میجر نے دل میں سوچا کہ آخر ایک ہیجڑے کی گانڈ مارنے میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے دوبارہ سے اپنی توجہ جولی کی طرف کی اور اسے بیڈ پر لیٹنے کو کہا، جولی فورا بیڈ پر لیٹ گئی تو میجر نے اسکی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ دیں اور اپنا لن سوزینا کے منہ سے نکال کر جولی کی چوت پر رکھا۔ ایک ہی دھکے میں میجر کا 8 انچ کا لن جولی کی چوت کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا۔ جولی کی چوت کھلی ہونے کی وجہ سے لن بغیر کسی رکاوٹ کے اسکی چوت میں اتر چکا تھا، جیسے ہی 8 انچ کے لن نے جولی کی چوت کی گہرائیوں میں جا کر ٹکر ماری اسکی چوت نے میجر کے لن کو جکڑ لیا۔ جولی نے اتنا لمبا لن ملتے ہی اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیا تھا اور میجر نے بھی بغیر رکے دھکے مارنے شروع کر دیے تھے۔ میجر کے ہر دھکے کے ساتھ جولی کے 38 کے ممے اوپر نیچے ہلتے اور اسکے منہ سے آوازیں نکلتی آوچ، اف، مزہ آگیا صاحب، آج بہت دنوں بعد کسی مرد کا لن ملا ہے ورنہ یہاں تو سارے چھوٹی چھوٹی للیاں لے کر ہی آتے ہیں اور 2 منٹ میں ہی اپنا مال نکال دیتے ہیں۔ آہ آہ، صاحب اور زور سے چودو آج جولی کو۔۔۔ ایسے ہی دھکے لگاو صاحب، میری چوت کی پیاس بجھادو آج۔
جولی کی ہر آواز کے ساتھ میجر کے دھکوں میں تیزی آرہی تھی۔ گوکہ جولی کی چوت کافی کھلی تھی مگر جولی نے اپنی چوت کی دیواریں ٹائٹ کی تو میجر کو بھی چودائی کا مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر ایسے ہی چودائی کرنے کے بعد میجر نے جولی کی چوت سے لن نکالا اور اسکو گھوڑی بننے کو کہا، جولی فورا اٹھی اور بیڈ پر گھوڑی بن گئی، میجر دانش اب بیڈ پر گھٹنوں کے بل کھڑا ہوا اور جولی کی چوت پر لن کی ٹوپی رکھ کر ایک دھکا مارا اور میجر کا لن جولی کی چوت میں غائب ہوگیا۔ اب میجر نے پھر سے زور دار پمپ ایکشن شروع کر دیا، اب کی بار میجر کے ہر دھکے پر میجر کا جسم جولی کے چوتڑوں سے ٹکراتا تو کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں آتیں اور میجر ان آوازوں سے لطف اندوز ہوتا اگلا دھکا اور بھی جاندار مارتا۔
میجر کے ان دھکوں سے اب جولی کی سسکیاں نکل گئی تھیں اور اب وہ محض آوچ آوچ کی آوازیں نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہی کرہی رہی تھی۔ اب اسکی چوت میں اسکی طلب سے زیادہ زور دار گھسے لگ رہے تھے جنکو وہ بمشکل برداشت کر رہی تھی۔ جبکہ سوزینا اب جولی کے سامنے آگئی اور اپنی چھوٹی سی للی جولی کے منہ میں دے دی۔ جولی نے سوزینا کی للی کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کیا اور تھوڑی ہی دیر میں اسکی للی میں تھوڑی سی سختی پیدا ہوگئی، سوزینا کی للی کا سائز ابھی بھی 4 انچ ہی تھا مگر اب اس میں تھوڑی سختی تھی۔ میجر کی نظریں کچھ دیر کے لیے سوزینا کی للی پر گئیں مگر پھر اس نے اپنی توجہ جولی کی چوت پر کی اور دھکوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب یہ دھکے جولی کی برداشت سے باہر ہونے لگے تو جولی کو لگا جیسے اسکے بدن میں سوئیاں چبھ رہی ہوں، وہ سمجھ گئی تھی کہ آج عرصے بعد اسکی چوت کسی لن کی چودائی سے پانی چھوڑنے لگی ہے ورنہ اس سے پہلے یا تو وہ فنگرنگ کر کے اپنی چوت کا پانی نکالتی تھی یا پھر سوزینا اپنی زبان سے جولی کی چوت کا چاٹ کر اسکا پانی نکالتی تھی۔
میجر کے چند مزید دھکے لگے اور جولی کی چوت میں سیلاب آگیا۔ جولی کے جسم کو کچھ جھٹکے لگے اور اسکی چوت نے ڈھیر سارا پانی نکال دیا۔ جب سارا پانی نکل گیا تو میجر نے دھکے لگانا بند کر دیے ۔ جولی نے اپنی چوت سے میجر کا لن باہر نکالا اور ایک بار میجر کا لن منہ میں لیکر اس پر موجود اپنا پانی چوسنے لگی۔ جب سارا پانی چوس لیا تو جولی دیوانہ وار میجر کے سینے کو چومنے لگی اور اسکے ہونٹوں کو بھی چومنے لگی۔ وہ میجر کے جسم کو دبا رہی تھی اور بار بار کہ رہی تھی تم اصل مرد ہو صاحب، آج تمہارے لن نے میری چوت کی پیاس بجھادی ہے اور ابھی بھی سسرا کھڑا ہے تھکا نہیں۔ یہ سن کر سوزینا نے جولی کو پیچھے کیا اور بولی چل پیچھے ہو اب صاحب کے لوڑے کی سواری کرنے کی باری میری ہے۔ سوزینا نے بھی میجر کے سینے پر ایک بار کس کی اور بولی صاحب کونسی پوزیشن میں میری گانڈ مارنا پسند کروگے۔؟؟ میجر نے کہا پہلے اپنی گانڈ کا نظارہ تو کرواو کیسی ہے۔۔۔
یہ سنتے ہی سوزینا گھوڑی بن گئی اور میجر نے اسکے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ پر نظر ماری تو اسکا سوراخ بھی قدرے کھلا تھا۔ یعنی وہ بھی اپنی گانڈ باقاعدگی سے مرواتی تھی۔ میجر نے اسی پوزیشن میں سوزینا کی گانڈ پر اپنے لن کی ٹوپی رکھی اور دھکا مارنے کی کوشش کی مگر لن اندر نہیں گیا۔ تب جولی آگے آئی اور بولی صاحب پہلے تھوڑا چکنا کر لو، یہ کہ کر وہ سوزینا کی گانڈ پر جھکی اور اسکو چوسنے لگی، اس نے اپنی انگلی بھی سوزینا کی گانڈ میں ڈال دی تھی اور اسکی انگلی سے چودائی کرنے لگی پھر اس نے سوزینا کی گانڈ پر اپنا تھوک پھینکا اور انگلی سے تھوک سوزینا کی گانڈ کے اندر تک مسل دیا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ میجر کا لن ہاتھ میں پکڑے اسکی مٹھ مارنے میں مصروف تھی۔
پھر جولی نے میجر کے لن پر بھی تھوک پھینکا اور اسکو بھی چکناکر دیا۔ اب کی بار میجر نے سوزینا کی گانڈ پر لن رکھ کر ایک جھٹکا مارا تو آدھا لن سوزینا کی گانڈ میں اتر گیا تھا اور سوزینا کی چیخ نکلی اوئی ماں ۔ ۔ ۔ ۔ میں مرگئی۔ صاحب کیا تگڑا لن ہے تمہارا کیا کھاتے ہو؟؟؟ میجر دانش ہنستا ہوا بولا ابھی تو آدھا لن اندر گیا ہے باقی آدھا ابھی جانا ہے، اس پر سوزینا بولی اوئی ماں۔۔۔۔۔۔ اور زیادہ نہ ڈالنا صاحب میری تو گانڈ ہی پھٹ جائے گی۔ میجر دانش بولا تمہیں بھی تو شوق ہے گانڈ مروانے کا آج دل بھر کر اپنی گانڈ مروا، یہ کہ کر میجر نے ایک دھکا اور لگایا اور میجر کا سارا لن سوزینا کی گانڈ میں چلاگیا۔ اور سوزینا کی ایک اور چیخ نکلی۔ اب وہ اس طرح سسکیاں لے رہی تھی جیسے کسی بچے کو مرچیں لگ جائیں تو وہ بار بار سی سی کرتا ہے۔ میجر کے لن نے سوزینا کی گانڈ کے اندر واقعی مرچیں لگا دی تھیں۔
اب میجر نے سوزینا کی گانڈ مارنا شروع کی اور جولی سوزینا کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی اور اپنی گانڈ سوزینا کے آگے کر دی۔ سوزینا نے جولی کی گانڈ چوسنا شروع کی اور اس میں تھوک بھرنے لگی۔ سوزینا نے کہا لگتا ہے آج تیرا بھی صاحب سے گانڈ مروانے کا ارادہ ہے۔ اس پر جولی بولی ہیرے جیسا لوڑا آج ہاتھ لگا ہی ہے تو اسکا پورا استعمال تو ہونا ہی چاہیے نا۔ میجر نے کچھ دیر سوزینا کی گانڈ میں دھکے مارے اسکے بعد اپنا لن اسکی گانڈ سے نکالا جو اب تک سوج چکی تھی۔ اب میجر بیڈ کے ساتھ پڑے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا اور سوزینا کو اپنی گود میں آنے کو کہا، سوزینا نے اپنی گانڈ میجر کے لن کے اوپر کی اور ٹوپا گانڈ کے سوراخ پر فٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں لن پر بیٹھ گئی، سوزینا نے اپنی ٹانگیں میجر کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اورمیجر اب خوب زور زور کے دھکے مار کر سوزینا کی گانڈ مار رہا تھا۔
سوزینا کے 36 سائز کے ممے میجر کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہے تھے جبکہ اسکا 4 انچ کا لن بلکہ للی میجر کی ناف سے ٹچ ہورہا تھا۔ میجر کو سوزینا کی گانڈ مارنے کا بہت مزہ آرہا تھا۔ ٹائٹ گانڈ نے میجر کے لن کو جکڑ رکھا تھا۔ اب میجر سوزینا کی گانڈ میں دھکے مارنے کے ساتھ ساتھ اسکے 36 کے اچھلتے مموں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا جبکہ سوزینا میجر کے لن کی تعریفیں کرتی نہیں تھک رہی تھی، مزہ آگیا صاحب، آپکے لوڑے نے تو میری گانڈ کا ستیاناس کر دیا ہے، ایسے ہی گانڈ مارتے رہو صاحب۔۔۔۔ 5 منٹ تک سوزینا کی گانڈ مارنے کے بعد میجر کے لن نے تھوڑا پھولنا شروع کیا اور اسکے بعد سوزینا کی گانڈ کے اندر ہی منی چھوڑ دی۔ جب میجر کا لن منی چھوڑ کر فارغ ہوچکا تو سوزینا گانڈ سے اتری اور میجر کا لن چوسنے لگی۔ میجر کے لن کی گاڑھی منی کا ہر قطرہ سوزینا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔ جب میجر کا لن منی سے پاک ہوگیا تو سوزینا نے جولی کی طرف دیکھا اور بولی چل اب صاحب کو اپنا شو دکھاتے ہیں۔
یہ کہ کر سوزینا نے میجر دانش کو چھوڑا اور جولی کو لیکر بیڈ پر چلی گئی، جولی اور سوزینا اب 69 پوزیشن میں ایکدوسرے کے اوپر تھیں۔ سوزین نیچے لیٹی تھی اور جولی اسکے اوپر تھی، سوزینا کی زبان جولی کی چوت کے سوراخ پر تیز تیز چل رہی تھی جبکہ جولی سوزینا کی للی منہ میں ڈالے اسکے چوپے لگا رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور ایکدوسرے کے مموں کو باری باری چوسنے لگیں، کبھی سوزینا جولی کے ممے منہ میں لیکر چوستی تو کبھی جولی سوزینہ کے مموں کو منہ مین لیتی اور انکو چوسنے لگتی۔ پھر سوزینا نے جولی سے کہا چل اب مجھے بھی اپنی چوت کا مزہ دے۔ یہ سن کر جولی بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں جبکہ سوزینا اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھی اور اپنی للی کی ٹوپی سوزینا کی چوت پر رکھ دی۔ سوزینا کی للی ابھی تک 4 انچ کی ہی تھی مگر اس میں پہلے کی نسبت سختی زیادہ تھی، سوزینا نے ایک دھکا لگایا تو اسکی 4 انچ کی چھوٹی سی للی جولی کی چوت میں گم ہوگئی۔
اب سوزینا نے دھکے لگانے شروع کیے اور ساتھ ساتھ سوزینا کی چوت کے دانے پر انگلی پھیرنی شروع کی۔ سوزینا کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اپنی للی جولی کی چوت میں ڈال کر اسے سکون ملا تھا مگر جولی کے چہرے پر مزے کے آثار نہیں تھے وہ بس سوزینا کی خواہش پوری کر رہی تھی۔ میجر دانش سوزینا اور جولی کا یہ شو دیکھ کر محضوض ہو رہا تھا اور آہستہ آہستہ اب اسکے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ سوزینا اب جولی کے اوپر لیٹ گئی تھی اور اسکے ممے چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اپنی للی سے جولی کی چوت کی چودائی کر رہی تھی۔ یہ سین دیکھ کر میجرا کا لن مکمل کھڑا ہوگیا تھا، اب وہ بھی بیڈ پرآگیا اور اپنا لوڑا جولی کے منہ میں ڈال دیا ۔ جولی میجر کے لوڑَ میں دوبارہ جان دیکھ کر خوش ہوگئی۔
اس نے فورا ہی میجر کے لن کو چوسنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد سوزینا نے کہا صاحب لن میرے منہ میں دو جولی آپکے ٹٹے چوسے گی۔ یہ سن کر میجر نے اپنی جولی کا چہرہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کر لیا جولی نے فورا ہی میجر کے ٹٹوں پر اپنی زبان چلانا شروع کر دی اور پھر اسکے ٹٹوں کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا جبکہ سوزینا جو جولی کے اوپر لیٹی اسکی چودائِ کر رہی تھی اس نے میجر کا لن منہ مین لیکر چوسنا شروع کر دیا تھا۔
جب میجر کا لن پہلے کی طرح سخت ہوگیا تو وہ کھڑا ہوا اور سوزینا کے پیچھے چلا گیا۔ پیچھے جا کر میجر نے سوزینا کی گانڈ پر تھوک پھینکا اور انگلی سے تھوک اسکی گانڈ کے اندر مسلنے لگا۔ سوزینا کی للی ابھی تک جولی کی چوت میں ہی تھی۔ اور سوزینا دھکے پر دھکے مار رہی تھی۔ میجر نے سوزینا کو دھکے روکنے کو کہا تو سوزینا نے دھکے روک دیے، اب میجر نے اپنے لن کی ٹوپی سوزینا کی گانڈ پر رکھی اور آہستہ آہستہ سارا لن سوزینا کی چوت میں اتار دیا جس سے اسکی سسکیاں نکلنے لگیں۔ اب میجر نے دھکے مارنے شروع کیے تو سوزینا نے میجر کے دھکوں کے ساتھ ساتھ جولی کی چوت میں دھکے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوزینا کو اب ڈبل مزہ آرہا تھا۔ ایک تو اسکی للی سوزینہ کی چوت میں تھی اور پیچھے سے میجر کا تگڑا لن سوزینا کی گانڈ مارنے میں مصروف تھا۔
5 منٹ تک اسی پوزیشن میں گانڈ مارنے کے بعد میجر نے سوزینا کی گانڈ سے لن نکالا اور سوزینا کو اپنی للی جولی کی چوت سے نکالنے کو کہا۔ سوزینا نے ایسے ہی کیا تو میجر نے اب جولی کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنا لن سوزینا کی چوت پر فٹ کر کے ایک ہی دھکے میں پورا لن اندر داخل کر دیا۔ سوزینا کی للی کے بعد جب میجر کا لن جولی کی چوت میں گیا تو جولی کی زور دار سسکی نکلی اور میجر نے بغیر رکے دھکے لگانے شروع کردیے۔ اب کی بار میجر کے دھکے پہلے کی نسبت بہت تیز تھے۔ میجر ایک بار پھر جولی کی چوت کا پانی نکالنا چاہتا تھا۔
محض 5 منٹ کے جاندار دھکوں نے اپنا کام دکھا دیا اور جولی نے میجر کی گود میں بیٹھے بیٹھے اپنی چوت کا پانی نکال دیا۔ چوت سے پانی پریشر کے ساتھ نکلا تو میجر کا پیٹ اور ٹانگیں جولی کے پانی سے بھر گئیں جنکو سوزینا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔ جبکہ جولی میجر پر واری جا رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک ہی رات میں ایک لن نے 2 بار اسکی چوت کا پانی نکالا۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی اور بےتحاشا میجر کے جسم پر پیار کر رہی تھی۔
اب میجر نے سوزینا کو کہا کہ وہ اب دوبارہ سے جولی کی چوت میں اپنا لن ڈالے۔ سوزینا جو پہلے ہی تیار تھی فوران جولی کے اوپر چڑھ گئی۔ مگر میجر نے کہا ایسے نہیں، تم نیچے لیٹو اور جولی کو اپنے اوپر لٹاو پھر اسکی چوت میں اپنا لن ڈال کر اسکی چودائی کرو۔ جولی سمجھ گئی کہ اب اسکی چوت اور گانڈ کے سوراخ میں لن جانے والا ہے، وہ فورا ہی سوزینا کے اوپر آئی اور اسکی للی اپنی چوت کے سوراخ میں ڈال کر لیٹ گئی تاکہ پیچھے سے میجر اسکی گانڈ میں اپنا 8 انچ کا لوڑا ڈال سکے۔ میجر نے پیچھے سے آکر جولی کی گانڈ دیکھاور اس میں پہلے اپنی انگلی داخل کی تو جولی کی ہلکی سی سسکی نکلی، نیچے سے سوزینا کی للی جولی کی چوت میں مسلسل گھسے لگا رہی تھی۔
کچھ دیر جولی کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد میجر نے اپنے لن کی ٹوپی سوزینا کے منہ میں دیر کر اسکو چکنا کروایا اور پھر دوبارہ سے پیچھے آکر لن کی ٹوپی جولی کی ٹائٹ گانڈ کے سوراخ پر رکھ اور ایک زور دار دھکا لگایا۔ میجر کی ٹوپی جولی کی گانڈ میں داخل ہوچکی تھی۔ اب کی بار جولی نے زور سے چیخ ماری ہائے میں مر گئی۔ صاحب یہ آپکا اپنا لن ہے یا کسی گدھے کا لگوا لیا ہے ؟؟ ہائے بھگوان اتنا موٹا لن میری گانڈ کیسے برداش کرے گی ۔۔۔ میجر نے تھوڑا سا انتظار کرنے کے بعد ایک اور دھکا لگایا تو میجر کا آدھے سے زیادہ لن جولی کی گانڈ میں تھا۔ اور اب کمرہ جولی کی چیخوں اور سسکیوں کی ملی جلی آوازوں سے گونج رہا تھا۔
میجر نے اب اپنے لن کو جولی کی گانڈ میں تسلسل کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا اور جولی مزے کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔ میجر کے ہر دھکے پر جولی کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ میجر کے جسم سے ٹکراتے تو دھپ دھپ کی آواز سے کمرہ گونجنے لگتا۔ نیچے سے سوزینا کی للی بھی اب جولی کی چوت کو مزہ دینے لگی تھی ، تھوڑی دیر کی چودائی کے بعد سوزینا کی للی نے پانی چھوڑ دیا اور اسکے دھکے لگنے بند ہوگئے۔ مگر جولی ابھی تک سوزینا کے اوپر ہی لیٹی تھی اور میجر کے جاندار دھکوں کا مزہ اپنی گانڈ میں لے رہی تھی۔
میجر نے 5 منٹ تک جم کر جولی کی گانڈ ماری آخر کا جولی کی گانڈ نے ہار مان لی اور وہ میجر سے بولی صاحب بس کر دو اب، میری گانڈ مزید آپکے لوڑَ کے دھکے برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر میجر نے جولی کی گانڈ سے اپنا لن نکالا اور بیڈ سے نیچے اتر گیا، بیڈ سے نیچے اتر کر میجر نے جولی کو اپنی گود میں اٹھایا، جولی نے اپنی ٹانگیں میجر کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں میجر نے اپنے لن کی ٹوپی کو جولی کی چوت پر رکھا اور جولی ایک جھٹکے مِں میجرکے لن پر اپنا وزن ڈال کر بیٹھ گئی، میجر کا لن جولی کی چوت میں گم ہوا تو میجر نے جولی کو گود میں اٹھائے اسکی چودائی شروع کی۔ میجر نے اپنے ہاتھ جولی کے چوتڑوں پر رکھے ہوئے تھے اور جولی نے میجر کی گردن میں اپنے بازو ڈالے ہوئے تھےجولی اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر اپنی چودائی کروا رہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ میجر کو ہونٹوں کو دیوانہ وار چوس رہی تھی، اسکو میجر کی مردانگی پر پیار آرہا تھا جو جولی کی چوت کا 2 بار پانی نکلوا چکا تھا اور اب بھی وہ جولی کی چوت میں دھکے مار رہا تھا۔
میجر مزید 5 منٹ تک جولی کو گود میں اٹھائے اسکی چوت میں لن سے کھدائی کرتا رہا، آخر کار میجر کا لن پھولنے لگا اور جولی کی چوت نے بھی میجر کے لن پر اپنے پیار کی بارش کرنے کا ارادہ کر لیا۔ مزید 4، 5 جاندار دھکوں سے جولی کی چوت نے میجر کے لن پر برسات کر دیاور جولی کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے، ساتھ ہی میجر کے جسم کو بھی جھٹکے لگے اور اس نے اپنی گرما گرم منی جولی کی چوت میں ہی نکال دی۔ جب میجر کے لن سے ساری منی نکل گئی تو میجر نے جولی کو گود سے اتارا اور بیڈ پر ڈھے گیا۔ سوزینا اور جولی اب دونوں ہی میجر کے جسم پر ہاتھ پھیر رہی تھیں اور اسے پیار کر رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد سوزینا نے کمرے میں موجود دوسرا دروازہ کھولا اور 3 منٹ بعد کمرے میں واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ تھا۔ سوزینا نے گرم گرم دودھ میجر کو پلایا جسے پی کر میجر ہشاش بشاش ہوگیا۔
اب میجر نے اپنے کپڑے پہنے اور دوسرے شخص کا اٹھایا ہوا بٹوہ نکال کر اس میں سے 1000 ، 1000 کے دو نوٹ نکالے اور جولی اور سوزینا کو دیے۔ دونوں نے نوٹ لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ صاحب آج عرصے بعد کسی اصلی مرد نے جم کر چودائی کی ہے آپ سے ہم پیسے نہیں لیں گی۔ آپ جب چاہو آکر ہماری چودائی کر سکتے ہو، میجر نے ایک بار پھر پیسے دینے پر اصرار کیا مگر دونوں میں سے کسی نے پیسے نہیں لیے البتہ دوبارہ آکر چودائی کرنے کی دعوت ضرور دی۔ میجر نے پیسے واپس بٹوے میں رکھا اور جولی کے ہونٹوں پر ایک پیار بھری کس کر کے کمرے سے نکل گیا۔
================================================== ==============
دوسری طرف تانیہ نے دوسرے شخص کو اپنے جسم کے جلوے دکھا دکھا کر پاگل کر دیا تھا۔ تانیہ کا ڈانس مکمل ہوا تو اس نے اس شخص کو جو آرمی کا آفیسر تھا بازو سے پکڑا اور اپنے ساتھ ایک کمرے میں لے گئی۔ وہ شخص بھی لہراتا ہوا نشے میں دھت تانیہ کی گانڈ کو گھورتا اسکے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے میں پہنچ کر تانیہ نے اس شخص کو بیڈ پر لٹایا اور خود اسکے ساتھ لیٹ کر اسکی شرٹ اتار دی اور اسکے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ اس شخص کی پینٹ سے اسکا کھڑا ہوا لن دیکھ کر تانیہ نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اسکے نپل پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔ تانیہ اپنی زبان کی نوک اس شخص کے نپل پر پھیر رہی تھی جس پر اس شخس کو بہت مزہ آرہا تھا۔
کچھ دیر اس شخص کے نپل چوسنے کے بعد تانیہ نے اپنی ایک ٹانگ اس شخص کی ٹانگوں کے اوپر رکھ لی اور اسکی طرف کروٹ لے کر اسے ہونٹ چوسنے لگی۔ وہ شخص بھی نشے میں دھت تانیہ کے ہونٹ چوس رہا تھا اور اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کے چوتڑوں کو بھی دبا رہا تھا۔ کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد تانیہ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور اسکے کان کے قریب اپنے ہونٹوں کو لیجا کر آہستہ سے بولی صاحب اپنا نام تو بتاو۔۔۔ وہ شخص نیم کھلی آنکھوں کے ساتھ تانیہ کو دیکھنے لگا اور پھر بولا لڑکی تم خوش قسمت ہو کہ آج تم کیپٹن مکیش کی بانہوں میں ہو۔ آج رات تمہیں اتنا مزہ دوں گا کہ تم ہمیشہ یاد رکھو گی۔ یہ کر اس نے تانیہ کے برا سے نظر آنے والے مموں پر اپنی نظریں جما دیں اور اپنا ایک ہاتھ تانیہ کے نرم نرم مموں پر رکھ کر انہیں دبانے لگا۔
تانیہ نے بھی اپنی ایک ٹانگ سے کیپٹن مکیش کا لن دبانا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر بولی صاحب آج رات مجھے ایسے چودنا کہ جیسے پہلے کسی نے نا چودا ہو۔ کیپٹن نے کہا تجھے میں اپنی رنڈی بنا کر چودوں گا، فکر نہ کر تیری چوت بار بار پانی چھوڑی گے۔ اب تانیہ نے کہا صاحب کیا آپ روز آتے ہو یہاں؟؟؟ کیپٹن نے تانیہ کے مموں پر نظریں جمائے کہا نہیں میں تو ممبئی کا رہنے والا ہوں، ایک پاکستانی کتے کو پکڑے کے لیے یہاں آیا تھا مگر کرنل صاجب نے بتایا کہ وہ یہاں سے چلا گیا ہے اس لیے آج صبح کی فلائٹ سے میں واپس ممبئی جا رہا ہوں۔ یہ سن کر تانیہ نے نے اپنا ہاتھ کیپٹن مکیش کے لن پر رکھ لیا اور اسکو پینٹ کے اوپر سے ہی سہلانے لگی۔ تانیہ کے ہاتھوں کو اپنے لن پر محسوس کر کے کیپٹن کا لن اور بھی زیادہ اکڑنے لگا تھا۔
اب کی بار تانیہ نے کہا صاحب ممبئی میں کہاں رہتے ہو آپ؟؟ مجھے ممبئی کے کسی ڈانس کلب میں نوکری دلوا دو نا۔ میں ساری زندگی آپکی داسی بن کر رہوں گی۔ پھر روز ڈانس کلب میں ڈانس کرنے کے بعد آپکو اپنے جسم کی گرمی سے سکون دیا کروں گی۔ تانیہ کی یہ بات سن کر کیپٹن نے کہا تیرے جیسی رنڈیاں جامنگر میں ہی ٹھیک ہیں، ممبئی کے ڈانس کلب میں ہائی کلاس ڈانسرز ہوتی ہیں جو باہر سے ڈانس سیکھ کر آتی ہیں۔ ویسے بھی میں شادی ہوں۔ میری پتنی میرے ساتھ ہے صبح وہ میرے ساتھ ہی ممبئی جائے گی اور ممبئی میں میرا کسی لڑکی کے ساتھ کوئی چکر نہیں۔ میری پتنی کو تمہارے بارے میں پتا چل گیا تو وہ تمہیں جان سے مار دے گی۔ بس آج کی رات ہی میرے لوڑے سے اپنی چوت کی پیاس بجھا اور پھر مجھے بھول جا۔
یہ سن کر تانیہ مسکرائی اور بولی اچھا میں آپکے لیے جوس لے کر آتی ہوں۔ جوس پی کر آپ فریش ہوجاو پھر میرے جسم سےخوب کھیلنا۔ یہ کہ کر تانہ اپنی گانڈ ہلاتی ہوئی کمرے میں پڑے فریج کی طرف گئی اور وہاں موجود فریج سے ایک جوس کا ڈبہ نکالا اور گلاس میں ڈال کر اس میں ایک گولی بھی ڈالی اور اچھی طرح ہلا کر کیپٹن کے پاس آگئی کیپٹن جو اب بیڈ پر بیٹھ چکا تھا اس نے تانیہ کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔ تانیہ بھی بلا جھجک اسکی گود میں بیٹھ گئی ، کیپٹن نے اپنے ہونٹ تانیہ کے مموں پر رکھے اور انہیں چوسنے لگا جب کہ جوس کا گلاس تانیہ کے ہاتھ میں ہی تھا۔ اس نے بھی کیپٹن کو پورا موقع دیا اپنے ممے چوسنے کا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب کیپٹن نے تانیہ کے مموں کو چوس چوس کر لال کر دیا اور اسکا برا اتارنے لگا تو تانیہ نے کیپٹن کو روک دیا اور بولی صاحب پہلے یہ جوس پی لو پھر میرے سارے کپڑے اتار دینا۔
