اب سونیہا پنجو کے بل کھڑی تھی اور پیچھے سے میجر دانش اسکی چوت میں دھکے مار رہا تھا۔ اب میجر دانش سونیہا کا جی سپاٹ ڈھونڈنا چاہ رہا تھا۔ عورت کا جی سپاٹ اسکی چوت کا حساس ترین حصہ ہوتا ہے جس پر لن لگنے سے چوت بہت جلدی پانی چھوڑتی ہے اور مزہ بھی انہتا کا ہوتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد جب میجر دانش نے ایک خاص اینگل سے سونیہا کی چوت میں دھکا مارا تو اسکی سسکاری نکل گئی۔ میجر دانش نے مزید 2 بار اسی اینگل سے دھکا مارا تو پھر سے سونیہا کی سسکاری نکلی جس کا مطلب تھا کہ یہی جی سپاٹ ہے۔ پتا چلنے پر میجر دانش نے دوبارہ اس اینگل سے دھکا نہیں مارا تو سونیہا چلائی ویسے ہی چودو جیسے ابھی دھکے مارے ہیں۔ مگر میجر دانش نے تھوڑی دیر بعد اسی اینگل سے 2 دھکے مارنے کے بعد پھر اینگل چینج کر لیا۔ سونیہا پھر سے چلائی کے اسی جگہ پھر دھکے مارو تو دانش بولا کہ اسکی ٹانگیں بندھی ہوئیں ہیں وہ مزید ایسا نہیں کر سکتا۔
اب کی بار سونیہا نے پہلے سے زیادہ چلاتے ہوئے کہا کہ پلیز ویسے ہی دھکا مارو جیسے ابھی مارا ہے مگر میجر دانش نے پھر سے انکار کیا کہ اسکی ٹانگ مڑ جاتی ہے اور مسل پُل ہوجائے گا اگر دوبارہ اس اینگل میں دھکا مارا۔ لیکن سونیہا کو کہاں سکون ملنے والا تھا۔ ایک تو پہلے ہی میجر دانش کے لن نے اسکو مزے کی انتہا پر پہنچا دیا تھا اوپر سے جی سپاٹ پر لن کی رگڑ نے اسکو وحشی پن کی حد تک مزہ دیا تھا۔ جب سونیہا نے دیکھا کہ اب لن اسکے جی سپاٹ کو نہیں چھو رہا تو اسنے اپنی چوت سے لن نکالا اور سامنے پڑی اپنی پینٹ کی جیب سے ایک چھوٹی سی چابی نکالی اور میجر دانش کی ٹانگیں کھول دیں۔ میجر دانش کی ٹانگیں کھلتے ہی اسکو اپنے پاوں میں سکون محسوس ہوا اور اسکی ٹانگوں کو بہت آرام ملا۔ اسنے دو تین بار اچھل کر اپنی ٹانگوں کو سکون پہنچایا۔ تو سونیہا چلائی کہ تمہیں ایکسرسائز کرنے کے لیے ٹانگیں نہیں کھولیں اب صحیح طرح چودائی کرو میری اور اسی جگہ لن لگنا چاہیے جہاں پہلے لگ رہا تھا۔
میجر دانش نے سونیہا کو کہا اگر وہ اسکے ہاتھ بھی کھول دے تو وہ ایسے چودے گا سونیہا کو کہ سونیہا پھر کبھی کسی اور کا لن نہیں مانگے گی۔ مگر سونیہا نے انکار کر دیا اور بولی بس اسی پر شکر ادا کرو۔ اب جلدی جلدی اپنا کام مکمل کرو یہ نہ ہو وہ دونوں بدمعاش پھر آجائیں اور ہمیں اس حالت میں دیکھ کر ہمیں مار ہی ڈالیں ۔
میجر دانش نے پیارے بھرے لہجے میں کہا جب تک میری جان میں جان ہے میری سونیہا کو کوئی مائی کا لال ن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اب کی بار میجر دانش نے اپنی ٹانگوں کو تھوڑا پھیلا لیا ور سنیہا نے ایک بار پھر میجر کی طرف اپنی پیٹھ کی اور اسکا لن اپنی چوت میں ڈال دیا۔ پیچھے سے میجر دانش نے پہلے والے اینگل پر زور دار دھکے لگانا شروع کر دیے۔ اب کی بار میجر دانش کا لن مسلسل سونیہا کے جی سپاٹ پر چوٹ مار رہا تھا اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی جھٹکوں نے سونہیا کو چھوٹںے پر مجبور کر دیا۔ اس بار اسکی چوت سے بہت سا پانی نکلا
دوسری طرف باہر کنٹرول دوم میں دونوں غنڈے اندر ہونے والی چودائی سے بے خبر اس نمبر کو ٹریس کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے جس پر میجر دانش نے کال کی تھی اور اپنے بھاگنے کی اطلاع دی تھی۔ یہ ممبئی کے ایک ایسے علاقے کا نمبر تھا جہاں بہت سے انڈر ورلڈ کے گروپ تھے۔ ان میں سے بہت سے گروپس پر یہ الزام بھی تھا کہ ان گروپس کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور پاکستان کے کہنے پر یہ لوگ ممبئی میں غنڈہ گردی پھیلاتے ہیں۔ جبکہ کچھ گروہ کے بارے میں یہ رائے تھی کہ ممبئی کے لوکل گروپ ہیں اور راء اپنے مقاصد کے لیے انکو استعمال کرتی ہے۔ میجر دانش نے جس نمبر پر کال کی تھی یہ ممبئی کا ایک مشہور انڈر ورلڈ گینگ تھا جسکی سربراہی داود اسمعیل کرتا تھا۔ اس گروپ کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ راء کے لیے کام کرتا ہے مگر میجر دانش کا اس گروپ کے ایجینٹ کو فون کرنا اور ان سے مدد مانگنا دونوں غنڈوں کے لیے حیران کن تھا۔ ان دونوں نے یہ خبر فورا کرنل وشال تک پہنچائی اور کرنل وشال بھی اس گروپ کی غداری پر سیخ پا ہونے لگا اور فوری ایک پلان ترتیب دیا جسکے مطابق اگلے 1 گھنٹے میں اس گروپ کا جڑ سے صفایا کرنا تھا۔
دوسری طرف اند کمرے میں میجر دانش کا لن ابھی تک سونیہا کی چدائی میں مصروف تھا۔ اب میجر دانش نے سونیہا کو کہا کہ ایک چئیر اٹھا کر میجر کے پاس رکھ دے، سونیہا نے ایسے ہی کیا اور سامنے پڑی ایک کرسی اٹھا کر میجر کے پاس رکھ دی، میجر نے اپنی ایک ٹانگ کری پر رکھی اور سونیہا کو کہا کہ وہ بھی اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر سامنے آجائے۔ سونیہا نے حیرت انگیز طور پر اپنی ٹانگ بالکل سیدھی کھڑی کر لی اور میجر دانش کے سینے سے ٹکا دی۔ یہ ایک اور اشارہ تھا کہ سونیہا کو جمناسٹک کی ٹریننگ حاصل ہے۔ اب سونیہا کی چوت میجر دانش کے لن کے عین نشانے پر تھی۔ میجر نے اپنا لن پھر سے چوت کے اندر ڈالا اور اپنی ایک ٹانگ چئیر پر رکھ کر نیچے سے سونیہا کی چوت میں گھسے مارنے لگا۔ میجر دانش کا ہر دھکا سونہیا کی چوت کو اندر تک ہلا کر دکھ دیتا تھا۔
سونیہا دل ہی دل میں افسوس کر رہی تھی کہ کل اتنے طاقتور لن کے مالک کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اور وہ دوبارہ اس لن سے چدائی نہیں کروا سکے گی۔ جبکہ دانش آنے والے وقت میں یہاں سے بھاگنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سونیہا کا بتایا ہوا پلان بھی اسکے ذہن میں تھا اور اس عمارت کی سیکورٹی سے متعلق سونیہا نے جو کچھ بتایا تھا اس پر بھی میجر دانش کو یقین تھا کہ اسنے صحیح بتایا ہے۔ 5 منٹ کی مزید چدائی نے سونیہا کی چوت کا برا حال کر دیا تھا۔ سونیہا سوچنےلگی کہ ابھی تو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر اسکے ہاتھ کھلے ہوتے تو مختلف سٹائلز میں چودائی کا بہت مزہ آتا۔ کچھ ہی دیر بعد مجر دانش نے اپنے آخری زوردار دھکے مارے اور اسکی چوت میں اپنی گرما گرم منی چھوڑ دی۔ میجر کی منی کو چوت میں محسوس کر کے سونیہا کی چوت نے بھی پانی چھوڑی دیا۔
اب میجر دانش گہری گہری سانسیں لے رہا تھا اور سونیہا کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ سونیہا کی آنکھوں میں بھی نشیلے لال ڈورے تھے اور وہ میجر دانش کے لن کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی۔ پھر سونیہا نے ایک بار پھر سے میجر دانش کے ہونٹوں پر ایک زور دار کس کی اور اسکو بولی چلو اب جلدی سے اپنی ٹانگیں پہلی والی پوزیشن میں لے آو تاکہ میں لاک کر دوں ورنہ باہر سے وہ لوگ آگئے تو ہمیں یہیں پر مار دیں گے اور ہمارا کل کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ یہ کہ کر سنیہا نے دوبارہ سے وہی چابی اٹھائی میجر کی ٹانگوں کی طرف جھکی تو میجر نے اچانک ایک پاوں سنیہا کے ہاتھ کے اوپر رکھ کر اسے زور سے دبا دیا جس سے سونیہا کے ہاتھ سے وہ چابی نکل گئی۔
وہ غصے سے اوپر اٹھی اور غراتے ہوئے بولی یہ کیا حرکت ہے؟؟؟ کیا تمہیں اپنی جان پیار نہیں؟؟ سونیہا کی اس بات پر میجر دانش ایک فلائنگ کس سنیہا کی طرف اچھالی اور بولا سوری جان، تم بہت خوبصورت ہو اور تمہاری چوت چودنے کے لائق ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ یہ تمہاری آخری چدائی تھی۔ یہ کہتے ہی میجر دانش نے ایک چھلانگ لگائی اور اپنی دونوں ٹانگیں سونیہا کی گردن کے گرد لپیٹ کر زور سے دبا دیں۔ سونیہا اس اچانک حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی مگر میجر کی گرفت میں آتے ہی اس نے بھی ایک چھلانگ لگائی اور اپنا گھٹنہ نیچے سے میجر کے مارا۔ سونیہا کا گھٹنہ لگنے سے میجر کی تو جان ہی نکل گئی کیونکہ یہ گھٹنہ میجر کے ٹٹوں پر لگا تھا۔ اور کسی بھی مرد کی سب سے بڑی کمزوری اسکے ٹٹے ہوتے ہیں۔
میجر کو ایک بار اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسکی گرفت سونیہا کی گردن پر کمزور پڑنے لگی۔ مگر پھر میجر کو احساس ہوا کہ اگر اب سونیہا اسکی گرفت سے نکل گئی تو پھر اسکی جان بچنا مشکل نہیں لہذا اسنے ٹٹوں کی درد بھلا کر ایک بار پھر سے سونیہا کی گردن کے گرد اپنی ٹانگوں کا شکنجہ مضبوط کر دیا۔ اب سونیہا نے دوبارہ سے اپنا گھںٹنہ میجر کے ٹٹوں پر مارنا چاہا مگر وہ اس میں ناکام رہی کیونکہ اسکی گردن اس بار بہت مضبوطی سے میجر کی ٹانگوں کے درمیان تھی اور اب اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ زیادہ مزاحمت کر سکے۔
کچھ ہی دیر بعد سونیہا کی خوبصورت آنکھیں باہر کو نکلنے لگیں اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میجر کو دیکھ رہی تھی۔ میجر کچھ دیر مزید اسی طرح ہوا میں سنیہا کی گردن ٹانگوں سے دبوچے کھڑا رہا ، جب اسے یقین ہوگیا کہ سونیہا کی آخری سانس نکل چکی ہے تو اسنے سونیہا کی گردن چھوڑی اور دوبارہ سے زمین پر آگیا۔ سونیہا لہراتی ہوئی گھومتی ہوئی زمین پر آگئی تھی۔ میجر دانش نے آخری بار سونیہا کی طرف دیکھا اور اسکے اوپر تھوکتے ہوئے بولا تجھے کیا لگا تھا میں اتنی آسانی سے تیرے قابو میں آجاوں گا؟؟؟؟ پھر میجر نے اپنے پاوں کی انگلیوں سے وہ چابی اٹھائی جس سے سنیہا نے اسکے پاوں کھولے تھے۔ میجر نے وہ چابی اپنے پاوں کی انگلیوں میں پھنسا کر اپنی ٹانگ فل زور سے اوپر ہوا میں اچھالی۔ جس طرح سونیہا نے اپنی ٹانگ اٹھا کر میجر کے سینے سے لگا دی تھی اسی طرح میجر نے اپنی ٹانگ اٹھائی تو اسکا پاوں اسکے ہاتھ کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا جہاں پر میجر نے پاوں کی انگلی کھول دی اور ٹانگ واپس نیچے لے آیا جب کہ وہ چابی ہوا میں اوپر اچھل گئی۔ کچھ اوپر ہوا میں اچھلنے کے بعد اب چابی واپس نیچے آنے لگی اور میجر دانش سر اوپر کیے چابی کو دیکھنے لگا جو بالکل میجر دانش کے ہاتھ کے اوپر آرہی تھی۔
یوں میجر دانش نے وہ چابی کیچ کر لی اور اپنے ہاتھ موڑ کر چابی انگلیوں میں پھنسا کر اپنے ہاتھ کھول لیے۔ پھر میجر نے فورا اپنے کپڑے پہنے اور زمین پر بنا کپڑوں کے پڑی خوبصورت سنیہا کو اپنی گود میں اٹھایا اور ایسے ہی اسے اٹھا کر دروازے کی طرف لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میجر نے سنیہا کے ہاتھ پکڑ کر اسکی انگلی سے وہی کوڈ ملایا جس سے سونیہا نے دروازہ کھولا تھا۔ کوڈ مکمل ہونے پر دروازہ کھلتا چلا گیا۔ اور سامنے ایک لمبی راہداری تھی۔ راہداری دیکھتے ہی میجر سمجھ گیا کہ سونیہا نے صحیح کہا تھا اس راہداری میں کیمرے ہیں جو آٹو میٹک انجان چہرے کو دیکھ کر لیزر آن کر دیتے تھے جو اس انسا ن کو 2 حصوں میں تقسیم کر سکتی تھی۔ مگر میجر دانش آئی ایس آئی کا ہونہار ایجنٹ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس راہداری سے کس طرح گزرا جائے کہ کیمرے آٹو میٹک لیزر کو آن نہ کریں۔
کرنل وشال کو جیسے ہی خبر ملی کہ میجر دانش نے داود اسمعیل کے گروپ کو اپنی مدد کے لیے بلایا ہے اور آگے سے اوکے بھی کہا گیا تو کرنل وشال کی حیرت کی انتہا نہیں رہی تھی۔ کیونکہ داود بھائی جو ایک معمولی غنڈہ ہوتا تھا کرنل وشال نے ہی اسکو ایک انٹرنیشنل لیول کا ٹارگٹ کلر بنایا تھا۔ اور پھر کرنل وشال نے داود اسمعیل کی بھرپور مدد کی تھی کہ وہ ممبئی جیسے شہر میں اپنا گینگ چلا سکے۔ داود بھائی جہاں اپنے ناجائز کاموں کے لیے کرنل وشال کی مدد لیتا تھا وہیں بالی ووڈ انڈسٹری میں بھی داود بھائی کا بہت اثرو رسوخ تھا۔ کسی بھی ہیروئین کو فلم دلوانا یا سٹرگلنلگ ایکٹریس کو ٹاپ ہیروئین بنوادینا داود بھائی کی ایک کال کی مار تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ بدلے میں بالی ووڈ کی مشہور ہیروئین نہ صرف داود بھائی کا بستر گرم کرتی تھیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ انکے کہنے پر کسی بھی شخص کے ساتھ رات گزارنا معمول کی بات تھی۔ کسی ہیروئین میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ داود بھائی کو انکار کر سکے۔
ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ داود بھائی کرنل وشال کے ایک اشارے پر پاکستان میں بم دھماکے کروانے کا کام بھی کرتا تھا۔ شیعہ سنی فسادات کروانے کے لیے بھی داود بھائی کا گینگ ماہر تھا۔ نام سے تو یہ شخص مسلمان تھا لیکن حقیقت میں انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں تھا۔ داود بھائی کے گینگ کو کرنل وشال کا رائٹ ہینڈ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ کرنل وشال کے لیے یہ فون کال کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ داود کا گینگ آئی ایس آئی کے ساتھ مل چکا ہے اور میجر دانش کو آزاد کروانے کے لیے وہ انڈین آرمی پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اس بات نے کرنل وشال کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ خبر ملتے ہی کرنل وشال نے اپنے با اعتماد 10 ٹارگٹ کلرز کو داود بھائی کے گینگ کا صفایا کرنے کا حکم دیا تھا۔
کرنل وشال کا یہ حکم ملتے ہی اسکے لوگ پورے ملک میں اپنے اپنے علاقے کے با اعتماد لوگوں کو لیکر اس گروپ کا صفایا کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ممبئی، حیدرآباد، کلکتہ، راجھستان، دہلی، بنگلور، جے پور، پٹنا اور دوسرے بڑے شہروں میں پچھلے آدھے گھنٹے میں داود بھائی کے 200 با اعتماد لوگ کرنل وشال کے ساتھیوں کی گولی کا نشانہ بن چکے تھے۔ ممبئی میں کرنل وشال نے بذاتِ خود داود کے مختلف اڈوں پر حملہ کیا اور اسکے گینگ کا صفایا کرتا چلا گیا۔ آخر میں داود بھائی کی باری تھی جسکو مارنے کا ٹاسک کرنل وشال نے خود اپنے ذمہ لیا تھا۔
داود بھائی ان تمام چیزوں سے بے خبر بالی ووڈ کی مشہور ہیروئین زرین خان کے جسم سے کھیلنے میں مصروف تھے۔ زرین خان جس کو داود بھائی کے کہنے پر ہی سلمان خان کے ساتھ مشہور فلم میں کاسٹ کیا تھا اپنے سیکسی جسم کی وجہ سے داود بھائی کی فیورٹ تھی۔ زرین خان کے بھرے ہوئے ممے 38 سائز کے تھے اور اسکی گانڈ 36 کی تھی۔ داود بھائی اپنے شاہانہ صوفے پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے جبکہ زرین خان اسکی ٹانگوں کے درمیان زمین پر بیٹھی تھی اور داود بھائی کا 8 انچ کا لن اپنے منہ مین لیکر اسکا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔ زرین خان کے چوپے داود بھائی کو ہمیشہ ہی مزے دیتے تھے۔ وہ آنکھیں بند کیے زرین خان کے چوپوں کا مزہ لے رہے تھے۔ چوپوں سے فارغ ہو کر زرین خان کھڑی ہوئی اور داود بھائی کی طرف اپنی گانڈ کی اور انکی گود میں لن کے اوپر اپنی چوت رکھی اور بہت ہی آرام کے ساتھ لن کے اوپر ہی بیٹھ چکی تھی۔ لن کے اوپر بیٹھنے کے بعد زرین خان نے لن کے اوپر اچھلنا شروع کیا اور اپنے منہ سے فک می بے بی، فک می ہارڈ کی آوازیں نکال کر داود بھائی کو جوش دلانا شروع کیا۔
اس سے پہلے کے داود بھائی کو مزید جوش چڑھتا اور وہ زرین خان کی چوت کو جم کر چودتا اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور کرنل وشال کسی جن کی طرح اندر داخل ہوا، دروازہ کھلتے ہی داود بھائی نے بجلی کی سی تیزی سی زرین خان کو اپنے لن سے اتارا اور پاس پڑی ہوئی پسٹل اٹھا کر اندر آنے والے پر فائر کرنا چاہا۔ مگر اندر آنے والا شخص داود بھائی سے کہیں زیادہ تیز تھا۔ اس سے پہلے کے داود بھائی پسٹل سے گولی چلاتے ایک شائیں کی آواز آئی اور کرنل وشال کی پسٹل سے چلنے والی گولی سیدھی داود بھائی کے ہاتھ پر لگی اور انکے ہاتھ سے پسٹل چھوٹ کر دور جا گری۔ زرین خان اس اچانک حملے سے خوفزدہ ہوکر ساتھ ہی پڑے بیڈ پر لیٹ گئی تھی اور اپنے جسم کو بیڈ شیٹ سے چھپا لیا تھا۔ کرنل وشال کو اپنے سامنے دیکھ کر داود بھائی حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ حیران اس لیے کہ آخر کرنل وشال کو ایسی کیا ضرودت پیش آگئی کہ یوں کمرے کا دروازہ کھول کر گولی بھی چلا دی۔ اور خوش اس لیے کہ داود بھائی سمجھ رہیے تھے کہ یہ کرنل وشال نے مذاق کے طور پر پمپ ایکشن کر کے دکھایا ہے۔ کرنل وشال کو سامنے دیکھ کر داود بھائی اب مسکرانے لگے اور پھر ساتھ پڑی چادر سے اپنے لن کو ڈھانپ کر صوفے سے اٹھے اور کرنل وشال کو ویلکم کہا اور اسکے نشانے کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے نکلنے والے خون کو بھی چادر سے صاف کرنے لگے۔
