری ہوتا ہے اور جب ایک دفعہ ان کو اعتماد آ جائے تو۔۔۔پھر کیا کہنے جناب ۔۔۔۔ معشوقہ دے اور معشوق لے والا معاملہ ایک دم فِٹ ہو جاتا ہے۔۔ ۔۔۔ اسی لیئے میں بھی ان کو ۔۔ اعتماد دلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔کافی عرصے کے بعد۔۔۔۔ دھیرے دھیرے ہی سہی ۔۔۔۔ آخرِ کار مسز ثمرہ طارق خان کو بھی مجھ پر اعتماد آ ہی گیا اور ۔۔۔دورانِ چیٹ سب سے پہلے میں نے ان سے ان کے بدن کا ناپ پوچھا۔۔۔۔۔ ۔۔۔ جو تھوڑے جھجکتے ہوئے ۔۔۔ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعدانہوں نے بتا دیا ۔۔۔ جس کی میں نے جی بھر کے تعریف کی ۔۔اور میری تعریف سے وہ اتنی خوش ہوئی کہ ۔۔۔ اب وہ میرے ساتھ سیکسی باتیں بھی کرنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ میرا مطلب سائیبر سیکس سے ہے۔۔جن خواتین نے میرے ساتھ سائیبر سیکس کیا ہوا ہے وہ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ رائیٹر ہونے کے ناطے سے میرا سائیبر سیکس بڑا ہاٹ ہوتا ہے اور میرے الفاظ کے چناؤ کی وجہ سے اکثر لیڈیز پانی چھوڑ دیتیں تھیں ۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ کس مرحلے میں کون سا لفظ استعمال کرنا ہے ۔ اور کس لفظ کے پڑھتے ہی سامنے والی خاتون کے تن بدن میں آگ لگے گی ۔۔اور وہ نیچے سےگیلی ہو جائے گی ۔ اس قسم کے الفاط کے استعمال سے میں خود بھی بہت گرم ہوجایا کرتا تھا ۔۔۔اور مجھ پر جب یہ زیادہ گرمی حد سے زیادہ چڑھ جاتی تھی تو میں کمپیوٹر کے سامنے ہی مُٹھ بھی لگا لیا کرتا تھا اسی طرح میرے ساتھ چیٹ کرنے والی خاتون بھی ہاٹ ہو کر فنگرنگ کیا کرتی تھیں ۔۔۔۔ایسی ہی ایک شام کی بات ہے کہ گپ شپ کے دوران جب میں اور مسز ثمرہ طارق خان بہت زیادہ ہاٹ ہو گئے اور ہماری بات چیت اپنے عروج پر پہنچی تو لوہا گرم دیکھ کر میں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اچانک ہی ۔۔ میں نے ۔ مسز ثمرہ طارق کو مسینجر پر یہ الفاظ ٹائپ کیئے۔۔۔
۔۔۔۔ لفظوں سے نہیں ۔۔۔۔۔میری جان میں آپ کو حقیقت میں چودنا چاہتا ہوں ۔۔۔!!!!
اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ ان کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔ چونکہ اس وقت وہ اپنے سیکس کے عروج پر تھیں ۔۔۔اس لیئے فوراً ہی ان کا گرمی سے بھرا جواب موصول ہوا ۔۔۔۔۔۔
میں بھی………….. تم سے چُدنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیر نشانے پر لگتے دیکھ کر میں دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا ۔۔۔۔اور فوراً ہی اس کو جواب ٹائپ کرتے ہوئے لکھا ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔پھر دیر کس بات کی ہے ؟
میرے سوال کے جواب میں ۔۔۔کافی دیر تک اس طرف سے خاموشی رہی ۔۔۔ پھر ۔۔۔ انہوں نے جواب میں لکھا ۔۔۔
۔۔۔دیر تو کوئی خاص نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ ان کا مختصر سا جواب پڑھ کے میں نے بڑی بے تابی سے جواب ٹائپ کیا اور لکھا ۔۔۔کہ۔۔۔۔۔۔
پر۔۔۔۔ پر۔۔۔ کیا؟
تو کچھ دیر خاموشی کے بعد انہوں نے لکھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ڈر لگتا ہے۔۔۔۔
ان کا ٹائپ کیا ہوا میسج پڑھ کر میں سمجھ گیا کہ ۔۔۔وہ ملنے کو تو تیار ہے لیکن مجھ سے ملنے پر ان کو کچھ تحفظات ہیں ۔۔۔۔( جو کہ جائز تھے) لیکن اس کے برعکس میں نے جواب میں لکھا
۔۔۔ ڈر ۔۔۔ کیسا ڈر۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اور ساتھ ہی ان کو یاد دلایا کہ میں ان کا بہت اچھا دوست ہوں ۔۔ اور۔۔ ہماری دوستی کو کافی عرصہ ہو گیا ہے ۔۔۔ ۔۔اور میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اس کا ڈھیرساری کِسس ۔۔۔۔۔ بھیجنے کے ساتھ ساتھ اس کو کافی تسلیاں بھی دیں ۔۔۔۔۔اور پھر ایک دفعہ پھر اس کو ملنے کی درخواست کی۔ میری درخواست پڑھ کو وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی اور کافی دیر تک سوچنے کے بعد اس نے مجھے لکھا کہ وہ کل مجھے اس بارے میں سوچ کر بتائے گی۔۔۔
مسز ثمرہ طارق خان کو نیم رضا مند دیکھ میرے ۔۔۔من اور لن ۔۔۔دونوں میں لڈو پھوٹنے لگے اور میں بڑی بے صبری سے اگلے دن کا انتظار کرنے لگا ۔۔ اگلے دن وہ مقررہ وقت سے تھوڑا لیٹ نیٹ پر آئی اور ۔۔ آتے ساتھ ہی میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنا شروع ہو گئی ۔۔۔ ادھر میں ان سے ملنےوالی بات کو جاننےلیئے بہت بے تاب ہو رہا تھا ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں وہ اس طرف نہیں آ رہی تھی ۔۔۔ میرے بار بار پوچھنے پر آخر وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ ٹھیک ہے دوست ۔۔ تمہاری فرمائیش پر میں تم سے ملوں گی ۔۔۔ مگر میری ایک شرط ہو گی تو میں نے بلا تامل کہہ دیا کہ مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے تو وہ کہنے لگی بنا جانے تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو ؟؟۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا میری جان میں آپ سے ملنے کے لیئے ہر قیمت دینے کو تیار ہوں ۔۔۔ اسی لیئے مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے اور اب آپ بتاؤ کہ آپ کی کیا شرط ہے ؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ میری شرط یہ ہے کہ مجھ سے ملنے کے لیئے تم کو میرے گھر آنا پڑے گا ۔۔۔ پھر آگے لکھا کہ ۔۔۔۔۔ بس یہی میری شرط تھی ۔۔۔ تو میں نے جواب میں لکھا کہ جب آپ کہو گی جہاں آپ کہو گی میں وہیں پر آپ سے ملنے آؤں گا ۔۔۔
میرا جواب پڑھ کر اس نے جواب میں ایک مسکراہٹ بھیجی اور لکھا کہ اگلے اتوار کو میری ساس اور دیگر گھر والے ایک شادی پر ایبٹ آباد جا رہے ہیں میں کوئی بہانہ بنا کر رہ جاؤں گی چنانچہ تم اس دن آ جانا ۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب میں لکھا کہ جو حکم میری جان ۔۔ لیکن یہ تو بتاؤ کہ میں نے آنا کہاں ہے ؟ تو وہ کہنے لگی یہ بات بھی میں تم کو ہفتے کو بتاؤں گی –( اُف بڑی ہی محتاط خاتون تھی)
یہ ہفتہ کیسے گزرا یہ میں ہی جانتا ہوں۔۔۔ خیر جیسے تیسے گزر ہی گیا پھر حسبِ وعدہ ہفتے کی شام جب وہ مسنجر پر آئی تو میرے استفسار پر اس نے لکھا کہ اتوار کی صبع 11 بجے میں اسلام آباد کی سپر مارکیٹ میں مسڑ بکس کے سامنے پارکنگ میں آ کر کھڑا ہو جاؤں ۔۔ میں خود تم سے ملوں گی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھ سے میری بائیک کا نمبر بھی مانگا جو میں نے اسے دے دیا ۔ پھر انہوں نے مجھے خاص کر تاکید کی کہ ان کے آنے تک میں اپنی بائیک کے پاس ہی کھڑا رہوں –
پتہ نہیں اتوار کی وہ صبع سہانی تھی یا کہ ویسی ہی روٹین کے مطابق تھی کہ جیسے ہر اتوار کو ہوا کرتی ہے لیکن میرے لیئے وہ اتوار بڑی ہی خاص تھی ۔۔۔اور مجھے ہر طرف ہرا ہرا ہی دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ اس دن صبع صبع میں نے اپنی انڈر شیو کی اور اپنے لنڈ کو اچھی طرح سے نہلا دھلا اور کھلا پلا کر ایک وی آئی پی چوت سے لڑائی کے لیئے تیار کرلیا۔۔۔۔ ساری تیاریاں کرنے کے بعد میں نے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اپنے کھٹارا بائیک کو سٹارٹ کیا اور اسلام آباد کی سُپر مارکیٹ کی طرف چل دیا ایک گھنٹہ پہلے اس لیئے کہ اگر بائیک صاحب حسبِ معمول راستے میں خراب ہو گئے تو ۔۔۔ باقی آپ سمجھ ہی گئے ہوں گئے۔۔ لیکن لگتا ہے کہ اس دن میری طرح میری بائیک بھی بڑے موڈ میں تھی۔۔۔۔ اور اس کو حالت کی نزاکت کا پوری طرح ادراک تھا اس لیئے اس نے میرے ساتھ تعاون کیا اور میں بڑے آرام سکون سے سُپر مارکیٹ پہنچ گیا۔۔۔ چونکہ ان کے آنے میں ابھی کافی ٹائم تھا اس لیئے میں نے بائیک کو اپنی مقررہ جگہ پر کھڑا کیا اور خود بھونڈی کرنے مارکیٹ کی طرف چلا گیا ۔۔۔ لیکن صبع صبع کا وقت تھا اور اسلام آباد کے واسی ابھی سو رہے تھے۔۔۔ اس لیئے کوئی خاص بھونڈی نہ ہو سکی ۔۔۔ چنانچہ مارکیٹ کا ایک چکر لگانے کے بعد میں اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ مسز ثمرہ طارق خان کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔
قریباً ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا اور میں ہونقوں کی طرح ہر آنے والی گاڑی کو بڑی امید بھری نظروں سے دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک میرے پیچھے سے ایک بڑی ہی سویٹ اور سریلی سی آواز میرے کانوں میں گونجی۔۔۔۔۔ کیا تم ہی مسڑ شاہ ہو؟ وہ کیوٹ سی آواز سن کر میں ایک دم چونکا اور مُڑ کر دیکھا تو ایک بہت ہی خوبصورت ، گوری چٹی ۔۔گریس فُل اور بھرے بھرے جسم والی ماڈرن سی خاتون کو اپنے سامنے کھڑےہوئے پایا ۔۔جن کی عمر قریباً ۔30-32 سال کی ہو گی ۔۔ انہوں نے سرخ رنگ کی باریک سی کڑھائی والی پشواز پہنی ہوئی تھی جو کہ بغیر بازوؤں کے تھی ۔اور چوڑے شانے ہونے کی وجہ سے یہ سلیو لیس ان پر بہت جچ رہا تھا۔۔۔۔۔ قمیض کے نیچے انہوں نے سفید رنگ کا تنگ سا چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا پشواز لمبی ہونے کی بنا پر مجھے ان کی سڈول پنڈلیوں ۔کی تھوڑی سی ہی جھلک دکھائی دے رہی تھی کہ جن کے ساتھ ان کا تنگ پاجامہ چپکا ہوا تھا ۔ جبکہ پشواز کے اوپر ۔۔۔۔دوپٹے کے نام پر انہوں نے ایک چھوٹا سا کپڑا اپنے گلے میں لٹکایا ہو ا تھا۔۔ قمیض کے نیچے ان کا بھاری بھر کم سینہ بڑے ہی غرور سے سر اُٹھائے مجھے چیلنج دے رہا تھا کہ ہمت ہے تو آؤ ۔۔۔اور مجھے سر نگوں کر لو۔۔۔۔۔جبکہ ۔۔ کھلے گلے والی پشواز سےان کی گوری گوری اور رس سے بھری بڑی بڑی آدھ کھلی چھاتیوں باہر کو جھانک رہیں تھیں ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اس نے اپنے گورے چہرے پر ایک سیاہ رنگ کا چشمہ بھی لگا رکھا تھا جو کہ ان کے چہرے پر بہت ہی بھلا لگ رہا تھا ۔۔۔اور اپنے اس حلیئے سے وہ کوئی ماڈل لگ رہی تھی۔۔فرق صرف اتنا تھا کہ ماڈلز عام طور پر دبلی پتلی ہوتی ہیں جبکہ مسز ثمرہ طارق خان ایک بھرے بھرے جسم کی مالک خاتون تھی دوسری طرف ۔سرخ رنگ کی پشواز میں ان کا گورا رنگ بہت کِھل رہا تھا اور ان کا یہ روپ دیکھ کر مجھے ماضی کے ایک مشہور گانے کا شعر یاد آ گیااور میں اسے کہتے کہتے رہ گیا کہ
یہ سرخ جوڑا یہ بدن اور یہ تمھارا بانکپن
تم آسمانی حور ہو یا ہو فرشتے کی دلہن
میں کافی دیر تک ہونقوں کی طرح اس شاندار خاتون کو ایسے ہی دیکھتا رہا ۔۔ چنانچہ میری یہ حالت دیکھ کر پہلے تو وہ خاصی محفوظ ہوئیں پھر ہنس کر بولی۔۔۔یہیں کھڑے کھڑے دیکھتے رہو گے یا چلو گے بھی؟ اس کی بات سن کر میں نے جلدی سے کہا ۔۔۔ او ۔۔ا وکے۔۔۔ اور پھر بائیک کو سٹارٹ کرنے کے لیئے کک مارنے لگا تو یہ دیکھ کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔اس کی ضرورت نہیں تم بائیک کو ادھر ہی لاک کر کے اپنے پیچھے کھڑی وائیٹ کرولا میں آ جاؤ۔۔میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے جلدی جلدی موٹر سائیکل کو لاک کیا اور ۔۔۔۔ پھر جا کر اس کی شاندار گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔
