Monday, 1 February 2016

وطن کا سپاہی 14

اگلی باری ظاہری بات ہے دوبارہ سے ٹینا کی تھی، مگر اس بار لن اسکی چوت کی بجائے اسکی گانڈ میں جانا تھا۔ انجلی اب صوفے پر اپنی ٹانگیں کھول کر لیٹ گئی تھی اور ٹینا کو اپنی چوت چاٹنے کی دعوت دی تھی۔ ٹینا صوفے پر گھوڑی بن کر انجلی کی چوت کے اوپر جھک گئی تھی اور اسکی چوت پر زبان پھیر کر مزے مزے سے اسکی چوت کا پانی چاٹ رہی تھی۔ جبکہ عمران اب ٹینا کے پیچھے اپنا لن ہاتھ میں پکڑے ٹینا کی گانڈ مارنے کے لیے تیار کھڑا تھا، جبکہ ٹینا کا خیال تھا کہ لن اسکی چوت میں جائے گا۔ گوکہ وہ ابھی چدوانا نہیں چاہتی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ عمران باز آنے والا نہیں وہ اسکی چوت کی جان نہیں چھوڑے گا اس لیے وہ خاموشی سے انجلی کی چوت چاٹنے میں مصروف تھی اور انتظار کر رہی تھی کہ کب عمران اپنے لن کی ٹوپی اسکی چوت کے سوراخ پر رکھ کر ایک دھکا مارے اور اپنا پورا لن اسکی چوت کی گہرائیوں میں اتار کر اسکی سوجی ہوئی چوت کو مزید سوجا دے۔ مگر عمران نے اپنے ہاتھ سے ٹینا کے چوتڑوں پر کچھ تھپڑ مارے اور پھر اسکی گانڈ کی سوراخ پر انگلی رکھ کر دباو ڈالا تو عمران کی انگلی کا کچھ حصہ ٹینا کی گانڈ میں چلا گیا۔ ٹینا تھوڑی سی کسمسائی اور بولی ہاں گانڈ میں انگلی ڈالو اور چوت میں لن ڈال دو۔ بہت مزہ آئے گا ایسی چودائی کا۔ مگر عمران کے ارادے کچھ اور تھے۔ دوسرے ہاتھ سے وہ تیل کی شیشی اپنے لوڑے پر انڈیل چکا تھا اور اپنی ٹوپی کو خوب اچھی طرح تیل لگا کر چکنا کر چکا تھا۔ جبکہ اپنی انگلی وہ آدھی سے زیادہ ٹینا کی گانڈ میں اتار چکا تھا۔ کچھ دیر ٹینا کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد جب عمران کو یقین ہوگیا کہ اب یہ گانڈ چودنے کے قابل ہے تو اسنے اپنی انگلی ٹینا کی گانڈ سے نکال لی اور ٹینا کے پیچھے ایک گھٹنا صوفے پر لگا کر جبکہ دوسری ٹانگ زمین پر رکھ کر بیٹھ گیا اور اپنا لوڑا ٹینا کی گانڈ کے عین پیچھے لے گیا۔

پھر عمران نے ٹینا کے چوتڑوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر کھولا اور اسکی گانڈ کے سوراخ پر اپنا تھوک پھینک کر ایک بار پھر اس کو انگلی سے گانڈ کے سوراخ پر مسل دیا۔ پھر عمران نے اپنا لن اپنے سیدھے ہاتھ میں پکڑا اور اسکی ٹوپی گانڈ کے سوراخ کے عین وسط میں کر کے ایک زور دار دھکا لگایا، ٹینا پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عمران اپنا لن اسکی گانڈ میں ڈال دے گا، ٹینا نے فوری طور پر عمران کو ہٹانے کی کوشش کی اور ایک چیخ ماری مگر عمران کے لن کی ٹوپی ٹینا کی گانڈ کے سوراخ میں پھنس چکی تھی اور اسکو نکالنا اب اتنا آسان نہیں تھا، پہلے تو اس نے آگے ہونے کی کوشش کی مگر عمران نے اسکو چوتڑوں سے پکڑ رکھا تھا جسکی وجہ سے وہ آگے ہوکر عمران کے لن کو اپنی گانڈ سے نکالنے میں ناکام ہوگئی، پھر اس نے واپس مڑ نا چاہا تاکہ عمران کا لن اپنی گانڈ سے نکال سکے اور سیدھی ہوسکے، مگر جیسے ہی اس نے اپنی گردن کو اوپر اٹھانا چاہا تو انجلی کی ٹانگوں کی مضبوط گرفت نے اسے ایسا نہ کرنے دیا، انجلی اپنی ٹانگیں گول گھما کر ٹینا کی گردن میں ڈال چکی تھی اور ٹینا کے لیے اب کسی بھی طرح عمران کے لن سے اپنی گانڈ کو بچانا ممکن نہیں رہا تھا۔

ٹینا کی آنکھوں میں تکلیف کی شدت سے آنسو بھی تھے اور اسنے روتے ہوئے عمران سے کہا عمران پلیز اپنا لن نکال دو میری گانڈ سے، چوت بے شک رات تک چودتے رہو مگر پلیز گانڈ سے نکال لو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مگر عمران نے اسکو پیار سے دلاسا دیا کہ حوصلہ کرو جان، ابھی تکلیف دور ہوجائے گی اور پھر تمہیں گانڈ مروانے کا بھی مزہ آئے گا۔ مگر ٹینا مسلسل رو رہی تھی کبھی کہتی کہ میری چوت مار لو گانڈ چھوڑ دو تو کبھی کہتی انجلی کی چوت اور گانڈ سے اپنے لن کی پیاس بجھا لو مگر میری گانڈ سے لن نکال لو۔ مگر عمران نے لن واپس نکالنے کے لیے تو ڈالا ہی نہیں تھا، اسکے سر پر تو ٹینا کی گانڈ مارنے کا بھوت سوار تھا۔ آخری بار اس نے میجر علینہ کی گانڈ ماری تھی اور اس بات کو کافی عرصہ بیت چکا تھا۔ تب سے اس کے لن نے گانڈ کا مزہ نہیں لیا تھا، اور آج ایک کنواری گانڈ میں اسکا لن جا رہا تھا تو وہ بھلا کیسے کنواری گانڈ کو چھوڑ سکتا تھا۔

عمران پیار سے ٹینا کو دلاسا دیتا رہا اور اس دوران اس نے ایک اور جھٹکا مار دیا تھا جس سے لن گانڈ کے اندر تھوڑا اور کھسک گیا تھا۔ مگر ٹینا کی گانڈ بہت ٹائٹ تھی، اتنا چکنا کرنے کے باوجود وہ لن کو اپنے اندر آنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ عمران نے لن تھوڑا سا باہر نکالا مگر ٹوپی اندر ہی رہنے دی اور ایک زور دار جھٹکا مارا تو آدھا لن اب ٹینا کی گانڈ میں اتر چکا تھا اور ٹینا کی آنکھوں سے آنسو گرتے جا رہے تھے اور اسکی ٹانگیں درد کی شدت سے کانپ رہی تھیں۔ انجلی نے اب اسکی گردن کے گردن اپنی ٹانگوں کا گھیرا ختم کر دیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب ٹینا کسی بھی طرح عمران کا لن اپنی گانڈ سے نہیں نکال سکتی، ٹینا کو کچھ سکون پہنچانے کے لیے انجلی اب اس طرح لیٹ گئی کے اسکا سر ٹینا کی چوت کے عین نیچے آگیا اور اسکی چوت ٹینا کے سر کے قریب آگئی، اور اس پوزیشن میں اسکو عمران کا لن اور ٹٹے بھی نظر آنے لگے جو گانڈ سے باہر تھے۔ انجلی نے اپنی گردن اوپر اٹھائی اور اپنی زبان ٹینا کی چوت میں ڈال کر اس میں پھیرنے لگی، اب ٹینا درد اور مزے کی ملی جلی کیفیت میں تھی۔ چوت پر انجلی کی زبان اسے مزہ دے رہی تھی مگر گانڈ میں عمران کا موٹا لن اسکو درد دے رہا تھا۔ مگر درد کی شدت ابھی مزے کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ اور وہ مسلسل چیخ بھی رہی تھی عمران کی منتیں بھی کر رہی تھی کہ میری گانڈ سے لن نکال لو، مگر عمران اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر اسے تسلی دے رہا تھا اور غیر محسوس طریقے سے اسکی گانڈ میں لن تھوڑا تھوڑا ہلا رہا تھا۔ 5 منٹ تک ٹینا آنسو بہاتی رہی اور عمران آہستہ آہستہ اسکی گانڈ میں لن اندر باہر کرتا رہا، جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا عمران کچھ تیزی کے ساتھ لن اندر باہر کرنے لگا تھا، مگر ابھی بھی اسکی رفتار خاصی دھیمی تھی وہ کوشش کر رہا تھا کہ ٹینا اکی گانڈ اسکے لن کی عادی ہوجائے تو پھر وہ جم کر اسکی گانڈ کی چودائی کرے گا۔ اب ٹینا نے تو آنسو بہانا بند کر دیے تھے مگر انجلی کی زبان جو ٹینا کی چوت میں تھی اسکی وجہ سے ٹینا کی چوت نے اپنے آنسو بہانا جاری کر دیے تھے۔ اسکی چوت چکنی ہوچکی تھی اور وہ اب چیخیں مارنے کی بجائے ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہی تھی۔

ٹینا کی سسکیاں سن کر عمران کو کچھ حوصلہ ہوا اور اسنے بھی اب پہلے کی نسبت قدرے تیزی کے ساتھ اپنا لن ٹینا کی گانڈ میں اندر باہر کرنا شروع کیا۔ عمران نے اپنی رفتار میں اضافہ کیا تو ایک بار پھر ٹینا کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہوگئیں مگر اس بار چیخوں کی آواز پہلے کی نسبت دھیمی تھی، جس سے پتہ لگ رہا تھا کہ اب ٹینا تکلیف کو برداشت کر رہی ہے۔ عمران 5 منٹ تک اسی رفتار کے ساتھ ٹینا کو چودتا رہا ، 5 منٹ بعد جب دوبارہ سے ٹینا کی سسکیاں نکلنے لگیں اور اسکو اپنی گانڈ میں عمران کے لن کا مزہ آنے لگا تو عمران نے ایک بار پھر اپنے لن کی رفتار بڑھا دی اور اب کی بار تیزی کے ساتھ اپنا لن ٹینا کی گانڈ کے اندر باہر کرن لگا۔ عمران کا قریب قریب 5 سے 6 انچ لن ٹینا کی گانڈ میں جا کر غائب ہوجا تا تھا اسکے بعد عمران 4 انچ لن باہر نکالتا محض ٹوپی اندر رہنے دیتا اور دوبارہ سے دھکا لگاتا اور اپنا لن ٹینا کی گانڈ کے سوراخ میں غائب کر دیتا۔ اب ٹینا کی سسکیاں بڑھتی جا رہی تھی جس سے پتا لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت فل مزے میں ہے، یہ دیکھ کر انجلی ٹینا کے نیچے سے نکل آئی جو کافی دیر سے اسکی چوت کو چاٹ رہی تھی۔ ٹینا کی چوت چاٹ چاٹ کر انجلی تھک چکی تھی۔

ٹینا کے نیچے سے نکلنے کے بعد انجلی ٹینا کے کمر کے اوپر آکر کھڑی ہوگئی اور اپنی دونوں ٹانگیں اسکی کمر کے دائیں اور بائیں طرف کر کے اپنی چوت عمران کے آگے کر دی۔ عمران جو اس وقت فل مزے میں تھا اور ٹینا کی ٹائٹ گانڈ کے چودنے میں مصروف تھا اپنے سامنے انجلی کی چکنی چوت دیکھ کر فورا زبان باہر نکال کر اسکو چاٹنے لگا۔ انجلی نے اپنے بازو سے عمران کا سر پکڑ کر چوت کے اوپر دبا دیا۔ عمران بھی انجلی کی چوت کو ایسے چاٹ رہا تھا جیسے اس نے کبھی زندگی میں چوت دیکھی ہی نہ ہو۔ وہ انجلی کو فل مزہ دے رہا تھا اور انجلی کی سسکیاں عمران کے لن کو مزید تیزی فرام کر رہی تھیں۔ نیچے سے انجلی کی ہر دھکے کے ساتھ سسکیاں اوہ ۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔ جبکہ اوپر چوت چٹواتی انجلی کی سسکیاں آہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ف۔۔۔۔۔ اف۔ ف ف ف ف ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ ام م م م م ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ یس بے بی۔۔۔۔ چاٹو اسکو، زور سے چاٹو۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ کھاجاو میری چوت کو۔ ۔۔ آ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ یس بے بی، کم آن ، لِک مائی پُزی۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ یہ سسکیاں عمران کو پاگل کر رہی تھیں۔ زندگی میں پہلی بار وہ 2 لڑکیوں کو ایک ساتھ چود رہا تھا اور اوپر سے ان دونوں کی سسکیاں عمران کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔

کچھ دیر کے بعد ٹینا نے عمران کو کہا جانو میں تھک گئی ہوں اس پوزیشن میں، پلیز اب پوزیشن چینج کر کے چودو مجھے۔ عمران نے ٹینا کی بات سن کر اسکی گانڈ سے لن نکال لیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اب ٹینا کو گانڈ مروانے کا مزہ آرہا ہے وہ دوبارہ لن لینے سے منع نہیں کرے گی۔ عمران نے ٹینا کی گانڈ سے لن نکالا تو ٹینا نے عمران سے کہا چلو اندر بیڈ روم میں چلتے ہیں۔ یہ کہ کر ٹینا عمران کی گود میں خود ہی چڑھ گئی اور انجلی عمران کا لن پکڑ کر اسکو وہیں پر چوسنے بیٹھ گئی۔ عمران کے لن سے ٹینا کی گانڈ کی بدبو آرہی تھی مگر اس وقت سیکس میں جل رہی انجلی کو یہ بدبو بہت پیاری مہک لگ رہی تھی اور وہ عمران کے چکنے لن کو شڑپ شڑپ کی آوازوں کے ساتھ چوستی رہی۔ جب عمران کے لن سے سارا مواد انجلی چوس چکی تو وہ عمران کا لن پکڑ کر اسکو بیڈ روم کی طرف کھینچنے لگی اور عمران ٹینا کو گود میں اٹھائے اسکے ہونٹوں کو چوستا ہوا بیڈ روم میں چلا گیا۔

بیڈ کے پاس جا کر عمران نے ٹینا کو اپنی گود سے اتارا اور خود بیڈ پر لیٹ کر ٹینا کو اپنے اوپر آنے کو کہا۔ ٹینا فورا اپنی ٹانگیں عمران کے دائیں بائیں رکھ کر اسکے لن کے اوپر آگئی اور اپنی چوت کا سوراخ عمران کے لن کی ٹوپی پر رکھنے لگی تو عمران نے اسے منع کیا اور بولا نہ بے بی نہ۔۔۔۔۔ جس سوراخ میں پہلے تھا لن اب بھی اسی سوراخ میں جائے گا۔۔۔ یہ سن کر ٹینا مسکرائی اور بولی وہیں ڈال لو تم، یہ کہ کر اس نے لن کی ٹوپی اپنی گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور ہلکا سا وزن عمران کے اوپر ڈالا ، لن تھوڑا پھنس پھنس کر گانڈ کے سوراخ میں چلا گیا، مگر ابھی صرف ٹوپی اندر گئی تھی، اور ٹینا کی سسکیاں شروع ہوگئیں تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ اپنا وزن عمران کے لن پر ڈال رہی تھی جس سے عمران کا لن تھوڑا تھوڑا ٹینا کی گانڈ میں جا رہا تھا۔ جب لن کا زیادہ حصہ ٹینا کی گانڈ میں جا چکا تو اس نے آہستہ سے اٹھ کر لن واپس باہر نکالا مگر ٹوپی گانڈ کے اندر ہی رہنے دی۔ اور دوبارہ سے اپنا وزن عمران کے لن کے اوپر ڈالا، اس بار لن کافی تیزی سے ٹینا کی گانڈ میں گیا، پھر ٹینا نے اپنے گھٹنے بیڈ کے ساتھ لگا لیا اور اپنے دونوں ہاتھ عمران کے سینے سے لگا کر اپنی گانڈ اچھالنا شروع کر دی۔ ٹینا اب قدرے تیزی کے ساتھ عمران کے لن کے اوپر اچھل رہی تھی اور خود ہی اپنی گانڈ کی چدائی کروا رہی تھی۔ لن کے اوپر اچھلتے ہوئے ٹینا کی اوہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ کی سسکیاں نکل رہی تھی جبکہ تانیہ ایک سائیڈ پر لیٹی خود ہی اپنی چوت میں انگلی کر رہی تھی۔

کچھ دیر تک ٹینا خود ہی عمران کے لن پر اچھل اچھل کر اپنی گانڈ مرواتی رہی، پھر جب ٹینا تھک گئی تو عمران نے ٹینا کو اپنی گانڈ اوپر اٹھانے کو کہا، ٹینا نے عمران کے کہنے کے مطابق اپنی گانڈ اتنی اوپر اٹھا لی کہ محض عمران کے لن کی ٹوپی ہی گانڈ یں رہی۔ پھر عمران نے نیچے سے اپنی مشین چلانا شروع کی اور کافی تیزی کے ساتھ ٹینا کی ٹائٹ گانڈ میں اپنے لن سے کھدائی شروع کی۔ اب کی بار ٹینا کی سسکیاں کافی تیز تھیں اور عمران کے چودنے کی رفتار بھی طوفانی تھی۔ کچھ دیر تک اسی طرح گانڈ اٹھا کر چدوانے کے بعد ٹینا عمران کے اوپر جھک گئی تو عمران نے گردن اوپر اٹھا کر اسکے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور اپنی گانڈ تھوڑی سی اوپر اٹھا کر ٹینا کی گانڈ چودنے کی رفتار میں اور اضافہ کر دیا۔ ٹینا عمران کے اوپر جھکی ہوئی اپنی گانڈ میں لگنے والی مرچوں کا مزہ لے رہی تھی اور اسکی چوت اب پانی چھوڑنے کے قریب ہی تھی، ٹینا کے نپلز عمران کے منہ میں تھے جنکو چوس چوس کر وہ لال کر چکا تھا۔

ٹینا مسلسل فک می بے بی، فک می ہارڈ، یس۔۔۔۔ یس۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ یس بے بی،، فک می ہارڈ۔۔۔۔۔ یس یس۔۔۔۔ آہ آہ آہ اونہہ ۔۔۔۔۔ اونہہ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ پھر ٹینا نے عمران کو کہا فک می ہارڈر بے بی، آئی ایم کمنگ۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔ بے فک می۔۔۔۔ ہارڈ۔۔۔۔۔ ہارڈر ۔۔۔۔ آئی ایم کمنگ ۔ ۔ ۔ ۔ یے بے بی یے۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی ٹینا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ ٹینا کی چوت نے تو پانی چھوڑ دیا مگر عمران کا لن فل رفتار سے ٹینا کی گانڈ میں گھسے مار رہا تھا وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ جب پوری رفتار کے ساتھ ٹینا کی گانڈ میں گھسے مار مار کر عمران کی کمر تھک گئی تو اس نے کچھ دیر رکنے کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی عمران نے ٹینا کی گانڈ میں لن اندر باہر کرنا روکا، ٹینا فورا ہی اسکے لن سے اٹھ گئی اور عمران کا لن جو ابھی تک 8 انچ لمبا اور فل تنا ہوا تھا اوپر کی طرف منہ کر کے لہرانے لگا۔
عمران بھی سمجھ گیا تھا کہ کل رات ٹینا کی چوت کی بینڈ بجی تھی اور آج اسکی گانڈ کی بینڈ بجا چکا ہے وہ تو اب اسکو مزید چودنا اسکے ساتھ زیادتی ہوگی۔ عمران نے کچھ دیر اپنی کمر سیدھی کی، اس دوران انجلی عمران کا لن ہوا میں لہراتا دیکھ کر اسکے پاس آگئی تھی اور لن منہ مین لیکر اسکے چوپے لگا رہی تھی، جبکہ ٹینا بیڈ سے اتر کر ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لے رہی تھی، اسکو ڈر تھا کہیں عمران دوبارہ نا اسکو پکڑ لے اس لیے وہ اس سے دور ہوکر بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر عمران کے لن کے چوپے لگانے کے بعد انجلی بیڈ پر ہی ڈاگی سٹائل میں بیٹھ گئی اور عمران کو کہا کہ چلو اب مجھے بھی اسی رفتار سے چودو جس رفتار سے ٹینا کو چودا ہے۔۔۔ عمران کا لن جو پہلے ہی چوت یا گانڈ کے انتظار میں تھا، انجلی کو ڈاگی بنا دیکھ کر اس نے بھی عمران کو کہا چل اٹھ ، مرد بن اور چود دے اس لڑکی کو بھی۔ عمران نے اپنے لن کی آواز سنی اور فورا ہی گھٹنوں کے بل انجلی کے پیچھے جا کربیٹھ گیا، اس نے اپنے ہاتھوں کی 2 انگلیوں سے انجلی کی چوت کی چکنائی کو ماپا، جو اس وقت چدنے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔ اپنی انگلی پر انجلی کی چوت کا چکنا پانی دیکھ کر عمران نے اپنے لن کی ٹوپی انجلی کی چوت کے سوراخ پر رکھی اور ایک ہی دھکے میں اپنا 8 انچ کا لن انجلی کی نازک چوت میں غائب کر دیا۔

