Monday, 1 February 2016

وطن کا سپاہی 9

گاڑی کے قریب آکر تانیہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تو اسکے ڈریس کا نچلا کٹ والا حصہ اسکی ٹانگ سے سرکتا ہوا نیچے چلا گیا اور اسکی بائیں ٹانگ تھائی سے لیکر نیچے تک ننگی ہوگئی مگر تانیہ نے اس چیز کا کوئی نوٹس نہیں لیا کیونکہ یہ اسکے لیے معمولی سی بات تھی مگر میجر دانش کے لیے اب اپنے اوپر کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اب تانیہ نے میجر کی طرف دیکھا اور اسکو دوسری طرف سے آنے کا اشارہ کیا مگر میجر نے تھوڑا سا جھک تانیہ کو بتایا کہ وہ کلب علیبی اکیلی جائے اوراندر کسی بھی ڈانس فلور پر جا کر انجوئے کرے۔ چاہے تو ڈانس کرے چاہے تو کسی ٹیبل پر بیٹھ کر کسی بھی شخص سے خوش گپیاں کرے۔ اور جیسے ہی ٹینا نطر آئے اس پر نظر رکھے کہ وہ اندر کس سے ملتی ہے اور کوئ بھی غیر معمولی چیز نظر آئے تو فورا میجر دانش کو اسکے فون پر ااطلاع دے۔ یہ کہتے ہوئے میجر دانش نے ایک مہنگا موبائل تانیہ کی طرف بڑھایا اور اسکو کہا اس موبائل کو استعمال کرتے ہوئے تم مجھے کال کر سکتی ہو۔ تانیہ نے وہ موبائل اپنے پاس موجود پرس میں رکھا اور دانش سے پوچھا کہ تم کہاں ہوگے؟؟؟ دانش نے بتایا میں بھی کلب علیبی آوں گا مگر وہاں ہم دونوں ایکدوسرے سے نہیں ملیں گے اور نہ ہی کوئی بات چیت ہوگی، اور کچھ دیر اندر رکنے کے بعد شاید میں واپس چلا جاوں مگر تم نے اندر ہی رہنا ہے تب تک جب تک ٹینا وہاں سے نکل نہیں جاتی، اسکے بعد تم چاہو تو گاڑی لیکر واپس نہرو نگر چلی جانا میں ٹینا کو غنڈوں سے بچا کر سیچوایشن کے مطابق فیصلہ کروں گا کہ مجھے رات کو گھر واپس آنا ہے یا رات کہیں اور گزارنی ہے۔ ساتھ ہی میجر نے تانیہ کو خصوصی ہدایت دی کہ نائٹ کلب میں شراب اور وہسکی وغیر ہرگز نہ پیے ورنہ صورتحال بگڑ بھی سکتی ہے۔

تانیہ میجر کو اوکے کہ کر کلب عبیلی کی طرف نکل گئی جب کہ میجر دانش کلب کے باہر ادھر ادھر آوارہ گھومنے لگا۔ پھر کلب کے باہر موجود ایک چھوٹی سی دکان پر بیٹھ کر سگریٹ پینے لگا۔ دانش سموکر نہیں تھا مگر کبھی کبھار اپنے آپ کو آوارہ انسان دکھانے کی خاطر لا ابالی سٹائل میں سموکنگ بھی کرتا تھا۔ اس وقت بھی وہ ایک فارغ انسان نظر آرہا تھا جسکو سارا دن آوارہ پھرنے کے علاوہ کوئی کام نہ ہو۔ کچھ دیر ادھر ادھر پھرنے کے بعد اب میجر دانش ایک دکان پر بیٹھا کوک پی رہا تھا اور ٹائم پاس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر ٹائم تھا کہ جیسے رک سا گیا تھا۔ رات کے 10 بجنے کو تھے مگر ابھی تک ٹینا کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔

دوسری طرف تانیہ کلب علیبی پہنچی تو اسکے سامنے ہی گاڑی لگا کر گاڑی سے اتر گئی، ایک ویلے بھاگتا ہوا تانیہ کے پاس آیا اور اس سے گاری کی چابی لیکر پارک کرنے چلا گیا جب کہ تانیہ ایک ادائے بے نیازی سے کار کا ٹوکن اپنے پرس میں رکھتے ہوئے نائٹ کلب میں داخل ہوگئی۔ قریب 9:30 کا ٹائم تھا اس لیے نائٹ کلب میں ابھی زیادہ گہما گہمی نہیں تھی چند لوگ ہی اندر موجود تھے کچھ کپل تھے تو کچھ بڑی عمر کے افراد بھی تھے۔ چند نوجوان اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ ڈانس فلور پر ڈانس کرنے میں مگن تھے۔ تانیہ پر اعتماد انداز میں چلتی ہوئی ایک خالی ٹیبل دیکھ کر اس پر بیٹھ گئی ، اور ڈانس فلور پر نوجوانوں کو ڈانس کرتا دیکھنے لگی۔