یہ سن کر کیپٹن نے تانیہ کے ہاتھ سے جوس کا گلاس پکڑا اور ایک ہی گھونٹ میں سارا گلاس خالی کر دیا۔ اب کیپٹن نے دوبارہ سے تانیہ کے مموں کو گھورنا شروع کیا جو ابھی تک اسکی گود میں بیٹھی تھی۔ پھر کیپٹن کا ہاتھ تانیہ کی نرم و ملائم کمر پر رینگتا ہوا اسکے برا کی ڈوریوں تک آیا جن کو تانیہ نے گرہ لگا کر باندھا ہوا تھا۔ کیپٹن نے اسکے برا کی ڈوریاں کھول کر برا اتار دیا اور دور پھینک دیا۔ تانیہ کے 36 سائز کے بھرے ہوئے خوبصورت ممے کیپٹن نے دیکھے تو وہ تو پاگل ہی ہوگیا۔ مکھن ملائی جیسے گورے چٹے ممے اور پھر انکی شیپ دیکھ کر کیپٹن کی رال ٹپنکنے لگی تھی۔ کیپٹن نے اپنی زبان نکالی اور تانیہ کے چھوٹے چھوٹے نپلز پر پھیرنے لگا۔ تانیہ کی ایک سسکی نکلی اور اس نے اپنا ہاتھ کیپٹن کی گردن کے گرد لیپٹ لیا ، تانیہ نے کچھ دیر پہلے میجر دانش کے لن کو اپنی گانڈ پر محسوس کیا تھا تب سے اسکی چوت میں کھجلی ہو رہی تھی اور اب اپنے نپلز پر کیپٹن مکیش کی زبان لگنے سے تانیہ مدہوش ہونے لگی۔
کیپٹن نے اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کا بایاں مما پکڑ لیا تحا اور اسے دبا رہا تھا جبکہ دوسرا مما کیپٹن کے منہ میں تھا۔ وہ کبھی اپنے منہ سے تانیہ کا مما چوستا تو کبھی اپنے دانتوں سے تانیہ کے نپل کو کاٹتا۔ ابھی کیپٹن نے جی بھر کر تانیہ کے مموں پر پیار نہیں کیا تھا مگر اسکو اپنا سر بھاری بھاری محسوس ہونے لگا۔ اسے چکر آنے لگے تھے۔ وہ کچھ دیر کو رکا اور پھر دوبارہ سے تانیہ کے مموں سے دودھ پینے لگا، مگر پھر اسکو ایسے لگا جیسے وہ اپنے ہوش کھو رہا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کیپٹن بیڈ پر بے ہوش پڑا تھا جبکہ تانیہ اپنے کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے پہن رہی تھی۔ تانیہ جن کپڑوں میں یہاں آئی تھی وہی کپڑے پہن کر اس نے کیپٹن کے کپڑوں کی تلاشی لی اور اس میں سے جو کچھ نکلا اسکو اپنی شرٹ کے گلے میں ہاتھ ڈال کر برا کے اندر رکھ لیا۔ اب تانیہ نے ایک بار میجر کی پینٹ کی طرف دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے لن کھڑا ہوا نظر آرہا تھا مگر اب وہاں کسی لن کے آثار نہیں تھے۔
اب تانیہ نے آخری بار کیپٹن کی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں اسے ایک کار کی چابی مل گئی۔ تانیہ نے چاپی اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالی اور کمرے سے پرس اٹھا کر اس میں کچھ ضروری چیزیں ڈال کر باہر نکل گئی۔ باہر نکل کر اب وہ میجر دانش کو ڈھونڈنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اسے میجر دانش نظر آگیا جو جولی اور سوزینا کے کمرے سے نکل رہا تھا۔ تانیہ نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا اور بولی یہ جناب آپ اس کمرے میں کیا کر رہے تھے۔ میجر نے تانیہ کو سر سے پیر تک دیکھا اور بولا ابھی جو تمہارے ہاٹ ہاٹ ڈانس نے اور تمہارے نرم نرم جسم نے آگ لگائی تھی اسے بجھا رہا تھا۔ اپنے جسم کی تعریف سن کر تانیہ تھوڑا سا شرمائی اور اسکے چہرے پر لالی آگئی۔ پھر اس نے دانش کو کہا یہاں ہم کرن وشال سے بچتے پھر رہے ہیں اور جناب کو جسم کی گرمیاں نکالنے کی پڑی ہوئی ہے۔ یہ سن کر میجر نے کہا شکر کرو ادھر ہی نکال لی ہے جسم کی گرمی، ورنہ تمہارا ڈانس دیکھ کر جو میرا حال ہوا ہے راستے میں تمہیں ہی پکڑ لینا تھا میں نے۔ یہ سن کر تانیہ نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے میجر کو گھور کر دیکھا اور بولی شرم کرو کچھ۔ یہ کہ کر وہ میجر دانش کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ لے گئی اور ایک کمرے کے سامنے جا کر رک گئی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور میجر دانش کو اندر آنے کو کہا۔ میجر اندر آگیا تو تانیہ نے کمرہ باہر سے بند کر لیا اور میجر کو بتایا کہ وہ شخص کیپٹن مکیش ہے اور وہ ممبئی سے تمہیں پکڑنے ہی آیا تھا مگر کرنل وشال نے آرمی کو آرڈر دے دیا ہے کہ میجر دانش جامنگر سے اب فرار ہوچکا ہے لہذا جامنگر میں اسکی تلاش ختم کر دی جائے۔
تانیہ نے مزید بتایا کہ اب وہ کیپٹن مکیش صبح کی فلائٹ سے انڈین ائیر لائنز کے ذریعے اپنی بیوی کے ساتھ ممبئی جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنی جینز کی جیب سے گاڑی کی چابی نکالی اور میجر دانش کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگی ۔ میجر نے پوچھا یہ کیا؟ تو وہ بولی کیپٹن کی گاڑی کی چابی۔ دانش نے کہا تم پاگل ہو کیپٹن کی گاڑی پر ہم فوری پکڑے جائیں گے اس نے فوری سے پہلے اپنی گاڑی گم ہونے کی اطلاع دے دینے ہے۔ اس پر تانیہ نے اٹھلاتے ہوئے کہا مسٹر صرف تم ہی عقلمند نہیں، تھوڑی عقل ہم میں بھی ہے۔ میں نے کیپٹن کو نیند کی گولی دے دی ہے اب وہ کل رات سے پہلے نہیں اٹھے گا جبکہ ہم صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جائیں گے۔ اسکے بعد تانیہ نے میجر کے سامنے ہی اپنی برا میں ہاتھ ڈالا تو میجر اوپر اٹھ کر تانیہ کی برا میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا، تانیہ کا ہاتھ برا میں گیا اور واپس آیا تو اس میں کچھ کاغذات تھے۔ تانیہ نے میجر کو اپنے برا کی طرف یوں دیکھتے ہوئے پایا تو بولی ابھی ابھی جولی کے کمرے سے نکلے ہو، اس نے تمہاری پیاس نہیں بجھائی کیا جو ابھی بھی ندیدوں کی طرح مجھے دیکھ رہے ہو؟؟؟
یہ سن کر مجر نے کہا جو بات تم میں ہے وہ جولی میں کہاں۔ یہ کہ کر میجر نے تانیہ کو آنکھ ماری اور اسکے ہاتھ سے کاغزات لیکر دیکھنے لگا۔ یہ کیپٹن مکیش کےممبئی کے ٹکٹ تھے۔ ایک کیپٹن مکیش جب کہ دوسرا اسکی بیوی کا تھا۔ میجر نے دونوں ٹکٹ سنبھال کر اپنے پاس رکھ لی، مزید کاغزات میں کیپٹن مکیش کا آئی ڈی کارڈ اور آرمی کے کچھ کارڈز تھے۔ ان میں ایک کارڈ کرنل وشال کا بھی تھا ۔ میجر دانش نے کارڈ پر میجر کا نام پڑھا اور نمبر دیکھا۔ لینڈ لائن نمبر کے ساتھ سٹی کوڈ بھی موجود تھا کوڈ ممبئی کا ہی تھا اسکا مطلب تھا کہ کرنل وشال اصل میں ممبئی میں ہوتا ہے مگر میجر دانش کو پکڑے کی غرض سے جامنگر آیا ہے۔
کرنل وشال کا کارڈ دیکھ کر میجر دانش نے فوری فیصلہ کیا کہ اب چھپ چھپ کر بھاگنے کی بجائے کرنل وشال کو ٹف ٹائم دینے کا وقت آگیا ہے، اب کرنل سے بچ کر بھاگنا نہیں بلکہ اس پر حملہ کرنا ہے۔ یہ سوچ کر میجر نے تانیہ کو کہا کہ اب کچھ دیر کے لیے سوجاتے ہیں نیند پوری کر کے صبح صبح یہاں سے نکلیں گے اور آگے کا پلان بنائیں گے۔
تانیہ نے اوکے کہا اور سیدھی سامنے پڑے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی اور فوری طور پر دانش کی طرف منہ کر کے بولی تم نے وہیں صوفے پر سونا ہے بیڈ پر صرف میں لیٹوں گی۔ دانش تانیہ کی بات سن کر مسکرایا اور بولا جیسے محترمہ کا حکم۔ یہ کہ کر میجر پاس پڑے صوفے پر لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں اسکے خراٹوں کی آوازیں آنے لگیں تھیں۔
================================================== ==================
جب سے وجی نے مری کے ہوٹل میں پنکی کے ہونٹوں کا رس چوسا تھا وہ اسکا پہلے سے زیادہ دیوانہ ہوگیا تھا، ہونٹوں کے ساتھ ساتھ وجی نے کافی دیر اپنے ہاتھ سے پنکی کے نرم نرم چوتڑ بھی دبائے تھے اور ایک بار اسکے مموں کے ابھاروں پر بھی اپنا ہاتھ رکھا تھا جسکو پنکی نے فورا ہی ہٹا دیا تھا۔ وجی بھی اب اپنی بہن عالیہ اور والدین کے ساتھ کراچی واپس آچکا تھا۔ مگر اسکے ذہن سے ابھی تک پنکی کے ساتھ گزرے ہو چند خوبصورت لمحات مٹ نہیں پائے تھے۔ وہ ہر وقت پنکی کے بارے میں سوچتا اور اسکی خوبصورتی اور ہونٹوں کے لمس کو یاد کرتا رہتا۔ کراچی سے واپس آکر اسکی ایک دو بار پنکی سے ملاقات تو ہوئی مگر اسے کوئی ایسا موقع نہیں مل پایا تھا کہ وہ دوبارہ سے پنکی کے لبوں سے اپن لب ملا سکے۔ اسکی پنکی سے ملاقات کے دوران اسکی بہن عالیہ بھی ساتھ تھی اور اس نے اپنے بھائی کی بے تابی کو محسوس کر لیا تھا۔ عالیہ نے اس بارے میں پنکی سے بات کرنے کی ٹھان لی اور ایک دن موقع غنیمت جان کر اور پنکی کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کراس نے پنکی سے پوچھ ہی لیا کہ کیا وہ وجی سے پیار کرتی ہے؟؟؟
عالیہ کے اس اچانک سوال پر پنکی حیران بھی ہوئی اور ساتھ میں اسکے پنک پنک گالوں پر لالی بھی اتر آئی اور اس نے شرماتے مسکراتے اپنا منہ نیچے کر لیا۔ عالیہ کہ پنکی کی اس ادا پر بے تحاشہ پیار آیا اور اس نے عالیہ کا چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، واہ مہارانی صاحبہ کا تو خوشی سے لال ہوگیا ہے۔ اب کی بار پنکی عالیہ کو کوئی جوان دینے کی بجائے اسکے گلے سے لگ گئی۔ یہ عالیہ کے لیے واضح جواب تھا کہ پنکی اسکے بھائی وجی سے پیار کرتی ہے۔ اب عالیہ نے پنکی کو بتایا کہ وہ اس بارے میں اپنے ممی ڈیڈی سے بات کرے گی اور وہ لوگ پھر تمہارے گھر تمہارا ہاتھ مانگنے آئیں گے اور میں تمہیں اپنی بھابھی بنا کر اپنے گھر لے آوں گی۔ یہ سن کر پنکی کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور ایک بار پھر وہ عالیہ سے گلے لگ گئی مگر بولی کچھ نہیں۔
پھر واقعی کچھ دن کے بعد وجی کے والدین عالیہ کے ساتھ پنکی کے گھر آئے اور پنکی کی والدہ سے پنکی کا ہاتھ مانگ لیا۔ پنکی کو جب اس بارے میں پتا لگا تو وہ شرم کے مارے کچن میں ہی چھپ گئی۔ عفت نے اپنی نند کو یوں شرماتے دیکھا تو اسکا ماتھا چوم لیا اور بولی چلو جا کر اپنے ہونے والے ساس سسر کو چائے پیش کرو۔ پنکی نے سر پر دوپٹہ رکھا اور شرماتی ہوئی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ساس سسر کے سامنے جا کر چائے رکھی۔ عالیہ نے پنکی کو آتے دیکھا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور پنکی نے چائے ٹیبل پر دکھ دی تو عالیہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور اسکی پیشانی پر ایک بوسہ دیا۔ پھر پنکی نے آگے بڑھ کر اپنے ہونے والے سسر جی سے پیار لیا پھر ساس سے پیار لینے گئی تو ساس صاحبہ نے پنکی کو اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا۔ پنکی نے کہا کہ میں آپکو چائے بنادوں تو اسکی ہونے والی ساس نے کہا چائے عالیہ بنا لے گی تم ادھر ہمارے پاس بیٹھو۔
خود پنکی کی امی بھی بہت خوش تھیں اور عفت بھی خوش تھی۔ کچھ ہی دیر میں نادیہ بھی کمرے سے تیار ہو کر نکلی اور بڑی خوشدلی کے ساتھ آنے والے مہمانوں سے ملی اور پنکی کے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرا۔ کافی دیر سب لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ پھر عمیر بھی گھر آگیا تو گھر میں مہمانوں کو دیکھ کر حیران ہوا۔ ابھی تک اسکو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ اسکی چھوٹی بہن کا رشتہ آیا ہے۔ عمیر کی نظر عالیہ پر پڑی تو اسنے فورا ہی پہچان لیا، وہ مری میں عالیہ سے ملا تھا۔ عمیر بھی سب مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر وجی کے ابو نے عمیر سے بات شروع کی اور اپنے آنے کا مقصد عمیر کے سامنے رکھ دیا۔ عمیر نے ایک نظر اپنی والدہ کی طرف دیکھا جنکے چہرے پر خوشی کے واضح آثار موجود تھے اور پھر پنکی کی طرف دیکھا جو چھوئی موئی بنی اپنی ساس کے ساتھ بیٹھی تھی۔ نادیہ بھی عمیر کے ساتھ آکر بیٹھ چکی تھی اس نے بھی عمیر کو رضامندی کا اظہار کرنے کو کہا اور عفت کی بھی یہی مرضی تھی۔
سب کی مرضی دیکھ کر عمیر نے وجی کے ابو کہ ہاں کر دی مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہم ابھی کوئی رسم نہیں کریں گے۔ پہلے دانش بھائی واپس آجائیں تو انکے واپس آنے کے بعد منگنی کی رسم بھی ہوجائے گی اور پھر مناسب موقع دیکھ کر شادی بھی کر دیں گے۔ تب تک آپکی پنکی ہمارے پاس امانت ہے۔ عمیر کے اس فیصلے سے سبھی گھر والے خوش تھے اور وجی کے ابو نے بھی اس پر رضامندی کا اظہار کر دیا کہ بڑے بھائی کی موجودگی خوش آئند ہوگی کسی بھی رسم کے لیے۔ اسکے بعد سب لوگ بیٹھے گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔ رات کا ٹائم ہوا تو مہمانوں نے اجازت چاہی، اور تھوڑی ہی دیر میں تینوں مہمان گھر سے چلے گئے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد عمیر نے بھی پنکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسکو پیار دیا اور ڈھیروں دعائیں دی اور پنکی وجی کا چہرہ اپنی آںکھوں میں سجائے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
دو گھنٹے بعد پنکی کے موبائل پر کال آئی، سکرین پر وجی کا نام تھا، پنکی نے کال اٹینڈ کی تو آگے سے وجی کی پیار بھری آواز سنائی دی۔ وجی کی آواز سنتے ہی پنکی کے چہرے پر شرم کے بادل چھا گئے ۔ پہلے تو پنکی سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ اسکی جھجھک ختم ہوئی تو پنکی کو تب ہوش آیا جب ایک گھنٹے کے بعد کال خود ہی بند ہوگئی۔ اسکے بعد وجی کی دوبارہ سے کال آئی اور اس نے اگلے دن پنکی کو کالج ٹائم کے دوران ملنے کا کہا۔ پنکی تھوڑی دیر انکار کرنے کے بعد وجی کی بات ماننے پر راضی ہوگئی اور دونوں نے پروگرام بنایا کہ کالج ٹائم کے دوران دونوں کہیں دور لانگ ڈرائیو پر جائیں گے۔ اسکے بعد کال بند ہوگئی اور پنکی وجی کے سپنے دیکھنے لگی۔
کرنل وشال امجد کو جونا گڑھ کی طرف روانہ کرنے کے بعد خود اس کچے راستے پر آگے موجود قصبوں کی طرف جا رہا تھا۔ اپنے ساتھ موجود ایک گاڑی کو اس نے جونا گڑھ کی طرف بھیج دیا تھا تاکہ وہ امجد "سردار سنجیت سنگھ" کی جاسوسی کر سکے۔ گوکہ کرنل وشال کا امجد پر شک ختم ہوگیا تھا اور اسے یقین تھا کہ یہ دانش کا ساتھی نہیں بلکہ دانش نے اسکو زبردستی اپنے ساتھ رکھا، مگر پھر بھی کرنل کے ذہن میں کہیں نہ کہیں بے یقنینی کی کیفیت بھی موجود تھی۔ اسی لیے اس نے اپنے چند آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ جونا گڑھ تک امجد کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ راستے میں یا جونا گڑھ پہنچ کر کسی سے رابطہ تو نہیں کرتا۔ اور اگر وہ کسی سے رابطہ کرے تو فوری طور پر پتا لگایا جائے کہ اس نے کن لوگوں سے رابطہ کیا اور انکو کیا کہا۔
کچھ ہی دیر کے بعد کرنل وشال سنگھ اپنے قافلے کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں موجود تھا۔ رات کا وقت تھا، قصبے کے لوگ دور سے ہی گاڑیوں کی لائٹس دیکھ کر اٹھ گئے تھے۔ ایسے چھوٹے قصبوں میں عموما مرد حضرات گھر کے باہر ہی سوتے ہیں۔ لہذا جیسے ہی انکی آنکھوں میں لائٹ پڑی انکی آنکھ کھل گئی اور جرائم پیشہ افراد ہونے کی وجہ سے انہوں نے فورا ہی اپنے اپنے گھروں سے اپنی بندوقیں نکال لی تھیں کہ مبادا آنے والا ہمارے مویشی یا دوسرا قیمتی سامان ہتھیانے کی کوشش کریں گے۔ جب گاڑیاں قصبے میں پہنچ گئیں تو انہیں احساس ہوا کہ یہ آرمی اور پولیس کی گاڑیاں ہیں۔ اگر خالی پولیس کی گاڑیاں ہوتیں تو وہ پولیس پر فورا ہی فائرنگ کھول دیتے مگر آرمی سے پنگا لینے کی ہمت ان میں نہیں تھی اس لیے قصبے کے سرپنچ نے سب لوگوں کو اپنی بندوقیں نیچی رکھنے کا کہ دیا۔
کرنل وشال بھی دور سے ہی اندازہ لگا چکا تھا کے سامنے کھڑے لوگوں کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔ مگر وہ جانتا تھا کہ جب انہیں پتا لگے گا کہ یہ آرمی کی گاڑیاں ہیں تو وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ اس لیے کرنل بلا خوف آگے بڑھتا رہا۔ آبادی سے کچھ دور کرنل نے گاڑیاں رکوا دیں اور گاڑی سے اتر کر ان لوگوں کی طرف بڑھنے لگا۔ کرنل کے ارد گرد مسلح فوجی موجود تھے جو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھے جبکہ پولیس والے بھی پیچھے پیچھے اپنی بندوقوں کا رخ قصبے والوں کی طرف کیے چلے آرہے تھے۔
کرنل وشال نے ان لوگوں کے پاس پہنچ کر انہیں پرنام کیا تو انکا سر پنچ آگے آکر کھڑا ہوگیا اور اپنا تعارف کروایا۔ کرنل وشال نے اونچی آواز میں انہیں بتایا کہ آپ لوگ فکر نہیں کریں ہمارا یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں کو نقصان پہنچانا ہرگز نہیں بلکہ ہم یہاں ایک دہشت گرد کو ڈھونڈنے آئے ہییں جو پاکستان سے ہماری سرحد میں داخل ہوا ہے اور ایک بار پکڑَ جانے کے باوجود ہماری قید سے بھاگ نکلا۔ اب اسکے ساتھ ایک دہشت گرد اور بھی موجود ہے اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق وہ جامنگر بائی پاس سے جونا گڑھ جانے کی بجائے اس کچے راستے پر اسی قصبے کی طرف آئے ہیں۔ اگر آپکو انکے بارے میں کوئی معلومات ہیں تو ان کو پکڑنے میں ہماری مدد کریں ۔ آپکی مدد سے ہی ہم ان دشمنوں کو پکڑ سکتے ہیں۔
کرنل کی بات ختم ہوئی تو قصبے کے سرپنچ نے کرنل وشال کو کہا، ہم لوگ چھوٹے موٹے جرائم ضرور کرتے ہیں، مگر کسی دشمن کو پناہ دینے کی سوچ بھی نہیں سکتے۔ دشم ملک کا کوئی بھی شخص ہمارے ہتھے چڑھ جائے تو ہم اسکو زندہ نہ چھوڑیں اسکو پناہ دینا یا اسکی مدد کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کرنل وشال نے پھر سے کہا کہ یہ دہشت گرد پیسے کا استعمال کر کے لوگوں کو خریدتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ میں سے کسی نے پیسے کے لیے انکی مدد کی ہو۔ اگر آپکو کسی ایسے شخص کے بارے میں معلوم ہے تو ہمیں بتائیں اور اگر آپ نے کسی انجان شخص کو اور اسکے ساتھ لڑکی کو دیکھا ہے تو وہ بھی بتائیں۔ سر پنچ نے اس بار کرنل کو للکارا اور غصے سے بولا کہ ایک بار کہ دیا ہم کسی دہشت گرد کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہمیں پیسوں سے خریدا نہیں جا سکتا۔ ہم چور ہیں ڈاکو ہیں مجرم ہیں مگر دیش دروہی ہرگز نہیں۔ ہم اپنے دشمن ملک سے آئے کسی بھی اتنگ وادی کی مدد کرنا پاپ سمجھتے ہیں۔ آپ بار بار ہم پر یہ الزام لگا کر ہماری توہین کر رہے ہو۔ اب کی بار کرنل وشال نے سپاٹ لہجے میں کہا سرپنچ جی آپ بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں۔ مگر سرکار ہمیں اس ملک کی حفاظت کرنے کی پگار دیتی ہے۔ اور جب تک ہم اپنی تسلی نہیں کر لیتے ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ ہمیں اس قصبے میں موجود ہر گھر کی تلاشی لینی ہوگی کیا پتا کسی نے گھر میں چھپا کر رکھا ہو؟؟ کرنل کی بات سن کر قصبے کے سرپنچ نے باقی لوگوں کی طرف دیکھا اور ان سے مخاطب ہوکر بولا میں کرنل صاحب کو تلاشی لینے سے ہرگز نہیں روکوں گا یہ انکا فرض ہے، مگر انکی تلاشی لینے سے پہلے ہی مجھے بتادو اگر کسی نے پناہ دی ہے کسی دہشت گرد کو تو انہیں ابھی کرنل صاحب کے حوالے کر دیا جائے۔ میرا وعدہ ہے کہ اسکو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن اگر تلاشی کے دوران کسی کے گھر سے دہشت گرد برآمد ہوئے تو اسکی خیر نہیں پھر۔
تمام لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ کرنل کو تلاشی لینے دی جائے، ہم نے کسی کو بھی پناہ نہیں دی۔ یہ سن کر کرنل وشال نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اوروہ 2، 2 کی ٹولیوں میں وہاں موجود گھروں میں گھس کر تلاشی لینے چلے گئے جبکہ کرنل وشال اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ باہر ہی موجود رہا۔ قریب آدھا گھنٹہ کرنل کے آدمی قصبے میں موجود گھروں کی تلاشی لینے کے بعد ناکام لوٹ آئے اور بتایا کہ سر یہاں کوئی موجود نہیں۔ سر پنچ نے فخریہ نظروں سے کرنل کی طرف دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا ہم دیش دروہی ہرگز نہیں۔
کرنل نے سرپنچ کا شکریہ ادا کیا اور اگلے قصبے کی طرف جانے کا ارادہ کیا، ابھی وہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایک عورت بھاگتی ہوئی آئی اور اس نے بتایا کہ اسکے ساتھ والے گھر میں ایک لڑکا رہتا ہے جسکی عمر 18 سال ہے۔ اسکا باپ شہر سے باہر گیا ہوا ہے اور کچھ ہی دیر پہلے میں نے اسے اپنی گاڑی میں کہیں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسکے ساتھ گاڑی میں ایک لڑکی بھی موجود تھی جسکی شکل میں صحیح سے دیکھ نہیں پائی اور وہ آدھے گھنٹہ پہلے یہاں سے نکلے ہیں۔
کرنل نے اسکی بات سن کر دوبارہ سے اپنے اس اہلکار کو بلا لیا جو جامنگر اور اس قصبے کے بارے میں معلومات رکھتا تھا۔ کرنل نے اس عورت کو کہا کہ اس آدمی کو راستہ سمجھاو کہ وہ کس طرف گئے ہیں۔ تو اس عورت نے اپنی گجراتی زبان میں اسے ایک راستہ سمجھایا جو چھوٹے چھوٹے گاوں اور قصبوں سے ہوتا ہوا جونا گڑھ کے قریب جا کر نکلتا تھا۔ اس اہلکار نے کرنل کو بتایا کہ یہ سارا راستہ کچہ ہے اور جہاں مین روڈ سے 3 گھنٹے میں یہ فاصلہ طے ہونا ہے اس کچے راستے سے 4 گھنٹے لگ جائیں گے۔ کرنل وشال نے فوری اپنے ساتھیوں کو گاڑیوں میں بیٹھنے کا کہا اور سب سے آگے اپنی گاڑی رکھتے ہوئے اس اہلکار کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ وہ راستہ بتا سکے۔ کرنل کے قافلے میں سب کی سب پجارو یا ڈالے وغیرہ تھے جو کچے راستے پر خاصی رفتار سے اپنا سفر طے کر سکتے تھے اسکے برعکس کار کے لیے یہ سفر مشکل تھا اور کار زیادہ رفتار کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس لیے کرنل کو یقین تھا کہ ان لوگوں کے جونا گڑھ پہنچنے سے پہلے کرنل وشال ان تک پہنچ جائے گا۔
امجد سست رفتاری کے ساتھ جونا گڑھ کا سفر طے کر رہا تھا۔ اسے علم تھا کہ راستے میں ابھی اور بھی پولیس کے ناکوں پر اسے روکا جائے گا مگر اب وہ مطمئن تھا کہ جب کرنل وشال اسے نہیں پہچان پایا تو یہ عام پولیس والے سرسری طور پر گاڑی کی چیکنگ کرنے کے بعد اسکو چھوڑ دیں گے۔ اور ہوا بھی یہی، امجد کو راستے میں جہاں کہیں بھی روکا گیا اس نے اپنا راشن کارڈ نکال کر دکھایا جس پر سردار سنجیت سنگھ کا نام درج تھا، پولیس اہلکاروں نے امجد کی گاڑی کی تلاشی لی اور اسکے آگے جانے دیا۔ یہ کام ہر پولیس ناکے پر ہوا اور امجد بغیر پریشان ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ ہر ناکے پر اپنی چیکنگ کرواتا رہا۔
اپنی طرف سے وہ مکمل مطمئن تھا مگر اسکو فکر تھی تو دانش اور تانیہ کی۔ اس نے اپنے طور پر تو کرنل وشال کو چکمہ دے دیا تھا اور اور اب کرنل وشال کچے راستوں سے ہوتا ہوا میجر دانش کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر امجد جانتا تھا کہ ہر ناکے پر بسوں کو بھی چیک کیا جائے گا، اور جس بس میں اس نے میجر دانش اور تانیہ کو بٹھایا تھا اسکی بھی چیکنگ ہوگی۔ اور اگر کہیں یہ لوگ پکڑے گئے تو سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ پہلے آئی ایس آئی کی طرف سے اسکو میجر دانش کی رہائی کا ٹارگٹ ملا تھا، اس سے پہلے کہ امجد اپنا کوئی پلان بناتا میجر دانش خود ہی چھوٹ آیا تھا، اور اب نہ صرف اسکے پکڑے جانے کا دوبارہ سے خوف تھا بلکہ ساتھ میں تانیہ بھی پکڑی جاتی تو مسئلہ اور بھی بڑھ سکتا تھا۔ صرف یہی ایک بات تھی جو امجد کو پریشان کر رہی تھی۔