جیسے ہی عمران کا لن انجلی کی چوت میں اترا، انجلی نے ایک زور دار سیکسی سسکی لی اور ساتھ ہی عمران کو زور دار چدائی کرنے کے لیے اکسانا شروع کر دیا۔ ٹینا کی طرح اب انجلی بھی فک می بے بی، فک می ہارڈر۔۔۔ فک می لائیک اے بِچ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔فک می ، فک مائی پُزی بے بی۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ عمران پوری رفتار کے ساتھ انجلی کی چوت میں اپنا لن اندر باہر کر رہا تھا اور انجلی کے 32 سائز کے گول گول چوتڑ عمران کے جسم سے ٹکرا کر دھپ دھپ کی تیز آواز پیدا کر رہے تھے۔ انجلی اب فل مستی مین تھی، عمران کے لن سے زیادہ سے زیادہ مزہ لینے کے لیے اس نے اپنی چوت ٹائٹ کی ہوئی تھی، جیسے ہی عمران کا لن اندر دھکا لگانے لگتا انجلی اپنی چوت کی دیواروں کو آپس میں ملا کر اپنی چوت کو فل ٹائٹ کر لیتی، اس طرح لن انجلی کی چوت کی دیواروں کو زور دار طریقے سے رگڑتا ہوا انجلی کی چوت کی گہرائی تک جاتا اور جب عمران نے لن باہر نکالنا ہوتا تو انجلی اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی، اور دوبارہ اگلے دھکے کے لی چوت کو ٹائٹ کرتی۔

انجلی کی اس طرح کی حرکت سے عمران کے لن کو بھی بہت مزہ آرہا تھا اور وہ بار بار انجلی کے گورے گورے چوتڑوں پر تھپڑ مار مار کر ان پر اپنے ہاتھوں کے نشان بنا چکا تھا۔ 5 منٹ تک عمران بنا رکے ڈاگی سٹائل میں انجلی کی چوت مارتا رہا۔ پھر عمران نے انجلی کی چوت سے لن نکالا اور اسے لیٹنے کو کہا تو انجلی فورا ہی بیڈ پر لیٹ گئی۔ عمران نے انجلی کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھی اور دوسری ٹانگ سائیڈ پر پھیلا کر چوت تک کا راستہ بنایا، پھر دوبارہ سے عمران نے انجلی کی چوت میں اپنا لن داخل کیا اور گھسے پر گھسا لگانا شروع کیا۔ عمران کا لن انجلی کی تنگ سی چوت میں گھسے لگا رہا تحا جبکہ اسکے ہونٹ انجلی کی پنڈلی کو چوسنے میں مصروف تھے۔ انجلی اپنے ہاتھوں سے اپنے مموں کو دبا رہی تھی، کبھی وہ اپنی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے اپنے نپل پکڑ کر انکو مسلنے لگتی۔ وہ اس وقت فل مزے میں تھی اور اسکی چوت عمران کے لن کو بہترین رسپانس دے رہی تھی۔

کچھ دیر ایسے ہی چودنے کے بعد ایک بار پھر عمران نے انجلی کی چوت سے اپنا لن نکالا اور اسکو اٹھ کر بیٹھنے کو بولا۔ انجلی اٹھی تو عمران بھی اپنی ٹانگیں پیچھے کی جانب فولڈ کر کے بیٹھ گیا مگر اپنے پاوں کے پنجے بیڈ کے ساتھ لگائے اور انجلی کو اپنی گود میں آنے کو کہا۔ انجلی بیڈ سے اٹھی اور دانش کی گود میں اسکی تھائیز کے اوپر بیٹھ گئی، عمران کا لن اپنا منہ انجلی کی چوت کی طرف ہی کیے ہوئے تھا، جیسے ہی انجلی عمران کی گود میں بیٹھی عمران کا لن ٹھیک نشانے پر اسکی چوت سے ٹکرایا اور انجلی کی چوت کی چکنی دیواروں سے رگڑ کھاتا ہوا اسکی چوت میں داخل ہوگیا۔ انجلی کی ٹانگیں عمران کے گرد لپٹی ہوئی تھیں اور اسکی بانہیں عمران کی گردن کے گرد تھیں، عمران پنجوں کے سہارے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر انجلی کی چوت میں طوفانی رفتار سے دھکے لگا رہا تھا اور گردن نیچے جھکا کر انجلی کی کے چھوٹے مگر تنے ہوئے براون نپلز کو اپنی زبان سے رگڑ رہا تھا۔ انجلی نے اپنی چوت فل ٹائٹ کر لی تھی اور وہ چدائی کا یہ راونڈ خوب انجوائے کر رہی تھی۔

عمران نے انجلی کو اسکے چوتڑوں سے کچھ اوپر سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا اور تھوڑا اپنی طرف کھینچ کر اسکی ہلکے باریک بالوں والی چوت میں ٹھا ٹھا دھکے مار رہا تھا۔ عمران کو اب لگ رہا تھا کہ اسکا لن آج بہت چدائی کر چکا ہے، اور اب پانی چھوڑنے والا ہے۔ عمران نے انجلی کے نپلز سے منہ ہٹا کر انجلی سے پوچھا کہ وہ چھوٹنے والا ہے اندر ہی چھوٹ جائے یا باہر نکالے پانی؟؟ انجلی جو اس وقت اپنی پھدی میں لن لے کر مست ہورہی تھی بولی کے اندر ہی نکال دو، بس لن باہر نہیں نکالنا جب تک چھوٹا نا ہوجائے۔

یہ سن کر عمران نے اپنے دھکوں کی رفتار مزید تیز کر دی اور انجلی کو بھی اب اپنی چوت میں سوئیاں چبھتی محسوس ہورہی تھیں۔ پھر کچھ ہی گھسوں نے انجلی کی چوت کو ہار ماننے پر مجبور کر دیا اور گرما گرم لاوا انجلی کی چوت سے نکلا اور عمران کے لن کو بھگوتا ہوا عمران کی ٹانگوں کو بھی گیلا کر گیا۔ انجلی کے جسم نے کچھ جھٹکے کھائے اور سارا پانی باہر نکال دیا۔ انجلی کی چوت کو اب سکون مل چکا تھا، مگر عمران کا لن ابھی تک سخت تھا اور اسکے چودنے کی رفتار میں اب خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا تھا۔ پھر اچانک عمرا ن نے انجلی کو بیڈ پر دھکا دیا اور اسکو لٹا کر خود بھی انجلی کے اوپر لیٹ گیا، یہ کام اس نے اس مہارت اور تیزی سے کیا کہ نہ تو اپنا لن پھدی سے باہر نکلنے دیا اور نہ ہی اپنے گھسوں کو روکا، انجلی کو نیچے لٹاتے ہی عمران اسکے اوپر لیٹ گیا اور تیز تیز اپنے چوتڑوں کو ہلا کر انجلی کی چدائی جاری رکھی۔

پھر عمران کو اپنا لن پھولتا ہوا محسوس ہونے لگا جیسے اس میں کوئی پانی بھر رہا ہو، اور آہستہ آہستہ عمران کو اپنے لن کی ٹوپی کے سوراخ پر دباو محسوس ہوا، اور پھر ایک جھٹکے سے وہ دباو ختم ہوگیا جب عمران کے لن نے ایک تیز دھار اپنی منی کی انجلی کی چوت میں ہی نکال دی، اور پھر عمران کی لن نے 3، 4 زور دار پچکاریاں ماریں، ہر پچکاری پر عمران کے لن سے ڈھیروں منی نکل کر انجلی کی چوت میں جمع ہوتی رہی۔ عمران کا جسم کچھ دیر تک ہلکے ہکے جھٹکے لیتا رہا یہاں تک کہ ساری کی ساری منی عمران کے لن سے انجلی کی پھدی میں داخل ہوگئی۔ اور پھر عمران انجلی کے اوپر بے جان سا ہوکر ڈھے گیا اور انجلی بھی اب گہرے گہرے سانس لے کر اس شاندار چودائی کی تھکاوٹ کو ختم کر رہی تھی۔

ٹینا نے جب دیکھا کہ دونوں فارغ ہوچکے ہیں تو وہ بھی بیڈ پر آگئی اور عمران کے ساتھ جڑ کر لیٹ گئی اور اسے انجلی کے جسم سے علیحدہ کر کے اپنے ساتھ چمٹا کر پیار کرنے لگی۔ وہ بہت خوش تھی کہ اسکا بوائے فرینڈ اتنے شاندار لن کا مالک ہے جس نے 2 جوان چوتوں کا اور ایک کنواری گانڈ کا چود چود کر برا حشر کر دیا تھا ، اور اگر اسکے لن کے ساتھ تھوڑی چھیڑ چھاڑ کی جاتی تو وہ دوبارہ سے چنگھاڑتا ہوا کھڑا ہوکر دوبارہ سے چوتوں کو چودنے کے لیے تیار ہوجاتا۔ مگر ٹِنا جانتی تھی کہ اب عمران کے لن سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی کیونکہ اگر اسکا لن دوبارہ کھڑا ہوگیا تو اب ٹینا کی گانڈ اور چوت کی خیر نہیں ہوگی۔ اس لیے وہ بس عمران کے ساتھ لیٹی اسکی کمر پر ہاتھ پھیر کر اسکو پیار کرتی رہی اور اس شاندار چدائی پر اسے داد دیتی رہی۔

انجلی بھی ابھی گہرے سانس لے رہی تھی کہ دوسرے کمرے میں موبائل کی بیل بجی۔ یہ انجلی کا موبائل تھا۔ انجلی ایسے ہی ننگی حالت میں دوسرے کمرے میں چلی گئی اور کچھ دیر کے بعد جب فون سن کر وہ واپس کمرے میں آئی تو اسکے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اسنے کانپتی ہوئی آواز میں عمران کو آواز دی اور اسے بات سننے کو کہا۔ عمران نے انجلی کی طرف دیکھا تو اسکو پریشان دیکھ کر عمران سمجھ گیا کہ کوئی مسئلہ ہے۔ اس نے ٹینا کو وہیں کمرے میں رکنے کا بولا اور انجلی کی بات سننے باہر چلا گیا۔ انجلی نے عمران کو اپنے آنے والے فون کے متعلق بتایا تو عمران بھی پریشان ہوگیا۔ ٹینا کو تجسس ہوا کہ آخر ایسی کیا بات ہے جو دونوں دوسرے کمرے میں کھڑے کر رہے ہیں جبکہ یہ دونوں ایکدوسرے کو جانتے بھی نہیں پھر ایسی کیا پرائیویٹ بات جو علیحدگی میں ہورہی ہے۔ وہ اٹھ کر انکی باتیں سننا چاہتی تھی مگر اسکی چوت اور گانڈ اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ وہ تھکی ہاری بیڈ پر ہی لیٹی رہی۔

کچھ دیر کے بعد عمران واپس کمرے میں آیا اور ٹینا کے ماتھے پر ایک پیار بھری پپی کی، انجلی بھی ویسے ہی اپنے ممے لہراتی بیڈ پر آکر لیٹ گئی، عمران نے پاس پڑے بیگ میں سے ایک شرٹ اور ٹراوزر نکال کر پہنا اور ٹینا کو بولا بے بی انجلی کے کچھ رشتے دار گوا میں ہیں اور کسی مشکل میں ہیں، تم پلیز اپنے موبائل سے اپنے پاپا کو فون کرو اور میری بات کروا دو شاید وہ انجلی کے رشتے داروں کو اس مشکل سے نکال سکیں۔ اور مجھے کچھ دیر کے لیے تمہاری گاڑی اور فون لیکر باہر جانا ہوگا اور انہیں کسی محفوظ مقام تک پہنچانا ہوگا۔ ٹینا نے کہا کہ مگر انجلی تو کہ رہی تھی کہ وہ یہاں اکیلی ہے اور اسکے پاپا باہر ہیں؟؟؟ اس سے پہلے کہ عمران کچھ بولتا انجلی نے ٹینا کو کہا کہ وہ میرے دور کے رشتے دار ہیں اور اس وقت بہت مشکل میں ہیں۔ عام حالات میں ہمارا ملنا جلنا نہیں ہوتا مگر آج وہ بہت مجبور ہوکر مجھ سے مدد مانگ رہے ہیں۔ مگر معاملہ ایسا ہے کہ میں انکی مدد نہیں کر سکتی تمہارے پاپا ہی اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔ انجلی کی بات مکمل ہونے پر عمران نے ٹینا کو اسکا موبائل تھما دیا اور اپنے پاپا کرنل وشال کو فون لگانے کو کہا۔

ٹینا نے اپنے پاپا کو فون کیا، جیسے ہی کرنل وشال نے فون پر ہیلو کہا، کرنل وشال نے کچھ پریشان لہجے میں پوچھا کہ کہو بیٹا خیریت تو ہے نا؟؟ کرنل وشال جانتا تھا کہ ٹینا بلا وجہ اسکو تنگ نہیں کرتی، کوئی ضروری بات ہو تبھی فون کرتی ہے خاص طور پر جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہو۔ ٹینا نے اپنے پاپا کو کہا پاپا یہ عمران آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے اسے کچھ مدد چاہیے آپ سے ۔۔۔ یہ کہ کر ٹینا نے فون عمران کو پکڑا دیا اور عمران ہیلو ڈیڈی کہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسکے بعد جو کچھ عمران نے فون پر کرنل وشال کو کہا، وہ کرنل وشال کے پاوں تلے سے زمین نکالنے کے لیے کافی تھا۔
امجد حیرانگی کے ساتھ کرنل وشال کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ رہا تھا اور اسکے چہرے سے نظر آنے والی پریشانی امجد کے لیے خوش خبری کی علامت تھی۔ امجد سمجھ گیا تھا کہ میجر دانش کوئی نہ کوئی ایسا کام کرگیا ہے جس سے کرنل وشال کو کاری ضرب لگی ہوگی، اسکو اس چیز سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ یہاں سے زندہ نکل سکتا ہے یا نہیں، اسکو بس اس چیز کی خوشی تھی کہ میجر دانش نے کرنل وشال کے لیے کوئی بڑی مشکل کھڑی کر دی ہے جسکی وجہ سے وہ پریشان ہے اور امجد کے لیے یہی کافی تھا کہ شہید ہونے سے پہلے وہ کرنل وشال کے اس طرح پریشان دیکھ رہا تھا۔ کرنل نے جیسے ہی کال اٹینڈ کی اور ٹینا سے پوچھا کہ کیا بات ہے تو اس نے کرنل کو بتایا کہ عمران نے آپ سے کوئی بات کرنی ہے اسکو مدد چاہیے، اور عمران یعنی کے میجر دانش ٹینا سے فون لے کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ میجر دانش نے فون پر ہیلو کہتے ہی بڑے مزاحیہ سے انداز میں کرنل وشال کو سُسر جی کہ کر مخاطب کیا اور اسکا حال پوچھا جس پر کرنل وشال کو کافی غصہ آیا کیونکہ کرنل وشال کے نزدیک ابھی تک عمران کی حیثیت محض ایک عام سے لڑکے کی تھی جس نے ٹینا کی جان بچائی اور ابھی بھی وہ ایک باڈی گارڈ کی حیثیت سے ٹینا کے ساتھ گوا میں موجود تھا۔

کرنل وشال نے تھوڑے کرخت لہجے میں عمران کو کہا کہ بولو کیا بات ہے کیسی مدد چاہیے؟ تو آگے سے میجر دانش اپنے مخصوص لہجے میں بولا کہ کرنل صاحب آپکے پاس اس وقت جو میرے ساتھی ہیں امجد، کاشف اور سرمد، انکی رہائی کے سلسلے میں آپ سے مدد درکار تھی۔۔۔۔ عمران کے منہ سے ان لوگوں کا ذکر سنتے ہی کرنل وشال کا دماغ ماوف ہونے لگا ، ایک لمحے کو تو وہ سمجھ ہی نہیں سکا تھا کہ عمران ایسی بات کیوں کر رہا ہے اور اسکو کیسے پتا امجد اور اسکے ساتھیوں کے بارے میں، مگر ساتھ ہی کرنل وشال کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا کہ کہیں یہ شخص جس نے ٹینا کو اپنا نام عمران بتایا ہے میجر دانش کا کوئی ساتھی نہ ہو، یا پھر ایسا بھی مکمن ہے کہ یہ خود میجر دانش ہی ہو۔ اس سے پہلے کہ کرنل وشال کچھ بولتا میجر دانش کرخت لہجے میں بولا، سنو کرنل، تمہاری اکلوتی بیٹی اس وقت میرے ساتھ ہے اور ہم دونوں ایک ہی بیڈ پر سوئے ہیں، اور اسکو مجھ پر پورا اعتماد ہے، اگر 10 منٹ کے اندر اندر تم نے میرے ساتھیوں کو نہ چھوڑا تو دوبارہ کبھی تم اپنی بیٹی کی شکل نہیں دیکھ پاو گے۔ اور ہاں۔۔۔۔ سنو، میرا نام عمران نہیں، میجر دانش ہے۔ اور میں اب تمہاری بیٹی ٹینا کو اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں، اگر تم نے ٹینا کے موبائل کے ذریعے میرا پیچھا کرنے کی کوشش کی یا میرے ساتھیوں کو رہا کرنے کے بعد انکا پیچھا کرنے کی کوشش کی تو اپنی بیٹی کی موت کے زمہ دار تم خود ہوگے۔ اور یہ مت سمجھنا کہ اپنی ناکارہ راء کے ایجنٹس کو ہمارے پیچھے لگا کر تم ہمیں پکڑ سکتے ہو، ہمارے ساتھی تمہیں اور تمہاری ٹیم کو مانیٹر کر رہے ہیں، ابھی چپ چاپ میرے ساتھیوں کو چھوڑ دو اور انکو کشمیر تک جانے کا راستہ بھی فراہم کرو، کشمیر پہنچنے تک اگر ان پر کوئی بھی آنچ آئی تو مصیبت تمہاری بیٹی پر ٹوٹے گی، جب وہ خیریت سے کشمیر پہنچ جائیں گے تو تم اپنی بیٹی کو صحیح سلامت دیکھ سکو گے۔ تب تک کے لیے بائے۔