لیکن جلد ہی داود بھائی کو احساس ہوگیا تھا کہ کرنل وشال کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔۔۔ داود بھائی نے کرنل وشال سے پوچھا کہ خیر تو ہے اس سب کا کیا مطلب؟؟؟ کرنل وشال نے غراتے ہوئے کہا میرے سے غداری کرنے والے کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ داود بھائی نے پوچھا کونسی غداری اور کس نے کی غداری؟؟ کرنل وشال نے پہلے سے زیادہ غصے سے جواب دیا آئی ایس آئی کی مدد کرنے کی غداری اور یہ غداری تو نے کی ہے۔ اس سے پہلے کہ داود بھائی کچھ اور پوچھتے، کرنل وشال کی پسٹل سے گولیاں نکلیں اور داود بھائی کے سینے کو چھلنی کرتی ہوئی آر پار ہوگئیں۔ خون کے چھینٹے پیچھے والی دیوار پر پڑے تھے اور داود بھائی کا مردہ جسم صوفے پر تھا۔ مرنے کے بعد بھی داود کی آنکھوں میں حیرت کے آثار تھے جیسے اسے اپنی موت پر یقین نہ آیا ہو۔
اسکے بعد کرنل وشال نے زرین خان کی طرف دیکھا جو ڈری ہوئی اور سہمی ہوئی کبھی کرنل وشال کو دیکھتی تو کبھی داود بھائی کی لاش کو۔ کرنل وشال نے زرین خان کو کپڑے پہننے کو کہا تو وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح اپنے کپڑے پہننے لگی۔ برا اور پینٹی پہننے کے بعد زرین خان نے اپنی شارٹ نِکر اور سیکسی شرٹ پہنی تو کرنل وشال نے اسے اپنے ساتھ آنے کو کہا۔ کرنل وشال داود بھائی کے گینگ کو مکمل طور پر ختم کر چکا تھا اب وہ زرین خان کے جسم سے اپنے آپکو سکون پہنچانا چاہتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد زرین خان ایک بار پھر اپنے کپڑوں سے آزاد کرنل وشال کے بیڈ پر اسکے لن کا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔
================================================== ================
ان کیمروں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ تب ہی لیزر کو ایکٹیو کرتے تھے جب کوئی انجان چہرہ نظر آئے۔ میجر دانش نے دروازے سے قدم آگے بڑھانے سے پہلے سونیہا کی شرٹ سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا تھا جبکہ سونیہا کے جسم کو اپنے آگے کر لیا تھا۔ میجر دانش نے سونیہا کی لاش کو اپنے سامنے اسطرح کیا کہ گویا وہ کوئی زندہ انسان ہو اور چلتی ہوئی جارہی ہو۔ میجر دانش نے سونیہا کے پاوں اپنے پاوں کے اوپر رکھا تھے اور اسکا چہرہ جس میں اب زندگی کی کوئی رمک باقی نہ تھی اوپر اٹھایا ہوا تھا تاکہ کیمرہ جب ان دونوں پر پڑے تو وہ سونیہا کے چہرے کو پہچان لے۔ اور میجر دانش کا چہرہ کیمرے کی آنکھ سے اوجھل رہے اور وہاں پر چہرے کی بجائے ایک شرٹ نظر آئے۔ میجر دانش نے سونیہا کا جسم آگے کیا جہاں سے میجر دانش کی سمجھ کے مطابق سیکیورٹی الڑٹ والا حصہ سٹارٹ ہوتا تھا۔ جیسے ہی سونیہا کا جسم اس حصے سے آگے ہوا سامنے لگے ہوئے دو کیمرے اپنا اینگل بدل کر سونیہا ی طرف ہوگئے۔ کیمروں سے انفرا ریڈ شعائیں نکلیں اور سونیہا کے چہرے پر پڑیں۔ کیمرے کی ڈیٹا بیس میں سونیہا کا چہرہ موجود تھا جو آٹومیٹک سسٹم سے فورا ہی کلئیر قرار دے دیا گیا اور اب کیمروں میں ایک گرین لائٹ بلنک کر رہی تھی۔ یہ سگنل دیکھ کر میجر دانش نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ میجر دانش کے جسم کے آگے سونیہا کا جسم تھا جو کپڑوں سے آزاد تھا۔
لمبی راہداری کے آخر میں جا کر میجر دانش کو اپنے دائیں طرف والے کمرے سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ میجر دانش نے ان آوازوں کو فورا ہی پہچان لیا تھا۔ یہ وہی آوازیں تھیں جو میجر دانش سے انویسٹیگیشن کر رہی تھیں۔ انکو میجر دانش نے اپنا نام اور کرنل وشال کا پیچھا کرنے کے بارے میں تو سچ بتا دیا تھا مگر باقی جو کچھ بتایا تھا وہ جھوٹ پر مبنی تھا۔ میجر دانش نے فورا فیصلہ کیا کہ ان سے نہ صرف اپنی تذلیل کا بدلہ لینا ہے بلکہ انکو اگلے جہاں پہنچا کر اوروں کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔ میجر دانش نے دیوار کے ساتھ لگ کر دروازے پر ہلکا سا دباو ڈالا تو وہ کھلتا چلا گیا اور اندر بیٹھے دونوں غنڈے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ مگر اندر کوئی نہ آیا تو انکو تشویش ہونے لگی۔ انہوں نے سونیہا کو آواز دیتے ہوئے کہا اب آ بھی جاو جانِ من اندر کیوں تڑپا رہی ہو؟؟؟ میجر دانش نے یہ آواز سنی تو سونیہا کی ایک ٹانگ اپنے ہاتھ سے دروازے کے آگے کر دی۔ سونیہا کی ننگی ٹانگ دیکھ کر ان میں سے ایک غنڈہ اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے دروازے کی طرف آیا اور جیسے ہی بھانچیں کھلائے کمرے سے باہر نکل کر سونیہا کو پکڑا تو سونیہا لہراتی ہوئی اسکی بانہوں میں گر گئی۔ اس سے پہلے کہ اس غنڈے کو سمجھ آتی کہ اسکی بانہوں میں سونیہا کی لاش ہے میجر دانش کے ہاتھ اس غنڈے کی گردن تک پہنچ چکے تھے اور ایک ہی جھٹکے میں اس کی جان نکل چکی تھی۔
اندر بیٹھا غنڈہ جو انتظار کر رہا تھا کہ کب اسکا ساتھی سیکسی سونیہا کو اپنی بانہوں میں اٹھائے اندر لے کر آئے اس نے اپنے ساتھ کی لاش کو زمین پر گرتے دیکھا اور اسکے ساتھ ہی اسکی نظر سونیہا کے ننگے جسم پر بھی پڑی جس پر موت کے آثار واضح تھے۔ یوں اسطرح اپنے سامنے 2 لاشیں گرتی دیکھ کر اسکا ہاتھ فورا اپنی پسٹل کی طرف گیا اور اس سے پہلے کہ وہ گولی چلا سکتا میجر دانش ایک ہی چھلانگ میں اسکے سر پر پہنچ چکا تھا۔ میجر دانش نے پہلا وار اس کے ہاتھ پر کیا اور اس کی پسٹل دور جا گری جبکہ دوسرا وار میجر دانش نے اسکے پیٹ پر کیا۔ میجر دانش کا گھونسا لگتے ہی وہ غنڈہ درد سے دہرا ہوگیا ۔ اسکے دوہرا ہونے پر اسکی کمر پر میجر دانش کی طاقتور کہنی لگی جسکی تاب نا لاتے ہوئے وہ غنڈہ زمین پر ڈھے گیا۔ اور تڑپنے لگا۔ میجر دانش نے ادھر ادھر دیکھا اور اسے وہی لوہے کا راڈ نظر آیا جس سے اس غنڈے نے میجر دانش کی ٹانگوں پر بے تحاشہ وار کیے تھے۔ میجر دانش نے فورا ہی وہ راڈ اٹھا لیا اور اس غنڈے کی ٹانگوں پر برسانا شروع کر دیا۔
خوب اچھی طرح دھلائی کرنے کے بعد میجر دانش نے اس غنڈے کو بھی زندگی کی قید سے آزاد کر دیا اور پھر اس کنٹرول روم میں موجود سسٹم سے پوری بلڈنگ کے کیمروں کا ویو دیکھا اور سیکیورٹی کا جائزہ لیا۔ بلڈنگ میں 10 مختلف مقامات پر سیکیورٹی گارڈ موجود تھے جنکے ہاتھ میں جدید قسم کا اسلحہ تھا اور وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چاق و چوبند کھڑے تھے۔ میجر دانش نے انکی پوشینز کو ذہن نشین کیا اور مین گیٹ پر موجود سیکیورٹی کا بھی جائزہ لیا۔ کمرے میں ایک لال رنگ کابٹن بھی تھا جسکو دبانے پر سیکیورٹِ ہائی الرٹ ہوجاتی اور تب یہاں سے کسی کا بھی بچ کر جانا ممکن نہ تھا۔ میجر دانش نے کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے راہداری کا سیکیورٹی سسٹم جام کر دیا اور اسکے بعد راہداری میں داخل ہوکر راہداری کا دروازہ کھول کر دیکھا تو سامنے کھلا میدان تھا جس میں ایک طرف کچھ جھاڑیاں تھیں اور دوسری طرف ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ بنی ہوئی تھی۔ سامنے کوئی 500 میٹر کے فاصلے پر ایک بڑی دیوار اور گیٹ نظر آرہا تھا۔
میجر دانش نے دروازہ بند کیا اور دوبارہ سے بلڈنگ کا نقشہ دیکھنے لگا جو اسی کنٹرول روم میں موجود تھا۔ یہ بلڈنگ چاروں طرف سے اسی طرح کے ویران میدان سے گھری ہوئی تھی جب کہ چاروں طرف ایک بڑی دیوار تھی اور باہر جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا جو میجر دانش سے کوئی 500 میٹر دور تھا اور لازمی طور پر وہاں پر بھی سیکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ اب میجر دانش اس قید سے نکلنے کا پلان کرنے لگا۔ اچانک ہی اسکے زہن میں ایک زبردست پلان آیا۔ دونوں غنڈوں میں سے ایک غنڈے نے ہلکی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور ڈیٹا بیس میں اسکی تصویر بھی داڑھی کے ساتھ ہی تھی۔ میجر دانش بھاگتا ہوا راہداری میں سے واپس اپنے قید والے کمرے میں گیا وہاں بہت سارا سامان موجود تھا جو قیدیوں کو اذیت پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ میجر دانش نے اس سامان سے ایک بلیڈ نکالا اور واپس کنٹرول روم میں آگیا، آٹومیٹک سیکورٹی میجر دانش پہلے ہی جام کر چکا تھا اس لیے اسے اس بار راہداری سے گزرنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوئی۔
واپس آکر میجر دانش نے اس غنڈے کے چہرے کے بال صاف کیے اور اسکے چہرے پر 2 مختلف جگہ پر بلیڈ سے نشان بھی لگا دیا۔ بلیڈ لگنے سے خون نکلنے لگا جو میجر دانش نے اسکے چہرے پر مل دیا۔ اب کسی بھی کیمرے کے لیے اس شکل کو پہچاننا ممکن نہ تھا۔ اب میجر دانش نے کنٹرول روم کا جائزہ لیا اور وہاں سے کچھ ہتھیار اٹھا کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیے اور اسکے بعد آٹومیٹک سسٹم کا ٹائمر آن کر دیا۔ 5 منٹ کے بعد سیکیورٹی سسٹم آٹومیٹک طریقے سے آن ہوجانا تھا۔ میجر دانش نے سونیہا اور پہلے غنڈے کی لاش کمرے کے اندر کر دی اور دوسرا غنڈے کی لاش کو راہداری میں رکھ دیا اسکے بعد میجر دانش نے راہداری کا باہر جانے والا دروازہ کھولا اور اطراف کا جائزہ لیکر جھاڑیوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ میجر دانش اپنی پوری طاقت لگا کر پوری تیزی کے ساتھ جھاڑیوں کا سہارا لیتا ہوا مین گیٹ کی طرف بھاگ رہا تھا۔ جب یہ فاصلہ 100 رہ گیا تو میجر دانش رک گیا اور واپس راہداری والے راستے کی طرف دیکھنے لگا۔
اندر راہداری میں غنڈے کی لاش پڑی تھی جو اب ڈیٹابیس میں موجود تصویر سے کافی مختلف تھی۔ 5 منٹ پورے ہونے پر سیکیورٹی سسٹم آن ہوگیا اور جیسے ہی راہداری کے کیمرے آن ہوئے تو آٹومیٹک سیکورٹی سسٹم اس لاش کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر کیمرے سے ملنے والی تصویر ڈیٹا بیس میں موجود کسی بھی تصویر سے میچ نہ ہوئی تو آٹومیٹک لیزر آن ہوگئی اور ساتھ ہی پوری بلڈنگ زور دار سائرن سے گونجنے لگی۔ لیزر نے اس لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے جبکہ سائرن کی آواز سن کر تمام سیکورٹی اہلکار اپنی اپنی جگہ کو چھوڑ کر اس بلڈنگ کی راہداری سے نکلنے والے دروازے کے سامنے اپنی اپنی پوزیشن لینے لگے تھے۔ کوئِ بلڈنگ کی چھت سے نیچے اترا تو کوئی بلڈنگ کی باہر والی سائیڈ پر موجود کمروں سے نکلا۔ اسی طرح مین گیٹ پر موجود 2 سیکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک نے بھی بھاگنا شروع کیا اور راہداری کے دروازے کے باہر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ اب میجر دانش نے مین گیٹ کی طرف بھاگنا شروع کیا۔
مین گیٹ پر موجود واحد سیکورٹی اہلکار کو جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی تو وہ دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔ اچانک ہی جھاڑیوں سے میجر دانش نے لمبی چھلانگ لگائی اور اس سے پہلے کہ سیکورٹی اہلکار کچھ سمجھتا میجر دانش کے ہاتھ میں موجود تیز دھار خنجر اسکی گردن پر تھا ۔ اب یہ اہلکار کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ میجر دانش نے اسکو تیز الفاظ میں کہا زندگی پیاری ہے تو فورا یہ گیٹ کھول دو نہیں تو 3 گننے تک تم اپنی جان سے جاو گے اور میرے ہاتھ میں تیز خنجر تمہاری گردن کاٹ ڈالے گا۔ اسکے ساتھ ہی میجر دانش نے گنتی شروع کر دی۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش 3 کہتا اس سیکورٹی اہلکار نے میجر دانش کو گیٹ کھولنے میں مدد کرنے کا یقین دلایا، میجر دانش اب اسے گھسیٹتا ہوا گیٹ کے قریب لے گیا تو اس نے اپنی جیب سے ایک چابی نکالی اور گیٹ میں لگا دی۔ اسکے بعد اس نے گیٹ میں لگے سسٹم پر کوئی کوڈ اینٹر کیا اور پھر چابی گھمائی تو گیٹ کھلنے لگا۔
گیٹ کھلتے ہی میجر دانش کا ہاتھ چلا اور سیکورٹی گارڈ لہراتا ہوا زمین پر آرہا۔ میجر دانش نے اسے جان سے نہیں مارا تھا بالکہ اسکی گردن پر اپنا مخصوص وار کیا تھا جس سے وہ فوری بے ہوش ہوگیا اور زمین پر گر گیا جبکہ میجر دانش گیٹ سے نکلتے ہی دائیں طرف بھاگنے لگا۔ اندر موجود باقی سیکورٹی اہلکار ابھی تک راہداری کا دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھا۔ نہ تو اندر کوئی موجود تھا نہ ہی دروازہ کھلا۔ اور سیکورٹی اہلکار انتظار ہی کرتے رہ گئے۔
میجر دانش بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل آیا تھا مگر ابھی تک کسی شہر یا آبادی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے۔ بھاگ بھاگ کر میجر کی حالت خراب ہوچکی تھی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے اتنا بھاگنا پڑے گا۔ دور دور تک پانی کا بھی نام و نشان موجود نہیں تھا۔ بس ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ تھی اور میجر دانش اسکے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا۔ کافی دیر بھاگنے کے بعد جب میجر دانش تھک چکا تو اس نے چلنا شروع کر دیا تھا ۔ شام کا اندھیرا ہو چکا تھا اور میجر دانش کو اس بلڈنگ سے نکلے کوئی 30 منٹ ہوچکے تھے۔ اچانک میجر دانش کو دور کہیں سے گاڑی کی آواز آئی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو روڈ پر ایک گاڑی آرہی تھی جسکی ہیڈ لائٹس آن تھیں۔ گاڑی کو دیکھتے ہی میجر روڈ سے اتر گیا اور کچھ ہی دور موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا اور گاڑی کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ گاڑی وہاں سے گزرتی میجر کو محسوس ہوا کہ اسکے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔۔۔ میجر نےپیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں 3 ہٹے کٹے مرد کھڑے تھے جنکے ہاتھ میں رائفل تھیں اور انکا رخ میجر دانش کی طرف تھا۔۔۔۔۔
================================================== =========
زرین خان کرنل وشال کے سامنے اب ڈوگی سٹائل میں جھک گئی تھی اور کرنل وشال اپنا 9 انچ لمبا لن زرین خان کے پیچھے سے آکر اسکی چوت پر رکھ چکا تھا۔ کرنل وشال کے لن کی ٹوپی نے ابھی زرین خان کی چوت کو چھوا ہی تھا کہ زرین خان نے خود ہی پیچھے کی طرف ایک دھکا مارا اور آدھا لن اپنے اندر اتار لیا، باقی کا آدھا لن کرنل وشال کے ایک زور دار دھکے سے زرین خان کی چوت میں اتر چکاتھا۔ بھرے ہوئے جسم کی مالک زرین خان کو چودنے کی خواہش بہت سے فلمی ہیرو کرتے تھے مگر وہ ہر کسی کو اپنی چوت نہیں دیتی تھی۔ سلمان خان کے علاوہ صرف اکشے کمار ہی وہ شخص تھا جو زرین خان کی چوت لینے میں کامیاب ہوا تھا۔
البتہ داود اسمیعل باقاعدگی کے ساتھ زرین خان کی چوت لیتا تھا۔ زرین خان جیسی بھرے ہوئے جسم کی لڑکیاں داود بھائی کی فیورٹ تھیں۔ مگر وہ اب اس دنیا میں نہی رہا۔ کرنل وشال پہلی مرتبہ زرین خان کو چود رہا تھا اور اسکو اس چودائی کا بہت مزہ آرہا تھا۔ زرین خان بھی کرنل وشال کا 9 انچ کا لن پوری طرح اپنے اندر چھپائے چودائی کا مزہ لے رہی تھی اور اسکا اظہار وہ اپنے منہ سے سیکسی آوازیں نکلا کر کر رہی تھی۔ زرین خان اپنی چوت سے ہر مرد کو مزہ دینے کی صلاحیت رکھتی تھی جیسے ہی کرنل وشال اپنے لن کو چوت کے اندر گھساتا زرین خان اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیتی جس سے لن کو اچھی رگڑ ملتی اور کرنل کو مزہ آتا ، لن باہر نکلنے لگتا تو زرین اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی۔ کرنل کا لن زرین خان کی چوت کی گہرائیوں تک چوٹ مار رہا تھا یہی وجہ تھی کہ پچھلے 10 منٹ میں زرین خان کی چوت نے 2 بار پانی چھوڑ دیا تھا۔ اور اب بھی چوت میں لگنے والے دھکوں نے زرین خان کو تیسری مرتبہ پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