پھر تانیہ نے ایک ڈرنک آرڈر کی جو چند منٹ میں ہی آگئی ، اب تانیہ ڈرنک پینے کے ساتھ ساتھ ٹانگ پر ٹانگ رکھے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ڈانس کرتا دیکھ کر انجوائے کر رہی تھی۔ تانیہ کے آس پاس بیٹھے چند بڑی عمر کے مردوں کی نظریں تانیہ پر ہی تھیں اور وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ قاتل حسینہ اکیلی ہے یا اسکے ساتھ کوئی بوائے فرینڈ وغیرہ بھی ہے۔ کچھ دیر صبر کرنے کے بعد ایک شخص نے ہمت کی اور اپنی سیٹ سے اٹھ کر تانیہ کے قریب آگیا ، اور بڑے پر اعتماد انداز میں تانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولا ، ہیلو بیوٹی فُل لیڈی، اِف یو ڈانٹ مائنڈ مے آئی سِٹ ہیر؟؟ تانیہ نے اسکا سر تا پیر جائزہ لیا اور بولی یو ڈانٹ نیڈ مائی پرمیشن۔ یہ کہ کر تانیہ پھر سے ڈانس دیکھنے لگی اور وہ شخص تانیہ کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھ گیا مگر تانیہ اسے اگنور کر رہی تھی۔

اس شخص کی عمر 35 کے لگ بھگ ہوگی مگر شاید نوجوان لڑکیوں کا شوقین تھا۔ تانیہ کے پاس بیٹھ کر اس نے تانیہ کو دوبارہ سے مخاطب کیا اور اپنا ہاتھ تانیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا ، تانیہ نے پھر سے ایک لمحے کو اسکی طرف دیکھا اور پھر اپنا ہاتھ بڑھا کر اس سے ہاتھ ملایا اور اپنا نام انجلی بتایا۔ اس شخص کا نام سبھاش تھا۔ پہلے پہل تو تانیہ نے اسے کوئی خاص لفٹ نہ کروائی مگر پھر اسے احساس ہوا کہ ٹینا کے آنے میں ابھی وقت ہوگا کیونکہ نائٹ کلب کی اصل رونقیں تو 11 سے 12 بجے کے درمیان ہی آتی ہیں لہذا ٹائم پاس کرنے کے لیے اس لنگور کو تھوڑی بہت لفٹ کروا دینی چاہیے۔ اب تانیہ نے اس شخص سے بات چیت شروع کی تو وہ اپنے بارےمیں تانیہ کو بتانے لگا، اپنا بزنس اور پرسنل لائف کے بارے میں وہ بلا جھجک تانیہ کو سب کچھ بتا رہا تھا۔ اور تانیہ بھی اپنے ذہن میں کہانی بنا رہی تھی کہ اگر یہ میرے بارے میں کچھ پوچھتا ہے تو میں کیا بتاوں گی

کچھ ہی دیر کے بعد سبھاش نے تانیہ کو ڈانس کی آفر کر دی جو تانیہ نے تھوڑا سا ہچکچانے کے بعد قبول کر لی۔ اس وقت رومانٹک سلو میوزک چل رہا تھا تو تانیہ نے ٹیبلز کے درمیان میں ہی اس شخص کے ساتھ سلو کپل ڈانس کرنا شروع کر دیا، تانیہ نے اپنا ایک ہاتھ اسکے ہاتھ میں دے رکھا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا جبکہ سبھاش کا دوسرا ہاتھ تانیہ کی کمر پر تھا اور وہ ہولے ہولے تانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ اسی طرح کچھ اور کپلز بھی کپل ڈانس کرنے میں مشغول تھے اور جو مرد پہلے تانیہ کو گھور رہے تھے وہ اب اپنے آپ کو کوس رہے تھے کہ اگر وہ پہل کر لیتے تو شاید اس حسینہ کے ساتھ اب وہ بانہوں میں بانہیں ڈالے ڈانس کر رہے ہوتے۔

ڈانس کے دوران بھی سبھاش اپنےلبوں کو تانیہ کے کانوں کے قریب لا کر اس سے باتیں کر رہا تھا اور تانیہ بھی ہلکی آواز میں اسکی باتوں کے جواب دے رہی تھی، تانیہ نے اسے بتایا کہ وہ سنگل ہے اور اسکا کوئی بوائے فرینڈ نہیں وہ یہاں اکیلی ہی ٹائم پاس کرنے آئی ہے۔ یہ جان کر سبھاش کی مردانگی نے ایک انگڑائی لی اور اسے لگا کہ آج تانیہ کی تنہائی کو وہ مٹا سکتا ہے۔ یہ جان کر کہ تانیہ سنگل ہے اب سبھاش تھوڑا ریلیکس ہوگیا تھا اور ڈانس کرتے کرتے اب تانیہ کو اپنے سے قریب کر لیا تھا۔ تانیہ نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی اور اس شخص کو اپنے قریب ہونے دیا وہ جانتی تھی کہ کسی بھی ٹائم تانیہ با آسانی اس سے جان چھڑوا کر جا سکتی ہے۔ تانیہ کے ممے سبھاش کے سینے کو ٹچ کر رہے تھے اور سبھاش نظریں بچا کر بار بار تانیہ کے سینے میں بننے والی خوبصورت کلیویج کو دیکھ رہا تھا جبکہ اسکا ہاتھ مسلسل تانیہ کی کمر کا مساج کر رہا تھا۔ وہ تانیہ کی گردن سے لیکر اسکے چوتڑوں سے کچھ اوپر تک جہاں تک تانیہ کی کمر ننگی تھی اپنے ہاتھ سے تانیہ کے جسم کی گرمی کو محسوس کر رہا تھا۔