جیسے ہی میں اس کی گاڑی میں بیٹھا اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور گاڑی کو ڈرائیو کرتےہوئے میرا حال احوال پوچھنے کے بعد بولی۔۔ ۔۔۔ کیا خیال ہے کہیں چل کے جوس نہ پیا جائے؟ تو میں نے ہنس کر کہا کہ۔۔۔ وہ تو بعد میں نہیں پیا جاتا ؟میری بات سن کر وہ بھی ہنس پڑی اور بولی ۔۔۔ بہت ناٹی ہو تم۔۔۔ اور پھر تھوڑی دور آگے جا کر اس نے گاڑی کو ایک جوس والی شاپ کے سامنے روکا اور مجھ سے کہنے لگی ۔۔ آجاؤ۔۔۔ اور میں اس کے ساتھ نیچے اتر آیا۔۔۔۔ جوس والی شاپ کے اندر ہم فیملی حال کے اس حصے میں ۔۔۔کہ جہاں پردے کا خاص انتظام ہوتا ہے جا کر آمنے سامنے بیٹھ گئے ۔۔۔ سامنے بیٹھنے کی وجہ سے مجھے ان کی کھلے گلے والی پشواز میں سے ان کی خوبصورت چھاتیوں کو کافی اندر تک دیکھنے کا نظارہ ملنے لگا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بڑی بڑی اور حسین چھاتیوں کو دیکھنے لگا۔۔میری اس حرکت کو انہوں نے نوٹ تو کیا لیکن منہ سے کچھ نہیں بولیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیبن میں بیٹھے ہوئے کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی پھر ۔۔۔انہوں نے ہی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں تم کو یہاں کیوں لائی ہوں؟ میں کچھ کچھ سمجھ تو گیا تھا ۔۔۔ لیکن جان بوجھ کر انجان بنا رہا اور ان کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔آپ مجھے یہاں پرجوس پلانے کے لیئے لائی ہیں۔۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی اور بولی ۔۔۔ کمال ہے کہانیاں تو تم اتنی اچھی لکھتے ہو ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہ میں تم کو یہاں کیوں لائی ہوں؟؟؟۔۔۔اس پر میں نے تھوڑا ۔۔۔ گھبرانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ میڈم جی میں سب سمجھتا ہوں لیکن جب سے آپ کو دیکھا ہے۔۔۔ میں ہر شے بھول کر بس آپ کے اس خوب صورت سراپے میں ہی گم ہوا جا رہا ہوں ۔۔۔ اور پھر انہیں مزید مکھن لگاتے ہوئے کہا ۔۔یقین کریں ۔ مجھ پر آپ کے حُسن کا اس قدر شدید رعب پڑا ہوا ہے کہ ۔۔مجھے آپ کے اس کو خوب صورت چہرے اور تراشے ہوئے بدن کے علاوہ اور کچھ سوجھ ہی نہیں رہا ۔۔۔ ظاہری بات ہے کہ میری یہ مکھن سے بھری گفتگو اس حسینہ کے من کو بہت بھائی اور وہ مسکرا کر کہنے لگی۔۔۔ تم باتیں بہت دل لبھانے والی کرتے ہو۔۔ اور پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مزید کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ میں تم کو یہاں اس لیئے لائی ہوں کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں مزید کچھ جان سکیں ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ مسنجر پر جو اتنی باتیں کیں ہیں اس کے بعد بھی کوئی گنجائش رہتی ہے؟ ؟ تو وہ بڑے مُہذب انداز میں بولی کہ دیکھو کمپیوٹر پہ چیٹ کرنے اور آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ تمہارے گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں؟ تو میں نے ان کو اس کا درست جواب دیا پھر اس کے بعد انہوں نے مجھ سے میری تعلیم اور اس سے جُڑی دیگر باتیں پوچھیں ۔ اور پھر اس طرح کافی دیر تک وہ میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتیں رہیں ۔۔۔ خاص طور پر انہوں نے مجھ سے خواتین کے بارے میں پوچھا کہ میں ان کو سیکس کے لیئے کیسے راضی کرلیتا ہوں؟ (اس کا اصل جواب تو یہ بنتا تھا کہ ان کو میں کہاں راضی کرتا ہوں وہ تو پہلے سے ہی راضی ہوتی ہیں ) لیکن یہاں میں نے ان کے اس سوال پر کہ میں لیڈیز کو اپنے ساتھ کیسے سیکس کے لیئے راضی کر لیتا ہوں؟ ان کے اس سوال پر میں نے ترنت ہی جواب دیتے ہوئے کہا کہ جیسے آپ کو راضی کیا ہے میری بات سن کر وہ کُھل کر ہنسی۔۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔۔۔تم بہت حاضر جواب ہو۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی دونوں کہیناں میز پر رکھیں اور آگے جھک کر میرے ساتھ بات چیت شروع کر دی ان کےآگے جھکنے کی وجہ سے میری نظر ان کے کھُلے گلے والی پشواز سے ہوتی ہوئی ۔۔۔ان کی بھاری چھاتیوں کے اندر تک چلی گئی۔۔۔ جن کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔ مجھے اپنی طرف یوں ٹکٹکی باندھ کے دیکھتے ہوئے ان کی پشواز کی طرح ان کا چہرہ بھی سُرخ ہو گیا ۔۔۔اور وہ بار بار اپنے خشک ہوتے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگیں۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ باتیں کرتے ہوئے جزبات کی شدت کی وجہ سے وہ بیچ بیچ میں اٹکنے بھی لگیں ۔۔ آخر کار میری نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ ایک دم تھوڑا اور آگے جھکیں اور جزبات سے بھر پور سرگوشی نما سیکسی آواز میں کہنے لگیں۔۔۔۔رائیٹر ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے نا کہ میں بہت گرم لیڈی ہوں ۔۔۔۔ ۔۔۔کیا تم مجھے ہینڈل کر لو گے؟ مسز ثمرہ طارق خان کی بات سُن کر میں بھی جوش میں آ گیا ۔۔۔ اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔۔۔۔۔ میڈم ۔۔۔میرا ۔۔کیلا بھی بہت موٹا اور سخت ہے ۔۔۔ کیا آپ کی اس کے طاقتور دھکے سہہ لیں گی؟
میری جزبات سے بھر پور آواز سن کر ثمرہ طارق خان نے ایک گہری سانس لی اور بڑی شہوت بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہی پھر ۔۔۔۔۔اچانک باہر سے کسی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن کر وہ ایک دم چونکیں ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی ٹانگوں کو لمبا کر کے میرے پاؤں سے اپنا پاؤں ٹچ کیا اور قدرے مزاحیہ اور خوشگوار انداز میں مجھے اُٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ آ دیکھیں زرا کس میں کتنا ہے دم۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی اپنی سیٹ سے اُٹھی ۔۔۔۔ اور ہم دونوں چلتے ہوئے کیبن سے باہر ا ٓگئے۔۔ ۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ باہر نکلنے کے بعد ۔۔۔۔اور گاڑی میں بیٹھنے تک وہ کسی نامعلوم سوچ کے تحت چُپ رہیں ۔۔۔۔ لیکن جب ہم لوگ مارگلہ روڈ پر آئے تو تھوڑی دور جا کر انہوں نے اپنی گاڑی کو سڑک کے کنارے ایک درختوں کے جھنڈ کے پاس روک لیا ۔۔۔۔اور میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ ۔۔ مسٹر ۔۔تم لکھنے اور باتیں کرنے دونوں میں بہت ماہر ہو۔۔۔ میں نے ان کی بات کا جواب دینے کی بجائے ۔۔ ایک دم سے اپنے چہرے کو ان کے قریب لے گیا اور اس کے ساتھ ہی ان کو گردن سے پکڑ کر اپنا منہ ان کے منہ کے پاس لے گیا۔۔۔۔۔۔اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔اُف۔ف۔ف۔۔ان کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑی کی طرح بہت نرم تھے ۔۔اور میں ان کے ہونٹوں کے رس کو چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔۔میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھنے سے وہ کچھ دیر کسمسائیں ۔۔۔۔اور پھر اپنے چہرے کو ایک سائیڈ پر کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔ ارے ارے۔۔۔۔۔ یہاں نہیں ۔۔۔۔۔یہ سب گھر جا کر کرنا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوبارہ سے اپنی گاڑی سٹارٹ کر لی ۔۔۔۔۔اور اپنے ہونٹوں پر لگی میرے تھوک کی ایک چھوٹی بوند کو اپنی زبان سے چاٹ لیا ۔اور بڑی ہی پُر ہوس نظروں سے گاڑی چلاتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔ سوادیش ہے!!!! ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اتنی بات کر تے ہی پتہ نہیں کہ انہیں کیا ہوا ۔۔۔۔ کہ انہوں نے اپنی گاڑی کو ایک ایسے راستے پر موڑ لیا جو کہ پیر سوہاوا کی طرف نکلتا تھا ۔۔۔یہ دیکھ کر میں ان سے بولا ۔۔۔ میم یہ راستہ تو پیر سوہاوا کی طرف نہیں جاتا؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں۔۔۔۔ ہاں ادھر ہی جاتا ہے۔۔۔اور گاڑی چلاتے ہوئے ۔۔۔۔ کافی آگے جا کر ایک سنسان سی جگہ پر دوبارہ سے گاڑی کو روک لیا ۔۔۔اور ایک بار پھر میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ شاہ جی ۔۔۔سب سے پہلے تو میں تمھارا ۔۔۔۔ وہ موٹا اور لمبا کیلا دیکھنا چا ہوں گی کہ جس کے بارے میں تم اپنی کہانیوں میں بہت شور کرتے ہو۔۔
میرا لن پہلے ہی پینٹ سے باہر آنے کو مچل رہا تھا چنانچہ ان کی بات سنتے ہی میں نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور پھر انڈوئیر کے سوراخ سے لن کو باہر نکلا ۔۔۔ اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ان کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ لوجی۔۔۔۔ خود ہی دیکھ کر بتاؤ کہ میرا کیلا کیسا ہے؟ اور یہ جو میں اپنی کہانیوں میں اس کے بارے میں شور مچاتا رہتا ہوں ۔۔۔۔۔وہ بات درست ہے ۔۔۔یا۔۔۔میں نے اتنی بات کر کے دیکھا تو ۔مسز ثمرہ طارق خان ٹکٹکی باندھی میرے لن ہی کی طرف دیکھے جا رہیں تھیں۔۔۔اور اب انہوں نے لن کو دیکھ کر اپنے دونوں ہونٹ سکیڑ لیئے تھے۔۔۔ اور بار بار ۔۔۔ کبھی میرے اور کبھی میرے لن کی طرف دیکھتی جا رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر بولا۔۔۔۔ سچ سچ بتا ؤ میم۔۔۔۔۔ آپ کو میرا کیلا کیسا لگا؟ ۔۔میری بات سن کر انہوں نے نے میرے لن کو اپنے نازک ہاتھ میں جکڑ لیا ۔۔۔اور اس کا تناؤ چیک کرنے لگیں ۔۔ جو کہ اس وقت کسی لوہے کے راڈ کی سخت اور پوری طرح اکڑا ہوا تھا۔۔ ۔۔۔پھر انہوں نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لیئے ہوئے دبایا اور اس کے بعد اپنے ہاتھ کو لن پر اوپر نیچے کرتے ہوئے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ؤاؤؤؤؤؤؤؤؤ ۔۔ شاہ جی!!!!!! ۔۔ تمہارا مال تو بہت اچھا ہے۔۔۔۔ پھر اس نے میرے دبلے پتلے جسم پر ایک نگاہ ڈالی ( اس وقت میں کافی ماڑو سا ہوا کرتا تھا ) اور بولیں ۔۔۔ لیکن ۔۔تمہاری باڈی کے حساب سے یہ تھوڑا "اوورسائز" ہے۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی وہ دوبارہ سے میرے لن پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔۔۔ اسے ۔۔۔ سہلانے لگی۔۔۔ سہلاتے سہلاتے انہوں ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اورکہنے لگیں اسے دیکھ کر میر ے تو منہ میں پانی آ گیا ہے یہ کہتے ہوئے وہ اپنے منہ کو میرے لن کے قریب لے آئیں میں یہ سمجھا کہ اب وہ لن کو اپنے منہ میں لیں گی ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔۔۔ بلکہ اپنے منہ کو میرے لن کےقریب لا کر اس پر تھوک کا ایک گولا سا پھینکا ۔۔اور پھر اپنے مریں مریں ہاتھ سے اس تھوک کو اچھی طرح سے میرے سارے لن پر مل دیا ۔۔۔۔اور پھر میری مُٹھ مارتے ہوئے شرارت سے بولی۔۔۔۔۔۔ تم کیا سمجھے تھے کہ میں اس کو اپنے منہ میں لینے لگی ہوں؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ اس پر وہ اپنے ہاتھ کو میرے لن پر آگے پیچھے کرتے ہوئے سرگوشی میں کہنے لگی۔۔۔۔ تمہارے لن کو منہ میں نہ ڈالنے سے تم تھوڑے مایوس ہوئے تھے نا ۔۔۔ تو میں نے ایک بار پھر اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ مایوس نہ ہو میری جان ۔۔۔۔لو میں تمھارے لن کو اپنے منہ میں ڈالتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے سر کو نیچے جھکایا اور ۔۔۔۔۔ سب سے پہلے میرے لن کے ہیڈ پر اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی۔۔ ۔۔۔
