Tuesday, 2 February 2016

* قیمت *


دوستو کہانی حاضر ہے۔۔ امید کرتا ہوں آپ دوست اپنے تاثرات سے ضرور آگاہ کریں گے۔۔


میرے موبائل پر مسلسل ملک کی کال آرہی تھی، کوئی اور وقت ہوتا تو میں فوراً کال ریسیوکرتا مگر اس وقت میں انتہائی اہم کام میں مصروف تھا۔ اس وقت میں انیلہ کی چدائی میں مصروف تھا اور ملک کی کال کو نظر انداز کر رہا تھا۔ انیلہ کوئی اور نہیں میری گرل فرینڈ تھی ہم پچھلے ایک سال سے ساتھ تھے اور مستقبل میں ہمارا شادی کا ارادہ بھی تھا، اس دوران ہم کئی بار سیکس کرچکے تھے اور آج بھی انہیں لمحات سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ انیلہ اس وقت گھوڑی بنی ہوئی تھی اور میں اس کی کمر کو گرفت میں لئے ہوئے پوری طاقت سے جھٹکے مار رہا تھا ہم دونوں چدائی کے آخری حصے میں پہنچے ہوئے تھے جہاں منزل بہت قریب نظر آتی ہے۔

ملک چاہے میرا کتنا بھی جگری ہو اس لمحے میں کوئی دوست اچھا نہیں لگتا اس لئے لنڈ کی بات سنتے ہوئے اور دل کی آواز کو دباتے ہوئے میں انیلہ کی کمر کے اوپر جھک کر اس کی خوبصورت گانڈ کے ساتھ چپکا ہوا تھا اس انداز کے ساتھ میں اپنی کمر کو پوری رفتار کے ساتھ ہلا رہا تھا اور گھوڑی بنی انیلہ بھی اپنی آہیں مجھے سنا کر یہ خبر سنا رہی تھی کہ وہ منزل پانے والی ہے، میں اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے چند مزید جھٹکے لگائے تو انیلہ نے ایک سریلی چیخ مارتے ہوئے پانی چھوڑ دیا اور اسی لمحے کے انتظار میں اپنی ڈیوٹی دیتا ہوا میرا لنڈ بھی اپنا آخری فرض انجام دینے لگا اور منی کی تیز دھار اس کی چوت میں چھوڑنے لگا۔۔ انیلہ اب پیٹ کے بل لیٹ چکی تھی اور میں بھی اسی پوزیشن میں اس کے اوپر لیٹا ہوا تھا .
کچھ لمحوں بعد میں نے اپنا موبائل اٹھایا تو ملک کی تین مس کالز آچکی تھیں، چدائی کا نشہ جب سر سے اترا تو دوست کی فکر ستانے لگی، پتا نہیں ملک کو کیا ایمرجنسی ہوگی ؟ گالیاں دے رہا ہوگا مجھے، انہیں سوچوں کے دوران میں نے ملک کو کال کی، چند گھنٹیاں بجنے کے بعد اس نے کال ریسیو کی۔:حرامی کہاں مرا ہوا تھا میری کال کیوں ریسیو نہیں کررہا تھا، ملک نے کال ریسیو کرتے ہی گالی دے کربولا۔
ابے یار سویا ہوا تھا اور موبائل سائلنٹ پے تھا، تو بول کیا آفت آگئی تیرے پہ۔۔ میں نے اسے ٹوپی پہناتے ہوئے پوچھا۔۔
یار کچھ نہیں اکتوبر کا مہینہ ہے میں اور فہد پروگرام بنا رہے ہیں شمالی علاقہ جات کی سیر کا، ابھی پروگرام فائنل نہیں ہوا ہے ہم نے سوچا تجھسے پوچھ لیں اگر تجھے بھی ساتھ جانا ہے تو بتا دے ویسے بھی بہت ٹائم ہوگیا ہم لوگ کہیں گھومنے نہیں گئے۔ اس نے اپنی بات مکمل کی۔
فہد ،ملک اور میں جگری دوست تھے، ہم اسکول میں ساتھ پڑھے تھے اور بعد میں کالج میں بھی ساتھ ہی ایڈمشن لیا تھا فہد اور ملک نے ماسٹرز بھی ایک ہی سبجیکٹ میں کیا تھا لیکن میں اپنی مالی حالات کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ پایا تھا۔ جس کا ہم دوستوں کو بہت افسوس بھی تھا لیکن ہماری دوستی میں کبھی فرق نہیں آیا ہم تب بھی اچھے دوست تھے اور اب بھی ہیں۔فہد اور ملک دونوں شادی کرچکے تھے جبکہ میں ابھی کنوارے پن کی زندگی کو انجوائے کر رہا تھا۔
جانی مجھے اپنے آفس سے چھٹیاں لینی پڑیں گی اس میں ٹائم لگے گا یار۔۔ میں نے اسے جواب دیا۔
تو مانگ کے تو دیکھ تیری سیکسی میڈم تجھے فٹا فٹ چھٹی دے گی ویسے بھی تیری دیوانی ہے وہ۔ ملک میری باس کے بارے میں کمنٹ پاس کر رہا تھا۔
اچھا چل کوشش کروں گا کل بتاتا ہوں تجھے فائنل اوکے۔ میں نے اسے مطمئن کردیا۔
بیٹا کوشش نہیں پکا کام کرنا، اب تجھے کیا کرنا ہے یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھا۔ چل رکھتا ہوں فون۔
کال ختم ہوئی تو انیلہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اسے تفصیل سے ساری بات سمجھائی ، ویسے بھی وہ ملک اور فہد دونوں کو اچھی طرح جانتی تھی اور اسے ہماری دوستی کا بھی اچھی طرح پتا تھا اس لئے وہ بناء کوئی سوال جواب کئےمجھ سے لپٹ گئی ۔ تابش...سنا ہے وہاں بہت خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں کہیں کسی کے چنگل میں پھنس مت جانا، اپنی زنانہ فطرت سے مجبور انیلہ آخر بول ہی پڑی۔۔
بے فکر رہو میں کہیں نہیں پھنسے والا کیونکہ تم میرے لئے پرفیکٹ ہو، جہاں بھی جاوں گا لوٹ کر تمہارے پاس ہی آوں گا
ہم تینوں دوستوں کی زندگی میں بہت سے راز تھے لیکن ہم ایک دوسرے کے رازوں کے امین بھی تھے اور ایک دوسرے پر بھروسہ بھی بہت کرتے تھے۔
میں کراچی میں ایک پرائیویٹ فرم میں اسٹنٹ مینیجرمارکیٹنگ کی پوسٹ پر کام کرتا ہوں۔ مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ حسینہ میڈم اپنے نام کی طرح تھی اور اپنے وقت میں انتہائی حسین بھی رہی ہونگی مگر ڈھلتی جوانی اچھے اچھوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہے اور یہی حال حسینہ میڈم کا بھی ہوا تھا، لیکن پھر بھی چالیس کے پیٹے میں موجود حسینہ میڈم اپنی عمر سے کچھ سال کم ہی دکھتی تھیں جس میں ان کی خود کی محنت بھی شامل تھی، اور ان کا مجھ پر فدا ہونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا آفس کے اکثر لوگ جانتے تھے کہ میڈم کی مجھ پر نظر کرم ہے اور میں بھی اس کا فائدہ اٹھاتا رہتا تھا مگر اس کے بدلے میں مجھے بھی اپنی سروس دینی پڑتی تھی۔
آج کے دن بھی اسی سروس کی ضرورت پڑنے والی تھی اور میں اس کے لئے تیار بھی تھا۔۔
ہائے میڈم کیسی ہیں آپ۔۔میں نے ان کے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔ ہائے تابش آئی ایم فائن تم کیسے ہو ڈئیر؟ حسینہ میڈم کی آنکھوں کی چمک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میڈم میں تو ٹھیک ہوں مگر میری ایک قریبی خالہ کی طبیعت بلکل ٹھیک نہیں ہے انہیں کینسر ہے جو آخری اسٹیج پر ہے میں نے سوچا ہوا بہانہ میڈم کے حضور بیان کرنا شروع کیا۔۔
اوہ سو سیڈ۔۔ میں کیا کرسکتی ہوں تمہارے لئے؟ میڈم کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ میری بات پر یقین کر رہی ہیں۔
مجھےپندرہ دن کی چھٹی چاہئیے تاکہ ان کی عیادت کے لئے جاسکوں۔ وہ لاہور میں رہتی ہیں۔
کوئَی بات نہیں تم ضرور جاو مگر میں کیسے پندرہ دن تمہارے بغیر رہ پاوں گی ؟ میڈم اب اپنے مطلب کی بات پر آرہی تھیں۔۔۔
آپ فکر کیوں کرتی ہیں میں آپ کو پندرہ دن کی دوائی دے کر جاوں گا۔۔ میں نے میڈم کے قریب آتے ہوئے بولا۔۔
اوہ تابش تم بہت اچھے ہو میرے دل کی بات فوراً سمجھ لیتے ہو۔۔شام میں گھر آجانا۔۔ پلیز اور ہاں پندرہ دن کی دوائی پوری چاہئے مجھے۔۔ سمجھے۔
جی بلکل سمجھ گیا۔۔ آپ بے فکر ہوجائیں۔
حسینہ طلاق یافتہ تھی اور اکیلے ہی اپنی زندگی کی گاڑی آگے بڑھا رہی تھی۔ اس تنہائی نے اس کے جسم کی طلب کو اور بھی بڑھا دیا تھا۔ یوں تو اس کے جوان دوستوں کی تعداد کئی تھی مگر اس کا خاص دھیان مجھ پر رہتا تھا جس کی وجہ وہ میرا سیکس اسٹائل بتاتی تھی۔۔ پتا نہیں کہ اس کی بات میں کتنا سچ تھا اور مجھے اس سے کوئی سروکار بھی نہیں تھا۔
شام کے سات بج رہے تھے جب میں وائن کی بوتل لئے حسینہ کے گھر کے سامنے کھڑا دروازے پر بیل بجا رہا تھا۔ تھوڑٰی دیر بعد حسینہ نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے راستہ دیا اور بولی۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی میرے ہاتھ میں وائن کی بوتل لیتے ہوئے بولی۔ میں شراب کا عادی بلکل نہیں تھا مگر حسینہ تھی اور ایسی ایسی شراب پیتی تھی جس کا میں نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ حسینہ چونکہ میری باس بھی تھی لہِذا اس کو خوش کرنے کے لئے اس کے ساتھ ایک جام پی لیا کرتا تھا۔ شراب پینے کے بعد حسینہ نے اپنے روم میں موجود میوزک پلئیر پر ایک انگریزی دھن لگا دی جس پر ہم دونوں ڈانس کرنے لگے۔۔ حسینہ پر اب شراب کا نشہ چڑھ رہا تھا، حسب عادت اسنے دو گلاس خالی کردئیے تھے جبکہ میں نے آدھا بھی نہیں پیا تھا۔ حسینہ اب میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ کر چومنا شروع کرچکی تھی۔ میرے لئے یہ سب نیا نہیں تھا مگر ہر بار حسینہ کے ہونٹوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ یہ بات سچ تھی کہ وہ سیکس کی ماہر تھی اور پوری طرح اس کھیل کو کھیلنا بھی جانتی تھی کچا تو میں بھی نہیں تھا مگر ابھی حسینہ کے مقابلے میں طفل مکتب ہی تھا۔۔ حسینہ نہایت آہستگی سے میری شرٹ کے بٹن کھولنے لگی. اس کے ہاتھوں کی جنجش اتنی کم تھی کہ ہمارے ڈانس پر کوئی فرق نہیں پڑھ رہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ جتنی آہستگی سے یہ کام شروع ہوا ہے اس کا اختتام اتنے ہی شور سے ہوگا۔ اب میں نے حسینہ کی گردن کو پکڑ کر اپنے ہونٹ سے اس کے ہونٹ ملا دئیے، حسینہ کو میرے ہونٹوں سے زیادہ میری زبان کی فکر تھی اور اس کی زبان اپنا راستہ بناتے ہوئے میری زبان تک پنچ گئی اور میری زبان کو اپنے منہ میں آنے دعوت دینے لگی۔۔پھر کبھی میری زبان وہ چوستی تو کبھی میں اس کی زبان سے لذت اٹھاتا۔ کسنگ کے دوران ہی حسینہ کا اصل رنگ ظاہر ہونے لگا، میری شرٹ کے بٹن تو کھل چکے تھے مگر میری شرٹ اتار کر اس نے پھینکے میں بھی زرا دیر نہیں کی اور میری سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے سر کو جتنا ممکن تھا اگے بڑھا کر میرے ہونٹ چوسنے لگی۔ اس کا ایک ہاتھ اب میری جینز کے اوپر سے ہی میرے لنڈ کو دبانے لگا۔ اور وہاں اٹھان محسوس کرتے ہی اس نے میری جینز کی بیلٹ کھولنے لگی۔۔ اب اس نے کسنگ چھوڑ دی تھی اور دونوں ہاتھوں سے بیلٹ کھول کر میری جینز کو نیچے گرا دیا اورنیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انڈر وئیر کے اوپر سے ہی میرے لنڈ پر زبان پھیرنے لگی۔۔
اسکی آنکھیں میرے چہرے پر ہی تھی مگر اس کی زبان میرے انڈروئیر پراور پھر اس نے انڈر وئیر سے میرا لنڈ نکال لیا اور اس کی کیپ پر زبان پھیرنے لگی۔۔ اس حرکت کا مزہ مجھے ہمیشہ پاگل کردیتا تھا اور میں جنونی سا ہوجاتا تھآ۔ اس بار بھی میں اسی کیفیت میں چلا گیا اور حسینہ کے بال پکڑ کر اس کے منہ کے اندر اپنا لنڈ گھسا دیا۔۔حسینہ پر یہ اچانک حملہ کافی سخت تھا اور ایک لمحے کے لئے وہ کھانس اٹھی مگر اگلے ہی لمحے اس نے ایک ہاتھ سے میرا لنڈ پکڑ کر دوبارہ چوسنے لگی اوراس کا دوسرا ہاتھ میرے ٹٹوں کے ساتھ کھیل رہا تھآ، لنڈ چوسنے کے دوران وہ کبھی کبھی میری طرف دیکھنے لگتی اور میرے چہرے پر موجود مزے کے تاثرات دیکھ کر وہ مسکرا دیتی اور اپنی قابلیت محسوس کرتے ہوئے اور تیزی سے لنڈ چوسنا جاری رکھتی۔ اس دوران وہ میرے ٹٹوں کو بھی چوستی اور ان پر زبان پھیرتی جس سے میں آہیں بھرنے لگتا۔۔ اور پھر میں نے حسینہ کے دونوں ہاتھ اس کے کمر کے ساتھ جوڑ دئیے اور اس کے سر کو پکڑ کر میں نے کچھ زور دار اسٹروک لگا دئیے جس سے حسینہ کے چہرے کا رنگ لال ہوگیا مگر نہ اسنے ہمت ہاری اور نہ میں رکا اور مزید پانچ چھ جھٹکوں کے بعد میں نے اپنی منی اس کے منہ میں ہی چھوڑ دی حسینہ کو منی پینے کا بہت شوق تھا پتا نہیں کونسی جنسی تسکین کرتی تھی وہ مگر جو بھی مجھے اس سے کیا۔۔ حسینہ ہمیشہ کی طرح میرے لنڈ سے نکلنے والی منی کو پی گئی اور مسکرا تے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی
وہ جانتی تھی کہ اس حرکت کے بعد میں اسے کس نہیں کروں گا اس لئے وہ باتھ روم چلی گئی اپنا منہ صاف کرنے کے لئے، تھوڑی دیر بعد اس کی واپسی ہوئی تو اس نے نائٹی پہن رکھی تھی، اپنا لباس وہ باتھ روم میں ہی اتار آئی تھی۔
میں اب بیڈ پر لیٹ چکا تھا اور وہ بھی میرے پاس آکر بیڈ پر لیٹ گئی۔ اب میں نے اس کی نائٹی کو اتار پھینکا، نیچے اس نے پینٹی بھی نہیں پہن رکھی تھی اس لئے اسکا جسم اب پوری طرح ننگا ہوچکا تھا۔ اپنے جسم پر اسنے بہت محنت کی تھی جس کا انعام اسے کسے ہوئے جسم کی صورت میں ملا تھا۔
اس عمر میں بھی چھتیس کے آس پاس ممے اور پتلی کمر جو کسی جوان لڑکی سے کم نہیں تھی میں اس گردن پر زبان پھیر رہا تھا اور اس کی کانوں کی لو کو چوس اور چاٹ رہا تھا
ہم دونوں پہلو بہ پہلو لیٹے ہوئے تھے میرا ایک ہاتھ اب بھی اس کی چوت کو مسل رہا تھا اور جبکہ دوسرا ہاتھ اس کے سر کے نیچے سے ہوتے ہوئے اس کی گردن کو جکڑے ہوئے تھا جس کی مدد سے میں اس کے سر کو اپنے قریب کرکے اس کے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف تھا. اب ہم دونوں کو چدائی کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی اس لئے میں نے اسے اس کی کمر سے پکڑ ا اور اس کے اوپر آگیا حسینہ بھی شدت سے میرے لنڈ کی پیاسی ہورہی تھی اس لئے اور دیر نہ کرتے ہوئے اس نے میرا لنڈ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی چوت کے سوراخ پر ٹکا دیا اور نیچے سے ایک جھٹکا مار کر میرے لنڈ کو اپنی چوت میں لینے کی اپنی سی کوشش کرنے لگی۔۔ حسینہ رنڈی بہت دل چاہ رہا ہے تہمارا چدوانے کا؟ میں نے حسینہ کو گالی دیتے ہوئے کہا۔۔ اسے سیکس کے دوران گالیاں سننا بہت پسند تھا اس سے وہ مزید گرم ہوجاتی تھی۔۔ ہاں نا راجہ اب چود دو مجھے پلیز۔۔ حسینہ اب منت سماجت پر اتر آئی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ سے اس کی کی گردن پکڑی اور نیچے سے اس کی چوت پر ٹکا ہوا لنڈ ایک ہی جھٹکے میں اس کی چوت میں اتار دیا لے رنڈی تیری چوت میں گھسا دیا ہے لنڈ۔اووف تابش کیا مزہ ہے تمہیں تو میری سواری کرنے کا پورا حق ہے۔۔ حسینہ اب مزے میں اپنی چوت کو نیچے سے میرے لنڈ پر مارنے لگی۔۔ ہم دونوں کا ردھم ایسا بن گیا کہ جیسے میں لنڈ باہر نکالتا وہ اپنی چوت پیہچھے کردیتی اور پھر میں جب آگے کی جانب جھٹکا لیتا تو وہ بھی اپنی چوت کو میرے لنڈ سے ملا دیتی اس طرح میرا لنڈ حسینہ کی چوت کی جڑ تک اندر جارہا تھا اور وہ اس چدائی کو بھرپور انجوائے بھی کر رہی تھی
دس منٹ کی چدائی میں وہ ایک بار فارغ ہوچکی تھی اور اب میں بھی قریب تھا کہ چھوٹ جاتا مگر پندرہ دن کی چھٹیاں ایسے نہیں ملنے والی تھیں اس لئے میں نے چدائی روک دی اور اس کے تنے ہوئے نپلز پر جھک گیا۔۔ حسینہ سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی کیونکہ اسے مزہ چاہئے تھا اور سوال مزے کو خراب کرسکتا تھا۔۔ میں حسینہ کے نپلز کو چاٹںے لگا اور پھر نپلز کو کاٹنے بھی لگا۔۔ حسینہ بھی جنونی ہو رہی تھی اس نے میرے بالوں کو سختی سے جکڑ رکھا تھا ۔ اب میں اوپر اٹھا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے ممے پر رسید کیا۔۔ اووفف حسینہ کے منہ سے کراہ نکلی، میں کراہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسرے ممے پر بھی وار کیا اور پھر لگاتار چھ تپھڑ میں نے حسینہ کے دونوں مموں پر رسید کئے۔ حسینہ کا چہرہ لال ہوچکا تھا مگر اسنے مجھے بلکل نہیں روکا کیونکہ وہ یہی چاہتی تھی.