امجد کو جونا گڑھ کی طرف جاتے ہوئے کوئی ایک گھنٹے سے اوپر کا ٹائم گزر چکا تھا اس دوران امجد نے نوٹ کیا تھا کہ ایک گاڑی مسلسل امجد کا پیچھا کر رہی ہے۔ گو کہ پیچھے آنے والی گاڑی کافی فاصلے پر تھی مگر پھر بھی امجد کا شک تھا کہ یہ گاڑی اسی کے پیچھے آرہی ہے جو ہو نہ ہو کرنل وشال نے ہی بھیجی ہے۔ امجد نے اپنی تسلی کے لیے چند مقامات پر اپنی رفتار بہت دھیمی کر دی اور انتظار کرنے لگا کہ پیچھے آنے والی گاڑی آگے نکلتی ہے یا نہیں۔ مگر امجد کا شک درست نکلا، جیسے ہی امجد اپنی رفتار دھیمی کرتا پیچھے آنے والی گاڑی بھی آہستہ ہوجاتی اور جب امجد اپنی گاڑی کی رفتار بڑھاتا تو پیچھے آنے والی گاڑی بھی رفتار تیز کر لیتی۔
اب جونا گڑھ 1 گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ رات کے 3 یا 4 بجے کا ٹائم ہورہا تھا اور امجد کو ٹائلٹ جانے کی بھی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک موڑ تھا اور موڑ سے آگے ایک گیس پمپ تھا۔ امجد نے اچانک ہی اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا دی اور موڑ مڑنے کے بعد گاڑی گیس پمپ کی طرف لے گیا۔ یوں تو اسے یقین تھا کہ پیچھے آنے والی گاڑی اسی کا پیچھا کر رہی ہے، مگر وہ پھر بھی مکمل تسلی کرنا چاہتا تھا۔ موڑ مڑتے ہی امجد نے اپنی گاڑی سڑکے سے اتار کر کھڑی کر دی مگر پمپ سے دور رکھی کیونکہ وہ چاہتا تھا پیچھے آنے والی گاڑی جیسے ہی موڑ مڑے اسکو امجد کی گاڑی نظر آجائے۔
گاڑی سڑک سے اتار کر امجد گاڑی سے نکلا پمپ پر موجود ٹائلٹ میں چلا گیا۔ بغیر ٹائم ضائع کیے جب امجد باہر نکلا تو اس نے دیکھا پیچھے آنے والی گاڑی اب امجد کی گاڑی سے کچھ آگے کھڑی تھی اور ایک فوجی پمپ پر کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہو۔ امجد ٹائلٹ سے نکلا اور ٹک شاپ پر چلا گیا وہاں سے ایک جوس کا ڈبہ اور بسکٹ کا پیکٹ اٹھا کر باہر آنے لگا۔ دکاندار نے پیسے مانگے تو امجد نے باہر کھڑے فوجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ باہر میرے افسر کھڑے ہیں وہ دیں گے پیسے۔ فوجی کو دیکھ کر دکاندار خاموش ہوگیا۔ اور اپنے کاموں میں لگ گیا۔ امجد خاموشی سے باہر آیا مگر اب کی بار وہ سیدھا فوجی کے پاس گیا۔ فوجی نے امجد کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ انجان بن کر ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے وہ امجد کو جانتا ہی نہیں اور نہ ہی وہ امجد کی تلاش میں تھا۔ امجد اس فوجی کے پاس گیا اسکو ست سری آکال کہا اور پھر بولا کہ صاحب جی میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے میں نے یہ جوس کا ڈبہ اور بسکٹ اس دکان سے لیے ہیں آپ انہیں میری جگہ پیسے دے دیں؟؟
فوجی نے غصے سے امجد کی طرف دیکھا اور بولا میں کیوں دوں تمہاری جگہ پیسے؟؟؟ امجد بولا صاحب جی بڑی مہربانی ہوگی آپکی۔ مجھے آپکے بڑے صاحب جی نے جونا گڑھ جانے کا حکم دیا ہے اگر پیسے نہیں دیں گے تو یہ دکاندار مجھے یہاں سے جانے نہیں دے گا اور مجھے دیر ہوجائے گی۔ اگر آپ پیسے دے دیں تو میں ابھی چلا جاوں گا اور ٹائم کے ساتھ آپکے بڑے صاحب کی کی بھیجی ہوئِ جگہ پہنچ سکوں گا۔ اس فوجی نے یہ بات سنی تو بولا اچھا اچھا ٹھیک ہے تم جاو میں دے دوں گا پیسے۔ امجد شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور اور بسکٹ کا پیکٹ کھول کر سامنے رکھ لیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے دوبارہ سے سفر شروع کر دیا۔ اس فوجی نے جب دیکھا امجد جا رہا ہے تو وہ فورا دکان پر گیا اسکو پیسے دیے اور دوبارہ سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر امجد کا پیچھا کرنے لگا۔
اس ساری کروائی میں امجد صرف اس فوجی کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ نہ تو اسے سخت بھوک لگی تھی اور نہ ہی وہ اتنا بے شرم تھا کہ راہ چلتے کسی سے بھی پیسے مانگ لے۔ لیکن یہ حرکت کر کے امجد نے فوجی کے دل میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ اگر یہ کوئی دہشت گرد ہے تو اسکو تو فوج سے دور بھاگنا چاہیے، مگر یہ بغیر خوف کھائے ایک فوجی کے پاس آ کر اس سے مدد مانگ رہا ہے۔ اور امجد کا یہ تیر ٹھیک نشانے پر جا کر لگا تھا۔ فوجی نے پیچھا کرتے ہوئے اب کرنل وشال کو کال کی اور اسکو ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ امجد کسی بھی طور پر ان لوگوں کے ساتھ ملوث نہیں ہوسکتا۔ بس مجبوری کی وجہ سے یہ انکے ساتھ تھا۔ کرنل وشال نے بھی امجد کی طرف سے گرین سگنل دے دیا مگر پیچھا جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کیا معلوم وہ لوگ اس سے پٹرول پمپ پر ملنے آئیں۔ لہذا تم دھیان رکھنا جیسے ہی کوئی آئے اسکو فورا دھر لینا۔
ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد امجد جونا گڑھ شہر کے پہلے پٹول پمپ پر اپنی گاڑی کھڑی کر کے کھڑا تھا۔ جبکہ پیچھے آنے والا فوجی پٹرول پمپ سے کافی دور اپنی گاڑی کھڑی کر کے کھیتوں میں سے ہوتا ہوا پٹرول پمپ کی دیوار کے قریب پہنچ گیا تھا اور امجد پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ امجد کی پیٹھ فوجی کی طرف تھی ، وہ اس بات سے تو بے خبر تھا کہ فوجی کہاں کھڑا ہے مگر اتنا ضرور جانتا تھا کہ کہیں نہ کہیں سے وہ امجد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جب پٹرول پمپ پر کھڑے ہوئے امجد کو 5 سے 6 گھنٹے ہوگئے اور وہاں کوئی نہ آیا تو اس فوجی نے دوبارہ کرنل وشال کو فون کیا تو کرنل وشال نے اب اسے جونا گڑھ شہر میں داخل ہونے کا کہا اور وہاں موجود آرمی کیمپ میں بلا لیا۔ اور ساتھ ہی اسکو حکم دیا کہ سردار سنجیت سنگھ کو کہو اب وہ اس پٹرول پمپ سے نکل جائے اور کسی محفوظ جگہ پر جا کر چھپ جائے۔
فوجی نے ایسے ہی کیا، وہ واپس اپنی گاڑی تک گیا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر واپس پٹرل پمپ پر آیا وہاں رک کر وہ امجد سے ملا۔ امجد نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا صاحب جی آپ وہی ہو نہ جس پہلے بھی پٹرول پمپ پر ملے تھے مجھے؟؟ تو فوجی نے کہا ہاں میں وہی ہوں۔ میرے صاحب نے مجھے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سردار جی سے کہو اب یہاں کوئی دہشت گرد نہیں آنے والا آپ بے فکر ہو کر جا سکتے ہو یہاں۔ مگر اپنی حفاظت کے لیے زیادہ باہر نہ نکلنا بلکہ کسی محفوظ ٹھکانے پر جا کر چھپ جاو۔ امجد نے فوجی کا شکریہ ادا کیا مگر اپنے ذہن میں موجود پریشانی کو دور کرنے کے لیے فوجی سے پوچھا کہ وہ دہشت گرد جن کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ مل گئے یا نہیں؟ فوجی نے کہا نہیں معلوم نہیں انکو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ وہ کہیں بھی نہیں مل پائے اور نا ہی اب انکا کوئی سراغ مل رہا ہے۔ یہ سن کر امجد کو تسلی ہوئی اور اس نے سوچا کہ دانش اور تانیہ خیریت سے جونا گڑھ پہنچ چکے ہونگے۔ کیونکہ امجد کوئی 6 گھنٹے پٹرول پمپ پر رک کر بظاہر دہشت گردوں کا انتظار کرتا رہا تھا اور وہ بس جس میں اس نے دانش اور تانیہ کہ بٹھایا تھا کوئی 7 گھنٹے قبل جونا گڑھ پہنچ چکی ہوگی۔ اب امجد نے فوجی کو بتایا کہ یہاں اسکے کچھ دوست رہتے ہیں میں انکی طرف جا کر چھپ جاوں گا اس وقت وہی ایک محفوظ جگہ ہے میرے لیے۔ فوجی نے اسکی بات پر بغیر کوئی توجہ دیے اوکے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
امجد بھی اب پٹرول پمپ سے نکلا اور جونا گڑھ میں موجود اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اسکا پیچھا نہیں ہوگا اور وہ اطمینان کے ساتھ سرمد کاشف، دانش اور تانیہ کو مل سکتا ہے اور پھر آگے کا پلان بنایا جائے گا۔ کچھ ہی دیر میں مختلف راستوں سے ہوتا ہوا امجد اپنے مطلوبہ ٹھکانے پر پہنچ چکا تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اس کالونی میں امجد نے ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا جو اس نے کشمیر کی ایک فیملی کو کرائے پر دیا ہوا تھا۔ اور امجد کا جب دل کرتا وہ یہاں آجاتا تھا۔
امجد جب اس گھر میں پہنچا تو سامنے کمرے میں رانا کاشف اور سرمد گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ امجد نے ادھر ادھر دیکھا مگر نہ تو اسے تانیہ کہیں نظر آئی اور نہ ہی میجر دانش۔ پھر امجد دوسرے کمروں میں گیا مگر وہاں بھی اسے کوئی دکھائی نہ دیا تو اوپر والے پورشن میں کشمیری فیملی سے امجد نے جا کر دانش اور تانیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ رات 3 بجے کے قریب بس 2 آدمی ہی آئے ہیں جو اس وقت نیچے ہی ہونگے انکے علاوہ اور کوئی نہیں آیا یہاں پر۔ یہ خبر امجد پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی۔ جو پہلا خیال اسکے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ کرنل وشال تانیہ اور میجر کو پکڑ چکا ہے اور پٹرول پمپ سے واپس جانے کا کہنا اور اپنے اعتماد کا اظہار کرنا کرنل کی کوئی چال ہوگی تاکہ وہ امجد کا پیچھا کر کے باقی لوگوں کر بھی پکڑ سکیں۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی امجد کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔
صبح 6 بجے تانیہ کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ سے اٹھ کر دانش کو اٹھانے صوفے کی طرف بڑھی مگر وہاں دانش موجود نہیں تھا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر جولی کے کمرے میں گئی مگر وہاں جولی اور سوزینا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔ پھر تانیہ نے کچھ مزید کمرے چیک کے اور باہر گلی میں بھی دیکھ کر آئی مگر دانش کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔ تانیہ واپس اپنے کمرے میں آئی اور تو میجر دانش سامنے ہی بیڈ پر بیٹھا تھا۔ تانیہ میجر کو کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئی اور بولی کہ کہاں تھے تم ؟؟؟ میجر نے کہا تمہیں اس سے کیا تم تو ایسے سوئی پڑی تھی جیسے اپنی اماں جی کے گھر سوئی ہوئی ہو۔ میجر کی بات سن کر تانیہ نے کہا کل سارا دن تو تمہارے ساتھ خوار ہوتی رہی ہوں کی کہیں بھاگ رہی تھی تو کبھی کہیں تھکاوٹ کی وجہ سے اچھی نیند آگئی۔ مگر تم بتاو تم کہں تھے ؟؟؟
میجر نے بتایا کہ تمہارے کیپنٹ مکیش کے کمرے تک گیا تھا۔ اس سے کچھ کام تھا۔ تانیہ نے حیران ہوکر پوچھا تمہیں اس سے کیا کام پڑگیا اور تم وہاں گئے ہی کیوں؟؟ تو میجر نے اسے کہا چھوڑو تمہارا اس سے کیا تعلق۔ بس جس کام کے لیے میں گیا تھا وہ ہوگیا۔ اب تم تیاری کرو ہمیں ممبئی جانا ہے۔ ممبئی کا نام سنتے ہی تانیہ بولی ممبئی کیوں؟؟ ہمیں تو جونا گڑھ جانا ہے؟؟ امجد وہاں ہمارے انتظار میں ہے۔ تانیہ کی بات سن کر میجر نے تانیہ کو کہا اگر تم کرنل وشال کی قیدی بننا چاہتی ہو تو شوق سے جاو جونا گڑھ۔ وہ پاگل کتے کی طرح تمہیں اور مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ جونا گڑھ اور جامکوٹ کے تمام لوکل چینلز پر ہمارے بارے میں خبریں دی جارہی ہیں۔ وہاں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ممبئی بہت بڑا شہر ہے وہاں ہمیں آسانی سے رہنے کی جگہ بھی مل جائے گی اور اسکے ساتھ ساتھ کرنل وشال پر کاری ضرب بھی لگا سکیں گے۔ کرنل وشال کے بارے میں بہت سی معلومات میں حاصل کر چکا ہوں۔ اب تیاری کرو نکلیں یہاں سے۔
کچھ ہی دیر میں تانیہ اور اور دانش کیپٹن مکیش کی جیپ میں بیٹھے شہر سے دور جا رہے تھے۔ ایک پلازے کے قریب پہنچ کر میجر دانش نے گاڑی روک لی۔ صبح صبح کا ٹائم تھا پلازے کا مین گیٹ بند پڑا تھا اور باہر ایک چوکیدار بیٹھا تھا۔ میجر دانش نے چوکیدار سے کہا ہمیں مونا جی سے ملنا ہے۔ چوکیدار بولا مونا جی 11 بجے اپنا کام شروع کرتی ہیں ابھی تم لوگ جاو بعد میں آنا۔ میجر دانش نے چوکیدار کو دوبارہ کہا کہ میری بات ہوگئی ہے مونا جی سے تم انہیں خبر دو کہ کیپٹن مرلی وجے آئے ہیں ان سے ملنے۔ کیپٹن کا لفظ سنتے ہی چوکیدار کھڑا ہوا اور پاس کیبن میں موجود فون سے مس مونا کا نمبر ملا یا اور انہیں کیپٹن مرلی کے آنے کی خبر دی۔ مونا جی نے کہا انہیں میرے کمرے تک پہنچا دو۔ چوکیدار نے اب چھوٹا گیٹ کھولا اور دانش کو بولا آپ لوگ گاڑی یہیں کھڑی رہنے دو میں آپکو مونا جی کے کمرے تک لے جاتا ہوں۔ میجر دانش نے گاڑی سے چابی نکالی اور تانیہ کا ہاتھ پکڑ کر چوکیدار کے پیچھے چلنے لگا۔ چیکدار پلازے کی بلڈنگ میں موجودلفٹ کا استعمال کرتے ہوئے چوتھی منزل پر گیا اور ایک کمرے کے سامنے رک گیا چوکیدار نے کمرہ ناک کیا تو اندر سے مونا جی کی آواز آئی کم اِن۔
چوکیدار پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا اور میجر دانش کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ میجر دانش تانیہ کو لیے اندر چلا گیا۔ اندر ایک 40 سالہ ادھیڑ عمر خاتون نے میجر دانش اور تانیہ کا استقبال کیا۔ میجر دانش سے ہاتھ ملاتے ہوئے مونا نے اسے کیپٹن مرلی کہ کر مخاطب کیا جبکہ تانیہ سے ملتے ہوئے اسے مسز مرلی کہ کر مخاطب کیا۔ تانیہ ابھی صحیح صورتحال سمجھ نہیں پائی تھی اور دانش سے کچھ پوچھنے ہی لگی تھی کہ دانش کی آواز آئی مونا جی اب جلدی جلدی اپنا کام کریں ہمارے پاس ٹائم بہت کم ہے۔ یہ سن کر مونا تانیہ اور دانش کو لیکر اندر ایک کمرے میں گئی۔ یہ ایک بیوٹی پارلر جیسا کمرہ تھا۔ جہاں ایک 25 سالہ لڑکی اور بھی کھڑی تھی۔
مونا جی نے مسز مرلی یعنی تانیہ کو ایک چئیر پر بیٹھنے کو کہا اور پاس کھڑی لڑکی کو بولی میڈیم جی کا ایک دم زبردست میک اپ کر دو اور ہاف ہئیر کٹ کر کے ہئیر سٹائل بھی بناو۔ تب تک میں مسٹر مرلی کا میک اپ کر لوں۔ تانیہ ابھی تک سمجھ نہیں پائی تھی کہ یہ صبح صبح میک اپ کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ اور اس ٹائم کونسا بیوٹی پارلر کھلا ہوتا ہے؟؟ اور دانش کو کیسے پتا کہ یہاں جامنگر میں اس پلازے میں ایک بیوٹی پارلر بھی موجود ہے۔ مگر وہ چپ چاپ بیٹھی اپنا میک اپ کروانے لگی۔ لڑکی نے پہلے تانیہ کا ہئیر کٹ کیا۔ تانیہ کے لمبے گھنے بال جو اسکی قریب قریب اسکی کمر کے برابر تھے اب محض کندھوں تک رہ گئے تھے۔ اسکے علاوہ فرنٹ ہئیر کٹ نے تانیہ کو بالکل ہی نئی لُک دے دی تھی۔ کچھ ہی دیر میں تانیہ کا میک اپ بھی ہوگیا تھا، اب وہ کسی بھی اینگل سے کشمیری یا کسی جہادی تنظیم کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔ بلکہ تانیہ اب دکھنے میں ہائی کلاس فیملی کی جوان لڑکی کے روپ میں تھی۔ اب اسی لڑکی نے تانیہ کو ساتھ والے روم میں لیجا کر اسے وارڈ روب سے کچھ کپڑے دکھائے۔ یہاں سب کپڑے ہائی کلاس فیملیز کے مطابق تھے۔ تانیہ نے ایک سوٹ پسند کر لیا۔
سکن ٹائٹ پینٹ کے ساتھ ایک لوز سی شرٹ جو تانیہ کے پیٹ پر آکر ختم ہورہی تھی پہن کر تانیہ اپنے آپ کو شیشے میں دیکھنے لگی۔ لائٹ میک اپ، ہئیر کٹ اور اس ڈریس میں تانیہ واقعی کسی ماڈرن گھرانے کی خاتون لگ رہی تھی۔ اب اس لڑکی نے تانیہ کو اسکے ساتھ ہائی ہیل جوتے بھی لا کر دیے جنکو پہن کر تانیہ اور بھی خوبصورت دکھ رہی تھی اور ساتھ بلیک کلر کے گلاسز اسکی شخصیت کو کافی پر اعتماد بنا رہے تھے۔ تانیہ جو کچھ دیر پہلے ایک سیکسی عربی لڑکی کے روپ میں ڈانس کلب میں ڈانس کر رہی تھی اب ایک مکمل صوبر اور گریس فل لڑکی کے روپ میں کھڑی تھی۔ تیار ہو کر جب وہ باہر نکلی تو دانش کو دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ میجر دانش اس وقت دانش کم اور کیپٹن مکیش زیادہ لگ رہا تھا۔ مونا جی نے میجر دانش کا میک اپ کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ اب اسکا گورا رنگ کچھ کالا ہوگیا تھا اور اگر کوئی کیپٹن میکش کی تصویر دیکھ کر میجر دانش کو دیکھتا تو اسے لگتا اسکے سامنے کیپٹن مکیش ہی کھڑا ہے۔
10 منٹ کے مزید میک اپ ٹچ کے بعد دانش بھی اپنی چئیر سے کھڑا ہوگیا اور جولی نے اسے بھی کچھ مردانہ کپڑے دکھائے جن میں سے میجر دانش نے ایک جوڑے کا انتخاب کیا اور پھر مونا جی کو ایک بڑی رقم دے کر واپس کیپٹن مکیش کی جیپ میں آکر بیٹھ گیا۔ میجر کے ہاتھ میں ایک بیگ بھی تھا جو پہلے نہیں تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر میجر نے گاڑی سٹارٹ کی اور ہائی وے نمبر 6 سے ہوتا ہوا ائیر پورٹ روڈ پر چڑھ گیا۔ اب تانیہ کو سمجھ لگ گئی تھی کہ رات جو ممبئی کے ٹکٹ میجر دانش کو ملے تھے میجر انہی کا استعمال کر کے ممبئی جائے گا اور کیپٹن مکیش کی تصویر دکھا کر اس نے مونا جی سے اپنا میک اپ اسطرح کروایا کہ انکی شکل اب کافی ملتی جلتی لگنے لگی تھی۔
تانیہ نے میجر دانش سے پوچھا کہ باقی سب کچھ تو مجھے سمجھ آگیا مگر تم نے مونا جی کو کیپٹن مکیش کی تصویر کیسے دکھائی؟؟؟ میجر دانش نے جیب سے ایک موبائل فون نکالا اور تانیہ کو پکڑا دیا۔ یہ سامسنگ کمپنی کا گلیکسی ایس 5 موبائل تھا۔ تانیہ نے پوچھا یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟؟؟ تو میجر نے بتایا کہ تم تو گھوڑے بیچ کر سو گئی تھی مگر میں تھوڑی سی نیند پوری کرنے کے بعد اس کمرے میں گیا جہاں تم نے کیپٹن مکیش کو بے ہوش کیا تھا۔ وہاں جا کر میں نے اسکی مزید تلاشی لی کہ شاید کوئی کام کی چیز مل جائے۔ یہ موبائل ملا، اس سے میں نے کرنل وشال کے بارے میں بھی بہت سی معلومات حاصل کر لی ہیں اور ساتھ ساتھ کیپٹن مکیش کے بارے میں بھی۔ اسی موبائل سے کیپٹن مکیش کی تصویریں بنائیں اور پھر موبائل سے ہی سرچ کیا جامنگر میں میک اپ آرٹسٹ کے بارے میں تو مجھے مونا جی کے فیس بک پیج کے بارے میں پتا لگا وہاں سے انکا موبائل نمبر لے کر انہیں کال کی اور اپنے آپ کو کیپٹن ظاہر کر کے انہیں مجبور کیا کہ وہ صبح 7 بجے ہمیں ملنے کا موقع دیں۔ اور میرا میک اپ اس طرح کر دیں کہ میری شکل دہشت گرد مکیش سے ملے۔ یہ کہ کر دانش نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور گاڑی چلانا جاری رکھی۔ پھر میجر دانش نے بتایا کہ کیپٹن مکیش کی 9 بجے کی فلائیٹ ہے ممبئی کی۔ ہم اسی فلائیٹ سے کیپٹن مکیش اور مسز مکیش بن کر ممبئی جائیں گے۔ وہاں آرمی ریذیڈینشل کالونی میں کرنل وشال کا گھر ہے جہاں اسکی ایک بیٹی ٹینا رہتی ہے اور اسکے علاوہ کچھ ملازم ہیں گھر میں۔ کرنل خود جامنگر اور جونا گڑھ مجھے تلاش کر رہا ہے جب تک اسے میری خبر ہوگی میں اسکے مشن کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا لگا لوں گا کہ آخر وہ پاکستان سے کونسی خفیہ معلومات لیکر انڈیا آیا ہے۔
اور کوشش کروں گا کہ یہ بھی پتا لگا سکوں پاکستان میں کونسا نیٹ ورک کرنل وشال کی مدد کرتا ہے۔ تانیہ نے پوچھا کہ ہم رہیں گے کہاں ممبئی میں؟ تو دانش نے کہا اسکا بھی بندوبست میں کر چکا ہوں۔ وہاں کے ایک جرائم پیشہ گروہ سے میری بات ہوئی ہے انکو بھاری رقم دے کر ایک ٹھکانہ حاصل کرلوں گا میں۔ اور اگر کرنل وشال ممبئی آ بھی جائے تو وہ مجھے ڈھونڈنے کے لیے جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانوں کی طرف نہیں آئے گا بلکہ آزادی پسند تنظیموں کے ٹھکانوں پر مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا، اس طرح میں سکون سے اپنا کام کرسکتا ہوں۔
اب میجر دانش اور تانیہ مسٹر اینڈ مسز مکیش کے روپ میں ائیر پورٹ پر موجود تھے۔ ریسیپشن پر میجر دانش نے کیپٹن مکیش کا کارڈ دکھایا تو ریسیپشن پر موجود خاتون نے میجر دانش کو خوشآمدید کہا اور ساتھ ہی تانیہ یعنی مسز مکیش کا حال چال پوچھنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد میجر دانش اور تانیہ ممبئی جانے والی فلائیٹ میں موجود تھے اور جہاز ٹیک آف کر چکا تھا۔ ایک گھنٹے اور 10 منٹ کی مختصر فلائٹ کے بعد قریب 10:30 بجے فلائیٹ ممبئی ائیر پورٹ پر لینڈ کر چکی تھی۔ آئیر انڈیا کی فلائٹ میں میجر دانش نے اپنے ذہن میں مزید پلاننگ کی اور کسی حد تک تانیہ کو بھی اپنے پلان کے بارے میں اطلاع دی۔
ائیر پورٹ سے باہر نکل کر میجر دانش نے ایک ٹیکسی لی اور نہرو نگر میں موجود ایک گھر کا پتا بتایا۔ راستے میں میجر دانش نے ایک جگہ ٹیکسی رکوائی۔ ٹیکسی رکی تو میجر دانش نیچے اترا اور آس پاس موجود لوگوں کا جائزہ لینے لگا۔ ان میں سے ایک شخص جو قدرے غریب لگ رہا تھا میجر دانش اسکی طرف بڑھا اور اس سے کہا کہ میں کافی مشکل میں ہوں اپنے موبائل سے مجھے ایک کال تو کرنے دو۔ اس شخص نے میجر دانش کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بولا کیا صاحب، اتنا پیسا ہے تمہارے پاس اور ایک موبائل نہیں رکھ سکتے کیا؟؟؟ میجر دانش نے گلیکشی ایس 5 لہراتے ہوئے کہا یار موبائل تو ہے مگر میں ابھی ابھی کینڈا سے آیا ہوں تو میرے پاس سِم موجود نہیں اور مجھے بہت ارجنٹ کال کرنی ہے۔ میجر کی توقع کے عین مطابق اس شخص نے مطالبہ کر دیا کہ صاحب کال کر لو مگر اس کال کے ہم 50 روپے لے گا تم سے۔ میجر دانش نے کہا ٹھیک ہے یار تم 100 روپے لے لینا مجھے کال کرنے دو۔ میجر نے اسکا موبائل لیکر ایک شخص کو کال کی اور اسے بتایا کہ وہ ممبئی پہنچ چکا ہے اور کچھ ہی دیر میں اسکی بتائی ہوئِ جگہ پر پہنچ جائے گا۔ اب اسے فوری طور پر اپنا مطلوبہ سامان چاہیے۔ دوسری سائڈ پر موجود شخص نے کہا تم بے فکر ہوجاو تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔ یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ میجر دانش نے جیب سے 100 کا نوٹ نکالا اور اس شخص کو دے دیا ساتھ میں موبائل بھی واپس کر دیا۔
اس شخص نے خوشی خوشی 100 کا نوٹ جیب میں رکھ لیا، میجر دانش واپسی کے لیے جانے لگا مگر پھر اچانک اس شخص کی طرف مڑا جیسے کوئی چیز بھول گیا ہو۔ اس شخص نے میجر کو اپنی طرف آتا دیکھا تو بولا کیا صاحب کوئی اور کال بھی کرنی ہے؟؟ تو میجر دانش نے اسے کہا یار کال تو بار بار کرنی پڑے گی، ابھی میں باہر سے آیا ہوں تو میرے پاس اپنا آئی ڈی کارڈ بھی نہیں اگر تم اپنی سِم مجھے دے دو تو میں تمہیں 500 روپے دوں گا۔ اس پر وہ شخص بولا نہ صاحب ہمیں بھی کال کرنی ہوتی ہے ہم تم کو اپنی سم نہیں دے گا۔ میجر نے کہا اچھا یار 1000 روپے لے لو۔ اب اس شخص نے تھوڑا سا سوچا کہ اس شخص کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور فوری سم نکال لی موبائل سے مگر ساتھ میں کہا صاحب 2000 لے گا ہم اس سِم کا۔ میجر دانش نے کہا یار 500 روپے میں سم مل جاتی ہے میں تو تمہیں 1000 دے رہا ہوں چلو تم 1500 لے لو۔ وہ شخص بولا نہ صاحب 2000 میں سودا طے کرنا ہے تو سم لے جاو نہیں تو جاو۔ دانش نے جیب سے 2000 روپے نکالے اس شخص کو دیے اور واپس گاڑی میں آگیا۔