لن کے ہیڈ پر زبان پھیرتے پھیرتے اچانک ہی انہوں نے اپنا منہ کھولا اور میرے لن کو اپنے منہ کے اندر تک لے گئیں ۔۔۔۔اور اس کے بعد وہ بڑی ہی بے اختیاری ، بے قراری اور بے خودی میں آ کر میرا چوپا لگانے لگیں ۔۔ وہ کبھی تو اوپر سے نیچے تک میرے لن پر زبان پھیرتی اور کبھی ۔۔۔۔ پورے لن کو منہ میں ڈالنے کو کوشش کرتی لیکن ظاہر لن بڑا ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر پاتیں تھیں ۔لیکن کچھ بھی ہو وہ چوپا بہت مزے کا لگاتی تھیں۔۔۔۔۔کافی دیر تک وہ میرے لن کے ساتھ ایسے ہی مستیاں کرتی رہیں اور ان کی یہ مستیاں دیکھ کر مجھ میں بھی مستی چڑھتی چلی جا رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔ بلا شبہ ان کا لن چوسنے کا انداز بڑی ہی سیکسی تھی وہ اس وقت فُل شہوت میں لگ رہیں تھیں ۔۔۔اور ان کے انگ انگ سے شہوت ٹپک رہی تھی ۔۔۔ کچھ دیر بعد انہوں نے میرے لن سے سر ہٹایا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔۔ایسا ہی لن میری ڈریم تھا۔۔۔ پھر بولی ۔۔ کیا تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے لن کو اتنی بے خودی سے کیوں چوس رہی ہوں؟ تو میں جو اس وقت مزے اور مستی کے سمندر میں غرق تھا ۔۔۔ نے نفی میں سر کو ہلا دیا ۔۔۔۔ منہ سے کچھ نہیں بولا۔۔۔۔یہ دیکھ کر بڑی ہی مست اور شہوت بھری آواز میں کہنے لگی تم نہیں مانو گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ تمھارا لن بلکل میرے شوہر کے لن جتنا موٹا اور بڑا ہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی تمہارے لن اور اس کے لن میں بس ایک فرق ہے۔۔۔ میرے پوچھنے پر وہ کہنے لگیں کہ اور وہ فرق یہ ہے کہ ۔۔۔ میرے ہسبینڈ کا لن اس وقت تک کھڑا نہیں ہوتا تھا کہ جب تک میں اسے اپنے منہ میں ڈال کر اچھی طرح سے چوس نہ لوں ۔۔۔۔ جبکہ تمھارا لن تو پہلے سے ہی کھڑا تھا۔۔۔۔۔ تو میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا کہ میم آپ جیسی آگ لیڈی کو ننگا دیکھ کر بھی ان کا لن خود بخود نہیں کھڑا ہوتا تھا ؟ جبکہ میرا تو آپ کو دیکھ کر ہی کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی اور لن پر تھوڑا تھوک پھینک کر اپنے ہاتھ کو آگے پیچھے کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔تم میں اور ان میں ۔۔۔۔فرق ہے میری جان بہت فرق ہے۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیسا فرق ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تمہارے لیئے میں ایک ڈریم لیڈی ہو سکتی ہوں جبکہ اس کے لیئے میں گھر کی مُرغی تھی۔۔۔ پھر کہنے لگی ویسے بھی ۔۔۔ وہ ایک بڑے باپ کو بیٹا ہے اس کو مجھ جیسی ہزاروں ملیں تھیں ۔۔۔ اسی لیئے اس پر میرے حسن کا اتنا رُعب نہیں پڑتا تھا ۔۔۔ جتنا کہ تم پر پڑا ہے۔۔۔پھرمیری طرف دیکھ کر بڑے ہی شہوت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔ تمہارے خیال میں ۔۔۔ میں کیسی ہوں؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ بہت خوب صورت ، سیکس کی ملکہ اور شہوت کی رانی ہو میری بات سُن کر ان کا چہرہ جزبات کی شدت سے گلِ گُلنار ہو گیا اور شہوت کی تپش ان کی آنکھوں سے جھلکنے لگیں ۔۔۔اور اسکے ساتھ ہی انہوں نے اپنا منہ میرے منہ کے بلکل قریب کر لیا ۔۔۔۔۔
۔ ان کی سانسوں سے بڑی ہی مست سی مہک آ رہی تھی ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے منہ سے اپنی زبان نکلی اور میرے سامنے لہرانے لگیں ۔۔۔۔ پھر زبان کو اپنے منہ میں لیا اور ۔۔۔۔۔میری طرف دیکھ کر سرگوشی میں کہنے لگیں ۔۔۔رائیٹر!!! ۔۔۔ تم نے بڑی بڑی سیکسی لیڈیز کی زبانیں چوسیں ہوں گی ۔۔۔۔ لیکن میرا دعوٰی ہے کہ میری زبان جیسی زبان تم پہلی بار چوسو گے ۔۔۔۔پھر میرے گال پر اپنے زبان پھیر کر بولیں۔۔۔۔ میری زبان سے زیادہ رسیلی زبان تم نے آج تک نہیں چوسی ہو گی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور اسے میرے سامنے لہرانے لگیں ۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے فوراً ہی اپنا منہ کھولا اور ان کی زبان کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔جیسے ہی ان کی زبان میری زبان سے ٹچ ہوئی تو مجھے ایسا لگا کہ مزے کا ایک طوفان میرے منہ میں چلا آیا ہو ۔۔ ان کی زبان چوس کر معلوم ہوا کہ مسز ثمرہ طارق خان ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں ۔۔واقعی ہی ان کی زبان میں بہت ٹیسٹ تھا اور ان کے منہ میں ایک عجیب سی مست سی مہک تھی ۔۔۔ میں جب ان کی زبان کو اپنے ہونٹو ں میں لیکر کر چوستا تو ایسا لگتا کہ جیسے میں کسی مزے سے بھر پور شہوت سے بھری کسی مست چیز کو چوس رہا ہوں۔۔۔یا پھر۔۔۔جب وہ بڑی مہارت سے اپنی زبان کو میری زبان کے ساتھ ٹکراتی تھیں تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے شہوت کی آگ ان کے منہ سے نکل کر میرے جسم میں بھرتی جا رہی ہو اور مجھے ایک شدید کرنٹ لگتا تھا۔۔۔۔۔۔ منہ سے منہ ملنے اور ایک دوسرے کی زبانوں کو چوسنے کے عمل سے ہم دونوں کے تھوک بھی ایک دوسرے کے منہ میں آ جا رہے تھے ۔۔۔۔ اور یہاں میں اس چیز کا برملا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ مسزثمرہ طارق کے منہ سے نکلنے والا تھوک بھی ان کی زبان کی طرح کافی رسیلا اور ذائقے دار تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کی بھاری چھاتیاں بھی دبا رہا تھا ۔۔۔جبکہ وہ میرے لن کو دبائے جا رہیں تھیں ۔اور ہم دیوانوں کی طرح کسنگ کرنے میں مصروف تھے۔۔بلا شبہ زبانوں کے بوسے نے ہم دونوں میں بہت زیادہ آگ بھر دی تھی۔۔
کافی دیر تک کسنگ کرنے کے بعد انہوں نے اچانک ہی اپنے منہ کو میرے منہ سے الگ کیا اور ۔۔۔ڈرائیونگ سیٹ پر ٹیک لگا کر ہانپنے لگیں۔۔ ادھر ان کے اچانک منہ ہٹانے سے میں تھوڑا ۔۔۔ حیران تھا چنانچہ اسی حیرانی کے عالم میں میں نے ان سے پوچھا کیا ہوا۔۔۔ تو وہ ہانپتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔کچھ نہیں یار ۔۔۔ پھرمیری طرف دیکھ کر بڑے ہی پیار بھرے لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ تمہاری اتنی پُرجوش کسنگ نے میری تو جان ہی نکال دی ہے۔۔۔ پھر اچانک ان کی نظر نیچے میری تنے ہوئے لن پر پڑی تو وہ بے اختیار اس کی طرف کھینچی چلی گئیں اور ایک دم سے میرے کو اپنے منہ میں لے لیا اور ۔۔۔اسے چوسنے لگیں ۔۔۔۔۔لن چوسنے کے تھوڑی دیر بعد انہوں نے میرے لن سے منہ ہٹایا اور ۔۔ ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بولیں۔۔۔ کیا خیال ہے چلا نہ جائے کہ مجھے تمھارے لن کی شدید طلب ہو رہی ہے ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی اور اسے واپس موڑتے ہوئے میرے لن کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ اس کو واپس ڈال لو ۔۔ کہ کہیں پھر سے میرا موڈ نہ بن جائے ۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے لن کو دوبارہ سے اپنی پینٹ میں ایڈجسٹ کر کے زپ بند کرنے لگا تو وہ کہنے لگیں نو۔۔نو ۔۔اسے باہر نکالو ۔۔۔ اوران کے کہنے پر میں نے دوبارہ سے لن کو اپنی پینٹ سے باہر نکلا اور اس ان سے پوچھا ۔۔ میم۔۔ابھی تو آپ اس کو اندر ڈالنے کی بات کر رہیں تھیں؟؟؟؟؟۔۔۔۔ تو وہ مسکرا کر کہنے لگی۔۔۔وہ تھوڑی دیر پہلے کی بات تھی۔۔۔۔ اب میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے تمھارے لن کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے رکھوں گی۔۔۔۔ اور سچ مُچ انہوں نے سارا راستہ میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھا اور اسے دباتی رہیں ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے ا ن سے پوچھا ثمرہ جی ۔تھوڑی دیر پہلے آپ کس موڈ کی بات کر رہی تھیں ؟؟ ؟ تووہ گاڑی چلاتے ہوئے بولی۔۔۔ کیا مطلب؟ تو میں نے ان کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہ جو ابھی آپ نے کہا تھا کہ اس کو واپس ڈالو کہیں میرا موڈ نہ بن جائے۔۔۔۔ اس والے موڈ کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بولیں ۔۔اوہ اچھا ۔۔۔ پھر پولیں۔۔۔چوپے کا موڈ میری جان۔۔ ۔۔۔کہ تمہارے شاندار لن کو دیکھ کر کسی سیکسی لیڈی کا اور کیا مُوڈ ہو سکتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے ان سے کہا جتنا مرضی ہے لن چوسو منع کس نے کیا ہے؟ میری بات سن کر انہوں نے اپنی گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ایک ہے منع کرنے والی ۔۔۔ تو میں نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔ کون ہے وہ؟ تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اور پھر اپنی پشواز کو اوپر کر کے اپنی پھدی پر میرا ہاتھ کر بولی ۔۔۔ یہ سالی منع کر رہی ہے ۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ ان کی چوت پر لگا ۔۔۔تو مجھے ایک دم شاک سا ہوا ۔۔ کیونکہ ان کی چوت بہت ہی گرم اور گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ان سے کہا۔۔۔۔۔ میم آپ تو نیچے سے بہت گیلی ہو رہی ہو ۔۔تو وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔ اتنی ساری کسنگ ۔۔اتنے سارے چوپے کے بعد بھی تمھارا کیا خیال ہے اس کو خشک رہنا چاہیئے تھا۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔
پھر اگلے ہی لمحے مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ۔۔۔۔تم کو پتہ ہے کہ میری چوت میں کس قدر پانی جمع ہے تو میں نے ان سے کہا جی میں نے ہاتھ لگا کر اندازہ کر لیاہے کہ آپ کی چوت میں کتنا پانی جمع ہے ۔۔۔ تو وہ میرے لن پر ہاتھ پھیرتے ہو ئے کہنے لگیں۔۔۔۔ یہ سارا کیا دھرا تمھارے اس لن کا ہے کہ جب سے میری اس پر نگاہ پڑی ہے۔۔۔تب سےہی میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ہے ۔۔۔ان کی بات سن کر میں دوبارہ سے اپنا ہاتھ ان کی دونوں رانوں کے بیچ میں لے گیا ۔۔۔ میرا ہاتھ ان کی رانوں میں جانے کی دیر تھی کہ انہوں نے اپنی ٹانگیں تھوڑی مزید کھول دیں اور میں نے ان کے چوڑی دار پاجامے کے اوپر سے ہی عین ان کی پھدی کے ہونٹوں پر انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں۔۔۔۔ اُف ان کی پھدی کے دونوں ہونٹ بہت ہی نرم اور بہت ہی گرم تھے اور ان کے چوڑی دار پاجامے سے ان کی چوت کا پانی رس رس کے باہر آ رہا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے ان کی چوت پر رکھی ہوئیں میری انگلیاں بھی گیلی ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔میں کچھ دیر تک ان کی پھدی کے دنوں ہونٹوں کو سہلاتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کچھ دیر تک ان کی پھدی سہلانے کے بعد میں نے ان کے چوت سے اپنے ہاتھ کو ہٹایا اور پھر ان گیلی انگلیوں کو چاٹ کر بولا ۔۔۔۔۔ ثمرہ جی آپ کی چوت کے پانی کا ٹیسٹ بہت رِچ ہے ۔۔۔