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے بیڈ سے اتار دیا۔ وہ میرا ارادہ سمجھ گئی تھی اس لئے بنا کسی تردد کے وہ اپنے ہاتھ بیڈ کے کناروں پر رکھ کر گھوڑی بن گئی اور میں اب اس وقفے کا فائدہ اٹھانے کے لئے بلکل تیار تھا۔ میں نے اس پر زرا بھی رحم نہ کرتے ہوئے حسینہ کی چوت میں اپنا لنڈ ٹکا کر اس کے کولہوں کو مضبوطی سے پکڑا اور پھر ایک تیز جھٹکا دے مارا۔۔ اس کی پانی چھوڑتی چوت میں میرا لنڈ کسی بجلی طرح سفر کرتے ہوئے اندر جاپنچا اور پھر تو جیسے میں پاگل سا ہوگیا۔۔ میں لگاتار تیز جھٹکے مارتا گیا اور اس دوران میں اس کے لمبے بال پکڑ لئے تھے اور جیسے کسی گھوڑی کی سواری میں اس کی لگام پکڑی جاتی ہے ویسے ہی میں نے اس کے بالوں کو پکڑ رکھا تھا اور میرا دایاں ہاتھ اس کی کولہوں پر وار کرنے لگا اس کے چوتڑ لال ہوچکے تھے مگر نہ تو میرے تیز جھٹکوں میں کوئی کمی آرہی تھی اور نہ ہی میرے تھپڑوں میں کوئی نرمی تھی میرے تھپڑوں اور چدائی نے حسینہ کی حالت بری کردی تھی مگر میں جانتا تھا کہ اندر ہی اندر اس کے جنونی پن کو تسکین بھی مل رہی تھی۔
یہ وحشی چدائی بہت تیزی سے اپنے انجام کی جانب بڑھنے لگی اور پھر میں اپنی بچی کچی طاقت بھی لگاتے ہوئے اس چدائی کو ختم کرنے لگا۔۔ ہم دونوں منزل کو پہنچنے لگے تو جنون اپنی حد کو چھو رہا تھا میں حسینہ کو اور حسینہ مجھے ایک دوسرے کے اندر سمو لینا چاہتے تھے اور پھر میرے لنڈ سے ایک تیز دار نکل کر اس کی چوت کی وادیوں میں کہیں گم ہونے لگی اور اس کی چوت سے نکلا ہوا پانی میرے لنڈ اور اوپری حصے کو بگھو گیا۔۔
ہم تین دوستوں کا گروپ تھا اس لئے ہم جہاں بھی جاتے صرف تینوں ہی جاتے نہ کسی لڑکے کو بھی ساتھ ملایا اور نہ ہی کبھی کسی لڑکی کو بیچ میں لایا۔ لیکن اس بار پنگا ہوگیا تھا۔
فہد کی بیوی اسے جانے نہیں دے رہی تھی، ویسے تو وہ کبھی اپی بیوی کے رعب میں نہیں آتا تھا مگر اس بار لگتا ہے کوئی ایسی مجبوری تھی جو وہ اپنی بیوی کے آگے کچھ بول نہیں پایا اور پھر پروگرام چینج ہوگیا اور فہد کے ساتھ ساتھ اب ملک کی بیوی بھی جارہی تھی۔ دل تو کیا کہ اب کیا خاک مزہ آئے گا پکنک کا مگر چھٹیاں لے چکا تھا اور ان چھٹیوں کے بدلے 'معاوضہ' بھی ادا کرچکا تھا اب میں پریشان تھا کہ کروں تو کیا کروں پھر سوچا کیوں نہ انیلہ کو بھی ساتھ لے جاوں مگر خرچہ ڈبل ہوجاتا اور انیلہ کے گھر والوں کو راضی کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا، مانا کہ وہ میری منگیتر اور گرل فرینڈ تھی مگر پھر بھی کوئی اپنی جوان بیٹی کو غیر مرد کے ساتھ پندرہ دن نہیں چھوڑ سکتا تھا، ویسے انیلہ کی ماں اور بھائی اس کی کل فیملی تھی بھائی اسکا فوج میں تھا اور اسکی ماں گھر میں ہی رہتی تھی اس کے علاوہ اس کی ایک بھابھی بھی تھی۔ میں ابھی اپنی سوچوں میں گم ہی تھا کہ ملک کا فون آگیا۔۔
ہاں جانی بول میں نے بات شروع کی۔۔
تجھے چھٹیاں مل گئیں۔۔۔ ملک کا لہجہ سوالیہ کم اور مستی بھرا زیادہ لگ رہا تھا۔۔
ہاں کمینے مل گئیں تیرے چکر میں اتنی محنت کی اور ملا کیا ؟ تم لوگ تو اپنی بیویوں کے ساتھ انجوائے کرو گے اور مییں ہاتھ میں لے کر گھوموں گا۔۔
ابے چل نہ سالے تجھے وہاں بھی کوئی نہ کوئی مل جائے گی، ملک مجھے مسکہ لگانے کے چکر میں تھا۔
میں کوئی پرنس چارمنگ ہوں جو مجھے کوئی بھی مل جائے گی؟ خیر چھوڑ دیکھتا ہوں اگر انیلہ کے گھر والے مان گئے تو اسے ساتھ لے جاوں گا ورنہ میرا کینسل سمجھو۔۔ میں ملک کو دھمکاتے ہوئے بولا۔۔ 'میرے ذہن میں آئیڈیا اگیا تھا، اگر ملک اور فہد کی بیویاں انیلہ کی ماں سے بات کرتیں تو شاید وہ اسے جانے کی اجازت دے دیتیں کہ چلو دو عورتیں ساتھ ہیں مگر یہ بھی صرف امید تھی لیکن میں کوئی بھی چانس چھوڑنا نہیں چاہتا تھا'۔۔
یار تو فکر نہ کر مان جائیں گے انیلہ کے گھر والے، تو بول تو میں خود بات کرلیتا ہوں انیلہ کی امی سے۔۔ ملک بولا۔۔
نہیں یار تیری کیوں مانیں گی وہ؟ سدرہ بھابھی سے بول وہ منائیں گی انیلہ کی امی کو تبھی وہ مانیں گی۔۔ ملک میری بات سن کر سوچنے کے بعد بولا۔ چل ٹھیک ہے میری جان تو بھی کیا یاد کرے گا میں اور تیری بھابھی کل انیلہ کے گھر آئیں گے تو بتا دینا انیلہ کو۔۔ اب خوش ۔۔۔
ہاں یار چل میں انیلہ کو فون کرتا ہوں۔۔
اور پھر سب معاملہ سیٹل ہوگیا۔۔ انیلہ کی امی بڑی مشکل سے مانی مگر مان گئیں صرف ملک اور سدرہ بھابھی ہی نہیں فہد اور بینش بھابی کو بھی کال کرکے سفارش کرنی پڑی تب جا کر انیلہ کی امی مانی اور ہم سب نے شکر کا سانس لیا
ہمارا پروگرام ہزارہ کے بالائی علاقے گھومنے کا بنا۔ ویسے بھی خیبر پختون خواہ میں موجود یہ ہزارہ کا ایریا انتہائی خوبصورت علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالا کوٹ، آذاد کشمیر جیسے خوبصورت علاقے گھومنے کا پروگرام تھا جس کے لئے ہم سب بہت پرجوش بھی تھے
سب سے پہلے ہمارا پروگرام ہری پور جانے کا بنا ہم شام کے وقت وہاں پہنچے جب اندھیرا ہونے لگا تھا۔ چونکہ وہاں ہماری کوئی جان پہنچان یا رشتہ دار نہیں تھے کہ ان کے ہاں رہتے اس لئے وہاں ہوٹل میں روم بک کرلئے، اب پکنک منانے ساتھ نکلے تھے مگر روم الگ الگ لینا مجبوری تھی اس لئے تین روم بک کروالئے اور سفر کی تھکن دور کرنے کے لئے ہم اپنے اپنے کمروں میں پہنچ گئے اس دوران انیلہ نے اپنے گھر اپنی خیریت بتانے کے لئے کال کرلی تھی اور اب ہمارے پاس پوری رات تھی، انیلہ کی آنکھوں میں بھی خوشی کی چمک صاف دکھائی دے رہی تھی، ہماری سیکس لائف میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ہم کسی دوسرے شہر میں ایک ساتھ ایک کمرے میں موجود تھے،
انیلہ کمرے میں گھس کر نہانے کے لئے باتھ روم چلی گئی اب تھکن دور کرنے کے لئے نیند بھی ضروری تھی مگر دو مخالف جنس کے جسم ایک کمرے میں بند ہوں تو کیسے وہ ایک دوسرے کے پاس جانے س بچ سکتے ہیں؟
میں نے باتھ روم کا دروزا کھٹکٹایا تو انیلہ کی آواز آئی۔۔ کیا ہے تابش نہانے دو نا،،
وہ تم سے ایک بات کرنی تھی۔۔ مجھ کچھ بہانہ نہیں سوجا تو میں نے بات شروع کی۔۔
کیا بات کرنی ہے؟ انیلہ بولی۔
ارے دروازہ کھولو نا تب بتاوں گا۔ ایک سپرائز ہے تمہارے لئے۔۔ میرے دماغ نے اب کام کرنا شروع کردیا تھآ۔۔
اچھا آتی ہوں۔۔ سرپرائز کا نام سن کر انیلہ بھی جھانسے میں آگئی، ابھی اس نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ میں دروازہ پکڑ کر اندر گھس گیا اور انیلہ کو دیکھنے لگا، انیلہ کپڑے اتار چکی تھی اور اس وقت پوری طرح بھیگی ہوئی تھی، شاید ابھی خود کو گیلا کیا تھا اور صابن لگانے والی تھی
کیا ہے بولو۔۔ انیلہ اب سپرائز کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔۔ میں نے انیلہ کے دونوں ہاتھوں کو پکڑا اور خود کی طرف کھینچ کر اس گلے لگا لیا اورپھر میرا ایک ہاتھ اس کی چوت کی طرف بڑھا اور اس کی بھیگی ہوئی چوت کو مسلنے لگا۔۔ انیلہ اس اچانک مزے کی شدت کو برداشت نہ کرسکی ہو بے اختیار سسکاریاں بھرنے لگی۔۔ اندر سے وہ بھی گرم تھی اور شاید میرے کچھ کرنے کے انتظار میں تھی۔ میرا ایک ہاتھ انیلہ کی چوت کی سیر کر رہا تھا اور دوسرا انیلہ کی پتلی کمر پرموجود تھا۔ ہمارے ہونٹ جڑ چکے تھے اور میں انیلہ ہونٹوں پر موجود پانی کی بوندیں پی رہا تھا۔۔ انیلہ کو کسسنگ میں کافی مہارت تھی کیونکہ ایک سال کی پریکٹس بھی تو میں نے کرائی تھی
انیلہ میرے ہونٹ سے ہونٹ ملاتے ہوئے میرے چہرے کو تھآمے ہوئے تھی اور پھر اسنے بنا وقت ضائع کئے میری کپڑے اتار دئیے، شرٹ اتارنے کے بعد اسنے میری پینٹ بھی اتار دی ہم دونوں اپنے حواس کھونے لگے تھے اس کے چہرے پر ہوس کے سائے گہرے ہوگئے گئے تھے اور اب مجھ سے بھی صبر نہیں ہورہا تھا وہ نیچے بیٹھ کر میرے لنڈ کو مسلنے لگی اور پھر اسنے لنڈ کی ٹوپی کو منہ میں لیا اور اپنے ہونٹوں کو سختی سے لنڈ کی ٹوپی پر پھیرنے لگی اور لنڈ کو چوسنے لگی جیسے اس میں سے کچھ نکال کر ہی چھوڑے گی۔۔ اس کے ہونٹوں کے گرپ میرے لنڈ پر اتہائی سخت تھی ایسے تنگ سواراخ کو محسوس کرتے ہی میں نے بھی اپنے کمر کو ہلانا شروع کردیا اور وقفے وقفے اور آہستگی سے انیلہ کے منہ میں دھکے لگانے لگا۔
تھوڑی ہی دیر بعد میں نے انیلہ کو دیوار سے لگایا اور اس کو گود میں اٹھا لیا، شاور کا پانی میری کمر پر بہہ رہا تھا مگر اب اسے بند کرنے کا ہوش کسے تھا.
