Monday, 1 February 2016

وطن کا سپاہی 10

کرنل کے لن پر اچھلتے ہوئے جیسے ہی نیہا کی نظر باہر دروازے پر پڑی وہ ایک دم اپنے پتی کو دیکھ کر رک گئی۔ کرنل نے کہا کیہا ہوا جانِ من تھک گئی ہو کیا؟ نیہا نے کرنل کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر کرنل کے لن پر اچھل کود شروع کر دی، سریش نے جب نیہا کی چوت کی طرف دیکھا اور اسمیں اندر جاتا اور باہر نکلتا لن نظر آیا تو اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کرنل وشال جو اب اسکی نطر میں بوڑھا تھا اسکا لن اتنا تگڑا ہوگا۔ اب اسکو اپنی پتنی پر ترس آنے لگا کہ اپنی پروموشن کی خاطر اتنے بڑے لن سے اپنی پتی کی چودائی کروا دی اسکو کتنی تکلیف ہورہی ہوگی، مگر یہ تو نیہا ہی جانتی تھی کہ وہ اس وقت کتنے مزے میں تھی۔ خاص طور پر سریش کو دیکھ کر اسکو مزید جوش چڑھ گیا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت سے نہ صرف اچھل رہی تھی بلکہ اسکی سسکیاں بھی پہلے سے زیادہ بلند تھی۔ ۔

اب نیہا نے اچھلنا بند کر دیا اور کرنل کے اوپر جھک گئی اور اپنے گھٹنے اب اس نے بیڈ پر لگا دیے تھے، کرنل نے گردن تھوڑِ سی اوپر اٹھائی اور نیہا کا مما اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا اور دوبارہ سے نیہا کی چوت میں دھکے لگانے شروع کردیے۔ نیہا کی نظریں سریش پر ہی تھیں جو ابھی تک نیہا کو کرنل کے لن سے چدائی کرواتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ نیہا اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا کر اپنے پتی کو نشیلی نظروں سے دیکھ رہی تھی، نیہا نے اپنی انگلی کے اشارے سے سریش کو اندر بلایا کہ وہ بھی آکر جوائن کرے مگر اسنے انکار میں سر ہلا دیا۔ وہ واپس جانا چاہ رہا تھا مگر نجانے ایسی کیا بات تھی جو اسکو اپنے قدم اٹھانے سے روک رہی تھی، اپنی پتی کو کسی اور کے لن پر چڑھ کر اس خوبصورت انداز سے چدائی کرواتے ہوئے سریش کو اچھا لگ رہا تھا اور وہ جی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا اس سین کو۔

اب کرنل نے نیہا کا مما اپنے منہ سے نکالا اور اپنی گردن دوبارہ سے بیڈ پر رکھ کر نیچے سے لن کو پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ نیہا کرنل کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور اسکے 36 سائز کے خوبصورت ممے ہوا میں ہچکولے کھا رہے تھے۔ نیہا مزید نیچے جھکی اور کرنل کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور انکو اچھی طرح چوسنے کے بعد اوپر اٹھی اور بولی وشال میری جان، میری چدائی کر کے مزہ آیا کیا تمہیں؟ کرنل نے نیہا کو اسی سپیڈ سے چودتے ہوئے کہا ہاں میری جان بہت مزہ آیا، تمہاری چوت بہت چکنی اور ٹائٹ ہے تمہیں تو میں بار بار چودنا چاہتا ہوں۔ نیہا نے کہا جان آج سے یہ چوت تمہاری ہے، تمہارا جب دل کرے تم اپنے 9 انچ کے لن سے اس چوت کو چود سکتے ہو، مگر میرے پتنی کی پروموشن بھی اب تمہارے زمے ہے۔ اس پر کرنل نے کہا تمہارے پتی کی پروموشن ہی نہیں اسکی ٹرانسفر بھی ممبئی کروا دوں گا تاکہ میرا جب بھی دل کرے میں تمہاری اس چکنی چوت کا مزہ لے سکوں۔

یہ سن کر باہر کھڑا سریش جو اپنی پتی کی چودائی دیکھ کر مزے لے رہا تھا اور اسکی پینٹ میں اسکا لن کھڑا ہوچکا تھا بہت خوش ہوا۔ اور نیہا نے بھی خوشی سے کرنلے کے ہونٹ چوسے اور پھر بولی میں جھڑنے والی ہوں، کرنل نے کہا بس میری جان میرا لن بھی تمہاری چوت کے اندر اپنی منی نکالنے والا ہے۔ یہ کہ کر کرنل کے گھسے طوفانی رفتار سے نیہا کی چوت میں لگنے لگے اور کچھ ہی دیر کے بعد دونوں کے جسموں کو جھٹکے لگے اور دونوں نے اکٹھے ہی اپنی اپنی منی نکال دی۔ جب ساری منی نکل گئی تو نیہا کرنل کے اوپر لیٹ کر ہانپنے لگی اور جب کہ کرنل کا لن منی چھوڑںے کے باوجود ابھی بھی نیہا کی چوت کے اندر ہی تھی اور اسکی سختی پہلے جیسی تو نہ تھی مگر کچھ نہ کچھ سختی ابھی بھی تھی جو نیہا کو اپنی چوت میں محسوس ہورہی تھی۔

کافی دیر دونوں ایسے ہی ایک دوسرے سے لپٹ کر لیٹے رہے۔ کرنل کو آج کافی عرصے بعد اتنے گرم بدن والی لڑکی کو چودنے کا موقع ملا تھا۔ اسکی ساری ٹینشن ختم ہوگئی تھی اور اب وہ بالکل ذہنی طور پر ریلیکس تھا۔ سریش اب واپس باہر چکا تھا جبکہ کرنل نے نیہا کو سائیڈ پر کیا اور دوسرے کمرے میں جاکر اپنے کپڑے پہنے۔ نیہا نے بھی پہلے والی ساڑھی لگانے کی بجائے اپنی الماری سے ایک اور بلاوز نکال کر پہن لیا اور اسکے نیچے ایک گھاگھرا پہن لیا۔ دونوں واپس اسی کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ سریش چند منٹ گزرنے کے بعد پھر اندر آیا اور دونوں کو اکٹھا بیٹھا دیکر کر کرنل سے بولا سوری سر مجھے تھوڑی دیر ہوگئی کھانا لانے میں۔ یہ کہ کر اس نے نیہا کو کھانا دیا اور کہا جاو کھانا گرم کر لاو وشال صاحب کے لیے۔

نیہا کھانا لیکر اندر کچن میں چلی گئی جبکہ سریش کرنل کے ساتھ بیٹھ گیا، کرنل اب بالکل ریلیکس بیٹھا تھا، سریش جو اپنی پروموشن کا پوچھنا چاہتا تھا اس نے بات شروع کرنے کے لیے پروموشن کی بجائے نیہا کے بارے میں پوچھا ، سر وہ نیہا کیسی لگی آپکو؟ کرنل وشال نے سریش کی طرف گہری نظروں سے دیکھا اور پھر بولو خوش قسمت ہو تم بھائی جو تمہیں اتنی سندر پتنی ملی ہے۔ سیرش یہ سن کر خوش ہوا اور بولا بس سر بھگوان کی دین ہے۔ پھر بولا سر وہ میری پروموشن؟؟؟ کرنل نے سریش کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور بولا جسکی اتنی خوبصورت اور گرم پتنی ہو اسکی پروموشن کو بھلا کون روک سکتا ہے، فکر نہیں کرو تمہاری پروموشن بھی ہوجائے گی اور تمہاری ممبئی ٹرانسفر بھی ہوجائے گی۔ آخر ہمیں بھی تو کوئی فائدہ ہونا چاہیے تمہاری اس جوان ، خوبصورت اور گرم پتنی کا۔ یہ کہتے ہوئے کرنل وشال کی آنکھوں میں ہوس کے واضح آثار دیکھے جا سکتے تھے جبکہ کیپٹن سریش کی آنکھوں میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں تھی، وہ کسی دلے کی طرح مسکرا رہا تھا، اسکے چہرے پر واضح طور پر لکھا تھا ہاں میں بے غیرت ہوں۔


شام چھ بجے کے قریب کیپٹن مکیش کی آنکھ کھلی تو اسنے اپنے آپ کو نائٹ کلب کے ایک کمرے میں بغیر شرٹ کے سوتے ہوئے پایا۔ جیسے ہی آنکھ کھلی اسکو رات والی سیکسی ڈانسر تانیہ یاد آئی جس کے ساتھ اس نے خوب سیکس کیا تھا۔ وہ تانیہ کے جسم کے بارے میں سوچ کر خوش ہونے لگا کہ آج اس نے خوبصورت لڑکی کو چودا ہے، مگر اسے یہ یاد نہیں تھا کہ وہ شراب کے نشے میں دھت تھا، تانیہ کے مموں کو چوستے ہوئے وہ بے ہوش ہوگیا تھا اور اسکے بعد وہ کچھ نہیں کر سکا تھا۔ اب کیپٹن مکیش اٹھا اور اپنی شرٹ پہن کر بیڈ پر اپنا موبائل دیکھنے لگا۔ مگر موبائل کمرے میں موجود نہیں تھا۔ پھر اس نے ادھر ادھر موبائل دیکھنا شروع کیا، اپنی شرٹ چیک کی، پینٹ کی جیب چیک کی کمرے میں موجود دراز چیک کیے مگر اسے کہیں اپنا موبائل نہ ملا۔ اسکے ذہن میں ایک جھماکا ہوا کہ رات والی ڈانسر اسکا موبائل لے اڑی ہے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے ڈاکومنٹس، پیسے ٹکٹ وغیرہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ بھی نہ ملے تو اسنے اک بڑی ساری گالی تانیہ کی نظر کی اور اپنے کپڑے پہن کر باہر نکل آیا۔ باہر نکل کرجب وہ روشنی میں آیا تو شام کے چھ بچ رہے تھے اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔

مکیش کو لگا کہ صبح کا ٹائم ہے مگر فوری ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ صبح نہیں بلکہ شام کا ٹائم ہورہا ہے۔ وہ حیران ہوگیا کہ آخر اتنی دیر تک وہ کیسے سوتا رہا؟ پھر اسے یاد آیا کہ آج صبح 9 بجے کی اسکی فلائٹ تھی۔ وہ ڈانس کلب کی پارکنگ کی طرف بھاگا مگر وہاں اسکی جیپ بھی موجود نہیں تھی۔ واپس کمرے میں آکر اس نے اپنی گاڑی کی چابی ڈھونڈنے کی کوشش کی وہ بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ اب اسے احساس ہوا کہ اس نے لڑکی کو نہیں چودا بلکہ وہ لڑکی اسے چود گئی ہے۔ اب کیپٹن مکیش غصے میں نائٹ کلب کے مینیجر کے پاس گیا اور اس سے اپنی چیزوں کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے لا پرواہی سے جواب دیا کہ صاحب اپنی چیزوں کی حفاظت خود کیا کرو، پہلے پی کر ٹُن ہوجاتے ہو پھر ہمیں تنگ کرنے چلے آتے ہو۔ مینیجر کی اس بات نے کیپٹن کو طیش دلا دیا، اس نے مینیجر کو گریبان سے پکڑتے ہوئے اپنا نام کیپٹن مکیش بتایا ، کیپٹن کا لفظ سنتے ہی مینیجر کی گانڈ پھٹ گئی اور وہ معافی مانگنے لگا۔ مگر چیزیں وہ کہاں سے واپس لا کر دیتا؟

کیپٹن نے کہا مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتاو جو رات مجھے اپنے کمرے میں لیکر گئی تھی؟؟؟ مینیجر نے لاعلمی کا اظہار کیا تو مکیش نے بتایا جس نے عربی سٹائل کا ڈانس کیا تھا، اناونسر نے کچھ تو اسکا نام لیا تھا مجھے نام یاد نہیں اب اسکا، مینیجر نے کہا سر تانیہ ہی ہے ہمارے کلب میں جو عربی گانوں پر ڈانس کرتی ہے۔ کیپٹن مکیش نے کہا ہاں ہاں وہی، اسکا پتہ دو مجھے کہاں ملے گی وہ۔ مینیجر نے کہا سر ہمارے پاس کسی ڈانس کا پتہ نہیں ہوتا، وہ بس آتی ہیں جب انہیں پیسوں کی ضرورت ہو، پرفارم کرتی ہیں اور پیسے لیکر چلی جاتی ہیں۔ البتہ جیسے ہی وہ لڑکی یہاں دوبارہ آئے گی میں آپکو ضرور اطلاع دوں گا۔

کیپٹن مکیش نے مینیجر کے پاس اپنا موبائل نمبر چھوڑا اور اسکو 2، 3 دھمکیاں بھی دیں کہ اگر ایک ہفتے کے اندر اندر اس لڑکی کا نہ پتا لگا تو تمہاری خیر نہیں۔ یہ کہ کر کیپٹن پیدل ہی ڈانس کلب سے مین روڈ کی طرف جانے لگا اور ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ گھر جا کر اپنی بیوی سے اس نے پیسے لیکر ٹیکسی والے کو کرایہ ادا کیا، بیوی نے فورا ہی کیپٹن پر چڑھائی شروع کر دی، کہاں رہے ساری رات؟ گھر کی کوئی ہوش نہیں تمہیں تو، فلائٹ بھی مس ہوگئی ہماری۔ کیپٹن اب اپنی بیوی کو کیا بتاتا کہ ایک ڈانسر اسے چونا لگا گئی۔ وہ غصے میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا، تو بیوی دوبارہ بولی اور یہ تمہارا موبائل بھی صبح سے آف ہے، کب سے ٹرائی کر رہی ہوں میں کیوں آف کر رکھا ہے؟؟ کیپٹن جو پہلے ہی غصے میں تھا بیوی کی بات سن کر اور طیش میں آگیا اور بولا لٹ گیا ہو ں میں میری ماں۔ گن پوائنٹ پر کسی نے میرا موبائل پیسے ، ٹکٹ اور گاڑی چھین لی ہے۔ اب سکون لینے دے گی مجھے؟؟؟

