عمران کو ایسا لگ رہا تھا جیسے ٹینا نے اپنی چوت ٹائٹ کر رکھی ہے، مگر ایسا نہیں تھا، اسکی چوت تھی ہی اتنی ٹائٹ جیسے کسی کنواری لڑکی کی چوت ہوتی ہے۔ ٹینا اب تڑپنے لگی تھی اور بن پانی مچھلی کی طرح اپنے جسم کو کبھی دائیں طرف مارتی تو کبھی بائیں، مگر عمران کا لن تھا کہ ٹینا کی چوت سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کبھی ٹینا اپنا سر اٹھا کر اوپر اٹھتی اور اسکی کمر دوہری ہوجاتی اور پھر دوبارہ سے اپنا سر بیڈ پر پٹخ دیتی اور عمران کی منتیں کرتی کہ پلیز عمران اس جن کو باہر نکالو، میری پھٹ گئی ہے۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا درد۔ عمران نے اسکی بات سن کر کہا تم بھی تو یہی چاہتی تھی کہ تمہاری پھٹ جائے۔ بس تھوڑا سا درد برداشت کرو، پھر یقین کرو جتنا تمہیں ابھی درد ہورہا ہے اس سے کہیں زیادہ مزہ آئے گا۔ اور تم یاد کرو گی کہ تمہیں عمران کے لن نے چودا تھا۔ اسکی یہ بات سن کر ٹینا نے کچھ گہرے گہرے سانس لیے جیسے اپنی ہمت جمع کر رہی ہو اور پھر کچھ پرسکون ہوکر بولی اچھا چلو ٹھیک ہے میں مزے لینے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے ایسے چودو کہ میں بار بار تم سے چدواوں۔
عمران نے کہا چلو پھر تیار ہوجاو اصل چدائی کے لیے۔ یہ کہتے ہی عمران نے ٹینا کی چوت میں گھسے لگانے شروع کردیے۔ ٹینا کی چوت درد کی شدت کی وجہ سے خشک ہوچکی تھی اسی لیے جب عمران نے گھسے لگائے تو پہلے پہل تو ٹینا کو کافی تکلیف ہوئی اور وہ اپنا منہ زور سے دبائے تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش کرتی رہی، عمران کے لن کی رگیں ٹِنا کی چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھارہی تھیں اور ٹینا کو واقعی میں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اسکی چوت میں سبز مرچ رکھ دی ہو کسی نے جسکی جلن سے اسکی چوت جل رہی ہو۔ مگر پھر آہستہ آہستہ چوت نے عمران کے لن کو اپنے پانی سے گیلا کرنا شروع کیا تو عمران کا لن قدرے روانی کے ساتھ ٹینا کی چوت میں اندر باہر ہونے لگا جس سے ٹینا کو کچھ سکون محسوس ہوا اور اب وہ ہلکی ہلکی چیخوں کے ساتھ ساتھ سسکیاں بھی لے رہی تھی جس سے پتا لگ رہا تھا کہ اب اسے چدائی کا مزہ آنا شروع ہوا ہے۔ کچھ دیر کی چدائی سے ہی ٹینا کی چوت مکمل طور پر چکنی ہوچکی تھی ۔ اور اب عمران کا لن بہت ہی آرام کے ساتھ ٹینا کے چوت میں گھسے لگانے میں مصروف تھا
عمران اب ٹینا کے اوپر لیٹ چکا تھا اور اسکی باریک نائٹی کو بھی اتار کر اسکے ننگنے مموں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا جیسے جوسیری آم کو چوسا جاتا ہے ایسے ہی عمران ٹینا کے مموں کو اپنے ہاتھوں سے دبا کر اسکے نپلز کو چوس رہا تھا جیسے اندر سے مموں کا رس نکلنا ہو۔ ساتھ ساتھ عمران اپنے چوتڑوں کو اوپر نیچے ہلا ہلا کر ٹِنا کی چوت میں اپنا پمپ ایکشن جاری رکھے ہوئے تھا۔ نیچے چوت میں 8 انچ کا لن اور اوپر سے اپنے ممو ں کا چوسا جانا ٹینا کو اب مدہوش کر رہا تھا اور وہ مزے کی بلندیوں پر پہنچ رہی تھی۔ اسکی چوت میں آہستہ آہستہ گرمی بڑھتی جا رہی تھی اور اب وہ اپنی چوت کو عمران کے لن کے گرد جکڑنے کی بھی کوشش کر رہی تھی۔ کچھ دیر مزید ٹینا کے گول اور کسے ہوئے مموں کو جوسیری آم کی طرح چوسنے اور اسکی چوت میں اپنے لن سے نان سٹاپ دھکے لگانے کے بعد اب عمران لن کو باہر نکلاے بغیر ہی کروٹ لیکر لیٹ گیا تھا اور ٹینا کا منہ اپنی طرف کر لیا تھا۔
ٹینا کی ایک ٹانگ اوپر ہوا میں اٹھا کر عمران نے نیچے سے اسے اپنے ہاتھ سے سہارا دیا اور خود تھوڑا سا نیچے ہوکر لیٹ گیا اور ایک بار پھر ٹینا کی چوت میں اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اس پوزیشن میں لیٹنے کے بعد عمران کا لن ٹینا کی چوت میں سب سے زیادہ حسساس جگہ یعنیہ اسکی پھدی میں موجود جی سپاٹ کو رگڑ دے رہا تھا۔ جی سپاٹ عورت کی چوت کا وہ حسساس مقام ہوتا ہے جس پر اگر چودائی کے دوران لن رگڑلگائے تو عورت مزے کی بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے اور اس صورت میں اسکی چوت بہت جلدی پانی چھوڑ جاتی ہے۔ ٹینا کے لیے اس وقت مزے کی شدت سے اپنی سسکیوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہورہا تھا۔ آہ آہ آہ، او مائی گاڈ۔۔۔۔ فک می بے بی، فک می ہارڈ، آہ آہ۔۔۔۔۔۔ اف اف۔۔۔۔ یس بے بی، فک می لائک دِس۔۔۔ یس، یس یس۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ اف اف اف ۔۔۔۔ اوو۔۔۔ اوو۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ آوچ۔۔۔۔۔ ڈانٹ سٹاپ، فک می، فک می، آہ آہ۔۔۔۔۔ آئی ایم کمنگ بے بی۔۔۔ ڈانٹ سٹاپ آئ ایم کمنگ۔۔۔۔ کمرہ ٹینا کی ان آوازوں سے گونج رہا تھا اور کچھ مزید جاندار گھسے چوت کے اندر سہنے کے بعد ٹینا کی چوت نے عمران کے لوڑے کو مضبوطی سے جکڑ لیا اور اسکا جسم ایک دم ساکت ہوگیا مگر اسکی چوت نے کچھ جھٹکے کھائے اور اسکی چوت میں سیلاب آگیا۔ ٹینا کی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا تھا، آج سے پہلے اسکی چوت نے کبھی اتنا پانی نہیں چھوڑا تھا، جی سپاٹ پر عمران کے لن کی رگڑ نے اسکی چوت کی گرمی کو اتنا بڑھا دیا تھا کہ اسکی چوت سے نکلنے والا پانی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ عمران نے اس دوران اپنے دھکے روک دیے تھے تاکہ ٹینا کی چوت آرام سے اپنا پانی نکال سکے۔ کچھ دیر ٹیناکے جسم کو جھٹکے لگتے رہے اور اسکی چوت پانی چھوڑتی رہی۔ پھر جب سارا پانی نکل گیا تو ٹینا سکون سے نیچے لیٹ گئی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ اسکی پیاس بجھ چکی تھی اور اب وہ مکمل مطمئن تھی۔ اتنا سکون کبھی اسکو اجے سے چدوا کر نہیں آیا تھا جتنا آج عمران کی چودائی نے دیا تھا۔ مگر عمران کا لن ابھی تک کھڑا تھا اور اسکو بھی اپنا پانی نکالنا تھا۔
جب ٹینا کا سانس بحال ہوا تو عمران اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور ٹینا جو لیٹی ہوئی تھی اسکو اٹھنے کا بولا۔ ٹینا کی نظر لن پر پڑی تو وہ حیران ہوئی کہ یہ ابھی تک کھڑا ہے، اسکا خیال تھا کہ عمران بھی ٹینا کے ساتھ ہی فارغ ہوچکا ہے۔ وہ بولی ابھی اور چودنا ہے مجھے؟؟؟ عمران مسکرایا اور بولا ٹینا ڈارلنگ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔ یہ کر کر اس نے ٹینا کو اٹھنے میں مدد دی، وہ گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھی تھی، عمران نے ٹینا کو منہ دوسری طرف کرنے کو کہا اور بولا بیڈ کی ٹیک کے قریب ہوجاو اور اسکا سہارا لے لو۔ ٹینا بیڈ کی ٹیک کے قریب ہوگئی اور اپنے ہاتھ ٹیک کے ساتھ لگا کر اپنی گانڈ باہر نکال لی۔ عمران نے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس پر تھوڑا سا تھوک مسلا اور تینا کے 34 سائز کے بھرے ہوئے چوتڑوں پر ایک زور دار چماٹ ماری، جس سے ٹینا کی سسکی نکل گئی، پھر عمران نے اپنی ایک انگلی ٹینا کی چوت پر مسلی تو وہ خشک پڑی تھی، عمران نے اس پر انگلی پھیرنی شروع کی اور اپنے لگ کی ٹوپی کو ٹینا کی گانڈ پر رگڑنا شروع کیا ۔ ٹینا گانڈ پر لن لگتے ہی بولی نہیں عمران یہاں نہیں پلیز۔۔۔ عمران نے کہا فکر نہیں کرو، تمہاری چوت گیلی ہوجائے تو چوت میں ہی چدائی کروں گا۔ پھر عمران نے ٹینا کے چوتڑوں کو کھول کر اپنے لن کی موٹی گول ٹوپی ٹینا کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی۔ ٹینا ہولے ہولے کانپ رہی تھی جیسے اسے ڈر ہو کہ کہیں عمران اسکی گانڈ کے باریک سے سوراخ میں ہی اپنا موٹا لن نا گھسا دے۔ مگر عمران کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ تو محض ٹینا کو جلد سے جلد گرم کرنا چاہتا تھا تاکہ اسکی چوت میں چکناہٹ پیدا ہو اور وہ دوبارہ سے ٹینا کی چودائی شروع کر سکے۔
کچھ ہی دیر انگلی رگڑنے سے ٹینا کی خشک چوت گیلی ہوچکی تھی اور دوبارہ سے لن لینے کے لیے تیار تھی۔ اب عمران بھی گھٹنوں کے بل تھوڑا سا آگے ہوا اور ٹینا کے چوتڑوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا، ٹینا کی کمر میں تھوڑا سا خم آگیا تھا، وہ ہلکی سی آگے جھکی ہوئی تھی بیڈ کا سہارا لیکر جس کی وجہ سے اسکی چوت تک عمران کے لن کی رسائی آسان ہوگئی تھی۔ عمران نے اپن لن کی ٹوپی کو ٹینا کی چوت پر سیٹ کر کے اسکو تھوڑا سا رگڑا اور پھر آہستہ آہستہ اس پر دباو بڑھانا شروع کیا تو لن سارے کا سارا اندر چلا گیا۔ اس دوران ٹینا کی آہ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔آۃ۔۔۔۔۔۔ چلتی رہی۔ جب سارا لن اندر چلا گیا تو عمران نے ایک بار ٹوپی کے علاوہ باقی کا لن باہر نکالا اور ایک گھسا مارا۔ ٹینا کی پھر چیخ نکلی اور عمران کا سارا لن اندر پھسلتا چلا گیا۔ ایک بار پھر عمران نے اپنے لن کا شافٹ باہر نکالا اور اس بارے قدرے زور کا گھسا مارا اور لن جڑ تک ٹینا کی چوت میں چلا گیا، پھر عمران نے روانی کے ساتھ ٹینا کی چوت میں دھکے لگانے شروع کر دیے اور ٹینا کی بھی ہلکی ہلکی سسکیاں شروع ہوگئیں۔ عمران کے ہر گھسے پر عمران کا زیرِ ناف حصہ ٹینا کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں سے ٹکراتا تو دھپ دھپ کی آواز آتی، ٹینا کے چوتڑ بھی اس وقت جیلی کی طرح ہل رہے تھے اور دھپ دھپ کی سیکسی آوازیں نکال رہے تھے جبکہ ٹینا کی اپنی سسکیاں ماحول کو اور بھی زیادہ سیکسی بنا رہی تھیں۔ عمران کا ایک ہاتھ ٹینا کے بائیں چوتڑ پر تھا اور وہ تھوڑا سا پیچھے ہوکر اپنا نچلا حصہ آگے کی طرف کھینچ کر تیز تیز دھکے لگا رہا تھا جس سے لن کا زیادہ تر حصہ ٹینا کی چوت میں جا کر چودائی کر رہا تھا۔ اس دوران عمران بیچ بیچ میں ٹینا کے گوشت سے بھرے چوتڑوں پر تھپڑ بھی مارتا جس پر ٹینا ایک آوچ کی آواز نکالتی۔
کچھ دیر تک اسی پوزیشن میں ٹینا کی جم کر چدائی کرنے کے بعد عمران نے اپنی سپیڈ آہستہ آہستہ سلو کر لی اور پھر بالکل ہی رک گیا۔ ٹینا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولی نکل گیا؟؟؟ عمران مسکرایا اور بولا اتنی جلدی بھی کیا ہے جانِ من، ابھی تمہاری چکنی چوت کا جی بھر کر مزہ تو لینے دو۔ ٹینا نے حیرانگی سے عمران کی طرف دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ اپنی گانڈ ہلانی شروع کر دی۔ ٹینا عمران کے سٹیمنا سے متاثر ہوئی تھی وہ پچھلے 20 منٹ سے چدائی کروا رہی تھی اور عمران بغیر رکے اسکی چوت میں دھکے لگا رہا تھا مگر ابھی تک وہ ایک بار بھی فارغ نہیں ہوا تھا۔ جبکہ ٹینا کو پہلے عمران نے اپنی زبان سے چوت چاٹ کر فارغ کروایا پھر لن سے پھدی مار کر فارغ کروایا اور اب ٹینا کو لگ رہا تھا کہ وہ تیسری بار فارغ ہونے والی ہے۔
عمران ابھی تک ساکت تھا اور ٹینا اپنی گانڈ ہلا ہلا کر خود ہی اپنی چودائی کر رہی تھی، گو کہ اس طرح چودائی کی رفتار بہت آہستہ تھی مگر پھر بھی ٹینا اور عمران دونوں کو ہی اس طرح مزہ آرہا تھا۔ ٹینا اپنی گانڈ کو گول گول گھما کر اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں گانڈ گھماتے ہوئے عمران کے لن کی ٹوپی ٹینا کی چوت کی گہرائی میں اسکی چوت کی دیواروں پر گول گول گھوم رہی تھی۔ پھر ٹینا نے تھوڑی دیر کے بعد اپنی گانڈ کو آگے پیچھے ہلانا شروع کر دیا اور کوشش کرنے لگی کہ جب وہ آگے کی جانب جائے تو عمران کی ٹوپی اسکی چوت میں ہی رہ جائے باقی شافٹ باہر نکل آئے اور جب جب واپس پیچھے کی طرف جائے تو سارے کا سارا لن اسکی چوت میں غائب ہوجائے۔ مگر اسکی تمام تر کوشش کے باوجود بھی 3 انچ لن اسکی چوت کے باہر ہی رہتا۔ تھوڑی دیر مزید صبر کرنے کے بعد اب عمران ایک بار پھر ٹینا کی چوت میں اپنا لن ہلانے لگا، اور آہستہ آہستہ اپنی رفتار بڑھانے لگا۔ اب کی بار ٹینا نے ہلنا جلنا چھوڑ دیا تھا مگر عمران کے ہر دھکے پر وہ آگے کی طرف دھکیلی جاتی۔ اور جب عمران لن باہر نکالتا تو ٹینا اپنی گانڈ کو کچھ پیچھے کی طرف لاتی اور اگلے دھکے پر دوبارہ سے آگے کی طرف دھکیلی جاتی ، اب عمران اپنی رفتار میں بہت زیادہ اضافہ کر چکا تھا اور ٹینا کی چوت میں ایک بار پھر خارش ہونے لگی تھی۔ جسکا مطلب تھا کہ اسکی چوت دوبارہ سے پانی چھوڑنے والی ہے۔
اب عمران نے ٹینا کے نیچے لٹکتے اور گول گول گھومتے مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر دبا لیا تھا۔ اور پیچھے سے اسکی چوت میں طوفانی دھکوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ اس پوزیشن میں عمران کا زیرِ ناف حصہ اور ٹِنا کے چوتڑ ایکدوسرے کے کافی قریب تھے کیونکہ عمران نے آگے بڑھ کر ٹینا کے ممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے۔ عمران اور ٹینا کے جسم کے ملاپ سے پیدا ہونے والی دھپ دھپ کی آواز اب کافی تیز تھی اور اسکے ساتھ ٹیا کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں اور اب ٹینا دوبارہ عمران کو بتا رہی تھی آئی ایم کمنگ بے بی، ونس مور آئی ایم کمنگ، فک می ہارڈ، یے بے بی، فک می ہارڈ، ہارڈر، مور ہارڈ۔۔۔۔ فک می لائک اے بچ، فک می ۔۔۔۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ کمنگ۔۔۔ کمنگ۔۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی ٹینا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ ٹینا کی چوت میں پانی کی ندی بہ رہی تھی مگر عمران کا لن رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وہ دھکے پر دھکے لگا رہا تھا اور ٹینا کی چوت اب سارا پانی چھوڑںے کے بعد بہت آسانی کے ساتھ لن کے لیے جگہ بنا رہی تھی۔ ٹینا کی چوت کا پانی اندر بھرا ہوا تھا اور اس نے عمران کے لوڑے کو بھی چکنا کر دیا تھا، جسکی وجہ سے اب لن ایسے اندر باہر جا رہا تھا جیسے تیل لگانے کے بعد کسی دروازے کی کنڈی روانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے کھلتی اور بند ہوتی ہے۔ کچھ دیر تک عمران نے اسی طرح ٹینا کی چوت میں مشین چلائے رکھی اور پھر اسکے ممے چھوڑ کر اپنے دھکے کم کرنے لگا اور چند دھکوں کے بعد اس نے دھکے بالکل ہی بند کر دیے۔ اور اپنا لن ٹینا کی چکنی چوت سے باہر نکال لیا۔
ٹینا اب بری طرح سے تھک چکی تھی اور اسمیں مزید چدائی کروانے کی ہمت نہیں تھی، مگر عمران کا لوڑا ابھی مزید چودنے کے چکر میں تھا۔ عمران نے لن نکالا تو ٹینا سمجھی کہ اسکی جان چھوٹ گئی ہے۔ وہ لن نکلنے کے بعد لیٹنے لگی تو عمران نے اسکو گانڈ سے پکڑ لیا اور بولا ابھی نہیں میری جان ، ابھی میرا پانی نکلنا رہتا ہے۔ ٹینا نے یہ سنا تو بولی یہ کسی انسان کا لوڑا ہے یا پھر کسی گھوڑے کا ہے جو چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا؟؟؟ عمران مسکرایا اور بولا بس جان تھوڑی دیر اور۔ تم یہ چدائی زندگی بھر یاد رکھو گی۔ اب عمران نے ٹینا کو ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا تو ٹینا نے کہا، بس کرو عمران میں بہت تھک گئی ہوں، مگر عمران کہاں رکنے والا تھا، اس نے ٹینا کو چوتڑوں سے پکڑ کر پیچھے کھینچا اور اسکی گانڈ اپنے لن کے قریب لے آیا، ٹینا اب نا چاہتے ہوئے بھی گھوڑی بن گئی تھی یعنی ڈاگی سٹائل میں چدوانے کے لیے پوزیشن لے چکی تھی۔ عمران نے اپنا لن ٹینا کی چوت پر فٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا لن ٹینا کی چوت میں اتار دیا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے زیادہ کی چودائی سے اب سوج کر پھدی سے پھدا بن چکی تھی۔ لن اندر جاتے ہی عمران نے اپنی مشین چلا دی اور فل سپیڈ کے ساتھ ٹینا کو چودنا شروع کر دیا۔ ٹینا کے ممے ہوا میں لٹک رہے تھے جو عمران کے ہر دھکے پر آگے پیچھے ہلتے تھے اور ٹینا کی ہر دھکے پر سسکی نکلتی تھی۔ گو کہ وہ کافی تھک چکی تھی اور اسکی چوت اب تھوڑا آرام چاہتی تھی مگر اسکے باوجود عمران کے ہر دھکے پر ٹینا کو ایک سرور سا ملتا تھا اور اسکی ایک سسکی نکلتی تھی۔
عمران طوفانی انداز میں ٹینا کو چود رہا تھا اور ابھی بھی ٹینا کے چوتڑ عمران کے جسم سے ٹکرا کر کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ اور ٹینا کی چوت جو پانی سے بھری ہوئی تھی عمران کے لن کے اندر آنے پر پچک پچک کی آوازیں نکال رہی تھی۔ کچھ دیر مزید ایسے ڈاگی بن کر چدائی کروانے کے بعد ٹینا کے لیے اب اس پوزیشن کو برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا، اس نے اپنے ہاتھ سائیڈ پر پھیلا لیے اور آگے سے پورا جسم جھکا کر بیڈ کے ساتھ لگا لیا، اسکا چہرہ اب بیڈ کے ساتھ لگا ہوا تھا اور منہ اس نے سائیڈ پر موڑ لیا تھا اور اسکے بازو بھی بیڈ کے ساتھ لگے ہوئے تھے، مگر اسکی گانڈ ابھی تک اتنی اونچی تھی کہ پیچھے سے عمران با آسانی اسکی چدائی جاری رکھے ہوئے تھا۔ پھر عمران نے ٹینا کی چوت سے اپنا لن نکالا اور ٹینا کے منہ کے قریب لے گیا ٹینا کی چوت کا پہلے ہی چدوا چدوا کر برا حال ہوچکا تھا اس نے شکر کیا کہ عمران نے اسکی چوت کی جان چھوڑی اب ٹینا نے سوچا کہ چلو منہ میں لیکر ہی اس جن نما انسان کی منی نکال دیتی ہوں، ٹِنا نے فورا ہی لن منہ میں لیا اور چوپے لگانا شروع کر دیے۔ ٹینا کی چوت کے رس کا ذائقہ ٹینا کو اب اپنے منہ میں محسوس ہورہا تھا کیونکہ عمران کا لن ٹینا کی چوت کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ ٹینا بڑی بےتابی سے عمران کا لن چوس رہی تھی کیونکہ وہ جلد سے جلد عمران کو فارغ کروانا چاہتی تھی۔
مگر عمران تھا کہ فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ تھوڑی دیر چوپے لگوانے کے بعد عمران اب بیڈ پر لیٹ گیا اور ٹینا کو اپنے اوپر آنے کو کہا۔ مرتی کیا نا کرتی ٹینا کو عمران کے اوپر آنا ہی پڑا، ٹینا اپنے گھٹنوں کے بل عمران کے اوپر آکر بیٹھ گئی تو عمران نے اپنے لن کا ٹوپا پکڑ کر ٹینا کیچ چوت پر فِٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں ٹینا کی چکنی چوت میں اپنا لن گھسا دیا، اور نیچے سے ٹینا کی چوت پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے۔ عمران کو بھی اب تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تھی مگر اسکا لن تھا کہ ہار ماننے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ عمران خود بھی حیران تھا کہ آج تو کچھ زیادہ ہی لمبی چودائی ہوگئی ہے۔ ٹینا اب عمران کے اوپر جھکی ہوئی تھی، عمران نے ٹینا کو تھوڑا سا آگے کیا اور اسکے پیارے پیارے ممے اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا، اسنے اپنا ایک ہاتھ پیچھے لیجا کر ٹینا کی گانڈ پر پھیرنا شروع کیا اور نیچے سے اپنے لن کے گھسوں کی رفتار اور بھی بڑھا دی۔ گانڈ پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے عمران نے اپنے ہاتھ کی بڑی انگلی ٹینا کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر دباوڈالا تو انگلی گانڈ کے اندر چلی گئی اور ساتھ ہی ٹینا کی سسکی بھی نکلی۔ عمران نے انگلی کا دباو بڑھانا جاری رکھا اور آہستہ آہستہ آدھی انگلی ٹِنا کی گانڈ میں اتار دی۔ چوت میں تو پہلے ہی مرچیں لگی ہوئی تھیں اب ٹینا کی گانڈ میں بھی مرچیں لگ گئیں تھیں۔ اور اب ٹینا مسلسل اوہ، اوہ، آہ آہ۔۔۔۔۔۔ اف، ، آہ آہ۔۔۔۔ ام آہ۔۔۔۔ اف اف آوچ آہ آہ آہ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ ٹینا کے نپل عمران کے منہ میں تھے، اسکی گانڈ میں عمران کی انگلی تھی اور چوت میں عمران کا 8 انچ لمبا لن چدائی کر رہا تھا ٹینا کو مزہ بھی بہت آرہا تھا مگر اتنی لمبی چودائی نے اسکا انگ انگ ہلا کر رکھ دیا تھا اور دعائیں کر رہی تھی کہ اے بھگوان کسی طرح اس لن کی منی نکلوا دے۔
اچانک ٹینا کے موبائل پر بیل ہونے لگی، ٹینا حیران ہوئی کہ رات کے 3 بجے کس کی کال ہو سکتی ہے۔ اسکا موبائل بیڈ پر ہی تکیے کے ساتھ پڑا تھا ٹینا نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو یہ مکیش کی کال تھی۔ ٹینا نے عمران کے اوپر اچھلتے ہوئے کہا اس بھڑوے کو بھی ابھی کال کرنی تھی۔ عمران نے پوچھا کس کی کال ہے تو ٹِنا نے بتایا کیپٹن مکیش کی کال ہے۔ عمران نے کہا اٹینڈ کر لو اور اسکو اپنی آوازیں سنوا دو پھر کال نہیں کرے گا۔ ٹینا نے عمران کی بات سنی اور اسکی آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ وہ جانتی تھی کہ کیپٹن مکیش کی گندی نظریں ٹینا کے جسم پر رہتی ہیں اور اسکا لن ٹینا کو چودنے کے لیے بے تاب رہتا ہے مگر اسکے پاپا کی وجہ سے کیپٹن مکیش نے کبھی کوئی قدم نہیں بڑھایا تھا۔ یہ اچھا موقع تھا اسکو جلانے کا۔ ٹینا جو پہلے عمران کے اوپر جھکی ہوئی تھی اب اٹھ کر بیٹھ گئی مگر اسکی چوت میں ابھی تک عمران کا لن گھسے مار رہا تھا۔ ٹینا نے کال اٹینڈ کی اور بولی :
آہ آہ۔۔۔۔ ایک منٹ عمران۔۔۔ ہیلو، یہ کونسا ٹائم ہے کال کرنے کا۔؟؟؟
مکیش کو صحیح سمجھ نہیں آئی کہ یہ ٹینا نے ایک منٹ عمران کیوں بولا اس نے کچھ نا سمجھتے ہوئے کہا میڈیم آپکی خیریت معلوم کرنی تھی کیا آپ خیریت سے گوا پہنچ گئی ہیں؟؟
آگے سے ٹینا کی آوا آئی، ہاں میں آہ آہ۔۔۔۔۔ اف عمران جان تھوڑی دیر کو رک جاو نا۔۔۔۔ ہاں میں پہنچ گئی تھی۔۔۔ آہ آہ آوچ۔۔۔۔ تم کب۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ تم کب پہنچے؟؟/
اب کیپٹن مکیش سمجھ گیا تھا کہ ٹینا اس وقت عمران کے لن کی سواری کر رہی ہے۔ یہ سوچتے ہی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی وہ جو اتنے عرصے سے ٹینا کو چودنے کی خواہش دل میں لیے بیٹھا تھا عمران 1 دن پہلے ٹینا سے ملا اور آج اپنا لن اسکی چوت میں بھی گھسا دیا ہے۔ مگر اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا میڈیم میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی گوا پہنچا ہوں۔ آپ نے کہاں سٹے کیا ہے؟ اور آپکے ساتھ جو لڑکی تھی اس نے کہاں سٹے کیا ہے؟
آگے سے ٹینا کی اف۔ اف، اف، آوچ، آہ آہ کی مسلسل آوازیں مکیش کے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ٹینا کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور اب وہ خود بھی عمران کے لن کے اوپر اچھل اچھل کر اپنی چودائی کروا رہی تھی، اسکو اب بے حد مزہ آنے لگا تھا چودائی کا۔ اس نے عمران کے لن کے اوپر اچھلتے اچھلتے کہا میں عمران آہ آہ عمران کے ساتھ ہوں۔۔۔۔ آہ آہ اور بیچ پر ہٹ لیا ہے۔۔۔۔ آہ آہ کم آن بے بی، آئی ایم کمنگ، فک می ہارڈ بے بی، فک می ہارڈ، آئی ایم کمنگ آہ آہ۔۔۔۔ ایک منٹ مکیش، رکو آہ آہ رکو زرا۔۔۔۔ آہ آہ عمران بے بی،، فک می ہارڈر، آئی لو یو۔۔۔۔ آہ آہ بہت مزہ آرہا ہے بے بی۔۔۔ فک می، بس میں فارغ ہونے لگی ہوں آہ، ہارڈر بے بی، آہ، ڈانٹ سٹاپ، فک می ، فک می۔۔۔ آہ آہ۔۔۔ آہ، ٹینا کی سسکیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں اور ساتھ ہی اب عمران کی بھی کچھ سسکیاں نکلیں اور عمران کے لن سےگاڑھی منی کا فوارہ نکلا اور اس نے ٹینا کی چوت کے اندر پانی پانی کر دیا، عمران کے گرم گرم لاوے کا احساس ہوتے ہی ٹینا کی چوت نے بھی عمران کے لن کو اپنی گرمی سے نہلانا چاہا اور پانی چھوڑی دیا۔ اس دوران ٹینا کی سسکیاں اور چیخیں مکیش کے لیے کسی گالی سے کم نہیں تھیں۔ وہ فون بھی بند نہیں کر سکتا تھا کہ کہیں کرنل صاحب کی بیٹی برا نا مان جائیں اور ان آوازوں کو سننے کا حوصلہ بھی ان میں نہیں تھا۔
مگر ٹینا کی مزے سے بھرپور ان سسکیوں کو سن کر مکیش نے دل میں مسمم ارادہ کر لیا تھا کہ زندگی میں ایک بار وہ ٹینا کی چوت میں اپنا لن لازمی ڈالے گا اور اسے ایسے چودے گا کہ وہ یہ مزہ بھول جائے گی۔ بالآخر کچھ دیر بعد مکیش کو ٹینا کی آواز دوبارہ سنائی دی، اور وہ بولی ہاں مکیش تم کیا کہ رہے تھے؟؟؟ پھر خود ہی ٹینا بولی کہ ہاں وہ میری فرینڈ انجلی وہ علیحدہ ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہے اسکے ساتھ ہی ٹِنا نے مکیش کو اس ہوٹل کا نام بھی بتا دیا اور اپنی آواز میں تھوڑی شرارت بھرتے ہوئے پوچھنے لگی اور کچھ سننا چاہو گے؟؟؟ مکیش جو پہلے ہی غصے میں تھا اس نے جل کر جواب دیا بہت بہت شکریہ، اور یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا جب کہ ٹینا عمران کے گلے لگ کر اونچے اونچے قہقہے لگانے لگی۔ عمران نے اسکو 45 منٹ تک چودا تھا اور اس دوران عمران محض کچھ منٹس کے لیے ہی رکا ہوگا ورنہ عمران کا مضبوط لن مسلسل ٹینا کی چوت میں گھسے مارتا رہا تھا جس سے ٹینا کی چوت کا برا حال ہوگیا تھا ور وہ بری طرح تھک گئی تھی، مگر منی نکالتے ہوئے ٹینا نے عمران کے کہنے پر جو شرارت کی تھی اس نے ٹینا کو فریش کر دیا تھا اور وہ اپنی چوت کی چدائی سے ہونے والی تھکاوٹ کو بھول گئی تھی۔
انجلی نے جام تیار کرنے کے بعد اپنے موبائل پر ویڈیو ریکارڈنگ آن کر کے اسے سامنے لگے سٹینڈ کے ساتھ فِکس کر دیا جہاں سے اسکی اور لوکاٹی کی ویڈیو بن سکے۔ لوکاٹی کی نظریں تو انجلی کی موٹی گانڈ اور اسکے ننگے جسم پر تھی اسے اس بات کا کوئی ہوش نہیں تھا کہ انجلی ویڈیو ریکارڈنگ آن کر آئی ہے۔ ریکارڈنگ آن کرنے کے بعد انجلی اپنی گانڈ کو دائیں بائیں گھماتے اور لچکاتے ہوئے چلتی ہوئی لوکاٹی کے قریب پہنچ گئی تھی۔ وہاں پہنچ کر وہ لوکاٹی کی دائیں ٹانگ پر بیٹھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ایک ہاتھ سے لوکاٹی کو جام پلانے لگی۔ لوکاٹی نے للچاتی ہوئی نظروں سے انجلی کے 36 سائز کے مموں کو دیکھا جو ابھی تک برا میں چھپے ہوئے تھے اور انجلی کے ہاتھوں سے جام پینے لگا۔ انجلی نے ایک ہی جھٹکے میں لوکاٹی سے پورا جام خالی کروا لیا تھا جسکے بعد اب اس پر مکمل نشہ طاری ہوچکا تھا، انجلی کا اپنا گلا بھی چدائی کے بعد خشک ہوچکا تھا جو اس نے اپنے دوسرے ہاتھ میں موجود جوس کا گلاس پی کر تر کیا۔ جوس کا گلاس پینے کے بعد انجلی نے جام اور گلاس ساتھ پڑی ٹیبل پر رکھ دیا اور اب لوکاٹی کی گود سے اتری مگر دوبارہ لوکاٹی کی گود میں اس طرح بیٹھ گئی کو اس نے اپنی دونوں ٹانگیں سائیڈ پر پھیلا لیں تھیں اور انجلی کی چوت اور لوکاٹی کا مرجھایا ہوا لن بہت قریب ہوگئے تھے، انجلی نے اپنے گھٹنوں کی مدد سے تھوڑا سا اپنے آپ کو اوپر اٹھایا اور اپنے ممے لوکاٹی کے چہرے کے قریب کر دیے، انجلی کے خوبصورت مموں کو اتنا قریب دیکھ کر لوکاٹی سے رہا نہیں گیا اور اس نے کسی بچے کی طرح جسکو بہت مشکل سے اسکا پسندیدہ کھلونا ملا ہو، انجلی کے مموں سے کھیلنا شروع کر دیا۔ لوکاٹی نے اپنے دونوں ہاتھ انجلی کے مموں پر رکھے ہوئے تھے اور انکو زور زور سے دبارہا تھا جبکہ اسکی زبان انجلی کے مموں کے درمیان ہونے والے ملاپ پر تھی۔
کچھ دیر لوکاٹی اسی طرح انجلی کے مموں کو دباتا رہا اور اپنی زبان اسکے مموں کی درمیانی لائین پر پھیرتا رہا، تب انجلی نے لوکاٹی کا چہرہ اوپر اٹھایا اور بولی جان صرف چاٹتے ہی رہو گے میرے مموں کو؟ انکو دیکھنا نہیں چاہو گے کیا؟ لوکاٹی نے کہا ہاں ہاں دکھاو مجھے اپنے پیارے پیارے سے ممے۔ انجلی اپنے دونوں ہاتھ کمر پر پیچھے کی طرف لے گئی اور اپنے برا کی ہُک کھول دی، مگر اس نے اپنا برا اتارا نہیں، اپنے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر رکھ لیے اور بولی جان پہلے یہ بتاو کیا میرے ممے کھانا پسند کرو گے؟؟؟ لوکاٹی جو اس وقت اپنے ہوش میں نہیں تھا وہ کسی بچے کی طرح جواب دے رہا تھا، ہاں ہاں میں تمہارے یہ بڑے بڑے ممے کھاجاوں گا، مجھے دکھاو جلدی سے۔۔۔۔ انجلی نے پوچھا اور یہ بتاو میرے چھوٹے چھوٹے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوسو گے؟؟؟ لوکاٹی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا ہاں میں تمہارے نپلز منہ میں لے کر زور زور سے چوسوں گا، اپنی انگلیوں سے پکڑ کر انکو مروڑ دوں گا، اپن پر اپنے دانتوں سے کاٹوں گا، پلیز مجھے اپنے یہ دودھ سے بھرے ہوئے ممے دکھاو۔ انجلی جو اپنے ہاتھوں کو اپنے مموں پر ہی رکھ کر بیٹھی تھی اس نے اپنے برا کو پکڑ کا اپنے مموں سے اوپر اٹھا دیا اور اپنی گردن سے برا نکال کر دور پھینک دیا۔
لوکاٹی اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انجلی کے ابھرے ہوئے اور کسے ہوئے ممے دیکھنے لگا۔ برا اتارنے کے باوجود انجلی کے ممے نیچے نہیں ڈھلکے بلکہ اب بھی پوری شان کے ساتھ انجلی کے سینے پر ایسے پڑے تھے جیسے کسی نے بڑے سائز کی گیند کسی کے سینے پر رکھ دی ہو۔ لوکاٹی کچھ دیر تک تو انجلی کے تنے ہوئے مموں کو دیکھتا رہا پھر ایک دم اسکے مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبا دیا اور اپنا منہ انجلی کے ایک ممے پر رکھ کر اسکو چوسنے لگا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے لوکاٹی انجلی کے دوسرے ممے کو دبانے لگا۔ لوکاٹی کبھی انجلی کے ممے کو منہ میں لیکر چوستا تو کبھی اس پر اپنی زبان پھیرتا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے انجلی کا نپل پکڑ رکھا تھا جسکو وہ ہولے ہولے رگڑ رہا تھا اور انجلی کے منہ سے سسکیاں اونہہ،، اونہہ،، آوچ، آہ، آہ آہ آہ، اونہہ، اف آہ آہ نکل رہی تھیں۔ لوکاٹی کو ایسے تروتازہ ممے کافی عرصے بعد نصیب ہوئے تھے زیادتر وہ گشتیوں پر ہی گزارہ کرتا تھا جنکے ممے ڈھلکے ہوئے ہوتے تھے اور ان میں ایسی جان نہیں ہوتی تھی جو انجلی کے مموں میں تھی۔ اب لوکاٹی نے انجلی کا پہلے والا مما منہ سے نکالا اور دوسرے ممے کو منہ میں لیکر چوسنے لگا اور اب اسکے دونوں ہاتھ انجلی کی کمر پر مساج کر رہے تھے۔ کبھی کبھی اسکا ایک ہاتھ انجلی کے چوتڑوں کو بھی پکڑ کر دبا دیتا اور واپس پھر کمر کا مساج کرنے لگتا، انجلی مزے کی شدت سے کراہ رہی تھی اور اسکا جسم انگڑائیاں لے رہا تھا اس نے اپنے ہاتھ لوکاٹی کے بالوں میں پھساے ہوئے تھے اور اسکے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی جبکہ لوکاٹی اب اپنے دانتوں سے انجلی کے مموں کو کاٹ رہا تھا جس سے انجلی کی سسکیوں میں اور بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔
لوکاٹی کا لن ابھی تک ڈھیلا تھا اور اسکا سائز مشکل سے 2 انچ کے برابر ہوگا۔ مگر انجلی کی چوت اس وقت انگارہ بنی ہوئی تھی جس کو ہاتھ لگاو تو ہاتھ جل جائے۔ انجلی کی چوت سے نکلنے والا تھوڑا تھوڑا پانی اس انگارے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس انگارے کی حدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب انجلی نے لوکاٹی کو چہرے سے پکڑ کر اپنے مموں سے دور ہٹایا اور بولی جان مجھے اندر بیڈ پر لیجا کر چودو۔۔۔ تو لوکاٹی فوری اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور بولا چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں، انجلی اسکی گود میں ہی تھی انجلی نے کہا جانو تم نے باہر مجھے بہت اچھے سے چودا ہے، میں چاہتی ہوں کہ اب تم مجھے چودو تو میں اپنی چودائی کی ویڈیو بھی بناوں، لوکاٹی جو نشے میں دھت تھا اسے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی اس نے کہا ہاں بنا لو، تو انجلی اسکی گود سے اتری اور اپنا موبائل جس پر پہلے سے ویڈیو بن رہی تھی وہ اٹھا لائی اور لوکاٹی کو ایک بار پھر اسکے مرجھائے ہوئے لن سے پکڑ کر بیڈ روم میں لے گئی۔ بیڈ روم میں جا کر انجلی خود جلدی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور کیمرے کا رخ لوکاٹی کی طرف کر دیا اور بولی چلو اب میرے جسم پر پیار کرو، لوکاٹی فورا انجلی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسکے مموں پر ٹوٹ پڑا اور انجلی کے اوپر لیٹ کر اسکے مموں کو چوسنے لگا، انجلی سسکیاں بھی لیتی جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ لوکاٹی کی ویڈیو بھی بنا رہی تھی۔ ممے چوستے چوستے لوکاٹی آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جانے لگا اور انجلی کے پیٹ سے ہوتے ہوئے اسکی ناف میں اپنی زبان ڈال کر پیار کرنے لگا، انجلی کی سانسیں اب دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور اگر کیمرے سے بنتی ہوئی ویڈیو کو دیکھا جاتا تو سب سے آگے انجلی کے بڑے بڑے ممے نظر آرہے تھے جن پر چھوٹے چھوٹے نپل بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے اور اس سے آگے لوکاٹی کا سر نظر آرہا تھا جو انجلی کے گورے بدن پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اپنی زبان سے انجلی کی ناف میں پیار کر رہا تھا۔ پھر لوکاٹی مزید نیچے گیا اور انجلی کی چوت سے کچھ اوپر اپنی زبان پھیرنے لگا اور اپنے ہاتھ انجلی کی بالوں سے پاک نازک نرم و ملائم ٹانگوں پر پھیرنے لگا۔ پھر لوکاٹی مزید نیچے گیا اور اپنی زبان انجلی کی تھائی سے لیکر اسکے پاوں تک مسلتا چلا گیا۔ پھر لوکاٹی نے انجلی کی ٹانگیں اوپر اٹھا لیں اور اسکی گانڈ بھی اوپر کر دی اور خود نیچے لیٹ کر اسکے چوتڑوں پر اور اسکی پینٹی کی سائیڈز پر پیار کرنے لگا۔ وہ کسی رومانٹک شوہر کی طرف انجلی کے جسم پر پیار کر رہا تھا اور انجلی کو یہ سب بڑا اچھا لگ رہا تھا۔
کچھ دیر انجلی کے چوتڑوں اور اسکی پھدی کے آس پاس کی جگہ پر پیار کرنے کے بعد انجلی نے لوکاٹی کو کہا کہ جانو میری پینٹی اتار کر میری چوت کا بھی نظارہ کرو اور مجھے بتاو تمہیں میری چوت کیسی لگی۔ لوکاٹی نے فوری انجلی کی گیلی پینٹی اتار دی اور اسکی چوت کو غور سے دیکھنے لگا، مگرپھر بغیر کچھ بولے اس نے اپنی زبان نکالی اور انجلی کی چوت کے لبوں پر رکھ کر ان پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔ انجلی کی ایک سسکی نکلی اور وہ تھوڑا سا اوپر ہوکر بیٹھ گئی اور کیمرہ اس طرح سیٹ کیا کہ کسی حد تک لوکاٹی کا چہرہ بھی نظر آسکے اور انجلی کی چوت پر اسکی زبان بھی کیمرے کی نظر میں آسکے۔ کچھ دیر انجلی کی چوت کے لبوں کو چوسنے کے بعد لوکاٹی نے چوت کے لبوں کو کھولا اور اپنی زبان اندر داخل کر دی اور اسکو تیز تیز چلانے لگا۔ انجلی کی چوت جو پہلے ہی کسی انگارے کی طرح دہک رہی تھی اب تو وہ کسی آتش فشان کی طرح ابلنے لگی تھی اور جلد ہی اپنا لاوا اگلنے والی تھی۔ انجلی اب ایک ہاتھ سے ویڈیو بنا رہی تھی اور دوسرا ہاتھ لوکاٹی کے سر پر رکھ کر اسکو اپنی چوت کی طرف مزید دبا رہی تھی اور سسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ لوکاٹی کو کہ رہی تھی جان اور زور سے چاٹو میری چوت کو، کھا جاو میری چوت جان۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔ زور سے چاٹو۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گئی۔۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی انجلی کی چوت سے ابلتا ہوا لاوا نکلا اور اس نے لوکاٹی کے چہرے کو جھلسا کر رکھ دیا۔ انجلی کے جسم نے کچھ جھٹکے کھائے اور اسکے بعد پرسکون ہوگئی، پھر انجلی نے لوکاٹی کو سائیڈ پر ہٹایا اور اسے بیڈ پر لٹا کر خود اسکے اوپر بیٹھ گئی اور اسکے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ ابھی بھی ویڈیو بنا رہی تھی۔
انجلی نے اب لوکاٹی سے پوچھا جان تم مجھے اپنا ساتھ پاکیشا لے جا سکتے ہو؟؟؟ تو لوکاٹی نے کہا تم میرے ساتھ جانا چاہو گی پاکیشا؟؟ انجلی نے کہا ہاں۔ میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہاں تم ہمارے لیے کیسے کام کر رہے ہو۔ لوکاٹی جو شراب کے نشے میں دھت تھا بولا تم فکر نہ کرو میری تحریک اپنے عروج پر ہے اور تمہیں دیکھ کر خوشی ہوگی۔ اب انجلی نے پوچھا کہ تمہیں یقین ہے کے پاکیشیا کے لوگ اس علیحدگی کی تحریک میں تمہارا ساتھ دیں گے؟؟؟ لوکاٹی نے کہا میرے صوبے ہولستان کے عام لوگوں کو تو میں نے ان پڑھ رکھا ہے وہ ڈائریکٹ میرا ساتھ تو نہیں دیں گے مگر وہاں کی با اثر شخصیات میرے کہنے پر چلتی ہیں اور مختلف قبیلے کے سرداروں کو میں نے بڑے بڑے خواب دکھا رکھے ہیں کہ انڈیا سےالحاق کے بعد انہے بڑے بڑے عہدے اور ڈالر ملیں گے۔ اس لیے وہ میرے ساتھ ہیں اور جیسا وہ کہیں گے ویسا ہی وہاں کی عوام بھی فیصلہ کرے گی۔
انجلی اب تھوڑا نیچے ہوکر بیٹھ گئی اور لوکاٹی کے مرجھائے ہوئے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اسکو آہستہ آہستہ مسلنے لگی اور لوکاٹی سے پوچھا مگر اتنے ڈالر تم کیسے دوگے سرداروں کو؟؟؟ لوکاٹی نے ایک قہقہ مارا اور بولا ان پاگلوں کو کیا ملنا ہے انہوں نے انڈیا سے الحاق کا اعلان کرنا ہے اور جب ہندوستان کی افواج ہولستان پہنچ کر وہاں قبضہ کر لیں گی تو سب سے پہلے ان سرداروں کا ہی صفایا کرنا ہے۔ میں اپنی دولت اور ریاست کی حکمرانی میں کسی اور کو شامل نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر انجلی کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی مگر اسے ابھی اپنا مزید کام کرنا تھا۔ اب وہ مزید نیچے جھکی اور لوکاٹی کا لن جو کسی حد تک کھڑا ہوچکا تھا مگر ابھی بھی بہت ڈھیلا تھا اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ کچھ دیر تک چوسنے سے لوکاٹی کا7 انچ کا لن اب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا تھا اور انجلی اسکو بہت بے دردی سے چوس رہی تھی جس سے لوکاٹی کو بہت مزہ آرہا تھا ۔ اتنی جوان اور گرم لڑکی کو اس نے کافی عرصے سے نہیں چودا تھا آج تو لوکاٹی کی عید تھی کہ ایسی جوان اور گرم حسینہ اسکا لن چوس رہی تھی اور کچھ ہی دیر میں اسکے لن کی سواری بھی کرنے والی تھی۔ جب لن اچھی طرح کھڑا ہوگیا تھا انجلی نے لن منہ سے نکالا اور اپنے ہاتھ سے اس پر مساج کرنے لگی اور دوبارہ سے لوکاٹی سے مخاطب ہوئی کہ اگر تم ہولستان کو پاکیشا سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو میں تم سے شادی کر لوں گی۔ کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہو گے؟؟؟ انجلی کی بات سن کر لوکاٹی ہوش و ہواس میں بھی ہوتا تو شاید اپنے ہوش کھو بیٹھتا بڈھے آدمی کو 20 سالہ جوان گرم حسینہ کی طرف سے شادی کی آفر ہوش اڑانے والی ہی تو بات تھی، لوکاٹی نے فوری کہا ہاں میں تم سے شادی کروں گا اور ہم دونوں ملکر ہولستان کی ریاست پر حکومت کریں گے۔
پھر انجلی دوبارہ بولی مگر مجھے یہ بتاو کہ کیا ہندوستان کی سرکار تمہیں ہولستان پر حکومت کرنے دے گی؟ اگر انہوں نے تمہیں مروا دیا اور تمہاری جگہ کسی اپنے وفادار کو لے آئے تو پھر؟؟؟ اس پر لوکاٹی ہنسا اور بولا پورے ہندوستان میں مجھ سے زیادہ ہندوستان سرکار کا وفادار اور کوئی نہیں ۔ اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہاں کے لوگ ہندوستان کے خلاف بھی بغاوت کر دیں گے اور پھر پاکیشا کی فوج بھی دوبارہ سے ہولستان کو واپس لینے کے لیے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کر دیں گی جسکو ہندوستان برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے میرا مستقبل محفوظ اور روشن ہے۔ انجلی نے لوکاٹی کے چمکتے ہوئے لن پر ایک پیار بھری کس کی اور بولی مگر حکومت تو تم اب بھی کر رہے ہو ہندوستان سے الحاق کے بعد حکومت کرنے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟ لوکاٹی بولا بہت سارے ڈالر ملیں گے جو ابھی میرے پاس نہیں ہیں، ہولستان کے پہاڑوں میں چھپے سونے کو انڈیا کی سرکار تلاش کرے گی اور اس میں 25 فیصد میرا حصہ ہوگا اسکے علاوہ ہندوستان کی خوبصورت حسینائیں روز میرے لن کی سیوا کریں گی ۔ روز کوئی گرم اور جوان لڑکی میری گود میں ہوا کرے گی۔ انجلی برا سا منہ بناتے ہوئے بولی مگر پھر تو تم مجھے بھول جاو گے؟؟؟ لوکاٹی انجلی کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے بولا ارے نہیں، تم جیسی گرمی کسی اور لڑکی میں نہیں ہے، وہ تو پیسے کے لیے چدواتی ہیں تم اپنی خوشی سے چدوا رہی ہو اور میرا لوڑا منہ میں لیکر چوپےلگا رہی ہو۔ کرائے کی رنڈیاں یہ سب نہیں کرتیں نہ ہی اتنا مزہ دے سکتی ہیں جو تم دے رہی ہو۔ میں تم سے شادی کر کے تمہیں رانی بنا کر رکھوں گا۔ مگر میرا لن بھی ہفتے میں ایک بار نئی چوت کا طلبگار ہوتا ہے جو مجھے ہندوستان کی حسینائیں دیا کریں گی۔
لوکاٹی کا لن اب اپنے فل جوبن پر تھا اور اسکے ساتھ زیادہ دیر تک کھیلنا بھی مناسب نہیں تھا کیونکہ وہ کسی بھی وقت اپنا لاوا نکال سکتا تھا، اور انجلی نے بھی لوکاٹی سے کافی اندر کی باتیں اگلوا لیں تھیں۔ انجلی اب اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر لوکاٹی کے دوسری سائیڈ پر رکھ چکی تھی اور اسکی چوت کا منہ لوکاٹی کے لن کی ٹوپی کے بالکل اوپر تھا۔ اور اسکے ہاتھ میں کیمرہ کبھی لوکاٹی کے چہرے کو فوکس کر رہا تھا تو کبھی لوکاٹی کے لوڑے اور اپنی چوت کے ہونے والے ملاپ کا منظر عکس بند کر رہا تھا۔ پھر انجلی نے دوسرے ہاتھ سے لوکاٹی کا لن پکڑ کر اپنی چوت کے ساتھ لگایا اور ایک ہی جھٹکے میں اسے اپنی چکنی چوت کی گہرائیوں میں اتار لیا اور اس پر اچھلنے لگی۔ لوکاٹی کے لن پر اچھلتے ہوئےانجلی کے ممے اوپر نیچے اچھل رہے تھے جنہیں لوکاٹی بڑے اشتیاق سے دیکھ رہا تھا۔ کمرہ اب انجلی کی آوازوں سے گونج رہا تھا اور وہ مسلسل لوکاٹی کے لن پر اچھل اچھل کر اپنی چوت کو سکون پہنچا رہی تھی۔
ٹینا سے بات کرنے کے بعد کیپٹن مکیش کافی دیر تک غصے سے کانپتا رہا، ٹینا کی وحشی سسکیاں اور اسمیں محسوس ہونے والا سرور کیپٹن مکیش کو پاگل کیے دے رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ ٹینا نے جان بوجھ کر اسے جلانے کے لیے عمران سے چدواتے ہوئے اسکا فون اٹینڈ کیا اور پھر عمران نے بھی بغیر رکے اسکی چدائی جاری رکھی جسکی وجہ سے ٹینا کی سسکیاں اور سرور سے بھری آوازیں مکیش کے کانوں میں لاوا بن کر چھید کرتی رہیں۔ کچھ دیر کے بعد جب مکیش نارمل ہوا تو اب اسے تانیہ کا خیال آیا۔ مکیش کو پورا یقین تھا کہ راستے میں خراب گاڑی میں سے انجلی کی گاڑی میں لفٹ لینے والی تانیہ ہی ہو سکتی ہے۔ مگر اسکو یہ بات پریشان کیے دے رہی تھی کہ ٹینا اسکو اپنی دوست کیوںکہ رہی ہے؟؟؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ میجر دانش نے ٹینا کی ہی کسی دوست کو اپنے ساتھ ملا لیا ہو اور پھر یہ سارا ڈرامہ رچایا ہو۔ مگر پھر اسنے اس خیال کو ذہن سے نکال دیا کہ اگر ٹینا کو غنڈوں سے بچانے والا میجر دانش ہوتا تو وہ اسے کرنل وشال کے گھر ہی کیوں لیکر جاتا وہ اسے اغوا کر کے اپنی بات منوا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اسکا مطلب ہے کہ وہ کوئی عام شخص ہی ہے جس نے میجر دانش جیسے تجربہ کار اور ہونہار آئی ڈی آئی کے ایجنٹ کی دھلائی کر دی تھی۔ مگر تانیہ کی طرف سے وہ ابھی تک مطمئن نہیں تھا۔ اسکا خیال تھا کہ میجر دانش نے اپنی پہلی ناکامی کے بعد تانیہ کو میدان میں اتارا ہے اور اس نے عمران اور ٹینا کی گاڑی میں لفٹ لیکر انکا اعتماد جیت لیا ہے اور اب وہ جلد ہی میجر دانش کو کال کر کے گوا بلائے گی تاکہ وہ دوبارہ سے ٹینا کو اغوا کر سکیں۔ اب کیپٹن مکیش نے ٹینا کی حرکت کو نظر انداز کرتے ہوئے تانیہ کو ٹھکانے لگانے کا ارادہ بنا لیا تھا۔ وہ پہلے بھی ایک بار مکیش کے ہاتھوں سے بال بال بچی تھی جب مکیش نے ممبئی میں نہرو نگر میں موجود ٹیکسی ڈرائیور کی مخبری پر ایک گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ مگر اب مکیش کو یقین تھا کہ رات کے اس پہر تانیہ سو رہی ہوگی اور وہ با آسانی اسکو دھر سکتا ہے۔