میجر دانش نے یہ کہ کر فون بند کر دیا اور کرنل وشال غصے اور بے چارگی کی ملی جلی کیفیت میں محض اتنا ہی کہ سکا نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔ لیکن میجر دانش فون بند کر چکا تھا اور کرنل وشال اب کبھی بند فون کی طرف دیکھتا تو کبھی سامنے بیٹھے امجد کو دیکھتا۔ اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ کافی دیر تک وہ اسی کشمکش میں رہا، امجد کے چہرے پر مسکراہٹ تھی وہ یہ تو نہیں جانتا تھا کہ فون پر کس نے بات کی اور کیا بات کی، مگر کرنل وشال کی پریشانی اسکے لیے راحت کا سامان کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ کرنل وشال کچھ بولتا اس کے فون پر دوبارہ سے ایک بیل بجی۔ یہ میسج ٹون تھی، کرنل وشال نے فورا میسج پڑھا تو ٹینا کے نمبر سے دانش کا میسج تھا جس میں لکھا تھا کرنل وشال 5 منٹ ہوگئے تم نے میرے ساتھ ابھی تک رہا نہیں کیے، تمہارے پاس 5 منٹ مزید ہیں اسکے بعد تمہاری بیٹی کے ساتھ میں کیا کروں گا یہ تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔ یہ میسج پڑھتے ہی کرنل وشال کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ وہ فورا ہوش میں آچکا تھا اور اسنے اپنے ماتحتوں کو آرڈر کیے ک فوری طور پر ان لوگوں کو کھول دیا جائے اور یہاں سے جانے دیا جائے۔ کرنل وشال کے آرڈر سن کر اسکے ماتحت بجلی کی سی تیزی سے تینوں کو کھولنے لگے اور کچھ ہی دیر بعد امجد اپنے دونوں ساتھیوں کو ساتھ لیے لڑکھڑاتے ہوئے اس قید خانے سے باہر نکل چکا تھا۔

باہر نکل کر امجد نے ایک ٹیکسی لی اور سب سے پہلے اپنے ایک ڈاکٹر دوست کی طرف گیا، اور سارے راستے دیکھتا رہا کہ کہیں اسکا پیچھا تو نہیں ہورہا؟؟؟ مگر ایسے کوئی آثار اسکو نظر نہیں آئے، پھر بھی احتیاط کے طور پر اس نے اپنے ڈاکٹر دوست کے پاس جانے سے پہلے 2 بار ٹیکسی تبدیل کی۔ وہاں جا کر امجد نے اپنی اور اپنے دوستوں کی ابتدائی طبی امداد کا بندوبست کیا اور اسکے بعد کچھ ضرور سامان ساتھ لے کر کشمیر کی جانب نکل گیا۔ اسکے پاس میجر دانش کا کوئی نمبر نہیں تھا جس پر وہ رابطہ کر سکتا، نہ ہی میجر دانش کے پاس امجد سے رابطہ کے لیے کوئی نمبر تھا۔ مگر میجر دانش نے مختلف گروپس اور تنظیموں کو امجد کو ٹریس آوٹ کرنے کا ٹاسک دے دیا تھا جنہوں نے کچھ ہی دیر میں امجد کو ٹریس کر لیا تھا اور اس تک میجر دانش کا پیغام پہنچا دیا تھا کہ کشمیر جا کر کچھ دن آرام کرے، پھر اگر ضرورت پڑی تو میجر دانش اسے پاکیشا بلائے گا، اور اگر ایسی ضرورت محسوس نہ ہوئی تو وہ تانیہ کو خیر خیریت سے کشمیر واپس اس تک پہنچا دے گا۔ کشمیر جاتے ہوئے بھی امجد نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کوئی اسکا پیچھا تو نہیں کر رہا، اس نے بار بار اپنا راستہ بھی تبدیل کیا، کبھی پاڑی علاقوں سے پیدل سفر طے کیا تو کبھی خچروں پر کسی وادی کو پار کیا ۔۔۔ کبھی ٹرین کے ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک تو کبھی کسی بس سے ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا سفر۔ غرض پورے 1 دن کا سفر طے کرنے کے بعد امجد واپس کشمیر پہنچ چکا تھا جہاں اب اسے اپنے اور اپنے دوستوں کے علاج کا بندوبست کرنا تھا کیونکہ وہ نہ صرف بری طرح زخمی تھے بلکہ اس سفر نے انہیں اور بھی نڈھال کر دیا تھا۔ اور انہیں امید تھی کہ میجر دانش جلد ہی انہیں پاکیشا کسی اہم مشن کے لیے بلائے گا، اس لیے جلد سے جلد دوبارہ صحب یاب ہونا بہت ضروری تھا۔
امجد اور اسکے ساتھیوں کو چھوڑنے کے بعد کرنل وشال اپنا سا منہ لیکر کافی دیر تک اسی قید خانے میں بیٹھا رہا۔ اسکے لیے امجد کو دوبارہ گرفتار کروانا کوئی مسئلہ نہیں تھا اور وہ اپنی فورس کا استعمال کر کے دانش کو بھی ٹریس کر سکتا تھا، مگر ٹینا میں اسکی جان تھی وہ اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا، اس لیے اس نے نہ تو امجد اور اسکے ساتھیوں کا پیچھا کیا اور نہ ہی میجر دانش کو ٹریس کرنے کی کوشش کی۔ اسکے ماتحت اسکو اس طرح بے بسی سے بیٹھا دیکھ کر ایکدوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے اور دل ہی دل میں اپنی ناکامی اور پاکیشا کے ایک اکلوتے افسر کی کامیابی پر داد دے رہے تھے جس نے انکے ملک میں انہیں بے بس کر دیا تھا۔ مگر پھر اچانک کرنل وشال کو کیپٹن مکیش کا خیال آیا۔ اس نے اپنے نمبر سے کیپٹن مکیش کا نمبر ڈائل کیا ، کافی دیر تک فون بجنے کے باوجود کسی نے فون نہیں اٹھایا تو اس نے دوبارہ سے فون ملایا، مگر دوسری بار بھی فون بجتا رہا اور کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ پھر کرنل وشال نے کیپٹن مکیش کی پتنی کو فون کیا ، چند گھنٹیوں کے بعد فون پر کیپٹن مکیش کی پتنی کی آواز سنائی دی تو کرنل وشال نے ترنت اس سے مکیش کے بارے میں پوچھا مگر وہ بھی کیپٹن مکیش سے بے خبر تھی، اس نے بتایا کہ کیپٹن مکیش نے کل سے کوئی فون نہیں کیا اور نہ ہی وہ فون اٹھا رہا ہے۔

کرنل وشال سمجھ گیا تھا کہ کیپٹن مکیش یا تو اگلے جہاں جا چکا ہے یا پھر سخت مصیبت میں ہے اور میجر دانش کی قید میں ہوگا۔ کیپٹن مکیش سے جب کسی قسم کا کوئی رابطہ نا ہوسکا تو کرنل وشال نے ہولستان کے مکھیہ منتری اکبر لوکاٹی کو کال کی، مگر اسکا نمبر بھی آوٹ آف سروس تھا۔ پھر کرنل وشال نے خود گوا جانے کا فیصلہ کیا۔ اسکا خیال تھا کہ میجر دانش اب گوا سے جا چکا ہوگا، لیکن جہاں وہ اور اسکی بیٹی رکے تھے وہاں سے ہوسکتا ہے کوئی سراغ مل سکے اور ویسے بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا کرنل وشال کی سرشت میں شامل نہیں تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی زندگی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا اس لیے اس نے ابھی تک میجر دانش کو گوا میں پکڑنے کے آرڈر نہیں دیے تھے مگر وہ یہ ٹریس کوا چکا تھا کہ میجر دانش گوا سے دہلی کی طرف سفر کر رہا تھا، ٹینا کے موبائل سے مسلسل وہ معلوم کر رہا تھا کہ اسکی کرنٹ لوکیشن کیا ہے۔ میجر دانش گوا سے نکل چکا تھا اس لیے گوا جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں تھی یہی سوچ کر کرنل وشال نے ایک سپیشل طیارے کے ذریعے گوا جانے کی تیاری پکڑی اور کچھ ہی گھنٹوں کے بعد کرنل وشال گوا کے بیچ پر موجود تھا جہاں اس وقت رات کا وقت تھا، مگر رات کی اس تاریکی میں بھی گوا جاگ رہا تھا اور بیچ پر لوگوں کا رش موجود تھا۔

کرنل وشال راستے میں ہی پتا لگا چکا تھا کہ ٹینا نے کس ہٹ میں سٹے کیا تھا۔ کچھ دیر کی کوشش کے بعد وہ اس ہٹ کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور سیدھا وہاں چلا گیا۔ دروازے پر بیٹھے سیکیورٹی گارڑ نے کرنل کو روکنے کی کوشش کی تو کرنل وشال نے پہلے اسے ایک تھپڑ رسید کیا اور اسکے بعد اپنا نام بتا کر اندر داخل ہوگیا اور سیکیورٹی گارڈ دل ہی دل میں کرنل کو گالیاں بکتا بے چارگی کی تصویر بنا واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کرنل وشال اندر گیا تو کمرے کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے تک یہاں کوئی موجود تھا۔ ایک میز پر 2 گلاس پڑے تھے جن میں کوئی مشروب تھا جو پینے والے نے آدھا گلاس میں ہی چھوڑ دیا تھا، ایک سائیڈ پر کچھ کپڑے پڑے تھے جن کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ ساحل سمندر سے واپس آکر اتار کر رکھے گئے ہیں، ان میں برا اور پینٹی بھی موجود تھی اور ایک مردانہ شارٹ نیکر بھی تھی۔ کرنل وشال انہتائی احتیاط کے ساتھ کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ شاید کوئی کام کی چیز ملے اور اسکے ساتھ ساتھ وہ کسی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگا رہا تھا تاکہ کسی سپیشل ٹیم کو بلوا کر فنگر پرینٹس بھی لیے جا سکیں۔ پورے کمرے میں سناٹا تھا، کرنل وشال پورے کمرے کا جائزہ لینے کے بعد سامنے موجود واش روم کی طرف بڑھا، جسکا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ دروازہ آہستہ آہستہ کھول کر کرنل وشال اندر داخل ہوا تو فرش گیلا تھا اور اس پر پانی کھڑا تھا۔ ایک کونے میں ایک برا اور پینٹی بھی موجود تھی۔ یہ دیکھ کر کرنل وشال کو یقین ہوگیا تھا کہ میجر دانش اسکی بیٹی ٹینا کی چوت مار چکا تھا، مگر اب وہ کس حال میں ہوگی یہ سوچ سوچ کر کرنل وشال پریشان ہورہا تھا۔

کرنل وشال واش روم سے نکلا اور مین روم کے ساتھ موجود دوسرے کمرے کی طرف بڑھنے لگا، کمرے کے دروازے پہنچ کر کرنل نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور بہت ہی احتیاط کے ساتھ اندر جھانکنے لگا۔ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کرنل وشال کی نظریں کمرے میں موجود الماری سے ہوتی ہوئی بیڈ تک گئی اور بیڈ پر نظر پڑتے ہی کرنل وشال کو ایک شاک لگا۔ سامنے بیڈ پر کوئی اور نہیں بلکہ اسکی بیٹی ٹینا لیٹی ہوئی تھی، اسکی آنکھیں بند تھیں، بدن پر ایک شرٹ تھی اور نیچے ٹراوزر پہنا ہوا تھا۔ کرنل وشال بھاگ کر اسکے پاس پہنچا اور اسکا چہرہ پکڑ کر اسے ہلانے لگا، اسے ایک شاک لگا تھا کہ شاید اسکی بیٹی اب اس دنیا میں نہیں رہی، میجر دانش اسکی بیٹی کو ابدی نیند سلا کر یہاں سے نکل چکا ہے۔ مگر ایک ، دو آوازوں سے ٹینا کی آنکھ کھل گئی جو میجر دانش اور تانیہ کے جانے کے بعد تھکاوٹ سے چور گہری نیند سورہی تھی۔ اپنے سامنے پاپا کو دیکھ کر ٹینا نے خوشی سے ایک چیخ ماری اور پاپا سے لپٹ گئی، کرنل وشال بھی نہال ہوکر اپنی بیٹی کو پیار کرنے لگا۔ اپنی اکلوتی بیٹی کو صحیح سلامت اپنے سامنے دیکھ کر اسکی جان میں جان آگئی تھی۔ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں ٹینا سے پوچھا بیٹا تم ٹھیک تو ہو نا؟؟

ٹینا نے چہکتے ہوئے کہا پاپا میں تو ٹھیک ہوں مگر آپ اچانک ایسے کیسے آگئے؟؟؟ آپ تو پاکیشا کے ایجنٹ کو پکڑنے کے لیے مشن پر تھے، مشن چھوڑ کر بیٹی کی یاد کیسے آگئی آپکو؟؟ ٹینا کی آواز میں خوشی تو تھی مگر کرنل وشال حیران تھا کہ اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹینا کو ابھی تک عمران کی اصلیت کا نہیں پتا؟؟؟ کرنل وشال نے حیرانی کے ساتھ ٹینا سے پوچھا بیٹا کیا تمہیں میجر دانش کے بارے میں نہیں معلوم نہیں؟؟؟ ٹینا نے حیران ہوتے ہوئے کہا پاپا مجھے کیسے معلوم ہوگا اسکے بارے میں، اسکو تو آپ پکڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اسکی وجہ سے اپنی بیٹی کی بھی یاد نہیں آتی آپکو؟؟؟ کرنل وشال سمجھ گیا تھا کہ اسکو ابھی تک عمران کی اصلیت کا نہیں پتا۔ مگر کیا واقعی اس نے ٹینا کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا؟؟ کرنل وشال نے یہی بہتر سمجھا کہ ٹینا کو عمران کی اصلیت کے بارے میں نہ بتایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا برا اثر لے۔ کیونکہ اتنا تو کرنل وشال سمجھ گیا تھا کہ ٹینا عمران سے بہت زیادہ اٹیچ ہوگئی تھی اور اسکے ساتھ جسمانی تعلقات تک قائم کر چکی تھی، ایسے میں اجے کے بعد عمران کی بے وفائی ٹینا کو دکھ دینے کا باعث بن سکتی تھی۔ اب کی بار کرنل وشال نے عمران کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟؟؟ ٹینا نے حیران ہوتے ہوئے کہا پاپا کیا ہوگیا ہے آپکو؟؟؟ آپ سے اسکی بات تو ہوئی تھی، اسکےدوست کے کوئی دور کے رشتے دار مشکل میں تھے اور آپ سے پوچھ کر ہی تو وہ انکی مدد کو گیا ہے۔ اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ اب کرنل وشال کو یقین ہوگیا تھا کہ عمران نے اسکی بیٹی کو کچھ بھی پتہ نہیں لگنے دیا اور وہ بہت مہارت کے ساتھ باپ بیٹی کو اندھیرے میں رکھ کر یہاں سے جا چکا ہے۔

ٹینا کچھ دیر تک اپنے پاپا کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی رہی ، کرنل وشال کو ٹینا کی باتوں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ عمران کے لیے بہت زیادہ جذباتی ہوگئی ہے ، اور اسے اپنانا چاہتی ہے، ٹینا نے خود بھی کرنل کو بتایا کہ وہ بہت ہونہار نوجوان ہے، اسکو بس آپکی مدد کی ضرورت ہے، آپ اسے آرمی میں بھرتی کروا لیں اور اپنے ساتھ رکھیں، وہ بہت آگے جائے گا، خاص کر کمپیوٹر میں وہ بہت ماہر ہے۔۔۔ اس سے پہلے کہ ٹینا کرنل کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ توڑنے کی خبر سناتی اسکو عمران کی کہی ہوئی بات یاد آگئی کہ یہ بات کرنل وشال کو نا بتائے، وہ خود ہی اپنی مہارت دکھا دے گا وگرنہ کرنل وشال غصے میں اسکو سزا بھی دلوا سکتا ہے۔ یہی سوچ کر ٹینا چپ ہوگئی اور اس سے آگے کچھ نہ بولی کہ وہ کمپیوٹر فیلڈ میں بہت ماہر ہے۔ کرنل نے ٹینا سے کیپٹن مکیش کے بارے میں بھی پوچھا تو ٹینا نے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ اس سے بس کل رات ہی بات ہوئی تھی اسکے بعد سے اسکا کوئی اتا پتا نہیں۔

کرنل وشال سمجھ گیا کہ کیپٹن مکیش نے میجر دانش کو پکڑنے کی کوشش کی ہوگی اور میجر نے اسکو ٹھکانے لگا دیا ہوگا۔ مگر اس دوران تانیہ کا ذکر کہیں نہیں آیا، اسکو تانیہ کی خوش قسمتی ہی سمجھ لیجیے کہ ٹینا نے کہیں بھی انجلی کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کرنل وشال کے ذہن میں یہ بات آئی کہ وہ میجر دانش کی ساتھی تانیہ کے بارے میں کچھ پوچھے، اسکے ذہن میں ابھی صرف یہی بات تھی کہ اسکی بیٹی صحیح سلامت ہے اسکے لیے یہی کافی ہے۔ باتوں باتوں میں کرنل وشال نے ٹینا کو بتایا کہ عمران کی واپسی ابھی 2 دن تک تو نہیں ہوگی، تو چلو تم میرے ساتھ واپس ممبئی، جس پر ٹینا راضی ہوگئی مگر اپنے پاپا سے فون لیکر اپنے نمبر پر فون کرنے لگی کیونکہ اسکا فون میجر دانش کے پاس تھا۔ لیکن نمبر آف جا رہا تھا، ٹینا نے 2، 3 بار کوشش کی مگر نمبر نہیں ملا تو اس نے مایوس ہوکر فون واپس اپنے پاپا کو دے دیا، اور کچھ ہی دیر کے بعد دونوں باپ بیٹی واپس ممبئی کی طرف روانہ ہورہے تھے۔

کرنل وشال کے ذہن میں ایک طرح سے میجر دانش کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اسنے ٹینا کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور کوئی تکلیف نہیں دی۔ یہ تو وہ نہیں جانتا تھا کہ میجر دانش نے اسکی بیٹی کی چوت اور گانڈ کا کیا حشر کیا تھا مگر چوت اور گانڈ کے علاوہ میجر دانش نے کسی بھی طرح سے ٹینا کو تکلیف نہیں دی۔ اسی لیے کرنل کے ذہن میں اب میجر دانش کو پکڑنے کا خیال نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ہی مشن پر غور کر رہا تھا کہ اسے آگے کیا کرنا ہے ۔ اگلی صبح کرنل وشال اور ٹینا واپس اپنے گھر میں موجود تھے۔ واپس گھر پہنچ کر کرنل وشال کچھ دیر سستانے کے لیے لیٹ گیا تھا کیونکہ کافی دنوں سے اسکی نیند پوری نہیں ہوئی تھی، میجر دانش کو پکڑنے کے چکر میں وہ دن رات ایک کر بیٹھا تھا مگر آخر میں پتہ لگا کہ میجر دانش اسکی بیٹی کی بینڈ بجاتا رہا ہے اور اسکی بیٹی کی ٹائٹ چوت اور گانڈ کے مزے لیتا رہا اور کرنل وشال اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی گانڈ میں درد کروا بیٹھا تھا۔

دوپہر کو جب کرنل وشال سو کر اٹھا تو اب اسکا ذہن کافی فریش تھا اور اب دوبارہ سے وہ میجر دانش کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس نے اپنے گھر کا بھی اچھی طرح جائزہ لیا خاص کر ٹینا کے کمرے کا کیونکہ وہ ٹینا کی زبانی جان چکا تھا عمران نے ایک رات اسی کے کمرے میں بتائی تھی۔ بہت باریک بینی سے تلاشی لینے کے باوجود بھی کرنل وشال کو کوئی خاص چیز نہیں ملی جس سے میجر دانش کے بارے میں کچھ پتا لگ سکے کہ اسکا آگے کا پلان کیا ہوگا۔ اب کرنل وشال میجر دانش کے حوالے سے کافی غصے میں تھا، رات جو نرم گوشہ اسکے دل میں پیدا ہوا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا، اب اسے اس اچیز کا احساس نہیں تھا کہ میجر دانش نے اسکی بیٹی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی، اب اگر اسکے ذہن میں کچھ تھا تو وہ یہ کہ میجر دانش نے ایک معمولی میجر ہونے کے باوجود کرنل وشال جیسے سینئر آفیسر کی راتوں کی نیند حرام کر دی اور اسکی بیٹی کے بارے میں غلط بیانی کر کے اسے تکلیف پہنچائی۔ اب دوبارہ سے وہ میجر دانش کے خون کا پیاسا ہوگیا تھا۔ مگر اب کی بار کرنل وشال نے جو سوچا تھا وہ خطرناک تھا۔ اب کرنل وشال میجر دانش کو ڈھونڈنے کی بجائے واپس پاکیشا جا کر اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ٹھان چکا تھا، یہی ایک طریقہ تھا میجر دانش سے اپنی تذلیل کا بدلہ لینے کا۔ اسکا ملک دو لخت ہوجائے اس سے بہتر بدلہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