کیپٹن کی بات سن کر بیوی تھوڑی ٹھنڈی ہوئی اور مکیش کو حوصلہ دینے لگی۔ کچھ دیر کے بعد کیپٹن کی بیوی نے کہا پولیس میں رپورٹ درج کرواو، کیپٹن نے کھا جانے والی نظروں سے بیوی کو دیکھا اوربولا میں کوئی راہ چلتا لا وارث شخص نہیں ہوں جو پولیس کے سامنے جاکر مدد کی بھیک مانگوں، کیپٹن مکیش نام ہے میرا، اس کتیا کو تو میں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔ لفظ کتیا سنتے ہی کیپٹں کی بیوی کے کان کھڑے ہوگئے اور کیپٹن کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا، بیوی نے فوری پوچھا کونسی کتیا؟؟ کیپٹن نے بھی فوری بہانا سوچا اور بولا 3 آدمی تھے اور ایک لڑکی تھی۔ واپس گھر ہی آرہا تھا تو لڑکی نے لفت مانگی، اسکی ٹانگ زخمی تھی ، میں نے انسانی ہمدردی میں لفٹ دے دی مگر تھوڑی دور جا کر ہی اس نے بہانے سے گاڑی رکوائی اور اسکے 3 یار گاڑ میں آگئے اور میرے سر پر پستول تان دی، پھر مجھے دور گھر میں لیجار کر بند کردیا اور میری ساری چیزیں لیکر غائب ہوگئے۔ بڑی مشکل سے رسیاں کھول کر اب گھر پہنچا ہوں۔

دوسری بات جو کیپٹن مکیش کے ذہن میں تھی، وہ یہ کہ اگر پولیس میں جاکر رپورٹ لکھوائے بھی تو کیا لکھوائے؟؟ کہ ایک لڑکی ڈانس کلب سے اسکو چکمہ دیکر اسکی گاڑی اور دوسری چیزیں لے اڑی۔ یہ تو سراسر بدنامی ہے۔ کیپٹن نے تہیہ کر لیا کو وہ اس لڑکی کو ضرور ڈھونڈے گا۔ کچھ دیر بعد کیپٹن نے بیوی سے کھانے کی فرمائش کی تو اسکی بیوی نے کھانا لگا دیا، کیپٹن کا دماغ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو اس نے سب سے پہلے تو ممبئی جانے کی سوچی جہاں اس نے رپورٹ کرنا تھا۔ کیپٹن نے سوچا کہ ائیر لائن کال کر کے اگلی فلائٹ کے بارے میں معلومات لی جائیں اور بکنگ کروائی جائے۔ کیپٹن کو اگلی فلائٹ اگلی رات کی ملی اور کیپٹن نے فوری اس میں بکنگ کروا دی۔ اب کیپٹن آرام سے لیٹ کر تانیہ کے بارے میں سوچنے لگا کہ شکل سے کتنی معصوم لگتی تھی مگر بہت بڑا ہاتھ مار گئی ہے سالی۔ کیپٹن انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسکی بیوی نے اسے اپنا فون لاکر دیا اور بولی تھانے سے آپکے لیے فون ہے۔ کیپٹن نے فون پکڑا اور ہیلو کہا تو آگے سے ایک شخس کی آواز سنائی دی، ارے مکیش جی کیا کرتے ہیں آپ بھی اپنا موبائل تو آن رکھا کریں، میں ائیر پورٹ پولیس سے بات کر رہا ہوں برائے مہربانی اپنی گاڑی آپ پارکنگ سے کسی کو بھجوا کر نکلوا لیں۔ خود تو آپ ممبئی چلے گئے مگر اپنی گاڑی یہیں چھوڑ گئے ہیں۔

یہ سن کر کیپٹن مکیش کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ فوری بولا، کیا مطلب کہاں ہے میری گاڑی؟؟؟ آگے سے آواز آئی ارے صاحب ائیر پورٹ کی پارکنگ میں ہی کھڑی ہے۔ کیپٹن نے کہا وہاں کون لایا میری گاڑی؟؟؟ آگے سے پھر آواز آئی، کمال ہے کیپٹن صاحب آپ خود ہی تو اپنی پتنی کے ساتھ گاڑی پر آئے تھے صبح کی فلائٹ کے لیے۔ مگر شاید آپکو چھوڑںے کوئی نہیں آیا آپ تو چلے گئے آپکی گاڑی جامنگر ائیر پورٹ پر ہی کھڑی ہے۔

اب کیپٹن کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا ، اور اس نے فوری بہانہ کیا، اچھا اچھا میں سمجھا آپ ممبئی ائیر پورٹ سے بول رہے ہیں، میں ابھی کسی کو جامنگر ائیر پورٹ بھجوا کر اپنی گاڑی منگوا لیتا ہوں۔ فون بند کرکے کیپٹن نے سب سے پہلے اپنے ایک جونئیر کو فون کیا اور اسے فورا ائیر پورٹ سے اپنی گاڑی لانے کو کہا۔ فون کرنے کے بعد کرنل نے فورا جامنگر ائیر پورٹ کا نمبر ملایا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد پوچھا کہ مجھے آج صبح ممبئی جانے والی فلائٹ کا ریکارڈ چاہیے کہ اس میں کون کون شخص موجود تھے۔ آگے سے ریسیپشنسٹ نے کہا سر میں کچھ ہی دیر میں آپکو لسٹ ای میل کرتی ہوں۔ میں امید کرتی ہوں آپکی آج کی فلائٹ اور سفر آرام دہ رہا ہوگا۔ کیپٹن نے کہا ہاں ہاں آرام دہ تھا بس مجھے جلدی تفصیل بتاو۔ کچھ ہی دیر میں کیپٹن کو ای میل آگئی جس میں مسٹر اینڈ مسز کیپٹن مکیش نے بھی چیک اِن کیا تھا۔

جامنگر سے ممبئی جانے والے پیسنجرز کی لسٹ میں اپنا اور اپنی پتنی کا دیکھ کر کیپٹن کو دھچکا لگا اور وہ سوچ میں پڑگیا کہ اسکی جگہ کون سفر کر سکتا ہے۔ پھر اسکے ذہن میں فورا ہی تانیہ آئی کہ رات تو وہی تھی اسکے ساتھ۔ مگر پھر اس نے تانیہ کو ذہن سے نکالا کہ وہ اتنی چالاک بھی نہیں ہوسکتی۔۔ یہ کوئی اور ہے۔ اب کیپٹن مکیش نے جامنگر ائیر پورٹ پر موجود اپنے ایک خاص آدمی کو کال کی اور اس سے بولا کہ اسے آج صبح کی فلائٹ میں چیک اِن کرنے والوں کی ویڈیو ریکارڈنگ چاہیے فوری طور پر اور یہ ٹاپ سیکریٹ ہے کسی کو پتہ نہیں لگنا چاہیے ۔ ایک گھنٹے کے بعد کیپٹن چیک اِن کرنے والوں کی ویڈیو دیکھ رہا تھا، اس نے ویڈیو آن کرنے سے پہلے اپنا کمرہ بند کر لیا اور اپنی بیوی کو بھی ویڈیو نہیں دکھائی۔ کچھ ہی دیر بعد اسے ایک لڑکی نظر آئی اور وہ کچھ دیر کو ویڈیو روک کر اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔

اس یہ لڑکی جانی پہچانی لگ رہی تھی مگر یاد نہیں آرہا تھا کہ اسے کہاں دیکھا ہے۔ تانیہ کے نئے ہئیر کٹ، میک اپ اور بالکل مختلف ڈریسنگ نے اسکی شخصیت کو بالکل بدل دیا تھا اسی لیے کیپٹن کو پہچاننے میں مشکل ہورہی تھی۔ پھر اچانک کیپٹن نے دیکھا کہ اس لڑکی کے پیچھے سے ایک شخص لڑکی کے ساتھ آیا اور دونوں اکٹھے ہی جہاز کی طرف چلے گئے۔ اس شخص کو دیکھ کر مکیش کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، یہ کوئی اور نہیں بلکہ کیپٹن مکیش خود تھا۔ مکیش کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ کیپٹن نے ویڈیو کو زوم کر کے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ یہ آدمی کیپٹن مکیش کا ہمشکل ہے۔ کافی مماثلت تھی دونوں کی شکل میں۔ مگر پھر کیپٹن کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا اور اسکا دماغ ماوف ہونے لگا۔ کیپٹن کو ساری کہانی کی سمجھ لگ گئی تھی ، یہ کیپٹن مکیش کا ہمشکل نہیں بلکہ میجر دانش تھا جس نے سپیشل میک اپ کے ذریعے کیپٹن مکیش کی مشابہت اختیار کی ہوئی تھی۔

گو کہ کیپٹن کو سو فیصد یقین نہیں تھا مگر کہیں نہ کہیں اسکے دل میں یہ بات تھی کہ میجر دانش کے علاوہ یہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ لڑکی ہوسکتا ہے وہی رات والی ڈانسر ہو جس نے کیپٹن کو کمرے میں لیجا کر اسکا سب کچھ چرا لیا تھا۔ کیپٹن مکیش نے فورا کرنل وشال کو فون کیا جو کچھ ہی دیر پہلے کیپٹن سریش کے گھر سے کھانا کھا کر نکلا تھا اور اپنی گاڑی میں جونا گڑھ آرمی ہیڈ کوارٹر جا رہا تھا۔ کیپٹن نے سوچا کہ فورا کرنل وشال کو اطلاع دی جائے کہ میجر دانش ممبئی جا چکا ہے۔ کرنل وشال نے فون اٹینڈ کیا تو کیپٹن مکیش نے اپنا تعارف کروایا اور بولا سر وہ پاکیشا کا ایجینٹ میجر دانش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہ کر کیپٹن ایک دم رک گیا۔ کرنل نے کہا ہاں بولو کیا تمہارے پاس کوئی خبر ہے اسکے بارے میں؟؟ کیپٹن نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا نہیں سر، میں آپ سے جاننا چاہ رہا تھا کہ مجر دانش پکڑا گیا یا نہیں؟؟ کرنل نے بھی بجھے ہوئے لہجے میں کہا نہیں ابھی تک ہمیں خاص کامیابی نہیں ہوئی مگر وہ زیادہ دیر تک ہم سے چھپ نہیں سکتا۔ جلد ہی اسکو ڈھونڈ نکالیں گے ہم۔ یہ کہ کر کرنل نے فون بند کر دیا جبکہ کیپٹن مکیش اپنا سا منہ لیکر بیٹھ گیا۔

عین وقت پر کیپٹن کو خیال آیا کہ اگر یہ سب کچھ کرنل وشال کو بتا دیا تو کیپٹن کی خیر نہیں۔ اسکو آرمی سے نکال دیا جائے گا اور اسکا کورٹ مارشل ہوگا کہ کیسے اسکی لا پرواہی کی وجہ سے ایک ڈانس کلب میں اسکا موبائل چوری ہوا جس میں خفیہ معلومات بھی تھیں اسکے ساتھ ساتھ دشمن ملک کا ایجینٹ ایک ڈانسر کی مدد سے ہندوستان کے کیپٹن کو لوٹ کر اسی کی جگہ انڈیا کی ایک ائیر لائن میں سفر کرتے ہوئے ممبئی جیسے شہر میں پہنچ گیا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ خبر کرنل وشال کو دینے کا مطلب تھا کہ کیپٹن مکیش کی آرمی سے چھٹی ۔ تبھی عین ٹائم پر کیپٹن مکیش نے کرنل کو انفارم کرنے کا ارادہ کینسل کر دیا اور اب وہ خود تہیہ کر بیٹھا تھا کہ ممبئی جا کر اب وہ خود میجر دانش کو پکڑَے گا اور انڈین آرمی کے سامنے پیش کرے گا۔ تاکہ اسکو کوئی نہ کوئی تمغہ دیا جائے اور اسکی آرمی میں پروموشن بھی ہوجائے۔



میجر دانش کا فون بند ہونے کے بعد اب امجد نے اپنے نیٹ ورک میں موجود مزید لوگوں سے رابطے شروع کیے اور ان سے کچھ اسلحہ و بارود وغیرہ اور ایک گاڑی کا مطالبہ کیا۔ کچھ ہی دیر میں امجد کو یہ چیزیں مہیا کر دی گئیں تھیں۔ میجر دانش کے فون کرنے کا مقصد یہی تھا کہ کرنل وشال اور اسکی ٹیم کو جونا گڑھ اور جامنگر میں ہی مصروف رکھا جائے اور دانش با آسانی ممبئی میں اپنا کام کر سکے۔ مطلوبہ چیزیں ملنے کے بعد رانا کاشف، سرمد اور امجد سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور آگے کیا کرنا ہے، کسطرح کرنا ہے یہ پلان کرنے لگے۔ بالآخر یہ طے پایا کہ ہم نے جو بھی کاروائی کرنی ہے اس میں کسی معصوم اور نہتے شہری کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، بلکہ جو بھی حملہ ہوگا وہ انڈین پولیس یا انڈین آرمی پر ہوگا۔ یہیں پر ایک میک اپ آرٹسٹ کو بھی بلا لیا گیا، رانا کاشف جو جسامت میں میجر دانش کے برابر ہی تھا اس کا سپیشل میک اپ کر کے اسے وہی لُک دی گئی جو میجر دانش کو میک اپ کے ذریعے دی گئی تھی جب وہ ریلائنس گیس پمپ پر فیول ڈلوا کر وہاں موجود ٹک شاپ والے کا موبائل اٹھا کر بھاگ گیا تھا۔ امجد نے اپنا سکھوں والا حلیہ تبدیل کر لیا تھا ، سر سے پگڑی اتاری ، درمیان سے مانگ نکالی، شلوار کےپائنچے ٹخنوں سے اوپر کر لیے، اب وہ کسی سردار کی بجائے کوئی مسلم مولوی اور دینی شخصیت لگ رہا تھا۔