قریب 15، 20 منٹ دونوں اسی طرح ڈانس کرتے رہے اور اسکے بعد میوزک رک گیا اور تمام کپل اپنی اپنی جگہ پر واپس جا کر بیٹھ گئے جبکہ ڈانس فلور پر ابھی تک تیز میوزک چل رہا تھا اور وہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں بے ہنگم ڈانس کرنے میں مصروف تھے۔ اب سبھاش اور تانیہ دوبارہ سے بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے ۔ تانیہ سبھاش کے ساتھ اب بالکل نارمل انداز میں بات کر رہی تھی جیسے وہ اس کو بہت عرصے سے جانتی ہو اور بات بات پر کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ جب کہ سبھاش کی نظریں مسلسل تانیہ کے نسوانی حسن کے گرد گھوم رہی تھیں جسکا تانیہ کو بھی اچھی طرح اندازہ تھا مگر اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ سبھاش نے تانیہ کو ڈرنکس کی آفر بھی کروائی مگر تانیہ نے کلئیر بتا دیا کہ سافٹ ڈرنک چلے گی وہسکی وغیرہ نہیں جس پر سبھاش نے اپنے لیے وہسکی اور تانیہ کے لیے کوک منگوائی جسکو تانیہ ایک ایک سِپ لیکر پینے لگی۔

باہر دانش کو بھی فارغ گھومتے کافی دیر ہو چکی تھی، کوئی 11 بجے کے قریب دانش کو ایک کنورٹ ایبل بی ایم ڈبلیو نائٹ کلب کی طرف آتی دکھا دی، دانش نے فورا گاڑی پہچان لی یہ ٹینا کی ہی گاڑی تھی اور ٹینا خود ڈرائیو کر رہی تھی جبکہ اسکے ساتھ والی سیٹ پر وہی لڑکا بیٹھا تھا جو یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے ٹینا کے ساتھ تھا۔ اب دانش چوکنا ہوگیا تھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ ٹینا کی کوئی نگرانی تو نہیں ہورہی؟ یا اسکے ساتھ آس پاس کوئی گارڈز وغیرہ موجود ہوں۔ آخر کرنل کی اکلوتی بیٹی تھی کیا معلوم اسکی حفاظت کے لیے پوری فوج موجود ہو آس پاس، مگر کچھ دیر بعد دانش کو اطمینان ہوگیا کہ ٹینا کی نہ تو نگرانی ہورہی ہے اور نہ ہی اسکے آس پاس کوئی موجود ہے۔ ٹینا اب کلب میں داخل ہوچکی تھی، دانش نے دوبارہ سے ایک نمبر ملایا اور بولا کہ آدھے گھنٹے بعد اپنے آدمیوں کو کلب عبیلی بھیج دو، لڑکی کلب میں جا چکی ہے اور امید ہے کہ رات 1 سے 2 بجے تک ہی نکلے گی۔ لیکن کسی بھی وجہ سے وہ پہلے بھی باہر آسکتی ہے لہذا اپنے آدمی ابھی بھیج دو۔

فون کر کے دانش خود بھی کلب کے اندر چلاگیا۔ ویسے تو میجر دانش کی عمر 32 کے لگ بھگ تھی مگر اس وقت اپنے حلیے سے اور ڈریسنگ کی وجہ سے وہ 25، 26 سال کا لا ابالی اور لا پرواہ لڑکا لگ رہا تھا۔ کلب کے اندر جا کر دانش نے دیکھا تو خوب ہلہ گلہ تھا، شور، لائٹس اور لوگوں کے بولنے کی آوازیں ، دانش کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بکرا منڈی میں آگیا ہو۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی یہاں تو۔ کچھ ہی دیر کے بعد دانش کی نظر ٹینا پر پڑی جو اپنے ساتھ آئے لڑکے کے ساتھ راک میوزک پر ڈانس کر رہی تھی الٹے سیدھے سٹیپ کرنے کو آج کل کی نوجوان نسل ڈانس کا نام دیتی ہے، اور یہی کچھ ٹینا کر رہی تھی، اسکے ساتھ موجود لڑکے کو بھی ڈانس کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہیں تھیں وہ بھی الٹے سیدھے ہاتھ چلا رہا تھا، اور کبھی اسکے ہاتھ ٹینا کی کمر پر ہوتے تو کمر سے ہوتے ہوئے ٹینا کے ہپس تک بھی ضرور جاتے، ٹینا نے نیلے رنگ کی ٹائٹس پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے اسکے چوتڑوں کے بیچ میں موجود لائن اور ٹانگوں اور چوتڑوں کا جوڑ تک واضح ہورہا تھا اوپر ٹینا نے ایک لوز سی شرٹ پہن رکھی تھی جس میں اسکے ممے ہلتے واضح محسوس ہورہے تھے۔ یعنی اس نے نیچے سے برا نہیں پہنا ہوا تھا۔