ٹیکسی اب نہرو نگر کی طرف جارہی تھی۔ پیچھے بیٹھی تانیہ نے پوچھا کہ یہ ڈرامہ کیوں کیا؟؟؟ نئی سِم لے لیتے؟؟ تو میجر دانش نے تانیہ کو منہ چڑاتے ہوئے کہا کہیں بھی اپنا پروف چھوڑنا بے وقوفی ہوگی۔ اگر میں کیپٹن مکیش کے نام پر بھی سیم نکلوا لوں تو انہیں پتا چل جائے گا کہ میں ممبئی میں ہوں اور وہ آسانی سے اس سِم کو ٹریس کر سکتے ہیں۔ مگر یہ ایک راہ چلتے شخص کی سِم ہے اسکو کوئی ٹریس نہیں کرے گا۔ یہ سن کر تانیہ خاموشی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں نہرو نگر کے ایک چھوٹے سے گھر میں موجود تھے۔ گھر پہنچ کر تانیہ نے مونا جی کی طرف سے لائے گئے شاپنگ بیگ کھول کر دیکھے تو ان میں کچھ لیڈیز کپڑے موجود تھے اور 2 جینٹس سوٹ تھے۔ گھر پہنچ کر میجر دانش نے اپنا چہرہ گرم پانی سے اچھی طرح دھویا تاکہ یہاں کیپٹں مکیش کا کوئی جاننے والا دانش کو مکیش سمجھ کر ملنے ہی نہ چلا آئے۔ چہرہ اچھی طرح صاف کرنے کے بعد میجر دانش واش روم سے باہر آگیا اور دوبارہ سے ایک نمبر پر کال کی۔ اور مطلوبہ سامان منگوایا۔
کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی اور ایک کالا سا چھوٹے قد کا شخص میجر دانش کو ایک چھوٹا سا بیگ پکڑا کر واپس چلا گیا۔ میجر نے تانیہ کے سامنے ہی بیگ کھولا تو اس میں سے 2 چھوٹے ریوالر برامد ہوئے اور ساتھ میں گولیوں کے کچھ راونڈز بھی تھے۔ اسکے علاوہ ایک گاڑی کی چابی کچھ نقد رقم بھی بیگ میں موجود تھی۔۔۔ تانیہ نے یہ سب کچھ دیکھا تو بولی یہ ریوالور کی تو سمجھ آتی ہے جرائم پیشہ لوگوں سے با آسانی مل جاتے ہیں مگر یہ گاڑی کی چابی اور ساتھ نقد رقم؟؟؟ یہ کیا چکر ہے؟؟/ میجر دانش نے مسکراتے ہوئے کہا تمہیں کہا تھا نہ کہ اب ہم نے بھاگنے اور چھپنے کی بجائے کرنل وشال پرکاری ضرب لگانی ہے تو میں نے کیپٹن مکیش کے فون سے پاکستان میں رابطہ کیا اور انہوں نے انڈیا میں موجود اپنے لوگوں کے ذریعے یہ چیزیں پہنچائی ہیں۔
یہ کہ کر میجر دانش نے گاڑی کی چابی ہاتھ میں پکڑی اور لفافہ کمرے میں موجود ایک الماری میں رکھ کر گھر سے باہر چلا گیا۔ 5 منٹ بعد میجر دانش واپس آیا تو اسکے پاس ایک لیپ ٹاپ کا بیگ موجود تھا۔ تانیہ نے پوچھا اب یہ کہاں سے آیا؟ میجر دانش نے بتایا باہر کھڑی گاڑی میں یہ لیپ ٹاپ تھا۔ میجر نے لیپ ٹاپ آن کیا اور بیگ میں سے ہی ریلائنس موبائلز کی ایک تھری جی ڈیوائس نکال کر انٹرنیٹ آن کر لیا۔ تانیہ نے دانش سے پوچھا انٹرنیٹ پر کیا کرو گے؟؟؟ میجر دانش نے تانیہ کی طرف دیکھا اور پھر آہستہ سے بولا گندی گندی تصویریں دیکھنے لگا ہوں دیکھو گی تم؟؟؟ یہ سن کر تانیہ نے دانش کو گھورا اور بولی خود ہی دیکھو ، یہ کہ کر تانیہ سامنے موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔ میجر نے تانیہ کو کہا ساتھ ہی کچن ہے وہاں جا کر کچھ کھانے کا ہی بندوبست کر دو پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ تانیہ بولی یہ جو گند دیکھنے لگے ہو اسی سے بھر لو نا پیٹ اپنا۔ میجر نے ایک قہقہ لگایا اور بولا ارے یار ان چیزوں سے تو کبھی پیٹ نہیں بھرتا، پلیز کچھ کھانے کا بندوبست کرو۔ تانیہ اٹھی اور ساتھ موجود کچن میں جا کر دیکھنے لگی کہ وہاں کیا کچھ موجود ہے۔
میجر دانش نے اب انٹرنیٹ ممبئی کے نقشے دیکھنے لگا، یہاں اس نے مختلف شراب خانے، ڈانس کلب، یونیورسٹیز ، آمی کالونیز، ریلوے سٹیشنز، بس سٹینڈز وغیرہ کے پوائنٹس ذہن نشین کر لیے۔ اسکے ساتھ ساتھ اس نے کرنل وشال کی بیٹی ٹینا کی فیس بک پروفائل کھول کر بھی اسکو چیک کرنا شروع کیا۔ یہ پروفائل میجر کو کیپٹن مکیش کےموبائل سے ملی تھی۔ ٹینا ممبئی یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہی تھی ۔ میجر نے نہرو نگر سے ممبئی یونیورسٹی تک کا روڈ میپ دیکھا اور اپنے پاس موجود کیپٹں موکیش کے موبائل میں گوگل میپ میں پوائنٹس سیو کر لیے۔ یہ راستہ بالکل آسان تھا کیونکہ ممبئی ائیر پورٹ کے ساتھ ہی ممبئی یونیورسٹی تھی جہاں سے کچھ دیر پہلے میجر دانش ٹیکسی میں بیٹھ کر آیا تھا۔
اسکے بعد میجر نے آرمی ریذیڈینشل کالونی تک کا راستہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لیا اور اسکو بھی اپنے موبائل میں محفوظ کر لیا۔ ٹینا کی فیس بک پروفائل سے ہی میجر دانش کو یہ بات بھی پتا لگی کہ وہ اکثر اوقات ساکشی گیلری کے قریب واقع مشہور نائٹ کلب ، کلب علیبی بھی جاتی ہے۔ اور ٹینا کے فیس بک سٹیٹس کے مطابق اسکو آج بھی اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اسی کلب میں جانا تھا۔ میجر دانش نے اس کلب تک جانے کا راستہ بھی ذہن نشین کر لیا۔ یہ سارا کام کر کے میجر دانش فارغ ہوا تو تانیہ بریڈ گرم کر چکی تھی ساتھ میں چائے بنا کر انڈے اور جام کے ساتھ ٹرے میں رکھے وہ میجر دانش کے پاس آگئی۔
دونوں نے ملکر ناشتہ کیا تو میجر دانش نے تانیہ کو اپنے اگلے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ ناشتہ کرتے ہی تانیہ اور میجر دانش دونوں گھر سے نکل گئے، گھر کو باہر سے لاک کرنے کے بعد گھر کے ساتھ ہی کھڑی کالے رنگ کی ہنڈا سِٹی میں بیٹھے اور ممبئی یونیورسٹی کی طرف جانے لگے۔ گو کہ میجر دانش کو کافی حد تک راستہ پتا لگ چکا تھا مگر پھر بھی ٹائم بچانے کی خاطر میجر نے اپنا موبائل تانیہ کو پکڑا دیا جو اب گوگل میپ سے میجر دانش کو راستہ بتا رہی تھی۔ 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد میجر دانش یونیورسٹی آف ممبئی کے سامنے موجود تھا۔ میجر سب سے پہلے ٹینا کے ڈیپارٹمنٹ گیا اور وہاں موجود ریسیپشن پر اپنا تعارف کیپٹن مرلی کے نام سے کروایا اور سرسری طور پر جیب سے ایک کارڈ نکال کر دکھا دیا۔ ریشیپشن پر موجود خاتون کیپٹن کا لفظ سن کر ہی سیدھی ہوگئی تھی کارڈ دیکھنے کی اس نے زحمت نہیں کی میجر دانش نے بھی کیپٹن مکیش کا کارڈ واپس جیب میں رکھ لیا اور شکر کیا کہ اسکی توقع کے مطابق خاتون نے کارڈ چیک نہیں کیا اور نام سن کر ہی تعاون کے لیے تیار ہوگئی۔ اب میجر دانش نے ریشیپشن پر موجود خاتون سے ٹینا کے بارے میں پوچھا تو خاتون نے بتایا کہ وہ اس وقت لیکچر روم میں ہیں اور کچھ ہی دیر میں انکا یہ آخری لیکچر ختم ہوجائے گا تو آپ ان سے مل سکتے ہیں۔
دانش نے اسے بتایا کہ مجھے ملنا نہیں ہے ٹینا سے، بس آپ نے میری اتنی مدد کرنی ہے کہ مجھے اسکی گاڑی دکھا دیں۔ مجھے کرنل صاحب نے بھیجا ہے مس ٹینا کی سیکورٹی کی غرض سے۔ خفیہ اطلاع کے مطابق ہمسایہ ملک کے کچھ خفیہ ایجینسی کے لوگ مس ٹینا کو اغوا کرنا چاہتے ہیں تاکہ کرنل وشال سے اپنی مرضی کی باتیں منوا سکیں۔ یہ سن کر ریسیپشن پر موجود خاتون کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھے جا سکتے تھے، وہ میجر کو فوا ہی پارکنگ ایریا میں لے گئی اور وہاں موجود شخص سے ٹینا کی گاڑی کے بارے میں پوچھ کر میجر کو گاڑی دکھا دی۔ میجر نے اس خاتون کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کا نمبر ماڈل اور کلر ذہن نشین کرتا ہوا واپس اپنی گاڑی میں چلا گیا جہاں تانیہ اسکا انتظار کر رہی تھی۔ جانے سے پہلے میجر دانش نے خاتون کو ایک بار پھر اپنا نام بتایا اور بولا یہ ٹاپ سیکریٹ بات ہے، مس ٹینا کوبھی اسکے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہیے نہیں تو وہ پریشان ہوجائیں گی۔
گاڑی میں بیٹھنے کے بعد دانش نے تانیہ کو بھی ٹینا کی گاڑی کے بارے میں معلومات دیں اور ساتھ موجود ایک سٹور کے قریب اپنی گاڑی لگا کر کھڑا ہوگیا۔ قریب 2 بجے میجر نے دیکھا کہ دور یونیورسٹی بلڈنگ سے کچھ لوگ نکل رہے ہیں اور پارکنگ ایریا کی طرف جا رہے ہیں۔ پھر پارکنگ سے گاڑیاں نکلنا شروع ہوئیں تو کچھ ہی دیر بعد تانیہ نے ایک گاڑی کی طرف اشارہ کیا جو گیٹ سے باہر نکلنے ہی والی تھی۔ میجر دانش گاڑی دیکھتے ہی پہچان گیا تھا یہ ٹینا کی ہی گاڑی تھی۔ بی ایم ڈبلیو بی 4 سیریز کی یہ کنورٹ ایبل کار بھی کالے رنگ کی ہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی اور اسکے ساتھ فرینٹ سیٹ پر ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود لڑکی یقینا ٹینا ہی تھی میجر دانش نے گاڑی چلائی اور آہستہ رفتار کے ساتھ اس گاڑی کے پیچھے جانے لگا۔ ایک گھنٹے تک مسلسل اس گاڑی کا پیچھا کرنے کے بعد میجر دانش ممبئی کے آرمی ریذیڈینشیل ایریا میں موجود تھا۔ یہاں ٹینا کی گاڑی بڑے بنگلہ نما گھر میں چلی گئی جبکہ دانش کی گاڑی اس گھر کے سامنے سے ہوتی ہوئی اس ایریا سے باہر آگئی اور اب دوبارہ سے نہرو نگر جا رہی تھی۔ میجر دانش کرنل وشال کی رہائش گاہ دیکھ چکا تھا جو اسکے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
امجد کے ذہن میں جیسے ہی یہ خیال آیا اس نے فوری طور پر سرمد اور کاشف کو نیند سے جگایا اور ان سے میجر دانش اور تانیہ کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا تو امجد کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا، امجد کویوں پریشان دیکھ کر سرمد نے پوچھا کیا ہوا ؟ سب خیریت تو ہے نہ؟؟ امجد نے اسے بتایا کہ ابھی تک وہ دونوں نہیں پہنچے نہ تانیہ نے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے فکر ہے کہ وہ دونوں کرنل وشال کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ امجد کے بات سن کر سرمد نے فورا کاشف کی طرف دیکھا اور بولا میں نے تمہیں کہا تھا کہ پچھلی بس میں وہ دونوں ہیں اور اسی چیک پوسٹ پر وہ دونوں پکڑے گئے ہونگے۔ سرمد کی بات سن کر امجد کو یقین ہوگیا کہ میجر دانش اور تانیہ پکڑے گئے ہیں۔ اس نے فوری طور پر سرمد اور کاشف کو اپنا سامان باندھنے کا کہا اوراوپر جا کر کشمیری فیملی کو بھی خطرے سے آگاہ کر دیا۔ یوں تو وہ فیملی عام شہری کی حیثیت سے ہی رہ رہے تھے اور انکا امجد کی سرگرمیوں سے قطعا کوئی تعلق نہ تھا مگر کشمیری ہونے کے ناطے انہیں امجد سے ہمدردی ضرور تھی اور وہ جانتے بھی تھے کہ امجد کسطرح انڈین آرمی کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
امجد نے انہیں خطرے سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اپنا ضروری سامان ساتھ لیا اور چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ نیچے امجد اور اسکے ساتھی بھی جانے کے لیے تیار تھے کہ کمرے میں موجود ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ 2 مرتبہ گھنٹی بجنے کے بعد فون بند ہوگیا۔ امجد تھوڑی دیر کو رکا اور دوبارہ سے فون آنے کا انتظار کرنے لگا۔ 2 بار فون کی گھنٹی بجی اور پھر سے بند ہوگیا۔ اب امجد کے چہرے پر خوشی کے آثار آئے اور تیسری بار پھر فون آیا اور اس بار تیسری گھنٹی بھی بجی امجد خوشی سے چلایا یہ تانیہ کا فون ہے اور فورا آگے بڑھ کر فون اٹینڈ کر لیا۔
یہ اصل میں انکا کوڈ ورڈ تھا انجان نمبر سے آنے والا فون امجد ریسیو نہیں کرتا تھا۔ اس لیے تانیہ کو جب بھی امجد کو انجان نمبر سے فون کرنا ہوتا تو وہ دو بار فون کار کے 2 بیل ہونے پر فون بند کر دیتی تھی اور تیسری بار فون کرتی تو امجد سمجھ جاتا تھا کہ یہ تانیہ کا فون ہے۔ امجد نے جیسے ہی فون ریسیو کیا اور ہیلو کہا تو آگے سے تانیہ کی آواز سنائی دی۔ تانیہ نے امجد کو سلام کیا اور پوچھا کیسے ہیں آپ بھیا؟؟؟ امجد نے تانیہ کو جواب دینے کی بجائے کہا تم لوگ کہاں ہو اور ابھی تک پہنچے کیوں نہیں ہم کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔ امجد کی بات ختم ہوئی تو تانیہ بولی میں اس وقت تو کچن میں ہوں اور آپکے میجر صاحب کے لیے ناشتہ بنا رہی ہوں۔ اور آپ ہمارا انتظار نہ کریں ہم نہیں آئیں گے۔ تانیہ کی بات سن کر امجد تھوڑا حیران ہوا اور بولا کیا مطلب تم لوگ نہیں آو گے اور ابھی تم ہو کہاں پر؟؟؟ تانیہ نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم بس ہم خیریت سے ہیں ۔ باقی پھر مناسب وقت دیکھ کر آپکو میں بتاوں گی کہ ہم کہاں ہیں۔
یہ کہ کر تانیہ نے فون بند کر دیا اور امجد نے سکون کا سانس لیا۔ امجد نے سرمد اور کاشف کو بھی بتایا کہ وہ دوںوں ٹھیک ہیں مگر کہاں پر ہیں یہ تانیہ نے نہیں بتایا۔ اتنے میں اوپر رہنے والی کشمیری فیملی اپنا سامان سمیٹ کر نیچے آچکی تھی مگر امجد نے انکو حوصلہ دیا اور بتایا کہ سب ٹھیک ہے تانیہ کی کال آگئی ہے وہ خیریت سے ہے۔ میرا شک غلط تھا آپ لوگ جائیں اور سکون سے رہیں۔ انہوں نے بھی سکھ کا سانس لیا اور واپس اپنے پورشن میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ سے اسی نمبر سے فون آیا جو امجد نے پہلی بیل پر ہی ریسیو کر لیا۔ اب کی بار آگے سے دانش کی آواز آئی۔ امجد نے پوچھا کہاں ہو یار ہم کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ دانش نے کہا بھیا میں تو ہنی مون منانے ممبئی آگیا ہوں۔ یہاں مستی کر رہا ہوں۔ اور ابھی اپنی بیوی کے ساتھ شہر کی سیر کر رہا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں بس ہم نے سوچا کہ میکے واپس آنے سے پہلے کیوں نہ ممبئی کی سیر ہی کر لیں۔ اس لیے آپکے ہاں آنے کی بجائے ہم سیدھا ممبئی آگئے ہیں۔ کچھ دنوں تک ہماری واپسی ہوجائے گی۔ آپ فکر نہ کریں تانیہ میرے ساتھ ہے اور بہت خوش ہے اپنی نئی زندگی سے۔ یہ کہ کر دانش نے فون بند کر دیا۔ اور امجد قہقہے مار مار کر ہنسنے لگا۔
سرمد اور کاشف اسکی شکل دیکھ رہے تھے۔ امجد نے دونوں کو اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا تو بولا یار یہ دانش بہت پہنچی ہوئی چیز ہے اسکا دماغ بہت تیز چلتا ہے۔ اور اسکو یہ بھی پتا ہے فون پر بات کیسے کرنی ہے، دونوں ممبئی میں ہیں اس وقت اور ہنی مون منا رہے ہیں۔ ہنی مون کا سن کر سرمد اور کاشف کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ امجد نے دونوں کی حیرت کو کم کرنے کے لیے بتایا کہ یار وہ کوڈ ورڈ میں بات کر رہا تھا نہ، اگر کوئی ہمارا نمبر ٹریس کر بھی رہا ہو تو وہ یہی سمجھے گا کہ یہ تانیہ کا میکہ ہے جہاں دانش اور تانیہ نے آنا تھا مگر وہ یہاں آنے کی بجائے ممبئی چلے گئے ہیں ہنی مون منانے۔ پھر امجد نے سیریس ہوتے ہوئے کہا لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ دونوں اتنی جلدی ممبئی کیسے پہنچ گئے؟؟ جامنگر سے ممبئی تک کا بس کا سفر 14 گھنٹے کا ہے اتنی جلدی ممبئی پہنچنا ممکن نہیں۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ دونوں یہیں جونا گڑھ ہوں اور کچھ دیر میں آجائیں۔
یہ سوچ کر امجد نے بھی کچھ آرام کرنے کی ٹھانی ساری رات کا سفر اور پھر اتنی دیر پٹرول پمپ پر کھڑے ہوکر اسکی حالت خراب ہوگئی تھی۔ آرام کرنے کی غرض سے امجد بھی اسی کمرے میں لیٹ گیا جہاں باقی لوگ موجود تھے، 4، 5 گھنٹے آرام کرنے کے بعد رات 9 بجے کے قریب امجد کی آنکھ ٹیلیفون کی گھنٹی سن کر کھلی۔ امجد نے فون ریسیو کیا تو دانش کی آواز تھی ، دانش نے امجد کو کہا کہ وہ جونا گڑھ میں ہی تھوڑی آتش بازی کا بندوبست کرے تاکہ لوگوں کہ پتہ لگے ہماری شادی ہوئی ہے اور ساتھ ہی سرمد یا کاشف کو جامنگر بھیج کر میرے دوستوں کو وہیں پر روکو ، وہ میرا ہنی مون خراب کرنے ممبئی تک نہ آجائیں۔ انہیں بتاو کہ میں ابھی جامنگر میں ہی ہوں۔ یہ کہ کر دانش نے فون بند کر دیا۔ امجد کو میجر دانش کے اس میسج کی بخوبی سمجھ آگئی تھی اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اب میجر دانش ایکشن کے موڈ میں ہے۔
میجر دانش کرنل وشال کے گھر کو دیکھ کر واپسی کے لیے مڑا اور اب اسکی منزل کلب علیبی تھا۔ یہاں بھی تانیہ دانش کو موبائل کی مدد سے راستہ بتا رہی تھی اور 20 منٹ کے بعد میجر دانش اور تانیہ کلب پہنچ چکے تھے جو اس وقت بند پڑا تھا۔ میجر نے کلب کے آس پاس کا اچھی طرح معائنہ کیا اور وہاں سے نکلنے والے مختلف راستوں کا اچھی طرح معائنہ کیا تاکہ وقت پڑنے پر اگر بھاگنا پڑے تو یہاں سے نکلنے والے راستوں کا اچھے سے علم ہو۔ اسکے بعد میجر نے تانیہ سے امجد کا نمبر پوچھ کر اسکوکچھ ضروری ہدایات دیں ۔ پھر شہر کے مختلف علاقوں میں بلا وجہ پھرتا رہا۔ میجر کا مقصد مین راستوں کے بارے میں علم حاصل کرنا تھا۔ خاص طور پر کلب علیبی سے آرمی ریزیڈینشل ایریا تک جانے والے مختلف راستوں پر امجد نے بار بار راونڈ لگایا تاکہ وہ یہ راستے ذہن نشین کر سکے ساتھ ہی اس نے تانیہ سے بھی کہا کہ وہ بھی ان راستوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہاں سے واپس نہرو نگر تک جانے کا راستہ بھی ذہن نشین کر لے۔
کچھ دیر مزید آوارہ پھرنے کے بعد میجر دانش شام کے7 بجے واپس اپنے نہرو نگر والے گھر میں پہن چکا تھا اور اب رات کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے ایک جرائم پیشہ گروہ سے رابطہ کیا اور انکو ٹینا کی تصویر بھی سینڈ کر دی۔ میجر دانش نے انہیں فون پر موجود شخص سے کہا کہ اس لڑکی کو ہر حال میں آج رات اغوا کرنا ہے، مگر اس بات کا خیال رہے کہ میں کوئی دنگا فساد نہیں چاہتا، اپنے لوگوں کو پستول وغیرہ دے کر نہ بھیجنا، کوئی خون خرابی نہیں چاہیے، اور زیادہ شور و غل بھی نہ ہو چپ چاپ 3، 4 لوگ جائیں اور اس لڑکی کو گاڑی میں ڈال کر میرے مطلوبہ ٹھکانے تک پہنچا دیں۔ آدھی رقم تمہارے بینک اکاونٹ میں پہنچ چکی ہے باقی کی رقم کام ہونے کے بعد تمہیں مل جائے گی۔ مگر لڑکی کو ایک خراش تک نہیں آنی چاہیے۔
یہ کر کر میجر نے فون بند کردیا۔ تانیہ نے پوچھا کہ اسے اغوا کر کے کیا کرو گے؟؟؟ میجر دانش نے تانیہ کو آنکھ ماری اور بولا تم تو کسی کام آتی نہیں چلو تانیہ کے ساتھ ہی آج کی رات اچھی گزر جائے گی۔ میجر کی بات سن کر تانیہ کے چہرے پر مسکراہٹ بھی آئی اور اس نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے دانش کو 2، 4 سنا دیں۔ اب دانش نے تانیہ کو تیار ہونے کے لیے کہا ان دونوں نے کلب علیبی جانا تھا۔ تانی کچھ دیر میں ہی، یعنی کے 1 سے 2 گھنٹے میں تیار ہوکر نکلی تو میجر دانش تانیہ کو دیکھ کر پلکیں جھپکانا ہی بھول گیا اور دل ہی دل میں مونا جی کی تعریفیں کرنے لگا جنہوں نے اتنا سیکسی ڈریس بھیجا تھا۔
بغیر بازوں کےسرخ رنگ کا یہ ڈریس تانیہ کے سینے کے ابھاروں سے ہوتا ہوا 2 حصوں میں تقسیم ہوکر تانیہ کی گردن تک جا رہا تھا اور گردن کے پیچھے جا کر دونوں حصوں کو تانیہ نے ہلکی سی گرہ لگا رکھی تھی۔ تانیہ کے سینے کے ابھار اس ڈریس میں کافی واضح ہورہے تھے ، ڈریس کا نیچلا حصلہ ویسے تو تانیہ کو پاوں تک آرہا تھا اور پیچھے سے کپڑے کا کچھ حصہ زمین کو بھی چھو رہا تھا مگر تانیہ کی تھائی سے ڈریس میں ایک کٹ تھا جسکی وجہ سے تانیہ کی بائیں ٹانگ تھائی سے لیکر نیچے ٹخنے تک نظر آرہی تھی، تانیہ کی گوری دودھ جیسی بالوں سے پاک ٹانگ دیکھ کر میجر دانش کی پینٹ میں کچھ ہونے لگا تھا۔ تانیہ نے میجر کو اپنی طرف یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے پایا تو اسکی آنکھوں میں تھوڑا غرور واضح ہونے لگا، اتنے حسن پر تھوڑا سا غرور تو بنتا ہی تھا۔ اب تانیہ اٹھلاتی ہوئی میجر سے بولی ایسے ہی دیکھتے رہو گے یا کلب بھی چلو گے؟؟؟ یہ کہ کر تانیہ آگے چل پڑی، اب میجر نے تانیہ کو پیچھے سے جو دیکھا تو اسکی پینٹ میں لن کا ابھار واضح ہونے لگا تھا۔ تانیہ کا یہ ڈریس بیک لیس تھا۔ یعنی تانی کی کمر بالکل ننگی تھی اور اسکے برا کی کوئی سٹرپ بھی نظر نہیں آرہی تھی جسکا مطلب تھا کہ اس ڈریس کے نیچے سے تانیہ نے کوئی برا نہیں پہنا۔ اس سوچ نے میجر دانش کو 240 وولٹ کا جھٹکا مارا تھا اور نیچے تانیہ کی 32 انچ کی گانڈ علیحدہ ہی نظر آرہی تھی۔ کولہوں سے ڈریس ٹائٹ ہونے کی وجہ سے تانیہ کے چوتڑوں کا ابھار کافی واضح تھا۔ مختصر یہ کہ تانیہ اس ڈریس میں کسی فلم کی سیکسی ہیروئین لگ رہی تھی اوپر سے اسکے کندھوں تک خوبصورت بال اور چہرے پر ایک بل کھاتی لٹ اسکے حسن کو چار چاند لگا رہی تھی۔ ہلکی سرخ رنگ کی لپ اسٹک تانیہ کے رسیلے ہونٹوں کو اوربھی زیادہ دلکش بنا رہی تھی ۔
تانیہ نے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر میجر دانش کو دیکھا جو ابھی تک سکتے کی حالات میں تانیہ کی خوبصورتی اور اسکی ننگی کمر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر رہا تھا، تانیہ نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے میجر کو دیکھا اور بولی میجر صاحب اسی طرح لڑکیوں کو دیکھ کر لٹو ہوتے رہو گے تو کر لی آپ نے کرنل وشال کی جاسوسی، اب ہوش میں آو اور چلنے والی بات کرو۔ تانیہ کی بات سن کر میجر اپنے ہوش میں واپس آیا اور مسکراتا ہوا بولا اب تم اتنی ہاٹ ہاٹ ڈریسنگ کرو گی تو مجھ جیسا شریف انسان تو سکتے میں آہی جائے گا نا۔۔۔ تانیہ اسکی بات سنکر مسکرائی اور بولی تم نے ہی ایسے ڈریسیز کا انتخاب کیا ہے مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ تم نے مونا جی سے کیا خریدا ہے۔ ایسے ہی باتیں کرتے دونوں اپنی گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے اور تانیہ محسوس کر رہی تھی کہ گلی میں موجود جو چند لوگ تھے انکی نظریں بھی تانیہ کے جسم کا جی بھر کر نظارہ کرنے میں مصروف تھیں۔ میجر نے گاڑی سٹارٹ کی اور کلب علیبی کی جانب روانہ ہوگیا۔ راستے میں تانیہ نے پوچھا کہ اگر ٹینا کو اغوا ہی کروانا تھا تو ہمیں وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے اغوا کرنے والے خود ہی ٹینا کو اغوا کرکے ہماری کہی ہوئی جگہ پر پہنچا دیتے۔
میجر نے تانیہ کی طرف دیکھا اور بولا اصل میں اسکو اغوا نہیں کروانا بلکہ اغوا ہونے سے بچانا ہے۔ اسلیے میرا وہاں جانا ضروری ہے۔ تانیہ نے حیران ہوکر پوچھا کیا مطلب؟ یہ جو تم نے غنڈوں کو اتنی بڑی رقم دی ہے یہ اغوا ہونے سے بچانے کے لیے دی ہے؟؟؟ میجر بولا نہیں اغوا کرنے کے لیے ہی دی ہے مگر جب وہ اغوا کریں گے تو میں نے بالی ووڈ کے ہیرو کی طرح اینٹری مار کر ٹینا کو اغوا ہونے سے بچانا ہے۔ اور غنڈوں کو پیسے اس لیے دیے ہیں ک سب کچھ اصلی لگے اگر ڈرامہ کرنے کے لیے کرائے کے لوگ بھیجوں گا تو کسی کو بھی شک ہوسکتا ہے مگر اصلی غنڈے اپنا کام اچھی طرح کرنا جانتے ہیں۔ تانیہ نے کہا اور اگر اس سب میں تمہیں کچھ ہوگیا تو؟؟؟ میجر نے تانیہ کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا تمہیں میری بڑی فکر ہورہی ہے۔۔۔ کہیں مجھ سے پیار تو نہیں ہوگیا؟؟؟؟؟ تانیہ میجر کی بات سن کر سٹپٹا گئی اور بولی نہیں وہ میں نے تو ویسے ہی پوچھا ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ایسی صورتحال میں پھر میں کہاں تمہیں ہسپتالوں میں لیکر پھروں گی۔ تانیہ کا جواب سنکر میجر ہنسنے لگا اور دوبارہ سے گاڑی چلانے لگا۔ کل علیب سے کچھ فاصلے پر میجر نے گاڑی ایک کم روشنی والی جگہ پر روک دی اور خود گاڑی سے اتر کر تانیہ کو ڈرائیونگ سیٹ پر آنے کا کہا، تانیہ گاڑی سے اتری اور اپنی اونچی ہیل والی سینڈل پہنے بل کھاتی نازک کمریا کے ساتھ چلتی ہوئی گاڑی تک آئی اور میجر دانش کی نظریں ایک بار پھر اسکے جسم کا ایکسرے کرنے لگیں۔