یہ سوچ کر کرنل وشال نے اپنی تیاری کی، اپنی ٹیم کو اپنے اگلے پلان کے بارے میں آگاہ کیا، ٹینا کی حفاظت کا خصوصی بندوبست کرنے کے لیے گھر پر موجود تمام سیکورٹی گارڈز کو چینج کر دیا گیا مبادا ان میں کوئی میجر دانش کا جاسوس ہو۔ نئے سیکورٹی گارڈز کو گھر پر تعینات کیا گیا، اسکے ساتھ ساتھ نہایت اعلی تربیت یافتہ لڑاکا جوانوں کو پوری کالونی میں پھیلا دیا گیا جو آنے والے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے تاکہ اگر میجر دانش یا اسکا کوئی ساتھی ٹینا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ لڑاکا نوجوان اسکا خاتمہ کر سکیں۔ اسکے ساتھ ساتھ کرنل وشال نے اپنی ایک خصوصی ٹیم کو گوا سے دہلی جانے والے راستے پر میجر دانش کی تلاش کے لیے بھیج دیا گیا، جہاں تک ٹینا کے موبائل کے ذریعے میجر دانش کا پتہ لگ سکتا تھا لگایا گیا، مگر جہاں پر میجر دانش نے موبائل آف کیا اسکے آگے وہ کہاں گیا، اس چیز کا کسی کو کوئی علم نہیں تھا۔ کرنل وشال نے دہلی میں بھی اینٹی ٹیرررسٹ ٹیموں کو چوکنا کر دیا تھا تاکہ اگر میجر دانش دہلی میں کوئی دہشت گردی کی کاروائی کرنا چاہے تو اسکو منہ کی کھانی پڑے۔

یہ تمام اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ کرنل وشال نے اپنی ٹیم کو پاکیشا جانے کی تیاری کرنے کے احکامات بھی دے دیے تھے۔ مگر اب کی بار وہ سمندری راستے کی بجائے زمینی راستے سے جانے کی تیاریوں میں تھا تا کہ جلد سے جلد پاکیشا جا کر وہ بڑا کام کر سکے جسکی ہلکی سی بھنک تانیہ کر پڑ چکی تھی اور وہ اسکے بارے میں میجر دانش کو بھی آگاہ کر چکی تھی۔ کرنل وشال نے ٹینا کو بھی اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ پاکیشا جا رہا ہے اور اسکے جانے کے بعد ٹینا اپنا خصوصی خیال رکھے۔ ہندوستان میں تمام ضروری کام نمٹانے کے بعد اگلے دن کرنل وشال اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سکھ یاتریوں کا بھیس بدل کر ٹرین کے ذریعے پاکیشا کی طرف روانہ ہوگیا تھا جبکہ ٹینا جو ابھی تک نہیں جانتی تھی کہ اسکا نیا بوائے فرینڈ عمران اصل میں اسکے پاپا کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے اور وہی میجر دانش ہے، اسکا انتظار کر رہی تھی اور بار بار اپنے نمبر پر کال کر رہی تھی جو مسلسل آف جا رہا تھا۔ ہندوستان کی سیکریٹ سروسز بھی پچھلے 24 گھنٹے سے میجر دانش کو تلاش کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں مگر ابھی تک انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
میجر دانش نے جب کرنل وشال سے فون پر بات کر لی تو وہ واپس کمرے میں آیا جہاں تانیہ یعنی انجلی اور ٹینا دونوں ابھی تک بِنا کپڑوں کے ہی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ عمران نے پہلے الماری سے اپنا ایک ٹراوزر نکال کر پہنا اور پھر اوپر سے شرٹ پہننے کے بعد آگے بڑھ کر ٹینا کو پیار کیا اور بولا تم فکر نہیں کرو میں جلد ہی واپس آجاوں گا۔ اسکے بعد وہ انجلی کی طرف بڑھا اور اسکے ہونٹوں کو چوس کر اسکی تعریف کی کہ تمہیں چودنے کا بہت مزہ آیا، اگلی بار تم سے کبھی ملاقات ہوئی تو تمہاری چوت کے ساتھ ساتھ تمہاری گانڈ کی بھی چودائی کروں گا۔ یہ سن کر انجلی مسکرائی اور بولی نہیں میں نے کبھی گانڈ نہیں مروائی۔ اور جو تم نے آج ٹینا کی گانڈ کا حشر کیا ہے وہ دیکھ کر تو میں کبھی بھی گانڈ نہیں مرواوں گی، البتہ تمہارا لن بہت تگڑا ہے تم بس میرے ان رشتے داروں کی مدد کر دو، میں خود تم سے ایک بار اور ضرور چدواوں گی۔ یہ سن کر عمران نے ایک بار پھر انجلی کے ہونٹوں کو چوسا اور باہر نکل گیا۔

عمران کے جانے کے بعد انجلی کچھ دیر ٹینا کے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹی رہی ، پھر اس نے ٹینا کی طرف دیکھا اور بولی اب مجھے چلنا چاہیے۔ لوکاٹی میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ ٹینا جو اپنی چوت اور گانڈ کی طرف سے بے حد پریشان تھی اس نے بھی کہا ہاں ٹھیک ہے تم جاو میں عمران کا ویٹ کروں گی ادھر ہی۔ اب انجلی نے ٹینا کو کہا کہ وہ تو یہاں برا اور پینٹی پہن کر ہی آئی تھی اور وہ بھی واش روم میں اتار دیا، اب صاف نہیں وہ۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو مجھے اپنی کوئی شرٹ اور ٹراوزر دے دو جو میں پہن کر یہاں سے جا سکوں۔ یہ سن کر ٹینا نے الماری کی طرف اشارہ کیا اور بولی یہاں سے دیکھ لوجو تمہیں فِٹ آتا ہو پہن لو۔ انجلی نے الماری کھولی اور وہاں سے ایک لوز شرٹ اٹھا کر پہن لی۔ یہ سفید رنگ کی شرٹ تھی اور اسکے ساتھ ہی ایک شارٹ ٹراوزر جو کالے رنگ کا تھا وہ بھی پہن لیا۔ شرٹ کے نیچے انجلی نے برا نہیں پہنا تھا جسکی وجہ سے اسکے نپلز کا تناو نظر آرہا تھا مگر اسے اس چیز کی فکر نہیں تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد انجلی ٹینا کو ملی اور اسے ایک گڈ بائے کس کر کے کمرے سے نکل گئی۔

کمرے سے نکل کر انجلی سیدھی اپنے ہوٹل گئی جہاں کل رات وہ لوکاٹی کے لن پر سواری کرتی رہی تھی۔ ہوٹل پہنچ کر اس نے ایک بار وہی الماری کھول کر دیکھی جس میں میجر دانش نے کیپٹن مکیش کو باندھ کر بند کر دیا تھا، کیپٹن مکیش ابھی تک بے ہوشی کی حالت میں تھا، تانیہ کو لگا کہ کہیں یہ مر نہ گیا ہو، اس نے نبض چیک کی تو وہ چل رہی تھی۔ یعنی کیپٹن محض بے ہوش تھا مرا نہیں تھا۔ اسکی تسلی کر کے تانیہ نے دوبارہ سے الماری بند کر دی اور اپنے ضروری کپڑے نکال کر اپنا بیگ تیار کیا۔ بیگ تیار کرنے کے بعد انجلی نے فریج سے کچھ فروٹ نکال کر کھائے اور جوس پیا۔ میجر دانش سے دھواں دار چودائی کروانے کے بعد تانیہ کو تھوڑی نقاہت محسوس ہورہی تھی اور اسکا جسم بھوک کی وجہ سے ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ مگر فروٹ کھانے سے تانیہ کو کافی بہتری محسوس ہورہی تھی اور جوس پینے سے بھی تانیہ اب کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔ مگر اسکے جسم پر ابھی تک ٹینا کی ہی شرٹ تھی جو اسکو کافی فِٹ آئی تھی اور اس میں نہ صرف تانیہ کے ممے بہت ٹائٹ اور بڑے دِکھ رہے تھے بلکہ اسکے نپل بھی تنے ہوئے تھے اور شرٹ کے اوپر سے نظر آرہے تھے۔ اب تانیہ نے اپنی ایک چھوٹی شال نکالی اور اپنے کندھوں پر ڈال کر آگے سے اپنا تنا ہوا سینہ اس شال سے ڈھانپ لیا اور پھر اپنا سامان اٹھا کر لوکاٹی کے کمرے میں چلی گئی جو اسکے کمرے کے ساتھ ہی تھا۔ لوکاٹی کے کمرے کے باہر 2 گارڈ کھڑے تھے ، یہ وہی گارڈ تھے جنہیں کل رات کیپٹن مکیش نے ٹھکائی کر کے بےہوش کر دیا تھا، مگر ان گارڈز نے لوکاٹی کو اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا کیونکہ اس طرح انکی نوکری جا سکتی تھی۔ نہ ہی لوکاٹی کو اس بارے میں کچھ معلوم ہوا تھا کیونکہ صبح جب وہ سو کر اٹھا تب تک اسکے گارڈز دوبارہ سے چاک و چوبند کمرے کے باہر کھڑے تھے۔

تانیہ کو دیکھ کر گارڈز نے اندر جانے کا راستہ دیا تو تانیہ سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی جہاں لوکاٹی کسی شخص کے ساتھ فون پر بات کر رہا تھا۔ تانیہ کو آتا دیکھ کر لوکاٹی کے چہرے پر خوشی کے نمایاں اثرات دیکھے جا سکتے تھے۔ تانیہ سیدھی لوکاٹی کے پاس گئی اور اسکی ایک ٹانگ پر اس طرح بیٹھ گئی کہ تانیہ کے دونوں چوتڑ لوکاٹی کی تھائی پر تھے اور اس نے اپنا ایک بازو پھیلا کر لوکاٹی کی گردن میں ڈال لیا تھا اور ہولے سے اسکے کان کے ساتھ اپنے مخملی ہونٹوں سے ایک کِس کر لی تھی۔ لوکاٹی نے بھی اپنا ایک بازو پھیلا کر تانیہ کی پتلی کمر کے گرد لپیٹ لیا تھا۔ کچھ مزید باتیں کرنے کے بعد لوکاٹی نے فون بند کر دیا اور تانیہ کو اپنی بانہوں میں لیکر اپنے سینے سے لگا کر اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ تانیہ بھی لوکاٹی کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد لوکاٹی نے تانیہ کو اپنی گود سے اتارا اور بولا انجلی بے بی، پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے، چلو اب چلیں ہماری فلائیٹ کا ٹائم ہورہا ہے۔ تمہاری یہ خواہش اب میں پاکیشا جا کر ہی پوری کروں گا۔ انجلی نے بھی ایک سمائل پاس کی اور بولی چلو ڈارلنگ ، میں تو بالکل تیار ہوں۔ مگر نیچے ریسیپشن پر میرے روم کے بل کلئیر کرنے والے رہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی لوکاٹی نے ریسیپشن پر کال کی اور انہیں بتایا کہ مِس انجلی جس روم میں ٹھہری تھیں انکا بل لوکاٹی کے کریڈٹ کارڈ سے چارج کر لیں۔

پھر لوکاٹی نے انجلی کو چلنے کا اشارہ کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ انجلی بھی لوکاٹی کے پیچھے پیچھے کمرے سے نکل گئی، کمرے سے نکلتے ہی ایک گارڈ نے انجلی کے ہاتھ سے اسکا سامان پکڑ لیا اور انجلی لوکاٹی کے ساتھ ساتھ اسکے بازو میں بازو ڈالے چلنے لگی۔ جبکہ لوکاٹی کا سامان اسکے گارڈز اور دوسرا عملہ پیچھے پیچھے لا رہے تھے۔ ہوٹل سے نکلے تو ہوٹل کے ساتھ ہی ایک کالے رنگ کی مرسڈیز تیار کھڑی تھی، لوکاٹی اس مرسڈیز کی طرف بڑھنے لگا۔ گاڑی کے قریب پہنچا ڈرائیور نے فورا لوکاٹی کے لیے دروازہ کھولا جبکہ انجلی گاڑی کے پیچھے سے ہوتی ہوئی گھوم کر دوسری جانب والے دروازے کی طرف گئی اور اتنی دیر میں ڈرائیور بھاگتا ہوا اس کی طرف گیا اور اسکے لیے بھی دروازہ کھولا۔ انجلی ایک ادائے بے نیازی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی لوکاٹی کا ایک ہاتھ انجلی کی تھائیز پر تھا اور گاڑی اب فراٹے بھرتی ائیرپورٹ کی جانب روانہ ہوچکی تھی۔

لوکاٹی ہولے ہولے اپنا ہاتھ انجلی کی تھائیز پر مسل کر اپنی ٹھرک پوری کر رہا تھا، اسکو یقین نہیں ہورہا تھا کہ اتنی جوان اور سیکسی لڑکی یوں اسکے ساتھ جانے کے لیے راضی ہوگئی، مگر پھر اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ انڈیا میں لڑکیوں کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ پاکیشا میں فیملیز کا مسئلہ ہوتا ہے، مگر انڈیا میں تو لڑکیوں کو آزادی ہے وہ اپنی مرضی سے اپنا لم سفر چن سکتی ہیں۔ اور انجلی تو پھر ایک بڑے باپ کی بیٹی تھی اسکے لیے یہ فیصلہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ لوکاٹی اپنی قسمت پر رشک کرتے ہوئے دل ہی دل میں انجلی کی چوت میں اپنا لن اندر باہر کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب ائیر پورٹ نزدیک آگیا تو لوکاٹی نے تانیہ کو کہا کہ پاکیشا کا ماحول تھوڑا مختلف ہے، اگر تم اس شارٹ ٹرازور کی جگہ کچھ اور پہن لو تو بہتر رہے گا کیونکہ وہاں پر پردے کا رواج ہے۔ اور لوکاٹی کی ہونے والی بیوی اگر ان کپڑوں میں پاکیشا جائے گی تو اسکی ناک کٹ جائے گی۔ انجلی نے مسکراتے ہوئے کہا فکر نہیں کرو جان، میں ائیر پورٹ پر چینج کر لوں گی۔ ائیر پورٹ پر اتر کر انجلی اپنے بیگ سے ایک شلوار قمیص اور اپنا برا نکال کر واش روم چلی گئی اور وہاں اپنے کپڑے تبدیل کر لیے۔ واپسی پر لوکاٹی نے انجلی کو ایک جعلی پاسپورٹ تھمایا جو دکھنے میں باالکل اصلی تھا۔ لوکاٹی نے کہا اول تو تم میرے ساتھ جا رہی ہو کوئی تمہارا پاسپورٹ چیک نہیں کرے گا، لیکن اگر کوئی کرے بھی صحیح تو یہ اپنے بیگ میں رکھو ضرورت پڑنے پر دکھا دینا۔ انجلی نے اوکے کہ کر پاسپورٹ اپنے بیگ میں ڈال لیا اور حیرت انگیز طور پر کسی نے بھی انجلی سے یا کسی اور شخص سے ویزا یا پاسپورٹ نہیں مانگا۔ یہ کام شاید لوکاٹی پہلے ہی کروا چکا تھا ایویشن کی جانب سے تمام تیاری پہلے سے مکمل تھی تاکہ وی آئی پی شخصیات کو انتظار کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ کچھ ہی دیر بعد انجلی لوکاٹی کے ساتھ ایک چھوٹے مسافر جہاز پر سوار تھی جس میں بمشکل 25 افراد سوار ہونگے اور ان 25 میں سے بھی 10 تو لوکاٹی کے لوگ تھے۔ انجلی اور لوکاٹی ساتھ ساتھ سیٹ پر بیٹھے تھے ، لوکاٹی کے ہاتھ یہاں بھی انجلی کی تھائیز کا مساج کر رہے تھے جبکہ انجلی اس چیز سے بے خبر آسمان کی بلندیوں سے نیچے نظر آنے والی زمین کا نظارہ کر رہی تھی اور دل ہی دل میں امجد اور دوسرے ساتھیوں کی خیریت کی دعائیں کر رہی تھی اور آنے والے حالات میں میجر دانش کی سلامتی اور پاکیشا کو ان ملک دشمن غداروں سے آزادی کی دعائیں کر رہی تھی۔
انجلی اور ٹینا کو گڈے بائے کہ کر میجر دانش ہٹ سے نکلا اور سیدھا ایک پی سی او پر جا کر اپنے کچھ ساتھیوں کو کال کی جنکا قریبی تعلق تھا آئی ڈی آئی سے۔ انکو کال کر کے میجر دانش نے انہیں تلقین کی کہ امجد اور اسکے ساتھیوں کے بارے میں پتا کریں کہ کرنل وشال نے انہیں چھوڑا ہے یا نہیں، اور وہ خود سے میجر دانش سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کریں وہ خود ہی رابطہ کر لے گا۔ میجر دانش کے پاس ٹینا کا موبائل موجود تھا مگر وہ اس کو استعمال کر کے اپنے دوسرے ساتھیوں کو مصیبت میں نہیں پھنسانا چاہتا تھا اس لیے اس نے ٹینا کے موبائل سے کال نہیں کی۔ ٹینا کا موبائل پاس رکھنے کا محض یہی مقصد تھا کہ کرنل وشال اگر ٹینا کے موبائل کو ٹریک کرے تو وہ یہی سمجھے کہ میجر دانش اسکی بیٹی کو لیکر گوا سے نکل چکا ہے ۔ تاکہ گوا میں کرنل وشال سیکیورٹی نہ بھیجے اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے کے لیے اور تانیہ کو موقع مل سکے کہ وہ سکون اور آرام کے ساتھ لوکاٹی کے ساتھ پاکیشا روانہ ہوسکے۔ ٹینا کی گاڑی بھی میجر دانش کے استعمال میں تھی وہ گوا سے دہلی کی جانب کا سفر کر رہا تھا کیونکہ اسکا اگلا ٹارگٹ دیپیکا پڈوکون تھی۔ اس سے مل کر میجر دانش جاننا چاہتا تھا کہ آخر پاکیشا کے خلاف کونسی سازش ہورہی ہے جس میں بالی ووڈ کی حسینائیں بھی شامل ہیں۔