انیلہ کا سینہ میرے سینے سے دب چکا تھا اور انیلہ کی پیٹھ دیوار سے چپکی ہوئی تھی، انیلہ کا وزن زیادہ نہیں تھا اس لئے اسے اٹھائے رکھنے میں مجھے کوئی دقت پیش نہیں آرہی تھی اب میں نیچے سے اپنا لنڈ بھی انیلہ کی گیلی چوت میں ڈال چکا تھا اور انیلہ کے ہونٹوں سے رس پیتا ہوا نیچے سے زبردست جھٹکے مار رہا تھا جسے برداشت کرنا انیلہ کے لئے آسان نہیں تھا مگر جہاں مزہ ہوتا ہے وہاں مشکل چیز بھی آسان ہوجاتی ہے اور یہاں تو مزے کا سمندر تھا جس میں ہم دونوں تیر رہے تھے، انیلہ کی چوت سے میرا لنڈ باہر آنے کا تیار نہیں تھا اور پھر میں نے انیلہ کی پیٹھ اپنی طرف کی اور اور انیلہ کا منہ دیوار کی طرف کردیا اور اس کی چوت میں لنڈ گھسا دیا اور دھکوں کی رفتار میں تیزی لانے لگا۔۔ انیلہ کو آوازیں مجھے پاگل کرنے کے لئے کافی تھیں اور ہم دونوں اب غیر انسانی اّوازیں نکال رہے تھے اور پھر میں اپنے آپ پر مزید قابو نہ رکھ سکا اور انیلہ کی چوت میں اپنا پانی چھوڑنے لگا۔۔۔ہم دونوں یکے بعد دیگرے اپنی منزل کو پہنچ چکے تھے اور اب ہمیں ایک بھرپور نیند کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی میں نے انیلہ کو گود میں اٹھا لیا اور بیڈ پر لا کر لٹا دیا۔ ساتھ لیٹتے ہی انیلہ میری سینے سے چپک گئی تھوڑٰی دیر باتیں کرنے کے بعد ہم دونوں سوگئے
اگلی صبح چھ بجے ہی آنکھ کھل گئی میں جاگا تو محسوس ہوا کہ میں نے اور انیلہ دونوں نے کچھ نہیں پہن رکھا بستر سے نکلنے کے بعد میں نہانے چلا گیا اور انیلہ کو سوتے ہی رہنے دیا، باتھ روم سے نکلا تو انیلہ کو جاگتا ہوا پایا ۔ ہم دونوں جب تیار ہوکر باہر نکلے تو ساڑھے سات بج چکے تھے اس دوران میں ملک اور فہد دونوں کو کال کر کے ناشتے کا پروگرام بنا چکا تھا اور باقی کا دن کہاں گزارنا ہے یہ بھی وہیں طے کرنے کا پلان تھا۔
چونکہ ہم ہوٹل میں ٹھہرے تھے اس لئے وہاں بھی ناشتہ کیا جا سکتا تھا لیکن پھر اس خوبصورت شہر کا دیدار نصیب کیسے ہوتا۔۔ اس لئے ناشتہ کرنے ہم ایک ڈھابے پر پہنچے۔ اور وہاں سالن اور پراٹھوں کا تگڑا ناشتہ کرنے کے بعد قہوہ پیا۔ اور پھر وہییں پہاڑی علاقے میں گھومنے کا پلان بنا۔
ہری پورایک مکمل شہر ہے جہاں اب باقاعدہ شاپنگ مال، ریسٹورنٹس، سڑکیں اور دیگر تمام چیزیں موجود تھیں جو کہ کسی اور شہر میں موجود ہونگی۔ ہری پور گھومنے کے لئے ہم نے ٹیکسی بک کرلی اور ہم اس شہر میں گھومنے لگے کئی جگہ ہم نے تصاویر بھی بنائیں۔ انیلہ، سدرہ اور بینش بھابھی بھی اس سفر کو بہت انجوائےکر رہے تھے۔ ملک بھی خوب مستیاں کر رہا تھا البتہ فہد کچھ اپ سیٹ دکھائی دے رہا تھا مگر یہ میرا گمان تھا یا وہ واقعی اپ سیٹ تھا اس پر سوچنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں تھآ۔
گھومنے کے بعد تقریبا شام کے تین بجے عورتوں کو شاپنگ کی یاد آگئی کیونکہ کل ہم ہری پور سے روانہ ہونے والے تھے اس لئے وہ یہاں کچھ روایتی چیزوں کی خریداری کرنا چاہتی تھیں تو ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے بات کرکے اسے سمجھآدیا کہ وہ لیڈیز کو شاپنگ سینٹر لے جائے جہاں ہم مرد حضرات تھوڑی دیر دیگر جگہیں گھومنے کے بعد آکر ساتھ ہوٹل چلیں گے۔
ملک، فہد اور میں ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ گئے کیونکہ ویسے بھی اب لیڈیز کو کم سے کم دو گھنٹے تو شاپنگ میں لگنے تھے۔ ہم گپ شپ کر رہے تھے کہ ملک کے موبائل پر میسج آیا یوں تو میں کبھی اتنا غور نہیں کرتا مگر اس میسج کے ملنے کے بعد ملک کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تیرنے لگی، میں اس کے بچپن کا دوست تھا ا سلئے اس کی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا ابھی میں اس سے کچھ پوچھتا کہ وہ خود ہی بول پڑا۔۔ یار مجھے جانا ہوگا۔۔۔
کدھر جانا ہوگا؟ میں اور فہد دونوں ساتھ بولے۔۔
ارے یار ایک دوست ہے میرا ہری پور میں اس سے ملنا ہے کچھ رقم بھی تھی اس کی طرف میری وہ بھی لینی ہے۔۔ ملک نے بتایا
تیرا یہاں کونسا دوست آگیا سالے؟۔ میں اب مستی سے اسے تنگ کرنے لگا۔۔
یار ہے ایک دوست بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔۔ یہ بول کر ملک اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے اور فہد کو چھوڑ کر نکل گیا۔۔
میں فہد سے بات کرنے لگا اور اس سے آکر پوچھ بیٹھا یار تو کچھ اداس لگ رہا ہے کیا بات ہے۔۔
کچھ نہیں یار میں ٹھیک ہوں۔۔ فہد دھیمے لہجے میں بولا۔۔
بتا نا ۔۔ اب مجھ سے چھپایا گا تو،، میں بولا
نہیں یار کچھ نہیں ہے بس سفر کی تھکن ہے اور کچھ نہیں۔۔
اسی طرح بات کرنے ہوئے ہمیں ایک گھنٹہ گزر گیا اور پھر بینش بھابھی کے نمبر سے کال آئی۔
کال ریسیو کرنے پر انیلہ کی آواز سنائی دی۔۔ ہیلو۔۔ انیلہ کے پاس موبائل نہیں تھا اس لئے بینش کے موبائل سے کال کر رہی تھی۔۔
ہاں بولو انیلہ۔۔ شاپنگ ہوگئی۔ ہم آجائیں کیا؟ میں نے پوچھا
شاپنگ تو بس ہوگئی ہے مگر سدرہ اور بینش بھابھی گم ہوگئی ہیں وہ تو شکر ہے انکا موبائل ہے میرے پاس سوچا پہلے تمہیں کال کرلوں
کہاں گم ہوگئیں؟ میں نے پریشانی سے پوچھآ۔۔
پتا نہیں۔ تم کال کرو سدرہ بھابھی کو پیلز۔۔ انیلہ نے پریشانی سے کہا
سدرہ بھابھی کو کال ملا کر میں فہد کی جانب دیکھنے لگا جو کہ ہماری بات سن کر پریشان ہوگیا تھآ۔۔ سدرہ بھابھی نے کال ریسیو کی اور پھر ہماری بات ہوئی
سدرہ اور بینش بھابھی ہوٹل پہنچ گئی تھیں، شاپنگ کے دوران دونوں انیلہ سے الگ ہوگئی تھیں اور پھر کافی ڈھوڈنے کے بعد بھی جب انہیں انیلہ نہیں ملی تو وہ سمجھیں کہ شاید انیلہ ہوٹل چلی گئی ہوگی اور پھر وہ دونوں ہوٹل پہنچ گئیں دوسری ٹیکسی سے۔۔
خیر فہد اور میں انیلہ کے ساتھ ٹیکسی میں ہوٹل پہنچے تو وہاں سدرہ اور بینش دونوں ہمارا انتظار کر رہی تھی ان دونوں کو خیریت سے دیکھ کر ہم تینوں نے شکر ادا کیا۔۔ مگر ملک اب بھی غائب تھا اس سے کال پر بات ہوئی تو پتا چلا کہ وہ بھی ہوٹل ابھی ابھی پہنچا ہے۔۔
رات کو ہم سب اپنے اپنے روم میں پہنچ چکے تھے۔۔ میں انیلہ کے ساتھ لیٹا ہوا تھا اور انیلہ مجھے کیا کیا خریدا اس کے بارے میں بتا رہی تھی کہ اچانک انیلہ بولی۔۔
اوہ یہ بینش کا موبائل تو میرے پاس ہی رہ گیا
آپ یہ ان کو دے آئیں پلیز۔۔
میں نے سرسری نگاہ موبائل پر ڈالی جو کہ ایک عام سا فون تھا ابھی میں اٹھنے ہی والا تھا کہ موبائل پر ایک میسج آیا۔ میسج پڑھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا ۔ تجسس سے مجبور ہوکر میں نے ان بکس میں موجود باقی میسجز دیکھنے چاہے تو ان بکس خالی ملا، دماغ نے کام کیا اور میں نے سینٹ یعنی بھیجے گئے میسجز کھولے جو تقریباً سات میسجز تھے جو آج کی ہی تاریخ میں بھیجے گئے تھے جیسے جیسے میں میسجز پڑھتا جارہا تھا میرا دماغ ماوف ہوتا جارہا تھآ۔۔
میسجز کیا تھے کئی بم تھے جو میرے سر پر پھوٹتے جارہے تھے۔ جو میسج آیا تھا وہ کچھ یوں تھا۔۔
آج تو مزہ ہی آگیا۔۔ اس کمینے کو کچھ پتا بھی نہیں ہوگا اس کے پیچھے کیا کیا ہوگیا۔۔
اور پھر جو میسجز بینش بھابھی کے موبائل سے بھیجے گئے تھے وہ کچھ یوں تھے۔
پہلا: کہاں ہو، اتنی دیر سے انتظار کررہی ہوں۔۔
دوسرا: یہ کمینی تو جان ہی نہیں چھوڑ رہی اس کے سامنے تو تم سے بات بھی نہیں کرسکتی۔۔
تیسرا: رکو میں کچھ کرتی ہوں۔۔
اور پھر آخری میسج میں لکھا تھا۔ کوئی دیکھ نہ لے دھیان سے آنا
یہ تمام میسجز جس نمبر پر کئے گئے تھے وہ نمبر میرے لئے انجان تھا اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بینش بھابھی کس سے ملنے کے لئے اتنی پاگل ہورہی تھیں اور پھر ایسا کیا ہوا ہے اس کمینے کے پیچھے؟ اور یہ کمینہ کسے کہا جارہا ہے؟
ابھی میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے فورا موبائل کو سائیڈ پر رکھ دیا۔۔
دروازے پر انیلہ گئی تو بینش بھابھی اپنا موبائل لینے آئی تھیں۔ اور پھر مجھے موبائل دینا پڑا، میں ٹھیک سے وہ انجان نمبر بھی نوٹ نہیں کرپایا تھا
وہ رات میں نہ ٹھیک سے سو پایا اور نہ ہی ٹھیک سے انیلہ کےساتھ سیکس کرپایا۔۔ سوالوں کی بوچھاڑ سی تھی جو میرے دماغ کو سن کئے جارہی تھی اور میرا دماغ ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صبح ہونے تک میں اپنے آپ سے فیصلہ کرچکا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ پلان میں کسی سے بھی شئیر نہیں کرسکتا تھا میں نہیں جانتا تھا کہ اس میں کون کون ملا ہوا ہے اور کس کس کو کیا کیا پتا ہے۔ اس لئے جو کرنا تھا مجھے ہی کرنا تھا اور بینش بھابھی اور اس انسان کا آپس میں کیا چکر چل رہا ہے وہ مجھے پتا کرنا تھآ
اگلی صبح ہم ایبٹ آباد کے لئے روانہ ہوگئے جو ہری پور سے صرف تقریباً تین گھنٹے کے فاصلے پر تھا اس لئے ہمیں سفر میں تھکن کے بجائے مزہ ہی آیا۔ اور چونکہ ہم سب صبح سویرے ہی سفر کے لئے نکلے تھے اس لئے گیارہ بجے ہی ہم ایبٹ آباد پہنچ چکے تھے، ہوٹل میں روم بک کروانےاور کمروں میں سامان رکھوا کر ہم گھومنے نکل گئے، انیلہ، سدرہ اور بینش تینوں خوبصورت جسم کی مالک تھیں اور ہم تینوں مرد اپنی پارٹنرز کے ساتھ انجوائے بھی کر رہے تھے مگر بینش بھابھی فہد سے کچھ کھیچی کھچی سی نظر آرہی تھیں جس کو صرف میں نے ہی نہی انیلہ نے بھی نوٹ کیا۔ گھومنے کے بعد ہم نے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور پھر شام کے وقت اپنے ہوٹل میں پنچ گئے۔
اپنے کمرے میں پہنچتے ہیں میں نے انیلہ کو بانہوں میں قید کرلیا اور اسے چومنے لگا۔ ارے بات تو سنیں انیلہ کسمسائی۔
ہاں بولو۔۔ میں نے چومنا چاری رکھتے ہوئے کہا۔۔
اس ٹھنڈے موسم میں آپ نے مجھے آئس کریم بھی نہیں کھلائی
میں جانتا تھا انیلہ کو آئس کریم بہت پسند ہے۔
کھلا دوں گا پہلے میرا کچھ خیال تو کرو۔۔ میں ابھی باہر جانے کے موڈ میں بلکل نہیں تھا۔۔
نہیں نا۔۔ پلیز لے آئیں نا بہت دل چاہ رہا ہے میرا پلیز۔۔
انیلہ نے کچھ اس ادا سے کہا میں اس کی بات رد نہیں کر پایا اور اس کے ہونٹوں پر ایک لمبی کس کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا اور باہر آگیا۔ قریب میں کوئی دکان نہیں تھی اس لئے مجھے دور جانا پڑتا سوچا کیوں نہ ہوٹل والوں سے پتا کروں شاید ان کے پاس ہو۔ ہوٹل ریسپشن سے پتا کرنے پرمعلوم ہوا کہ ان کے پاس کافی برانڈڈ آئس کریم موجود ہیں اور انیلہ کا پسندیدہ فلیور بھی موجود تھا میں نے وہ آئس کریم اپنے روم نمبر بتا کر بھجوانے کا کہا اور انہیں پیسے ادا کردیئے
میرے ذہن میں فہد کی پریشانی اور اداسی بھی چل رہی تھی میں ہوٹل میں فہد سے تنہائی میں بات کرنا چاہ رہا تھا کیوں کہ مجھے فہد سے بینش بھابھی کے حوالے سے بات کرنی تھی۔ وہ میرا جگری دوست تھا اور میں اسے پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا۔
میں نے سوچا فہد کو کال کرکے کمرے سے باہر بلوالیتا ہوں تا کہ آرام سے بات ہوسکے ۔ میں نے کال کی لیکن فہد نے کال ریسیو نہیں کی اس کا موبائل آن تھا مگر اس پر کوئی جواب نہیں دے رہا تھا میں نے فہد کے کمرے میں جانے کا فیصلہ کیا کہ وہاں سے اسے باہر لے آوں گا۔
میں فہد کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا ہم تینوں کے کمرے ایک دوسرے سے کافی دور تھے اس لئے فہد کے کمرے تک پہنچنے کے لئے ایک راہداری سے گزرنا پڑتا تھا اور ابھی میں اس راہداری کے پاس پہنچا ہی تھا کہ مجھے زور سے ہنسنے کی آواز آئی ابھی میں آواز پہنچاننے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ مجھے ہانپتی ہوئی نسوانی آواز آئی جیسے وہ کہیں سے تیزی سے دوڑ کر آئی ہو
ارے یہیں کروگے کیا سب؟ کوئی دیکھ لے گا؟
اور پھر دوسری آواز آئی جو کہ صاف سنائی دی وہ ملک کی آواز تھی جو اس عورت سے مخاطب تھا۔۔
اسے تو تم نے باہر بھیج دیا اب موقع ملا ہے کیسے چھوڑ دوں۔۔۔ چل اندر۔۔
میں نے راہداری کی اوٹ لیتے ہوئے جھانکا تو فہد کے کمرے میں نے ملک کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا اس سے پہلے وہ عورت کمرے کے اندر داخل ہوچکی تھی جسے میں نہیں دیکھ پایا تھآ۔
میں کمرے کی جانب سے بڑھا لیکن دروازے کے پاس آکر رک گیا، اندر موجود لوگوں کو دیکھنے کے لئے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا اور اندر دیکھنا بھی ضروری تھا، اپنی بے بسی پر میں جھلا گیا اور دانت پیسنے لگا۔ چاہتا تو دروازہ توڑنے کی کوشش بھی کرسکتا تھا مگر اس صورت میں وہ دونوں کچھ بھی بہانہ بنا سکتے تھے میں انہیں رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتا تھا اور پھر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اور میں باہر نکل گیا۔ اپنے پلان کے مطابق میں نے کچھ ضروری سامان خریدا اور پھر ہوٹل پہنچ گیا جہاں اب ملک اور فہد باہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ میں ان کے پاس سے گزر گیا اور اتفاق سے ان دونوں نے بھی مجھے نہیں دیکھا اور میں سیدھا فہد کے روم میں گیا۔ میں دعا کر رہا تھا کہ بینش بھابھی وہاں موجود نہ ہوں اور میری خوش قسمتی تھی کہ بینش بھی اپنے کمرے میں نہیں تھی۔ میں کمرے میں گھسا اور کمرے کو لاک کردیا اور پھر جلدی سے بازار سے خریدا ہوا ایک چھوٹا مگر اچھی ریزولوش والا کیمرہ بیڈ کے بلکل سامنے موجود سنگھار میز میں ایسی جگہ چھپا دیا جہاں سے بیڈ کا نظارہ صاف دکھائی دے اور کسی کو وہ کیمرہ نظر بھی نہ آئے اس کیمرے کی خاص بات اس کی نائٹ وژن کوالٹی تھی جس کی وجہ سے رات اندھیرے میں ہونے والی کاروائی ریکارڈ بھی کی جاسکتی تھی.