میری بات سن کر وہ کہنے لگیں تمہاری مزی بھی کم ٹیسٹی نہیں ہے میری جان ۔۔۔۔ اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے ہم ان کی گلی میں داخل ہونے لگے تو اس سے کچھ پہلے وہ بولیں میرا گھر قریب آ رہا ہے تم اسے (لن کو) اندر کو لو۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے جلدی سے لن کو پینٹ کے اندر کیا اور زپ بند کر کے نارمل ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ہم اس کے گھر میں تھے وہ ایک بڑا سا گھر تھا ۔۔۔ سامنے ایک بڑا سا لان تھا جس کی باؤنڈری وال کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی کیاریاں بنی ہوئیں تھیں اور ان کیاریوں کافی سارے پھول اُگے ہوئے تھے ۔۔ میں نے ان میں سے ایک پھول توڑا ۔۔۔اس پھر مسز ثر ہ طارق کے سامنے انگریزی فلموں کے ہیرو کی طرح پہلے تو تھوڑا سا جھکا ۔۔۔۔ پھر میں نے اپنا ایک گھٹنا زمیں پر رکھا اور پھر بڑے ہی رومینٹک انداز میں ان کو پھول کو پیش کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ میری طرف سے یہ پھول اس خاتون کے نام جو بہت ہی سیکسی ۔۔۔ بہت ہی کیوٹ بہت ہی ہاٹ اور بہت ہی۔۔۔۔۔ اعلیٰ شخصیت کی مالک ہے۔۔۔میرا اس رومینٹک انداز دیکھ کر وہ بڑی متاثر ہوئی اور اس نے مجھ سے نہ صرف پھول وصول کیا بلکہ مجھے ایک زبردست کس بھی دی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے بیڈ روم میں لے آئی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا ۔۔۔۔۔۔ وہ بیڈ روم کے فرش پر بچھے دبیز قالین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور خود ہی میری پینٹ کی زپ کھولنے لگیں ۔۔اور پھر لن کو باہر نکال کر جلدی سے اپنے منہ میں ڈال لیا۔۔۔ اور بڑی ہی شدت سے چوپا لگانے لگیں۔۔۔۔۔
ان کے چوپے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کچھ ہی دیر بعد مجھے ایسا لگا کہ میں اب گیا کہ اب گیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔میرے جزبات شدید ہو گئے اور پھر میں نے ان کے سلکی بالوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے لن کو ان کے منہ میں تیزی کے ساتھ اِن آؤٹ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنے لگا ۔۔۔اور میں تیز تیز سانس لیتے ہوئے کراہنے لگا ۔۔۔تجربہ کار میڈم بھی سمجھ گئی کہ میں ڈسچارج ہونے والا ہوں اور ۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہی وہ پہلے سے زیادہ پُرجوش طریقے سے چوپا لگانے لگی۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔اور ۔۔۔۔ پھر جیسے ہی میں نے کراہتے ہوئے ۔۔۔اوہ ۔۔۔اوہ۔۔۔ کہا۔۔۔تو اس نے جلدی سے میرا لن منہ سے باہر نکلا اور صرف ٹوپے کو ہی اپنے منہ میں رہنے دیا۔۔۔۔۔ادھر میرے جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور میں اس کے منہ میں ہی ڈسچارج ہونے لگا۔۔۔۔۔۔ مسز ثمرہ طارق خان نے میرے لن کو پکڑ کر اسے آگے پیچھے کرتے ہوئے مجھے مکمل طور پر ڈسچارج ہونے دیا ۔۔۔۔اور میرے لن سے نکلنے والی منی کے آخری ڈراپ کو بھی اپنے منہ میں محفوظ کر لیا ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی ان کو اندازہ ہو ا کہ میرا لن منی سے خالی ہو گیا ہے تو وہ بھاگ کر واش روم میں چلی گئیں اور ساری منی کو واش روم میں تھوک کر واپس آ گئیں۔۔۔۔اور میری طرف دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگیں ۔۔۔۔مجھے معلوم تھا کہ تم جلد ہی فارغ ہونے والے ہو اسی لیئے میں نے تمہارا چوس کے اپنا بھی شوق بھی پورا کیا اور تم کو بھی فارغ بھی کر دیا کہ اگر میں ایسا نہ کرتی تو تم نے میرے اندر ڈال کے ایک دو گھسوں کے بعد ہی فارغ ہو جانا تھا
۔۔۔۔۔۔اور میں یہ ہر گز نہیں چاہتی تھی ۔تو میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا کہ میڈم یہ بتائیں کہ آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ میں بس چھوٹنے والا ہوں ۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگیں ارے یہ کون سی کوئی راکٹ سائیس والی بات تھی یار ۔۔۔ پھر مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ کہ دیکھو گاڑی میں جب میں نے تمھارا سک کیا تھا نا ۔۔تو اس وقت تمھارے جسم سے ہلکی ہلکی منی کی بُو آ رہی تھی۔۔۔ لیکن جب ہم گھر پہنچے اور میں نے تم کو کس کیا تو اس وقت تمھارے سارے جسم سے منی کی بہت شدید بو ا ٓ رہی تھی۔۔۔ جس سے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ اگر میں اس حال میں تمھارے ساتھ سیکس کیا تو تم بہت جلد چھوٹ جاؤ گے۔۔ اس لیئے میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی تمھارے چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں بہت حیران ہوا ۔۔۔اور دل ہی دل میں۔۔۔ ان کی ذہانت کا قائل ہو گیا۔۔۔۔
۔ادھر اپنی بات ختم کر کے وہ مجھ سے کہنے لگیں اب بولو کیا پیو گے؟؟ ۔۔۔ چائے یا کافی ۔۔۔ یا جوس ۔۔۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگیں۔۔۔۔ میرا خیال ہے جوس ہی بنا لوں کہ بقول تمھارے کرنے کے بعد جوس ہی پیا جاتا ہے اور پھر مجھے وہیں چھوڑ کر وہ کچن میں چلی گئیں اور کچھ ہی دیر بعد دو گلاس جوس کے لے آئیں۔۔۔ جوس پیتے ہوئے بھی ہم دونوں نے خوب مستیا ں کیں ۔۔۔۔ اسی دوران میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ بیٹھا ہی کب تھا جو کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔
جوس کا گلاس ختم ہوتے ہی وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔ لو جی رائیٹر صاحب جوس بھی ختم ہو گیا ۔۔۔ مسز طارق کی بات سن کر میں نے جگر پاش نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔ نہیں میم ابھی تو بہت سا جوس باقی ہے؟ تو وہ میری طرف دیکھ کرحیرانی سے کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔ زرا غور سے اپنے اور میرے گلاس پر نظر ڈالو اور بتا ؤ کہ جوس ہے یا نہیں ۔۔۔ ان کی بات سن کر میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور مسز ثمرہ طارق خان کے پاس چلا گیا ۔۔۔ پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کو بھی اُٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ ۔۔۔تو وہ میرے کہنے پر اُٹھ گیا ۔۔۔ اب میں نے ان کو اپنے اور نزدیک کیا ۔۔۔ اتنے نزدیک ۔۔۔۔ کہ میرے چہرے پر ان کی گرم گرم سانسیں ٹکرانے لگیں اور مجھےان کے ہونٹوں کی تپش اپنے ہونٹوں پر محسوس ہونے لگی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ زرا سی دیر میں ان کی سانسیں تیز ہو رہیں تھیں اور ان کا چہرہ لال ہو گیا تھا۔۔۔ اب میں ان کے ہونٹوں پر جھکا اور ان سے سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔۔۔ میم ابھی تو آپ کے ہونٹوں کاجوس باقی ہے۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بھی سرگوشی میں بڑے لاڈ سے کہنے لگیں۔۔۔ میرے ہونٹوں کا رس پیو گے؟ تو میں نے ان کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ان ہونٹوں کا رس پینے سے کوئی کافر ہی ہو گا جو کہ انکار کرے گا۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے گرم ہونٹوں کو ان کے نرم ہونٹوں پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔ اور ان کو اپنے منہ لیکر چوسنے لگا۔۔۔۔ ان کے ہونٹ گلاب کی پتی کی طرح نرم تھے اور ان کے منہ سے سٹرا بری جوس (جو کہ ہم نے ابھی ابھی پیا تھا) اور سیکسی سی مہک کی ملی جلی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔۔۔ اور میں ان کے ہونٹوں کی مستی میں ڈوب کر ان کو چوس رہا تھا۔۔۔ایک طویل کس کے بعد جب انہوں نے اپنا منہ میرے منہ ہٹایا ۔۔۔۔۔ تو میری طرف دیکھ کر شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ میرے ہونٹوں کا رس کیسا تھا؟
تو میں نے ان سے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ مت پوچھ ظالم ۔۔۔۔ بس اتنا بتاتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ میں نے ایسے رسیلے ہونٹ آج تک نہیں چوسے۔۔۔۔ یہ بات سن کر انہوں نے اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور میرے سامنے لہرا کر ایک بار پھر بولیں ۔۔۔۔۔ اب میری زبان کا ٹیسٹ بھی چیک کرو۔۔۔کہ اس سے زیادہ ٹیسٹی زبان بھی تم نے آج تک نہیں چوسی ہو گی۔۔۔۔۔اور یہ کہتے ہوئے خود ہی اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ان کی زبان کا ذائقہ بہت ہی مست اور عمدہ تھا۔۔اور ان کی زبان چوسنے سے میں مزید مست ہو رہا تھا ۔۔۔۔اور یہ زبانوں کا یہ ملاپ ہم دنوں میں شہوت کی آگ بھر رہا تھا ۔۔۔تبھی تو میم نے کسنگ کرتے ہوئے میری پینٹ کی زپ کھول کر لن کو باہر نکال لیا تھا اور پھر میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس کی نوک کو اپنے چوڑی دار پاجامے کے اوپر ہی سے اپنی پھدی کے ساتھ رگڑنے لگیں ۔اور جب میرے سخت لن کی نوک ان کی پھدی کے نرم نرم ہونٹوں پر رگڑ کھاتی تھی تو وہ مدہوش ہو کر مزید میرے ساتھ جُڑ جاتی تھیں۔۔
میں کافی دیر تک ان کی زبان کو چوستا رہا اور جب ان کی زبان کو چوس چوس کربے حال ہو گیا تو میں نے اپنے منہ کو ان کے منہ سے ہٹایا اور ۔۔۔ اور تھوڑا پیچھے ہٹ کر ان کی پشواز کو اتارنے لگا۔۔۔۔۔ سرخ رنگ کی پشواز کے نیچے انہوں نے اسی رنگ کی برا بھی پہنی ہوئی تھی۔۔۔۔ جو انہوں نے خود ہی اتار دی۔۔۔۔اور اب میرے سامنے مسز ثمرہ طارق خان ۔۔۔ ٹاپ لیس کھڑی تھیں۔۔۔ان کی چھاتیاں کافی بڑی لیکن لمبوتری اور قدرے لٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔ اور ان لمبوتری چھاتیوں پر براؤن رنگ کے موٹے موٹے نپل بھی تھے۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ان کی دائیں والی چھاتی کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور مسز طارق سے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ میڈم کیا آپ اپنی زبان سے اس نپل کو چھو سکتی ہو۔۔۔تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ ہاں نہ صرف چھو سکتی ہوں بلکہ میں یہ نپل چوس بھی سکتی ہوں تب میں نے ان سے کہا کہ چلیں آیئے ہم مل کر آپ کی خوبصورت چھاتیوں کے نپلز کو چوستے ہیں ۔۔۔اور پھر ان کی چھاتی کو اوپر ان کے منہ کی طرف کر کے ان کی اس چھاتی پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔۔۔ میری دیکھا دیکھی انہوں نے بھی اپنی لمبی زبان سے اپنی نپل کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اسطرح بیک وقت ہم دونوں مل کر ان کی چھاتیوں کے اکڑے ہوئے نپلز کو باری باری چوسنے اور چاٹنے لگے ۔۔۔ اور اس دوران کبھی کبھی ہماری زبان ایک جگہ پر اکھٹی بھی ہو جاتیں تھی تو ہم نپلز کو چھوڑ کر اپنی زبانوں کو لڑانا شروع ہو جاتے تھے۔۔۔۔۔کافی دیر تک ہم یہ گیم کھیلتے رہے پھر۔۔۔۔۔ اس کے بعد ہم نے ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ کسنگ کی اور پھر ہم الگ الگ ہو گئے۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔تم بھی اپنے کپڑے اتارو نا ۔۔۔