قریب 3 گھنٹے کے سفر کے بعد میجر دانش نے ٹینا کی گاڑی کو ایک چھوٹے سے گاوں میں چھوڑ دیا تھا اور ٹینا کا موبائل آف کر کے اسکی سم نکال کر وہ بھی گاڑی میں ہی پھینک دیا اور خود ایک دیہاتی کا روپ دھار کرماتھے پر ہندوں کی طرح سرخ ٹیکا لگا کر دہلی کی جانب روانہ ہوچکا تھا۔ ٹینا کی گاڑی چھوڑنے کے بعد میجر دانش نے کچھ سفر ایک لوکل بس میں طے کیا جہاں سے پھر اسکو اسکے کچھ ساتھی مل گئے جو اپنی گاڑی میں میجر دانش کو دہلی تک لے کر گئے۔ دہلی پہنچنے سے پہلے ہی میجر دانش کو معلوم ہوچکا تھا کہ کرنل وشال نے اسکو پکڑنے کے لیے دہلی کی پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا تھا، اسی لیے وہ دہلی میں داخل ہونے سے پہلے دیہاتی کے حلیے کو چھوڑ کر ایک فوجی کا روپ اپنا چکا تھا۔ فوجی یونیفارم میجر دانشے کو اسکے ساتھیوں نے مہیا کر دیا تھا اور میجر دانش جانتا تھا کہ پولیس کی اتنی ہمت نہیں کہ وہ ایک آرمی آفیسر کو روک کر اس سے پوچھ گچھ کر سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ میجر دانش بہت ہی آسانی سے دہلی شہر میں داخل ہوگیا تھا۔ میجر دانش رات کے پچھلے پہر دہلی میں داخل ہوا تو اس نے ایک چھوٹے ہوٹل میں بکنگ کر کے وہاں رات بسر کی۔ اس دوران میجر دانش نے کسی بھی ساتھی سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کرنل وشال کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ سکون سے اپنی نیند پوری کرنے کے بعد اگلے دن میجر دانش نے دوبارہ سے اپنے روابط بڑھائے جنکے ذریعے اسے پتا لگا کہ آج رات دہلی کے ایک مشہور ہوٹل ، ہوٹل مہاراجہ میں بالی ووڈ کے ستارے جلوہ گر ہونگے۔ جہاں بالی ووڈ کے نامور ہیرو اور ہیروئین ایک چھوٹا سا شو کریں گے جس میں دہلی پولیس کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا۔ یہ شو دہلی پولیس کے حوصلے بڑھانے کے لیے تھا۔ اسی شو میں دیپیکا پڈوکون بھی اپنے حسن کے جلوے دکھانے پہنچ رہی تھی۔

میجر دانش نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس شو میں شرکت کرے گا اور دیپیکا پڈوکون سے ملنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ سب سے پہلے میجر دانش نے ایک انڈین آرمی آفیسر کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے قابو کیا اور اسکا حلیہ اپنا کر اسکا آئی ڈی کارڈ اور شناخت خود اپنا لی۔ پھر میجر دانش نے انڈر ورلڈ کے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا اور انہیں اپنا تعارف کیپٹن سنجے مشرا کے نام کرویا۔ اور انہیں بتایا کہ وہ ہوٹل مہاراجہ میں ہونے والے آج کے شو میں شرکت کرنا چاہتا ہے لہذا اسے وہاں کا ایک پاس چاہیے۔ اور یہ شرکت اسکی ذاتی حیثیت میں ہوگی اس لیے وہ آرمی کا اثر و رسوخ استعمال کرنا نہیں چاہتا۔ لہذا کسی کو بھی اس بات کی بھنک نہیں پڑنی چاہیے کہ کیپٹن سنجے مشرا اس شو میں شرکت کر رہا ہے۔ ہندوستان میں بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں انڈر ورلڈ کا اثر و رسوخ ضرورت سے زیادہ ہی ہے ہندوستان کی سرکار فلم انڈسٹری کو کنٹرول نہیں کر سکتی بلکہ وہاں کے انڈر ورلڈ کے لوگ بالی ووڈ کے ہیرو اور تتلیوں کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ میجر دانش نے انڈر ورلڈ کے کچھ لوگوں کی مدد حاصل کی اور اس شو کا پاس حاصل کر لیا۔ نام ور انڈر ورلڈ گینگ سے تعلقات رکھنے کا یا ان سے مدد لینے کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ آپکا بڑے سے بڑا ناجائز کام بھی کر دیتے ہیں اور راز بھی کبھی افشا نہیں کرتے ۔ یہ معمول کی بات تھی کہ آرمی اور پولیس کے اعلی افسران انڈر ورلڈ کی مدد سے بالی ووڈ کی تتلیوں کو اپنے بستر کی زینت بناتے تھے اسی بات کا فائدہ میجر دانش کو ہوا اور اسے با آسانی ایک پاس مل گیا جسکے ذریعے وہ ہوٹل مہاراجہ میں ہونے والے شو میں شرکت کر سکتا تھا۔

رات کے 9 بجے میجر دانش پینٹ شرٹ پہنے مگر ساتھ میں کیپٹن سنجے شرما کا آرمی بیج لگائے اور ساتھ ایک پسٹل رکھے مہاراجہ ہوٹل کے سامنے پہنچ چکا تھا جہاں آنے جانے والوں سے نہ صرف پاس چیک کیے جا رہے تھے بلکہ انکی تلاشی بھی لی جا رہی تھی۔ میجر دانش سنجے شرما کے روپ میں سیکیورٹی کے قریب پہنچا تو ایک شخص اسکی تلاشی لینے کے لیے آگے بڑھا، سنجے شرما نے اپنا پاس دکھانے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈال کر آرمی کا بیج نکال کر دکھایا تو سیکورٹی گارڈ سلیوٹ مار کر سائیڈ پر ہوگیا اور بغیر تلاشی لیے سنجے شرما کو اندر جانے دیا۔ ہوٹل کے اندر پہنچا تو ریسیپشن پر موجود ایک خوبصورت انگریز لڑکی نے کیپٹن سنجے شرما کا استقبال کیا، لڑکی نے گہرے گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی جسکا اوپر والا بٹن کھلا تھا اور لڑکی کے گورے گورے ممے دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔ لڑکی نے کیپٹن سنجے شرما کو ویلکم کہنے کے بعد دوبارہ سے پاس دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو کیپٹن نے پاس دکھانے کی بجائے اپنا نام بتایا، نام سنتے ہی وہ لڑکی ایک دم چوکنی ہوگئی اور دوسرے آنے والے مہمانوں کو چھوڑ کر کیپٹن سنجے کو لیکر بڑے ہال کی طرف بڑھنے لگی۔ لڑکی نے کیپٹن کو آگے چلنے کا اشارہ کیا اور بولی چلیے سر میں آپکو آپکی سیٹ تک چھوڑ آتی ہوں۔ انگریز لڑکی کے منہ سے ہندی سن کر کیپٹن سنجے حیران ہوا، مگر پھر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لڑکی کو آگے چلنے کا اشارہ کیا اور کہا لیڈیز فرسٹ۔

اس لڑکی نے ایک سمائل پاس کی راہداری سے ہوتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔ کیپٹن شرما بھی لڑکی کے پیچھے پیچھے اسکی بل کھاتی کمریا کو اور ہر قدم پر باہر نکلتی گانڈ کو دیکھ کر اسکے پیچھے چل رہا تھا۔ کچھ دور جا کر لڑکی نے ایک بڑے ہال کا کمرہ کھولا اور تھوڑا سا جھکر کر ہاتھ کے اشارے سے کیپٹن سنجے شرما کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ کیپٹن نے اسکے خوبصورت مموں پر ایک گہری نظر ڈالی اور تھینک یو بول کر ہال نما کمرے میں داخل ہوگیا۔ یہ ایک بہت بڑا ہال تھا جس میں کم و بیش 100 چھوٹے گول میز لگے ہوئے تھے، ہر میز کے ساتھ 4، 4 کرسیاں پڑی تھیں۔ کافی میز خالی تھے ، ابھی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ کیپٹن گہری نظروں سے اندر موجود مہمانوں کا جائزہ لینے لگا۔ ہر طرف سے مہکتی ہوئی خوشبو آرہی تھی، جب بھی کیپٹن کے نزدیک سے کوئی گزرتا تو ایک نئی ہی خوشبو اسکی سانسوں کو مہکا دیتی۔ ہر طرف رنگا رنگ لباس میں ملبوس فلمی ستارے دکھائے دے رہے تھے۔ ان میں سے کچھ کو تو کیپٹن شرما جانتا تھا جب کہ کچھ چہرے اسکے لیے نئے تھے۔ مگر انکے لباس سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ بھی فلم انڈسٹری سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

کیپٹن شرما یعنی کہ میجر دانش کچھ آگے بڑھا اور دیپیکا پڈوکون کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا، مگر وہ اسے کہیں نظر نہ آئی۔ کیپٹن کے ایک ہاتھ میں سگار تھا، اور سر پر ایک کیپ لے رکھی تھی جس سے وہ کسی پرانی ہندی فلم کا ہیرو لگ رہا تھا۔ ابھی کیپٹن ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اسکے کانوں میں ایک مدھر آواز نے اپنا رس گھولا، ہیلو سر، آپ کسی کو تلاش کر رہے ہیں کیا؟؟؟ کیپٹن نے مڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان لڑکی زرق برق چمکتے لباس میں ملبوس اسکے سامنے کھڑی تھی۔ لڑکی کو دیکھ کر کیپٹن نے اسکا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا، بغیر آستینوں کے گہرے گلے والی قمیص میں ملبوس یہ لڑکی اپنے کم و بیش 36 سائز کے ممے لیے کیپٹن کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ کیپٹن نے اسکی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنا ہاتھ نکال کر ہیلو بولا۔ لڑکی نے بھی اپنا نرم و نازک ہاتھ کیپٹن کے ہاتھ میں دے کر ہیلو کہا تو کیپٹن نے اپنا تعارف کروایا۔ کیپٹن کا نام سن کر لڑکی نے ایمپریس ہونے والے انداز میں ایک سمائل پاس کی اور تھوڑا سا جھک کر کیپٹن کا سواگت کیا۔ کیپٹن شرما نے کہا، میں تو کسی حسین چہرے کو ڈھونڈ رہا تھا، آپکو دیکھ کر لگتا ہے کہ میری تلاش ختم ہوگئی ہے۔ کیپٹن کے منہ سے اپنی تعریف سن کر لڑکی کھلکھلا کر ہنسی اور بولی یہ تو آپ کی زرہ نوازی ہے ورنہ ہم اس قابل کہاں۔ کیپٹن نے لڑکی کا ہاتھ چھوڑا اور بولا اب آپ یہ بتائیں کہ ہم آپکو کس نام سے مخاطب کر سکتے ہیں؟؟ لڑکی اٹھلاتے ہوئے بولی ویسے تو میرا نام ہنسیکا موتووانی ہے، مگر پیار سے لوگ مجھی ہنسی بلاتے ہیں۔ یہ سن کر کیپٹن سنجے نے کہا مگر ہم تو آپکو پیار سے ہنی بلائیں گے۔ یہ سن کر ہنسیکا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور اسکی کلیویج پہلے سے بھی زیادہ واضح ہوگئی۔ ہنسیکا تامل فلموں کی مشہور اداکارہ تھی جو اپنے بچپن میں رہیتک روشن کے ساتھ بھی چائلڈ سٹار کی حیثیت سے کام کر چکی تھی، مگر کیپٹن سنجے شرما نے نہ کبھی اسکی کوئی فلم دیکھی تھی اور نہ ہی اسکا نام سنا تھا۔ مگر ایسی صورتحال میں یہ کہ دینا کہ میں آپکو نہیں جانتا مناسب نہیں لگتا، اس لیے کیپٹن نے صورتحال کو بڑا اچھے طریقے سے ہینڈل کیا اور بولا ہنی جی آپ فلموں میں جتنی سیکسی لگتی ہیں اس سے کہیں زیادہ تو آج اصل زندگی میں سیکسی ہیں۔ تعریف سننا لڑکیوں کی کمزوری ہوتی ہے، اور ہنسیکا بھی اپنی تعریف سن کر خوش ہوگئی تھی۔ اب وہ کیپٹن شرما سے چپک چپک کر کھڑی ہورہی تھی اور کیپٹن بھی اسکے جسم کی نزاکت اور خوبصورتی سے مزے لے رہا تھا۔

کچھ دیر مزید ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد ہنسیکا کو تامل فلموں کے ہی ایک ہیرو نے فون کیا اور اپنے پاس بلایا تو ہنسیکا نے کیپٹن شرما کی جان چھوڑی اور اس سے دوبارہ ملنے کا کہ کر وہاں سے چلی گئی۔ ہنسیکا کے جانے کے بعد کیپٹن شرما دوبارہ سے دیپیکا پڈوکون کو ڈھونڈنے لگا، اس دوران اسکو وہاں پر ہندی فلموں کے مشہور ہیرو انیل کپور بھی ملے اور کیپٹن شرما نے انکے ساتھ سرسری بات چیت کی۔ اسی طرح بالی ووڈ کے کچھ اور نامور اداکاروں سے بھی کیپٹن شرما کی ملاقات ہوئی مگر کیپٹن شرما کو تو تلاش تھی دیپیکا پڈوکون کی۔ جو نہ صرف اسکے مشن کے لیے بہت ضروری تھی بلکہ اسکی پسندیدہ ترین ہیروئین بھی تھی۔ کیپٹن نے دیپیکا کی تمام فلمیں دیکھ رکھی تھیں اور وہ اسکے جسم کے ابھاروں سے کافی متاثر تھا۔ خاص کر دیپیکا کا شاہ رخ خان کے ساتھ مشہور گانے لو میرا ہِٹ ہِٹ میں دیپیکا پڈوکون کے برا میں چھپے ہوئے بڑے بڑے ممے اسے ہمیشنہ مٹھ مارنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ لیکن افسوس کے کیپٹن شرما کو ابھی تک دیپیکا پڈوکون کی ایک جھلک تک دکھلائی نہ دی تھی البتہ وہاں موجود باقی اداکاراوں کے چھوٹے چھوٹے کپڑوں سے جھلکتے انکے سیکسی اور گرم گرم جسم دیکھ کر کیپٹن کو اپنی پینٹ میں ہلچل محسوس ہو رہی تھی۔ ہر اداکاراہ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اسکے ممے سب سے بڑے ہونگے اور اسکی کلیویج سب سے زیادہ سیکسی ہے، مگر جیسے ہی وہ اگلی اداکارہ کو دیکھتا تو اسے لگتا اصل ممے تو اسکے ہیں پہلے والی کے تو کچھ بھی نہیں تھے۔ کسی کے ممے تو کسی کی گانڈ، ایک سے بڑھ کر ایک نظارا مل رہا تھا کیپٹن شرما کو اور اسکی پینٹ میں موجود لوڑا اسے بے چین کیے جا رہا تھا۔
پھر اچانک کیپٹن کی نظر ایک کونے میں موجود ٹیبل پر پڑی جہاں ایک انہتائی خوبصورت اور سیکسی اداکارہ بیٹھی تھی، اور کیپٹن سنجے شرما اسے جانتا بھی تھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر وہ بالکل اکیلی بیٹھی تھی اور اسکے ساتھ نہ تو کوئی بالی ووڈ کا اداکار تھا اور نہ ہی کوئی اداکارہ۔ ایسی محفل میں اتنی سیکسی لڑکی کا اکیلے بیٹھنا یقینا حیرت کی بات تھی۔ کیپٹن کے قدم خود بخود اسکی طرف بڑھنے لگے، اسکے قریب جا کر کیپٹن نے انتہائی شائستہ لہجے میں کہا اگر آپ برا نہ منائیں تو کیا میں کچھ دیر آپکے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں؟ اس لڑکی نے ایک دم چونک کر کیپٹن کی طرف دیکھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی کیپٹن نے اسکے سامنے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنا نام بتایا۔ کیپٹن کا نام سن کر اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ بولی یس وائے ناٹ۔ پلیز سِٹ۔ کیپٹن اب اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا اور دل ہی دل میں اسکے سیکسی بدن کی تعریف کرنے لگا۔ یہ پورن انڈسٹری کی مشہور اداکارہ سنی لیون تھی۔ بھارتی نژاد اداکارہ کینڈا کی رہنے والی تھی اور پورن فلموں میں نمایاں مقام رکھتی تھی۔ حال ہی میں اس نے بھارتی فلموں میں کام کرنا شروع کیا تھا اور اسکی بالی ووڈ کی پہلی فلم جسم 2 حال ہی میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسکی فلم تو اچھا بزنس کر رہی تھی مگر بالی ووڈ انڈسٹری میں خاص پذیرائی نہیں ملی تھی۔ خصوصا ساتھی اداکاراوں کی طرف سے سنی لیون کو مخالفت کا سامنا تھا کیونکہ انکا خیال تھا کہ پورن انڈسٹری سے آنے والی اداکارہ کو بالی ووڈ میں جگہ نہیں ملنی چاہیے، جبکہ سنی لیون اور اسکے چند چاہنے والوں کا خیال تھا کہ اگر کوئی اداکارہ ماضی میں گندی فلموں میں کام کرتی رہی ہے اور اب اس کام کو چھوڑ چکی ہے تو بالی ووڈ میں اسکو جگہ ملنی چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکے۔ یہی وجہ تھی کہ سنی لیون اس وقت ہال میں اکیلی بیٹھی تھی۔ کچھ اداکار اس سے ضرور ملنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ سنی لیون پورن سٹار ہے تو ایسی لڑکی جو فلموں میں سب کے سامنے چدوانے میں شرم محسوس نہیں کرتی وہ لازمی طور پر انکے بستر کو بھی خوب گرم کر سکتی ہے، مگر اپنی ساتھی اداکاروں کی ناراضگی کے ڈر سے ابھی تک کسی نے سنی لیون کے قریب جانے کی ہمت نہیں کی تھی۔ سرسری بات چیت تو سب کر لیتے تھے مگر باقاعدہ کمپنی دینے کے لیے سنی لیون کے پاس کوئی نہ تھا۔

کیپٹن سنجے شرما سنی لیون کے پاس بیٹھ کر بہت خوشی محسوس کر رہا تھا۔ کچھ دیر دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، کیپٹن شرما نے اپنا تعارف کروانے کے علاوہ اپنے بارے میں اور اپنے کارناموں کے بارے میں سنی لیون کو بہت کچھ بتایا۔ ظاہری بات ہے کیپٹن شرما نے جو کچھ بتایا وہ جھوٹ پر مبنی تھا کیونکہ وہ تو اصل میں پاکیشائی آرمی کا میجر دانش تھا، جبکہ یہاں وہ ہندوستانی آرمی کے کیپٹن کی حیثیت سے سنی لیون کے سامنے بیٹھا تھا۔ مگر سنی لیون ان جھوٹے کارناموں سے بھی کافی امپریس ہوگئی تھی۔ ویسے بھی کوئی اور تو اسکو کمپنی دے نہیں رہا تھا، ایسے میں ایک کیپٹن کی کمپنی مل جانا بڑی بات تھی، سنی لیون نے بھی سن رکھا تھا کہ اگر آپ نے بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں کامیاب ہونا ہے تو آپکا انڈر ورلڈ کے ساتھ یا پھر آرمی میں اچھا تعلق ہونا چاہیے۔ یہی سوچ کر سنی لیون کیپٹن شرما سے بہت بے تکلف ہو کر بات چیت کر رہی تھی۔

باتیں کرتے کرتے کیپٹن شرما نے سنی لیون کو کہا، سنی جی آپ میری فیورٹ ہیروئیں ہیں۔۔۔ میں نے آپکی سب فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔۔۔ کیپٹن شرما کی بات سن کر سنی لیون حیران ہوئی اور بولی لیکن میری تو ابھی تک صرف ایک ہی فلم ریلیز ہوئی ہے۔۔۔ اب کی بار کیپٹن شرما تھوڑا سا ہچکچایا اور بولا، نہیں اصل میں آپ سمجھی نہیں، میں وہ ۔ ۔ ۔ آپکی دوسری فلموں کی بات کر رہا ہوں۔۔ یہ کہتے ہوئے کیپٹن شرما کی نظریں سنی لیون کے 38 سائز کے مموں پر تھی جو اسکی گہرے گلے والی قمیص کو پھاڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سنی لیون بھی سمجھ گئی، مگر بغیر ہچکچائے اس نے ایک قہقہ لگایا اور بولی اچھا، تو آپ نے وہ فلمیں بھی دیکھ رکھی ہیں۔ اور کس کس کی فلمیں دیکھتے ہیں آپ؟؟؟ کیپٹن شرما بولا اجی اور تو کسی کی بھی فلم مل جائے دیکھ ہی لیتا ہوں، مگر آپ کی فلم تو لازمی دیکھتا ہوں میں۔ اب کی بار سنی لیون نے اٹھلاتے ہوئے پوچھا کہ آخر میری فلمیں ہی کیوں؟؟؟ مجھ سے بھی خوبصورت لڑکیاں ان فلموں میں کام کرتی ہیں انکی فلمیں آپ کیوں نہیں اس طرح دیکھتے جس طرح میری ہر فلم دیکھتے ہو؟؟؟