زرین خان کی چوت پانی سے بھری ہوئی تھی مگر کرنل وشال کا لن تھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا وہ اصل میں داود اسمعیل کی غداری کا غصہ زرین خان کی چوت پر نکال رہا تھا اسکے ہر دھکے میں داود کی غداری کے خلاف غصہ واضح تھا۔ اب کرنل وشال نے لن زرین خان کی چوت سے نکالا اور اور اپنی انگلی پر تھوک لگا کر زرین خان کی چکنی گانڈ میں داخل کر دی۔ زرین خان کی گانڈ بھی کافی چکنی اور قدرے کھلی تھی۔ مگر پھر بھی کرنل کی انگلی جانے سے زرین خان کی ایک سسکی نکلی آووووچ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس نے پیچھے مڑ کر پہلے کرنل کو دیکھا اور پھر اسکے لن کو دیکھا پھر بولی آرام سے گانڈ مارنا کرنل آپکا لن بہت لمبا ہے۔
مگر کرنل کو آج ہوش نہیں تھا کسی بھی چیز کا۔ اس نے اپنی ٹوپی زرین خان کی گانڈ پر سیٹ کی اور ایک زور دار دھکا مارا۔ زرین خان کی ایک چیخ نکلی اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔ کرنل کا آدھے سے زیادہ لن زرین خان کی نازک گانڈ کو چیرتا ہوا اندر جا چکا تھا۔ کرنل نے تھوڑا سا لن اور باہر نکالا اور ایک اور زور دار دھکا مارا۔ باقی کا لن بھی اب زرین خان کی گانڈ میں تھا۔ کرنل نے بغیر انتظار کیے پھر سے ڈوگی سٹائل میں ہی زرین خان کی گانڈ بجانا شروع کر دی۔ پہلے پہل تو زرین خان کو کافی تکلیف ہوئی مگر پھر آہستہ آہستہ اسکو مزہ آنے لگا۔ وہ ہلکے ہلکے اپنی گانڈ کو ہلا رہی تھی جسکی وجہ سے کرنل کے دھکے اور بھی شدت کے ساتھ اسکی گانڈ کو چیرتے ہوئے لن کو اندر پہنچا رہے تھے۔
اب کرنل نے لن زرین خان کی گانڈ سے نکالا اور زرین خان کو سیدھا لیٹنے کو کہا۔ زرین خان کرنل کے بیڈ پر سیدھا لیٹ گئی اور لیٹتے ہی اپنی ٹانگیں کھول دیں۔ کرنل نے زرین خان کی چوت میں اپنی انگلی ڈال کر اندر چکنائی کا معائنہ کیا تو اب اسکی چوت قدرے خشک تھی۔ کرنل نے اپنا لن اسکی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جاندار دھکے میں 9 انچ کا لن زرین خان کی پھدی میں اتار دیا۔ اور خود زرین خان کے اوپر جھک کر اسکے 38 سائز کے مموں کو دبانے لگا جبہکہ پیچھے سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر زرین خان کو چودنے لگا۔ زرین خان بھی کرنل کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسکو پیار کر رہی تھی اور اس زبردست چدائی پر سسکیوں کے ذریعے اپنی خوشی اور مزے کا اظہار کر رہی تھی۔ کرنل وشال نے اب زرین خان کے 38 سائز کے ممے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیے تھے۔ وہ زرین خان کے گہرے براون نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوستا اور پھر دانتوں میں لیکر کاٹتا۔ جس کی وجہ سے زرین خان کی اندر کی جنگلی عورت جاگ گئی تھی اور وہ اب اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر کرنل کا ساتھ دے رہی تھی۔ ساتھ ہی اسکی آوازوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی تھی اور اسکے ہاتھ اب کرنل کی کمر پر اپنے ناخنوں کے نشان ڈال رہے تھے۔ کرنل کا لن بھی اب پوری رفتار کے ساتھ زرین خان کی پھدی کو چود رہا تھا۔ آخر کار کرنل کے لن نے پھولنا شروع کیا اور ساری منی جب لن کے اندر جمع ہوگئی تو کرنل وشال کے لن نے جھٹکوں کے ساتھ قطرہ قطرہ منی زرین خان کی چوت میں نکالنا شروع کر دی۔ گرم گرم منی چوت کو جیسے ہی ملی چوت نے بھی اپنی گرمی دکھانے کے لیے گرم پانی چھوڑ دیا۔
اب کرنل وشال زرین خان کے پہلو میں لیٹا داود کے بارے میں سوچ رہا تھا ، زرین خان کو چودتے ہوئے بھی کرنل کا دھیان داود کی طرف ہی تھا۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ داود اسکو دھوکہ دے گا۔ کرنل ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کے اسکے خفیہ موبائل پر بیل بجی۔ کرنل نے فوری موبائل اٹھایا اور آنے والی کال کو اٹینڈ کرتے ہوئے غراتے ہوئے بولا کرنل وشال شپیکنگ۔ واٹ از دی اپڈیٹ؟؟ آگے سے کہا گیا سر ایک بری خبر ہے۔۔۔ کرنل وشال نے بے پرواہی سے کہا بولو۔ آگے سے بولنے والے شخص نے بتایا کہ میجر دانش بھاٹیا سوسائٹی جامنگر کے قید خانے سے فرار ہو چکا ہے۔ قید خانے میں اسکی نگرانی پر مامور ایجینٹ رائے اور واسو کی لاش راہداری اور کنٹرول روم میں ملی ہے جبکہ کیپٹن سونیہا بھی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔
کرنل وشال اپنے دانت پیستا ہوا بولا اور کوئی بات؟؟؟ آگے سے بتایا گیا کہ میجر دانش نے داود اسمعیل کے گینگ کے جس آدمی سے فون پر بات کی تھی اسے اپنا تعارف ایجنٹ 35 کہ کر کروایا تھا۔ جبکہ داود گروپ کا ایجنٹ 35 اس وقت آئی ایس آئی کی قید میں ہے۔ یہ سن کر کرنل وشال نے اپنا فون دیوار پر دے مارا اور زور سے دھاڑا میجر دانش، یو فکڈ وِد می۔ آئی وِل کِل یو باسٹرڈ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کرنل وشال کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا وہ میجر دانش کی چالاکی پر بہت حیران تھا۔ جس نے نہ صرف اس قید خانے کی سیکیورٹی کو ناکام بنا دیا تھا جسکو آج تک کوئی قیدی نہیں توڑ سکا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنی ایک عام سے فون کال کے ذریعے کرنل وشال کے رائٹ ہینڈ گینگ داود اسمعیل کے گینگ کا بھی صفایا کروا دیا تھا۔ اور وہ صفایا خود کرنل وشال نے کیا تھا۔ وہ اپنی اس حماقت پر اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔
اصل میں میجر دانش نے سونیہا جو کہ اصل میں انڈین آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر تھی کی باتوں پر کبھی یقین کیا ہی نہیں تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ یہ سب اس سے پاکستان کے خفیہ راز اگلوانے کے لیے اپنے جسم کا استعمال کر رہی ہے۔ جب سونیہا نے میجر دانش کو کہا کہ تم اپنے ساتھیوں کو فون کرو تاکہ وہ ہماری مدد کر سکیں، تبھی میجر دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ میرے ساتھ ساتھ مزید لوگوں کو بھی پکڑوانا چاہتی ہے تاکہ میجر دانش کو چارے کے طور پر استعمال کر کے وہ اپنی واہ واہ کروا سکے۔ میجر دانش نے فورا حامی بھر لی تھی مگر سونیہا کے جانے کے بعد وہ سوچتا رہا کہ آخر انکو کیسے چکما دیا جائے؟؟ تبھی میجر دانش کے ذہن میں وہ دہشت گرد آیا جو کراچی بم بلاسٹ میں ملوث تھا اور لیاری سے 2 ماہ پہلے میجر دانش نے ہی اسے گرفتار کیا تھا۔ اور تفتیش کے دوران اس نے بتایا تھا کہ وہ داود اسمعیل کے گینگ کے لیے کام کرتا ہے اور اسکا کوڈ ورڈ ایجینٹ 35 ہے۔
یہیں سے میجر دانش نے سوچا کہ چلو اپنی جان بچے یا نہ بچے مگر اس گینگ کا تو صفایا ہونا چاہیے تاکہ یہ لوگ مزید معصوم لوگوں کی جان نہ لے سکیں۔ اسی سوچ کے ساتھ میجر دانش نے ایک نمبر پر فون کیا، یہ نمبر بھی اسے ایجینٹ 35 سے ہی ملا تھا۔ میجر جانتا تھا کہ جیسے ہی ان لوگوں کو شک ہوگیا کہ یہ گینگ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے لیے بھی کام کرتا ہے تو کرنل وشال خود ہی اس گینگ کا خاتمہ کروا دے گا۔۔ ۔ مگر میجر دانش یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ گروہ کرنل وشال کے لیے کتنا اہم تھا۔ یوں میجر دانش کی اس چال سے پاکستان کا تو فائدہ ہوا ہی تھا مگر ساتھ میں کرنل وشال پر بھی کاری ضرب لگی تھی۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا ایک طاقتور بازو کاٹ چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب وہ پاگل کتے کی طرح میجر دانش کو ڈھونڈ رہا تھا۔
================================================== =====
میجر دانش کے کپڑوں میں کچھ ہتھیار موجود تھے جن سے وہ ان لوگوں کا مقابلہ کر سکتا تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ تینوں مسلح لوگ مکمل طور پر چوکس کھڑے تھے اور وہ میجر دانش کی طرف سے کسی بھی چالاکی پر گولی چلانے سے دریغ نہ کرتے۔ ان مین سے ایک آدمی جو صحت میں ان سب سے تگڑا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ موٹا تھا تو غلط نہ ہوگا اور ہلکی داڑھی اور سر پر رکھی پگڑی سے سکھ لگ رہا تھا، وہ غراتے ہوئے بولا کون ہو تم اور کیا نام ہے تمہارا؟؟؟ اب میجر دانش یہاں پر ٹریفک کانسٹیبل افتخار والی کہانی نہیں سنا سکتا تھا کیونکہ وہ قید خانے سے بھاگا تھا اور اب کسی کو یہ بتانا کہ وہ پاکستانی ہے اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ میجر دانش نے فورا ہی اپنے ذہن میں ایک کہانی بنا لی تھی۔ اس نے فورا بتایا کہ اسکا نام سنجیو کُمار ہے۔ 2 مہینے پہلے اسے ایک انڈر ورلڈ گینگ نے 2 کروڑ کی رقم کے لیے اغوا کیا تھا مگر اس رقم کا بندوبست نہیں ہوسکا تو انہوں نے سنجیو کمار یعنی میجر دانش کو قیدی بنا لیا تھا اور آج وہ کسی طرح قید سے آزاد ہوکر بھاگا ہے۔
ابھی میجر دانش کی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ روڈ سے آنے والی گاڑی بھی اسی جگہ پر رک گئی اور کچھ دیر بعد روڈ سے نیچے اتری اور جھاڑوں کی طرف آنے لگی۔ اب گاڑی کی لائٹس میجر دانش کے اوپر پڑ رہی تھی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکی ہلکی سی جنبش پر گن میں گولی چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ایک قید خانے سے بھاگا تو اب معلوم نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اسکے راستے میں آگئے۔ اتنے میں میجر دانش کو گاڑی کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ مسلح لوگوں میں موٹی توند والا گاڑی کی طرف متوجہ ہوا اور بولا ہاں کیا خبر ہے وہاں کی؟؟ میجر دانش کو اپنے پیچھے قدموں کی آواز آئی جو اسی کی طرف آرہے تھے۔پھر کوئی میجر دانش سے کچھ فاصلے سے گزرتا ہوا انہی 3 مسلح لوگوں کے پاس آیا۔
میجر دانش نے چہرہ اوپر ہلکا سا گھما کر آنے والے کی طرف دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آنے والا اصل میں "والا" نہیں بلکہ "والی" ہے۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے سرخ رنگ کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ آنکھوں پر ہلکے براون رنگ کا چشمہ تھا اونچی ہیل والے سینڈل اور بازو میں ایک چھوٹے سائز کا لیڈیز بیگ پکڑ رکھا تھاچھوٹے بال کندھوں سے کچھ نیچے کمر کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انڈین کلچر کے مطابق ساڑھی کا بلاوز تھوڑا چھوٹا تھا جس میں اسکے پیٹ کا کچھ حصہ واضح نظر آرہا تھا۔
آنے والی لڑکی نے ، جسکی عمر لگ بھگ 20 سال ہوگی اور قد 5 فٹ 6 انچ کے قریب رہا ہوگا ہلکا سا چشمہ ٹیڑھا کر کے میجر دانش کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کی بات کا جواب دینے کی بجائے میجر دانش سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی تم کہاں سے آئے ہو؟؟؟ اس سے پہلے کہ میجر دانش کچھ بولتا مسلح آدمی نے دوبارہ اس سے پوچھا اس کو چھوڑو جس کام سے تمہیں بھیجا تھا اسکا بتاو کیا بنا؟؟ تو لڑکی بولی ایک حیران کن خبر ہے۔ وہ وہاں سے فرار ہوچکا ہے، گیٹ آدھا کھلا تھا اور گیٹ پر گن مین بے ہوش پڑا تھا، جبکہ اندر کافی دور کچھ مسلح افراد نظر آئے جو شاید کسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ہو نہ ہو وہ وہاں سے بھاگ چکا ہے۔۔۔۔ اب مسلح شخص نے دوبارہ سے میجر دانش کی طرف دیکھا اور بولا ہاں تو سنجیو کمار صاحب، آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور اس گینگ کی قید سے کیسے بھاگے؟؟؟ اس پر اس لڑکی نے دوبارہ میجر کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کو مخاطب کر کے بولی یہ کس طرف سے آیا ہے؟؟؟ مسلح شخص نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یہ اسی سائیڈ سے آیا ہے جہاں سے تم آرہی ہو۔۔۔ یہ سن کر اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ بولی کہیں تم ہی تو میجر دانش نہیں ہو؟؟؟ لڑکی کے منہ سے اپنا نام سن کر میجر دانش حیران رہ گیا اور پھر بولا نہیں میں کسی میجر دانش کو نہیں جانتا۔ میرا نام سنجیو کُمار ہے اور میں ممبئی شہر کا رہنے والا ہوں۔ میرا وہاں کپڑے کا کاروبار ہے۔
میجر دانش نے اب غور کیا تو صرف لڑکی ہی نہیں بلکہ تینوں مسلح افراد بھی مسکرا رہے تھے اور حیرت انگیز طور پر اب انہوں نے اپنی گن کا رخ بھی زمین کی طرف کر دیا تھا اور وہ بہت ریلیکس کھڑے تھے۔ میجر دانش نے سوچا موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ، اس نے ایک ہی لمحے میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسمیں سے ایک چھوٹے سائز کا پسٹل نکالا اور ایک ہی چھلانگ لگا کر لڑکی کے سر پر پہنچ گیا اس نے اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھ دی تھی اور اسکے گورے پیٹ کے گرد ہاٹھ ڈال کر اسکو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ میجر دانش چلایا کہ تم سب اپنی اپنی گن نیچے پھینک دو نہیں تو تمہاری یہ ساتھی اپنی جان سے جائے گی۔ یہ کہ کر میجر دانش نے کاونٹنگ شروع کر دی، 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔ وہ تینوں مسلح لوگ ڈرنے کی بجائے ابھی بھی میجر دانش کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور لڑکی کی بھی ہنسی نکل رہی تھی۔
میجر دانش ایک بار پھر چلایا مگر اس بار مسلح شخص نے میجر دانش کو مخاطب کیا اور بولا میجر صاحب کپڑے کا کاروبار کرنے والا اس پھرتی سے کبھی حملہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہ کر اسنے اپنی گن نیچے رکھی اور میجر کی طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھنے لگا، میجر دانش اس صورتحال پر حیران تھا، اس نے ایک بار پھر اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھی اور دھمکی آمیز لہجے میں بولا ایک قدم بھی آگے بڑھا تو میں گولی چلا دوں گا۔ مگر لڑکی ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔ اب وہ مسلح شخص سیدھا کھڑا ہوا اور میجر دانش کو سلیوٹ کیا اور بولا سر تانیہ کو تو چھوڑ دیں یہ آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، اور جہاں سے آپ بھاگے ہیں یہ ابھی وہیں سے ہوکر آرہی ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ آپ کرنل وشال کے اس قید خانے سے کیسے زندہ سلامت بچ کر نکل آئے۔۔۔آج تک اسکے قید خانے سے کوئی بچ کر نہیں نکل سکا۔ میجر دانش نے اس بار حیران ہوکر پوچھا تم کون ہو؟؟
تو اس شخص نے اپنے سر سے پگڑی اتار دی اور بولا سر میرا نام امجد ہے، یہ رانا کاشف، اور یہ سرمد ہے۔ اور لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا اور یہ میری بہن تانیہ ہے۔ ہمارا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ ہمیں میجر جنرل اشفاق نے ٹاسک دیا تھا کہ انکا ایک میجر کرنل وشال کی قید میں ہے اسکو وہاں سے رہا کروانا ہے۔ ہم نے تانیہ کو گاڑی پر آگے بھیجا تھا کہ وہ اطراف کا جائزہ لے کر واپس آکر ہمیں وہاں کے حالات سے آگاہ کرے، اتنے میں آپ مل گئے، ہم سمجھ تو گئے تھے کہ آپ ہی میجر دانش ہونگے کیونکہ یہ بہت ویران علاقہ ہے یہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں۔ اور ایسی جگہ پر آپکا آنا اور آپکی یہ حالت صاف بتا رہی ہے کہ آپ کسی قید خانے سے بھاگے ہیں۔