ایک نئی ہنڈا سِٹی میں امجد اور رانا کاشف جونا گڑھ سے جامنگر کی طرف چلے گئے اور کچھ ہی دیر میں جونا گڑھ شہر سے نکل چکے تھے جب کہ جونا گڑھ میں انڈین آرمی نے سردار سنجیت سنگھ کی تلاش شروع کر دی تھی۔ سرمد جونا گڑھ میں ہی رک گیا اور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ایک وین میں راکٹ لانچر اور کچھ دوسرا اسلحہ چھپا کر آرمی ہیڈ کوارٹ کی طرف نکل گئے۔ آرمی ہیڈ کوارٹرز سے بہت پہلے ایک روڈ پر سرمد کو آرمی کی ایک جیب نظر آئی جو آرمی ہیڈ کوارٹر سے نکل کر شہر کی طرف جا رہی تھی۔ سرمد نے اپنی وین اس جیب کے پیچھے لگا لی اور کچھ ہی دور جا کر جب یہ جیب آبادی سے کچھ دور گئی تو سرمد نے وین کی روف کھول دی اور راکٹ لانچر لیکر جیب کا نشانہ لینے لگا۔

جیب کا ڈرائیور بھی کچھ دیر سے نوٹ کر رہا تھا کہ یہ وین شہر سے انکےپیچھے پیچھے آرہی ہے اور اب اسکی نظر پڑی تو وین کی روف سے ایک شخص راکٹ لانچر تھامے جیپ کو نشانہ بنائے کھڑا تھا، راکٹ لانچر پر نظر پڑتے ہی ڈرائیور کے اوسان خطا ہوگئے اور اسے اپنی موت سامنے نظر آنے لگی، ادھر سرمد نے جیپ کا نشانہ لیا اور راکٹ لانچر فائر کر دیا، راکٹ اپنے لانچر سے نکلا اور سیدھا آرمی جیپ کی طرف بڑھنے لگا، راکٹ فائر کرتے ہی سرمد کی وین کے ڈرائیور نے وین دائیں طرف موڑ لی اور شارپ ٹرن لیتے ہوئے واپسی کی طرف جانے لگا، اتنے میں ایک دھماکا ہوا اور آرمی کی جیپ ہوا میں اڑتی ہوئی 10 فٹ اوپر جا کر واپس سڑک پر آن گری ۔ سڑک پر پڑی جیپ کا ملبہ اب آگ کی لپیٹ میں تھا جبکہ جیپ سے کچھ ہی دور ایک آرمی ڈرائیور لڑھکتا ہوا سڑکی کی سائڈ پر گرین بیلٹ کی طرف جا رہا تھا۔ راکٹ فائر ہوتے ہی جیپ کے ڈرائیور نے دروازہ کھول کر نیچے چھلانگ لگا دی تھی۔

سرمد کی وین اب تیزی سے شہر سے مزید دور جا رہی تھی، وہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ انڈین آرمی کے ہاتھوں پکڑا جائے اور اسے معلوم تھا کہ میجر دانش کی تلاش میں سادہ کپڑوں میں بھی سی آئی ڈی اور آرمی کے اہلکار شہر میں موجود ہیں۔ اور اس واقعے کے بعد تو وہ اور بھی زیادہ ایکٹیو ہوجائیں گے ، کچھ ہی دیر میں شہر سے باہر غیر آباد علاقے میں جا کر سرمد اور ڈرائیور وین سے اتر گئے، وین انہوں نے سڑک سے دور موجود جنگل میں درختوں کے بیچ چھوڑی راکٹ لانچر ایک ڈبے میں رکھا جسکی بناوٹ ایسی تھی جیسے کسی بڑے پروفیشنل گٹار کا کور ہوتا ہے اسکے بعد اپنا تھوڑا سا حلیہ تبدیل کیا اور پینٹ شرٹ میں ملبوس گلے میں چین ڈالے ہاتھ میں گٹار کا باکس لیےروڈ پر موجود ایک پبلک بس میں بیٹھے اور دوبارہ سے جونا گڑھ کی طرف جانے لگے۔

یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور 2 منٹ بعد ہی کرنل وشال تک یہ خبر پہنچ گئی کہ آرمی کی ایک جیپ پر راکٹ لانچر سے حملہ کیا گیا ہے۔ اس خبر سے پورے آرمی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔ تینوں کرنل اور انکے نیچے باقی کا سٹاف فوری طور پر شہر میں پھیل گیا اسکے ساتھ ساتھ سی آئی ڈی کے افسران بھی شہر کی ہر سڑک، ہر گلی محلے میں پھیل گئے ۔ کرنل وشال کو اب یقین تھا کہ یہ کام میجر دانش کا ہی ہے اب وہ پاگلوں کی طرح جونا گڑھ کی سڑکوں پر میجر دانش کی تلاش کر رہا تھا۔ عام طور پر کرنل کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ مجرموں کی تلاش کرے، آرمی یہ کام اپنے جاسوسوں کے ذریعے کرتی ہے مگر اس معاملے میں کرنل وشال کو دانش پر اصل غصہ یہ تھا کہ اس نے انتہائی چالاکی سے کرنل کے ہی ہاتھوں اسکے اپنے اتحادی گروپ کا خاتمہ کروا دیا تھا اور اوپر سے اسکی قید سے نکل بھاگا تھا۔ اس لیے کرنل وشال بذاتِ خود اس مشن میں سپاہیوں کی طرح ہی میجر کی تلاش کر رہا تھا۔

دوسری طرف امجد جونا گڑھ سے نکل کر اب جامنگر شہر میں داخل ہونے والا تھا۔ مگر یہاں بھی اسکا مقصد کرنل وشال کو پریشان کرنا تھا۔ جونا گڑھ پہنچ کر اس نے دوبارہ سے سردار سنجیت سنگھ والا حلیہ اپنا لیا ، گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی سر پر پگڑی باندھی اور اپنی شلوار کا سٹائل چینج کرتے ہوئے سرداروں والا سٹائل اپنا لیا۔ جامنگر بائی پاس روڈ سے امجد اب ہائی وے نمبر 6 پر جا رہا تھا، امجد سردار سنجیت سنگھ کے حلیے میں جبکہ اسکے ساتھ موجود رانا کاشف میجر دانش کے اس حلیے میں موجود تھا جو اس نے ایک دن پہلے اپنایا تھا۔ ہائی وے نمبر 6 پر ریلائنس گیس پمپ پر پہنچ کر امجد نے گاڑی روکی اور رانا کاشف کو ساتھ لیکر ٹک شاپ میں اینٹر ہوگیا، اپنا سر جھکا کر دونو پہلے شاپ کے اندر گھومتے رہے اور ایک سی سی ٹی وی کیمرے کے سامنے جاکر اپنا چہر اوپر کیا تاکہ کیمرہ انکے چہروں کی ریکارڈنگ کر سکے، مگر کیمرے سے اپنا فاصلہ زیادہ رکھا تاکہ واضح طور پر پہچانا نہ جا سکے کہ رانا کاشف نے میک اپ کر رکھا ہے۔ اسکے بعد دونوں واپس ٹک شاپ پر بیٹھے شخص کی طرف گئے اور اب اپنا چہرہ اوپر رکھتے ہوئے اسکے پاس جا کر کھڑے ہوگئے اور امجد نے اسے ست سری اکال کہا۔

دوکاندار نے بھی اسکو جواب دیا اور پوچھا جی سردار جی کی چاہیدا اے تھوانو؟؟؟ ساتھ ہی اسکی پیشانی پر بل آئے اس نے امجد کو پہچان لیا تھا، اور ساتھ موجود رانا کاشف کے چہرے پر اسکی لمبی مونچھوں پر نظر پڑی تو وہ ایک دم اچھل پڑا اور ایک بڑی گالی دیتے ہوئے بولا کھڑ جاو ایتھے ای دونوں تھوانوں میں دساں چور ی کر دے او تسی۔۔۔ یہ کہ کر وہ امجد اور رانا کاشف کو پکڑنے کے لیے کاونٹر سے باہر آیا مگر ان دونوں نے اب باہر کی طرف دوڑ لگا دی اور اپنی گاڑی کی طرف جانے لگے۔ پیچھے سے دکاندار بھی چلایا پھڑلو اینہا دونا نوں۔ پھڑو پھڑو نس نا جان اے کتی دے بچے۔۔۔۔۔ اسکی یہ آوازیں سن کر پٹرول پمپ پر موجود ملازم بھی ان دونوں کی طرف لپکے مگر وہ فوری گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گئے اور جامنگر شہر میں داخل ہوگئے۔

جیسے ہی دونوں کی گاڑی پٹرول پمپ سے نکل گئی اور انکو پکڑنا ممکن نہ رہا، ٹک شاپ کا مالک دوبارہ سے اپنے کیبن میں آیا اور فوری سی آئی ڈی کے اے سی پی کو کال ملا کر بتایا کہ وہ کل والے دونوں چور آج پھر اسکی دکان پر آئے ہیں اور شہر کی طرف ایک کالی گاڑی میں بیٹھ کر بھاگ گئے ہیں۔ اے سی پی نے پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جو کل بھی آئے تھے؟؟؟ تو دوکاندار نے پورے اعتماد سے کہا کہ اسکو پورا یقین ہے وہ سردار بھی موجود تھا اور اسکے ساتھ وہ مونچھوں والا شخص بھی موجود تھا۔

ادھر کرنل نے جونا گڑھ میں وجود ایک بس کی تلاشی لینا شروع کی جو ایک بس سٹاپ پر کھڑی تھی۔ ایک ایک کر کے تمام لوگ بس سے اترنے لگے، انہی میں ایک لوکل سنگر بھی موجود تھا جس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی اور ہاتھ میں گٹار کا باکس تھا۔ وہ بھی چپ چاپ بس سے نیچے اتر آیا، اسکا ساتھی سمجھ گیا تھا کہ آج ہماری خیر نہیں۔ اور بھاگنے کی سوچ رہا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ یہاں سے بھاگنا بھی موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ جبکہ وہ سنگر جو اصل میں سرمد تھا بڑے اعتماد سے نیچے اتر آیا، سامنے کھڑے کرنل وشال کو اس نے نمستے کیا اور باقی لوگوں کی لائن میں کھڑا ہوگیا اور اپنا گٹار والا باکس نیچے زمین پر رکھ دیا۔ کرنل وشال ایک ایک شخص سے اسکا نام پوچھنے لگا، سرمد کے قریب آکر اس نے اسکا نام پوچھا تو سرمد نے اپنا نام وِجے ڈی سوزا بتایا اور بتایا کہ وہ ایک چھوٹا موٹا سنگر ہے جونا گڑھ میں موجود ایک سکول میں پرفارمنس کرنے کے لیے آیا ہے، کرنل نے اسکے گٹار باکس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا اس میں کیا ہے؟؟؟ سرمد نے مسکراتے ہوئے کہا سر سنگر ہوں تو گٹار ہی ہوگا نا گٹار باکس میں۔۔۔

کرنل وشال نے سرمد کو شکی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کھول کے دکھاو۔۔۔ اب سرمد کی جان پر بن آئی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نیچے کی طرف جھکنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا یہاں سے بھاگتے ہیں تو ان پولیس اہلکاروں کی گولیوں سے بچ نہیں سکیں گے اور اگر باکس کھول کر دکھا دیا تو اس میں موجود گٹار کی بجائے راکٹ لانچر دیکھ کر ہمیں فوری دھر لیا جائے گا۔ سرمد اب روڈ پر بیٹھ چکا تھا اور فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے۔ اگر کرنل وشال نے اسکو پکڑ لیا تو وہ اسکو بہت اذیت دے گا اور آخر میں مار ڈالے گا، اسکے بر عکس اگر وہ بھاگتا ہے تو بغیر کسی اذیت کے محض ایک گولی آئے گی اور سرمد کا خاتمہ کر دے گی۔ سرمد نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب وہ یہاں سے بھاگے گا اور گٹار باکس یہیں چھوڑ دے گا۔ آزادی کی موت مرنا دشمن کی قید میں مرنے سے بہتر ہے۔

اس سے پہلے کہ سرمد بھاگتا، کرنل وشال کے موبائل پر ایک کال آگئی، موبائل کی بیل سن کر سرمد نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو کرنل وشال کال اٹینڈ کر چکا تھا، کال اٹینڈ کرتے ہی کرنل بولا ہاں بولو اے سی پی کیسے فون کیا؟؟ آگے سے اے سی پی نے کوئی خاص خبر دی تو کرنل وشال کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح ہونے لگے اس نے پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ دانش ہی تھا؟؟؟؟ دانش کا نام سنتے ہی سرمد کی جان میں جان آئی، وہ سمجھ گیا تھا کہ رانا کاشف اور امجد اپنا کام کر چکے ہیں۔ فون پر کرنل کو آگے سے یقین دلایا گیا تو وہ اپنے بندوں کو فورا گاڑیوں میں بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے خود بھی اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا اور بس والوں کو ایسے ہی کھڑا چھوڑ دیا۔ اے سی پی نے کرنل کو بتایا تھا کہ میجر دانش اور وہ سردار ریلائنس گیس پمپ پر دوبارہ دیکھے گئے ہیں اور اس دوکاندار نے انہیں پہچان کر پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ دونوں بھاگ نکلے۔ کرنل اس خبر سے خاصا جھنجلا گیا تھا، لیکن دوسری طرف اب اسکو سمجھ لگ گئی تھی کہ انہیں میجر دانش کیوں نہیں ملا ابھی تک۔ اصل میں میجر دانش جامنگر سے نکلا ہی نہیں تھا۔ سردار سنجیت سنگھ اسی کا ساتھی تھا ، دانش جامنگر میں رکا اور سردار سنجیت سنگھ اکیلا ہی جونا گڑھ کی طرف روانہ ہوا، تاکہ کرنل کو چکمہ دے سکے کہ میجر دانش جونا گڑھ کی طرف گیا ہے۔ اور کرنل وشال کی سمجھ کے مطابق ابھی کچھ دیر پہلے ہونے والا راکٹ لانچر اٹیک بھی کرنل کو بہکانے کے لیے تھا کہ وہ سمجھے میجر دانش جونا گڑھ میں موجود ہے جبکہ وہ خود جامنگر پھر رہا ہے اور یہ اٹیک اس نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے کروایا ہے۔