اور ان کے کہنے پر میں نے جلدی سے اپنے کپڑے اتار دیئے اور ان کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔تو وہ اپنا چوڑی دار پاجامہ اتار رہیں تھیں ۔۔۔۔ ان کو پاجامہ اتارتےدیکھ کر اچانک میرے زہن میں ایک آئیڈیا آیا اورمیں نے ان کو پاجامہ اتارنے سے منہ کر دیا۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ پاجامہ اتارتے ہوئے رک گئیں اور مستی بھرے لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں چودنا نہیں ۔۔؟ تو میں نے کہا جی چودنے کے لیئے ہی تو آیا ہوں ۔۔اور پھر ان کے قریب چلا گیا اور ان کے پاجامے کو غور سے دیکھنے لگا۔۔۔۔ان کا پاجامہ ان کی ٹانگوں کے۔۔۔۔ان کی رانوں کے ساتھ بلکل چپکا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور اس ٹائیٹ پاجامے میں ان کی چوت کے آس پاس کا ایریا ۔۔۔۔ بہت گیلا ہو رہا تھا ۔۔ تب میں نے ان کے پاجامے کو نیفے سے(نالے والی جگہ) سے پکڑا اور اس کو مزید اوپر کی طرف کھینچا۔۔۔۔۔اس طرح ان کا پاجامہ مزید اوپر ہو گیا ۔۔۔ اور میرے اس طرح کرنے سے انکے پاجامے کا نچلا حصہ ان کی چوت کی پھاڑیوں میں گھس گیا اور میرے اس طرح کرنے سے ان کی چوت کی دونوں پھاڑیاں الگ الگ نظر آنے لگیں ۔۔۔ اور ان کا پتلا سا ۔۔۔ تنگ سا۔۔پاجامہ ان کی چوت کے ہونٹوں سے بڑی ہی سختی کے ساتھ چپک گیا جس سے ان کی چوت کی لکیر مزید گہری ہو کر دو حصوں میں واضع نظر آنے لگی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ایک دفعہ پھر ان کے نیفے کو مزید اوپر کھینچا۔۔۔۔ اور میرے اس طرح کرنے سے ان کے چوت کے لبوں کو ایک میٹھی سی رگڑ لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور پاجامے کا نچلا حصہ ( جس کو غالباً آسن بولتے ہیں ) ان کی چوت کی لکیر میں کُھب سا گیا۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔ کیا کر رہے ہو جان۔۔۔۔۔۔ اب چودو نا۔۔۔ پلیزززززززززززززززززززز۔۔۔۔۔لیکن میں نے ان کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا ۔۔۔۔اور ان کی چوت کی لکیر میں دھنسے ہوئے پاجامے کو چاٹنا شروع ہو گیا ۔پہلے تو میم کو کچھ سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ لیکن جب میری زبان ان کی چوت کی دراڑ میں گھسی تو وہ میرا پلان سمجھ گئیں ۔۔۔اور آہیں بھرنے لگیں۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی میری زبان نے ان کی چوت کی دراڑ کو چھوا ۔۔۔تو مجھے ان کا پاجامہ خاصہ گیلا اور ۔۔۔ چوت کے رس سے لبریز لگا۔۔ چنانچہ جیسے جیسے میں ان کی چوت کی دراڑ میں پھنسے پاجامے پر زبان پھیرتا ۔۔ویسے ویسے ان کی چوت کے اندر سے پانی کے رسنے کی رفتار تیز ہو جاتی اور ۔۔۔ ان کی چوت کا یہ رس ان کے چوڑی دار پاجامے سے چھن چھن کر باہر نکلنے لگتا جسے میں اپنی زبان پر لیکر چاٹ جاتا۔۔۔۔۔۔۔ چوت کے دراڑ میں کچھ دیر تک زبان پھیرنے کے بعد۔۔۔۔۔ میں نے ان کے چوت موٹے موٹے ہونٹوں کو اپنے دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔اور ۔۔۔ ان کے ہونٹوں کو کاٹنے کی دیر تھی کہ ان کے منہ سے لزت آمیز ۔۔سسکیاں سی نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔آ۔آہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔سس۔۔۔۔۔ اُف تم کتنے سیکسی ہو جان۔۔۔۔ اب بس بھی کرو نا۔۔۔۔ اور جب وہ زیادہ مزے میں آتیں تو کہنے لگتیں ۔۔۔۔تھوڑا زور سے کاٹ ۔۔۔آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔ لو یو ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔
ادھر ثمرہ میم شہوت سے بھر پور انداز میں چیخ چلا رہی تھی اور ادھر میں اپنے دانتوں سے ان کی چوت کے موٹوں لبوں کو کاٹے جا رہا تھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے ان کے بہت موٹے اور پھولے ہوئے دانے کو بھی رگڑ رہا تھا۔۔۔۔ مجھے اس طرح کرتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ثمرہ میم نے میرے سر کو زور سے پکڑا اور میرے منہ کو اپنی پھدی کے چھید کے عین درمیان میں لے جا کر دبانے لگی ۔۔۔۔ جس سے میں فوراً سمجھ گیا کہ اب میم کی چوت پانی چھوڑنے والی ہے۔۔۔۔۔وہ میرے منہ کو اپنی پھدی کے چھید میں ذور ذور سے دبا کر کہے جا رہی تھی۔۔۔ کہ ۔۔۔۔ کاٹو۔۔۔ میرے دانے کو بھی کاٹو نا ۔۔۔ تم مجھے چودتے کیوں نہیں سالے حرام ذادے۔۔۔۔۔ اور پھر اسی آہ بکا میں اچانک ان کی چوت سے بہت سا پانی نکلا جو کہ ان کے تنگ سے چوڑی دار پاجامے سے چھن کر باہر نکل آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس سے میرے ہونٹ میرے گال اور میری ناک غرض کہ منہ کا ہرحصہ ان کی چوت کے پانی سے گیلا ہو گیا ۔۔۔اور میں ہاتھ لگا کر اپنے منہ کو چھوا تو ان کی چوت سے نکلنے والے پانی کی ایک عجیب سی چپچاہٹ میرے سارے چہرے لگی ہوئی تھی۔۔ اس کے ہاتھ ہی میں کھڑا ہو گیا اور مسز ثمرہ طارق خان کو اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا اس وقت ان کو کافی سانس چڑھا ہو تھا ۔۔اس لیئے وہ اپنے سانس بحال کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ اب بس بھی کرو میری جان۔۔۔۔۔
اس وقت خود میری حالت بھی بہت خراب ہو رہی تھی اور میرا لن ۔۔ چوت میں جانے کے لیئے بُری سے فریاد کر رہا تھا ۔۔ ا س لیئے میں نے ان کو اپنے گلے سے الگ کیا اور ان کا منہ چوم کر بولا ۔۔۔۔ جو حکم میری جان ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی پل بھر میں ہم دونوں نے اپنے اپنے کپڑے اتار دئے۔۔۔کپڑے اترنے کے فوراً بعد ہم دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے کے لپٹ گئے ۔۔۔۔اور پھر سے انہوں نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی ۔۔۔ ابھی میں نے ان کی تھوڑی سی ہی زبان چوسی تھی کہ وہ بولیں ۔ ۔۔۔ اب میرے نپلز چوسو ان کی بات سن کر میں نے ان کے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔۔میرے نپلز چوسنے کی دیر تھی کہ ان کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔سس۔۔۔۔آہ۔۔۔ رکنا نہیں یونہی چوستے جاؤ ۔۔اور میں کافی دیر تک ان کے دونوں نپلز کو چوستا رہا ۔۔۔ پھر وہ مجھے لے کر اپنے بستر پر آگئیں ۔۔۔اور بستر پر لیٹ کر اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں اور انہیں ہوا میں لہرانے لگیں۔۔۔۔ اور بولیں۔۔۔ اوپر اوپر سے میری چوت کو تم نے تم نے کمال چاٹا ہے ۔۔اب میری ننگی چوت پر بھی اپنی زبان کا جادو جگاؤ نا پلیزززززززززززز۔
ان کی بات سن کر میں گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ان کے کھلی ہو ٹانگوں کے بیچ آ گیا ۔۔اور منہ نیچے کر کے ان کی چوت کا معائینہ کرنے لگا۔۔۔ ان کی چوت بہت موٹی ابھری ہوئی اور خاص کر ان کے چوت کو دونوں ہونٹ بہت موٹے اور کافی بڑے تھے ۔۔۔ پھدی پر ہاتھ پھیر کر دیکھا تو اس کی بلکل تازہ شیو بنی ہو ئی تھی۔۔۔ میرے خیال میں میرے پاس آنے سے پہلے انہوں نے چوت کے بال صاف کیئے تھے ۔۔۔ کیونکہ ان کی چوت بلکہ نرم اور ملائم تھی ۔۔ چوت کے دونوں ہونٹوں کے درمیاں میں تھوڑا فاصلہ ۔تھا ۔۔ میں نے اپنی انگلی ان کی چوت میں ڈال کر دیکھی تو پتہ چلا کہ اندر سے ان کی چوت تھوڑی کھلی تھی ۔۔۔ ان کی چوت کے اوپر براؤن رنگ کا بڑا دانہ ۔۔ کافی پھولا ہوا تھا اور ان کی موٹی چوت پر بہت بھلا لگ رہا تھا۔۔۔۔ پھر میں نے ا ن کی ۔۔چوت کا اچھی طرح ملاحظہ کرنے کے بعد میں نے اپنی ناک ان کی چوت کی دراڑ میں لگا دی ۔۔تو مجھے وہاں سے ان کی چوت اور ۔۔۔ منی کی ۔۔بڑی ہی مست سی مہک آنے گلی ۔۔ جسے میں نے ایک نشئی کی طرح جی بھر کے سونگھا۔۔اور ۔پھر ان کی چوت کے دونوں ہونٹوں کو کھول کر ان کی دراڑ میں اپنے زبان ڈال دی۔۔ واؤؤؤ ۔۔سب سے پہلے میری زبان کو ان کی چوت کے نمکین پانی نے ویل کم کیا ۔۔اور میں نے ان کی چوت کے اندرونی حصے کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔ادھر جیسے ہی میری زبان ان کی چوت کے اندر داخل ہوئی ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔اُف ف فف ف ف ۔کرتے ہوئے وہ تڑپ کر بیٹھ گئی ۔۔ اور میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ تو میں نے ان کی چوت سے منہ اُٹھا کر پوچھا۔۔۔ کیا ہوا میم؟ تو وہ بولی کچھ نہیں تم اپنا کام جاری رکھو۔۔ اور پھر سے لیٹ گئی ۔۔۔اور اس دفعہ میں نے بجائے ان کی چوت چاٹنے کے ان کے موٹے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا ۔۔۔۔میرے اس طرح کرنے سے کچھ دیر تک تو وہ چُپ رہیں ۔۔۔ پھر جب دانے کو چٹوانے سے آنے والے مزے سے وہ بے حال ہو گئیں تو ایک دم سے انہوں نے مجھے ایک مردانہ سی گالی دی اور کہنے لگیں ۔۔ بہن چود۔۔۔ پاجامے کے اوپر سے تو بڑے چک مار رہے تھے( دانت کاٹ رہے تھے) اب ننگی پھدی ملی ہے تو اسے چاٹ رہے ہو۔۔۔ مادر چود ۔۔۔ میر ی ننگی پھدی پر بھی دانت کاٹو ۔۔۔۔ ان کی گالیاں سن کر میں زرا بھی بے مزہ نہ ہوا ۔۔۔ بلکہ ان کی گالیوں نے مجھ میں ایک نئی انرجی بھر دی اور میں نے ان کی چوت جم کر چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔اور سب سے پہلے ان کی دانے پر ہلکا سا دانت کاٹا ۔۔۔۔ وہ ایک دم مست آواز میں بولیں۔۔۔ ہاں ۔۔۔ایسے ۔۔۔ ایسے کاٹ نا۔۔۔اور پھر اس کے بعد میں نے ان کی پھدی کے ہر ہر حصے پر اپنے دانتوں کے نشان چھوڑنا شروع کر دیئے۔۔میرے اس عمل سے وہ بے حال ہوتی چلی گئیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ان کی چوت سے ایک بار پھر پانی کی آمد شروع ہو گئیں ۔۔۔ اس کےساتھ ساتھ مسز ثمرہ طارق خان کے منہ سے ننگی گالیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی ہر گالی سن کر میں پہلے سے زیادہ مست ہو رہا تھا۔۔۔۔۔اور اسی رفتار سے ان کی چوت سے پانی کا اخراج بھی ہو رہا تھا۔۔۔۔چونکہ میرا منہ ان کی چوت کے اوپر دھرا تھا ۔۔۔اس لیئے ان کی سویٹ اینڈ سالٹی سی منی سیدھی میرے منہ پر گر رہی تھی۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگیں۔۔۔چوت چاٹ۔۔۔ اور اس پر لگا پانی پی جا۔۔۔۔ اور میں نے ایسے ہی کیا۔۔۔ جب میں نےان کی چوت کی ساری منی چاٹ کر صاف کر دی تو پھر۔۔۔۔