اس نے اپنی جیز کی بیک سائیڈ پر ایک چھوٹا پسٹل رکھا اور اپنی گاڑی ٹینا کے بتائے ہوئے فائیو سٹار ہوٹل کے سامنے جا کر روک دی اور سیدھا ریسیپشن پر پہنچ گیا۔ ریشیپشن پر موجود ایک خوبصورت نوجوان حسینہ نے کیپٹں کا استقبال کیا تو کیپٹن نے اس سے پوچھا کہ اسکے ہوٹ میں کچھ دیر پہلے کسی تانیہ نامی لڑکی نے بکنگ کروائی ہے؟ تو اس حسینہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا سوری سر ہم ایسی معلومات کسی کو نہیں دیتے اگر آپ انہیں جانتے ہیں تو انہیں فون کر کے کمرہ نمبر معلوم کریں ہم آپکو اس کمرے میں پہنچا دیں گے۔ اب کیپٹن نے اپنی جیب سے اپنا کارڈ نکالا اور اپنا نام بتایا تو اس حسینہ کے خوبصورت لبوں پر موجود مسکراہٹ ایک دم غائب ہوگئی اور وہ انہتائی ادب سے بولی جی سر میں ابھی چیک کرتی ہوں۔ اس نے اپنے سامنے موجود کمپیوٹر پر چیک کیا اور مکیش کو بتایا کہ تانیہ نامی کسی لڑکی نے چیک ان نہیں کیا آج رات میں۔ اب مکیش نے پوچھا اچھا یہ بتاو کسی ٹینا میڈیم کے نام پر کوئی کمرہ بک ہوا ہے؟ اس حسینہ نے ایک بار پھر اپنے کمپیوٹر پر چیک کیا اور اسے بتایا کہ نہیں ٹینا میڈیم کے نام پر بھی کوئی روم بک نہیں ہوا۔ اب کیپٹن نے کچھ دیر سوچا اور پھر اس سے پوچھا اچھا مجھے یہ بتاو پچھلے 4 سے 5 گھنٹے کے درمیان کون کونسے رومز کی بکنگ ہوئی ہے۔ اس حسینہ نے اب دوبارہ سے چیک کیا اور کیپٹں کو روم نمبر 35، روم نبر 315 اور روم نمبر 507 کے بارے میں بتایا کہ آخری تین یہ کمرے ہیں جس میں بکنگ ہوئی ہے اور ان میں سے ایک روم کے علاوہ باقی 2 رومز میں فیملی ہیں جبکہ روم نمبر 507 میں مِس انجلی موجود ہیں۔ کیپٹن یہ سنتے ہی مسکرایا اور ایک لمبی سی ہونہ کی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ تانیہ اپنا نام تبدیل کر کے یہاں آئی ہے۔ اور یہ انجلی وہی تانیہ ہی ہے۔ ٹینا نے بھی فون پر انجلی نام ہی بتایا تھا۔ اب کیپٹن مکیش نے اس حسینہ کا شکریہ ادا کیا اور بولا وہ ایک گینگسٹر ہے میں اسے پکڑنے آیا ہوں مجھے اسکے روم کی ڈپلیکیٹ چابیاں چاہیے اور خبردار جو اس روم میں کوئی بھی ویٹر گیا۔ وہاں ہر کسی کے آنے جانے پر پابندی لگا دو۔ یہ حکم دیکر مکیش نے اپنی جینز کی بیک سائیڈ سے چھوٹی پسٹل نکالی اور لفٹ کے ذریعے اوپر جانے لگا جبکہ اس حسینہ نے تمام ویٹرز کو ہدایت کر دی کہ اس روم سے دور رہیں اور وہاں نہ جائیں۔
کیپٹن مکیش کچھ ہی دیر میں پانچویں منزل پر پہنچ چکا تھا اور وہاں سے وہ دوسری راہداری میں گیا جہاں 506 سے لیکر 510 نمبر تک کے روم موجود تھے۔ روم نمبر 507 کے دروازے کے باہر 2 ہٹے کٹے گن مین موجود تھے جو اصل میں لوکاٹی کے باڈی گارڈ تھے، یہاں پہنچ کر مکیش اپنی گن چھپا چکا تھا۔ کمرے کے سامنے پہنچ کر وہ رکا تو گن مین کو دیکھ کر اس نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی بہت بڑی گینگسٹر ہے جس نے اپنے ساتھ گن مین بھی رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کمرے کے سامنے جا کر رکا اور اور باہر کھڑے گن مین کو دیکھ کر مسکرا کر بولا وہ مجھے میڈیم انجلی نے بلایا تھا میں ان سے ملنے آیا ہوں۔ ان میں سے ایک گن مین نے کرخت لہجے میں کہا اس وقت کوئی بھی اندر نہیں جا سکتا تم فی الحال ادھر سے دفعہ ہوجاو۔ مگر مکیش وہیں کھڑا ڈھیٹ بن کر مسکراتا رہا اور گن مین کو آنکھ مارتے ہوئے بولا میڈیم کے ساتھ کوئی اور بھی ہے کیا اندر؟؟؟ گن مین نے مکیش کو دہکتی ہوئی آنکھوں سے گھور کر دیکھا اور بولا ادھر سے دفعہ ہوتے ہو یا تمہیں یہیں بھون کے رکھ دوں؟؟؟
مکیش بولا بھیا تم مجھے بھون کر رکھ دو میں تو یہاں سے جانے والا نہیں میڈیم انجلی کومل کر ہی جاوں گا۔ اس پر اس گن مین نے اپنے ہاتھ اپنی گن کی طرف بڑھائے جو اسکے کندھے پر لٹک رہی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی گن پکڑ کر مکیش کو ڈراتا مکیش کی طاقتور ٹانگ گن مین کی دونوں ٹانگوں کے درمیان زور سے جا کر سیدھی اسکے ٹٹوں پر لگی جس سے اس گن مین کی ایک چیخ نکلی اور وہ نیچے جھکتا چلا گیا نیچے جھکتے ہی اب کی بار مکیش کی ٹانگ اسکے منہ پر پڑی اور وہ اوندھے منہ زمین پر آرہا، اسی دوران دوسرا گن مین بھی آگے بڑھ کر مکیش پر حملہ کرنا چاہتا تھا مگر مکیش نے نیچے گرتے ہوئے گن مین کی کمر پر پاوں رکھ کر ایک جمپ لگایا اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ دوسرے گن مین کے سر پر اپنی دونوں کہنیاں پوری قوت سے ماریں جس سے وہ کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمین پر آرہا۔ اب دونوں گن میں تانیہ کے روم کے سامنے بے ہوش پڑے تھے۔۔
کیپٹن مکیش نے اپنی جیب سے اسکے کمرے کی دوسری چابی نکالی اور دروازے کے لاک میں چابی داخل کر کے چابی گھمائی تولاک کھل گیا۔ مکیش نے دروازے کاہینڈل گھمایا اور ہلکا سا دباو ڈالا تو دروازہ بغیر کوئی آواز پیدا کیے کھلتا چلا گیا۔ کیپٹن نے اب اپنی پسٹل ہاتھ میں پکڑ لی تھی اور انتہائی احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ اندر داخل ہوگیا، سامنے ایک بڑا سا کمرا تھا جس میں کچھ صوفے پڑے تھے اور ایک سائیڈ پر فریج تھا، صوفے پر ایک نائٹی پڑی نظر آرہی تھی جبکہ دور ایک سائیڈ پر ایک برا پڑا ہوا تھا۔ کیپٹن کیش مزید چوکنا ہوگیا تھا کیونکہ اسکے خیال میں میجر دانش اور تانیہ دونوں اس وقت اس روم میں رنگ رلیاں منا نے کے بعد اب سورہے ہونگے، کیپٹن اب کچھ خوشی مگر احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ اسکے دل میں کہیں ڈر بھی تھا کہ ناجانے وہ میجر دانش پر قابو پاسکے گا یا نہیں؟؟؟ اور خوشی بھی تھی کہ آج میجر دانش اور تانیہ دونوں ہی اسکی گرفت میں ہونگے اور کرنل وشال کو یہ خوشخبری سنا کر وہ پروموشن کی فرمائش بھی کرے گا۔
کیپٹن انہی سوچوں کے ساتھ بہت احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک اسکے کانوں میں پھر وہی آوازیں آنے لگیں جو کچھ دیر پہلے وہ فون پر سن کر آیا تھا جن آوازوں نے اسکے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ آہ آہ۔۔۔۔ اف۔ اف اور زور سے جانو، اور تیز چودو۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔ اہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔ پھاڑ دو میری چوت جانو، تیز تیز کرو ، اور تیز، اور تیز۔۔۔ آہ آۃ آہ۔۔۔۔۔ مگر اس مرتبہ یہ آوازیں ٹینا کی بجائے تانیہ کی تھیں جو اس وقت لوکاٹی کے لن پر سوار تھی اور لوکاٹی اسکو اپنی پوری قوت کے ساتھ چود رہا تھا۔
انجلی نے اپنی پوری قوت کے ساتھ لوکاٹی کے لن پر چھلانگیں لگائیں تھی اس سے انجلی کو مزہ تو بہت ملا مگر کچھ ہی دیر میں وہ تھک گئی تھی، اب وہ اپنے گھٹنے بیڈ کے ساتھ لگائے اپنی گاںڈ ہوا میں اٹھا کر بیٹھی تھی اور نیچے سے لوکاٹی اپنا لن انجلی کی ٹائٹ مگر چکنی چوت میں اپنا لن اندر باہر کر رہا تھا اور انجلی کی مزے کے مارے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد لوکاٹی نےجھٹکے لگانے بند کیے تو انجلی نے اپنی گانڈ کو لوکاٹی کے لن پر گھمانا شروع کر دیا۔ انجلی اپنے چوتڑوں کو گول گول گھما رہی تھی جس سے لوکاٹی کا لن انجلی کی چوت میں چاروں سائیڈز پر گول گول گھوم رہا تھا اور انجلی کی چوت میں رگڑ دے رہا تھا جس سے انجلی کی چوت میں آگ پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی تھی اور اسکا جی سپاٹ لوکاٹی کے لن کی ٹوپی سے ٹکرا رہا تھا۔ پھر ایک دم سے لوکاٹی نے دوبارہ سے انجلی کی چوت میں جھٹکے لگانے شروع کیے ۔۔۔ اب کی بار انجلی ویڈیو بنانے کے ساتھ ساتھ لوکاٹی کو کہ رہی تھی، جانو مجھے زور سے چودو، ایسے چودو جیسے تم نے ہولستان کی عوام کو چودا۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔ اور زور سے چودو جانو۔۔۔۔۔ ہولستان کو ہندوستان کی ریاست بنوا دو روز تمہیں اپنی چوت اسی طرح دیا کروں گی، تم سے اپنی گانڈ بھی مرواوں گی۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔۔ اف۔ اف اف ۔۔۔۔ تمہارا لن ۔۔۔۔ اف اف اف۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ میری چوت ۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔ اور زور سے گھسے مارو جانو۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔۔ پھر انجلی نے ایک لمبی آہ آہ کر کے سسکی لی اور اسکی چوت نے لوکاٹی کے لن کو اپنی منی سے نہلا دیا۔ ۔
جب انجلی کی چوت نے سارا پانی چھوڑ دیا تو وہ لوکاٹی کے لن سے نیچے اتر گئی اور بیڈ پر لیٹ کر لوکاٹی کو اپنے اوپر آکر چودنے کی دعوت دی۔ مگر لوکاٹی نے کہا ایسے نہیں ڈارلنگ۔ ڈاگی بن جاو، تمہیں اب میں ڈاگی سٹائل میں چودوں گا۔ انجلی کو بھی ڈاگی سٹائل پسند تھا وہ بھی جلدی سے اٹھ گئی اور لوکاٹی کی طرف اپنی گانڈ کر کے دوسری جانب جھکی اور بیڈ کے ساتھ ہاتھوں کے سہارے ڈاگی سٹائل بنا کر منہ پیچھے کر کے بولی آجاو جانو، ڈال دو اپنا لن میری چوت میں۔ چود دو مجھے۔۔۔۔ لوکاٹی بھی جلدی سے انجلی کے پیچھے آیا اور پہلے اسکے چوتڑوں پر 2، 3 زور دار چماٹ ماریں اور اسکے بعد اسکے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔ گانڈ پر زبان کا لمس محسوس کر کے ٹینا کو بہت سرور ملا تھا۔ اسکے منہ سے اب سسکاریاں نکل رہی تھیں اور وہ اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیل کر کوشش کر رہی تھی کہ لوکاٹی کی زبان کے ساتھ ساتھ اسکا پورا منہ اسکے چوتڑوں کی لائن میں غائب ہوجائے۔ لوکاٹی نے بھی کچھ دیر انجلی کی گانڈ چاٹی اور پھر گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھ کر اپنا لن انجلی کی چوت پر رکھ دیا۔
جیسے ہی انجلی کو لن کی ٹوپی اپنی چوت کے سوراخ پر محسوس ہوئی وہ خود ہی پیچھے کی جانب گانڈ کرنے لگی، جیسے ہی انجلی نے اپنی گانڈ پیچھے کی جانب دھکیلی چوت کی چکناہٹ کی وجہ سے انجلی کی چوت نے لوکاٹی کے لن کو اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی اور لوکاٹی کا آدھا لن انجلی کی چوت میں چلا گیا۔ ایک بار انجلی اب واپس آگے کی طرف گئی اور جب اسے محسوس ہوا کہ اب محض لوکاٹی کی ٹوپی ہی اسکی چوت میں رہ گئی ہے اس نے پھر سے پیچھے کی طرف اپنی گانڈ کو دھکیلا جس سے لوکاٹ کا آدھا لن دوبارہ سے انجلی کی چوت میں پھسلتا چلا گیا۔ اب انجلی نے مسلسل اپنی گانڈ کو آگے پیچھے حرکت دینا شروع کر دی تھی جبکہ لوکاٹی بغیر حرکت کیے انجلی کی ان حرکتوں کو انجوائے کر رہا تھا۔ اس طرح کی چودائی میں زیادہ رفتار پکڑنا ممکن نہیں تھا کیونکہ لڑکی اس رفتار کے ساتھ اپنی گانڈ نہیں ہلا سکتی جس رفتار سے کوئی بھی مرد اپنا لن لڑکی کی چوت میں آگے پیچھے کر سکتا ہے۔ مگر پھر بھی لوکاٹی انجلی کو پورا موقع دے رہا تھا کہ وہ خود سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اپنی چودائی کروائے۔ وقفے وقفے سے انجلی کے چوتڑوں پر لوکاٹی کے تھپڑ بھی پڑ رہے تھے جس سے انجلی کے چوتڑ جیلی کی طرح ہلتے ، اور ان پر اب لوکاٹی کی انگلیوں کے سرخ نشان پڑ چکے تھے اس دوران جب انجلی اپنی گانڈ پیچھے کی جانب دھکیلتی تو وہ اپنے منہ سے ایک لمبی آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔ کی آواز نکالتی اور اس دوران اپنی چوت کو بھی ٹائٹ کر لیتی، اور جب واپس آگے کی جانب جانے لگتی تو اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی اور ایک لمبی اف ف ف ف ف ف ف ف کی آواز نکالتی۔
کچھ دیر انجلی کو اسی طرح چودائی کروانے کے بعد لوکاٹی نے اب انجلی کی چوت میں اپنے لن سے دھکے لگانا شروع کر دیے تھے۔ لوکاٹی کے دھکے شروع ہوئے تو اب انجلی کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنی گانڈ کو آگے پیچھے ہلا سکے لہذا اب وہ بغیر حرکت کیے لوکاٹی کے دھکے برداشت کر رہی تھی، لوکاٹی کا ہر دھکا انجلی کو آگے کی طرف دھکیل دیتا تھا اور وہ پوری کوشش کرتی اپنے جسم کو روکنے کی کیونکہ اگر اسکا جسم زیادہ آگے جائے گا تو لوکاٹی کا لن انجلی کی چوت کی گہرائی تک جا کر چودائی نہیں کر سکتا، اسی لیے انجلی کی ہر دھکے پر کوشش ہوتی کے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے جسم کو وہیں پر روکے رکھے تاکہ لوکاٹی کا لن اسکی چوت کی گہرائی تک جائے اور اس اپنے اندر آنے کا احساس دلائے مگر پھر بھی جب لوکاٹی کا جسم انجلی کے چوتڑوں سے ٹکراتا تو وہ انجلی کو آگے کی طرف دھیکیل دیتا اور ساتھ میں دھپ دھپ کی آواز بھی نکالا۔۔۔
لوکاٹی نے اب تھوڑا سا آگے کی طرف جھک کر انجلی کے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا اور انہیں ہر دھکے کے ساتھ ایک بار زور سے دباتا اور لن باہر نکالتے ہوئے مموں پر ہاتھوں کا دباو ہلکا کر دیتا، اگلے دھکے پر ایک بار پھر وہ انجلی کے مموں کو زور سے دباتا اس طرح لوکاٹی کے چودنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوگیا اور اسکے ٹٹے جب نیچے سے انجلی کی چوت پر ٹکراتے تو انجلی کو اسکا بھی سرور ملتا۔ انجلی فل مزے میں تھی اور اپنی چدائی کو انجوائے کر رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد انجلی لوکاٹی کو پیچھے مڑ کر ایک ہوائی چمی دیتی اور اسکو مزیر رفتار کے ساتھ چودنے کا کہتی۔ ساتھ ساتھ انجلی کی سسکیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ۔۔۔ ام م م م ۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ، آہ ہ ہ ہ ، آہ آہ آہ ۔۔۔۔ زور سے چودو نا جانو۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔ اور لوکاٹی بھی انجلی کے اکسانے پر اپنی رفتار میں اضافہ کر دیتا تھا۔ کچھ دیر مزید ڈاگی سٹائل میں چودائی کروانے کے بعد اب انجلی نے لوکاٹی سے فرمائش کی کہ وہ ایک بار پھر سے اسکے لن کی سواری کرنا چاہتی ہے تو لوکاٹی نے نہ چاہتے ہوئے بھی انجلی کی چکنی چوت سے اپنا لن نکال دیا اور خود دوبارہ سے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ اتنی خوبصورت اور گرم لڑکی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ اسے اسکی خواہش کے مطابق چود رہا تھا ویسے بھی ڈاگی سٹائل میں چودنے کا مزہ تو لوکاٹی لے ہی چکا تھا۔
لوکاٹی اب نیچے لیٹا تھا اور انجلی اپنے پاوں کے بل لوکاٹی کے اوپر آگئی تھی اور لوکاٹی کا لن اپنی چوت کے سوراخ پر رکھ کر اس نے ایک زور دار جھٹکا نیچے کی طرف مارا تو لوکاٹی کا پورا لن انجلی کی چوت میں غائب ہوگیا۔ انجلی نے اب لوکاٹی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر سہارا لیا اور اپنی گانڈ اوپر اچھال اچھال کر لوکاٹی کے لن پر گرانے لگی۔ کسی بھی لڑکی کے لیے اس طرح چودائی کروانا بہت مشکل ہوتا ہے مگر انجلی کی چوت اس وقت بہت گرم ہورہی تھی اور وہ مکمل طور پر اپنی چوت کو سکون پہنچانا چاہتی تھی اس لیے وہ اسی پوزیشن میں اپنی چودائی جاری کیے ہوئے تھی، انجلی جب اپنے پورے وزن کے ساتھ اپنی گانڈ کو لوکاٹی کے اوپر گراتی تو لوکاٹی کا لن مکمل طور پر انجلی کی چوت میں گم ہوجاتا محض اسکے ٹٹے ہی چوت سے باہر رہتے۔ 2، 3 منٹ اسی طرح چودائی کروانے کے بعد اب انجلی تھک چکی تھی اب اس نے اپنے گھٹنے بھی بیڈ کے ساتھ لگا لیے تھے اور اپنے ہاتھ بدستور لوکاٹی کے سینے پر رکھ کر اپنی گانڈ کو ہوا میں اٹھا لیا تھا اور لوکاٹی نے نیچے سے اب دھکے مارنے شروع کر دیے تھے۔
انجلی کی چوت کی گرمی حد درجہ تک بڑھ چکی تھی اور کسی بھی ٹائم اسکی چوت پانی چھوڑ سکتی تھی۔ لوکاٹی اپنی فل رفتار کے ساتھ اپنے لن کے ذریعے انجلی کی چکنی مگر ٹائٹ چوت میں گھسے مار رہا تھا ، انجلی بے اختیار لوکاٹی کو مزید تیز چودنے کا کہ رہی تھی اسکے ساتھ ساتھ ۔۔۔ آہ آآہ آہ آہ اف اف۔۔۔۔ آہ آہ آہ اور تیز جانو، اور تیز چودو اپنی جان کو۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔ کی آوازیں مسلسل انجلی کے منہ سے نکل رہی تھی۔
لوکاٹی کےلن پر سواری کرتے کرتے انجلی کو اچانک محسوس ہوا کہ جیسے اسکے دروازے کے باہر کوئی ہے۔ انجلی نے دروازے کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا، اس نے مسلسل چودائی جاری رکھوائی اور لوکاٹی کو اور تیز چودنے پر اکسانے لگی مگر پھر دوبارہ سے انجلی کو محسوس ہوا کہ دروازے پر کوئی ہے، اب کی بار انجلی نے دروازے کی طرف دیکھا تو اسکی چکنی اور گیلی چوت مکمل خشک ہوگئی، دروازے پر کیپٹن مکیش کھڑا تھا اور اسکی پستول کا رخ انجلی کی طرف تھا۔ انجلی ایک دم سے اپنی سسکیاں بھول گئی اور اسکے ذہن میں دھماکے ہونے لگے کہ یہ کمینہ کہاں سے آگیا؟؟؟ انجلی اب کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ وہ کیا کرے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ایک یہی دروازہ ہے جس پر کیپٹن مکیش گن تھامے کھڑا ہے۔ جبکہ لوکاٹی اس بات سے بے خبر انجلی کی چوت میں گھسے لگائے جا رہا تھا۔
کیپٹن مکیش جو اب انجلی کی دروازے پر تھا وہ ایک لمحے کے لیے تو انجلی کو لن کی سواری کرتے دیکھ کر ساکت ہوگیا۔ انجلی کے گورے گورے بڑے سائز کے ممے جو لوکاٹی کے ہر دھکے کے ساتھ ہوا میں ہلتے دیکھ کر مکیش اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے اسنے یہ حسین ممے جامنگر کے ڈانس کلب میں نشے کی حالت میں دیکھے تھے اور اسکے ذہن میں ان خوبصورت کسے ہوئے مموں کی دھندلی سی تصویر تھی، مگر اس وقت وہ اپنے پورے ہوش و حواس میں انجلی کے یہ خوبصورت ممے دیکھ کر مدہوش ہوگیا تھا۔
ابھی کیپٹن مکیش انجلی کے مموں کے سحر میں ہی گرفتار تھا کہ اس نے محسوس کیا انجلی کی نظریں کیپٹں مکیش پر نہیں بلکہ انجلی کیپٹن مکیش کے پیچھے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جیسے ہی کیپٹن مکیش نے یہ محسوس کیا کہ انجلی کیپٹںن مکیش کے پیچھے کوئی اور چیز دیکھ رہی ہے کیپٹن کو فوری خطرے کا احساس ہوا اور اس نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ پیچھے گھوم کر دیکھنا چاہا کہ وہاں کون ہے ، مگر اسے دیر ہو چکی تھی۔ جتنی دیر میں کیپٹں مکیش پیچھے گھوما اتنی دیر میں میجر دانش کا زور دار گھونسا کیپٹن مکیش کی کنپٹی پر لگ گیا تھا جس نے مکیش کو دن کمرے کے اندر ہی تارے دکھا دیے تھے۔ اس سے پہلے کہ کیپٹن مکیش مزید کوئی وار کرتا میجر دانش کا دوسرا وار کیپٹن مکیش کی گردن پر ہوا اور کیپٹں مکیش کٹے ہوئے شہتیر کی طرح لہراتا ہوا زمین پر آرہا۔ میجر دانش نے اسے نیچے نہیں گرنے دیا بلکہ گرنے سے پہلے ہی اسے سہارا دیکر ایک سائیڈ پر لٹا دیا۔ پھر اس نے ایک نظر دوبارہ سے کمرے کے اندر ڈالی جہاں انجلی ابھی تک حیران پریشان کمرے سے باہر دیکھ رہی تھی اور لوکاٹی اس ساری کاروائی سے بے خبر انجلی کی چوت میں گھسے پر گھسا مار رہا تھا۔ میجر دانش نے اب انجلی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور اسکے مموں کی طرف اشارہ کر کے اسکی تعریف کرنے لگا ساتھ ساتھ اسکی چودائی پر ہنسنے بھی لگا،
اتنے میں انجلی کو بھی ہوش آیا جب اسے لوکاٹی کی آواز آئی ڈارلنگ میں فارغ ہونے والا ہوں، تبھی انجلی کو بھی اپنی چوت میں سوئیاں چھبتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اسکی چوت بھی پانی چھوڑنے والی تھی جبکہ سامنے کمرے کے دروازے پر میجر دانش یہ سارا منظر دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔ لوکاٹی کی آواز سن کر انجلی نے پھر سے اپنی توجہ اپنی چودائی کی طرف کی اور لوکاٹی کے گھسوں کے ساتھ ساتھ ردھم بناتے ہوئے اپنی گانڈ کو بھی اچھالنے لگی اور بولی نکال دو جان اپنی منی میری چوت میں، میرے اندر ہی فارغ ہوجاو، میری چوت بھی پانی چھوڑ رہی ہے۔۔۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے انجلی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی اور وہ میجر دانش کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ لوکاٹی آنکھیں بند کیے انجلی کی چوت میں دھکے مار رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ کب اسکے لن میں ایک مزے کی لہر اٹھے اور اسکی ساری منی انجلی کی چوت میں نکل جائے۔ پھر اچانک لوکاٹی نے 2، 3 زور دار دھکے مارے اور اپنی ساری منی انجلی کی چوت میں نکال دی، جبکہ انجلی نے بھی اپنی گانڈ کو جھٹکے دیے اور اس نے بھی لوکاٹی کے گرم گرم پانی کے ساتھ اپنی چوت کے گرم پانی کو ملا دیا۔ جب انجلی اپنی ساری منی نکال چکی تو وہ لوکاٹی کو سینے کے اوپر لیٹ گئی اور میجر دانش کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ اب جائے یہاں سے۔ میجر دانش جو انجلی کی چودائی سے محظوظ ہورہا تھا وہ بھی اپنے ہوش میں واپس آیا اور اپنے ساتھ بے ہوش پڑے کیپٹن مکیش کو اٹھا کر باہر والے کمرے کی طرف لے گیا، وہاں موجود انجلی کی نائٹی اٹھا کر میجر دانش نے کیپٹن مکیش کے منہ میں ٹھونس دی ، اسکے بعد انجلی کا برا اٹھا کر کیپٹن کے ہاتھ پیٹھ پر لیجا کر انکو بھی باندھ دیا۔ مگر پھر میجر نے محسوس کیا کہ یہ برا بہت کمزور ہے تو اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو اسے ایک الماری نظر آئی۔ میجر نے الماری کھولی تو اس میں اسے انجلی کا ایک اور سوٹ مل گیا، یہ بھی نائٹ ڈریس تھا مگر سلکی کپڑے کا تھا جو قدرے مظبوط تھا۔ اب کی بار میجر دانش نے کیپٹن کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو ایک بار پھر انجلی کے نائٹ ڈریس سے مزید مظبوطی کے ساتھ باندھ دیا۔ پھر اس نے کیپٹں مکیش کی پینٹ سے بیلٹ کھول لی اور کیپٹں کے پاوں پیچھے کی طرف موڑ کر باندھ دیے اور اسی بیلٹ کو مزید پیچھے کھینچ کر کیپٹن کے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ باندھ دیا۔ اب کیپٹن مکیش کا جسم دہرا ہوگیا تھا پیچھے کی جانب، ہوش میں آنے کے بعد بھی اسکے لیے حرکت کرنا ممکن نہیں تھا، اب میجر دانش نے کیپٹن کو اٹھا کر اسی الماری میں بند کر دیا جس میں انجلی کے کپڑے موجود تھے۔
اب میجر دانش واپس جانے کی تیاری کرنے لگا تو اسے لگا جیسے کمرے میں کچھ ہلچل ہورہی ہے، وہ دیکھنے کے لیے ہولے سے آگے ہوا تو لوکاٹی ابھی بھی آنکھیں بند کیے بیڈ پر لیٹا تھا، بوڑھے ہونے کے باعث وہ آج کی چودائی سے کافی تھک گیا تھا، جبکہ تانیہ نے اب کمرے میں پڑا ایک ٹاول اپنے جسم پر لپیٹ لیا تھا اور وہ کمرے سے باہر آرہی تھی، کمرے سے باہر آتے ہی اس نے میجر دانش سے پوچھا کہ یہ یہاں تک کیسے پہنچ گیا؟؟؟ اور اسے کیسے پتا لگا میرے بارے میں؟؟ تو میجر دانش نے اسے ہلکی آواز میں بتایا کہ یہ ممبئی سے ہی ہمارے پیچھے تھا اور اسے راستے میں تمہاری گاڑی بھی ملی تھی، اور اسکا خیال ہے کہ ٹینا کو اغوا کرنے میں وہ گاڑی استعمال ہوئی ہے جو اسے راستے سے تمہاری چھوڑی ہوئی گاڑی ملی ہے۔ اس نے ٹینا کو فون کر کے تمارے بارے میں پوچھا تھا تو ٹینا نے بتا دیا کہ تمہیں اس ہوٹل میں چھوڑا ہے ہم نے۔ تبھی میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ تمہارا پیچھا کرتے ہوئے تمہارے کمرے تک ضرور پہنچے گا، تبھی میں ٹینا کو سوتا چھوڑ کر فوری طور پر اسکی گاڑی میں یہاں آگیا، کمرے سے باہر آیا تو دیکھا کہ 2 گن من بے ہوش پڑے ہیں اور اندر داخل ہوا تو کیپٹن مکیش تمہارا اور اس لوکاٹی کا سیکس انجوائے کر رہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے میجر کی آنکھوں میں شرارت بھری چمک تھی ، انجلی نے کہا اچھا یہ سب چھوڑو اور اب آگے کا بتاو؟ میجر دانش نے کہا یہ کیپٹن صاحب تمہارے کپڑوں والی الماری میں قید ہیں امید ہے اب یہ کل شام کو ہی ہوش میں آئیں گے۔ تم صبح ہوتے ہی کوشش کرنا لوکاٹی کو ساحل پر لے آنا اور اس سے زیادہ سے زیادہ راز اگلوانے کی کوشش کرنا۔۔۔ میں تمہیں وہیں پر ملوں گا ٹینا کے ساتھ۔ یہ کہ کر میجر دانش واپس جانے لگا، مگر پھر مڑا اور تانیہ سے پوچھا ابھی تک مزے ہی کیے ہیں یا کوئی کام کی بات بھی ملی ہے؟؟؟
اب کی بار تانیہ اتراتی ہوئی بولی تمہیں اس سے کیا میں جتنے مرضی مزے کروں، تم کیوں جل رہے ہو؟؟ تانیہ کی بات پر میجر دانش آہستہ سے ہنسا اور بولا میں تم سے کیوں جلوں گا تم بڈھے کے ساتھ مزے کر رہی ہو، میرے ساتھ تو تم جیسی جوان حسینہ موجود ہے میں تم سے زیادہ مزے کر رہا ہوں۔۔۔ یہ کر کہ میجر دانش کمرے سے نکل گیا، وہ سمجھ گیا تھا کہ تانیہ نے کوئی نا کوئی کام کی بات اگلوا لی ہے لوکاٹی سے۔ دونوں نے یہ باتیں بہت آہستہ آواز میں کی تھیں ۔ اب میجر دانش باہر جانے لگا تو اسے پیچھے سے لوکاٹی کی آواز آئی کہاں رہ گئی ہو جانِ من؟؟؟ ساتھ ہی تانیہ کی آواز آئی، پیاس لگ رہی تھی جان، پانی پی رہی ہوں، اور فورا فریج کی طرف بھاگی جبکہ میجر دانش تانیہ کے کمرے کے باہر پڑے گن مین کو وہیں چھوڑ کر نیچے کی طرف بھاگا اور ہوٹل سے نکل کر سیدھا ٹینا کے ہٹ پر پہنچ گیا جہاں ٹینا اپنے نئے بوائے فرینڈ عمران سے ایک تباہ کن چدائی کروانے کے بعد سکون سے سورہی تھی۔
امجد کے لیے موت کو گلے لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا، وہ بہت بار موت کے منہ سے زندہ بچ کر واپس آیا تھا مگر اگلی بار پھر وہ پہلے سے زیادہ مشکل اور جان لیوا مشن خوشی سے کرنے پر تیار ہوجاتا تھا۔ لیکن ہر بار وہ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر بے خوف ہوکر لڑتا تھا، لیکن آج پہلی بار اسکو اپنی موت کا بیٹھ کر انتظار کرنا پڑ رہا تھا جہاں وہ نہ تو دشمن پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا اور نہ ہی اپنے بچاو کی کوئی تدبیر کر سکتا تھا، اگر وہ کچھ کر سکتا تھا تو وہ تھا محض موت کا انتظار۔ اور یہی انتظار اسکے لیے خوفناک تھا۔ اگر کرنل وشال اسکی کنپٹی پر پسٹل رکھ کر اسکو کہ دیتا کہ میجر دانش کا پتا بتا دو نہیں تو موت کو گلے لگا لو تو شاید امجد خود سے ہی گولی چلا لیتا مگر میجر دانش کا نہ بتاتا، مگر اس طرح بے یار و مددگار بیٹھ کر موت کا انتظار کرنا بہت اذیت ناک تھا۔ کبھی وہ کاشف کے بارے میں سوچتا تو کبھی سرمد کے بار میں ، وہ نہیں جانتا تھا کہ کاشف زندہ بھی ہے یا پھر کرنل وشال نے اسے شہید کر دیا؟؟؟ اور سرمد کے بارے میں بھی اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہوچکا ہے یا پھر اس نے اپنے بچاو کی کوئی تدبیر کی ہے؟؟
تانیہ امجد کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی، اس نے تانیہ کو اپنی چھوٹی بہن کی طرح پالا تھا ، اور وہ ایسے کسی بھی مشن میں تانیہ کو شامل کرتے ہوئے گھبراتا تھا، مگر تانیہ کے علاوہ وہ کسی اور پر اعتماد بھی نہیں کر سکتا تھا اس لی مجبورا وہ تانیہ کو اپنے ساتھ رکھتا۔ البتہ اس وقت وہ تانیہ کی طرف سے بے فکر تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میجر دانش کے ساتھ تانیہ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ، میجر دانش تانیہ کی حفاظت کر سکتا تھا، البتہ سرمد کی طرف سے وہ خاصا فکر مند تھا۔ کرنل وشال کو کمرے سے گئے خاصی دیر ہوچکی تھی، شاید پورا دن گزر چکا تھا مگر امجد کو اس بات کا علم نہیں تھا، وہ تو بس ایک اندھیرے کمرے میں قید تھا جہاں باہر ہونے والے معاملات کا اسکو کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے امجد کو اب تکلیف ہونے لگی تھی، نا جانے کتنی دیر سے وہ اسی کرسی پر بندھا ہوا تھا اور تو اور پچھلے کافی گھنٹوں سے نہ تو امجد کو پانی پینا نصیب ہوا تھا اور نہ ہی کھانے کو کچھ ملا تھا۔ پریشانی کے باعث اسکا گلا خشک ہورہا تھا مگر اسکو یہاں پانی دینے والا کوئی نہیں تھا۔
امجد نے 2، 3 بار چلا چلا کر پانی بھی مانگا مگر جواب میں اسکو نا تو کوئی آہٹ سنائی دی اور نہ ہی کوئی اسکو پانی پلانے آیا۔ آج امجد کو احساس ہورہا تھا کہ موت کا انتظار کرنا موت کو گلے لگانے سے کتنا زیادہ مشکل کام تھا۔ ابھی کاشف اور سرمد کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ اسکو کمرے سے باہر کچھ قدموں کی آواز سنائی دی۔ اب امجد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی وہ سمجھ گیا تھا کہ شہادت کا وقت اب قریب ہے۔ اتنی دیر سے جو وہ اذیت ناک انتظار کر رہا تھا وہ انتظار ختم ہونے کو ہے، کرنل وشال کی پسٹل سے ابھی ایک گولی چلے گی اور امجد کے سینے سے پار ہوجائے گی، اور وہ اپنے ملک کے ایک سپاہی کو بچانے کی خاطر اپنی جان کی قربانی دیکر شہادت کے رتبے پر فائز ہوجائے گا۔ اس سوچ نے امجد کے اندر ایک عجیب سی ہمت پیدا کر دی تھی۔ اب کرنل وشال اسکے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالتا تب بھی وہ اس سے کچھ اگلوا نہیں سکتا تھا۔
قدموں کی آواز اب خاصی قریب آچکی تھی۔ کمرے کے اندر زیرو کا ایک بلب آن ہوگیا تھا جس سے کمرے میں کچھ روشنی پیدا ہوئی تھی، پھر کمرے کا دروازہ کھلا اور رسیوں میں جکڑا شخص اوندھے منہ اند آگرا۔۔۔ اس سے پیچھے ایک اور شخص تھا وہ بھی رسیوں سے بندھا ہوا تھا اور ایک آدمی اسکو بالوں سے پکڑ کر کھینچتا ہوا امجد کے قریب لے آیا تھا۔ رسیوں میں جکڑا یہ شخص امجد کے قریب آیا تو امجد نے اسکو پہچان لیا تھا۔ یہ سرمد تھا جسکے چہرے پر اس وقت بے شمار زخم تھے اور اسکی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر اسکے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ امجد کو دیکھ کر اس نے بہت مشکل سے بولنا شروع کیا اور محض اتنا ہی کہا: کچھ نہیں اگلوا سکے یہ کتے میرے منہ سے۔
سرمد کے منہ سے یہ بات سن کر امجد کے چہرے پر بھی ایک فاتحانہ مسکراہٹ آگئی تھی۔ وہ آگے بڑھ کر سرمد کو گلے لگانا چاہتا تھا مگر افسوس کے اپنی کرسی سے اٹھنے کے قابل نہیں تھا وہ، اب امجد نے نیچے گرے ہوئے شخص کی طرف دیکھا جو ابھی تک اوندھے منہ پڑا تھا امجد نے غور سے اسکا جائزہ لیا تو اسے بھی پہچان لیا، یہ کاشف تھا، مگر اسکی حالت بہت بری تھی۔ کرنل وشال نے اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے تھے، امجد کی نظر جب کاشف کی ٹانگ پر پڑی تو اسکے اوسان خطا ہوگئے، اسکی ٹانگ پر بہت زیادہ خون جما ہوا تھا اور ابھی بھی تھوڑا تھوڑا خون اسکی ٹانگ سے رس رہا تھا۔ اسکے ساتھ کرنل وشال کھڑا تھا جسکے چہرے پر غم و غصے کے واضح آثار دیکھے جا سکتے تھے۔ اسکو شاید اپنی ناکامی کا غصہ تھا کہ ان تینوں میں سے کسی سے بھی وہ یہ نہیں اگلوا سکا تھا کہ آخر میجر دانش اور تانیہ اس وقت کہاں پر ہے؟ کرنل وشال کے ساتھ 2 لوگ اور تھے مگر اس بار وہ ہنٹر والی ظالم حسینہ کرنل کے ساتھ نہیں تھی۔ کمرے کی لائٹس اب کرنل وشال کے کہنے پر آن کر دی گئی تھیں۔ لائٹس آن ہونے کے بعد امجد نے اب دوبارہ کاشف پر نظر ڈالی تو اس معلوم ہوا کہ آخر کاشف کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ اسکی ٹانگ میں ڈرل مشین کے ذریعے سوراخ کیا گیا تھا۔ اس نے اپنی دائیں ٹانگ فولڈ کر رکھی تھی جبکہ بائیں ٹانگ کو وہ آہستہ آہستہ زمین پر مار رہا تھا۔ مگر اسکا باقی پورا جسم ساکت تھا، اسکا چہرہ نیلا ہورہا تھا اور اسکے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ کاشف کی یہ حالت دیکھ کر امجد کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اپنی جگہ سے اٹھے اور کرنل وشال کے ٹکڑَ ٹکڑَے کر ڈالے۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ وہ اس وقت کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کرنل وشال کے ساتھ آئے باقی دو لوگوں نے اب کاشف کو زمین سے اٹھایا اور امجد کے ساتھ ایک اور کرسی پر بٹھا دیا جبکہ سرمد ابھی تک کھڑا تھا مگر وہ رسیوں میں جکڑا ہوا تھا وہ اپنی مرضی سے زیادہ حرکت نہیں کر سکتا تھا سوائے چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلنے کے۔ اس لیے کرنل وشال کو اس سے کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں ہورہا تھا۔
کرنل وشال اب امجد سے مخاطب ہوا اور بولا یہ اپنے دوست کی حالت دیکھ رہے ہو ؟؟؟ مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دو کہ میجر دانش اس وقت کہاں ہے ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ کرنل وشال کا جملہ مکمل ہوتا امجد نے ایک زور دار طنزیہ قہقہ لگایا تو کرنل وشال کچھ غصے اور کچھ حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھنے لگا۔ امجد بولا کرنل کس کو ڈرا رہے ہو؟ میرے دوست کی حالت تمہارے سامنے ہے، جب وہ تمہارایہ وحشیانہ ظلم برداشت کر گیا اور تم اس سے کچھ نہ اگلوا سکے تو تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں تمہارے ظلم کو برداشت نہیں کر پاوں گا اور تمہیں کچھ بتاوں گا۔۔۔۔ امجد کی بات سن کر اسکے ساتھ کھڑے سرمد نے بھی ایک قہقہ لگایا اور کرسی پر بیٹھے کاشف نے بھی اپنی دھیمی اور تکلیف سے بھرپور آواز میں ایک طنزیہ قہقہ لگایا۔ تینوں کو یہ قہقہے لگاتے دیکھ کر کرنل وشال کو اپنی تذلیل محسوس ہورہی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کاشف کو اس حالت میں دیکھنے کے بعد امجد میں ہمت باقی رہے گی، اسکا خیال تھا کہ امجد سب کچھ اگل دے گا کاشف کی یہ حالت دیکھ کر۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا، وہ تینوں تو ایکدوسرے کو دیکھ کر خوش ہوگئے تھے اور ان میں پہلے سی زیادہ ہمت آچکی تھی، اور تو اور کاشف جسکی ٹانگ میں کرنل وشال سوراخ کر چکا تھا اور اس میں بولنے تک کی ہمت نہیں تھی اسکا چہرہ نیلا ہورہا تھا اور اسکے جسم سے خون نچوڑ لیا گیا تھا وہ بھی طنزیہ قہقہے لگا رہا تھا۔
کرنل وشال کے لیے اس سے زیادہ تذلیل والی بات اور کوئی نہیں تھی۔ اس نے اپنی پسٹل نکالی اور اسکا سیفٹی لاک کھول کر اسکا رخ امجد کی طرف کر دیا اور بولا تمہارے پاس محض 2 منٹ ہیں مجھے میجر دانش کے بارے میں بتا دو نہیں تو یہ گولی تمہاری موت بن کر آئے گی۔ کرنل وشال کی بات سن کر کاشف اور سرمد تو ہنسے ہی تھی امجد نے بھی قہقہہ لگا دیا۔ کاشف دھیمی آواز میں بولا یہ کھڑوس ابھی بھی سمجھ رہا ہے کہ ہم موت سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس نے بہت مشکل سے اپنا چہرہ امجد کی طرف کیا تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کاشف دھیمی آواز میں امجد سے معذرت کر رہا تھا کہ وہ کرنل وشال کا ظلم برداشت نہیں کر سکا تو اس نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور سرمد کا ایڈریس بھی بتا دیا مگر میجر دانش اور تانیہ کہاں ہیں یہ اس نے نہیں بتایا۔ اس نے سرمد کی طرف بھی دیکھا اور اس سے معذرت کی کہ میں نے تمہارا ایڈریس بتا دیا مگر سرمد کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی ، اسے کاشف سے کوئی شکایت نہیں تھی اسنے کاشف کو آنکھوں ہی آنکھوں میں حوصلہ دیا اور محض اتنا بولا، فکر نہیں کرو دوست۔ ہماری منزل اب قریب ہے۔
کرنل نے جب دیکھا کہ اسکی دھمکی کا ان تینوں پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ کرنل کو جواب دینے کی بجائے آُس میں باتیں کر رہے ہیں اسکا پارہ اور بھی ہائی ہوگیا، اس نے پسٹل کا رخ امجد کی ٹانگ کی طرف کیا اور گولی چلا دی۔ پسٹل سے نکلی ہوئی گولی امجد کی ٹانگ کے گوشت کو چیرتی ہوئی پیچھے دیوار میں جا لگی اور امجد کی ایک زوردار چیخ سے کمرہ گونج اٹھا۔ ایک چیخ مارنے کے بعد امجد نے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا تھا اور تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود اسکو اپنی ٹانگ میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی چھری کے ساتھ مسلسل اسکے گوشت کو کاٹ رہا ہو۔ اب کی بار کاشف اور سرمد کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار دیکھے جا سکتے تھے۔ کرنل وشال کو اب ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے ان تینوں میں سے کوئی نہ کوئی میجر دانش کا پتہ اگل دے گا۔ مگر کچھ دیر انتظار کے بعد اسے اپنے کانوں کی سماعت پر شک ہونے لگا جب اسکے کانوں میں امجد کی ہلکی ہلکی ہنسی کی آواز سنائی دی جو اب آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ امجد کو ہنستا دیکھ کر کاشف اور سرمد بھی اب مسکرا رہے تھے۔ امجد نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور اسکے بعد گرجتی ہوئی آواز میں بولا ابے اوئے کرنل ۔۔۔ تو کیا سمجھتا ہے تو ظلم کر کے ہم سے میجر دانش کا پتہ معلوم کر لے گا کیا؟ ارے تو ہماری بوٹی بوٹی بھی کر دے تو بھی تو ہم تینوں میں سے کسی کی زبان نہیں کھلوا سکتا، یہ کشمیریوں کا خون ہے جس میں وفا بھی ہے اور جذبہءِ جہاد بھی، تیری طرح کے ہندو ہوتے ہونگے جو ذرا سا ظلم سہ کر اپنی دھرتی کے ساتھ غداری کر جائے۔ ہم شہید تو ہوسکتے ہیں مگر اپنے وطن کے ساتھ غداری نہیں کر سکتے، ابے او ہیجڑوں کے کرنل ، اگر ہمت ہے تو یہاں میرے دل میں گولی مار اور اگر میرے دل میں گولی مارنے کے بعد بھی تجھے میری آنکھوں میں خوف نظر آجائے تو میری لاش کو کتوں کے آگے پھینک دینا۔
امجد کی آنکھوں میں اس وقت انگارے برس رہے تھے اور وہاں خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی وہاں صرف ایک ہی چیز کی تمنا تھی اور وہ تھی شہادت۔ کرنل وشال اس وقت اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اس نے کاشف پر ہر طرح کا ظلم کر کے دیکھ لیا تھا یہاں تک کہ اسکو کرنٹ بھی لگایا تھا اسکی ٹانگ میں سوراخ بھی کر دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ سرمد کے ساتھ بھی اس نے ہر طرح کا تشدد کیا تھا، اسکا چہرہ ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا تھا اور پانی سے چہرہ نکالتی ہی اسکا چہرہ دوبارہ سے برف جیسے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا تھا۔ گرم پانی کا ظلم تو کوئی بھی انسان برداشت کر سکتا ہے، مگر گرم پانی کے فورا بعد برف جیسا ٹھنڈا پانی برداشت کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی، مگر سرمد اس تشدد کے بعد بھی کرنل وشال کو کچھ بھی بتانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
امجد کے جسم کو اس نے کانٹے لگے ہنٹر سے چھلنی کر دیا تھا، مگر وہ کچھ نہ بولا اور اب اسکی ٹانگ میں گولی مارنے کے بعد بھی وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ کرنل کو چیلنج کر رہا تھا کہ گولی مارنی ہے تو سینے میں دل پر مارے۔ امجد نے کرنل وشال کے سامنے اب اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا، وہ بالکل مایوس ہوچکا تھا ان تینوں سے۔ کرنل نے اب اپنی پسٹل کا رخ امجد کے سینے کی طرف کیا اور سرمد کو مخاطب کر کے بولا، تمہارے پاس آخری موقع ہے امجد کی زندگی بچانے کا، اگر تم میجر دانش کا پتا بتادو گے تو امجد کی جان بچ جائے گی۔ مگر سرمد نے میجر دانش کا پتا بتانے کی بجائے کرنل وشال کو کہا دیر کس بات کی ہے، اسی شہادت کی موت کا تو ہر مسلمان کو انتظار ہوتا ہے، چلا گولی اور پھر دیکھ شہید کے چہرے کی مسکراہٹ۔
سرمد کی اس بات کے بعد اب کرنل وشال ارادہ کر چکا تھا ان تینوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا وہ گولی چلانے ہی والا تھا کہ اسکے ساتھ کھڑے فوجی جوان کے ہاتھ میں موجود کرنل وشال کے موبائل کی گھنٹی بجی، کرنل نے نا گواری کے ساتھ اسکو دیکھا جو فون کرنل کی طرف لا رہا تھا، کرنل نے گرجتے ہوئے کہا بند کرو اسکو ورنہ یہی گولی تمارے سینے میں اتار دوں گا۔ وہ جوان وہیں رک گیا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولا سر بی بی جی کا فون ہے۔ ۔ کرنل کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آئے اور اس نے فورا اس فوجی سے فون پکڑ لیا اور بولا ہاں بیٹا سب خیریت تو ہے نا؟ یہ پوچھ کر کرنل وشال خاموش ہوا مگر امجد دیکھ رہا تھا کہ کرنل کے چہرے پر پریشانی کے آثار بڑھتے جا رہے تھے اور اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے تھے۔ اب کرنل وشال بولا تو اسکی آواز کانپ رہی تھی اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ بے بس دکھائی دے رہا تھا۔ کرنل وشال فون پر کانپتی آواز میں کہ رہا تھا "دیک یکھوت ت تم ایسا ن ن نہیں کر سکتے"۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ساحلِ سمندر پر انجلی لوکاٹی کے ساتھ سمندر کی لہروں کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ انجلی نے وہاں پھرنے والی باقی تمام لڑکیوں کی طرح محض برا اور پینٹی پہن رکھی تھی جبکہ پینٹی کے اوپر اس نے ایک باریک نیٹ کا چھوٹا سا رومال اسطرح باندھ رکھا تھا کہ وہ کپڑا انجلی کے چوتڑوں کو مکمل طور پر اور سامنے اسکی چوت کو چھپا رہا تھا جبکہ اسکی سلکی نرم و ملائم ٹانگیں مکمل طور پر ننگی تھیں۔ ساحل کی اس سائیڈ پر مخصوص لوگوں کو ہی آنے کی اجازت تھی یہاں پر زیادہ تر ہائی کلاس لڑکیاں یا پھر غیر ملکی یورپین اور امریکن لوگوں کو ہی آںے کی اجازت تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ یہاں پھرنے والی ہر لڑکی برا اور پینٹی پہنے ہوئے تھی یا پھر جو انڈین لڑکیاں تھیں انہوں نے انجلی کی طرح پینٹی کے اوپر کوئی کپڑا باندھ رکھا تھا یا پھر چھوٹی نیکر پہن رکھی تھی جو بمشکل انکے چوتڑوں کے ابھاروں کو ہی چھپاتی باقی ساری ٹانگ دعوت نظارہ دیتی تھی۔ لوکاٹی بھی بڑی شان کے ساتھ انجلی کے ساتھ چل رہا تھا۔ وہ آس پاس سے گزرنے والے قدرے ادھیر عمر کے جوڑوں کی طرف فخر سے دیکھتا۔ کیونکہ اس عمر میں بھی اسکے پہلو میں ایک 20 سالہ نوجوان سیکسی حسینہ تھی جبکہ باقی جو اسکے ہم عمر یا اس سے آدھی عمر کے بھی مرد وہاں موجود تھے انکے ساتھ ادھیڑ عمر اور ڈھلکے ہوئے جسموں والی عورتیں تھیں۔ محض نوجوان لڑکوں کے ساتھ ہی نوجوان لڑکیاں تھیں یا پھر ایک واحد لوکاٹی اس عمر کا تھا جسکے پہلو میں ایک ایٹم بم موجود تھا جو اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ساحل پر موجود جوان لڑکے اور مرد تو ایک طرف بوڑھوں کے لوڑوں میں بھی جان پیدا کر رہی تھی۔
لوکاٹی کا ایک ہاتھ انجلی کی چکنی کمر پر تھا اور اس نے کس کر انجلی کو پکڑ رکھا تھا جیسے اسے خوف ہو کہ انجلی کو کوئی منچلا نوجوان نہ لے اڑے۔ جبکہ انجلی اب لوکاٹی کے ساتھ سے کافی بور ہوچکی تھی۔ رات 2 مرتبہ لوکاٹی سے چوت مروانے کے بعد صبح بھی لوکاٹی نے بیدار ہوتے ہی اپنا تنا ہوا لن ایک بار پھر سے انجلی کی چوت میں ڈال کر اسے خوب چودا تھا۔ اور اسکے ساتھ ساتھ انجلی نے لوکاٹی سے کچھ مزیر کام کی باتیں اگلوا لی تھیں۔ اب وہ کسی طرح لوکاٹی سے جان چھڑوانا چاہ رہی تھی۔ مگر لوکاٹی تو انجلی کو اپنے ساتھ پاکیشا لیجانے کی سوچ رہا تھا، اس نے انڈیا میں موجود اپنے کچھ مخصوص دوستوں کو کہلوا دیا تھا کہ وہ انجلی کے لیے جعلی پاسپورٹ تیار کر دیں تاکہ آج رات پاکیشا جاتے ہوئے وہ حسن کی اس دیوی کو اپنے ساتھ پاکیشا لے جاسکے۔ رات جب انجلی عمران کو اپنے اپارٹمنٹ سے نکالنے کے بعد دوبارہ لوکاٹی کے ساتھ بیڈ پر لیٹی تو تب انجلی نے لوکاٹی کو بتایا تھا کہ وہ اسکے ساتھ پاکیشا نہیں جا سکتی کیونکہ اسکا پاسپورٹ نہیں بنا ہوا اور نہ ہی یہاں اسکے پاس راشن کارڈ یا آئی ڈی کارڈ ہے جس سے اسکی شناخت ہوسکے۔ مگر لوکاٹی کو ان چیزوں کی فکر نہیں تھی، انڈیا اور پاکیشا میں اسکے ایسے واقف لوگ تھے جو محض چند گھنٹوں میں جعلی پاسپورٹ بنا سکتے تھے اور لوکاٹی صبح ہوتے ہی انڈیا میں موجود اپنے ایجنٹ کو پاسپورٹ بنوانے کا کہ دیا تھا اور انجلی کو بھی اس بارے میں علم تھا مگر وہ لوکاٹی کے ساتھ سے اب تنگ آچکی تھی ۔۔۔