ڈانس کرتے ہوئے کبھی ٹینا لڑکے کی طرف اپنی پیٹھ کرتی تو لڑکا ٹینا کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیتا جس سے ٹینا کے چوتڑ اس لڑکے کے جسم سے ٹچ ہوتے، اور دونوں کی ہائٹ ایک جیسی ہونے کی وجہ سے ٹینا کی گانڈ اور لڑکے کے لن کا آپس میں ملاپ ہورہا تھا۔ دانش ایک سائیڈ پر بیٹھ کر ٹینا پر نظر رکھے ہوئے تھا کہ اچانک اسکی نظر تانیہ پر پڑی جو ابھی تک سبھاش کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ اور دانش کو ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے تانیہ بہت عرصے سے سبھاش کو جانتی ہو۔ تانیہ کو کلب میں آئے 2 گھنٹے سے زیادہ کا ٹائم ہوچکا تھا مگر وہ ابھی تک فریش لگ رہی تھی جبکہ دانش کا باہر کھڑے ہو ہو کر برا حال ہوچکا تھا۔ سبھاش اور تانیہ ڈانس فلور پر نوجوانوں کا ڈانس دیکھنے میں مصروف تھے اور تانیہ کی نظریں بار بار ٹینا اور کو دیکھ رہی تھیں۔ تانیہ میجر دانش کو بھی دیکھ چکی تھی مگر اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی تاکہ کسی کو شک بھی نہ ہوسکے۔

اب تانیہ اپنی ٹیبل سے اٹھی اور وہ بھی ڈانس فلور پر چلی گئی پیچھے پیچھے سبھاش بھی ڈانس فلور پر گیا اور اب کی بار دونوں نے ڈانس شروع کیا تو ڈانس فلور پر جیسے تحلکہ مچ گیا۔ تانیہ تو پہلے سے ہی ڈانسر تھی مگر سبھاش بھی لگتا تھا کہ ڈانس میں خاصا ماہر ہے۔ تانیہ اور سبھاش کو ڈانس کرتا دیکھ کر کچھ نوجوان رک گئے اور اپنا ڈانس بھول کر ان لوگوں کو دیکھنے لگے۔ ڈی جے نے بھی جب تانیہ اور سبھاش کو ڈانس کرتے دیکھا تو اس نے میزک چینج کیا اور شاکِرا کا ہپس ڈانٹ لائی لگا دیا جس پر تانیہ کا جسم تھرکنے لگا تو تمام نوجوان تانیہ اور سبھاش کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہوگئے اور دونوں کا ڈانس دیکھنے لگے، تانیہ کا جسم میوزک کی بیٹس کے ساتھ ہل رہا تھا تانیہ کبھی سبھاش کی بانہوں میں ہوتی جو اسے دونوں ہاتھوں سے ہوا میں اٹھا لیتا ، ہوا میں تانیہ اپنی ٹانگوں سے مختلف سٹیپ کرتی اور واپس زمین پر آکر اسکا جسم دوبارہ سے تھرکنے لگتا۔ ٹینا بھی اب اپنا ڈانس چھوڑ کر تانیہ کا ڈانس دیکھنے لگی۔ کچھ دیر کے بعد ہپس ڈانٹ لائی ختم ہوا تو تانیہ کا ڈانس بھی ختم ہوگیا۔

تانیہ اور سبھاش اب ڈانس فلور سے نیچے اترنے لگے تو تمام لوگوں نے ونس مور ونس مور کی آوازیں لگائیں مگر تانیہ نے سب سے معذرت کی اور نیچے آگئی جبکہ باقی لوگ پھر سے ڈانس کرنے لگے۔ تانیہ ابھی بھی سبھاش کے ساتھ ہی تھی۔ سبھاش کو بھی تانیہ جیسی خوبصورت لڑکی کا ساتھ ملا تو وہ ساتھ چپک ہی گیا تھا اور کہیں اور جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ جبکہ دانش ایک سائیڈ پر بیٹھا سب سے الگ تھلگ ٹینا پر نظر رکھے ہوئے تھا۔

12 بجے ٹینا ڈانس فلور سے نیچے آئی اور نیچے پڑے ٹیبلز پر ایک ٹیبل کا انتخاب کر کے اسی لڑکے کے ساتھ بیٹھ گئی، لڑکے نے وہسکی آرڈر کی اور تانیہ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر بیٹھ گیا۔ دونوں ایکدوسرے سے باتیں کرنے میں ایسے محو تھے کہ انہیں ایکدوسرے کا خیال ہی نہیں تھا۔ دانش سمجھ چکا تھا کہ ابھی انکا یہاں سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ لڑکا اب تک وہسکی کے 2 گلاس اندر انڈیل چکا تھا جبکہ ٹینا ابھی تک پہلا گلاس ہی لیے بیٹھی تھی۔ دانش کو ایک بار فون پر کال بھی آئی اور لڑکی کے بارے میں پوچھا تو دانش نے کہا تم جانو اور تمہارا کام۔ لڑکی ڈانس کلب میں ہی ہے جب باہر آئے تو تمہارا کام اغوا کرنا ہے۔ باہر کھڑے ہوکر ویٹ کرو۔ جب تک وہ خود باہر نہیں آجاتی۔