اپنی بات مکمل کر کے امجد کچھ دیر خاموش ہوا اور پھر حیران کھڑے دانش کو دیکھا جو یہ سوچ رہا تھا کہ انکی بات پر یقین کرنا چاہیے یا نہیں، پھر امجد بولا سر اب تو تانیہ کو چھوڑ دیں اب تو ہم نے اپنی گن بھی سائیڈ پر رکھ دی ہیں۔ اب میجر دانش کچھ سوچتا ہوا تانیہ سے پیچھے ہٹ گیا مگر اسکی انگلی ابھی تک پسٹل کے ٹریگر پر تھی تاکہ کسی بھی حالت میں وہ فوری طور پر اپنی حفاظت کی غرض سے گولی چلا سکے۔ جیسے ہی میجر دانش نے تانیہ کو چھوڑا امجد باقی 2 افراد رانا کاشف اور سرمد سے مخاطب ہوا چلو اب جلدی نکلیں ادھر سے کرنل وشال کے لوگ اب پاگل کتوں کی طرح میجر کو ڈھونڈیں گے وہ کسی بھی وقت ادھر پہنچ سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہی سب نے اپنی اپنی گن دوبارہ سے اٹھائی اور گاڑی کی طرف بھاگے۔
میجر دانش کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا وہ بھی گاڑی کی طرف بھاگا، امجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا جبکہ تانیہ اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی رانا کاشف اور سرمد پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے میجر دانش بھی انکے ساتھ بیٹھ گیا اور گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔
================================================== ====
صبح ہونے پر نادیہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا وہ ابھی تک بنا کپڑوں کے لیٹی تھی اور اسکے پہلو میں عمیر بھی بنا کپڑوں کے سو رہا تھا۔ نادیہ کمبل سے باہر نکلی اور اپنے کپڑے پہننے لگی۔ رات کو ہونے والی چدائی کو سوچ کر اسکی آنکھوں میں ایک مستی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد اس نے عمیر کو بھی اٹھنے کو کہا اور خود واش روم میں گھس گئی جہاں گرم گرم پانی سے اس نے غسل کیا اور اسکے بعد عمیر کو بھی غسل کرنے کو کہا۔ غسل کرنے کے بعد نادیہ دوسرے کمرے میں جا کر پنکی اور عفت کو جگانے چلی گئی جو ابھی تک سو رہی تھیں۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہی تھا نادیہ سیدھی اندر گئی اور پہلے پنکی اور پھر عفت کو اٹھایا اور فورا تیار ہونے کو کہا اور بتایا کہ آج ہم پترایاٹا جائیں گے اور چئیر لفٹ کی سیر بھی کریں گے لہذا جلدی جلدی تیار ہوجاو دونوں۔ یہ کہ کر وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور تیار ہونے لگی۔ پنکی بھی فورا اٹھی اور نہانے گھس گئی جبکہ عفت ایسے ہی بیڈ پر لیٹی رہی۔
اسکا کہیں بھی جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ دانش سے دوری اسکو ایک پل بھی سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ اوپر سے اتنے دن گزرنے کے باوجود ابھی تک دانش کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عفت مری آکر اپنے آپ کو مجرم تصور کر رہی تھی۔ ایک عورت جسکا شوہر شادی کی رات سے ہی لاپتہ ہے وہ مری کی سیر کر رہی ہے یہ سوچ کر ہی عفت کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے شوہر سے غداری کر رہی ہے۔ عفت انہی سوچوں میں گم تھی کہ پنکی تیار ہوگئی اور عفت کو دیکھ کر بولی بھابھی آپ ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہیں چلنے کا ارادہ نہیں کیا؟؟ اس پر عفت بولی نہیں یار میرا دل نہیں کر رہا کہیں بھی جانے کو۔ دانش کی یاد آرہی ہے۔ بھائی کا نام سن کر ایک لمحے کو پنکی بھی اداس ہوئی مگر پھر عفت کو حوصلہ دیتے ہوئے بولی بھابھی فکر نہ کریں، بھائی کا تو کام ہی یہ ہے آپکو تو پتا ہے وہ ایک فوجی ہیں اور انہیں اکثر ایسے مشن پر روانہ ہونا پڑتاہے کہ کئی کئی دن انکی خبر نہیں آتی۔ آپ فکر نہ کریں اور چلنے کی تیاری کریں۔
اتنے میں نادیہ نے آکر ناشتہ لگنے کی خبر دی ، عفت منہ دھو کر پنکی کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر پہنچی تو نادیہ اور عمیر فل تیاری کر چکے تھے اور پنکی بھی تیار تھی، ان دونوں نے عفت کو ایسی حالت میں دیکھا تو پوچھا بھابھی آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئیں؟؟ عفت بولی تم لوگ جاو میرا موڈ نہیں ہے ۔ میں یہیں رکوں گی۔ یہ سن کر نادیہ نے وجہ پوچھنی چاہی مگر عمیر نے منع کر دیا اور بولا جیسے آپکی مرضی بھابھی لیکن اگر آپ چلیں گی تو ہمیں خوشی ہوگی۔ عفت نے عمیر کی طرف دیکھا مگر بولی کچھ نہیں۔ اسکی آنکھوں کی اداسی نے سب کچھ کہ دیا تھا اور عمیر سمجھدار تھا وہ بھی سمجھ گیا کہ عفت دانش کے بغیر اچھا فیل نہیں کر رہی اور نادیہ اور عمیر کو اکٹھے دیکھ کر بھی ہو سکتا ہے اسکو دانش کی کمی محسوس ہو۔ اسی لیے عمیر نے اس پر دباو نہیں ڈالا اور ناشتے سے فارغ ہوکر نادیہ اور پنکی کے ساتھ نکل گیا جاتے ہوئے وہ عفت کو تاکید کر گیا کہ اپنا خیال رکھے اور اگر کسی بھی قسم کی ضرورت ہو تو بلا جھجک عمیر کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھ کر فون کر دے وہ فورا واپس آجائے گا۔ یہ سن کر عفت نے پیار سے عمیر کے سر پر ہلکی سی چماٹ ماری اور بولی نہیں تم لوگ انجوائے کرو میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرور ہوئی بھی تو میجر کی بیوی ہوں یہاں فل پروٹوکول لوں گی۔ یہ سن کر عفت اور عمیر دونوں ہی ہنس پڑے اور پنکی بھی انکے ساتھ ہنسنے لگی جبکہ نادیہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔
کچھ دیر بعد تینوں سیر کرنے کے لیے نکل چکے تھے جبکہ عفت اپنے ہٹ میں ہی جوجود رہی۔ کچھ دیر فارغ بیٹھ بیٹھ کر جب وہ بور ہوگئی تو اٹھ کر باہر نکل آئی اور ہٹ کی بیک سائیڈ پر موجود درختوں کے درمیان چلتی ہوئی ہٹ سے تھوڑا دو نکل آئی۔ یہاں پہاڑ کی ہلکی سی ڈھلان تھی اور ایک مناسب جگہ دیکھر کر عفت بیٹھ گئی۔ یہاں سے بہت خوبصورت نظارہ مل رہا تھا۔ عفت اس نظارے کو انجوائے کرنے لگی ، ہلکی ہلکی ٹھنڈ کی وجہ سے عفت نے ایک شال بھی اوڑھ رکھی تھی۔ جبکہ دوسری طرف نادیہ اور عمیر چیر لفٹ پر بیٹھے انجوائے کر رہے تھے اور انسے پچھلی چئیر پر پنکی اکیلی بیٹھی تھی۔ پنکی نے بلیو کلر کی جینز پہن رکھی تھی اسکے ساتھ ایک ٹائٹ ٹی شرٹ تھی اور اوپر سے ایک براون کلر کا موٹا اور گرم اپر پہن رکھا تھا۔ باولوں کو اکٹھا کر کے ایک پونی ڈالی ہوئی اور لانگ بوٹ پہنے پنکی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ گورا چہرہ اور پنک پنک گالوں والی پنکی کو اب تک بہت سے لڑکے دیکھ کر دیکھتے ہی رہ گئے تھے، جو بھی دیکھتا وہ اپنی نظریں ہٹانا بھول جاتا۔ چئیر لفٹ سے اترتے ہوئے عمیر نے پنکی کو سہارا دیا اور پھر تینوں کیبل کار پر بیٹھ کر نیو مری پہنچ گئے اور وہاں برف سے کھیلنے لگے۔ وہاں کچھ اور فیملیز بھی آئی ہوئی تھیں اور کچھ کالج کے گروپ بھی تھے۔
نادیہ عمیر کے ساتھ اکیلے اس جگہ پر انجوائے کرنا چاہتی تھی مگر پنکی کی وجہ سے وہ کچھ اکھڑی اکھڑی تھی۔ لیکن پھر اچانک ہی ایک لڑکی نے پنکی کو دیکھ کر چیخ ماری اور بھاگتی ہوئی ہاتھ پھیلا کر پنکی کی طرف آئی، پنکی نے اسے دیکھا تو وہ بھی خوشی سے نہال ہوگئی اور آنے والی لڑکی سے گلے ملنے لگی۔ پنکی نے گلے ملتے ہی اس لڑکی سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے؟؟؟ تو اس نے بتایا تم بھول گئی، تمہیں بتایا تو تھا کہ ہم لوگ بھی مری آئیں گے۔ مما پاپا اور بھائی کے ساتھ کل رات ہی میں یہاں پہنچی ہوں۔
یہ پنکی کی یونیورسٹی کی دوست عالیہ تھی۔ ان دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی اور اس دوستی کی اصل وجہ عالیہ کا بھائی وجاہت تھا جسے سب پیار سے وجی کہ کر بلاتے تھے۔ وجی پنکی کو پسند کرتا تھا اور دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی۔ پنکی بھی وجی کو پسند کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر ابھی تک وجی نے پنکی کی امی سے کوئی بات نہیں کی تھی اس بارے میں۔ عالیہ اور پنکی ابھی باتیں کرنے میں مصروف تھے کہ وجی بھی وہاں پہنچ گیا اور پنکی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس نے بھی پنکی سے ہاتھ ملایا اور بولا تم تو آج بڑی پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ پنکی نے اٹھلاتے ہوئے کہا یہ کونسا نئی بات ہے، میں تو ہمیشہ ہی پیاری لگتی ہوں۔ یہ سن کر عالیہ بھی ہنسنے لگی۔ پھر پنکی نے دونوں کا تعارف عمیر اور نادیہ سے کروایا۔
عالیہ نے عمیر سے اجازت لی کہ وہ پنکی کو اپنے ساتھ لیجائے تو عمیر نے منع کرنا چاہا مگر نادیہ نے فورا ہی اجازت دے دی۔ وہ تو پہلے ہی پنکی کی موجودگی سے پریشان تھی کیونکہ ہنی مون ٹرپ پر بھلا بہن کا کیا کام بھائی کے ساتھ ۔ بھابھی سے اجازت ملتے ہی پنکی عالیہ کے ساتھ چل پڑی اور عمیر کو کہ دیا کہ وہ بھابھی کے ساتھ ہی واپس چلے جائیں وہ انہی لوگوں کے ساتھ واپس مری پہنچ جائے گی۔ نادیہ نے بھی عمیر کا بازو پکڑا اور دوسری سائیڈ پر چل دی جہاں رش قدرے کم تھا۔ وہ تنہائی میں عمیر کے ساتھ بیٹھ کر اس رومانٹک موسم کو انجوائے کرنا چاہتی تھی۔ ویسے بھی کراچی والوں کے لیے مری کا یہ کم ٹھنڈا موسم بھی بہت ٹھنڈا تھا۔
پنکی اب عالیہ اور وجی کے ساتھ سیر کرنے لگی۔ پنکی کے دائیں طرف عالیہ جبکہ بائیں طرف وجی تھا جو وقفے وقفے سے پنکی کو چھیڑ رہا تھا مگر پنکی اسکی ان حرکتوں کا برا نہیں منا رہی تھی۔ کیونکہ وہ بھی وجی کو پسند کرتی تھی۔ پنکی نے دوپہر ہونے پر وجی اور عالیہ کے ممی ڈیڈی کے ساتھ ہی کھانا کھایا اور پھر واپس مری آگئے۔ شام 5 بجے مری میں ٹھنڈ کا اضافہ ہوگیا تھا مگر پنکی اس موسم کو انجوائے کرنا چاہتی تھی۔عالیہ کے ممی ڈیڈی جی پی او چوک پر موجود ہوٹل میں اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ پنکی عالیہ اور وجی مال روڈ پر موسم انجوائے کرنے اور ونڈو شاپنگ کرنے چلے گئے۔ اب پنکی اور وجی ایکدوسرے کا ہاتھ پکڑے مال روڈ پر پھر رہے تھے۔ آنے جانے والے بھونڈ قسم کے لڑکے حسرت بھری نگاہوں سے وجی کو دیکھتے اور اسکی قسمت پر حسد کرتے جو اتنی خوبصورت لڑکی کے ساتھ پھر رہا تھا۔
تینوں کافی دیر تک مال روڈ پر پھرتے رہے اور تینوں نے ملکر آئسکریم بھی کھائی پھر وجی عالیہ اور پنکی کو لیکر موشن رائیڈ کی طرف لے گیا۔ عالیہ نے تو موشن رائیڈ پر بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا جبکہ پنکی کے چہرے پر بھی تھوڑے خوف کے آثار تھے مگر وجی کے اسرار پر وہ اندر چلی گئی اور چئیر پر بیٹھ کر سیٹ بیلٹ باندھ لی۔ پنکی نے چئیر پر آرم سپورٹ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ مووی شروع ہوئی اور چئیر میں بھی حرکت شروع ہوگئی۔ شروعات میں تو پنکی حوصلہ کر کے بیٹھی رہی مگر جیسے ہی سامنے چلنے والی مووی میں ٹرین پٹری سے نیچے گری تو پنکی کو محسوس ہوا کہ جیسے اسکی اپنی چئیر بھی ہوا میں اڑنے لگی اور وہ ابھی نیچے گر جائے گی، اس نے فورا ہی سپورٹ کو چھوڑ کر ساتھ والی چئیر پر بیٹھے وجی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیا،
پنکی کی یہ حالات دیکھ کر وجی ہنسنے لگا جبکہ پنکی کی چیخیں ہی ختم نہیں ہورہی تھیں، وہ تو اب سامنے لگی سکرین پر دیکھ ہی نہیں رہی تھی جبکہ اسکی چئیر اب بھی کبھی اسکو ہوا میں اڑاتی تو کبھی پیچھے کی طرف گراتی مگر اس نے وجی کو نہیں چھوڑا اور مضبوطی سے اسے پکڑ کر بیٹھی رہی۔ وجی نے بھی ایک ہاتھ پنکی کی کمر کے گرد لپیٹ لیا۔ اور اسے مضبوطی سے پکڑ کر حوصلہ دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں مووی ختم ہوگئی اور وجی نے سیٹ بیلٹ کھول دی۔ مگر پنکی ابھی تک ڈری ہوئی تھی اور وہ وجی کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، وجی نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکی سیٹ بیلٹ کھولی اور اسکو نیچے اترنے میں مدد دی۔ پنکی کانپتی ٹانگوں کے ساتھ نیچے اتری اور وجی کے سینے پر تھپڑ مارتے ہوئے بولی میں نے کہا تھا نہ مجھے نہیں بیٹھنا اس پر مگر تم نے میری سنی ہی نہیں۔ وجی نے یہ سن کر ایک قہقہ لگایا اور بولا ارے مجھے کیا معلوم تھا کہ میری پنکی اتنی ڈرپوک ہے۔ یہ کہ کر اسنے پھر سے اپنا بازو اسکے کندھے پر رکھ کر اسے اپنے سے قریب کر لیا۔
اب رات کے 9 بجنے والے تھے۔ اس دوران عمیر نے 2 بار پنکی کو کال کر کے خیریت دریافت کی اور پنکی نے عمیر کو مطمئن کیا کہ آپ فکر نہ کریں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اب عالیہ وجی اور پنکی واپس اپنے ہوٹل میں آچکے تھے جہاں اسکے ممی ڈیڈی آرام کرنے کے بعد مال روڈ کی سیر کرنے نکل گئے تھے۔ اپنے کمرے میں آتے ہی عالیہ بیڈ پر ڈھے گئی۔ ایک دن کا سفر اور آج سارے دن کی سیر نے اسکو تھکا دیا تھا۔ جبکہ پنکی کی تھکاوٹ وجی کے ساتھ نے ختم کر دی تھی۔ اب پنکی اور وجی دونوں ایکدوسرے کے ساتھ صوفے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جبکہ عالیہ بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ شاید اسکی آنکھ لگ گئی تھی۔
وجی نے پنکی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے دونوں ہاتھ میں لیکر اس پر پیار کرنے لگا جبکہ پنکی بھی وجی کے ساتھ بیٹھی اور زیادہ پنک ہوگئی تھی۔ شرم سے اسکے ہلکے گلابی گال اب پہلے سے زیادہ گلابی ہوچکے تھے۔ وجی نے پنکی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اوپر اٹھا کر اپنے ہونٹوں کے قریب لا کر اسکے نرم نرم ہاتھ پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اور اپنا ایک بازو پنکی کے کندھے پر رکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا۔ پنکی نے بھی اپنا سر وجی کے کندھے پر رکھ دیا۔ بہت عرصے بعد اسے اپنے محبوب کے اتنا قریب ہونے کا موقع ملا تھا۔ جس سے پنکی بہت خوش تھی۔
پنکی کے ہاتھ پر پیار کرتے ہوئے وجی نے بہت ہلکی آواز میں پنکی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے آئی لو یو جان کہا، جس پر پنکی تھوڑا سا کسمسائی اور جواب میں آئی لو یو ٹو وجی کہا۔ وجی نے پنکی کے چہرے کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اوپر اٹھایا اور اسکی طرف پیار سے دیکھنے لگا۔ وجی کو اپنی جانب یوں دیکھتے ہوئے پنکی شرم سے لال ہوگئی اور اپنی نظریں جھکا لیں۔ جب کہ وجی پنکی کی خوبصورتی پر مرا جا رہا تھا۔ وہ اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا۔ یوںہی پنکی کو دیکھتے ہوئے وہ تھوڑا سا آگے جھکا اور پنکی کے نرم گلابی ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اپنے ہونٹوں پر وجی کے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی پنکی کو ایک جھٹکا لگا اور وہ پیچھے ہوگئی اور وجی کو منع کیا وجی پلیز ابھی یہ سب ٹھیک نہیں۔
اس پر وجی بولا کہ جان تم اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ مجھ سے رہا نہین گیا، تمہارے یہ نرم گلابی ہونٹ مجھے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور تمہارا یہ خوبصورت چہرہ چاند کو بھی شرما رہا ہے ۔۔۔ اپنی تعریف سن کر پنکی کے چہرے پر خوشی اور شرم کے ملے جلے تاثرات تھے جس نے 21 سالہ پنکی کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ کہتے ہیں عورت کی شرم اور حیا ہی اسکا اصل حسن ہوتا ہے۔ اور یہ شرم و حیا جب پنکی جیسی خوبصورت لڑکی کے چہرے پر ہو تو اسکے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وجی بار بار پنکی کو اپنے قریب کر رہا تھا۔ انکے درمیان کوئی جسمانی تعلق نہیں تھا مگر آج وجی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ پنکی کو اپنے سینے سے لگا کر بہت سارا پیار کرے۔