پھر اچانک ہی وہ اوپر اُٹھیں اورمجھے بالوں سے پکڑ کر بولیں ۔۔۔بس کر مادر چود ۔۔۔ تو میں نے سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو مجھے ان کی آنکھوں میں ہوس کے شعلے نظر آئے اور وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔اب۔۔ اور نہیں ۔۔ تو میں نے شرارت سے کہا ۔۔۔تو اور کیا کروں ؟ تو وہ مست آواز میں دانت پیس کر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ چودو۔۔ مجھے ۔۔۔۔ اور کیا کرنا ہے۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی وہ دوبارہ سے نیچے لیٹ گئیں اور میں ان کی ٹانگوں کے بیچ گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا ۔۔۔ اور اپنا لن ان کی چوت کے گرم لبوں پر رکھ دیا۔۔۔ جیسے ہی میرے ٹوپے ان نے کی چوت کے لبوں کو چھوا ۔۔ مسز ثمرہ طارق خان نے ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس کی نوک کو اپنی چوت پر رگڑنے لگی ۔۔۔۔ پھر پھر ۔۔۔ انہوں نے مجھے اشارہ کیا ۔۔۔ اور میں نے اپنے لن کو دھیرے سے ان کی خوب صورت چوت میں اتار دیا ۔۔اور مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے میرا لن کسی مزے سے بھر پور دکان میں داخل ہو گیا ہو ۔۔ اور جب میرا لن ان کی چوت کےاندر جڑ تک چلا گیا ۔۔۔۔ ۔ تو مسز ثمرہ طارق خان نے ایک مزے سے بھر پور جھرجھری لی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری کمر پر ہاتھ رکھا اور بولں کہ اپنے اس جانور کو ۔۔۔ ایسے ہی کچھ دیرتک میرے اندر رہنے دو۔۔۔میں اس کی موٹائی اور گرمی کو اپنی چوت میں جزب کرنا چاہتی ہوں ۔۔ ان کی بات سن کر میں ان کے اوپر ہی لیٹ گیا ۔۔۔اور اپنا منہ ان کے منہ سے ملا دیا اور ان کے ساتھ کسنگ کرنے لگا۔۔۔۔ابھی لن کو ان کی چوت میں ڈالے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ہی وہ جوش میں آ گئیں اور اپنی ہپس کو زور زور سے ہلانے لگیں ۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔شاہ ۔۔۔۔ میری چوت کی اپنی گرمی کیا کم تھی کہ اوپر سے تم نے بھی اپنے گرم لوہے کے راڈ کو اس کے اندر ڈال دیا ہے۔۔اب تو یہ گرم سے گرم تر ہو گئی ہے۔۔ ۔۔۔۔پھر سسکی لیتے ہوئی کہنے لگیں۔۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔ شاہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ تیرا لن بہت ۔۔۔بڑا ہے ۔۔۔۔ بہت گرم ہے۔۔۔ ۔۔بہت موٹا ہے۔۔۔ اس کی نوک میری چوت کی گہرائی میں جا کر وہاں کے آخری کونے میں چُبھ رہی ہے۔۔۔۔۔ام مم۔۔۔۔مم۔۔۔ تیرے لن نے مجھے پاگل کر دیا ہے ۔۔۔۔ اب جلدی سے جھٹکے مارو۔۔۔ ورنہ میں مر جاؤں گی۔۔۔۔لن کو ان آؤٹ کرو۔۔۔۔۔ ان کی مست باتیں سن کر میں بھی مست ہو گیا اور میں ان کے بدن سے اوپر اُٹھا ۔۔۔اور پوری طاقت سے اپنے لن کو ان کی چوت میں اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔ اور وہ میرے نیچے تڑپتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ اور بے دردی سے چودددددد۔۔۔۔۔چودددداااا۔۔۔جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مت رُک۔۔۔۔۔مجھے اور زور سے چودا۔۔۔۔ تمہیں قسم ہے آج میری پھدی کا ملیدہ بنا دو۔۔۔ چودو ناں ں ں ں ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی باتیں اتنی مست اور زبردست تھیں کہ میں نے بھی پاگل ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔ اس طرح کچھ دیر تک میں ان کو اس پوزیشن میں چودتا رہا ۔۔۔ پھر انہوں نے مجھے رکنے کا کہا ۔۔۔۔اور جیسے ہی میں نے ان کو گھسے مارنے بند کیئے انہوں نے کھینچ کر میرا لن باہر نکالا اور پھر جلدی سے گھوڑی بن کر بولیں رکنا نہیں۔۔۔بس۔۔۔ مجھے چودتے جانا ۔۔۔ چودتے جانا۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں آگے بڑھا اور اس سے پہلے کہ میں لن کو ان کی چوت میں ڈالتا ۔۔۔اچانک میری نظر ان کی شاندار موٹی گانڈ پر پڑی۔۔۔۔ اور اتنی شاندار اور موٹی گانڈ کو دیکھ کر میرا دل بے ایمان ہو گیا ۔۔ چنانچہ میں نے ان کی گانڈ کی موری پر تھوک پھینکا۔۔۔۔ اور اس تھوک کو ان کی موری کے اندر تک لگانے کے لیئے جیسے ہی اپنی انگلی کو ان کی موری پر رکھا ۔۔۔انہوں نے پیچھے مُڑ کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ یہ اگلی دفعہ مارنا۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو چوت کی آگ بجھاؤ۔۔۔اور پھر انہوں نے خود ہی ہاتھ پیچھے کیا اور میرے لن کو پڑی کر اپنی چوت کے لبوں پر رکھا اور خود ہی آگے پیچھے ہونے لگیں ۔۔۔ میں کچھ دیر تو ان کو آگے پیچھے ہوتا دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر مجھے بھی جوش آگیا ۔۔۔۔۔اور میں نے اپنے دونوں ہاتھ ان کی ہپس پر رکھے اور اور پھر زور زور سے گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔میرے طوفانی گھسوں کا انہوں نے بھر پور ساتھ دیا ۔۔۔۔اور مجھے مسلسل ہلا شیری دیتی رہیں۔۔۔۔ اب میرا لن کسی پسٹن کی طرح تیزی سے ان کی چوت میں آ ۔۔ جا ۔۔۔رہا تھا ۔۔اندر باہر ہو رہا تھا۔۔۔۔ اور پھر اچانک مجھے ایسا لگا کہ ۔۔ میں بس جا رہا ہوں ۔۔۔ا ور اس فیلنگ کے ساتھ ہی میرے خود بخود میرے گھسوں کی سپیڈ میں اضافہ ہو گیا ۔۔۔۔اور میں گھسے مارتے ہوئے۔۔۔۔اور وہ مرواتے ہوئے پسینوں پسینی ہو گئے تھے ۔۔تاہم جیسے ہی میرے گھسوں کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔۔۔۔تو انہوں نے جلدی سے میری طرف دیکھا اور بولیں۔۔۔۔۔ میں ۔۔ بھی ۔۔۔۔ میری جان ۔۔۔ میں بھی ۔۔۔ جا رہی ہوں ۔۔اس لیئے اپنے آخری گھسے ۔۔۔۔ اور شدت سے مارو۔۔۔۔اس کے ساتھ اگلے کچھ گھسوں کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مسز ثمرہ طارق خان کی چوت کا شکنجہ میرے میرے لن کے گرد ۔۔۔ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ تنگ ۔۔۔اور ۔۔تنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ان کی چوت نے میرے لن کو پوری طرح اپنے شکنجے میں لے لیا ۔۔میرے لن کو جکڑ لیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے لن کی نسیں بھی پھولنا شروع ہو گئیں تھیں۔۔۔۔ ہم دونوں کے سانس چڑھ گئے۔۔۔۔ اور پھر اسی بے خودی میں مجھے مسز ثمرہ طارق خان کے منہ سے نکلتی ہوئی ۔۔۔ایک زور دار۔۔ چیخ ۔۔۔سنائی دی۔۔۔ آہ ہ ہ ہ۔۔۔یس۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی بڑی سی گانڈ کو بڑی ہی سختی کے سے میرے ساتھ جوڑ دیا اور ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ان کی چوت نے میرے لن کے ارد گرد اپنا گھیرا مزید تنگ کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گرم پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ ان کی چوت سے نکلنے والا گرم پانی۔۔۔۔ میرا لن نہ برداشت کر سکا ۔۔۔۔ اور اچانک مجھے ایک جھرجھری سی آئی اور میرا سارا جسم کانپا۔۔۔۔ اور ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے لن سے ابلتا ہوا گرم پانی کا لاوا نکل کر ۔۔۔ ان کی چوت میں گرنا شروع ہو گیا میں جھٹکے مارتا رہا ۔۔ وہ مزے سے چیختی رہیں ۔۔۔۔ میرے لن سے ۔پانی گرتا رہا ۔۔۔ مزہ آتا رہا۔۔۔ اور میں ان کی چوت میں ہی چھوٹ گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔

**پیاسامَن**

میرانام نجمہ ہے اورمیں حیدرآباد کے ایک اپر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں میری عمر اس وقت 36 سال ہے میری شادی جوانی کے پہلے سالوں میں ہی ہوگئی تھی اور میں اس وقت تین بچوں کی ماں ہوںمیرے بڑے بیٹے کی عمر 14 سال ہے لیکن میرا جسم بہت ہی پرکشش اور خوب صورت ہے کوئی بھی مجھے پہلی نظر میں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں تین بچوں کی ماں ہوں میں نے اپنے جسم کو بہت ہی فٹ رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے میرا جسم سمارٹ ہے میرا قد 5 فٹ 6 انچ ہے کمر 34 اور مموں کاسائز 36 ہے میری آنکھیں کالی اور بال گھنے اور سیاہ ہیں میں حیدر آباد شہر میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ رہتی ہوں میرے خیال میں میرے میاں انور میرے ساتھ اتنی محبت کرتے ہیں کہ شائد ہی کوئی خاوند اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہوگا ہماری ازواجی زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے ہم لوگ ہفتہ میں اوسطاً ایک بار سیکس ضرور کرلیتے ہیں جو کہ کسی بھی شادی شدہ جوڑے جن کی شادی کو اتنا عرصہ گزر گیا ہو کے لئے کافی ہے لیکن میرے خیال میں یہ میرے لئے کم ہے جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے میری جنسی بھوک میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تاہم میں نے کبھی بھی ایسا نہیں سوچا کہ کسی غیر مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کروں گی میرے خاوند انور کا ایک بچپن کا دوست ندیم ہمارے گھر کے قریب ہی اپنی بیوی سلمی اور بچوں کے ساتھ رہتا ہے اس فیملی کا ہمارے گھر میں روٹین کے ساتھ آنا جانا ہے جس پر انور‘ ندیم‘ میں یا ندیم کی بیوی نے کبھی بھی اعتراض نہیں کیا ندیم ایک پرکشش شخصیت کا مالک ہے اور اس کی عادات بھی بہت اچھی ہیں لیکن میں نے اس کے ساتھ کوئی قابل اعتراض تعلق قائم کرنے کے حوالے سے کبھی بھی سوچا تک نہیں تھا ہم جب بھی ملے بہن بھائیوں کی طرح ملے ہم لوگ ایک خاندان کی طرح ہیں اور اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں کہ ہمارے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہے
یہ کوئی تین ماہ پہلے اتوار کے دن کی بات ہے جب میرے انور شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور بچے میرے امی ابو جو کہ حیدرآباد میں ہی رہتے ہیں کے گھر گئے ہوئے تھے صبح سویرے گھر کے کام کاج نمٹا کر میں گھر میں بیٹھی بور ہورہی تھی میں نے سوچا کہ ندیم کی بیوی سلمی کے پاس چلتی ہوں تھوڑا وقت گزر جائے گا میں ان کے گھر گئی دروازے پر بیل دی جس پر ندیم نے دروازہ کھولا
بھابھی آپ۔۔۔۔۔۔ آئیے اندر آئیے ‘ ندیم نے مجھے کہا
میں اندر چلی گئی اور ڈرائنگ روم میں چلیگئی
سلمی کدھر ہے‘ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا
آپ بیٹھئے ‘ ندیم نے مجھے کہاجس پر میں صوفے پر بیٹھ گئی اور پھر اس سے سلمی کے بارے میں پوچھا جس پر اس نے بتایا کہ اس کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ایک گھنٹہ پہلے اس کے میکے سے فون آیا جس پر وہ ابھی ابھی بچوں کے ساتھ اپنے چلی گئی ہے جلدی کی وجہ سے وہ آپ کو بھی بتا کر نہیں گئی(سلمی کا میکہ اسی علاقے میں تھوڑی دور تھا)
اچھا میں چلتی ہوں‘ میں نے واپس جانے کے لئے مڑتے ہوئے کہا
بیٹھئے نہ میں آپ کے لئے چائے لاتا ہوں‘ اس نے مجھے کہا
کیا آپ میرے لئے چائے بنا? گے‘ اس کی بات سن کر میری ہنسی نکل گئی
اگر آپ میرے ہاتھ کی چائے نہیں پینا چاہتی تو آپ چائے بنا لیں مجھے بھی چائے کی طلب ہورہی ہے میں بھی پی لوں گا‘ اس نے کہا
یہ گھر میرے لئے اجنبی نہیں تھا لیکن آج میں اس گھر میں اکیلے کسی خاتون کی غیر موجودگی میں عجیب سا محسوس کررہی تھی میں نے پہلی بار اس گھر میں چائے نہیں بنائی تھی پہلے بھی کئی بار ایسے ہوا تھا لیکن آج جانے کیوں میری چھٹی حس مجھے کسی انہونی کے بارے میں آگاہ کررہی تھی میں نے ندیم سے جانے کے لئے اجازت لینے کا سوچا لیکن جانے کیوں میں ایسا نہ کرسکی اور کچن میں جاکر اپنے اور ندیم کے لئے چائے تیار کی اور ڈرائنگ روم میں لے آئی اور صوفے پر بیٹھ کر چائے پینے لگی اور ساتھ میں ہم لوگ باتیں کرنے لگے اس دوران میں نے محسوس کیا کہ آج وہ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا ہے اچانک ہی اس نے میرے کپڑوں کے بارے میں باتیں شروع کردیں اور کہنے لگا کہ آج آپ نے بہت اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ان میں آپ بہت ہی خوب صورت لگ رہی ہیں جس پر میں نے تھوڑا سا عجیب سا محسوس کیا تاہم میں نے تعریف کرنے پر اس کا شکریہ ادا کیا اس نے پھر کہا کہ انور کتنا خوش نصیب ہے جس کو تمہارے جیسی خوب صورت‘ پرکشش اور سیکسی بیوی ملی ہے اس کی باتیںسن کر میں نے تھوڑی سی شرمندگی محسوس کی