دانش کی بے چینی اب بڑھنے لگی تھی ، رات کا 1 بجنے والا تھا مگر ایسے لگ رہا تھا کہ ٹینا کا آج رات یہیں رکنے کا پروگرام ہے۔ ٹینا اور اسکا دوست اب ہاتھ میں وہسکی کا گلاس لیے سلو میوزک پر ڈانس کر رہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف تانیہ سبھاش کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی مگر اسکی نظریں بار بار تانیہ کو دیکھ رہی تھیں۔ اب دانش ترکیب سوچنے لگا کہ آخر ٹینا کو کیسے باہر نکالا جائے۔ پھر اسنے ایک ویٹر کو تانیہ کے ٹیبل کی طرف آتے دیکھا، دانش اس ویٹر کی طرف بڑھا اور جب وہ ویٹر عین تانیہ کی ٹیبل پر پہنچا تو دانش نے سائیڈ سے اسے ہلکا سا دھکا دیا اور وہ سبھاش کی طرف گرنے لگا، ویٹر تو بچ گیا مگر اسکے ہاتھ میں موجود ٹرے میں وہسکی کا ایک گلاس سبھاش کے اوپر گر گیا۔ یہ حرکت کر کے دانش فورا ہی ہجوم میں غائب ہوگیا جبکہ سبھاش ویٹر کو ڈانٹنے لگا۔ تانیہ نے دیکھ لیا تھا کہ یہ دھکا دانش نے دیا ہے وہ سمجھ گئی تھی کہ دانش اس سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے اس نے اپنے پرس سے ایک ٹشو نکالا اور آگے بڑھ کر سبھاش کے کپڑون پر ٹیشو پھیرنے لگی۔ اور ویٹر کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ ویٹر کے جانے کے بعد تانیہ نے سبھاش کو کہا کہ آپکے کپڑے خاصے خراب ہوگئے ہیں بہتر ہے واش روم میں جا کر تھوڑا پانی ڈال لیں ، آپکے چہرے پر بھی وہسکی گری ہے اسے بھی صاف کر آئیں۔ مگر سبھاش تو تانیہ کو ایک لمحے کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑنا چاہ رہا تھا ، اسے لگ رہا تھا کہ وہ ایک منٹ کے لیے بھی ادھر ادھر ہوا تو تانیہ پر کوئی اور قبضہ کر لے گا۔ لیکن تانیہ کے اسرار پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی واش روم چلا گیا، اسکے جاتے ہی دانش ہجوم سے واپس نکلا اور تانیہ کے قریب آکر بولا کہ رات کافی ہوگئی ہے، جو حرکت میں نے تمہارے اس عاشق کے ساتھ کی ہے وہی حرکت تم ٹینا کے ساتھ کرو تاکہ اسکو باہر جانے کا ہوش آئے۔ اس کے بعد چاہو تو ساری رات اپنے اس عاشق کے ساتھ گزار دو۔ یہ کہ کر دانش نے تانیہ کو آنکھ ماری اور کلب سے باہر نکل گیا۔ باہر اب ہجوم نہ ہونے کے برابر تھا چند لوگ ڈانس کلب کے آس پاس ٹہل رہے تھے باقی رات زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔

ان لوگوں میں دانش نے با آسانی کچھ ایسے لوگوں کو پہچان لیا جو شکل سے ہی جرائم پیشہ لگ رہے تھے اور کسی کے انتظار میں تھے۔ دانش سمجھ گیا تھا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ٹینا کو اغوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ دانش ایک سائیڈ پر کچھ فاصلے پر چھپ کر بیٹھ گیا اور ٹینا کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر کے بعد دانش نے دیکھا کہ پارکنگ سے ٹینا کی گاڑی ڈانس کلب کے داخلے کے سامنے آکر رکی اور اندر سے ویلے نکلا۔ دانش سمجھ گیا کہ تانیہ نے اندر اپنا کام کر دیا ہے اور ٹینا اب باہر آرہی ہے۔ اس نے اپنی گاڑی سامنے ہی منگوا لی تھی پارکنگ سے۔ واقعی یہی ہوا کچھ ہی دیر میں دانش کو ٹینا آتی دکھا ئی دی اور دانش چوکنا ہوگیا۔

ٹینا کی گاڑی دیکھ کر وہ غنڈے بھی چوکنے ہوگئے تھے کیونکہ دانش نے ٹینہ کی گاڑی کا ماڈل اور نمبر بھی ان غنڈوں کو بتا دیا تھا۔ جیسے ہی ٹینا کلب سے باہر نکلی وہ غنڈے گاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ دانش نے دیکھا کہ یہ ٹوٹل 3 غنڈے تھے۔ جبکہ قریب ہی ایک کار کھڑی تھی جسمیں ایک شخص ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور ان غنڈوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر اس نے اپنی گاڑی سٹارٹ کرلی تھی۔ دانش ابھی تک اپنی جگہ پر ہی تھا۔ جیسے ہی ٹینا گاڑی کے پاس پہنچی اور گاڑی میں بیٹھنے لگی ان غنڈوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر تانیہ کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے کھینچتے ہوئے دوسری طرف لیجانے لگا۔ اس اچانک حملے سے ٹینا بری طرح ڈر گئی تھی اس نے چیخیں مارنے کی کوشش کی مگر اسکے منہ پر غنڈے کا ہاتھ تھا۔