گوکہ لوکاٹی نے انجلی کی چوت کے ساتھ خوب مزے کیے تھے اور کہیں نہ کہیں انجلی نے بھی اس چودائی کا مزہ لیا تھا مگر چودائی کے علاوہ لوکاٹی میں اور کوئی خاص بات نہ تھی وہ ایک بوڑھا اور خشک طبیعت رکھ رکھاو والا آدمی تھا جبکہ انجلی شوخ و چنچل ایک نوجوان حسینہ تھی جو اپنے کسی ہم عمر یا پھر زندہ دل مرد کے ساتھ وقت بتانا چاہتی تھی۔ مگر اسے جو مرد پسند آرہا تھا اسکے ساتھ اس وقت انجلی کی بجائے ٹینا موجود تھی۔ انجلی بے چینی سے عمران اور ٹینا کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ عمران نے اسے بیچ پر آنے کا کہا تھا۔ انجلی کا یہ انتظار جلد ہی ختم ہوگیا جب اسے دور سے عمران اور ٹینا آتے دکھائی دیے۔ عمران نے محض ایک نیکر پہن رکھی تھی جو بمشکل اسکے گھٹنوں تک تھی جبکہ اوپر سے شرٹ نام کی کوئی چیز عمران کے جسم پر موجود نہیں تھی اور اسکا ورزشی جسم بیچ پر موجود تمام نوجوان لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ ٹینا بھی باقی لڑکیوں کی طرح ایک چھوٹی نیکر پہنے عمران کے ساتھ ساتھ تھی جبکہ برا کے اوپر سے ٹینا نے ایک ہلکی سی نیٹ کی شرٹ پہن رکھی تھی جس کے پار ٹینا کا سرخ رنگ کا برا نظر آرہا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد ٹینا اور عمران انجلی کے پاس پہنچ چکے تھے، لوکاٹی بھی ٹِنا کو دیکھ کر خوش ہوا اور اسے دکھانے کے لیے اب کی بار اس نے انجلی کو اپنے اور بھی قریب کر لیا تھا وہ دکھانا چاہتا تحا کہ اس نے اس بڑھاپے میں بھی ٹینا کی دوست کو کیسے رام کر لیا اور وہ اسکی گرل فرینڈ بن کر اسکے ساتھ بیچ کی سیر کر رہی تھی۔ عمران کی نظر انجلی کے اداس چہرے پر پڑی تو وہ بھی سمجھ گیا کے بیچاری بڈھے کے ساتھ رات گزار کر کافی تنگ ہے ، عمران نے آگے بڑھ کر انجلی اور لوکاٹی سے ہاتھ ملایا جبکہ ٹینا اور انجلی گلے ملی اور عربی انداز میں ایک دوسرے کے گال بھی چومے۔۔ جبکہ ٹینا نے لوکاٹی کے ساتھ ہاتھ ملایا، لوکاٹی کی نظریں ٹینا کی باریک شرٹ سے اسکے سرخ رنگ کے برا پر تھیں ، اس نے نیچے سے اوپر تک ٹینا کے خوبصورت مرمری جسم کا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ٹینا اور انجلی دونوں ہی اسکے نیچے آجائیں اور وہ دونوں کی جی بھر کر چودائی کر دے۔ کچھ دیر چاروں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، اس دوران لوکاٹی نے ٹینا کو بتایا کہ تمہاری دوست کو پاکیشا جانے کا بہت شوق ہے آج رات کی فلائٹ سے یہ میرے ساتھ پاکیشا جا رہی ہے۔ یہ سن کر عمران نے قدرے حیرت کے ساتھ انجلی کو دیکھا کہ یہ کیا نئی فلم ہے مگر انجلی نے کسی بھی قسم کا کوئی ری ایکشن نہیں دیا۔ اسی دوران ٹینا نے انجلی کو بتایا کہ ہم ابھی واٹر سکوٹر پر سمندر کی سیر کر کے آئے ہیں بہت مزہ آیا۔۔ واٹر سکوٹر کا نام سنتے ہی انجلی کی آنکھیں کھل گئیں اسکو بھی بہت شوق تھا واٹر سکوٹر کا اور وہ اس میں کافی ماہر بھی تھی۔
اسکے ذہن میں فورا ہی لوکاٹی سے جان چھڑوانے کا آئیڈیا آگیا، اسنے فورا لوکاٹی کو کہا چلو ڈارلنگ ہم بھی واٹر سکوٹر کے مزے لیں۔۔۔ مگر لوکاٹی کی عمر اس کی اجازت نہیں دیتی تھی کو وہ سکوٹر چلا سکے اور پانی میں جانے کا رسک لے سکے، اس نے فورا ہی انجلی کو کہا نہیں نہیں خطرناک ہے، میں یہ کام نہیں کر سکتا، انجلی نے ایک بار پھر اسے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا پلیز چلو نا مجھے بہت شوق ہے۔۔۔ مگر لوکاٹی بھلا ایسا رسک کیسے لے سکتا تھا اس عمر میں اس نے سختی سے انجلی کو منع کیا تو انجلی نے کہا ٹھیک ہے میں پھر عمران کے ساتھ چلی جاتی ہوں۔ عمران نے بھی فورا حامی بھر لی وہ تو پہلے ہی انجلی کا سیکسی بدن دیکھ کر اسکے قریب ہونا چاہ رہا تھا اور کل رات تو اس نے انجلی کے بڑے بڑے ممے بھی دیکھ لیے تھے جب وہ اپنی چوت میں لوکاٹی کا لن لیے اچھل اچھل کر اپنی چودائی کروا رہی تھی۔ انجلی فورا عمران کی طرف بڑھی اور اسکا بازو پکڑ کو اسی جانب چل پڑی جس جانب سے عمران اور ٹینا آئے تھے، عمران بھی فورا انجلی کو ساتھ لیے دوسری جانب چل پڑا۔ ٹینا کو اگرچہ یہ بات بری لگی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ عمران کسی اور لڑکی کے ساتھ جائے خاص طور پر جب لڑکی بھی ٹینا کی طرح سیکسی اور جوان ہو۔ مگر وہ کچھ نہ بولی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اسے تنگ نظر ہونے کا طعنہ دے۔
ٹینا سے کچھ دور جاتے ہی میجر دانش نے تانیہ کو مخاطب کیا اور بولا کوئی اور خاص بات پتہ لگی؟ تو تانیہ نے اسے بتایا کہ ہاں، بہت جلد ہولستان میں کوئی بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہونے والا ہے جس میں اس لوکاٹی کا ہاتھ ہوگا اور یہ کسی پاکیشا کی کسی تاریخی عمارت کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں مگر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کونسی عمارت ہو سکتی ہے۔ اسکے بعد پاکیشا مخالف تحریک زور پکڑ جائے گی، اور انہی دنوں میں بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ دیپیکا پڈوکون پاکیشا جائے گی اور وہاں اسکی ایک فلم ریلیز کی جائے گی۔ یہ فلم خاص طور پر ہولستان کے سینما گھروں میں ریلیز ہوگی اور اس میں بھی یہی دکھایا جائے گا کہ ہولستان میں لوگوں کو پاکیشا کی حکومت کی جانب سے حقوق نہیں دیے جا رہے، یہ فلم ہولستان کے سیدھے سادھے لوگوں کے دلوں میں پاکیشا کے لیے مزید نفرت پیدا کرے گی اور پھر کوئی مناسب موقع دیکھ کر اس لوکاٹی نے پاکیشا سے علیحدگی کا اعلان کر دینا ہے۔ اور ہندوستانی افواج نے ہولستان میں اپنا کنٹرول سنبھالنا ہے۔ حالات کافی خراب ہیں۔
یہ سب باتیں سن کر ایک لمحے کے لیے میجر دانش کے ماتھے پر پسینے آئے، مگر اس نے بہت جلد خود پر کنٹرول کیا اور اپنے اعصاب کو بحال کرتے ہوئے بولا ہندوستانی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی، ہم اپنی جان پر کھیل کر اس سازش کو ناکام بنائیں گے۔ پھر میجر دانش نے پوچھا یہ پاکستان جانے والی بات جو لوکاٹی نے کی یہ صحیح ہے؟؟ ٹینا نے کہا کہ ہاں رات اس سے راز اگلوانے کے لیے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور پاکیشا دیکھنا چاہتی ہوں تو وہ بڈھا ٹھرکی پاگل ہوگیا ہے اور مجھے ساتھ لیجانے کے لیے اس نے تمام انتظام کر لیے ہیں۔ آج شام کی اسکی سپیشل فلائٹ ہے۔ مگر میں نہیں جاوں گی اسکے ساتھ میں نے یہیں سے غائب ہوجانا ہے۔ اس پر میجر دانش نے تانیہ کو کہا کہ نہیں تم جاو اسکے ساتھ۔ اسکو تم پر اعتماد ہے اور جو حالات بن رہے ہیں پل پل کی خبر مجھ تک پہنچنا ضروری ہے۔ اسکے لیے کسی با اعتماد ساتھی کا ہونا ضروری ہے جو لوکاٹی کے ساتھ رہے۔ ویسے بھی وہ تمہارے جسم کا دیوانہ ہوگیا ہے تو اسکا فائدہ اٹھاو، اسکے ساتھ پاکیشا جاو، میں بھی 2 دن تک پاکیشا آجاوں گا اور پھر اس لوکاٹی کا بندوبست کرتے ہیں مل کر۔ تانیہ نے عمران کی طرف دیکھا اور بولی چلو ٹھیک ہے تم کہتے ہو تو چلی جاتی ہوں، مگر امجد بھائی برا نہ مان جائیں کہ انسے پوچھے بغیر میں پاکیشا چلی گئی۔ میجر دانش نے کہا اسکی فکر تم نہ کرو، وہ سمجھدار انسان ہے بلکہ اسکو خوشی ہوگی کہ تم وطن عزیز کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہی ہو، وہ سمجھ جائے گا۔ تم بس آج شام لوکاٹی کے ساتھ پاکیشا جاو اور مجھے پل پل کی خبر دو۔
اس دوران میجر دانش اس جگہ پہنچ چکا تھا جہاں واٹر سکوٹر دستیاب تھے۔ دانش نے ایک سکوٹر ہائیر کیا اور لائف جیکٹ لیکر تانیہ کو دی مگر اس نے پہننے سے انکار کر دیا اور بولی اسکی ضرورت نہیں ہم ایسے ہی واٹر سکوٹر انجوائے کریں گے۔ دانش نے تانیہ کو ایک بار پھر لائف جیکٹ پہننے کا کہا مگر اس نے انکار کر دیا اور بولی میں یہ فرسٹ ٹائم نہیں کر رہی مجھے اسکا تجربہ ہے تم فکر نی کرو۔ یہ کہ کر وہ واٹر سکوٹر کے پاس چلی گئی، میجر دانش بھی واٹر سکوٹر کے پاس گیا اور اس پر بیٹھنے لگا تو تانیہ نے اسکو منع کر دیا اور بولی تم میرے پیچھے بیٹھے سکوٹر میں چلاوں گی۔ میجر دانش نے اسے حیرانی سے دیکھا اور بولا کیا تمہیں یقین ہے کہ تم یہ کر سکتی ہو؟ تانیہ نے اٹھلاتے ہوئے دانش کی طرف دیکھا اور بولی ابھی تم تانیہ کی صلاحیتوں سے واقف نہیں ۔ اس پر دانش نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں تمہاری صلاحیتیں تو میں رات اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں، یہ کہتے ہوئے دانش کی نظریں تانیہ کے مموں پر تھیں جو اسکے بدن پر موجود برا میں بہت خوبصورت کلیویج بنا رہے تھے۔ دانش کی نظروں سے تانیہ بھی سمجھ گئی تھی کہ دانش کیا بات کر رہا ہے مگر اس نے برا منانے کی بجائے دانش کو کہا دیکھ لو پھر تمہیں کتنی کام کی معلومات بھی تو دی ہیں نا اپنی صلاحیتوں کی بدولت۔
تانیہ اب واٹر سکوٹر پر بیٹھ چکی تھی جبکہ میجر دانش اسکے پیچھے بیٹھ کر اپنے ہاتھ اسکی ٹانگوں پر رکھ چکا تھا۔ تانیہ کی ٹانگوں پر ہاتھ رکھتے ہی میجر دانش کو ایک جھٹکا لگا تھا، تانیہ کی ٹانگیں روئی کے گالوں کی طرح نرم و ملائم تھیں ، اور انکی گرمی سے دانش کے ہاتھ جلنے لگے تھے۔ سکوٹر سٹارٹ تھا اور پانی وہاں پر اتنا تھا کہ تانیہ اسکو با آسانی ریس دیکر کچھ گہرے پانی میں لے گئی اور ایک جانب تیزی سے سکوٹر کی رفتار بڑھانے لگی۔ اس نے میجر دانش کا ایک ہاتھ اپنی ٹانگ سے اٹھا کر اپنے پیٹھ پر رکھ لیا تھا اور پیچھے منہ کر کے دانش کو بولی ک سنبھل کر بیٹھو کہیں گر ہی نا جانا۔ یہ کہ کر تانیہ نے سکوٹر کی رفتار میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ دانش نے بھی تانیہ کو کسر کر پکڑ لیا تھا اور اسکا بازو تانیہ کے مموں سے تھوڑا سا نیچے پیٹ اور سینے کے ملاپ پر تھا اور دانش پہلے کی نسبت تانیہ کے قریب ہوکر بیٹھ گیا تھا، اسکی نظروں کے سامنے تانیہ کی ننگی کمر تھی جس پر محض برا کی ڈوری تھی جسکو تانیہ نے کمر پر باندھ رکھا تھا جبکہ نیچے چوتڑوں تک جہاں تانیہ کی سیکسی کمر دانش کی نیکر میں ہلچل پیدا کر رہی تھی۔ تانیہ کسی ماہر ڈرائیور کی طرح واٹر سکوٹر چلا رہی تھی، دانش کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نے واٹر سکوٹر کی ٹریننگ لے رکھی ہے۔
میجر دانش اب تانیہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا تھا کیونکہ سکوٹر کی رفتار بہت زیادہ تھی اور وہ پانی پر اچھلتا ہوا جھٹکے کھاتا آگے کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ تانیہ بھی سکوٹر کو پانی پر اچھالنے کے لیے لہروں کا سہارا لے رہی تھی۔ تانیہ کا سکوٹر وہاں پر موجود دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ گہرے پانی میں تھا کیونکہ وہ اس کام میں ماہر تھی ۔۔۔ اور اسکی رفتار بھی باقی لوگوں سے زیادہ تھی۔ میجر دانش کافی دیر سے تانیہ کے پیٹ پر اپنا بازو رکھ کر بیٹھا تھا جسکی وجہ سے اسکی نیکر میں لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور اب اسکا لن تانیہ کی کمر کے ساتھ ٹچ کر رہا تھا، مگر وہ ابھی تک پورے جوبن پر نہیں تھا۔۔۔ مگر تانیہ اپنی کمر پر کسی سخت چیز کو محسوس کر رہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ یہ دانش کا لن ہے جو تانیہ کی ننگی کمر اور سیکسی بدن کی وجہ سے کھڑا ہورہا ہے۔ تانیہ نے اب ایک لمبا موڑ کاٹا اور واٹر سکوٹر کو واپسی کی طرف لےجانے لگی۔ یہ موڑ کافی رفتار سے کاٹا گیا تھا اور کافی خطرناک تھا، ایک لمحے کے لیے میجر دانش کو لگا کہ سکوٹر اپنا توازن کھو دے گا اور وہ پانی میں گر جائیں گے جسکی وجہ سے میجر دانش تانیہ کے اور بھی قریب ہوگیا اور اسکو کس کر پکڑ لیا تھا مگر تانیہ نے بہت مہارت کے ساتھ موڑ کاٹ لیا تھا اور وہ اب واپسی کی طرف جا رہی تھی۔ مگر میجر دانش کا لن اب فل جوبن پر آچکا تھا اور تانیہ کی کمر میں سوراخ کر کے اس میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میجر کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ خیال تھا کہ معلوم نہیں تانیہ کیا سوچے گی اسکے بارے میں اور وہ اپنے لن کو بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر ایسا ممکن نہیں تھا کہ ایک سیکسی لڑکی سے کوئی مرد اتنا جڑ کے بیٹھے اور اسکا لن سر نہ اٹھائے۔ اب تانیہ کی برداشت بھی جواد دے رہی تھی، دانش کی باڈی دیکھ کر اسکا بے اختیار دل کیا تھا اسکی بانہوں میں سمٹنے کو، اور اس سے پہلے جب ڈانس کلب میں تانیہ میجر دانش کی گود میں بیٹھی تھی اور اسکو اپنے چوتڑوں کے نیچے دانش کا طاقتور لن محسوس ہوا تھا تب سے اسکی خواہش تھی ایسے جاندار لن کی سواری کرنے کی، اور اب تو وہی لن کافی دیر سے اسکی پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔
تانیہ کے لیے اب مشکل ہورہا تھا اپنے اوپر کنٹرول کرنا، اور اسکی شرم بھی ختم ہو چکی تھی دانش سے کیونکہ وہ کل رات ہی تو عمران کی آنکھوں کے سامنے لوکاٹی کے لن کی سواری کر رہی تھی۔ بالآخر تانیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اسنے واٹر سکوٹر چلاتے چلاتے تھوڑا سا کھڑی ہوکر اپنے چوتڑ اوپر اٹھائے اور پیچھے ہوکر دوبارہ سے اس طرح بیٹھ گئی کہ میجر دانش کا لن اب تانیہ کی گانڈ کے نیچے تھا۔ دانش کے لیے تانیہ کی یہ حرکت حیران کن نہیں تھی کیونکہ وہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ تانیہ کا جسم مسلسل گرم ہورہا تھا اور وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی کمر کو پیچھے دھکیل کر اپنی طرف سے غیر محسوس طریقے کے ساتھ لن کے ساتھ رگڑتی تھی، مگر دانش اسکی بے تابی کو سمجھ رہا تھا اور اب جو تانیہ نے اپنی گانڈ اٹھا کر دانش کے لن پر رکھ دی تھی تو دانش نے بھی اپنا ایک ہاتھ تانیہ کی تھائی پر پھیرنا شروع کر دیا تھا اور اسکا ہاتھ جو پیٹ پر تھا وہ تھوڑا سا اوپر سرک گیا تھا اور تانیہ کے مموں کے نچلے حصے کو چھونے لگا تھا۔
تانی اب بھی بڑی مہارت کے ساتھ واٹر سکوٹر چلا رہی تھی اور اسکی کوشش تھی کو وہ دوسرے لوگوں سے دور رہ کر ہی چلارہی تھی اور اب وہ آہستہ آہستہ اپنی گانڈ کو دانش کے لن کے اوپر رگڑ رہی تھی جس سے دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ تانیہ کی چوت دانش کے لن کے لیے بے تاب ہے مگر تانیہ کو چودنے کے لیے موقع کیسے پیدا کیا جائے ، جبکہ ٹِنا بھی ساتھ ہے اسکی سمجھ دانش کو نہیں آرہی تھی۔ وہ خود بھی تانیہ کی چوت میں اپنا لن پھنسانے کے لیے بے تاب تھا اور اب تو تانیہ نے اپنی گانڈ خود سے دانش کے لن پر رکھ کر اسکو کھلی دعوت دے ڈالی تھی کہ مجھے چود دو۔۔۔۔ مگر کیسے؟؟؟ یہ دانش کو سمجھ نہیں آرہی تھی جبکہ اسکے پاس اب وقت بھی کم تھا کچھ ہی گھنٹے بعد اسے لوکاٹی کے ساتھ پاکیشا روانہ ہونا تھا۔ ایسے میں نا ممکن تھا کو اسے تانیہ کو چودنے کا کوئی موقع ملے۔ لہذا اسنے اسی کو غنیمت مانا کہ جب تک واٹر سکوٹر پر ہیں تانیہ کے مموں کا ہی مزہ لے لیا جائے۔ یہ سوچ کر دانش نے بلا جھجک اپنا ہاتھ جو پہلے تانیہ کے مموں کے نچلے حصے کو ہلکا سا چھو رہا تھا وہ اٹھا کر تانیہ کے ممے پر رکھ دیا اور اسے زور سے دبا دیا۔ میجر دانش کی اس حرکت سے تانیہ کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور ساتھ ہی اس نے اپنی گانڈ کو زور سے دانش کے لن سے اور بھی قریب کر دیا۔ اب دانش نے اپنا دوسرا ہاتھ جو تانیہ کی تھائز کو سہلا رہا تھا اٹھا کر اسکی چوت کے ساتھ لے آیا اور اسکی ٹانگ پر آہستہ آہستہ مساج کرنے لگا۔ تانیہ نے سکوٹر کی رفتار اب بہت دھیمی کر دی تھی کیونکہ اب اسکا سارا دھیان سیکس کی طرف تھا۔
تانیہ مسلسل اپنی گانڈ کو دانش کے لن پر مسل رہی تھی جبکہ دانش اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کے ممے کو زور زور سے دبا رہا تھا اور ساتھ ساتھ تانیہ کی گردن پر اپنے ہونٹوں سے پیار کر رہا تھا جس سے تانیہ کی بےتابی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اور اسکا جسم جلنے لگا تھا۔ اس پر ستم دانش کا ہاتھ جو تانیہ کی چوت کے بالکل ساتھ اسکی ٹانگ کے اندرونی حصے کا مساج کر رہا تھا اب آہستہ آہستہ سرکتا ہوا تانیہ کی چوت پر آچکا تھا۔ تانیہ کی سسکیوں میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا تھا اور اسکی چوت گیلی ہورہی تھی جبکہ دانش کا لن بھی تانیہ کی گانڈ پر اپنا پریشر بڑھا رہا تھا۔ واٹر سکوٹر جب پانی پر اچھلتا اور ہوا میں ہلکا سا بلند ہوتا تو بیلنس برقرار رکھنے کے لیے تانیہ سکوٹر سے تھوڑا سا اوپر اٹھتی اور واپس دانش کے لن اپنی گانڈ رکھ دیتی۔ دونوں اس صورتحال کو بہت زیادہ انجوائے کر رہے تھے۔ اب دوبارہ سے تانیہ نے واٹر سکوٹر کو موڑا اور اب کی بار دانش نے اپنے دونوں ہاتھ تانیہ کے 36 سائز کے گول اور کسے ہوئے مموں پر رکھ کر انکو زور سے پکڑ لیا جبکہ تانیہ نے بھی اپنی گانڈ دانش کے لن پر جما دی تھی۔ واٹر سکوٹر کا رخ دوسری جانب موڑںے کے بعد ایک بار پھر تانیہ نے میجر دانش کے لن پر واٹر سکوٹر کے ہچکولوں کے ساتھ ساتھ اچھلنا شروع کر دیا اور میجر دانش کا ایک ہاتھ دوبارہ سے تانیہ کی چوت کو سہلانے لگا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ مسلسل تانیہ کے مموں کو دبا کر مزے لے رہا تھا۔
کچھ دیر اسی طرح مزے لینے کے بعد اب تانیہ میجر دانش کے لن سے اٹھی اور آگے ہوکر بیٹھ گئی، آگے ہوکر تانیہ نے میجر دانش کو کہا کو وہ بھی تھوڑا آگے ہوجائے، اس دوران تانیہ نے واٹر سکوٹر کی رفتار بہت دھیمی کر دی تھی۔ جب میجر دانش ایک بار پھر اپنے لن کو تانیہ کی کمر سے لگا کر بیٹھ گیا اور اپنا ہاتھ تانیہ کی چوت پر رکھ دیا تو تانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے ہٹا دیا اور بولی کہ اب تم پیچھے بیٹھ کر واٹر سکوٹر کا ہینڈل کنٹرول کرو۔ دانش نے کہا اب کیا ہوگیا؟ چلاو اب تمہی۔ مگر تانیہ نے اصرار کیا کہ اب میجر دانش ہینڈل کنٹرول کرے تو میجر دانش نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ہاتھ تانیہ کے مموں سے ہٹایا اور دونوں ہاتھوں سے واٹر سکوٹر کا ہینڈل پکڑ لیا، پھر تانیہ جو واٹر سکوٹر پر دانش کے آگے بیٹھی تھی اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی۔ کھڑی ہوکر تانیہ نے اپنے دونوں ہاتھ کھول کر فضا میں لہرائے ، اسکے بال اب ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہ منہ اوپر کر کے ٹھنڈی ہوا کا مزہ لے رہی تھی۔ مگر دانش کا چہرہ اب تانیہ کی گانڈ کے بالکل سامنے تھا جس پر تانیہ نے ایک چھوٹا سا رومال باندھ رکھا تھا۔ میجر دانش تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنا چہرہ سائیڈ پر کر کے سامنے دیکھتا کہ کوئی اور سکوٹر تو نہیں آرہا اور پھر دوبارہ سے اپنا چہرہ تانیہ کی گانڈ کے عین وسط میں لے آتا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ تانیہ کی گانڈ سے چھیڑ چھاڑ کی جائے کہ تانیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا رومال کھول دیا اور وہ بھی ایک ہاتھ میں پکڑ کر ہوا میں لہرانے لگی۔ رومال کھولا تو تانیہ کے گورے گورے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ میجر دانش کو دعوتِ نظارہ دینے لگے۔ تانیہ کے چوتڑوں کی لائین کافی گہری معلوم ہورہی تھی کیونکہ اسکی جسامت کے حساب سے اسکے چوتڑوں کا سائز خاصا بڑا تھا جس سے اسکی گانڈ باہر نکلی ہوئی تھی۔ مگر دانش تانیہ کے چوتڑوں کی لائن کے اندر نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ تانیہ نے پینٹی بھی پہن رکھی تھی جو تانیہ کی گانڈ کی لائن کے ساتھ ساتھ اسکے چوتڑوں کے کچھ حصے کو بھی چھپا رہی تھی۔
تانیہ جو اپنے دونوں بازو ہوا میں پھیلائے ٹھنڈی ہواوں کا مزہ لے رہی تھی اچانک اسکو اپنے چوتڑوں پر کچھ گیلا گیلا محسوس ہوا۔ یہ میجر دانش کی زبان تھی جو اب تانیہ کے بھرے ہوئے چوتڑوں کو چوس رہی تھی تانیہ نے بھی اسے منع نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے ہی گرم ہو رہی تھی اور یہاں کوئی خاص دیکھنے والا شخص بھی موجود نہیں تھا، اگر کوئی ہوتا بھی تو ایسی پریشانی والی بات نہیں تھی کیونکہ یہاں پر جتنے بھی جوڑے آتے ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ انکی اکثریت کا مقصد ساحل سمندر کو انجوائے کرنے کے بجائے چدائی کا ہی ہوتا ہے۔ تانیہ نے اب اپنے چوتڑ تھوڑا سا جھک کر پیچھے کی جانب نکال دیے تھے تاکہ میجر دانش انکو اچھی طرح چاٹ سکے، میجر دانش بھی کچھ لمحے چہرہ سائیڈ پر ہٹا کر سامنے کا جائزہ لینے کے بعد اب دوبارہ سے تانیہ کے بھرے ہوئے چوتڑوں کو اپنی زبان سے چاٹ رہا تھا، اسکی کوشش تھی کے تانیہ کے چوتڑوں کا گوشت منہ میں لیکر اسکو کھا جائے، اسی کوشش میں دانش کے دانتوں کے نشان تانیہ کے چوتڑوں پر پڑتے جا رہے تھے۔ اور تانیہ کی چوت اب ایسے گیلی تھی جیسے کچھ ہی دیر میں وہ اپنا پانی چھوڑنے والی ہو۔
اب تانیہ نے ایک دم سے دانش کا سر پکڑ کر پیچھے کیا اور دوبارہ سے بیٹھ گئی، وہ اپنا رومال جو اس نے پینٹی کے اوپر سے باندھ رکھا تھا سمندر کے پانی میں پھینک چکی تھی۔ مگر اب کی بار تانیہ کے بیٹھنے کا انداز کچھ نرالا تھا۔ وہ اپنے گھٹنے سکوٹر پر رکھ کر اس طرح بیٹھ گئی کے اسکی ٹانگیں پیچھے کی طرف فولڈ ہوگئیں اور اس نے سکوٹر کا ہینڈل بھی خود سنبھال لیا، وہ اب ڈوگی سٹائل میں سکوٹر پر بیٹھی تھی اور اسکی گانڈ اب میجر دانش کے بالکل سامنے تھی جسکو وہ دل کھول کر چاٹ سکتا تھا۔ جیسے ہی تانیہ نے سکوٹر کا کنٹرول سنبھالا اور ڈاگی سٹئل مِں سکوٹر پر بیٹھی، میجر دانش نے اپنے ہاتھوں سے تانیہ کے چوتڑوں کو پکڑ کر زور سے دبا دیا اور ان پر زور سے کاٹ لیا۔ جس سے تانیہ کی ایک سسکی نکلی۔ پھر میجر دانش نے تانیہ کی پینٹی کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں نیچے کر دیا۔ تانیہ کی گانڈ اب میجر دانش کے سامنے تھی،اسکی گانڈ کا سوراخ تانیہ کے چوتڑوں کی لائن میں چھپا ہوا تھا گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ آپس میں ملے ہوئے تھے جسکی وجہ سے اسکی گانڈ کا سوراخ نظر نہیں آرہا تھا، مگر میجر دانش نے اسکے چوتڑوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھول دیا اور اپنے ہاتھ کی 2 انگلیوں کو گانڈ کی لائن میں پھیرنے لگا۔ اس دوران اسکی انگلی تانیہ کی گانڈ کے سوراخ کو چھوگئی جس سے تانیہ کی سسکیاں نکلنے لگیں، اور میجر دانش نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا منہ تانیہ کی گانڈ پر اس طرح رکھا کے اسکا ناک اور زبان گانڈ کی لائن میں گم ہوچکے تھے۔ میجر دانش کی زبان اب تانیہ کی گانڈ کے سوراخ میں تھی اور وہ واٹر سکوٹر اس ایریا سے بہت دور لا چکی تھی جہاں پر باقی کے لوگ سکوٹر چلا رہے تھے۔ میجر دانش تانیہ کو چوتڑوں سے پکڑ کر مسلسل اسکی گانڈ چاٹ رہا تھا۔ تانیہ کی گانڈ کا ذائقہ میجر دانش کو بہت بھلا لگ رہا تھا وہ زیادہ سے زیادہ کوشش کر رہا تھا کہ اپنی زبان تانیہ کی گانڈ کے سوراخ میں پھنسا سکے۔ مگر اسکی گانڈ کا سوراخ بہت تنگ تھا، دانش سمجھ گیا تھا کہ تانیہ کی گانڈ ابھی تک کنواری ہے کسی نے اس میں لن ڈالنے کی جرات نہیں کی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسکو تانیہ کی گانڈ چاٹنے میں بہت مزہ آرہا تھا۔ جیسے جیسے دانش کی زبان تانیہ کی گانڈ کا مساج کر رہی تھی تانیہ کی مستی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب تانیہ کے جسم میں سوئیاں چھبنے لگی تھیں اور اسے محسوس ہورہا تھا کہ اسکی چوت میں آگ ہی آگ ہے۔ کچھ دیر مزید اسی طرح واٹر سکوٹر پر ڈوگی بن کر گانڈ چٹوانے کے بعد تانیہ کے جسم میں جھٹکے لگے اور اسکی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا جس سے واٹر سکوٹر کی وہ جگہ جہاں تانیہ پہلےبیٹھی تھی گیلی ہوگئی تھی۔
تانیہ کچھ دیر اسی حالت میں اپنی چوت سے پانی نکلنے کا انتظار کرتی رہی، جب اسکی چوت نے سارا پانی نکال دیا تو اس نے گہرا سانس لیا اور دانش نے بھی اسکی گانڈ سے منہ ہٹا کر اسکی پینٹی دوبارہ اوپر کر دی ۔ تانیہ بھی دوبارہ سے واٹر سکوٹر پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی اور سکوٹر کا رخ دوبارہ سے واپسی کی طرف موڑ دیا۔ مگر اب کی بار وہ دانش کے لن پر بیٹھنا نہیں بھولی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس نے تو اپنی گرمی ختم کر لی مگر دانش کے لن میں ابھی گرمی موجود ہے جو اس نے نکالنی ہے۔ دانش کے لن پر بیٹھ کر تانیہ نے پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے اسکے لن پر اپنی گانڈ کو مسلنا شروع کر دیا تھا اور واٹر سکوٹر کی رفتار بھی دھیمی رکھی تھی تاکہ واپس پہنچنے سے پہلے پہلے وہ دانش کے لن کا پانی نکلوا سکے۔ دانش کو بھی مزہ آرہا تھا اس نے تانیہ کو کمر سے پکڑ رکھا تھا اور خود بھی کوشش کر رہا تھا کہ اپنا لن اسکی گانڈ پر زیادہ تیزی سے مسل سکے، مگر اتنی جلدی اسکے لن سے پانی نکلنا ممکن نہیں تھا۔ ابھی کل رات ہی تو اس نے ٹینا کی جی بھر کر چودائی کی تھی تو کیسے ممکن تھا کہ اتنی جلدی اسکا لن پانی چھوڑ جائے۔ تانیہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود دانش کے لن سے پانی نہیں نکلا۔۔۔ منزل کے قریب پہنچنے سے پہلے تانیہ نے مڑ کر دانش کو دیکھا اور بولی تم ہوںے نہیں فارغ ابھی تک؟؟؟ میجر دانش نے مسکرا کر تانیہ سے کہا یہ اتنی جلدی نہیں نکلے گا۔ بس تم اب واٹر سکوٹر کو چھوڑو، ٹینا انتظار کر رہی ہوگی، اسے شک نہ ہوجائے اب واپس چلتے ہیں۔ تم آج لوکاٹی کے ساتھ پاکیشا جاو، میں بھی کچھ دنوں تک پاکیشا واپس آنے کا بندوبست کرلوں گا، تب وہاں میرا پانی نکلوانا تم پر ادھار رہے گا۔
دانش کی بات سن کر تانیہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا یہ بہتر ہے۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔ دانش بولا مگر کیا؟ تانیہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا تب تک لوکاٹی پتا نہیں میرے ساتھ کیا کرے گا؟؟؟ دانش نے ایک زور دار قہقہ مارا اور بولا وہی کرے گا جو اس وقت میں کرنا چاہ رہا ہوں اور اس نے کیا کرنا ہے تمہارے ساتھ؟؟ تانیہ نے گھبراتے ہوئے کہا نہیں میرا مطلب ہے اگر اسے پتا لگ گیا میرے بارے میں کہ میں تمہارے لیے کام کر رہی ہوں تو؟؟ دانش نے پر اعتماد لہجے میں کہا مجحھے تمہاری ذہانت پر پورا یقین ہو تم ایسا کوئی کام نہیں کروگی جس سے اسے تم پر شک ہو۔ اتنی دیر میں تانیہ اور دانش واپس اس پوائنٹ پر پہنچ چکے تھے جہاں سے انہوں نے واٹر سکوٹر لیا تھا۔ کچھ ہی دور ٹینا اور لوکاٹی بھی موجود تھے جو نجانے کس بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ دانش نے تانیہ کو سکوٹر سے اترنے میں مدد دی اور دونوں ٹینا کی طرف جانے لگے۔ ٹینا کی نظر تانیہ پر پڑی تو ایک لمحے کے لیے وہ سٹپٹا گئی، اسکی نظریں ٹینا کے نچلے حصے یعنی اسکی چوت کی طرف تھیں جہاں اسے صرف ایک پینٹی نظر آرہی تھی جبکہ جاتے ہوئے پینٹی کے اوپر سے اس نے ایک رومال بھی باندھ رکھا تھا۔ ٹینا سارا ماجرا سمجھ گئی تھی اور دل ہی دل میں تانیہ کو برا بھلا کہ رہی تھی۔ مگر مرتی کیا نہ کرتی اسکو اس چیز کا اظہار کیے بغیر خوش دلی سے تانیہ کو اور دانش کو ویلکم کہنا پڑا۔ لوکاٹی نے تانیہ کو پینٹی میں دیکھا تو اس نے آگے بڑھ کر تانیہ کو گلے لگایا اور اسکے چوتڑ پکڑ کر دباتے ہوئے بولا ڈارلنگ تم تو بہت سیکسی ہو مجھے ڈر ہے یہیں پر تم میرے لن کا پانی نکال دو گی۔ یہ بات لوکاٹی نے آہستہ سے کی تھی۔ تانیہ نے بھی آہستہ سے جواب دیا فکر نہیں کرو، پاکستان پہنچتے ہی تمہارے لن کی سواری کر کے تمہارا پانی نکلواں گی۔
لوکاٹی تانیہ کی یہ بات سن کر خوش ہوگیا اور بولاا چلو پھر ہم چلتے ہیں اب چلنے کی تیاری بھی کرنی ہے۔ تانیہ نے پوچھا کب تک نکلنا ہے ادھر سے تو لوکاٹی نے کہا بس 4 بجے تک یہاں سے ہیلی کاپٹر پر نکلیں گے جو ہمیں ائیر پورٹ پہنچا دے گا اور وہاں سے پھر ہماری فلائٹ ہوگی 5 بجے۔ تانیہ نے کہا ابھی تو بہت وقت ہے، تم ایسا کرو واپس جا کر اپنی تیاری کو میں کچھ وقت ٹینا کے ساتھ گزار لوں، مجھے تیاری کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ لوکاٹی نے کہا چلو جیسے تمہاری مرضی۔ لیکن کوشش کرنا جلد ہوٹل پہنچنے کی تاکہ ہم وقت پر وہاں سے نکل سکیں۔ تانیہ نے کہا تم فکر نہی کرو ڈارلنگ میں پہنچ جاوں گی۔
لوکاٹی کے وہاں سے جانے کے بعد اب دانش کے ایک طرف ٹینا تھی تو دوسری جانب اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور سیکسی جسم کے ساتھ تانیہ تھی اور عمران یعنی کے دانش اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا تھا۔ کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد عمران نے انجلی اور ٹینا سے والی بال کھیلنے کی فرمائش کی تو دونوں فوری طور پر راضی ہوگئیں، سامنے ہی کچھ لڑکے اور لڑکیاں والی بال کھیل رہے تھے، یہ تینوں بھی انکے پاس گئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا، انجلی کو دیکھتے ہی وہاں موجود لڑکوں نے فوری حامی بھر لی اور دوبارہ سے ایک ٹیم بنا لی۔ اب دانش کے ساتھ ٹینا کے علاوہ مزید 2 لڑکیاں تھیں جو پہلے والے گروپ کے ساتھ تھیں اور 2 ہی لڑکے تھے۔ تو ٹوٹل 6 لوگوں کی ٹیم بن گئی تھی۔ اسی طرح دوسری جانب انجلی کے ساتھ 2 مزید اسکی کی طرح گرم گرم سیکسی لڑکیاں موجود تھیں اور 3 لڑکے تھے جنکا دھیان اب کھیل سے زیادہ تانیہ کے خوبصورت جسم کی طرف تھا۔ مگر اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ 20 ، 24 منٹس تک والی بال کا یہ کھیل جاری رہا اسکے بعد انجلی نے عمران سے کہا کہ وہ تھک چکی ہے۔ تو عمران نے کہا چلو پھر بس کرتے ہیں، ٹینا بھی تھک گئی تھی اس نے بھی کھیل ختم کرنے میں ہی عافیت جانی۔ باقی ساتھیوں سے اجازت لیکر عمران ٹینا اور انجلی کھیل سے علیحدہ ہوگئے اور پہلے والا گروپ دوبارہ سے کھیل میں مصروف ہوگیا۔
ٹینا نے عمران سے کہا چلو ہٹ واپس چلتے ہیں میں بہت تھک گئی ہوں تھوڑا ریسٹ کرنا ہے۔ عمران نے کہا چلو چلتے ہیں پھر واپس۔ انجلی بھی انکے ساتھ ساتھ چلنے لگی، گو کہ ٹینا کو انجلی کا عمران کے ساتھ فری ہونا برا لگ رہا تھا مگر پھر بھی وہ انجلی کے ساتھ نارمل انداز میں گفتگو کر رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد تینوں اپنے ہٹ میں پہنچ چکے تھے، کمرے میں داخل ہوتے ہی عمران سامنے پڑے صوفے پر ڈھے گیا جبکہ ٹینا بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور اپنا وزن عمران پر ڈال دیا جبکہ انجلی دوسرے صوفے پر آرام سے بیٹھ گئی۔ ٹینا کچھ زیادہ ہی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ تینوں کے جسم پر ریت بھی تھی، ٹینا نے سوچا کیوں نہ ٹھنڈے پانی سے نہا لیا جائے، جسم بھی صاف ہوجائے گا اور تھکاوٹ بھی دور ہوگی۔ یہ سوچ کر ٹینا اپنی جگہ سے اٹھی اور کمرے میں موجود اٹیچ باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی اور عمران کو کہ گئی جانو میں بس ابھی فریش ہوکر آتی ہوں۔
واش روم میں جاتے ہوئے ٹینا کے دل میں خیال آیا کے پیچھے کہیں انجلی دوبارہ سے عمران کے گلے نا پڑجائے ، اس وقت اسکی حالت بھی ایسی ہی تھی کہ اسے دیکھ کر عمران کا دل بھی خراب ہو سکتا تھا، مگر اس وقت ٹینا کو اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی اور اس نے دل میں سوچا کہ بس کچھ ہی دیر لگائے گی واش روم میں تاکہ انجلی کو زیادہ وقت نہ مل سکے عمران کے ساتھ بیٹھنے کا۔ ٹینا نے واش روم میں جا کر واش روم کا دروازہ بند کیا اور سب سے پہلے اپنا برا اتارا۔ پھر اس نے اپنی چھوٹی نیکر کا بٹن اور زپ کھول کر وہ بھی اتار دی اور اسکے بعد اپنی چھوٹی سی پینٹی اتار کر مکمل ننگی ہوکر شاور کھول دیا اور شاور کے نیچے کھڑی ہوگئی۔ جیسے ہی ٹھنڈا پانی ٹینا کے جسم پر پڑا اسکو راحت مل گئی، ٹینا نے منہ اوپر کیا اور اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر چہرے کو ہولے ہولے مسلنے لگی۔ ٹینا کے لمبے بال اسکی کمر تک جا رہے تھے اور پانی بالوں سے نکل کر اسکی کمر سے ہوتا ہوا چوتڑوں کو گیلا کر رہا تھا۔ ٹینا کو ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ واش روم کا دروازہ ے پر دستک ہوئی۔ ٹینا نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور بولی کون؟؟
واش روم کے دروازے کے دوسری طرف سےانجلی کی آواز آئی ٹینا اِف یو ڈانٹ مائنڈ مے آئی کم ان پلیز؟ دراصل مجھے دیر ہورہی ہے لوکاٹی صاحب میرا ویٹ کر رہے ہوںگے میں بھی شاور لیکر واپس ہوٹل جاونگی۔۔۔۔ انجلی کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی ٹینا نے دروازہ کھول دیا کیونکہ وہ تو چاہتی تھی کہ انجلی یہاں سے جائے تو اسکو عمران کے ساتھ حسین لمحات گزارنے کا موقع ملے۔ مگر وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ انجلی کے ذہن میں اس وقت کچھ اور ہی چل رہا ہے۔ ٹینا نے دروازہ کھولا تو انجلی فورا ہی اندر چلی گئی اور پیچھے عمران کمرے میں اکیلا بیٹھا آہیں بھرنے لگا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کو وہ بھی فورا اٹھے اور واش روم میں جا کر دونوں سیکسی لڑکیوں کے ساتھ شاور لے۔ مگر۔۔۔۔۔۔ اس میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
انجلی نے واش روم میں جاتے ہی اپنا برا اور پینٹی اتار کر ایک سائیڈ پر پھینکے اور ٹینا نے سائیڈ پر ہوکر انجلی کو شاور کے نیچے کھڑا ہونے کی جگہ دی۔ خود وہ سائیڈ پر ہوگئی تاکہ انجلی شاور لے کر یہاں سے جلدی جا سکے۔ انجلی بھی ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑی ہوئی تو اسکو سکون مل گیا مگر اسکی چوت ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ انجلی نے کچھ دیر شاور کے نیچے کھڑی ہوکر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا اور پھر اپنی آنکھیں کھول کر ٹینا کو گھورنے لگی۔ انجلی نے ٹینا کو اسکے سر سے پاوں تک غور سے دیکھا اور پھر اسکو ایک سمائل دی۔ ٹینا نے حیران ہوکر انجلی سے پوچھا کیا ہوا؟ تم ایسے کیوں گھور رہی ہو؟ انجلی بولی تمہارا خوبصورت جسم دیکھ رہی ہوں، بہت خوبصورت ہو تم۔ ٹینا اپنی تعریف سن کر تھوڑی سی شرمائی اور انجلی کو دیکھتے ہوئے بولی تم بھی کچھ کم نہیں۔ انجلی نے ٹینا کو کہا تمہارے بوبز بہت خوبصورت ہیں۔ یہ کہ کر انجلی تھوڑا سا آگے بڑھی اور ٹینا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ اب ٹینا تھوڑا سا گھبرائی اور بولی یہ کیا کر رہی ہو؟؟ انجلی نے کہا فکر نہیں کرو کچھ نہیں کر رہی۔ تم سائیڈ پر جو کھڑی ہو تم بھی نہا لو۔ بلکہ تمہاری کمر پر میں صابن لگا دیتی ہوں، میری کمر پر تم لگا دینا تاکہ سمندری ریت اچھی طرح صاف ہو سکے۔
ٹینا نا چاہتے ہوئے بھی شاور کے نیچے آگئی جہاں اب انجلی اور ٹینا کے جسم آپس میں مل رہے تھے اور دونوں کو ایک دوسرے کے جسم سے گرمی نکلتی محسوس ہوری تھی۔ انجلی گھوم کر ٹینا کے پیچھے آگئی اور ہولے ہولے اپنے ہاتھ ٹینا کی کمر پر پھیرنے لگی۔ اسکا ہاتھ پھیرنے کا انداز ایسا تھا جیسا کوئی لڑکا لڑکی کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے نرمی سے اسکی کمر سہلاتا ہے۔ پھر انجلی نے پاس پڑا صاب اٹھایا اور ٹینا کی گردن سے لیکر اسکی کمرے کے نچلے حصے تک صاب کو آہستہ آہستہ پھیرا۔ پھر صابن سائیڈ پر رکھ کر انجلی اپنے ہاتھوں سے ٹینا کی کمر کا مساج کرنے لگی۔ ٹینا اسی کشمکش میں تھی کہ انجلی کو یہ سب کرنے سے منع کرے یا نہ، مگر وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ اور انجلی مسلسل ٹینا کی کمر پر مساج کیے جارہی تھی۔ اسکا مساج کرنے کا انداز ایسا تھا کہ ٹینا کو مزہ بھی آرہا تھا اور اسکی گرمی بھی بڑھ رہی تھی۔ انجلی نے ٹینا کی کمر کے اوپر حصے پر جہاں کندھوں کی ہڈی نکلی ہوتی ہے ، وہاں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے آہستہ آہستہ اوپر نیچے مساج کیا، اسکے بعد وہ نیچے ہوتی گئی اور ٹینا کی بل کھاتی کمریا کے بیچ میں آکر وہاں اپنے ہاتھ پھیرنے لگی۔ پھر وہاں سے مزید نیچے آئی اور ٹینا کے 34 انچ کے بڑے بڑے چوتڑوں پر بھی اپنے ہاتھ پھیرے۔ اس سے پہلے کہ ٹینا انجلی کو ایسا کرنے سے منع کرتی وہ خود ہی واپس اوپر کی طرف آگئی۔ اور دوبارہ سے کمر پر مساج کرنے لگی۔ پھر انجلی نے دوبارہ سے صابن اٹھایا اور ٹینا کے سامنے جا کر اسکے بدن پر صابن پھیرنے لگی۔ گلے سے کچھ نیچے سینے پر صابن رکھ کر انجلی نے اپنا ہاتھ گھمانا شروع کیا اور اور نیچے لاتے ہوئے ٹینا کے 36 انچ کے سڈول اور کسے ہوئے مموں پر صابن پھیرنے لگی۔ اس دوران انجلی نے مسکراتے ہوئے ٹینا کی طرف دیکھا اور بولی رات عمران تو تمہارے ان مموں پر مر مٹا ہوگا؟؟؟
انجلی کی بات سن کر ٹینا تھوڑا نروس ہوگئی، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے مگر اس نے ہنسنے کی کوشش کی اور بولی ہاں عمران تو مر مٹا تھا مجھ پر۔ اس دوران انجلی کا ہاتھ ٹینا کے مموں سے نیچے آکر اسکے پیٹ پر صابن مسلنے میں مصروف تھا ۔ پیٹ پر صابن لگانے کے بعد انجلی نے صابن دوبارہ سے سائیڈ پر رکھ دیا اور ٹینا کے جسم پر دوبارہ سے ہاتھ پھیر کر مساج کرنے لگی۔ مگر اب کی بار انجلی کمر کی بجائے ٹینا کے سینے پر اپنے ہاتھ پھیر رہی تھی اور اسکے ہاتھ ٹینا کے مموں پر گول گول گھوم رہے تھے، ٹینا کو اب اس کھیل میں مزہ آنے لگا تھا، اب وہ انجلی کو روکنے کا سوچ بھی نہیں رہی تھی اور چاہ رہی تھی کہ جیسے چل رہا ہے چلتا رہے یہ کام۔ انجلی اب ہولے ہولے ٹینا کے مموں کو دبا رہی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے ٹینا کا پورا مما پکڑ کر اسکو تھوڑا سا مسلتی اور پھر اپنی مٹھی بند کر کے اسکو ہولے سے دبا دیتی جس سے ٹینا کی ایک سسکی نکلتی۔ پھر انجلی نے اپنی ایک انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر ٹینا کا ایک نپل پکڑ لیا اور اسکو ہولے ہولے دبانے لگی جس سے ٹینا کی چوت گیلی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اور وہ آنکھیں بند کیے انجلی کی ان حرکتوں کے مزے لے رہی تھی۔ انجلی نے بھی ٹینا کی تڑپ کو محسوس کر لیا تھا اور یہی ہو چاہتی تھی۔ عمران کا لن لینے کے لیے ٹینا کو رام کرنا ضروری تھا اور انجلی اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوچکی تھی۔ مگر ابھی لوہا مکمل طور پر گرم نہیں ہوا تھا۔ ابھی ٹینا کو مزیر گرم کرنا تھا تاکہ وہ عمران کے لن سے انجلی کی چودائی پر بھی راضی ہوسکے۔ یہ سوچ کر انجلی نے اب ٹینا کےمموں کو زور زور سے دبانا شروع کر دیا تھا اور اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھا کر ٹینا کی ٹانگ کے گرد لپیٹ لی تھی اور پاوں سے ٹینا کی پنڈلی کو رگڑ رہی تھی۔ ٹینا بنا حرکت کیے انجلی کو یہ سب کرنے دے رہی تھی۔
پھر انجلی نے ٹینا کے مموں کو دبانا بند کیا اور دوبارہ ٹینا کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی اور کمر پر کچھ دیر مساج کرنے کے بعد نیچے بیٹھ کر ٹینا کی چوتڑوں کو بھی مسلنے لگی۔ چوتڑوں کو مسلتے مسلتے انجلی نے ٹینا کے چوتڑوں کو پکڑ کر تھوڑا سا کھولا اور اسکے اندر بھی اپنا ہاتھ پھیرنے لگی۔ اب کی بار ٹینا نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟ پلیز ایسے مت کرو۔۔ مگر انجلی کہاں رکنے والی تھی وہ بولی تمہارے پیچھے بھی کچھ ریت لگی ہوئی ہے وہ صاف کر رہی ہوں اچھی طرح۔ یہ کہ کر اس نے ٹینا کی گانڈ کے سوراخ پر اپنی انگلی پھیرنا شروع کردی اور ٹینا نے اب اپنے دونوں ہاتھ دیوار کے ساتھ لگا دیے اور اپنی گانڈ تھوڑی باہر نکال دی تاکہ انجلی اچھی طرح اسکی گانڈ کے سوراخ کو چھیڑ سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ اب ٹینا نے سسکیاں لینا شروع کر دی تھیں اور انجلی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹینا کو زیادہ سے زیادہ گرم کرنا چاہتی تھی۔ کچھ دیر تک وہ اسی طرح ٹینا کی گانڈ سے چھیڑ خانی کرتی رہی پھروہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی اور ٹینا کو شاور کے نیچے لے آئی، شاور کے نیچے لا کر انجلی نے ٹینا کے بدن پر ہاتھ پھیرنے شروع کیے اور اسکے بدن سے صابن صاف کرنے لگی۔ ساتھ ہی اسنے اپنے نرم و نازک ہونٹ ٹینا کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر رکھ دیے اور انکو چوسنے لگی۔ ٹینا جو اب کافی گرم ہوچکی تھی اور اسکی چوت چکنا پانی چھوڑ رہی تھی اس نے بھی انجلی کو فوری رسپانس دینا شروع کر دیا اور اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگی۔ اب پہلی بار ٹینا نے کھل کر اس لیسبین سیکس کو انجوائے کرنا شروع کیا تھا۔ اسکے ہاتھ پہلی بار انجلی کے بدن کو چھو کر ان پر پیار کر رہے تھے۔ ہونٹ چوستے ہوئے ٹینا نے انجلی کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنی کمر کے گرد لپیٹ لی تھی اور اسکے چوتڑوں کر اپنے ہاتھوں سے دبانے لگی تھی۔
انجلی بھی اب سیکس کی آگ میں جلتی ہوئی ٹینا کے لبوں کو چوس رہی تھی اور اپنی زبان اسکے منہ میں داخل کر کے ٹینا کی زبان کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ انجلی کا ایک ہاتھ ٹِنا کے ممے پر تھا جسکو وہ زور زور سے دبارہی تھی اور کبھی کبھی اسکے نپل کو اپنی انگلی اور انگوٹھے سے پکڑ کر ہولے سے مسل دیتی تو ٹینا کی ایک سسکی نکلتی۔ کچھ دیر تک انجلی ٹینا کے ہونٹ چوستی رہی پھر اس نے ٹینا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور تھوڑا سا نیچے جھک کر ٹینا کی صراحی دار لمبی گردن پر اپنے دانت گاڑھ دیے، اور اسکو اپنے ہونٹوں سے چوسنے لگی۔ انجلی کبھی ٹینا کی گردن پر سامنے کی طرف اپنے ہونٹوں سے پیار کرتی تو کبھی گردن کی سائیڈ پر اپنے دانت گاڑھ کر انتہائی ظالم طریقے سے اسکی گردن پر پیار کرتی۔ ٹینا اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی، انجلی کے اس حملے نے ٹینا کو پاگل کر دیا تھا اسکی سسکیاں اب واش روم میں گونجنے لگی تھیں اور اسکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ملنے والے مزے کا کیسے اظہار کرے۔ مگر انجلی یہاں رکنے والی نہیں تھی، گردن سے نیچے آکر اب انجلی ٹینا کے مموں کو چوس رہی تھی۔ ٹینا کے 36 سائز کے گول اور سڈول کسے ہوئے مموں پر انجلی کی زبان ایسی چل رہی تھی جیسے کوئی بچی کون آئیسکریم کو اپنی زبان سے چوستی ہے۔ ٹینا کے مموں کو چوسنے کے ساتھ ساتھ انجلی کا ایک ہاتھ ٹینا کی بیک پر جا کر اسکے 34 انچ کے بڑے اور گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں کو بھی دبا رہا تھا۔
ٹینا کی سسکیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور باہر بیٹھا عمران بھی اسکی سسکیوں کو انجوائے کر رہا تھا۔ کچھ کچھ عمران کو سمجھ لگ گئی تھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے مگر وہ اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر تھا۔ واش روم کی چار دیواری شیشے کی تھی مگر بلائنڈ شیشے کی وجہ سے باہر بیٹھے عمران کو اندر موجود 2 ننگی اور سیکسی لڑکیوں کا جسم تو نظر نہیں آرہا تھا مگر انکے کالے سائے نما ہیولے ضرور نظر آرہے تھے اور اسکو اندازہ تھا کہ دونوں لڑکیاں اندر سیکس کے مزے لے رہی ہیں۔ اور اس پر ٹینا کی سسکیاں عمران کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں عمران کو کافی حد تک امید تھی کہ کچھ ہی دیر کے بعد عمران ان دونوں لڑکیوں کی ٹائٹ چوت میں اپنے لن سے گھسے لگائے گا اور باری باری دونوں کی چدائی کر کے انکی چوتوں کا پانی نکلوائے گا۔ مگر تب اسکی امیدوں پر پانی پھر گیا جب اندر سے ٹینا کی سسکیاں آنا بند ہوچکی تھیں اور وہ دونوں اب ایکدوسرے سے علیحدہ ہوچکی تھیں۔ انجلی اب شاور کے نیچے اکیلی کھڑی اپنے گیلے بدن پر پانی ڈال رہی تھی جبکہ دوسری جانب ٹینا ساکت کھڑی انجلی کو نہاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
