مشال نے جیسے ہی کالج میں قدم رکھا تو اسے گھبراہٹ سی ہونے لگی
گھبراہٹ کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کالج پہلی بار جا رہی تھی مشال گریجوایشن کی طلبہ تھی اور یہ اسکا گریجوایشن میں یہ دوسرا سال تھا
مشال کے ابو کا پشاور سے اسلام آباد ٹرانسفر ہو گیا تھا تو مشال کو بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی یہاں آنا پڑا تو ظاہری سی بات ہے نیا کالج نئے لوگ پتا نہیں کیسا ہو گا سب کچھ
گھبرائے دل کے ساتھ مشال اپنی کتابیں اپنی چھاتی سے لگائے کالج میں داخل ہو گئی مشال نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ کلاس کے بارے میں وہ کسی سے پوچھ کر انسلٹ کروانے کی بجائے کالج انتظامیہ سے مدد لے لیگی
جلد ہی مشال کو اپنی کلاس مل گئی
مشال دھڑکتے دل کے ساتھ کلاس میں داخل ہوئی کلاس میں پچیس تیس کے قریب لڑکے لڑکیاں تھے جو سب اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ رہے تھے
مشال جانتی تھی کہ دو چار دن تو یہ برداشت کرنا ہی پڑیگا
کلاس سٹارٹ ہو گئی مگر میشال کو آج لیکچر کی سمجھ نہیں آ رہی تھی مموں پے لگی وہ کسی انجان کی کہنی اور بنڈ پر وہ رینگتا ہاتھ رہ رہ کر یاد آ رہا تھا بہت عجیب محسوس کر رہی تھی آج مشال
اکنامکس کی ٹیچر چلی گئی تو کلاس میں میتھ کی ٹیچر آ گئی مدیحہ نے میشال سے پوچھا خیر تو ہے آج پریشان لگ رہی ہو
میشال ہڑبڑا کر بولی کک کچھ نہیں وہ تھوڑا سر میں درد ہے
میں کینٹین سے ڈیسپرین لے کر آتی ہوں مدیحہ بولی اور اٹھ کر کھڑی ہونے لگی تو میشال نے ہاتھ سے پکڑ کر مدیحہ کو نیچے بیٹھا دیا
میتھ کی ٹیچر لیکچر کے بعد باہر چلی گئی تو پیچھے بیٹھی انم اور صدف آگے کو ہوئیں اور مدیحہ سے پوچھا نیچے کچھ چبھا تھا جو اٹھی تھی
مدیحہ نہیں یہ میشال کے سر میں درد ہے تو اس کے لئیے ڈیسپرین لانے کے لئیے اٹھی تھی صدف اٹھو یار چائے پی کر آتے ہیں تینوں کھڑی ہو گئیں تم بھی چلو یار یہاں اکیلی بیٹھ کر مکھیاں مارنی ہیں انم نے میشال کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
آپ جاؤ میرے سر میں درد ہے مجھے نہیں جانا اٹھو چائے پی کر ٹھیک ہو جائیگا تیرا درد انم بولی اور تینوں ہنس دیں میشال اٹھ کر انکے ساتھ کینٹین میں آ گئی
ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے صدف نے زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا میشال اک دم چونکی تینوں اک ساتھ ہاہاہا ہنسیں.
میشال نے باقی ٹیبلوں پر نظر ڈالی تو سب لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنی طرف متوجہ پایا
کینٹین والا انکل جلدی سے ٹیبل پر آ گیا جی صدف بی بی کیا لاؤں صدف چائے لے آؤ صدف کا لحجہ ایسا تھا جیسے وہ اس کالج کی ڈون ہو
انکل آرڈر لے کر چلا گیا اور دو مینٹ میں چائے لے آیا اک گولی ڈیسپرین بھی لا دیں انکل مدیحہ بولی مشال نہیں بس چائے سے ٹھیک ہو جائیگا صدف نے چائے کا سیپ لیتے ہوئے مشال کی طرف دیکھا اور چائے کا گھونٹ پی کر بولی درد ہے بھی یا ہمیں گولی دے رہی ہو
نننہیں اب ٹھیک ہے مشال بولی صدف کا پوچھنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ مشال ہکلانے لگی
چائے پی کر سب اٹھ گئیں اور بیڈمینٹن کے گراؤنڈ کی طرف چل دیں وہاں کچھ دیر گیم کر کے چاروں کلاس میں آ کر بیٹھ گئیں
کلاس ختم ہوئی تو سب کالج سے نکل آئیں مشال کو پھر بس پر گھر جانا تھا جسکی وجہ سے وہ پھر گھبرا رہی تھی
اتنی سہمی کیوں ہو پہلے کبھی بس میں سفر نہیں کیا مدیحہ نے میشال کی حالت دیکھ کر سوال کیا
صبح گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی تو صبح بھی بس میں آئی تھی
یار بس کے مزے بس میں ہی ہیں انم جوش سے بولی ہاں جب وقت آتا ہے تو ایسے ڈرتی ہو جیسے مر جاؤ گی صدف بولی یار ڈر کی بات نہیں میں نہیں چاہتی کہ کسی کی امانت میں خیانت کروں تو جو صبح کر رہی تھی وہ خیانت نہیں تھی مدیحہ بولی
مشال ان کے پاس کھڑی انکی باتیں سن رہی تھی اور صبح والے واقع کو لے کر اسے کچھ کچھ سمجھ آ رہی تھی کہ وہ کس موضوع پر بات کر رہی ہیں
اتنے میں بس آ گئی میشال نے ان سب کو بائے کیا اور گاڑی میں سوار ہونے کے لئے آگے بڑھی اور جلد ہی بس میں سوار ہو گئی اب سوار ہوتے ہوتے ہوئے میشال کو کسی نے ٹچ نہیں کیا
مشال ایک سیٹ کے ساتھ اپنی نرم و نازک بنڈ لگا کر کھڑی بس میں کافی رش تھا مشال کے سامنے اک آدمی آ کر کھڑا ہو گیا جس کی عمر لگ بھگ پینتیس سے چالیس سال ہوگی اچھی پرسنیلٹی تھی اور اس آدمی نے بلیک کلر کا ٹو پیس پہنا ہوا تھا.
بس جھٹکے سے چلی اور وہ آدمی مشال کے ساتھ جا لگا
گانڈ پہلے ہی سیٹ کے ساتھ لگی تھی جسکی وجہ سے مشال کا پیچھے ہونا نا ممکن تھا اس آدمی نے دونوں ہاتھوں سے بس کے اپر لگے ہینڈل کو پکڑا ہوا تھا مشال تنے ہوئے بتیس کے ممے اس آدمی کی چھاتی میں دب گئے تھے میشال پیچھے ہونا چاہ رہی تھی مگر یہ ممکن نہیں تھا
کچھ دیر بعد مشال کو اس آدمی کی زیپ والی جگہ پھولتی محسوس ہوئی اسکی زیپ والی جگہ میشال کی ناف سے نیچے پھدی سے تھوڑی اپر محسوس ہو رہی تھی
مشال کی سانسیں تیز ہونے لگیں جس سے اس کے تنے ہوئے ممے اپر نیچے ہونے لگے
مشال کو گھٹن سی ہونے لگی تھی پر اسے اندر ہی اندر کچھ اچھا بھی لگ رہا تھا
اس آدمی نے اپنا بایاں ہاتھ نیچے کیا اور اپنی زیپ والی جگہ پر لے گیا جب ہاتھ مشال کے پیٹ پر ٹچ ہوا تو مشال کے جسم میں ایک مزے کی لحر دوڑ گئی
اس آدمی نے زیپ والی جگہ پر کچھ کیا اور دوبارا ہاتھ اپر لے گیا مشال کی ناف کے نیچے کوئی سخت چیز چبھ رہی تھی جو اسے اچھی بھی لگ رہی تھی
اسکے دل میں خواہش پیدا ہونے لگی اس چیز کو چھونے کی جو اس کو چبھ کر اک الگ سا ہی لطف دے رہی تھی
وہ آدمی مزید اپنا نیچلا دھڑ مشال کی طرف دھکیل رہا تھا جیسے وہ مشال کے پیٹ میں وہ چیز اتارنا چاہ رہا ہو
مشال اپنا دایاں ہاتھ نیچے لے گئی جیسے ہی مشال کے ہاتھ کی انگلیاں اس آدمی کے گرم اور تنے ہوئی لن سے ٹچ ہوئیں مشال نے اک دم ہاتھ پیچھے کھینچ لیا
اتنے میں مشال کا سٹاپ آ گیا
پیچھے ہٹیں میرا سٹاپ آ گیا ہے مشال نے نظریں جھکائے اس آدمی سے کہا
مشال کے اتنا بولنے کی دیر تھی کہ وہ آدمی ہڑبڑا گیا اور جلدی سے ہاتھ نیچے لے جا کر ایسے کرنے لگا جیسے پینٹ میں کچھ چھپا رہا ھو
اتنے میں بس رکی اور مشال نے اک نظر اس آدمی پے ڈالی اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور ہونٹ کچھ کہنے کے لئیے کھلنے ہی لگے تھے کہ میشال چل دی..
بس سے اتر کر میشال بھاری قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی بڑی مشکل سے گھر پہنچی کتابیں رکھ کر سیدی واش روم گھس گئی بس میں جو ہوا تھا اسکی وجہ سے مشال کی پھدی گیلی ہو گئی مگر اس کے اندر لگی انجانی سی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی
چینج کر کے میشال کچن میں چلی گئی اور کھانا بنانے کچھ دیر بعد میشال کے ابو بھی آ گئے باپ بیٹی نے ملکر کھانا کھایا اور حیدر صاحب واپس آفس کے لئیے روانہ ہو میشال کچن میں برتن رکھ کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی آج جو دو سیکسی حادثے اس کے ساتھ ہوئے تھے وہ اس کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنے لگے
مشال کو پتہ ہی نا چلا کہ کب اسکا ہاتھ اسکی شلوار میں گھس کر اسکا پھدی کے دانے کو مسلنے لگا مشال کے زیہن میں اس وقت اس اجنبی آدمی کی پھولی ہوئی زیپ والی جگہ اور اسکا نیچے ہاتھ لے جا کر اس سخت اور گرم چیز کا باہر نکال کر اس کے جسم پر دبانا اسکا ہاتھ نیچے لے جا کر اس گرم سخت چیز کو چھونا سب گھوم رہا تھا جیسے جیسے وہ سوچ رہی تھی اسکی پھدی پر ہاتھ کی سپیڈ بھی ویسے ویسے تیز ہو رہی تھی
اچانک باہر کار کے ہارن سے مشال خیالی سیکس سے باہر آئی اور اسے پتا چلا کہ اسکا بایاں ہاتھ اس کی پھدی کو بغیر اجازت چھیڑ رہا تھا
مشال جلدی سے اٹھ کر باہر آئی گیٹ کھولا اور اس کے ابو گاڑی اندر لے آئے گاڑی کھڑی کر کے حیدر صاحب گاڑی سے باہر نکل آئے
آپ آج جلدی آ گئے ہیں پاپا خیر تو ہے گاڑی ورکشاپ میں تھی تو دفتر سے چھٹی لے کر گاڑی لے کے آ گیا
باپ بیٹی اندر چلے گئے مشال چائے بنانے کچن کی طرف چل دی اور حیدر صاحب ٹی وی دیکھنے لگے.