ٹینا کے ساتھ موجود لڑکے نے جب یہ دیکھا تو وہ بھاگتا ہوا غنڈوں کے قریب گیا اور ان میں سے ایک غنڈے کے زور سے دھکا دیا جو لڑھکتا ہوا دور جا گرا، اب وہ لڑکا ٹینا کی طرف بڑھنے لگا تو دوسرے غنڈے نے جیب سے خنجر نکال لیا اور اس لڑکے کی طرف خنجر لہراتا ہوا بولا چل شاباش نکل یہاں سے ورنہ جان سے جائے گا۔ آس پاس موجود لوگ بھی یہ دیکھ کر اکٹھے ہوگئے تھے اور ٹینا اور باقی غنڈوں کے گرد گھیرا ڈال لیا تھا۔ جب غنڈوں نے دیکھا کہ معاملہ خراب ہو سکتا ہے تو جس نے ٹینا کو پکڑ رکھا تھا اسنے ٹینا کو گھما کر اسکی گردن کے گرد اپنا ایک ہاتھ ڈال لیا اور دوسرے ہاتھ میں خنجر پکڑ کر ٹینا کی گردن پر رکھ دیا۔ اتنی دیر میں پہلا ڈاکو جسکو ٹینا کے دوست نے دھکا دیا تھا وہ بھی کھڑا ہوچکا تھا اور اپنی جیب سے خنجر نکلا کر لوگوں کو سائڈ پر ہونے کا کہ رہا تھا۔ جبکہ ٹینا اب چیخیں مار رہی تھی اور بچاو بچاو کی آوازیں لگا رہی تھی۔

مگر خنجر دیکھ کر کسی میں آگے بڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔ ٹینا چیخ چیخ کر کہ رہی تھی اجے مجھے بچاو، اجے مجھے بچاو، مگر اجے صاحب میں خنجر دیکھ کر آگے بڑھنے کی ہمت ختم ہوگئی تھی۔ اوپر سے جس شخص کو اجے نے دھکا دیا تھا وہ خنجر لہراتا ہوا اب اجے کے قریب آیا اور اسکی گردن پر خنجر رکھتا ہوا بولا جان پیاری ہے تو نکل لے ادھر سے ورنہ ادھر ہی تیری گردن علیحدہ کر دوں گا۔ خنجر دیکھ کر اب اجے صاحب کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں اور اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں سے دوڑ لگانے میں ہی عافیت جانی۔ اجے کو یوں دوڑتا دیکھ کر ٹینا اور زور سے اجے کو آوازیں دینے لگی پلیز اجے مجھے چھوڑ کر نا جاو، یو لو می نا۔۔۔ اجے پلیز واپس آو۔۔۔ مگر اجے صاحب کا لو ہوا میں اڑ چکا تھا اور اب انہیں صرف اپنی جان کی فکر تھی۔

جب ٹینا نے دیکھا کہ اب اجے واپس آنے والا نہیں تو اس نے غنڈوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا میرے پاپا آرمی میں کرنل ہیں وہ تمہیں چھوڑیں گے نہیں ۔۔۔ چھوڑ دو مجھے جانے دو۔ مگر غنڈوں کو تو پیسے ملے تھے وہ بھلا کیسے چھوڑ سکتے تھے ٹینا کو۔ اجے کو بھاگتا دیکھ کر اب جو لوگ غنڈوں کے ارد گرد کھڑے تھے وہ بھی ایک ایک کر کے سائیڈ پر ہونے لگے اور پہلا غنڈہ ٹینا کی گردن پر خنجر رکھے آہستہ آہستہ لوگوں کے ہجوم سے نکلنے لگا۔ اب موقع تھا دانش کی سلطان راہی والی اینٹری مارنے کا۔

دانش آوارہ لڑکوں کی طرح گلے میں چین ڈال اور اسے ہاتھ میں گھماتے ہجوم سے نکلا اور بولا یار یہ کون چیخ رہی ہے چپ کروا اسے۔۔۔۔ یہ کہ کر وہ ایک دم ایسے چپ ہوا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ اسنے سب کو یہ شو کروایا کہ اسے یہاں ہونے والے واقعے کے بارے میں علم نیں وہ تو بس لڑکی کی چیخیں سن کر آگیا ادھر مگر اب اسکے ساتھ ہی ایک غنڈہ ہاتھ میں خنجر لیے کھڑا تھا جبکہ دوسرا اب گاڑی تک پہنچ چکا تھا اور گاڑی کے دونوں دروازے کھول چکا تھا تاکہ ٹینا کو گاڑی میں ڈال کر فورا یہاں سے کلٹی ماری جائے۔ اور جس غنڈے نے ٹینا کو پکڑ رکھا تھا وہ آہستہ آہستہ ٹینا کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے گاڑی کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا۔

دانش کے ساتھ جو غنڈا تھا اس نے اب کی بار دانش کی طرف خنجر لہرایا اور بولا چل بے شیانے نکل تو بھی ادھر سے ورنہ اپنی جان سے جائے گا۔ دانش اب کی بار بولا ارے باپ رے تم لوگ تو لڑکی کو اغوا کر رہے ہو۔ یہ کہ کر وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرنے لگا اور اس غنڈے سے تھوڑا دور ہوگیا اور پھر بولا دیکھو میرے بھائی ایسے نا کرو وہ معصوم لڑکی ہے چھوڑ دو اسے۔۔۔ جانے دو اسے کیا ملے گا تمہیں ایک معصوم لڑکی کو اغوا کر کے۔ اب کی بار ایک غنڈا غرایا اور بولا چپ کر بے۔ کوئی آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرے ورنہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کریں گے۔