اس پر کیپٹن شرما بولا، سنی جی ایک تو آپ اپنے ہی دیش کی ہو، دیسی بیوٹی کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے، دوسرا فلم میں جس طرح آپ سیکس سے بھرپور آوازیں نکالتی ہو، وہ کوئی اور نہیں نکالتی۔ آپکی فلم دیکھ کر لگتا ہے جیسے حقیقت میں ہم آپ ہمارے سامنے ہی بِنا کپڑوں کے سیکس کر رہی ہیں۔ اب کی بار سنی لیون نے کہا۔۔ ویل۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی کوئی تو اور ہیروئیں ہوگی پورن فلموں کی جو آپکو پسند ہوگی؟؟ سنی کی بات سن کر سنجے شرما نے ایک گہری سانس لی اور بولا، اگر کسی دوسری ہیروئین کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں آپ تو مجھے ٹوری بلیک بہت پسند ہے۔ سنی لیون نے پوچھا وہ کیوں پسند ہے؟؟؟ سنجے شرما نے کہا ایک تو اس نے دوسری پورن سٹارز کی طرح اپنے بوبز بڑے نہیں کروائے، اسکے بوبز تھوڑے چھوٹے ہیں مگر نیچرل ہیں۔ دوسری بات اس نے اپنے آپکو بہت فِٹ رکھا ہوا ہے اور تیسری بات وہ بھی سیکس کو بالکل اسی طرح انجوائے کرتی ہے جیسے آپ۔ یہ سن کر سنی لیون کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور بولی اچھا آپکو ٹوری بلیک کا سب سے اچھا سیکس سین کونسا لگا؟؟ سنجے شرما نے فٹ سے جواب دیا ٹوری بلیک کی مووی آئی وانا بینگ یور سسٹر میں ٹوری بلیک نے بہت عمدہ پرفارم کیا ہے۔ سنی لیون نے پوچھا اور میری فلم کا؟؟؟ اس پر کیپٹن سنجے شرما تھوڑا سا مسکرایا اور بولا ناٹی امیریکا میں آپ نے ریبیکا کے ساتھ جو لیسبین سیکس کیا اسکو دیکھ دیکھ کر تو میں بہت بار واش روم میں ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ کیپٹن شنجے اپنی بات پوری کرتا سنی لیون نے اسے ٹوک دیا بس بس بس۔۔۔۔ میں سمجھ گئی۔۔۔ یہ کہ کر وہ ہنسی اور تھوڑا شرماتی ہوئی بولی، کیپٹن صاحب آپ شادی شدہ ہیں؟؟؟ یہ سوال سن کر کیپٹن نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولا ابھی تک تو مجھ غریب کے لیے کسی لڑکی نے حامی نہیں بھری۔۔۔ شاید کوئی مل جائے جلد ہی۔۔ یہ سن کر سن لیون ایک بار پھر سے کھلکھلا کر ہنسی اور بولی اچھا تو یہی وجہ ہے کہ آپ میری فلمیں دیکھ دیکھ کر ہی گزارا کرتے ہیں اور پھر واش روم میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بات مکمل کیے بغیر ہی سنی ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگی، مگر اب کی بار کیپٹن شرما تھوڑا اکڑ کر بیٹھ گیا اور بولا نہیں سنی جی اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، وہ تو آپ کی محبت ہے کہ میں آپکی فلمیں دیکھتا ہوں، ورنہ بستر گرم کرنے کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے۔ آپکو تو پتہ ہی ہے ہندوستان میں آرمی آفیسر کے لیے تو لڑکیاں مری جاتی ہیں، اور آرمی افسر سے ہر لڑکی ہی دوستی کرنا چاہتی ہے۔ تو میری بھی کچھ لڑکیاں ہیں جو دوست بھی ہیں، اور بیوی کی کمی بھی محسوس نہیں ہونے دیتیں۔ انکے ساتھ اچھا ٹائم گزر جاتا ہے۔

یہ سن کر سنی لیون نے کہا واہ ، پھر تو خوب زندگی گزر رہی ہے آپکی۔ اب کیپٹن شرما سنی لیون کے تھوڑا قریب ہوگیا اور بولا سنی جی آپ برا نہ منائیں تو ایک راز کی بات پوچھوں؟؟ سنی لیون نے کہا ہاں پوچھو۔۔ کیپٹن شرما بولا سنی جی آپ کی زیادہ تر فلمیں لیسبین ہی ہیں جن میں آپ کسی دوسری لڑکی کے ساتھ سیکس کرتی ہیں، یا پھر اگر کوئی مرد ساتھ ہو تو اسکا ڈِک آپ سک کرتی ہیں منہ میں لے کر۔ مگر آپکی بہت ہی کم فلمیں ہیں جس میں آپ نے کسی مرد کے ساتھ مکمل سیکس کیا ہو۔ ایسا کیوں؟ یہ سن کر سنی لیون نے کہا کہ ایسی بات نہیں ، میری ایسی بہت سی فلمیں ہیں، مگر انٹرنیٹ پر ایسی بہت کم فلمیں دستیاب ہیں، زیادہ تر وہ ہیں جو لیسبین سیکس پر ہیں، جن میں کوئی مرد مجھے چود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ سوری۔۔۔ میرا مطلب ہے جس میں کوئی مرد میرے ساتھ سیکس کر رہا ہو ایسی فلمیں انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن اگر آپ چاہیں تو میں آپکو اپنی وہ فلمیں بھی دے سکتی ہوں۔ یہن سن کر کیپٹن شرما نے ایک قہقہ لگایا، اور بولا جب تک آپ سے ملے نہیں تھے تب تک تو فلموں پر گزارا ہوتا تھا مگر آج جب مل ہی لیا تو پھر فلم کی ی ی ی ی ی بجائےےےےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ کر کیپٹن شرما نے ایک شیطانی مسکراہٹ سے سنی کی طرف دیکھا اور اپنا فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ سنی لیون بھی کیپٹن کا مطلب سمجھ گئی تھی۔ وہ بھی مسکرا دی مگر اس نے اس بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

اسکے بعد کچھ دیر مزید کیپٹن شرما سنی کے ساتھ باتیں کرتا رہا جس میں اسکی نئی آنے والی ہندی فلمیں بحث کا موضوع رہیں۔ اس دوران کیپٹن کی نظریں مسلسل دیپیکا پڈوکون کو تلاش کرتی رہیں، مگر وہ ابھی تک نظر نہیں آئی تھی۔ پھر کیپٹن شرما نے سنی لیون سے دوبارہ سے پورن فلموں اور سیکس کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی، کیونکہ کیپٹن شرما کا لن سنی لیون کو اپنے سامنے دیکھ کر بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اور جب سنی لیون کو بھی سیکس پر بات کرنے سے کوئی ہچکچاہٹ نہ تھی تو ایسے میں کوئی بھی مرد بھلا کیسے سنی لیون کے ساتھ کسی اور موضوع پر گفتگو کر سکتا تھا۔ اب کی بار کیپٹن شرما نے سنی لیون سے پوچھا کہ جن مردوں کے ساتھ آپ نے پورن فلموں میں کام کیا ، اور جنہوں نے آپ کو فک کیا، کیا وہ فلم کے علاوہ بھی آپکے ساتھ فکنگ کرتے ہیں یا محض فلم کی حد تک ہی ہوتا ہے؟؟ کیپٹن کے اس سوال پر سنی ہلکا سا مسکرائی اور بولی فرض کریں آپ میرے ساتھ فلم میں کام کر رہے ہیں اور فلم کی شوٹنگ کے دوران آپ نے کیمرہ مین، ڈائریکٹر اور دوسرے عملے کے سامنے مجھے فک کیا، تو کیا آپ بغیر کیمرے کے بھی مجھے فک کرنا پسند کریں گے؟؟؟ اس پر کیپٹن شرما نے فورا کہا جی بالکل، بھلا دوسرے لوگوں کے سامنے فک کرنے کا کیا مزہ، جس میں بار بار بریک بھی لگے، ڈائریکٹر کے کہنے پر پوزیشن بھی چینج کرنی پڑے، اپنی کوئی مرضی ہی نہ ہو، اگر کیمرے کے سامنے میں آپکی لوں گا، تو کیمرے کے بغیر تو میں آپکی دبا کر ماروں گا۔

کیپٹن کے اس بولڈ جواب پر سنی لیون کھلکھلا کر ہنسی اور بولی بس باقی جو پورن سٹارز میرے ساتھ کام کرتے ہیں اور فلم میں مجھے فک کرتے ہیں، وہ بھی فلم کے علاوہ میری دبا کر مارتے ہیں۔ یہ کہ کر سنی لیون ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

پھر کیپٹن شرما نے سنی سے پوچھا فلم کے ہیرو کے علاوہ جو لوگ ارد گرد کھڑے ہوتے ہیں، انکا دل نہیں کرتا اس ٹائم سیکس کرنے کو؟؟؟ اس پر سنی لیون نے کہا کہ وہ پہلے سے ہی کسی نا کسی کی لے چکے ہوتے ہیں، اور جس ہیروئین کا فک سین ہوتا ہے اسکو سب سے پہلے تو ڈائریکٹر خود اپنے نیچے لٹا کر اسکی لیتا ہے پھر ہیرو کو موقع ملتا ہے کیمرے کے سامنے اسکی لینے کا۔ اسکے علاوہ کبھی کبھار کیمرہ مین بھی فرمائش کر دیتا ہے تو اسکو بھی دینی پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ تو چلتا ہی رہتا ہے وہاں پر۔ ایک ایک لڑکی کو ایک ہی دن میں 4 سے 5 لوگ تو لازمی فک کرتے ہیں۔

پھر کیپٹن شرما تھوڑا مسکراتا ہوا بولا کبھی کسی آرمی والے کو بھی دی ہے آپ نے یا بس فلم ڈائریکٹرز اور ہیرو کو ہی دیتی رہی ہیں آج تک؟؟؟ اب کی بار لنی لیون تھوڑی سی آگے کو جھکی اپنی کہنیاں ٹیبل پر رکھ کر اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں رکھا اور بولی آج تک تو نہیں، لیکن لگتا ہے کہ آج تو دینی ہی پڑے گی آرمی آفیسر کو بھی۔ یہ کہ کر سنی لیون نے اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ کے اوپر رکھی اور ٹانگ کو ہلکا سا گھما کر اس پوزیشن میں لے آئی کے اسکے جوتے کی ہیل سیدھی کیپٹن سنجے شرما کی دونوں ٹانگوں کے درمیان موجود ہتھیار پر جا کر لگی۔ سنی کی اس اچانک حرکت سے کیپٹن شرما ایک دم اپنی کرسی پر ہل کر رہ گیا، مگر پھر دوبارہ سے آرام سے بیٹھا گیا اور سنی کی گہرے گلے والی شرٹ سے جھانکتے ہوئے مموں پر نظریں جما کر بولا پھر کیا پروگرام ہے؟؟؟

کیپٹن کی بات سن کر سنی لیون اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور کیپٹن کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولی چلیں۔۔۔ سنی لیون کی اس اچانک آفر سے کیپٹں سنجے شرما ہڑ بڑا گیا، اسے بالکل بھی امید نہیں تھی کہ سنی یوں ایک دم سے تیار ہوجائے گی اور اسے اپنی چوت دینے کی آفر کر دے گی۔ مگر اب جب کہ لڑکی خود آفر کر رہی تھی تو اسکو انکار کرنا بھلا کہاں کی مردانگی تھی۔ کیپٹن شرما نے سنی کا ہاتھ تھاما اور اسکے ساتھ چل لیا۔ سنی لیون بڑے ہال سے نکل کر ایک راہداری سے ہوتی ہوئی سامنے لگی لفٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسکے جسم سے آنے والی مہک کیپٹن شرما کو پاگل کیے دے رہی تھی۔ سنی نے اپنا ایک بازو کیپٹں کے بازہ میں ڈالا ہوا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ لفٹ کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ کیپٹن کبھی تو سامنے لفٹ کی طرف دیکھتا تو کبھی اسکی نظریں سنی کے سینے کی طرف چلی جاتیں، جہاں دونوں مموں کے ملاپ میں گہری کلیویج دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔ کیپٹن دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ان مموں کے درمیان اگر اسکا لن ہو اور دونوں مموں کو ملا کر انکی خوب چدائی کی جائے تو کیسا مزہ آئے گا۔
لفٹ کے سامنے پہنچ کر سنی نے لفٹ کو اوپر بلایا اور کچھ ہی دیر کے بعد لفٹ کا دروازہ کھلا تو اندر سے کترینہ کیف اور رنبیر کپور نکلے۔ کترینہ کیف نے تو سنی کی طرف دیکھتے ہی ناگواری کا اظہار کیا اور فورا ہی سامنے دیکھنے لگی، جبکہ رنبیر کپور کی نظروں نے سنی کا ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا اور پھر اسکے سینے کا معائنہ کرتے ہوئے کترینہ کے ساتھ ہی آگے چل نکلا۔ کیپٹن شرما نے کترینہ کیف کی بھی کافی فلمیں دیکھ رکھی تھیں اور آج کیپٹن کی واقعی احساس ہوا کہ کترینہ کیف بہت لمبی لڑکی ہے، وہ قریب قریب کیپٹن شرما کے برابر ہی تھی قد کاٹھ میں۔

اب سنی لیون اور سنجے شرما لفٹ میں موجود تھے اور سنی نے اوپر والی منزل کا بٹن دبایا تو سنجے شرما نے پوچھا کہ ہوٹل میں کوئی کمرہ ریزو ہے کیا؟؟؟ تو سنی ایک دم سے ہنسی اور بولی نہیں، یہاں ہم مہمان کے طور پر رہنے نہیں آئے، بس فنکشن کے لیے ہال کی بکنگ ہے اسکے علاوہ کوئی بھی کمرہ بک نہیں ۔ تو کیپٹن سنجے شرما نے کہا پھر ہم کہاں جا رہے ہیں آخر۔ سنی لیون مسکرائی اور بولی لگتا ہے آپ کبھی پہلے ایسی کسی محفل میں شریک نہیں ہوئے، ورنہ آپکو پتا ہوتا کہ یہاں پر کیا کچھ ہوتا ہے۔ سنجے شرما اب تھوڑا سا ہچکچایا اور بولا نہیں میں واقعی پہلے ایسی کسی پارٹی یا فنکشن میں نہیں آیا۔ سنی نے کہا بس پھر جہاں میں جارہی ہوں تم بھی وہیں چلو میرے ساتھ تمہیں لگ جائے گا پتہ۔ اتنے میں لفٹ دوبارہ سے رک گئی اور لفٹ کا دروازہ کھل گیا تو سنی لیون ایک راہداری میں سے گزرنے لگی، کیپٹن شرما بھی اسکے ساتھ ساتھ تھا۔ نیچے والی منزل کی نسبت یہاں پر رش نہ ہونے کے برابر تھا، راہداری کے دونوں اطراف میں کمرے تھےمگر سب کے سب بند پڑے تھے، یا تو ان میں تھا نہیں کوئی یا پھر یہ انکے باہر نکلنے کا ٹائم نہیں تھا۔

راہداری ختم ہوئی تو سنی لیون دائیں جانب مڑ گئی اور تھوڑی دور جا کر کیپٹن شرما کو رکنے کا اشارہ کیا اور خود تھوڑا سا آگے جا کر بائیں جانب ایک دروازے میں داخل ہوگئی۔ کچھ ہی سیکنڈز کے بعد سنی دوبارہ اس دروازے سے باہر نکلی اور کیپٹن شرما کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ کیپٹن فورا اسکی طرف بڑھا، مگر اندر جانے سے پہلے کیپٹن نے جب کمرے کا نمبر نوٹ کرنے کے لیے اوپر کی جانب دیکھا تو اسکو یہ دیکھ کر شاک لگا کہ وہ کمرہ نہیں بلکہ لیڈیز واش روم تھے۔ اس سے پہلے کہ کیپٹن کچھ سوچتا، سنی نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر کھینچ لیا۔ اندر لائن میں آمنے سامنے قریب 15 سے 16 چھوٹے چھوٹے دروازے تھے ، سنی سنجے شرما کو کھینچتی ہوئی ایک دروازے کے قریب جا کر رکی اور دروازہ کھول کر سنجے کو بھی اندر لے گئی اور فورا سے دروازہ بند کر دیا۔ اندر ایک کموڈ لگا ہوا تھا اور اسکے ساتھ ایک ہینڈ شاور تھا۔ سنی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئی اور دروازہ بند کرتے ہی سنجے شرما کو کالر سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے ہونٹ سنجے شرما کے ہونٹوں پر رکھ کر انہیں چوسنے لگی۔

سنجے شرما کے لیے یہ سب کچھ بہت حیران کن اور اچانک ہوا تھا وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پایا تھا، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یوں لیڈیز ٹوائلٹ میں ، وہ بھی جو پبلک کے لیے ہوں کسی لڑکی کی چوت مارے گا۔ مگر اب ایسی باتیں سوچنے کا ٹائم نہیں تھا، اب سنجے شرما کے ہاتھ بھی سنے کی کمرے کے پیچھے جا چکے تھے اور اس نے سنی لیون کی ننگی کمر کو مضبوطی سے پکڑ کر اسے اپنے اور بھی قریب کر لیا تھا اور اسکے رسیلے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف ہوگیا تھا۔ سنی کو سنجے کی پینٹ میں سے ایک موٹی چیز اپنی چوت پر چبھتی محسوس ہورہی تھی جس سے سنی جیسی تجربہ کار لڑکی کو سمجھ لگ گئی تھی کہ آج اسے ایک تگڑا لن چودنے والا ہے۔ سنجے شرما ابھی بہت دیر سنی کے رسیلے ہونٹوں سے رس چوسنے کے موڈ میں تھا مگر سنی ایسی جگہوں پر چودائی کی ماہر تھی، وہ جانتی تھی کہ ایسی جگہ پر سیکس کرنے کے لیے چوما چاٹی کی بجائے سیدھے لن پھدی کے ملاپ کی طرف بڑھنا چاہیے اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لن کا مزہ لے لینا چاہیے۔ اسی لیے تھوڑی دیر کے بعد ہی سنی نے سنجے کو اپنے سے دور کیا اور سنجے کے سامنے ہی بیٹھ گئی اور بیٹھتے ہی اس نے اپنا ہاتھ سنجے کے لن پر رکھااور ایک بار نظریں اٹھا کر سنجے کی طرف ستائشی نظروں سے دیکھ کر اسکی بیٹ کھولنے کے بعد پینٹ کی زپ بھی کھول دی اور پھر پینٹ کی ہک کھول کر اپنا ہاتھ سنجے شرما کے انڈر وئیر میں ڈال کر اسکا موٹا اور تگڑا لن نکال لیا۔ سنی نے کچھ لمحوں کے لیے کیپٹن سنجے شرما کا لن پکڑ کر اسکو ٹوپی سے لیکر جڑ تک دیکھا اور پھر اپنا منہ کھول کر لن کی ٹوپی پر رکھا اور اپنے ہونٹوں کو ٹوپی کے گرد گول گول گھمانے لگی۔