ابھی میں یہ کیمرہ فٹ کرکے مڑا ہی تھا کہ باتھ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور میری سانس وہیں رک گئی بینش بھابھی بنا کپڑوں کے صرف ایک ٹاول باندھے ہوئے باہر آگئی تھیں۔
بینش بھابھی اور میں نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا اور مجھے لگا کہ بینش بھابھی مجھ پر شک نہ کرلیں کہ میں یہاں کیا کرنے آیا تھا۔ اس دوران بینش بھابھی نے مجھ سے۔۔
تابش تم یہاں ۔۔۔۔کچھ چاہئیے کیا؟
نہیں بھابھی بس ایسے ہی سوچا فہد سے مل لوں۔
مگر وہ تو یہاں ہے ہی نہیں شاید باہر گئے ہیں بینش نے مسکرا کر جواب دیا۔
ان کا مسکرا مجھے ہمت دے گیا اور میں نے کہا چلیں فہد نہیں ہے تو کیا ہوا آپ تو ہیں آپ سے باتیں کرلوں گا۔۔
میری اس بات مطلب بینش شاید غلط سمجھ بیٹھی تھی اور ایک ادا سے چل کر میرے پاس آئی اور بولی تو کرو نا باتیں کس نے منع کیا ہے۔۔
اور پھر پتا نہیں کیسے ان کا ٹاول کھل گیا اور سیدھا ان کی ٹانگوں میں آگرا۔۔ اب بینش بھابھی کے جسم پر رتی برابر بھی کپڑا یا ڈھکنے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ میرے لئے یہ نظارہ برداشت سے باہر تھا اس لئے میں اپنی آنکھیں نہ تو جھکا سکا اور نہ ہی وہاں سے ہٹا سکا۔ بینش کے تنے ہوئے پستان اور کی دلکش کمر، اور پھر نیچے تک نظر پہنچتے پہنچتے میرے بدن پر جیسے چیونٹیاں رینگنے لگی تھیں۔ اس دوران بینش بھابھی مڑ کر کھڑی ہوگئیں جیسے بے اختیار وہ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہوں مگر یہ تو میرے ضبط کا امتحان لیا جارہا تھا کیوں کہ اب بینش بھا بھی کی پیٹھ میرے طرف تھی اور چٹان کی مانند کھڑے ان کے چوتڑ دیکھ کر تو میں جیسے اپنے حواس کھوتا جارہا تھا۔ اور پھر بینش بھابھی کو شاید مجھ پر رحم آگیا اور انہوں نے نیچے جھک کر اپنا ٹاول اٹھا لیا اور ان کا یہ جھکنا بھی کمال کرگیا وہ بیٹھ کر ٹاول اٹھانے کے بجائے رکوع کی حالت میں جھکی جس کی بدولت مجھے ان کی چوتڑ اور اس کی لکیر جو کہیں نیچے وادیوں میں گم ہورہی تھی نظر آئی اب بینش نے ٹاول اٹھا کر باندھ دیا تھا اور میں وہاں سے باہر نکل آیا پیچھے سے بینش نے آواز بھی دی لیکن اگر میں وہاں چند لمحے بھی مزید رکتا تو کچھ غلط ہوجاتا جو کہ میں نہیں چاہتا تھآ
باہر آکر میں اپنے حواس بحال کرنے لگا اور اپنے آپ پر قابو پانے لگا۔ اس دوران اب میں اپنے کمرے میں جاچکا تھا جہاں اس وقت انیلہ آرام کررہی تھی، میں اس کے باہر یا باتھ روم جانے کا انتظار کر رہا تھا۔
تم نے آئس کریم کھائی؟ میں نے پوچھا
ہاں کھالی تھی ہوٹل والوں کے پاس میری فیورٹ آئس کریم بھی تھی مگر میں تمہارا انتظار کرتی رہی تم کہاں چلے گئے تھے۔ انیلہ اب مجھ سے پوچھنے لگی
میں بس فہد سے بات کر رہا تھا۔ اس دوران انیلہ کپڑے چینج کرنے باتھ روم گئی تو میں بجلی کی تیزی سے مناسب جگہ ڈھونڈنے لگا جہاں کیمرہ فٹ کیا جاسکے، مجھے انیلہ پر بھی شک تھا مگر اس شک کو ختم کرنا بھی میری ہی ذمہ داری تھی اس لئے میں یہ کمیرے لگا کر مکمل یقین کرنا چاہتا تھا کہ ملک کے ساتھ کون کون ملا ہوا ہے۔
پھر میں نے بیڈ کے دائیں جانب رکھے گلدان میں کیمرہ فٹ کردیا جو کہ مناسب جگہ تھی۔
انیلہ باہر آئی اور مجھے کہا میں نے تمہارے لئے آئس کریم بچا کر رکھی ہے تم کھالو۔ آئس کریم کھانے کے بعد میں لیٹ گیا اور سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں میں گم ہوگیا۔۔ سونے سے پہلے بس میرے ذہن میں جو آخری بات تھی وہ یہی تھی صبح میں جان جاوں گا کہ کون کس سے بے وفائی کر رہا ہے
نظارہ فہد کے کمرے کا تھا، ملک کے ہاتھ میں انیلہ کے بال تھے اور وہ بے دردی سے گھوڑی بنی ہوئی انیلہ کی چدائی میں مصروف تھا جبکہ دوسری جانب بینش بھابھی انیلہ کے منہ کے آگے اپنی چوت بچھائے اپنے مموں کے ساتھ اٹکھلیاں کرنے مصروف تھیں۔ انیلہ اپنی شدت سے ہونے والی چدائی کو بھرپور انجوائے کررہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بینش بھابھی کی چوت بھی چاٹنے مصروف تھی۔ یہ تینوں اس کھیل میں اتنے مگن تھے کہ انہیں میں دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا جو کہ اس وقت کھلے دروازے میں کھڑا تھا اور پھر اچانک ملک کی نظر میری طرف پڑی اور میں جو خون آشام نظروں سے ان تینوں کی جانب دیکھ رہا تھا مجھ سے نظر ملاتے ہی ملک مسکرایا اور ساتھ ہی مجھے آنکھ مار دی یہ میرے زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا ہی تھا اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ میرے ہاتھ کہیں سے پستول لگ جائے اور میں ان تینوں کا جان سے مار دوں اور پھر میں ملک کو اس کی اس ذلیل حرکت کی سزا دینے کے لئے آگے بڑھا ہی تھا کہ کسی نے پیچھے سے میرا ہاتھ تھام لیا اور میرے باوجود ذور لگانے کے میں اپنا ہاتھ چھڑا نہیں پارہا تھا اس ہاتھ کا شکنجا انتہائی مضبوط تھا میری نظریں اب بھی ملک کے شیطانی چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں اور اب وہ تینوں میری بے بسی پر دل کھول کر ہنس رہے تھے اور ساتھ ہی چدائی کے مزے بھی لے رہے تھے۔ اور بالاخر میرا ہاتھ اس شخص سے چھوڑ دیا اور میں نے پیچھے مڑ کر غصے سے دیکھا تو وہاں فہد کھڑا تھا اس کے چہرے پر وہی بے چارگی تھی جو بینش بھابھی کے سامنے ہوتی تھی جیسے اس نے کوئی جرم کرلیا ہو۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے فہد کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ لگانے کے لئے ہاتھ اٹھا دیا۔۔۔
میرے کانوں میں بہت زور سے کسی کے چیخنے کی آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلتے ہی میرے ذہن نے کام کرنا شروع کیا اور پھر مجھے سمجھ آیا کہ میں ایک خواب دیکھ رہا تھا جو کہ سچ نہیں تھا
میری آنکھ تقریباً نو بجے کھلی وہ چیخنے کی آواز کس کی تھی میں سمجھ نہیں پایا تھا لیکن میرے پاس سوچنے کے لئے اور بھی کئی اہم کام تھے اس لئے نہانے کے بعد میں نے انیلہ کو جگایا جو کہ بدستور سو رہی تھی.
آج نہ تو ملک نے مجھے جگایا اور نہ ہی فہد کی کوئی خیر خبر تھی شاید دن کے سفر اور پھر گھومنے کی تھکن تھی جو شاید سب اتار رہے تھے۔
انیلہ کو جگانے کے بعد انیلہ جیسے ہی باتھ روم نہانے گئی میں نے چھپا ہوا کیمرا نکال کر اپنے جیب میں ڈال لیا۔۔ اس میں پوری رات کی ویڈیو سیو ہوچکی تھی۔ میں باہر آگیا اور اور ملک کے کمرے کی طرف بڑھا، دروازہ کھٹکٹانے کے بعد میں اتنظار کرنے لگا اور کافی دیر بعد ملک کی آواز آئی
اور پھر درازہ کھل گیا۔ ملک آنکھیں مسلتا ہوا گیٹ پر نمودار ہوا۔
ابے سالے ایبٹ آباد میں گھومنے آیا ہے کہ نیند پوری کرنے، میں نے ملک کو جھاڑا
ارے یار بڑی مست نیند آئی ہے قسم سے۔۔ ملک نےدانت نکالتے ہوئے کہا
اچھا ۔۔ کہاں ہے وہ مست نیند؟ میں اس سے مذاق کرنے لگا۔۔
چلی گئی یار۔۔ تو نے جگا دیا نا۔۔ بہت اچھا خواب تھا۔۔ ملک نے جواب دیا۔۔
چل اب جلدی سے تیار ہوجا میں فہد کو دیکھتا ہوں
فہد کے کمرے کے سامنے پہنچ کرمیں پلان بنانے لگا کہ کیسے اس کے کمرے سے کیمرا نکالنا ہے اور انہیں پتا بھی نہ چلے۔
موقع کی تلاش میں مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور سب تیار ہوکر گھومنے کے لئے ہوٹل سے باہر نکلے تو میں نے کچھ بھول جانے کی ایکٹنگ کی
ارے یار میں ابھی آیا ایک چیز بھول گیا ہوں۔ میں نے سب کو مخاطب کرکے کہا۔
اور کسی کا سوال جواب سنے بغیر اندر گھس گیا اور سیدھا فہد کے کمرے میں گھس کر کیمرا نکال لیا، مجھے اپنی غلطی کا احساس بھی ہورہا تھا کہ ایک کیمرہ ملک کے کمرے میں بھی لگاناچاہئے تھا مگر اس وقت اس بات کے دکھ کے بجائے مجھے سچ جاننے میں دلچسپی زیادہ تھی اور پھر وہ کیمرا میں نے کمرے میں پہلے سے موجود دوسرے کیمرے کے ساتھ ایک محفوظ جگہ پر چھپا لیا اور ہم سب گھومنے نکل گئے۔ آج فہد کا موڈ بھی خوشگوار تھا اور بینشن بھابھی بھی فہد سے بہت چہک چہک کر بات کر رہی تھیں جس پر مجھے خوشی بھی ہورہی تھی اور حیرانگی بھی جبکہ دوری طرف ملک اور سدرہ بھابھی ، میں اور انیلہ بھی ہنس کھیل رہے تھے اور ایبٹ آباد کی خوبصورتی کو انجوائے بھی کر رہے تھے
میں دل ہی دل میں جلد سے جلد ہوٹل پہنچنا چاہتا تھا تاکہ جو بےچینی میرے دل و دماغ میں پھیلی ہوئی ہے وہ دور ہوسکے اور سچ میرے سامنے آجائے، شام ہونے لگی تھی اور ہم بھی اب کافی تھک گئے تھے اس لئے سب نے واپس ہوٹل جانے کا فیصلہ کیا
رات کا کھانا کھا کر ہم سب اپنے کمرے میں گھس گئے میں اور انیلہ لیٹ چکے تھے اور آج میں دعا کر رہا تھا کہ انیلہ جلدی سوجائے اور میری دعا یوں قبول ہوئی کہ انیلہ میرے سینے سے آ لگی اور اس کے دل سے سیکس کی چاہت میرے دل تک کا سفر کر کے پہنچ گئی اور پھر پلک چھپکتے ہی انیلہ میرے نیچے تھی اور میں اس کے اوپر۔
پیار کا ایک سنسنی خیز کھیل شروع ہوا اور ختم بھی اور پھر انیلہ کی آگ ٹھنڈی ہوتے ہی انیلہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
انیلہ گہری نیند سوچکی تھی اس بات کا اطمینان کرتے ہی میں نے وہ دونوں کیمرے نکالے جہاں میں نے انہیں چھپا رکھا تھا اور پھر میں نے پہلے اس کیمرے کی ویڈیو دیکھنے کا فیصلہ کیا جو میرے اپنے کمرے میں لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کیمرے میں موجود میموری کارڈ کو نکالا اور اسے اپنے موبائل میں لگا دیا جو کہ ہر فارمیٹ کی ویڈیو چلانے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ویڈیو ریکارڈنگ میں اسٹارٹ کا ٹائم دکھاَئی دے رہا تھا یعنی میں نے تقریباً آٹھ بجے کیمرا فکس کیا تھا اور اس وقت وہہیں سے کیمرا ریکاڑنگ ٹائمنگ شروع ہوگیا تھآ۔
ویڈیو میں منظر میرے آئس کریم کھانےکا تھا اور پھر انیلہ بھی میرے ساتھ آکر لیٹ گئی، میں ساتھ ہی ساتھ ویڈیو فارورڈ بھی کر رہا تھا تا کہ پوری رات کی ویڈیو جلد سے جلد دیکھ سکوں۔ ویڈیو ریکارڈنگ کو شروع ہوئے چھ گھنٹے ہوچکے تھے یعنی رات کے کے دو بجے تھے جب انیلہ اپنی جگہ سے ہلی ۔۔
میری تمام تر توجہ انیلہ کی حرکات پر تھی۔ انیلہ جاگی اور پھر بیٹھ گئی کچھ لمحے بیٹھے رہنے کے بعد انیلہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اٹھ کر باتھ روم چلی گئی، باتھ روم جانے کی وجہ رات کے وقت پیشاب آنا بھی ہوسکتا تھا مگر شک کے بادل جب گہرے ہوجائیں تو روشن بھروسہ بھی دھندلا جاتا ہے۔ انیلہ باتھ روم میں تقریباً دو منٹ رہی مگر یہ دو منٹ میرے لئے دو سال کے مانند تھے اور پھر انیلہ واپس آئی اس کا ڈریس وہی تھا اس کے چہرے پر کوئی میک اپ نہیں تھا ویسے بھی عورتیں میک اپ کے لئے دو منٹ لگانے لگ جائیں تو مرد حضرات شکرانے کا نفل ادا کریں، خیر انیلہ باتھ روم کے نکلنے کے بعد بیڈ میں آکر گھس گئی اور پھر اس نے ایک حیرت بھری حرکت کی، انیلہ میرے قریب ہوئی اور میرے ہونٹ کو چوم لیا اور پھر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی کمرے میں اندھیرا تھا مگر کیمرے کی نائَٹ وژن کوالٹی نے مسئلہ آسان کردیا تھا، میں نے ویڈیو کو فاورڈ کرنا شروع کردیا مگر میں اور انیلہ دونوں بستر میں موجود رہے انیلہ دوبارہ نہ اٹھی اور پھر صبح میرے جاگنے کا منظر بھی میں نے دیکھ لیا۔ میرے دل کو جیسے سکون مل گیا، انیلہ پر میرا شک غلط تھا اور یہ احساس انتہائی خوشگوار تھآ۔
اب دوسرے کیمرے کی باری تھی اور اب سچائی مجھ سے زیادہ دور نہیں تھا یہ سوچ کے ہی میرے بدن میں سنساہٹ ہورہی تھی اور دل اپنی رفتار سے کئی گنا تیز دھڑکنے لگا تھا
ویڈیو میرے موبائل پر چلنا شروع ہوئی، ویڈیو میں منظر کچھ یوں تھا کہ میں اور بینش بھابھی آمنے سامنے کھڑے تھے اور پھر کچھ لمحوں کے بعد بینش بھابھی نے انتہائی چالاکی سے اپنے بائیں ہاتھ کو پیچھے لے جاکر اپنے جسم پر موجود تولیہ کو کھول دیا تھا یہ حرکت اسں نے جان بوجھ کرتھی اس وقت بدحواسی میں مجھے بینش کی یہ حرکت نظر نہیں آسکی تھی مگر اس وقت ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ تولیہ گرنا اور بینش کا ننگا ہونا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ اس کی اپنی مرضی سے ہوا تھا اس حرکت کے بعد جو ہوا وہ میں جانتا تھا، بینش کا بدن کسی صورت انیلہ سے کم نہیں تھا بلکہ اپنے بھرے بھرے مموں کی بدولت اس کا فگر نہایت دلکش تھا اور مردوں کے لئے ایک غیر عورت کو دیکھ کر سیکس کی چاہت کچھ زیادہ ہی بڑھتی ہے شاید یہی وجہ تھی کہ بینش کا جسم مجھے گرم کررہا تھا۔
یہ منظر اب گزر چکا تھا اور اس وقت کمرہ بلکل خالی تھا بینش کپڑے پہن کر باہر جاچکی تھی۔ ویڈیو کو شروع ہوئے اب دو گھنٹے گزر چکے تھے یعنی رات کے تقریباً بارہ بج چکے تھے فہد اور بینش اپنےبستر پر لیٹے ہوئے تھے ان کے درمیان کسی بات پر بحث بھی ہورہی تھی اور پھر بینش نے موبائل اٹھایا اور کسی کو کال کی اس کال کے بعد بینش اور فہد میں ہونے والی بحث اب ختم ہوچکی تھی ، کمرے کی لائٹس آن تھیں اس لئے سب کچھ واضح نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گزرنے کے بعد بینش اور فہد دونوں کے ایک ہی وقت میں کمرے کے دروازے کی جانب دیکھا جیسے وہاں سے کوئی اندر داخل ہوا ہو اور واقعی کمرے میں کوئی داخل ہوا تھا اور داخل ہونے والے پر میری نظر پڑی اور جیسے مجھے ایک بار پھر حیرت کا شدید قسم کا جھٹکا لگا کمرے میں داخل ہونے والا کوئی اور انسان نہیں بلکہ سدرہ بھابھی تھیں جن کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی اور بلکل ویسی ہی مسکراہٹ بینش کے چہرے پر بھی تھی مجھے یہ بینش بھابھی کی کوئی چال لگ رہی تھی مگر رات کےاس پہر سدرہ یہاں اس کمرے میں کر کیا رہی تھی اور ملک کہاں تھآ؟ کیا ملک بھی اس سازش میں شامل تھا یا پھر یہ صرف بینش اور سدرہ کا کوئی پلان تھا ؟ بینش کو کیا ضرورت پڑی کہ سدرہ کو اپنے شوہر کی موجودگی میں اس پہر بلایا؟
کیا فہد نے بینش سے ایسی کوئی ڈیمانڈ کی تھی؟
سوال تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
ابھی میرا منہ حیرت کا یہ جھٹکا کھآ کر بند بھی نہیں ہوا تھآ کہ اگلا نظارہ مجھے اور زیادہ ورطہ حیرت میں ڈال گیا، سدرہ بینش اور فہد کے بستر کے قریب آئی اور پھر فہد بستر کی جس جانب لیٹا ہوا تھا وہ آکر کھڑی ہوگئی اور پھر اسنے یک دم اپنی قیمض کو پکڑا اور اوپر کی جانب کھینچ دیا سدرہ نے خود اپنی قمیض اتار دی تھی، پلک جھپکتے ہی سدرہ قیمض کی قید سے آزاد ہوگئی اور نیچے کالے رنگ کا بریزر سدرہ کے اٹھے ہوئے مموں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، قیمض اتار کر سدرہ وہیں کھڑی رہی اور فہد کی جانب دیکھنے لگی.