اب کرنل وشال اپنی ٹیم کو لیکر دوبارہ سے جامنگر جا رہا تھا جبکہ وہ آرمی ہیڈ کوارٹر فون کر کے بتا چکا تھا کہ میجر دانش جونا گڑھ میں نہیں بلکہ جامنگر میں موجود ہے اور سردار سنجیت سنگھ اسکا ساتھی ہے۔ جبکہ میجر کے باقی ساتھی جونا گڑھ میں ہیں۔ اس نے آرمی ہیڈ کوارٹ میں ہدایات دیں کہ یہاں کی تمام فورس کو دانش کے ساتھیوں کو پکڑنے کے لیے الڑٹ کیا جائے جبکہ وہ خود دانش کو پکڑنے جامنگر جا رہا ہے۔

سرمد دوبارہ بس میں بیٹھ چکا تھا اپنے گٹار باکس کے ساتھ۔ شہر میں بس سے اتر کر وہ اپنے پرانے ٹھکانے گیا جہاں اسکے کچھ ساتھی موجود تھے۔ موت کے منہ سے بچ کر آنے والا سرمد اپنے ساتھیوں سے ملا اور وہ گٹار باکس انکے حوالے کیا، جسے لیکر وہ فوری گھر سے نکل گئے اور اپنے کسی اور خفیہ ٹھکانے کی طرف چلے گئے جہاں وہ اس گٹار باکس کو ٹھکانے لگا سکیں گے۔

کرنل وشال کا چھوٹا سا قافلہ دوبارہ سے جامنگر کی جانب جا رہا تھا۔ جامنگر ہائی وے نمر 6 پر پہنچ کر کرنل وشال اب کی بار خود اس ٹک شاپ والے سے ملا اور اسکے پاس موجود سی سی ٹیوی کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی اس میں واقعی سردار سنجیت سنگھ اور میجر دانش میک کیے ہوئے نظر آیا اسے۔ اب اسے یقین ہوگیا کہ میجر دانش نے کل سے آج تک کرنل وشال کو بہکایا ہی ہے اور وہ اپنی چالاکی اور مکاری سے کرنل جیسے شخص کو دھوکا دینے میں کامیاب رہا۔ مگر ایک غلطی وہ کر گیا کہ دوبارہ سے اسی پمپ پر آگیا اور پہچان میں آگیا، اب وہ کسی بھی صورت کرنل کے ہاتھوں سے بچ نہیں پائے گا۔ کرنل نے جامنگر کی ساری پولیس فورس اور وہاں موجود آرمی آفیسرز کو فوری طور پر پورے شہر میں پھیل جانے کو کہ دیا تھا اور ایک سردار اور بڑی مونچھوں والے آدمی کی تلاش کا حکم دیا تھا۔

رات کے قریب 2 بچ رہے تھے اور تمام پولیس والوں کی چھٹی کینسل کر کے انہیں فوری ڈیوٹی پر پہنچنے کا حکم دے دیا تھا۔ جامنگر کے شہر کے عین وسط میں کرنل وشال پولیس والوں کو ہدایات دے رہا تھا کہ ایک بار پھر سے اسکے موبائل پر گھنٹی بجی۔ کرنل نے موبائل کی طرف دیکھا تو ایک انجان نمبر سے کال تھی ۔ کرنل نے کال ریسیو نہیں کی اور ریجیکٹ کر کے دوبارہ سے پولیس والوں سے بات کرنے لگا۔ مگر ایک بار پھر اسے اسی نمبر سے کال موصول ہوئی تو اب کی بار کرنل نے کال ریسیو کر لی۔ آگے اجے کی آواز تھی، اجے کانپتی ہوئی آواز میں کرنل کو بتانے لگا انکل میں اجے بول رہا ہوں، ٹینا اور میں آج نائٹ کلب سے باہر آرہے تھے تو 4 غنڈوں نے ٹینا کو اغوا کر لیا ہے آپ پلیز فوری گھر آجائیں۔ ٹینا کے اغوا کا سنتےہی کرنل کا دماغ ماوف ہونے لگا۔ ایک طرف جونا گڑھ میں آرمی جیپ پر حملہ جس سے کرنل نے سوچا کہ دانش جونا گڑھ میں ہی موجود ہے، مگر پھر دانش کا جامنگر میں موجود ہونا اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے اسکا ثبوت ملنا، اور اب کرنل کی بیٹی کو اغوا کیا جانا، شاید اسکے پیچھے بھی میجر دانش کا ہی ہاتھ ہو۔ کرنل کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ وہ بالکل بے بس نظر آرہا تھا اور اسکے چہرے پر بے چارگی کے آثار واضح دیکھے جا سکتے تھے۔


نائٹ کلب سے دور نکل جانے کے بعد میجر دانش نے بیک ویو مرر میں دیکھا کہ کوئی انکا پیچھا تو نہیں کرر ہا؟؟؟ مگر وہاں کوئی موجود نیں تھا، پورا روڈ سنسان تھا۔ میجر نے ساتھ بیٹھی ٹینا کی طرف دیکھا جو خاصی ڈری ہوئی تھی اور اس نے گاڑی کی روف بھی بند کر دی تھی جو پہلے فولڈ تھی۔ میجر نے ٹینا سے پوچھا مِس آپکا گھر کہاں ہے میں آپکو گھڑ چھوڑ آتا ہوں؟؟ ٹینا نے ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے چہرے کے ساتھ دانش کی طرف دیکھا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی آرمی ریذیڈینشل کالونی۔ اس پر میجر نے حیران ہوتے ہوئے کہا اوئے باپ رے۔۔۔۔ کہیں واقعی میں آپکے پاپا آرمی میں کرنل تو نہیں؟؟؟ ٹینا نے میجر کی طرف دیکھا اور بولی ہاں وہ کرنل ہی ہیں۔ میجر دانش اب کی بار کانپتی ہوئی آواز میں بولا ارے م۔ ۔ ۔ میں تو۔ ۔ ۔ میں تو مذاق سمجھ رہا تھا۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپکے پاپا واقعی کرنل ہونگے۔ آپکو میں یہیں اتار دیتا ہوں آپ پلیز خود ہی اپنے گھر چلی جائیں۔

یہ سنتے ہی ٹینا ایک بار پھر سے خوفزدہ ہوگئی، اسکے ذہن میں ابھی تک غنڈوں کا خوف موجود تھا، اگر دانش وہاں نہ ہوتا تو اجے تو اسے اکیلا چھوڑ کر اپنی جان بچا کر جا چکا تھا۔ دانش نے گاڑی کی سپیڈ کم کرنا شروع کی تو ٹینا نے ایک دم سے میجرکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی نہیں پلیز ایسے مت کرو میں ابھی گاڑی ڈرائیو کرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں اور مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز مجھے میرے گھر تک چھوڑ دو۔ ۔۔۔ دانش نے کہا نہیں میڈیم آپکے پاپا تو مجھے پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے کہ میری بیٹی کو اغوا کروانے میں یہ بھی شامل ہوگا اور وہ میرے سے غنڈوں کے بارے میں تفتیش بھی کریں گے، ویسے بھی میں چھوٹے موٹے جرائم کرتا رہتا ہوں جیسے کبھی کسی کی جیب کاٹ لی تو کبھی کسی کا موبائل چرا لیا۔ آپکے پاپا مجھے کچھ نہ بھی کہیں تو پولیس کے حوالے تو ضرور کریں گے۔

اس پر ٹینا نے اسے تسلی دی کہ ڈرو نہیں میں پاپا کو کچھ نہیں بتاوں گی تمہارے بارے میں اور ویسے بھی وہ شہر میں نہیں ہیں کسی پاکیشا کے ایجنٹ کو پکڑنے کے لیے جامنگر گئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر دانش نے سکھ کا سانس لیا۔ دانش دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یار میں تو کمال کا ایکٹر ہوں ، پھر دانش نے اس سے گھر میں موجود اور لوگوں کے بارے میں پوچھا تو ٹینا نے بتایا کہ اسکی ماما کی ڈیتھ ہوچکی ہے اور وہ اپنے پاپا کی اکلوتی بیٹی ہے۔ گھر میں صرف چند ملازم ہونگے اور سیکیورٹی گارڈز ہونگے۔یہ سن کر دانش کو تھوڑا اطمینان ہوا کہ اسکی معلومات ٹھیک تھیں کہ کرنل کے گھر میں اسکی بیٹی اور ملازموں کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا۔

کچھ ہی دیر میں دانش گاڑی لیے اسی گلی میں مڑ گیا جہاں ٹینا کا گھر تھا، یہاں ٹینا دانش کو گائیڈ کررہی تھی اور اپنے گھر کے سامنے پہنچ کر ٹینا نے بریک لگانے کو کہا تو دانش نے گاڑی روک دی۔ اور بولا لو جی میڈیم آپکا گھر آگیا، اب آپ جانو اور آپکا کام میں تو چلا یہاں سے۔ ٹینا بولی ارے آپ کیسے جائیں گے واپس، رکیں میں اپنے کسی ملازم کو بھیجتی ہوں وہ آپکو چھوڑ آئے گا، یہ کہ کر ٹینا نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر گئی، دانش نے بھی فوری گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آیا، نیچے اترتے ہی دانش نے ہلکی چی چیخ مار ی اور سڑک پر گر گیا۔ ٹینا نے مڑ کر دیکھا تو دانش سڑک پر اپنی ٹانگ کی پچھلی سائڈ پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ کراہ رہا تھا۔ ٹینا بھاگتی ہوئی دانش کے پاس آئی اور بولی کیا ہوا؟؟؟ تو دانش نے کہا کچھ نہیں بس وہ آپکو بچاتے ہوئے ایک خبیث انسان نے خنجر مار دیا تھا ٹانگ میں ، اب اچانک ٹانگ پر وزن آیا تو اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور گر گیا۔ آپ فکر نہ کریں میں چلا جاوں گا۔

ٹینا بولی ارے نہیں ایسے کیسے۔ آپ نے میری جان بچائی اور میں آپکو ایسی حالت میں کیسے جانے دوں، آپ اٹھیں اور اندر آئیں میں آپکو ابتدائی طبی امداد دیتی ہوں اور کسی اچھے سے ڈاکٹر سے چیک اپ بھی کرواتے ہیں۔ یہی تو دانش چاہتا تھا کہ کسی طرح ٹینا کے ساتھ اسکے گھر میں داخل ہوجائے۔ مگر اسکے لیے اسے یہ ڈرامہ کرنا پڑا۔ گو کہ اسکی ٹانگ میں شدید درد تھی مگر اتنی بھی نہیں تھی کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر جائے۔ یہاں بھی دانش نے ایکٹنگ کی اور ٹِنا کو اپنے زخم کے بارے میں بتا دیا ۔ اس سے پہلے اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ دانش کو کوئی خنجر بھی لگا ہے۔ اسکے ذہن میں تو بس یہی تھا کو وہ غنڈے بہت خطرناک تھے اور اس شخص نے ٹینا کو عین وقت پر بچا لیا ہے آکر۔ ٹینا نے میجر دانش کو سہارا دیا اور میجر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنا وزن کسی حد تک ٹینا کے نازک جسم پر ڈال کر لڑکھڑاتے ہوئے ٹینا کے گھر میں جانے لگا۔ چوکیدار گیٹ پہلے ہی کھول چکا تھا، ٹینا اندر داخل ہوئی تو وہاں موجود ایک سیکورٹی گارڈ بھاگتا ہوا ٹینا کے قریب آیا اور بولا رکو رکو، تلاشی دو اپنی۔ میجر دانش اسکے لیے اجنبی تھا۔ اس لیے یہاں کسی بھی انجان آدمی کا آنا ممکن نہیں تھا۔ مگر یہ سیکیورٹی گارڈ جیسے ہی دانش کے قریب آیا ٹینا نے گھورتے ہوئے اسکو دیکھا اور بولی اندھے ہو کیا، دیکھتے نہیں وہ زخمی ہے۔ دفع ہوجاو ادھر سے۔ وہ سیکورٹی گارڈ ادب کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا اور بولا بی بی جی معافی چاہتا ہوں مگر صاحب کا حکم ہے کوئی بھی انجان شخص بغیر تلاشی کیے اندر نہیں جانا چاہیے۔ یہ سن کر دانش بولا آجاو یار لے لو تلاشی ۔ مگر ٹینا نے ایک بار پھر سیکورٹی گارڈ کو ڈانٹ پلا دی کہ یہ انجان نہیں میرے دوست ہیں۔ روڈ پر ایکسیڈ ینٹ میں زخمی ہوگئے ہیں اس لیے میرے ساتھ آئے ہیں جاو تم میں خود پاپا سے بات کر لوں گی۔ یہ کہ کر وہ دانش کو سہارا دیے مزید آگے بڑھ گئی اور گھر کا مین دروازہ بند کر کے اب دانش کو اپنے کمرے میں لیجا کر اپنے بیڈ پر لٹا دیا۔