نہاتے ہوئے انجلی بار بار اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی اور ٹینا کی جانب بھوکی نظروں سے دیکھ رہی تھی، جبکہ ٹینا کی انگلیاں اسکی چوت پر گول گول گھوم رہی تھیں۔ باہر بیٹھے عمران کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ٹینا کی انگلیاں اسکی چوت پر ہیں اور وہاں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اندر شو ختم ہوگیا اور اب وہ نہا دھو کر باہر نکل آئیں گی۔ مگر انجلی کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا۔ اپنے بدن پر اچھی طرح پانی ڈالنے کے بعد وہ شاور سے نکل آئی اور ٹینا کو کہا اب وہ بھی کچھ دیر شاور لے کر اپنے جسم کو ٹھنڈا کر لے تاکہ انجلی ٹائم پر یہاں سے نکل سکے اور لوکاٹی کے ہوٹل کے کمرے میں جا کر پاکیشا جانے کی تیاری کر سکے۔ ٹینا ابھی مزید سیکس جاری رکھنا چاہتی تھی مگر انجلی کے یوں سائیڈ پر ہٹ جانے کے بعد وہ کچھ کہ نہیں پائی۔ گو کہ اسکوپہلی بار ایک لڑکی کے بدن پر پیار کر کے بہت مزہ آیا تھا اور انجلی کے ہاتھوں اور زبان نےٹینا کے جسم پر اپنے پیار کے نشان ڈال کر بھی ٹینا کو ایک نئی دنیا کی سیر کروائی تھی اور ٹینا ابھی اس کھیل کو جاری رکھنا چاہتی تھی مگر اسکی امیدوں پر بھی پانی پھر گیا جب انجلی نے اسکے جسم سے کھیلنا چھوڑ دیا۔ شدید خواہش کے باوجود ٹینا انجلی سے اپنی اس خواہش کا اظہار نہ کر پائی اور چپ چاپ شاور کے نیچے کھڑی ہوکر اپنے بدن پر پانی ڈالنے لگی مگر یہ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی اسکی چوت کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے مزیر گرم کر رہا تھا۔
انجلی کو اب اپنا بدن خشک کرنے کے لیے ایک ٹاول کی ضرورت تھی جو کہ واش روم میں موجود نہیں تھا، انجلی نے واش روم کا ہلکا سا دروازہ کھولا اور عمران کو آواز دیکر ٹاول پکڑانے کو کہا۔ عمران نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کھڑے ہوکر ساتھ والی الماری سے ٹاول نکالا اور انجلی کے ہاتھ میں پکڑ ا دیا جو واش روم کے دروازے سے باہر نکلا ہوا تھا۔ عمران محض انجلی کا ہاتھ ہی دیکھ پایا تھا۔ جبکہ انجلی کا بدن بلائنڈ شیشے کے دروازے سے سیاہ ہیولے کی صورت میں دکھ رہا تھا جس سے انجلی کے سینے پر ابھار بھی واضح تھے، عمران کا ایک لمحے کو دل کیا کہ وہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوجائے اور ٹینا اور انجلی دونوں کی چوتوں کو ٹھنڈا کر دے مگر پھر کچھ سوچ کر اس نے ایسی احمقانہ حرکت کرنے سے پرہیز کیا اور انجلی کے ہاتھ میں ٹاول پکڑا دیا۔
جیسے ہی عمران نے انجلی کے ہاتھ میں ٹاول پکڑایا اور واپسی کے لیے مڑنے لگا ٹاول انجلی کے ساتھ سے گر گیا۔ عمران کو محسوس ہوا کہ ٹاول نیچے گرا ہے تو وہ واپس مڑا تاکہ ٹاول اٹھا کر واپس انجلی کو پکڑا سکے، مگر واپس مڑنے پر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ انجلی تھوڑا سا دروازہ مزید کھول کر آگے جھک کر ٹاول اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی، نیچے جھکی ہوئی انجلی کے 36 سائز کے ممے ہوا میں لٹک کر عمران کو دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔ انجلی کے گورے گورے لٹکتے ہوئے ممے دیکھ کر عمران پر سکتہ طاری ہوگیا تھا، انجلی کو جب یہ احساس ہوا کہ عمران اسکے سامنے کھڑا اسی کو گھور رہا ہے وہ بھی ٹاول کو بھول کر ایکدم سیدھی کھڑی ہوگئی مگر واپس اندر نہیں گئی۔ اور پھر فورا ہی انجلی نے سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر موجود ابھاروں پر رکھ کر اسکو چھپانے کی کوشش کی ، پھر اسے اپنی چوت کا بھی خیال آیا جو عمران کے لن کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ چوت کا خیال آتے ہی انجلی نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ممے سے ہٹایا اور دوسرے ہاتھ کو پھیلا کر بازو سمیت اپنے دونوں مموں پر رکھ کر ممے چھپا لیا اور اپنا دوسرا ہاتھ اپنی چوت پر رکھ کر اسکو چھپانے کی کوشش کرنے لگی، مگر وہ اپنی جگہ سے ہلی نہیں اور واپس اندر نہیں گئی۔ ٹینا اس سے بے خبر آنکھیں بند کیے شاور کے نیچے کھڑی اپنے چہرے پر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی گرا رہی تھی۔
عمران بھی اپنی جگہ ساکت کھڑا انجلی کے گورے بدن پر نظریں گاڑھے ہوا تھا، مگر عمران کا لن اسکے چھوٹے شارٹس میں کھڑا ہو چکا تھا اور انڈر وئیر نہ ہونے کی وجہ سے اچھا خاصا ابھار بنا کر ٹینٹ کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ انجلی کی نظریں بھی اب عمران کے شارٹس کے ابھار پر تھیں جسکو عمران نے بھی محسوس کر لیا تھا۔ انجلی بغیر آنکھیں جھپکائے عمران کے لن کے ابھار کو دیکھ رہی تھی اور پھر بے اختیار انجلی نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنے ہونٹوں پر پھیرنے لگی۔ وہ ابھی تک اپنے بازو سے اپنے ممے چھپائے کھڑی تھی اور اپنی چوت کو دوسرے ہاتھ سے چھپا رکھا تھا۔ مگر اسکا زبان نکال کر اپنے ہونٹوں پر پھیرنا عمران کے لیے واضح سگنل تھا کہ اسکی چوت عمران کے لمبے اور موٹے لن کے لیے بے تاب ہے۔ عمران نے ہمت کی اور چند قدم انجلی کی طرف آگے بڑھا، عمران کو اپنی طرف آتا دیکھ کر انجلی نے بھی فائنل راونڈ کھیلنے کی ٹھانی اور اپنے مموں سے ہاتھ ہٹا کر ایک قدم عمران کی طرف بڑھی اور اپنا وہ ہاتھ عمران کے لن پر رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ عمران بھی اپنے ہاتھ انجلی کے پہاڑ جیسے گیلے مموں پر رکھتا انجلی نے عمران کے لن کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور واپس قدم واش روم کی طرف بڑھانے لگی۔ عمران بھی بلا چوں چراں انجلی کے ساتھ ہی واش روم میں داخل ہوگیا۔
قدموں کی آہٹ محسوس کر کے ٹینا نے اپنی آنکھیں کھول کر انجلی کی طرف دیکھا تو اس پر بھی سکتہ طاری ہوگیا، انجلی عمران کو اسکے لن سے پکڑ کر واش روم میں لا چکی تھی اور آہستہ آہستہ ٹینا کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ٹینا نے بھی بے اختیار اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے چھپا لیے مگر پھر چوت کا خیال آنے پر اپنی چوت کو بھی ایک ہاتھ سے چھپایا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے دونوں مموں کو چھپانے کی کوشش کرنے لگی، اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی انج۔۔۔ انجلی۔۔۔۔ یہ یہ ک ۔۔۔ ک۔۔۔ کیا کر رہہی ہو؟؟؟؟
انجلی نے ہوس بھری نظروں سے ٹینا کی طرف دیکھا اور بولی میں تو تمہاری گرمی نہیں ختم کر سکتی اور نہ تم میری گرمی ختم کرکے مجھے ٹھنڈا کر سکتی ہو، البتہ عمران کے شارٹس میں یہ جو چیز ہے یہ ہم دونوں کی گرمی کو ختم کر سکتی ہے۔ تو کیوں نہ اسکا فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ کہ کر انجلی عمران کو لن سے پکڑ کر کھینچتی ہوئی شاور تک لا چکی تھی۔ عمران کو قریب پا کر ٹینا کچھ دور ہٹ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انجلی اس حد تک جا سکتی ہے۔ گوکہ اسکی چوت میں بھی آگ لگی ہوئی تھی مگر اسکے لیے یہ بات قابل قبول نہ تھی کہ وہ کسی اور لڑکی کے ساتھ مل کر اپنے بوائے فرینڈ سے چدائی کروائے۔ اس لیے وہ ابھی تک غصے اور شرم کی ملی جلی کیفیت میں سائیڈ پر کھڑی ہانپ رہی تھی جبکہ انجلی عمران کو شاور کے نیچے کھڑا کر کے اسکے بدن پر ہاتھ پھیر کر اسکو مساج دے رہی تھی تاکہ پانی سے اسکے بدن کی تھکاوٹ بھی دور ہو۔
ٹینا پھٹی پھٹی نظروں سے انجلی اور عمران کو دیکھ رہی تھی، انجلی عمران کے ساتھ جڑ کر کھڑی تھی اور اپنا ایک ہاتھ عمران کی کمر پر جبکہ دوسرا ہاتھ عمران کے کشادہ سینے پر پھیر رہی تھی جبکہ اپنی ٹانگ اوپر اٹھائے اپنی تھائیز کو عمران کے کھڑے لن کے ساتھ رگڑ رہی تھی۔ جب عمران کا سینہ مکمل گیلا ہوگیا اور ریت اور پسینے کے اثرات ختم ہوگئے تو انجلی نے اپنی زبان نکال کر عمران کے سینے پر پھیرنا شروع کر دی ، انجلی عمران کے بائیں بازو کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی ایک ہاتھ پیچھے کمر پر جبکہ دوسرا ہاتھ سینے پر اور ٹانگ اوپر اٹھا کر عمران کے لن سے کھیل رہی تھی اور زبان عمران کے سینے پرموجود چھوٹے مگر سخت نپل پر تھی۔ عمران بھی اپنے لن پر انجلی کی ٹانگ کو اور نپل پر انجلی کی زبان کو محسوس کر کے گرم ہورہا تھا اور وہ اب جلد سے جلد انجلی کی چوت میں اپنا لن ڈال دینا چاہتا تھا۔ پہلے ہی واٹر سکوٹر پر انجلی نے عمران کے لن کو خوب تڑپایا تھا اور اب بھی کافی دیر سے وہ واش روم کی شیشے والی دیوار سے انجلی اور ٹینا کا سیکس دیکھ دیکھ کر اپنا لن دبا رہا تھا۔ اب انجلی اور ٹینا دونوں بالکل ننگی اسکے سامنے کھڑی تھیں، ٹینا کو تو وہ کل رات خوب چود چکا تھا اب اسکا لن انجلی کی چکنی چوت کے لیے تڑپ رہا تھا۔
ٹینا ابھی تک اپنے آپ کو اس صورتحال کے لیے تیار نہیں کر پائی تھی وہ محض ساکت کھڑی حیرانگی اور بے یقنینی کی ملی جلی کیفیت میں انجلی کو عمران کے بدن سے لپٹا دیکھ رہی تھی۔ اب عمران نے بھی حوصلہ کیا اور ٹینا کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسکو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا۔ عمران نے ٹینا کو بازو سے پکڑ کر کھینچا تو اسکا بازور اسکے مموں سے ہٹ گیا ، عمران نے ٹینا کو اپنی طرف کھینچ کر اپنا ایک ہاتھ فورا اسکے مموں پر رکھ دیااور دوسرا ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹ کر اسکے چوتڑوں تک لے گیا۔ ٹینا نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی واجبی سی کوشش کی مگر پھر اسکی چوت نے موجودہ حالات سے سمجھوتا کرنے کا مشورہ دیا جسکو ٹینا نے فورا ہی منظور کر لیا اب واش روم میں ٹینا کی سسکیاں ایک بار پھر شروع ہوچکی تھیں۔ عمران اپنے ہاتھ سے نہ صرف ٹینا کے مموں کو دبا رہا تھا بلکہ ٹینا کی طرف جھک کر اسکے نپلز کو بھی اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا جس سے ٹینا کی چوت جو پہلے کی نسبت ٹھنڈی ہوچکی تھی دوبارہ سے گرم ہونا شروع ہوگئی تھی اور ٹینا بھی اب اپنے ایک ہاتھ سے عمران کے لن کر پکڑ کو مسلنے لگی تھی۔ اسکی سسکیاں آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔
انجلی جو عمران کا لن اپنی چوت میں اندر باہر ہوتا دیکھنا چاہتی تھی اسکی کوشش کامیاب ہوچکی تھی، ٹینا بھی اب چودائی کے لیے تیار تھی اور عمران کو تیار کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا وہ تو شاید خود بھی اس بات کے لیے تیار تھا بس انجلی کی طرف سے ایک اشارہ چاہیے تھا جو اسکو مل چکا تھا۔ حالات مکمل طور پر سازگار دیکھ کر اب انجلی مزید دیر نہیں کرنا چاہتی تھی، اس نے نیچے بیٹھ کر عمران کی شارٹس اتار دی اور جیسے ہی عمران کا 8 انچ لمبا اور موٹا لن سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا انجلی کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگیا تو انجلی ایک لمحے کے لیے تو اپنی آنکھیں جھپکانا ہی بھول گئی تھی۔ اس نے جیسا سوچا تھا عمران کا لن اس سے بڑھ کر موٹا اور لمبا تھا۔ اور اسکے لن کی سختی لن سے نظر آنے والی رگوں سے واضح ہورہی تھی۔ انجلی نے بغیر ٹائم ضائع کیے عمران کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ایک بار زور سے دبا کر اسکی سختی کا اندازہ لگایا تو اسکے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ اسکو ایسا ہی جاندار لن چاہیے تھا، لوکاٹی کے لن سے چدوا کر اس نے اپنی چوت کو ٹھنڈا تو کیا تھا مگر جو جاندار چدائی انجلی کی جوان اور ٹائٹ چوت چاہتی تھی وہ اسکو نہیں مل سکی تھی۔ عمران کے لن سے اسکو پوری امید تھی اور اسکا لن ہاتھ میں پکڑا تو چوت نے انجلی کو پیغام دیا کہ ہاں یہی لن ہے جو مجھے اپنے اندر جلد از جلد چاہیے۔
انجلی نے اپنے ہاتھ سے عمران کے لن کی مٹھ مارنا شروع کی اور جب عمران کےلن کی ٹوپی پر مذی کے قطرے چمکنے لگے تو انجلی نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنی زبان کی نوک سے مذی کے ان قطروں کو چاٹ کر صاف کر دیا اور پھر عمران کا موٹا لن اپنے منہ میں لیکر اسکو چوسنے لگی۔ انجلی نے عمران کے لن پر چوپے لگانے شروع کیے تو عمران سوچ میں پڑ گیا کہ ٹینا اچھا چوپا لگاتی ہے یا انجلی؟؟؟ رات جو ٹینا نے عمران کے چوپے لگائے تھے عمران کو اس سے بہت مزہ آیا تھا اور اسکا خیال تھا کہ اس سے اچھا چوپا اور کوئی نہیں لگا سکتی اسکے لن کا۔۔۔ مگر اب وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کسکا چوپا زیادہ مزے کا تھا۔ پھر اسنے یہی سوچا جسکا بھی ہو زیادہ مزے کا آج تو زندگی میں پہلی بار 2، 2 جوان چوتیں اسکے لن سے چدنے کے لیے تیار ہیں چوپے کو بھول جا اور چدائی کا سوچ۔ دونوں چوتوں کو ایسے چودنا ہے کہ دوبارہ انہیں کسی اور کا لن مزہ نہ دے۔ ہر چدائی پر انہیں عمران کا لوڑا یاد آنا چاہیے۔
انجلی نے ٹینا کو بھی بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ بھی انجلی کو چوپے لگاتا دیکھ کر اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور عمران کے منی سے بھرے ہوئے ٹٹوں کو منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ عمران کے ٹٹوں پر اور لن کے اردگرد بالکل ہلکے ہلکے باریک بال تھے جس کی وجہ سے عمران کو مزہ آتا جب ٹینا اسکے ٹٹے چوستے اور لن کے اردگرد اپنی زبان پھیرتی۔ ٹینا نے انجلی کے منہ سے عمران کا لن نکالا اور اس پر ایک سائیڈ سے زبان پھیرنے لگی، انجلی بھی لن کی دوسری سائیڈ پر اپنی زبان پھیرنے لگی اور دونوں ملکر عمران کے لن کے چوپے لگانے لگ گئیں۔ کبھی انجلی عمران کا لن منہ میں ڈال کر اسکو 3، 4 بار اندر باہر کرتی تو کبھی ٹینا عمران کا لن منہ میں لیکر شرپ شرپ چوپے لگاتی۔
دونوں کے چوپے لگانے کے انداز سے عمران کو بہت مزہ آنے لگا تھا اور اسکو اپنے لن میں پانی بھرتا محسوس ہونے لگا۔ انجلی اب عمران کے لن کے مسلسل چوپے لگا رہی تھی، وہ کوشش کر رہی تھی کہ عمران کا پورا لن اپنے منہ میں لے لے مگر ایسا ممکن نہیں تھا، 8 انچ کا لن منہ میں لینا انجلی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آدھے سے کچھ زیادہ لن انجلی کے منہ میں جاتا تو اسکا سانس رکنے لگتا، مجبورا وہ لن ٹوپی تک باہر نکالتی اس پر اپنی زبان پھیرتی اور دوبارہ سے لن اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگ جاتی۔ جبکہ ٹینا اب عمران کے ٹٹوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ان پر زبان پھیر رہی تھی کبھی وہ ٹٹے منہ میں لیکر چوسنے لگتی اور کبھی عمران کی ٹانگوں کے نیچے ہوکر ٹٹوں کے پیچھے موجود لائن میں اپنی زبان پھیرتی۔ واٹر سکوٹر پر انجلی کی گانڈ کی رگڑ اور اب 2 سیکسی لڑکیوں کے چوپوں نے عمران کا لن منی سے بھر دیا تھا، عمران کو لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت اسکا لن منی کا فوارہ چھوڑ دے گا، اسنے ہانپتی ہوئی آواز میں انجلی کو بتایا کہ وہ چھوٹنے والا ہے تو انجلی نے لن اپنے منہ سے باہر نکال لیا اور منہ کے سامنے لا کر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسکے لن کی مٹھ مارنے لگی، ٹینا نے بھی عمران کے ٹٹے ہاتھ میں پکڑ کر رگڑنا شروع کر دیے۔ عمران کی اب سسکیاں نکلنا شروع ہوگئی تھی، اسکو اپنے لن میں سوئیاں چبھتی محسوس ہونے لگیں۔ انجلی نے ایک لمحے کو اپنے ہاتھ روکے، منہ میں تھوک کا گولا بنا کر عمران کے لن کی ٹوپی پر تھوک پھینکا اور اپنے ہاتھوں سے اسکی پورے لن پر مالش کرنے لگی، اس دوران وہ بار بار اپنے ہاتھوں کے انگوٹھے عمران کے لن کی ٹوپی پر پھیرتی رہی۔۔۔ اب عمران کو اپنے لن میں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے کوئی باریک سی چیز ٹٹوں سے نکل کر ٹوپی کی طرف بڑھنے لگی ہے، عمران نے انجلی کو کہا کہ وہ چھوٹنے لگا ہے، انجلی جو لن منہ کے سامنے کیے تیزی کے ساتھ عمران کے لن کی مٹھ مار رہی تھی اس نے عمران کے لن کی ٹوپی کا رخ فوری طور پر اپنے منہ سے ہٹا کر اپنے مموں کی طرف کر دیا، جیسے ہی عمران کی ٹوپی نے انجلی کے گول سڈول کسے ہوئے ممے دیکھے اس نے اپنے اندر سے منی کی ایک تیز دھار نکالی جو سیدھا انجلی کے مموں پر جا کر گری اور انجلی کو اپنے مموں پر منی کی گرمائش محسوس ہونے لگی، اس دوران انجلی نے اپنے ہاتھ نہیں روکے اور مسلسل عمران کے لن کی مٹھ مارتی رہی جس کی وجہ سے عمران کا لن وقفے وقفے سے منی کی تیز دھاریں انجلی کے مموں پر چھوڑتا رہا۔
آخری چند جھٹکوں پر ٹینا نے عمران کا لن پکڑ کر اپنی طرف کر لیا جس سے عمران کی منی کی آخری دھار سیدھی ٹینا کے منہ پر جا کر گری، ٹینا کے ہونٹر عمران کے لن کی منی سے بھر گئے تھے۔ جب عمران آخری جھٹکا بھی مار چکا اور ٹینا نے محسوس کیا اب مزید منی نہیں نکلے گی تو اسنے عمران کا لن منہ میں لے لیا اور اسکی ٹوپی پر لگی منی کے قطرے چوسنے لگی۔ 2، 4 جاندار چوپے لگانے کے بعد جب عمران کے لن سے ساری منی غائب ہوگئی تو ٹینا نے اپنا رخ انجلی کے مموں کی طرف کیا اور اسکے مموں پر لگی عمران کی منی اپنی زبان سے چاٹنے لگی۔ اس دوران ٹینا کی زبان انجلی کے نپلز کو بھی چھونے لگی جس سے انجلی کو ایک جھرجھری سی آئی، اور اسکا دل کیا کہ ٹینا اسی طرح اسکے نپلز کو چاٹتی اور چوستی رہے، مگر ٹینا کا سارا دھیان اس وقت عمران کی منی چاٹنے پر تھا۔ جب وہ ساری منی ٹینا کے مموں سے چوس چکی تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ انجلی کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ انجلی کو ٹِنا کے ہونٹوں اور زبان پر عمران کی منی کا ذائقہ محسوس ہوا تو اس نے بھی ٹینا کے لبوں کو جی بھر کر چوسا اور اسکی زبان کو اپنے منہ میں لیکر اسکا بھی جوس چاٹ لیا۔
عمران کا 8 انچ کا لمبا لن اب تھوڑا ڈھیلا پڑ گیا تھا مگر اسکے سامنے انجلی اور ٹینا دونوں ایکدوسرے کے بدن سے کھیلنے میں مصروف تھی جسکی وجہ سے عمران کا لن مکمل بے جان نہیں ہوا بلکہ اسکی کچھ سختی باقی رہی۔ ٹینا اب انجلی کو واش روم میں ہی لٹا چکی تھی اور اسکی ٹانگیں کھول کر اپنی زبان سے انجلی کی ٹائٹ اور خوبصورت ہلکی گلابی چوت کو چاٹ رہی تھی۔ انجلی کی چوت کے لب آپس میں سختی سے ملے ہوئے تھے اس سے ٹینا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کل رات اسکے لوکاٹی انکل نے ٹائٹ چوت کے خوب مزے لیے ہونگے۔ انجلی کی چوت پر بھی ہلکے ہلکے بال تھے غالبا اس نے بھی 2 دن پہلے ہی اپنی چوت کے بال صاف کیے تھے۔ ٹینا نے اپنی ایک انگلی انجلی کی چوت میں داخل کی تو اسے ایسے لگا جیسے ابھی اسکی انگلی جل جائے گی، انجلی کی چوت کسی دہکتے تندور کی طرح گرم تھی اور اسکا چکنا چکنا پانی بھی اس آگ کو بجھانے میں ناکام ہورہا تھا، ٹینا نے انگلی چوت سے باہر نکالی تو اس پر انجلی کی چوت کا گاڑھا پانی موجود تھا جو ٹینا نے اپنے منہ میں ڈال کر انگلی سے چوس لیا۔ اسکے بعد دوبارہ سے تینا نے اپنی انگلی انجلی کی چوت میں ڈالی اور انگلی اندر باہر کرنے لگی ۔ انجلی کا بھی کسی لڑکی کے ساتھ یہ پہلا سیکس تھا وہ بھی اپنی چوت میں ٹینا کی انگلی کی چودائی کو انجوائے کر رہی تھی۔ ٹینا انجلی کی چوت پر لیٹ چکی تھی، اسکی انگلی ابھی بھی چوت کے اندر ہلچل مچا رہی تھی جبکہ ٹِنا کی زبان انجلی کے چوت کے دانے پر تھی جس سے انجلی مزے کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی اور مسلسل سسکیاں نکال رہی تھی۔ کچھ دیر ٹینا مزید انجلی کی چوت میں انگلی کرتی رہی جس سے انجلی کی چوت میں ایک سیلاب آگیا اور اسکی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا، مگر اس دوران ٹینا نے اپنا چہرہ سائیڈ پر نہیں ہٹایا اور سارا پانی ٹینا کی منہ پر آکر گرا، کچھ پانی ٹینا نے پی لیا جبکہ باقی اسکے منہ پر لگا رہ گیا۔
ٹینا کی چوت کا پانی نکالنے کے بعد اب ٹینا اٹھی اور انجلی کے سینے پر جا پہنچی ، انجلی کے سینے پر پہنچ کر ٹینا اسکے اوپر ہوکر بیٹھ گئی اور دونوں ٹانگیں سائیڈ پر نکال دیں، پھر تھوڑا آگے بڑھی اور اپنے گھٹنے انجلی کے کندھوں سے آگے نکال دیے، اس طرح ٹینا کی چوت بالکل انجلی کے منہ کے اوپر آگئی، انجلی نے کبھی کسی لڑکی کی چوت نہیں چاٹی تھی مگر وہ لوڑے کے چوپے لگانا جانتی تھی، اس نے ٹینا کی چوت پر ایک نظر ڈالی تو دیکھا کہ اسکی چوت پہلے ہی کافی سوجی ہوئی تھی، اور لب بھی کافی حد تک کھلے ہوئے تھے، اسکا مطلب تھا کہ وہ اکثر اپنی چدائی کرواتی رہتی تھی۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ٹینا نے محض چند بار ہی اپنے پرانے بوائے فرینڈ اجے سے چدوایا تھا، اسکی چوت کا یہ حال تو کل رات کی چدائی کی وجہ سے ہوا تھا جب عمران ایک گھنٹے سے زیادہ اسکی نازک چوت کی چدائی کرتا رہا۔ انجلی نے ٹینا کی چوت کا جائزہ لینے کے بعد اپنی زبان نکالی اور تھوڑا سا چہرہ اوپر اٹھا کر ٹینا کی چوت کو چاٹنے لگی تو ٹینا نے اپنی چوت اور نیچے کر لی تاکہ انجلی کو گردن اوپر نہ اٹھانی پڑے۔ اس پوزیشن میں انجلی بہتر طریقے سے ٹینا کی چوت کو چاٹ سکتی تھی۔ انجلی کی زبان با آسانی ٹینا کی چوت کے لبوں کو کھول کر اسکے اندر جا رہی تھی۔ جس سے ٹینا کو بے حد مزہ آرہا تھا۔ اسکا بھی یہ پہلا تجربہ تھا کسی لڑکی سے اپنی چوت چٹوانے کا۔
عمران اب ٹینا کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا اور اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر ٹینا کے آگے کیا۔ ٹینا کا چہرہ پہلے نیچے کی جانب تھا وہ انجلی کو اپنی چوت چاٹتے ہوئے دیکھ رہی تھی، مگر اپنی ناک کے قریب لن کی خوشبو کو پاکر اس نے فورا چہرہ اوپر کیا تو اسکے سامنے عمران کا نیم کھڑا لن ہل رہا تھا۔ 4 انچ کا یہ لن ٹینا نے فورا اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ ٹینا کے منہ کی گرمی پاتے ہی عمران کے لن میں ہلچل شروع ہوگئی اور محض چند چوپوں سے ہی عمران کا لن دوبارہ سے 8 انچ کا لوڑا بن گیا جس پر اب ٹینا شڑپ شڑپ کی آوازوں کے ساتھ چوپے لگا رہی تھی۔ وہ چوپے لگاتے لگاتے عمران کے ٹٹے بھی پکڑ کر مسلتی جس سے عمران کے لن میں اور زیادہ سختی آجاتی۔۔۔ کچھ دیر چوپے لگوانے کے بعد جب عمران کو محسوس ہوا کہ اسکا لن اب پہلے کی طرح جاندار ہوگیا ہے تو اس نے ٹینا کے منہ سے اپنا لن نکالا اور نیچے لیٹی انجلی کی ٹانگوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں جا کر اس نے انجلی کی ٹانگوں کو پکڑ کر تھوڑا سا کھولا اور بیچ میں بیٹھ گیا۔ جیسے ہی انجلی کو معلوم ہوا کہ عمران اسکی ٹانگوں کے بیچ میں ہے اس نے ٹینا کو اپنے چہرے سے ہٹا دیا، کیونکہ یہی تو وہ لمحہ تھا جسکے لیے اس نے اتنی محنت کی تھی، وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ عمران کا لن کیسے اسکی ٹائٹ چوت میں جاتا ہے۔ عمران نے انجلی کو تھائیز سے پکڑا اور اسکو اپنی طرف کھینچ لیا، انجلی کی چوت اب زمین سے کچھ اونچی تھی اور اسکی تھائیز کا پچھلا حصہ عمران کے گھٹنوں کے اوپر تھا اور عمران کا لن انجلی کی ٹائٹ چوت سے ٹکرا رہا تھا۔
انجلی کی ٹائٹ چوت دیکھ کر عمران کا بے اختیار دل چاہا کہ وہ ایسی چکنی ٹائٹ اور گلابی چوت کو چاٹے مگر اسکے لن نے عمران کے کان میں سرگوشی کی کہ پہلے مجھے انجلی کی ٹائٹ چوت کی اندر سے سیر کروا دو اسکے بعد چوت کو چاٹ بھی لینا، عمران نے اپنے لن کی بات مانی اور لن پکڑ کر ایک دو بار انجلی کی چوت کے اوپر مارا جس سے انجلی کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ انجلی نے عمران سے کہا جان پلیز مت تڑپاو اپنا یہ مضبوط لن ڈال دو میری چوت میں۔۔۔ وہ اپنی گردن اوپر اٹھائے اپنی چوت اور عمران کے لن کا آپس میں ملاپ دیکھ رہی تھی۔ چوت پر لن نے دستک دی تو اسکی چکناہٹ میں بھی ایک دم سے اضافہ ہوگیا، عمران نے اپنے لن کی ٹوپی انجلی کی چوت پر سیٹ کی اور ہلکا سا زور لگایا تو لن کی ٹوپی چوت میں چلی گئی۔ 8 انچ لن کی 3 انچ موٹی ٹوپی انجلی کی چوت میں گئی تواسکی ایک سسکی نکلی اور اس نے پاس کھڑی ٹینا کی ٹانگ کو انپے ہاتھوں سے زور سے پکڑ لیا جس سے انجلی کے ناخن ٹینا کی تھائیز میں گڑھ گئے۔ عمران نے مزید زور لگایا مگر چوت نے اپنا منہ بند کر لیا تھا۔۔۔۔ عمران نے خوش ہوکر انجلی کی طرف دیکھا اور بولا واہ، تمہاری چوت تو بہت ٹائٹ ہے۔ اسکو چودنے کا بہت مزہ آئے گا۔ یہ کہ کر اس نے لن تھوڑا سا باہر نکالا اور ایک زور دار دھکا مارا۔ عمران کے اس دھکے سے عمران کا لن انجلی کی چوت کی دیواروں کو چھیلتا ہوا اندر چلا گیا اور انجلی کی اب ایک زور دار چیخ نکلی جس سے پورا واش روم گونج اٹھا۔
مگر عمران رکا نہیں، اس نے ایک بار پھر اپنا لن باہر نکالا محض اپنی موٹی ٹوپی ہی اندر رہنے دی اور ایک بار پھر زور دار دھکا مارا جسکی شدت پہلے دھکے سے زیادہ تھی، اس بار عمران کا لن قریب قریب سارے کا سارا انجلی کی چکنی چوت کی گہرائیوں میں اتر گیا ، اور انجلی مسلسل چیخیں مارنے لگی، اس نے آج سے پہلے اتنا موٹا اور سخت لن کبھی اپنی چوت میں نہیں لیا تھا۔ اسکی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا مگر عمران نے اسکی چوت پر رحم نہیں کھایا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر لڑکی کو چودنے کا مزہ لینا ہے تو اس پر رحم نہیں کھانا، اسی طرح لڑکی کو بھی چدائی کا مزہ آئے گا اور لن بھی فل مزے میں رہے گا۔ عمران نے ایک دھکا اور مارا جس سے عمران کا 8 انچ کا لمبا لن جڑ تک انجلی کی چوت کی گہرائی میں اتر چکا تھا۔ اور انجلی کو لگ رہا تھا جیسے عمران کا لن اسکے پیٹ میں داخل ہوچکا ہے۔ عمران نے اب بغیر رکے ہولے ہولے انجلی کی چوت میں دھکے لگانے شروع کر دیے تھے، انجلی چیخ تو رہی تھی مگر اس نے ایک بار بھی لن باہر نکالنے کو نہیں کہا، کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ اسکے کہنے پر نہ تو عمران لن باہر نکالے گا، اور نا ہی لن باہر نکالنے سے کوئی فرق پڑے گا، کیونکہ جیسے ہی لن چوت سے نکلا، چوت دوبارہ سے لن کی طلب کرے گی۔ اس لیے انجلی نے یہی بہتر سمجھا کہ جیسے عمران چود رہا ہے ویسے ہی چدائی کروائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مزہ آئے اس چودائی کا۔
کچھ دھکوں کے بعد اب لن با آسانی انجلی کی چوت میں جا رہا تھا اور انجلی کی چوت نے بھی اب عمران کے لن کے مزے لینے شروع کر دیے تھے۔ پہلے پہل انجلی کی چوت درد کی وجہ سے خشک ہوگئی تھی مگر اب دوبارہ سے لن کے دھکوں سے انجلی کی چوت چکنی ہوچکی تھی۔ اس چکناہٹ کی وجہ سے اب لن با آسانی اندر باہر ہو رہا تھا۔ عمران کے ہر دھکے پر انجلی کے جسم کو ایک جھٹکا لگتا اور اسکے ممے جیلی کی طرح ہلنے لگتے، ساتھ ہی انجلی کی سسکیاں اوہ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ آہ آہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف آہ ہ ہ ہ ہ عمران۔ ۔ ۔ ۔ آہ آہ آہ زور زور سے۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ف ام م م م م ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تیز عمران، اور تیزی سے چودو۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔ واش روم بند ہونے کی وجہ سے انجلی کی سسکیاں اور بھی زیادہ گونج رہی تھیں جس سے ماحول کافی سیکسی ہوگیا تھا، جب انجلی کی چوت عمران کے لن کی عادی ہوگئی اورچوت نے لن کو با آسانی اندر آنے اور باہر جانے کی اجازت دے دی تو انجلی نے ایک بار پھر ٹینا کو اپنی طرف کھینچا اور اسکی چوت اپنے منہ کے اوپر کر کے اسکو چاٹنے لگی۔
اب واش روم انجلی اور ٹینا دونوں کی آوازوں سے گونج رہا تھا، اب کی بار ٹینا انجلی کے منہ کے اوپر اس طرح بیٹھی تھی کہ اسکا رخ عمران کی طرف تھا، نیچے سے انجلی کی زبان ٹینا کی چوت کے لبوں میں جا کر اسکو مزہ دے رہی تھی تو سامنے سے عمران کے ہاتھ ٹینا کے مموں دبانے اور اسکے تنے ہوئے سخت نپلز کو مسلنے میں مصروف تھے جس سے ٹینا کی سسکیاں نکل رہی تھیں، جبکہ نیچے عمران کا لن انجلی کی نازک چوت کو چودنے میں مصروف تھا۔ کچھ ہی دیر کی چودائی کے بعد انجلی کو محسوس ہوا کہ اسکی چوت پانی سے بھر رہی ہے تو اس نے ٹینا کی چوت سے منہ ہٹا کر عمران کو کہا کہ وہ فارغ ہونے والی ہے اپنے دھکوں کی رفتار بڑھا دو، عمران نے فورا ہی تیزی کے ساتھ انجلی کو چودنا شروع کر دیا، اب عمران نا صرف تیزی سے دھکے لگا رہا تھا بلکہ ہر دھکا پہلے سے زیادہ جاندار ہوتا تھا، عمران چاہتا تھا کہ جب انجلی کی چوت پانی چھوڑے تو عمران کا ہر دھکا اسکے لیے یادگار رہے کچھ مزید دھکے لگانے کے بعد عمران کو اپنا لن گیلا ہوتا محسوس ہوا اور ساتھ ہی اسکے لن پر گرما گرم پانی بھی لگا اور انجلی کی چوت سے پچک پچک کی آوازیں آنے لگی جبکہ اسکے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ف کی لمبی سسکی بھی نکلی۔ انجلی کی چوت پانی چھوڑ چکی تھی۔
جب انجلی کی چوت پانی چھوڑ کر مکمل گیلی ہوگئی تو عمران نے اسکی چوت سے اپنا لن نکال لیا اور ٹینا کی طرف بڑھا۔ ٹینا کو عمران نے کھڑا کیا اور اسکی پیٹھ واش روم کی دیوار کےساتھ لگا دی۔ اسکے بعد اسسکی ٹانگوں کو تھوڑا سا کھولا اور اپنا لن ٹینا کی چوت کے سوراخ پر رکھ کر اپنے ہونٹ ٹینا کے ہونٹوں سے ملا دیا، ٹینا نے عمران کے ہونٹوں کو فورا چوسنا شروع کیا تو اسے ایسے لگا جیسے نیچے اسکی چوت میں کوئی لوہے کا گرم راڈ گھس گیا ہو۔ عمران نے ایک جاندار دھکا اٹینا کی چوت میں مارا تھا جس سے آدھے سے زیادہ لن ٹینا کی سوجی ہوئی چوت میں داخل ہوگیا تھا۔ لن چوت میں جاتے ہی ٹینا کی چوت میں مرچیں لگ گئی تھیں اور اسکی چیخیں انجلی سے زیادہ واش روم میں گونج رہی تھیں۔ مگر عمران نے اسکی چیخوں کی پرواہ کیے بغیر لن باہر نکال کر ایک دھکا اور مارا اور پورا لن ٹینا کی چوت میں اتار دیا۔ ٹینا عمران کی منتیں کرنے لگی پلیز عمران لن باہر نکالو مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔۔ عمران جان بھگوان کے واسطے لن میری چوت سے نکال دو۔۔۔ مجھے نہیں چدوانا۔۔۔ آہ ہ ہ پلیز۔۔۔۔ مگر عمران رکنے والا کہاں تھا، اس نے ٹینا کی چیخوں اور التجاوں پر کان دھرے بغیر ٹینا کی چوت میں لن کے دھکے لگانا جاری رکھے۔ ٹینا کو چدائی میں بالکل بھی مزہ نہیں آرہا تھا، رات بھر عمران کے جاندار لن سے چدائی کروا کروا کر اسکی چوت اب مزید چدائی برداشت نہیں کر رہی تھی۔ مگر عمران کو ٹینا کی ٹائٹ چوت بہت مزہ دے رہی تھی اسی لیے وہ بغیر رکے دھکے پر دھکا لگا رہا تھا۔
کچھ دیر ایسے ہی چودنے کے بعد عمران نے ٹینا کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور اسکی کمر واش روم کی دیوار کے ساتھ لگا کر اسے پھر سے چودنے لگا۔ اب ٹینا نے اپنی ٹانگیں عمران کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اور عمران کے ہاتھ ٹینا کے چوتڑوں پر تھے اور نیچے سے اسکا 8 انچ کا لوڑا ٹینا کی سوجی ہوئی چوت کو چود رہا تھا۔ عمران کے ہونٹ اب ٹینا کے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف تھے تاکہ اسکی تکلیف کچھ کم ہوسکے اور وہ بھی چدائی کا مزہ لے سکے۔ ٹینا کو بھی اپنی چوت میں اب دوبارہ سے تھوڑی چکناہٹ محسوس ہورہی تھی جسکا مطلب تھا کہ اب اسکی چوت نے لن کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا اور اسکو پہلے کی نسبت آسانی کے ساتھ اندر باہر آنے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن ٹینا کی چوت میں ابھی تک مرچیں لگی ہوئی تھیں، جیسے ہی لن ٹینا کی پھدی کی دیواروں کو چیرتا ہوا اندر جاتا تو اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے کسی نے اسکی پھدی میں سرخ مرچ ڈال دی ہو اور اسکی وجہ سے جلن ہورہی ہو۔ اس نے عمران کو دوبارہ بھی کہا کہ اسکے بہت جلن ہورہی ہے پلیز لن باہر نکال لو اور انجلی کو چود لو جی بھر کے، مگر جب لن ایک بار کسی پھدی میں چلا جائے تو وہ آسانے سے باہر آنے کا نام نہیں لیتا۔ عمران کا لن بھی کسی صورت ٹینا کی پھدی سے نکلنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
کچھ دیر ٹینا کو گود میں اٹھائے چودنے کے بعد عمران نے ٹینا کو نیچے اتار دیا اور لن اسکی پھدی سے نکالا مگر فورا ہی اسکا منہ دوسری جانب کر کے ٹینا کی گانڈ اپنی طرف کی اور اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسکو آگے کی طرف جھکنے کا بولا ، ٹینا نہ چاہتے ہوئے بھی آگے جھکی تو عمران نے اپنا لن پیچھے سے ٹینا کی چوت کے سوراخ پر رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں دوبارہ سارے کا سارا لن ٹینا کی چوت میں اتار دیا۔ اب عمران نے ایک بار پھر ٹینا کی چوت میں طوفانی دھکے لگانا شروع کر دیے تھے۔ اب کی بار عمران جب ٹینا کی چوت میں لن اندر ڈال کر دھکا لگاتا تو ٹینا کے 34 سائز کے بڑے بڑے چوتڑ عمران کے جسم سے ٹکراتے جس سے دھپ دھپ کی آوازیں پیدا ہوتیں۔ دھپ دھپ کی آوازوں کے ساتھ ساتھ شاور سے پانی بھی ٹینا کی کمر پر گر رہا تھا جو بہتا ہوا ٹینا کے چوتڑوں کی طرف آرہا تھا۔ اس پانی کی وجہ سے بھی دھپ دھپ کی آواز واش روم میں گونج رہی تھی۔ اسکے ساتھ عمران ایک ہاتھ آگے بڑھا کر ٹینا کے ہلتے ہوئے مموں کو پکڑ پکڑ کر دبا رہا تھا جس سے ٹینا کی سسکیاں نکل رہی تھیں۔ انجلی جو کافی دیر سے ٹینا کی چودائی دیکھ رہی تھی اور بے چینی سے دوبارہ اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی اس نے ٹِنا کی چوت کا پانی جلدی نکلوانے کے لیے ٹینا کی چوت چاٹنا شروع کر دی تھی۔ ٹینا کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ کھڑی تھی، انجلی اسکے آگے سے آکر نیچے بیٹھ گئی اور اپنی ٹانگیں پھیلا کر آگے ہوگئی اور اپنی گردن اوپر اٹھا کر ٹینا کی چوت سے اوپر دانے پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔
انجلی کی زبان پر کبھی کبھی عمران کا لن بھی رگڑ لگاتا کیونکہ جہاں سے انجلی ٹِنا کی چوت چوس رہی تھی وہیں پر عمران کا لن بھی ٹینا کی پھدی کی بینڈ بجا رہا تھا۔ چوت میں عمران کا لن اور پھدی کے دانے پر انجلی کی زبان کی رگڑ نے ٹینا کی چوت میں ہلچل مچا دی تھی۔ اور واش روم اب ٹینا کی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ف ف ،، اف ف ف ف ف ف ف ف ف آہ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آوازوں سے گونج رہا تھا، ان سسکیوں کے ساتھ ساتھ دھپ دھپ کی آواز بھی ٹینا کی چوتڑوں اور عمران کے جسم کے ملاپ سے واش روم میں گونج رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں ٹینا کی سسکیاں تیز ہوگئیں اور اب اس نے عمران کو بتایا کہ وہ چھوٹنے والی ہے۔۔۔ انجلی نے جب یہ سنا تو وہ فورا پیچھے ہٹ گئی اور اپنی چوت میں انگلی داخل کر کے خود ہی انگلی اندر باہر کرنے لگی تاکہ عمران جب ٹینا کی چوت سے لن نکالے تو اسکو انجلی کی چکنی چوت چودنے کے لیے تیار ملے۔ چند مزید جھٹکوں کے بعد ٹِنا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔ سارا پانی ٹینا کی چوت سے نکلا تو عمران نے اسکی چوت سے لن باہر نکالا جو اس وقت ٹینا کے چکناہٹ والے پانی سے بھرا ہوا تھا، اور وہ بغیر انتظار کیے انجلی کی طرف آیا جو واش روم کی دیوار کے ساتھ کھڑی اپنی چوت میں انگلی کر رہی تھی۔ جیسے ہی عمرا ن انجلی کے قریب آیا انجلی نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر سائیڈ پر کر لی اور عمران کے لن کو چوت کا راستہ دکھایا، عمران نے انجلی کی ٹانگ کو اپنے بازو پر سہارا دیا اور بغیر انتظار کیے لن کی ٹوپی انجلی کی چوت کے سوراخ پر رکھی اور ایک ہی دھکے میں پورا لن انجلی کی چوت میں اتار دیا۔ انجلی کی مزے کی شدت سے ایک سسکاری نکلی اور اس نے آگے بڑھ کر عمران کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور انکو چوسنے لگی، جبکہ نیچے سے پچک پچک کی آوازوں کے ساتھ عمران کا لن انجلی کی چوت کی سیر کرنے میں مصروف تھا۔
انجلی نے عمران کے ہونٹ چوستے ہوئے اسے کہا جان مجھے بھی ٹینا کی طرح اپنی گود میں اٹھا کر چودو۔ یہ سن کر عمران نے انجلی کے نرم نرم چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھے اور اسکو ایک جھٹکے میں اپنی گود میں اٹھا لیا ، انجلی نے عمران کی گود میں آتے ہی اپنی ٹانگیں عمران کی کمر کے گرد کولہوں سے کچھ اوپر لپیٹ لیں اور ایک بار پھر سے عمران کے ہونٹے چوسنے لگی، جبکہ عمران ایک بازور انجلی کی کمر کے گرد لپیٹے اور دوسرا ہاتھ انجلی کے چوتڑوں کے نیچے رکھے اسکی چکنی پھدی میں گھسے لگانے میں مصروف تھا۔ اس پوزیشن میں عمران کے چودنے کی رفتار کچھ آہستہ تھی اور وہ مکمل طور پر لن بھی باہر نہیں نکال پا رہا تھا مگر انجلی کو اس پوزیشن میں چدوا کر بہت مزہ آرہا تھا۔ عمران کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے جب اسکا لن انجلی کی چوت کی گہرائی میں چوٹ لگاتا تو وہ بے اختیار عمران کے ہونٹوں کو چھوڑ کر ایک سسکی بھرتی اور آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی لمبی آواز نکالتی اور پھر سے عمران کے ہونٹوں سے رس پینے لگتی۔
عمران نے قریب 3، 4 منٹ انجلی کو گود میں اٹھا کر اسکی چودائی جاری رکھی، پھر وہ تھک گیا تو اس نے انجلی کی نیچے اتارا اور اسے واش روم سے نکل کر ساتھ والے کمرے میں جانے کو کہا۔ اور خود ٹینا کا ہاتھ پکڑ کر اسکو بھی اپنے ساتھ باہر کمرے میں لے آیا۔ وہاں جا کر عمران خود صوفے پر بیٹھ گیا اور انجلی کو دوبارہ سے اپنی گود میں آنے کو کہا، انجلی فورا عمران کی گود میں آگئی اور اپنی چوت کا سوراخ عمران کے لن کے اوپر کر کے ایک ہی جھٹکے میں اس کے لن پر بیٹھ گئی، 8 انچ کا لمبا لن انجلی کی چوت میں غائب ہوگیا تھا اور انجلی نے لن پر اچھلنا شروع کیا جس سے اسکے ممے ہوا میں لہرانے لگے جنکو عمران نے اپنے منہ میں لیکر ہلنے سے روکا اور نپلز کو چوس چوس کر انجلی کا دودھ پینے لگا۔ عمران جب انجلی کے نپلز کو زور سے چوستا تو انجلی کو ایک عجیب سا سرور ملتا کچھ دیر عمران کے لن پر اچھلنے کے بعد انجلی تھک گئی تو عمران نے انجلی کی گانڈ تھوڑی سی اوپر اٹھائی اور نیچے سے خود ہی انجلی کی چوت میں گھسے لگانا شروع کر دیے۔
اس دوران عمران نے ٹینا کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور انجلی سے آگے آکر صوفے پر کھڑی ہونے کو کہا۔ اب پوزیشن کچھ یوں تھی کہ انجلی عمران کی گود میں بیٹھی چودائی کروا رہی تھی جبکہ ٹینا انجلی اور عمران کے درمیان میں صوفے پر کھڑی تھی، ٹینا کی چوت عمران کے منہ کے بالکل سامنے تھی اور عمران کی زبان انجلی کی چوت کو چاٹ چاٹ کر اسکو مزہ دے رہی تھی۔ جبکہ عمران نے انجلی کو تیل والی شیشی پکڑا دی تھی جو وہ واش روم سے نکلتا ہوا اپنے ہاتھ میں اٹھا لایا تھا۔ انجلی تیل والی شیشی دیکھ کر عمران کا مطلب سمجھ گئی تھی۔ عمران ٹینا کی گانڈ مارنا چاہتا تھا۔ انجلی نے عمران کے لوڑے پر چدائی کرواتے ہوئے سامنے کھڑی ٹینا کے چوتڑوں کو پکڑ کر کھولا اور اسکی گانڈ اپنی زبان سے چاٹنے لگی۔ اب نیچے سے عمران کا لن انجلی کی چوت کی چدائی کر رہا تھا جبکہ اوپر ٹینا کی گانڈ پر انجلی کی زبان تھی جبکہ اسکی چوت کو عمران اپنی زبان سے چاٹنے میں مصروف تھا۔ انجلی اور ٹینا دونوں ہی مزے کی شدت سے سسکیاں لے لے کر کمرے کے ماحول کو گرما رہی تھیں۔
کچھ دیر ٹینا کی گانڈ چاٹنے کے بعد انجلی نے تیل والی شیشی کھولی اور اپنی انگلی اس شیشی میں ڈال کر اپنی انگلی کو چکنا کر لیا، اور پھر اپنی اس انگلی کو ٹینا کی گانڈ پر پھیرنی لگی۔ جب انگلی کا سارا تیل ٹینا کی گانڈ کے سوراخ کے باہر لگ گیا تو انجلی نے ایک بار پھر اپنی انگلی پر تیل لگایا اور ٹینا کی گانڈ پر انگلی پھیرتی رہی۔ اپنی گانڈ کے سوراخ پر انجلی کی انگلی رینگتی ہوئی محسوس ہوئی تو ٹینا کو پہلے سے زیادہ مزہ آنے لگا تھا، مگر وہ اس بات سے انجان تھی ابھی تک کہ اصل میں اسکی گانڈ میں عمران کا لوڑا جانے کو بے تاب ہورہا ہے۔ جب ٹینا کی گانڈ اچھی طرح چکنی ہوگئی تو اب انجلی نے اپنی انگلی کا پریشر گانڈ کے سوراخ پر بڑھایا اور اسکی انگلی کا اگلا حصہ ٹینا کی گانڈ میں گھس گیا۔ گانڈ میں انگلی محسوس کر کے ٹینا کی تو جیسے جان ہی نکل گئی، اس نے فورا انجلی کو انگلی نکالنے کا حکم دیا، مگر انجلی نے ٹینا کی گانڈ میں اپنی انگلی گھمانا جاری رکھااور ساتھ ساتھ اسکے چوتڑوں پر اپنے دانتوں سے پیار بھی کرنے لگی جس سے ٹینا کو مزہ آنے لگا تھا، مگر وہ ذہنی طور پر گانڈ مروانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔ کچھ دیر ٹینا کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد انجلی نے تیل کی شیشی سے کچھ تیل ٹینا کی گانڈ پر الٹایا اور دوبارہ سے اپنی انگلی ٹینا کی گانڈ میں ڈال کر اسکی گانڈ کو اندر سے بھی چکنا کرنے لگی۔ اس بار انجلی نے پہلے سے زیادہ انگلی ٹینا کی گانڈ میں گھسا دی تھی جس سے ٹینا کو ہلکی ہلکی تکلیف ہورہی تھی۔
ٹینا نے انجلی کو دوبارہ سے انگلی نکالنے کو کہا مگر اب انجلی کی آدھے سے زیادہ انگلی ٹینا کی گانڈ میں گول گول گھوم رہی تھی، جس سے ٹینا کو درد بھی ہورہی تھی مگر ساتھ ساتھ سرور بھی مل رہا تھا، اور سامنے سے ٹینا کی چوت پر عمران کی زبان اپنا جادو جگا رہی تھی جسکی وجہ سے ٹینا کو گانڈ میں ابھی خاص تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ 5 منٹ تک انجلی ٹینا کی گانڈ میں انگلی گھماتی رہی ، کبھی وہ اپنی انگلی سے ٹینا کی گانڈ کی چودائی کرتی اور انگلی اندر باہر کرتی تیزی کے ساتھ تو کبھی گانڈ کے اندر ہی انگلی کو گول گول گھماتی ۔۔۔ ٹینا کی گانڈ اب اندر سے کافی چکنی ہو چکی تھی اور وہ چدنے کے لیے تیار تھی، مگر ٹینا خود ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائی تھی کہ گانڈ میں انجلی کی انگلی ڈالنے کا مقصد ٹینا کو مزہ دینا نہیں بلکہ ٹینا کی گانڈ کو عمران کے لوڑے کے لیے تیار کرنا تھا۔ اسکا خیال تھا کہ عمران اب زیادہ انجلی کو ہی چودے گا کیونکہ اسکی چوت اس قابل نہیں تھی کہ اسکو مزید 3، 4 دن چودا جا سکے۔ اس دوران انجلی کی چوت بھی عمران کے لن کے گھسوں سے اب پانی چھوڑنے کے قریب تھی۔ اسکی سسکیوں میں پہلے کی نسبت کافی تیزی آچکی تھی اور اس نے ٹینا کی گانڈ میں انگلی کرنے کے ساتھ ساتھ اب عمران کو اپنے دھکوں کی رفتار بڑھانے کا کہ دیا تھا تاکہ وہ اپنی چوت کا سارا پانی نکال سکے۔ عمران نے انجلی کی حالت دیکھتے ہوئے اپنے دھکوں میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا تھا جس سے انجلی کی سسکیاں بہت بڑھ گئی تھیں اور کمرہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ،،،، اف ف ف ف ف ، آہ ہ ہ ہ ہ ، ،،، آہ ہ ہ ہ ہ ،،،،، آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ زور سے چودو عمران، اور زور سے۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ا۔۔۔۔۔۔۔ ام م م م م ۔۔۔ بہت مزہ آرہا ہے جانِ من تمہارے لن سے۔۔۔۔ میری چوت کا سارا پانی نکلوا دو آج۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔
عمران کے لن نے چند مزید دھکے انجلی کی چوت میں لگائے اور پھر انجلی کی چوت کی دیواریں آپس میں ملنے لگیں اور عمران کے لن کو مظبوطی سے پکڑنے لگی۔ عمران کو اپنا لن انجلی کی چوت میں پھنستا ہوا محسوس ہوا مگر اس نے دھکوں کی رفتار میں کمی نہیں کی اور اپنی پوری طاقت سے انجلی کی چوت میں گھسے لگانا جاری رکھے ۔ چند مزید جھٹکوں کے بعد انجلی کی چوت نے عمران کے لن پر گرم گرم پانی چھوڑ دیا جس سے عمران کا سارا لن انجلی کی چوت کے چکنے پانی سے بھر چکا تھا۔ عمران نے آخری جھٹکے آہستہ آہستہ لگائے اور جب انجلی کا سارا پانی نکل گیا تو وہ عمران کی گود سے نیچے اتر گئی اور عمران کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ جبکہ عمران کا لن ابھی تک ویسے کا ویسا ہی کھڑا تھا اور کسی اگلی چوت یا گانڈ کے انتظار میں تھا جس میں گھس کر وہ اسکو بھی چود سکے۔
عمران نے کہا چلو پھر تیار ہوجاو اصل چدائی کے لیے۔ یہ کہتے ہی عمران نے ٹینا کی چوت میں گھسے لگانے شروع کردیے۔ ٹینا کی چوت درد کی شدت کی وجہ سے خشک ہوچکی تھی اسی لیے جب عمران نے گھسے لگائے تو پہلے پہل تو ٹینا کو کافی تکلیف ہوئی اور وہ اپنا منہ زور سے دبائے تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش کرتی رہی، عمران کے لن کی رگیں ٹِنا کی چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھارہی تھیں اور ٹینا کو واقعی میں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اسکی چوت میں سبز مرچ رکھ دی ہو کسی نے جسکی جلن سے اسکی چوت جل رہی ہو۔ مگر پھر آہستہ آہستہ چوت نے عمران کے لن کو اپنے پانی سے گیلا کرنا شروع کیا تو عمران کا لن قدرے روانی کے ساتھ ٹینا کی چوت میں اندر باہر ہونے لگا جس سے ٹینا کو کچھ سکون محسوس ہوا اور اب وہ ہلکی ہلکی چیخوں کے ساتھ ساتھ سسکیاں بھی لے رہی تھی جس سے پتا لگ رہا تھا کہ اب اسے چدائی کا مزہ آنا شروع ہوا ہے۔ کچھ دیر کی چدائی سے ہی ٹینا کی چوت مکمل طور پر چکنی ہوچکی تھی ۔ اور اب عمران کا لن بہت ہی آرام کے ساتھ ٹینا کے چوت میں گھسے لگانے میں مصروف تھا
عمران اب ٹینا کے اوپر لیٹ چکا تھا اور اسکی باریک نائٹی کو بھی اتار کر اسکے ننگنے مموں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا جیسے جوسیری آم کو چوسا جاتا ہے ایسے ہی عمران ٹینا کے مموں کو اپنے ہاتھوں سے دبا کر اسکے نپلز کو چوس رہا تھا جیسے اندر سے مموں کا رس نکلنا ہو۔ ساتھ ساتھ عمران اپنے چوتڑوں کو اوپر نیچے ہلا ہلا کر ٹِنا کی چوت میں اپنا پمپ ایکشن جاری رکھے ہوئے تھا۔ نیچے چوت میں 8 انچ کا لن اور اوپر سے اپنے ممو ں کا چوسا جانا ٹینا کو اب مدہوش کر رہا تھا اور وہ مزے کی بلندیوں پر پہنچ رہی تھی۔ اسکی چوت میں آہستہ آہستہ گرمی بڑھتی جا رہی تھی اور اب وہ اپنی چوت کو عمران کے لن کے گرد جکڑنے کی بھی کوشش کر رہی تھی۔ کچھ دیر مزید ٹینا کے گول اور کسے ہوئے مموں کو جوسیری آم کی طرح چوسنے اور اسکی چوت میں اپنے لن سے نان سٹاپ دھکے لگانے کے بعد اب عمران لن کو باہر نکلاے بغیر ہی کروٹ لیکر لیٹ گیا تھا اور ٹینا کا منہ اپنی طرف کر لیا تھا۔
ٹینا کی ایک ٹانگ اوپر ہوا میں اٹھا کر عمران نے نیچے سے اسے اپنے ہاتھ سے سہارا دیا اور خود تھوڑا سا نیچے ہوکر لیٹ گیا اور ایک بار پھر ٹینا کی چوت میں اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اس پوزیشن میں لیٹنے کے بعد عمران کا لن ٹینا کی چوت میں سب سے زیادہ حسساس جگہ یعنیہ اسکی پھدی میں موجود جی سپاٹ کو رگڑ دے رہا تھا۔ جی سپاٹ عورت کی چوت کا وہ حسساس مقام ہوتا ہے جس پر اگر چودائی کے دوران لن رگڑلگائے تو عورت مزے کی بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے اور اس صورت میں اسکی چوت بہت جلدی پانی چھوڑ جاتی ہے۔ ٹینا کے لیے اس وقت مزے کی شدت سے اپنی سسکیوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہورہا تھا۔ آہ آہ آہ، او مائی گاڈ۔۔۔۔ فک می بے بی، فک می ہارڈ، آہ آہ۔۔۔۔۔۔ اف اف۔۔۔۔ یس بے بی، فک می لائک دِس۔۔۔ یس، یس یس۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ اف اف اف ۔۔۔۔ اوو۔۔۔ اوو۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ آوچ۔۔۔۔۔ ڈانٹ سٹاپ، فک می، فک می، آہ آہ۔۔۔۔۔ آئی ایم کمنگ بے بی۔۔۔ ڈانٹ سٹاپ آئ ایم کمنگ۔۔۔۔ کمرہ ٹینا کی ان آوازوں سے گونج رہا تھا اور کچھ مزید جاندار گھسے چوت کے اندر سہنے کے بعد ٹینا کی چوت نے عمران کے لوڑے کو مضبوطی سے جکڑ لیا اور اسکا جسم ایک دم ساکت ہوگیا مگر اسکی چوت نے کچھ جھٹکے کھائے اور اسکی چوت میں سیلاب آگیا۔ ٹینا کی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا تھا، آج سے پہلے اسکی چوت نے کبھی اتنا پانی نہیں چھوڑا تھا، جی سپاٹ پر عمران کے لن کی رگڑ نے اسکی چوت کی گرمی کو اتنا بڑھا دیا تھا کہ اسکی چوت سے نکلنے والا پانی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ عمران نے اس دوران اپنے دھکے روک دیے تھے تاکہ ٹینا کی چوت آرام سے اپنا پانی نکال سکے۔ کچھ دیر ٹیناکے جسم کو جھٹکے لگتے رہے اور اسکی چوت پانی چھوڑتی رہی۔ پھر جب سارا پانی نکل گیا تو ٹینا سکون سے نیچے لیٹ گئی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ اسکی پیاس بجھ چکی تھی اور اب وہ مکمل مطمئن تھی۔ اتنا سکون کبھی اسکو اجے سے چدوا کر نہیں آیا تھا جتنا آج عمران کی چودائی نے دیا تھا۔ مگر عمران کا لن ابھی تک کھڑا تھا اور اسکو بھی اپنا پانی نکالنا تھا۔
جب ٹینا کا سانس بحال ہوا تو عمران اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور ٹینا جو لیٹی ہوئی تھی اسکو اٹھنے کا بولا۔ ٹینا کی نظر لن پر پڑی تو وہ حیران ہوئی کہ یہ ابھی تک کھڑا ہے، اسکا خیال تھا کہ عمران بھی ٹینا کے ساتھ ہی فارغ ہوچکا ہے۔ وہ بولی ابھی اور چودنا ہے مجھے؟؟؟ عمران مسکرایا اور بولا ٹینا ڈارلنگ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔ یہ کر کر اس نے ٹینا کو اٹھنے میں مدد دی، وہ گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھی تھی، عمران نے ٹینا کو منہ دوسری طرف کرنے کو کہا اور بولا بیڈ کی ٹیک کے قریب ہوجاو اور اسکا سہارا لے لو۔ ٹینا بیڈ کی ٹیک کے قریب ہوگئی اور اپنے ہاتھ ٹیک کے ساتھ لگا کر اپنی گانڈ باہر نکال لی۔ عمران نے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس پر تھوڑا سا تھوک مسلا اور تینا کے 34 سائز کے بھرے ہوئے چوتڑوں پر ایک زور دار چماٹ ماری، جس سے ٹینا کی سسکی نکل گئی، پھر عمران نے اپنی ایک انگلی ٹینا کی چوت پر مسلی تو وہ خشک پڑی تھی، عمران نے اس پر انگلی پھیرنی شروع کی اور اپنے لگ کی ٹوپی کو ٹینا کی گانڈ پر رگڑنا شروع کیا ۔ ٹینا گانڈ پر لن لگتے ہی بولی نہیں عمران یہاں نہیں پلیز۔۔۔ عمران نے کہا فکر نہیں کرو، تمہاری چوت گیلی ہوجائے تو چوت میں ہی چدائی کروں گا۔ پھر عمران نے ٹینا کے چوتڑوں کو کھول کر اپنے لن کی موٹی گول ٹوپی ٹینا کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی۔ ٹینا ہولے ہولے کانپ رہی تھی جیسے اسے ڈر ہو کہ کہیں عمران اسکی گانڈ کے باریک سے سوراخ میں ہی اپنا موٹا لن نا گھسا دے۔ مگر عمران کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ تو محض ٹینا کو جلد سے جلد گرم کرنا چاہتا تھا تاکہ اسکی چوت میں چکناہٹ پیدا ہو اور وہ دوبارہ سے ٹینا کی چودائی شروع کر سکے۔
کچھ ہی دیر انگلی رگڑنے سے ٹینا کی خشک چوت گیلی ہوچکی تھی اور دوبارہ سے لن لینے کے لیے تیار تھی۔ اب عمران بھی گھٹنوں کے بل تھوڑا سا آگے ہوا اور ٹینا کے چوتڑوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا، ٹینا کی کمر میں تھوڑا سا خم آگیا تھا، وہ ہلکی سی آگے جھکی ہوئی تھی بیڈ کا سہارا لیکر جس کی وجہ سے اسکی چوت تک عمران کے لن کی رسائی آسان ہوگئی تھی۔ عمران نے اپن لن کی ٹوپی کو ٹینا کی چوت پر سیٹ کر کے اسکو تھوڑا سا رگڑا اور پھر آہستہ آہستہ اس پر دباو بڑھانا شروع کیا تو لن سارے کا سارا اندر چلا گیا۔ اس دوران ٹینا کی آہ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔آۃ۔۔۔۔۔۔ چلتی رہی۔ جب سارا لن اندر چلا گیا تو عمران نے ایک بار ٹوپی کے علاوہ باقی کا لن باہر نکالا اور ایک گھسا مارا۔ ٹینا کی پھر چیخ نکلی اور عمران کا سارا لن اندر پھسلتا چلا گیا۔ ایک بار پھر عمران نے اپنے لن کا شافٹ باہر نکالا اور اس بارے قدرے زور کا گھسا مارا اور لن جڑ تک ٹینا کی چوت میں چلا گیا، پھر عمران نے روانی کے ساتھ ٹینا کی چوت میں دھکے لگانے شروع کر دیے اور ٹینا کی بھی ہلکی ہلکی سسکیاں شروع ہوگئیں۔ عمران کے ہر گھسے پر عمران کا زیرِ ناف حصہ ٹینا کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں سے ٹکراتا تو دھپ دھپ کی آواز آتی، ٹینا کے چوتڑ بھی اس وقت جیلی کی طرح ہل رہے تھے اور دھپ دھپ کی سیکسی آوازیں نکال رہے تھے جبکہ ٹینا کی اپنی سسکیاں ماحول کو اور بھی زیادہ سیکسی بنا رہی تھیں۔ عمران کا ایک ہاتھ ٹینا کے بائیں چوتڑ پر تھا اور وہ تھوڑا سا پیچھے ہوکر اپنا نچلا حصہ آگے کی طرف کھینچ کر تیز تیز دھکے لگا رہا تھا جس سے لن کا زیادہ تر حصہ ٹینا کی چوت میں جا کر چودائی کر رہا تھا۔ اس دوران عمران بیچ بیچ میں ٹینا کے گوشت سے بھرے چوتڑوں پر تھپڑ بھی مارتا جس پر ٹینا ایک آوچ کی آواز نکالتی۔
کچھ دیر تک اسی پوزیشن میں ٹینا کی جم کر چدائی کرنے کے بعد عمران نے اپنی سپیڈ آہستہ آہستہ سلو کر لی اور پھر بالکل ہی رک گیا۔ ٹینا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولی نکل گیا؟؟؟ عمران مسکرایا اور بولا اتنی جلدی بھی کیا ہے جانِ من، ابھی تمہاری چکنی چوت کا جی بھر کر مزہ تو لینے دو۔ ٹینا نے حیرانگی سے عمران کی طرف دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ اپنی گانڈ ہلانی شروع کر دی۔ ٹینا عمران کے سٹیمنا سے متاثر ہوئی تھی وہ پچھلے 20 منٹ سے چدائی کروا رہی تھی اور عمران بغیر رکے اسکی چوت میں دھکے لگا رہا تھا مگر ابھی تک وہ ایک بار بھی فارغ نہیں ہوا تھا۔ جبکہ ٹینا کو پہلے عمران نے اپنی زبان سے چوت چاٹ کر فارغ کروایا پھر لن سے پھدی مار کر فارغ کروایا اور اب ٹینا کو لگ رہا تھا کہ وہ تیسری بار فارغ ہونے والی ہے۔
عمران ابھی تک ساکت تھا اور ٹینا اپنی گانڈ ہلا ہلا کر خود ہی اپنی چودائی کر رہی تھی، گو کہ اس طرح چودائی کی رفتار بہت آہستہ تھی مگر پھر بھی ٹینا اور عمران دونوں کو ہی اس طرح مزہ آرہا تھا۔ ٹینا اپنی گانڈ کو گول گول گھما کر اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں گانڈ گھماتے ہوئے عمران کے لن کی ٹوپی ٹینا کی چوت کی گہرائی میں اسکی چوت کی دیواروں پر گول گول گھوم رہی تھی۔ پھر ٹینا نے تھوڑی دیر کے بعد اپنی گانڈ کو آگے پیچھے ہلانا شروع کر دیا اور کوشش کرنے لگی کہ جب وہ آگے کی جانب جائے تو عمران کی ٹوپی اسکی چوت میں ہی رہ جائے باقی شافٹ باہر نکل آئے اور جب جب واپس پیچھے کی طرف جائے تو سارے کا سارا لن اسکی چوت میں غائب ہوجائے۔ مگر اسکی تمام تر کوشش کے باوجود بھی 3 انچ لن اسکی چوت کے باہر ہی رہتا۔ تھوڑی دیر مزید صبر کرنے کے بعد اب عمران ایک بار پھر ٹینا کی چوت میں اپنا لن ہلانے لگا، اور آہستہ آہستہ اپنی رفتار بڑھانے لگا۔ اب کی بار ٹینا نے ہلنا جلنا چھوڑ دیا تھا مگر عمران کے ہر دھکے پر وہ آگے کی طرف دھکیلی جاتی۔ اور جب عمران لن باہر نکالتا تو ٹینا اپنی گانڈ کو کچھ پیچھے کی طرف لاتی اور اگلے دھکے پر دوبارہ سے آگے کی طرف دھکیلی جاتی ، اب عمران اپنی رفتار میں بہت زیادہ اضافہ کر چکا تھا اور ٹینا کی چوت میں ایک بار پھر خارش ہونے لگی تھی۔ جسکا مطلب تھا کہ اسکی چوت دوبارہ سے پانی چھوڑنے والی ہے۔
اب عمران نے ٹینا کے نیچے لٹکتے اور گول گول گھومتے مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر دبا لیا تھا۔ اور پیچھے سے اسکی چوت میں طوفانی دھکوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ اس پوزیشن میں عمران کا زیرِ ناف حصہ اور ٹِنا کے چوتڑ ایکدوسرے کے کافی قریب تھے کیونکہ عمران نے آگے بڑھ کر ٹینا کے ممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے۔ عمران اور ٹینا کے جسم کے ملاپ سے پیدا ہونے والی دھپ دھپ کی آواز اب کافی تیز تھی اور اسکے ساتھ ٹیا کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں اور اب ٹینا دوبارہ عمران کو بتا رہی تھی آئی ایم کمنگ بے بی، ونس مور آئی ایم کمنگ، فک می ہارڈ، یے بے بی، فک می ہارڈ، ہارڈر، مور ہارڈ۔۔۔۔ فک می لائک اے بچ، فک می ۔۔۔۔۔ آہ۔۔ آہ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ کمنگ۔۔۔ کمنگ۔۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی ٹینا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ ٹینا کی چوت میں پانی کی ندی بہ رہی تھی مگر عمران کا لن رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وہ دھکے پر دھکے لگا رہا تھا اور ٹینا کی چوت اب سارا پانی چھوڑںے کے بعد بہت آسانی کے ساتھ لن کے لیے جگہ بنا رہی تھی۔ ٹینا کی چوت کا پانی اندر بھرا ہوا تھا اور اس نے عمران کے لوڑے کو بھی چکنا کر دیا تھا، جسکی وجہ سے اب لن ایسے اندر باہر جا رہا تھا جیسے تیل لگانے کے بعد کسی دروازے کی کنڈی روانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے کھلتی اور بند ہوتی ہے۔ کچھ دیر تک عمران نے اسی طرح ٹینا کی چوت میں مشین چلائے رکھی اور پھر اسکے ممے چھوڑ کر اپنے دھکے کم کرنے لگا اور چند دھکوں کے بعد اس نے دھکے بالکل ہی بند کر دیے۔ اور اپنا لن ٹینا کی چکنی چوت سے باہر نکال لیا۔
ٹینا اب بری طرح سے تھک چکی تھی اور اسمیں مزید چدائی کروانے کی ہمت نہیں تھی، مگر عمران کا لوڑا ابھی مزید چودنے کے چکر میں تھا۔ عمران نے لن نکالا تو ٹینا سمجھی کہ اسکی جان چھوٹ گئی ہے۔ وہ لن نکلنے کے بعد لیٹنے لگی تو عمران نے اسکو گانڈ سے پکڑ لیا اور بولا ابھی نہیں میری جان ، ابھی میرا پانی نکلنا رہتا ہے۔ ٹینا نے یہ سنا تو بولی یہ کسی انسان کا لوڑا ہے یا پھر کسی گھوڑے کا ہے جو چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا؟؟؟ عمران مسکرایا اور بولا بس جان تھوڑی دیر اور۔ تم یہ چدائی زندگی بھر یاد رکھو گی۔ اب عمران نے ٹینا کو ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا تو ٹینا نے کہا، بس کرو عمران میں بہت تھک گئی ہوں، مگر عمران کہاں رکنے والا تھا، اس نے ٹینا کو چوتڑوں سے پکڑ کر پیچھے کھینچا اور اسکی گانڈ اپنے لن کے قریب لے آیا، ٹینا اب نا چاہتے ہوئے بھی گھوڑی بن گئی تھی یعنی ڈاگی سٹائل میں چدوانے کے لیے پوزیشن لے چکی تھی۔ عمران نے اپنا لن ٹینا کی چوت پر فٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا لن ٹینا کی چوت میں اتار دیا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے زیادہ کی چودائی سے اب سوج کر پھدی سے پھدا بن چکی تھی۔ لن اندر جاتے ہی عمران نے اپنی مشین چلا دی اور فل سپیڈ کے ساتھ ٹینا کو چودنا شروع کر دیا۔ ٹینا کے ممے ہوا میں لٹک رہے تھے جو عمران کے ہر دھکے پر آگے پیچھے ہلتے تھے اور ٹینا کی ہر دھکے پر سسکی نکلتی تھی۔ گو کہ وہ کافی تھک چکی تھی اور اسکی چوت اب تھوڑا آرام چاہتی تھی مگر اسکے باوجود عمران کے ہر دھکے پر ٹینا کو ایک سرور سا ملتا تھا اور اسکی ایک سسکی نکلتی تھی۔
عمران طوفانی انداز میں ٹینا کو چود رہا تھا اور ابھی بھی ٹینا کے چوتڑ عمران کے جسم سے ٹکرا کر کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ اور ٹینا کی چوت جو پانی سے بھری ہوئی تھی عمران کے لن کے اندر آنے پر پچک پچک کی آوازیں نکال رہی تھی۔ کچھ دیر مزید ایسے ڈاگی بن کر چدائی کروانے کے بعد ٹینا کے لیے اب اس پوزیشن کو برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا، اس نے اپنے ہاتھ سائیڈ پر پھیلا لیے اور آگے سے پورا جسم جھکا کر بیڈ کے ساتھ لگا لیا، اسکا چہرہ اب بیڈ کے ساتھ لگا ہوا تھا اور منہ اس نے سائیڈ پر موڑ لیا تھا اور اسکے بازو بھی بیڈ کے ساتھ لگے ہوئے تھے، مگر اسکی گانڈ ابھی تک اتنی اونچی تھی کہ پیچھے سے عمران با آسانی اسکی چدائی جاری رکھے ہوئے تھا۔ پھر عمران نے ٹینا کی چوت سے اپنا لن نکالا اور ٹینا کے منہ کے قریب لے گیا ٹینا کی چوت کا پہلے ہی چدوا چدوا کر برا حال ہوچکا تھا اس نے شکر کیا کہ عمران نے اسکی چوت کی جان چھوڑی اب ٹینا نے سوچا کہ چلو منہ میں لیکر ہی اس جن نما انسان کی منی نکال دیتی ہوں، ٹِنا نے فورا ہی لن منہ میں لیا اور چوپے لگانا شروع کر دیے۔ ٹینا کی چوت کے رس کا ذائقہ ٹینا کو اب اپنے منہ میں محسوس ہورہا تھا کیونکہ عمران کا لن ٹینا کی چوت کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ ٹینا بڑی بےتابی سے عمران کا لن چوس رہی تھی کیونکہ وہ جلد سے جلد عمران کو فارغ کروانا چاہتی تھی۔
مگر عمران تھا کہ فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ تھوڑی دیر چوپے لگوانے کے بعد عمران اب بیڈ پر لیٹ گیا اور ٹینا کو اپنے اوپر آنے کو کہا۔ مرتی کیا نا کرتی ٹینا کو عمران کے اوپر آنا ہی پڑا، ٹینا اپنے گھٹنوں کے بل عمران کے اوپر آکر بیٹھ گئی تو عمران نے اپنے لن کا ٹوپا پکڑ کر ٹینا کیچ چوت پر فِٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں ٹینا کی چکنی چوت میں اپنا لن گھسا دیا، اور نیچے سے ٹینا کی چوت پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے۔ عمران کو بھی اب تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تھی مگر اسکا لن تھا کہ ہار ماننے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ عمران خود بھی حیران تھا کہ آج تو کچھ زیادہ ہی لمبی چودائی ہوگئی ہے۔ ٹینا اب عمران کے اوپر جھکی ہوئی تھی، عمران نے ٹینا کو تھوڑا سا آگے کیا اور اسکے پیارے پیارے ممے اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا، اسنے اپنا ایک ہاتھ پیچھے لیجا کر ٹینا کی گانڈ پر پھیرنا شروع کیا اور نیچے سے اپنے لن کے گھسوں کی رفتار اور بھی بڑھا دی۔ گانڈ پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے عمران نے اپنے ہاتھ کی بڑی انگلی ٹینا کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر دباوڈالا تو انگلی گانڈ کے اندر چلی گئی اور ساتھ ہی ٹینا کی سسکی بھی نکلی۔ عمران نے انگلی کا دباو بڑھانا جاری رکھا اور آہستہ آہستہ آدھی انگلی ٹِنا کی گانڈ میں اتار دی۔ چوت میں تو پہلے ہی مرچیں لگی ہوئی تھیں اب ٹینا کی گانڈ میں بھی مرچیں لگ گئیں تھیں۔ اور اب ٹینا مسلسل اوہ، اوہ، آہ آہ۔۔۔۔۔۔ اف، ، آہ آہ۔۔۔۔ ام آہ۔۔۔۔ اف اف آوچ آہ آہ آہ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ ٹینا کے نپل عمران کے منہ میں تھے، اسکی گانڈ میں عمران کی انگلی تھی اور چوت میں عمران کا 8 انچ لمبا لن چدائی کر رہا تھا ٹینا کو مزہ بھی بہت آرہا تھا مگر اتنی لمبی چودائی نے اسکا انگ انگ ہلا کر رکھ دیا تھا اور دعائیں کر رہی تھی کہ اے بھگوان کسی طرح اس لن کی منی نکلوا دے۔
اچانک ٹینا کے موبائل پر بیل ہونے لگی، ٹینا حیران ہوئی کہ رات کے 3 بجے کس کی کال ہو سکتی ہے۔ اسکا موبائل بیڈ پر ہی تکیے کے ساتھ پڑا تھا ٹینا نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو یہ مکیش کی کال تھی۔ ٹینا نے عمران کے اوپر اچھلتے ہوئے کہا اس بھڑوے کو بھی ابھی کال کرنی تھی۔ عمران نے پوچھا کس کی کال ہے تو ٹِنا نے بتایا کیپٹن مکیش کی کال ہے۔ عمران نے کہا اٹینڈ کر لو اور اسکو اپنی آوازیں سنوا دو پھر کال نہیں کرے گا۔ ٹینا نے عمران کی بات سنی اور اسکی آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ وہ جانتی تھی کہ کیپٹن مکیش کی گندی نظریں ٹینا کے جسم پر رہتی ہیں اور اسکا لن ٹینا کو چودنے کے لیے بے تاب رہتا ہے مگر اسکے پاپا کی وجہ سے کیپٹن مکیش نے کبھی کوئی قدم نہیں بڑھایا تھا۔ یہ اچھا موقع تھا اسکو جلانے کا۔ ٹینا جو پہلے عمران کے اوپر جھکی ہوئی تھی اب اٹھ کر بیٹھ گئی مگر اسکی چوت میں ابھی تک عمران کا لن گھسے مار رہا تھا۔ ٹینا نے کال اٹینڈ کی اور بولی :
آہ آہ۔۔۔۔ ایک منٹ عمران۔۔۔ ہیلو، یہ کونسا ٹائم ہے کال کرنے کا۔؟؟؟
مکیش کو صحیح سمجھ نہیں آئی کہ یہ ٹینا نے ایک منٹ عمران کیوں بولا اس نے کچھ نا سمجھتے ہوئے کہا میڈیم آپکی خیریت معلوم کرنی تھی کیا آپ خیریت سے گوا پہنچ گئی ہیں؟؟
آگے سے ٹینا کی آوا آئی، ہاں میں آہ آہ۔۔۔۔۔ اف عمران جان تھوڑی دیر کو رک جاو نا۔۔۔۔ ہاں میں پہنچ گئی تھی۔۔۔ آہ آہ آوچ۔۔۔۔ تم کب۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ تم کب پہنچے؟؟/
اب کیپٹن مکیش سمجھ گیا تھا کہ ٹینا اس وقت عمران کے لن کی سواری کر رہی ہے۔ یہ سوچتے ہی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی وہ جو اتنے عرصے سے ٹینا کو چودنے کی خواہش دل میں لیے بیٹھا تھا عمران 1 دن پہلے ٹینا سے ملا اور آج اپنا لن اسکی چوت میں بھی گھسا دیا ہے۔ مگر اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا میڈیم میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی گوا پہنچا ہوں۔ آپ نے کہاں سٹے کیا ہے؟ اور آپکے ساتھ جو لڑکی تھی اس نے کہاں سٹے کیا ہے؟
آگے سے ٹینا کی اف۔ اف، اف، آوچ، آہ آہ کی مسلسل آوازیں مکیش کے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ٹینا کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور اب وہ خود بھی عمران کے لن کے اوپر اچھل اچھل کر اپنی چودائی کروا رہی تھی، اسکو اب بے حد مزہ آنے لگا تھا چودائی کا۔ اس نے عمران کے لن کے اوپر اچھلتے اچھلتے کہا میں عمران آہ آہ عمران کے ساتھ ہوں۔۔۔۔ آہ آہ اور بیچ پر ہٹ لیا ہے۔۔۔۔ آہ آہ کم آن بے بی، آئی ایم کمنگ، فک می ہارڈ بے بی، فک می ہارڈ، آئی ایم کمنگ آہ آہ۔۔۔۔ ایک منٹ مکیش، رکو آہ آہ رکو زرا۔۔۔۔ آہ آہ عمران بے بی،، فک می ہارڈر، آئی لو یو۔۔۔۔ آہ آہ بہت مزہ آرہا ہے بے بی۔۔۔ فک می، بس میں فارغ ہونے لگی ہوں آہ، ہارڈر بے بی، آہ، ڈانٹ سٹاپ، فک می ، فک می۔۔۔ آہ آہ۔۔۔ آہ، ٹینا کی سسکیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں اور ساتھ ہی اب عمران کی بھی کچھ سسکیاں نکلیں اور عمران کے لن سےگاڑھی منی کا فوارہ نکلا اور اس نے ٹینا کی چوت کے اندر پانی پانی کر دیا، عمران کے گرم گرم لاوے کا احساس ہوتے ہی ٹینا کی چوت نے بھی عمران کے لن کو اپنی گرمی سے نہلانا چاہا اور پانی چھوڑی دیا۔ اس دوران ٹینا کی سسکیاں اور چیخیں مکیش کے لیے کسی گالی سے کم نہیں تھیں۔ وہ فون بھی بند نہیں کر سکتا تھا کہ کہیں کرنل صاحب کی بیٹی برا نا مان جائیں اور ان آوازوں کو سننے کا حوصلہ بھی ان میں نہیں تھا۔
مگر ٹینا کی مزے سے بھرپور ان سسکیوں کو سن کر مکیش نے دل میں مسمم ارادہ کر لیا تھا کہ زندگی میں ایک بار وہ ٹینا کی چوت میں اپنا لن لازمی ڈالے گا اور اسے ایسے چودے گا کہ وہ یہ مزہ بھول جائے گی۔ بالآخر کچھ دیر بعد مکیش کو ٹینا کی آواز دوبارہ سنائی دی، اور وہ بولی ہاں مکیش تم کیا کہ رہے تھے؟؟؟ پھر خود ہی ٹینا بولی کہ ہاں وہ میری فرینڈ انجلی وہ علیحدہ ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہے اسکے ساتھ ہی ٹِنا نے مکیش کو اس ہوٹل کا نام بھی بتا دیا اور اپنی آواز میں تھوڑی شرارت بھرتے ہوئے پوچھنے لگی اور کچھ سننا چاہو گے؟؟؟ مکیش جو پہلے ہی غصے میں تھا اس نے جل کر جواب دیا بہت بہت شکریہ، اور یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا جب کہ ٹینا عمران کے گلے لگ کر اونچے اونچے قہقہے لگانے لگی۔ عمران نے اسکو 45 منٹ تک چودا تھا اور اس دوران عمران محض کچھ منٹس کے لیے ہی رکا ہوگا ورنہ عمران کا مضبوط لن مسلسل ٹینا کی چوت میں گھسے مارتا رہا تھا جس سے ٹینا کی چوت کا برا حال ہوگیا تھا ور وہ بری طرح تھک گئی تھی، مگر منی نکالتے ہوئے ٹینا نے عمران کے کہنے پر جو شرارت کی تھی اس نے ٹینا کو فریش کر دیا تھا اور وہ اپنی چوت کی چدائی سے ہونے والی تھکاوٹ کو بھول گئی تھی۔
انجلی نے جام تیار کرنے کے بعد اپنے موبائل پر ویڈیو ریکارڈنگ آن کر کے اسے سامنے لگے سٹینڈ کے ساتھ فِکس کر دیا جہاں سے اسکی اور لوکاٹی کی ویڈیو بن سکے۔ لوکاٹی کی نظریں تو انجلی کی موٹی گانڈ اور اسکے ننگے جسم پر تھی اسے اس بات کا کوئی ہوش نہیں تھا کہ انجلی ویڈیو ریکارڈنگ آن کر آئی ہے۔ ریکارڈنگ آن کرنے کے بعد انجلی اپنی گانڈ کو دائیں بائیں گھماتے اور لچکاتے ہوئے چلتی ہوئی لوکاٹی کے قریب پہنچ گئی تھی۔ وہاں پہنچ کر وہ لوکاٹی کی دائیں ٹانگ پر بیٹھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ایک ہاتھ سے لوکاٹی کو جام پلانے لگی۔ لوکاٹی نے للچاتی ہوئی نظروں سے انجلی کے 36 سائز کے مموں کو دیکھا جو ابھی تک برا میں چھپے ہوئے تھے اور انجلی کے ہاتھوں سے جام پینے لگا۔ انجلی نے ایک ہی جھٹکے میں لوکاٹی سے پورا جام خالی کروا لیا تھا جسکے بعد اب اس پر مکمل نشہ طاری ہوچکا تھا، انجلی کا اپنا گلا بھی چدائی کے بعد خشک ہوچکا تھا جو اس نے اپنے دوسرے ہاتھ میں موجود جوس کا گلاس پی کر تر کیا۔ جوس کا گلاس پینے کے بعد انجلی نے جام اور گلاس ساتھ پڑی ٹیبل پر رکھ دیا اور اب لوکاٹی کی گود سے اتری مگر دوبارہ لوکاٹی کی گود میں اس طرح بیٹھ گئی کو اس نے اپنی دونوں ٹانگیں سائیڈ پر پھیلا لیں تھیں اور انجلی کی چوت اور لوکاٹی کا مرجھایا ہوا لن بہت قریب ہوگئے تھے، انجلی نے اپنے گھٹنوں کی مدد سے تھوڑا سا اپنے آپ کو اوپر اٹھایا اور اپنے ممے لوکاٹی کے چہرے کے قریب کر دیے، انجلی کے خوبصورت مموں کو اتنا قریب دیکھ کر لوکاٹی سے رہا نہیں گیا اور اس نے کسی بچے کی طرح جسکو بہت مشکل سے اسکا پسندیدہ کھلونا ملا ہو، انجلی کے مموں سے کھیلنا شروع کر دیا۔ لوکاٹی نے اپنے دونوں ہاتھ انجلی کے مموں پر رکھے ہوئے تھے اور انکو زور زور سے دبارہا تھا جبکہ اسکی زبان انجلی کے مموں کے درمیان ہونے والے ملاپ پر تھی۔
کچھ دیر لوکاٹی اسی طرح انجلی کے مموں کو دباتا رہا اور اپنی زبان اسکے مموں کی درمیانی لائین پر پھیرتا رہا، تب انجلی نے لوکاٹی کا چہرہ اوپر اٹھایا اور بولی جان صرف چاٹتے ہی رہو گے میرے مموں کو؟ انکو دیکھنا نہیں چاہو گے کیا؟ لوکاٹی نے کہا ہاں ہاں دکھاو مجھے اپنے پیارے پیارے سے ممے۔ انجلی اپنے دونوں ہاتھ کمر پر پیچھے کی طرف لے گئی اور اپنے برا کی ہُک کھول دی، مگر اس نے اپنا برا اتارا نہیں، اپنے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر رکھ لیے اور بولی جان پہلے یہ بتاو کیا میرے ممے کھانا پسند کرو گے؟؟؟ لوکاٹی جو اس وقت اپنے ہوش میں نہیں تھا وہ کسی بچے کی طرح جواب دے رہا تھا، ہاں ہاں میں تمہارے یہ بڑے بڑے ممے کھاجاوں گا، مجھے دکھاو جلدی سے۔۔۔۔ انجلی نے پوچھا اور یہ بتاو میرے چھوٹے چھوٹے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوسو گے؟؟؟ لوکاٹی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا ہاں میں تمہارے نپلز منہ میں لے کر زور زور سے چوسوں گا، اپنی انگلیوں سے پکڑ کر انکو مروڑ دوں گا، اپن پر اپنے دانتوں سے کاٹوں گا، پلیز مجھے اپنے یہ دودھ سے بھرے ہوئے ممے دکھاو۔ انجلی جو اپنے ہاتھوں کو اپنے مموں پر ہی رکھ کر بیٹھی تھی اس نے اپنے برا کو پکڑ کا اپنے مموں سے اوپر اٹھا دیا اور اپنی گردن سے برا نکال کر دور پھینک دیا۔
لوکاٹی اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انجلی کے ابھرے ہوئے اور کسے ہوئے ممے دیکھنے لگا۔ برا اتارنے کے باوجود انجلی کے ممے نیچے نہیں ڈھلکے بلکہ اب بھی پوری شان کے ساتھ انجلی کے سینے پر ایسے پڑے تھے جیسے کسی نے بڑے سائز کی گیند کسی کے سینے پر رکھ دی ہو۔ لوکاٹی کچھ دیر تک تو انجلی کے تنے ہوئے مموں کو دیکھتا رہا پھر ایک دم اسکے مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبا دیا اور اپنا منہ انجلی کے ایک ممے پر رکھ کر اسکو چوسنے لگا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے لوکاٹی انجلی کے دوسرے ممے کو دبانے لگا۔ لوکاٹی کبھی انجلی کے ممے کو منہ میں لیکر چوستا تو کبھی اس پر اپنی زبان پھیرتا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے انجلی کا نپل پکڑ رکھا تھا جسکو وہ ہولے ہولے رگڑ رہا تھا اور انجلی کے منہ سے سسکیاں اونہہ،، اونہہ،، آوچ، آہ، آہ آہ آہ، اونہہ، اف آہ آہ نکل رہی تھیں۔ لوکاٹی کو ایسے تروتازہ ممے کافی عرصے بعد نصیب ہوئے تھے زیادتر وہ گشتیوں پر ہی گزارہ کرتا تھا جنکے ممے ڈھلکے ہوئے ہوتے تھے اور ان میں ایسی جان نہیں ہوتی تھی جو انجلی کے مموں میں تھی۔ اب لوکاٹی نے انجلی کا پہلے والا مما منہ سے نکالا اور دوسرے ممے کو منہ میں لیکر چوسنے لگا اور اب اسکے دونوں ہاتھ انجلی کی کمر پر مساج کر رہے تھے۔ کبھی کبھی اسکا ایک ہاتھ انجلی کے چوتڑوں کو بھی پکڑ کر دبا دیتا اور واپس پھر کمر کا مساج کرنے لگتا، انجلی مزے کی شدت سے کراہ رہی تھی اور اسکا جسم انگڑائیاں لے رہا تھا اس نے اپنے ہاتھ لوکاٹی کے بالوں میں پھساے ہوئے تھے اور اسکے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی جبکہ لوکاٹی اب اپنے دانتوں سے انجلی کے مموں کو کاٹ رہا تھا جس سے انجلی کی سسکیوں میں اور بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔
لوکاٹی کا لن ابھی تک ڈھیلا تھا اور اسکا سائز مشکل سے 2 انچ کے برابر ہوگا۔ مگر انجلی کی چوت اس وقت انگارہ بنی ہوئی تھی جس کو ہاتھ لگاو تو ہاتھ جل جائے۔ انجلی کی چوت سے نکلنے والا تھوڑا تھوڑا پانی اس انگارے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس انگارے کی حدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب انجلی نے لوکاٹی کو چہرے سے پکڑ کر اپنے مموں سے دور ہٹایا اور بولی جان مجھے اندر بیڈ پر لیجا کر چودو۔۔۔ تو لوکاٹی فوری اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور بولا چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں، انجلی اسکی گود میں ہی تھی انجلی نے کہا جانو تم نے باہر مجھے بہت اچھے سے چودا ہے، میں چاہتی ہوں کہ اب تم مجھے چودو تو میں اپنی چودائی کی ویڈیو بھی بناوں، لوکاٹی جو نشے میں دھت تھا اسے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی اس نے کہا ہاں بنا لو، تو انجلی اسکی گود سے اتری اور اپنا موبائل جس پر پہلے سے ویڈیو بن رہی تھی وہ اٹھا لائی اور لوکاٹی کو ایک بار پھر اسکے مرجھائے ہوئے لن سے پکڑ کر بیڈ روم میں لے گئی۔ بیڈ روم میں جا کر انجلی خود جلدی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور کیمرے کا رخ لوکاٹی کی طرف کر دیا اور بولی چلو اب میرے جسم پر پیار کرو، لوکاٹی فورا انجلی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسکے مموں پر ٹوٹ پڑا اور انجلی کے اوپر لیٹ کر اسکے مموں کو چوسنے لگا، انجلی سسکیاں بھی لیتی جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ لوکاٹی کی ویڈیو بھی بنا رہی تھی۔ ممے چوستے چوستے لوکاٹی آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جانے لگا اور انجلی کے پیٹ سے ہوتے ہوئے اسکی ناف میں اپنی زبان ڈال کر پیار کرنے لگا، انجلی کی سانسیں اب دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور اگر کیمرے سے بنتی ہوئی ویڈیو کو دیکھا جاتا تو سب سے آگے انجلی کے بڑے بڑے ممے نظر آرہے تھے جن پر چھوٹے چھوٹے نپل بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے اور اس سے آگے لوکاٹی کا سر نظر آرہا تھا جو انجلی کے گورے بدن پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اپنی زبان سے انجلی کی ناف میں پیار کر رہا تھا۔ پھر لوکاٹی مزید نیچے گیا اور انجلی کی چوت سے کچھ اوپر اپنی زبان پھیرنے لگا اور اپنے ہاتھ انجلی کی بالوں سے پاک نازک نرم و ملائم ٹانگوں پر پھیرنے لگا۔ پھر لوکاٹی مزید نیچے گیا اور اپنی زبان انجلی کی تھائی سے لیکر اسکے پاوں تک مسلتا چلا گیا۔ پھر لوکاٹی نے انجلی کی ٹانگیں اوپر اٹھا لیں اور اسکی گانڈ بھی اوپر کر دی اور خود نیچے لیٹ کر اسکے چوتڑوں پر اور اسکی پینٹی کی سائیڈز پر پیار کرنے لگا۔ وہ کسی رومانٹک شوہر کی طرف انجلی کے جسم پر پیار کر رہا تھا اور انجلی کو یہ سب بڑا اچھا لگ رہا تھا۔
کچھ دیر انجلی کے چوتڑوں اور اسکی پھدی کے آس پاس کی جگہ پر پیار کرنے کے بعد انجلی نے لوکاٹی کو کہا کہ جانو میری پینٹی اتار کر میری چوت کا بھی نظارہ کرو اور مجھے بتاو تمہیں میری چوت کیسی لگی۔ لوکاٹی نے فوری انجلی کی گیلی پینٹی اتار دی اور اسکی چوت کو غور سے دیکھنے لگا، مگرپھر بغیر کچھ بولے اس نے اپنی زبان نکالی اور انجلی کی چوت کے لبوں پر رکھ کر ان پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔ انجلی کی ایک سسکی نکلی اور وہ تھوڑا سا اوپر ہوکر بیٹھ گئی اور کیمرہ اس طرح سیٹ کیا کہ کسی حد تک لوکاٹی کا چہرہ بھی نظر آسکے اور انجلی کی چوت پر اسکی زبان بھی کیمرے کی نظر میں آسکے۔ کچھ دیر انجلی کی چوت کے لبوں کو چوسنے کے بعد لوکاٹی نے چوت کے لبوں کو کھولا اور اپنی زبان اندر داخل کر دی اور اسکو تیز تیز چلانے لگا۔ انجلی کی چوت جو پہلے ہی کسی انگارے کی طرح دہک رہی تھی اب تو وہ کسی آتش فشان کی طرح ابلنے لگی تھی اور جلد ہی اپنا لاوا اگلنے والی تھی۔ انجلی اب ایک ہاتھ سے ویڈیو بنا رہی تھی اور دوسرا ہاتھ لوکاٹی کے سر پر رکھ کر اسکو اپنی چوت کی طرف مزید دبا رہی تھی اور سسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ لوکاٹی کو کہ رہی تھی جان اور زور سے چاٹو میری چوت کو، کھا جاو میری چوت جان۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔ زور سے چاٹو۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گئی۔۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی انجلی کی چوت سے ابلتا ہوا لاوا نکلا اور اس نے لوکاٹی کے چہرے کو جھلسا کر رکھ دیا۔ انجلی کے جسم نے کچھ جھٹکے کھائے اور اسکے بعد پرسکون ہوگئی، پھر انجلی نے لوکاٹی کو سائیڈ پر ہٹایا اور اسے بیڈ پر لٹا کر خود اسکے اوپر بیٹھ گئی اور اسکے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ ابھی بھی ویڈیو بنا رہی تھی۔
انجلی نے اب لوکاٹی سے پوچھا جان تم مجھے اپنا ساتھ پاکیشا لے جا سکتے ہو؟؟؟ تو لوکاٹی نے کہا تم میرے ساتھ جانا چاہو گی پاکیشا؟؟ انجلی نے کہا ہاں۔ میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہاں تم ہمارے لیے کیسے کام کر رہے ہو۔ لوکاٹی جو شراب کے نشے میں دھت تھا بولا تم فکر نہ کرو میری تحریک اپنے عروج پر ہے اور تمہیں دیکھ کر خوشی ہوگی۔ اب انجلی نے پوچھا کہ تمہیں یقین ہے کے پاکیشیا کے لوگ اس علیحدگی کی تحریک میں تمہارا ساتھ دیں گے؟؟؟ لوکاٹی نے کہا میرے صوبے ہولستان کے عام لوگوں کو تو میں نے ان پڑھ رکھا ہے وہ ڈائریکٹ میرا ساتھ تو نہیں دیں گے مگر وہاں کی با اثر شخصیات میرے کہنے پر چلتی ہیں اور مختلف قبیلے کے سرداروں کو میں نے بڑے بڑے خواب دکھا رکھے ہیں کہ انڈیا سےالحاق کے بعد انہے بڑے بڑے عہدے اور ڈالر ملیں گے۔ اس لیے وہ میرے ساتھ ہیں اور جیسا وہ کہیں گے ویسا ہی وہاں کی عوام بھی فیصلہ کرے گی۔
انجلی اب تھوڑا نیچے ہوکر بیٹھ گئی اور لوکاٹی کے مرجھائے ہوئے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اسکو آہستہ آہستہ مسلنے لگی اور لوکاٹی سے پوچھا مگر اتنے ڈالر تم کیسے دوگے سرداروں کو؟؟؟ لوکاٹی نے ایک قہقہ مارا اور بولا ان پاگلوں کو کیا ملنا ہے انہوں نے انڈیا سے الحاق کا اعلان کرنا ہے اور جب ہندوستان کی افواج ہولستان پہنچ کر وہاں قبضہ کر لیں گی تو سب سے پہلے ان سرداروں کا ہی صفایا کرنا ہے۔ میں اپنی دولت اور ریاست کی حکمرانی میں کسی اور کو شامل نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر انجلی کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی مگر اسے ابھی اپنا مزید کام کرنا تھا۔ اب وہ مزید نیچے جھکی اور لوکاٹی کا لن جو کسی حد تک کھڑا ہوچکا تھا مگر ابھی بھی بہت ڈھیلا تھا اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ کچھ دیر تک چوسنے سے لوکاٹی کا7 انچ کا لن اب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا تھا اور انجلی اسکو بہت بے دردی سے چوس رہی تھی جس سے لوکاٹی کو بہت مزہ آرہا تھا ۔ اتنی جوان اور گرم لڑکی کو اس نے کافی عرصے سے نہیں چودا تھا آج تو لوکاٹی کی عید تھی کہ ایسی جوان اور گرم حسینہ اسکا لن چوس رہی تھی اور کچھ ہی دیر میں اسکے لن کی سواری بھی کرنے والی تھی۔ جب لن اچھی طرح کھڑا ہوگیا تھا انجلی نے لن منہ سے نکالا اور اپنے ہاتھ سے اس پر مساج کرنے لگی اور دوبارہ سے لوکاٹی سے مخاطب ہوئی کہ اگر تم ہولستان کو پاکیشا سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو میں تم سے شادی کر لوں گی۔ کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہو گے؟؟؟ انجلی کی بات سن کر لوکاٹی ہوش و ہواس میں بھی ہوتا تو شاید اپنے ہوش کھو بیٹھتا بڈھے آدمی کو 20 سالہ جوان گرم حسینہ کی طرف سے شادی کی آفر ہوش اڑانے والی ہی تو بات تھی، لوکاٹی نے فوری کہا ہاں میں تم سے شادی کروں گا اور ہم دونوں ملکر ہولستان کی ریاست پر حکومت کریں گے۔
پھر انجلی دوبارہ بولی مگر مجھے یہ بتاو کہ کیا ہندوستان کی سرکار تمہیں ہولستان پر حکومت کرنے دے گی؟ اگر انہوں نے تمہیں مروا دیا اور تمہاری جگہ کسی اپنے وفادار کو لے آئے تو پھر؟؟؟ اس پر لوکاٹی ہنسا اور بولا پورے ہندوستان میں مجھ سے زیادہ ہندوستان سرکار کا وفادار اور کوئی نہیں ۔ اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہاں کے لوگ ہندوستان کے خلاف بھی بغاوت کر دیں گے اور پھر پاکیشا کی فوج بھی دوبارہ سے ہولستان کو واپس لینے کے لیے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کر دیں گی جسکو ہندوستان برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے میرا مستقبل محفوظ اور روشن ہے۔ انجلی نے لوکاٹی کے چمکتے ہوئے لن پر ایک پیار بھری کس کی اور بولی مگر حکومت تو تم اب بھی کر رہے ہو ہندوستان سے الحاق کے بعد حکومت کرنے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟ لوکاٹی بولا بہت سارے ڈالر ملیں گے جو ابھی میرے پاس نہیں ہیں، ہولستان کے پہاڑوں میں چھپے سونے کو انڈیا کی سرکار تلاش کرے گی اور اس میں 25 فیصد میرا حصہ ہوگا اسکے علاوہ ہندوستان کی خوبصورت حسینائیں روز میرے لن کی سیوا کریں گی ۔ روز کوئی گرم اور جوان لڑکی میری گود میں ہوا کرے گی۔ انجلی برا سا منہ بناتے ہوئے بولی مگر پھر تو تم مجھے بھول جاو گے؟؟؟ لوکاٹی انجلی کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے بولا ارے نہیں، تم جیسی گرمی کسی اور لڑکی میں نہیں ہے، وہ تو پیسے کے لیے چدواتی ہیں تم اپنی خوشی سے چدوا رہی ہو اور میرا لوڑا منہ میں لیکر چوپےلگا رہی ہو۔ کرائے کی رنڈیاں یہ سب نہیں کرتیں نہ ہی اتنا مزہ دے سکتی ہیں جو تم دے رہی ہو۔ میں تم سے شادی کر کے تمہیں رانی بنا کر رکھوں گا۔ مگر میرا لن بھی ہفتے میں ایک بار نئی چوت کا طلبگار ہوتا ہے جو مجھے ہندوستان کی حسینائیں دیا کریں گی۔
لوکاٹی کا لن اب اپنے فل جوبن پر تھا اور اسکے ساتھ زیادہ دیر تک کھیلنا بھی مناسب نہیں تھا کیونکہ وہ کسی بھی وقت اپنا لاوا نکال سکتا تھا، اور انجلی نے بھی لوکاٹی سے کافی اندر کی باتیں اگلوا لیں تھیں۔ انجلی اب اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر لوکاٹی کے دوسری سائیڈ پر رکھ چکی تھی اور اسکی چوت کا منہ لوکاٹی کے لن کی ٹوپی کے بالکل اوپر تھا۔ اور اسکے ہاتھ میں کیمرہ کبھی لوکاٹی کے چہرے کو فوکس کر رہا تھا تو کبھی لوکاٹی کے لوڑے اور اپنی چوت کے ہونے والے ملاپ کا منظر عکس بند کر رہا تھا۔ پھر انجلی نے دوسرے ہاتھ سے لوکاٹی کا لن پکڑ کر اپنی چوت کے ساتھ لگایا اور ایک ہی جھٹکے میں اسے اپنی چکنی چوت کی گہرائیوں میں اتار لیا اور اس پر اچھلنے لگی۔ لوکاٹی کے لن پر اچھلتے ہوئےانجلی کے ممے اوپر نیچے اچھل رہے تھے جنہیں لوکاٹی بڑے اشتیاق سے دیکھ رہا تھا۔ کمرہ اب انجلی کی آوازوں سے گونج رہا تھا اور وہ مسلسل لوکاٹی کے لن پر اچھل اچھل کر اپنی چوت کو سکون پہنچا رہی تھی۔
ٹینا سے بات کرنے کے بعد کیپٹن مکیش کافی دیر تک غصے سے کانپتا رہا، ٹینا کی وحشی سسکیاں اور اسمیں محسوس ہونے والا سرور کیپٹن مکیش کو پاگل کیے دے رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ ٹینا نے جان بوجھ کر اسے جلانے کے لیے عمران سے چدواتے ہوئے اسکا فون اٹینڈ کیا اور پھر عمران نے بھی بغیر رکے اسکی چدائی جاری رکھی جسکی وجہ سے ٹینا کی سسکیاں اور سرور سے بھری آوازیں مکیش کے کانوں میں لاوا بن کر چھید کرتی رہیں۔ کچھ دیر کے بعد جب مکیش نارمل ہوا تو اب اسے تانیہ کا خیال آیا۔ مکیش کو پورا یقین تھا کہ راستے میں خراب گاڑی میں سے انجلی کی گاڑی میں لفٹ لینے والی تانیہ ہی ہو سکتی ہے۔ مگر اسکو یہ بات پریشان کیے دے رہی تھی کہ ٹینا اسکو اپنی دوست کیوںکہ رہی ہے؟؟؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ میجر دانش نے ٹینا کی ہی کسی دوست کو اپنے ساتھ ملا لیا ہو اور پھر یہ سارا ڈرامہ رچایا ہو۔ مگر پھر اسنے اس خیال کو ذہن سے نکال دیا کہ اگر ٹینا کو غنڈوں سے بچانے والا میجر دانش ہوتا تو وہ اسے کرنل وشال کے گھر ہی کیوں لیکر جاتا وہ اسے اغوا کر کے اپنی بات منوا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اسکا مطلب ہے کہ وہ کوئی عام شخص ہی ہے جس نے میجر دانش جیسے تجربہ کار اور ہونہار آئی ڈی آئی کے ایجنٹ کی دھلائی کر دی تھی۔ مگر تانیہ کی طرف سے وہ ابھی تک مطمئن نہیں تھا۔ اسکا خیال تھا کہ میجر دانش نے اپنی پہلی ناکامی کے بعد تانیہ کو میدان میں اتارا ہے اور اس نے عمران اور ٹینا کی گاڑی میں لفٹ لیکر انکا اعتماد جیت لیا ہے اور اب وہ جلد ہی میجر دانش کو کال کر کے گوا بلائے گی تاکہ وہ دوبارہ سے ٹینا کو اغوا کر سکیں۔ اب کیپٹن مکیش نے ٹینا کی حرکت کو نظر انداز کرتے ہوئے تانیہ کو ٹھکانے لگانے کا ارادہ بنا لیا تھا۔ وہ پہلے بھی ایک بار مکیش کے ہاتھوں سے بال بال بچی تھی جب مکیش نے ممبئی میں نہرو نگر میں موجود ٹیکسی ڈرائیور کی مخبری پر ایک گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ مگر اب مکیش کو یقین تھا کہ رات کے اس پہر تانیہ سو رہی ہوگی اور وہ با آسانی اسکو دھر سکتا ہے۔