وجی نے ایک بار پھر پنکی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے، اس بار پنکی نے بھی وجی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کو گولائی میں گھماتے ہوئے ہلکے سے چوم لیا جس پر وجی بہت خوش ہوا مگر پھر پنکی فورا ہی صوفے سے کھڑی ہوگئی اور وجی کہ کہنے لگی کہ وہ اسے آرمی ہٹس میں چھوڑ آئے وہاں اسکی بھابھی اکیلی ہونگی ۔ وجی اپنی جگہ سے کھڑا ہوکر پنکی کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور سر تا پا پنکی کا جائزہ لینے لگا، اس نے جیسے پنکی کی بات سنی ہی نہ تھی۔ پنکی کمرے میں آکر اپنا گرم کوٹ اتار چکی تھی اب وہ ٹائٹ ٹی شرٹ اور جینز پہنے وجی کے سامنے کھڑی تھی۔ جس سے پنکی کے جسم کے ابھار بہت واضح ہورہے تھے۔
اب کی بار سونیہا نے پہلے سے زیادہ چلاتے ہوئے کہا کہ پلیز ویسے ہی دھکا مارو جیسے ابھی مارا ہے مگر میجر دانش نے پھر سے انکار کیا کہ اسکی ٹانگ مڑ جاتی ہے اور مسل پُل ہوجائے گا اگر دوبارہ اس اینگل میں دھکا مارا۔ لیکن سونیہا کو کہاں سکون ملنے والا تھا۔ ایک تو پہلے ہی میجر دانش کے لن نے اسکو مزے کی انتہا پر پہنچا دیا تھا اوپر سے جی سپاٹ پر لن کی رگڑ نے اسکو وحشی پن کی حد تک مزہ دیا تھا۔ جب سونیہا نے دیکھا کہ اب لن اسکے جی سپاٹ کو نہیں چھو رہا تو اسنے اپنی چوت سے لن نکالا اور سامنے پڑی اپنی پینٹ کی جیب سے ایک چھوٹی سی چابی نکالی اور میجر دانش کی ٹانگیں کھول دیں۔ میجر دانش کی ٹانگیں کھلتے ہی اسکو اپنے پاوں میں سکون محسوس ہوا اور اسکی ٹانگوں کو بہت آرام ملا۔ اسنے دو تین بار اچھل کر اپنی ٹانگوں کو سکون پہنچایا۔ تو سونیہا چلائی کہ تمہیں ایکسرسائز کرنے کے لیے ٹانگیں نہیں کھولیں اب صحیح طرح چودائی کرو میری اور اسی جگہ لن لگنا چاہیے جہاں پہلے لگ رہا تھا۔
میجر دانش نے سونیہا کو کہا اگر وہ اسکے ہاتھ بھی کھول دے تو وہ ایسے چودے گا سونیہا کو کہ سونیہا پھر کبھی کسی اور کا لن نہیں مانگے گی۔ مگر سونیہا نے انکار کر دیا اور بولی بس اسی پر شکر ادا کرو۔ اب جلدی جلدی اپنا کام مکمل کرو یہ نہ ہو وہ دونوں بدمعاش پھر آجائیں اور ہمیں اس حالت میں دیکھ کر ہمیں مار ہی ڈالیں ۔
میجر دانش نے پیارے بھرے لہجے میں کہا جب تک میری جان میں جان ہے میری سونیہا کو کوئی مائی کا لال ن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اب کی بار میجر دانش نے اپنی ٹانگوں کو تھوڑا پھیلا لیا ور سنیہا نے ایک بار پھر میجر کی طرف اپنی پیٹھ کی اور اسکا لن اپنی چوت میں ڈال دیا۔ پیچھے سے میجر دانش نے پہلے والے اینگل پر زور دار دھکے لگانا شروع کر دیے۔ اب کی بار میجر دانش کا لن مسلسل سونیہا کے جی سپاٹ پر چوٹ مار رہا تھا اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی جھٹکوں نے سونہیا کو چھوٹںے پر مجبور کر دیا۔ اس بار اسکی چوت سے بہت سا پانی نکلا
دوسری طرف باہر کنٹرول دوم میں دونوں غنڈے اندر ہونے والی چودائی سے بے خبر اس نمبر کو ٹریس کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے جس پر میجر دانش نے کال کی تھی اور اپنے بھاگنے کی اطلاع دی تھی۔ یہ ممبئی کے ایک ایسے علاقے کا نمبر تھا جہاں بہت سے انڈر ورلڈ کے گروپ تھے۔ ان میں سے بہت سے گروپس پر یہ الزام بھی تھا کہ ان گروپس کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور پاکستان کے کہنے پر یہ لوگ ممبئی میں غنڈہ گردی پھیلاتے ہیں۔ جبکہ کچھ گروہ کے بارے میں یہ رائے تھی کہ ممبئی کے لوکل گروپ ہیں اور راء اپنے مقاصد کے لیے انکو استعمال کرتی ہے۔ میجر دانش نے جس نمبر پر کال کی تھی یہ ممبئی کا ایک مشہور انڈر ورلڈ گینگ تھا جسکی سربراہی داود اسمعیل کرتا تھا۔ اس گروپ کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ راء کے لیے کام کرتا ہے مگر میجر دانش کا اس گروپ کے ایجینٹ کو فون کرنا اور ان سے مدد مانگنا دونوں غنڈوں کے لیے حیران کن تھا۔ ان دونوں نے یہ خبر فورا کرنل وشال تک پہنچائی اور کرنل وشال بھی اس گروپ کی غداری پر سیخ پا ہونے لگا اور فوری ایک پلان ترتیب دیا جسکے مطابق اگلے 1 گھنٹے میں اس گروپ کا جڑ سے صفایا کرنا تھا۔
دوسری طرف اند کمرے میں میجر دانش کا لن ابھی تک سونیہا کی چدائی میں مصروف تھا۔ اب میجر دانش نے سونیہا کو کہا کہ ایک چئیر اٹھا کر میجر کے پاس رکھ دے، سونیہا نے ایسے ہی کیا اور سامنے پڑی ایک کرسی اٹھا کر میجر کے پاس رکھ دی، میجر نے اپنی ایک ٹانگ کری پر رکھی اور سونیہا کو کہا کہ وہ بھی اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر سامنے آجائے۔ سونیہا نے حیرت انگیز طور پر اپنی ٹانگ بالکل سیدھی کھڑی کر لی اور میجر دانش کے سینے سے ٹکا دی۔ یہ ایک اور اشارہ تھا کہ سونیہا کو جمناسٹک کی ٹریننگ حاصل ہے۔ اب سونیہا کی چوت میجر دانش کے لن کے عین نشانے پر تھی۔ میجر نے اپنا لن پھر سے چوت کے اندر ڈالا اور اپنی ایک ٹانگ چئیر پر رکھ کر نیچے سے سونیہا کی چوت میں گھسے مارنے لگا۔ میجر دانش کا ہر دھکا سونہیا کی چوت کو اندر تک ہلا کر دکھ دیتا تھا۔
سونیہا دل ہی دل میں افسوس کر رہی تھی کہ کل اتنے طاقتور لن کے مالک کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اور وہ دوبارہ اس لن سے چدائی نہیں کروا سکے گی۔ جبکہ دانش آنے والے وقت میں یہاں سے بھاگنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سونیہا کا بتایا ہوا پلان بھی اسکے ذہن میں تھا اور اس عمارت کی سیکورٹی سے متعلق سونیہا نے جو کچھ بتایا تھا اس پر بھی میجر دانش کو یقین تھا کہ اسنے صحیح بتایا ہے۔ 5 منٹ کی مزید چدائی نے سونیہا کی چوت کا برا حال کر دیا تھا۔ سونیہا سوچنےلگی کہ ابھی تو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر اسکے ہاتھ کھلے ہوتے تو مختلف سٹائلز میں چودائی کا بہت مزہ آتا۔ کچھ ہی دیر بعد مجر دانش نے اپنے آخری زوردار دھکے مارے اور اسکی چوت میں اپنی گرما گرم منی چھوڑ دی۔ میجر کی منی کو چوت میں محسوس کر کے سونیہا کی چوت نے بھی پانی چھوڑی دیا۔
اب میجر دانش گہری گہری سانسیں لے رہا تھا اور سونیہا کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ سونیہا کی آنکھوں میں بھی نشیلے لال ڈورے تھے اور وہ میجر دانش کے لن کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی۔ پھر سونیہا نے ایک بار پھر سے میجر دانش کے ہونٹوں پر ایک زور دار کس کی اور اسکو بولی چلو اب جلدی سے اپنی ٹانگیں پہلی والی پوزیشن میں لے آو تاکہ میں لاک کر دوں ورنہ باہر سے وہ لوگ آگئے تو ہمیں یہیں پر مار دیں گے اور ہمارا کل کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ یہ کہ کر سنیہا نے دوبارہ سے وہی چابی اٹھائی میجر کی ٹانگوں کی طرف جھکی تو میجر نے اچانک ایک پاوں سنیہا کے ہاتھ کے اوپر رکھ کر اسے زور سے دبا دیا جس سے سونیہا کے ہاتھ سے وہ چابی نکل گئی۔
وہ غصے سے اوپر اٹھی اور غراتے ہوئے بولی یہ کیا حرکت ہے؟؟؟ کیا تمہیں اپنی جان پیار نہیں؟؟ سونیہا کی اس بات پر میجر دانش ایک فلائنگ کس سنیہا کی طرف اچھالی اور بولا سوری جان، تم بہت خوبصورت ہو اور تمہاری چوت چودنے کے لائق ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ یہ تمہاری آخری چدائی تھی۔ یہ کہتے ہی میجر دانش نے ایک چھلانگ لگائی اور اپنی دونوں ٹانگیں سونیہا کی گردن کے گرد لپیٹ کر زور سے دبا دیں۔ سونیہا اس اچانک حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی مگر میجر کی گرفت میں آتے ہی اس نے بھی ایک چھلانگ لگائی اور اپنا گھٹنہ نیچے سے میجر کے مارا۔ سونیہا کا گھٹنہ لگنے سے میجر کی تو جان ہی نکل گئی کیونکہ یہ گھٹنہ میجر کے ٹٹوں پر لگا تھا۔ اور کسی بھی مرد کی سب سے بڑی کمزوری اسکے ٹٹے ہوتے ہیں۔
میجر کو ایک بار اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسکی گرفت سونیہا کی گردن پر کمزور پڑنے لگی۔ مگر پھر میجر کو احساس ہوا کہ اگر اب سونیہا اسکی گرفت سے نکل گئی تو پھر اسکی جان بچنا مشکل نہیں لہذا اسنے ٹٹوں کی درد بھلا کر ایک بار پھر سے سونیہا کی گردن کے گرد اپنی ٹانگوں کا شکنجہ مضبوط کر دیا۔ اب سونیہا نے دوبارہ سے اپنا گھںٹنہ میجر کے ٹٹوں پر مارنا چاہا مگر وہ اس میں ناکام رہی کیونکہ اسکی گردن اس بار بہت مضبوطی سے میجر کی ٹانگوں کے درمیان تھی اور اب اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ زیادہ مزاحمت کر سکے۔
کچھ ہی دیر بعد سونیہا کی خوبصورت آنکھیں باہر کو نکلنے لگیں اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میجر کو دیکھ رہی تھی۔ میجر کچھ دیر مزید اسی طرح ہوا میں سنیہا کی گردن ٹانگوں سے دبوچے کھڑا رہا ، جب اسے یقین ہوگیا کہ سونیہا کی آخری سانس نکل چکی ہے تو اسنے سونیہا کی گردن چھوڑی اور دوبارہ سے زمین پر آگیا۔ سونیہا لہراتی ہوئی گھومتی ہوئی زمین پر آگئی تھی۔ میجر دانش نے آخری بار سونیہا کی طرف دیکھا اور اسکے اوپر تھوکتے ہوئے بولا تجھے کیا لگا تھا میں اتنی آسانی سے تیرے قابو میں آجاوں گا؟؟؟؟ پھر میجر نے اپنے پاوں کی انگلیوں سے وہ چابی اٹھائی جس سے سنیہا نے اسکے پاوں کھولے تھے۔ میجر نے وہ چابی اپنے پاوں کی انگلیوں میں پھنسا کر اپنی ٹانگ فل زور سے اوپر ہوا میں اچھالی۔ جس طرح سونیہا نے اپنی ٹانگ اٹھا کر میجر کے سینے سے لگا دی تھی اسی طرح میجر نے اپنی ٹانگ اٹھائی تو اسکا پاوں اسکے ہاتھ کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا جہاں پر میجر نے پاوں کی انگلی کھول دی اور ٹانگ واپس نیچے لے آیا جب کہ وہ چابی ہوا میں اوپر اچھل گئی۔ کچھ اوپر ہوا میں اچھلنے کے بعد اب چابی واپس نیچے آنے لگی اور میجر دانش سر اوپر کیے چابی کو دیکھنے لگا جو بالکل میجر دانش کے ہاتھ کے اوپر آرہی تھی۔
یوں میجر دانش نے وہ چابی کیچ کر لی اور اپنے ہاتھ موڑ کر چابی انگلیوں میں پھنسا کر اپنے ہاتھ کھول لیے۔ پھر میجر نے فورا اپنے کپڑے پہنے اور زمین پر بنا کپڑوں کے پڑی خوبصورت سنیہا کو اپنی گود میں اٹھایا اور ایسے ہی اسے اٹھا کر دروازے کی طرف لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میجر نے سنیہا کے ہاتھ پکڑ کر اسکی انگلی سے وہی کوڈ ملایا جس سے سونیہا نے دروازہ کھولا تھا۔ کوڈ مکمل ہونے پر دروازہ کھلتا چلا گیا۔ اور سامنے ایک لمبی راہداری تھی۔ راہداری دیکھتے ہی میجر سمجھ گیا کہ سونیہا نے صحیح کہا تھا اس راہداری میں کیمرے ہیں جو آٹو میٹک انجان چہرے کو دیکھ کر لیزر آن کر دیتے تھے جو اس انسا ن کو 2 حصوں میں تقسیم کر سکتی تھی۔ مگر میجر دانش آئی ایس آئی کا ہونہار ایجنٹ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس راہداری سے کس طرح گزرا جائے کہ کیمرے آٹو میٹک لیزر کو آن نہ کریں۔
کرنل وشال کو جیسے ہی خبر ملی کہ میجر دانش نے داود اسمعیل کے گروپ کو اپنی مدد کے لیے بلایا ہے اور آگے سے اوکے بھی کہا گیا تو کرنل وشال کی حیرت کی انتہا نہیں رہی تھی۔ کیونکہ داود بھائی جو ایک معمولی غنڈہ ہوتا تھا کرنل وشال نے ہی اسکو ایک انٹرنیشنل لیول کا ٹارگٹ کلر بنایا تھا۔ اور پھر کرنل وشال نے داود اسمعیل کی بھرپور مدد کی تھی کہ وہ ممبئی جیسے شہر میں اپنا گینگ چلا سکے۔ داود بھائی جہاں اپنے ناجائز کاموں کے لیے کرنل وشال کی مدد لیتا تھا وہیں بالی ووڈ انڈسٹری میں بھی داود بھائی کا بہت اثرو رسوخ تھا۔ کسی بھی ہیروئین کو فلم دلوانا یا سٹرگلنلگ ایکٹریس کو ٹاپ ہیروئین بنوادینا داود بھائی کی ایک کال کی مار تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ بدلے میں بالی ووڈ کی مشہور ہیروئین نہ صرف داود بھائی کا بستر گرم کرتی تھیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ انکے کہنے پر کسی بھی شخص کے ساتھ رات گزارنا معمول کی بات تھی۔ کسی ہیروئین میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ داود بھائی کو انکار کر سکے۔
ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ داود بھائی کرنل وشال کے ایک اشارے پر پاکستان میں بم دھماکے کروانے کا کام بھی کرتا تھا۔ شیعہ سنی فسادات کروانے کے لیے بھی داود بھائی کا گینگ ماہر تھا۔ نام سے تو یہ شخص مسلمان تھا لیکن حقیقت میں انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں تھا۔ داود بھائی کے گینگ کو کرنل وشال کا رائٹ ہینڈ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ کرنل وشال کے لیے یہ فون کال کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ داود کا گینگ آئی ایس آئی کے ساتھ مل چکا ہے اور میجر دانش کو آزاد کروانے کے لیے وہ انڈین آرمی پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اس بات نے کرنل وشال کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ خبر ملتے ہی کرنل وشال نے اپنے با اعتماد 10 ٹارگٹ کلرز کو داود بھائی کے گینگ کا صفایا کرنے کا حکم دیا تھا۔
کرنل وشال کا یہ حکم ملتے ہی اسکے لوگ پورے ملک میں اپنے اپنے علاقے کے با اعتماد لوگوں کو لیکر اس گروپ کا صفایا کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ممبئی، حیدرآباد، کلکتہ، راجھستان، دہلی، بنگلور، جے پور، پٹنا اور دوسرے بڑے شہروں میں پچھلے آدھے گھنٹے میں داود بھائی کے 200 با اعتماد لوگ کرنل وشال کے ساتھیوں کی گولی کا نشانہ بن چکے تھے۔ ممبئی میں کرنل وشال نے بذاتِ خود داود کے مختلف اڈوں پر حملہ کیا اور اسکے گینگ کا صفایا کرتا چلا گیا۔ آخر میں داود بھائی کی باری تھی جسکو مارنے کا ٹاسک کرنل وشال نے خود اپنے ذمہ لیا تھا۔
داود بھائی ان تمام چیزوں سے بے خبر بالی ووڈ کی مشہور ہیروئین زرین خان کے جسم سے کھیلنے میں مصروف تھے۔ زرین خان جس کو داود بھائی کے کہنے پر ہی سلمان خان کے ساتھ مشہور فلم میں کاسٹ کیا تھا اپنے سیکسی جسم کی وجہ سے داود بھائی کی فیورٹ تھی۔ زرین خان کے بھرے ہوئے ممے 38 سائز کے تھے اور اسکی گانڈ 36 کی تھی۔ داود بھائی اپنے شاہانہ صوفے پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے جبکہ زرین خان اسکی ٹانگوں کے درمیان زمین پر بیٹھی تھی اور داود بھائی کا 8 انچ کا لن اپنے منہ مین لیکر اسکا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔ زرین خان کے چوپے داود بھائی کو ہمیشہ ہی مزے دیتے تھے۔ وہ آنکھیں بند کیے زرین خان کے چوپوں کا مزہ لے رہے تھے۔ چوپوں سے فارغ ہو کر زرین خان کھڑی ہوئی اور داود بھائی کی طرف اپنی گانڈ کی اور انکی گود میں لن کے اوپر اپنی چوت رکھی اور بہت ہی آرام کے ساتھ لن کے اوپر ہی بیٹھ چکی تھی۔ لن کے اوپر بیٹھنے کے بعد زرین خان نے لن کے اوپر اچھلنا شروع کیا اور اپنے منہ سے فک می بے بی، فک می ہارڈ کی آوازیں نکال کر داود بھائی کو جوش دلانا شروع کیا۔
اس سے پہلے کے داود بھائی کو مزید جوش چڑھتا اور وہ زرین خان کی چوت کو جم کر چودتا اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور کرنل وشال کسی جن کی طرح اندر داخل ہوا، دروازہ کھلتے ہی داود بھائی نے بجلی کی سی تیزی سی زرین خان کو اپنے لن سے اتارا اور پاس پڑی ہوئی پسٹل اٹھا کر اندر آنے والے پر فائر کرنا چاہا۔ مگر اندر آنے والا شخص داود بھائی سے کہیں زیادہ تیز تھا۔ اس سے پہلے کے داود بھائی پسٹل سے گولی چلاتے ایک شائیں کی آواز آئی اور کرنل وشال کی پسٹل سے چلنے والی گولی سیدھی داود بھائی کے ہاتھ پر لگی اور انکے ہاتھ سے پسٹل چھوٹ کر دور جا گری۔ زرین خان اس اچانک حملے سے خوفزدہ ہوکر ساتھ ہی پڑے بیڈ پر لیٹ گئی تھی اور اپنے جسم کو بیڈ شیٹ سے چھپا لیا تھا۔ کرنل وشال کو اپنے سامنے دیکھ کر داود بھائی حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ حیران اس لیے کہ آخر کرنل وشال کو ایسی کیا ضرودت پیش آگئی کہ یوں کمرے کا دروازہ کھول کر گولی بھی چلا دی۔ اور خوش اس لیے کہ داود بھائی سمجھ رہیے تھے کہ یہ کرنل وشال نے مذاق کے طور پر پمپ ایکشن کر کے دکھایا ہے۔ کرنل وشال کو سامنے دیکھ کر داود بھائی اب مسکرانے لگے اور پھر ساتھ پڑی چادر سے اپنے لن کو ڈھانپ کر صوفے سے اٹھے اور کرنل وشال کو ویلکم کہا اور اسکے نشانے کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے نکلنے والے خون کو بھی چادر سے صاف کرنے لگے۔