ویسے تو سنی لیون نے اس سے لمبے لن بھی دیکھ رہے تھے مگر جب سے وہ انڈیا آئی تھی تب سے اسے کوئی اتنا لمبا لن چودائی کے لیے نہیں ملا تھا اس لیے وہ خوش تھی کہ آج کافی عرصے بعد کوئی تگڑا لن اسکی چودائی کرے گا۔ کچھ دیر تک ٹوپی پر پیار کرنے کے بعد اب سنی لیون سنجے کے لن کے چوپے لگا کر اسے گیلا کر رہی تھی۔ اور سنجے شرما کو آج صحیح معنوں میں چوپے لگوانے کا مزہ آرہا تھا۔ آج ایک پروفیشنل رنڈی اسکے لن کے چوپے لگانے میں مصروف تھی اسی لیے سنجے شرما کا دل کر رہا تھا کہ وہ دیر تک اسکے لن کے چوپے لگاتی رہے مگر کچھ ہی دیر کے بعد سنی نے سنجے کا لن منہ سے نکال کر اسکے ٹٹوں کو ہاتھ میں پکڑا اور پھر انہیں مٹھی میں بند کر کے تھوڑا سا ٹٹوں کو مٹھی سے باہر نکال کر انکو اپنی زبان سے چوسنے لگی۔ سنجے کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا اور اسے بہتااچھا لگ رہا تھا۔ سنجے شرما منہ اوپر کر کے لمبے لمبے سانس لے رہا تھا اور سنی کے زبان کا مزہ اپنے ٹٹوں پر محسوس کر رہا تھا کہ اچانک اسکو سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ سنجے شرما نے منہ نیچے کر کے سنی لیون کو دیکھا مگر وہ تو اسکے ٹٹے چوسنے میں مصروف تھی۔ سنجے شرما نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو اسنے محسوس کیا کہ ساتھ والے کسی واش روم سے یہ کسی لڑکی کی سسکیوں کی آوازیں ہیں۔ سنجے شرما سمجھ گیا کہ ساتھ والے واش روم میں بھی یہی کام جاری ہے، مگر اسکو اس سے کیا، اسکے ٹٹے تو اس وقت انڈیا کی سب سے بڑی رنڈی اپنے منہ میں لیکر چوس رہی تھی لہذا اسکا دھیان دوبارہ سے اپنے ٹٹوں کی طرف چلا گیا۔ کچھ دیر ٹٹے چوسنے کے بعد سنی لیون نے ایک بار پھر سنجے شرما کا لن اپنے منہ میں ڈالا اور اس پر خوب زور دار چوپے لگائے۔

پھر سنی لیون اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر ساتھ لگے کموڈ پر رکھ دی اور اپنا لباس جو مشکل سے اسکی تھائیز تک تھا اسکو اوپر اٹھا کر اپنے چوتڑوں سے بھی اوپر لے گئی بلکہ اپنی ناف تک اوپر اٹھا دیا۔ نیچے سے سنی لیون نے سرخ رنگ کی خوبصورت پینٹی پہن رکھی تھی۔ سنی لیون نے اپنی پینٹی کا فرنٹ حصہ سائیڈ پر کر کے اپنی پھدی ننگی کر دی۔ سنجے شرما کی نظریں جیسے ہی سنی لیون کی گلابی پھدی پر پڑی وہ فورا اسکو چاٹنے کے لیے نیچے جھکنے لگا مگر سنی نے اسے پکڑ کر جھکنے سے منع کیا اور آہستہ آوازمیں بولی اس کا وقت نہیں ہے تم بس اندر ڈالو۔ یہ کہ کر سنی نے سنجے کا تگڑا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے کھینچ کر اپنی پھدی کے قریب کر لیا۔ سنجے کا لن اب سنی لیون کی پھدی سے ٹکرا رہا تھا۔سنجے نے ادھر ادھر دیکھا اور بولا چیخ مت مارنا میں ڈالنے لگا ہوں۔ سنی نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولی تم فکر نہیں کرو میری چیخیں نکلوانا تمہارے بس کی بات نہیں، تم بس اندر ڈالو اور شروع ہوجاو۔

کیپٹن سنجے شرما کو بھی اپنی حماقت کا احساس تھا ، بھلا جو رنڈی دن میں 3، 4 مردوں کے لن سے اپنی پھدی کی تواضع کرواتی ہو اسکی ایک لن سے کیسے چیخیں نکلیں گی۔ یہ سوچ کر سنجے شرما نے اپنے لن کی ٹوپی سنی لیون کے پھدی کے سوراخ پر رکھی جہاں ہلکے ہلکے بال موجود تھے۔ ٹوپی رکھتے ہی سنجے کو اندازہ ہوگیا تھا کہ سنی کی پھدی نہ صرف گرمی سے دہک رہی ہے بلکہ وہ گیلی بھی خوب ہے۔ سنجے نے پھدی کے سوراخ پر ٹوپی رکھ کر ایک زور دار دھکا لگایا تو انجے کا 8 انچ کا لوڑا سنی کی پھدی کی دیواروں کو چیرتا ہوا اسکی گہرائیوں تک اتر گیا، مگر حیرت انگیز طور پر سنی کی ایک چیخ بھی نہیں نکلی بلکہ اسکی آنکھوں میں ایک عجیب سا نشہ تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ سنجے نے یہ دیکھ کر بغیر رکے سنی کی پھدی میں اپنے لن سے دھکے لگانے شروع کر دیے، سنی کی ٹانگ جو کموڈ پر تھی اب سنجے نے اسکو اپنے بازو پر رکھ لیا تھا ، سنی نے اونچی ہیل والی جوتی پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے اسکی پھدی سنجے کے لن کے بالکل نشانے پر تھی اور اسکو چودنے کے لیے جھکنا نہیں پڑ رہا تھا ورنہ عموما مرد کو عورت کی چودائی اگر کھڑے ہوکر کرنی پڑے تو اسکو تھوڑا سا جھکنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے چودائی کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ مگر یہاں لن اور پھدی بالکل پرفیکٹ پوزیشن میں تھی کہ دونوں میں سے کسی کو بھی جھکنا نہیں پڑا اور لن اور پھدی کا با آسانی ملاپ ہوگیا تھا۔

کچھ دیر تک سنجے شرما سنی کی پھدی میں گھسے لگاتا رہا اور سنی ہلکی ہلکی آہ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اف۔ ف ۔ ف ۔ ف۔ ف کی سسکیاں لیتی رہی، اسکے ساتھ ساتھ سنجے شرما سنی کے رسیلے ہونٹوں سے انکا رس بھی چوستا رہا، مگر پھر سنجے کو سنی کے 38 سائز کے پہاڑ جیسے نرم نرم مموں کا خیال آیا تو سنجے نے سنی کے گہرے گلے والی قمیص میں اپنا ہاتھ ڈالا اور اسکا ایک مما پکڑ کر قمیص سے باہر نکال لیا۔ قمیص کی بجائے شرٹ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ مما باہر نکالا تو اس پر موجود ایک موٹا سا کھڑا ہوا نپل دیکھ کر سنجے شرما کی رال ٹپنکے لگی اس نے فورا ہی سنی کے موٹے ممے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اپنا چہرہ نیچے کر کے سنی کے کھڑے ہوئے نپل کو منہ میں لیکر چوسنے لگا۔ اسکے ساتھ ساتھ نیچے سے دھکے لگانے کا عمل بھی سنجے شرما نے جاری رکھا۔

اس وقت لیڈیز ٹوائلٹس میں 2 عورتوں کی چودائی ہورہی تھی، ایک تو سنی لیون تھی جسکی چکنی پھدی میں کیپٹن سنجے شرما یعنی کے میجر دانش کا 8 انچ کا طاقتور لن تھا جبکہ دوسری طرف کون لڑکی تھی اور اسکی چوت میں کسکا لن اسکو سسکیاں لینے پر مجبور کر رہا تھا یہ بات ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی تھی۔ سنجے کا دھیان سنی کو چودنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار دوسری لڑکی کی طرف بھی جاتا کہ آخر پتا تو لگے یہ ہے کون؟؟ مگر اسکی سسکیوں اور ہلکی چیخوں سے اس بات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد سنجے شرما نے سنی لیون کا دوسرا مما بھی اسکی شرٹ سے باہر نکال لیا اور اب ایک بازو پر سنی لیون کی ٹانگ اٹھائے دائیں ممے کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا اور بائیں ممے کا نپل اپنی انگلیوں میں لیکر اسکو مسلنے لگا۔ سنجے شرما کی اس حرکت نے سنی کی سسکیوں میں تھوڑا اضافہ کر دیا تھا، سنجے شرما کا لن سنی کے اندازے سے کچھ زیادہ ہی موٹا تھا یہی وجہ تھی کہ اسکو کافی دن کے بعد چدائی کا کچھ مزہ آرہا تھا۔

تھوڑی دیر تک اسی پوزیشن میں سنی کو چودنے کے بعد سنجے نے سنی کی ٹانگ کو واپس نیچے رکھا اور پھر اسکی پھدی سے اپنا لن باہر نکال لیا۔ پھر اس نے سنی کی ٹانگوں کو کھولا اور اپنے دونوں ہاتھ اسکی ٹانگوں کے درمیان لیجا کر سنی کو اپنی گود میں اوپر اٹھا لیا، سنی کی کمر واش روم کی کمزور دیوار کے ساتھ لگ گئی اور سنجے شرما نے اپنے ایک ہاتھ سے اپنا لوڑا پکڑ کر سنی کی پھدی کے اوپر فٹ کر کے سنی کا وزن واپس نیچے کی طرف ڈالا تو سارا لن شرپ کی آواز کے ساتھ سنی کی چوت میں گھستا چلا گیا، اب سنجے شرما نے زور دار دھکے لگانا شروع کیے تو سنی کے وزن سے واش روم کی کمزور دیوار ہلنے لگی۔ یہ دیکھ کر سنجے شرما نے سنی کی چوت میں دھکے روکے اور اسے اٹھا کر دوسری جانب واش روم کی بیک دیوار کے ساتھ لے گیا، جو گتے کی نہیں بلکہ اینٹ پتھر سے بنی ہوئی تھی سنی کی کمر اس دیوار کے ساتھ لگا کر سنجے شرما نے دوبارہ سے سنی کی چوت میں کھدائی شروع کی، اب کی بار سنی کے دونوں ممے سنجے شرما کے منہ کے بالکل سامنے تھے اور وہ بہت ہی بے تابی کے ساتھ انکو چوس رہا تھا، اب سنجے شرما کے دھکوں کی رفتار پہلے کی نسبت بہت زیادہ تھی اور سنی کی سسکیاں بھی اب کی بار پہلے کی نسبت بہت تیز تھیں۔

اوہ ہ ہ شرما۔۔۔۔۔ فک می بے بی، کم آن، فک می ہارڈ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ فک می ہارڈر۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ بے بی۔۔ ۔ ۔ یس ۔ یس۔۔ ۔ یس۔ ۔ فک می لائک دس۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ،، اف ف ف ف ف ف ف۔ آہ ہ ہ آہ ہ ہ آہ ہ ہ آہ ہ ہ ، اوہ مائی گاڈ، یو آر رئیلی گڈ ان فکنگ بے بی، یو ہیو سٹرونگ ڈِک بے بی۔ فک می لائک اے بچ۔۔۔ آہ آہ آہ ۔ ۔ سنی کی آوازیں اب یقینا برابر والے واش روم میں چدائی کرواتی لڑکی کے کانوں تک بھی جا رہی تھیں تبھی اس نے بھی اب اپنی سسکیوں میں اضافہ کر دیا تھا اور اپنی چودائی کرنے والے مرد کے لن کی تعریفیں شروع کر دی تھیں۔

سنی کی سسکیوں اور سیکسی آوازوں نے سنجے شرما کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ اب وہ بہت تیزی اور بے دردی سے سنی کی چودائی کر رہا تھا جس سے اب واقعی میں سنی کی چیخیں نکلنا شروع ہوگئیں تھیں مگر وہ کمال مہارت سے اپنی چیخوں پر قابو پا رہی تھی تاکہ آواز کم سے کم ٹوائلٹس سے باہر نہ جائے۔ مگر کچھ ہی دیر میں سنی کو محسوس ہوا کہ اسکی چوت کی دیواروں میں سیلاب آنے والا ہے، اس نے اپنی چوت کو سختی سے دبا لیا اور سنجے شرما کے لن کے لیے راستہ تنگ کر دیا، مگر سنجے کے طاقتور لن کے لیے یہ رکاوٹ کافی نہیں تھی وہ بدستور پہلے والی تیزی کےساتھ ہی سنی کی چوت کی دیواروں کو چیرتا ہوا اسکی چوت کی گہرائی میں جا کر واپس آتا اور دوبارہ سے ایک زور دار دھکے کے نتیجے میں سنی کی چوت میں اتر جاتا۔

کم آن بے بی، آئی ایم کمنگ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ فاسٹر، مور فاسٹ، ،،، ہارڈر بے بی، آئی ایم کمنگ۔۔۔ ڈانٹ سٹاپ، کِیپ فکنگ بے بی، آہ آہ آۃ آہ ہ ہ ہ اور اسکے ساتھ ہی سنی کی چیخیں کنٹرول سے باہر ہونے لگیں اور اس نے 2، 3 زور دار چیخوں اور پھر سسکیوں کے ساتھ اپنی چوت کا پانی چھوڑ دیا۔ سنی کی چوت سے بہتا پانی سنجے شرما کی پینٹ پر گرا اور سنی کو سکون مل گیا۔ کچھ جھٹکوں کے بعد سنی اپنے آپ کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ کینڈا سے واپسی کے بعد کافی عرصے بعد اسکو کوئی تگڑا لن ملا تھا جو اتنی جلدی اسکی چوت کا پانی نکلوا دے۔ ورنہ زیادہ تر لوڑے تو محض 3 منٹ ہی سنی کی چوت میں دھکے لگا پاتے تھے اور پھر سنی کا پانی نکلوائے بغیر ہی سنی کی چوت میں تھک کر الٹی کر دیتے تھے۔

سنی کا سارا پانی نکل گیا تو کیپٹن سنجے شرما نے سنی کو اپنی گود سے اتارا، سنی بے اختیار آگے بڑھی اور کیپٹن کے ہونٹ چوسنے لگی، اسکو کیپٹن پر پیار آرہا تھا جس نے بہت اچھے طریقے سے اسکی چدائی کروائی تھی اور سنی جیسی پروفیشنل رنڈی کی بھی چیخیں نکلوا دی تھیں۔ تھوڑی دیر تک دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رہے اور دوسری سائیڈ سے آنے والی آوازوں کو بھی سنتے رہے جن میں اب کچھ تیزی آچکی تھی۔ پھر سنجے شرما نے سنی کا منہ دوسری جانب کر کے اسکی پیٹھ اپنی طرف کر لی اور اسے جھکنے کا کہا تو سنی کموڈ کی ٹینکی کا سہارا لیکر جھک گئی اور اپنی 34 سائز کی بھری ہوئی گانڈ باہر نکال دی۔ سنجے شرما نے سنی کے 2 پہاڑ جیسے چوتڑ دیکھے تو اسکا دل خوش ہوگیا، اس نے سنی کے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ کا سوراخ دیکھا جو عام لڑکیوں کی گانڈ کے مقابلے میں کافی بڑا تھا، سنجے شرما نے اس پر اپنا تھوک پھینک کر اپنی انگلی سے گانڈ کو گیلا کیا تو سنی سمجھ گئی کہ اب سنجے کا طاقتور لن اسکی گانڈ میں جا کر اپنا جادو دکھائے گا، سنی گانڈ مروانے کی بھی ماہر تھی لہذا اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور سنجے کو گانڈ چکنی کرنے کی اجازت دے دی۔

کچھ دیر تک گانڈ کو چکنا کرنے کے بعد سنجے نے اپنے لن کی ٹوپی پر بھی تھوک پھینک کر اس پر اپنے ہاتھ سے تھوک مسل دیا اور پھر اپنے لن کی ٹوپی کو سنی کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ایک زور دار دھکا لگایا تو سنجے کا آدھا لن سنی کی چکنی گانڈ میں جا چکا تھا۔ سنی نے ایک زور دار چیخ بھی ماری جس سے پورا واش روم گونج گیا، مگر اس سے پہلے کہ سنی سنبھلتی سنجے شرما نے ایک مرتبہ لن کو باہر نکالا اور محض اپنے لن کی ٹوپی سنی کے گانڈ کے رنگ میں رہنے دی، پھر ایک اور زور دار دھکا لگا تو کیپٹن شرما کا پورا لن سنی کی گانڈ میں اتر چکا تھا اور سنی کی گانڈ پھٹ چکی تھی۔ سنی نے اس بار بھی ایک چیخ ماری، کیونکہ لڑکی چاہے کتنی بڑی رنڈی کیوں نہ، گانڈ مرواتے ہوئے اسکی چیخیں نکلتی ہی ہیں۔ سنی کی ان چیخوں کا سنجے نے کوئی اثر نہ لیا اور اپنے گھوڑے جیسے لن کو سنی کی گانڈ میں دوڑانے لگ گیا۔ سنجے شرما مسلسل سنی کی گانڈ میں اپنے 8 انچ کے لوہے جیسے لوڑے سے کھدائی جاری رکھے ہوئے تھا اور ہر دھکے کے ساتھ سنی کے چوتڑ سنجے کے جسم سے ٹکرا کر دھپ دھپ کی آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ اب واش روم آہ ہ ہ آہ ہ ہ آہ ہ ہ آہ ہ ہ دھپ دھپ آہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ آۃ ہ ہ ہ دھپ دھپ دھپ اف ف ف ف ف آہ ہ ہ آ ہہ ہ ہ ہ ہ دھپ دھپ کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔

سنی نے منہ پیچھے کیا اور سنجے شرما کو ایک ہوائی پپی دے ڈالی، وہ پہلے چوت مروا کر خوش تھی اور اب گانڈ مروانے کا بھی اسے خوب مزہ آرہا تھا۔ اسکا ایک ہاتھ اسکی چوت پر تھا اور وہ اپنی چوت کو برابر مسل رہی تھی تاکہ وہ دوسری بار بھی اپنی چوت کا پانی نکال سکے۔ سنی کی سسکیوں اور ہلکی چیخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا، اور جب اسکی چیخوں سے پورا لیڈیز ٹوائلٹ گونجے لگا تو ساتھ والے واش روم سے ایک کرخت آواز آئی، اے سنی کی بچی چپ کر کے نہیں کروا سکتی کیا؟ آواز بند کر اپنی۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ آواز سن کر سنجے شرما کے کان ایک دم سے کھڑے ہوگئے، اسے یہ آواز کہیں سنی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ سنجے شرما کچھ سمجھتا کہ یہ کس کی آواز ہے، سنی لیون گانڈ چدواتے چدواتے ہی بولی، تجھے کیا تکلیف ہے دیپو؟؟؟ خود بھی انجوائے کر اور مجھے بھی کرنے دے۔ زیادہ انگلی نہ کر۔ آہ آہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ دوسری طرف سے آواز آئی تجھے تو ویسے ہی چیخیں مارنے کا شوق ہے۔ سنی بولی آج اتنے دن کے بعد آہ ہ ہ ہ اتنا زبردست ہتھیار ملا ہے مزہ آگیا ہے، تو بھی ٹرائی کر اسکو پھر بتا چیخیں شوق سے نکلتی ہیں یا مزے سے نکلتی ہیں۔ آہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ فک می بے بی ہارڈر، یو آر گڈ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ یس بے بی، فک می۔۔۔۔۔