اس نے اپنی جیز کی بیک سائیڈ پر ایک چھوٹا پسٹل رکھا اور اپنی گاڑی ٹینا کے بتائے ہوئے فائیو سٹار ہوٹل کے سامنے جا کر روک دی اور سیدھا ریسیپشن پر پہنچ گیا۔ ریشیپشن پر موجود ایک خوبصورت نوجوان حسینہ نے کیپٹں کا استقبال کیا تو کیپٹن نے اس سے پوچھا کہ اسکے ہوٹ میں کچھ دیر پہلے کسی تانیہ نامی لڑکی نے بکنگ کروائی ہے؟ تو اس حسینہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا سوری سر ہم ایسی معلومات کسی کو نہیں دیتے اگر آپ انہیں جانتے ہیں تو انہیں فون کر کے کمرہ نمبر معلوم کریں ہم آپکو اس کمرے میں پہنچا دیں گے۔ اب کیپٹن نے اپنی جیب سے اپنا کارڈ نکالا اور اپنا نام بتایا تو اس حسینہ کے خوبصورت لبوں پر موجود مسکراہٹ ایک دم غائب ہوگئی اور وہ انہتائی ادب سے بولی جی سر میں ابھی چیک کرتی ہوں۔ اس نے اپنے سامنے موجود کمپیوٹر پر چیک کیا اور مکیش کو بتایا کہ تانیہ نامی کسی لڑکی نے چیک ان نہیں کیا آج رات میں۔ اب مکیش نے پوچھا اچھا یہ بتاو کسی ٹینا میڈیم کے نام پر کوئی کمرہ بک ہوا ہے؟ اس حسینہ نے ایک بار پھر اپنے کمپیوٹر پر چیک کیا اور اسے بتایا کہ نہیں ٹینا میڈیم کے نام پر بھی کوئی روم بک نہیں ہوا۔ اب کیپٹن نے کچھ دیر سوچا اور پھر اس سے پوچھا اچھا مجھے یہ بتاو پچھلے 4 سے 5 گھنٹے کے درمیان کون کونسے رومز کی بکنگ ہوئی ہے۔ اس حسینہ نے اب دوبارہ سے چیک کیا اور کیپٹں کو روم نمبر 35، روم نبر 315 اور روم نمبر 507 کے بارے میں بتایا کہ آخری تین یہ کمرے ہیں جس میں بکنگ ہوئی ہے اور ان میں سے ایک روم کے علاوہ باقی 2 رومز میں فیملی ہیں جبکہ روم نمبر 507 میں مِس انجلی موجود ہیں۔ کیپٹن یہ سنتے ہی مسکرایا اور ایک لمبی سی ہونہ کی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ تانیہ اپنا نام تبدیل کر کے یہاں آئی ہے۔ اور یہ انجلی وہی تانیہ ہی ہے۔ ٹینا نے بھی فون پر انجلی نام ہی بتایا تھا۔ اب کیپٹن مکیش نے اس حسینہ کا شکریہ ادا کیا اور بولا وہ ایک گینگسٹر ہے میں اسے پکڑنے آیا ہوں مجھے اسکے روم کی ڈپلیکیٹ چابیاں چاہیے اور خبردار جو اس روم میں کوئی بھی ویٹر گیا۔ وہاں ہر کسی کے آنے جانے پر پابندی لگا دو۔ یہ حکم دیکر مکیش نے اپنی جینز کی بیک سائیڈ سے چھوٹی پسٹل نکالی اور لفٹ کے ذریعے اوپر جانے لگا جبکہ اس حسینہ نے تمام ویٹرز کو ہدایت کر دی کہ اس روم سے دور رہیں اور وہاں نہ جائیں۔
کیپٹن مکیش کچھ ہی دیر میں پانچویں منزل پر پہنچ چکا تھا اور وہاں سے وہ دوسری راہداری میں گیا جہاں 506 سے لیکر 510 نمبر تک کے روم موجود تھے۔ روم نمبر 507 کے دروازے کے باہر 2 ہٹے کٹے گن مین موجود تھے جو اصل میں لوکاٹی کے باڈی گارڈ تھے، یہاں پہنچ کر مکیش اپنی گن چھپا چکا تھا۔ کمرے کے سامنے پہنچ کر وہ رکا تو گن مین کو دیکھ کر اس نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی بہت بڑی گینگسٹر ہے جس نے اپنے ساتھ گن مین بھی رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کمرے کے سامنے جا کر رکا اور اور باہر کھڑے گن مین کو دیکھ کر مسکرا کر بولا وہ مجھے میڈیم انجلی نے بلایا تھا میں ان سے ملنے آیا ہوں۔ ان میں سے ایک گن مین نے کرخت لہجے میں کہا اس وقت کوئی بھی اندر نہیں جا سکتا تم فی الحال ادھر سے دفعہ ہوجاو۔ مگر مکیش وہیں کھڑا ڈھیٹ بن کر مسکراتا رہا اور گن مین کو آنکھ مارتے ہوئے بولا میڈیم کے ساتھ کوئی اور بھی ہے کیا اندر؟؟؟ گن مین نے مکیش کو دہکتی ہوئی آنکھوں سے گھور کر دیکھا اور بولا ادھر سے دفعہ ہوتے ہو یا تمہیں یہیں بھون کے رکھ دوں؟؟؟
مکیش بولا بھیا تم مجھے بھون کر رکھ دو میں تو یہاں سے جانے والا نہیں میڈیم انجلی کومل کر ہی جاوں گا۔ اس پر اس گن مین نے اپنے ہاتھ اپنی گن کی طرف بڑھائے جو اسکے کندھے پر لٹک رہی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی گن پکڑ کر مکیش کو ڈراتا مکیش کی طاقتور ٹانگ گن مین کی دونوں ٹانگوں کے درمیان زور سے جا کر سیدھی اسکے ٹٹوں پر لگی جس سے اس گن مین کی ایک چیخ نکلی اور وہ نیچے جھکتا چلا گیا نیچے جھکتے ہی اب کی بار مکیش کی ٹانگ اسکے منہ پر پڑی اور وہ اوندھے منہ زمین پر آرہا، اسی دوران دوسرا گن مین بھی آگے بڑھ کر مکیش پر حملہ کرنا چاہتا تھا مگر مکیش نے نیچے گرتے ہوئے گن مین کی کمر پر پاوں رکھ کر ایک جمپ لگایا اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ دوسرے گن مین کے سر پر اپنی دونوں کہنیاں پوری قوت سے ماریں جس سے وہ کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمین پر آرہا۔ اب دونوں گن میں تانیہ کے روم کے سامنے بے ہوش پڑے تھے۔۔
کیپٹن مکیش نے اپنی جیب سے اسکے کمرے کی دوسری چابی نکالی اور دروازے کے لاک میں چابی داخل کر کے چابی گھمائی تولاک کھل گیا۔ مکیش نے دروازے کاہینڈل گھمایا اور ہلکا سا دباو ڈالا تو دروازہ بغیر کوئی آواز پیدا کیے کھلتا چلا گیا۔ کیپٹن نے اب اپنی پسٹل ہاتھ میں پکڑ لی تھی اور انتہائی احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ اندر داخل ہوگیا، سامنے ایک بڑا سا کمرا تھا جس میں کچھ صوفے پڑے تھے اور ایک سائیڈ پر فریج تھا، صوفے پر ایک نائٹی پڑی نظر آرہی تھی جبکہ دور ایک سائیڈ پر ایک برا پڑا ہوا تھا۔ کیپٹن کیش مزید چوکنا ہوگیا تھا کیونکہ اسکے خیال میں میجر دانش اور تانیہ دونوں اس وقت اس روم میں رنگ رلیاں منا نے کے بعد اب سورہے ہونگے، کیپٹن اب کچھ خوشی مگر احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ اسکے دل میں کہیں ڈر بھی تھا کہ ناجانے وہ میجر دانش پر قابو پاسکے گا یا نہیں؟؟؟ اور خوشی بھی تھی کہ آج میجر دانش اور تانیہ دونوں ہی اسکی گرفت میں ہونگے اور کرنل وشال کو یہ خوشخبری سنا کر وہ پروموشن کی فرمائش بھی کرے گا۔
کیپٹن انہی سوچوں کے ساتھ بہت احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک اسکے کانوں میں پھر وہی آوازیں آنے لگیں جو کچھ دیر پہلے وہ فون پر سن کر آیا تھا جن آوازوں نے اسکے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ آہ آہ۔۔۔۔ اف۔ اف اور زور سے جانو، اور تیز چودو۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔ اہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔ پھاڑ دو میری چوت جانو، تیز تیز کرو ، اور تیز، اور تیز۔۔۔ آہ آۃ آہ۔۔۔۔۔ مگر اس مرتبہ یہ آوازیں ٹینا کی بجائے تانیہ کی تھیں جو اس وقت لوکاٹی کے لن پر سوار تھی اور لوکاٹی اسکو اپنی پوری قوت کے ساتھ چود رہا تھا۔
انجلی نے اپنی پوری قوت کے ساتھ لوکاٹی کے لن پر چھلانگیں لگائیں تھی اس سے انجلی کو مزہ تو بہت ملا مگر کچھ ہی دیر میں وہ تھک گئی تھی، اب وہ اپنے گھٹنے بیڈ کے ساتھ لگائے اپنی گاںڈ ہوا میں اٹھا کر بیٹھی تھی اور نیچے سے لوکاٹی اپنا لن انجلی کی ٹائٹ مگر چکنی چوت میں اپنا لن اندر باہر کر رہا تھا اور انجلی کی مزے کے مارے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد لوکاٹی نےجھٹکے لگانے بند کیے تو انجلی نے اپنی گانڈ کو لوکاٹی کے لن پر گھمانا شروع کر دیا۔ انجلی اپنے چوتڑوں کو گول گول گھما رہی تھی جس سے لوکاٹی کا لن انجلی کی چوت میں چاروں سائیڈز پر گول گول گھوم رہا تھا اور انجلی کی چوت میں رگڑ دے رہا تھا جس سے انجلی کی چوت میں آگ پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی تھی اور اسکا جی سپاٹ لوکاٹی کے لن کی ٹوپی سے ٹکرا رہا تھا۔ پھر ایک دم سے لوکاٹی نے دوبارہ سے انجلی کی چوت میں جھٹکے لگانے شروع کیے ۔۔۔ اب کی بار انجلی ویڈیو بنانے کے ساتھ ساتھ لوکاٹی کو کہ رہی تھی، جانو مجھے زور سے چودو، ایسے چودو جیسے تم نے ہولستان کی عوام کو چودا۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔ اور زور سے چودو جانو۔۔۔۔۔ ہولستان کو ہندوستان کی ریاست بنوا دو روز تمہیں اپنی چوت اسی طرح دیا کروں گی، تم سے اپنی گانڈ بھی مرواوں گی۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔۔ اف۔ اف اف ۔۔۔۔ تمہارا لن ۔۔۔۔ اف اف اف۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ میری چوت ۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔ اور زور سے گھسے مارو جانو۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔۔ پھر انجلی نے ایک لمبی آہ آہ کر کے سسکی لی اور اسکی چوت نے لوکاٹی کے لن کو اپنی منی سے نہلا دیا۔ ۔
جب انجلی کی چوت نے سارا پانی چھوڑ دیا تو وہ لوکاٹی کے لن سے نیچے اتر گئی اور بیڈ پر لیٹ کر لوکاٹی کو اپنے اوپر آکر چودنے کی دعوت دی۔ مگر لوکاٹی نے کہا ایسے نہیں ڈارلنگ۔ ڈاگی بن جاو، تمہیں اب میں ڈاگی سٹائل میں چودوں گا۔ انجلی کو بھی ڈاگی سٹائل پسند تھا وہ بھی جلدی سے اٹھ گئی اور لوکاٹی کی طرف اپنی گانڈ کر کے دوسری جانب جھکی اور بیڈ کے ساتھ ہاتھوں کے سہارے ڈاگی سٹائل بنا کر منہ پیچھے کر کے بولی آجاو جانو، ڈال دو اپنا لن میری چوت میں۔ چود دو مجھے۔۔۔۔ لوکاٹی بھی جلدی سے انجلی کے پیچھے آیا اور پہلے اسکے چوتڑوں پر 2، 3 زور دار چماٹ ماریں اور اسکے بعد اسکے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔ گانڈ پر زبان کا لمس محسوس کر کے ٹینا کو بہت سرور ملا تھا۔ اسکے منہ سے اب سسکاریاں نکل رہی تھیں اور وہ اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیل کر کوشش کر رہی تھی کہ لوکاٹی کی زبان کے ساتھ ساتھ اسکا پورا منہ اسکے چوتڑوں کی لائن میں غائب ہوجائے۔ لوکاٹی نے بھی کچھ دیر انجلی کی گانڈ چاٹی اور پھر گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھ کر اپنا لن انجلی کی چوت پر رکھ دیا۔
جیسے ہی انجلی کو لن کی ٹوپی اپنی چوت کے سوراخ پر محسوس ہوئی وہ خود ہی پیچھے کی جانب گانڈ کرنے لگی، جیسے ہی انجلی نے اپنی گانڈ پیچھے کی جانب دھکیلی چوت کی چکناہٹ کی وجہ سے انجلی کی چوت نے لوکاٹی کے لن کو اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی اور لوکاٹی کا آدھا لن انجلی کی چوت میں چلا گیا۔ ایک بار انجلی اب واپس آگے کی طرف گئی اور جب اسے محسوس ہوا کہ اب محض لوکاٹی کی ٹوپی ہی اسکی چوت میں رہ گئی ہے اس نے پھر سے پیچھے کی طرف اپنی گانڈ کو دھکیلا جس سے لوکاٹ کا آدھا لن دوبارہ سے انجلی کی چوت میں پھسلتا چلا گیا۔ اب انجلی نے مسلسل اپنی گانڈ کو آگے پیچھے حرکت دینا شروع کر دی تھی جبکہ لوکاٹی بغیر حرکت کیے انجلی کی ان حرکتوں کو انجوائے کر رہا تھا۔ اس طرح کی چودائی میں زیادہ رفتار پکڑنا ممکن نہیں تھا کیونکہ لڑکی اس رفتار کے ساتھ اپنی گانڈ نہیں ہلا سکتی جس رفتار سے کوئی بھی مرد اپنا لن لڑکی کی چوت میں آگے پیچھے کر سکتا ہے۔ مگر پھر بھی لوکاٹی انجلی کو پورا موقع دے رہا تھا کہ وہ خود سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اپنی چودائی کروائے۔ وقفے وقفے سے انجلی کے چوتڑوں پر لوکاٹی کے تھپڑ بھی پڑ رہے تھے جس سے انجلی کے چوتڑ جیلی کی طرح ہلتے ، اور ان پر اب لوکاٹی کی انگلیوں کے سرخ نشان پڑ چکے تھے اس دوران جب انجلی اپنی گانڈ پیچھے کی جانب دھکیلتی تو وہ اپنے منہ سے ایک لمبی آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔ کی آواز نکالتی اور اس دوران اپنی چوت کو بھی ٹائٹ کر لیتی، اور جب واپس آگے کی جانب جانے لگتی تو اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی اور ایک لمبی اف ف ف ف ف ف ف ف کی آواز نکالتی۔
کچھ دیر انجلی کو اسی طرح چودائی کروانے کے بعد لوکاٹی نے اب انجلی کی چوت میں اپنے لن سے دھکے لگانا شروع کر دیے تھے۔ لوکاٹی کے دھکے شروع ہوئے تو اب انجلی کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنی گانڈ کو آگے پیچھے ہلا سکے لہذا اب وہ بغیر حرکت کیے لوکاٹی کے دھکے برداشت کر رہی تھی، لوکاٹی کا ہر دھکا انجلی کو آگے کی طرف دھکیل دیتا تھا اور وہ پوری کوشش کرتی اپنے جسم کو روکنے کی کیونکہ اگر اسکا جسم زیادہ آگے جائے گا تو لوکاٹی کا لن انجلی کی چوت کی گہرائی تک جا کر چودائی نہیں کر سکتا، اسی لیے انجلی کی ہر دھکے پر کوشش ہوتی کے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے جسم کو وہیں پر روکے رکھے تاکہ لوکاٹی کا لن اسکی چوت کی گہرائی تک جائے اور اس اپنے اندر آنے کا احساس دلائے مگر پھر بھی جب لوکاٹی کا جسم انجلی کے چوتڑوں سے ٹکراتا تو وہ انجلی کو آگے کی طرف دھیکیل دیتا اور ساتھ میں دھپ دھپ کی آواز بھی نکالا۔۔۔
لوکاٹی نے اب تھوڑا سا آگے کی طرف جھک کر انجلی کے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا اور انہیں ہر دھکے کے ساتھ ایک بار زور سے دباتا اور لن باہر نکالتے ہوئے مموں پر ہاتھوں کا دباو ہلکا کر دیتا، اگلے دھکے پر ایک بار پھر وہ انجلی کے مموں کو زور سے دباتا اس طرح لوکاٹی کے چودنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوگیا اور اسکے ٹٹے جب نیچے سے انجلی کی چوت پر ٹکراتے تو انجلی کو اسکا بھی سرور ملتا۔ انجلی فل مزے میں تھی اور اپنی چدائی کو انجوائے کر رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد انجلی لوکاٹی کو پیچھے مڑ کر ایک ہوائی چمی دیتی اور اسکو مزیر رفتار کے ساتھ چودنے کا کہتی۔ ساتھ ساتھ انجلی کی سسکیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ۔۔۔ ام م م م ۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ، آہ ہ ہ ہ ، آہ آہ آہ ۔۔۔۔ زور سے چودو نا جانو۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔ اور لوکاٹی بھی انجلی کے اکسانے پر اپنی رفتار میں اضافہ کر دیتا تھا۔ کچھ دیر مزید ڈاگی سٹائل میں چودائی کروانے کے بعد اب انجلی نے لوکاٹی سے فرمائش کی کہ وہ ایک بار پھر سے اسکے لن کی سواری کرنا چاہتی ہے تو لوکاٹی نے نہ چاہتے ہوئے بھی انجلی کی چکنی چوت سے اپنا لن نکال دیا اور خود دوبارہ سے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ اتنی خوبصورت اور گرم لڑکی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ اسے اسکی خواہش کے مطابق چود رہا تھا ویسے بھی ڈاگی سٹائل میں چودنے کا مزہ تو لوکاٹی لے ہی چکا تھا۔
لوکاٹی اب نیچے لیٹا تھا اور انجلی اپنے پاوں کے بل لوکاٹی کے اوپر آگئی تھی اور لوکاٹی کا لن اپنی چوت کے سوراخ پر رکھ کر اس نے ایک زور دار جھٹکا نیچے کی طرف مارا تو لوکاٹی کا پورا لن انجلی کی چوت میں غائب ہوگیا۔ انجلی نے اب لوکاٹی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر سہارا لیا اور اپنی گانڈ اوپر اچھال اچھال کر لوکاٹی کے لن پر گرانے لگی۔ کسی بھی لڑکی کے لیے اس طرح چودائی کروانا بہت مشکل ہوتا ہے مگر انجلی کی چوت اس وقت بہت گرم ہورہی تھی اور وہ مکمل طور پر اپنی چوت کو سکون پہنچانا چاہتی تھی اس لیے وہ اسی پوزیشن میں اپنی چودائی جاری کیے ہوئے تھی، انجلی جب اپنے پورے وزن کے ساتھ اپنی گانڈ کو لوکاٹی کے اوپر گراتی تو لوکاٹی کا لن مکمل طور پر انجلی کی چوت میں گم ہوجاتا محض اسکے ٹٹے ہی چوت سے باہر رہتے۔ 2، 3 منٹ اسی طرح چودائی کروانے کے بعد اب انجلی تھک چکی تھی اب اس نے اپنے گھٹنے بھی بیڈ کے ساتھ لگا لیے تھے اور اپنے ہاتھ بدستور لوکاٹی کے سینے پر رکھ کر اپنی گانڈ کو ہوا میں اٹھا لیا تھا اور لوکاٹی نے نیچے سے اب دھکے مارنے شروع کر دیے تھے۔
انجلی کی چوت کی گرمی حد درجہ تک بڑھ چکی تھی اور کسی بھی ٹائم اسکی چوت پانی چھوڑ سکتی تھی۔ لوکاٹی اپنی فل رفتار کے ساتھ اپنے لن کے ذریعے انجلی کی چکنی مگر ٹائٹ چوت میں گھسے مار رہا تھا ، انجلی بے اختیار لوکاٹی کو مزید تیز چودنے کا کہ رہی تھی اسکے ساتھ ساتھ ۔۔۔ آہ آآہ آہ آہ اف اف۔۔۔۔ آہ آہ آہ اور تیز جانو، اور تیز چودو اپنی جان کو۔۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔۔ کی آوازیں مسلسل انجلی کے منہ سے نکل رہی تھی۔
لوکاٹی کےلن پر سواری کرتے کرتے انجلی کو اچانک محسوس ہوا کہ جیسے اسکے دروازے کے باہر کوئی ہے۔ انجلی نے دروازے کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا، اس نے مسلسل چودائی جاری رکھوائی اور لوکاٹی کو اور تیز چودنے پر اکسانے لگی مگر پھر دوبارہ سے انجلی کو محسوس ہوا کہ دروازے پر کوئی ہے، اب کی بار انجلی نے دروازے کی طرف دیکھا تو اسکی چکنی اور گیلی چوت مکمل خشک ہوگئی، دروازے پر کیپٹن مکیش کھڑا تھا اور اسکی پستول کا رخ انجلی کی طرف تھا۔ انجلی ایک دم سے اپنی سسکیاں بھول گئی اور اسکے ذہن میں دھماکے ہونے لگے کہ یہ کمینہ کہاں سے آگیا؟؟؟ انجلی اب کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ وہ کیا کرے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ایک یہی دروازہ ہے جس پر کیپٹن مکیش گن تھامے کھڑا ہے۔ جبکہ لوکاٹی اس بات سے بے خبر انجلی کی چوت میں گھسے لگائے جا رہا تھا۔
کیپٹن مکیش جو اب انجلی کی دروازے پر تھا وہ ایک لمحے کے لیے تو انجلی کو لن کی سواری کرتے دیکھ کر ساکت ہوگیا۔ انجلی کے گورے گورے بڑے سائز کے ممے جو لوکاٹی کے ہر دھکے کے ساتھ ہوا میں ہلتے دیکھ کر مکیش اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے اسنے یہ حسین ممے جامنگر کے ڈانس کلب میں نشے کی حالت میں دیکھے تھے اور اسکے ذہن میں ان خوبصورت کسے ہوئے مموں کی دھندلی سی تصویر تھی، مگر اس وقت وہ اپنے پورے ہوش و حواس میں انجلی کے یہ خوبصورت ممے دیکھ کر مدہوش ہوگیا تھا۔
ابھی کیپٹن مکیش انجلی کے مموں کے سحر میں ہی گرفتار تھا کہ اس نے محسوس کیا انجلی کی نظریں کیپٹں مکیش پر نہیں بلکہ انجلی کیپٹن مکیش کے پیچھے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جیسے ہی کیپٹن مکیش نے یہ محسوس کیا کہ انجلی کیپٹںن مکیش کے پیچھے کوئی اور چیز دیکھ رہی ہے کیپٹن کو فوری خطرے کا احساس ہوا اور اس نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ پیچھے گھوم کر دیکھنا چاہا کہ وہاں کون ہے ، مگر اسے دیر ہو چکی تھی۔ جتنی دیر میں کیپٹں مکیش پیچھے گھوما اتنی دیر میں میجر دانش کا زور دار گھونسا کیپٹن مکیش کی کنپٹی پر لگ گیا تھا جس نے مکیش کو دن کمرے کے اندر ہی تارے دکھا دیے تھے۔ اس سے پہلے کہ کیپٹن مکیش مزید کوئی وار کرتا میجر دانش کا دوسرا وار کیپٹن مکیش کی گردن پر ہوا اور کیپٹں مکیش کٹے ہوئے شہتیر کی طرح لہراتا ہوا زمین پر آرہا۔ میجر دانش نے اسے نیچے نہیں گرنے دیا بلکہ گرنے سے پہلے ہی اسے سہارا دیکر ایک سائیڈ پر لٹا دیا۔ پھر اس نے ایک نظر دوبارہ سے کمرے کے اندر ڈالی جہاں انجلی ابھی تک حیران پریشان کمرے سے باہر دیکھ رہی تھی اور لوکاٹی اس ساری کاروائی سے بے خبر انجلی کی چوت میں گھسے پر گھسا مار رہا تھا۔ میجر دانش نے اب انجلی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور اسکے مموں کی طرف اشارہ کر کے اسکی تعریف کرنے لگا ساتھ ساتھ اسکی چودائی پر ہنسنے بھی لگا،
اتنے میں انجلی کو بھی ہوش آیا جب اسے لوکاٹی کی آواز آئی ڈارلنگ میں فارغ ہونے والا ہوں، تبھی انجلی کو بھی اپنی چوت میں سوئیاں چھبتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اسکی چوت بھی پانی چھوڑنے والی تھی جبکہ سامنے کمرے کے دروازے پر میجر دانش یہ سارا منظر دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔ لوکاٹی کی آواز سن کر انجلی نے پھر سے اپنی توجہ اپنی چودائی کی طرف کی اور لوکاٹی کے گھسوں کے ساتھ ساتھ ردھم بناتے ہوئے اپنی گانڈ کو بھی اچھالنے لگی اور بولی نکال دو جان اپنی منی میری چوت میں، میرے اندر ہی فارغ ہوجاو، میری چوت بھی پانی چھوڑ رہی ہے۔۔۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے انجلی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی اور وہ میجر دانش کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ لوکاٹی آنکھیں بند کیے انجلی کی چوت میں دھکے مار رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ کب اسکے لن میں ایک مزے کی لہر اٹھے اور اسکی ساری منی انجلی کی چوت میں نکل جائے۔ پھر اچانک لوکاٹی نے 2، 3 زور دار دھکے مارے اور اپنی ساری منی انجلی کی چوت میں نکال دی، جبکہ انجلی نے بھی اپنی گانڈ کو جھٹکے دیے اور اس نے بھی لوکاٹی کے گرم گرم پانی کے ساتھ اپنی چوت کے گرم پانی کو ملا دیا۔ جب انجلی اپنی ساری منی نکال چکی تو وہ لوکاٹی کو سینے کے اوپر لیٹ گئی اور میجر دانش کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ اب جائے یہاں سے۔ میجر دانش جو انجلی کی چودائی سے محظوظ ہورہا تھا وہ بھی اپنے ہوش میں واپس آیا اور اپنے ساتھ بے ہوش پڑے کیپٹن مکیش کو اٹھا کر باہر والے کمرے کی طرف لے گیا، وہاں موجود انجلی کی نائٹی اٹھا کر میجر دانش نے کیپٹن مکیش کے منہ میں ٹھونس دی ، اسکے بعد انجلی کا برا اٹھا کر کیپٹن کے ہاتھ پیٹھ پر لیجا کر انکو بھی باندھ دیا۔ مگر پھر میجر نے محسوس کیا کہ یہ برا بہت کمزور ہے تو اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو اسے ایک الماری نظر آئی۔ میجر نے الماری کھولی تو اس میں اسے انجلی کا ایک اور سوٹ مل گیا، یہ بھی نائٹ ڈریس تھا مگر سلکی کپڑے کا تھا جو قدرے مظبوط تھا۔ اب کی بار میجر دانش نے کیپٹن کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو ایک بار پھر انجلی کے نائٹ ڈریس سے مزید مظبوطی کے ساتھ باندھ دیا۔ پھر اس نے کیپٹں مکیش کی پینٹ سے بیلٹ کھول لی اور کیپٹں کے پاوں پیچھے کی طرف موڑ کر باندھ دیے اور اسی بیلٹ کو مزید پیچھے کھینچ کر کیپٹن کے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ باندھ دیا۔ اب کیپٹن مکیش کا جسم دہرا ہوگیا تھا پیچھے کی جانب، ہوش میں آنے کے بعد بھی اسکے لیے حرکت کرنا ممکن نہیں تھا، اب میجر دانش نے کیپٹن کو اٹھا کر اسی الماری میں بند کر دیا جس میں انجلی کے کپڑے موجود تھے۔
اب میجر دانش واپس جانے کی تیاری کرنے لگا تو اسے لگا جیسے کمرے میں کچھ ہلچل ہورہی ہے، وہ دیکھنے کے لیے ہولے سے آگے ہوا تو لوکاٹی ابھی بھی آنکھیں بند کیے بیڈ پر لیٹا تھا، بوڑھے ہونے کے باعث وہ آج کی چودائی سے کافی تھک گیا تھا، جبکہ تانیہ نے اب کمرے میں پڑا ایک ٹاول اپنے جسم پر لپیٹ لیا تھا اور وہ کمرے سے باہر آرہی تھی، کمرے سے باہر آتے ہی اس نے میجر دانش سے پوچھا کہ یہ یہاں تک کیسے پہنچ گیا؟؟؟ اور اسے کیسے پتا لگا میرے بارے میں؟؟ تو میجر دانش نے اسے ہلکی آواز میں بتایا کہ یہ ممبئی سے ہی ہمارے پیچھے تھا اور اسے راستے میں تمہاری گاڑی بھی ملی تھی، اور اسکا خیال ہے کہ ٹینا کو اغوا کرنے میں وہ گاڑی استعمال ہوئی ہے جو اسے راستے سے تمہاری چھوڑی ہوئی گاڑی ملی ہے۔ اس نے ٹینا کو فون کر کے تمارے بارے میں پوچھا تھا تو ٹینا نے بتا دیا کہ تمہیں اس ہوٹل میں چھوڑا ہے ہم نے۔ تبھی میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ تمہارا پیچھا کرتے ہوئے تمہارے کمرے تک ضرور پہنچے گا، تبھی میں ٹینا کو سوتا چھوڑ کر فوری طور پر اسکی گاڑی میں یہاں آگیا، کمرے سے باہر آیا تو دیکھا کہ 2 گن من بے ہوش پڑے ہیں اور اندر داخل ہوا تو کیپٹن مکیش تمہارا اور اس لوکاٹی کا سیکس انجوائے کر رہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے میجر کی آنکھوں میں شرارت بھری چمک تھی ، انجلی نے کہا اچھا یہ سب چھوڑو اور اب آگے کا بتاو؟ میجر دانش نے کہا یہ کیپٹن صاحب تمہارے کپڑوں والی الماری میں قید ہیں امید ہے اب یہ کل شام کو ہی ہوش میں آئیں گے۔ تم صبح ہوتے ہی کوشش کرنا لوکاٹی کو ساحل پر لے آنا اور اس سے زیادہ سے زیادہ راز اگلوانے کی کوشش کرنا۔۔۔ میں تمہیں وہیں پر ملوں گا ٹینا کے ساتھ۔ یہ کہ کر میجر دانش واپس جانے لگا، مگر پھر مڑا اور تانیہ سے پوچھا ابھی تک مزے ہی کیے ہیں یا کوئی کام کی بات بھی ملی ہے؟؟؟
اب کی بار تانیہ اتراتی ہوئی بولی تمہیں اس سے کیا میں جتنے مرضی مزے کروں، تم کیوں جل رہے ہو؟؟ تانیہ کی بات پر میجر دانش آہستہ سے ہنسا اور بولا میں تم سے کیوں جلوں گا تم بڈھے کے ساتھ مزے کر رہی ہو، میرے ساتھ تو تم جیسی جوان حسینہ موجود ہے میں تم سے زیادہ مزے کر رہا ہوں۔۔۔ یہ کر کہ میجر دانش کمرے سے نکل گیا، وہ سمجھ گیا تھا کہ تانیہ نے کوئی نا کوئی کام کی بات اگلوا لی ہے لوکاٹی سے۔ دونوں نے یہ باتیں بہت آہستہ آواز میں کی تھیں ۔ اب میجر دانش باہر جانے لگا تو اسے پیچھے سے لوکاٹی کی آواز آئی کہاں رہ گئی ہو جانِ من؟؟؟ ساتھ ہی تانیہ کی آواز آئی، پیاس لگ رہی تھی جان، پانی پی رہی ہوں، اور فورا فریج کی طرف بھاگی جبکہ میجر دانش تانیہ کے کمرے کے باہر پڑے گن مین کو وہیں چھوڑ کر نیچے کی طرف بھاگا اور ہوٹل سے نکل کر سیدھا ٹینا کے ہٹ پر پہنچ گیا جہاں ٹینا اپنے نئے بوائے فرینڈ عمران سے ایک تباہ کن چدائی کروانے کے بعد سکون سے سورہی تھی۔
امجد کے لیے موت کو گلے لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا، وہ بہت بار موت کے منہ سے زندہ بچ کر واپس آیا تھا مگر اگلی بار پھر وہ پہلے سے زیادہ مشکل اور جان لیوا مشن خوشی سے کرنے پر تیار ہوجاتا تھا۔ لیکن ہر بار وہ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر بے خوف ہوکر لڑتا تھا، لیکن آج پہلی بار اسکو اپنی موت کا بیٹھ کر انتظار کرنا پڑ رہا تھا جہاں وہ نہ تو دشمن پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا اور نہ ہی اپنے بچاو کی کوئی تدبیر کر سکتا تھا، اگر وہ کچھ کر سکتا تھا تو وہ تھا محض موت کا انتظار۔ اور یہی انتظار اسکے لیے خوفناک تھا۔ اگر کرنل وشال اسکی کنپٹی پر پسٹل رکھ کر اسکو کہ دیتا کہ میجر دانش کا پتا بتا دو نہیں تو موت کو گلے لگا لو تو شاید امجد خود سے ہی گولی چلا لیتا مگر میجر دانش کا نہ بتاتا، مگر اس طرح بے یار و مددگار بیٹھ کر موت کا انتظار کرنا بہت اذیت ناک تھا۔ کبھی وہ کاشف کے بارے میں سوچتا تو کبھی سرمد کے بار میں ، وہ نہیں جانتا تھا کہ کاشف زندہ بھی ہے یا پھر کرنل وشال نے اسے شہید کر دیا؟؟؟ اور سرمد کے بارے میں بھی اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہوچکا ہے یا پھر اس نے اپنے بچاو کی کوئی تدبیر کی ہے؟؟
تانیہ امجد کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی، اس نے تانیہ کو اپنی چھوٹی بہن کی طرح پالا تھا ، اور وہ ایسے کسی بھی مشن میں تانیہ کو شامل کرتے ہوئے گھبراتا تھا، مگر تانیہ کے علاوہ وہ کسی اور پر اعتماد بھی نہیں کر سکتا تھا اس لی مجبورا وہ تانیہ کو اپنے ساتھ رکھتا۔ البتہ اس وقت وہ تانیہ کی طرف سے بے فکر تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میجر دانش کے ساتھ تانیہ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ، میجر دانش تانیہ کی حفاظت کر سکتا تھا، البتہ سرمد کی طرف سے وہ خاصا فکر مند تھا۔ کرنل وشال کو کمرے سے گئے خاصی دیر ہوچکی تھی، شاید پورا دن گزر چکا تھا مگر امجد کو اس بات کا علم نہیں تھا، وہ تو بس ایک اندھیرے کمرے میں قید تھا جہاں باہر ہونے والے معاملات کا اسکو کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے امجد کو اب تکلیف ہونے لگی تھی، نا جانے کتنی دیر سے وہ اسی کرسی پر بندھا ہوا تھا اور تو اور پچھلے کافی گھنٹوں سے نہ تو امجد کو پانی پینا نصیب ہوا تھا اور نہ ہی کھانے کو کچھ ملا تھا۔ پریشانی کے باعث اسکا گلا خشک ہورہا تھا مگر اسکو یہاں پانی دینے والا کوئی نہیں تھا۔
امجد نے 2، 3 بار چلا چلا کر پانی بھی مانگا مگر جواب میں اسکو نا تو کوئی آہٹ سنائی دی اور نہ ہی کوئی اسکو پانی پلانے آیا۔ آج امجد کو احساس ہورہا تھا کہ موت کا انتظار کرنا موت کو گلے لگانے سے کتنا زیادہ مشکل کام تھا۔ ابھی کاشف اور سرمد کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ اسکو کمرے سے باہر کچھ قدموں کی آواز سنائی دی۔ اب امجد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی وہ سمجھ گیا تھا کہ شہادت کا وقت اب قریب ہے۔ اتنی دیر سے جو وہ اذیت ناک انتظار کر رہا تھا وہ انتظار ختم ہونے کو ہے، کرنل وشال کی پسٹل سے ابھی ایک گولی چلے گی اور امجد کے سینے سے پار ہوجائے گی، اور وہ اپنے ملک کے ایک سپاہی کو بچانے کی خاطر اپنی جان کی قربانی دیکر شہادت کے رتبے پر فائز ہوجائے گا۔ اس سوچ نے امجد کے اندر ایک عجیب سی ہمت پیدا کر دی تھی۔ اب کرنل وشال اسکے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالتا تب بھی وہ اس سے کچھ اگلوا نہیں سکتا تھا۔
قدموں کی آواز اب خاصی قریب آچکی تھی۔ کمرے کے اندر زیرو کا ایک بلب آن ہوگیا تھا جس سے کمرے میں کچھ روشنی پیدا ہوئی تھی، پھر کمرے کا دروازہ کھلا اور رسیوں میں جکڑا شخص اوندھے منہ اند آگرا۔۔۔ اس سے پیچھے ایک اور شخص تھا وہ بھی رسیوں سے بندھا ہوا تھا اور ایک آدمی اسکو بالوں سے پکڑ کر کھینچتا ہوا امجد کے قریب لے آیا تھا۔ رسیوں میں جکڑا یہ شخص امجد کے قریب آیا تو امجد نے اسکو پہچان لیا تھا۔ یہ سرمد تھا جسکے چہرے پر اس وقت بے شمار زخم تھے اور اسکی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر اسکے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ امجد کو دیکھ کر اس نے بہت مشکل سے بولنا شروع کیا اور محض اتنا ہی کہا: کچھ نہیں اگلوا سکے یہ کتے میرے منہ سے۔
سرمد کے منہ سے یہ بات سن کر امجد کے چہرے پر بھی ایک فاتحانہ مسکراہٹ آگئی تھی۔ وہ آگے بڑھ کر سرمد کو گلے لگانا چاہتا تھا مگر افسوس کے اپنی کرسی سے اٹھنے کے قابل نہیں تھا وہ، اب امجد نے نیچے گرے ہوئے شخص کی طرف دیکھا جو ابھی تک اوندھے منہ پڑا تھا امجد نے غور سے اسکا جائزہ لیا تو اسے بھی پہچان لیا، یہ کاشف تھا، مگر اسکی حالت بہت بری تھی۔ کرنل وشال نے اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے تھے، امجد کی نظر جب کاشف کی ٹانگ پر پڑی تو اسکے اوسان خطا ہوگئے، اسکی ٹانگ پر بہت زیادہ خون جما ہوا تھا اور ابھی بھی تھوڑا تھوڑا خون اسکی ٹانگ سے رس رہا تھا۔ اسکے ساتھ کرنل وشال کھڑا تھا جسکے چہرے پر غم و غصے کے واضح آثار دیکھے جا سکتے تھے۔ اسکو شاید اپنی ناکامی کا غصہ تھا کہ ان تینوں میں سے کسی سے بھی وہ یہ نہیں اگلوا سکا تھا کہ آخر میجر دانش اور تانیہ اس وقت کہاں پر ہے؟ کرنل وشال کے ساتھ 2 لوگ اور تھے مگر اس بار وہ ہنٹر والی ظالم حسینہ کرنل کے ساتھ نہیں تھی۔ کمرے کی لائٹس اب کرنل وشال کے کہنے پر آن کر دی گئی تھیں۔ لائٹس آن ہونے کے بعد امجد نے اب دوبارہ کاشف پر نظر ڈالی تو اس معلوم ہوا کہ آخر کاشف کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ اسکی ٹانگ میں ڈرل مشین کے ذریعے سوراخ کیا گیا تھا۔ اس نے اپنی دائیں ٹانگ فولڈ کر رکھی تھی جبکہ بائیں ٹانگ کو وہ آہستہ آہستہ زمین پر مار رہا تھا۔ مگر اسکا باقی پورا جسم ساکت تھا، اسکا چہرہ نیلا ہورہا تھا اور اسکے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ کاشف کی یہ حالت دیکھ کر امجد کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اپنی جگہ سے اٹھے اور کرنل وشال کے ٹکڑَ ٹکڑَے کر ڈالے۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ وہ اس وقت کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کرنل وشال کے ساتھ آئے باقی دو لوگوں نے اب کاشف کو زمین سے اٹھایا اور امجد کے ساتھ ایک اور کرسی پر بٹھا دیا جبکہ سرمد ابھی تک کھڑا تھا مگر وہ رسیوں میں جکڑا ہوا تھا وہ اپنی مرضی سے زیادہ حرکت نہیں کر سکتا تھا سوائے چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلنے کے۔ اس لیے کرنل وشال کو اس سے کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں ہورہا تھا۔
کرنل وشال اب امجد سے مخاطب ہوا اور بولا یہ اپنے دوست کی حالت دیکھ رہے ہو ؟؟؟ مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دو کہ میجر دانش اس وقت کہاں ہے ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ کرنل وشال کا جملہ مکمل ہوتا امجد نے ایک زور دار طنزیہ قہقہ لگایا تو کرنل وشال کچھ غصے اور کچھ حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھنے لگا۔ امجد بولا کرنل کس کو ڈرا رہے ہو؟ میرے دوست کی حالت تمہارے سامنے ہے، جب وہ تمہارایہ وحشیانہ ظلم برداشت کر گیا اور تم اس سے کچھ نہ اگلوا سکے تو تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں تمہارے ظلم کو برداشت نہیں کر پاوں گا اور تمہیں کچھ بتاوں گا۔۔۔۔ امجد کی بات سن کر اسکے ساتھ کھڑے سرمد نے بھی ایک قہقہ لگایا اور کرسی پر بیٹھے کاشف نے بھی اپنی دھیمی اور تکلیف سے بھرپور آواز میں ایک طنزیہ قہقہ لگایا۔ تینوں کو یہ قہقہے لگاتے دیکھ کر کرنل وشال کو اپنی تذلیل محسوس ہورہی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کاشف کو اس حالت میں دیکھنے کے بعد امجد میں ہمت باقی رہے گی، اسکا خیال تھا کہ امجد سب کچھ اگل دے گا کاشف کی یہ حالت دیکھ کر۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا، وہ تینوں تو ایکدوسرے کو دیکھ کر خوش ہوگئے تھے اور ان میں پہلے سی زیادہ ہمت آچکی تھی، اور تو اور کاشف جسکی ٹانگ میں کرنل وشال سوراخ کر چکا تھا اور اس میں بولنے تک کی ہمت نہیں تھی اسکا چہرہ نیلا ہورہا تھا اور اسکے جسم سے خون نچوڑ لیا گیا تھا وہ بھی طنزیہ قہقہے لگا رہا تھا۔
کرنل وشال کے لیے اس سے زیادہ تذلیل والی بات اور کوئی نہیں تھی۔ اس نے اپنی پسٹل نکالی اور اسکا سیفٹی لاک کھول کر اسکا رخ امجد کی طرف کر دیا اور بولا تمہارے پاس محض 2 منٹ ہیں مجھے میجر دانش کے بارے میں بتا دو نہیں تو یہ گولی تمہاری موت بن کر آئے گی۔ کرنل وشال کی بات سن کر کاشف اور سرمد تو ہنسے ہی تھی امجد نے بھی قہقہہ لگا دیا۔ کاشف دھیمی آواز میں بولا یہ کھڑوس ابھی بھی سمجھ رہا ہے کہ ہم موت سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس نے بہت مشکل سے اپنا چہرہ امجد کی طرف کیا تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کاشف دھیمی آواز میں امجد سے معذرت کر رہا تھا کہ وہ کرنل وشال کا ظلم برداشت نہیں کر سکا تو اس نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور سرمد کا ایڈریس بھی بتا دیا مگر میجر دانش اور تانیہ کہاں ہیں یہ اس نے نہیں بتایا۔ اس نے سرمد کی طرف بھی دیکھا اور اس سے معذرت کی کہ میں نے تمہارا ایڈریس بتا دیا مگر سرمد کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی ، اسے کاشف سے کوئی شکایت نہیں تھی اسنے کاشف کو آنکھوں ہی آنکھوں میں حوصلہ دیا اور محض اتنا بولا، فکر نہیں کرو دوست۔ ہماری منزل اب قریب ہے۔
کرنل نے جب دیکھا کہ اسکی دھمکی کا ان تینوں پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ کرنل کو جواب دینے کی بجائے آُس میں باتیں کر رہے ہیں اسکا پارہ اور بھی ہائی ہوگیا، اس نے پسٹل کا رخ امجد کی ٹانگ کی طرف کیا اور گولی چلا دی۔ پسٹل سے نکلی ہوئی گولی امجد کی ٹانگ کے گوشت کو چیرتی ہوئی پیچھے دیوار میں جا لگی اور امجد کی ایک زوردار چیخ سے کمرہ گونج اٹھا۔ ایک چیخ مارنے کے بعد امجد نے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا تھا اور تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود اسکو اپنی ٹانگ میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی چھری کے ساتھ مسلسل اسکے گوشت کو کاٹ رہا ہو۔ اب کی بار کاشف اور سرمد کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار دیکھے جا سکتے تھے۔ کرنل وشال کو اب ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے ان تینوں میں سے کوئی نہ کوئی میجر دانش کا پتہ اگل دے گا۔ مگر کچھ دیر انتظار کے بعد اسے اپنے کانوں کی سماعت پر شک ہونے لگا جب اسکے کانوں میں امجد کی ہلکی ہلکی ہنسی کی آواز سنائی دی جو اب آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ امجد کو ہنستا دیکھ کر کاشف اور سرمد بھی اب مسکرا رہے تھے۔ امجد نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور اسکے بعد گرجتی ہوئی آواز میں بولا ابے اوئے کرنل ۔۔۔ تو کیا سمجھتا ہے تو ظلم کر کے ہم سے میجر دانش کا پتہ معلوم کر لے گا کیا؟ ارے تو ہماری بوٹی بوٹی بھی کر دے تو بھی تو ہم تینوں میں سے کسی کی زبان نہیں کھلوا سکتا، یہ کشمیریوں کا خون ہے جس میں وفا بھی ہے اور جذبہءِ جہاد بھی، تیری طرح کے ہندو ہوتے ہونگے جو ذرا سا ظلم سہ کر اپنی دھرتی کے ساتھ غداری کر جائے۔ ہم شہید تو ہوسکتے ہیں مگر اپنے وطن کے ساتھ غداری نہیں کر سکتے، ابے او ہیجڑوں کے کرنل ، اگر ہمت ہے تو یہاں میرے دل میں گولی مار اور اگر میرے دل میں گولی مارنے کے بعد بھی تجھے میری آنکھوں میں خوف نظر آجائے تو میری لاش کو کتوں کے آگے پھینک دینا۔
امجد کی آنکھوں میں اس وقت انگارے برس رہے تھے اور وہاں خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی وہاں صرف ایک ہی چیز کی تمنا تھی اور وہ تھی شہادت۔ کرنل وشال اس وقت اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اس نے کاشف پر ہر طرح کا ظلم کر کے دیکھ لیا تھا یہاں تک کہ اسکو کرنٹ بھی لگایا تھا اسکی ٹانگ میں سوراخ بھی کر دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ سرمد کے ساتھ بھی اس نے ہر طرح کا تشدد کیا تھا، اسکا چہرہ ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا تھا اور پانی سے چہرہ نکالتی ہی اسکا چہرہ دوبارہ سے برف جیسے ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا تھا۔ گرم پانی کا ظلم تو کوئی بھی انسان برداشت کر سکتا ہے، مگر گرم پانی کے فورا بعد برف جیسا ٹھنڈا پانی برداشت کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی، مگر سرمد اس تشدد کے بعد بھی کرنل وشال کو کچھ بھی بتانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
امجد کے جسم کو اس نے کانٹے لگے ہنٹر سے چھلنی کر دیا تھا، مگر وہ کچھ نہ بولا اور اب اسکی ٹانگ میں گولی مارنے کے بعد بھی وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ کرنل کو چیلنج کر رہا تھا کہ گولی مارنی ہے تو سینے میں دل پر مارے۔ امجد نے کرنل وشال کے سامنے اب اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا، وہ بالکل مایوس ہوچکا تھا ان تینوں سے۔ کرنل نے اب اپنی پسٹل کا رخ امجد کے سینے کی طرف کیا اور سرمد کو مخاطب کر کے بولا، تمہارے پاس آخری موقع ہے امجد کی زندگی بچانے کا، اگر تم میجر دانش کا پتا بتادو گے تو امجد کی جان بچ جائے گی۔ مگر سرمد نے میجر دانش کا پتا بتانے کی بجائے کرنل وشال کو کہا دیر کس بات کی ہے، اسی شہادت کی موت کا تو ہر مسلمان کو انتظار ہوتا ہے، چلا گولی اور پھر دیکھ شہید کے چہرے کی مسکراہٹ۔
سرمد کی اس بات کے بعد اب کرنل وشال ارادہ کر چکا تھا ان تینوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا وہ گولی چلانے ہی والا تھا کہ اسکے ساتھ کھڑے فوجی جوان کے ہاتھ میں موجود کرنل وشال کے موبائل کی گھنٹی بجی، کرنل نے نا گواری کے ساتھ اسکو دیکھا جو فون کرنل کی طرف لا رہا تھا، کرنل نے گرجتے ہوئے کہا بند کرو اسکو ورنہ یہی گولی تمارے سینے میں اتار دوں گا۔ وہ جوان وہیں رک گیا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولا سر بی بی جی کا فون ہے۔ ۔ کرنل کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آئے اور اس نے فورا اس فوجی سے فون پکڑ لیا اور بولا ہاں بیٹا سب خیریت تو ہے نا؟ یہ پوچھ کر کرنل وشال خاموش ہوا مگر امجد دیکھ رہا تھا کہ کرنل کے چہرے پر پریشانی کے آثار بڑھتے جا رہے تھے اور اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے تھے۔ اب کرنل وشال بولا تو اسکی آواز کانپ رہی تھی اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ بے بس دکھائی دے رہا تھا۔ کرنل وشال فون پر کانپتی آواز میں کہ رہا تھا "دیک یکھوت ت تم ایسا ن ن نہیں کر سکتے"۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ساحلِ سمندر پر انجلی لوکاٹی کے ساتھ سمندر کی لہروں کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ انجلی نے وہاں پھرنے والی باقی تمام لڑکیوں کی طرح محض برا اور پینٹی پہن رکھی تھی جبکہ پینٹی کے اوپر اس نے ایک باریک نیٹ کا چھوٹا سا رومال اسطرح باندھ رکھا تھا کہ وہ کپڑا انجلی کے چوتڑوں کو مکمل طور پر اور سامنے اسکی چوت کو چھپا رہا تھا جبکہ اسکی سلکی نرم و ملائم ٹانگیں مکمل طور پر ننگی تھیں۔ ساحل کی اس سائیڈ پر مخصوص لوگوں کو ہی آنے کی اجازت تھی یہاں پر زیادہ تر ہائی کلاس لڑکیاں یا پھر غیر ملکی یورپین اور امریکن لوگوں کو ہی آںے کی اجازت تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ یہاں پھرنے والی ہر لڑکی برا اور پینٹی پہنے ہوئے تھی یا پھر جو انڈین لڑکیاں تھیں انہوں نے انجلی کی طرح پینٹی کے اوپر کوئی کپڑا باندھ رکھا تھا یا پھر چھوٹی نیکر پہن رکھی تھی جو بمشکل انکے چوتڑوں کے ابھاروں کو ہی چھپاتی باقی ساری ٹانگ دعوت نظارہ دیتی تھی۔ لوکاٹی بھی بڑی شان کے ساتھ انجلی کے ساتھ چل رہا تھا۔ وہ آس پاس سے گزرنے والے قدرے ادھیر عمر کے جوڑوں کی طرف فخر سے دیکھتا۔ کیونکہ اس عمر میں بھی اسکے پہلو میں ایک 20 سالہ نوجوان سیکسی حسینہ تھی جبکہ باقی جو اسکے ہم عمر یا اس سے آدھی عمر کے بھی مرد وہاں موجود تھے انکے ساتھ ادھیڑ عمر اور ڈھلکے ہوئے جسموں والی عورتیں تھیں۔ محض نوجوان لڑکوں کے ساتھ ہی نوجوان لڑکیاں تھیں یا پھر ایک واحد لوکاٹی اس عمر کا تھا جسکے پہلو میں ایک ایٹم بم موجود تھا جو اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ساحل پر موجود جوان لڑکے اور مرد تو ایک طرف بوڑھوں کے لوڑوں میں بھی جان پیدا کر رہی تھی۔
لوکاٹی کا ایک ہاتھ انجلی کی چکنی کمر پر تھا اور اس نے کس کر انجلی کو پکڑ رکھا تھا جیسے اسے خوف ہو کہ انجلی کو کوئی منچلا نوجوان نہ لے اڑے۔ جبکہ انجلی اب لوکاٹی کے ساتھ سے کافی بور ہوچکی تھی۔ رات 2 مرتبہ لوکاٹی سے چوت مروانے کے بعد صبح بھی لوکاٹی نے بیدار ہوتے ہی اپنا تنا ہوا لن ایک بار پھر سے انجلی کی چوت میں ڈال کر اسے خوب چودا تھا۔ اور اسکے ساتھ ساتھ انجلی نے لوکاٹی سے کچھ مزیر کام کی باتیں اگلوا لی تھیں۔ اب وہ کسی طرح لوکاٹی سے جان چھڑوانا چاہ رہی تھی۔ مگر لوکاٹی تو انجلی کو اپنے ساتھ پاکیشا لیجانے کی سوچ رہا تھا، اس نے انڈیا میں موجود اپنے کچھ مخصوص دوستوں کو کہلوا دیا تھا کہ وہ انجلی کے لیے جعلی پاسپورٹ تیار کر دیں تاکہ آج رات پاکیشا جاتے ہوئے وہ حسن کی اس دیوی کو اپنے ساتھ پاکیشا لے جاسکے۔ رات جب انجلی عمران کو اپنے اپارٹمنٹ سے نکالنے کے بعد دوبارہ لوکاٹی کے ساتھ بیڈ پر لیٹی تو تب انجلی نے لوکاٹی کو بتایا تھا کہ وہ اسکے ساتھ پاکیشا نہیں جا سکتی کیونکہ اسکا پاسپورٹ نہیں بنا ہوا اور نہ ہی یہاں اسکے پاس راشن کارڈ یا آئی ڈی کارڈ ہے جس سے اسکی شناخت ہوسکے۔ مگر لوکاٹی کو ان چیزوں کی فکر نہیں تھی، انڈیا اور پاکیشا میں اسکے ایسے واقف لوگ تھے جو محض چند گھنٹوں میں جعلی پاسپورٹ بنا سکتے تھے اور لوکاٹی صبح ہوتے ہی انڈیا میں موجود اپنے ایجنٹ کو پاسپورٹ بنوانے کا کہ دیا تھا اور انجلی کو بھی اس بارے میں علم تھا مگر وہ لوکاٹی کے ساتھ سے اب تنگ آچکی تھی ۔۔۔