دانش نے کراہتے ہوئے اپنی ٹانگ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور بیڈ پر رکھ لیا۔ وہ یہ ظاہر کروا رہا تھا کہ اسکی تکلیف اب برداشت سے باہر ہے۔ دانش کی ٹانگ سے کافی خون بھی نکلا تھا جو ٹینا کی گاڑی کو خراب کر چکا تھا اور اب بھی اسکی ٹانگ پر اور کپڑوں پر خون جما ہوا تھا۔ دانش کو بیڈ پر لٹا کر ٹینا فوری اپنی الماری کی طرف بڑھی اور اس میں سے فرسٹ ایڈ باکس نکال لائی۔ اس نے ایک قینچی سے دانش کی پینٹ کا نچلا حصہ کاٹ دیا اور دانش کو الٹا ہونے کو کہا۔ دانش الٹا ہوکر لیٹ گیا تو ٹینا نے پہلے دانش کی ٹانگ سے کپڑا سائیڈ پر ہٹا کر وہاں سپڑت لگا ئی اور جما ہوا خون صاف کیا، دانش نے سپرٹ لگنے پر ایک چیخ ماری اور پھر منہ بھینچ کر تکلیف کوبرداشت کرنے لگا۔ پھر ٹینا نے دانش کی مرہم پٹی کی اور ڈاکٹر کو فون کر دیا۔ یہ ڈاکٹر بھی آرمی کا ہی تھا اور کالونی میں اسکی رات کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ دانش نے ٹینا کو کہا کہ پلیز کسی کو میرے بارے میں کچھ مت بتائے میں کوئی بڑا مجرم نہیں بس چھوٹی موٹی چوری ہی کرتا ہوں جس سے پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوں۔ ٹینا نے دانش کو تسلی دی کہ تم فکر نہیں کرو تمہیں کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔

ابھی ٹینا دانش کو تسلی ہی دے رہی تھی کہ ٹینا کے موبائل پر بیل بجنے لگی۔ ٹینا نے اپنے پرس سے موبائل نکالا اور دانش کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اس وقت پاپا کا فون؟؟؟ یہ کہ کر ٹینا نے فون اٹینڈ کیا اور نمستے پاپا بولی تو آگے سے کرنل وشال کی گھبرائی ہوئی آواز آئی بیٹا تم ٹھیک تو ہو نا؟ کہاں ہو تم اسوقت ؟؟ ٹینا نے کہا کیا ہوا پاپا میں بالکل ٹھیک ہوں گھر پر ہوں۔ کرنل وشال نے پھر کہا بیٹا وہ اجے کا فون آیا تھا وہ کہ رہا تھا کہ کچھ سڑک چھاپ غنڈوں نے تمہیں اغوا کر لیا ہے ۔ اجے کا نام سنتے ہی ٹینا کے چہرے پر نفرت کے آثار نظر آںے لگے مگر پھر مسکراتے ہوئے بولی ارے پاپا کسی میں اتنی ہمت ہے بھلا کہ آپکی بیٹی کو اغوا کر سکے؟؟؟ کرنل بولا مگر بیٹا وہ اجے۔۔۔۔۔۔ ٹینا نے کہا پاپا آپ پریشان نہ ہوں، میں بالکل ٹھیک ہوں، ںائٹ کلب سے واپسی پر کچھ غنڈوں نے کوشش ضرور کی تھی مجھے اغوا کرنے کی انکے ہاتھ میں چاقو تھے، اور اجے نے چاقو دیکھ کر وہاں سے دوڑ لگا دی، مگر پھر وہاں موجود ایک بھلے انسان نے میری مدد کی اور مجھے ان غنڈوں سے چھڑوا کر مجھے گھر تک پہنچا دیا۔

یہ سن کر کرنل نے سکھ کا سانس لیا اور بولا بیٹا کون تھا وہ؟؟ ٹینا نے بتایا کہ وہ اسے جانتی نہیں مگر اس نے آپکی بیٹی کی جان بچائی ہے، اور اس کوشش میں وہ خود زخمی ہوگیا ہے، اسکو چاقو بھی لگا ہے اور اسکی ٹانگ سے بہت زیادہ خون بھی بہا ہے، اب وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتا۔ میں اسے گھر ہی لے آئی ہوں اور اس وقت اسے فرسٹ ایڈ دینے کے بعد ڈاکٹر سکسینا کو فون کر دیا ہے۔ وہ کچھ ہی دیر میں آکر اسکا معائنہ کر لیں گے۔ کرنل نے کہا بیٹا اس سے میری بات تو کرواو زرا۔ ٹینا نے فون دانش کی طرف بڑھا دیا۔ پہلے اس نے سوچا کہ بات نہ کرے۔ مگر پھر سوچا کہیں کرنل کو شک نہ ہوجائے کہ آخر وہ ٹینا کے باپ سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتا تو اس نے فورا ٹینا سے فون پکڑ لیا اور نمستے سر کہا۔ کرنل کی گرجتی ہوئی آواز آئی کون ہو تم اور تم وہاں غنڈوں کے بیچ کیا کر رہے تھے؟؟؟

میجر نے فوری کہا کہ سر میں بے روزگار انسان ہوں ساری ساری رات آوارہ پھرتا ہوں، نائٹ کلب میں میرا ایک دوست ویلے ہے تو میں کبھی کبھی اس سے ملنے چلا جاتا ہوں، آج بھی اسی سے ملنے گیا اور جب باہر نکلا تو دیکھا 4 غنڈے ایک معصوم لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جیسے ہی ایک غنڈہ میرے قریب سے گزرا میں نے اس سے چاقو چھین کر دوسرے غنڈے پر حملہ کر دیا جس نے ٹینا جی کو پکڑ رکھا تھا اور پھر انہیں بچا کر گھر پہنچا دیا۔ میں تو واپس جانا چاہتا تھا مگر ٹینا جی نے اصرار کیا کہ تم ایسے واپس نہیں جا سکتے پہلے ڈاکٹر سے معائنہ کرواو پھر میرا ڈرائیور تمہیں چھوڑ آئے گا۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میں ابھی واپس چلا جاتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ کرنل صاحب کی بیٹی ہیں۔

اب کی بار کرنل وشال ذرا دھیمی آواز میں بولا نہیں تم واپس نہیں جاو گے۔ بلکہ ادھر ہی رکو گے میرے آنے تک ۔ اور ٹینا کو کہیں باہر نہیں جانے دو گے۔ اور خود بھی بھاگنے کی کوشش نہ کرنا، میرے گھر میں اب چاروں طرف آرمی کے جوان الرٹ کھڑے ہیں کوئی بھی غنڈہ ادھر پر نہیں مار سکتا۔ تم ٹینا کے ساتھ رہ کر اسکی حفاظت کرو بدلے میں تمہیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا اور تمہیں نوکری بھی دی جائے گی، لیکن اگر ٹینا کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تمہاری سات نسلیں یاد رکھیں گی۔ یہ کہ کر کرنل نے فون بند کر دیا۔ دانش نے ٹینا کی طرف دیکھا تو وہ اسے گھور رہی تھی، دانش نے پوچھا کیا ہوا؟؟ تو ٹینا بولی تمہیں میرے نام کا کیسے پتا ہے؟ میں نے تو تمہیں اپنا نام نہیں بتایا۔۔۔۔ یہ سن کر دانش ہلکا سا مسکرایا اور بولا آپ تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے میں ان غنڈوں کا ساتھی ہوں اور کسی سازش کے ذریعے آپکے گھر تک پہنچا ہوں۔ ٹینا نے پھر کرخت لہجے میں پوچھا کہ یہ میرے سوال کا جواب نہیں تم بتاو کہی تمہیں میرا نام کیسے پتا ہے جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے تمہیں اپنا نام نہیں بتایا۔

اس پر میجر دانش بولا بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ایک مدد کرو کسی کی اور پھر خود ہی مجرم بھی بن جاو، یہ کہ کر دانش بولا میڈیم جی جب آپ ڈانس کلب میں ڈنس کر رہی تھیں اور اس اجے میاں کے ساتھ وہسکی کے سپ لے رہی تھیں تو میں اپنے دوست کے ساتھ وہیں موجود تھا اجے صاحب آپکو بار بار ٹینا ڈارلنگ ٹینا ڈالنگ کہ کر بلا رہے تھے، اور جب میں نے آپکو باہر غنڈوں کے نرغے میں دیکھا تو میں نے آپکو پہچان لیا کہ آپ وہی ہو جو کچھ دیر پہلے نائٹ کلب میں تھیں آپ مجھے اچھی لگی تھیں اور ویسے بھی ایک معصوم لڑکی کو 4 ہٹے کٹے غنڈے پکڑ کے کھڑے ہوں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا اس لیے آپکی مدد کی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا آپ مجھ پر ہی شک کرو گی۔ ایسی بات ہے تو میں چلتا ہوں یہاں سے اور آپکو ڈرائیور بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں جیسے تیسے کر کے میں خود ہی چلا جاوں گا۔ اب ٹینا شرمندہ ہوئی اور بولی نہیں نہیں آپ مت جائیں، آئی ایم سو سوری۔۔۔۔ اصل میں کرنل کی بیٹی ہوں نا تو انکی وجہ سے ہر کسی پر شک کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے، پلیز مجھے معاف کر دیں اور آرام سے بیڈ پر لیٹ جائیں۔ یہ کہ کر وہ دانش کے قریب آچکی تھی اور اسکی ٹانگ پکڑ کر دوبارہ آرام سے بیڈ پر رکھنے میں مدد کی۔ اندھا کیا مانگے 2 آنکھیں، دانش پہلے ہی اسکے گھر سے کب جانا چاہتا تھا یہ تو اس نے ایکٹنگ کی تھی، اور اجے کا ٹینا ڈارلنگ کہنا اس نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا جو ٹھیک نشانے پر جا کر لگا۔۔

کچھ دیر میں ڈاکٹر سکسینا آگئے انہوں نے دانش کا زخم دیکھا اور پھر انہیں اس زخم سے اوپر ایک اور زخم بھی نظر آیا جہاں دانش کو چاقو لگا تھا۔ یہ معمولی زخم تھا مگر بحرحال ایک خنجر کا زخم تھا، ٹینا کی نظر نہیں پڑی تھی اس پر، ڈاکٹ سکسینا نے مزید اوپر تک دانش کی پینٹ کو کاٹ دیا اور وہاں بھی مرہم پٹی کر دی، اسکے بعد دانش کو کچھ پین کلر گولیاں دین اور انفیکشن سے بچنے کےلیے اینٹی بائیوٹک گولیاں بھی دیں اور آرام کرنے کا مشورہ دیکر چلا گیا جبکہ ٹینا اور دانش اب بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے، دانش بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اور ٹینا اپنے اور اپنے پاپا کرنل وشال کے بارے میں دانش کو بتا رہی تھی۔ دانش نے ٹینا کے پاپا کی پیشہ وارانہ مصروفیات کے بارے میں پوچھنا شروع کیا کیونکہ دانش کا اصل مقصد تو کرنل وشال کے پلان کے بارے میں پتہ لگا نا تھا۔ ٹینا نے بتایا کہ میرے پاپا نے دشمن ملک پاکیشا کی خفیہ ایجنسیوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہ آج تک پاپا کو پکڑ نہیں سکے پاپا پاکیشا بھی جاتے ہیں ، وہاں کے پرانے دارالخلافہ میں ایک سیاسی جماعت پاپا کو ہمیشہ ویلکم کرتی ہے اور پاپا سے بھاری مراعات لیکر اپنے ہی ملک پاکیشا میں دہشت گردی کی واردادتیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاپا وہاں کے لوگوں کو آپس میں لڑواتے ہیں اور پاکیشا کی سیکورٹی فورسز کچھ نہیں کر سکتیں، نہ انہیں کبھی پاپا کے خلاف کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ ہی وہ کبھی اس بات کا پتہ لگا سکی ہیں کہ پاپا آخر پاکیشا کیا کرنے جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ پاپا وہاں پاکیشا کے ایٹمی اثاثوں کی معلومات کے لیے جاتے ہیں مگر وہ ہمارے دیش کے لیے خطرہ نہیں اس لیے ہمیں انکی معلومات کی بھی ضرورت نہیں مگر پاپا کا اصل مقصد تو کچھ اور ہی ہے اسکے بارے میں پاکیشا آج تک پتا نہیں لگا پایا؟

میجر دانش نے حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور ٹینا کے پاپا کی صلاحیتوں سے متاثر ہوتے ہوئے پوچھا کہ اور وہ اصل مشن ہے کیا؟؟؟ تو ٹینا نے کہا وہ تو مجھے بھی نہیں پتا بس اتنا پتا ہے کہ پاکیشا اپنے ایٹمی اثاثے پاپا سے بچانے میں لگی رہیتی ہے مگر پاپا وہاں جا کر اپنا کام کر کے آرام سے واپس آجاتے ہیں اور انہیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ آخر پاپا وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ پھر ٹینا نے میجر دانش کو اپنے پاپا کی بہادری کے کچھ قصے سنائے اور ہر قصّے پر میجر دانش متاثر ہونے کی ایکٹنگ کرتا رہا اور دل میں سوچنے لگا کہ اب زیادہ دیر تک کرنل وشال پاکیشا کی ایجینسیوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکے گا، عنقریب پاکیشا کی خفیہ ایجنسی اس کرنل وشال جیسے چوہے کو اپنے پاوں تلے روند دے گی جسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ جس شخص کو وہ جونا گڑھ اور جام نگر میں تلاش کر رہا ہے وہ اسکے اپنے گھر میں اسکی اکلوتی بیٹی کے بیڈ روم میں موجود ہے۔
میجر دانش کے کہنے پر تانیہ نے ٹینا کے قریب جا کر اسے ہلکا سا کندھا مارا تو اسکے ہاتھ میں موجود جام چھلکا اور وہسکی ٹینا کے کپڑوں پر گر گئی، ٹینا نے غصے سے دھکا دینے والے کو دیکھا مگر اسکی نظر تانیہ پر پڑی تو اسکا غصہ ٹھنڈا ہوگیا کیونکہ وہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے تانیہ کا دھماکے دار ڈانس دیکھ کر اسے داد دے چکی تھی، تانیہ نے بھی معذرت کرتے ہوئے مسکین سی شکل بنا لی، ٹینا کے ساتھ موجود اجے نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے تانیہ کو ڈانٹنا شروع کیا تو ٹینا نے روک دیا اور اِٹس اوکے کہتی ہوئی اجے کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگئی۔