فہد شاید سدرہ کی اس حرکت اور اس خوبصورت نظارے کو برداشت نہیں کرپایا اور فہد اٹھ کر بیٹھ گیا اور سدرہ کے بریزر کے اوپر سے ہی مموں کو دبانے لگا فہد کا دوسرا ہاتھ اب سدرہ کی شلوار کے اوپر سے اس کی چوت کو مسلنے لگا، فہد میں جھجھک بلکل نظر نہیں آرہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ اس کے لئے بلکل بھی اچھنبھے کی بات نہیں ہے اور یہ چیز مجھے اور زیادہ حیران کررہی تھی، منظر آگے بڑھ رہا تھا، اب فہد نے سدرہ کو گردن سے پکڑ کر اپنے قریب کردیا اور گال چومنے کے بعد سیدھا ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا کر کسسنگ کرنے لگا، اس دوران میری نظر جب بینش پر پڑی تو اس کی قیمض بھی اتر چکی تھی اور یہ حرکت اس کی اپنی ہی تھی، وہ بھی شاید اس منظر کی تاب نہیں لاپائی تھی اور اس کھیل میں شامل ہونا چاہتی تھی۔ فہد نے ایک ہاتھ آگے بڑھا کر اب سدرہ کا بریزر بھی کھول دیا تھا جو سدرہ کے پستانوں پر ٹکنے کی ناکام کوشش کرنے لگا تو فہد نے اسے پکڑ کر دور پھینک دیا اور سدرہ کے مموں سے اپنا منہ لگا کر اسے چوسنے لگا بینش اب اپنی جگہ سے اٹھ کر فہد کی ٹانگوں کی جانب بڑھی اور اسنے فہد کا ٹراوزر کا ازار بند کھول کر ٹراوزر نیچے کردیا ٹراوزر نیچے کرتے ہی فہد کا تنا ہوا لنڈ باہر آگیا جسے بینش نے بڑے پیار سے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر فہد اور سدرہ کی جانب دیکھا جہاں فہد اور سدرہ کے ہونٹ جڑے ہوئے تھے اور سدرہ کی اب شلوار بھی اتر چکی تھی مگر وہ ابھی تک بیڈ کے پاس جھکی ہوئی کھڑی تھی اور دونوں کے ہونٹ جڑے ہوئے تھے جب کہ فہد کا ایک ہاتھ سدرہ کے ممے اور دوسرا سدرہ کی چوت کو مسلنے میں مصروف تھا جبکہ سدرہ کے دونوں ہاتھ فہد کی گردن میں جھولے ہوئے تھے۔
بینش نے اب فہد کے لنڈ کو اپنے منہ کا راستہ دکھا دیا تھا اور بینش پوری کوشش کررہی تھی کہ اپنے شوہر کے لنڈ کو پورا اپنے منہ میں داخل کر سکے اور اس کوشش میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہورہی تھی، اس کے تھوک سے لنڈ گیلا ہورہا تھا اور پھر وہ اسی تھوک کو دوبارہ چاٹنے اور چوسنے لگتی فہد اس وقت مزے کی بلندیوں پر گھوم رہا تھا جس کا انداز مجھے اچھی طرح تھا
ویڈیو ریکاڈنگ کو شروع ہوئے ڈھائی گھنٹے ہوچکے تھے اور پھر بینش نے سدرہ کو اپنے جانب آنے کو کہا سدرہ نے ہاں میں سر ہلایا اور بیڈ پر چڑھ گئی مگر بینش اور سدرہ کے درمیان فہد موجود تھا اس لئے فہد نے سدرہ کو ہاتھ سے پکڑا اور اس کی گانڈ کو غور سے دیکھتے ہوئے بینش کی طرف دھکیلا، بینش نے سدرہ کو اپنے قریب کیا اور پھر بینش نے سدرہ کے ہونٹ چوم لئے اور نہ صرف چومے بلکہ کسی لڑکے کی طرح کسنگ کرنے لگی اور کسنگ میں سدرہ بھی اپنی پوری مہارت دکھانے لگی۔ ایسا کوئی منظر اپنے اتنے قریبی لوگوں کا دیکھوں گا ایسا کبھی میں نے سوچا بھی نہیں تھا مگر ویڈیو بن چکی تھی یہ سب کل رات ہوچکا تھا اور شاید آج رات بھی ہورہا ہو۔۔ آج رات۔۔۔۔۔۔ میں ویڈیو کو وہیں روک دیا
گھڑی پر وقت دیکھا تو رات کا ایک بج رہا تھے کیا اس وقت بھی یہ تینوں اسی کمرے میں اس کھیل میں مصروف ہونگے؟ کیا ان تینوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا یہ بہترین موقع ہے؟
اگر میں نے انہیں پکڑ لیا تو ۔؟؟؟ میں کیا کروں گا؟ کیا مجھے بھی دو زبردست لڑکیوں کی چوتیں مارنی چاہئیں؟
میں ہاں اور نہ کی جنگ میں پھنسنے لگا تھا، دماغ کچھ کہہ رہا تھا اور دل لنڈ کی طرف داری کر رہا تھآ۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے جا کر دیکھنا چاہئے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے، ہوسکتا ہے وہاں آج کچھ بھی نہ ہورہا ہو مجھے پہلے یہ پتا کرنا تھآ کہ آج یہ سیکس پارٹی چل بھی رہی ہے کہ نہیں۔
ارادہ کرتے ہی میں اٹھا کیمرے کو واپس اسی محفوظ جگہ پر رکھا اور بلکل دھیمے انداز میں دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ رات کے اس پہر اس سردی میں راہداری بلکل سنسان پڑی تھی اس لئے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا فہد کے کمر ے کے پاس پہنچ گیا اب اندر کیسے جایا جائے یہ ایک سوال تھا، دروزاہ کھٹکٹانے پر اگر دروازہ نہ کھلا تو؟ میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو کوئی آواز سنائی نہ دی اب میں پریشان تھا کہ اب کروں تو کیا کروں۔ پھر ایک آئیڈیا آیا تو ایک پولیس والے کے انداز میں دروازہ زور سے بجادیا میں نے دروازہ کافی زور سے بجایا تھا کہ اگر اندر کوئی سو بھی رہا ہوتا وہ جاگ جاتا اور ضرور دروازہ کھول دیتا یا دروازے کے پاس آکر پوچھتا کہ کون ہے۔۔ مگر دروازے کے اس پار کوئی ہل چل نہیں تھی کوئی آواز نہیں تھی دروازہ کا ہنڈل گھمایا تو وہ کھلا ہوا تھا مجھے اپنی بے وقوفی پرغصہ آیا اور ہنڈل گھما کر میں اندر آدھمکا تا کہ اندر موجود لوگ مجھے دیکھ کر چونک جائیں اور ان کے پاس چھپنے کے لئے کوئی چانس ہی نہ ہو مگر اندر کی صورتحال میرے اندازے سے یکسر مختلف تھی کیونکہ اندر میرا استقبال کرنے کے لئے کوئی بھی نہیں تھآ شاید چھاپا غلط پڑگیا تھا۔
میں اپنی نظر کمرے میں دوڑا ہی رہا تھا کہ میرے سر پر ایک افتاد آپڑی میرے چودہ طبق روشن ہوگئے جب کوئی سخت سی چیز میرے سر سے ٹکرائی اور ایک لمحے کے لئے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا
میری آنکھوں کے آگے اندھیرا کچھ دیر بعد چھٹا تو اپنے اوپر وار کرنے والے کی جانب میں بے اختیار مڑا تو وہاں بینش بھابھی کھڑی تھیں اور اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے، میرا سر دکھ رہا تھا مگر بینش بھابھی کو دیکھ میں بھی حیران و پریشان تھا۔
تابش تم ۔۔۔ بینش بھابھی یہی بول پائیں۔۔
ارے آپ نے مجھے کیوں مارا؟ میں نے بینش سے پوچھا۔
مجھے لگا کوئی سر پھرا میرے کمرے میں گھسنے کی کوشش کررہا ہے۔ اتنی زور سے دوازہ بجایا تم نے میں تو ڈر گئی تھی اسی لئے دروازے کی اوٹ لے کر کھڑی تھی۔ اب میں انہیں کیسے بتاتا کہ میں یہاں کیا کرنے آیا تھا لیکن کچھ نہ کچھ تو بتانا ضروری تھی، وہ فہد کہاں ہے مجھے اس سے ملنا ہے بہت اہم بات ہے، مجھے فہد نظر نہیں آرہا تھا اس لئے اسی کا نام لے کر بہانہ بنا دیا۔
فہد۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ باہر گئے ہیں، بینش کی ہچکچاہٹ مجھے شک میں ڈال رہی تھی،
اچھا کب تک آئیں گے؟ میں نے بینش سے پوچھا۔
پتا نہیں کہہ رہے تھے کوئی کام ہے۔ تم صبح بات کرلینا۔
نہیں مجھے ابھی بات کرنی ہے رکو میں کال کرتا ہوں اسے۔۔
نہیں کال مت کریں آپ میں کہہ رہی ہوں نا کہ وہ صبح بات کرلینا، صبر نہیں کرسکتے کیا۔۔ بینش اب پریشان نظر آرہی تھی
سچ سچ بتائیں بھابھی فہد کہاں ہے؟ میں اب بینش بھابھی سے دو ٹوک بات کرنے کے موڈ میں تھا۔
تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں تم سے، بینش بھابھی کھوکھلے لہجے میں بولیں۔
ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔
تم کیسے کہہ سکتے ہو یہ؟ بینش بھابھی اب ہارنے ماننے لگی تھیں
بلکل ویسے ہی جیسے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کل رات فہد اور آپ کے علاوہ اس کمرے میں کوئی اور بھی تھا اور وہ کوئی اور کون تھا یہ مجھے یاد دلانے کی شاید ضرورت نہیں پڑے گی اگر آپ میرے ساتھ تعاون کریں۔ میں مدعے پر آگیا تھا اب بینش کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا مگر آخری کوشش کرنے کی خاطر بینش نے کہا, کیا بکواس ہے یہ تم۔۔۔
بکواس نہیں سچ ہے یہ ۔ میں بینش کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور بینش کے بلکل پاس آکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہا بولنے لگا۔ کل رات تم، فہد اور سدرہ اس کمرے میں موجود تھے اور جو کچھ تم تینوں نے کیا اس سب کی ویڈیو محفوظ ہے میرے پاس۔ اب اور کچھ پوچھنا ہے تم نے۔
تابش۔۔۔ یہ کیا بول رہے ہو تم۔ ہم تینوں کی تم نے ویڈیوبنائی، تمہیں سب پتا چل گیا؟
ہاں سب پتا چل گیا ہے مجھے اور اب تم سب سچ بتا دو تو تمہارے لئے یہی بہتر ہوگا۔ فہد کہاں ہے؟
وہ ملک کے کمرے میں ہے۔۔ بیش کی بات میرے حلق سے نہیں اتری۔۔ کیا۔۔۔۔ ملک کے کمرے میں فہد کیا کررہا ہے؟
وہی جو کل فہد، میں اور سدرہ یہاں کر رہے تھے اور شاید تمہیں پتا نہیں بعد میں ملک بھی یہیں آگیا تھا۔
اب مجھے ان کی گیم سمجھ آگئی تھی، یہ دونوں جوڑیاں آپس میں سیکس کررہی ہیں ملک اور فہد بیویوں کی ادلہ بدلی میں مصروف ہیں، کل ملک نے یہاں سیکس کیا اور آج فہد ملک کےکمرے میں مزے کررہا ہے۔
یہ ہوس کا کھیل کھیلنے کا آئیڈیا کس کا تھا؟ میں بینش سے پوچھآ۔
ملک اور میرا۔ بینش اب سب تفصیل سے بتانے کو تیار تھی۔
ملک اور میرا رشتہ دو سال سے جڑا ہوا ہے، ہم دونوں سیکس بھی کرتے تھے پھر ایک دن سدرہ کو پتا چل گیا ہمارے بارے میں، پہلے تو اس نے ملک سے طلاق مانگی مگر ملک اسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر سدرہ اپنی بات پر اڑی رہی۔ پھر ایک دن سدرہ نے ملک کو کہا کہ اسے مجھے سے بات کرنی ہے ملنا چاہتی ہے وہ مجھ سے۔
میں جب سدرہ سے ملی تو اسنے مجھے بہت گالیاں دیں بہت برا بھلا کہا اور ساتھ میں یہ دھمکی بھی دی کہ وہ فہد کو بھی سب کچھ بتا سکتی ہے لیکن وہ نہیں بتائے گی اگر میں اسکی بات مانوں۔
کیا بات منوانا چاہتی تھی وہ؟ میں بیچ میں پوچھ بیٹھا۔۔
وہ فہد کے ساتھ سیکس کرنا چاہتی تھی وہ بھی میری موجودگی میں اور فہد کو اس بات پر راضی کرنا میرا کام تھا اور اس کے ساتھ ساتھ میں ملک کے ساتھ سیکس کرتی ہوں یہ بات بھی فہد کو بتانی تھی تاکہ سدرہ اور ملک کو کوئی پریشانی نہ ہو اور سارا کام باہمی رضا مندی سے ہو۔
میرے لئے یہ سب بہت مشکل تھا مگر پہلا کام دوسرے کی نسبت آسان تھا۔ ایک عورت ہونے کے ناطے میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ میرا شوہر کسی غیر عورت کے ساتھ سیکس کرے اور وہ بھی میرے سامنے یہ بہت مشکل کام تھا مگر ملک کے ساتھ چدائی اور اپنی چوت کے آگے بے بس ہوگئی تھی میں اور آخر میں نے فہد کو منانا شروع کیا کہ وہ سدرہ سے سیکس کے متعلق سوچے، ابھی اس بات کو ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ ملک کو آئیڈیا سوجھا کہ کہیں باہر گھومنے کا پلان بنایا جائے اور پھر وہیں فہد کو کسی طرح سدرہ سے قریب کیا جائے۔
میں اور ملک جانتے تھے کہ تم اور فہد کبھی بھی بیویوں کے ساتھ جانے کے لئے راضی نہیں ہوگے اس لئے پہلا پلان صرف دوستوں کا جانے کا بنایا گیا ، جب تم اور فہد نے ہامی بھرلی تب میں نے فہد پر پریشر ڈالنا شروع کردیا کہ مجھے بھی ساتھ جانا ہے، میری کوشش رنگ لائی اور پھر فہد مجھے ساتھ لے چلنے کے لئے مان گیا اور بعد میں تم بھی انیلہ کو ساتھ لے آئے، ملک اور سدرہ تو چاہتے یہی تھے اس لئے ہم یہاں آگئے۔
یہاں آکر میں نے زیادہ سے زیادہ وقت ملک کے ساتھ گزارا اور فہد کو سدرہ کے قریب کرنے کی کوشش کی اور سدرہ بھی فہد کو رجھانے میں مصروف رہی، ہری پور تک ہم اپنے پلان میں کامیاب نہیں ہوئے تھے مگر یہاں آکر فہد کی نیت میں بھی فتور آگیا اور پھر کل رات ہم تینوں نے سیکس کیا اور پھر سدرہ نے ہی اسی رات فہد کو ملک کو بلانے پر بھی منا لیا۔ اور آج بھی ہمارا سیکس کا ہی پلان تھا فہد جا چکا ہے اور میں بھی جانے والی تھی کہ تم آگئے۔
اف تم لوگ کتنا گر گئے ہو تمہیں اندازہ بھی ہے؟ میں نے بینش سے کہا۔۔
زیادہ شریف بننے کی ضرورت نہیں ہے مائی ڈئیر تابش، میں جانتی ہوں کہ تم بھی مجھے چودنا چاہتے ہو۔ بینش کے منہ سے یہ بات سن کر میں ہکا بکا رہ گیا تھا، واقعی عورتوں کے پاس آنکھیں نہیں ایکسرے مشین ہوتی ہے جو دل کی خواہشات بھی جان لیتی ہیں،
ایسی کوئی بات نہیں ہے میں تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔۔ اب مجھے اپنا لہجہ کھوکھلا لگ رہا تھا۔
اچھا اگر ایسی بات ہے تو تم اتنی رات کو یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ ہمیں پکڑنے؟ اور پکڑ لیتے تو؟ آگے کیا؟ تمہارے پاس ویڈیو ہے تمہیں ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وہ میںوہ میں بس۔۔۔
بینش نے میری چوری پکڑ لی تھی اور میں بوکھلا گیا۔
ارے تابش فکر مت کرو میں تمہیں اس گیم میں ویلکم کہنے کو راضی ہوں اور یقین مانو سدرہ بھی بہت خوش ہوگی، ہاں یہ مرد ذات تھوڑی چھوٹی سوچ کی ہے انہیں منانے میں وقت لگے گا تب تک ہم دونوں تمہیں خوش کرسکتی ہیں لیکن ایک شرط پر۔۔ بینش کی بات سنتے سنتے اچانک شرط والی بات پر میں پوچھ بیٹھا۔ کیسی شرط؟
تمہیں وہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنی ہوگی اور ہمیں بلیک میل نہیں کروگے۔۔ بینش اب اپنے پتے کھول رہی تھی۔
میں ویڈیو ڈیلیٹ کردوں اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ تم دونوں مجھے منہ بھی نہیں لگاو گی۔ اور ہوسکتا ہے انیلہ کو بھی تم میں سے کوئی بتا دے۔ میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔ تمہیں مجھ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ ویڈیو میرے پاس محفوظ ہے اور تب تک رہے گی جب تک تم میرے ساتھ سیدھی چلتی رہو گی۔۔
بینش کے پاس اب کوئی چارہ نہیں تھا اس لئے وہ ہار مانتے ہوئے بولی۔۔ ٹھیک ہے تابش تم کہتے ہو تو میں یقین کرلیتی ہوں مگر ابھی مجھے جانا ہوگا کیونکہ ملک اور فہد میرا اتنظار کر رہے ہونگے۔
چلی جانا مگر تم چاروں تو ابھی مزے لے لوگے،لیکن مجھے مزہ کون دیگا؟ میں نے بینش سے کہا۔ کیا مطلب ہے تمہارا۔اب کیا چاہئے تمہیں؟ بینش میری بات سمجھتے ہوئے بولی۔۔
مجھے ابھی تم سے سیکس کرنا ہے۔ اس دن اپنے آپ کو میرے سامنے جان بوجھ کر ننگا کرنے کا جو مقصد تھا تمہارا وہ آج پورا کرنا چاہتا ہوں میں۔