جولی کی ہر آواز کے ساتھ میجر کے دھکوں میں تیزی آرہی تھی۔ گوکہ جولی کی چوت کافی کھلی تھی مگر جولی نے اپنی چوت کی دیواریں ٹائٹ کی تو میجر کو بھی چودائی کا مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر ایسے ہی چودائی کرنے کے بعد میجر نے جولی کی چوت سے لن نکالا اور اسکو گھوڑی بننے کو کہا، جولی فورا اٹھی اور بیڈ پر گھوڑی بن گئی، میجر دانش اب بیڈ پر گھٹنوں کے بل کھڑا ہوا اور جولی کی چوت پر لن کی ٹوپی رکھ کر ایک دھکا مارا اور میجر کا لن جولی کی چوت میں غائب ہوگیا۔ اب میجر نے پھر سے زور دار پمپ ایکشن شروع کر دیا، اب کی بار میجر کے ہر دھکے پر میجر کا جسم جولی کے چوتڑوں سے ٹکراتا تو کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں آتیں اور میجر ان آوازوں سے لطف اندوز ہوتا اگلا دھکا اور بھی جاندار مارتا۔
میجر کے ان دھکوں سے اب جولی کی سسکیاں نکل گئی تھیں اور اب وہ محض آوچ آوچ کی آوازیں نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہی کرہی رہی تھی۔ اب اسکی چوت میں اسکی طلب سے زیادہ زور دار گھسے لگ رہے تھے جنکو وہ بمشکل برداشت کر رہی تھی۔ جبکہ سوزینا اب جولی کے سامنے آگئی اور اپنی چھوٹی سی للی جولی کے منہ میں دے دی۔ جولی نے سوزینا کی للی کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کیا اور تھوڑی ہی دیر میں اسکی للی میں تھوڑی سی سختی پیدا ہوگئی، سوزینا کی للی کا سائز ابھی بھی 4 انچ ہی تھا مگر اب اس میں تھوڑی سختی تھی۔ میجر کی نظریں کچھ دیر کے لیے سوزینا کی للی پر گئیں مگر پھر اس نے اپنی توجہ جولی کی چوت پر کی اور دھکوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب یہ دھکے جولی کی برداشت سے باہر ہونے لگے تو جولی کو لگا جیسے اسکے بدن میں سوئیاں چبھ رہی ہوں، وہ سمجھ گئی تھی کہ آج عرصے بعد اسکی چوت کسی لن کی چودائی سے پانی چھوڑنے لگی ہے ورنہ اس سے پہلے یا تو وہ فنگرنگ کر کے اپنی چوت کا پانی نکالتی تھی یا پھر سوزینا اپنی زبان سے جولی کی چوت کا چاٹ کر اسکا پانی نکالتی تھی۔
میجر کے چند مزید دھکے لگے اور جولی کی چوت میں سیلاب آگیا۔ جولی کے جسم کو کچھ جھٹکے لگے اور اسکی چوت نے ڈھیر سارا پانی نکال دیا۔ جب سارا پانی نکل گیا تو میجر نے دھکے لگانا بند کر دیے ۔ جولی نے اپنی چوت سے میجر کا لن باہر نکالا اور ایک بار میجر کا لن منہ میں لیکر اس پر موجود اپنا پانی چوسنے لگی۔ جب سارا پانی چوس لیا تو جولی دیوانہ وار میجر کے سینے کو چومنے لگی اور اسکے ہونٹوں کو بھی چومنے لگی۔ وہ میجر کے جسم کو دبا رہی تھی اور بار بار کہ رہی تھی تم اصل مرد ہو صاحب، آج تمہارے لن نے میری چوت کی پیاس بجھادی ہے اور ابھی بھی سسرا کھڑا ہے تھکا نہیں۔ یہ سن کر سوزینا نے جولی کو پیچھے کیا اور بولی چل پیچھے ہو اب صاحب کے لوڑے کی سواری کرنے کی باری میری ہے۔ سوزینا نے بھی میجر کے سینے پر ایک بار کس کی اور بولی صاحب کونسی پوزیشن میں میری گانڈ مارنا پسند کروگے۔؟؟ میجر نے کہا پہلے اپنی گانڈ کا نظارہ تو کرواو کیسی ہے۔۔۔
یہ سنتے ہی سوزینا گھوڑی بن گئی اور میجر نے اسکے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ پر نظر ماری تو اسکا سوراخ بھی قدرے کھلا تھا۔ یعنی وہ بھی اپنی گانڈ باقاعدگی سے مرواتی تھی۔ میجر نے اسی پوزیشن میں سوزینا کی گانڈ پر اپنے لن کی ٹوپی رکھی اور دھکا مارنے کی کوشش کی مگر لن اندر نہیں گیا۔ تب جولی آگے آئی اور بولی صاحب پہلے تھوڑا چکنا کر لو، یہ کہ کر وہ سوزینا کی گانڈ پر جھکی اور اسکو چوسنے لگی، اس نے اپنی انگلی بھی سوزینا کی گانڈ میں ڈال دی تھی اور اسکی انگلی سے چودائی کرنے لگی پھر اس نے سوزینا کی گانڈ پر اپنا تھوک پھینکا اور انگلی سے تھوک سوزینا کی گانڈ کے اندر تک مسل دیا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ میجر کا لن ہاتھ میں پکڑے اسکی مٹھ مارنے میں مصروف تھی۔
پھر جولی نے میجر کے لن پر بھی تھوک پھینکا اور اسکو بھی چکناکر دیا۔ اب کی بار میجر نے سوزینا کی گانڈ پر لن رکھ کر ایک جھٹکا مارا تو آدھا لن سوزینا کی گانڈ میں اتر گیا تھا اور سوزینا کی چیخ نکلی اوئی ماں ۔ ۔ ۔ ۔ میں مرگئی۔ صاحب کیا تگڑا لن ہے تمہارا کیا کھاتے ہو؟؟؟ میجر دانش ہنستا ہوا بولا ابھی تو آدھا لن اندر گیا ہے باقی آدھا ابھی جانا ہے، اس پر سوزینا بولی اوئی ماں۔۔۔۔۔۔ اور زیادہ نہ ڈالنا صاحب میری تو گانڈ ہی پھٹ جائے گی۔ میجر دانش بولا تمہیں بھی تو شوق ہے گانڈ مروانے کا آج دل بھر کر اپنی گانڈ مروا، یہ کہ کر میجر نے ایک دھکا اور لگایا اور میجر کا سارا لن سوزینا کی گانڈ میں چلاگیا۔ اور سوزینا کی ایک اور چیخ نکلی۔ اب وہ اس طرح سسکیاں لے رہی تھی جیسے کسی بچے کو مرچیں لگ جائیں تو وہ بار بار سی سی کرتا ہے۔ میجر کے لن نے سوزینا کی گانڈ کے اندر واقعی مرچیں لگا دی تھیں۔
اب میجر نے سوزینا کی گانڈ مارنا شروع کی اور جولی سوزینا کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی اور اپنی گانڈ سوزینا کے آگے کر دی۔ سوزینا نے جولی کی گانڈ چوسنا شروع کی اور اس میں تھوک بھرنے لگی۔ سوزینا نے کہا لگتا ہے آج تیرا بھی صاحب سے گانڈ مروانے کا ارادہ ہے۔ اس پر جولی بولی ہیرے جیسا لوڑا آج ہاتھ لگا ہی ہے تو اسکا پورا استعمال تو ہونا ہی چاہیے نا۔ میجر نے کچھ دیر سوزینا کی گانڈ میں دھکے مارے اسکے بعد اپنا لن اسکی گانڈ سے نکالا جو اب تک سوج چکی تھی۔ اب میجر بیڈ کے ساتھ پڑے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا اور سوزینا کو اپنی گود میں آنے کو کہا، سوزینا نے اپنی گانڈ میجر کے لن کے اوپر کی اور ٹوپا گانڈ کے سوراخ پر فٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں لن پر بیٹھ گئی، سوزینا نے اپنی ٹانگیں میجر کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اورمیجر اب خوب زور زور کے دھکے مار کر سوزینا کی گانڈ مار رہا تھا۔
سوزینا کے 36 سائز کے ممے میجر کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہے تھے جبکہ اسکا 4 انچ کا لن بلکہ للی میجر کی ناف سے ٹچ ہورہا تھا۔ میجر کو سوزینا کی گانڈ مارنے کا بہت مزہ آرہا تھا۔ ٹائٹ گانڈ نے میجر کے لن کو جکڑ رکھا تھا۔ اب میجر سوزینا کی گانڈ میں دھکے مارنے کے ساتھ ساتھ اسکے 36 کے اچھلتے مموں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا جبکہ سوزینا میجر کے لن کی تعریفیں کرتی نہیں تھک رہی تھی، مزہ آگیا صاحب، آپکے لوڑے نے تو میری گانڈ کا ستیاناس کر دیا ہے، ایسے ہی گانڈ مارتے رہو صاحب۔۔۔۔ 5 منٹ تک سوزینا کی گانڈ مارنے کے بعد میجر کے لن نے تھوڑا پھولنا شروع کیا اور اسکے بعد سوزینا کی گانڈ کے اندر ہی منی چھوڑ دی۔ جب میجر کا لن منی چھوڑ کر فارغ ہوچکا تو سوزینا گانڈ سے اتری اور میجر کا لن چوسنے لگی۔ میجر کے لن کی گاڑھی منی کا ہر قطرہ سوزینا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔ جب میجر کا لن منی سے پاک ہوگیا تو سوزینا نے جولی کی طرف دیکھا اور بولی چل اب صاحب کو اپنا شو دکھاتے ہیں۔
یہ کہ کر سوزینا نے میجر دانش کو چھوڑا اور جولی کو لیکر بیڈ پر چلی گئی، جولی اور سوزینا اب 69 پوزیشن میں ایکدوسرے کے اوپر تھیں۔ سوزین نیچے لیٹی تھی اور جولی اسکے اوپر تھی، سوزینا کی زبان جولی کی چوت کے سوراخ پر تیز تیز چل رہی تھی جبکہ جولی سوزینا کی للی منہ میں ڈالے اسکے چوپے لگا رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور ایکدوسرے کے مموں کو باری باری چوسنے لگیں، کبھی سوزینا جولی کے ممے منہ میں لیکر چوستی تو کبھی جولی سوزینہ کے مموں کو منہ مین لیتی اور انکو چوسنے لگتی۔ پھر سوزینا نے جولی سے کہا چل اب مجھے بھی اپنی چوت کا مزہ دے۔ یہ سن کر جولی بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں جبکہ سوزینا اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھی اور اپنی للی کی ٹوپی سوزینا کی چوت پر رکھ دی۔ سوزینا کی للی ابھی تک 4 انچ کی ہی تھی مگر اس میں پہلے کی نسبت سختی زیادہ تھی، سوزینا نے ایک دھکا لگایا تو اسکی 4 انچ کی چھوٹی سی للی جولی کی چوت میں گم ہوگئی۔
اب سوزینا نے دھکے لگانے شروع کیے اور ساتھ ساتھ سوزینا کی چوت کے دانے پر انگلی پھیرنی شروع کی۔ سوزینا کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اپنی للی جولی کی چوت میں ڈال کر اسے سکون ملا تھا مگر جولی کے چہرے پر مزے کے آثار نہیں تھے وہ بس سوزینا کی خواہش پوری کر رہی تھی۔ میجر دانش سوزینا اور جولی کا یہ شو دیکھ کر محضوض ہو رہا تھا اور آہستہ آہستہ اب اسکے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ سوزینا اب جولی کے اوپر لیٹ گئی تھی اور اسکے ممے چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اپنی للی سے جولی کی چوت کی چودائی کر رہی تھی۔ یہ سین دیکھ کر میجرا کا لن مکمل کھڑا ہوگیا تھا، اب وہ بھی بیڈ پرآگیا اور اپنا لوڑا جولی کے منہ میں ڈال دیا ۔ جولی میجر کے لوڑَ میں دوبارہ جان دیکھ کر خوش ہوگئی۔
اس نے فورا ہی میجر کے لن کو چوسنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد سوزینا نے کہا صاحب لن میرے منہ میں دو جولی آپکے ٹٹے چوسے گی۔ یہ سن کر میجر نے اپنی جولی کا چہرہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کر لیا جولی نے فورا ہی میجر کے ٹٹوں پر اپنی زبان چلانا شروع کر دی اور پھر اسکے ٹٹوں کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا جبکہ سوزینا جو جولی کے اوپر لیٹی اسکی چودائِ کر رہی تھی اس نے میجر کا لن منہ مین لیکر چوسنا شروع کر دیا تھا۔
جب میجر کا لن پہلے کی طرح سخت ہوگیا تو وہ کھڑا ہوا اور سوزینا کے پیچھے چلا گیا۔ پیچھے جا کر میجر نے سوزینا کی گانڈ پر تھوک پھینکا اور انگلی سے تھوک اسکی گانڈ کے اندر مسلنے لگا۔ سوزینا کی للی ابھی تک جولی کی چوت میں ہی تھی۔ اور سوزینا دھکے پر دھکے مار رہی تھی۔ میجر نے سوزینا کو دھکے روکنے کو کہا تو سوزینا نے دھکے روک دیے، اب میجر نے اپنے لن کی ٹوپی سوزینا کی گانڈ پر رکھی اور آہستہ آہستہ سارا لن سوزینا کی چوت میں اتار دیا جس سے اسکی سسکیاں نکلنے لگیں۔ اب میجر نے دھکے مارنے شروع کیے تو سوزینا نے میجر کے دھکوں کے ساتھ ساتھ جولی کی چوت میں دھکے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوزینا کو اب ڈبل مزہ آرہا تھا۔ ایک تو اسکی للی سوزینہ کی چوت میں تھی اور پیچھے سے میجر کا تگڑا لن سوزینا کی گانڈ مارنے میں مصروف تھا۔
5 منٹ تک اسی پوزیشن میں گانڈ مارنے کے بعد میجر نے سوزینا کی گانڈ سے لن نکالا اور سوزینا کو اپنی للی جولی کی چوت سے نکالنے کو کہا۔ سوزینا نے ایسے ہی کیا تو میجر نے اب جولی کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنا لن سوزینا کی چوت پر فٹ کر کے ایک ہی دھکے میں پورا لن اندر داخل کر دیا۔ سوزینا کی للی کے بعد جب میجر کا لن جولی کی چوت میں گیا تو جولی کی زور دار سسکی نکلی اور میجر نے بغیر رکے دھکے لگانے شروع کردیے۔ اب کی بار میجر کے دھکے پہلے کی نسبت بہت تیز تھے۔ میجر ایک بار پھر جولی کی چوت کا پانی نکالنا چاہتا تھا۔
محض 5 منٹ کے جاندار دھکوں نے اپنا کام دکھا دیا اور جولی نے میجر کی گود میں بیٹھے بیٹھے اپنی چوت کا پانی نکال دیا۔ چوت سے پانی پریشر کے ساتھ نکلا تو میجر کا پیٹ اور ٹانگیں جولی کے پانی سے بھر گئیں جنکو سوزینا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔ جبکہ جولی میجر پر واری جا رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک ہی رات میں ایک لن نے 2 بار اسکی چوت کا پانی نکالا۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی اور بےتحاشا میجر کے جسم پر پیار کر رہی تھی۔
اب میجر نے سوزینا کو کہا کہ وہ اب دوبارہ سے جولی کی چوت میں اپنا لن ڈالے۔ سوزینا جو پہلے ہی تیار تھی فوران جولی کے اوپر چڑھ گئی۔ مگر میجر نے کہا ایسے نہیں، تم نیچے لیٹو اور جولی کو اپنے اوپر لٹاو پھر اسکی چوت میں اپنا لن ڈال کر اسکی چودائی کرو۔ جولی سمجھ گئی کہ اب اسکی چوت اور گانڈ کے سوراخ میں لن جانے والا ہے، وہ فورا ہی سوزینا کے اوپر آئی اور اسکی للی اپنی چوت کے سوراخ میں ڈال کر لیٹ گئی تاکہ پیچھے سے میجر اسکی گانڈ میں اپنا 8 انچ کا لوڑا ڈال سکے۔ میجر نے پیچھے سے آکر جولی کی گانڈ دیکھاور اس میں پہلے اپنی انگلی داخل کی تو جولی کی ہلکی سی سسکی نکلی، نیچے سے سوزینا کی للی جولی کی چوت میں مسلسل گھسے لگا رہی تھی۔
کچھ دیر جولی کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد میجر نے اپنے لن کی ٹوپی سوزینا کے منہ میں دیر کر اسکو چکنا کروایا اور پھر دوبارہ سے پیچھے آکر لن کی ٹوپی جولی کی ٹائٹ گانڈ کے سوراخ پر رکھ اور ایک زور دار دھکا لگایا۔ میجر کی ٹوپی جولی کی گانڈ میں داخل ہوچکی تھی۔ اب کی بار جولی نے زور سے چیخ ماری ہائے میں مر گئی۔ صاحب یہ آپکا اپنا لن ہے یا کسی گدھے کا لگوا لیا ہے ؟؟ ہائے بھگوان اتنا موٹا لن میری گانڈ کیسے برداش کرے گی ۔۔۔ میجر نے تھوڑا سا انتظار کرنے کے بعد ایک اور دھکا لگایا تو میجر کا آدھے سے زیادہ لن جولی کی گانڈ میں تھا۔ اور اب کمرہ جولی کی چیخوں اور سسکیوں کی ملی جلی آوازوں سے گونج رہا تھا۔
میجر نے اب اپنے لن کو جولی کی گانڈ میں تسلسل کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا اور جولی مزے کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔ میجر کے ہر دھکے پر جولی کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ میجر کے جسم سے ٹکراتے تو دھپ دھپ کی آواز سے کمرہ گونجنے لگتا۔ نیچے سے سوزینا کی للی بھی اب جولی کی چوت کو مزہ دینے لگی تھی ، تھوڑی دیر کی چودائی کے بعد سوزینا کی للی نے پانی چھوڑ دیا اور اسکے دھکے لگنے بند ہوگئے۔ مگر جولی ابھی تک سوزینا کے اوپر ہی لیٹی تھی اور میجر کے جاندار دھکوں کا مزہ اپنی گانڈ میں لے رہی تھی۔
میجر نے 5 منٹ تک جم کر جولی کی گانڈ ماری آخر کا جولی کی گانڈ نے ہار مان لی اور وہ میجر سے بولی صاحب بس کر دو اب، میری گانڈ مزید آپکے لوڑَ کے دھکے برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر میجر نے جولی کی گانڈ سے اپنا لن نکالا اور بیڈ سے نیچے اتر گیا، بیڈ سے نیچے اتر کر میجر نے جولی کو اپنی گود میں اٹھایا، جولی نے اپنی ٹانگیں میجر کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں میجر نے اپنے لن کی ٹوپی کو جولی کی چوت پر رکھا اور جولی ایک جھٹکے مِں میجرکے لن پر اپنا وزن ڈال کر بیٹھ گئی، میجر کا لن جولی کی چوت میں گم ہوا تو میجر نے جولی کو گود میں اٹھائے اسکی چودائی شروع کی۔ میجر نے اپنے ہاتھ جولی کے چوتڑوں پر رکھے ہوئے تھے اور جولی نے میجر کی گردن میں اپنے بازو ڈالے ہوئے تھےجولی اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر اپنی چودائی کروا رہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ میجر کو ہونٹوں کو دیوانہ وار چوس رہی تھی، اسکو میجر کی مردانگی پر پیار آرہا تھا جو جولی کی چوت کا 2 بار پانی نکلوا چکا تھا اور اب بھی وہ جولی کی چوت میں دھکے مار رہا تھا۔
میجر مزید 5 منٹ تک جولی کو گود میں اٹھائے اسکی چوت میں لن سے کھدائی کرتا رہا، آخر کار میجر کا لن پھولنے لگا اور جولی کی چوت نے بھی میجر کے لن پر اپنے پیار کی بارش کرنے کا ارادہ کر لیا۔ مزید 4، 5 جاندار دھکوں سے جولی کی چوت نے میجر کے لن پر برسات کر دیاور جولی کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے، ساتھ ہی میجر کے جسم کو بھی جھٹکے لگے اور اس نے اپنی گرما گرم منی جولی کی چوت میں ہی نکال دی۔ جب میجر کے لن سے ساری منی نکل گئی تو میجر نے جولی کو گود سے اتارا اور بیڈ پر ڈھے گیا۔ سوزینا اور جولی اب دونوں ہی میجر کے جسم پر ہاتھ پھیر رہی تھیں اور اسے پیار کر رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد سوزینا نے کمرے میں موجود دوسرا دروازہ کھولا اور 3 منٹ بعد کمرے میں واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ تھا۔ سوزینا نے گرم گرم دودھ میجر کو پلایا جسے پی کر میجر ہشاش بشاش ہوگیا۔
اب میجر نے اپنے کپڑے پہنے اور دوسرے شخص کا اٹھایا ہوا بٹوہ نکال کر اس میں سے 1000 ، 1000 کے دو نوٹ نکالے اور جولی اور سوزینا کو دیے۔ دونوں نے نوٹ لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ صاحب آج عرصے بعد کسی اصلی مرد نے جم کر چودائی کی ہے آپ سے ہم پیسے نہیں لیں گی۔ آپ جب چاہو آکر ہماری چودائی کر سکتے ہو، میجر نے ایک بار پھر پیسے دینے پر اصرار کیا مگر دونوں میں سے کسی نے پیسے نہیں لیے البتہ دوبارہ آکر چودائی کرنے کی دعوت ضرور دی۔ میجر نے پیسے واپس بٹوے میں رکھا اور جولی کے ہونٹوں پر ایک پیار بھری کس کر کے کمرے سے نکل گیا۔
================================================== ==============
دوسری طرف تانیہ نے دوسرے شخص کو اپنے جسم کے جلوے دکھا دکھا کر پاگل کر دیا تھا۔ تانیہ کا ڈانس مکمل ہوا تو اس نے اس شخص کو جو آرمی کا آفیسر تھا بازو سے پکڑا اور اپنے ساتھ ایک کمرے میں لے گئی۔ وہ شخص بھی لہراتا ہوا نشے میں دھت تانیہ کی گانڈ کو گھورتا اسکے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے میں پہنچ کر تانیہ نے اس شخص کو بیڈ پر لٹایا اور خود اسکے ساتھ لیٹ کر اسکی شرٹ اتار دی اور اسکے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ اس شخص کی پینٹ سے اسکا کھڑا ہوا لن دیکھ کر تانیہ نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اسکے نپل پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔ تانیہ اپنی زبان کی نوک اس شخص کے نپل پر پھیر رہی تھی جس پر اس شخس کو بہت مزہ آرہا تھا۔
کچھ دیر اس شخص کے نپل چوسنے کے بعد تانیہ نے اپنی ایک ٹانگ اس شخص کی ٹانگوں کے اوپر رکھ لی اور اسکی طرف کروٹ لے کر اسے ہونٹ چوسنے لگی۔ وہ شخص بھی نشے میں دھت تانیہ کے ہونٹ چوس رہا تھا اور اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کے چوتڑوں کو بھی دبا رہا تھا۔ کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد تانیہ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور اسکے کان کے قریب اپنے ہونٹوں کو لیجا کر آہستہ سے بولی صاحب اپنا نام تو بتاو۔۔۔ وہ شخص نیم کھلی آنکھوں کے ساتھ تانیہ کو دیکھنے لگا اور پھر بولا لڑکی تم خوش قسمت ہو کہ آج تم کیپٹن مکیش کی بانہوں میں ہو۔ آج رات تمہیں اتنا مزہ دوں گا کہ تم ہمیشہ یاد رکھو گی۔ یہ کر اس نے تانیہ کے برا سے نظر آنے والے مموں پر اپنی نظریں جما دیں اور اپنا ایک ہاتھ تانیہ کے نرم نرم مموں پر رکھ کر انہیں دبانے لگا۔
تانیہ نے بھی اپنی ایک ٹانگ سے کیپٹن مکیش کا لن دبانا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر بولی صاحب آج رات مجھے ایسے چودنا کہ جیسے پہلے کسی نے نا چودا ہو۔ کیپٹن نے کہا تجھے میں اپنی رنڈی بنا کر چودوں گا، فکر نہ کر تیری چوت بار بار پانی چھوڑی گے۔ اب تانیہ نے کہا صاحب کیا آپ روز آتے ہو یہاں؟؟؟ کیپٹن نے تانیہ کے مموں پر نظریں جمائے کہا نہیں میں تو ممبئی کا رہنے والا ہوں، ایک پاکستانی کتے کو پکڑے کے لیے یہاں آیا تھا مگر کرنل صاجب نے بتایا کہ وہ یہاں سے چلا گیا ہے اس لیے آج صبح کی فلائٹ سے میں واپس ممبئی جا رہا ہوں۔ یہ سن کر تانیہ نے نے اپنا ہاتھ کیپٹن مکیش کے لن پر رکھ لیا اور اسکو پینٹ کے اوپر سے ہی سہلانے لگی۔ تانیہ کے ہاتھوں کو اپنے لن پر محسوس کر کے کیپٹن کا لن اور بھی زیادہ اکڑنے لگا تھا۔
اب کی بار تانیہ نے کہا صاحب ممبئی میں کہاں رہتے ہو آپ؟؟ مجھے ممبئی کے کسی ڈانس کلب میں نوکری دلوا دو نا۔ میں ساری زندگی آپکی داسی بن کر رہوں گی۔ پھر روز ڈانس کلب میں ڈانس کرنے کے بعد آپکو اپنے جسم کی گرمی سے سکون دیا کروں گی۔ تانیہ کی یہ بات سن کر کیپٹن نے کہا تیرے جیسی رنڈیاں جامنگر میں ہی ٹھیک ہیں، ممبئی کے ڈانس کلب میں ہائی کلاس ڈانسرز ہوتی ہیں جو باہر سے ڈانس سیکھ کر آتی ہیں۔ ویسے بھی میں شادی ہوں۔ میری پتنی میرے ساتھ ہے صبح وہ میرے ساتھ ہی ممبئی جائے گی اور ممبئی میں میرا کسی لڑکی کے ساتھ کوئی چکر نہیں۔ میری پتنی کو تمہارے بارے میں پتا چل گیا تو وہ تمہیں جان سے مار دے گی۔ بس آج کی رات ہی میرے لوڑے سے اپنی چوت کی پیاس بجھا اور پھر مجھے بھول جا۔
یہ سن کر تانیہ مسکرائی اور بولی اچھا میں آپکے لیے جوس لے کر آتی ہوں۔ جوس پی کر آپ فریش ہوجاو پھر میرے جسم سےخوب کھیلنا۔ یہ کہ کر تانہ اپنی گانڈ ہلاتی ہوئی کمرے میں پڑے فریج کی طرف گئی اور وہاں موجود فریج سے ایک جوس کا ڈبہ نکالا اور گلاس میں ڈال کر اس میں ایک گولی بھی ڈالی اور اچھی طرح ہلا کر کیپٹن کے پاس آگئی کیپٹن جو اب بیڈ پر بیٹھ چکا تھا اس نے تانیہ کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔ تانیہ بھی بلا جھجک اسکی گود میں بیٹھ گئی ، کیپٹن نے اپنے ہونٹ تانیہ کے مموں پر رکھے اور انہیں چوسنے لگا جب کہ جوس کا گلاس تانیہ کے ہاتھ میں ہی تھا۔ اس نے بھی کیپٹن کو پورا موقع دیا اپنے ممے چوسنے کا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب کیپٹن نے تانیہ کے مموں کو چوس چوس کر لال کر دیا اور اسکا برا اتارنے لگا تو تانیہ نے کیپٹن کو روک دیا اور بولی صاحب پہلے یہ جوس پی لو پھر میرے سارے کپڑے اتار دینا۔