لیکن جلد ہی داود بھائی کو احساس ہوگیا تھا کہ کرنل وشال کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔۔۔ داود بھائی نے کرنل وشال سے پوچھا کہ خیر تو ہے اس سب کا کیا مطلب؟؟؟ کرنل وشال نے غراتے ہوئے کہا میرے سے غداری کرنے والے کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ داود بھائی نے پوچھا کونسی غداری اور کس نے کی غداری؟؟ کرنل وشال نے پہلے سے زیادہ غصے سے جواب دیا آئی ایس آئی کی مدد کرنے کی غداری اور یہ غداری تو نے کی ہے۔ اس سے پہلے کہ داود بھائی کچھ اور پوچھتے، کرنل وشال کی پسٹل سے گولیاں نکلیں اور داود بھائی کے سینے کو چھلنی کرتی ہوئی آر پار ہوگئیں۔ خون کے چھینٹے پیچھے والی دیوار پر پڑے تھے اور داود بھائی کا مردہ جسم صوفے پر تھا۔ مرنے کے بعد بھی داود کی آنکھوں میں حیرت کے آثار تھے جیسے اسے اپنی موت پر یقین نہ آیا ہو۔
اسکے بعد کرنل وشال نے زرین خان کی طرف دیکھا جو ڈری ہوئی اور سہمی ہوئی کبھی کرنل وشال کو دیکھتی تو کبھی داود بھائی کی لاش کو۔ کرنل وشال نے زرین خان کو کپڑے پہننے کو کہا تو وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح اپنے کپڑے پہننے لگی۔ برا اور پینٹی پہننے کے بعد زرین خان نے اپنی شارٹ نِکر اور سیکسی شرٹ پہنی تو کرنل وشال نے اسے اپنے ساتھ آنے کو کہا۔ کرنل وشال داود بھائی کے گینگ کو مکمل طور پر ختم کر چکا تھا اب وہ زرین خان کے جسم سے اپنے آپکو سکون پہنچانا چاہتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد زرین خان ایک بار پھر اپنے کپڑوں سے آزاد کرنل وشال کے بیڈ پر اسکے لن کا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔
================================================== ================
ان کیمروں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ تب ہی لیزر کو ایکٹیو کرتے تھے جب کوئی انجان چہرہ نظر آئے۔ میجر دانش نے دروازے سے قدم آگے بڑھانے سے پہلے سونیہا کی شرٹ سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا تھا جبکہ سونیہا کے جسم کو اپنے آگے کر لیا تھا۔ میجر دانش نے سونیہا کی لاش کو اپنے سامنے اسطرح کیا کہ گویا وہ کوئی زندہ انسان ہو اور چلتی ہوئی جارہی ہو۔ میجر دانش نے سونیہا کے پاوں اپنے پاوں کے اوپر رکھا تھے اور اسکا چہرہ جس میں اب زندگی کی کوئی رمک باقی نہ تھی اوپر اٹھایا ہوا تھا تاکہ کیمرہ جب ان دونوں پر پڑے تو وہ سونیہا کے چہرے کو پہچان لے۔ اور میجر دانش کا چہرہ کیمرے کی آنکھ سے اوجھل رہے اور وہاں پر چہرے کی بجائے ایک شرٹ نظر آئے۔ میجر دانش نے سونیہا کا جسم آگے کیا جہاں سے میجر دانش کی سمجھ کے مطابق سیکیورٹی الڑٹ والا حصہ سٹارٹ ہوتا تھا۔ جیسے ہی سونیہا کا جسم اس حصے سے آگے ہوا سامنے لگے ہوئے دو کیمرے اپنا اینگل بدل کر سونیہا ی طرف ہوگئے۔ کیمروں سے انفرا ریڈ شعائیں نکلیں اور سونیہا کے چہرے پر پڑیں۔ کیمرے کی ڈیٹا بیس میں سونیہا کا چہرہ موجود تھا جو آٹومیٹک سسٹم سے فورا ہی کلئیر قرار دے دیا گیا اور اب کیمروں میں ایک گرین لائٹ بلنک کر رہی تھی۔ یہ سگنل دیکھ کر میجر دانش نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ میجر دانش کے جسم کے آگے سونیہا کا جسم تھا جو کپڑوں سے آزاد تھا۔
لمبی راہداری کے آخر میں جا کر میجر دانش کو اپنے دائیں طرف والے کمرے سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ میجر دانش نے ان آوازوں کو فورا ہی پہچان لیا تھا۔ یہ وہی آوازیں تھیں جو میجر دانش سے انویسٹیگیشن کر رہی تھیں۔ انکو میجر دانش نے اپنا نام اور کرنل وشال کا پیچھا کرنے کے بارے میں تو سچ بتا دیا تھا مگر باقی جو کچھ بتایا تھا وہ جھوٹ پر مبنی تھا۔ میجر دانش نے فورا فیصلہ کیا کہ ان سے نہ صرف اپنی تذلیل کا بدلہ لینا ہے بلکہ انکو اگلے جہاں پہنچا کر اوروں کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔ میجر دانش نے دیوار کے ساتھ لگ کر دروازے پر ہلکا سا دباو ڈالا تو وہ کھلتا چلا گیا اور اندر بیٹھے دونوں غنڈے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ مگر اندر کوئی نہ آیا تو انکو تشویش ہونے لگی۔ انہوں نے سونیہا کو آواز دیتے ہوئے کہا اب آ بھی جاو جانِ من اندر کیوں تڑپا رہی ہو؟؟؟ میجر دانش نے یہ آواز سنی تو سونیہا کی ایک ٹانگ اپنے ہاتھ سے دروازے کے آگے کر دی۔ سونیہا کی ننگی ٹانگ دیکھ کر ان میں سے ایک غنڈہ اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے دروازے کی طرف آیا اور جیسے ہی بھانچیں کھلائے کمرے سے باہر نکل کر سونیہا کو پکڑا تو سونیہا لہراتی ہوئی اسکی بانہوں میں گر گئی۔ اس سے پہلے کہ اس غنڈے کو سمجھ آتی کہ اسکی بانہوں میں سونیہا کی لاش ہے میجر دانش کے ہاتھ اس غنڈے کی گردن تک پہنچ چکے تھے اور ایک ہی جھٹکے میں اس کی جان نکل چکی تھی۔
اندر بیٹھا غنڈہ جو انتظار کر رہا تھا کہ کب اسکا ساتھی سیکسی سونیہا کو اپنی بانہوں میں اٹھائے اندر لے کر آئے اس نے اپنے ساتھ کی لاش کو زمین پر گرتے دیکھا اور اسکے ساتھ ہی اسکی نظر سونیہا کے ننگے جسم پر بھی پڑی جس پر موت کے آثار واضح تھے۔ یوں اسطرح اپنے سامنے 2 لاشیں گرتی دیکھ کر اسکا ہاتھ فورا اپنی پسٹل کی طرف گیا اور اس سے پہلے کہ وہ گولی چلا سکتا میجر دانش ایک ہی چھلانگ میں اسکے سر پر پہنچ چکا تھا۔ میجر دانش نے پہلا وار اس کے ہاتھ پر کیا اور اس کی پسٹل دور جا گری جبکہ دوسرا وار میجر دانش نے اسکے پیٹ پر کیا۔ میجر دانش کا گھونسا لگتے ہی وہ غنڈہ درد سے دہرا ہوگیا ۔ اسکے دوہرا ہونے پر اسکی کمر پر میجر دانش کی طاقتور کہنی لگی جسکی تاب نا لاتے ہوئے وہ غنڈہ زمین پر ڈھے گیا۔ اور تڑپنے لگا۔ میجر دانش نے ادھر ادھر دیکھا اور اسے وہی لوہے کا راڈ نظر آیا جس سے اس غنڈے نے میجر دانش کی ٹانگوں پر بے تحاشہ وار کیے تھے۔ میجر دانش نے فورا ہی وہ راڈ اٹھا لیا اور اس غنڈے کی ٹانگوں پر برسانا شروع کر دیا۔
خوب اچھی طرح دھلائی کرنے کے بعد میجر دانش نے اس غنڈے کو بھی زندگی کی قید سے آزاد کر دیا اور پھر اس کنٹرول روم میں موجود سسٹم سے پوری بلڈنگ کے کیمروں کا ویو دیکھا اور سیکیورٹی کا جائزہ لیا۔ بلڈنگ میں 10 مختلف مقامات پر سیکیورٹی گارڈ موجود تھے جنکے ہاتھ میں جدید قسم کا اسلحہ تھا اور وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چاق و چوبند کھڑے تھے۔ میجر دانش نے انکی پوشینز کو ذہن نشین کیا اور مین گیٹ پر موجود سیکیورٹی کا بھی جائزہ لیا۔ کمرے میں ایک لال رنگ کابٹن بھی تھا جسکو دبانے پر سیکیورٹِ ہائی الرٹ ہوجاتی اور تب یہاں سے کسی کا بھی بچ کر جانا ممکن نہ تھا۔ میجر دانش نے کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے راہداری کا سیکیورٹی سسٹم جام کر دیا اور اسکے بعد راہداری میں داخل ہوکر راہداری کا دروازہ کھول کر دیکھا تو سامنے کھلا میدان تھا جس میں ایک طرف کچھ جھاڑیاں تھیں اور دوسری طرف ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ بنی ہوئی تھی۔ سامنے کوئی 500 میٹر کے فاصلے پر ایک بڑی دیوار اور گیٹ نظر آرہا تھا۔
میجر دانش نے دروازہ بند کیا اور دوبارہ سے بلڈنگ کا نقشہ دیکھنے لگا جو اسی کنٹرول روم میں موجود تھا۔ یہ بلڈنگ چاروں طرف سے اسی طرح کے ویران میدان سے گھری ہوئی تھی جب کہ چاروں طرف ایک بڑی دیوار تھی اور باہر جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا جو میجر دانش سے کوئی 500 میٹر دور تھا اور لازمی طور پر وہاں پر بھی سیکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ اب میجر دانش اس قید سے نکلنے کا پلان کرنے لگا۔ اچانک ہی اسکے زہن میں ایک زبردست پلان آیا۔ دونوں غنڈوں میں سے ایک غنڈے نے ہلکی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور ڈیٹا بیس میں اسکی تصویر بھی داڑھی کے ساتھ ہی تھی۔ میجر دانش بھاگتا ہوا راہداری میں سے واپس اپنے قید والے کمرے میں گیا وہاں بہت سارا سامان موجود تھا جو قیدیوں کو اذیت پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ میجر دانش نے اس سامان سے ایک بلیڈ نکالا اور واپس کنٹرول روم میں آگیا، آٹومیٹک سیکورٹی میجر دانش پہلے ہی جام کر چکا تھا اس لیے اسے اس بار راہداری سے گزرنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوئی۔
واپس آکر میجر دانش نے اس غنڈے کے چہرے کے بال صاف کیے اور اسکے چہرے پر 2 مختلف جگہ پر بلیڈ سے نشان بھی لگا دیا۔ بلیڈ لگنے سے خون نکلنے لگا جو میجر دانش نے اسکے چہرے پر مل دیا۔ اب کسی بھی کیمرے کے لیے اس شکل کو پہچاننا ممکن نہ تھا۔ اب میجر دانش نے کنٹرول روم کا جائزہ لیا اور وہاں سے کچھ ہتھیار اٹھا کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیے اور اسکے بعد آٹومیٹک سسٹم کا ٹائمر آن کر دیا۔ 5 منٹ کے بعد سیکیورٹی سسٹم آٹومیٹک طریقے سے آن ہوجانا تھا۔ میجر دانش نے سونیہا اور پہلے غنڈے کی لاش کمرے کے اندر کر دی اور دوسرا غنڈے کی لاش کو راہداری میں رکھ دیا اسکے بعد میجر دانش نے راہداری کا باہر جانے والا دروازہ کھولا اور اطراف کا جائزہ لیکر جھاڑیوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ میجر دانش اپنی پوری طاقت لگا کر پوری تیزی کے ساتھ جھاڑیوں کا سہارا لیتا ہوا مین گیٹ کی طرف بھاگ رہا تھا۔ جب یہ فاصلہ 100 رہ گیا تو میجر دانش رک گیا اور واپس راہداری والے راستے کی طرف دیکھنے لگا۔
اندر راہداری میں غنڈے کی لاش پڑی تھی جو اب ڈیٹابیس میں موجود تصویر سے کافی مختلف تھی۔ 5 منٹ پورے ہونے پر سیکیورٹی سسٹم آن ہوگیا اور جیسے ہی راہداری کے کیمرے آن ہوئے تو آٹومیٹک سیکورٹی سسٹم اس لاش کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر کیمرے سے ملنے والی تصویر ڈیٹا بیس میں موجود کسی بھی تصویر سے میچ نہ ہوئی تو آٹومیٹک لیزر آن ہوگئی اور ساتھ ہی پوری بلڈنگ زور دار سائرن سے گونجنے لگی۔ لیزر نے اس لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے جبکہ سائرن کی آواز سن کر تمام سیکورٹی اہلکار اپنی اپنی جگہ کو چھوڑ کر اس بلڈنگ کی راہداری سے نکلنے والے دروازے کے سامنے اپنی اپنی پوزیشن لینے لگے تھے۔ کوئِ بلڈنگ کی چھت سے نیچے اترا تو کوئی بلڈنگ کی باہر والی سائیڈ پر موجود کمروں سے نکلا۔ اسی طرح مین گیٹ پر موجود 2 سیکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک نے بھی بھاگنا شروع کیا اور راہداری کے دروازے کے باہر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ اب میجر دانش نے مین گیٹ کی طرف بھاگنا شروع کیا۔
مین گیٹ پر موجود واحد سیکورٹی اہلکار کو جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی تو وہ دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔ اچانک ہی جھاڑیوں سے میجر دانش نے لمبی چھلانگ لگائی اور اس سے پہلے کہ سیکورٹی اہلکار کچھ سمجھتا میجر دانش کے ہاتھ میں موجود تیز دھار خنجر اسکی گردن پر تھا ۔ اب یہ اہلکار کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ میجر دانش نے اسکو تیز الفاظ میں کہا زندگی پیاری ہے تو فورا یہ گیٹ کھول دو نہیں تو 3 گننے تک تم اپنی جان سے جاو گے اور میرے ہاتھ میں تیز خنجر تمہاری گردن کاٹ ڈالے گا۔ اسکے ساتھ ہی میجر دانش نے گنتی شروع کر دی۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش 3 کہتا اس سیکورٹی اہلکار نے میجر دانش کو گیٹ کھولنے میں مدد کرنے کا یقین دلایا، میجر دانش اب اسے گھسیٹتا ہوا گیٹ کے قریب لے گیا تو اس نے اپنی جیب سے ایک چابی نکالی اور گیٹ میں لگا دی۔ اسکے بعد اس نے گیٹ میں لگے سسٹم پر کوئی کوڈ اینٹر کیا اور پھر چابی گھمائی تو گیٹ کھلنے لگا۔
گیٹ کھلتے ہی میجر دانش کا ہاتھ چلا اور سیکورٹی گارڈ لہراتا ہوا زمین پر آرہا۔ میجر دانش نے اسے جان سے نہیں مارا تھا بالکہ اسکی گردن پر اپنا مخصوص وار کیا تھا جس سے وہ فوری بے ہوش ہوگیا اور زمین پر گر گیا جبکہ میجر دانش گیٹ سے نکلتے ہی دائیں طرف بھاگنے لگا۔ اندر موجود باقی سیکورٹی اہلکار ابھی تک راہداری کا دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھا۔ نہ تو اندر کوئی موجود تھا نہ ہی دروازہ کھلا۔ اور سیکورٹی اہلکار انتظار ہی کرتے رہ گئے۔
میجر دانش بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل آیا تھا مگر ابھی تک کسی شہر یا آبادی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے۔ بھاگ بھاگ کر میجر کی حالت خراب ہوچکی تھی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے اتنا بھاگنا پڑے گا۔ دور دور تک پانی کا بھی نام و نشان موجود نہیں تھا۔ بس ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ تھی اور میجر دانش اسکے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا۔ کافی دیر بھاگنے کے بعد جب میجر دانش تھک چکا تو اس نے چلنا شروع کر دیا تھا ۔ شام کا اندھیرا ہو چکا تھا اور میجر دانش کو اس بلڈنگ سے نکلے کوئی 30 منٹ ہوچکے تھے۔ اچانک میجر دانش کو دور کہیں سے گاڑی کی آواز آئی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو روڈ پر ایک گاڑی آرہی تھی جسکی ہیڈ لائٹس آن تھیں۔ گاڑی کو دیکھتے ہی میجر روڈ سے اتر گیا اور کچھ ہی دور موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا اور گاڑی کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ گاڑی وہاں سے گزرتی میجر کو محسوس ہوا کہ اسکے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔۔۔ میجر نےپیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں 3 ہٹے کٹے مرد کھڑے تھے جنکے ہاتھ میں رائفل تھیں اور انکا رخ میجر دانش کی طرف تھا۔۔۔۔۔
================================================== =========
زرین خان کرنل وشال کے سامنے اب ڈوگی سٹائل میں جھک گئی تھی اور کرنل وشال اپنا 9 انچ لمبا لن زرین خان کے پیچھے سے آکر اسکی چوت پر رکھ چکا تھا۔ کرنل وشال کے لن کی ٹوپی نے ابھی زرین خان کی چوت کو چھوا ہی تھا کہ زرین خان نے خود ہی پیچھے کی طرف ایک دھکا مارا اور آدھا لن اپنے اندر اتار لیا، باقی کا آدھا لن کرنل وشال کے ایک زور دار دھکے سے زرین خان کی چوت میں اتر چکاتھا۔ بھرے ہوئے جسم کی مالک زرین خان کو چودنے کی خواہش بہت سے فلمی ہیرو کرتے تھے مگر وہ ہر کسی کو اپنی چوت نہیں دیتی تھی۔ سلمان خان کے علاوہ صرف اکشے کمار ہی وہ شخص تھا جو زرین خان کی چوت لینے میں کامیاب ہوا تھا۔
البتہ داود اسمیعل باقاعدگی کے ساتھ زرین خان کی چوت لیتا تھا۔ زرین خان جیسی بھرے ہوئے جسم کی لڑکیاں داود بھائی کی فیورٹ تھیں۔ مگر وہ اب اس دنیا میں نہی رہا۔ کرنل وشال پہلی مرتبہ زرین خان کو چود رہا تھا اور اسکو اس چودائی کا بہت مزہ آرہا تھا۔ زرین خان بھی کرنل وشال کا 9 انچ کا لن پوری طرح اپنے اندر چھپائے چودائی کا مزہ لے رہی تھی اور اسکا اظہار وہ اپنے منہ سے سیکسی آوازیں نکلا کر کر رہی تھی۔ زرین خان اپنی چوت سے ہر مرد کو مزہ دینے کی صلاحیت رکھتی تھی جیسے ہی کرنل وشال اپنے لن کو چوت کے اندر گھساتا زرین خان اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیتی جس سے لن کو اچھی رگڑ ملتی اور کرنل کو مزہ آتا ، لن باہر نکلنے لگتا تو زرین اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی۔ کرنل کا لن زرین خان کی چوت کی گہرائیوں تک چوٹ مار رہا تھا یہی وجہ تھی کہ پچھلے 10 منٹ میں زرین خان کی چوت نے 2 بار پانی چھوڑ دیا تھا۔ اور اب بھی چوت میں لگنے والے دھکوں نے زرین خان کو تیسری مرتبہ پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