ندیم بھائی آپ آج کیسی باتیں کررہے ہیں آپ نے پہلے کبھی بھی ایسی باتیں نہیں کیں‘ میں نے ندیم کو ٹوکتے ہوئے کہا
آپ کا کیا مطلب ہے کہ مجھے پہلے بھی ایسی ہی باتیں کرنی چاہئے تھیں‘ اس نے حاضر جوابی سے کام لیتے ہوئے کہاجس پر میں تھوڑا سا شرمندہ ہوئی اور اس کو کہا
نہیں ندیم بھائی میرا یہ مطلب نہیں تھا آپ میرے بھائیوں کی طرح ہیں اور آپ کی بیوی بھی بہت خوب صورت ہے
مگروہ آپ کی طرح کی نہیں ہے‘اس نے جواب دیا اور پھر وہ اپنی ازواجی زندگی کے بارے میں باتیں کرنے لگا اس نے کہا کہ اس کی ازواجی زندگی اچھی نہیں ہے میں اس سے مطمیئن نہیں ہوں میری بیوی میری خواہشات کا خیال نہیں رکھتی ‘ اس کی باتیں سن کر میں حیران ہوگئی کہ آج ندیم کیسی باتیں کررہا ہے اس نے اپنی بات جاری رکھی اور کہنے لگا کہ میں آپ سے اس بارے میں کافی عرصہ سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن موقع نہیں مل رہا تھا
اس کی باتیں سن کر میں کنفیوز ہوگئی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی میں نے اس سے کہا کہ ابھی بچوں کے آنے کا وقت ہوگیا ہے میں چلتی ہوں‘
پلیز آپ نہ جائیں مجھے اس حالت میں چھوڑ کر میں بہت پریشان ہوں آپ سے باتیں کرلوں گا تو فرسٹیشن تھوڑی کم ہوجائے گی جس پر میں نہ جانے کیوں رک گئی
اب اس نے اپنی ازواجی زندگی کے بارے میں کھل کر باتیں شروع کردی جس پر مجھے عجیب سا محسوس ہونے لگا اچانک وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس صوفے پر آبیٹھااور اس نے میری کمر کے گرد اپنا بازو حائل کرکے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئےے میرا پورا بدن کپکپا گیا میں نے اس کو پیچھے دھکیلا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ندیم نے مجھے مضبوطی سے پکڑ کر پھر سے بٹھا دیا میں اس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کررہی تھی مگر ایسا نہیں کرپائی اس نے پھر سے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ اور میری چھاتی پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے اور انہیں دبانے لگا جس پر مجھے تھوڑا سا مزا آنے لگا اس وقت میں ڈبل مائنڈڈ ہوگئی کہ اب کیا کروں اس وقت میں ایسی جنسی کیفیت میں تھی کہ پہلے کبھی بھی اپنی زندگی میں ایسا محسوس نہیں کیا اور اس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ یہ غلط ہے اور اس سے میری ازواجی زندگی پربرا اثر ہوسکتا ہے میں نے ایک بار پھر ندیم کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن اس نے میری کوشش ناکام بنا دی اور میرے ہونٹوں کو بھوکوں کی طرح چوسنے لگا جس کو نظر انداز کردینا اب میرے بس کی بات نہیں رہی تھی ہمارے ہونٹ اس وقت اس حالت میں تھے کہ ایک ہی لگ رہے تھے تھوڑی دیر میں نے نا چاہتے ہوئے بھی اس کا ساتھ دینا شروع کردیا جس پر اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی پہلے میں نے تھوڑی سی مزاحمت کی لیکن پھر میں بھی اس کا گرم جوشی سے ساتھ دینے لگی اس وقت میں اپنے حواس کھو بیٹھی تھی اور مجھے کوئی ہوش نہیں تھا کہ میں کیا کررہی ہوں اس کی زبان کو چوستے چوستے میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے منہ میں ڈال دی اس نے جیسے ہی میری زبان کو چوسنا شروع کیا میرے پورے جسم کو ایک کرنٹ سا لگا میرے اندر کی جنسی بھوک جاگ اٹھی میں اس وقت بھول گئی کہ میرا اور ندیم کا رشتہ کیا ہے اس کی جنسی طورپر طاقت ور کس نے مجھے سب کچھ بھلا دیا تھا اس نے اپنا منہ میرے منہ سے پیچھے کیا اور میری گردن پر کسنگ شروع کردی جس پر مجھے جنسی تجسس ہونے لگا ایک دم میرے ذہین میں خیال آیا کہ یہ سب کچھ غلط ہے میں نے اس کو پیچھے کیا اور کہا کہ ہم دونوں شادی شدہ ہیں یہ سب کچھ غلط ہے مگر اس نے میری بات ان سنی کردی اور پھر سے میری گردن پر کسنگ کرنے لگا میں نے اس کو روکنا چاہا مگر وہ نہ رکا اس نے مجھے چپ کرانے کے لئے ایک بار پھر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور انہیں چوسنا شروع کردیا چند سیکنڈ کے بعد اس نے پھر سے میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ کر یہاں پر کسنگ شروع کردی میں نے ایک بار پھر اس کو منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور اس کی جادوئی کسنگ نے مجھے مدہوش کردیا اس کے ہاتھ اس وقت میری چھاتی پر تھے اور وہ میرے مموں کو دبا رہا تھا جس پر میں نے دوبارہ سے اپنے حواس کھونا شروع کردیئے میں نے ایک بار پھر سے اس کو پیچھے کیا لیکن اس نے میری گردن کے گرد اپنا ایک بازو حائل کرکے مجھے اپنے مزید قریب کرلیا میں نے اس کو کہا کہ ندیم بھائی اب بہت ہوگیا ہمیں اب بس کردینا چاہئے مگر وہ باز نہ آیا وہ اس بارے میں بہت تجربہ کار تھا اور خواتین کی نفسیات کو جانتا تھا اس نے اچانک ہی مجھے تھوڑا سا پیچھے کیا اور ایک ہی لمحے میں میری قمیض اتار کر نیچے پھینک دی جب وہ میری قمیض اتارنے لگا تھا مجھے نہیں معلوم کہ میرے ہاتھ کیسے اوپر ہوگئے تھے اس نے میری قمیض اتار کر قریب ہی فرش پر پھینک دی اب میں صرف بریزئیر میں کھڑی تھی اس نے فوری طورپر میری بریزئیر کی ہک کھول کر اسے بھی میرے جسم سے علیحدہ کردیا اور اب میرے جسم کا اوپر والا حصہ بالکل ننگا تھا اور میں صرف شلوار پہنے کھڑی ہوئی تھی اس وقت میرے ممے جنسی طلب کی وجہ سے کافی ٹائٹ تھے اور نپلز سخت ہوچکے تھے اس نے اپنا چہرہ نیچے کیا اور ایک نپل کو اپنے منہ میں لے لیااس کے گرم گرم ہونٹ میرے نپل کو چوسنے لگے اس کے بعداس نے میرا دوسرا نپل بھی اپنے منہ میں لے لیا اور میرے مموں کو دباتے ہوئے ان کو چوسنے لگا میں اپنا کنٹرول مکمل طورپر کھو چکی تھی اور میری سوئی ہوئی جنسی بھوک جاگ گئی تھی میرے جسم میں طاقت ختم ہوتے ہوئے محسوس ہورہی تھی وہ میرے ممے چوستا چوستا زمین پر بیٹھ گیا اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کولہوں پر رکھ لئے اور میری شلوار اتارنے کے لئے اس کو نیچے کیا شلوار میری گھٹنوں تک آچکی تھی اچانک میرے ہاتھ لاشعوری طورپر نیچے کو ہوگئے اور میں نے شلوار کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اس کو اوپر کی طرف کرنے لگی اس نے میرے ہاتھ پیچھے کئے اور شلوار کو ٹخنوں تک کردیا اور اپنا منہ فوری طورپر میری پھدی کے اوپر فٹ کردیا اور اس کو چومنے لگا مجھے نہیں معلوم کہ مجھے اس وقت کیا ہوگیا تھا میں یقین نہیں کرپارہی تھی کہ ندیم میری پھدی کو چوم رہا ہے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھول لیں تاکہ اس کا منہ کی میری پھدی تک آسانی سے پہنچ ہوجائے اس وقت میں اس کے اس حملے کی وجہ سے بے بس ہوگئی تھی میں نے ایک بار پھر اس کو بے بسی سے کہا کہ پلیز بس کرو ہم دونوں شادی شدہ ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے
شادی شدہ لوگ تو یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں فکر نہ کرو تم اچھا محسوس کرو گی
مگر میں اس کام پر اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کر پا?ں گی کیونکہ میں اپنے شوہر کو دھوکہ دے رہی ہوں‘ میں نے جو اب دیا
کیا تم یہ کہہ سکتی ہو کہ تمہارا شوہر بھی تمہارے ساتھ اتنا ہی وفادار ہے جتنا کہ تم اس کے ساتھ وفا کرنے کی کوشش کررہی ہو‘ اس نے مجھے کہا
مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ وہ میرے ساتھ وفادار ہے یا نہیں مگر مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے ‘ اس نے مجھے میری بات پوری ہی نہیں کرنے دی اور پھر سے میری پھدی پر اپنا منہ ٹکا دیا اور اپنی زبان کو میری پھدی کے ہونٹوں پر پھیرنے لگا پھر اس نے اپنی انگلیوں سے میری پھدی کے ہونٹوں کو علیحدہ کیا اور میری پھدی کے اندر اپنی زبان ڈال دی اب میری پھدی کے اندر تک آگ لگ رہی تھی یہ بہت ہی مزے دار اور دلچسپ کام تھا جس کا مجھے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا انور نے کبھی بھی مجھے ایسا مزہ نہیں دیا تھا جتنا آج مجھے ندیم دے رہا تھا میرا پورا جسم آگ کی طرح گرم ہورہا تھا اور میں بے بس ہوچکی تھی میں نے ندیم کا سر پکڑ لیا اور اس کو اپنی پھدی کی طرف دبانے لگی میں ایسا کیوں کررہی تھی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی یہ کام لاشعوری طورپر ہورہا تھا‘ میری پھدی نے پانی چھوڑنا شروع کردیا تھا اور میں اونچی آواز میں آہیں بھرنے لگی تھی تھوڑی دیربعد میری پھدی سے پانی کی ایک پچکاری نکلی اور میرا جسم ٹھنڈا ہوگیا ندیم اوپر کھڑا ہوا اس نے پاس پڑی میری قمیض پکڑی اور اس سے اپنا منہ صاف کرکے اپنا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مجھے اسے اپنے منہ میں لینے کو کہا پہلے میں نے انکار کیا اور اس سے کہا کہ میں نے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں کیا اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کو کیسے کرنا ہے مگر اس بہت اصرارکیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا
اس وقت میرے اندر ایک بار پھر جنگ شروع ہوگئی کہ میں شادی شدہ ہوں اور یہ سب کچھ غلط ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے میں اس وقت اپنے خاوند کو اپنے بچوں کو دھوکہ دے رہی ہوں میں ابھی یہ باتیں سوچ ہی رہی تھی کہ ندیم بول پڑا
”کیا سوچ رہی ہوں اس کو منہ میں ڈالو اور چوسو“
میں نے کوئی جواب نہ دیا اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں ہی پکڑے رکھا اس کا لن اس وقت بہت سخت تھا اور انور کے لن کی نسبت کافی زیادہ لمبا اور موٹا تھا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کسی انسان کا بھی اتنا لمبا لن ہوسکتا ہے اس کی لمبائی کم از کم آٹھ انچ کے قریب ہوگی اور موٹائی میں انور کے لن کی نسبت دوگنا تھا
”اس کو جلدی سے منہ میں لے لو“انور نے پھر مجھے کہا
اس بار اس نے مجھے کہا تو میں نے اپنا منہ تھوڑا سا نیچے کیا اور اس کے لن کے قریب لا کر اپنے منہ کو جتنا کھول سکتی تھی اتنا کھول دیا اور اس کے لن کی ٹوپی کو اپنے منہ میں لے لیا
”اوہ ہ ہ ہ ہ‘ ونڈر فل ‘ آج تم نے میری خواہش پوری کردی “میں نے جیسے ہی اس کے لن کی ٹوپی اپنے منہ میں ڈالی اس نے خوشی کے مارے نعرہ لگانے والے انداز میں کہا
میں نے اس کے لن کی ٹوپی کو تھوڑا سا منہ سے نکالا اور پھر اندر کیا میں اناڑیوں کی طرح اس کا چوسا لگا رہی تھی