بینش کے چہرے پر اب مسکراہٹ تھی ۔ سیکس میں بہت وقت لگ جائے گا میرے راجہ کوئی اور آپشن ملے گا۔؟
میں جانتا تھا بینش ٹھیک کہہ رہی ہے، ایسا نہ ہو کہ ملک یا فہد میں سے کوئی بینش کو ڈھونڈتا ہوا یہاں آجائے اور ہمیں دیکھ لے۔ ٹھیک ہے لیکن کم سے کم مجھے ٹھنڈا تو کرنا ہوگا تمہیں۔
ضرور تابش ڈئیر، میں تو خود کب سے تمہاری دیوانی ہوں تم بہت پسند ہو مجھے۔ اور آج تمہارے اس لنڈ میں کتنی جان ہے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔
یہ کہہ کر بینش گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور مجھے اس طرح بیڈ پر بیٹھا دیا کہ میری ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھیں۔
چونکہ میں نے ٹراوزر پہن رکھا تھا اس لئے بینش کو ٹراوزر اتارنے مدد کرتے ہوئے میں تھوڑا اٹھا اور بینش نے میرا ٹراوزر گھٹنوں سے نیچے کردیا، اب میرا لنڈ تن کر باہر آگیا تھا جو کافی دیر سے کھڑا ہوا تھا۔
بینش نے تعریفانہ انداز میں میری جانب دیکھا اور لنڈ کی ٹوپی پر زبان پھیر کر اسے گیلا کردیا پھر بینش نے لنڈ کی ٹوپی کو منہ لیا اور اپنے ہونٹوں کی گرفت کو سخت کیا اور اس انداز میں لنڈ کو اپنے منہ میں سماتے ہوئے نیچے ہونے لگی۔ میرا لنڈ بینش کے منہ میں آدھے سے زیادہ گھسا ہوا تھا اور ہونٹوں کی مضبوط گرفت کا شکار ہورہا تھا اور اسی انداز سے بینش میرا لنڈ چوسنے لگی۔۔ میں بھی اب ضبط کھونے لگا تھا اور بینش کے سر کو نیچے کی طرف دبانے لگا جس کا بینش نے زرا بھی برا نہیں منایا اور اپنے کام پوری محنت سے کرنے لگی۔ لنڈ چوسنے کی کافی ایکسپرٹ تھی بینش، میں بھی اب نیچے سے دھکے مارنے لگا تھا، بیچ بیچ میں بینش سانس لینے کے لئے ہونٹوں کی گرفت سے میرے لنڈ کو آزاد کردیتی اور پھر کچھ لمحوں بعد دوبارہ میرے لنڈ کو چوسنے لگتی۔۔ تمہارا لنڈ کافی جاندار ہے تابش۔۔ لگتا ہے سدرہ اور مجھے بہت مزہ آنے والا ہے۔۔ بینش بول رہی تھی اور میں سن کر گرم ہورہا تھا۔ ہاں رنڈی مزہ تو دوں گا تم دونوں کو بہت لنڈ کی خواہش جاگ رہی ہے نا تم دونوں میں۔
مممم ہاں نا۔۔۔ بیش یہ بول کر دوبارہ لنڈ چوسنے لگی، تین منٹ ہوچکے تھے اس شاندار چوپے کو اور اب میری برداشت جواب دینے لگی تھی اس لئے میں بینش کے ہاتھوں کو اس کی پیٹھ پر رکھ کر ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑا اور اپنے کمر کی حرکت میں تیزی لے آیا۔ میری آگ لنڈ کے راستے سے نکلنے والی ہے اس کا اندازہ بینش کو ہوچکا تھا اس لئے وہ مجھے روکنے کے بجائے میرا ساتھ دینے لگی اور میں جیسے لنڈ اندر کرتا وہ منہ کھول دیتی اور جب باہر نکالنے لگتا تو بینش اپنے ہونٹ آپس میں جوڑ لیتی جس سے میرا مزہ ڈبل ہوجاتا۔ چند تیز رفتار دھکوں کے بعد میں نے بینش کو کہا۔ میرے لنڈ کا پانی پیو گی؟
بینش کے منہ میں میرا لنڈ ہونے کے باعث وہ کچھ بول نہیں پائی لیکن اسنے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا۔۔ اور پھر مجھے جیسے لائسنس مل گیا اور مزید کچھ ہی جھٹکوں کے بعد میری آگ پانی بن کر بینش کے حلق میں اترنے لگی اور کچھ لمحوں بعد بینش نے سارا پانی پی کر میرے لنڈ کو چوس اور چاٹ کر صاف کردیا اور پھر میں نے ٹراوزر اوپر کردیا۔
ناٹ بیڈ۔۔ آئی لائکڈ اٹ۔ بینش مسکرا کر بولی اور ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب مجھے جانا ہوگا
میرا دل اب ان چاروں کا سیکس دیکھنے کے لئے للچارہا تھا، میں جانتا تھا کہ عین وقت پر چھآپا مار کر میں سیکس میں شامل تو ہو جاوں گا مگر اس کے بعد شاید ملک اور فہد میرے دشمن بن جاتے اور اس کا نقصان انیلہ کو بھی پہنچ سکتا تھا۔
یہ سب سوچتے ہوئے میں نے بینش کو مخاطب کیا۔
تم جاسکتی ہو مگر دو باتیں کان کھول کر سن لو، تم سدرہ کے علاوہ کسی کو بھی ہماری اس ڈیل کے بارے میں نہیں بتاوگی اور دوسری بات مجھے تم سب کا یہ سیکس دیکھنا ہے وہ بھی لائیو۔
یہ ممکن نہیں ہے بنا کمرے کے اندر گھسے تم کچھ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ کمرے میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے کوئی کھڑکی نہی ہے جہاں سے تم دیکھ سکو۔ بینش سچ بول رہی تھی مگر میں کچھ سننے کہ موڈ میں نہیں تھا۔
مجھے کچھ نہیں سننا، بس مجھے تمہارا یہ کھیل دیکھنا ہے، سوچنے کے لئے دس منٹ ہیں تمہارے پاس سوچ لو۔۔
بینش ایک عورت تھی اور ایسی صورتحال میں عورتوں کا دماغ بہت تیز چلتا ہے، اسے بھی ایک آئیڈیا آیا جو مجھ بھی کافی پسند آیا۔
ہم دونوں باہر آگئے اور پھر میں وہیں انتظار کرنے لگا جبکہ بینش ملک کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ بیس منٹ وہاں رکنے کے بعد میں ملک کے کمرے کی طرف بڑھا اور پھر کمرے کے باہر پانچ منٹ انتظار کیا، پچیس منٹ کا وقت اس پلان کے لئے کافی تھا جو بینش نے سوچ رکھا تھا اس لئے میں اب ملک کے کمرے میں داخل ہوا، بینش نے پلان کے مطابق دروازہ لاک نہیں کیا تھا، اندر راخل ہوکر میں نے کمرے کے چاروں اطراف نگاہ دوڑائی جہاں مجھے کوئی نظر نہیں آرہا تھا، اس کا مطلب بینش کا پلان کامیاب ہوگیا تھا۔
میں فوراً کمرے میں ایک ایسی جگہ ڈھونڈنے لگا جہاں سے چھپ کر میں کمرے میں موجود لوگوں پر نظر رکھ سکتا تھا۔ اور پھر ایک بڑی میز کے نیچے چھپنا مجھے بہتر لگا جس پر کپڑا چڑھایا گیا تھا اور اس کے نیچے چھپ کر میں کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتا مگر اسی کپڑے میں تین سوراخ موجود تھے جن کا فائدہ اٹھا کر میں کمرے میں با آسانی دیکھ سکتاتھا۔ میں جانتا تھا کہ بینش اور باقی تینوں باتھ روم میں مستیوں میں مصروف ہیں۔ پلان کے مطابق بینش ان تینوں کو کسی طرح باتھ روم لے کر گئی تھی تاکہ مجھے کمرے میں گھسنے آسانی ہو۔
مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور تقریبا دس منٹ بعد ہی باتھ روم سے فہد باہر نکلا مگر اس کے ہاتھ خالی نہیں تھے اس نے سدرہ کو گود میں اٹھا رکھا تھا فہد کے پیچھے ملک باہر نکلا اور اس نے بینش کو اٹھا رکھا تھا یہ چاروں قدرتی لباس میں تھے یعنی ننگے۔۔۔
چاروں کے چہرے کھلکھلا رہے تھے جیسے بہت خوش ہوں اور خوش کیوں نہ ہوں مزے بھی تو مل رہے تھے ان سب کو۔ بینش کو تو میں بنا کپڑوں کے پہلے بھی دیکھ چکا تھا جبکہ سدرہ کو میں نے پہلی بار اس حالت میں دیکھا تھا، اب ان دونوں کو بھابھی کہنے کا کوئی ارادہ نہیں رہا تھا میرا کیوںکہ یہ دونوں اس لائق نہیں تھیں جبکہ ملک اور فہد بھی اب میرے دوست ہونے کا حق کھوبیٹھے تھے۔ سدرہ کا جسم پانی سے ابھی بھی گیلا ہورہا تھا اور اس کے بال بھی خشک نہیں تھے اس کا جسم بھی کمال کا تھا۔ سڈول چھاتیاں جن کے نپل کا سائز آدھے انچ کے قریب تھا، باہر کو نکلی ہوئی گانڈ مجھے شک میں ڈال رہی تھی کہ شاید ملک سدرہ کی گانڈ بھی مارتا ہوگا مگر ابھی یہ اندازہ ہی تھا۔
یہ چاروں اب دوبارہ سے سیکس کے ریڈی تھے، اور ان کو ریڈی کرنے کے لئے بینش ہی زور لگا رہی تھی کیونکہ وہ ابھی آئی تھی اور دو لنڈ دیکھ کر اس کے منہ میں جیسے پانی آگیا تھا
بھئی میں تو دو لنڈوں کو ایک ساتھ لے کر تھک گئی ہوں اب تم سنبھالو میری جان، سدرہ نے بینش کو آنکھ مار کہا اور بینش کو اس کے بالوں سے پکڑ کر ملک کے لںڈ پر اس کا منہ لگا دیا اور بینش بھی بنا کسی تردد کے ملک کے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے اور چاٹنے لگی،
فہد یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور اس کا ایک سدرہ کے پستانوں کو دبانے میں مصروف تھا اور اس کا دوسرا ہاتھ بینش کی گانڈ میں کو سہلا رہا تھا، بیڈ پر یہ چاروں موجود جسم کچھ اس طرح تھے کہ ملک سیدھا لیٹا ہوا تھا اور بینش بیٹھے بیٹھے جھک کر ملک کے لنڈ کے چوپے لگا رہی تھی جبکہ اس کی پیٹھ سدرہ اور فہد کی طرح تھی، جھکنے کی وجہ سے اس کی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی جس پر فہد ہاتھ پھیر رہا تھا، سدرہ تقریباً فہد کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی سدرہ کی دونوں ٹانگیں فہد کی گود میں تھیں اور وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر لیٹی ہوئی تھی جبکہ فہد دو زانو ہوکر ملک اور بینش کو بغور دیکھ رہا تھا۔
پھر فہد بیڈ پر کھڑا ہوگیا اور اپنے تنے ہوئے لنڈ کو سدرہ کے منہ کے پاس لے گیا، شاید وہ بینش کے ساتھ ملک کے سیکس کا بدلہ ملک کی بیوی سے لینا چاہ رہا تھا جو بھی تھا بہت گرم تھا مجھے اس خنکی میں بھی پسینے آنے لگ گئے تھے
سدرہ نے سر اٹھا کر فہد کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے فہد کے لنڈ کو پکڑ لیا اور بولی اوف فہد تمہارا یہ لنڈ دیکھ کر مجھ سے بھی صبر نہیں ہوتا اور یہ کہہ کر لنڈ کی ٹوپی کو منہ میں لے لیا ، فہد نے سدرہ کے بالوں کو اکٹھا کیا اور ایک جوڑا سا بنا کر سدرہ کی یہ سکنگ دیکھنے لگا جو شاید بالوں کی وجہ سے صاف دکھائی نہیں دے رہی تھی فہد کو۔
اب ملک چدائی کے موڈ میں نظر ارہا تھآ اس لئے وہ بیڈ سے نیچے اتر آیا اور بینش کو گھوڑی بننے کو کہا [یوں تو میں اسے کتیا بننا بھی کہہ سکتا ہوں مگر ملک اسے گھوڑی بننے کا ہی کہہ رہا تھآ] بینش نے اب اپنا منہ اپنے شوہر یعنی فہد کی جانب کردیا اور اپنے کمر کو تھوڑا خم دیا جس سے اس کے خوبصورت سے چوتڑ باہر کو نکل آئے اور اب وہ بھی لنڈ لینے کے لئے بےچین نظر ارہی تھی، اس کی بے چینی ملک نے جلد ہی دور کردی اور اپنے لنڈ کو جو کہ بینش کے تھوک سے چمک رہا تھا بینش کی ہی چوت پر ٹکا کر اپنے منہ سے کچھ تھوک نکال کر بینش کی چوت پر لگا دیا اور پھر آگے کی طرف دباو بڑھانے لگا۔
ملک کی بیٹھ میری طرف تھی مگر اینگل ایسا بنا ہوا تھا کہ مجھے ملک کے لنڈ اور بینش کی چوت کا ملاپ صاف نظر آرہا تھا اور یہ منظر انتہائی ہیجان انگیز تھا، دو بیویاں اور دو شوہر مگر دونوں ایک دوسرے کی بیوی سے سیکس میں مصروف تھے وہ بھی ایک دوسرے کے سامنے
اب بینش اور سدرہ دونوں مل کر فہد کے لنڈ کو چوسنے اور چاٹنے میں مصروف تھیں، میں دل ہی دل میں یہ منظر انجوائے بھی کر رہا تھا تقریباً ہر مرد کا خواب ہوتا ہے کہ دو عورتیں بیک وقت اس کی ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کر اپنے منہ کے راستے اس کے لنڈ کو لیں اور پھر چدائی بھی ہو۔ ملک چونکہ کھڑا تھا اس لئے ابتداء سے ہی وہ تیز رفتار دھکے مار رہا تھا اور شاید ایک بار فارغ ہوجانے کی وجہ سے اس بار اسے ٹائم لگ رہا تھا، مجھے وہاں آئے ہوئےآدھے گھنٹے سے بھی زیادہ ہوچکا تھا، وہ دونوں مرد اپنی پوری طاقت دکھا رہے تھے، بینش ملک کے لنڈ کے نیچے آئی ہوئی تھی تو فہد کو بھی چدائی کا شوق چڑھا اور اچھی طرح لنڈ چسوانے کے بعد خود پیٹھ کے بل لیٹ گیا اور سدرہ کو اپنے اوپر آکر بیٹھنے کو کہا، فہد کا سر بیڈ کے اس طرف تھا جہاں نارمل انداز میں لیٹنے سے پاوں ہوتے ہیں جبکہ سدرہ تقریبا ببڈ کے بیچوں بیچ فہد کے لنڈ پر بیٹھ کر اب کودنے لگی تھی اور اپنے ہاتھ فہد کے سینے اور رانوں پر پھیر رہی تھی جبکہ فہد کبھی سدرہ کی کمرتو کبھی پستانوں کو سہلارہا تھا ملک کا دل اب شاید بینش سے بھر گیا تھا اس لئے اس نے اپنا لنڈ ایک جھٹکے میں باہر نکالا اور بینش کو مکمل نظر انداز کرتا ہوا بیڈ پر چڑھ گیا اور بینش کی چوت سے لتھڑا ہوا لنڈ سدرہ کے ہونٹوں کے قریب لے گیا، سدرہ نے ملک کی طرف دیکھ کر برا سا منہ بنایا اور اسے نہ کہا، ملک کو شدید مایوسی ہوئی اور یہ دیکھ کر بینش کو پتا نہیں کیا ہوا کہ وہ اٹھی اور بیڈ پر چڑھ کہ ملک کے لنڈ کو تھام کر اس پر زبان پھیرنے لگی جیسے اس لنڈ پر موجود اپنا پانی صاف کررہی ہو اورپھر سارا لنڈ چاٹنے کے بعد اس نے لنڈ کو سدرہ کے قریب کردیا اور خود پیچھے ہٹ گئی، بینش کی صفائی سے لنڈ اب علامتی طور پر صاف ہوچکا تھا اور سدرہ اب ملک کہ لنڈ کو منہ میں لےچکی تھی ملک کا چہرا لال ہورہا تھا مجھے لگا کہ وہ شاید منزل کے بہت قریب ہے اس دوران سدرہ اب فہد کے اوپر سے ہٹ گئی اور اس کی جگہ بینش نے لے لی، اب دونوں بیویاں اپنے اپنے شوہروں کے لنڈ سوراخ میں لئے ہوئی تھیں یہ الگ بات تھی کہ بینش نے فہد کا لنڈ چوت میں اور سدرہ نے ملک کا لنڈ اپنے منہ میں لیا ہوا تھا، فہد نے بینش کو اپنےسینے سے لگایا جس سے بینش کی کمر اوپر کی جانب اٹھ گئی اور فہد کو جھٹکے لگانے کی آزادی مل گئی اور بنا کسی رحم کے فہد نے تابڑ توڑ یا یہ کہیں کہ چوت پھوڑ دھکے لگانے شروع کردیے جسے بینش زیادہ دیر برداشت نہیں کرپائی اور اپنا پانی چھوڑ بیٹھی اور وہیں ملک بھی اب سدرہ کو نیچے لٹا کر اس کے اوپر چڑھ کر اپنا آخر معرکہ سر کرنے پر تلا ہوا تھا اور اپنی پوری طاقت لگا کر سدرہ کی چوت میں اپنے لنڈ کو اندر باہر کررہا تھا یہاں اب ملک منزل پانے والا تھا اور میرا اندازہ درست ثابت ہوا، ملک کے منہ سے آہ کی ایک تیز آواز نکلی اور اپنا پانی سدرہ کی چوت میں چھوڑنے لگا جبکہ دوسری جانب بینش اب فہد کے لنڈ کو کپڑے سے صاف کرچکی تھی لیکن فہد کا لنڈ بدستور اکڑا ہوا تھا سدرہ اور فہد ابھی بھی پیاسے تھے اور ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر آنکھوں ہی انکھوں میں کچھ بات کررہے تھے اور پھر سدرہ نے بینش کے ہاتھوں سے وہ کپڑا لیا اور اپنی چوت صاف کر کے فورا نیچے لیٹ گئی اور فہد سدرہ کا اشارہ بخوبی سمجھ گیا تھا سدرہ کے اوپر آکر لیٹا اور نیچے سے اپنا لنڈ سدرہ کی چوت کے اندر داخل کردیا سدرہ کا چہرے پر ہیجانی کیفیت تھی جیسے وہ فہد کے لنڈ کو اپنے جسم کے گم کردینا چاہتی ہو اور فہد بھی سدرہ پر رحم کے موڈ میں ہرگز نظر نہیں آرہا تھا اور اپنے کمر کی تیزی کی بدولت پوری طاقت سے سدرہ کے چود رہا تھا، فہد لنڈ کی ٹوپی تک لنڈ کو چوت سے باہر نکالتا اور پھر اپنی کمر کو طوفانی رفتار سے سدرہ کی چوت پر مارتا ایسے لگا رہا تھا دیوار میں کیل ٹھونکنے کے لئے ہتھوڑا مارا جارہا ہے، سدرہ یہ شدید چوٹیں برداشت کب تک کرتی اور اسکی چوت جیسے ہار ماننے لگی تھی مگر فہد بھی ان چوٹوں کا انعام وصول کرتے ہوئے اپنا پانی چھوڑنے کے قریب لگ رہا تھا۔ دو منٹ کی اس چدائی کے بعد سدرہ اور فہد دونوں فارغ ہوگئے ان دونوں کا سیکس بینش اور ملک چپ چاپ دیکھ رہے تھے، اب چاروں ننگے ہی لیٹ کر باتیں کرنے لگے اور مجھے انکی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے میں انکے سونے کا انتظار کررہا تھا اور یہ موقع مجھے آدھے گھنٹے مزید انتظار کے بعد ملا جب چاروں کی آنکھیں بند ہوئیں اور میں باہر نکل کر سیدھا اپنے کمرے کی طرح بڑھا۔ میں کمرا لاک کرکے آیا تھا اس لئے چابی سے کمرا کھولا اور کمرے میں داخل ہوگیا کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی مجھے جو آواز سنائی دی اس نے تو میرے ہوش ہی اڑا دئیے