اک طرف بیٹھی تین لڑکیوں کی طرف مشال چل دی اور ان کے ساتھ بیٹھ گئی اتنے میں کلاس میں ٹیچر آ گئی
ٹیچر نے آتے ہی پوچھا کلاس میں کون نعی لڑکی آئی ہے
مشال کھڑی ہو گی ھیلو مس آئی ایم مشال ٹیچر نائیس نیم مس میں آپکی اکنامکس کی ٹیچر روبینہ ھوں اور مشال کو بیٹھنے کا کہہ کر مس روبینہ پڑھانے لگ گئیں
مشال کے ساتھ بیٹھی تین لڑکیوں میں سے اک لڑکی مشال کے کان کے پاس منہ لا کر بولی بہت کان کھاتی ہے یہ مس روبینہ
مشال کو یہ سن کر عجیب لگا اس نے اک نظر اس لڑکی کی طرف دیکھا لڑکی نے ہاتھ بڑھایا آئی ایم مدیحہ پیار سی مجھے سب لاڈو بلاتے ہیں مشال نے اس سے ہاتھ ملایا اور سرگوشی سی آواز میں بو لی آئی ایم مشال
پھر مشال لیکچر کی طرف دھیان دینے لگی اور وہ تینوں آپس میں باتیں کرنے لگ گئیں
کلاس کے بعد مشال گھر جانے کے لئیے کالج گے گیٹ پر کھڑی اپنے پاپا کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ تینوں لڑکیاں بھی آ گئیں انکا روخ مشال کی طرف ہی تھا آتے ہی سب نے باری باری مشال سے ہاتھ ملایا
ہیلو مشال آئی ایم انم اینڈ آئی ایم صدف مشال نے ہلکی سی مسکراہٹ سے انہیں بھی ہیلو بولا اور اپنا تعارف کروایا پھر سب خاموش ہو گئی مشال نے محسوس کیا کہ مدیحہ اسکی طرف کچھ زیادہ ہی دیکھ رہی ہے جس سے مشال کو الجھن سی ہونے لگی.
اتنے میں مشال کے ابو آ گئے اور مشال ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف چل دی
سارے رستے مشال چپ رہی گھر پہنچ کر مشال کے ابو حیدر صاحب نے مشال سے پوچھا کیسا رہا کالج کا پہلا دن تو مشال نے منہ سا بنا کر کہا بس ٹھیک رہا
مشال کے ابو سمجھ گئے بیٹا پہلا دن تھا نیا کالج ہے شاید اس لئیے تمہیں آج مزہ نہیں آیا آہستا آہستا سب ٹھیک ہو جائیگا مشال کے ابو نے کہا
مشال نے جلدی سے کھانا گرم کر کے ٹیبل پر لگا دیا اور کھانا کھانے لگے
بیٹا تم اس وقت صرف دو سال کی تھی جب تمہاری ماں کا انتقال ہوا تھا آخری دنوں میں تمہاری ماں بس مجھے یہی کہتی رہی مشال کا خیال رکھنا اور آج بھی میرے کانوں میں تمہاری ماں کے وہ کہے الفاظ گونجتے ہیں
مشال ابو میں سب جانتی ہوں میری وجہ سے آپ نے شادی بھی نہیں کی سوتیلی ماں مجھے پیار نہیں دے گی اس ڈر کی وجہ سے
حیدر صاحب اٹھے اور دوبارہ آفس چلے گئے مشال نے برتن اٹھائے اور کچن میں رکھ کر سو گئی
شام کو مشال کے ابو نے ہی آ کر اسے جگایا اور باپ بیٹی رات نو بجے باہر کسی ہوٹل میں کھانا کھانے چلے گئے
گیارہ بجے واپس آئے اور اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے
صبح جلد ہی مشال اٹھ گئی اور ناشتہ کر کے باپ بیٹی نکلنے لگے تو گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی مشال کے ابو نے کافی کوشش کی مگر بات نا بنی گاڑی کا بونٹ رکھتے ہوئے احمد صاحب بولے بیٹا آج بس سے چلی جاؤ
مشال نے برا سا منہ بنا کر اپنے ابو کی طرف دیکھا مشال کے ابو نے کانوں کو پکڑ کر کہا سوری بے بی دوبارہ نہیں ہو گا مشال نے اپنے ابو کی چھاتی پے ماتھا رکھ دیا احمد صاحب نے اپی بیٹی کا کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کیا اور ماتھ پر بالوں سے چوم کر مشال کو رخصت کر دیا
مشال بس سٹاپ پر پہنچی تو وہاں کافی رش تھا مشال سٹاپ پر عورتوں والی سائیڈ پر جا کر کھڑی ہو گئی اور بس کا انتظار کرنے لگی مشال کا دھیان اس طرف تھا جدھر سے بس آنی تھی
مگر بس دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی مشال نے اپنے دائیں طرف کھڑے مردوں کی طرف سرسری سی نگاہ ڈالی تو مشال کو اپنے نازک سے چہرے اور چھاتی پر تنے ہوئے بتیس سائیز کے مموں پر لوگوں کو دیکھتے ہوئے پایا
مشال نے جلدی سے نظر گھما لی اور پھر سے جدھر سے گاڑی آنی تھی اس طرف دیکھنے لگی اسے انجانی سی لوگوں کی نظر اپنے مموں پر محسوس کر کے فیلنگس آ رہی تھی مشال جہاں بھی گئی تھی اپنے ابو کے ساتھ گاڑی میں گئی تھی شائید یہی وجہ تھی کہ اسے آج لوگوں کو اسطرح اپنے مموں پر متوجہ دیکھ کر کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا
سڑک پر دیکھتے ہوئے بس مشال کی نظر کے سامنے نمودار ہوئی بس آ کر سٹاپ پر رکی کچھ لوگ اترے مگر اس سے چار گنا زیادہ لوگ بس میں سوار ہونے کے لئے تیار تھے مشال کے مموں پر کسی کی کہنی لگی تو مشال نے جلدی سے اس طرف دیکھا اتنے میں پیچھے سے اسے اپنی نرم سی پھولی ہوئی بنڈ (گانڈ) پر کسی کا ہاتھ رینگتا محسوس ہوا اس سے پہلے کہ مشال پیچھے دیکھتی اس ہاتھ کی انگلی مشال کی بنڈ کی دراڑ میں آئی اور بنڈ کو موری پر آتے ہی انگلی اک دم سے آگے ہوئی اور جھٹکے سے مشال بس پر چڑھ ئی
آگے پیچھے اتنے لوگ ہونے کی وجہ سے مشال یہ حرکت کرنے والے کو دیکھ نا پائی
مشال بہت گھبرا گئی تھی کیونکہ ایسا آج تک اس کے ساتھ نہیں ہوا تھا مشال سہمی سی کھڑی تھی اتنے میں بس چل پڑی تیس مینٹ کے سفر کے بعد مشال اپنے کالج کے سٹاپ پر اتری اور گھبرائی سی کلاس میں انہی تین لڑکیوں کے پاس جا بیٹھی
پانچ مینٹ میں ہی میشال چائے لے کر آ گئی اور باپ بیٹی چائے پینے لگے
ابو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں کل کھانا کھا کر ہی آ گئے تھے مشال نے چائے کا سیپ لیتے ہوئے کہا
شام کو چلیں گے بیٹا ابھی میں کچھ دیر آرام کر لوں حیدر صاحب نے جواب دیا
پھر مشال کے نئے کالج اور حیدر صاحب کے نئے آفس کے بارے میں کچھ باتیں ہوئیں چائے ختم ہو گئی مشال برتن لے کر کچن میں چلی گئی حیدر صاحب اپنے کمرے میں چلے گے اور مشال بھی کچن سے فارغ ہو کر اپنے روم میں کتابیں لے کر بیٹھ گئی
نصاب تھوڑا پیچھے تھا اس لئیے مشال کو تھوڑی سخت محنت کرنا تھی
شام کو باپ بیٹی گھر لاک کر کے ایف ٹین پارک آ گئے گاڑی ایک طرف پارک کر کے باپ بیٹی پارک کے اندر چلے گئے
پارک میں فٹ پاتھ کے دونوں طرف لائیٹیں لگی ہوئی تھیں باپ بیٹی فٹ پاتھ پر چلنے لگے کچھ آگے جا کر ایک جگہ ایک لائیٹ بند تھی
جب وہ دونوں وہاں سے گزرے تو مشال کو فٹ پاتھ کے دائیں طرف کھسر پھسر سنائی دی مشال نے غور کیا تو اسے ایک جھٹکا سا لگا اور جسم میں ایک لہر سی اٹھی جس سے اسکی پھدی نے منہ کھول کر بند کیا لٹرکی ٹانگیں سیدھی کر کے لیٹی تھی اور اسکا پتہ نہیں شوھر تھا یا عاشق وہ اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا لڑکی اس پر جھکی ہوئی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مگن تھے
اک دم مشال کو اپنے باپ کے ساتھ ہونے کا احساس ہوا اور وہ چپ چاپ آگے چل دی حیدر صاحب کو شاید کچھ نظر نہیں آیا تھا جو وہ مشال سے نارمل باتیں کرتے ہوئے ہی چل رہے تھے پھر اک دم مشال کو یاد آیا کہ اس کے ابو کی نظر کافی کمزور ہے انکو سچ میں پتہ نہیں چلا کیونکہ کافی اندھیرا بھی تھا
تھوڑا آگے جا کر اک ٹک شاپ آ گئی وہاں سے باپ بیٹی نے چیپس لئیے اور فٹ پاتھ کے ساتھ سیمنٹ کے بنے ہوئے اک بنچ پر بیٹھ کر کھانے لگے