زرین خان کی چوت پانی سے بھری ہوئی تھی مگر کرنل وشال کا لن تھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا وہ اصل میں داود اسمعیل کی غداری کا غصہ زرین خان کی چوت پر نکال رہا تھا اسکے ہر دھکے میں داود کی غداری کے خلاف غصہ واضح تھا۔ اب کرنل وشال نے لن زرین خان کی چوت سے نکالا اور اور اپنی انگلی پر تھوک لگا کر زرین خان کی چکنی گانڈ میں داخل کر دی۔ زرین خان کی گانڈ بھی کافی چکنی اور قدرے کھلی تھی۔ مگر پھر بھی کرنل کی انگلی جانے سے زرین خان کی ایک سسکی نکلی آووووچ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس نے پیچھے مڑ کر پہلے کرنل کو دیکھا اور پھر اسکے لن کو دیکھا پھر بولی آرام سے گانڈ مارنا کرنل آپکا لن بہت لمبا ہے۔
مگر کرنل کو آج ہوش نہیں تھا کسی بھی چیز کا۔ اس نے اپنی ٹوپی زرین خان کی گانڈ پر سیٹ کی اور ایک زور دار دھکا مارا۔ زرین خان کی ایک چیخ نکلی اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔ کرنل کا آدھے سے زیادہ لن زرین خان کی نازک گانڈ کو چیرتا ہوا اندر جا چکا تھا۔ کرنل نے تھوڑا سا لن اور باہر نکالا اور ایک اور زور دار دھکا مارا۔ باقی کا لن بھی اب زرین خان کی گانڈ میں تھا۔ کرنل نے بغیر انتظار کیے پھر سے ڈوگی سٹائل میں ہی زرین خان کی گانڈ بجانا شروع کر دی۔ پہلے پہل تو زرین خان کو کافی تکلیف ہوئی مگر پھر آہستہ آہستہ اسکو مزہ آنے لگا۔ وہ ہلکے ہلکے اپنی گانڈ کو ہلا رہی تھی جسکی وجہ سے کرنل کے دھکے اور بھی شدت کے ساتھ اسکی گانڈ کو چیرتے ہوئے لن کو اندر پہنچا رہے تھے۔
اب کرنل نے لن زرین خان کی گانڈ سے نکالا اور زرین خان کو سیدھا لیٹنے کو کہا۔ زرین خان کرنل کے بیڈ پر سیدھا لیٹ گئی اور لیٹتے ہی اپنی ٹانگیں کھول دیں۔ کرنل نے زرین خان کی چوت میں اپنی انگلی ڈال کر اندر چکنائی کا معائنہ کیا تو اب اسکی چوت قدرے خشک تھی۔ کرنل نے اپنا لن اسکی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جاندار دھکے میں 9 انچ کا لن زرین خان کی پھدی میں اتار دیا۔ اور خود زرین خان کے اوپر جھک کر اسکے 38 سائز کے مموں کو دبانے لگا جبہکہ پیچھے سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر زرین خان کو چودنے لگا۔ زرین خان بھی کرنل کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسکو پیار کر رہی تھی اور اس زبردست چدائی پر سسکیوں کے ذریعے اپنی خوشی اور مزے کا اظہار کر رہی تھی۔ کرنل وشال نے اب زرین خان کے 38 سائز کے ممے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیے تھے۔ وہ زرین خان کے گہرے براون نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوستا اور پھر دانتوں میں لیکر کاٹتا۔ جس کی وجہ سے زرین خان کی اندر کی جنگلی عورت جاگ گئی تھی اور وہ اب اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر کرنل کا ساتھ دے رہی تھی۔ ساتھ ہی اسکی آوازوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی تھی اور اسکے ہاتھ اب کرنل کی کمر پر اپنے ناخنوں کے نشان ڈال رہے تھے۔ کرنل کا لن بھی اب پوری رفتار کے ساتھ زرین خان کی پھدی کو چود رہا تھا۔ آخر کار کرنل کے لن نے پھولنا شروع کیا اور ساری منی جب لن کے اندر جمع ہوگئی تو کرنل وشال کے لن نے جھٹکوں کے ساتھ قطرہ قطرہ منی زرین خان کی چوت میں نکالنا شروع کر دی۔ گرم گرم منی چوت کو جیسے ہی ملی چوت نے بھی اپنی گرمی دکھانے کے لیے گرم پانی چھوڑ دیا۔
اب کرنل وشال زرین خان کے پہلو میں لیٹا داود کے بارے میں سوچ رہا تھا ، زرین خان کو چودتے ہوئے بھی کرنل کا دھیان داود کی طرف ہی تھا۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ داود اسکو دھوکہ دے گا۔ کرنل ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کے اسکے خفیہ موبائل پر بیل بجی۔ کرنل نے فوری موبائل اٹھایا اور آنے والی کال کو اٹینڈ کرتے ہوئے غراتے ہوئے بولا کرنل وشال شپیکنگ۔ واٹ از دی اپڈیٹ؟؟ آگے سے کہا گیا سر ایک بری خبر ہے۔۔۔ کرنل وشال نے بے پرواہی سے کہا بولو۔ آگے سے بولنے والے شخص نے بتایا کہ میجر دانش بھاٹیا سوسائٹی جامنگر کے قید خانے سے فرار ہو چکا ہے۔ قید خانے میں اسکی نگرانی پر مامور ایجینٹ رائے اور واسو کی لاش راہداری اور کنٹرول روم میں ملی ہے جبکہ کیپٹن سونیہا بھی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔
کرنل وشال اپنے دانت پیستا ہوا بولا اور کوئی بات؟؟؟ آگے سے بتایا گیا کہ میجر دانش نے داود اسمعیل کے گینگ کے جس آدمی سے فون پر بات کی تھی اسے اپنا تعارف ایجنٹ 35 کہ کر کروایا تھا۔ جبکہ داود گروپ کا ایجنٹ 35 اس وقت آئی ایس آئی کی قید میں ہے۔ یہ سن کر کرنل وشال نے اپنا فون دیوار پر دے مارا اور زور سے دھاڑا میجر دانش، یو فکڈ وِد می۔ آئی وِل کِل یو باسٹرڈ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کرنل وشال کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا وہ میجر دانش کی چالاکی پر بہت حیران تھا۔ جس نے نہ صرف اس قید خانے کی سیکیورٹی کو ناکام بنا دیا تھا جسکو آج تک کوئی قیدی نہیں توڑ سکا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنی ایک عام سے فون کال کے ذریعے کرنل وشال کے رائٹ ہینڈ گینگ داود اسمعیل کے گینگ کا بھی صفایا کروا دیا تھا۔ اور وہ صفایا خود کرنل وشال نے کیا تھا۔ وہ اپنی اس حماقت پر اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔
اصل میں میجر دانش نے سونیہا جو کہ اصل میں انڈین آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر تھی کی باتوں پر کبھی یقین کیا ہی نہیں تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ یہ سب اس سے پاکستان کے خفیہ راز اگلوانے کے لیے اپنے جسم کا استعمال کر رہی ہے۔ جب سونیہا نے میجر دانش کو کہا کہ تم اپنے ساتھیوں کو فون کرو تاکہ وہ ہماری مدد کر سکیں، تبھی میجر دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ میرے ساتھ ساتھ مزید لوگوں کو بھی پکڑوانا چاہتی ہے تاکہ میجر دانش کو چارے کے طور پر استعمال کر کے وہ اپنی واہ واہ کروا سکے۔ میجر دانش نے فورا حامی بھر لی تھی مگر سونیہا کے جانے کے بعد وہ سوچتا رہا کہ آخر انکو کیسے چکما دیا جائے؟؟ تبھی میجر دانش کے ذہن میں وہ دہشت گرد آیا جو کراچی بم بلاسٹ میں ملوث تھا اور لیاری سے 2 ماہ پہلے میجر دانش نے ہی اسے گرفتار کیا تھا۔ اور تفتیش کے دوران اس نے بتایا تھا کہ وہ داود اسمعیل کے گینگ کے لیے کام کرتا ہے اور اسکا کوڈ ورڈ ایجینٹ 35 ہے۔
یہیں سے میجر دانش نے سوچا کہ چلو اپنی جان بچے یا نہ بچے مگر اس گینگ کا تو صفایا ہونا چاہیے تاکہ یہ لوگ مزید معصوم لوگوں کی جان نہ لے سکیں۔ اسی سوچ کے ساتھ میجر دانش نے ایک نمبر پر فون کیا، یہ نمبر بھی اسے ایجینٹ 35 سے ہی ملا تھا۔ میجر جانتا تھا کہ جیسے ہی ان لوگوں کو شک ہوگیا کہ یہ گینگ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے لیے بھی کام کرتا ہے تو کرنل وشال خود ہی اس گینگ کا خاتمہ کروا دے گا۔۔ ۔ مگر میجر دانش یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ گروہ کرنل وشال کے لیے کتنا اہم تھا۔ یوں میجر دانش کی اس چال سے پاکستان کا تو فائدہ ہوا ہی تھا مگر ساتھ میں کرنل وشال پر بھی کاری ضرب لگی تھی۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا ایک طاقتور بازو کاٹ چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب وہ پاگل کتے کی طرح میجر دانش کو ڈھونڈ رہا تھا۔
================================================== =====
میجر دانش کے کپڑوں میں کچھ ہتھیار موجود تھے جن سے وہ ان لوگوں کا مقابلہ کر سکتا تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ تینوں مسلح لوگ مکمل طور پر چوکس کھڑے تھے اور وہ میجر دانش کی طرف سے کسی بھی چالاکی پر گولی چلانے سے دریغ نہ کرتے۔ ان مین سے ایک آدمی جو صحت میں ان سب سے تگڑا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ موٹا تھا تو غلط نہ ہوگا اور ہلکی داڑھی اور سر پر رکھی پگڑی سے سکھ لگ رہا تھا، وہ غراتے ہوئے بولا کون ہو تم اور کیا نام ہے تمہارا؟؟؟ اب میجر دانش یہاں پر ٹریفک کانسٹیبل افتخار والی کہانی نہیں سنا سکتا تھا کیونکہ وہ قید خانے سے بھاگا تھا اور اب کسی کو یہ بتانا کہ وہ پاکستانی ہے اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ میجر دانش نے فورا ہی اپنے ذہن میں ایک کہانی بنا لی تھی۔ اس نے فورا بتایا کہ اسکا نام سنجیو کُمار ہے۔ 2 مہینے پہلے اسے ایک انڈر ورلڈ گینگ نے 2 کروڑ کی رقم کے لیے اغوا کیا تھا مگر اس رقم کا بندوبست نہیں ہوسکا تو انہوں نے سنجیو کمار یعنی میجر دانش کو قیدی بنا لیا تھا اور آج وہ کسی طرح قید سے آزاد ہوکر بھاگا ہے۔
ابھی میجر دانش کی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ روڈ سے آنے والی گاڑی بھی اسی جگہ پر رک گئی اور کچھ دیر بعد روڈ سے نیچے اتری اور جھاڑوں کی طرف آنے لگی۔ اب گاڑی کی لائٹس میجر دانش کے اوپر پڑ رہی تھی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکی ہلکی سی جنبش پر گن میں گولی چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ایک قید خانے سے بھاگا تو اب معلوم نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اسکے راستے میں آگئے۔ اتنے میں میجر دانش کو گاڑی کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ مسلح لوگوں میں موٹی توند والا گاڑی کی طرف متوجہ ہوا اور بولا ہاں کیا خبر ہے وہاں کی؟؟ میجر دانش کو اپنے پیچھے قدموں کی آواز آئی جو اسی کی طرف آرہے تھے۔پھر کوئی میجر دانش سے کچھ فاصلے سے گزرتا ہوا انہی 3 مسلح لوگوں کے پاس آیا۔
میجر دانش نے چہرہ اوپر ہلکا سا گھما کر آنے والے کی طرف دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آنے والا اصل میں "والا" نہیں بلکہ "والی" ہے۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے سرخ رنگ کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ آنکھوں پر ہلکے براون رنگ کا چشمہ تھا اونچی ہیل والے سینڈل اور بازو میں ایک چھوٹے سائز کا لیڈیز بیگ پکڑ رکھا تھاچھوٹے بال کندھوں سے کچھ نیچے کمر کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انڈین کلچر کے مطابق ساڑھی کا بلاوز تھوڑا چھوٹا تھا جس میں اسکے پیٹ کا کچھ حصہ واضح نظر آرہا تھا۔
آنے والی لڑکی نے ، جسکی عمر لگ بھگ 20 سال ہوگی اور قد 5 فٹ 6 انچ کے قریب رہا ہوگا ہلکا سا چشمہ ٹیڑھا کر کے میجر دانش کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کی بات کا جواب دینے کی بجائے میجر دانش سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی تم کہاں سے آئے ہو؟؟؟ اس سے پہلے کہ میجر دانش کچھ بولتا مسلح آدمی نے دوبارہ اس سے پوچھا اس کو چھوڑو جس کام سے تمہیں بھیجا تھا اسکا بتاو کیا بنا؟؟ تو لڑکی بولی ایک حیران کن خبر ہے۔ وہ وہاں سے فرار ہوچکا ہے، گیٹ آدھا کھلا تھا اور گیٹ پر گن مین بے ہوش پڑا تھا، جبکہ اندر کافی دور کچھ مسلح افراد نظر آئے جو شاید کسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ہو نہ ہو وہ وہاں سے بھاگ چکا ہے۔۔۔۔ اب مسلح شخص نے دوبارہ سے میجر دانش کی طرف دیکھا اور بولا ہاں تو سنجیو کمار صاحب، آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور اس گینگ کی قید سے کیسے بھاگے؟؟؟ اس پر اس لڑکی نے دوبارہ میجر کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کو مخاطب کر کے بولی یہ کس طرف سے آیا ہے؟؟؟ مسلح شخص نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یہ اسی سائیڈ سے آیا ہے جہاں سے تم آرہی ہو۔۔۔ یہ سن کر اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ بولی کہیں تم ہی تو میجر دانش نہیں ہو؟؟؟ لڑکی کے منہ سے اپنا نام سن کر میجر دانش حیران رہ گیا اور پھر بولا نہیں میں کسی میجر دانش کو نہیں جانتا۔ میرا نام سنجیو کُمار ہے اور میں ممبئی شہر کا رہنے والا ہوں۔ میرا وہاں کپڑے کا کاروبار ہے۔
میجر دانش نے اب غور کیا تو صرف لڑکی ہی نہیں بلکہ تینوں مسلح افراد بھی مسکرا رہے تھے اور حیرت انگیز طور پر اب انہوں نے اپنی گن کا رخ بھی زمین کی طرف کر دیا تھا اور وہ بہت ریلیکس کھڑے تھے۔ میجر دانش نے سوچا موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ، اس نے ایک ہی لمحے میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسمیں سے ایک چھوٹے سائز کا پسٹل نکالا اور ایک ہی چھلانگ لگا کر لڑکی کے سر پر پہنچ گیا اس نے اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھ دی تھی اور اسکے گورے پیٹ کے گرد ہاٹھ ڈال کر اسکو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ میجر دانش چلایا کہ تم سب اپنی اپنی گن نیچے پھینک دو نہیں تو تمہاری یہ ساتھی اپنی جان سے جائے گی۔ یہ کہ کر میجر دانش نے کاونٹنگ شروع کر دی، 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔ وہ تینوں مسلح لوگ ڈرنے کی بجائے ابھی بھی میجر دانش کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور لڑکی کی بھی ہنسی نکل رہی تھی۔
میجر دانش ایک بار پھر چلایا مگر اس بار مسلح شخص نے میجر دانش کو مخاطب کیا اور بولا میجر صاحب کپڑے کا کاروبار کرنے والا اس پھرتی سے کبھی حملہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہ کر اسنے اپنی گن نیچے رکھی اور میجر کی طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھنے لگا، میجر دانش اس صورتحال پر حیران تھا، اس نے ایک بار پھر اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھی اور دھمکی آمیز لہجے میں بولا ایک قدم بھی آگے بڑھا تو میں گولی چلا دوں گا۔ مگر لڑکی ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔ اب وہ مسلح شخص سیدھا کھڑا ہوا اور میجر دانش کو سلیوٹ کیا اور بولا سر تانیہ کو تو چھوڑ دیں یہ آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، اور جہاں سے آپ بھاگے ہیں یہ ابھی وہیں سے ہوکر آرہی ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ آپ کرنل وشال کے اس قید خانے سے کیسے زندہ سلامت بچ کر نکل آئے۔۔۔آج تک اسکے قید خانے سے کوئی بچ کر نہیں نکل سکا۔ میجر دانش نے اس بار حیران ہوکر پوچھا تم کون ہو؟؟
تو اس شخص نے اپنے سر سے پگڑی اتار دی اور بولا سر میرا نام امجد ہے، یہ رانا کاشف، اور یہ سرمد ہے۔ اور لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا اور یہ میری بہن تانیہ ہے۔ ہمارا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ ہمیں میجر جنرل اشفاق نے ٹاسک دیا تھا کہ انکا ایک میجر کرنل وشال کی قید میں ہے اسکو وہاں سے رہا کروانا ہے۔ ہم نے تانیہ کو گاڑی پر آگے بھیجا تھا کہ وہ اطراف کا جائزہ لے کر واپس آکر ہمیں وہاں کے حالات سے آگاہ کرے، اتنے میں آپ مل گئے، ہم سمجھ تو گئے تھے کہ آپ ہی میجر دانش ہونگے کیونکہ یہ بہت ویران علاقہ ہے یہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں۔ اور ایسی جگہ پر آپکا آنا اور آپکی یہ حالت صاف بتا رہی ہے کہ آپ کسی قید خانے سے بھاگے ہیں۔
اپنی بات مکمل کر کے امجد کچھ دیر خاموش ہوا اور پھر حیران کھڑے دانش کو دیکھا جو یہ سوچ رہا تھا کہ انکی بات پر یقین کرنا چاہیے یا نہیں، پھر امجد بولا سر اب تو تانیہ کو چھوڑ دیں اب تو ہم نے اپنی گن بھی سائیڈ پر رکھ دی ہیں۔ اب میجر دانش کچھ سوچتا ہوا تانیہ سے پیچھے ہٹ گیا مگر اسکی انگلی ابھی تک پسٹل کے ٹریگر پر تھی تاکہ کسی بھی حالت میں وہ فوری طور پر اپنی حفاظت کی غرض سے گولی چلا سکے۔ جیسے ہی میجر دانش نے تانیہ کو چھوڑا امجد باقی 2 افراد رانا کاشف اور سرمد سے مخاطب ہوا چلو اب جلدی نکلیں ادھر سے کرنل وشال کے لوگ اب پاگل کتوں کی طرح میجر کو ڈھونڈیں گے وہ کسی بھی وقت ادھر پہنچ سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہی سب نے اپنی اپنی گن دوبارہ سے اٹھائی اور گاڑی کی طرف بھاگے۔