یہ سن کر کیپٹن نے تانیہ کے ہاتھ سے جوس کا گلاس پکڑا اور ایک ہی گھونٹ میں سارا گلاس خالی کر دیا۔ اب کیپٹن نے دوبارہ سے تانیہ کے مموں کو گھورنا شروع کیا جو ابھی تک اسکی گود میں بیٹھی تھی۔ پھر کیپٹن کا ہاتھ تانیہ کی نرم و ملائم کمر پر رینگتا ہوا اسکے برا کی ڈوریوں تک آیا جن کو تانیہ نے گرہ لگا کر باندھا ہوا تھا۔ کیپٹن نے اسکے برا کی ڈوریاں کھول کر برا اتار دیا اور دور پھینک دیا۔ تانیہ کے 36 سائز کے بھرے ہوئے خوبصورت ممے کیپٹن نے دیکھے تو وہ تو پاگل ہی ہوگیا۔ مکھن ملائی جیسے گورے چٹے ممے اور پھر انکی شیپ دیکھ کر کیپٹن کی رال ٹپنکنے لگی تھی۔ کیپٹن نے اپنی زبان نکالی اور تانیہ کے چھوٹے چھوٹے نپلز پر پھیرنے لگا۔ تانیہ کی ایک سسکی نکلی اور اس نے اپنا ہاتھ کیپٹن کی گردن کے گرد لیپٹ لیا ، تانیہ نے کچھ دیر پہلے میجر دانش کے لن کو اپنی گانڈ پر محسوس کیا تھا تب سے اسکی چوت میں کھجلی ہو رہی تھی اور اب اپنے نپلز پر کیپٹن مکیش کی زبان لگنے سے تانیہ مدہوش ہونے لگی۔
کیپٹن نے اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کا بایاں مما پکڑ لیا تحا اور اسے دبا رہا تھا جبکہ دوسرا مما کیپٹن کے منہ میں تھا۔ وہ کبھی اپنے منہ سے تانیہ کا مما چوستا تو کبھی اپنے دانتوں سے تانیہ کے نپل کو کاٹتا۔ ابھی کیپٹن نے جی بھر کر تانیہ کے مموں پر پیار نہیں کیا تھا مگر اسکو اپنا سر بھاری بھاری محسوس ہونے لگا۔ اسے چکر آنے لگے تھے۔ وہ کچھ دیر کو رکا اور پھر دوبارہ سے تانیہ کے مموں سے دودھ پینے لگا، مگر پھر اسکو ایسے لگا جیسے وہ اپنے ہوش کھو رہا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کیپٹن بیڈ پر بے ہوش پڑا تھا جبکہ تانیہ اپنے کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے پہن رہی تھی۔ تانیہ جن کپڑوں میں یہاں آئی تھی وہی کپڑے پہن کر اس نے کیپٹن کے کپڑوں کی تلاشی لی اور اس میں سے جو کچھ نکلا اسکو اپنی شرٹ کے گلے میں ہاتھ ڈال کر برا کے اندر رکھ لیا۔ اب تانیہ نے ایک بار میجر کی پینٹ کی طرف دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے لن کھڑا ہوا نظر آرہا تھا مگر اب وہاں کسی لن کے آثار نہیں تھے۔
اب تانیہ نے آخری بار کیپٹن کی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں اسے ایک کار کی چابی مل گئی۔ تانیہ نے چاپی اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالی اور کمرے سے پرس اٹھا کر اس میں کچھ ضروری چیزیں ڈال کر باہر نکل گئی۔ باہر نکل کر اب وہ میجر دانش کو ڈھونڈنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اسے میجر دانش نظر آگیا جو جولی اور سوزینا کے کمرے سے نکل رہا تھا۔ تانیہ نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا اور بولی یہ جناب آپ اس کمرے میں کیا کر رہے تھے۔ میجر نے تانیہ کو سر سے پیر تک دیکھا اور بولا ابھی جو تمہارے ہاٹ ہاٹ ڈانس نے اور تمہارے نرم نرم جسم نے آگ لگائی تھی اسے بجھا رہا تھا۔ اپنے جسم کی تعریف سن کر تانیہ تھوڑا سا شرمائی اور اسکے چہرے پر لالی آگئی۔ پھر اس نے دانش کو کہا یہاں ہم کرن وشال سے بچتے پھر رہے ہیں اور جناب کو جسم کی گرمیاں نکالنے کی پڑی ہوئی ہے۔ یہ سن کر میجر نے کہا شکر کرو ادھر ہی نکال لی ہے جسم کی گرمی، ورنہ تمہارا ڈانس دیکھ کر جو میرا حال ہوا ہے راستے میں تمہیں ہی پکڑ لینا تھا میں نے۔ یہ سن کر تانیہ نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے میجر کو گھور کر دیکھا اور بولی شرم کرو کچھ۔ یہ کہ کر وہ میجر دانش کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ لے گئی اور ایک کمرے کے سامنے جا کر رک گئی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور میجر دانش کو اندر آنے کو کہا۔ میجر اندر آگیا تو تانیہ نے کمرہ باہر سے بند کر لیا اور میجر کو بتایا کہ وہ شخص کیپٹن مکیش ہے اور وہ ممبئی سے تمہیں پکڑنے ہی آیا تھا مگر کرنل وشال نے آرمی کو آرڈر دے دیا ہے کہ میجر دانش جامنگر سے اب فرار ہوچکا ہے لہذا جامنگر میں اسکی تلاش ختم کر دی جائے۔
تانیہ نے مزید بتایا کہ اب وہ کیپٹن مکیش صبح کی فلائٹ سے انڈین ائیر لائنز کے ذریعے اپنی بیوی کے ساتھ ممبئی جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنی جینز کی جیب سے گاڑی کی چابی نکالی اور میجر دانش کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگی ۔ میجر نے پوچھا یہ کیا؟ تو وہ بولی کیپٹن کی گاڑی کی چابی۔ دانش نے کہا تم پاگل ہو کیپٹن کی گاڑی پر ہم فوری پکڑے جائیں گے اس نے فوری سے پہلے اپنی گاڑی گم ہونے کی اطلاع دے دینے ہے۔ اس پر تانیہ نے اٹھلاتے ہوئے کہا مسٹر صرف تم ہی عقلمند نہیں، تھوڑی عقل ہم میں بھی ہے۔ میں نے کیپٹن کو نیند کی گولی دے دی ہے اب وہ کل رات سے پہلے نہیں اٹھے گا جبکہ ہم صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جائیں گے۔ اسکے بعد تانیہ نے میجر کے سامنے ہی اپنی برا میں ہاتھ ڈالا تو میجر اوپر اٹھ کر تانیہ کی برا میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا، تانیہ کا ہاتھ برا میں گیا اور واپس آیا تو اس میں کچھ کاغذات تھے۔ تانیہ نے میجر کو اپنے برا کی طرف یوں دیکھتے ہوئے پایا تو بولی ابھی ابھی جولی کے کمرے سے نکلے ہو، اس نے تمہاری پیاس نہیں بجھائی کیا جو ابھی بھی ندیدوں کی طرح مجھے دیکھ رہے ہو؟؟؟
یہ سن کر مجر نے کہا جو بات تم میں ہے وہ جولی میں کہاں۔ یہ کہ کر میجر نے تانیہ کو آنکھ ماری اور اسکے ہاتھ سے کاغزات لیکر دیکھنے لگا۔ یہ کیپٹن مکیش کےممبئی کے ٹکٹ تھے۔ ایک کیپٹن مکیش جب کہ دوسرا اسکی بیوی کا تھا۔ میجر نے دونوں ٹکٹ سنبھال کر اپنے پاس رکھ لی، مزید کاغزات میں کیپٹن مکیش کا آئی ڈی کارڈ اور آرمی کے کچھ کارڈز تھے۔ ان میں ایک کارڈ کرنل وشال کا بھی تھا ۔ میجر دانش نے کارڈ پر میجر کا نام پڑھا اور نمبر دیکھا۔ لینڈ لائن نمبر کے ساتھ سٹی کوڈ بھی موجود تھا کوڈ ممبئی کا ہی تھا اسکا مطلب تھا کہ کرنل وشال اصل میں ممبئی میں ہوتا ہے مگر میجر دانش کو پکڑے کی غرض سے جامنگر آیا ہے۔
کرنل وشال کا کارڈ دیکھ کر میجر دانش نے فوری فیصلہ کیا کہ اب چھپ چھپ کر بھاگنے کی بجائے کرنل وشال کو ٹف ٹائم دینے کا وقت آگیا ہے، اب کرنل سے بچ کر بھاگنا نہیں بلکہ اس پر حملہ کرنا ہے۔ یہ سوچ کر میجر نے تانیہ کو کہا کہ اب کچھ دیر کے لیے سوجاتے ہیں نیند پوری کر کے صبح صبح یہاں سے نکلیں گے اور آگے کا پلان بنائیں گے۔
تانیہ نے اوکے کہا اور سیدھی سامنے پڑے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی اور فوری طور پر دانش کی طرف منہ کر کے بولی تم نے وہیں صوفے پر سونا ہے بیڈ پر صرف میں لیٹوں گی۔ دانش تانیہ کی بات سن کر مسکرایا اور بولا جیسے محترمہ کا حکم۔ یہ کہ کر میجر پاس پڑے صوفے پر لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں اسکے خراٹوں کی آوازیں آنے لگیں تھیں۔
================================================== ==================
جب سے وجی نے مری کے ہوٹل میں پنکی کے ہونٹوں کا رس چوسا تھا وہ اسکا پہلے سے زیادہ دیوانہ ہوگیا تھا، ہونٹوں کے ساتھ ساتھ وجی نے کافی دیر اپنے ہاتھ سے پنکی کے نرم نرم چوتڑ بھی دبائے تھے اور ایک بار اسکے مموں کے ابھاروں پر بھی اپنا ہاتھ رکھا تھا جسکو پنکی نے فورا ہی ہٹا دیا تھا۔ وجی بھی اب اپنی بہن عالیہ اور والدین کے ساتھ کراچی واپس آچکا تھا۔ مگر اسکے ذہن سے ابھی تک پنکی کے ساتھ گزرے ہو چند خوبصورت لمحات مٹ نہیں پائے تھے۔ وہ ہر وقت پنکی کے بارے میں سوچتا اور اسکی خوبصورتی اور ہونٹوں کے لمس کو یاد کرتا رہتا۔ کراچی سے واپس آکر اسکی ایک دو بار پنکی سے ملاقات تو ہوئی مگر اسے کوئی ایسا موقع نہیں مل پایا تھا کہ وہ دوبارہ سے پنکی کے لبوں سے اپن لب ملا سکے۔ اسکی پنکی سے ملاقات کے دوران اسکی بہن عالیہ بھی ساتھ تھی اور اس نے اپنے بھائی کی بے تابی کو محسوس کر لیا تھا۔ عالیہ نے اس بارے میں پنکی سے بات کرنے کی ٹھان لی اور ایک دن موقع غنیمت جان کر اور پنکی کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کراس نے پنکی سے پوچھ ہی لیا کہ کیا وہ وجی سے پیار کرتی ہے؟؟؟
عالیہ کے اس اچانک سوال پر پنکی حیران بھی ہوئی اور ساتھ میں اسکے پنک پنک گالوں پر لالی بھی اتر آئی اور اس نے شرماتے مسکراتے اپنا منہ نیچے کر لیا۔ عالیہ کہ پنکی کی اس ادا پر بے تحاشہ پیار آیا اور اس نے عالیہ کا چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، واہ مہارانی صاحبہ کا تو خوشی سے لال ہوگیا ہے۔ اب کی بار پنکی عالیہ کو کوئی جوان دینے کی بجائے اسکے گلے سے لگ گئی۔ یہ عالیہ کے لیے واضح جواب تھا کہ پنکی اسکے بھائی وجی سے پیار کرتی ہے۔ اب عالیہ نے پنکی کو بتایا کہ وہ اس بارے میں اپنے ممی ڈیڈی سے بات کرے گی اور وہ لوگ پھر تمہارے گھر تمہارا ہاتھ مانگنے آئیں گے اور میں تمہیں اپنی بھابھی بنا کر اپنے گھر لے آوں گی۔ یہ سن کر پنکی کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور ایک بار پھر وہ عالیہ سے گلے لگ گئی مگر بولی کچھ نہیں۔
پھر واقعی کچھ دن کے بعد وجی کے والدین عالیہ کے ساتھ پنکی کے گھر آئے اور پنکی کی والدہ سے پنکی کا ہاتھ مانگ لیا۔ پنکی کو جب اس بارے میں پتا لگا تو وہ شرم کے مارے کچن میں ہی چھپ گئی۔ عفت نے اپنی نند کو یوں شرماتے دیکھا تو اسکا ماتھا چوم لیا اور بولی چلو جا کر اپنے ہونے والے ساس سسر کو چائے پیش کرو۔ پنکی نے سر پر دوپٹہ رکھا اور شرماتی ہوئی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ساس سسر کے سامنے جا کر چائے رکھی۔ عالیہ نے پنکی کو آتے دیکھا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور پنکی نے چائے ٹیبل پر دکھ دی تو عالیہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور اسکی پیشانی پر ایک بوسہ دیا۔ پھر پنکی نے آگے بڑھ کر اپنے ہونے والے سسر جی سے پیار لیا پھر ساس سے پیار لینے گئی تو ساس صاحبہ نے پنکی کو اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا۔ پنکی نے کہا کہ میں آپکو چائے بنادوں تو اسکی ہونے والی ساس نے کہا چائے عالیہ بنا لے گی تم ادھر ہمارے پاس بیٹھو۔
خود پنکی کی امی بھی بہت خوش تھیں اور عفت بھی خوش تھی۔ کچھ ہی دیر میں نادیہ بھی کمرے سے تیار ہو کر نکلی اور بڑی خوشدلی کے ساتھ آنے والے مہمانوں سے ملی اور پنکی کے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرا۔ کافی دیر سب لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ پھر عمیر بھی گھر آگیا تو گھر میں مہمانوں کو دیکھ کر حیران ہوا۔ ابھی تک اسکو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ اسکی چھوٹی بہن کا رشتہ آیا ہے۔ عمیر کی نظر عالیہ پر پڑی تو اسنے فورا ہی پہچان لیا، وہ مری میں عالیہ سے ملا تھا۔ عمیر بھی سب مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر وجی کے ابو نے عمیر سے بات شروع کی اور اپنے آنے کا مقصد عمیر کے سامنے رکھ دیا۔ عمیر نے ایک نظر اپنی والدہ کی طرف دیکھا جنکے چہرے پر خوشی کے واضح آثار موجود تھے اور پھر پنکی کی طرف دیکھا جو چھوئی موئی بنی اپنی ساس کے ساتھ بیٹھی تھی۔ نادیہ بھی عمیر کے ساتھ آکر بیٹھ چکی تھی اس نے بھی عمیر کو رضامندی کا اظہار کرنے کو کہا اور عفت کی بھی یہی مرضی تھی۔
سب کی مرضی دیکھ کر عمیر نے وجی کے ابو کہ ہاں کر دی مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہم ابھی کوئی رسم نہیں کریں گے۔ پہلے دانش بھائی واپس آجائیں تو انکے واپس آنے کے بعد منگنی کی رسم بھی ہوجائے گی اور پھر مناسب موقع دیکھ کر شادی بھی کر دیں گے۔ تب تک آپکی پنکی ہمارے پاس امانت ہے۔ عمیر کے اس فیصلے سے سبھی گھر والے خوش تھے اور وجی کے ابو نے بھی اس پر رضامندی کا اظہار کر دیا کہ بڑے بھائی کی موجودگی خوش آئند ہوگی کسی بھی رسم کے لیے۔ اسکے بعد سب لوگ بیٹھے گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔ رات کا ٹائم ہوا تو مہمانوں نے اجازت چاہی، اور تھوڑی ہی دیر میں تینوں مہمان گھر سے چلے گئے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد عمیر نے بھی پنکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسکو پیار دیا اور ڈھیروں دعائیں دی اور پنکی وجی کا چہرہ اپنی آںکھوں میں سجائے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
دو گھنٹے بعد پنکی کے موبائل پر کال آئی، سکرین پر وجی کا نام تھا، پنکی نے کال اٹینڈ کی تو آگے سے وجی کی پیار بھری آواز سنائی دی۔ وجی کی آواز سنتے ہی پنکی کے چہرے پر شرم کے بادل چھا گئے ۔ پہلے تو پنکی سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ اسکی جھجھک ختم ہوئی تو پنکی کو تب ہوش آیا جب ایک گھنٹے کے بعد کال خود ہی بند ہوگئی۔ اسکے بعد وجی کی دوبارہ سے کال آئی اور اس نے اگلے دن پنکی کو کالج ٹائم کے دوران ملنے کا کہا۔ پنکی تھوڑی دیر انکار کرنے کے بعد وجی کی بات ماننے پر راضی ہوگئی اور دونوں نے پروگرام بنایا کہ کالج ٹائم کے دوران دونوں کہیں دور لانگ ڈرائیو پر جائیں گے۔ اسکے بعد کال بند ہوگئی اور پنکی وجی کے سپنے دیکھنے لگی۔
کرنل وشال امجد کو جونا گڑھ کی طرف روانہ کرنے کے بعد خود اس کچے راستے پر آگے موجود قصبوں کی طرف جا رہا تھا۔ اپنے ساتھ موجود ایک گاڑی کو اس نے جونا گڑھ کی طرف بھیج دیا تھا تاکہ وہ امجد "سردار سنجیت سنگھ" کی جاسوسی کر سکے۔ گوکہ کرنل وشال کا امجد پر شک ختم ہوگیا تھا اور اسے یقین تھا کہ یہ دانش کا ساتھی نہیں بلکہ دانش نے اسکو زبردستی اپنے ساتھ رکھا، مگر پھر بھی کرنل کے ذہن میں کہیں نہ کہیں بے یقنینی کی کیفیت بھی موجود تھی۔ اسی لیے اس نے اپنے چند آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ جونا گڑھ تک امجد کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ راستے میں یا جونا گڑھ پہنچ کر کسی سے رابطہ تو نہیں کرتا۔ اور اگر وہ کسی سے رابطہ کرے تو فوری طور پر پتا لگایا جائے کہ اس نے کن لوگوں سے رابطہ کیا اور انکو کیا کہا۔
کچھ ہی دیر کے بعد کرنل وشال سنگھ اپنے قافلے کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں موجود تھا۔ رات کا وقت تھا، قصبے کے لوگ دور سے ہی گاڑیوں کی لائٹس دیکھ کر اٹھ گئے تھے۔ ایسے چھوٹے قصبوں میں عموما مرد حضرات گھر کے باہر ہی سوتے ہیں۔ لہذا جیسے ہی انکی آنکھوں میں لائٹ پڑی انکی آنکھ کھل گئی اور جرائم پیشہ افراد ہونے کی وجہ سے انہوں نے فورا ہی اپنے اپنے گھروں سے اپنی بندوقیں نکال لی تھیں کہ مبادا آنے والا ہمارے مویشی یا دوسرا قیمتی سامان ہتھیانے کی کوشش کریں گے۔ جب گاڑیاں قصبے میں پہنچ گئیں تو انہیں احساس ہوا کہ یہ آرمی اور پولیس کی گاڑیاں ہیں۔ اگر خالی پولیس کی گاڑیاں ہوتیں تو وہ پولیس پر فورا ہی فائرنگ کھول دیتے مگر آرمی سے پنگا لینے کی ہمت ان میں نہیں تھی اس لیے قصبے کے سرپنچ نے سب لوگوں کو اپنی بندوقیں نیچی رکھنے کا کہ دیا۔
کرنل وشال بھی دور سے ہی اندازہ لگا چکا تھا کے سامنے کھڑے لوگوں کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔ مگر وہ جانتا تھا کہ جب انہیں پتا لگے گا کہ یہ آرمی کی گاڑیاں ہیں تو وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ اس لیے کرنل بلا خوف آگے بڑھتا رہا۔ آبادی سے کچھ دور کرنل نے گاڑیاں رکوا دیں اور گاڑی سے اتر کر ان لوگوں کی طرف بڑھنے لگا۔ کرنل کے ارد گرد مسلح فوجی موجود تھے جو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھے جبکہ پولیس والے بھی پیچھے پیچھے اپنی بندوقوں کا رخ قصبے والوں کی طرف کیے چلے آرہے تھے۔
کرنل وشال نے ان لوگوں کے پاس پہنچ کر انہیں پرنام کیا تو انکا سر پنچ آگے آکر کھڑا ہوگیا اور اپنا تعارف کروایا۔ کرنل وشال نے اونچی آواز میں انہیں بتایا کہ آپ لوگ فکر نہیں کریں ہمارا یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں کو نقصان پہنچانا ہرگز نہیں بلکہ ہم یہاں ایک دہشت گرد کو ڈھونڈنے آئے ہییں جو پاکستان سے ہماری سرحد میں داخل ہوا ہے اور ایک بار پکڑَ جانے کے باوجود ہماری قید سے بھاگ نکلا۔ اب اسکے ساتھ ایک دہشت گرد اور بھی موجود ہے اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق وہ جامنگر بائی پاس سے جونا گڑھ جانے کی بجائے اس کچے راستے پر اسی قصبے کی طرف آئے ہیں۔ اگر آپکو انکے بارے میں کوئی معلومات ہیں تو ان کو پکڑنے میں ہماری مدد کریں ۔ آپکی مدد سے ہی ہم ان دشمنوں کو پکڑ سکتے ہیں۔
کرنل کی بات ختم ہوئی تو قصبے کے سرپنچ نے کرنل وشال کو کہا، ہم لوگ چھوٹے موٹے جرائم ضرور کرتے ہیں، مگر کسی دشمن کو پناہ دینے کی سوچ بھی نہیں سکتے۔ دشم ملک کا کوئی بھی شخص ہمارے ہتھے چڑھ جائے تو ہم اسکو زندہ نہ چھوڑیں اسکو پناہ دینا یا اسکی مدد کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کرنل وشال نے پھر سے کہا کہ یہ دہشت گرد پیسے کا استعمال کر کے لوگوں کو خریدتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ میں سے کسی نے پیسے کے لیے انکی مدد کی ہو۔ اگر آپکو کسی ایسے شخص کے بارے میں معلوم ہے تو ہمیں بتائیں اور اگر آپ نے کسی انجان شخص کو اور اسکے ساتھ لڑکی کو دیکھا ہے تو وہ بھی بتائیں۔ سر پنچ نے اس بار کرنل کو للکارا اور غصے سے بولا کہ ایک بار کہ دیا ہم کسی دہشت گرد کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہمیں پیسوں سے خریدا نہیں جا سکتا۔ ہم چور ہیں ڈاکو ہیں مجرم ہیں مگر دیش دروہی ہرگز نہیں۔ ہم اپنے دشمن ملک سے آئے کسی بھی اتنگ وادی کی مدد کرنا پاپ سمجھتے ہیں۔ آپ بار بار ہم پر یہ الزام لگا کر ہماری توہین کر رہے ہو۔ اب کی بار کرنل وشال نے سپاٹ لہجے میں کہا سرپنچ جی آپ بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں۔ مگر سرکار ہمیں اس ملک کی حفاظت کرنے کی پگار دیتی ہے۔ اور جب تک ہم اپنی تسلی نہیں کر لیتے ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ ہمیں اس قصبے میں موجود ہر گھر کی تلاشی لینی ہوگی کیا پتا کسی نے گھر میں چھپا کر رکھا ہو؟؟ کرنل کی بات سن کر قصبے کے سرپنچ نے باقی لوگوں کی طرف دیکھا اور ان سے مخاطب ہوکر بولا میں کرنل صاحب کو تلاشی لینے سے ہرگز نہیں روکوں گا یہ انکا فرض ہے، مگر انکی تلاشی لینے سے پہلے ہی مجھے بتادو اگر کسی نے پناہ دی ہے کسی دہشت گرد کو تو انہیں ابھی کرنل صاحب کے حوالے کر دیا جائے۔ میرا وعدہ ہے کہ اسکو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن اگر تلاشی کے دوران کسی کے گھر سے دہشت گرد برآمد ہوئے تو اسکی خیر نہیں پھر۔
تمام لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ کرنل کو تلاشی لینے دی جائے، ہم نے کسی کو بھی پناہ نہیں دی۔ یہ سن کر کرنل وشال نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اوروہ 2، 2 کی ٹولیوں میں وہاں موجود گھروں میں گھس کر تلاشی لینے چلے گئے جبکہ کرنل وشال اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ باہر ہی موجود رہا۔ قریب آدھا گھنٹہ کرنل کے آدمی قصبے میں موجود گھروں کی تلاشی لینے کے بعد ناکام لوٹ آئے اور بتایا کہ سر یہاں کوئی موجود نہیں۔ سر پنچ نے فخریہ نظروں سے کرنل کی طرف دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا ہم دیش دروہی ہرگز نہیں۔
کرنل نے سرپنچ کا شکریہ ادا کیا اور اگلے قصبے کی طرف جانے کا ارادہ کیا، ابھی وہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایک عورت بھاگتی ہوئی آئی اور اس نے بتایا کہ اسکے ساتھ والے گھر میں ایک لڑکا رہتا ہے جسکی عمر 18 سال ہے۔ اسکا باپ شہر سے باہر گیا ہوا ہے اور کچھ ہی دیر پہلے میں نے اسے اپنی گاڑی میں کہیں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسکے ساتھ گاڑی میں ایک لڑکی بھی موجود تھی جسکی شکل میں صحیح سے دیکھ نہیں پائی اور وہ آدھے گھنٹہ پہلے یہاں سے نکلے ہیں۔
کرنل نے اسکی بات سن کر دوبارہ سے اپنے اس اہلکار کو بلا لیا جو جامنگر اور اس قصبے کے بارے میں معلومات رکھتا تھا۔ کرنل نے اس عورت کو کہا کہ اس آدمی کو راستہ سمجھاو کہ وہ کس طرف گئے ہیں۔ تو اس عورت نے اپنی گجراتی زبان میں اسے ایک راستہ سمجھایا جو چھوٹے چھوٹے گاوں اور قصبوں سے ہوتا ہوا جونا گڑھ کے قریب جا کر نکلتا تھا۔ اس اہلکار نے کرنل کو بتایا کہ یہ سارا راستہ کچہ ہے اور جہاں مین روڈ سے 3 گھنٹے میں یہ فاصلہ طے ہونا ہے اس کچے راستے سے 4 گھنٹے لگ جائیں گے۔ کرنل وشال نے فوری اپنے ساتھیوں کو گاڑیوں میں بیٹھنے کا کہا اور سب سے آگے اپنی گاڑی رکھتے ہوئے اس اہلکار کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ وہ راستہ بتا سکے۔ کرنل کے قافلے میں سب کی سب پجارو یا ڈالے وغیرہ تھے جو کچے راستے پر خاصی رفتار سے اپنا سفر طے کر سکتے تھے اسکے برعکس کار کے لیے یہ سفر مشکل تھا اور کار زیادہ رفتار کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس لیے کرنل کو یقین تھا کہ ان لوگوں کے جونا گڑھ پہنچنے سے پہلے کرنل وشال ان تک پہنچ جائے گا۔
امجد سست رفتاری کے ساتھ جونا گڑھ کا سفر طے کر رہا تھا۔ اسے علم تھا کہ راستے میں ابھی اور بھی پولیس کے ناکوں پر اسے روکا جائے گا مگر اب وہ مطمئن تھا کہ جب کرنل وشال اسے نہیں پہچان پایا تو یہ عام پولیس والے سرسری طور پر گاڑی کی چیکنگ کرنے کے بعد اسکو چھوڑ دیں گے۔ اور ہوا بھی یہی، امجد کو راستے میں جہاں کہیں بھی روکا گیا اس نے اپنا راشن کارڈ نکال کر دکھایا جس پر سردار سنجیت سنگھ کا نام درج تھا، پولیس اہلکاروں نے امجد کی گاڑی کی تلاشی لی اور اسکے آگے جانے دیا۔ یہ کام ہر پولیس ناکے پر ہوا اور امجد بغیر پریشان ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ ہر ناکے پر اپنی چیکنگ کرواتا رہا۔
اپنی طرف سے وہ مکمل مطمئن تھا مگر اسکو فکر تھی تو دانش اور تانیہ کی۔ اس نے اپنے طور پر تو کرنل وشال کو چکمہ دے دیا تھا اور اور اب کرنل وشال کچے راستوں سے ہوتا ہوا میجر دانش کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر امجد جانتا تھا کہ ہر ناکے پر بسوں کو بھی چیک کیا جائے گا، اور جس بس میں اس نے میجر دانش اور تانیہ کو بٹھایا تھا اسکی بھی چیکنگ ہوگی۔ اور اگر کہیں یہ لوگ پکڑے گئے تو سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ پہلے آئی ایس آئی کی طرف سے اسکو میجر دانش کی رہائی کا ٹارگٹ ملا تھا، اس سے پہلے کہ امجد اپنا کوئی پلان بناتا میجر دانش خود ہی چھوٹ آیا تھا، اور اب نہ صرف اسکے پکڑے جانے کا دوبارہ سے خوف تھا بلکہ ساتھ میں تانیہ بھی پکڑی جاتی تو مسئلہ اور بھی بڑھ سکتا تھا۔ صرف یہی ایک بات تھی جو امجد کو پریشان کر رہی تھی۔