جہاں وہ بیٹھے تھے کافی اندھیرا تھا باپ بیٹی چیپس کھا رہے تھے کہ اک جوڑا سرگوشی میں باتیں کرتا ان کے پاس سے گزرا اور دیوار کے ساتھ لگے درختوں میں کہیں غائیب ہو گیا
مشال کے دل میں ان کو دیکھنے کی خواہش جاگنے لگی کہ وہ کرتے کیا ہیں مگر حیدر صاحب کہ ساتھ ہونے کی وجہ سے اسکا وہاں سے جانا نا ممکن تھا
باپ بیٹی وہاں آدھا گھنٹہ بیٹھے رہے مشال لگاتار ان درختوں کی طرف دیکھ رہی تھی کہ شاید کچھ نظر آ جائے مگر اندھیرے کی وجہ سے اس کچھ نظر نہیں آ رہا تھا مشال کے جسم میں حلچل سی مچی تھی اور یہی سوچی جا رہی تھی کہ وہ کیا کر رہے ہونگے
مشال کافی حیران تھی اسلام آباد کا ماحول دیکھ کر کیونکہ اس سے پہلے اس نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا اور یہاں آ کر تو اس نے لن کو جسم کے ساتھ محسوس بھی کر لیا تھا
چلو مشال بھوک لگی ہے کہیں کھانا کھاتے ہیں مشال سیکسی سوچوں میں کھوئی ہوئی جججی ابو چلیں
باپ بیٹی اٹھ کر چل پڑے مگر مشال پلٹ پلٹ کر پیچھے دیکھ رہی تھی پر جلد ہی دونوں گاڑی میں تھے اور اک ہوٹل سے کھانا کھا کر گھر آ گئے
مشال سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ لاک کر کے چینج کرنے لگی
پہلے قمیض اتارا پھر شلوار اب مشال صرف وائیٹ برا اور وائیٹ پینٹی میں تھی اچانک مشال کی نظر اپنے ڈریسنگ پر گئی اور وہ چلتی ہوئی شیشے کے سامنے پہنچ گئی اور اپنے جسم کو گھوم گھوم کر آگے پیچھے سے دیکھنے لگی مشال کو اپنے ہی جسم کو ننگا دیکھنے کا مزہ آ رہا تھا
پھر مشال نے برا کا لاک پیچھے ہاتھ لے جا کر کھولا اور برا کو بازؤں سے نکال کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا
اب مشال کے ہاتھ اس کے دودھ سے سفید مموں پر تھے جن سے وہ اپنے مموں کو مسل رہی تھی اور چٹکی میں اپنے پینک کلر کے نیپلوں کو مسل رہی تھی
مشال کی پھدی میں خارش سی ہونے لگی اور مشال کے کا دایاں ہاتھ بے اختیار ہی پھدی تک پہنچ گیا اور پھدی سے کھیلنے لگا
کچھ دیر بعد مشال کی پینٹی بھی برا کے ساتھ پڑی تھی اور مشال کے دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی پھدی کے دانے کو مسل کر مشال پر انجانی سی خماری طاری کر رہی تھی مشال اپنے بیڈ کی طرف بڑھی اور لیٹ کر پھدی کے دانے کو مسلنے لگی پھدی سی پانی رس رہا تھا جسے وہ انگلی کے ساتھ لگا کر دانے پر مسل رہی تھی اسے بہت مزہ آ رہا تھا اور بیچینی (آگ) بڑھتی جا رہی تھی
دایاں ہاتھ پھدی پر اور بایاں ہاتھ مموں کو دبا رہے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشال کی سانسیں بھی تیز ہو رہی تھیں پھر بس کے واقع کو سوچ کر یہ سب کرنے کا مشال کو اور مزہ آنے لگا
جسم اکڑنے لگا اور مشال کے ہاتھ کی سپیڈ بھی دگنی ہو گی اور مموں کو دبانے کی بجائے اب مشال تقریبا انہیں نوچ رہی تھی آہ.....
سسسسسسی آہ
منہ سے خارج ہوا اور مشال کو جھٹکنے لگنے لگے پھدی پر چلنے والے ہاتھ کی انگلیاں مشال کی پھدی سے نکلنے والے گرم پانی سے بھیگنے لگیں
ہر لگنے والا جھٹکا مشال کو اور ہی دنیا میں لے جا رہا تھا چند سیکنڈ میں ہی مشال ٹھنڈی ہو گئی مشال کی آنکھیں بند تھیں اور چند سیکنڈ پہلے کے اس مزے اور اس کے بعد آئے اس سکون کو محسوس کر کے مشال کو نیند آنے لگی اور جلد ہی وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی
ٹیبل پر پڑے کلاک نے شور مچا مچا کر مشال کو جگا دیا
مشال اٹھ کر بیٹھ گئی اور ہاتھوں کے مکے بنا کر آنکھیں مسلنے لگی
اور رات جو کچھ اس نے کیا تھا سب اس کے دماغ میں کسی مووی کی طرح چلنے لگا
مشال کے چہرے پر ہلکی سی مسکان آ گئی وہ اٹھ کر دوبارہ شیشے کے سامنے آ گئی اور اپنا بے داغ دودھ سا سفید جسم شیشے میں دیکھ کر خوش ہونے لگی 32 کے گول گورے ممے جن پر پینک کلر کے نیپل تھے نیچے گورا اور بلکل جسم سے چپکا ہوا پیٹ، گہرا بیلی بٹن ناف سے تھوڑا نیچے جا کر اک چھوٹی سی پھدی مشال نے ٹانگیں پھیلا لیں اور اپنی پھدی کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی مگر شیشے میں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا مشال آگے کو جھکی تو پھدی کے آپس میں چپکے ہوئے ہونٹ دیکھنے لگی دائیں ہاتھ کی انگلی پھدی کے کے ہونٹوں میں پھیری تو مشال کہ منہ سے سسسسسی نکل گئی
کچھ دیر پھدی کی دراڑ میں انگی پھیر کر مشال باتھ روم گھس گئی اور نہا کر ناشتہ بنا لیا باپ بیٹی نے ناشتہ کیا اور گھر لاک کر کے نکل پڑے
کالج کے گیٹ پر مشال کو اتار کر حیدر صاحب اپنے آفس کی طرف نکل گئے
کلاس میں داخل ہوئی تو سب سے اگلے بینچ پر بیٹھے اک ہینڈسم پر مشال کی نظر پڑی جو اکنامکس کی بک پر نظر جمائے بیٹھا تھا مشال چلتی ہوئی اپنی ان تین دوستوں کے پاس چلی گئی سب کو ہیلو کیا مدیحہ دیوار کی طرف ہو گئی اور مشال اس کےساتھ بیٹھ گئی
ساڑھے آٹھ ہو گئے مگر ٹیچر ابھی تک نہیں آئی تھی کالج کا ایک ملازم آیا اور یہ بتا کر چلا گیا کہ آپکی ٹیچر کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی آج چھٹی ہے کلاس نہیں ہو گئی
چلو اٹھو آج میں نے تم سب سے ایک راز کی بات کرنی ہے صدف نے کہا
انم اور مدیحہ اٹھ کر کھٹری ہو گئیں مشال نے ٹانگیں کلوز کر مدیحہ کو نکلنے کے لئیے جگہہ دی
تم بھی چلو یار چلو اٹھو مدیحہ نے مشال سے کہا
تم شاید بھول رہی ہو یہ صرف ہمارے ساتھ بیٹھتی ہے ہماری گروپ میمبر نہیں
اب یہ بھی ہماری فرینڈ ہے اسکو بھی ساتھ ملا لیتی ہیں صدف اگر یہ رازدار بن کر ہمارا ساتھ دے سکتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے کہو ہم سے دور ہی رہے
مشال کو اسکا یہ لحجہ اچھا نہیں لگا نہیں آپ جاؤ صدف کو شاید میرا آپ کے ساتھ رہنا اچھا نہیں لگتا
چل اٹھ صدف بولی مشال کھڑی ہو گئی صدف کلاس سے باہر آ گئی باقی تینوں اس کے پیچھے چلتی ہوئیں کالج کی بیلڈینگ کے پیچھے آ گئیں
صدف وہاں نیچے گھاس پر بیٹھ گئی اور وہ تینوں بھی صدف کے آس پاس بیٹھ گئیں
صدف نے اک لمبا سانس لیا اور بولی میں نے پوری پلاننگ کر لی ہے کل ہم چاروں گیارا بجے سائیں بابا کے پاس چلیں گیں لیکن ایک ساتھ نہیں باری باری کسی کو شک نا ہو کہ ہم ایک دوسری کو جانتی ہیں بارہ بجے سائیں بابا کھانا کھانے جاتے ہیں سب سے پہلے جائیگی مدیحہ اور بابا کے بالکل سامنے بیٹھ جائیگی پھر میں جاؤں گی اور مدیحہ کے پیچھے بیٹھ جاؤں گی پھر انم آئے اور میرے پیچھے بیٹھ جائے بارہ بجے جیسے ہی بابا جائے بارہ بج کر پانچ مینٹ پر مشال اندر آ جائے مدیحہ بابے کی وہ جادو والی کتاب اٹھائیگی اور مجھے پکڑائیگی پھر میں انم کو دونگی اور مشال تم آ کر پوچھنا بابا جی کدھر ہیں کافی لوگ ھونگے وہ کہہ دیں گے کھانا کھانے گئے ہیں باتیں کرتے کرتے بیٹھ جانا انم سے کتاب پکڑ کر دوپٹے میں چھپا لینا ٹھیک بارا بج کر پندرہ مینٹ پر اٹھنا اور کتاب لے کر اپنے گھر چلی جانا