میجر دانش کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا وہ بھی گاڑی کی طرف بھاگا، امجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا جبکہ تانیہ اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی رانا کاشف اور سرمد پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے میجر دانش بھی انکے ساتھ بیٹھ گیا اور گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔
================================================== ====
صبح ہونے پر نادیہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا وہ ابھی تک بنا کپڑوں کے لیٹی تھی اور اسکے پہلو میں عمیر بھی بنا کپڑوں کے سو رہا تھا۔ نادیہ کمبل سے باہر نکلی اور اپنے کپڑے پہننے لگی۔ رات کو ہونے والی چدائی کو سوچ کر اسکی آنکھوں میں ایک مستی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد اس نے عمیر کو بھی اٹھنے کو کہا اور خود واش روم میں گھس گئی جہاں گرم گرم پانی سے اس نے غسل کیا اور اسکے بعد عمیر کو بھی غسل کرنے کو کہا۔ غسل کرنے کے بعد نادیہ دوسرے کمرے میں جا کر پنکی اور عفت کو جگانے چلی گئی جو ابھی تک سو رہی تھیں۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہی تھا نادیہ سیدھی اندر گئی اور پہلے پنکی اور پھر عفت کو اٹھایا اور فورا تیار ہونے کو کہا اور بتایا کہ آج ہم پترایاٹا جائیں گے اور چئیر لفٹ کی سیر بھی کریں گے لہذا جلدی جلدی تیار ہوجاو دونوں۔ یہ کہ کر وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور تیار ہونے لگی۔ پنکی بھی فورا اٹھی اور نہانے گھس گئی جبکہ عفت ایسے ہی بیڈ پر لیٹی رہی۔
اسکا کہیں بھی جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ دانش سے دوری اسکو ایک پل بھی سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ اوپر سے اتنے دن گزرنے کے باوجود ابھی تک دانش کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عفت مری آکر اپنے آپ کو مجرم تصور کر رہی تھی۔ ایک عورت جسکا شوہر شادی کی رات سے ہی لاپتہ ہے وہ مری کی سیر کر رہی ہے یہ سوچ کر ہی عفت کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے شوہر سے غداری کر رہی ہے۔ عفت انہی سوچوں میں گم تھی کہ پنکی تیار ہوگئی اور عفت کو دیکھ کر بولی بھابھی آپ ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہیں چلنے کا ارادہ نہیں کیا؟؟ اس پر عفت بولی نہیں یار میرا دل نہیں کر رہا کہیں بھی جانے کو۔ دانش کی یاد آرہی ہے۔ بھائی کا نام سن کر ایک لمحے کو پنکی بھی اداس ہوئی مگر پھر عفت کو حوصلہ دیتے ہوئے بولی بھابھی فکر نہ کریں، بھائی کا تو کام ہی یہ ہے آپکو تو پتا ہے وہ ایک فوجی ہیں اور انہیں اکثر ایسے مشن پر روانہ ہونا پڑتاہے کہ کئی کئی دن انکی خبر نہیں آتی۔ آپ فکر نہ کریں اور چلنے کی تیاری کریں۔
اتنے میں نادیہ نے آکر ناشتہ لگنے کی خبر دی ، عفت منہ دھو کر پنکی کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر پہنچی تو نادیہ اور عمیر فل تیاری کر چکے تھے اور پنکی بھی تیار تھی، ان دونوں نے عفت کو ایسی حالت میں دیکھا تو پوچھا بھابھی آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئیں؟؟ عفت بولی تم لوگ جاو میرا موڈ نہیں ہے ۔ میں یہیں رکوں گی۔ یہ سن کر نادیہ نے وجہ پوچھنی چاہی مگر عمیر نے منع کر دیا اور بولا جیسے آپکی مرضی بھابھی لیکن اگر آپ چلیں گی تو ہمیں خوشی ہوگی۔ عفت نے عمیر کی طرف دیکھا مگر بولی کچھ نہیں۔ اسکی آنکھوں کی اداسی نے سب کچھ کہ دیا تھا اور عمیر سمجھدار تھا وہ بھی سمجھ گیا کہ عفت دانش کے بغیر اچھا فیل نہیں کر رہی اور نادیہ اور عمیر کو اکٹھے دیکھ کر بھی ہو سکتا ہے اسکو دانش کی کمی محسوس ہو۔ اسی لیے عمیر نے اس پر دباو نہیں ڈالا اور ناشتے سے فارغ ہوکر نادیہ اور پنکی کے ساتھ نکل گیا جاتے ہوئے وہ عفت کو تاکید کر گیا کہ اپنا خیال رکھے اور اگر کسی بھی قسم کی ضرورت ہو تو بلا جھجک عمیر کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھ کر فون کر دے وہ فورا واپس آجائے گا۔ یہ سن کر عفت نے پیار سے عمیر کے سر پر ہلکی سی چماٹ ماری اور بولی نہیں تم لوگ انجوائے کرو میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرور ہوئی بھی تو میجر کی بیوی ہوں یہاں فل پروٹوکول لوں گی۔ یہ سن کر عفت اور عمیر دونوں ہی ہنس پڑے اور پنکی بھی انکے ساتھ ہنسنے لگی جبکہ نادیہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔
کچھ دیر بعد تینوں سیر کرنے کے لیے نکل چکے تھے جبکہ عفت اپنے ہٹ میں ہی جوجود رہی۔ کچھ دیر فارغ بیٹھ بیٹھ کر جب وہ بور ہوگئی تو اٹھ کر باہر نکل آئی اور ہٹ کی بیک سائیڈ پر موجود درختوں کے درمیان چلتی ہوئی ہٹ سے تھوڑا دو نکل آئی۔ یہاں پہاڑ کی ہلکی سی ڈھلان تھی اور ایک مناسب جگہ دیکھر کر عفت بیٹھ گئی۔ یہاں سے بہت خوبصورت نظارہ مل رہا تھا۔ عفت اس نظارے کو انجوائے کرنے لگی ، ہلکی ہلکی ٹھنڈ کی وجہ سے عفت نے ایک شال بھی اوڑھ رکھی تھی۔ جبکہ دوسری طرف نادیہ اور عمیر چیر لفٹ پر بیٹھے انجوائے کر رہے تھے اور انسے پچھلی چئیر پر پنکی اکیلی بیٹھی تھی۔ پنکی نے بلیو کلر کی جینز پہن رکھی تھی اسکے ساتھ ایک ٹائٹ ٹی شرٹ تھی اور اوپر سے ایک براون کلر کا موٹا اور گرم اپر پہن رکھا تھا۔ باولوں کو اکٹھا کر کے ایک پونی ڈالی ہوئی اور لانگ بوٹ پہنے پنکی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ گورا چہرہ اور پنک پنک گالوں والی پنکی کو اب تک بہت سے لڑکے دیکھ کر دیکھتے ہی رہ گئے تھے، جو بھی دیکھتا وہ اپنی نظریں ہٹانا بھول جاتا۔ چئیر لفٹ سے اترتے ہوئے عمیر نے پنکی کو سہارا دیا اور پھر تینوں کیبل کار پر بیٹھ کر نیو مری پہنچ گئے اور وہاں برف سے کھیلنے لگے۔ وہاں کچھ اور فیملیز بھی آئی ہوئی تھیں اور کچھ کالج کے گروپ بھی تھے۔
نادیہ عمیر کے ساتھ اکیلے اس جگہ پر انجوائے کرنا چاہتی تھی مگر پنکی کی وجہ سے وہ کچھ اکھڑی اکھڑی تھی۔ لیکن پھر اچانک ہی ایک لڑکی نے پنکی کو دیکھ کر چیخ ماری اور بھاگتی ہوئی ہاتھ پھیلا کر پنکی کی طرف آئی، پنکی نے اسے دیکھا تو وہ بھی خوشی سے نہال ہوگئی اور آنے والی لڑکی سے گلے ملنے لگی۔ پنکی نے گلے ملتے ہی اس لڑکی سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے؟؟؟ تو اس نے بتایا تم بھول گئی، تمہیں بتایا تو تھا کہ ہم لوگ بھی مری آئیں گے۔ مما پاپا اور بھائی کے ساتھ کل رات ہی میں یہاں پہنچی ہوں۔
یہ پنکی کی یونیورسٹی کی دوست عالیہ تھی۔ ان دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی اور اس دوستی کی اصل وجہ عالیہ کا بھائی وجاہت تھا جسے سب پیار سے وجی کہ کر بلاتے تھے۔ وجی پنکی کو پسند کرتا تھا اور دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی۔ پنکی بھی وجی کو پسند کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر ابھی تک وجی نے پنکی کی امی سے کوئی بات نہیں کی تھی اس بارے میں۔ عالیہ اور پنکی ابھی باتیں کرنے میں مصروف تھے کہ وجی بھی وہاں پہنچ گیا اور پنکی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس نے بھی پنکی سے ہاتھ ملایا اور بولا تم تو آج بڑی پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ پنکی نے اٹھلاتے ہوئے کہا یہ کونسا نئی بات ہے، میں تو ہمیشہ ہی پیاری لگتی ہوں۔ یہ سن کر عالیہ بھی ہنسنے لگی۔ پھر پنکی نے دونوں کا تعارف عمیر اور نادیہ سے کروایا۔
عالیہ نے عمیر سے اجازت لی کہ وہ پنکی کو اپنے ساتھ لیجائے تو عمیر نے منع کرنا چاہا مگر نادیہ نے فورا ہی اجازت دے دی۔ وہ تو پہلے ہی پنکی کی موجودگی سے پریشان تھی کیونکہ ہنی مون ٹرپ پر بھلا بہن کا کیا کام بھائی کے ساتھ ۔ بھابھی سے اجازت ملتے ہی پنکی عالیہ کے ساتھ چل پڑی اور عمیر کو کہ دیا کہ وہ بھابھی کے ساتھ ہی واپس چلے جائیں وہ انہی لوگوں کے ساتھ واپس مری پہنچ جائے گی۔ نادیہ نے بھی عمیر کا بازو پکڑا اور دوسری سائیڈ پر چل دی جہاں رش قدرے کم تھا۔ وہ تنہائی میں عمیر کے ساتھ بیٹھ کر اس رومانٹک موسم کو انجوائے کرنا چاہتی تھی۔ ویسے بھی کراچی والوں کے لیے مری کا یہ کم ٹھنڈا موسم بھی بہت ٹھنڈا تھا۔
پنکی اب عالیہ اور وجی کے ساتھ سیر کرنے لگی۔ پنکی کے دائیں طرف عالیہ جبکہ بائیں طرف وجی تھا جو وقفے وقفے سے پنکی کو چھیڑ رہا تھا مگر پنکی اسکی ان حرکتوں کا برا نہیں منا رہی تھی۔ کیونکہ وہ بھی وجی کو پسند کرتی تھی۔ پنکی نے دوپہر ہونے پر وجی اور عالیہ کے ممی ڈیڈی کے ساتھ ہی کھانا کھایا اور پھر واپس مری آگئے۔ شام 5 بجے مری میں ٹھنڈ کا اضافہ ہوگیا تھا مگر پنکی اس موسم کو انجوائے کرنا چاہتی تھی۔عالیہ کے ممی ڈیڈی جی پی او چوک پر موجود ہوٹل میں اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ پنکی عالیہ اور وجی مال روڈ پر موسم انجوائے کرنے اور ونڈو شاپنگ کرنے چلے گئے۔ اب پنکی اور وجی ایکدوسرے کا ہاتھ پکڑے مال روڈ پر پھر رہے تھے۔ آنے جانے والے بھونڈ قسم کے لڑکے حسرت بھری نگاہوں سے وجی کو دیکھتے اور اسکی قسمت پر حسد کرتے جو اتنی خوبصورت لڑکی کے ساتھ پھر رہا تھا۔
تینوں کافی دیر تک مال روڈ پر پھرتے رہے اور تینوں نے ملکر آئسکریم بھی کھائی پھر وجی عالیہ اور پنکی کو لیکر موشن رائیڈ کی طرف لے گیا۔ عالیہ نے تو موشن رائیڈ پر بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا جبکہ پنکی کے چہرے پر بھی تھوڑے خوف کے آثار تھے مگر وجی کے اسرار پر وہ اندر چلی گئی اور چئیر پر بیٹھ کر سیٹ بیلٹ باندھ لی۔ پنکی نے چئیر پر آرم سپورٹ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ مووی شروع ہوئی اور چئیر میں بھی حرکت شروع ہوگئی۔ شروعات میں تو پنکی حوصلہ کر کے بیٹھی رہی مگر جیسے ہی سامنے چلنے والی مووی میں ٹرین پٹری سے نیچے گری تو پنکی کو محسوس ہوا کہ جیسے اسکی اپنی چئیر بھی ہوا میں اڑنے لگی اور وہ ابھی نیچے گر جائے گی، اس نے فورا ہی سپورٹ کو چھوڑ کر ساتھ والی چئیر پر بیٹھے وجی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیا،
پنکی کی یہ حالات دیکھ کر وجی ہنسنے لگا جبکہ پنکی کی چیخیں ہی ختم نہیں ہورہی تھیں، وہ تو اب سامنے لگی سکرین پر دیکھ ہی نہیں رہی تھی جبکہ اسکی چئیر اب بھی کبھی اسکو ہوا میں اڑاتی تو کبھی پیچھے کی طرف گراتی مگر اس نے وجی کو نہیں چھوڑا اور مضبوطی سے اسے پکڑ کر بیٹھی رہی۔ وجی نے بھی ایک ہاتھ پنکی کی کمر کے گرد لپیٹ لیا۔ اور اسے مضبوطی سے پکڑ کر حوصلہ دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں مووی ختم ہوگئی اور وجی نے سیٹ بیلٹ کھول دی۔ مگر پنکی ابھی تک ڈری ہوئی تھی اور وہ وجی کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، وجی نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکی سیٹ بیلٹ کھولی اور اسکو نیچے اترنے میں مدد دی۔ پنکی کانپتی ٹانگوں کے ساتھ نیچے اتری اور وجی کے سینے پر تھپڑ مارتے ہوئے بولی میں نے کہا تھا نہ مجھے نہیں بیٹھنا اس پر مگر تم نے میری سنی ہی نہیں۔ وجی نے یہ سن کر ایک قہقہ لگایا اور بولا ارے مجھے کیا معلوم تھا کہ میری پنکی اتنی ڈرپوک ہے۔ یہ کہ کر اسنے پھر سے اپنا بازو اسکے کندھے پر رکھ کر اسے اپنے سے قریب کر لیا۔
اب رات کے 9 بجنے والے تھے۔ اس دوران عمیر نے 2 بار پنکی کو کال کر کے خیریت دریافت کی اور پنکی نے عمیر کو مطمئن کیا کہ آپ فکر نہ کریں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اب عالیہ وجی اور پنکی واپس اپنے ہوٹل میں آچکے تھے جہاں اسکے ممی ڈیڈی آرام کرنے کے بعد مال روڈ کی سیر کرنے نکل گئے تھے۔ اپنے کمرے میں آتے ہی عالیہ بیڈ پر ڈھے گئی۔ ایک دن کا سفر اور آج سارے دن کی سیر نے اسکو تھکا دیا تھا۔ جبکہ پنکی کی تھکاوٹ وجی کے ساتھ نے ختم کر دی تھی۔ اب پنکی اور وجی دونوں ایکدوسرے کے ساتھ صوفے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جبکہ عالیہ بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ شاید اسکی آنکھ لگ گئی تھی۔
وجی نے پنکی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے دونوں ہاتھ میں لیکر اس پر پیار کرنے لگا جبکہ پنکی بھی وجی کے ساتھ بیٹھی اور زیادہ پنک ہوگئی تھی۔ شرم سے اسکے ہلکے گلابی گال اب پہلے سے زیادہ گلابی ہوچکے تھے۔ وجی نے پنکی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اوپر اٹھا کر اپنے ہونٹوں کے قریب لا کر اسکے نرم نرم ہاتھ پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اور اپنا ایک بازو پنکی کے کندھے پر رکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا۔ پنکی نے بھی اپنا سر وجی کے کندھے پر رکھ دیا۔ بہت عرصے بعد اسے اپنے محبوب کے اتنا قریب ہونے کا موقع ملا تھا۔ جس سے پنکی بہت خوش تھی۔
پنکی کے ہاتھ پر پیار کرتے ہوئے وجی نے بہت ہلکی آواز میں پنکی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے آئی لو یو جان کہا، جس پر پنکی تھوڑا سا کسمسائی اور جواب میں آئی لو یو ٹو وجی کہا۔ وجی نے پنکی کے چہرے کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اوپر اٹھایا اور اسکی طرف پیار سے دیکھنے لگا۔ وجی کو اپنی جانب یوں دیکھتے ہوئے پنکی شرم سے لال ہوگئی اور اپنی نظریں جھکا لیں۔ جب کہ وجی پنکی کی خوبصورتی پر مرا جا رہا تھا۔ وہ اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا۔ یوںہی پنکی کو دیکھتے ہوئے وہ تھوڑا سا آگے جھکا اور پنکی کے نرم گلابی ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اپنے ہونٹوں پر وجی کے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی پنکی کو ایک جھٹکا لگا اور وہ پیچھے ہوگئی اور وجی کو منع کیا وجی پلیز ابھی یہ سب ٹھیک نہیں۔
اس پر وجی بولا کہ جان تم اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ مجھ سے رہا نہین گیا، تمہارے یہ نرم گلابی ہونٹ مجھے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور تمہارا یہ خوبصورت چہرہ چاند کو بھی شرما رہا ہے ۔۔۔ اپنی تعریف سن کر پنکی کے چہرے پر خوشی اور شرم کے ملے جلے تاثرات تھے جس نے 21 سالہ پنکی کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ کہتے ہیں عورت کی شرم اور حیا ہی اسکا اصل حسن ہوتا ہے۔ اور یہ شرم و حیا جب پنکی جیسی خوبصورت لڑکی کے چہرے پر ہو تو اسکے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وجی بار بار پنکی کو اپنے قریب کر رہا تھا۔ انکے درمیان کوئی جسمانی تعلق نہیں تھا مگر آج وجی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ پنکی کو اپنے سینے سے لگا کر بہت سارا پیار کرے۔
وجی نے ایک بار پھر پنکی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے، اس بار پنکی نے بھی وجی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کو گولائی میں گھماتے ہوئے ہلکے سے چوم لیا جس پر وجی بہت خوش ہوا مگر پھر پنکی فورا ہی صوفے سے کھڑی ہوگئی اور وجی کہ کہنے لگی کہ وہ اسے آرمی ہٹس میں چھوڑ آئے وہاں اسکی بھابھی اکیلی ہونگی ۔ وجی اپنی جگہ سے کھڑا ہوکر پنکی کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور سر تا پا پنکی کا جائزہ لینے لگا، اس نے جیسے پنکی کی بات سنی ہی نہ تھی۔ پنکی کمرے میں آکر اپنا گرم کوٹ اتار چکی تھی اب وہ ٹائٹ ٹی شرٹ اور جینز پہنے وجی کے سامنے کھڑی تھی۔ جس سے پنکی کے جسم کے ابھار بہت واضح ہورہے تھے۔
No comments:
Post a Comment