گوکہ لوکاٹی نے انجلی کی چوت کے ساتھ خوب مزے کیے تھے اور کہیں نہ کہیں انجلی نے بھی اس چودائی کا مزہ لیا تھا مگر چودائی کے علاوہ لوکاٹی میں اور کوئی خاص بات نہ تھی وہ ایک بوڑھا اور خشک طبیعت رکھ رکھاو والا آدمی تھا جبکہ انجلی شوخ و چنچل ایک نوجوان حسینہ تھی جو اپنے کسی ہم عمر یا پھر زندہ دل مرد کے ساتھ وقت بتانا چاہتی تھی۔ مگر اسے جو مرد پسند آرہا تھا اسکے ساتھ اس وقت انجلی کی بجائے ٹینا موجود تھی۔ انجلی بے چینی سے عمران اور ٹینا کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ عمران نے اسے بیچ پر آنے کا کہا تھا۔ انجلی کا یہ انتظار جلد ہی ختم ہوگیا جب اسے دور سے عمران اور ٹینا آتے دکھائی دیے۔ عمران نے محض ایک نیکر پہن رکھی تھی جو بمشکل اسکے گھٹنوں تک تھی جبکہ اوپر سے شرٹ نام کی کوئی چیز عمران کے جسم پر موجود نہیں تھی اور اسکا ورزشی جسم بیچ پر موجود تمام نوجوان لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ ٹینا بھی باقی لڑکیوں کی طرح ایک چھوٹی نیکر پہنے عمران کے ساتھ ساتھ تھی جبکہ برا کے اوپر سے ٹینا نے ایک ہلکی سی نیٹ کی شرٹ پہن رکھی تھی جس کے پار ٹینا کا سرخ رنگ کا برا نظر آرہا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد ٹینا اور عمران انجلی کے پاس پہنچ چکے تھے، لوکاٹی بھی ٹِنا کو دیکھ کر خوش ہوا اور اسے دکھانے کے لیے اب کی بار اس نے انجلی کو اپنے اور بھی قریب کر لیا تھا وہ دکھانا چاہتا تحا کہ اس نے اس بڑھاپے میں بھی ٹینا کی دوست کو کیسے رام کر لیا اور وہ اسکی گرل فرینڈ بن کر اسکے ساتھ بیچ کی سیر کر رہی تھی۔ عمران کی نظر انجلی کے اداس چہرے پر پڑی تو وہ بھی سمجھ گیا کے بیچاری بڈھے کے ساتھ رات گزار کر کافی تنگ ہے ، عمران نے آگے بڑھ کر انجلی اور لوکاٹی سے ہاتھ ملایا جبکہ ٹینا اور انجلی گلے ملی اور عربی انداز میں ایک دوسرے کے گال بھی چومے۔۔ جبکہ ٹینا نے لوکاٹی کے ساتھ ہاتھ ملایا، لوکاٹی کی نظریں ٹینا کی باریک شرٹ سے اسکے سرخ رنگ کے برا پر تھیں ، اس نے نیچے سے اوپر تک ٹینا کے خوبصورت مرمری جسم کا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ٹینا اور انجلی دونوں ہی اسکے نیچے آجائیں اور وہ دونوں کی جی بھر کر چودائی کر دے۔ کچھ دیر چاروں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، اس دوران لوکاٹی نے ٹینا کو بتایا کہ تمہاری دوست کو پاکیشا جانے کا بہت شوق ہے آج رات کی فلائٹ سے یہ میرے ساتھ پاکیشا جا رہی ہے۔ یہ سن کر عمران نے قدرے حیرت کے ساتھ انجلی کو دیکھا کہ یہ کیا نئی فلم ہے مگر انجلی نے کسی بھی قسم کا کوئی ری ایکشن نہیں دیا۔ اسی دوران ٹینا نے انجلی کو بتایا کہ ہم ابھی واٹر سکوٹر پر سمندر کی سیر کر کے آئے ہیں بہت مزہ آیا۔۔ واٹر سکوٹر کا نام سنتے ہی انجلی کی آنکھیں کھل گئیں اسکو بھی بہت شوق تھا واٹر سکوٹر کا اور وہ اس میں کافی ماہر بھی تھی۔
اسکے ذہن میں فورا ہی لوکاٹی سے جان چھڑوانے کا آئیڈیا آگیا، اسنے فورا لوکاٹی کو کہا چلو ڈارلنگ ہم بھی واٹر سکوٹر کے مزے لیں۔۔۔ مگر لوکاٹی کی عمر اس کی اجازت نہیں دیتی تھی کو وہ سکوٹر چلا سکے اور پانی میں جانے کا رسک لے سکے، اس نے فورا ہی انجلی کو کہا نہیں نہیں خطرناک ہے، میں یہ کام نہیں کر سکتا، انجلی نے ایک بار پھر اسے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا پلیز چلو نا مجھے بہت شوق ہے۔۔۔ مگر لوکاٹی بھلا ایسا رسک کیسے لے سکتا تھا اس عمر میں اس نے سختی سے انجلی کو منع کیا تو انجلی نے کہا ٹھیک ہے میں پھر عمران کے ساتھ چلی جاتی ہوں۔ عمران نے بھی فورا حامی بھر لی وہ تو پہلے ہی انجلی کا سیکسی بدن دیکھ کر اسکے قریب ہونا چاہ رہا تھا اور کل رات تو اس نے انجلی کے بڑے بڑے ممے بھی دیکھ لیے تھے جب وہ اپنی چوت میں لوکاٹی کا لن لیے اچھل اچھل کر اپنی چودائی کروا رہی تھی۔ انجلی فورا عمران کی طرف بڑھی اور اسکا بازو پکڑ کو اسی جانب چل پڑی جس جانب سے عمران اور ٹینا آئے تھے، عمران بھی فورا انجلی کو ساتھ لیے دوسری جانب چل پڑا۔ ٹینا کو اگرچہ یہ بات بری لگی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ عمران کسی اور لڑکی کے ساتھ جائے خاص طور پر جب لڑکی بھی ٹینا کی طرح سیکسی اور جوان ہو۔ مگر وہ کچھ نہ بولی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اسے تنگ نظر ہونے کا طعنہ دے۔
ٹینا سے کچھ دور جاتے ہی میجر دانش نے تانیہ کو مخاطب کیا اور بولا کوئی اور خاص بات پتہ لگی؟ تو تانیہ نے اسے بتایا کہ ہاں، بہت جلد ہولستان میں کوئی بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہونے والا ہے جس میں اس لوکاٹی کا ہاتھ ہوگا اور یہ کسی پاکیشا کی کسی تاریخی عمارت کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں مگر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کونسی عمارت ہو سکتی ہے۔ اسکے بعد پاکیشا مخالف تحریک زور پکڑ جائے گی، اور انہی دنوں میں بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ دیپیکا پڈوکون پاکیشا جائے گی اور وہاں اسکی ایک فلم ریلیز کی جائے گی۔ یہ فلم خاص طور پر ہولستان کے سینما گھروں میں ریلیز ہوگی اور اس میں بھی یہی دکھایا جائے گا کہ ہولستان میں لوگوں کو پاکیشا کی حکومت کی جانب سے حقوق نہیں دیے جا رہے، یہ فلم ہولستان کے سیدھے سادھے لوگوں کے دلوں میں پاکیشا کے لیے مزید نفرت پیدا کرے گی اور پھر کوئی مناسب موقع دیکھ کر اس لوکاٹی نے پاکیشا سے علیحدگی کا اعلان کر دینا ہے۔ اور ہندوستانی افواج نے ہولستان میں اپنا کنٹرول سنبھالنا ہے۔ حالات کافی خراب ہیں۔
یہ سب باتیں سن کر ایک لمحے کے لیے میجر دانش کے ماتھے پر پسینے آئے، مگر اس نے بہت جلد خود پر کنٹرول کیا اور اپنے اعصاب کو بحال کرتے ہوئے بولا ہندوستانی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی، ہم اپنی جان پر کھیل کر اس سازش کو ناکام بنائیں گے۔ پھر میجر دانش نے پوچھا یہ پاکستان جانے والی بات جو لوکاٹی نے کی یہ صحیح ہے؟؟ ٹینا نے کہا کہ ہاں رات اس سے راز اگلوانے کے لیے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور پاکیشا دیکھنا چاہتی ہوں تو وہ بڈھا ٹھرکی پاگل ہوگیا ہے اور مجھے ساتھ لیجانے کے لیے اس نے تمام انتظام کر لیے ہیں۔ آج شام کی اسکی سپیشل فلائٹ ہے۔ مگر میں نہیں جاوں گی اسکے ساتھ میں نے یہیں سے غائب ہوجانا ہے۔ اس پر میجر دانش نے تانیہ کو کہا کہ نہیں تم جاو اسکے ساتھ۔ اسکو تم پر اعتماد ہے اور جو حالات بن رہے ہیں پل پل کی خبر مجھ تک پہنچنا ضروری ہے۔ اسکے لیے کسی با اعتماد ساتھی کا ہونا ضروری ہے جو لوکاٹی کے ساتھ رہے۔ ویسے بھی وہ تمہارے جسم کا دیوانہ ہوگیا ہے تو اسکا فائدہ اٹھاو، اسکے ساتھ پاکیشا جاو، میں بھی 2 دن تک پاکیشا آجاوں گا اور پھر اس لوکاٹی کا بندوبست کرتے ہیں مل کر۔ تانیہ نے عمران کی طرف دیکھا اور بولی چلو ٹھیک ہے تم کہتے ہو تو چلی جاتی ہوں، مگر امجد بھائی برا نہ مان جائیں کہ انسے پوچھے بغیر میں پاکیشا چلی گئی۔ میجر دانش نے کہا اسکی فکر تم نہ کرو، وہ سمجھدار انسان ہے بلکہ اسکو خوشی ہوگی کہ تم وطن عزیز کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہی ہو، وہ سمجھ جائے گا۔ تم بس آج شام لوکاٹی کے ساتھ پاکیشا جاو اور مجھے پل پل کی خبر دو۔
اس دوران میجر دانش اس جگہ پہنچ چکا تھا جہاں واٹر سکوٹر دستیاب تھے۔ دانش نے ایک سکوٹر ہائیر کیا اور لائف جیکٹ لیکر تانیہ کو دی مگر اس نے پہننے سے انکار کر دیا اور بولی اسکی ضرورت نہیں ہم ایسے ہی واٹر سکوٹر انجوائے کریں گے۔ دانش نے تانیہ کو ایک بار پھر لائف جیکٹ پہننے کا کہا مگر اس نے انکار کر دیا اور بولی میں یہ فرسٹ ٹائم نہیں کر رہی مجھے اسکا تجربہ ہے تم فکر نی کرو۔ یہ کہ کر وہ واٹر سکوٹر کے پاس چلی گئی، میجر دانش بھی واٹر سکوٹر کے پاس گیا اور اس پر بیٹھنے لگا تو تانیہ نے اسکو منع کر دیا اور بولی تم میرے پیچھے بیٹھے سکوٹر میں چلاوں گی۔ میجر دانش نے اسے حیرانی سے دیکھا اور بولا کیا تمہیں یقین ہے کہ تم یہ کر سکتی ہو؟ تانیہ نے اٹھلاتے ہوئے دانش کی طرف دیکھا اور بولی ابھی تم تانیہ کی صلاحیتوں سے واقف نہیں ۔ اس پر دانش نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں تمہاری صلاحیتیں تو میں رات اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں، یہ کہتے ہوئے دانش کی نظریں تانیہ کے مموں پر تھیں جو اسکے بدن پر موجود برا میں بہت خوبصورت کلیویج بنا رہے تھے۔ دانش کی نظروں سے تانیہ بھی سمجھ گئی تھی کہ دانش کیا بات کر رہا ہے مگر اس نے برا منانے کی بجائے دانش کو کہا دیکھ لو پھر تمہیں کتنی کام کی معلومات بھی تو دی ہیں نا اپنی صلاحیتوں کی بدولت۔
تانیہ اب واٹر سکوٹر پر بیٹھ چکی تھی جبکہ میجر دانش اسکے پیچھے بیٹھ کر اپنے ہاتھ اسکی ٹانگوں پر رکھ چکا تھا۔ تانیہ کی ٹانگوں پر ہاتھ رکھتے ہی میجر دانش کو ایک جھٹکا لگا تھا، تانیہ کی ٹانگیں روئی کے گالوں کی طرح نرم و ملائم تھیں ، اور انکی گرمی سے دانش کے ہاتھ جلنے لگے تھے۔ سکوٹر سٹارٹ تھا اور پانی وہاں پر اتنا تھا کہ تانیہ اسکو با آسانی ریس دیکر کچھ گہرے پانی میں لے گئی اور ایک جانب تیزی سے سکوٹر کی رفتار بڑھانے لگی۔ اس نے میجر دانش کا ایک ہاتھ اپنی ٹانگ سے اٹھا کر اپنے پیٹھ پر رکھ لیا تھا اور پیچھے منہ کر کے دانش کو بولی ک سنبھل کر بیٹھو کہیں گر ہی نا جانا۔ یہ کہ کر تانیہ نے سکوٹر کی رفتار میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ دانش نے بھی تانیہ کو کسر کر پکڑ لیا تھا اور اسکا بازو تانیہ کے مموں سے تھوڑا سا نیچے پیٹ اور سینے کے ملاپ پر تھا اور دانش پہلے کی نسبت تانیہ کے قریب ہوکر بیٹھ گیا تھا، اسکی نظروں کے سامنے تانیہ کی ننگی کمر تھی جس پر محض برا کی ڈوری تھی جسکو تانیہ نے کمر پر باندھ رکھا تھا جبکہ نیچے چوتڑوں تک جہاں تانیہ کی سیکسی کمر دانش کی نیکر میں ہلچل پیدا کر رہی تھی۔ تانیہ کسی ماہر ڈرائیور کی طرح واٹر سکوٹر چلا رہی تھی، دانش کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نے واٹر سکوٹر کی ٹریننگ لے رکھی ہے۔
میجر دانش اب تانیہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا تھا کیونکہ سکوٹر کی رفتار بہت زیادہ تھی اور وہ پانی پر اچھلتا ہوا جھٹکے کھاتا آگے کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ تانیہ بھی سکوٹر کو پانی پر اچھالنے کے لیے لہروں کا سہارا لے رہی تھی۔ تانیہ کا سکوٹر وہاں پر موجود دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ گہرے پانی میں تھا کیونکہ وہ اس کام میں ماہر تھی ۔۔۔ اور اسکی رفتار بھی باقی لوگوں سے زیادہ تھی۔ میجر دانش کافی دیر سے تانیہ کے پیٹ پر اپنا بازو رکھ کر بیٹھا تھا جسکی وجہ سے اسکی نیکر میں لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور اب اسکا لن تانیہ کی کمر کے ساتھ ٹچ کر رہا تھا، مگر وہ ابھی تک پورے جوبن پر نہیں تھا۔۔۔ مگر تانیہ اپنی کمر پر کسی سخت چیز کو محسوس کر رہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ یہ دانش کا لن ہے جو تانیہ کی ننگی کمر اور سیکسی بدن کی وجہ سے کھڑا ہورہا ہے۔ تانیہ نے اب ایک لمبا موڑ کاٹا اور واٹر سکوٹر کو واپسی کی طرف لےجانے لگی۔ یہ موڑ کافی رفتار سے کاٹا گیا تھا اور کافی خطرناک تھا، ایک لمحے کے لیے میجر دانش کو لگا کہ سکوٹر اپنا توازن کھو دے گا اور وہ پانی میں گر جائیں گے جسکی وجہ سے میجر دانش تانیہ کے اور بھی قریب ہوگیا اور اسکو کس کر پکڑ لیا تھا مگر تانیہ نے بہت مہارت کے ساتھ موڑ کاٹ لیا تھا اور وہ اب واپسی کی طرف جا رہی تھی۔ مگر میجر دانش کا لن اب فل جوبن پر آچکا تھا اور تانیہ کی کمر میں سوراخ کر کے اس میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میجر کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ خیال تھا کہ معلوم نہیں تانیہ کیا سوچے گی اسکے بارے میں اور وہ اپنے لن کو بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر ایسا ممکن نہیں تھا کہ ایک سیکسی لڑکی سے کوئی مرد اتنا جڑ کے بیٹھے اور اسکا لن سر نہ اٹھائے۔ اب تانیہ کی برداشت بھی جواد دے رہی تھی، دانش کی باڈی دیکھ کر اسکا بے اختیار دل کیا تھا اسکی بانہوں میں سمٹنے کو، اور اس سے پہلے جب ڈانس کلب میں تانیہ میجر دانش کی گود میں بیٹھی تھی اور اسکو اپنے چوتڑوں کے نیچے دانش کا طاقتور لن محسوس ہوا تھا تب سے اسکی خواہش تھی ایسے جاندار لن کی سواری کرنے کی، اور اب تو وہی لن کافی دیر سے اسکی پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔
تانیہ کے لیے اب مشکل ہورہا تھا اپنے اوپر کنٹرول کرنا، اور اسکی شرم بھی ختم ہو چکی تھی دانش سے کیونکہ وہ کل رات ہی تو عمران کی آنکھوں کے سامنے لوکاٹی کے لن کی سواری کر رہی تھی۔ بالآخر تانیہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اسنے واٹر سکوٹر چلاتے چلاتے تھوڑا سا کھڑی ہوکر اپنے چوتڑ اوپر اٹھائے اور پیچھے ہوکر دوبارہ سے اس طرح بیٹھ گئی کہ میجر دانش کا لن اب تانیہ کی گانڈ کے نیچے تھا۔ دانش کے لیے تانیہ کی یہ حرکت حیران کن نہیں تھی کیونکہ وہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ تانیہ کا جسم مسلسل گرم ہورہا تھا اور وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی کمر کو پیچھے دھکیل کر اپنی طرف سے غیر محسوس طریقے کے ساتھ لن کے ساتھ رگڑتی تھی، مگر دانش اسکی بے تابی کو سمجھ رہا تھا اور اب جو تانیہ نے اپنی گانڈ اٹھا کر دانش کے لن پر رکھ دی تھی تو دانش نے بھی اپنا ایک ہاتھ تانیہ کی تھائی پر پھیرنا شروع کر دیا تھا اور اسکا ہاتھ جو پیٹ پر تھا وہ تھوڑا سا اوپر سرک گیا تھا اور تانیہ کے مموں کے نچلے حصے کو چھونے لگا تھا۔
تانی اب بھی بڑی مہارت کے ساتھ واٹر سکوٹر چلا رہی تھی اور اسکی کوشش تھی کو وہ دوسرے لوگوں سے دور رہ کر ہی چلارہی تھی اور اب وہ آہستہ آہستہ اپنی گانڈ کو دانش کے لن کے اوپر رگڑ رہی تھی جس سے دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ تانیہ کی چوت دانش کے لن کے لیے بے تاب ہے مگر تانیہ کو چودنے کے لیے موقع کیسے پیدا کیا جائے ، جبکہ ٹِنا بھی ساتھ ہے اسکی سمجھ دانش کو نہیں آرہی تھی۔ وہ خود بھی تانیہ کی چوت میں اپنا لن پھنسانے کے لیے بے تاب تھا اور اب تو تانیہ نے اپنی گانڈ خود سے دانش کے لن پر رکھ کر اسکو کھلی دعوت دے ڈالی تھی کہ مجھے چود دو۔۔۔۔ مگر کیسے؟؟؟ یہ دانش کو سمجھ نہیں آرہی تھی جبکہ اسکے پاس اب وقت بھی کم تھا کچھ ہی گھنٹے بعد اسے لوکاٹی کے ساتھ پاکیشا روانہ ہونا تھا۔ ایسے میں نا ممکن تھا کو اسے تانیہ کو چودنے کا کوئی موقع ملے۔ لہذا اسنے اسی کو غنیمت مانا کہ جب تک واٹر سکوٹر پر ہیں تانیہ کے مموں کا ہی مزہ لے لیا جائے۔ یہ سوچ کر دانش نے بلا جھجک اپنا ہاتھ جو پہلے تانیہ کے مموں کے نچلے حصے کو ہلکا سا چھو رہا تھا وہ اٹھا کر تانیہ کے ممے پر رکھ دیا اور اسے زور سے دبا دیا۔ میجر دانش کی اس حرکت سے تانیہ کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور ساتھ ہی اس نے اپنی گانڈ کو زور سے دانش کے لن سے اور بھی قریب کر دیا۔ اب دانش نے اپنا دوسرا ہاتھ جو تانیہ کی تھائز کو سہلا رہا تھا اٹھا کر اسکی چوت کے ساتھ لے آیا اور اسکی ٹانگ پر آہستہ آہستہ مساج کرنے لگا۔ تانیہ نے سکوٹر کی رفتار اب بہت دھیمی کر دی تھی کیونکہ اب اسکا سارا دھیان سیکس کی طرف تھا۔
تانیہ مسلسل اپنی گانڈ کو دانش کے لن پر مسل رہی تھی جبکہ دانش اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کے ممے کو زور زور سے دبا رہا تھا اور ساتھ ساتھ تانیہ کی گردن پر اپنے ہونٹوں سے پیار کر رہا تھا جس سے تانیہ کی بےتابی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اور اسکا جسم جلنے لگا تھا۔ اس پر ستم دانش کا ہاتھ جو تانیہ کی چوت کے بالکل ساتھ اسکی ٹانگ کے اندرونی حصے کا مساج کر رہا تھا اب آہستہ آہستہ سرکتا ہوا تانیہ کی چوت پر آچکا تھا۔ تانیہ کی سسکیوں میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا تھا اور اسکی چوت گیلی ہورہی تھی جبکہ دانش کا لن بھی تانیہ کی گانڈ پر اپنا پریشر بڑھا رہا تھا۔ واٹر سکوٹر جب پانی پر اچھلتا اور ہوا میں ہلکا سا بلند ہوتا تو بیلنس برقرار رکھنے کے لیے تانیہ سکوٹر سے تھوڑا سا اوپر اٹھتی اور واپس دانش کے لن اپنی گانڈ رکھ دیتی۔ دونوں اس صورتحال کو بہت زیادہ انجوائے کر رہے تھے۔ اب دوبارہ سے تانیہ نے واٹر سکوٹر کو موڑا اور اب کی بار دانش نے اپنے دونوں ہاتھ تانیہ کے 36 سائز کے گول اور کسے ہوئے مموں پر رکھ کر انکو زور سے پکڑ لیا جبکہ تانیہ نے بھی اپنی گانڈ دانش کے لن پر جما دی تھی۔ واٹر سکوٹر کا رخ دوسری جانب موڑںے کے بعد ایک بار پھر تانیہ نے میجر دانش کے لن پر واٹر سکوٹر کے ہچکولوں کے ساتھ ساتھ اچھلنا شروع کر دیا اور میجر دانش کا ایک ہاتھ دوبارہ سے تانیہ کی چوت کو سہلانے لگا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ مسلسل تانیہ کے مموں کو دبا کر مزے لے رہا تھا۔
کچھ دیر اسی طرح مزے لینے کے بعد اب تانیہ میجر دانش کے لن سے اٹھی اور آگے ہوکر بیٹھ گئی، آگے ہوکر تانیہ نے میجر دانش کو کہا کو وہ بھی تھوڑا آگے ہوجائے، اس دوران تانیہ نے واٹر سکوٹر کی رفتار بہت دھیمی کر دی تھی۔ جب میجر دانش ایک بار پھر اپنے لن کو تانیہ کی کمر سے لگا کر بیٹھ گیا اور اپنا ہاتھ تانیہ کی چوت پر رکھ دیا تو تانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے ہٹا دیا اور بولی کہ اب تم پیچھے بیٹھ کر واٹر سکوٹر کا ہینڈل کنٹرول کرو۔ دانش نے کہا اب کیا ہوگیا؟ چلاو اب تمہی۔ مگر تانیہ نے اصرار کیا کہ اب میجر دانش ہینڈل کنٹرول کرے تو میجر دانش نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ہاتھ تانیہ کے مموں سے ہٹایا اور دونوں ہاتھوں سے واٹر سکوٹر کا ہینڈل پکڑ لیا، پھر تانیہ جو واٹر سکوٹر پر دانش کے آگے بیٹھی تھی اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی۔ کھڑی ہوکر تانیہ نے اپنے دونوں ہاتھ کھول کر فضا میں لہرائے ، اسکے بال اب ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہ منہ اوپر کر کے ٹھنڈی ہوا کا مزہ لے رہی تھی۔ مگر دانش کا چہرہ اب تانیہ کی گانڈ کے بالکل سامنے تھا جس پر تانیہ نے ایک چھوٹا سا رومال باندھ رکھا تھا۔ میجر دانش تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنا چہرہ سائیڈ پر کر کے سامنے دیکھتا کہ کوئی اور سکوٹر تو نہیں آرہا اور پھر دوبارہ سے اپنا چہرہ تانیہ کی گانڈ کے عین وسط میں لے آتا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ تانیہ کی گانڈ سے چھیڑ چھاڑ کی جائے کہ تانیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا رومال کھول دیا اور وہ بھی ایک ہاتھ میں پکڑ کر ہوا میں لہرانے لگی۔ رومال کھولا تو تانیہ کے گورے گورے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ میجر دانش کو دعوتِ نظارہ دینے لگے۔ تانیہ کے چوتڑوں کی لائین کافی گہری معلوم ہورہی تھی کیونکہ اسکی جسامت کے حساب سے اسکے چوتڑوں کا سائز خاصا بڑا تھا جس سے اسکی گانڈ باہر نکلی ہوئی تھی۔ مگر دانش تانیہ کے چوتڑوں کی لائن کے اندر نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ تانیہ نے پینٹی بھی پہن رکھی تھی جو تانیہ کی گانڈ کی لائن کے ساتھ ساتھ اسکے چوتڑوں کے کچھ حصے کو بھی چھپا رہی تھی۔
تانیہ جو اپنے دونوں بازو ہوا میں پھیلائے ٹھنڈی ہواوں کا مزہ لے رہی تھی اچانک اسکو اپنے چوتڑوں پر کچھ گیلا گیلا محسوس ہوا۔ یہ میجر دانش کی زبان تھی جو اب تانیہ کے بھرے ہوئے چوتڑوں کو چوس رہی تھی تانیہ نے بھی اسے منع نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے ہی گرم ہو رہی تھی اور یہاں کوئی خاص دیکھنے والا شخص بھی موجود نہیں تھا، اگر کوئی ہوتا بھی تو ایسی پریشانی والی بات نہیں تھی کیونکہ یہاں پر جتنے بھی جوڑے آتے ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ انکی اکثریت کا مقصد ساحل سمندر کو انجوائے کرنے کے بجائے چدائی کا ہی ہوتا ہے۔ تانیہ نے اب اپنے چوتڑ تھوڑا سا جھک کر پیچھے کی جانب نکال دیے تھے تاکہ میجر دانش انکو اچھی طرح چاٹ سکے، میجر دانش بھی کچھ لمحے چہرہ سائیڈ پر ہٹا کر سامنے کا جائزہ لینے کے بعد اب دوبارہ سے تانیہ کے بھرے ہوئے چوتڑوں کو اپنی زبان سے چاٹ رہا تھا، اسکی کوشش تھی کے تانیہ کے چوتڑوں کا گوشت منہ میں لیکر اسکو کھا جائے، اسی کوشش میں دانش کے دانتوں کے نشان تانیہ کے چوتڑوں پر پڑتے جا رہے تھے۔ اور تانیہ کی چوت اب ایسے گیلی تھی جیسے کچھ ہی دیر میں وہ اپنا پانی چھوڑنے والی ہو۔
اب تانیہ نے ایک دم سے دانش کا سر پکڑ کر پیچھے کیا اور دوبارہ سے بیٹھ گئی، وہ اپنا رومال جو اس نے پینٹی کے اوپر سے باندھ رکھا تھا سمندر کے پانی میں پھینک چکی تھی۔ مگر اب کی بار تانیہ کے بیٹھنے کا انداز کچھ نرالا تھا۔ وہ اپنے گھٹنے سکوٹر پر رکھ کر اس طرح بیٹھ گئی کے اسکی ٹانگیں پیچھے کی طرف فولڈ ہوگئیں اور اس نے سکوٹر کا ہینڈل بھی خود سنبھال لیا، وہ اب ڈوگی سٹائل میں سکوٹر پر بیٹھی تھی اور اسکی گانڈ اب میجر دانش کے بالکل سامنے تھی جسکو وہ دل کھول کر چاٹ سکتا تھا۔ جیسے ہی تانیہ نے سکوٹر کا کنٹرول سنبھالا اور ڈاگی سٹئل مِں سکوٹر پر بیٹھی، میجر دانش نے اپنے ہاتھوں سے تانیہ کے چوتڑوں کو پکڑ کر زور سے دبا دیا اور ان پر زور سے کاٹ لیا۔ جس سے تانیہ کی ایک سسکی نکلی۔ پھر میجر دانش نے تانیہ کی پینٹی کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں نیچے کر دیا۔ تانیہ کی گانڈ اب میجر دانش کے سامنے تھی،اسکی گانڈ کا سوراخ تانیہ کے چوتڑوں کی لائن میں چھپا ہوا تھا گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ آپس میں ملے ہوئے تھے جسکی وجہ سے اسکی گانڈ کا سوراخ نظر نہیں آرہا تھا، مگر میجر دانش نے اسکے چوتڑوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھول دیا اور اپنے ہاتھ کی 2 انگلیوں کو گانڈ کی لائن میں پھیرنے لگا۔ اس دوران اسکی انگلی تانیہ کی گانڈ کے سوراخ کو چھوگئی جس سے تانیہ کی سسکیاں نکلنے لگیں، اور میجر دانش نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا منہ تانیہ کی گانڈ پر اس طرح رکھا کے اسکا ناک اور زبان گانڈ کی لائن میں گم ہوچکے تھے۔ میجر دانش کی زبان اب تانیہ کی گانڈ کے سوراخ میں تھی اور وہ واٹر سکوٹر اس ایریا سے بہت دور لا چکی تھی جہاں پر باقی کے لوگ سکوٹر چلا رہے تھے۔ میجر دانش تانیہ کو چوتڑوں سے پکڑ کر مسلسل اسکی گانڈ چاٹ رہا تھا۔ تانیہ کی گانڈ کا ذائقہ میجر دانش کو بہت بھلا لگ رہا تھا وہ زیادہ سے زیادہ کوشش کر رہا تھا کہ اپنی زبان تانیہ کی گانڈ کے سوراخ میں پھنسا سکے۔ مگر اسکی گانڈ کا سوراخ بہت تنگ تھا، دانش سمجھ گیا تھا کہ تانیہ کی گانڈ ابھی تک کنواری ہے کسی نے اس میں لن ڈالنے کی جرات نہیں کی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسکو تانیہ کی گانڈ چاٹنے میں بہت مزہ آرہا تھا۔ جیسے جیسے دانش کی زبان تانیہ کی گانڈ کا مساج کر رہی تھی تانیہ کی مستی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب تانیہ کے جسم میں سوئیاں چھبنے لگی تھیں اور اسے محسوس ہورہا تھا کہ اسکی چوت میں آگ ہی آگ ہے۔ کچھ دیر مزید اسی طرح واٹر سکوٹر پر ڈوگی بن کر گانڈ چٹوانے کے بعد تانیہ کے جسم میں جھٹکے لگے اور اسکی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا جس سے واٹر سکوٹر کی وہ جگہ جہاں تانیہ پہلےبیٹھی تھی گیلی ہوگئی تھی۔
تانیہ کچھ دیر اسی حالت میں اپنی چوت سے پانی نکلنے کا انتظار کرتی رہی، جب اسکی چوت نے سارا پانی نکال دیا تو اس نے گہرا سانس لیا اور دانش نے بھی اسکی گانڈ سے منہ ہٹا کر اسکی پینٹی دوبارہ اوپر کر دی ۔ تانیہ بھی دوبارہ سے واٹر سکوٹر پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی اور سکوٹر کا رخ دوبارہ سے واپسی کی طرف موڑ دیا۔ مگر اب کی بار وہ دانش کے لن پر بیٹھنا نہیں بھولی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس نے تو اپنی گرمی ختم کر لی مگر دانش کے لن میں ابھی گرمی موجود ہے جو اس نے نکالنی ہے۔ دانش کے لن پر بیٹھ کر تانیہ نے پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے اسکے لن پر اپنی گانڈ کو مسلنا شروع کر دیا تھا اور واٹر سکوٹر کی رفتار بھی دھیمی رکھی تھی تاکہ واپس پہنچنے سے پہلے پہلے وہ دانش کے لن کا پانی نکلوا سکے۔ دانش کو بھی مزہ آرہا تھا اس نے تانیہ کو کمر سے پکڑ رکھا تھا اور خود بھی کوشش کر رہا تھا کہ اپنا لن اسکی گانڈ پر زیادہ تیزی سے مسل سکے، مگر اتنی جلدی اسکے لن سے پانی نکلنا ممکن نہیں تھا۔ ابھی کل رات ہی تو اس نے ٹینا کی جی بھر کر چودائی کی تھی تو کیسے ممکن تھا کہ اتنی جلدی اسکا لن پانی چھوڑ جائے۔ تانیہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود دانش کے لن سے پانی نہیں نکلا۔۔۔ منزل کے قریب پہنچنے سے پہلے تانیہ نے مڑ کر دانش کو دیکھا اور بولی تم ہوںے نہیں فارغ ابھی تک؟؟؟ میجر دانش نے مسکرا کر تانیہ سے کہا یہ اتنی جلدی نہیں نکلے گا۔ بس تم اب واٹر سکوٹر کو چھوڑو، ٹینا انتظار کر رہی ہوگی، اسے شک نہ ہوجائے اب واپس چلتے ہیں۔ تم آج لوکاٹی کے ساتھ پاکیشا جاو، میں بھی کچھ دنوں تک پاکیشا واپس آنے کا بندوبست کرلوں گا، تب وہاں میرا پانی نکلوانا تم پر ادھار رہے گا۔
دانش کی بات سن کر تانیہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا یہ بہتر ہے۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔ دانش بولا مگر کیا؟ تانیہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا تب تک لوکاٹی پتا نہیں میرے ساتھ کیا کرے گا؟؟؟ دانش نے ایک زور دار قہقہ مارا اور بولا وہی کرے گا جو اس وقت میں کرنا چاہ رہا ہوں اور اس نے کیا کرنا ہے تمہارے ساتھ؟؟ تانیہ نے گھبراتے ہوئے کہا نہیں میرا مطلب ہے اگر اسے پتا لگ گیا میرے بارے میں کہ میں تمہارے لیے کام کر رہی ہوں تو؟؟ دانش نے پر اعتماد لہجے میں کہا مجحھے تمہاری ذہانت پر پورا یقین ہو تم ایسا کوئی کام نہیں کروگی جس سے اسے تم پر شک ہو۔ اتنی دیر میں تانیہ اور دانش واپس اس پوائنٹ پر پہنچ چکے تھے جہاں سے انہوں نے واٹر سکوٹر لیا تھا۔ کچھ ہی دور ٹینا اور لوکاٹی بھی موجود تھے جو نجانے کس بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ دانش نے تانیہ کو سکوٹر سے اترنے میں مدد دی اور دونوں ٹینا کی طرف جانے لگے۔ ٹینا کی نظر تانیہ پر پڑی تو ایک لمحے کے لیے وہ سٹپٹا گئی، اسکی نظریں ٹینا کے نچلے حصے یعنی اسکی چوت کی طرف تھیں جہاں اسے صرف ایک پینٹی نظر آرہی تھی جبکہ جاتے ہوئے پینٹی کے اوپر سے اس نے ایک رومال بھی باندھ رکھا تھا۔ ٹینا سارا ماجرا سمجھ گئی تھی اور دل ہی دل میں تانیہ کو برا بھلا کہ رہی تھی۔ مگر مرتی کیا نہ کرتی اسکو اس چیز کا اظہار کیے بغیر خوش دلی سے تانیہ کو اور دانش کو ویلکم کہنا پڑا۔ لوکاٹی نے تانیہ کو پینٹی میں دیکھا تو اس نے آگے بڑھ کر تانیہ کو گلے لگایا اور اسکے چوتڑ پکڑ کر دباتے ہوئے بولا ڈارلنگ تم تو بہت سیکسی ہو مجھے ڈر ہے یہیں پر تم میرے لن کا پانی نکال دو گی۔ یہ بات لوکاٹی نے آہستہ سے کی تھی۔ تانیہ نے بھی آہستہ سے جواب دیا فکر نہیں کرو، پاکستان پہنچتے ہی تمہارے لن کی سواری کر کے تمہارا پانی نکلواں گی۔
لوکاٹی تانیہ کی یہ بات سن کر خوش ہوگیا اور بولاا چلو پھر ہم چلتے ہیں اب چلنے کی تیاری بھی کرنی ہے۔ تانیہ نے پوچھا کب تک نکلنا ہے ادھر سے تو لوکاٹی نے کہا بس 4 بجے تک یہاں سے ہیلی کاپٹر پر نکلیں گے جو ہمیں ائیر پورٹ پہنچا دے گا اور وہاں سے پھر ہماری فلائٹ ہوگی 5 بجے۔ تانیہ نے کہا ابھی تو بہت وقت ہے، تم ایسا کرو واپس جا کر اپنی تیاری کو میں کچھ وقت ٹینا کے ساتھ گزار لوں، مجھے تیاری کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ لوکاٹی نے کہا چلو جیسے تمہاری مرضی۔ لیکن کوشش کرنا جلد ہوٹل پہنچنے کی تاکہ ہم وقت پر وہاں سے نکل سکیں۔ تانیہ نے کہا تم فکر نہی کرو ڈارلنگ میں پہنچ جاوں گی۔
لوکاٹی کے وہاں سے جانے کے بعد اب دانش کے ایک طرف ٹینا تھی تو دوسری جانب اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور سیکسی جسم کے ساتھ تانیہ تھی اور عمران یعنی کے دانش اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا تھا۔ کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد عمران نے انجلی اور ٹینا سے والی بال کھیلنے کی فرمائش کی تو دونوں فوری طور پر راضی ہوگئیں، سامنے ہی کچھ لڑکے اور لڑکیاں والی بال کھیل رہے تھے، یہ تینوں بھی انکے پاس گئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا، انجلی کو دیکھتے ہی وہاں موجود لڑکوں نے فوری حامی بھر لی اور دوبارہ سے ایک ٹیم بنا لی۔ اب دانش کے ساتھ ٹینا کے علاوہ مزید 2 لڑکیاں تھیں جو پہلے والے گروپ کے ساتھ تھیں اور 2 ہی لڑکے تھے۔ تو ٹوٹل 6 لوگوں کی ٹیم بن گئی تھی۔ اسی طرح دوسری جانب انجلی کے ساتھ 2 مزید اسکی کی طرح گرم گرم سیکسی لڑکیاں موجود تھیں اور 3 لڑکے تھے جنکا دھیان اب کھیل سے زیادہ تانیہ کے خوبصورت جسم کی طرف تھا۔ مگر اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ 20 ، 24 منٹس تک والی بال کا یہ کھیل جاری رہا اسکے بعد انجلی نے عمران سے کہا کہ وہ تھک چکی ہے۔ تو عمران نے کہا چلو پھر بس کرتے ہیں، ٹینا بھی تھک گئی تھی اس نے بھی کھیل ختم کرنے میں ہی عافیت جانی۔ باقی ساتھیوں سے اجازت لیکر عمران ٹینا اور انجلی کھیل سے علیحدہ ہوگئے اور پہلے والا گروپ دوبارہ سے کھیل میں مصروف ہوگیا۔
ٹینا نے عمران سے کہا چلو ہٹ واپس چلتے ہیں میں بہت تھک گئی ہوں تھوڑا ریسٹ کرنا ہے۔ عمران نے کہا چلو چلتے ہیں پھر واپس۔ انجلی بھی انکے ساتھ ساتھ چلنے لگی، گو کہ ٹینا کو انجلی کا عمران کے ساتھ فری ہونا برا لگ رہا تھا مگر پھر بھی وہ انجلی کے ساتھ نارمل انداز میں گفتگو کر رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد تینوں اپنے ہٹ میں پہنچ چکے تھے، کمرے میں داخل ہوتے ہی عمران سامنے پڑے صوفے پر ڈھے گیا جبکہ ٹینا بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور اپنا وزن عمران پر ڈال دیا جبکہ انجلی دوسرے صوفے پر آرام سے بیٹھ گئی۔ ٹینا کچھ زیادہ ہی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ تینوں کے جسم پر ریت بھی تھی، ٹینا نے سوچا کیوں نہ ٹھنڈے پانی سے نہا لیا جائے، جسم بھی صاف ہوجائے گا اور تھکاوٹ بھی دور ہوگی۔ یہ سوچ کر ٹینا اپنی جگہ سے اٹھی اور کمرے میں موجود اٹیچ باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی اور عمران کو کہ گئی جانو میں بس ابھی فریش ہوکر آتی ہوں۔
واش روم میں جاتے ہوئے ٹینا کے دل میں خیال آیا کے پیچھے کہیں انجلی دوبارہ سے عمران کے گلے نا پڑجائے ، اس وقت اسکی حالت بھی ایسی ہی تھی کہ اسے دیکھ کر عمران کا دل بھی خراب ہو سکتا تھا، مگر اس وقت ٹینا کو اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی اور اس نے دل میں سوچا کہ بس کچھ ہی دیر لگائے گی واش روم میں تاکہ انجلی کو زیادہ وقت نہ مل سکے عمران کے ساتھ بیٹھنے کا۔ ٹینا نے واش روم میں جا کر واش روم کا دروازہ بند کیا اور سب سے پہلے اپنا برا اتارا۔ پھر اس نے اپنی چھوٹی نیکر کا بٹن اور زپ کھول کر وہ بھی اتار دی اور اسکے بعد اپنی چھوٹی سی پینٹی اتار کر مکمل ننگی ہوکر شاور کھول دیا اور شاور کے نیچے کھڑی ہوگئی۔ جیسے ہی ٹھنڈا پانی ٹینا کے جسم پر پڑا اسکو راحت مل گئی، ٹینا نے منہ اوپر کیا اور اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر چہرے کو ہولے ہولے مسلنے لگی۔ ٹینا کے لمبے بال اسکی کمر تک جا رہے تھے اور پانی بالوں سے نکل کر اسکی کمر سے ہوتا ہوا چوتڑوں کو گیلا کر رہا تھا۔ ٹینا کو ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ واش روم کا دروازہ ے پر دستک ہوئی۔ ٹینا نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور بولی کون؟؟
واش روم کے دروازے کے دوسری طرف سےانجلی کی آواز آئی ٹینا اِف یو ڈانٹ مائنڈ مے آئی کم ان پلیز؟ دراصل مجھے دیر ہورہی ہے لوکاٹی صاحب میرا ویٹ کر رہے ہوںگے میں بھی شاور لیکر واپس ہوٹل جاونگی۔۔۔۔ انجلی کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی ٹینا نے دروازہ کھول دیا کیونکہ وہ تو چاہتی تھی کہ انجلی یہاں سے جائے تو اسکو عمران کے ساتھ حسین لمحات گزارنے کا موقع ملے۔ مگر وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ انجلی کے ذہن میں اس وقت کچھ اور ہی چل رہا ہے۔ ٹینا نے دروازہ کھولا تو انجلی فورا ہی اندر چلی گئی اور پیچھے عمران کمرے میں اکیلا بیٹھا آہیں بھرنے لگا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کو وہ بھی فورا اٹھے اور واش روم میں جا کر دونوں سیکسی لڑکیوں کے ساتھ شاور لے۔ مگر۔۔۔۔۔۔ اس میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
انجلی نے واش روم میں جاتے ہی اپنا برا اور پینٹی اتار کر ایک سائیڈ پر پھینکے اور ٹینا نے سائیڈ پر ہوکر انجلی کو شاور کے نیچے کھڑا ہونے کی جگہ دی۔ خود وہ سائیڈ پر ہوگئی تاکہ انجلی شاور لے کر یہاں سے جلدی جا سکے۔ انجلی بھی ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑی ہوئی تو اسکو سکون مل گیا مگر اسکی چوت ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ انجلی نے کچھ دیر شاور کے نیچے کھڑی ہوکر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا اور پھر اپنی آنکھیں کھول کر ٹینا کو گھورنے لگی۔ انجلی نے ٹینا کو اسکے سر سے پاوں تک غور سے دیکھا اور پھر اسکو ایک سمائل دی۔ ٹینا نے حیران ہوکر انجلی سے پوچھا کیا ہوا؟ تم ایسے کیوں گھور رہی ہو؟ انجلی بولی تمہارا خوبصورت جسم دیکھ رہی ہوں، بہت خوبصورت ہو تم۔ ٹینا اپنی تعریف سن کر تھوڑی سی شرمائی اور انجلی کو دیکھتے ہوئے بولی تم بھی کچھ کم نہیں۔ انجلی نے ٹینا کو کہا تمہارے بوبز بہت خوبصورت ہیں۔ یہ کہ کر انجلی تھوڑا سا آگے بڑھی اور ٹینا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ اب ٹینا تھوڑا سا گھبرائی اور بولی یہ کیا کر رہی ہو؟؟ انجلی نے کہا فکر نہیں کرو کچھ نہیں کر رہی۔ تم سائیڈ پر جو کھڑی ہو تم بھی نہا لو۔ بلکہ تمہاری کمر پر میں صابن لگا دیتی ہوں، میری کمر پر تم لگا دینا تاکہ سمندری ریت اچھی طرح صاف ہو سکے۔
ٹینا نا چاہتے ہوئے بھی شاور کے نیچے آگئی جہاں اب انجلی اور ٹینا کے جسم آپس میں مل رہے تھے اور دونوں کو ایک دوسرے کے جسم سے گرمی نکلتی محسوس ہوری تھی۔ انجلی گھوم کر ٹینا کے پیچھے آگئی اور ہولے ہولے اپنے ہاتھ ٹینا کی کمر پر پھیرنے لگی۔ اسکا ہاتھ پھیرنے کا انداز ایسا تھا جیسا کوئی لڑکا لڑکی کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے نرمی سے اسکی کمر سہلاتا ہے۔ پھر انجلی نے پاس پڑا صاب اٹھایا اور ٹینا کی گردن سے لیکر اسکی کمرے کے نچلے حصے تک صاب کو آہستہ آہستہ پھیرا۔ پھر صابن سائیڈ پر رکھ کر انجلی اپنے ہاتھوں سے ٹینا کی کمر کا مساج کرنے لگی۔ ٹینا اسی کشمکش میں تھی کہ انجلی کو یہ سب کرنے سے منع کرے یا نہ، مگر وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ اور انجلی مسلسل ٹینا کی کمر پر مساج کیے جارہی تھی۔ اسکا مساج کرنے کا انداز ایسا تھا کہ ٹینا کو مزہ بھی آرہا تھا اور اسکی گرمی بھی بڑھ رہی تھی۔ انجلی نے ٹینا کی کمر کے اوپر حصے پر جہاں کندھوں کی ہڈی نکلی ہوتی ہے ، وہاں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے آہستہ آہستہ اوپر نیچے مساج کیا، اسکے بعد وہ نیچے ہوتی گئی اور ٹینا کی بل کھاتی کمریا کے بیچ میں آکر وہاں اپنے ہاتھ پھیرنے لگی۔ پھر وہاں سے مزید نیچے آئی اور ٹینا کے 34 انچ کے بڑے بڑے چوتڑوں پر بھی اپنے ہاتھ پھیرے۔ اس سے پہلے کہ ٹینا انجلی کو ایسا کرنے سے منع کرتی وہ خود ہی واپس اوپر کی طرف آگئی۔ اور دوبارہ سے کمر پر مساج کرنے لگی۔ پھر انجلی نے دوبارہ سے صابن اٹھایا اور ٹینا کے سامنے جا کر اسکے بدن پر صابن پھیرنے لگی۔ گلے سے کچھ نیچے سینے پر صابن رکھ کر انجلی نے اپنا ہاتھ گھمانا شروع کیا اور اور نیچے لاتے ہوئے ٹینا کے 36 انچ کے سڈول اور کسے ہوئے مموں پر صابن پھیرنے لگی۔ اس دوران انجلی نے مسکراتے ہوئے ٹینا کی طرف دیکھا اور بولی رات عمران تو تمہارے ان مموں پر مر مٹا ہوگا؟؟؟
انجلی کی بات سن کر ٹینا تھوڑا نروس ہوگئی، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے مگر اس نے ہنسنے کی کوشش کی اور بولی ہاں عمران تو مر مٹا تھا مجھ پر۔ اس دوران انجلی کا ہاتھ ٹینا کے مموں سے نیچے آکر اسکے پیٹ پر صابن مسلنے میں مصروف تھا ۔ پیٹ پر صابن لگانے کے بعد انجلی نے صابن دوبارہ سے سائیڈ پر رکھ دیا اور ٹینا کے جسم پر دوبارہ سے ہاتھ پھیر کر مساج کرنے لگی۔ مگر اب کی بار انجلی کمر کی بجائے ٹینا کے سینے پر اپنے ہاتھ پھیر رہی تھی اور اسکے ہاتھ ٹینا کے مموں پر گول گول گھوم رہے تھے، ٹینا کو اب اس کھیل میں مزہ آنے لگا تھا، اب وہ انجلی کو روکنے کا سوچ بھی نہیں رہی تھی اور چاہ رہی تھی کہ جیسے چل رہا ہے چلتا رہے یہ کام۔ انجلی اب ہولے ہولے ٹینا کے مموں کو دبا رہی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے ٹینا کا پورا مما پکڑ کر اسکو تھوڑا سا مسلتی اور پھر اپنی مٹھی بند کر کے اسکو ہولے سے دبا دیتی جس سے ٹینا کی ایک سسکی نکلتی۔ پھر انجلی نے اپنی ایک انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر ٹینا کا ایک نپل پکڑ لیا اور اسکو ہولے ہولے دبانے لگی جس سے ٹینا کی چوت گیلی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اور وہ آنکھیں بند کیے انجلی کی ان حرکتوں کے مزے لے رہی تھی۔ انجلی نے بھی ٹینا کی تڑپ کو محسوس کر لیا تھا اور یہی ہو چاہتی تھی۔ عمران کا لن لینے کے لیے ٹینا کو رام کرنا ضروری تھا اور انجلی اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوچکی تھی۔ مگر ابھی لوہا مکمل طور پر گرم نہیں ہوا تھا۔ ابھی ٹینا کو مزیر گرم کرنا تھا تاکہ وہ عمران کے لن سے انجلی کی چودائی پر بھی راضی ہوسکے۔ یہ سوچ کر انجلی نے اب ٹینا کےمموں کو زور زور سے دبانا شروع کر دیا تھا اور اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھا کر ٹینا کی ٹانگ کے گرد لپیٹ لی تھی اور پاوں سے ٹینا کی پنڈلی کو رگڑ رہی تھی۔ ٹینا بنا حرکت کیے انجلی کو یہ سب کرنے دے رہی تھی۔
پھر انجلی نے ٹینا کے مموں کو دبانا بند کیا اور دوبارہ ٹینا کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی اور کمر پر کچھ دیر مساج کرنے کے بعد نیچے بیٹھ کر ٹینا کی چوتڑوں کو بھی مسلنے لگی۔ چوتڑوں کو مسلتے مسلتے انجلی نے ٹینا کے چوتڑوں کو پکڑ کر تھوڑا سا کھولا اور اسکے اندر بھی اپنا ہاتھ پھیرنے لگی۔ اب کی بار ٹینا نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟ پلیز ایسے مت کرو۔۔ مگر انجلی کہاں رکنے والی تھی وہ بولی تمہارے پیچھے بھی کچھ ریت لگی ہوئی ہے وہ صاف کر رہی ہوں اچھی طرح۔ یہ کہ کر اس نے ٹینا کی گانڈ کے سوراخ پر اپنی انگلی پھیرنا شروع کردی اور ٹینا نے اب اپنے دونوں ہاتھ دیوار کے ساتھ لگا دیے اور اپنی گانڈ تھوڑی باہر نکال دی تاکہ انجلی اچھی طرح اسکی گانڈ کے سوراخ کو چھیڑ سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ اب ٹینا نے سسکیاں لینا شروع کر دی تھیں اور انجلی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹینا کو زیادہ سے زیادہ گرم کرنا چاہتی تھی۔ کچھ دیر تک وہ اسی طرح ٹینا کی گانڈ سے چھیڑ خانی کرتی رہی پھروہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی اور ٹینا کو شاور کے نیچے لے آئی، شاور کے نیچے لا کر انجلی نے ٹینا کے بدن پر ہاتھ پھیرنے شروع کیے اور اسکے بدن سے صابن صاف کرنے لگی۔ ساتھ ہی اسنے اپنے نرم و نازک ہونٹ ٹینا کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر رکھ دیے اور انکو چوسنے لگی۔ ٹینا جو اب کافی گرم ہوچکی تھی اور اسکی چوت چکنا پانی چھوڑ رہی تھی اس نے بھی انجلی کو فوری رسپانس دینا شروع کر دیا اور اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگی۔ اب پہلی بار ٹینا نے کھل کر اس لیسبین سیکس کو انجوائے کرنا شروع کیا تھا۔ اسکے ہاتھ پہلی بار انجلی کے بدن کو چھو کر ان پر پیار کر رہے تھے۔ ہونٹ چوستے ہوئے ٹینا نے انجلی کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنی کمر کے گرد لپیٹ لی تھی اور اسکے چوتڑوں کر اپنے ہاتھوں سے دبانے لگی تھی۔
انجلی بھی اب سیکس کی آگ میں جلتی ہوئی ٹینا کے لبوں کو چوس رہی تھی اور اپنی زبان اسکے منہ میں داخل کر کے ٹینا کی زبان کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ انجلی کا ایک ہاتھ ٹِنا کے ممے پر تھا جسکو وہ زور زور سے دبارہی تھی اور کبھی کبھی اسکے نپل کو اپنی انگلی اور انگوٹھے سے پکڑ کر ہولے سے مسل دیتی تو ٹینا کی ایک سسکی نکلتی۔ کچھ دیر تک انجلی ٹینا کے ہونٹ چوستی رہی پھر اس نے ٹینا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور تھوڑا سا نیچے جھک کر ٹینا کی صراحی دار لمبی گردن پر اپنے دانت گاڑھ دیے، اور اسکو اپنے ہونٹوں سے چوسنے لگی۔ انجلی کبھی ٹینا کی گردن پر سامنے کی طرف اپنے ہونٹوں سے پیار کرتی تو کبھی گردن کی سائیڈ پر اپنے دانت گاڑھ کر انتہائی ظالم طریقے سے اسکی گردن پر پیار کرتی۔ ٹینا اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی، انجلی کے اس حملے نے ٹینا کو پاگل کر دیا تھا اسکی سسکیاں اب واش روم میں گونجنے لگی تھیں اور اسکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ملنے والے مزے کا کیسے اظہار کرے۔ مگر انجلی یہاں رکنے والی نہیں تھی، گردن سے نیچے آکر اب انجلی ٹینا کے مموں کو چوس رہی تھی۔ ٹینا کے 36 سائز کے گول اور سڈول کسے ہوئے مموں پر انجلی کی زبان ایسی چل رہی تھی جیسے کوئی بچی کون آئیسکریم کو اپنی زبان سے چوستی ہے۔ ٹینا کے مموں کو چوسنے کے ساتھ ساتھ انجلی کا ایک ہاتھ ٹینا کی بیک پر جا کر اسکے 34 انچ کے بڑے اور گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں کو بھی دبا رہا تھا۔
ٹینا کی سسکیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور باہر بیٹھا عمران بھی اسکی سسکیوں کو انجوائے کر رہا تھا۔ کچھ کچھ عمران کو سمجھ لگ گئی تھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے مگر وہ اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر تھا۔ واش روم کی چار دیواری شیشے کی تھی مگر بلائنڈ شیشے کی وجہ سے باہر بیٹھے عمران کو اندر موجود 2 ننگی اور سیکسی لڑکیوں کا جسم تو نظر نہیں آرہا تھا مگر انکے کالے سائے نما ہیولے ضرور نظر آرہے تھے اور اسکو اندازہ تھا کہ دونوں لڑکیاں اندر سیکس کے مزے لے رہی ہیں۔ اور اس پر ٹینا کی سسکیاں عمران کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں عمران کو کافی حد تک امید تھی کہ کچھ ہی دیر کے بعد عمران ان دونوں لڑکیوں کی ٹائٹ چوت میں اپنے لن سے گھسے لگائے گا اور باری باری دونوں کی چدائی کر کے انکی چوتوں کا پانی نکلوائے گا۔ مگر تب اسکی امیدوں پر پانی پھر گیا جب اندر سے ٹینا کی سسکیاں آنا بند ہوچکی تھیں اور وہ دونوں اب ایکدوسرے سے علیحدہ ہوچکی تھیں۔ انجلی اب شاور کے نیچے اکیلی کھڑی اپنے گیلے بدن پر پانی ڈال رہی تھی جبکہ دوسری جانب ٹینا ساکت کھڑی انجلی کو نہاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