یہ غلط ہے یار چوری کرنا گناہ ہے میں یہ سب نہیں کر سکونگی مشال پریشان ہو کر بولی
میں نے کہا تھا یہ بزدل ہے اس سے کچھ نہیں ہو گا چلو اٹھو اور دبارہ ہم میں سے کسی کے پاس سے بھی گزری تو تیرا وہ حال کرونگی کے دنیا یاد رکھیگی صدف غصے میں پھنکارتے ہوئے بولی
یییہ ککککیسی دددوستی ہے جس کا آغاز ہی چوری سے ہو مشال نے ڈرتے ہوئے کہا
تم ساتھ تو چل کر دیکھو ہمارے تمہیں دوستی کا پتہ چلے اور اس کتاب سے ہم اتنی طاقت وار ہو جائیں گیں کہ ہم جو چاہیں گیں وہ ہو گا
کچھ دیر بعد مشال بولی مجھے سوچنے کے لئیے وقت چاھئیے
ہمارے نمبر لے لو اور رات آٹھ بجے تک ہمیں کال کر کے بتا دینا
مدیحہ نے صدف کے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مشال نے نمبر لے لئیے اور اٹھ کر چلی گئی
تھوڑی دیر بعد باقی تینوں بھی کلاس میں آ گئیں اور ساتھ ہی بیٹھ گئیں
باقی کا سارا دن بس ایسے ہی گزرہ اور چھٹی کے بعد مشال اپنے ابو کے ساتھ گھر آ گئی دوپہر کا کھانا بنایا اور دونوں باپ بیٹی کھانے لگے
کیا بات ہے مشال آج سارے رستے بھی چپ رہی اور اب بھی خاموش ہو کیا ہوا کسی نے کچھ کہا حیدر صاحب نے کھانا کھاتے ہوئے پوچھا
نہیں ابو سر میں تھوڑا درد ہے کھانا کھا کر پین کلر لے لونگی ٹھیک ہو جائگا
کھانا کھا کر حیدر صاحب چلے گئے مشال نے برتن وغیر سنبھالے اور اپنے کمرے میں آ کر سوچنے لگی کہ کیا کرے اسے بار بار مدیحہ کی کہی وہ بات یاد آ رہی تھی کہ اس سے طاقتوار ہو جائیگی کافی سوچ بچار کے بعد مشال نے فیصلہ کر لییا کہ اگر غلط لگا تو انکو چھوڑ دیگی کالج کی پہلی دوستیں ہیں انکو نا ہی ناراض کیا جائے اور طاقت وار بھی ہو جائیگی
شام سات بجے مشال نے مدیحہ کو فون کر کے کہا کہ وہ تیار ہے مدیحہ نے خوش ہوتے ہوئے اسے کہا کہ ٹھیک ہے میں ان دونوں کو بھی بتاتی ہوں اور صبح کلاس میں بیٹھ کر باقی پلاننگ کرینگے بائے کہ کر مدیحہ نے کال کٹ کر دی
اگلے دن انہوں نے پہلا پیریڈ پڑھا اور 10 بجے کالج سے باہر آ گئیں
ٹیکسی پکڑی اور چاروں سائیں بابا کے حجرے کے پاس ہی اتر گئیں پلانینگ کے مطابق بابا جی کھانا کھانے گئے کتاب چوری کی اور مشال لے گھر چلی گئی بابا جی کو اس وقت تو نا پتا چلا اور وہ باقی تینوں نے بابا جی سے جھوٹی موٹھی بیماری کے تعویز لئیے اور وہ بھی نکل آئیں
باہر آ کر مشا ل کو کال کی اور صبح اسے کتاب کالج ساتھ لانے کا کہ کر خوشی خوشی تینوں اپنے اپنے گھر چل دیں
مشال بارہ بجے گھر پہنچ گئی اور اس جادو والی کتاب کو اپنے کمرے میں رکھ دیا فریش ہو کر دوپہر کا کھانا بنانے لگ گئی گاڑی کی پییییی کی آواز آئی مشال جلدی سے باہر گئی اور گیٹ کھول دیا حیدر صاحب گاڑی اندر لے آئے
حیدر صاحب کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور مشال کھانا لے آئی
اچھا کیا فون کر کے بتا دیا ورنہ میں کالج کے گیٹ پر ہی کھڑا رہ جاتا حیدر صاحب بولے
ابو ٹیچر بیمار تھی تو سوچا گھر چلی جاؤں کالج میں بھی تو فارغ تھی کھانا کھاتے ہوئے مشال نے اپنے ابو سے کہا
حیدر صاحب کھانا کھا کر چلے گئے مشال کچن سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئی
آج کی گئی چوری کے بارے میں مشال سوچنے لگی آخر اس کتاب میں کیا ہے جو ان تینوں کو یہ کتاب چوری کرنی پڑی
مشال وہ کتاب اٹھا کر لے آئی اور کھول کر دیکھنی لگی وہ کتاب بہت قدیم تھی اور پرینٹ نہیں ہوئی تھی بلکہ ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی اس میں مختلف قسم کے جادو لکھے ہوئے تھے مشال ورق پلٹ رہی تھی کہ اچانک اسکی نظر
اک منتر پر پڑی جہاں بڑا کر کے لکھا ہوا تھا
اس منتر سے عورت چڑیل بن سکتی ہے چڑیل بننے کا طریقہ شرتیں درج ہونے کے ساتھ اسکی قیمت بھی لکھی تھی
چڑیل بننے کے لئیے عورت کنواری ہو کسی مرد نے چھووا نا ہو اور چڑیل بن جانے کے بعد اسی وقت جنوں کا شہنشاہ آئیگا جو اسکا کنوارا پن ختم کریگا اور بدلے میں اسے اتنی طاقت دے جائیگا کہ جو وہ چاہیگی ہو گا یعنی کنوارا پن قیمت ہے چڑیل بننے کی
مشال نے کتاب رکھی اور لیٹ کر سوچنے لگی کہ یہ کتاب کیوں چرائی صدف نے آخر وہ کیا چاہتی ہے
بہت سے سوال تھے جن کا جواب وہ چاہتی تھی مگر کون دیتا اسے سوچتے سوچتے نا جانے کب اسے نیند آ گئی
گاڑی کے ہارن سے مشال کی آنکھ کھلی ٹائیم دیکھا تو ساڑھے پانچ ہو رہے تھے مشال نے دوپٹہ گلے میں ڈالا اور اٹھ کر مین گیٹ کھلا حیدر صاحب گاڑی لے کر اندر آ گئے پھر باپ بیٹی نے ڈینر کیا اور اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے
مشال کالج کے گیٹ پر اتر گئی اور حیدر صاحب گاڑی لے کر چلے گئے کلاس میں جاتے ہوئے اسے اپنی طرف آتا ھوا وہی لڑکا دکھائی دیا جسے اس نے اپنی کلاس میں دیکھا تھا
ہیلو آئی ایم زوہیب سب مجھے زیبی کہتے ہیں اس نے مشال کی طرف ہاتھ بڑھایا مشال نے ہاتھ ملایا اور جواب دیا میں مشال ہوں
ہم ایک ہی کلاس میں ہیں زیبی بولا
جی مجھے پتا ہے مشال نے جواب دیا
شام کو میں کرکٹ کے گراونڈ میں پریکٹس کرتا ہوں آپ آنا گپ شپ لگائینگے زیبی نے مشال کے چہرے پر نظر لگائے کہا
مشال کچھ بولنے ہی والی تھی کہ صدف آ گئی اور وہ بولتے بولتے چپ ہو گئی
چلو کلاس میں چلو صدف مشال کا بازو پکڑ کر بولی اور مشال کو تقریبا کھینچتے ہوئے لے کر چل پڑی
صدف مشال کا بازو پکڑے ہی بینچ پر بیٹھ گئی اور کھینچ کر اسے بھی ساتھ بیٹھا لیا
میری بات دھیان سے سنو مشال
تم اس کالج میں نئی ہو تمہیں ابھی سب کو جاننا چاہئے پھر کسی سے دوستی کرنی چاہئیے زیبی بہت دھوکہ باز لڑکا ہے نا جانے کتنی لڑکیوں سے اس نے جھوٹا پیارا کیا اور انکو استعمال کر کے چھوڑ دیا میرا اک دوست کی حیثیت سے فرض بنتا ہے کہ تمکو ایسے بھیڑیئے سے بچاؤں آگے تمہاری مرضی صدف اتنا بول کر چپ ہو گئی
صدف میں آ رہی تھی تو آ گے سے مل گیا میں کونسا اسے خود ملنے گئی تھی تم نے بتا دیا تو اب اس سے دور رہونگی مشال نے سرد لہجے میں کہا
اچھا چھوڑو وہ کتاب لائی ہو صدف نے بات بدلتے ہوئے پوچھا ہاں بیگ میں ہے نکال کر دوں مشال نے کہا
مس روبینہ آنے والی ہے پیریڈ کے بعد بیڈمینٹن کے گراؤنڈ میں چلیں گیں پھر وہاں بیٹھ کر اسکا مطالعہ کریں گیں صدف نے جواب دیا
ٹیچر کلاس میں آ گئی اور پڑھائی ہونے لگی پیریڈ ختم ہوا تو چاروں دوستیں بیڈ مینٹن کے گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ گئیں مشال نے بیگ سے کتاب نکال کر صدف کو دی تو صدف نے کتاب نیچے رکھ کر کھول دی
سب کتاب پر جھک گئیں کتاب کے پہلے پیج پر لکھا ہوا تھا اس میں لکھے گئے ہر عمل کی قیمت ساتھ درج ہے جو عمل پورا ہونے پر عامل کو ادا کرنا ہو گی ادا نا کرنے کی صورت میں نقصان کا عامل خود زمہ دار ہو گا
مدیحہ یار کیا قیمت ہو گی ان عملوں کی
صدف یار ہر عمل کے بعد اسکی قیمت درج ہے دیکھ لیتے ہیں
صدف نے پیج پلٹا تو اس میں پہلا منتر تھا اپنی مرضی کی کوئی اک خواہش پوری کریں.