امجد کو جونا گڑھ کی طرف جاتے ہوئے کوئی ایک گھنٹے سے اوپر کا ٹائم گزر چکا تھا اس دوران امجد نے نوٹ کیا تھا کہ ایک گاڑی مسلسل امجد کا پیچھا کر رہی ہے۔ گو کہ پیچھے آنے والی گاڑی کافی فاصلے پر تھی مگر پھر بھی امجد کا شک تھا کہ یہ گاڑی اسی کے پیچھے آرہی ہے جو ہو نہ ہو کرنل وشال نے ہی بھیجی ہے۔ امجد نے اپنی تسلی کے لیے چند مقامات پر اپنی رفتار بہت دھیمی کر دی اور انتظار کرنے لگا کہ پیچھے آنے والی گاڑی آگے نکلتی ہے یا نہیں۔ مگر امجد کا شک درست نکلا، جیسے ہی امجد اپنی رفتار دھیمی کرتا پیچھے آنے والی گاڑی بھی آہستہ ہوجاتی اور جب امجد اپنی گاڑی کی رفتار بڑھاتا تو پیچھے آنے والی گاڑی بھی رفتار تیز کر لیتی۔
اب جونا گڑھ 1 گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ رات کے 3 یا 4 بجے کا ٹائم ہورہا تھا اور امجد کو ٹائلٹ جانے کی بھی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک موڑ تھا اور موڑ سے آگے ایک گیس پمپ تھا۔ امجد نے اچانک ہی اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا دی اور موڑ مڑنے کے بعد گاڑی گیس پمپ کی طرف لے گیا۔ یوں تو اسے یقین تھا کہ پیچھے آنے والی گاڑی اسی کا پیچھا کر رہی ہے، مگر وہ پھر بھی مکمل تسلی کرنا چاہتا تھا۔ موڑ مڑتے ہی امجد نے اپنی گاڑی سڑکے سے اتار کر کھڑی کر دی مگر پمپ سے دور رکھی کیونکہ وہ چاہتا تھا پیچھے آنے والی گاڑی جیسے ہی موڑ مڑے اسکو امجد کی گاڑی نظر آجائے۔
گاڑی سڑک سے اتار کر امجد گاڑی سے نکلا پمپ پر موجود ٹائلٹ میں چلا گیا۔ بغیر ٹائم ضائع کیے جب امجد باہر نکلا تو اس نے دیکھا پیچھے آنے والی گاڑی اب امجد کی گاڑی سے کچھ آگے کھڑی تھی اور ایک فوجی پمپ پر کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہو۔ امجد ٹائلٹ سے نکلا اور ٹک شاپ پر چلا گیا وہاں سے ایک جوس کا ڈبہ اور بسکٹ کا پیکٹ اٹھا کر باہر آنے لگا۔ دکاندار نے پیسے مانگے تو امجد نے باہر کھڑے فوجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ باہر میرے افسر کھڑے ہیں وہ دیں گے پیسے۔ فوجی کو دیکھ کر دکاندار خاموش ہوگیا۔ اور اپنے کاموں میں لگ گیا۔ امجد خاموشی سے باہر آیا مگر اب کی بار وہ سیدھا فوجی کے پاس گیا۔ فوجی نے امجد کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ انجان بن کر ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے وہ امجد کو جانتا ہی نہیں اور نہ ہی وہ امجد کی تلاش میں تھا۔ امجد اس فوجی کے پاس گیا اسکو ست سری آکال کہا اور پھر بولا کہ صاحب جی میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے میں نے یہ جوس کا ڈبہ اور بسکٹ اس دکان سے لیے ہیں آپ انہیں میری جگہ پیسے دے دیں؟؟
فوجی نے غصے سے امجد کی طرف دیکھا اور بولا میں کیوں دوں تمہاری جگہ پیسے؟؟؟ امجد بولا صاحب جی بڑی مہربانی ہوگی آپکی۔ مجھے آپکے بڑے صاحب جی نے جونا گڑھ جانے کا حکم دیا ہے اگر پیسے نہیں دیں گے تو یہ دکاندار مجھے یہاں سے جانے نہیں دے گا اور مجھے دیر ہوجائے گی۔ اگر آپ پیسے دے دیں تو میں ابھی چلا جاوں گا اور ٹائم کے ساتھ آپکے بڑے صاحب کی کی بھیجی ہوئِ جگہ پہنچ سکوں گا۔ اس فوجی نے یہ بات سنی تو بولا اچھا اچھا ٹھیک ہے تم جاو میں دے دوں گا پیسے۔ امجد شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور اور بسکٹ کا پیکٹ کھول کر سامنے رکھ لیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے دوبارہ سے سفر شروع کر دیا۔ اس فوجی نے جب دیکھا امجد جا رہا ہے تو وہ فورا دکان پر گیا اسکو پیسے دیے اور دوبارہ سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر امجد کا پیچھا کرنے لگا۔
اس ساری کروائی میں امجد صرف اس فوجی کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ نہ تو اسے سخت بھوک لگی تھی اور نہ ہی وہ اتنا بے شرم تھا کہ راہ چلتے کسی سے بھی پیسے مانگ لے۔ لیکن یہ حرکت کر کے امجد نے فوجی کے دل میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ اگر یہ کوئی دہشت گرد ہے تو اسکو تو فوج سے دور بھاگنا چاہیے، مگر یہ بغیر خوف کھائے ایک فوجی کے پاس آ کر اس سے مدد مانگ رہا ہے۔ اور امجد کا یہ تیر ٹھیک نشانے پر جا کر لگا تھا۔ فوجی نے پیچھا کرتے ہوئے اب کرنل وشال کو کال کی اور اسکو ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ امجد کسی بھی طور پر ان لوگوں کے ساتھ ملوث نہیں ہوسکتا۔ بس مجبوری کی وجہ سے یہ انکے ساتھ تھا۔ کرنل وشال نے بھی امجد کی طرف سے گرین سگنل دے دیا مگر پیچھا جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کیا معلوم وہ لوگ اس سے پٹرول پمپ پر ملنے آئیں۔ لہذا تم دھیان رکھنا جیسے ہی کوئی آئے اسکو فورا دھر لینا۔
ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد امجد جونا گڑھ شہر کے پہلے پٹول پمپ پر اپنی گاڑی کھڑی کر کے کھڑا تھا۔ جبکہ پیچھے آنے والا فوجی پٹرول پمپ سے کافی دور اپنی گاڑی کھڑی کر کے کھیتوں میں سے ہوتا ہوا پٹرول پمپ کی دیوار کے قریب پہنچ گیا تھا اور امجد پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ امجد کی پیٹھ فوجی کی طرف تھی ، وہ اس بات سے تو بے خبر تھا کہ فوجی کہاں کھڑا ہے مگر اتنا ضرور جانتا تھا کہ کہیں نہ کہیں سے وہ امجد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جب پٹرول پمپ پر کھڑے ہوئے امجد کو 5 سے 6 گھنٹے ہوگئے اور وہاں کوئی نہ آیا تو اس فوجی نے دوبارہ کرنل وشال کو فون کیا تو کرنل وشال نے اب اسے جونا گڑھ شہر میں داخل ہونے کا کہا اور وہاں موجود آرمی کیمپ میں بلا لیا۔ اور ساتھ ہی اسکو حکم دیا کہ سردار سنجیت سنگھ کو کہو اب وہ اس پٹرول پمپ سے نکل جائے اور کسی محفوظ جگہ پر جا کر چھپ جائے۔
فوجی نے ایسے ہی کیا، وہ واپس اپنی گاڑی تک گیا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر واپس پٹرل پمپ پر آیا وہاں رک کر وہ امجد سے ملا۔ امجد نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا صاحب جی آپ وہی ہو نہ جس پہلے بھی پٹرول پمپ پر ملے تھے مجھے؟؟ تو فوجی نے کہا ہاں میں وہی ہوں۔ میرے صاحب نے مجھے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سردار جی سے کہو اب یہاں کوئی دہشت گرد نہیں آنے والا آپ بے فکر ہو کر جا سکتے ہو یہاں۔ مگر اپنی حفاظت کے لیے زیادہ باہر نہ نکلنا بلکہ کسی محفوظ ٹھکانے پر جا کر چھپ جاو۔ امجد نے فوجی کا شکریہ ادا کیا مگر اپنے ذہن میں موجود پریشانی کو دور کرنے کے لیے فوجی سے پوچھا کہ وہ دہشت گرد جن کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ مل گئے یا نہیں؟ فوجی نے کہا نہیں معلوم نہیں انکو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ وہ کہیں بھی نہیں مل پائے اور نا ہی اب انکا کوئی سراغ مل رہا ہے۔ یہ سن کر امجد کو تسلی ہوئی اور اس نے سوچا کہ دانش اور تانیہ خیریت سے جونا گڑھ پہنچ چکے ہونگے۔ کیونکہ امجد کوئی 6 گھنٹے پٹرول پمپ پر رک کر بظاہر دہشت گردوں کا انتظار کرتا رہا تھا اور وہ بس جس میں اس نے دانش اور تانیہ کہ بٹھایا تھا کوئی 7 گھنٹے قبل جونا گڑھ پہنچ چکی ہوگی۔ اب امجد نے فوجی کو بتایا کہ یہاں اسکے کچھ دوست رہتے ہیں میں انکی طرف جا کر چھپ جاوں گا اس وقت وہی ایک محفوظ جگہ ہے میرے لیے۔ فوجی نے اسکی بات پر بغیر کوئی توجہ دیے اوکے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
امجد بھی اب پٹرول پمپ سے نکلا اور جونا گڑھ میں موجود اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اسکا پیچھا نہیں ہوگا اور وہ اطمینان کے ساتھ سرمد کاشف، دانش اور تانیہ کو مل سکتا ہے اور پھر آگے کا پلان بنایا جائے گا۔ کچھ ہی دیر میں مختلف راستوں سے ہوتا ہوا امجد اپنے مطلوبہ ٹھکانے پر پہنچ چکا تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اس کالونی میں امجد نے ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا جو اس نے کشمیر کی ایک فیملی کو کرائے پر دیا ہوا تھا۔ اور امجد کا جب دل کرتا وہ یہاں آجاتا تھا۔
امجد جب اس گھر میں پہنچا تو سامنے کمرے میں رانا کاشف اور سرمد گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ امجد نے ادھر ادھر دیکھا مگر نہ تو اسے تانیہ کہیں نظر آئی اور نہ ہی میجر دانش۔ پھر امجد دوسرے کمروں میں گیا مگر وہاں بھی اسے کوئی دکھائی نہ دیا تو اوپر والے پورشن میں کشمیری فیملی سے امجد نے جا کر دانش اور تانیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ رات 3 بجے کے قریب بس 2 آدمی ہی آئے ہیں جو اس وقت نیچے ہی ہونگے انکے علاوہ اور کوئی نہیں آیا یہاں پر۔ یہ خبر امجد پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی۔ جو پہلا خیال اسکے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ کرنل وشال تانیہ اور میجر کو پکڑ چکا ہے اور پٹرول پمپ سے واپس جانے کا کہنا اور اپنے اعتماد کا اظہار کرنا کرنل کی کوئی چال ہوگی تاکہ وہ امجد کا پیچھا کر کے باقی لوگوں کر بھی پکڑ سکیں۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی امجد کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔
صبح 6 بجے تانیہ کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ سے اٹھ کر دانش کو اٹھانے صوفے کی طرف بڑھی مگر وہاں دانش موجود نہیں تھا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر جولی کے کمرے میں گئی مگر وہاں جولی اور سوزینا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔ پھر تانیہ نے کچھ مزید کمرے چیک کے اور باہر گلی میں بھی دیکھ کر آئی مگر دانش کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔ تانیہ واپس اپنے کمرے میں آئی اور تو میجر دانش سامنے ہی بیڈ پر بیٹھا تھا۔ تانیہ میجر کو کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئی اور بولی کہ کہاں تھے تم ؟؟؟ میجر نے کہا تمہیں اس سے کیا تم تو ایسے سوئی پڑی تھی جیسے اپنی اماں جی کے گھر سوئی ہوئی ہو۔ میجر کی بات سن کر تانیہ نے کہا کل سارا دن تو تمہارے ساتھ خوار ہوتی رہی ہوں کی کہیں بھاگ رہی تھی تو کبھی کہیں تھکاوٹ کی وجہ سے اچھی نیند آگئی۔ مگر تم بتاو تم کہں تھے ؟؟؟
میجر نے بتایا کہ تمہارے کیپنٹ مکیش کے کمرے تک گیا تھا۔ اس سے کچھ کام تھا۔ تانیہ نے حیران ہوکر پوچھا تمہیں اس سے کیا کام پڑگیا اور تم وہاں گئے ہی کیوں؟؟ تو میجر نے اسے کہا چھوڑو تمہارا اس سے کیا تعلق۔ بس جس کام کے لیے میں گیا تھا وہ ہوگیا۔ اب تم تیاری کرو ہمیں ممبئی جانا ہے۔ ممبئی کا نام سنتے ہی تانیہ بولی ممبئی کیوں؟؟ ہمیں تو جونا گڑھ جانا ہے؟؟ امجد وہاں ہمارے انتظار میں ہے۔ تانیہ کی بات سن کر میجر نے تانیہ کو کہا اگر تم کرنل وشال کی قیدی بننا چاہتی ہو تو شوق سے جاو جونا گڑھ۔ وہ پاگل کتے کی طرح تمہیں اور مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ جونا گڑھ اور جامکوٹ کے تمام لوکل چینلز پر ہمارے بارے میں خبریں دی جارہی ہیں۔ وہاں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ممبئی بہت بڑا شہر ہے وہاں ہمیں آسانی سے رہنے کی جگہ بھی مل جائے گی اور اسکے ساتھ ساتھ کرنل وشال پر کاری ضرب بھی لگا سکیں گے۔ کرنل وشال کے بارے میں بہت سی معلومات میں حاصل کر چکا ہوں۔ اب تیاری کرو نکلیں یہاں سے۔
کچھ ہی دیر میں تانیہ اور اور دانش کیپٹن مکیش کی جیپ میں بیٹھے شہر سے دور جا رہے تھے۔ ایک پلازے کے قریب پہنچ کر میجر دانش نے گاڑی روک لی۔ صبح صبح کا ٹائم تھا پلازے کا مین گیٹ بند پڑا تھا اور باہر ایک چوکیدار بیٹھا تھا۔ میجر دانش نے چوکیدار سے کہا ہمیں مونا جی سے ملنا ہے۔ چوکیدار بولا مونا جی 11 بجے اپنا کام شروع کرتی ہیں ابھی تم لوگ جاو بعد میں آنا۔ میجر دانش نے چوکیدار کو دوبارہ کہا کہ میری بات ہوگئی ہے مونا جی سے تم انہیں خبر دو کہ کیپٹن مرلی وجے آئے ہیں ان سے ملنے۔ کیپٹن کا لفظ سنتے ہی چوکیدار کھڑا ہوا اور پاس کیبن میں موجود فون سے مس مونا کا نمبر ملا یا اور انہیں کیپٹن مرلی کے آنے کی خبر دی۔ مونا جی نے کہا انہیں میرے کمرے تک پہنچا دو۔ چوکیدار نے اب چھوٹا گیٹ کھولا اور دانش کو بولا آپ لوگ گاڑی یہیں کھڑی رہنے دو میں آپکو مونا جی کے کمرے تک لے جاتا ہوں۔ میجر دانش نے گاڑی سے چابی نکالی اور تانیہ کا ہاتھ پکڑ کر چوکیدار کے پیچھے چلنے لگا۔ چیکدار پلازے کی بلڈنگ میں موجودلفٹ کا استعمال کرتے ہوئے چوتھی منزل پر گیا اور ایک کمرے کے سامنے رک گیا چوکیدار نے کمرہ ناک کیا تو اندر سے مونا جی کی آواز آئی کم اِن۔
چوکیدار پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا اور میجر دانش کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ میجر دانش تانیہ کو لیے اندر چلا گیا۔ اندر ایک 40 سالہ ادھیڑ عمر خاتون نے میجر دانش اور تانیہ کا استقبال کیا۔ میجر دانش سے ہاتھ ملاتے ہوئے مونا نے اسے کیپٹن مرلی کہ کر مخاطب کیا جبکہ تانیہ سے ملتے ہوئے اسے مسز مرلی کہ کر مخاطب کیا۔ تانیہ ابھی صحیح صورتحال سمجھ نہیں پائی تھی اور دانش سے کچھ پوچھنے ہی لگی تھی کہ دانش کی آواز آئی مونا جی اب جلدی جلدی اپنا کام کریں ہمارے پاس ٹائم بہت کم ہے۔ یہ سن کر مونا تانیہ اور دانش کو لیکر اندر ایک کمرے میں گئی۔ یہ ایک بیوٹی پارلر جیسا کمرہ تھا۔ جہاں ایک 25 سالہ لڑکی اور بھی کھڑی تھی۔
مونا جی نے مسز مرلی یعنی تانیہ کو ایک چئیر پر بیٹھنے کو کہا اور پاس کھڑی لڑکی کو بولی میڈیم جی کا ایک دم زبردست میک اپ کر دو اور ہاف ہئیر کٹ کر کے ہئیر سٹائل بھی بناو۔ تب تک میں مسٹر مرلی کا میک اپ کر لوں۔ تانیہ ابھی تک سمجھ نہیں پائی تھی کہ یہ صبح صبح میک اپ کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ اور اس ٹائم کونسا بیوٹی پارلر کھلا ہوتا ہے؟؟ اور دانش کو کیسے پتا کہ یہاں جامنگر میں اس پلازے میں ایک بیوٹی پارلر بھی موجود ہے۔ مگر وہ چپ چاپ بیٹھی اپنا میک اپ کروانے لگی۔ لڑکی نے پہلے تانیہ کا ہئیر کٹ کیا۔ تانیہ کے لمبے گھنے بال جو اسکی قریب قریب اسکی کمر کے برابر تھے اب محض کندھوں تک رہ گئے تھے۔ اسکے علاوہ فرنٹ ہئیر کٹ نے تانیہ کو بالکل ہی نئی لُک دے دی تھی۔ کچھ ہی دیر میں تانیہ کا میک اپ بھی ہوگیا تھا، اب وہ کسی بھی اینگل سے کشمیری یا کسی جہادی تنظیم کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔ بلکہ تانیہ اب دکھنے میں ہائی کلاس فیملی کی جوان لڑکی کے روپ میں تھی۔ اب اسی لڑکی نے تانیہ کو ساتھ والے روم میں لیجا کر اسے وارڈ روب سے کچھ کپڑے دکھائے۔ یہاں سب کپڑے ہائی کلاس فیملیز کے مطابق تھے۔ تانیہ نے ایک سوٹ پسند کر لیا۔
سکن ٹائٹ پینٹ کے ساتھ ایک لوز سی شرٹ جو تانیہ کے پیٹ پر آکر ختم ہورہی تھی پہن کر تانیہ اپنے آپ کو شیشے میں دیکھنے لگی۔ لائٹ میک اپ، ہئیر کٹ اور اس ڈریس میں تانیہ واقعی کسی ماڈرن گھرانے کی خاتون لگ رہی تھی۔ اب اس لڑکی نے تانیہ کو اسکے ساتھ ہائی ہیل جوتے بھی لا کر دیے جنکو پہن کر تانیہ اور بھی خوبصورت دکھ رہی تھی اور ساتھ بلیک کلر کے گلاسز اسکی شخصیت کو کافی پر اعتماد بنا رہے تھے۔ تانیہ جو کچھ دیر پہلے ایک سیکسی عربی لڑکی کے روپ میں ڈانس کلب میں ڈانس کر رہی تھی اب ایک مکمل صوبر اور گریس فل لڑکی کے روپ میں کھڑی تھی۔ تیار ہو کر جب وہ باہر نکلی تو دانش کو دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ میجر دانش اس وقت دانش کم اور کیپٹن مکیش زیادہ لگ رہا تھا۔ مونا جی نے میجر دانش کا میک اپ کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ اب اسکا گورا رنگ کچھ کالا ہوگیا تھا اور اگر کوئی کیپٹن میکش کی تصویر دیکھ کر میجر دانش کو دیکھتا تو اسے لگتا اسکے سامنے کیپٹن مکیش ہی کھڑا ہے۔
10 منٹ کے مزید میک اپ ٹچ کے بعد دانش بھی اپنی چئیر سے کھڑا ہوگیا اور جولی نے اسے بھی کچھ مردانہ کپڑے دکھائے جن میں سے میجر دانش نے ایک جوڑے کا انتخاب کیا اور پھر مونا جی کو ایک بڑی رقم دے کر واپس کیپٹن مکیش کی جیپ میں آکر بیٹھ گیا۔ میجر کے ہاتھ میں ایک بیگ بھی تھا جو پہلے نہیں تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر میجر نے گاڑی سٹارٹ کی اور ہائی وے نمبر 6 سے ہوتا ہوا ائیر پورٹ روڈ پر چڑھ گیا۔ اب تانیہ کو سمجھ لگ گئی تھی کہ رات جو ممبئی کے ٹکٹ میجر دانش کو ملے تھے میجر انہی کا استعمال کر کے ممبئی جائے گا اور کیپٹن مکیش کی تصویر دکھا کر اس نے مونا جی سے اپنا میک اپ اسطرح کروایا کہ انکی شکل اب کافی ملتی جلتی لگنے لگی تھی۔
تانیہ نے میجر دانش سے پوچھا کہ باقی سب کچھ تو مجھے سمجھ آگیا مگر تم نے مونا جی کو کیپٹن مکیش کی تصویر کیسے دکھائی؟؟؟ میجر دانش نے جیب سے ایک موبائل فون نکالا اور تانیہ کو پکڑا دیا۔ یہ سامسنگ کمپنی کا گلیکسی ایس 5 موبائل تھا۔ تانیہ نے پوچھا یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟؟؟ تو میجر نے بتایا کہ تم تو گھوڑے بیچ کر سو گئی تھی مگر میں تھوڑی سی نیند پوری کرنے کے بعد اس کمرے میں گیا جہاں تم نے کیپٹن مکیش کو بے ہوش کیا تھا۔ وہاں جا کر میں نے اسکی مزید تلاشی لی کہ شاید کوئی کام کی چیز مل جائے۔ یہ موبائل ملا، اس سے میں نے کرنل وشال کے بارے میں بھی بہت سی معلومات حاصل کر لی ہیں اور ساتھ ساتھ کیپٹن مکیش کے بارے میں بھی۔ اسی موبائل سے کیپٹن مکیش کی تصویریں بنائیں اور پھر موبائل سے ہی سرچ کیا جامنگر میں میک اپ آرٹسٹ کے بارے میں تو مجھے مونا جی کے فیس بک پیج کے بارے میں پتا لگا وہاں سے انکا موبائل نمبر لے کر انہیں کال کی اور اپنے آپ کو کیپٹن ظاہر کر کے انہیں مجبور کیا کہ وہ صبح 7 بجے ہمیں ملنے کا موقع دیں۔ اور میرا میک اپ اس طرح کر دیں کہ میری شکل دہشت گرد مکیش سے ملے۔ یہ کہ کر دانش نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور گاڑی چلانا جاری رکھی۔ پھر میجر دانش نے بتایا کہ کیپٹن مکیش کی 9 بجے کی فلائیٹ ہے ممبئی کی۔ ہم اسی فلائیٹ سے کیپٹن مکیش اور مسز مکیش بن کر ممبئی جائیں گے۔ وہاں آرمی ریذیڈینشل کالونی میں کرنل وشال کا گھر ہے جہاں اسکی ایک بیٹی ٹینا رہتی ہے اور اسکے علاوہ کچھ ملازم ہیں گھر میں۔ کرنل خود جامنگر اور جونا گڑھ مجھے تلاش کر رہا ہے جب تک اسے میری خبر ہوگی میں اسکے مشن کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا لگا لوں گا کہ آخر وہ پاکستان سے کونسی خفیہ معلومات لیکر انڈیا آیا ہے۔
اور کوشش کروں گا کہ یہ بھی پتا لگا سکوں پاکستان میں کونسا نیٹ ورک کرنل وشال کی مدد کرتا ہے۔ تانیہ نے پوچھا کہ ہم رہیں گے کہاں ممبئی میں؟ تو دانش نے کہا اسکا بھی بندوبست میں کر چکا ہوں۔ وہاں کے ایک جرائم پیشہ گروہ سے میری بات ہوئی ہے انکو بھاری رقم دے کر ایک ٹھکانہ حاصل کرلوں گا میں۔ اور اگر کرنل وشال ممبئی آ بھی جائے تو وہ مجھے ڈھونڈنے کے لیے جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانوں کی طرف نہیں آئے گا بلکہ آزادی پسند تنظیموں کے ٹھکانوں پر مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا، اس طرح میں سکون سے اپنا کام کرسکتا ہوں۔
اب میجر دانش اور تانیہ مسٹر اینڈ مسز مکیش کے روپ میں ائیر پورٹ پر موجود تھے۔ ریسیپشن پر میجر دانش نے کیپٹن مکیش کا کارڈ دکھایا تو ریسیپشن پر موجود خاتون نے میجر دانش کو خوشآمدید کہا اور ساتھ ہی تانیہ یعنی مسز مکیش کا حال چال پوچھنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد میجر دانش اور تانیہ ممبئی جانے والی فلائیٹ میں موجود تھے اور جہاز ٹیک آف کر چکا تھا۔ ایک گھنٹے اور 10 منٹ کی مختصر فلائٹ کے بعد قریب 10:30 بجے فلائیٹ ممبئی ائیر پورٹ پر لینڈ کر چکی تھی۔ آئیر انڈیا کی فلائٹ میں میجر دانش نے اپنے ذہن میں مزید پلاننگ کی اور کسی حد تک تانیہ کو بھی اپنے پلان کے بارے میں اطلاع دی۔
ائیر پورٹ سے باہر نکل کر میجر دانش نے ایک ٹیکسی لی اور نہرو نگر میں موجود ایک گھر کا پتا بتایا۔ راستے میں میجر دانش نے ایک جگہ ٹیکسی رکوائی۔ ٹیکسی رکی تو میجر دانش نیچے اترا اور آس پاس موجود لوگوں کا جائزہ لینے لگا۔ ان میں سے ایک شخص جو قدرے غریب لگ رہا تھا میجر دانش اسکی طرف بڑھا اور اس سے کہا کہ میں کافی مشکل میں ہوں اپنے موبائل سے مجھے ایک کال تو کرنے دو۔ اس شخص نے میجر دانش کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بولا کیا صاحب، اتنا پیسا ہے تمہارے پاس اور ایک موبائل نہیں رکھ سکتے کیا؟؟؟ میجر دانش نے گلیکشی ایس 5 لہراتے ہوئے کہا یار موبائل تو ہے مگر میں ابھی ابھی کینڈا سے آیا ہوں تو میرے پاس سِم موجود نہیں اور مجھے بہت ارجنٹ کال کرنی ہے۔ میجر کی توقع کے عین مطابق اس شخص نے مطالبہ کر دیا کہ صاحب کال کر لو مگر اس کال کے ہم 50 روپے لے گا تم سے۔ میجر دانش نے کہا ٹھیک ہے یار تم 100 روپے لے لینا مجھے کال کرنے دو۔ میجر نے اسکا موبائل لیکر ایک شخص کو کال کی اور اسے بتایا کہ وہ ممبئی پہنچ چکا ہے اور کچھ ہی دیر میں اسکی بتائی ہوئِ جگہ پر پہنچ جائے گا۔ اب اسے فوری طور پر اپنا مطلوبہ سامان چاہیے۔ دوسری سائڈ پر موجود شخص نے کہا تم بے فکر ہوجاو تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔ یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ میجر دانش نے جیب سے 100 کا نوٹ نکالا اور اس شخص کو دے دیا ساتھ میں موبائل بھی واپس کر دیا۔
اس شخص نے خوشی خوشی 100 کا نوٹ جیب میں رکھ لیا، میجر دانش واپسی کے لیے جانے لگا مگر پھر اچانک اس شخص کی طرف مڑا جیسے کوئی چیز بھول گیا ہو۔ اس شخص نے میجر کو اپنی طرف آتا دیکھا تو بولا کیا صاحب کوئی اور کال بھی کرنی ہے؟؟ تو میجر دانش نے اسے کہا یار کال تو بار بار کرنی پڑے گی، ابھی میں باہر سے آیا ہوں تو میرے پاس اپنا آئی ڈی کارڈ بھی نہیں اگر تم اپنی سِم مجھے دے دو تو میں تمہیں 500 روپے دوں گا۔ اس پر وہ شخص بولا نہ صاحب ہمیں بھی کال کرنی ہوتی ہے ہم تم کو اپنی سم نہیں دے گا۔ میجر نے کہا اچھا یار 1000 روپے لے لو۔ اب اس شخص نے تھوڑا سا سوچا کہ اس شخص کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور فوری سم نکال لی موبائل سے مگر ساتھ میں کہا صاحب 2000 لے گا ہم اس سِم کا۔ میجر دانش نے کہا یار 500 روپے میں سم مل جاتی ہے میں تو تمہیں 1000 دے رہا ہوں چلو تم 1500 لے لو۔ وہ شخص بولا نہ صاحب 2000 میں سودا طے کرنا ہے تو سم لے جاو نہیں تو جاو۔ دانش نے جیب سے 2000 روپے نکالے اس شخص کو دیے اور واپس گاڑی میں آگیا۔