تانیہ اب نائٹ کلب میں ہی موجود تھی اور سبھاش واش روم میں اپنے کپڑوں پر گری وہسکی صاف کرنے کے لیے گیا ہوا تھا، تانیہ کے لیے اب فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ وہ یہیں رہ کر سبھاش کا انتظار کرے یا پھر اسے باہر نکل کر ٹینا کے اغوا کی کوشش اور میجر دانش کا اسکو بچانے کے لیے میدان میں کودنے کے لائیو مناظر دیکھنے چاہیے۔ بالآخر تانیہ نے سوچا کہ آج میجر دانش کو ایکشن میں دیکھنا چاہیے اور وہ سبھاش کا انتظار کیے بغیر ہی نائٹ کلب سے نکل گئی۔ نائٹ کلب سے نکلتے ہی تانیہ کو اسکی گاڑی سامنے ہی مل گئی اور ایک ویلے نے اپنے دانت چمکاتے ہوئے تانیہ کی طرف گاڑی کی چابی بڑھائی، تانیہ نے ویلے کو پرس سے کچھ پیسے نکال کر ٹِپ کے طور پر دیے اور گاڑی ڈرائیو کرتی ہوئی ہجوم سے تھوڑا دور لے جا کر پارک کر دی، یہاں سے وہ واضح طور پر دیکھ سکتی تھی کہ ٹینا کو کچھ غنڈوں پکڑ رکھا ہے اور وہاں موجود ہجوم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ایک لڑکی کی مدد کر سکے۔ تانیہ کو میجر دانش بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ معلوم نہیں دانش نے اس سے سچ بولا تھا یا وہ واقعی میں ٹینا کو اغوا کروانا چاہتا ہے۔

لیکن پھر اسکی یہ کنفیوژن دور ہوگئی جب اس ہجوم کے درمیان سے میجر دانش آتا دکھائی دیا جو غنڈوں کو کہ رہا تھا کہ لڑکی کو چھوڑ دو اس بیچاری کا کیا قصور ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میجر دانش نے کسطرح سے ان چار غنڈوں پر حملہ کیا اور بغیر کسی ہتھیار کے ان چار غنڈوں سے ٹینا کو چھڑوا کر لے گیا، یہ سب کچھ تانیہ کے لیے حیرت انگیز تھا۔ اس سے پہلے اس نے امجد کو اور دوسرے ساتھیوں کو لڑتے دیکھا تھا مگر اتنی مہارت کسی میں نہیں تھی ، سب سے زیادہ جس چیز نے تانیہ کو متاثر کیا وہ میجر کا اپنے اوپر کنٹرول تھا، اس نے تب تک کوئی حملہ نہیں کیا جب تک اس غنڈے نے ٹینا کے گلے سے اپنا خنجر نہیں ہٹا لیا، اگر اس سے پہلے میجر دانش کسی بھی قسم کا ایکشن لیتا تو شدید خطرہ تھا کہ ٹینا کو نقصان پہنچتا میجر دانش کی احتیاط اور صبر کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا، اس نے صحیح موقع کا انتظار کیا اور موقع ملتے ہی بجلی کی سی تیزی سے چاروں غنڈوں کو بے بس کر دیا۔ اس دوران تانیہ نے دیکھا کہ میجر دانش کی ٹانگ میں چاقو بھی لگا ہے، یہ منظر دیکھ کر تانیہ کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہونے لگا، وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح بھاگ کر میجر کے پاس جائے اور اسکی مرہم پٹی کرے اسکی خدمت کرے، مگر ایسے موقع پر اسکو اپنے اوپر کنٹرول رکھنا تھا ورنہ میجر اور ٹینا کے ساتھ ساتھ خود تانیہ بھی مشکل میں پھنس سکتی تھی۔

جب میجر ٹینا کی گاڑی میں ٹینا کو وہاں سے لے گیا تو وہاں موجود لوگوں کی مردانگی بھی جاگنے لگی اور انہوں نے ان غنڈوں پر تھپڑوں اور لاتوں کی بارش کر دی، ہر کسی نے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا اور ان غنڈوں کو برا بھلا کہتے ہوئے اور میجر دانش جو انکے لیے انجان تھا اسکی بہادری اور جرات مندی کی تعریف کرتے ہوئے وہاں سے کھسکنے لگے۔ چاروں غنڈے اپنی اپنی جگہ موجود کراہ رہے تھے ان میں اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی تانیہ نے بھی گاڑی کو گئیر میں ڈالا اور تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل گئی جبکہ سبھاش تانیہ کو نائٹ کلب میں ڈھونڈنے کے بعد باہر آچکا تھا وہ اتنی سیکسی اور چکنی لڑکی کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا اسکا ارادہ تھا کہ وہ آج کی رات انجلی کے حسین بدن کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزارے گا مگر یہ چڑیا اسکے ہاتھ سے نکل گئی، اس نے بس تانیہ کو گاڑی میں بیٹھے وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا، ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ وہ تانیہ کے پیچھے جائے مگر جتنی دیر میں اسکو وہاں سے گاڑی نکالنے میں لگتی تب تک تانیہ بہت دور نکل چکی ہوتی، اس لیے سبھاش نے یہ پروگرام کینسل کیا اور اپنا سا منہ بنا کر واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
امجد اور کاشف ریلائنس گیس پمپ سے نکلنے کے بعد سیدھے جامنگر شہر میں داخل ہوگئے۔ اس دوران امجد نے دوبارہ سے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا تھا، پگڑی اتار کر اس نے راستے میں آنے والے ایک گندے نالے میں پھینک دی تھی اور اپنے بالوں میں دوبارہ سے کنگھا کر لیا تھا جبکہ کاشف کا بھی حلیہ درست کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی اسے میجر دانش سمجھ کر پکڑ ہی نہ لے۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد امجد کا رخ ایک تھانے کی طرف تھا ، یہ ایک چھوٹا سا تھانہ تھا جہاں پر عام طور پر زیادہ نفری موجود نہیں ہوتی تھی۔ امجد کا ارادہ اب یہاں حملہ کرنے کا تھا، تھانے سے کوئی 2 کلومیٹر پہلے امجد ایک ویران جگہ پر گاڑی روک کر کھڑا ہوگیا اور کسی کو فون پر اپنی لوکیشن کے بارے میں بتانے لگا۔ کافی دیر کے انتظار کے بعد وہاں امجد کو ایک ہائی روف آتی دکھائی دی۔ جب وین قریب آگئی توامجد گاڑی سے اتر کر وین کی طرف چلنے لگا، وین سے بھی 2 آدمی اترے، انہوں نے امجد کو سلام کیا اور امجد سے گاڑی کی چابیاں لیکر امجد کی گاڑی میں بیٹھ گئے جبکہ کاشف اور امجد اب ہائی روف میں بیٹھے تھے جس میں پیچھے 2 لوگ اور بھی تھے، امجد اور کاشف کو ان دونوں نے سلام کیا اور امجد گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس تھانے کی طرف بڑھنے لگا۔

تھانے سے 500 میٹر پہلے پولیس کی چیک پوسٹ پر امجد کو رکنے کا اشارہ کیا گیا جہاں ہندوستانی پولیس کے 2 اہلکار موجود تھے۔ گاڑی رکوا کر ان میں سے ایک اہلکار گاڑی کی طرف آنے لگا تو امجد اپنی ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اتر آیا اور آنے والے اہلکار سے ہاتھ ملا کر کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے گجراتی زبان میں بولنے لگا کہ سنتری صاحب میرے پاس لائسنس نہیں ہے کچھ لے دے کر معاملہ رفع دفع کرو۔ ویسے تو پولیس اہلکار گاڑی کی چیکنگ کرنے آیا تھا مگر امجد نے اس پر ایسا زبردست وار کیا کہ وہ گاڑی کو چیک کرنا بھول گیا اور امجد کو لائسنس کی اہمیت پر لیکچر دینے لگ گیا۔ امجد بھی شرمندہ شرمندہ منہ بنا کر ہاں جی ہاں جی کرتا رہا، وہ بھی جانتا تھا کہ یہ لیکچر تو بہانہ ہے اصل میں سنتری صاحب کو پتہ لگ گیا کہ انکے پاس لائسنس نہیں تو اب وہ پیسے کمانے کے چکروں میں ہے۔

امجد نے بھی لیکچر کے دوران ہی اسکی بات کاٹی اور جیب میں ہاتھ ڈال کر 200 کا نوٹ نکالا اور پولیس والے سے ہاتھ تھماتے ہوئے بولا آئندہ احتیاط کروں گا جی بس ابھی ذرا جلدی میں ہیں مہربانی کریں۔ پولیس اہلکار نے 200 روپیہ دیکھا اور امجد کو گالی دیتے ہوئے بولا ایک تو تیرے پاس لائسنس نہیں اوپر سے ہمیں 200 پے ٹرخا رہا ہے، ہمارے بھی بال بچے ہیں ہم نے بھی انکو پالنا ہے چل جلدی سے جیب ڈھیلی کر، 1000 کا چالان ہوتا ہے 500 دے اور چلتا بن ادھر سے۔ امجد نے جیب سے 100 کا نوٹ اور نکالا اور اسے دیتے ہوئے بولا کہ پورا دن کوئی سواری ہی نہیں ملی بس یہی کچھ ہے گزرا کر لو۔ سنتری صاحب نے 100، 100 کے تین نوٹ جیب میں ڈالے اور امجد کو کھسکنے کا اشارہ کیا، امجد نے فوری گاڑی چلائی اور تھانے کی طرف چل دیا جب کہ دوسرا پولیس اہلکار دوڑ کر اپنے ساتھی کے پاس گیا اور ان رشوت کے پیسوں میں سے اپنا حصہ لیکر اگلے شکار کا انتظار کرنے لگا۔

تھانے کے قریب پہنچ کر اسکے گیٹ پر امجد کو ایک بار پھر رکنے کا اشارہ ہوا مگر اس بار ہائی روف کا شیشہ کھلا اور اس میں سے ایک اے کے 47 نکلی اور سامنے موجود پولیس والوں پر تڑ تڑ کی آواز کے ساتھ گولیوں کی بوچھار ہوگئی۔ امجد سامنے موجود رکاوٹوں کی پرواہ کیے بغیر گاڑی کو تھانے کے اندر لے گیا جہاں موجود ایک تھانیدار اور 2 سپاہی اس حملے سے بے خبر خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ امجد اور اسکے ساتھیوں نے ان پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، کچھ ہی لمحے بعد پولیس اہلکاروں کی لاشیں تھانے کی حدود میں خون میں لت پت پڑی تھیں۔ امجد نے فوری کنٹرول روم سے چابیاں لیں اور وہاں موجود ایک لاکر سے اپنے کچھ ساتھیوں کو چھڑا کر ہائی روف میں بٹھایا اور فوری طور پر گاڑی ریورس کرتے ہوئے تھانے سے نکلے اور دوسری جانب چل دیے جہاں پر چیک پوسٹ پر موجود پولیس اہلکار گولیوں کی آوازیں سن کر اپنی گن اٹھائے تھانے سے دور بھاگ رہا تھا وہ جان گیا تھا کہ تھانے پر حملہ ہوا ہے ایسے میں بہادری کا ثبوت دینے کی بجائے اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور چیک پوسٹ چھوڑ کر وہاں سے دور بھاگنے لگا۔ امجد بھاگتے پولیس والے کو دیکھ کر مسکرایا اور گاڑی سپیڈ سے چلاتا ہوا شہر سے باہر جانے لگا۔

شہر سے باہر نکلتے ہوئے امجد کو آرمی کی گاڑیوں کا ایک چھوٹا قافلہ شہر میں داخل ہوتا ہوا نظر آیا، امجد سمجھ گیا تھا کہ میجر دانش کے جامنگر میں موجود ہونے کی اطلاع کرنل وشال تک پہنچ چکی ہے اور اب وہ اپنے لاو لشکر کے ساتھ جامنگر پہنچ گیا ہے، جہاں وہ یقینا اسی گیس سٹیشن پر بھی گیا ہوگا جہاں پر جامنگر داخل ہونے سے پہلے امجد اور کاشف رکے تھے اور سردار کو اپنا دیدار کروایا تھا تاکہ میجر دانش کے جامنگر میں موجود ہونے کی جھوٹی خبر سچی خبر بن کر کرنل وشال تک پہنچے۔ امجد کا یہ پلان کامیاب ہوگیا تھا اور اب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میجر دانش اصل میں ممبئی میں کرنل کے گھر موجود ہے۔ امجد نے اس تھانے پر حملہ کرنے کا منصوبہ بہت سوچ سمجھ کر بنایا تھا، یہاں کی پولیس کے بارے میں امجد کے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ یہ اپنے علاقے میں رہنے والے مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں اور بہت سے بے گناہ مسلمانوں کو تھانے میں بند کر رکھا ہے جبکہ مسلمان خواتین کے ساتھ بھی عصمت دری کے واقعات زبان زدِ عام تھے، اسکے علاوہ یہاں کا ایس ایچ او کسی زمانے میں سری نگر میں بھی تعینات رہا تھا جہاں اس نے بہت سے کشمیری شہریوں کو پاکیشا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے الزام میں سخت سزائیں دیں تھیں اور انکے پورے پورے خاندانوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ مناسب موقع دیکھ کر امجد نے ایک تیر سے دو شکار کیے تھے، اس نے اپنے کشمیری بھائیوں پر ظلم کرنے والے درندے کا بھی خاتمہ کر دیا تھا اور کرنل وشال کا دھیان بھی بٹا دیا تھا جو اب جامنگر میں میجر دانش کو ڈھونڈنے کے لیے دوبارہ سے جونا گڑھ سے جامنگر پہنچ چکا تھا۔ شہر سے کچھ دور نکل کر امجد کو دوبارہ سے اپنی وہی ہنڈا سٹی نظر آئی جو اس نے تھانے پر حملہ کرنے سے پہلے چھوڑی تھی۔ امجد نے اسکے قریب جا کر اپنی گاڑی روکی اور دوبارہ سے سواریاں تبدیل ہوئیں اور اب امجد اور کاشف اپنی کار میں بیٹھ کر دوبارہ سے جامنگر جا رہے تھے۔