انم چلو یہ کر کے دیکھتے ہیں
صدف تمہیں بہت جلدی ہے کہیں سکون سے بیٹھ کر کریں گے کالج میں یہ ٹھیک نہیں ہے
انم تو پھر کہاں کریں
صدف میرے گھررررر تو امی ابو اور دو بھائی ہوتے ہیں تو وہاں تو مشکل ہے
انم میرے بھی نہیں ہو سکتا ہماری تو کمبائین فیملی ہے
مدیحہ میری تین بڑی بہنیں گھر ہوتی ہیں تو ادھر بھی نہیں کر سکتے
صدف مشال تمہارے گھر ہو سکتا ہے کیا
مشال صبح آٹھ سے بارہ بجے تک گھر خالی ہوتا ہے پھر ابو لنچ کرنے آتے ہیں اور دو بجے چلے جاتے ہیں اور پھر چھے بجے سے پہلے واپس نہیں آتے
انم تو تمہاری امی تو گھر ہونگیں اور بہن بھائی بھی
مشال نہیں میں اور ابو اکیلے رہتے ہیں
صدف باقی فیملی کہاں ہے
مشال امی فوت ہو گئی تھیں جب میں تین دن کی تھی پھر ابو نے شادی نہیں کی بس میں اور ابو ہی ہیں
صدف یار بہت دکھ ہو رہا ہے تم اکیلے رہتے ہو
پھر مشال بولی دو بجے میری طرف آ جانا وہاں تجربے کریں گے
سب نے او کے کیا اور کلاس میں چل دیں
کلاس کے بعد مشال اپنے ابو کے ساتھ گھر آ گئی دونوں نے ساتھ لنچ کیا اور حیدر صاحب دوبارہ آفس چلے گئے
مشال نے صدف کو کال کر دی کہ ابو چلے گئے ہیں اور اپنے گھر کا پورا ایڈریس بھی سمجھا دیا
بیس مینٹ بعد تینوں مشال کے گھر میں تھیں تینوں نے چائے پی اور مشال کے گھر میں بنے اک چھوٹے سے لان میں آ کر بیٹھ گئیں
میں نے ساری کتاب پڑھی ہے ہم سب سے پہلے ہوا میں اڑنے والا جادو کریں گیں
آؤ منتر یاد کر لیں سب نے اپنا اپنا منتر یاد کر لیا مشال نے اپنے موبائیل کو ویڈو رکارڈنگ پر لگا کر سیٹ کر کے رکھ دیا تا کہ سب کی ویڈیو بن جائے پھر سب گھٹنے فولڈ کر کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئیں
پھر صدف نے سب کو بتایا کہ جب ہمارے منتر کا رزلٹ آنے لگا تو ہمیں اسکی نشانی ملیگی جو بھی ہو آنکھیں مت کھولنا جب نیچے اترنا ہوا تو منتر کے آخری دو لفظ ساتھ نا پڑھنا نیچے آ جائیں گیں
سب نے آنکھیں بند کیں اور آواز ملا کر منتر پڑھنے لگیں جیسے ترانہ پڑھ رہی ہوں
پہلے تو دس مینٹ ایسے ہی گزر گئے پھر اچانک آندھی آ گئی اور ساتھ بادل بھی گرجنے لگا اک دم ان کی آواز بند ہو گئی پھر صدف تیز تیز منتر پڑھنے لگی اور ساتھ ہی باقی تینوں بھی لگ گئی پھر اک دم آندھی اور بادلوں کی گرج بند ہو گئی اور سب کو اپنے جسم اپر کو اٹھتے محسوس ہونے لگے اور تھوڑے سے اپر جا کر رک گئے
ان کے جسم اب زمین سے تقریبا ایک سے ڈیڈھ فٹ اپر ھوا میں تھے سب چپ ہو گئیں صدف آنکھیں بند کئے ہی بولی ہاں کون کون اپنے آپ کو ہوا میں محسوس کر رہی ہے سب نے بتایا کہ ہم سب ہوا میں ہیں
پھر صدف نے کہا چلو نیچے چلتے ہیں آخری دو لفظ چھوڑ کر سب منتر پڑھنے لگیں اور دو مینٹ میں ہی سب نیچے آ گئیں
سب نے آنکھ کھول دیں اور اٹھ کر اپنی کامیابی کی خوشی میں ناچنے اور جپھیاں ڈالنے لگیں
اندر آ کر سب بیٹھ گئیں اور آج کی کامیابی پر باتیں کرنے لگیں اچانک مشال کو خیال آیا کہ ہم نے اس منتر کی قیمت تو ادا ہی نہیں کی
صدف تجربہ تو ہمارا کامیاب ہو گیا اسکی قیمت تو ادا کر لیں سب سنجیدہ ہو گئیں
صدف نے کتاب کھولی اور اس منتر کی قیمت دیکھنے لگیں منتر کے ساتھ اس کی قیمت تین قطرے خون کے بہانے ہیں مشال اندر سے ایک سوئی لے آئی اور سب نے اپنی انگلیوں سے تین تین خون کے قطرے نکال دئیے
پھر تینوں جانے کے لئیے اٹھی گئیں صدف اور مدیحہ گیٹ سے نکل گئیں جب انم گزرنے لگی تو مشال کے کان کے پاس منہ لے جا کر بولی میرا اک کام ہے چھوٹا سا میں گھر جا کر فون کروں گی اور باہر نکل گئی مشال ان کے گلی سے مڑنے تک ان کو جاتے پیچھے سے دیکھتی رہیں جب وہ مڑ گئیں تو مشال نے گیٹ بند کیا اور اپنے کمرے میں آ کر گئی کچھ دیر بعد مشال کو یاد آیا کہ کتاب تو وہ ادھر ہی چھوڑ گئی ہیں اور مشال کے ابو کے آنے کا بھی ٹائم ہو رہا ہے
وہ اٹھ کر ڈرائینگ روم میں آئی اور کتاب کو اپنے کمرے میں الماری کے اندر رکھ کر لیٹ گئی
مشال کے موبائیل کی گھنٹی بجی انم کا فون تھا
مشال نے کال رسیو کی ہیلو اسلام و علیکم کہا
انم نے سلام کا جواب دیا ہاں کیا کام ہے جناب
یار سمجھ نہیں آ رہی تمہیں کہوں یا نا انم بولی
یار ہم دوستیں ہیں تم بولو مشال نے اسے اپنائیت سے کہا
وہ میرا ایک کزن ہے تو ہم نے ملنا ہے جگہہ کا انتظام نہیں ہو رہا تمہارے گھر کوئی نہیں ہوتا تو کیا تم ہمیں ملوا سکتی ہو
آ جانا میرا گھر گھس تو نہیں جائیگا مشال ہنس کر بولی
تھینکس یار مجھے یعقین تھا کہہ تم انکار نہیں کرو گی
اچھا بتا کب آنا ہے مشال نے پوچھا
کل ہی ملوا دو یار
مشال کو کالج کے گیٹ پر اتار کر حیدر صاحب گاڑی لے کر چلے گئے
کلاس میں مشال جیسے ہی داخل ہوئی سب سے پہلے زیبی پر ہی نظر پڑی جو اداس سا بیٹھا تھا
مشال کی نظر جیسے ہی اسکی نظر سے ٹکرائی تو اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکان آ گئی
مشال نے بھی ہلکی سی سمائیل پاس کی اور اپنی جگہہ پر جا بیٹھی
کچھ دیر بعد انم، مدیحہ اور صدف بھی آ گئیں ہاتھ ملائے سب نے اور انم صدف کے ساتھ بیٹھ گئی
انم: کیسی ہو مشال؟
مشال: میں تو ٹھیک ہوں پر تم آج بہت نکھری ہوئی ہو خیر تو ہے نا
سبز کلر کے سوٹ میں انم کمال لگ رہی تھی
انم: خیر ہی یار
مشال: خیر ہی تو نہیں آج تم جتنی پیاری تم لگ رہی مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہیں اس سے گناہ ہی نا ہو جائے
انم: گناہ کونسا پہلی دفہ ہونا ہے اور یار پلیز آہستا بولو صدف اور مدیحہ کو پتا نا دچل جائے
مشال: کیا مطلب یانی تم اس کے ساتھ سب کچھ
انم: ہاں تو اس میں کیا غلط ہے شادی کے بعد بھی تو کرنا ہی ہے ہم نے تو آج کیوں ترسیں
مشال: بہت فاروڈ ہو یار تم تو اور صدف، مدیحہ کو اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا
انم: یار یہ باتیں بتانے والی نہیں ہوتیں ہم ایک ہی سیکٹر میں رہتی ہیں بات کھل گئی تو ہمارا رشتہ ٹوٹ جائیگا
اچھا چھوڑو یہ بتاؤ کہ آج فائینل ہے نا کوئی مسلہ تو نہیں
مشال: نو پرابلم بس تم تیار رہنا ابو کے جاتے ہی کال کر دونگی تم آ جانا
مشال کل جو ویڈیو بنائی تھی وہ تو دیکھاؤ صدف نے مشال کی کمر پر انگلی چبھو کر کہا
چلو کینٹین میں چل کر دیکھتے ہیں مشال نے پیچھے سر گھما کر کہا
چلو اٹھو مدیحہ اور انم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں
کینٹین میں انہوں نے کافی کا آرڈر دیا اور بیٹھ کر ساری ویڈیو دیکھی اور اپنی کامیابی پر خوش ہونے لگیں
کافی پی کر تینوں نے باقی کی کلاس لی اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیں
مشال کے ابو کھانا کھا کر جیسے ہی نکلے اس نے انم کو کال کر کے بتا دیا آ جاؤ ڈھائی گھنٹے ہیں اب ھمارے پاس اس نے او کے کہا اور کال بند کر دی
بیس مینٹ کے بعد ڈور بیل بجی مشال نے جا کر گیٹ کھولا انم اور اسکا کزن اندر آ گئے
گیٹ بند کیا اور مشال نسے انہیں ڈرائینگ روم میں لا کر بیٹھا دیا
اور خود کچن میں چائے بنانے لگی اور وہ دونوں باتیں کرنے لگے
کچھ ہی دیر میں ان دونوں کے لئیے مشال چائے اور پیسٹریاں لے آئی وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھے تھے مشال نے ان کے سامنے چائے رکھی اور خود ان کے سامنے بیٹھ گئی
کیا نام ہے بھائی کا انم صاحبہ چائے کا سیپ لیتے ہوئے پوچھا
فرحان خالد (انم نے بس اتنا ہی کہا اور چپ ہو گئی)
مشال: کیا کرتے ہیں بھائی
انم: اکاونٹینٹ ہیں
فرحان بھائی کو بھی کوئی بات کرنے دو یا انکی جگہہ بھی تم ہی بولتی ہو
انم: نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس کم بولتے ہیں