ٹیکسی اب نہرو نگر کی طرف جارہی تھی۔ پیچھے بیٹھی تانیہ نے پوچھا کہ یہ ڈرامہ کیوں کیا؟؟؟ نئی سِم لے لیتے؟؟ تو میجر دانش نے تانیہ کو منہ چڑاتے ہوئے کہا کہیں بھی اپنا پروف چھوڑنا بے وقوفی ہوگی۔ اگر میں کیپٹن مکیش کے نام پر بھی سیم نکلوا لوں تو انہیں پتا چل جائے گا کہ میں ممبئی میں ہوں اور وہ آسانی سے اس سِم کو ٹریس کر سکتے ہیں۔ مگر یہ ایک راہ چلتے شخص کی سِم ہے اسکو کوئی ٹریس نہیں کرے گا۔ یہ سن کر تانیہ خاموشی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں نہرو نگر کے ایک چھوٹے سے گھر میں موجود تھے۔ گھر پہنچ کر تانیہ نے مونا جی کی طرف سے لائے گئے شاپنگ بیگ کھول کر دیکھے تو ان میں کچھ لیڈیز کپڑے موجود تھے اور 2 جینٹس سوٹ تھے۔ گھر پہنچ کر میجر دانش نے اپنا چہرہ گرم پانی سے اچھی طرح دھویا تاکہ یہاں کیپٹں مکیش کا کوئی جاننے والا دانش کو مکیش سمجھ کر ملنے ہی نہ چلا آئے۔ چہرہ اچھی طرح صاف کرنے کے بعد میجر دانش واش روم سے باہر آگیا اور دوبارہ سے ایک نمبر پر کال کی۔ اور مطلوبہ سامان منگوایا۔
کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی اور ایک کالا سا چھوٹے قد کا شخص میجر دانش کو ایک چھوٹا سا بیگ پکڑا کر واپس چلا گیا۔ میجر نے تانیہ کے سامنے ہی بیگ کھولا تو اس میں سے 2 چھوٹے ریوالر برامد ہوئے اور ساتھ میں گولیوں کے کچھ راونڈز بھی تھے۔ اسکے علاوہ ایک گاڑی کی چابی کچھ نقد رقم بھی بیگ میں موجود تھی۔۔۔ تانیہ نے یہ سب کچھ دیکھا تو بولی یہ ریوالور کی تو سمجھ آتی ہے جرائم پیشہ لوگوں سے با آسانی مل جاتے ہیں مگر یہ گاڑی کی چابی اور ساتھ نقد رقم؟؟؟ یہ کیا چکر ہے؟؟/ میجر دانش نے مسکراتے ہوئے کہا تمہیں کہا تھا نہ کہ اب ہم نے بھاگنے اور چھپنے کی بجائے کرنل وشال پرکاری ضرب لگانی ہے تو میں نے کیپٹن مکیش کے فون سے پاکستان میں رابطہ کیا اور انہوں نے انڈیا میں موجود اپنے لوگوں کے ذریعے یہ چیزیں پہنچائی ہیں۔
یہ کہ کر میجر دانش نے گاڑی کی چابی ہاتھ میں پکڑی اور لفافہ کمرے میں موجود ایک الماری میں رکھ کر گھر سے باہر چلا گیا۔ 5 منٹ بعد میجر دانش واپس آیا تو اسکے پاس ایک لیپ ٹاپ کا بیگ موجود تھا۔ تانیہ نے پوچھا اب یہ کہاں سے آیا؟ میجر دانش نے بتایا باہر کھڑی گاڑی میں یہ لیپ ٹاپ تھا۔ میجر نے لیپ ٹاپ آن کیا اور بیگ میں سے ہی ریلائنس موبائلز کی ایک تھری جی ڈیوائس نکال کر انٹرنیٹ آن کر لیا۔ تانیہ نے دانش سے پوچھا انٹرنیٹ پر کیا کرو گے؟؟؟ میجر دانش نے تانیہ کی طرف دیکھا اور پھر آہستہ سے بولا گندی گندی تصویریں دیکھنے لگا ہوں دیکھو گی تم؟؟؟ یہ سن کر تانیہ نے دانش کو گھورا اور بولی خود ہی دیکھو ، یہ کہ کر تانیہ سامنے موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔ میجر نے تانیہ کو کہا ساتھ ہی کچن ہے وہاں جا کر کچھ کھانے کا ہی بندوبست کر دو پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ تانیہ بولی یہ جو گند دیکھنے لگے ہو اسی سے بھر لو نا پیٹ اپنا۔ میجر نے ایک قہقہ لگایا اور بولا ارے یار ان چیزوں سے تو کبھی پیٹ نہیں بھرتا، پلیز کچھ کھانے کا بندوبست کرو۔ تانیہ اٹھی اور ساتھ موجود کچن میں جا کر دیکھنے لگی کہ وہاں کیا کچھ موجود ہے۔
میجر دانش نے اب انٹرنیٹ ممبئی کے نقشے دیکھنے لگا، یہاں اس نے مختلف شراب خانے، ڈانس کلب، یونیورسٹیز ، آمی کالونیز، ریلوے سٹیشنز، بس سٹینڈز وغیرہ کے پوائنٹس ذہن نشین کر لیے۔ اسکے ساتھ ساتھ اس نے کرنل وشال کی بیٹی ٹینا کی فیس بک پروفائل کھول کر بھی اسکو چیک کرنا شروع کیا۔ یہ پروفائل میجر کو کیپٹن مکیش کےموبائل سے ملی تھی۔ ٹینا ممبئی یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہی تھی ۔ میجر نے نہرو نگر سے ممبئی یونیورسٹی تک کا روڈ میپ دیکھا اور اپنے پاس موجود کیپٹں موکیش کے موبائل میں گوگل میپ میں پوائنٹس سیو کر لیے۔ یہ راستہ بالکل آسان تھا کیونکہ ممبئی ائیر پورٹ کے ساتھ ہی ممبئی یونیورسٹی تھی جہاں سے کچھ دیر پہلے میجر دانش ٹیکسی میں بیٹھ کر آیا تھا۔
اسکے بعد میجر نے آرمی ریذیڈینشل کالونی تک کا راستہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لیا اور اسکو بھی اپنے موبائل میں محفوظ کر لیا۔ ٹینا کی فیس بک پروفائل سے ہی میجر دانش کو یہ بات بھی پتا لگی کہ وہ اکثر اوقات ساکشی گیلری کے قریب واقع مشہور نائٹ کلب ، کلب علیبی بھی جاتی ہے۔ اور ٹینا کے فیس بک سٹیٹس کے مطابق اسکو آج بھی اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اسی کلب میں جانا تھا۔ میجر دانش نے اس کلب تک جانے کا راستہ بھی ذہن نشین کر لیا۔ یہ سارا کام کر کے میجر دانش فارغ ہوا تو تانیہ بریڈ گرم کر چکی تھی ساتھ میں چائے بنا کر انڈے اور جام کے ساتھ ٹرے میں رکھے وہ میجر دانش کے پاس آگئی۔
دونوں نے ملکر ناشتہ کیا تو میجر دانش نے تانیہ کو اپنے اگلے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ ناشتہ کرتے ہی تانیہ اور میجر دانش دونوں گھر سے نکل گئے، گھر کو باہر سے لاک کرنے کے بعد گھر کے ساتھ ہی کھڑی کالے رنگ کی ہنڈا سِٹی میں بیٹھے اور ممبئی یونیورسٹی کی طرف جانے لگے۔ گو کہ میجر دانش کو کافی حد تک راستہ پتا لگ چکا تھا مگر پھر بھی ٹائم بچانے کی خاطر میجر نے اپنا موبائل تانیہ کو پکڑا دیا جو اب گوگل میپ سے میجر دانش کو راستہ بتا رہی تھی۔ 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد میجر دانش یونیورسٹی آف ممبئی کے سامنے موجود تھا۔ میجر سب سے پہلے ٹینا کے ڈیپارٹمنٹ گیا اور وہاں موجود ریسیپشن پر اپنا تعارف کیپٹن مرلی کے نام سے کروایا اور سرسری طور پر جیب سے ایک کارڈ نکال کر دکھا دیا۔ ریشیپشن پر موجود خاتون کیپٹن کا لفظ سن کر ہی سیدھی ہوگئی تھی کارڈ دیکھنے کی اس نے زحمت نہیں کی میجر دانش نے بھی کیپٹن مکیش کا کارڈ واپس جیب میں رکھ لیا اور شکر کیا کہ اسکی توقع کے مطابق خاتون نے کارڈ چیک نہیں کیا اور نام سن کر ہی تعاون کے لیے تیار ہوگئی۔ اب میجر دانش نے ریشیپشن پر موجود خاتون سے ٹینا کے بارے میں پوچھا تو خاتون نے بتایا کہ وہ اس وقت لیکچر روم میں ہیں اور کچھ ہی دیر میں انکا یہ آخری لیکچر ختم ہوجائے گا تو آپ ان سے مل سکتے ہیں۔
دانش نے اسے بتایا کہ مجھے ملنا نہیں ہے ٹینا سے، بس آپ نے میری اتنی مدد کرنی ہے کہ مجھے اسکی گاڑی دکھا دیں۔ مجھے کرنل صاحب نے بھیجا ہے مس ٹینا کی سیکورٹی کی غرض سے۔ خفیہ اطلاع کے مطابق ہمسایہ ملک کے کچھ خفیہ ایجینسی کے لوگ مس ٹینا کو اغوا کرنا چاہتے ہیں تاکہ کرنل وشال سے اپنی مرضی کی باتیں منوا سکیں۔ یہ سن کر ریسیپشن پر موجود خاتون کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھے جا سکتے تھے، وہ میجر کو فوا ہی پارکنگ ایریا میں لے گئی اور وہاں موجود شخص سے ٹینا کی گاڑی کے بارے میں پوچھ کر میجر کو گاڑی دکھا دی۔ میجر نے اس خاتون کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کا نمبر ماڈل اور کلر ذہن نشین کرتا ہوا واپس اپنی گاڑی میں چلا گیا جہاں تانیہ اسکا انتظار کر رہی تھی۔ جانے سے پہلے میجر دانش نے خاتون کو ایک بار پھر اپنا نام بتایا اور بولا یہ ٹاپ سیکریٹ بات ہے، مس ٹینا کوبھی اسکے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہیے نہیں تو وہ پریشان ہوجائیں گی۔
گاڑی میں بیٹھنے کے بعد دانش نے تانیہ کو بھی ٹینا کی گاڑی کے بارے میں معلومات دیں اور ساتھ موجود ایک سٹور کے قریب اپنی گاڑی لگا کر کھڑا ہوگیا۔ قریب 2 بجے میجر نے دیکھا کہ دور یونیورسٹی بلڈنگ سے کچھ لوگ نکل رہے ہیں اور پارکنگ ایریا کی طرف جا رہے ہیں۔ پھر پارکنگ سے گاڑیاں نکلنا شروع ہوئیں تو کچھ ہی دیر بعد تانیہ نے ایک گاڑی کی طرف اشارہ کیا جو گیٹ سے باہر نکلنے ہی والی تھی۔ میجر دانش گاڑی دیکھتے ہی پہچان گیا تھا یہ ٹینا کی ہی گاڑی تھی۔ بی ایم ڈبلیو بی 4 سیریز کی یہ کنورٹ ایبل کار بھی کالے رنگ کی ہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی اور اسکے ساتھ فرینٹ سیٹ پر ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود لڑکی یقینا ٹینا ہی تھی میجر دانش نے گاڑی چلائی اور آہستہ رفتار کے ساتھ اس گاڑی کے پیچھے جانے لگا۔ ایک گھنٹے تک مسلسل اس گاڑی کا پیچھا کرنے کے بعد میجر دانش ممبئی کے آرمی ریذیڈینشیل ایریا میں موجود تھا۔ یہاں ٹینا کی گاڑی بڑے بنگلہ نما گھر میں چلی گئی جبکہ دانش کی گاڑی اس گھر کے سامنے سے ہوتی ہوئی اس ایریا سے باہر آگئی اور اب دوبارہ سے نہرو نگر جا رہی تھی۔ میجر دانش کرنل وشال کی رہائش گاہ دیکھ چکا تھا جو اسکے لیے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
امجد کے ذہن میں جیسے ہی یہ خیال آیا اس نے فوری طور پر سرمد اور کاشف کو نیند سے جگایا اور ان سے میجر دانش اور تانیہ کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا تو امجد کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا، امجد کویوں پریشان دیکھ کر سرمد نے پوچھا کیا ہوا ؟ سب خیریت تو ہے نہ؟؟ امجد نے اسے بتایا کہ ابھی تک وہ دونوں نہیں پہنچے نہ تانیہ نے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے فکر ہے کہ وہ دونوں کرنل وشال کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ امجد کے بات سن کر سرمد نے فورا کاشف کی طرف دیکھا اور بولا میں نے تمہیں کہا تھا کہ پچھلی بس میں وہ دونوں ہیں اور اسی چیک پوسٹ پر وہ دونوں پکڑے گئے ہونگے۔ سرمد کی بات سن کر امجد کو یقین ہوگیا کہ میجر دانش اور تانیہ پکڑے گئے ہیں۔ اس نے فوری طور پر سرمد اور کاشف کو اپنا سامان باندھنے کا کہا اوراوپر جا کر کشمیری فیملی کو بھی خطرے سے آگاہ کر دیا۔ یوں تو وہ فیملی عام شہری کی حیثیت سے ہی رہ رہے تھے اور انکا امجد کی سرگرمیوں سے قطعا کوئی تعلق نہ تھا مگر کشمیری ہونے کے ناطے انہیں امجد سے ہمدردی ضرور تھی اور وہ جانتے بھی تھے کہ امجد کسطرح انڈین آرمی کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
امجد نے انہیں خطرے سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اپنا ضروری سامان ساتھ لیا اور چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ نیچے امجد اور اسکے ساتھی بھی جانے کے لیے تیار تھے کہ کمرے میں موجود ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ 2 مرتبہ گھنٹی بجنے کے بعد فون بند ہوگیا۔ امجد تھوڑی دیر کو رکا اور دوبارہ سے فون آنے کا انتظار کرنے لگا۔ 2 بار فون کی گھنٹی بجی اور پھر سے بند ہوگیا۔ اب امجد کے چہرے پر خوشی کے آثار آئے اور تیسری بار پھر فون آیا اور اس بار تیسری گھنٹی بھی بجی امجد خوشی سے چلایا یہ تانیہ کا فون ہے اور فورا آگے بڑھ کر فون اٹینڈ کر لیا۔
یہ اصل میں انکا کوڈ ورڈ تھا انجان نمبر سے آنے والا فون امجد ریسیو نہیں کرتا تھا۔ اس لیے تانیہ کو جب بھی امجد کو انجان نمبر سے فون کرنا ہوتا تو وہ دو بار فون کار کے 2 بیل ہونے پر فون بند کر دیتی تھی اور تیسری بار فون کرتی تو امجد سمجھ جاتا تھا کہ یہ تانیہ کا فون ہے۔ امجد نے جیسے ہی فون ریسیو کیا اور ہیلو کہا تو آگے سے تانیہ کی آواز سنائی دی۔ تانیہ نے امجد کو سلام کیا اور پوچھا کیسے ہیں آپ بھیا؟؟؟ امجد نے تانیہ کو جواب دینے کی بجائے کہا تم لوگ کہاں ہو اور ابھی تک پہنچے کیوں نہیں ہم کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔ امجد کی بات ختم ہوئی تو تانیہ بولی میں اس وقت تو کچن میں ہوں اور آپکے میجر صاحب کے لیے ناشتہ بنا رہی ہوں۔ اور آپ ہمارا انتظار نہ کریں ہم نہیں آئیں گے۔ تانیہ کی بات سن کر امجد تھوڑا حیران ہوا اور بولا کیا مطلب تم لوگ نہیں آو گے اور ابھی تم ہو کہاں پر؟؟؟ تانیہ نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم بس ہم خیریت سے ہیں ۔ باقی پھر مناسب وقت دیکھ کر آپکو میں بتاوں گی کہ ہم کہاں ہیں۔
یہ کہ کر تانیہ نے فون بند کر دیا اور امجد نے سکون کا سانس لیا۔ امجد نے سرمد اور کاشف کو بھی بتایا کہ وہ دوںوں ٹھیک ہیں مگر کہاں پر ہیں یہ تانیہ نے نہیں بتایا۔ اتنے میں اوپر رہنے والی کشمیری فیملی اپنا سامان سمیٹ کر نیچے آچکی تھی مگر امجد نے انکو حوصلہ دیا اور بتایا کہ سب ٹھیک ہے تانیہ کی کال آگئی ہے وہ خیریت سے ہے۔ میرا شک غلط تھا آپ لوگ جائیں اور سکون سے رہیں۔ انہوں نے بھی سکھ کا سانس لیا اور واپس اپنے پورشن میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ سے اسی نمبر سے فون آیا جو امجد نے پہلی بیل پر ہی ریسیو کر لیا۔ اب کی بار آگے سے دانش کی آواز آئی۔ امجد نے پوچھا کہاں ہو یار ہم کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ دانش نے کہا بھیا میں تو ہنی مون منانے ممبئی آگیا ہوں۔ یہاں مستی کر رہا ہوں۔ اور ابھی اپنی بیوی کے ساتھ شہر کی سیر کر رہا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں بس ہم نے سوچا کہ میکے واپس آنے سے پہلے کیوں نہ ممبئی کی سیر ہی کر لیں۔ اس لیے آپکے ہاں آنے کی بجائے ہم سیدھا ممبئی آگئے ہیں۔ کچھ دنوں تک ہماری واپسی ہوجائے گی۔ آپ فکر نہ کریں تانیہ میرے ساتھ ہے اور بہت خوش ہے اپنی نئی زندگی سے۔ یہ کہ کر دانش نے فون بند کر دیا۔ اور امجد قہقہے مار مار کر ہنسنے لگا۔
سرمد اور کاشف اسکی شکل دیکھ رہے تھے۔ امجد نے دونوں کو اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا تو بولا یار یہ دانش بہت پہنچی ہوئی چیز ہے اسکا دماغ بہت تیز چلتا ہے۔ اور اسکو یہ بھی پتا ہے فون پر بات کیسے کرنی ہے، دونوں ممبئی میں ہیں اس وقت اور ہنی مون منا رہے ہیں۔ ہنی مون کا سن کر سرمد اور کاشف کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ امجد نے دونوں کی حیرت کو کم کرنے کے لیے بتایا کہ یار وہ کوڈ ورڈ میں بات کر رہا تھا نہ، اگر کوئی ہمارا نمبر ٹریس کر بھی رہا ہو تو وہ یہی سمجھے گا کہ یہ تانیہ کا میکہ ہے جہاں دانش اور تانیہ نے آنا تھا مگر وہ یہاں آنے کی بجائے ممبئی چلے گئے ہیں ہنی مون منانے۔ پھر امجد نے سیریس ہوتے ہوئے کہا لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ دونوں اتنی جلدی ممبئی کیسے پہنچ گئے؟؟ جامنگر سے ممبئی تک کا بس کا سفر 14 گھنٹے کا ہے اتنی جلدی ممبئی پہنچنا ممکن نہیں۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ دونوں یہیں جونا گڑھ ہوں اور کچھ دیر میں آجائیں۔
یہ سوچ کر امجد نے بھی کچھ آرام کرنے کی ٹھانی ساری رات کا سفر اور پھر اتنی دیر پٹرول پمپ پر کھڑے ہوکر اسکی حالت خراب ہوگئی تھی۔ آرام کرنے کی غرض سے امجد بھی اسی کمرے میں لیٹ گیا جہاں باقی لوگ موجود تھے، 4، 5 گھنٹے آرام کرنے کے بعد رات 9 بجے کے قریب امجد کی آنکھ ٹیلیفون کی گھنٹی سن کر کھلی۔ امجد نے فون ریسیو کیا تو دانش کی آواز تھی ، دانش نے امجد کو کہا کہ وہ جونا گڑھ میں ہی تھوڑی آتش بازی کا بندوبست کرے تاکہ لوگوں کہ پتہ لگے ہماری شادی ہوئی ہے اور ساتھ ہی سرمد یا کاشف کو جامنگر بھیج کر میرے دوستوں کو وہیں پر روکو ، وہ میرا ہنی مون خراب کرنے ممبئی تک نہ آجائیں۔ انہیں بتاو کہ میں ابھی جامنگر میں ہی ہوں۔ یہ کہ کر دانش نے فون بند کر دیا۔ امجد کو میجر دانش کے اس میسج کی بخوبی سمجھ آگئی تھی اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اب میجر دانش ایکشن کے موڈ میں ہے۔
میجر دانش کرنل وشال کے گھر کو دیکھ کر واپسی کے لیے مڑا اور اب اسکی منزل کلب علیبی تھا۔ یہاں بھی تانیہ دانش کو موبائل کی مدد سے راستہ بتا رہی تھی اور 20 منٹ کے بعد میجر دانش اور تانیہ کلب پہنچ چکے تھے جو اس وقت بند پڑا تھا۔ میجر نے کلب کے آس پاس کا اچھی طرح معائنہ کیا اور وہاں سے نکلنے والے مختلف راستوں کا اچھی طرح معائنہ کیا تاکہ وقت پڑنے پر اگر بھاگنا پڑے تو یہاں سے نکلنے والے راستوں کا اچھے سے علم ہو۔ اسکے بعد میجر نے تانیہ سے امجد کا نمبر پوچھ کر اسکوکچھ ضروری ہدایات دیں ۔ پھر شہر کے مختلف علاقوں میں بلا وجہ پھرتا رہا۔ میجر کا مقصد مین راستوں کے بارے میں علم حاصل کرنا تھا۔ خاص طور پر کلب علیبی سے آرمی ریزیڈینشل ایریا تک جانے والے مختلف راستوں پر امجد نے بار بار راونڈ لگایا تاکہ وہ یہ راستے ذہن نشین کر سکے ساتھ ہی اس نے تانیہ سے بھی کہا کہ وہ بھی ان راستوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہاں سے واپس نہرو نگر تک جانے کا راستہ بھی ذہن نشین کر لے۔
کچھ دیر مزید آوارہ پھرنے کے بعد میجر دانش شام کے7 بجے واپس اپنے نہرو نگر والے گھر میں پہن چکا تھا اور اب رات کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے ایک جرائم پیشہ گروہ سے رابطہ کیا اور انکو ٹینا کی تصویر بھی سینڈ کر دی۔ میجر دانش نے انہیں فون پر موجود شخص سے کہا کہ اس لڑکی کو ہر حال میں آج رات اغوا کرنا ہے، مگر اس بات کا خیال رہے کہ میں کوئی دنگا فساد نہیں چاہتا، اپنے لوگوں کو پستول وغیرہ دے کر نہ بھیجنا، کوئی خون خرابی نہیں چاہیے، اور زیادہ شور و غل بھی نہ ہو چپ چاپ 3، 4 لوگ جائیں اور اس لڑکی کو گاڑی میں ڈال کر میرے مطلوبہ ٹھکانے تک پہنچا دیں۔ آدھی رقم تمہارے بینک اکاونٹ میں پہنچ چکی ہے باقی کی رقم کام ہونے کے بعد تمہیں مل جائے گی۔ مگر لڑکی کو ایک خراش تک نہیں آنی چاہیے۔
یہ کر کر میجر نے فون بند کردیا۔ تانیہ نے پوچھا کہ اسے اغوا کر کے کیا کرو گے؟؟؟ میجر دانش نے تانیہ کو آنکھ ماری اور بولا تم تو کسی کام آتی نہیں چلو تانیہ کے ساتھ ہی آج کی رات اچھی گزر جائے گی۔ میجر کی بات سن کر تانیہ کے چہرے پر مسکراہٹ بھی آئی اور اس نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے دانش کو 2، 4 سنا دیں۔ اب دانش نے تانیہ کو تیار ہونے کے لیے کہا ان دونوں نے کلب علیبی جانا تھا۔ تانی کچھ دیر میں ہی، یعنی کے 1 سے 2 گھنٹے میں تیار ہوکر نکلی تو میجر دانش تانیہ کو دیکھ کر پلکیں جھپکانا ہی بھول گیا اور دل ہی دل میں مونا جی کی تعریفیں کرنے لگا جنہوں نے اتنا سیکسی ڈریس بھیجا تھا۔
بغیر بازوں کےسرخ رنگ کا یہ ڈریس تانیہ کے سینے کے ابھاروں سے ہوتا ہوا 2 حصوں میں تقسیم ہوکر تانیہ کی گردن تک جا رہا تھا اور گردن کے پیچھے جا کر دونوں حصوں کو تانیہ نے ہلکی سی گرہ لگا رکھی تھی۔ تانیہ کے سینے کے ابھار اس ڈریس میں کافی واضح ہورہے تھے ، ڈریس کا نیچلا حصلہ ویسے تو تانیہ کو پاوں تک آرہا تھا اور پیچھے سے کپڑے کا کچھ حصہ زمین کو بھی چھو رہا تھا مگر تانیہ کی تھائی سے ڈریس میں ایک کٹ تھا جسکی وجہ سے تانیہ کی بائیں ٹانگ تھائی سے لیکر نیچے ٹخنے تک نظر آرہی تھی، تانیہ کی گوری دودھ جیسی بالوں سے پاک ٹانگ دیکھ کر میجر دانش کی پینٹ میں کچھ ہونے لگا تھا۔ تانیہ نے میجر کو اپنی طرف یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے پایا تو اسکی آنکھوں میں تھوڑا غرور واضح ہونے لگا، اتنے حسن پر تھوڑا سا غرور تو بنتا ہی تھا۔ اب تانیہ اٹھلاتی ہوئی میجر سے بولی ایسے ہی دیکھتے رہو گے یا کلب بھی چلو گے؟؟؟ یہ کہ کر تانیہ آگے چل پڑی، اب میجر نے تانیہ کو پیچھے سے جو دیکھا تو اسکی پینٹ میں لن کا ابھار واضح ہونے لگا تھا۔ تانیہ کا یہ ڈریس بیک لیس تھا۔ یعنی تانی کی کمر بالکل ننگی تھی اور اسکے برا کی کوئی سٹرپ بھی نظر نہیں آرہی تھی جسکا مطلب تھا کہ اس ڈریس کے نیچے سے تانیہ نے کوئی برا نہیں پہنا۔ اس سوچ نے میجر دانش کو 240 وولٹ کا جھٹکا مارا تھا اور نیچے تانیہ کی 32 انچ کی گانڈ علیحدہ ہی نظر آرہی تھی۔ کولہوں سے ڈریس ٹائٹ ہونے کی وجہ سے تانیہ کے چوتڑوں کا ابھار کافی واضح تھا۔ مختصر یہ کہ تانیہ اس ڈریس میں کسی فلم کی سیکسی ہیروئین لگ رہی تھی اوپر سے اسکے کندھوں تک خوبصورت بال اور چہرے پر ایک بل کھاتی لٹ اسکے حسن کو چار چاند لگا رہی تھی۔ ہلکی سرخ رنگ کی لپ اسٹک تانیہ کے رسیلے ہونٹوں کو اوربھی زیادہ دلکش بنا رہی تھی ۔
تانیہ نے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر میجر دانش کو دیکھا جو ابھی تک سکتے کی حالات میں تانیہ کی خوبصورتی اور اسکی ننگی کمر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر رہا تھا، تانیہ نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے میجر کو دیکھا اور بولی میجر صاحب اسی طرح لڑکیوں کو دیکھ کر لٹو ہوتے رہو گے تو کر لی آپ نے کرنل وشال کی جاسوسی، اب ہوش میں آو اور چلنے والی بات کرو۔ تانیہ کی بات سن کر میجر اپنے ہوش میں واپس آیا اور مسکراتا ہوا بولا اب تم اتنی ہاٹ ہاٹ ڈریسنگ کرو گی تو مجھ جیسا شریف انسان تو سکتے میں آہی جائے گا نا۔۔۔ تانیہ اسکی بات سنکر مسکرائی اور بولی تم نے ہی ایسے ڈریسیز کا انتخاب کیا ہے مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ تم نے مونا جی سے کیا خریدا ہے۔ ایسے ہی باتیں کرتے دونوں اپنی گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے اور تانیہ محسوس کر رہی تھی کہ گلی میں موجود جو چند لوگ تھے انکی نظریں بھی تانیہ کے جسم کا جی بھر کر نظارہ کرنے میں مصروف تھیں۔ میجر نے گاڑی سٹارٹ کی اور کلب علیبی کی جانب روانہ ہوگیا۔ راستے میں تانیہ نے پوچھا کہ اگر ٹینا کو اغوا ہی کروانا تھا تو ہمیں وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے اغوا کرنے والے خود ہی ٹینا کو اغوا کرکے ہماری کہی ہوئی جگہ پر پہنچا دیتے۔
میجر نے تانیہ کی طرف دیکھا اور بولا اصل میں اسکو اغوا نہیں کروانا بلکہ اغوا ہونے سے بچانا ہے۔ اسلیے میرا وہاں جانا ضروری ہے۔ تانیہ نے حیران ہوکر پوچھا کیا مطلب؟ یہ جو تم نے غنڈوں کو اتنی بڑی رقم دی ہے یہ اغوا ہونے سے بچانے کے لیے دی ہے؟؟؟ میجر بولا نہیں اغوا کرنے کے لیے ہی دی ہے مگر جب وہ اغوا کریں گے تو میں نے بالی ووڈ کے ہیرو کی طرح اینٹری مار کر ٹینا کو اغوا ہونے سے بچانا ہے۔ اور غنڈوں کو پیسے اس لیے دیے ہیں ک سب کچھ اصلی لگے اگر ڈرامہ کرنے کے لیے کرائے کے لوگ بھیجوں گا تو کسی کو بھی شک ہوسکتا ہے مگر اصلی غنڈے اپنا کام اچھی طرح کرنا جانتے ہیں۔ تانیہ نے کہا اور اگر اس سب میں تمہیں کچھ ہوگیا تو؟؟؟ میجر نے تانیہ کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا تمہیں میری بڑی فکر ہورہی ہے۔۔۔ کہیں مجھ سے پیار تو نہیں ہوگیا؟؟؟؟؟ تانیہ میجر کی بات سن کر سٹپٹا گئی اور بولی نہیں وہ میں نے تو ویسے ہی پوچھا ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ایسی صورتحال میں پھر میں کہاں تمہیں ہسپتالوں میں لیکر پھروں گی۔ تانیہ کا جواب سنکر میجر ہنسنے لگا اور دوبارہ سے گاڑی چلانے لگا۔ کل علیب سے کچھ فاصلے پر میجر نے گاڑی ایک کم روشنی والی جگہ پر روک دی اور خود گاڑی سے اتر کر تانیہ کو ڈرائیونگ سیٹ پر آنے کا کہا، تانیہ گاڑی سے اتری اور اپنی اونچی ہیل والی سینڈل پہنے بل کھاتی نازک کمریا کے ساتھ چلتی ہوئی گاڑی تک آئی اور میجر دانش کی نظریں ایک بار پھر اسکے جسم کا ایکسرے کرنے لگیں۔
No comments:
Post a Comment