نہاتے ہوئے انجلی بار بار اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی اور ٹینا کی جانب بھوکی نظروں سے دیکھ رہی تھی، جبکہ ٹینا کی انگلیاں اسکی چوت پر گول گول گھوم رہی تھیں۔ باہر بیٹھے عمران کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ٹینا کی انگلیاں اسکی چوت پر ہیں اور وہاں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اندر شو ختم ہوگیا اور اب وہ نہا دھو کر باہر نکل آئیں گی۔ مگر انجلی کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا۔ اپنے بدن پر اچھی طرح پانی ڈالنے کے بعد وہ شاور سے نکل آئی اور ٹینا کو کہا اب وہ بھی کچھ دیر شاور لے کر اپنے جسم کو ٹھنڈا کر لے تاکہ انجلی ٹائم پر یہاں سے نکل سکے اور لوکاٹی کے ہوٹل کے کمرے میں جا کر پاکیشا جانے کی تیاری کر سکے۔ ٹینا ابھی مزید سیکس جاری رکھنا چاہتی تھی مگر انجلی کے یوں سائیڈ پر ہٹ جانے کے بعد وہ کچھ کہ نہیں پائی۔ گو کہ اسکوپہلی بار ایک لڑکی کے بدن پر پیار کر کے بہت مزہ آیا تھا اور انجلی کے ہاتھوں اور زبان نےٹینا کے جسم پر اپنے پیار کے نشان ڈال کر بھی ٹینا کو ایک نئی دنیا کی سیر کروائی تھی اور ٹینا ابھی اس کھیل کو جاری رکھنا چاہتی تھی مگر اسکی امیدوں پر بھی پانی پھر گیا جب انجلی نے اسکے جسم سے کھیلنا چھوڑ دیا۔ شدید خواہش کے باوجود ٹینا انجلی سے اپنی اس خواہش کا اظہار نہ کر پائی اور چپ چاپ شاور کے نیچے کھڑی ہوکر اپنے بدن پر پانی ڈالنے لگی مگر یہ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی اسکی چوت کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے مزیر گرم کر رہا تھا۔
انجلی کو اب اپنا بدن خشک کرنے کے لیے ایک ٹاول کی ضرورت تھی جو کہ واش روم میں موجود نہیں تھا، انجلی نے واش روم کا ہلکا سا دروازہ کھولا اور عمران کو آواز دیکر ٹاول پکڑانے کو کہا۔ عمران نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کھڑے ہوکر ساتھ والی الماری سے ٹاول نکالا اور انجلی کے ہاتھ میں پکڑ ا دیا جو واش روم کے دروازے سے باہر نکلا ہوا تھا۔ عمران محض انجلی کا ہاتھ ہی دیکھ پایا تھا۔ جبکہ انجلی کا بدن بلائنڈ شیشے کے دروازے سے سیاہ ہیولے کی صورت میں دکھ رہا تھا جس سے انجلی کے سینے پر ابھار بھی واضح تھے، عمران کا ایک لمحے کو دل کیا کہ وہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوجائے اور ٹینا اور انجلی دونوں کی چوتوں کو ٹھنڈا کر دے مگر پھر کچھ سوچ کر اس نے ایسی احمقانہ حرکت کرنے سے پرہیز کیا اور انجلی کے ہاتھ میں ٹاول پکڑا دیا۔
جیسے ہی عمران نے انجلی کے ہاتھ میں ٹاول پکڑایا اور واپسی کے لیے مڑنے لگا ٹاول انجلی کے ساتھ سے گر گیا۔ عمران کو محسوس ہوا کہ ٹاول نیچے گرا ہے تو وہ واپس مڑا تاکہ ٹاول اٹھا کر واپس انجلی کو پکڑا سکے، مگر واپس مڑنے پر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ انجلی تھوڑا سا دروازہ مزید کھول کر آگے جھک کر ٹاول اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی، نیچے جھکی ہوئی انجلی کے 36 سائز کے ممے ہوا میں لٹک کر عمران کو دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔ انجلی کے گورے گورے لٹکتے ہوئے ممے دیکھ کر عمران پر سکتہ طاری ہوگیا تھا، انجلی کو جب یہ احساس ہوا کہ عمران اسکے سامنے کھڑا اسی کو گھور رہا ہے وہ بھی ٹاول کو بھول کر ایکدم سیدھی کھڑی ہوگئی مگر واپس اندر نہیں گئی۔ اور پھر فورا ہی انجلی نے سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر موجود ابھاروں پر رکھ کر اسکو چھپانے کی کوشش کی ، پھر اسے اپنی چوت کا بھی خیال آیا جو عمران کے لن کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ چوت کا خیال آتے ہی انجلی نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ممے سے ہٹایا اور دوسرے ہاتھ کو پھیلا کر بازو سمیت اپنے دونوں مموں پر رکھ کر ممے چھپا لیا اور اپنا دوسرا ہاتھ اپنی چوت پر رکھ کر اسکو چھپانے کی کوشش کرنے لگی، مگر وہ اپنی جگہ سے ہلی نہیں اور واپس اندر نہیں گئی۔ ٹینا اس سے بے خبر آنکھیں بند کیے شاور کے نیچے کھڑی اپنے چہرے پر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی گرا رہی تھی۔
عمران بھی اپنی جگہ ساکت کھڑا انجلی کے گورے بدن پر نظریں گاڑھے ہوا تھا، مگر عمران کا لن اسکے چھوٹے شارٹس میں کھڑا ہو چکا تھا اور انڈر وئیر نہ ہونے کی وجہ سے اچھا خاصا ابھار بنا کر ٹینٹ کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ انجلی کی نظریں بھی اب عمران کے شارٹس کے ابھار پر تھیں جسکو عمران نے بھی محسوس کر لیا تھا۔ انجلی بغیر آنکھیں جھپکائے عمران کے لن کے ابھار کو دیکھ رہی تھی اور پھر بے اختیار انجلی نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنے ہونٹوں پر پھیرنے لگی۔ وہ ابھی تک اپنے بازو سے اپنے ممے چھپائے کھڑی تھی اور اپنی چوت کو دوسرے ہاتھ سے چھپا رکھا تھا۔ مگر اسکا زبان نکال کر اپنے ہونٹوں پر پھیرنا عمران کے لیے واضح سگنل تھا کہ اسکی چوت عمران کے لمبے اور موٹے لن کے لیے بے تاب ہے۔ عمران نے ہمت کی اور چند قدم انجلی کی طرف آگے بڑھا، عمران کو اپنی طرف آتا دیکھ کر انجلی نے بھی فائنل راونڈ کھیلنے کی ٹھانی اور اپنے مموں سے ہاتھ ہٹا کر ایک قدم عمران کی طرف بڑھی اور اپنا وہ ہاتھ عمران کے لن پر رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ عمران بھی اپنے ہاتھ انجلی کے پہاڑ جیسے گیلے مموں پر رکھتا انجلی نے عمران کے لن کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور واپس قدم واش روم کی طرف بڑھانے لگی۔ عمران بھی بلا چوں چراں انجلی کے ساتھ ہی واش روم میں داخل ہوگیا۔
قدموں کی آہٹ محسوس کر کے ٹینا نے اپنی آنکھیں کھول کر انجلی کی طرف دیکھا تو اس پر بھی سکتہ طاری ہوگیا، انجلی عمران کو اسکے لن سے پکڑ کر واش روم میں لا چکی تھی اور آہستہ آہستہ ٹینا کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ٹینا نے بھی بے اختیار اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے چھپا لیے مگر پھر چوت کا خیال آنے پر اپنی چوت کو بھی ایک ہاتھ سے چھپایا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے دونوں مموں کو چھپانے کی کوشش کرنے لگی، اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی انج۔۔۔ انجلی۔۔۔۔ یہ یہ ک ۔۔۔ ک۔۔۔ کیا کر رہہی ہو؟؟؟؟
انجلی نے ہوس بھری نظروں سے ٹینا کی طرف دیکھا اور بولی میں تو تمہاری گرمی نہیں ختم کر سکتی اور نہ تم میری گرمی ختم کرکے مجھے ٹھنڈا کر سکتی ہو، البتہ عمران کے شارٹس میں یہ جو چیز ہے یہ ہم دونوں کی گرمی کو ختم کر سکتی ہے۔ تو کیوں نہ اسکا فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ کہ کر انجلی عمران کو لن سے پکڑ کر کھینچتی ہوئی شاور تک لا چکی تھی۔ عمران کو قریب پا کر ٹینا کچھ دور ہٹ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انجلی اس حد تک جا سکتی ہے۔ گوکہ اسکی چوت میں بھی آگ لگی ہوئی تھی مگر اسکے لیے یہ بات قابل قبول نہ تھی کہ وہ کسی اور لڑکی کے ساتھ مل کر اپنے بوائے فرینڈ سے چدائی کروائے۔ اس لیے وہ ابھی تک غصے اور شرم کی ملی جلی کیفیت میں سائیڈ پر کھڑی ہانپ رہی تھی جبکہ انجلی عمران کو شاور کے نیچے کھڑا کر کے اسکے بدن پر ہاتھ پھیر کر اسکو مساج دے رہی تھی تاکہ پانی سے اسکے بدن کی تھکاوٹ بھی دور ہو۔
ٹینا پھٹی پھٹی نظروں سے انجلی اور عمران کو دیکھ رہی تھی، انجلی عمران کے ساتھ جڑ کر کھڑی تھی اور اپنا ایک ہاتھ عمران کی کمر پر جبکہ دوسرا ہاتھ عمران کے کشادہ سینے پر پھیر رہی تھی جبکہ اپنی ٹانگ اوپر اٹھائے اپنی تھائیز کو عمران کے کھڑے لن کے ساتھ رگڑ رہی تھی۔ جب عمران کا سینہ مکمل گیلا ہوگیا اور ریت اور پسینے کے اثرات ختم ہوگئے تو انجلی نے اپنی زبان نکال کر عمران کے سینے پر پھیرنا شروع کر دی ، انجلی عمران کے بائیں بازو کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی ایک ہاتھ پیچھے کمر پر جبکہ دوسرا ہاتھ سینے پر اور ٹانگ اوپر اٹھا کر عمران کے لن سے کھیل رہی تھی اور زبان عمران کے سینے پرموجود چھوٹے مگر سخت نپل پر تھی۔ عمران بھی اپنے لن پر انجلی کی ٹانگ کو اور نپل پر انجلی کی زبان کو محسوس کر کے گرم ہورہا تھا اور وہ اب جلد سے جلد انجلی کی چوت میں اپنا لن ڈال دینا چاہتا تھا۔ پہلے ہی واٹر سکوٹر پر انجلی نے عمران کے لن کو خوب تڑپایا تھا اور اب بھی کافی دیر سے وہ واش روم کی شیشے والی دیوار سے انجلی اور ٹینا کا سیکس دیکھ دیکھ کر اپنا لن دبا رہا تھا۔ اب انجلی اور ٹینا دونوں بالکل ننگی اسکے سامنے کھڑی تھیں، ٹینا کو تو وہ کل رات خوب چود چکا تھا اب اسکا لن انجلی کی چکنی چوت کے لیے تڑپ رہا تھا۔
ٹینا ابھی تک اپنے آپ کو اس صورتحال کے لیے تیار نہیں کر پائی تھی وہ محض ساکت کھڑی حیرانگی اور بے یقنینی کی ملی جلی کیفیت میں انجلی کو عمران کے بدن سے لپٹا دیکھ رہی تھی۔ اب عمران نے بھی حوصلہ کیا اور ٹینا کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسکو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا۔ عمران نے ٹینا کو بازو سے پکڑ کر کھینچا تو اسکا بازور اسکے مموں سے ہٹ گیا ، عمران نے ٹینا کو اپنی طرف کھینچ کر اپنا ایک ہاتھ فورا اسکے مموں پر رکھ دیااور دوسرا ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹ کر اسکے چوتڑوں تک لے گیا۔ ٹینا نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی واجبی سی کوشش کی مگر پھر اسکی چوت نے موجودہ حالات سے سمجھوتا کرنے کا مشورہ دیا جسکو ٹینا نے فورا ہی منظور کر لیا اب واش روم میں ٹینا کی سسکیاں ایک بار پھر شروع ہوچکی تھیں۔ عمران اپنے ہاتھ سے نہ صرف ٹینا کے مموں کو دبا رہا تھا بلکہ ٹینا کی طرف جھک کر اسکے نپلز کو بھی اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا جس سے ٹینا کی چوت جو پہلے کی نسبت ٹھنڈی ہوچکی تھی دوبارہ سے گرم ہونا شروع ہوگئی تھی اور ٹینا بھی اب اپنے ایک ہاتھ سے عمران کے لن کر پکڑ کو مسلنے لگی تھی۔ اسکی سسکیاں آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔
انجلی جو عمران کا لن اپنی چوت میں اندر باہر ہوتا دیکھنا چاہتی تھی اسکی کوشش کامیاب ہوچکی تھی، ٹینا بھی اب چودائی کے لیے تیار تھی اور عمران کو تیار کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا وہ تو شاید خود بھی اس بات کے لیے تیار تھا بس انجلی کی طرف سے ایک اشارہ چاہیے تھا جو اسکو مل چکا تھا۔ حالات مکمل طور پر سازگار دیکھ کر اب انجلی مزید دیر نہیں کرنا چاہتی تھی، اس نے نیچے بیٹھ کر عمران کی شارٹس اتار دی اور جیسے ہی عمران کا 8 انچ لمبا اور موٹا لن سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا انجلی کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگیا تو انجلی ایک لمحے کے لیے تو اپنی آنکھیں جھپکانا ہی بھول گئی تھی۔ اس نے جیسا سوچا تھا عمران کا لن اس سے بڑھ کر موٹا اور لمبا تھا۔ اور اسکے لن کی سختی لن سے نظر آنے والی رگوں سے واضح ہورہی تھی۔ انجلی نے بغیر ٹائم ضائع کیے عمران کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ایک بار زور سے دبا کر اسکی سختی کا اندازہ لگایا تو اسکے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ اسکو ایسا ہی جاندار لن چاہیے تھا، لوکاٹی کے لن سے چدوا کر اس نے اپنی چوت کو ٹھنڈا تو کیا تھا مگر جو جاندار چدائی انجلی کی جوان اور ٹائٹ چوت چاہتی تھی وہ اسکو نہیں مل سکی تھی۔ عمران کے لن سے اسکو پوری امید تھی اور اسکا لن ہاتھ میں پکڑا تو چوت نے انجلی کو پیغام دیا کہ ہاں یہی لن ہے جو مجھے اپنے اندر جلد از جلد چاہیے۔
انجلی نے اپنے ہاتھ سے عمران کے لن کی مٹھ مارنا شروع کی اور جب عمران کےلن کی ٹوپی پر مذی کے قطرے چمکنے لگے تو انجلی نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنی زبان کی نوک سے مذی کے ان قطروں کو چاٹ کر صاف کر دیا اور پھر عمران کا موٹا لن اپنے منہ میں لیکر اسکو چوسنے لگی۔ انجلی نے عمران کے لن پر چوپے لگانے شروع کیے تو عمران سوچ میں پڑ گیا کہ ٹینا اچھا چوپا لگاتی ہے یا انجلی؟؟؟ رات جو ٹینا نے عمران کے چوپے لگائے تھے عمران کو اس سے بہت مزہ آیا تھا اور اسکا خیال تھا کہ اس سے اچھا چوپا اور کوئی نہیں لگا سکتی اسکے لن کا۔۔۔ مگر اب وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کسکا چوپا زیادہ مزے کا تھا۔ پھر اسنے یہی سوچا جسکا بھی ہو زیادہ مزے کا آج تو زندگی میں پہلی بار 2، 2 جوان چوتیں اسکے لن سے چدنے کے لیے تیار ہیں چوپے کو بھول جا اور چدائی کا سوچ۔ دونوں چوتوں کو ایسے چودنا ہے کہ دوبارہ انہیں کسی اور کا لن مزہ نہ دے۔ ہر چدائی پر انہیں عمران کا لوڑا یاد آنا چاہیے۔
انجلی نے ٹینا کو بھی بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ بھی انجلی کو چوپے لگاتا دیکھ کر اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور عمران کے منی سے بھرے ہوئے ٹٹوں کو منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ عمران کے ٹٹوں پر اور لن کے اردگرد بالکل ہلکے ہلکے باریک بال تھے جس کی وجہ سے عمران کو مزہ آتا جب ٹینا اسکے ٹٹے چوستے اور لن کے اردگرد اپنی زبان پھیرتی۔ ٹینا نے انجلی کے منہ سے عمران کا لن نکالا اور اس پر ایک سائیڈ سے زبان پھیرنے لگی، انجلی بھی لن کی دوسری سائیڈ پر اپنی زبان پھیرنے لگی اور دونوں ملکر عمران کے لن کے چوپے لگانے لگ گئیں۔ کبھی انجلی عمران کا لن منہ میں ڈال کر اسکو 3، 4 بار اندر باہر کرتی تو کبھی ٹینا عمران کا لن منہ میں لیکر شرپ شرپ چوپے لگاتی۔
دونوں کے چوپے لگانے کے انداز سے عمران کو بہت مزہ آنے لگا تھا اور اسکو اپنے لن میں پانی بھرتا محسوس ہونے لگا۔ انجلی اب عمران کے لن کے مسلسل چوپے لگا رہی تھی، وہ کوشش کر رہی تھی کہ عمران کا پورا لن اپنے منہ میں لے لے مگر ایسا ممکن نہیں تھا، 8 انچ کا لن منہ میں لینا انجلی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آدھے سے کچھ زیادہ لن انجلی کے منہ میں جاتا تو اسکا سانس رکنے لگتا، مجبورا وہ لن ٹوپی تک باہر نکالتی اس پر اپنی زبان پھیرتی اور دوبارہ سے لن اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگ جاتی۔ جبکہ ٹینا اب عمران کے ٹٹوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ان پر زبان پھیر رہی تھی کبھی وہ ٹٹے منہ میں لیکر چوسنے لگتی اور کبھی عمران کی ٹانگوں کے نیچے ہوکر ٹٹوں کے پیچھے موجود لائن میں اپنی زبان پھیرتی۔ واٹر سکوٹر پر انجلی کی گانڈ کی رگڑ اور اب 2 سیکسی لڑکیوں کے چوپوں نے عمران کا لن منی سے بھر دیا تھا، عمران کو لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت اسکا لن منی کا فوارہ چھوڑ دے گا، اسنے ہانپتی ہوئی آواز میں انجلی کو بتایا کہ وہ چھوٹنے والا ہے تو انجلی نے لن اپنے منہ سے باہر نکال لیا اور منہ کے سامنے لا کر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسکے لن کی مٹھ مارنے لگی، ٹینا نے بھی عمران کے ٹٹے ہاتھ میں پکڑ کر رگڑنا شروع کر دیے۔ عمران کی اب سسکیاں نکلنا شروع ہوگئی تھی، اسکو اپنے لن میں سوئیاں چبھتی محسوس ہونے لگیں۔ انجلی نے ایک لمحے کو اپنے ہاتھ روکے، منہ میں تھوک کا گولا بنا کر عمران کے لن کی ٹوپی پر تھوک پھینکا اور اپنے ہاتھوں سے اسکی پورے لن پر مالش کرنے لگی، اس دوران وہ بار بار اپنے ہاتھوں کے انگوٹھے عمران کے لن کی ٹوپی پر پھیرتی رہی۔۔۔ اب عمران کو اپنے لن میں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے کوئی باریک سی چیز ٹٹوں سے نکل کر ٹوپی کی طرف بڑھنے لگی ہے، عمران نے انجلی کو کہا کہ وہ چھوٹنے لگا ہے، انجلی جو لن منہ کے سامنے کیے تیزی کے ساتھ عمران کے لن کی مٹھ مار رہی تھی اس نے عمران کے لن کی ٹوپی کا رخ فوری طور پر اپنے منہ سے ہٹا کر اپنے مموں کی طرف کر دیا، جیسے ہی عمران کی ٹوپی نے انجلی کے گول سڈول کسے ہوئے ممے دیکھے اس نے اپنے اندر سے منی کی ایک تیز دھار نکالی جو سیدھا انجلی کے مموں پر جا کر گری اور انجلی کو اپنے مموں پر منی کی گرمائش محسوس ہونے لگی، اس دوران انجلی نے اپنے ہاتھ نہیں روکے اور مسلسل عمران کے لن کی مٹھ مارتی رہی جس کی وجہ سے عمران کا لن وقفے وقفے سے منی کی تیز دھاریں انجلی کے مموں پر چھوڑتا رہا۔
آخری چند جھٹکوں پر ٹینا نے عمران کا لن پکڑ کر اپنی طرف کر لیا جس سے عمران کی منی کی آخری دھار سیدھی ٹینا کے منہ پر جا کر گری، ٹینا کے ہونٹر عمران کے لن کی منی سے بھر گئے تھے۔ جب عمران آخری جھٹکا بھی مار چکا اور ٹینا نے محسوس کیا اب مزید منی نہیں نکلے گی تو اسنے عمران کا لن منہ میں لے لیا اور اسکی ٹوپی پر لگی منی کے قطرے چوسنے لگی۔ 2، 4 جاندار چوپے لگانے کے بعد جب عمران کے لن سے ساری منی غائب ہوگئی تو ٹینا نے اپنا رخ انجلی کے مموں کی طرف کیا اور اسکے مموں پر لگی عمران کی منی اپنی زبان سے چاٹنے لگی۔ اس دوران ٹینا کی زبان انجلی کے نپلز کو بھی چھونے لگی جس سے انجلی کو ایک جھرجھری سی آئی، اور اسکا دل کیا کہ ٹینا اسی طرح اسکے نپلز کو چاٹتی اور چوستی رہے، مگر ٹینا کا سارا دھیان اس وقت عمران کی منی چاٹنے پر تھا۔ جب وہ ساری منی ٹینا کے مموں سے چوس چکی تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ انجلی کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ انجلی کو ٹِنا کے ہونٹوں اور زبان پر عمران کی منی کا ذائقہ محسوس ہوا تو اس نے بھی ٹینا کے لبوں کو جی بھر کر چوسا اور اسکی زبان کو اپنے منہ میں لیکر اسکا بھی جوس چاٹ لیا۔
عمران کا 8 انچ کا لمبا لن اب تھوڑا ڈھیلا پڑ گیا تھا مگر اسکے سامنے انجلی اور ٹینا دونوں ایکدوسرے کے بدن سے کھیلنے میں مصروف تھی جسکی وجہ سے عمران کا لن مکمل بے جان نہیں ہوا بلکہ اسکی کچھ سختی باقی رہی۔ ٹینا اب انجلی کو واش روم میں ہی لٹا چکی تھی اور اسکی ٹانگیں کھول کر اپنی زبان سے انجلی کی ٹائٹ اور خوبصورت ہلکی گلابی چوت کو چاٹ رہی تھی۔ انجلی کی چوت کے لب آپس میں سختی سے ملے ہوئے تھے اس سے ٹینا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کل رات اسکے لوکاٹی انکل نے ٹائٹ چوت کے خوب مزے لیے ہونگے۔ انجلی کی چوت پر بھی ہلکے ہلکے بال تھے غالبا اس نے بھی 2 دن پہلے ہی اپنی چوت کے بال صاف کیے تھے۔ ٹینا نے اپنی ایک انگلی انجلی کی چوت میں داخل کی تو اسے ایسے لگا جیسے ابھی اسکی انگلی جل جائے گی، انجلی کی چوت کسی دہکتے تندور کی طرح گرم تھی اور اسکا چکنا چکنا پانی بھی اس آگ کو بجھانے میں ناکام ہورہا تھا، ٹینا نے انگلی چوت سے باہر نکالی تو اس پر انجلی کی چوت کا گاڑھا پانی موجود تھا جو ٹینا نے اپنے منہ میں ڈال کر انگلی سے چوس لیا۔ اسکے بعد دوبارہ سے تینا نے اپنی انگلی انجلی کی چوت میں ڈالی اور انگلی اندر باہر کرنے لگی ۔ انجلی کا بھی کسی لڑکی کے ساتھ یہ پہلا سیکس تھا وہ بھی اپنی چوت میں ٹینا کی انگلی کی چودائی کو انجوائے کر رہی تھی۔ ٹینا انجلی کی چوت پر لیٹ چکی تھی، اسکی انگلی ابھی بھی چوت کے اندر ہلچل مچا رہی تھی جبکہ ٹِنا کی زبان انجلی کے چوت کے دانے پر تھی جس سے انجلی مزے کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی اور مسلسل سسکیاں نکال رہی تھی۔ کچھ دیر ٹینا مزید انجلی کی چوت میں انگلی کرتی رہی جس سے انجلی کی چوت میں ایک سیلاب آگیا اور اسکی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا، مگر اس دوران ٹینا نے اپنا چہرہ سائیڈ پر نہیں ہٹایا اور سارا پانی ٹینا کی منہ پر آکر گرا، کچھ پانی ٹینا نے پی لیا جبکہ باقی اسکے منہ پر لگا رہ گیا۔
ٹینا کی چوت کا پانی نکالنے کے بعد اب ٹینا اٹھی اور انجلی کے سینے پر جا پہنچی ، انجلی کے سینے پر پہنچ کر ٹینا اسکے اوپر ہوکر بیٹھ گئی اور دونوں ٹانگیں سائیڈ پر نکال دیں، پھر تھوڑا آگے بڑھی اور اپنے گھٹنے انجلی کے کندھوں سے آگے نکال دیے، اس طرح ٹینا کی چوت بالکل انجلی کے منہ کے اوپر آگئی، انجلی نے کبھی کسی لڑکی کی چوت نہیں چاٹی تھی مگر وہ لوڑے کے چوپے لگانا جانتی تھی، اس نے ٹینا کی چوت پر ایک نظر ڈالی تو دیکھا کہ اسکی چوت پہلے ہی کافی سوجی ہوئی تھی، اور لب بھی کافی حد تک کھلے ہوئے تھے، اسکا مطلب تھا کہ وہ اکثر اپنی چدائی کرواتی رہتی تھی۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ٹینا نے محض چند بار ہی اپنے پرانے بوائے فرینڈ اجے سے چدوایا تھا، اسکی چوت کا یہ حال تو کل رات کی چدائی کی وجہ سے ہوا تھا جب عمران ایک گھنٹے سے زیادہ اسکی نازک چوت کی چدائی کرتا رہا۔ انجلی نے ٹینا کی چوت کا جائزہ لینے کے بعد اپنی زبان نکالی اور تھوڑا سا چہرہ اوپر اٹھا کر ٹینا کی چوت کو چاٹنے لگی تو ٹینا نے اپنی چوت اور نیچے کر لی تاکہ انجلی کو گردن اوپر نہ اٹھانی پڑے۔ اس پوزیشن میں انجلی بہتر طریقے سے ٹینا کی چوت کو چاٹ سکتی تھی۔ انجلی کی زبان با آسانی ٹینا کی چوت کے لبوں کو کھول کر اسکے اندر جا رہی تھی۔ جس سے ٹینا کو بے حد مزہ آرہا تھا۔ اسکا بھی یہ پہلا تجربہ تھا کسی لڑکی سے اپنی چوت چٹوانے کا۔
عمران اب ٹینا کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا اور اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر ٹینا کے آگے کیا۔ ٹینا کا چہرہ پہلے نیچے کی جانب تھا وہ انجلی کو اپنی چوت چاٹتے ہوئے دیکھ رہی تھی، مگر اپنی ناک کے قریب لن کی خوشبو کو پاکر اس نے فورا چہرہ اوپر کیا تو اسکے سامنے عمران کا نیم کھڑا لن ہل رہا تھا۔ 4 انچ کا یہ لن ٹینا نے فورا اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ ٹینا کے منہ کی گرمی پاتے ہی عمران کے لن میں ہلچل شروع ہوگئی اور محض چند چوپوں سے ہی عمران کا لن دوبارہ سے 8 انچ کا لوڑا بن گیا جس پر اب ٹینا شڑپ شڑپ کی آوازوں کے ساتھ چوپے لگا رہی تھی۔ وہ چوپے لگاتے لگاتے عمران کے ٹٹے بھی پکڑ کر مسلتی جس سے عمران کے لن میں اور زیادہ سختی آجاتی۔۔۔ کچھ دیر چوپے لگوانے کے بعد جب عمران کو محسوس ہوا کہ اسکا لن اب پہلے کی طرح جاندار ہوگیا ہے تو اس نے ٹینا کے منہ سے اپنا لن نکالا اور نیچے لیٹی انجلی کی ٹانگوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں جا کر اس نے انجلی کی ٹانگوں کو پکڑ کر تھوڑا سا کھولا اور بیچ میں بیٹھ گیا۔ جیسے ہی انجلی کو معلوم ہوا کہ عمران اسکی ٹانگوں کے بیچ میں ہے اس نے ٹینا کو اپنے چہرے سے ہٹا دیا، کیونکہ یہی تو وہ لمحہ تھا جسکے لیے اس نے اتنی محنت کی تھی، وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ عمران کا لن کیسے اسکی ٹائٹ چوت میں جاتا ہے۔ عمران نے انجلی کو تھائیز سے پکڑا اور اسکو اپنی طرف کھینچ لیا، انجلی کی چوت اب زمین سے کچھ اونچی تھی اور اسکی تھائیز کا پچھلا حصہ عمران کے گھٹنوں کے اوپر تھا اور عمران کا لن انجلی کی ٹائٹ چوت سے ٹکرا رہا تھا۔
انجلی کی ٹائٹ چوت دیکھ کر عمران کا بے اختیار دل چاہا کہ وہ ایسی چکنی ٹائٹ اور گلابی چوت کو چاٹے مگر اسکے لن نے عمران کے کان میں سرگوشی کی کہ پہلے مجھے انجلی کی ٹائٹ چوت کی اندر سے سیر کروا دو اسکے بعد چوت کو چاٹ بھی لینا، عمران نے اپنے لن کی بات مانی اور لن پکڑ کر ایک دو بار انجلی کی چوت کے اوپر مارا جس سے انجلی کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ انجلی نے عمران سے کہا جان پلیز مت تڑپاو اپنا یہ مضبوط لن ڈال دو میری چوت میں۔۔۔ وہ اپنی گردن اوپر اٹھائے اپنی چوت اور عمران کے لن کا آپس میں ملاپ دیکھ رہی تھی۔ چوت پر لن نے دستک دی تو اسکی چکناہٹ میں بھی ایک دم سے اضافہ ہوگیا، عمران نے اپنے لن کی ٹوپی انجلی کی چوت پر سیٹ کی اور ہلکا سا زور لگایا تو لن کی ٹوپی چوت میں چلی گئی۔ 8 انچ لن کی 3 انچ موٹی ٹوپی انجلی کی چوت میں گئی تواسکی ایک سسکی نکلی اور اس نے پاس کھڑی ٹینا کی ٹانگ کو انپے ہاتھوں سے زور سے پکڑ لیا جس سے انجلی کے ناخن ٹینا کی تھائیز میں گڑھ گئے۔ عمران نے مزید زور لگایا مگر چوت نے اپنا منہ بند کر لیا تھا۔۔۔۔ عمران نے خوش ہوکر انجلی کی طرف دیکھا اور بولا واہ، تمہاری چوت تو بہت ٹائٹ ہے۔ اسکو چودنے کا بہت مزہ آئے گا۔ یہ کہ کر اس نے لن تھوڑا سا باہر نکالا اور ایک زور دار دھکا مارا۔ عمران کے اس دھکے سے عمران کا لن انجلی کی چوت کی دیواروں کو چھیلتا ہوا اندر چلا گیا اور انجلی کی اب ایک زور دار چیخ نکلی جس سے پورا واش روم گونج اٹھا۔
مگر عمران رکا نہیں، اس نے ایک بار پھر اپنا لن باہر نکالا محض اپنی موٹی ٹوپی ہی اندر رہنے دی اور ایک بار پھر زور دار دھکا مارا جسکی شدت پہلے دھکے سے زیادہ تھی، اس بار عمران کا لن قریب قریب سارے کا سارا انجلی کی چکنی چوت کی گہرائیوں میں اتر گیا ، اور انجلی مسلسل چیخیں مارنے لگی، اس نے آج سے پہلے اتنا موٹا اور سخت لن کبھی اپنی چوت میں نہیں لیا تھا۔ اسکی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا مگر عمران نے اسکی چوت پر رحم نہیں کھایا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر لڑکی کو چودنے کا مزہ لینا ہے تو اس پر رحم نہیں کھانا، اسی طرح لڑکی کو بھی چدائی کا مزہ آئے گا اور لن بھی فل مزے میں رہے گا۔ عمران نے ایک دھکا اور مارا جس سے عمران کا 8 انچ کا لمبا لن جڑ تک انجلی کی چوت کی گہرائی میں اتر چکا تھا۔ اور انجلی کو لگ رہا تھا جیسے عمران کا لن اسکے پیٹ میں داخل ہوچکا ہے۔ عمران نے اب بغیر رکے ہولے ہولے انجلی کی چوت میں دھکے لگانے شروع کر دیے تھے، انجلی چیخ تو رہی تھی مگر اس نے ایک بار بھی لن باہر نکالنے کو نہیں کہا، کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ اسکے کہنے پر نہ تو عمران لن باہر نکالے گا، اور نا ہی لن باہر نکالنے سے کوئی فرق پڑے گا، کیونکہ جیسے ہی لن چوت سے نکلا، چوت دوبارہ سے لن کی طلب کرے گی۔ اس لیے انجلی نے یہی بہتر سمجھا کہ جیسے عمران چود رہا ہے ویسے ہی چدائی کروائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مزہ آئے اس چودائی کا۔
کچھ دھکوں کے بعد اب لن با آسانی انجلی کی چوت میں جا رہا تھا اور انجلی کی چوت نے بھی اب عمران کے لن کے مزے لینے شروع کر دیے تھے۔ پہلے پہل انجلی کی چوت درد کی وجہ سے خشک ہوگئی تھی مگر اب دوبارہ سے لن کے دھکوں سے انجلی کی چوت چکنی ہوچکی تھی۔ اس چکناہٹ کی وجہ سے اب لن با آسانی اندر باہر ہو رہا تھا۔ عمران کے ہر دھکے پر انجلی کے جسم کو ایک جھٹکا لگتا اور اسکے ممے جیلی کی طرح ہلنے لگتے، ساتھ ہی انجلی کی سسکیاں اوہ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ آہ آہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف آہ ہ ہ ہ ہ عمران۔ ۔ ۔ ۔ آہ آہ آہ زور زور سے۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ف ام م م م م ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تیز عمران، اور تیزی سے چودو۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔ واش روم بند ہونے کی وجہ سے انجلی کی سسکیاں اور بھی زیادہ گونج رہی تھیں جس سے ماحول کافی سیکسی ہوگیا تھا، جب انجلی کی چوت عمران کے لن کی عادی ہوگئی اورچوت نے لن کو با آسانی اندر آنے اور باہر جانے کی اجازت دے دی تو انجلی نے ایک بار پھر ٹینا کو اپنی طرف کھینچا اور اسکی چوت اپنے منہ کے اوپر کر کے اسکو چاٹنے لگی۔
اب واش روم انجلی اور ٹینا دونوں کی آوازوں سے گونج رہا تھا، اب کی بار ٹینا انجلی کے منہ کے اوپر اس طرح بیٹھی تھی کہ اسکا رخ عمران کی طرف تھا، نیچے سے انجلی کی زبان ٹینا کی چوت کے لبوں میں جا کر اسکو مزہ دے رہی تھی تو سامنے سے عمران کے ہاتھ ٹینا کے مموں دبانے اور اسکے تنے ہوئے سخت نپلز کو مسلنے میں مصروف تھے جس سے ٹینا کی سسکیاں نکل رہی تھیں، جبکہ نیچے عمران کا لن انجلی کی نازک چوت کو چودنے میں مصروف تھا۔ کچھ ہی دیر کی چودائی کے بعد انجلی کو محسوس ہوا کہ اسکی چوت پانی سے بھر رہی ہے تو اس نے ٹینا کی چوت سے منہ ہٹا کر عمران کو کہا کہ وہ فارغ ہونے والی ہے اپنے دھکوں کی رفتار بڑھا دو، عمران نے فورا ہی تیزی کے ساتھ انجلی کو چودنا شروع کر دیا، اب عمران نا صرف تیزی سے دھکے لگا رہا تھا بلکہ ہر دھکا پہلے سے زیادہ جاندار ہوتا تھا، عمران چاہتا تھا کہ جب انجلی کی چوت پانی چھوڑے تو عمران کا ہر دھکا اسکے لیے یادگار رہے کچھ مزید دھکے لگانے کے بعد عمران کو اپنا لن گیلا ہوتا محسوس ہوا اور ساتھ ہی اسکے لن پر گرما گرم پانی بھی لگا اور انجلی کی چوت سے پچک پچک کی آوازیں آنے لگی جبکہ اسکے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ف کی لمبی سسکی بھی نکلی۔ انجلی کی چوت پانی چھوڑ چکی تھی۔
جب انجلی کی چوت پانی چھوڑ کر مکمل گیلی ہوگئی تو عمران نے اسکی چوت سے اپنا لن نکال لیا اور ٹینا کی طرف بڑھا۔ ٹینا کو عمران نے کھڑا کیا اور اسکی پیٹھ واش روم کی دیوار کےساتھ لگا دی۔ اسکے بعد اسسکی ٹانگوں کو تھوڑا سا کھولا اور اپنا لن ٹینا کی چوت کے سوراخ پر رکھ کر اپنے ہونٹ ٹینا کے ہونٹوں سے ملا دیا، ٹینا نے عمران کے ہونٹوں کو فورا چوسنا شروع کیا تو اسے ایسے لگا جیسے نیچے اسکی چوت میں کوئی لوہے کا گرم راڈ گھس گیا ہو۔ عمران نے ایک جاندار دھکا اٹینا کی چوت میں مارا تھا جس سے آدھے سے زیادہ لن ٹینا کی سوجی ہوئی چوت میں داخل ہوگیا تھا۔ لن چوت میں جاتے ہی ٹینا کی چوت میں مرچیں لگ گئی تھیں اور اسکی چیخیں انجلی سے زیادہ واش روم میں گونج رہی تھیں۔ مگر عمران نے اسکی چیخوں کی پرواہ کیے بغیر لن باہر نکال کر ایک دھکا اور مارا اور پورا لن ٹینا کی چوت میں اتار دیا۔ ٹینا عمران کی منتیں کرنے لگی پلیز عمران لن باہر نکالو مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔۔ عمران جان بھگوان کے واسطے لن میری چوت سے نکال دو۔۔۔ مجھے نہیں چدوانا۔۔۔ آہ ہ ہ پلیز۔۔۔۔ مگر عمران رکنے والا کہاں تھا، اس نے ٹینا کی چیخوں اور التجاوں پر کان دھرے بغیر ٹینا کی چوت میں لن کے دھکے لگانا جاری رکھے۔ ٹینا کو چدائی میں بالکل بھی مزہ نہیں آرہا تھا، رات بھر عمران کے جاندار لن سے چدائی کروا کروا کر اسکی چوت اب مزید چدائی برداشت نہیں کر رہی تھی۔ مگر عمران کو ٹینا کی ٹائٹ چوت بہت مزہ دے رہی تھی اسی لیے وہ بغیر رکے دھکے پر دھکا لگا رہا تھا۔
کچھ دیر ایسے ہی چودنے کے بعد عمران نے ٹینا کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور اسکی کمر واش روم کی دیوار کے ساتھ لگا کر اسے پھر سے چودنے لگا۔ اب ٹینا نے اپنی ٹانگیں عمران کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اور عمران کے ہاتھ ٹینا کے چوتڑوں پر تھے اور نیچے سے اسکا 8 انچ کا لوڑا ٹینا کی سوجی ہوئی چوت کو چود رہا تھا۔ عمران کے ہونٹ اب ٹینا کے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف تھے تاکہ اسکی تکلیف کچھ کم ہوسکے اور وہ بھی چدائی کا مزہ لے سکے۔ ٹینا کو بھی اپنی چوت میں اب دوبارہ سے تھوڑی چکناہٹ محسوس ہورہی تھی جسکا مطلب تھا کہ اب اسکی چوت نے لن کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا اور اسکو پہلے کی نسبت آسانی کے ساتھ اندر باہر آنے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن ٹینا کی چوت میں ابھی تک مرچیں لگی ہوئی تھیں، جیسے ہی لن ٹینا کی پھدی کی دیواروں کو چیرتا ہوا اندر جاتا تو اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے کسی نے اسکی پھدی میں سرخ مرچ ڈال دی ہو اور اسکی وجہ سے جلن ہورہی ہو۔ اس نے عمران کو دوبارہ بھی کہا کہ اسکے بہت جلن ہورہی ہے پلیز لن باہر نکال لو اور انجلی کو چود لو جی بھر کے، مگر جب لن ایک بار کسی پھدی میں چلا جائے تو وہ آسانے سے باہر آنے کا نام نہیں لیتا۔ عمران کا لن بھی کسی صورت ٹینا کی پھدی سے نکلنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
کچھ دیر ٹینا کو گود میں اٹھائے چودنے کے بعد عمران نے ٹینا کو نیچے اتار دیا اور لن اسکی پھدی سے نکالا مگر فورا ہی اسکا منہ دوسری جانب کر کے ٹینا کی گانڈ اپنی طرف کی اور اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسکو آگے کی طرف جھکنے کا بولا ، ٹینا نہ چاہتے ہوئے بھی آگے جھکی تو عمران نے اپنا لن پیچھے سے ٹینا کی چوت کے سوراخ پر رکھا اور ایک ہی جھٹکے میں دوبارہ سارے کا سارا لن ٹینا کی چوت میں اتار دیا۔ اب عمران نے ایک بار پھر ٹینا کی چوت میں طوفانی دھکے لگانا شروع کر دیے تھے۔ اب کی بار عمران جب ٹینا کی چوت میں لن اندر ڈال کر دھکا لگاتا تو ٹینا کے 34 سائز کے بڑے بڑے چوتڑ عمران کے جسم سے ٹکراتے جس سے دھپ دھپ کی آوازیں پیدا ہوتیں۔ دھپ دھپ کی آوازوں کے ساتھ ساتھ شاور سے پانی بھی ٹینا کی کمر پر گر رہا تھا جو بہتا ہوا ٹینا کے چوتڑوں کی طرف آرہا تھا۔ اس پانی کی وجہ سے بھی دھپ دھپ کی آواز واش روم میں گونج رہی تھی۔ اسکے ساتھ عمران ایک ہاتھ آگے بڑھا کر ٹینا کے ہلتے ہوئے مموں کو پکڑ پکڑ کر دبا رہا تھا جس سے ٹینا کی سسکیاں نکل رہی تھیں۔ انجلی جو کافی دیر سے ٹینا کی چودائی دیکھ رہی تھی اور بے چینی سے دوبارہ اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی اس نے ٹِنا کی چوت کا پانی جلدی نکلوانے کے لیے ٹینا کی چوت چاٹنا شروع کر دی تھی۔ ٹینا کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ کھڑی تھی، انجلی اسکے آگے سے آکر نیچے بیٹھ گئی اور اپنی ٹانگیں پھیلا کر آگے ہوگئی اور اپنی گردن اوپر اٹھا کر ٹینا کی چوت سے اوپر دانے پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔
انجلی کی زبان پر کبھی کبھی عمران کا لن بھی رگڑ لگاتا کیونکہ جہاں سے انجلی ٹِنا کی چوت چوس رہی تھی وہیں پر عمران کا لن بھی ٹینا کی پھدی کی بینڈ بجا رہا تھا۔ چوت میں عمران کا لن اور پھدی کے دانے پر انجلی کی زبان کی رگڑ نے ٹینا کی چوت میں ہلچل مچا دی تھی۔ اور واش روم اب ٹینا کی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ف ف ،، اف ف ف ف ف ف ف ف ف آہ ہہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آوازوں سے گونج رہا تھا، ان سسکیوں کے ساتھ ساتھ دھپ دھپ کی آواز بھی ٹینا کی چوتڑوں اور عمران کے جسم کے ملاپ سے واش روم میں گونج رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں ٹینا کی سسکیاں تیز ہوگئیں اور اب اس نے عمران کو بتایا کہ وہ چھوٹنے والی ہے۔۔۔ انجلی نے جب یہ سنا تو وہ فورا پیچھے ہٹ گئی اور اپنی چوت میں انگلی داخل کر کے خود ہی انگلی اندر باہر کرنے لگی تاکہ عمران جب ٹینا کی چوت سے لن نکالے تو اسکو انجلی کی چکنی چوت چودنے کے لیے تیار ملے۔ چند مزید جھٹکوں کے بعد ٹِنا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔ سارا پانی ٹینا کی چوت سے نکلا تو عمران نے اسکی چوت سے لن باہر نکالا جو اس وقت ٹینا کے چکناہٹ والے پانی سے بھرا ہوا تھا، اور وہ بغیر انتظار کیے انجلی کی طرف آیا جو واش روم کی دیوار کے ساتھ کھڑی اپنی چوت میں انگلی کر رہی تھی۔ جیسے ہی عمرا ن انجلی کے قریب آیا انجلی نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر سائیڈ پر کر لی اور عمران کے لن کو چوت کا راستہ دکھایا، عمران نے انجلی کی ٹانگ کو اپنے بازو پر سہارا دیا اور بغیر انتظار کیے لن کی ٹوپی انجلی کی چوت کے سوراخ پر رکھی اور ایک ہی دھکے میں پورا لن انجلی کی چوت میں اتار دیا۔ انجلی کی مزے کی شدت سے ایک سسکاری نکلی اور اس نے آگے بڑھ کر عمران کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور انکو چوسنے لگی، جبکہ نیچے سے پچک پچک کی آوازوں کے ساتھ عمران کا لن انجلی کی چوت کی سیر کرنے میں مصروف تھا۔
انجلی نے عمران کے ہونٹ چوستے ہوئے اسے کہا جان مجھے بھی ٹینا کی طرح اپنی گود میں اٹھا کر چودو۔ یہ سن کر عمران نے انجلی کے نرم نرم چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھے اور اسکو ایک جھٹکے میں اپنی گود میں اٹھا لیا ، انجلی نے عمران کی گود میں آتے ہی اپنی ٹانگیں عمران کی کمر کے گرد کولہوں سے کچھ اوپر لپیٹ لیں اور ایک بار پھر سے عمران کے ہونٹے چوسنے لگی، جبکہ عمران ایک بازور انجلی کی کمر کے گرد لپیٹے اور دوسرا ہاتھ انجلی کے چوتڑوں کے نیچے رکھے اسکی چکنی پھدی میں گھسے لگانے میں مصروف تھا۔ اس پوزیشن میں عمران کے چودنے کی رفتار کچھ آہستہ تھی اور وہ مکمل طور پر لن بھی باہر نہیں نکال پا رہا تھا مگر انجلی کو اس پوزیشن میں چدوا کر بہت مزہ آرہا تھا۔ عمران کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے جب اسکا لن انجلی کی چوت کی گہرائی میں چوٹ لگاتا تو وہ بے اختیار عمران کے ہونٹوں کو چھوڑ کر ایک سسکی بھرتی اور آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی لمبی آواز نکالتی اور پھر سے عمران کے ہونٹوں سے رس پینے لگتی۔
عمران نے قریب 3، 4 منٹ انجلی کو گود میں اٹھا کر اسکی چودائی جاری رکھی، پھر وہ تھک گیا تو اس نے انجلی کی نیچے اتارا اور اسے واش روم سے نکل کر ساتھ والے کمرے میں جانے کو کہا۔ اور خود ٹینا کا ہاتھ پکڑ کر اسکو بھی اپنے ساتھ باہر کمرے میں لے آیا۔ وہاں جا کر عمران خود صوفے پر بیٹھ گیا اور انجلی کو دوبارہ سے اپنی گود میں آنے کو کہا، انجلی فورا عمران کی گود میں آگئی اور اپنی چوت کا سوراخ عمران کے لن کے اوپر کر کے ایک ہی جھٹکے میں اس کے لن پر بیٹھ گئی، 8 انچ کا لمبا لن انجلی کی چوت میں غائب ہوگیا تھا اور انجلی نے لن پر اچھلنا شروع کیا جس سے اسکے ممے ہوا میں لہرانے لگے جنکو عمران نے اپنے منہ میں لیکر ہلنے سے روکا اور نپلز کو چوس چوس کر انجلی کا دودھ پینے لگا۔ عمران جب انجلی کے نپلز کو زور سے چوستا تو انجلی کو ایک عجیب سا سرور ملتا کچھ دیر عمران کے لن پر اچھلنے کے بعد انجلی تھک گئی تو عمران نے انجلی کی گانڈ تھوڑی سی اوپر اٹھائی اور نیچے سے خود ہی انجلی کی چوت میں گھسے لگانا شروع کر دیے۔
اس دوران عمران نے ٹینا کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور انجلی سے آگے آکر صوفے پر کھڑی ہونے کو کہا۔ اب پوزیشن کچھ یوں تھی کہ انجلی عمران کی گود میں بیٹھی چودائی کروا رہی تھی جبکہ ٹینا انجلی اور عمران کے درمیان میں صوفے پر کھڑی تھی، ٹینا کی چوت عمران کے منہ کے بالکل سامنے تھی اور عمران کی زبان انجلی کی چوت کو چاٹ چاٹ کر اسکو مزہ دے رہی تھی۔ جبکہ عمران نے انجلی کو تیل والی شیشی پکڑا دی تھی جو وہ واش روم سے نکلتا ہوا اپنے ہاتھ میں اٹھا لایا تھا۔ انجلی تیل والی شیشی دیکھ کر عمران کا مطلب سمجھ گئی تھی۔ عمران ٹینا کی گانڈ مارنا چاہتا تھا۔ انجلی نے عمران کے لوڑے پر چدائی کرواتے ہوئے سامنے کھڑی ٹینا کے چوتڑوں کو پکڑ کر کھولا اور اسکی گانڈ اپنی زبان سے چاٹنے لگی۔ اب نیچے سے عمران کا لن انجلی کی چوت کی چدائی کر رہا تھا جبکہ اوپر ٹینا کی گانڈ پر انجلی کی زبان تھی جبکہ اسکی چوت کو عمران اپنی زبان سے چاٹنے میں مصروف تھا۔ انجلی اور ٹینا دونوں ہی مزے کی شدت سے سسکیاں لے لے کر کمرے کے ماحول کو گرما رہی تھیں۔
کچھ دیر ٹینا کی گانڈ چاٹنے کے بعد انجلی نے تیل والی شیشی کھولی اور اپنی انگلی اس شیشی میں ڈال کر اپنی انگلی کو چکنا کر لیا، اور پھر اپنی اس انگلی کو ٹینا کی گانڈ پر پھیرنی لگی۔ جب انگلی کا سارا تیل ٹینا کی گانڈ کے سوراخ کے باہر لگ گیا تو انجلی نے ایک بار پھر اپنی انگلی پر تیل لگایا اور ٹینا کی گانڈ پر انگلی پھیرتی رہی۔ اپنی گانڈ کے سوراخ پر انجلی کی انگلی رینگتی ہوئی محسوس ہوئی تو ٹینا کو پہلے سے زیادہ مزہ آنے لگا تھا، مگر وہ اس بات سے انجان تھی ابھی تک کہ اصل میں اسکی گانڈ میں عمران کا لوڑا جانے کو بے تاب ہورہا ہے۔ جب ٹینا کی گانڈ اچھی طرح چکنی ہوگئی تو اب انجلی نے اپنی انگلی کا پریشر گانڈ کے سوراخ پر بڑھایا اور اسکی انگلی کا اگلا حصہ ٹینا کی گانڈ میں گھس گیا۔ گانڈ میں انگلی محسوس کر کے ٹینا کی تو جیسے جان ہی نکل گئی، اس نے فورا انجلی کو انگلی نکالنے کا حکم دیا، مگر انجلی نے ٹینا کی گانڈ میں اپنی انگلی گھمانا جاری رکھااور ساتھ ساتھ اسکے چوتڑوں پر اپنے دانتوں سے پیار بھی کرنے لگی جس سے ٹینا کو مزہ آنے لگا تھا، مگر وہ ذہنی طور پر گانڈ مروانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔ کچھ دیر ٹینا کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد انجلی نے تیل کی شیشی سے کچھ تیل ٹینا کی گانڈ پر الٹایا اور دوبارہ سے اپنی انگلی ٹینا کی گانڈ میں ڈال کر اسکی گانڈ کو اندر سے بھی چکنا کرنے لگی۔ اس بار انجلی نے پہلے سے زیادہ انگلی ٹینا کی گانڈ میں گھسا دی تھی جس سے ٹینا کو ہلکی ہلکی تکلیف ہورہی تھی۔
ٹینا نے انجلی کو دوبارہ سے انگلی نکالنے کو کہا مگر اب انجلی کی آدھے سے زیادہ انگلی ٹینا کی گانڈ میں گول گول گھوم رہی تھی، جس سے ٹینا کو درد بھی ہورہی تھی مگر ساتھ ساتھ سرور بھی مل رہا تھا، اور سامنے سے ٹینا کی چوت پر عمران کی زبان اپنا جادو جگا رہی تھی جسکی وجہ سے ٹینا کو گانڈ میں ابھی خاص تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ 5 منٹ تک انجلی ٹینا کی گانڈ میں انگلی گھماتی رہی ، کبھی وہ اپنی انگلی سے ٹینا کی گانڈ کی چودائی کرتی اور انگلی اندر باہر کرتی تیزی کے ساتھ تو کبھی گانڈ کے اندر ہی انگلی کو گول گول گھماتی ۔۔۔ ٹینا کی گانڈ اب اندر سے کافی چکنی ہو چکی تھی اور وہ چدنے کے لیے تیار تھی، مگر ٹینا خود ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائی تھی کہ گانڈ میں انجلی کی انگلی ڈالنے کا مقصد ٹینا کو مزہ دینا نہیں بلکہ ٹینا کی گانڈ کو عمران کے لوڑے کے لیے تیار کرنا تھا۔ اسکا خیال تھا کہ عمران اب زیادہ انجلی کو ہی چودے گا کیونکہ اسکی چوت اس قابل نہیں تھی کہ اسکو مزید 3، 4 دن چودا جا سکے۔ اس دوران انجلی کی چوت بھی عمران کے لن کے گھسوں سے اب پانی چھوڑنے کے قریب تھی۔ اسکی سسکیوں میں پہلے کی نسبت کافی تیزی آچکی تھی اور اس نے ٹینا کی گانڈ میں انگلی کرنے کے ساتھ ساتھ اب عمران کو اپنے دھکوں کی رفتار بڑھانے کا کہ دیا تھا تاکہ وہ اپنی چوت کا سارا پانی نکال سکے۔ عمران نے انجلی کی حالت دیکھتے ہوئے اپنے دھکوں میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا تھا جس سے انجلی کی سسکیاں بہت بڑھ گئی تھیں اور کمرہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ،،،، اف ف ف ف ف ، آہ ہ ہ ہ ہ ، ،،، آہ ہ ہ ہ ہ ،،،،، آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ زور سے چودو عمران، اور زور سے۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ا۔۔۔۔۔۔۔ ام م م م م ۔۔۔ بہت مزہ آرہا ہے جانِ من تمہارے لن سے۔۔۔۔ میری چوت کا سارا پانی نکلوا دو آج۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔
عمران کے لن نے چند مزید دھکے انجلی کی چوت میں لگائے اور پھر انجلی کی چوت کی دیواریں آپس میں ملنے لگیں اور عمران کے لن کو مظبوطی سے پکڑنے لگی۔ عمران کو اپنا لن انجلی کی چوت میں پھنستا ہوا محسوس ہوا مگر اس نے دھکوں کی رفتار میں کمی نہیں کی اور اپنی پوری طاقت سے انجلی کی چوت میں گھسے لگانا جاری رکھے ۔ چند مزید جھٹکوں کے بعد انجلی کی چوت نے عمران کے لن پر گرم گرم پانی چھوڑ دیا جس سے عمران کا سارا لن انجلی کی چوت کے چکنے پانی سے بھر چکا تھا۔ عمران نے آخری جھٹکے آہستہ آہستہ لگائے اور جب انجلی کا سارا پانی نکل گیا تو وہ عمران کی گود سے نیچے اتر گئی اور عمران کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ جبکہ عمران کا لن ابھی تک ویسے کا ویسا ہی کھڑا تھا اور کسی اگلی چوت یا گانڈ کے انتظار میں تھا جس میں گھس کر وہ اسکو بھی چود سکے۔
No comments:
Post a Comment