مشال اچھا تم لوگ اٹھو اور میرے کمرے میں جا کر گپ شپ کرو میں باہر لان میں پودوں کو پانی دے کر آتی ہوں مشال نے مسکرا کر کہا اور اٹھ کر باہر لان میں آ گئی وہ دونوں اٹھ کر اندر چلے گئے
جیسے ہی دروازہ بند ہونے کی آواز آئی مشال جلدی سے اپنے کمرے کی کھڑکی کے ساتھ آ کر لگ گئی جو گھر کے پچھلی طرف کھلتی تھی
مشال نے کھڑکی کالج سے آتے ہی کھول دی تھی انم کا لائیو سیکس دیکھنے کے لئیے
مشال نے آنکھ لگا کر اندر دیکھا تو وہ دونوں ایک دوسر کے گلے لگے ہوئے تھے اور فرحان انم کی کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور دائیں طرف سے گردن پر بھی چومیوں کی برسات کر رہا تھا
فرحان ہاتھ چلتے ہوے انم کی بونڈ پر چلا گئے اور بونڈ کو سہلانے لگے
یہ سب دیکھتے ہوئے مشال کی پھدی میں بھی کھجلی ہونے لگی
فرحان نے انم کی کمیز اٹھائی اور شلوار کے اندر ہاتھ ڈال دئیے انم کے روئی جیسے نرم چیتڑوں کو فرحان نے مٹھیوں میں بھینچ لیا اور انم کو اپنی طرف دبانے لگا
فرحان نے گردن سے ہونٹ اٹھائے اور انم کے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ دئیے انم پاگلوں کی طرح فرحان کے ہونٹ چوسنے لگی جیسے انہیں کھا ہی جائیگی
فرحان نے انم کی شلوار سے ہاتھ نکالا اور کمیز کا گھیرا آگے پیچھے سے پکڑا اور اپر کو اٹھاتے ہوئے انم کے گلے سے نکال دیا
دودھ جیسے گورے جسم پر کالے رنگ کی برا قیامت ڈھا رہی تھی انم کی سانس تیز ہوئی جا رہی تھی جس سے چونتیس سائیز کے ممے اپر نیچے ہو کر اک الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے
فرحان نے انم کے پیچھے آ کر اسے پیچھے سے باہوں میں لے لیا اور انم کے بازؤں کے نیچے سے ہاتھ گزار کر مموں پر رکھ دئیے انم کے ہاتھ بھی فرحان کے ہاتھوں پر آ گئے فرحان ارام آرام سے انم کے ممے مسلنے لگا
باہر کھڑی مشال کے ہاتھ بھی اپنے ہی مموں سے کھیلنے لگے
ممے مسلتا مسلتا فرحان نیچے بیٹھ گیا اور انم کی شلوار کو نیچے کھینچنے لگا شلوار پھسلتی ہوئی پاؤں میں آ کر رک گئی انم نے باری باری دونوں پاؤں اٹھائے فرحان نے شلوار اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اور دوبارہ کھڑے ہو کر پیچھے سے انم کو باہوں میں لے لیا اور مموں کو ہاتھوں میں لے کر گردن کو چومنے لگا
مشال کو انم کی بالوں سے پاک پھدی نظر آ رہی تھی اور اسکا ہاتھ بھی اسی کی شلوار میں گھس کر پھدی کے ساتھ چھیڑ خانیاں کر رہا تھا
انم گھومی اور اسکی چھاتی فرحان کی چھاتی سے جا لگی فرحان نے اپنا دایاں بازو انم کی بونڈ کے نیچے رکھا اور اٹھا کر بیڈ پر بیٹھا دیا
اور خود انم کے سامنے کھڑا ہو گیا انم نے فرحان کی پینٹ کی زیپ کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کر فرحان کا پانچ انچ لمبا لن باہر نکال لیا اور ٹوپی کو چاٹنے لگی فرحان نے ہاتھ پیچھے لیجا کر انم کے برا کا لاک کھول کر انم کے مموں کو آزاد کر دیا انم کے ممے بالکل جسم کے ساتھ چپکے تھے لٹکنے والی بات ہی جھوٹی تھی
فرحان کا آدھا لن انم منہ میں بھر کر قلفی کی طرح جوسے مار رہی تھی
فرحان نے کندھوں سے پکڑ کر انم کو پیچھے کو لیٹا دیا اور کہنیاں انم کی بغلوں کے پاس رکھ کر اس کے اپر لیٹ کر انم کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوسنے لگا پھر پورے منہ کو چوم کر گردن کو چوما اور تھوڑا سا نیچے کھسک کر ممے چوسنے لگا انم کا تھوڑا سا منہ کھلا ہوا تھا اور ہاتھ فرحان کے سر کو ایسے ممے پر دھکیل رہے تھے جیسے چاہ رہی ہو کہ پورا ممہ منہ میں گھس جائے
باہر کھڑی مشال کا بھی برا ہال تھا اور پھدی پانیوپانی ہوئی جا رہی تھی دایاں ہاتھ پھدی پر اور بایاں مموں کی رگڑائی میں مصروف تھا
باری باری فرحان نے ممے چوسے اور پیٹ کو چومتا ہوا ناف تک پہنچ گیا ناف میں جب زبان ڈال کر گھمائی تو انم کی بونڈ اک دم اپر کو اٹھنے لگی اور فرحان کے بال اب انم کی مٹھیوں میں تھے
باہر کھڑی مشال کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی اندر چلی جائے اور انم کا گلہ دبا کر خود فرحان کے نیچے لیٹ جائے
فرحان نے ناف چھوڑی اور اپنے دونوں گھٹنے انم کی ٹانگوں کے درمیان رکھ کر بیٹھ گیا
فرحان نے انم کے گھٹنے فولڈ کئیے اور اپر اٹھا کر مموں کے ساتھ لگا دئیے
پھر گھٹنے تھوڑے پیچھے سرکائے اور جھک کر انم کی گانڈ پر زبان رکھی اور رگڑتے ہوئے پھدی کی دراڈ جہاں سے شعروع ہوتی ہے وہاں سے باہر نکال دی انم کو جھرجھری سی آ گئی
باہر کھڑی مشال یہ سین دیکھ کر پاگل ہو گئی اور اپنا نیچلا ہونٹ دانتوں میں لیکر چبانے لگے اور پھدی کو سہلانا بھول کر پھدی کو نوچنے لگی
فرحان پھدی کے دانے کو زبان سے چھیڑنے لگا اور پھر پھدی کے اندر زبان ڈال کر زبان سے انم کو چودنے لگا پھدی چاٹ کر فرحان کھڑا ہوا اور سارے کپڑے اتار کر انم کی ٹانگوں میں آ گیا
اپنے دائیں بائیں سے انم کی ٹانگیں گزار کر فرحان نے اپنے لوڑے کا ٹوپا پھدی کی دراڑ میں پیھرا اور پھدی کے منہ پر رکھ کر دھکا مارا لوڑا آدھا اندر گھس گیا سسسسسسیییی انم کے منہ سے خارج ہوئی فرحان نے تھوڑا سا لن باہر نکالا اور دوبارہ دھکا مارا پورا لن پھدی کے اندر اور ٹٹے انم کی گانڈ سے جا ٹکرائے آآآہ سسسسیییی انم کے منہ سے نکل گئی
فرحان آگے کو جھکا اور انم کو کندھوں سے پکڑ کر دھکے مارنے لگا انم کی سسکاریاں مسلسل جاری تھیں فرحان نے اپنے ہونٹ انم کے ہونٹوں پر رکھ دئیے انم زور زور سے ہونٹ چوسنے لگی فرحان نے سپیڈ مزید تیز کر دی انم نے فرحان کو ٹانگوں کی لپیٹ میں لے لیا اور اپنی طرف دبانے لگی
فرحان انم کی جدائی اندر چل رہی تھی باہر مشال کی انگلی مشال کی پھدی میں چل رہی تھی
فرحان ہونٹ چھوڑے اور مموں کو پکڑ لیا اک ہاتھ سے فرحان ایک ممہ دبا رہا تھا اور دوسرے کو منہ میں بھر کر چوس رہا تھا
فرحان نے فل جوش سے دھکے مارنے شعروع کر دئیے اور انم بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر فرحان کو جوابی دھکے مارنے لگی
انم کا جسم اکڑنے لگا اور ٹانگوں کی گرفت بھی سخت ہو گئی جس کی وجہ سے فرحان سے اب ٹھیک سے دھکے بھی نہیں لگ رہے تھے
اک دم انم نے گانڈ اپر اٹھا دی اور فرحان کی گردن کو بازؤں میں لے لیا اس کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے
فرحان بھی رک گیا مشال جب پوری طرح فارغ ہو گئی تو جسم ڈھیلا چھوڑ دیا بازو بھی ڈھیلے ہو گئے اور ٹانگیں بھی انم کی ڈھیلی پڑ گئیں
فرحان کا کام بھی اینڈ پر تھا اس نے آٹھ دس دھکے زور کے مارے اور لن نے پھدی میں منی چھوڑ دی فرحان انم کے اپر ہی گر گیا فرحان کی سانس پھول گئی تھیں اور انم کا بھی نشہ اتر چکا تھا
باہر مشال بھی فارغ ہو گئی تھی اور شلوار سے ہاتھ نکال کر آ کر لان میں نیچے گھاس پر لیٹ گئی تھی
انم اور فرحان نے بھی کپڑے پہنے اور لان میں آ گئے مشال سے اجازت لی اور ہاتھ ملا کر نکل گئے
مشال نے اٹھ کر گیٹ بند کیا اور باتھ روم میں گھس گئی
نہا کر مشال ننگی ہی باتھ روم سے نکل آئی اور شیشے کے سامنے آ کر کھڑی ھو گئی
دھل کر مشال کا گورا جسم اور بھی نکھر گیا تھا
مشال کو اپنا ہی سیکسی جسم دیکھ کر مزہ آ رہا تھا کچھ دیر مشال شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے جسم سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہی پھر کپڑے پہنے اور کتابیں لے کر بیٹھ گئی
کچھ دیر حیدر صاحب بھی آ گئے اور فریش ہو کر ٹی وی دیکھنے لگے
مشال چائے لیکر آ گئی باپ بیٹی چائے پینے لگے