رات کے 2 بجے امجد اور کاشف اسی ڈانس کلب میں موجود تھے جہاں کل رات تانیہ نے اپنے حسن کا جلوہ دکھایا تھا اور کیپٹن مکیش اس جلوے کے ہاتھوں لُٹ گیا تھا۔ امجد کے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہیں تھا اسکا پرانہ ٹھکانہ تباہ ہوچکا تھا اور وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں تھا جبکہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے پاس جانا بھی انکو خطرے میں ڈالنے کے برابر تھا کیونکہ اگر یہ دونوں کسی اور ساتھی کے ساتھ پکڑے جاتے تو وہ بھی بلا سبب پھنس سکتے تھے، اسی لیے امجد نے اسی ڈانس کلب کا رخ کیا جہاں کا مینیجر اس سے واقف تھا مگر وہ امجد کو صرف ایک تماش بین کی حیثیت سے ہی جانتا تھا جو تانیہ کے ساتھ کبھی کبھار اس ڈانس کلب کا رخ کرتا تھا۔

امجد کاشف کو ساتھ لیے اسی ڈانس کلب میں چلا گیا اور مینیجر سے ملنے کے بعد ڈانس ہال میں جولی کا گرما گرم ڈانس کرنے کے بعد دونوں ہی مینیجر کے دیے گئے ایک کمرے میں جا کر سوگئے۔ 2، 3 دن کی تھکاوٹ اور اعصابی تناو کی وجہ سے دونوں کو جلد ہی نیند آگئی اور انکی اگلے دن ہی آنکھ کھلی۔
گو کہ کیپٹن مکیش کی فلائٹ اگلی رات کی تھی مگر صبح ہوتے ہی اسے کرنل وشال کا فون آیا، کرنل نے پہلے تو کیپٹن سے پوچھا کہ اسکا نمبر کیوں آف جا رہا ہے جس پر کیپٹن مکیش نے بڑی ڈھٹائی سے فون خراب ہونے کا بہانہ بنا دیا، اسکے فورا بعد کرنل وشال نے کیپٹن مکیش کو کل رات ہونے والے واقع کے بارے میں اطلا دی اور کیپٹن مکیش کو کہا کہ وہ فوری کرنل کے گھر جا کر اسکی بیٹی کی خیریت جان کر کرنل وشال کو دوبارہ رپورٹ کرے۔ کرنل نے کیپٹن کو ٹینا کے اغوا کی کوشش اور پھر کسی انجان شخص کا اسکو بچا کر گھر پہنچانے کا پورا واقعہ سنا دیا تھا۔ کرنل وشال کے نزدیک کیپٹن اس وقت ممبئی میں ہی موجود تھا کیونکہ ایک دن پہلے صبح کے ٹائم اس کی ممبئی واپسی تھی مگر اس فلائٹ میں کیپٹن کی بجائے میجر دانش اور تانیہ گئے تھے اور کیپٹن مکیش ڈانس کلب میں بے ہوش پڑا تھا۔ کرنل وشال کے فون پر کیپٹن نے بجائے اسے یہ بتانے کے کہ وہ ابھی تک جامنگر میں ہی ہے فوری کہ دیا کہ اسکے ہاں مہمان آئے ہیں وہ کچھ ہی دیر میں انکو کھانا کھلا کر ٹینا کی خیریت معلوم کرتا ہے۔

فون بند کرنے کے بعد کیپٹن مکیش نے فوری اپنی پتنی کو تیاری کرنے کا کہا اور کچھ ہی دیر بعد ایک پرائیویٹ جیٹ کے زریعے وہ ممبئی کی طرف جا رہا تھا۔ ممبئی پہنچتے ہی سب سے پہلے وہ کرنل وشال کے گھر گیا اور وہاں جا کر گارڈ سے ٹینا کے بارے میں پوچھا تو گارڈ نے انٹر کام پر ٹینا سے بات کی اور مکیش کے آنے کی اطلاع دی۔ ٹینا نے گارڈ سے کہا کہ مکیش کو گیسٹ روم میں بٹھائے وہ وہیں آتی ہے۔ گارڈ نے ٹینا کی بات سن کر کیپٹن مکیش کو گیسٹ روم میں بٹھا دیا جہاں کیپٹن مکیش ٹینا کا انتظار کرنے لگا۔ وہ ٹینا کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھا، شادی شدہ ہونے کے باوجود کیپٹن مکیش ٹینا کو پسند کرتا تھا اسکی ابھرتی جوانی کا حسن ہمیشہ اسکی پینٹ میں موجود لن کو کھڑا ہونے پر مجبور کر دیتا تھا مگر کرنل کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اس نے کبھی ٹینا پر لائن مارنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

محض 3 منٹ کے انتظار کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور ٹینا اپنے مخصوس سلیپنگ ڈریس میں کمرے میں آگئی، کالے اور سرخ رنگ کا ڈھیلا ڈھالا سلکی سلیپنگ گاون ٹینا کے جسم کے ابھاروں کو کافی واضح کر رہا تھا ، ٹینا کے اندر آتے ہی کیپٹن مکیش اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور ٹینا کو پرنام کیا۔ ٹینا نے بھی ہاتھ جوڑ کر مکیش کو پرنام کیا اور مکیش کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ ٹینا کے بیٹھتے ہی مکیش نے ٹینا سے رات والے واقع کے بارے میں دریافت کیا اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے ٹینا کی خیریت دریافت کی۔ ٹینا نے ایک لمبی جمائی لی ، اسکی آنکھوں میں ابھی تک نیند کا خمار تھا۔ مکیش کے سوال پر ٹینا نے بتایا کہ ایسا کوئی خاص واقع نہیں تھا کچھ اناڑی لوگوں کی طرف سے یہ حرکت کی گئی تھی مگر وہاں موجود ایک نوجوان نے عین ٹائم پر مداخلت کر کے ان غنڈوں کو ڈھیر کر دیا اور ٹینا کو بچا کر خیریت سے گھر پہنچا دیا۔

مکیش نے مزید کچھ کریدنے کے لیے ٹینا سے سوال پوچھنا شروع کیے تو ٹینا نے بے زاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کہا کہ چھوڑو آپ ان باتوں کو آپکا یہاں کیسے آنا ہوا؟ مکیش نے بتایا کہ اسکو ٹینا کے پاپا نے بھیجا ہے تاکہ وہ ٹینا کی خیریت معلوم کر سکے اور اس نوجوان سے بھی مل سکے جس نے ٹینا کو غنڈوں سے بچایا ہے۔ اسکی بات سن کر ٹینا نے کہا عمران تو ابھی سو رہا ہے، کافی زخمی ہوگیا تھا ساری رات درد سے کراہتا رہا ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسکی آنکھ لگی ہے ابھی اسے سونے دو شام میں آکر مل لینا ، اور یہ بتاو پاپا کیسے ہیں؟ انکو ابھی تک وہ پاکیشا کا ایجنٹ ملا یا نہیں؟ اس پر کیپٹن مکیش نے کہا چلیں جیسے آپکی مرضی میں شام میں آکر اس سے مل لوں گا، اور کرنل صاحب بالکل ٹھیک ہیں۔ امید ہے جلد ہی اس ایجنٹ کی گردن آپکے پاپا کے ہاتھ میں ہوگی۔ اب ٹینا اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور بولی چلو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں مجھے بھی ابھی بہت نیند آرہی ہے، میں ملازم کو کہتی ہوں وہ آپکے سیوا کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر دے گا۔ اس پر کیپٹن مکیش بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور بولا نہیں اسکی ضرورت نہیں میں بھی چلتا ہوں، کرنل صاحب نے میرے ذمے کچھ ضروری کام لگائے ہیں وہ کرنے ہیں۔ میں پھر شام کو چکر لگاوں گا۔ اسکے بعد کیپٹن نے ٹینا کو اپنا خیال رکھنے کو کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

باہر نکل کر کیپٹن فوری طور پر اپنے آفس گیا اور وہاں جاتے ہی سب سے پہلے اپنے گم شدہ فون کو ٹریس کرنے کی کوشش کی۔ کچھ ہی دیر کی کوشش کے بعد کیپٹن کو اپنے فون کی موجودہ لوکیشن اور اسمیں استعمال ہونے والی سم کے بارے میں معلومات مل گئیں۔ اور پھر سم کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس وقت یہ موبائل کہاں پر استعمال ہورہا ہے۔ کیپٹن نے فوری طور پر اپنے 2 با اعتماد لوگوں کو مطلوبہ ایڈریس پر بھجوا دیا اور انکو سم کے مالک کی معلومات دیکر کہا کہ اس آدمی کو فوری اٹھا لاو۔ کیپٹن کے حکم پر اسکے 2 فوجی جوان فوری مطلوبہ جگہ روانہ ہوگئے جبکہ کیپٹن مزید ان نمبرز کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے لگا۔ اپنے موبائل کے گم ہونے کو بعد اب تک اس میں 2 مختلف نمبرز استعمال کیے گئے تھے۔ اور یہ دونوں نمبرز ممبئ کے ہی تھے۔ اور اسکا موبائل بھی ممبئی میں ہی موجود تھا۔

اس سے کیپٹن کو اتنا تو یقین ہو ہی گیا تھا کہ اس نے میجر دانش کو صحیح پہچانا ہے ائیر پورٹ پر اسکے حلیے میں جانے والا شخص کوئی اور نہیں میجر دانش ہی تھا اور اسکے ساتھ وہ لڑکی تانیہ ہی تھی جو اسکو ڈانس کلب میں ملی تھی۔ اب کیپٹن نے پچھلی صبح کے وقت موبائل میں استعمال ہونے والی سم کی معلومات بھی نکال لیں اور اس سم کے مالک کو بھی اٹھانے کے لیے اپنی ایک ٹیم روانہ کر دی۔ موبائل میں فی الوقت موجود سم سے کوئی کال نہیں کی گئی تھی جبکہ اس سے پہلے والی سے سم کچھ کالز کی گئی تھیں۔ کیپٹن نے ان کالز کو ٹریس کرنا شروع کیا تو یہ سب کے سب نمبرز ممبئی کے انڈر ورلڈ گینگ کے تھے۔ یقینا انہی میں سے کوئی گینگ ہوگا جسکے ذریعے میجر دانش نے کرنل وشال کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ کیپٹن نے تمام کالز کا ریکارڈ چیک کیا توجس وقت ٹینا کو اغوا کیا گیا اس سے کچھ دیر پہلے ایک مخصوص نمبر سے کالز موصول بھی ہوئی تھیں اس نمبر پر اور کال کی بھی گئی تھی۔ کیپٹن نے ان نمبرز کو بھی ٹریس کر لیا اور فوری طور پر اپنی 10 فوجی جوانوں کی ٹیم کو سی آئی ڈی کے ہمراہ اس انڈر ورلڈ گینگ کے بڑے بڑے ناموں کو گرفتار کرنے کے لیے بھجوا دیا۔

اس کام سے فارغ ہوا تو کیپٹں کے بھیجے ہوئے پہلے دو آدمی ایک نوجوان کو پکڑ کر لا چکے تھے۔ یہ ایک 18 سالا نوجوان تھا شکل سے کسی غریب آبادی میں رہنے والا غریب شخص معلوم ہوتا تھا۔ یہ شکل سے کسی بھی طرح کوئی بڑا جرائم پیشہ یا پاکیشا کا ایجنٹ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کیپٹن نے اس لڑکے سے اسکا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام انیل شرما بتایا۔ اسکی آواز کانپ رہی تھی اور وہ نام بتاتے ہی کیپٹن کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا صاحب میں نے کچھ نہیں کیا مجھے تو یہ موبائل سڑک پر پڑا ملا تھا میں نے اٹھا لیا میں نے چور نہیں کیا۔ کیپٹن نے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اپنا آدھا کلو کا ہاتھ اسکے منہ پر جڑ دیا۔ کیپٹن کے ایک ہی تھپڑ سے وہ دبلا پتلا لڑکا گھومتا ہوا دور جا گرا اور اسکے منہ سے خون نکلنے لگا۔ شاید اسکے کچھ دانت ٹوٹ گئے تھے۔ کیپٹن نے پھر اسکو کھڑا کیا اور گالی دیتے ہوئے بولا بول سالے کہاں سے ملا تجھے یہ موبائل۔۔۔ اس بار لڑکے کی آواز میں پہلے سے زیادہ خوف اور کپکپاہٹ تھی اسنے بتایا کہ وہ ممبئی کے ایک کچے علاقے کا رہائشی ہے اور صبح صبح سڑکوں سے کوڑا اٹھانے کا کام کرتا ہے۔ آج بھی جب صبح کے 5 بجے وہ ایک سڑک سے کوڑا اکٹھا کر رہا تھا تو سڑک کی ایک سائیڈ پر اسے یہ موبائل ملا ۔ اس نے موبائل اٹھا کر جیب میں ڈال لیا۔ کچھ دیر بعد اس پر کالز آنے لگ گئیں تو اس نے وہ سم نکال کر پھینک دی اور اپنی سم اس میں ڈال لی۔

کرنل نے اس لڑکے کو ایک اور جھانپڑ رسید کیا اور بولا اور بھی بتا تجھے کیا معلوم ہے ان غنڈوں کے بارے میں جنہوں نے کرنل صاحب کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی؟؟؟ اب وہ لڑکا گڑگڑانے لگا اور کیپٹں کے قدموں میں گر کر معافیاں مانگنے لگا، اسکی زبان پر ایک ہی بات تھی صاحب میں کچھ نہیں جانتا، میں نے کسی کرنل صاحب کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش نہیں کی نہ ہی میرا تعلق غنڈوں سے ہے میں تو ایک غریب انسان ہوں محنت مزدوری کر کے اور سڑکوں سے کوڑا اٹھا کر اپنا گزر بسر کرتا ہوں۔ میں نے کچھ نہیں کیا صاحب۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ ۔ ۔ ۔