”اس کو پورا اپنے میں لو“ندیم نے مجھے کہا جس پر میں نے اس کو اپنے منہ میں مزید اندر تک لے جانے کی کوشش کی لیکن اس کی ٹوپی سے ایک سینٹی میٹر بھی آگے نہ جاسکا یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ میں کسی مرد کا لن اپنے منہ میں لے کر چوس رہی تھی اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں کیا تھا بلکہ سوچا بھی نہیں تھا انور نے ایک دو بار مجھے ایسا کرنے کے لئے کہا لیکن میں نے انکار کردیا جس کے بعد اس نے بھی مجھے پھر نہیں کہا لیکن آج جانے کس وجہ سے میں نے اس کا لن چوسنا شروع کردیا تھا اس کی وجہ ابھی تک میری سمجھ میںنہیں آئی ‘اس کے لن کی ٹوپی کو میں نے اپنے منہ میں لیا ہوا تھا اور اس کو چوس رہی تھی کہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہی لن ابھی تھوڑی دیر بعد میری پھدی میں جائے گا جس پر مجھے جھرجھری آگئی میرے ذہن میں خیال آرہا تھا کہ انور کو معلوم بھی نہیں ہوگا بلکہ اس کے ذہن وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اس کی پیاری اور معصوم سی بیوی اس کے سب سے اچھے دوست سے چدنے والی ہے میں نے سوچا کہ ابھی بھی اس کو مزید کچھ کرنے سے منع کردوں لیکن میں ایسا نہ کرسکی اور اس کے لن کو چوستی رہی تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھے لن منہ سے نکالنے کا کہا جس پر میں نے اس کا لن منہ سے نکال دیا اس نے مجھے بازوسے پکڑا اور پھر مجھے قریب کرکے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ چپکا دیئے چند سیکنڈ ایک ہی جگہ پر کھڑے کھڑے کسنگ کرنے کے بعد وہ مجھے کسنگ کرتے ہوئے ہی آہستہ آہستہ اپنے بیڈ روم میں لے گیا اور بیڈ پر لٹا دیا اور خود میری ٹانگوں کو تھوڑا سا کھول کر درمیان میں آبیٹھا مجھے معلوم تھا کہ وہ اب کیا کرنے والا ہے میرے دل اور دماغ میں ابھی تک کروں۔۔۔۔ نہ کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ساتھ دوں۔۔۔۔۔۔۔ اس کو منع کردوں یہیں پر رہوں۔۔۔۔۔۔ یہاں سے بھاگ جاﺅں ۔۔۔۔۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد انور کے سامنے کس منہ سے جاﺅں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو معلوم ہی نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کو معلوم ہوگیا تو معاشرے میں اور اپنے بچوں کے سامنے میری کیا عزت رہ جائے گی ۔۔۔۔۔۔ان کو معلوم ہی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔کی جنگ چل رہی تھی لیکن میں کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ اسی اثناءمیں اس نے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور میری پھدی کے دہانے کے ساتھ ٹچ کیا جس پر میرے جسم میں بجلی کاایک 440 وولٹ سے زیادہ کا جھٹکا محسوس ہوا اس نے اپنے ہاتھ سے میری پھدی کے دونوں ہونٹ کھولے اور پھر اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس پر رگڑنے لگا میں اس کو منع کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن اس کو منع نہیں کررہی تھی مجھے میرے اندر کی ایک باوفا عورت اور بیوی یہ سب کچھ کرنے سے منع کررہی تھی جبکہ میری پھدی کہہ رہی تھی کہ اس کا لن لے کر مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جاﺅ میں نے ایک لمحے کے لئے سوچ بھی لیا کہ جو کچھ ہوگیا وہ ہوگیا اب بس مزید آگے کچھ نہ کروں لیکن دوسرے ہی لمحے میرے ذہن میں خیال آیا کہ جس حد تک ہوگیا ہے اس سے آگے کچھ ہویا نہ ہو دونوں برابر ہیں اس لئے بہتر ہے کہ فل ٹائم مزہ لے لوں مجھے یہ بھی محسوس ہورہا تھا کہ میری پھدی اس کا لن اپنے اندر سمو لینے کے لئے بے تاب ہے اور پانی پانی ہورہی ہے یہ پانی پانی شرم سے نہیں بلکہ مزے سے ہورہی تھی اسی لمحے ندیم نے اپنے لن کو میری پھدی پر رگڑنا بند کیا اور اپنا لن ایک بار پھر سے میری پھدی کے سرے پر فٹ کیا اور آہستہ سے اس کی ٹوپی میری پھدی کے اندر کردیا میر ی پھدی پانی سے کافی حد تک گیلی ہوچکی تھی لیکن اس کے لن کی موٹائی بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مجھے ہلکی سی درد محسوس ہوئی اور میرے منہ سے ہلکی سی آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔آہ ہ ہ کی آواز نکلی ندیم نے رک کر میری ٹانگیں اٹھائیں اور اوپر کرکے اپنے کندھوں پر رکھ لیں جبکہ اس کے لن کی ٹوپی ابھی تک میری پھدی کے اندر ہی تھی اس نے میری ٹانگیں اپنے کندھوں پررکھیں اور ہلکاسا زور لگا کر اپنے لن کو میری پھدی کے اندر مزید دھکیل دیا اس نے پھر اپنے لن کو تھوڑا سا باہر نکالا اور پھر آگے کو دھکیلا اور آہستہ آہستہ سے ایک دو بار ایسا کیامیں نے اپنے دونوں ہاتھ ندیم کی کمر کے گرد لپیٹ رکھے تھے اچانک ندیم نے رک کر اپنی طاقت کوجمع کیا اور ایک زور سے جھٹکا دیا اور میری پھدی کے اندر ایسا محسوس ہوا جیسا کہ کسی نے بارود کا دھماکہ کردیا ہو مجھے بہت زیادہ تکلیف محسوس ہوئی اور میں چلا اٹھی میں نے لاشعوری طورپر اپنے ناخن ندیم کی کمر میں گارڈ دیئے اس نے پھر آہستہ آہستہ سے اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا جس سے مجھے تکلیف سے زیادہ مزہ آرہا تھا میرا دل کررہا تھا کہ وہ ایسے ہی آہستہ آہستہ ساری عمر مجھے چودتا رہے مگر اس نے آہستہ آہستہ اپنی سپیڈ بڑھانا شروع کردی جس سے اس کا لن میری پھدی کی ان گہرائیوں تک جارہا تھا جہاں تک انور کا لن آج تک پہنچ نہیں سکاتھا میری پھدی کے ان علاقوں کو آج ندیم کے لن نے ہی دریافت کیا تھا میں بھی مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ گئی تھی اور اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ ہی نیچے سے ہل ہل کر اس کا ساتھ دے رہی تھی اس کے ٹٹے ہر جھٹکے کے ساتھ ہی میری گانڈ کے ساتھ ٹکراتے جس سے ایک عجیب قسم کا نشہ سا طاری ہوجاتا وہ اپنی سپیڈ کو مزید بڑھاتنا جارہا تھا اور اب وہ مجھے جانوروں کی طرح چود رہا تھا مجھے اس سے پہلے اس طرح کا کوئی تجربہ نہیں تھا انور مجھے بہت ہی سلجھے ہوئے انداز میں چودا کرتا تھا اور کبھی کبھی میں فلموں میں ایسی چدائی دیکھ کر سوچاکرتی تھی کہ ایسا کرنے والے انسان نہیں ہوتے جو عورت کو تکلیف دیتے ہیں لیکن آج میں اس طرح چد رہی تھی تو مجھے بہت مزہ آرہا تھا تھوڑی دیر بعد وہ شکل سے مجھے تھکا تھکا سا محسوس ہونے لگا تھا اب اس کے جھٹکوں میں اتنی طاقت بھی نہیں رہی تھی اور میری ٹانگیں بھی اس کے کندھوں پر پڑی پڑی تھکاوٹ کے باعث سن ہورہی تھیں چند منٹ کے بعد اس نے اپنے جھٹکے بند کئے اور سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگا میں سمجھ گئی کہ اب وہ کیا چاہتا ہے میں نے اس کی گردن کے گرد اپنے ہاتھ ڈال لئے اور اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا چند سیکنڈ تک اس کے ہونٹ چوستی رہی اور پھر اس کو کہا کہ اب تم نیچے آجاﺅاس نے اپنا لن میری پھدی سے نکالا اور پھر بیڈ پر آکر لیٹ گیا اور میں اس کے اوپر چڑھ گئی میں نے اس کے لن کو اپنے ہاتھ سے پکڑکر اپنی پھدی کے سرے پر فٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے سے اس کے اوپر بیٹھ گئی اور اس کا پورا لن میری پھدی کے اندر تک چلا گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس نے میرے اندر کسی چیز کو پھاڑ ڈالا ہے حالانکہ جب وہ میرے اوپر تھا تو بھی وہ اپنے پورے لن کو میری پھدی کے اندر ڈال رہا تھا لیکن اس وقت ایسا محسوس نہیں ہوا جیسا کہ اب محسوس ہوا تھا میں فوری طورپر اوپر کو اٹھ گئی میں ہلکا ہلکا سا نیچے کو ہورہی تھی کہ ندیم نے میرے چوتڑوں کو ہاتھوں میں پکڑکر مجھے اوپر نیچے کرنے لگا اس کا لن ابھی پورا میری پھدی کے اندر نہیں جاتا تھا کہ میں اوپر کو اٹھ جاتی تھی پھر نیچے کو ہوتی اور پورالن اپنے اندر جانے سے پہلے ہی اوپر کو ہوجاتی تھوڑی دیر کے بعد میں اس کے لن کو پوری طرح سے آرام کے ساتھ اپنے اندر سمو لینے کے قابل ہوگئی اور ساتھ ہی میں نے جمپنگ کی سپیڈ بڑھا لی جس کے باعث میرے ممے بھی اوپر نیچے کو ہورہے تھے ندیم نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں سے ہٹا کر میرے ممے پکڑ لیے اور ان کو دبانے لگا تھوڑی دیر بعد میں بہت تھک گئی جس پر اس نے مجھے گھوڑی بنا لیا اور میری پشت پر آکر کھڑا ہوگیا اور میری گانڈ کی طرف سے اپنا لن میری پھدی میں داخل کرکے جھٹکے دینے لگا یہ بھی ایک عجیب سا مزہ تھا وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مجھے چود رہا تھا اور میں اس کے ہر جھٹکے کو خوشی سے برداشت کررہی تھی کیوں کہ وہ مجھے میری زندگی کا سب سے زیادہ مزہ دے رہا تھا ابمیں کافی حد تک تھک چکی تھی میں اس کی چدائی کے دوران دو بار فارغ ہوچکی تھی اب اس نے اپنی سپیڈ میں اضافہ کردیا اور اچانک ایک دم رک گیا پھر ایک لمحے کے بعد اس نے مجھے ایک زور دار جھٹکا دیا اور اپنے لن کو پورا جڑ تک میری پھدی کے اندر کرکے میرے ساتھ چمٹ گیا اور اس کے لن سے مادہ میری پھدی کے اندر نکلنے لگا ساتھ ہی میں بھی تیسری بار فارغ ہونے لگی تھی تھوڑی دیر بعد ہم دونوں بیڈ کے اوپر لیٹ گئے میںنے اس کو دیوانہ وار چومنا شروع کردیا کیوں کہ اس نے مجھے وہ مزہ دیا تھا جس سے میں آج تک آشنا نہیں ہوسکی تھی اچانک اس نے ایک دم زور زور سے قہقہے لگانا شروع کردیئے
کیا ہوا ہنس کیوں رہے ہو‘ میں نے اس سے پوچھا
میں تم کو کئی مہینوںسے چودنے کے خواب دیکھ رہا تھا ‘ اس نے کہا
مگر آج سے پہلے تم نے مجھے کیوں نہیں چودا مجھے اتنی دیر بعد کیوں چودا‘ میں نے اس کو جواب دیا
مجھے معلوم تھا کہ تم اس طرح کی عورت نہیں ہوکہ تم کو آسانی کے ساتھ چودا جا سکے جس پر میں نے کئی ماہ تک سوچ بچار کے بعد آج موقع ملنے پر ٹرائی کی اور پہلی ٹرائی میں کام یاب ہوگیا مجھے امید نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی تیار ہوجاﺅ گی میں نے اس کام کے بارے میں سوچ رکھا تھا کہ مجھے اس کام کے لئے کم از کم چھ ماہ درکا ر ہوں گے اور میں چھ ماہ محنت کرنے پر بھی تیار تھا‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا
تھوڑی دیر تک ہم لوگ باتیں کرتے رہے میں اٹھی اور کپڑے پہننے لگی جس میں اس نے میری مدد کی اور پھرمیں اپنے گھر کی طرف چل دی ہارڈ فکنگ کی وجہ سے مجھ سے اس وقت چلا بھی نہیں جارہا تھا میں بمشکل اپنے گھر پہنچی اور اپنے بیڈ پر جالیٹی اس وقت مجھے پھر سوچوں نے گھیر لیا کہ میں نے ٹھیک کیا ہے یا غلط لیکن میں نے اس سوچوں کو جھٹک دیا اور سو گئی اور مسلسل چار گھنٹے سونے کے بعد شام کے وقت اس وقت اٹھی جب انور کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ وہ رات کو دس بجے کے قریب گھر پہنچ جائے گا رات کو انور نے سیکس کی خواہش کا اظہارکیالیکن میں نے منع کردیا کیوں اب مجھ میں مزید کچھ کرنے کی ہمت نہیں تھی ندیم کی چدائی نے ہی میرا کام تمام کردیا تھا آج یہ پہلا موقع تھا کہ انور نے مجھے سیکس کے لئے کہا ہو اور میں نے انکار کیا ہواس کے بعد ندیم مجھ سے کئی بار ملا اور پھر سے چدائی پروگرام کرنے کا کہا لیکن میں نے اس کو صاف صاف کہہ دیا کہ وہ موقع پہلا اور آخری تھا اس کے بعد میں ایسا نہیں کروں گی وہ ابھی تک جب بھی ملتا ہے ہمیشہ پھر وہی بات کہتا ہے لیکن میں ہمیشہ انکار کردیتی ہوں لیکن وہ زبردستی میرے ہونٹوں کی کس کرلیتا ہے میں اس پر بھی کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ یہ اپنے شوہر کے ساتھ بددیانتی کررہی ہوں وہ مجھے ہمیشہ کہتا ہے کہ تم نے مجھے چدائی کے حق سے محروم کرکے صرف کسنگ کے حق تک محدود کردیا ہے.

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...