سنجے شرما ابھی تک سمجھ نہیں پایا تھا کہ یہ کس کی آواز ہے، مگر سنی نے جب دیپو کہ کر اسے مخاطب کیا تو اسے لگا کہ شاید یہ دیپیکا پڈوکون کی بات کر رہی ہے۔ سنجے نے آہستہ سے سنی لیون سے پوچھ ہی لیا کہ یو کون ہے جو بول رہی ہے؟؟؟ تو سنی نے بتایا کہ یہ دیپیکا پڈوکون ہے، یہ سننا تھا کہ سنجے کے لن میں ایک نئی جان آئی۔ اسکی فیورٹ ہیروئین اسکے ساتھ والے واش روم میں چدوا رہی تھی، ساتھ ہی دوسری طرف سے دیپیکا پڈوکون کی چیخوں میں بھی تھوڑا سا اضافہ ہوا اور پھر ایک لمبی سسکی کے ساتھ دیپیکا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ پھر دیپیکا کی آواز آئی، کیا یار، ساری ساڑھی خراب کر دی میری۔ چلو تم جاو اب، میں ساڑھی ٹھیک کر کے آتی ہوں۔ اسکے بعد آگے سے خاموشی ہوگئی، محض واش روم کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی مگر اس طرف سنجے شرما کا لن اب طوفانی رفتار سے سنی کی گانڈ میں چدائی کر رہا تھا اور سنی نے چیخیں مار مار کر سارا واش روم سر پر اٹھا رکھا تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ سنی کو چیخیں مارنے کا شوق تھا، وہ کسی سے بھی چدواتی تو اسکو خوش کرنے کے لیے خود ہی چیخیں مارتی اور سیکسی آوازیں نکالتی، مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ آج سنی سنجے کو خوش کرنے کے لیے نہیں چیخ رہی تھی بلکہ سنجے کا 8 انچ کا لمبا اور موٹا لوڑا جس رفتار سے اسکی چدائی کر رہا تھا، مزے کی شدت سے سنی کی چیخیں خود بخود نکل رہی تھیں۔ ان چیخوں کے دوران ایک بار پھر دیپیکا کی آواز آئی ابے رنڈی کی بچی چپ ہوجا۔ مگر اس بار سنی لیون نے کوئی جواب نہیں دیا۔

البتہ سنجے شرما کو اب ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اسکے سامنے سنی لیون نہیں بلکہ اسکی فیورٹ اور سیکسی ہیروئیں دیپیکا پڈوکون ہے جسکو وہ خوابوں میں بہت بار چود چکا تھا، اور اب سنجے آنکھیں بند کیے سنی کی گانڈ کی جگہ دیپیکا کی چھوٹی مگر سیکسی گانڈ کا تصور کیے دھکے پر دھکا مار رہا تھا۔ اسے یہی لگ رہا تھا اب کو وہ حقیقت میں دیپیکا پڈوکون کی چدائی کر رہا ہے یہی وجہ تھی کہ اسکے دھکوں کی رفتار اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ سنی لیون کو بھی اب برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا۔ اسکو لگ رہا تھا کہ اسکی چوت پھر سے پانی چھوڑنے والی ہے، اور یہی ہوا کچھ ہی دیر بعد سنی لیون نے ایک بار پھر سسکیاں مار مار کر اپنی چوت کا سارا پانی نکال دیا۔ جیسے ہی سنی کی چوت نے پانی چھوڑا سنجے جو پوری سپیڈ کے ساتھ سنی کی گانڈ مار رہا تھا وہ بولا کہ میرا بھی نکلنے والا ہےتو سنی نے کہا اندر نہ چھوڑنا، نکلنے لگے تو لن باہر نکال لینا۔ یہ سنتے ہی سنجے شرما نے لن باہر نکال لیا کیونکہ اسکا پانی بس اب نکلنے ہی والا تھا، جیسے ہی سنجے نے لن باہر نکالا اس نے اپنا لن پکڑ کر مٹھ مارنی شروع کر دی اور سنی جو گانڈ سنجے کیطرف کیے جھکی کھڑی تھی فورا سیدھی ہوگئی اور سنجے کی طرف منہ کر کے کموڈ پر بیٹھ گئی۔

اس نے سنجے کے ہاتھ سے اسکا لن پکڑ لیا اور خود سے اسکی مٹھ مارنے لگی، سنی کسی بھی لن سے پانی نکلوانے کی ماہر تھی اور، اسکے ہاتھوں میں جادو تھا، اس نے محض 4، 5 ہی جھٹکے مارے ہونگے کہ سنجے کے لن نے اپنی منی چھوڑ دی ، اس دوران سنی نے سنجے کا لن اپنے منہ کے بالکل سامنے کر کے منہ کھول لیا تھا، جیسے ہی سنجے کے لن سے منی کی دھار نکلی، وہ سیدھی سنی کے حلق تک پہنچح گئی مگر اس نے اپنا منہ بند نہیں کیا، دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی دھار بھی سیدھی سنی کے منہ میں گئی جس سے سنی کا منہ بھر چکا تھا مگر سنجے کا لن ابھی مزید دھاریں مارنے کے مووڈ میں تھا۔ اب سنی نے اپنا منہ بند کر کے سنجے کے لن کا رخ اپنے مموں کی طرف کر لیا تھا۔ کچھ منی سنی کے مموں پر گری۔ اور پھر سنجے کے لن سے منی نکلنا باند ہوگئی۔

سنی نے اپنے منہ میں موجود منی پی لی تھی اور اب اسکا منہ خالی تھا، کچھ منی اسکے ہونٹوں پر اور کچھ زبان پر جمی ہوئی تھی، اپنے مموں سے منی انگلی سے لگا کر سنی اسکو بھی چاٹ رہی تھی۔ پھر سنی نے سنجے کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا تو سنجے شرما اپنے لن کو واش روم میں پڑے ٹشو پیپر سے صاف کر کے واپس انڈر وئیر میں ڈال کر پینٹ صحیح کر کے باہر نکل گیا، جہاں سامنے ہی واش بیشن کے ساتھ دیپیکا پڈوکون اپنی ساڑھی ٹھیک کر رہی تھی۔ اسکو دیکھتے ہی سنجے کی تو جیسے بولتی بند ہوگئی۔ دیپیکا پڈوکون نے ہمیشہ کی طرح ساڑھی کے نیچے محض ایک برا پہن رکھا تھا، اسکی پوری کمر ننگی تھی، اور سامنے شیشے سے دیپیکا کی خوبصورت کلیویج نظر آرہی تھی جسکو کیپٹن سنجے شرما دیکھ رہا تھا۔ اتنی دیر میں سنی لیون بھی واش روم سے نکل چکی تھی۔ باہر نکل کر وہ بھی سیدھی واش بیسن پر گئی اور اپنا ہاتھ گیلا کر کے اپنے سینے سے منی صاف کی اور اپنی شرٹ دوبارہ سے صحیح کر لی۔

دیپیکا پڈوکون نے سنی کی طرف دیکھا اور غصے سے بولی چپ کر کے تیرے سے کوئی کام نہیں ہوتا؟؟؟ اس پر سنی نے مسکرا کر دیپیکا کی طرف دیکھا اور سنجے کی طرف اشارہ کر کے بولی، ایک راونڈ لگا کر تو دیکھ اس کے ساتھ، پھر مجھے بتا کہ چپ کر کے کوئی کام ہوتا ہے یا نہیں۔ دیپیکا نے حقارت بھری نظروں سے سنجے شرما کی طرف دیکھا اور پھر اسکی نظریں سنجے کی پینٹ کی طرف گئی جہاں اب کچھ نہیں تھا، سنی کی گانڈ اور چوت کی شاندار چودائی کے بعد سنجے کا لن بیٹھ چکا تھا۔ دیپیکا پڈوکون نے کہا میں کیوں لگاوں دوسروں کے ساتھ راونڈ جب میرے پاس رنویر سنگھ جیسا دبنگ مرد ہے۔ اس پر سنی لیون نے قہقہ لگایا اور بولی تجھے رنویر سنگ نے نہیں بتایا ہوگا کہ وہ میرے ساتھ بھی بہت بار راونڈ لگا چکا ہے، مگر میں تجھے بتا رہی ہوں، کہ رنویر سنگھ واقعی میں دبنگ ہے اور دبا کے مارتا ہے، مگر اسکی تو بات ہی کچھ اور ہے، تو رنویر سنگھ کو بھول جائے گی۔

اسکے بعد دیپیکا بغیر کوئی بات کیے باہر چلی گئی اور سنی لیون سنجے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی اور بولی کمال کا ہتھیار ہے تمہارے پاس۔ آج پہلی بار کسی آرمی آفیسر کو دی ہے اور مزہ آگیا ہے۔ اتنے میں باہر سے قدموں کی آواز آئی اور کچھ ہی دیر میں ہنسیکا موتووانی اندر آئی، مگر سنی اور سنجے کو دیکھ کر تھوڑی گھبرا گئی اور واپس جانے لگی تو سنی نے کہا ہنسیکا آجا یار، ہم فارغ ہوگئے ہیں اور واپس جا رہے ہیں، تو آرام سے اپنے لور کے ساتھ مزے کر۔ یہ سن کر ہنسیکا نظریں نیچے کر کے مسکرائی اور باہر کھڑے رجنی کانت کو اندر آنے کا اشارہ کر دیا، رجنی کانت بھی تامل فلموں کا مشہور ہیرو تھا، وہ کافی بوڑھا ہوچکا تھا مگر آج بھی جوان لڑکیوں کی چوتوں کو خوب شانتی بخشتا تھا، ہنسیکا اسے لیکر سیدھی واش روم میں گھس گئی جبکہ سنی لیون اور سنجے واپس نیچے والی منزل پر موجود بڑے ہال میں چلے گئے جہاں دیپییکا کے ڈانس کی اناونسمینٹ ہورہی تھی۔

دیپیکا نے اسی ساڑھی میں ایک مہشور ہندی گانے پر زبردست ڈانس کیا اور واپس ایک ٹیپبل پر رنویر سنگھ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ جبکہ حال میں شو اپنے عروج پر تھا، ایک کے بعد ایک نامور ہیرو اور ہیروئیں سٹیج پر آرہے تھے،کچھ تو پرفارم کر رہے تھے جبکہ کچھ چٹکلے سنانے یا ایوارڈ وصول کرنے آرہے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد سنی لیون کو بھی سٹیج پر بلایا گیا تو وہ سٹیج پر چلی گئی اور اس موقع کا فائدہ اٹھا کر کیپٹن سنجے شرما اپنی سیٹ سے اٹھا اور سیدھا دیپیکا پڈوکون کی طرف جانے لگا۔ دیپیکا پڈوکون نے سنجے شرما کو اپنی طرف آتا دیکھا تو ناگواری سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ سنجے شرما دیپیکا اور رنویر کے درمیان آکر کھڑا ہوگیا، رنویر نے بھی اسکو حیرت سے دیکھا کہ یہ کون ہے جو ایسے ہم دونوں کے بیچ آگیا۔ کیپٹن نے دیپیکا کی طرف دیکھا اور خوش اخلاقی کے ساتھ اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ہیلو میڈیم کہا۔ مگر میڈیم کو نجانے کس بات کا غصہ تھا اس نے سنجے شرما کو کوئی لفٹ نہیں کروائی۔ اس پر رنویر سنگھ نے کیپٹن سنجے شرما کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور اسکو فل زور سے دبا کر مگر چہرے پر کوئی تاثرات لائے بغیر بولا، چلو بیٹا میڈیم آپ سے ملنا نہیں چاہتیں۔ جواب میں اب سنجے شرما نے زور لگایا تو رنویر سنگھ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا اسکی چیخ تو نہیں نکلی مگر وہ جو اپنے آپ کو سب سے طاقتور نوجوان سمجھتا تھا اس آنے والے شخص کی طاقت دیکھ کر حیران رہ گیا تھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا کیپٹں سنجے شرما نے رنویر کی طرف تھوڑا سا جھک کر کہا میڈیم تو مجھ سے ضرور ملیں گی، بلکہ آپکو چھوڑ کر میرے پاس آئیں گی۔ یہ کہ کر کیپٹن نے رنویر سنگھ کا ہاتھ چھوڑا اور دوبارہ سے دیپیکا پڈوکون کی طرف مڑا اور اسکے قریب ہوکر تھوڑا سا جھکا اور اسکے کان میں کہا میڈیم میرا نام کیپٹن سنجے شرما ہے اور مجھے کرنل وشال نے بھیجا ہے۔ آپ سے ضرور کام ہے، آپ میرے ساتھ آئیں۔

یہ کہ کر سنجے شرما باہر کی طرف چل نکلا اور دیپیکا کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا، وہ حیران ہوکر کیپٹن کو دیکھنے لگی، پھر رنویر سنگھ کی طرف دیکھ کر بولی، سوری ڈارلنگ آئی ہیو ٹو گو۔۔۔۔ بائے۔ اور فوران کیپٹن سنجے شرما کے پیچھے پیچھے ہال سے باہر نکل گئی۔ ہال سے باہر نکل کر اس نے دائیں بائین دیکھا تو کیپٹن سنجے شرما بائیں جانب راہداری میں کھڑا دیپیکا کا انتظار کر رہا تھا۔ دیپیکا تیز تیز قدموں کے ساتھ سنجے شرما تک پہنچی اور بولی، کون ہو تم؟؟؟ میں تمہیں نہیں جانتی اور نہ ہی کرنل نے تمہارے بارے میں مجھے کچھ بتایا ہے۔ کیپٹن سنجے شرما نے کہا میڈیم اسطرح بات نہ کریں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ کسی محفوظ مقام پر چل کر بات کرتے ہیں۔ یہ سن کر دیپیکا بولی چلو پھر اوپر والی منزل میں ایک کمرہ کی چابی میرے پاس ہے وہاں چلتے ہیں۔ یہ کہ کر دیپیکا اسی لفٹ کے ذریعے سنجے کو لیکر اوپر والی منزل پر چلی گئی جس لفٹ پر سنی لیون گئی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد دیپیکا پڈوکون کمرے کے دروازے کے کی ہول میں اپنے برا سے ایک چابی نکال کر گھمانے لگی۔
لوکاٹی نے راستے میں ہی یہ انجلی کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ اسکا نام تھوڑا عجیب سا ہے، کیونکہ پاکستان میں ایسے نام نہیں ہوتے، لہذا اسے اپنا نام تبدیل کرنا پڑے گا ، اور پھر اس نے خود ہی انجلی کو نیا نام دے دیا۔ انجلی کا نیا نام ماریہ رکھا گیا۔ انجلی کو بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ رات کے وقت لوکاٹی کا جہاں ہولستان کے دارالحکومت میں اترا جہاں سے لوکاٹی اور ماریہ ایک لینڈ کروزر میں بیٹھ کر لوکاٹی کے گھر چلے گئے، یہ کوئی محل نما گھر تھا، لوکاٹی کی یہ شان و شوکت دیکھ کر ماریہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھیں۔ ہر طرف مسلح افراد ، بڑی بڑی گاڑیوں کی لائینیں اور اتنا بڑا محل نما گھر، انجلی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جب ایسے حکمران صرف اپنی حفاظت اور اپنی شان و شوکت بنانے میں لگے ہونگے تو بھلا وہاں کی عوام کیسے خوشحال ہوسکتی ہے۔ ایک بڑی راہداری سے گزر کر سامنے ایک ہال نما کمرہ آیا جس میں 2 ادھیڑ عمر لوگ بیٹھے تھے، انکی شکلیں قریب قریب کافی ملتی تھیں، لوکاٹی کو دیکھتے ہی دونوں بھاگتے ہوئے لوکاٹی کی طرف آئے اور دونوں نے باری باری تھوڑا جھک کر لوکاٹی کو سلام کیا، اور اسکے ہاتھ چومے اور پھر ایک سائیڈ پر ہوکر مودبانہ انداز میں کحڑے ہوگئے۔ یہ دونوں لوکاٹی کے بیٹے تھے۔ ایک کا نام کرم جب کے دوسرے کا نام نذر تھا۔ لوکاٹی نے دونوں کی خیریت دریافت کرنے کے بعد ان کے ساتھ ماریہ کا تعارف کروایا کہ یہ ہماری مہمان ہیں، کچھ دن ہمارے ساتھ ہی رہیں گی۔ اور عنقریب ہماری شادی ہوجائے گی۔ لوکاٹی نے خاص طور پر یہ بات بتائی تھی تاکہ اسکے بیٹے کہیں ماریہ پر بری نظر نہ رکھنی شروع کر دیں۔

اب دونوں لڑکے جا چکے تھے جبکہ لوکاٹی ماریہ کو لیکر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا، جہاں پر 2 خواتین بیٹھیں لوکاٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ ماریہ لوکاٹی کے پیچھے پیچھے اندر گئی۔ دونوں خواتین لوکاٹی کو دیکھ کر فورا اسکی طرف بھاگئی آئیں اور اسکا ہاتھ پکڑ کر چوما اور پھر ایک سائیڈ پر کھڑی ہوگئیں۔ یہ دونوں خواتین جن کی عمر لگ بھگ 30 کے آس پاس ہوگی لوکاٹی کی رات کی لذت کا سامان تھیں۔ لوکاٹی اکثر انکی چوت سے اپنے لن کو ٹھنڈا کرتا تھا۔ اور یہ آج بھی اسی انتظار میں تھیں، انہیں سپیشل طور پر تیار کروایا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ آج اکبر لوکاٹی صاحب تشریف لا رہے ہیں لہذا انکی راحت کے سامان کے طور پر دونوں خواتین خاص طور پر تیار ہوجائیں۔ مگر جب انکی نظر لوکاٹی کے پیچھے کھڑی جوان ماریہ پر پڑی تو ان دونوں نے بھی قدرے حیرت سے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اسکو دیکھا، اور جب لوکاٹی نے ان دونوں خواتین کو کمرے سے باہر جانے کو کہا اور ماریہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا آو ڈارلنگ، اسے اپنا ہی کمرہ سمجھو۔ دوسری دونوں خواتین چپ کرکے کمرے سے نکل گئیں، وہ لوکاٹی کی بیویاں تو تھیں نہیں، محض اسکی راحت کا سامان تھیں، اس لیے انہیں یہ بات کوئی ایسی بری بھی نہیں لگی تھی، اور ایک طرح سے وہ خوش بھی تھیں، کہ لوکاٹی کے بوڑھے لن کی بجائے آج وہ لوکاٹی کے بیٹوں کے جوان لن پر سواری کریں گی۔ ان میں سے ایک خاتون نذر کے پاس چلی گئی جب کہ دوسری کرم کے پاس چلی گئی۔ وہ دونوں بھی اس اچانک سرپرائیز پر حیران تھے۔ دونوں نے اپنی اپنی بیویوں کو سونے کا کہا اور دوسری آنے والی عورت کو علیحدہ کمرے میں لے گئے جہاں وہ رات بھر ان کے جسموں سے سکون حاصل کر سکیں۔

دونوں خواتین کے کمرے سے جاتے ہی لوکاٹی نے ماریہ کے جسم پر پیار کرنا شروع کر دیا اور اسکو بیڈ پر لٹا کر خود اسکے اوپر لیٹ گیا اور ایک ہاتھ سے ماریہ کے خوبصورت گول 36 سائز کے ممے دبانے شروع کر دیے جبکہ دوسرا ہاتھ ماریہ کی گردن کے نیچے رکھ کر اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا۔ ماریہ کچھ دیر تک خاموشی سے اسکی کسنگ کا جواب دیتی رہی، وہ جانتی تھی کہ لوکاٹی کافی دیر سے اسکو چودنے کے لیے بے چین ہے، مگر ماریہ کا بالکل بھی من نہیں تھا دوبارہ سے لوکاٹی جیسے شخص کے لن کے نیچے آنے کا۔ اس نے کچھ دیر تک لوکاٹی کو اپنا مما بھی دبانے دیا اور ہونٹ بھی چوسنے دیے، مگر پھر اپنے چہرے پر ناگواری کے تاثرات لاتے ہوئے اس نے لوکاٹی کو کہا، جانو میں آج بہت تھک گئی ہوں اور نیند بھی آرہی ہے، اگر تمہیں برا نہ لگے تو یہ سب ہم کل کر لیں گے؟؟؟ لوکاٹی نے آج تک کسی عورت کی مرضی کی فکر نہیں کی تھی اسکا جب دل چاہتا تھا عورت کو چود دیتا تھا بغیر اس کا خیال کیے کہ اسکا موڈ ہے یا نہیں، مگر آج پہلی بار ماریہ جیسی حسین اور جوان لڑکی کی بات اس نے مان لی تھی اور ماریہ کے ایک بار کہنے پر وہ سائیڈ پر ہوگیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد لوکاٹی ماریہ کے ساتھ لیٹا خراٹے لے رہا تھا جبکہ ماریہ بھی کافی دیر سے سونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔

No comments:

Post a Comment

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...