وہ آواز انیلہ کی تھی جو نیند میں بڑبڑا رہی تھی، بے ربط آوازیں سن کر میں تو ڈر ہی گیا تھا مگر اسے گہری میں نیند میں دیکھ سکون کی سانس لی اور بستر پر آکر لیٹ گیا، سدرہ اور بینش ایسے کردار کی نکلیں گی یہ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جبکہ ملک اور فہد ایسا کھیل بھی کھیل سکتے ہیں مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا، ان چاروں کا ضمیر مر گیا تھا لیکن میں خود بھی تو وہی چاہ رہا تھا جو وہ سب کررہےتھے۔ سدرہ اور بینش کے جسموں سے کھیلنے کا میرا بھی دل چاہ رہا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ ملک، فہد اور انیلہ تینوں سے ڈر بھی لگ رہا تھا اگر کسی طرح میرے اس پلان کی ان تینوں میں سے کسی کو بھنک بھی لگ گئی تو میرے لئے مسئلہ کھڑا ہوجاتا اور انیلہ تو شاید مجھے جان سے ہی مار دیگی۔ انہیں سوچوں کو سوچتے ہوئے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
ہمیں اب یہاں سیر پر آئے کل پانچ دن ہوچکے تھے، ایبٹ آباد میں دو دن رہنے کے بعد ہم اگلے دن ہمیں مانسہرہ جانا تھا اور ہم سب تیاری کر کے مانسہرہ کے لئے نکل گئے جو صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا یہاں تین دن رہنے کے بعد ہمیں واپسی کی تیاری کرنی تھی کیوں کہ اور جگہوں پر جانے کے لئے ان دنوں افواج پاکستان کا آپریشن چل رہا تھا جس کی وجہ سے حالات ایسے نہیں تھے کہ مزید آگے جایا جاتا اس لئے سیر کو چھوٹا کرنے کا پلان بنایا گیا اور مانسہرہ کو آخری اسٹاپ بنادیا۔ مانسرہ بھی ایک پہاڑی علاقہ ہے جو بہت ہی خوبصورت ہے، اونچے درخت اور سرسبز یہ شہر ہر لحاظ سے منفرد ہے ہم سب نے وہاں کافی انجوائے کیا مگر انجوائے کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہوا اس نے میری زندگی کو یکسر بدل دیا۔
ہوٹل پہنچ کر میں نے سدرہ کو میسج کیا کہ کچھ پلان بناو تاکہ ہم سیکس کرسکیں انیلہ کو میں نیند کی گولی دے کر سلا بھی سکتا تھا مگر فہد اور ملک کو سلانا تو سدرہ اور بینش کے ہاتھ میں ہی تھا۔ سدرہ کا جواب آیا سب ریڈی ہے رات کو ہم سیکس کرسکتے ہیں، فہد اور ملک دونوں کو ہم سلا دیں گے تم انیلہ کو سنبھال لینا، میں سدرہ کو مطمئن کرتے ہوئے جواب دیا " فکر مت کرو انیلہ کو میں دیکھ لوں گا"
ہم دن میں گھومنے باہر نکلے اور اس چھوٹے سے شہر کے چڑیا گھردیکھنے نکلے جو کہ بڑا تو بہت تھا مگر جانور کم تھے مگر جتنے بھی جانور تھے بہت خوبصورت تھے وائلڈ لائف والوں نے اس چڑیا گھر کی اچھی دیکھ بھال کر رکھی تھی۔ تقریباً چار بجے چڑیا گھر سمیت دیگر جگہوں پر گھومنے کے بعد ہم واپس ہوٹل آگئے اور اب مجھے رات ہونے کا انتظار تھا، میں نے ٹائم ضائع نہ کرتے ہوئے انیلہ کو بانہوں میں تھآم لیا اور اس کی گردن چومنے لگا، انیلہ کافی تھکی ہوئی تھی مگر سیکس کی چاہت اسے بھی ہورہی تھی جس کی بدولت وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی اور میری گستاخیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئَے سسکاریاں بھرنے لگی، ہم دونوں کھڑے ہوئے تھے میرے ہونٹ انیلہ کے ہونٹوں کا رس پینے میں مصروف تھے جب کہ انیلہ بھی پوری شدت سے میری کسنگ کا جواب دے رہی تھی، میں دونوں ہاتھوں سے انیلہ کے چوتڑون کو دبا رہا تھا جو کہ نہایت نرم تھے، میں انیلہ کی کبھی گانڈ نہیں ماری تھی کیوں کہ اسے بہت ڈر لگتا تھا سوچا تھا کہ کبھی اس کا ڈر نکالوں گا تو گانڈ بھی مار دوں گا مگر تب تک چوت پر گزارہ کرنا تھا اور میں اس میں کافی خوش بھی تھآ
بہت جلد ہی ہم دونوں کے کپڑے اترے اور پھر میں نے انیلہ کو بیڈ پر ڈوگی اسٹائل میں بیٹھا دیا، میرے ذہن میں ان چاروں کی چدائی کا سین بھی چل رہا تھا جب ملک بینش کو ڈوگی اسٹائل میں چود رہا تھا اسی پوزیشن کو اپنا کر میں اس سیکس کی یاد تازہ کرنا چاہ رہا تھا، کسنگ اور چوت کے مسلنے سے ہی انیلہ کی چوت گیلی ہوگئی تھی اور باقی کا کام میں انیلہ کی چوت اور اپنے لنڈ پر تھوک لگا کر پورا کردیا اور پھر انیلہ کی چدائی اسٹارٹ کردی، ہم دونوں اس وقت سیکس کررہے تھے مگر میرا دماغ سدرہ اور بینش میں کہیں کھویا ہوا تھا، دونوں کی چوت کی چدائی بس اب قریب تھی اور اس بات کو سوچ سوچ کر ہی میرا جوش بڑھتا جارہا تھا اس جوش میں میرے جھٹکوں کی رفتار کب طوفانی ہوئی پتا ہی نہیں چلا اندازہ تب ہوا جب انیلہ کی سسکاریاں چیخوں میں بدل گئی، اوف تابش بہت مزہ آرہا ہے آج تو۔۔ ایسے ہی کرو اس بات کو سن کر میں بھی اس کی خواہش پوری کرنے لگا اور طوفانی چدائی کا اختتام پر میرا جسم انیلہ پر ڈھے سا گیا اور میرے وزن سے انیلہ بھی سینے کے بل بیڈ پر لیٹ گئی، طوفان نے ہم دونوں کے جسموں کو ڈھا دیا تھآ۔
اس چدائی کے بعد میں نے ہوٹل سروس سے مشروب منگوایا کھانا اور کولڈ ڈرنگ منگوائی، کھانا کھانے کے بعد میں نے انیلہ کی نظروں سے بچا کر اس کی کولڈ ڈرنک میں نیند کی دو گولیاں ڈال دیں، رات ہوچکی تھی اگر اب انیلہ گولی کھاتی تو صبح سے پہلے اس کا جاگنا نا ممکن تھا اور یہی میں چاہتا تھآ
انیلہ کو نیند کی گولی دے کر میں باتھ روم میں گھس گیا خود کو اچھی طرح صاف کرنے اور نہانے کے بعد میں باہر آیا تو انیلہ گہری نیند سو چکی تھی میں نے سدرہ کو کال کی تو سدرہ نے لائن کاٹ دی، کچھ وقفے کے بعد سدرہ کا میسج آیا آدھے گھنٹے بعد میرے کمرے میں آجانا راستہ صاف ہوگا۔
آدھے گھنٹے بعد میں اپنے کمرے سے نکلا اور ملک کے کمرے کی جانب بڑھا، اس ہوٹل میں ملک، فہد اور میرا کمرا ساتھ ساتھ ہی تھا اس لئے چند سیکنڈز میں ہی میں ملک کے کمرے کے سامنے کھڑا تھا، دروازے کا ہنڈل گھما کر میں کمرے میں داخل ہوگیا.
سدرہ اور بینش بیڈ پر بیٹھی دروازے کی جانب سی دیکھ رہی تھی جب میں اندر داخل ہوا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرا ہی انتظار کررہی ہوں۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہوا دونوں میری جانب دیکھ مسکرا دیں، میں نے مڑ کر دروازہ لاک کردیا اور ان دونوں سے ملک اور فہد کے بارے میں پوچھا۔۔
وہ دونوں مزے کی نیند لے رہے ہیں تم بے فکر رہو وہ صبح سے پہلے اٹھنے والے نہیں ہیں۔
اچھا یہ بات ہے تو تم دونوں انتظار کس بات کا کررہی ہو آجاو میرے پاس میری بھابھیوں۔۔
وہ دونوں کھلکھلا کرہنسی اور میرے دونوں کو تھام کر وہ دونوں مجھے بیڈ پر لے آئیں، یہاں آو میرے راجہ بینش نے مجھے کہا۔ بینش اب مجھے کسنگ کرنے لگ گئی تھی
جب کہ سدرہ میری پینٹ میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کررہی تھی، دراصل وہ پینٹ سے لنڈ نکالنے کے لئے بے تاب ہورہی تھی میں اسے توجہ دینے کے بجائے بینش کی کسنگ کا جواب دینے لگا اور بینش کے پستانوں کو قمیض کے اوپر سے ہی دبانے لگا، اس وقت ہم تینوں بیڈ پر تھے، میں بیڈ کا سہارہ لئے لیٹا ہوا تھا جب کہ سدرہ میری ٹانگوں مِں جھکی ہوئی بیٹھی تھی بینش میرے دائیں جانب بیٹھ کر مجھے کسنگ کررہی تھی۔ سدرہ نے اب میرا لنڈ چوسنا شروع کردیا تھا جس کا احساس مجھے پاگل کئے دے رہا تھا یہ دونوں جنہیں کبھی میں عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا اب میرے لئے کسی طوائف سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھیں انہیں بلیک میل کرکے میں اپنا مقصد نکال رہا تھا اور اسی کا فائدہ مجھے اسوقت مزے کی صورت میں رہا تھا، اب بینش نے میری قیمیض بھی اتار دی، ان دونوں نے ابھی تک اپنے جسم سے کوئی کپڑا نہیں اتارا تھا جبکہ میرا جسم اب بناء کپڑوں کے تھا، بینش کسنگ چھوڑ بیڈ سے نیچے اتری جبکہ میں نے اسے اترتا دیکھ کر اس پر نظریں جما لیں۔ وہ اپنی کمر کو مٹکاتے ہوئے میز کے قریب پہنچی اور وہاں شراب کی بوتل موجود تھی اور اس کے ساتھ تین جام بھی تھے، بینش نے تینوں جام بھرے اور ہمارے پاس لے آئی ۔
شراب آدھا گلاس تک بھری ہوئی تھی، میں شراب کو شوقین نہیں ہوں مگر شاید دو لڑکیوں کے بیچ میں خود کو راجہ سمجھ بیٹھا تھا اور وہ آدھا گلاس میں ایک ہی سانس میں گٹک گیا۔ سدرہ اور بینش دونوں اپنے جام ہاتھ میں پکڑے مجھے شراب پیتا دیکھ رہی تھیں، گلاس خالی کر کے میں ان دونوں کی جانب دیکھا اور مسکرایا کیوں کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟
یہ بات کرتے ہی میرا سر گھومنے لگا، مجھے چکر آرہے تھے مجھے اب ان دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ تیرتی ہوئی نظر آرہی تھی جو مجھے پریشان کئے دے رہی تھی، مجھے سوچنے کے لئے زیادہ وقت نہیں ملا اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا۔۔ میں بے ہوش ہوچکا تھا
میری آنکھ کھلی تو میں بندھا ہوا تھا، میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا یا یہ کہہ لیں کہ مجھے بیٹھا کر باندھ دیا گیا تھا میں ابھی بھی ملک کے کمرے میں ہی موجود تھا مگر میرے جسم پر پینٹ موجود تھی جبکہ مجھے یاد ہے کہ بے ہوش ہونے سے ہہلے سدرہ میرے لنڈ کو چوسنے میں مصروف تھی اور اس وقت میری پینٹ آدھی اتری ہوئی تھی لیکن اس وقت وہ پینٹ مکمل طور پر میرے نچلے دھڑ کو چھپائے ہوئے تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ حرکت کس کی ہے، سدرہ اور بینش نے شراب میں ایسا کیا ملایا کہ میں بے ہوش ہوگیا اور کیوں؟ سوالوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا تھا مگر مجھے اب دھوکا نہیں کھانا تھا اس بار میں ان سے ہار ماننے والا نہیں تھا ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ دروازہ کھلا ، سدرہ اور بینش دونوں اندر داخل ہوئیں اور ان کے پیچھے داخل ہوئے ملک اور فہد۔ میرے دوست بلکہ میرے جگری دوست جو کہ طنزیہ مسکراہٹ لئے مجھے دیکھ رہے تھے۔
واہ تابش صاحب واہ تم نے تو ہمیں بلکل ہی کچا سمجھ لیا کہ ہماری بییوں پر ہی ہاتھ صاف کرنے کا سوچنے لگ گئے، ملک غصیلے لہجے میں بولنے لگا۔
تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی اپنی بھابھیوں کو اس گندی نظر سے دیکھنے میں، کیا ہم نے انیلہ کو اس نظر سے دیکھا ہے کبھی؟ یہ جملہ فہد کے منہ سے ادا ہوا۔
تم ہمیں بلیک میل کرنے کا سوچ رہے تھے اور دیکھو ہم نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے۔ سدرہ بولتے ہوئے میرے قریب آئی اور ایک ہینڈی کیم میں موجود ویڈیو پلےکردی، اس ویڈیو کے اندر میں، سدرہ اور بینش بیڈ پر موجود تھے اور وہ ساری کاروائی جو ہم نے کی پلے ہورہی تھی، میرے کپڑے اتر چکے تھے ، بینش میری دائیں جانب اور سدرہ ٹانگوں میں موجود تھی۔ یہ ویڈیو مکمل ہوتے ہی میں نے قہقہ لگایا، اچھی ویڈیو بنائی ہے مگر مجھے کیوں دکھا رہے ہو؟ اس میں تو تم دونوں کی شکلیں صاف نظر آرہی ہیں۔
ہاں نظر آرہی ہیں مگر اس پر تھوڑی سی محنت سے ہم دونوں کے چہرے بلکل نظر نہیں آئیں گے اور کپڑے ہم نے پہن رکھے ہیں اب اگر سوچو کہ یہ ویڈیو انیلہ کو دکھا دی جائے تو وہ تم پر شاید تھوکنا بھی پسند نہ کرے اور دوسری بات صرف انیلہ کو ہی کیوں ہم اسے انٹر نیٹ پر بھی دے سکتے ہیں، مسٹر تابش وہ بھی ننگے۔۔ ہاہاہا اس بار قہقہہ سدرہ نے لگایا اور ساتھ ہی باقی تینوں بھی ہنس پڑے۔
کیا چاہتے ہو تم لوگ، میں کسی کو کچھ نہیں بتاوں گا تم لوگ جو کررہے ہو کرتے رہو، میں انیلہ کو بھی کچھ نہیں بتاوں گا اور کل ہی یہاں سے چلا جاوں گا، تم دونوں تو میرے دوست ہو یار ایسا مت کرنا پلیز،
سالے دوست مت بول ہمیں، تونے تو اپنے دوستوں کی بیویوں کو رکھیل سمجھ لیا تھا ان کی چدائی لگانے کا پلان بنا رکھا تھا تو نے اور اب دوستی کے واسطے دے رہا ہے، فہد چلا پڑا تھا۔۔
اچانک ملک نے تیز آواز میں کہا جسے سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے اور میری گھگی بندھ گئی
تم ہمارا راز جان گئے ہو اب ہم زرا بھی رسک نہیں لے سکتے۔ تمہارے پاس کوئی آپشن نہیں ہیں، مرنے کے لئے تیار ہوجاو۔۔۔۔
نہیں پلیز مجھے مت مارو میں کچھ نہیں کروں گا ملک ایسا مت کر یار پلیز میں اب رودینے کے قریب تھا، میری جان حلق میں اٹکی ہوئی تھی اور وہ چاروں خونخوار نظروں سے مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔
اتنے میں فہد بولا: ایک راستہ ہے تمہارے پاس، کیسا راستہ ؟ میں نے پوچھا
تونے جو ہماری ویڈیوز بنائی ہیں وہ تجھے ڈیلیٹ کرنی ہونگی ابھی اسی وقت اور کل یہاں سے دفعہ ہوجانا اور کبھی زندگی میں بھی اپنی شکل مت دکھانا ہمیں یہی تیری سزا ہے، بول مرنا ہے یا شرط منظور ہے۔
ان کے پاس میری ویڈیو موجود تھی اور میں ان کے رحم و کرم پہ تھا اس وقت ان کی شرط مان لینے میں ہی بھلائی تھی لہِذا میں نے وہی کیا۔ مجھے منظور ہے تم لوگوں کی ساری شرطیں منظور ہیں مجھے۔