غنڈے مسلسل گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے جبکہ دانش بھی انکے ساتھ ساتھ ایک ایک قدم گاڑی کی طرف بڑھا رہا تھا جبکہ باقی موجود لوگ آہستہ آہستہ دور ہٹ رہے تھے۔ ٹینا ابھی بھی چلا رہی تھِی میرے پاپا تم لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے وہ تمہارے پورے خاندان کو برباد کر دیں گے۔ مگر غنڈوں پر ٹینا کی ان دھمکیوں کا ذرہ برابر اثر نہی ہورہا تھا۔ ٹینا نے اب میجر دانش کی طرف دیکھ کر اس سے مدد کی اپیل شروع کر دی تھی ایک دانش ہی تو تھا جو ابھی تک دور ہٹنے کی بجائے ایک ایک قدم غنڈوں کی طرف بڑھ رہا تھا اور انہیں سمجھا رہا تھا۔ اور اپنے ساتھ والے غنڈے سے محض چند قدم کی دوری پر تھا۔ اور ٹینا کی واحد امید بھی ابھی وہی تھا۔ ٹینا دانش کو نہیں جانتی تھی مگر اس وقت اس سے مدد مانگ رہی تھی

اب وہ غنڈہ ٹینا کو لیکر گاڑی کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا جبکہ دروازے کھولنے والا غنڈہ گاڑی کی دوسری سائیڈ پر جا کر گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ پہلے غنڈے نے اب ٹینا کی گردن سے خنجر ہٹایا اور اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دھکیلنے لگا، میجر دانش اسی چیز کے انتظار میں تھا جیسے ہی غنڈے نے ٹینا کی گردن سے خنجر ہٹایا میجر دانش نے ایک ہی جست میں ساتھ والے غنڈے پر حملہ کر دیا اور اس سے خنجر چھین کر اسکے سینے پر چلا دیا، میجر نے خنجر اس طرح مارا خنجر سینے میں گھسنے کی بجائے محض اسکی چمڑی کو چیر دے اور خون بہنا شروع ہوجائے۔ اس غنڈے کے لیے یہ حملہ بالکل بھی متوقع نہیں تھا خنجر کی تیز دھار سینے پر لگتے ہی اس نے ایک چیخ ماری اور زمین پر بیٹھ گیا اسکی چیخ سن کر دوسرے غنڈے نے پیچھے مڑ کر دیکھا جو ٹینا کو گاڑی میں دھکا دینے کے لیے تیار تھا، مگر جیسے ہی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اسکو اپنی ران میں لوہے کا سریا گھستا محسوس ہوا اور وہ بھی اپنی ٹانگ پکڑ کر زمین پر آرہا، دانش نے پہلے غنڈے پر وار کرتے ہی وہیں سے خنجر اس غنڈے کی ران پر دے مارا تھا جو ٹینا کو گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا، خنجر مارنے کے ساتھ ہی میجر دانش 2 چھلانگوں میں اس غنڈے کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس نے اب ٹینا کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے دوسری طرف بھاگنے لگا، مگر ٹینا جو اس وقت ڈری ہوئی اور سہمی ہوئی تھی اوپر سے اس نے بڑی ہیل والی جوتی پہن رکھی تھی وہ بھاگ نہی سکی اور وہیں پر گر گئی، اتنی دیر میں گاڑی سے باقی دو غنڈے بھی نکل آئے اور دانش کی طرف لپکے۔ دونوں کے ہاتھ میں خنجر تھے۔

دانش اب کی بار ٹینا کے آگے آگیا اور ٹینا جو زمین پر گر گئی تھی دانش کے پیچھے چھپ گئی آگے بڑھنے والے غنڈے نے دانش پر حملہ کیا جسکو دانش نے پیچھے کی طرف جھک کر خالی جانے دیا، خنجر دانش کے سینے سے کچھ ہی انچ کے فاصلے سے گزرا تھا، ابھی دانش اس حملے سے بچ کر سیدھا ہی ہوا تھا کہ دوسرے غنڈے نے بھی دانش پر وار کیا مگر دانش نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے وار کو اپنے بازو سے روکا اور اپنا بازو گھما کر ایسا جھٹکا دیا کہ خنجر اسکے ہاتھ سے نکل کر زمین پا جا گرا جو دانش نے پہلی فرصت میں ہی نیچے جھک کر اٹھا لیااور اسی غنڈے کی طرف وار کرنے کے لیے لپا مگر پہلے والا غنڈہ جسکا وار خالی گیا تھا دانش پر اگلا وار کر چکا تھا، اس غنڈے نے یہ وار دانش کی ٹانگ پر کیا تھا دانش نے پھرتی کے ساتھ اپنی ٹانگ بچاتے ہوئے ایک دوسری طرف گھومنے کی کوشش کی، دانش اس خطرناک وار سے بچ تو گیا مگرخنجر کی نوک اسکی تھائی کی بیک سائیڈ کو ہلکا سا چیرتی ہوئی نکل گئی جس سے فوری طور پر میجر دانش کو اپنی ٹانگ میں تیز جلن محسوس ہونے لگی۔