حیدر صاحب چائے پی کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور مشال برتن رکھ کر پھر پڑھنے لگی
آٹھ بجے مشال نے کھانا بنا لیا باپ بیٹی نے کھانا کھایا اور نارمل باتیں ھوئیں
مشال نے برتن سمبھالے اور دونوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے
صبح ناشتے کے بعد دوں گھر سے نکلے اور حیدر صاحب مشال کو کالج کے گیٹ پر اتار کر چلے گئے
مشال جیسے ہی کالج میں داخل اسے سامنے سے زیبی اسکی ہی طرف آتا دکھائی دیا
مشال کے سامنے آ کر اس نے اک کاغظ کا ٹکڑا مشال کے ہاتھ میں دے دیا
مشال نے خاموشی سے وہ کاغظ کا ٹکڑا پکڑ لیا اور بغیر رکے سیدھی کلاس میں آ کر بیٹھ گئی
مدیحہ انم اور صدف پہلے ہی اپنی جگھ پر بیٹھی ہوئی تھیں مشال آ کر انم کے ساتھ بیٹھ گئی اور تینوں سے ہاتھ ملایا
انم آج بہت خوش تھی اور اس کی خوشی کی وجہ مشال جانتی تھی
کیسی رہی ملاقات مشال نے انم کی ران پر چٹکی کاٹ کر پوچھا
کچھ نا پوچھ یار بہت سکون کی نیند آئی رات اور ساری رات بھی فرحان کے نیچے ہی گزاری انم نے سسسسی کر کے جواب دیا اور اپنا نیچلا ہونٹ دانتوں میں لے کر کاٹنے لگی
گھر والے کہاں تھے جو رات بھی فرحان صاحب کے نیچے گزار دی مشال نے حیران ہو کر پوچھا
یار سب گھر ہی تھے سپنے میں ساری رات فرحان کے نیچے رہی انم نے لمبی سانس کھینچ کر جواب دیا
اچھا اچھا میں سمجھی سچ میں دوبارہ گھوڑا بھگالیا مشال نے اتنا کہہ کر زور سے آنکھیں بند کر لیں
اتنے میں ٹیچر آ گئی اور کلاس سٹارٹ ہو گئی
گیارہ بجے تک پڑھائی چلی پھر تینوں اٹھ کر کالج کی بیلڈنگ کی بیک سائیڈ پر آ کر بیٹھ گئیں اور صدف نے جادو کی کتاب نکال لی اور سب کو مخاطب کر کے
بولی آج ھم چھٹی کے بعد مشال کے گھر چل کر یہ عمل کریں گیں
سب کتاب پر جھک گئیں اک منتر لکھا تھا جسے آنکھیں بند کر کے پڑھنا تھا پھر اسکی کوئی نشانی ملنی تھی نشانی ملتے ہی منتر چھوڑ کر اپنی کسی بھی قسم کی اک خواہش کرنی تھی جو اسی وقت پوری ہو جانی تھی
سب نے اوکے کیا اور کینٹین میں چائے پینے چل دیں
چائے پر معمول کی بات چیت ہوئی اور کلاس دوبارہ سٹارٹ ہو گئی
چھٹی کے بعد مشال اپنے ابو کے ساتھ گھر آ گئی دونوں نے لنچ کیا اور حیدر صاحب دوبارہ آفس چلے گئے
حیدر صاحب کے جاتے ہی مشال نے انم کو کال کر دی کہ ابو چلے گئے ہیں آ جاؤ کال کاٹ کر مشال اپنے کمرے میں چلی گئی
اچانک مشال کو وہ کاغظ یاد آ گیا جو صبح زیبی نے اسے دیا تھا
مشال نے برا میں ہاتھ ڈالا اور کاغظ نکال لیا جب اسے کھول کر دیکھا تو اس میں زیبی کا نمبر لکھا تھا اور ساتھ بس اتنا ہی لکھا تھا کہ مجھے کال کرنا تم سے ضروری بات کرنی ہے
مشال بیڈ پر بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کال کرے یا نا کرے اسکو صدف کی زیبی کے بارے میں کہی باتیں یاد آنے لگیں کہ وہ لڑکیوں کو اپنے
چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور استمال کر کے چھوڑ دیتا ہے
مشال سوچ رہی تھی کہ اس نے کیا بات کرنی ہو گی مجھ سے جو کال کا کہا کال کروں یا نا کروں پھر اس نے خود ہی فیصلہ کر لیا کہ وہ اسکو کال کر لیگی پر اسکی باتوں میں نہیں آئیگی
اتنے میں ڈور بل بجی مشال نے وہ کاغظ کا ٹکڑا واپس برا میں رکھا اور جا کر دروازہ کھول دیا مدیحہ انم اور صدف اندر آ گئیں مشال نے دروازہ لاک کیا اور انکو لے کر ٹی وی لاؤج میں لے آئی تینوں صوفے پر بیٹھ گئیں
مشال کچن میں گئی اور ان کے لئے کول ڈرنک اور چپس لے آئی
چاروں بیٹھ کر چپس کھانے لگیں اور آج جو کرنے جا رہی تھیں اس پر ڈسکس کرنے لگیں
کچھ دیر بعد چاروں اٹھیں اور گھر کے لان میں آ کر بیٹھ گئیں
صدف نے سب کو منتر یاد کروایا چاروں گھاس پر بنڈیں رکھ کر بیٹھ گئیں اور آنکھیں بند کر کے منتر پڑھنے لگیں پہلے پچیس تیس مینٹ تو کچھ نا ہوا پھر اچانک بادل گرجا اور تینوں سہم گئیں اور زبانیں بھی رک گئیں منتر جاری رکھو صدف اک دم بولی اور چاروں پھر سے انچی انچی منتر پڑھنے لگیں بارش ہونے لگی جو پانچ مینٹ
تک انکو بھگوتی رہی پھر اک دم سے بارش رک گئی چلو اپنی اپنی خواہش کرو دل میں اور دل میں ہی گیارہ بار دہراؤ سب نے اپنی خواہش دہرائی اور آنکھیں کھول کر اٹھ کر کھڑی ہو گئیں
چاروں نے اپنے اپنے کپڑے دیکھے جو کچھ دیر پہلے بارش میں بھیگ گئے تھے پر اب خوشک تھے
چاروں اندر آ گئیں اور اک دوسری کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگیں
مشال چلو دیکھو اس عمل کی قیمت کیا ہے صدف نے کتاب کھولی اور دیکھ کر بولی جو بھی خواہش کی ہے جب تک بوری نا ہو کسی کو بتانا مت اور ہمارے جسموں پر جو کچھ بھی ہے کپڑے جوتے زیور جو بھی ہم نے عمل کرتے وقت پہنا تھا سب کچھ اتار کر اسکو جلانا ہے اگر کوئی بھی چیز رکھی تو نقصان ہوگا
صدف چلو اٹھو جلدی نکلو گھر چل کر سب کچھ اتار کر جلا دیتے ہیں
وہ تینوں نکل گئیں مشال نے بھی گیٹ لاک کیا اور جلدی سے اپنے کمرے میں جاکر کپڑے اتارنے شعروع کر دئیے
پہلے شلوار اتاری پھر قمیض اب برا اور پینٹی رہ گئے تھے اس نے پینٹی اتاری پھر برا بھی اتار دی وہ کاغظ کا ٹکڑا برا کے ساتھ نیچے جا گرا
مشال نے اس سے نمبر نوٹ کیا اور کاغظ
کو کپڑوں کے اوپر پھینک کر الماری سے ٹراؤزر ٹی شرٹ نکال کر پہنی کپڑوں کو باہر لا کر رکھا اور آگ لگا دی
جب سب کچھ جل گیا تو مشال نے راکھ کو اک شاپر میں ڈال کر ڈسٹبین میں پھینکا اور اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹ گئی
نا چاھتے ھوۓ بھی مشال کی آنکھیں بند ھونے لگیں اور جلد ھی نیند کی دیوی نے اسے اپنی گود میں لے لیا
نوکیا ٹون نے مشال کو نیند سے بیدار کر دیا سیل اٹھا کر دیکھا تو حیدر صاحب کال کر رھے تھے مشال نے کلاک کی طرف دیکھا تو چھے بج رھے تھے
مشال جلدی سے اٹھی اور تقریبا بھاگتی ھوئی گیٹ تک پھنچی
گیٹ کھولا تو حیدر صاحب گاڑی لے کر اندر آ گۓ
پاپا میں سوئی تھی تو پتا نھیں چلا معازرت کے انداز میں مشال نے یہ الفاظ بولے
مجھے پتا چل گیا تھا بیٹا حیدر صاحب نے جواب دیا اور دونوں اندر چلے گۓ
حیدر صاحب فریش ھونے چلے گۓ اور مشال کچن میں گھس گئ مشال کھانا بنانے لگی حیدر صاحب ٹی وی دیکھنے لگے
آٹھ بجے دونوں نے ڈنر کیا اور اپنے اپنے کمرے میں چلے گۓ
مشال نے فون اٹھایا اور زیبی کو کال لگا دی
زیبی: ھیلو
مشال: اسلام و علیکم
زیبی: و علیکم اسلام جناب کیا حال ھیں
مشال: ٹھیک ھوں آپ سنائیں
زیبی: میں بھی ٹھیک ھوں
مشال: کیا بات کرنی تھی مجھ سے؟
زیبی: صدف کے بارے میں بات کرنی تھی
مشال: ہاں بولو
زیبی: مشال مجھے تم سے ھمدردی ہے پلیز اس سے دور رہا کرو
مشال: کیوں کیا ہوا؟
زیبی: وہ اچھی لڑکی نہیں ہے
مشال: کیا غلط ہے اس میں مجھے بھی تو پتا چلے؟
زیبی: وہ نشہ کرتی ھے اور جسکو بھی دوست بناتی ھے اسکو بھی اس کام پر لگا دیتی ھے
مشال: تمہیں کیا لگتا ھے میں کسی کے کہنے پر یہ سب کر لونگی میرا دماغ کام کرتا ہے ابھی
زیبی: مجھے تم سے ہمدردی ہے اس لۂیے بتا دیا آگے تمہاری مرضی
مشال: او-کے تھینکس
زیبی: اک بات اور مجھے تم اچھی لگتی ہو مجھ سے دوستی کرو گی
مشال: دوستی میں کوئی حرج تو نہیں پر مجھے بھی تمہارے بارے میں پتا چلا ھے کہ جب آۓ دن تم کسی نا کسی لڑکی کے ساتھ چکر چلاتے ھو پھر اس کی زندگی تباہ کر کے اسے چھوڑ دیتے ہو
زیبی: یہ تم سے صدف نے کہا ھو گا؟ ھے نا؟
مشال: جس نے بھی کہا ھے تو ایسے ھی نا؟
زیبی: یار ایسا کچھ نہیں ھے تم یعقین کرو یا نا کرو
مشال: جیسے صدف کے بارے میں تم نے بتایا ایسے ہی صدف نے تمہارے بارے میں بتایا ھے مجھے.