چل اب دفعہ ہوجا اور کل اپنا سامان باندھ کر نکل جانا یہاں سے۔ فہد نے مجھے کھولتے ہوئے بولا۔۔اس کے بعد فہد میرے ساتھ میرے کمرے تک آیا اور کمرے کے اندر بھی ساتھ داخل ہوا، میں نے وہ کیمرے جہاں چھپا رکھے تھے وہاں سے نکالے اور فہد کے ہاتھ میں تھما دئیے، فہد نے اچھی طرح ویڈیو کو دیکھا اور اسے ڈیلیٹ کردیا اور مسکراتا ہوا چلا گیا اور کیمرے بھی ساتھ لے گیا
جان بچ جانے پر میں اوپر والے کا شکر ادا کررہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ میری ہونے والی بے عزتی کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا، وہ چار ایک بار پھر میرے ساتھ گیم کھیل گئے تھے اور میں کچھ نہیں کر پایا تھا، چدائی کے چکر میں اتنا اندھا ہوگیا تھا کہ ان دونوں عورتوں پر بھروسہ کرلیا اور اپنا ہی نقصان کروا بیٹھا تھآ،
ان چاروں کے لئے میری نفرت اور بھی بڑھ گئی تھی اور اب میرا مقصد ان چاروں سے بدلہ لینا تھا۔ میری ویڈیو ان کے پاس تھی اور وہ مجھے مستقبل میں بھی بلیک میل کرسکتے تھے اور شاید ملک یا فہد کی نیت میں فتور آجائے اور انیلہ پر بھی وہ ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرسکتے تھے مجھے یہ سب ہونے سے روکنا تھا اور اپنا بدلہ بھی لینا تھا مگر کیسے؟
میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو پانچ بج رہے تھے، انیلہ گھوڑے گدھے بیچ کر سوئی ہوئی تھی کیونکہ وہ ابھی تک نیند کی گولی کے زیر اثر تھی
مگرمیں جاگ رہا تھا، جس انسان کی عزت داو پر لگی ہو اسے نیند کیسے آسکتی ہے میرا ذہن اب بدلہ لینے کے لئے جال بننا شروع ہوگیا تھا، مجھے بس ایک ہی منزل نظر آرہی تھی بدلہ۔۔
وہ رات میری زندگی کی طویل ترین رات تھی میں صرف سوچتا رہا پلاننگ کرتا رہا۔ کل کا دن ہی ہے میرے پاس مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ آج اور کل ہی کرنا ہے کیوں کہ ایک بار اگر میں یہاں سے چلا گیا تو پھر وہ لوگ کہاں غائب ہوجائیں کچھ پتا نہیں چلے گا اور وہ ویڈیو بھی میرے ہاتھ نہیں لگے گی۔
بلاآخرسوچنے سمجھنے کے بعد ایک پلان بنایا اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے میرے پاس وقت بہت کم تھا، صبح ہوچکی تھی مگر انیلہ ابھی بھی سوئی ہوئی تھی۔ میں اٹھا کپڑے پہنے اور باہر نکل گیا۔
بازار سے اپنا مطلوبہ سامان کی خریداری کرنے کے بعد میں ہوٹل میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو انیلہ سامنے بیڈ پر بیٹھی اپنے بال سکھا رہی تھی وہ شاید ابھی نہا کر باہر نکلی تھی۔ مجھے اندر داخل ہوتا دیکھ کر پوچھنے لگی۔ کہاں تھے آپ میں جاگی تو آپ موجود نہیں تھے، کہیں باہر گئے تھے؟
ہاں وہ ایک پرابلم ہوگئی ہے، آفس والوں نے مجھے ایمرجنسی میں واپس بلایا ہے ہمیں آج ہی جانا ہوگا تم سامان پیک کرلو، میں نے پلان کے مطابق کہانی انیلہ کے گوش گزار کردی۔
انیلہ پریشان ہوگئی۔ اوہ ہمیں تو پرسوں واپس جانا تھا نا، خیر کوئی بات نہیں میں پیک کرتی ہوں سامان ویسے آپ کے آفس والوں کو بھی آرام نہیں ہے جب انسان چھٹی پر جارہا ہے تو اسے سکون سے چھٹیاں بھی نہیں گزارنے دیں اور واپس بلا لیا۔ انیلہ چڑ سی گئی تھی اور اپنی ہی دھن میں بولے جارہی تھی، مجھے اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی
مجھے تو بس اپنا مقصد حاصل کرنا تھا۔ انیلہ سامان پیک کرنے لگی اور میں ملک کے کمرے کی جانب بڑھا مجھے قوی امید تھی کہ وہ چاروں وہیں موجود ہونگے کیوںکہ کل رات میں ان چاروں کو وہیں چھوڑ کر گیا تھا اور یقیناً ان چاروں نے چدائی بھی خوب لگائی ہوگی اور تھک ہار کر وہیں سو گئے ہونگے، میں نے دروازے کے ہنڈل گھمایا تو وہ لاک تھا دروازہ بند دیکھ کر مجھے تھوڑی مایوسی ہوئی، میں نے دروازہ کھٹکایا تین چار بار دروازے پر دستک دینے کے بعد فہد کی آواز آئی۔ کون ہے؟
میں چپ چاپ کھڑا رہا اور چند لمحوں بعد دوبارہ دروازہ کھٹکایا۔ ابے کون ہے فہد کی آواز اب قریب سے آئی تھی اور پھر دروازہ کھلا اور فہد آنکھیں مسلتا ہوا دروازے پر نمودار ہوا۔ مجھے دیکھ کر فہد کے چہرے پر نفرت سی آگئی اور اسی نفرت بھرے لہجے میں وہ بولا، سالے تو یہاں کیا کررہا ہے تجھے بولا تھا نہ کہ آج دفعہ ہوجانا یہاں سے تیری شکل نظر نہیں آنی۔۔۔ اس کی بات پوری نہیں ہونے دی تھی میں نے اور اس کی کنپٹی پر ایک زوردار مکا رسید کیا۔ مکا کھا کر وہ ڈگمگایا مگر گرا نہیں میں نے اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور ایک بار پھر مکا رسید کیا جو اس بار اس کی گردن پر تھا اس بار مکا نشانے پر لگا تھا اور پر اثر بھی رہا تھا، فہد چاروں شانے چت ہوکر پیچھے کی جانب گرنے لگا مگر میں نے اس کو گریبان سے پکڑ لیا اور اس تھام کر کمرے کے اندر چلا آیا اور دروازہ لاک کردیا۔
اندر کا منظر میرے لئے اطمینان کا باعث تھا، اندر ملک، بینش اور سدرہ بے سدھ ہوکر سوئے ہوئے تھے شاید شراب کا اثر تھا جو ابھی تک ان پر بے ہوشی طاری تھی
میرا کام آسان ہوگیا تھا میں نے سب سے پہلے کمرے میں شراب کی بوتل ڈھونڈھی جس میں شراب باقی بچی ہو تین بوتلوں میں سے ایک بوتل میں اب بھی آدھی سے زیادہ بوتل شراب موجود تھی، میں نے اپنی جیب سے ایک سفوف سے بھرا ہوا لفافہ نکالا اور اس سفوف کو شراب میں ڈال دیا اور اچھی طرح بوتل کو ہلا کر اس سفوف کو مکس کردیا۔
سفوف زیادہ تھا اگر سب ڈال دیتا تو شراب کا ضائقے پر اثر پڑتا جو کہ میں نہیں چاہتا تھا، مجبوراً میں نے کچھ سفوف بچا کر اپنی جیب میں ڈال دیا
مجھے وہ ویڈیو بھی ڈھونڈنی تھی جو میرے خلاف بنائی گئی تھی میں پوری کرشش کررہا تھا کہ آواز پیدا نہ ہو، درازوں اور الماری کو چیک کرنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ شاید ان لوگوں نے ویڈیو موبائل میں بنائی ہو۔ میرا اندازہ ٹھیک نکلا اور چاروں کے موبائل جو کہ صوفہ اور ٹیبل پر پڑے ہوئے تھے چیک کرنے لگا، ویڈیو ملک کے موبائل میں موجود تھی، میں نے موبائل میں سے میموری کارڈ نکالا اور اسے توڑ کر پھینک دیا۔ میرا کام مکمل ہوچکا تھا اب میرا وہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں تھآ
میں باہر نکلا، دروازے کوآہستگی سے بند کیا اور اپنے کمرے میں پہنچا وہاں انیلہ تیار بیٹھی تھی میں نہایا اور کپڑے بدلے۔
ایک گھنٹے کے اندر بس اسٹاپ جہاں سے بسیں کراچی جاتی ہیں وہاں ہم دونوں پہنچ چکے تھے۔ انیلہ کو ایک جگہ کھڑا کرکے میں کراچی جانے والی بس کی ٹکٹ خریدنے چلا گیا۔ ٹکٹ خرید کر میں واپس آرہا تھا تو دور سے مجھے انیلہ دکھائی دے رہی تھی میں چلتا ہوا انیلہ کی طرف آیا تو وہ موبائل پر کسی سے بات کررہی تھی جب تک میں قریب پہنچا اس نے موبائل اپنے بیگ میں ڈال دیا تھا، میں نے بے توجہی سے انیلہ سے پوچھا۔ کس کا فون تھا؟ امی کا تھا انہیں بتارہی تھی کہ ہم آرہے ہیں کسی کو لینے بھیج دیں۔
مجھے پیاس لگنے لگی تو میں نے انیلہ سے کہا یار پانی پینے جارہا ہوں تم یہیں رکنا۔ ارے پانی ہے میرے پاس آپ یہ پی لیں۔ میں پانی رہا تھا جب میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔ انیلہ کے پاس موبائل کہاں سے آیا؟ اس کے پاس تو موبائل ہی نہیں تھآ۔ یہ کیا سین ہے۔۔۔ پانی پیتے پیتے میں نے کن آنکھیوں سے انیلہ کی طرح دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔۔ شیطانی مسکراہٹ ۔۔۔ میں پانی پی چکا تھآ، پیاس مٹ چکی تھی مگر دماغ اب مجھے ڈرا رہا تھا، انیلہ کس سے فون پر بات کررہی تھی، کیا انیلہ ان چاروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے؟ یہ سب سوال میرے ذہن کو جنجھوڑ رہے تھے مگر میرے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں تھے،
تمہیں فہد نے فون کیا تھآ نا۔ اور یہ فون بھی اسی نے دلوایا ہے نا؟ میں نے انیلہ سے سخت لہجے میں پوچھا۔ جھوٹ بلکل مت بولنا میں سب سمجھ گیا ہوں ان لوگوں نے مجھے کس طرح پھنسایا اور تم ان کی ساتھ ملی ہوئی تھیں۔ کیا بتایا فہد نے تمہیں یہی نہ کہ تابش نے مجھے مارا اور اس نے میموری کارڈ کو بھی توڑ دیا ہے جس میں ویڈیو تھی۔ انیلہ میرے غصے بھرے لہجے اور کرخت آواز سن بلکل بھی پریشان نہیں ہوئی بلکہ مسکراتے ہوئے بولی، واہ آخر تمہیں عقل آہی گئی لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے تابش ڈئیر،اس دن جب تم نے مجھے اور ملک کو کمرے کے باہر باتیں کرتے سن لیا تو میں نے احتیاط کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ میں سمجھ گئی تھی کہ تم ہم پر نظر رکھو گے۔ میں ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی تھی لیکن پھر مجھے ملک سے پیار ہوگیا کیا کرتی اس دل پر کسی کا زور نہیں ہے نا۔۔ لیکن تمہیں یہ بتاتی تو تم کبھی نہ مانتے تو سوچا تمہیں اس سب سے دور ہی رکھا جائے نہ تمہیں پتا چلے گا اور نہ کبھی کوئی پرابلم ہوگی مگر تم بھی نا کیا ضرورت تھی ویڈیوز بنانے کی ہماری جاسوسی کرنے کی بے وقوف۔ تم ہمارے سارے راز جان چکے ہو ہم سب کو تم سے خطرہ ہے اور میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے، ہم سب نہیں لے سکتے۔۔
اچانک میرا دماغ چکرانے لگا میرے پیٹ میں انتہائی شدید درد ہونے لگا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے میرا جسم جکڑ لیا ہو۔ تم نے کیا کیا ہے میرے ساتھ؟ میں جو انیلہ کی باتیں غور سے سن رہا تھا اس درد کو محسوس کرکے بول پڑا۔ میں نے کچھ نہیں کیا بس تم نے جو پانی پیا ہے اس میں وہی سفوف ڈالا ہے جو تمہاری جیب میں تھا۔ میں دیکھ کرہی سمجھ گئی تھی کہ یہ زہر ہے
ویسے یہ زہر تمہاری جیب میں کر کیا کررہا تھا۔ جب تم واپس آکر نہانے گئے تھے تب میں نے تمہارے کپڑوں کی تلاشی تھی. اکثر لیتی رہتی ہوں آج بھی لی ویسے یہ زہر کس کے لئے تھا تابش ڈئیر؟میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
میرا درد اب شدید ہوگیا تھا انیلہ میرے پاس آئی اور میری جیبوں میں ہاتھ ڈال کر سب نکال لیا، ہم دونوں کھڑے تھے مگر میں اب گرنے لگا تھا انیلہ نے مجھے تھاما اور قریب موجود ایک بینچ پر گھسٹتے ہوئے بٹھا دیا اور بولی۔ چلو تم نے میرا کام آسان کردیا اب میں چلتی ہوں، تمہارا تو کوئی پوچھنے والا ہے نہیں اور اگر پھر بھی کسی نے پوچھا تو بتا دوں گی تم نے مجھے دھوکا دیا اور کسی لڑکی کے ساتھ بھاگ گئے اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔ وہ اور بھی کچھ بول رہی تھی مگر اب میں کچھ سن نہیں پارہا تھا میں مرنے والا تھا میری سانس رکنے لگی تھی اور میری آنکھِیں اوپر کی جانب چڑھ گئی، اب انیلہ مجھے چھوڑ کر جارہی تھی اور میں اسے جاتا دیکھ رہا تھآ۔
مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال پر موجود تھا اور ایک نرس میری جانب دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ شکر ہے آپ کو ہوش آگیا میں ڈاکٹر صاحب کو بتا کر آتی ہوں۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس بس اڈے پر کسی نیک انسان نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں دیکھا تو فورا کچھ لوگوں کی مدد سے ہسپتال لے آیا، زہر کی مقدار تھوڑی ہونے اور ہسپتال جلد پہنچ جانے کی بدولت میں زندہ بچ گیا تھا یہ ایک معجزہ ہی تھا ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ مجھے چھبیس گھنٹوں بعد ہوش آیا ہے۔
میں اب کافی بہتر محسوس کررہا تھا، شام کا وقت تھا جب میں نے پاس سے گزرتے اس شخص کے ہاتھ میں موجود اخبار کو دیکھ کر اس شخص کو آواز دی،
جی بولیں۔ وہ شخص اب میرے قریب آکر پوچھ رہا تھا۔ جی آپ کا اخبار چاہئیے تھا صرف شہ سرخیاں پڑھنی ہیں پلیز۔ ارے کوئی بات نہیں جناب ویسے بھی یہ صبح کا اخبار ہے آپ پڑھ لیں۔ یہ کہہ کر وہ شخص مجھے اخبار تھما کر چلا گیا۔
اخبار کی شہ سرخیاں پڑھنے کے بعد میں شہر کی خبریں پڑھنے لگا مگر وہ خبر پڑھتے ہی میرا دل زور زور دے دھڑکنے لگا۔ خبر کچھ یوں تھی
مقامی ہوٹل میں پانچ لاشیں برآمد۔ لاشیں دو مرد اور تین عورتوں کی ہیں۔ موت کی وجہ پوسٹ پارٹم رپورٹ کے بعد ہی بتائی جاسکتی ہے لیکن پولیس کو شک ہے کہ ان کو زہر دے کر مارا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ لاشیں ایک مقامی ہوٹل میں ایک ہی کمرے سے پائی گئی ہیں ان تمام افراد کے بارے میں ابتدائی طور پر کچھ بھی پتا نہیں چلا ہے۔ فارنسک رپورٹ کے مطابق زہر شراب کی بوتل میں ملایا گیا تھا جس کا نمونہ پولیس نے کمرے میں موجود شراب کی بوتل سے حاصل کرلیا ہے پولیس کی تفتیش جاری ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ بہت جلد ان کے قاتل گرفتار کر لئے جائیں گے۔
میں وہاں اب نہیں رک سکتا تھا مجھے وہاں سے جانا ہی تھا لیکن شومئی قسمت کہ میں صرف بیڈ سے اٹھ ہی پایا تھا کہ جب پولیس دندناتی ہوئی کمرے میں گھسی، اس کمرے میں اور بھی مریض موجود تھے مگر پولیس کےساتھ کھڑے ڈاکٹر نے انگلی میری جانب اٹھا دی۔ اور میری امید بھی ٹوٹ گئی پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا
جلد ہی پولیس نے مجھ سے سب اگلوا لیا اور میرے پاس بھی کوئی راستہ نہیں بچا تھا سوائے سچ بولنے کے کیونکہ انیلہ کے پاس سے میرا بٹوہ برآمد ہوا تھا جس میں میرا آئی کارڈ بھی تھا میرے نام سے ہوٹل میں ایک روم بھی بک تھا، ہوٹل میں موجود سی سی ٹی فوٹیج نے بھی مجھے مجرم ثابت کردیا تھا۔
اب مجھے عمر قید کی سزا ہوگئی ہے اور میں اپنی سزا کاٹ رہا ہوں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ کیا کرنے گھر سے نکلا تھا اورکیا کر بیٹھا، اکثر خود سے پوچھتا ہوں کہ کیا سیکس کی بھوک اتنی بھی بڑھ سکتی ہے کہ انسان اپنوں سے بے وفائی کر بیٹھے۔ مجھے میرے گناہوں کی سزا مل گئی تھی اور ان پانچوں کو بھی۔ مگر ہم نے اپنے گناہوں کی بھاری قیمت چکائی تھی بہت بھاری قیمت۔
ختم شد۔۔۔۔

1 comment:

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...