کیپٹن کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ لڑکا بے گناہ ہے ۔ اور اسکی بتائی گئی جگہ بالکل علیبی نائٹ کلب کے سامنے والی جگہ تھی جہاں کل رات ٹینا کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ اگر یہ موبائل دانش کے پاس تھا تو وہ بھی ٹینا کو اغوا کرنے کی کوشش میں شامل تھا اور تبھی اسکی جیب سے یہ موبائل سڑک پر گر گیا ہوگا، اور ایک بھلے شخص کی مداخلت کے باعث اسکو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ کیپٹن نے اس لڑکے کو دو چار گالیاں اور سنائیں اور اپنے جوانوں سے کہا کہ اسکو تب تک قید رکھو جب تک ہمیں میجر دانش کا کوئی سراغ نہیں مل جاتا۔ دونوں فوجی اس لڑکے کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور وہ گڑگڑاتا رہا، معافیاں مانگتا رہا مگر کیپٹن نے اسکی ایک نہ سنی۔

اسکے جانے کے بعد کیپٹن نے ٹھنڈے پانی کے 2 گلاس پیے تاکہ اسکا غصہ کچھ کم ہوسکے مگر کچھ ہی دیر میں دوسری ٹیم اس شخص کو پکڑ لائی جسکی سم پچھلی صبح کو موبائل میں استعمال ہوئی اور اسکے ذریعے غنڈوں سے رابطہ بھی کیا گیا تھا۔ جیسے ہی کیپٹن مکیش کی نظر اس شخص پر پڑی وہ اپنے آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے فوری طور پر اس شخص پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ کیپٹن مکیش اصل میں تانیہ کا غصہ ان لوگوں پر نکال رہا تھا۔ وہ شخص چلاتا رہا اور معافیاں مانگتا رہا مگر کیپٹن مکیش کو بالکل بھی ترس نہ آیا۔ جب اسکی خوب درگت بن چکی اور کیپٹن مکیش بھی مار مار کر نڈھال ہوگیا تو وہ اپنی کرسی پر واپس جا کر بیٹھ گیا۔ آنے والا شخص اب نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا، اتنی مار کھا کر اس میں بولنے کی اور ہلنے جلنے کی سکت نہیں تھی بس وہ ہولے ہولے سانس لے رہا تھا۔ کیپٹن نے ایک فوجی جوان کو کہا کہ بھڑوے کو پانی پلاو جلدی تاکہ یہ میرے سوالوں کے جواب دے سکے۔ کیپٹن کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور اسے پانی پلایا گیا۔ کوئی 10 منٹ بعد اس شخص کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو کیپٹن نے پوچھا کہ بتاو کون ہو تم اور میجر دانش کو کیسے جانتے ہو؟ اس پر اس شخص نے اپنا نام اور پتا بتایا اور کہا کہ وہ کسی میجر دانش کو نہیں جانتا، یہ نام وہ پہلی بار سن رہا ہے۔

پھر کیپٹن نے پوچھا کہ میرا موبائل تمہارے پاس کیسے آیا؟ اس پر اس شخص نے بتایا کہ اسکے پاس کوئی موبائل نہیں وہ تو محض اپنا ہی ایک سستا سا موبائل استعمال کرتا ہے اس موبائل کے علاوہ اور کوئی موبائل اسکے پاس نہیں۔ کیپٹن نے ایک دو تھپڑ مزید رسید کیے اور بولا کہ جو پوچھ رہا ہوں سچ سچ بتا ورنہ تیری بوٹیاں نوچ کر کتوں کے آگے پھینک دوں گا۔ اس پر اس شخص نے ہاتھ جوڑ کر اور روتے ہوئے کیپٹن مکیش کو بتایا کہ صاحب میں بھگوان کی سوگند کھا کر کہتا ہوں میں کسی میجر دانش کو نہیں جانتا اور نہ ہی آپکا کوئی موبائل میرے پاس رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس شخص کی بات مکمل ہوتی 2 تھپڑ مزید اسکے چہرے پر اپنا نشان چھوڑ گئے۔ اب کی بار کیپٹن مکیش نے دھاڑتے ہوئے اسے اسکا موبائل نمبر بتایا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ تمہارے اس نمبر سے ایک اتنگ وادی نے کرائے کے غنڈوں کے ذریعے ہمارے کرنل صاحب کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ہے جسکو ہم نے ناکام بنا دیا ، مگر وہ اتنگ وادی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، اسکے ساتھیوں کے ذریعے ہم اسکو ڈھونڈ لیں گے، اب جلدی بولو کیسے جانتے ہو تم میجر دانش کو اور وہ کہاں ملے گا۔

کیپٹن کی بات سن کر اس شخص نے کچھ گہرے سانس لیے اور بولا صاحب میں آپکو پوری بات بتاتا ہوں، مجھے کچھ پانی پلا دیں پہلے۔ اسکی یہ بات سن کر کیپٹن مکیش نے اسکے منہ پر تھوک دیا اور بولا چل پی لے یہ پانی۔۔۔۔ وہ شخص اپنا سا منہ لیکر زمین کی طرف دیکھنے لگا، اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اسکو اتنی زلت اٹھانا پڑے گی۔ اب کیپٹن نے ایک فوجی کو اشارہ کیا اور اس نے پانی کا ایک گلاس اس شخص کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے پانی دیکھا اور ایک ایک گھونٹ کر کے پینے لگا۔ وہ اپنا سانس بحال کر رہا تھا تاکہ کیپٹن کو سب کچھ بتا کر اس مصیبت اور زلت سے نجات حاصل کر سکے۔ پانی پینے کے بعد اس نے کیپٹن کو بتایا کہ صاحب یہ نمبر میرا ہی ہے۔ مگر میں نے کل صبح اپنا یہ نمبر ایک بھلے شخص کو بیچ دیا تھا۔ میں کل صبح بس سٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا تھا تو میرے نزدیک ایک ٹیکسی آ کر رکی۔ اس میں سے ایک شخص نیچے اترا اور میری طرف آیا اس نے بتایا کہ وہ باہر کے ملک سے ابھی ابھی انڈیا پہنچا ہے تو اسکو ایک کال کرنی ہے۔ اسکے پاس ایک اچھا سا موبائل تھا مگر سم نہیں تھی تو اس نے میرے موبائل سے کال کری تھی۔ فِر اس نے کال کرنے کے بعد مجھ سے میری سِم مانگی تو میں نے انکار کر دیا، اس نے کہا کہ وہ مجھے 1000 روپیہ دے گا۔ مگر میں نے فِر بھی سیم نہیں دی اسے۔ فِر اس نے مجھے 1500 کا اور فِر 2000 کا کہا۔ میں نے سوچا کہ بے چارہ مجبور ہے اسکو جلدی سم چاہیے اور میری بھی بیٹی کی طبیعت خراب تھی اسکے علاج کے لیے کچھ پیسے چاہیے تھے تو میں نے سوچا دونوں کا فائدہ ہے میں نے اپنی وہ سِم 2000 میں اس شخص کو دے دی۔ اسکے بعد وہ شخص واپس ٹیکسی میں بیٹھ کر چلا گیا۔

اسکے بعد اس شخص نے کس کس کو کال کری میں نہیں جانتا میں تو اپنی بیٹی کو لیکر اسپتال چلا گیا تھا۔ تاکہ اسکا علاج کرا سکوں۔ میرے کو کیا پتا تھا کہ میری سِم کا وہ غلط استعمال کرے گا۔ اسکی بات مکمل ہونے پر کیپٹں مکیش نے غراتے ہوئے اس سے پوچھا اس شخص نے اپنا نام کیا بتایا تھا؟؟؟ اور جس ٹیکسی میں وہ گیا اسکا نمبر کیا تھا۔؟؟ کیپٹن کے سوال کے جواب میں وہ پھر سے بولا صاحب ٹیکسی کا نمبر تو ہمارے کو نہیں پتا مگر اس ٹیکسی میں اسکے ساتھ ایک میم صاحب بھی موجود تھیں جو کافی ماڈرن تھی اور اس صاحب نے اپنا کوئی نام نہیں بتایا تھا۔ اب کی بار کیپٹن مکیش نے پوچھا وہ دکھنے میں کیسا لگتا تھا۔ کیپٹن کا سوال سن کر وہ شخص سوچ میں پڑ گیا کہ کیسے بتائے پھر اس نے کیپٹن کے چہرے کو غور سے دیکھا اور اسکی حیرانی بڑھتی گئی۔ اب کی بار وہ ہکلاتے ہوئے بولا ار ۔۔۔۔ اررےےے صاا۔۔۔۔۔۔ صاحب۔۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔ ایک دم آپ ۔۔۔ آپ جیسا دکھتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ کیپٹن نے اسکو پھر سے ایک تھپڑ رسید کیا اور بولا سالے جھوٹ بولتا ہے پاگل بناتا ہے مجھے۔ 10 منٹ تجھے قید خانے میں سزا ملے گی تو سب کچھ پانی کی طرح اگلے گا تو۔ یہ کہ کر کیپٹن مکیش نے اپنے ساتھیوں کو کہا اسے بھی اسی کوڑا اٹھانے والے کے ساتھ قید کر دو اور جب تک یہ میجر دانش کے بارے میں مزید معلومات نہ دے اسکو چھوڑنا نہیں۔

وہ شخص تو چلا گیا مگر کیپٹن مکیش سمجھ گیا تھا کہ یہ سچ بول رہا ہے۔ کیونکہ اسے یاد تھا ائیر پورٹ والی ویڈیو دیکھ کر ایک بار تو کیپٹن مکیش بھی اپنے آپ کو ائیر پورٹ پر دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ مگر پھر اسے احساس ہوا تھا کہ یہ میجر دانش ہی ہوسکتا ہے جو اسکے حلیے میں ائیر پورٹ سے ممبئی چلا آیا تھا۔ اب کیپٹن کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ بالکل صحیح سمت میں جا رہا ہے اور جلد ہی اسکے ہاتھ میجر دانش کی گردن پر ہونگے۔ اس شخص کے جاتے ہی کیپٹن مکیش نے ممبئی ائیر پورٹ کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج منگوا لی اور سپیشل ہدایت کی کہ ائیر پورٹ سے باہر جہاں ٹیکسی میسر ہوتی ہے ان تمام کیمروں کی ویڈیوز جلد سے جلد مہیا کی جائیں۔ ایک گھنٹے میں کیپٹن کو وہ ویڈیوز مل چکی تھی اور اس فلائیٹ کے ٹائم کے مطابق کیپٹن نے وہ ویڈیوز دیکھنا شروع کیں۔ محض 5 منٹ کی محنت کے بعد ایک کیمرے کی ویڈیو میں کیپٹن کو میجر دانش اور تانیہ نظر آئے۔ کیپٹن مکیش ایک لمحے کے لیے پھر سے اپنے آپکو دیکھ کر حیران ہوا مگر پھر اسے فورا ہی احساس ہوگیا کہ یہ میجر دانش ہے اسکے حلیے میں ۔

کیپٹن مکیش نے اپنی آئی ٹی ٹیم کی مدد سے ویڈیو کے اس حصے کے جس میں میجر دانش اور تانیہ ٹیکسی میں بیٹھ رہے تھے مختلف فریمز بنوائے اور پھر ایک ایک کر کے ان فریمز کو دیکھنے لگے۔ جلد ہی ایک فریم میں انہیں ٹیکسی کا نمبر مل گیا۔ ٹکیسی کا نمبر ملتے ہی کیپٹن مکیش نے ممبئی شہر کی پولیس کو ہدایات پہنچا دیں کہ یہ ٹیکسی جہاں بھی ملے اسکے ڈرائیور کو گرفتار کر کے فورا آرمی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا جائے۔ اتنی دیر میں آرمی کی ٹیم ممبئی کے ایک چھوٹے مگر با اثر گینگ کے کچھ غنڈوں کو پکڑ کر کیپٹں مکیش کے سامنے پیش کر چکے تھے۔ ان میں 1 غنڈے زخمی تھی جبکہ باقی ٹھیک تھے۔ کیپٹن نے ان سے بھی تفتیش کی میجر دانش کے بارے میں، مگر انہیں بس اتنا ہی پتا تھا کہ ہمارے باس کی طرف سے آرڈر آیا تھا کہ علیبی نائٹ کلب کے باہر سے ایک لڑکی کو اغوا کرنا ہے اور اس کی تصویر ہمیں دے دی گئی تھی اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ زخمی غنڈوں نے بتایا کہ وہ بھی اس اغوا کی کوشش میں شامل تھے مگر پھر اچانک مجمع میں سے ایک شخص نکلا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ہم پر حملہ کر دیا اور اس لڑکی کو بچا کر وہاں سے نکل گیا۔ ان غنڈوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ انکے ساتھ 2 لوگ اور بھی تھے اغوا کرنے میں جنکو وہ نہیں جانتے، بس وہ انکے باس کی طرف سے ہی آئے تھے، ایک شخص گاڑی کی سیٹ پر ہی بیٹھا رہا جبکہ ایک گاڑی کے پاس کھڑا رہا اور ہم دونوں نے آگے جا کر اس لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر پھر بعد میں مجمعے سے نکلنے والے شخص نے ہم چاروں کو زخمی کر دیا، وہ 2 لوگ تو گاڑی میں بیٹھ کر بھاگ گئے مگر ہم کافی دیر وہیں سڑک پر ہی بے یارو مددگار پڑے رہے پھر خود ہی ہمت کر کے ایک رکشہ روکا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔

No comments:

Post a Comment

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...