اب مجھے نہیں پتا کہ آپ جھوٹ بول رہے ھیں یا صدف یہ تو تم دونوں کو ھی پتا ھو گا کہ تم کیوں اک دوسرے کی برائی کرتے ھو.
زیبی: اب کیا بتاؤں یار تمہیں
مشال: جو سچ ہے بتا دو ورنہ اک دن تو سچ سامنے آ ہی جائیگا
زیبی: جب ھم فرسٹ ائر میں کالج آئے تھے تب سے یہ میرے پیچھے پڑی ہے لیکن اسکی بری حرکتوں کا مجھے پتا تھا اس لیۓ میں نے اسے منہ نہیں لگایا کبھی پر آج بھی اسے امید ھے کہ میں اسے اپنا لونگا پر مجھے اس سے سخت نفرت ھے اسی لۓ مجھ سے دور رہنے کی ہدایت کر رہی تھی تمہیں
مشال نے خاموشی سے زیبی کی پوری بات سنی اور بس باۓ کہہ کر کال بند کر دی
مشال کو سمجھ نہیں آ رہی تھی سچ صدف بول رہی ھے یا زیبی
اچانک مشال کے زیہن میں آیا کہ انم سے پوچھتی ہوں وہ سچ بتا دیگی اس ڈر سے کہ کہیں میں فرحان اور انم کے اس دن والے کارنامے کے بارے میں مدیحہ اور صدف کو نا بتا دوں
یہ خیال آتے ھی مشال نے صدف کو کال ماری
ھیلو اسلام و علیکم
انم: وعلیکم اسلام
مشال: کیسی ھو مسز فرحان
انم مسکراتے ھوۓ میں ٹھیک ھوں تم سناؤ
مشال: میں بھی ٹھیک ھوں
انم: خیر تو ھے اس وقت کال کی؟
مشال: کچھ پوچھنا تھا تمسے
انم: ہاں بولو کیا پوچھنا ہے
مشال: صدف اور زیبی کا کیا چکر ہے اور پلیز جھوٹ مت بولنا میرا تمسے وعدہ ہے کبھی بھی بات اوپن نہیں ھو گی
انم: یار کیا بتاؤ جب ھم فرسٹ ائیر میں تھے تب سے صدف زیبی کے پیچھے پڑی ہے لیکن وہ الگ مزاج کا لڑکا ہے اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور وہ صدف کی بری عادات سے بھی واقف ہے اس لیۓ اسکو منہ نہیں لگاتا پر صدف کی بھی ضد ہے اسے ایک بار حاصل ضرور کرنا ہے
مشال نے پوری بات خاموشی سے سنی اور اک لمبی سانس چھوڑ کر بولی زیبی کا کسی اور میں انٹرسٹ ہے جو صدف کو منہ نہیں لگاتا
انم: نعیں یار وہ کسی پر دھیان نہیں دیتا اپنے آپ میں رہتا ہے
مشال: دفہ ہو ہمیں کیا اچھا ٹھیک ہے میں رکھتی ہوں کل کالج ملتے ہیں
انم: اوکے باۓ
مشال نے بھی باۓ کیا اور کال بند کر دی
مشال اندر ہی اندر خوش تھی کہ زیبی ویسا نہیں جیسا صدف نے بتایا تھا اور زیبی کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کب اسے نیند آ گئ.
الارم کے شور نے مشال کو سپنوں کی دنیا سے باہر نکال دیا
مشال نے بند آنکھوں سے ہی بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑے کلاک کے بٹن پر ھاتھ مارا تو الارم کا شور ایسے بند ھوا جیسے کسی نے اسکا گلہ دبا دیا ہو
مشال نے اک لمبی سے انگڑائی لی اور بیڈ سے اتر کر باتھ روم میں جا کھسی
فریش ہو کر مشال ناشتہ تیار کرنے لگی اور جیدر صاحب آفس کے لۓ تیار ھونے لگے
دونوں نے ناشتہ کیا اور گھر کو لاک کر کے گاڑی میں بیٹھ گئے
حیدر صاحب نے مشال کو کالج کے گیٹ پر اتارا اور خود آفس کے لۓ راوانہ ھو گۓ
مشال سیدھی کلاس میں چلی گئ آج اسے مدیحہ اور انم ھی نظر آئیں صدف ان کے ساتھ نہیں تھی
مشال نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور انم کے ساتھ بیٹھتے ہی پوچھا صدف کہاں ہے
انم: یار اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے مشال پریشان ھو گئی
انم: یار تم کیوں پریشان ہوتی ہو یاد ہے کل ہم نے اک عمل کیا تھا جس میں ھم نے اک اک خواہش کی تھی رات دس بجے مجھے صدف کا فون آیا تھا تو خوشی سے بولی انم میری خواہش پوری ھو گئ میرا سوتیلا شرابی باپ مر گیا ہے
مشال: کیا مطلب سوتیلا باپ؟
انم: یار صدف کا والد فوت ھو گیا تھا پھر اسکی ماں نے دوبارہ شادی کر لی یہ جو اب فوت ھوا ھے اس کے ساتھ.
یہ بہت بڑا شرابی تھا صدف کی ماں جو تھوڑا بہت سلائی کڑھائی سے کماتی تھی وہ بھی چھین کر لے جاتا تھا اور اپنے نشے پورے کرتا تھا اس لئے صدف نے یہ خواہش کر لی
اتنے میں ٹیچر آ گئی اور کلاس سٹارٹ ھو گئ مشال کا دھیان آج پڑھائی میں نہیں جا رہا تھا اسے صدف پر غصہ آ رہا تھا جیسا بھی تھا تھا تو اسکا باپ ہی اسکی قاتل صدف ہی مشال کے دل میں بار بار آ رہا تھا مشال کو صدف سے نفرت سی ھونے لگی.
کلاس ختم ہوئی تو تینوں کینٹین میں جا بیٹھیں
مدیحہ نے کافی کا آرڈر دیا اور آپس میں باتیں کرنے لگیں
ھیلو مشال! پیچھے سے مشال کو مردانا آواذ سنائی دی تینوں نے گھوم کر پیچھے دیکھا تو زیبی تھا
اسلام و علیکم کیا حال ہے ساتھ مشال کی طرف ہاتھ بڑھایا
مشال نے ہاتھ ملایا اور زیبی ہاتھ باندھ کر مشال کی کرسی کے ساتھ کھڑا ہو گیا جیسے اسکا کوئی ملازم ہو
مشال: جاؤ کافی بن گئی ہے ھمارے لۓ لے کر آؤ
زیبی جا کر کافی والی ڈش اٹھا لایا اور سب کو دی
مدیحہ اور انم حیران تھیں کہ یہ اتنی اکڑ اور انا پرست زیبی آج کیسے مشال کے اشاروں پر ناچ رھا ھے
وہ جلد ہی سمجھ گئیں کہ کل مشال نے یہی خواہش کی ہو گی کہ زیبی اس کے کہنے پر چلے اسکا غلام بن کر رہے
وہ کافی پینے لگیں اتنے میں اک لڑکی نے آ کر بتایا کہ سعدیہ کھیلتے ہوئے سلیپ ھو گئی اور اسکی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے جتنی کافی پی تھی تینوں نے وہیں چھوڑی اور بیڈ مینٹن کے گراؤنڈ پہنچ گئیں
کافی لڑکیاں سعدیہ کے آس پاس کھڑی تھیں اور ڈسپینسر اسکی ٹانگ پر پٹی باندھ رہاتھا
مدیحہ انم کے کان کے پاس منہ لے جا کر بولی میری خواہش بھی پوری ہو گئ ھے اب ٹورنامینٹ میں خود کھیلونگی
سعدیہ کو ایمبولنس میں ڈال کر لے گئے سب اپنی اپنی کلاس میں چلی گئیں وہ تینوں وہیں اک سیمنٹ کے بنے ھوئے بینچ پر بیٹھ گئیں مدیحہ نے خوش ھوتے ھوئے مشال کو بتایا کہ سلیکشن کمیٹی نے مجھے ریجیکٹ کر کے اس سعدیہ کو چنا تھا اس سال کے ٹورنامینٹ کے لۓ میں نے خواہش کی تھی کہ سعدیہ کی ٹانگ ٹوٹ جائے اور میں کھیلوں اسکی جگہ لو میرا بھی کام ھو گیا
مشال: یار اسکی ٹانگ نا تڑواتی ویسے خواہش کر لیتی پھر بھی تو تمہارا کام ھو ہی جانا تھا
مدیحہ: بیڈمینٹن میرا پیشن ھے اس کے لئے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں
پھر تینوں اٹھ کر کلاس میں چلی گئیں باقی کی کلاس لی پھر سب اپنے اپنے گھر آ گئیں
مشال نے جلدی سے کھانا بنا لییا باپ بیٹی نے لنچ کیا مشال برتن اٹھا کر کچن میں رکھ کر چائے لے آئی حیدر صاحب کو چائے دے کر مشال واپس کچن میں چلی گئی اور برتن دھونے لگی حیدر صاحب نے چائے ختم کی اور اٹھ کر واپس آفس کے لئے نکل گئے
مشال کچن سے فارغ ھو کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور جاتے ہی بیڈ پر گر گئ اور آنکھیں بند کرلیں
کچھ دیربعد مشال کے فون کی گھنٹی بجنے لگی مشال نے موبائیل کی سکرین پر انم کا نمبر دیکھا
کال رسیو کی
مشال: اسلام و علیکم
انم: واعلیکم اسلام
مشال: خیر ہے؟
انم: اک گڈ نیوز ہے یار (انم بہت خوش لگ رہی تھی)
مشال: جلدی بتاؤ
انم: میرا اور فرحان کا رشتہ پکا ہو گیا ہے گریجوایشن کے بعد ہماری شادی ہو جائیگی
مشال: مبارک ہو اور اک سویٹ سی پارٹی تو اب بنتی ہے
انم: اوکے بابا دے دونگی اور جانتی ہو یہ سب کیسے ہوا؟
مشال: ہاں کیسے ھوا؟
انم: کل میں نے یہ خواھش کی تھی یار
مشال: اوح. . . اچھا اچھا
مزید تھوڑی بہت گپ شپ ہوئی اور کال بند ہو گئی
مشال نے فون رکھا اور ذیبی کے بارے میں سوچنے لگی
THE END
No comments:
Post a Comment