لیکن اس موقع پر ٹانگ کی جلن کو بھول کر میجر دانش نے دوبارہ سے اس غنڈے پر حملہ کیا اور اس بار اسکے سینے پر زور دار گھونسہ مارا جس سے اسکو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا اور وہ نیچے کو جھکنے لگا، میجر نے موقع ضائع کیے بغیر اسکی گردن پر اپنا مخصوص وار کیا جس سے ایک غنڈہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر گیا جب کہ دوسرے غنڈے نے میجر دانش کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر ایک زور دار کِک میجر کی کمر پر ماری جس سے میجر دانش قلابازی کھاتا ہوا 3، 4 فٹ دور جا گرا، اس غنڈے نے اب دوبارہ سے ٹینا کی طرف بڑھنا شروع کیا جو ابھی تک زمین پر خوفزدہ بیٹھی تھی مگر دانش نے فورا ہی کراٹے کے انداز میں بیک قلابازی لگائی اور ایک ہی لمحے میں اس غنڈے اور ٹینا کے درمیان میں آگیا اور اسکی گردن پر ایک گھونسہ رسید کیا جس سے اسکا سانس رک گیا اور وہ گردن پکڑ کر زمین پر آرہا۔ پہلے دو غنڈوں میں سے ایک تو ابھی تک اپنی ٹانگ کو پکڑ کر بیٹھا تھا جس میں میجر دانش کا مارا ہوا خنجر ابھی تک پیوست تھا جبکہ دوسرے غنڈے نے ہمت کی اور میجر دانش پر حملہ کیا لیکن میجر دانش اب پوری طرح تیار تھا اور اس نے نیچے جھکتے ہوئے اس غنڈے کے گھونسے سے اپنا چہرہ بچایا مگر ساتھ ہی پیچھے قلابازی کھا کر اپنی ٹانگ سے اس پر وار کیا جو اسکے جبڑوں کو ہلا گیا۔ ، میجر دانش نے سیدھے ہوتے ہی ایک زور دار کِک اس کی کمر پر ماری جس سے وہ غنڈہ بھی زمین پر ڈھیر ہوگیا۔

باقی کھڑے لوگ محض تماشہ دیکھ رہے تھے کسی میں آگے بڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔ اب میجر دانش نے ٹینا کی طرف دیکھا جو سہمی ہوئی نظروں سے اپنے چاروں طرف دیکھ رہی تھی ، میجر دانش نے اسکا ہاتھ پکڑ کا اٹھایا اور دوبارہ سے ہجوم سے دور بھاگنے لگا مگر اس بار پھر اس سے بھاگا نہیں گیا اور وہ لڑکھڑانے لگی۔ ٹینا کی ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں۔ وہ بہت ڈر گئی تھی، اب میجر دانش نے اسکے کولہوں کے گرد اپنا بازہ پھیلایا اور اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر ہجوم سے دور بھاگنے لگا، بھاگتے بھاگتے اس نے ٹینا سے پوچھا آپ کے پاس گاڑی ہے؟؟؟ ٹینا نے ہانپتے ہانپتے کہا ہاں ہے، کلب کے سامنے کھڑی ہے ، میجر دانش پہلے سے ہی جانتا تھا کہ اسکی گاڑی کلب کے سامنے کھڑی ہے مگر ٹینا کو اس پر شک نہ ہو اسی لیے اسکی گاڑی کے بارے میں پوچھا میجر پہلے ہی کلب کی طرف بھاگ رہا تھا۔

گاڑی کے قریب پہنچ کر اس نے ٹینا کو دروازہ کھولے بغیر ہی فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور اس سے خود جمپ لگا کر ڈوائینگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اب میجر نے ٹینا سے گاڑی کی چابی مانگی تو اسنے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا، مگر اسکے پاس چابی نہیں تھی، پھر اس نے اپنے پرس میں دیکھا تو پرس میں بھی چابی نہیں تھی۔ میجر سمجھ گیا کہ چابی کہیں باہر گری ہے، میجر نے اپنے ذہن پر زور دیا تو اسے یاد آیا ویلے سے چابی پکڑ کر جب ٹینا گاڑی کی طرف آئی تھی تو تبھی غنڈے نے اسے پکڑ لیا تھا، اور ٹینا کے ہاتھ سے چابی نیچے گرگئی تھی۔ میجر چھلانگ لگا کر دوبارہ گاڑی سے باہر نکلا اور اپنے آس پاس چابی ڈھونڈنے لگا آخر کار میجر کو گاڑی سے کچھ ہی دور چابی مل گئی ، میجر نے فورا چابی اٹھای اور گاڑی کی طرف بڑھا مگر اس سے پہلے کہ وہ گاڑی میں بیٹھتا اسکو ایسے محسوس ہوا جیسے اسکی ٹانگ کو کوئی چیز چیرتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی ہو۔ پیچھے موجود ایک غنڈے نے اپن خنجر دانش کی طرف پھینکا تھا جو سیدھا اسکی پنڈلی پر جا کر لگا اور 2 انچ کے قریب دانش کے گوشت کو چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔ میجر دانش نے مڑ کر دیکھا تو وہ غنڈہ ابھی دور تھا اور یہ وہی تھا جسکی ٹانگ میں میجر دانش نے خنجر مارا تھا۔ میجر نے فورا اپنے ہاتھ سے خنجر پکڑا اور ایک جھٹکے سے کھینچ کر ٹانگ سے نکال لیا مگر اسکا تکلیف کی شدت سے برا حال ہوگیا۔ اب میجر دانش اپنی تکلیف کو بھلاتا ہوا دوبارہ سے لنگڑاتا ہوا گاڑی کے قریب گیا اور دوبارہ سے گاری کے دروازے سے پھلانگتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ میجر نے گاڑی سٹارٹ کی گئییر لگایا اور تیز رفتاری کے ساتھ ڈانس کلب سے دور جانے لگا۔
قصبے سے اس عورت کے بتائے ہوئے راستے پر کرنل وشال اپنے قافلے سمیت روانہ ہوا مگر جونا گڑھ پہنچنے تک نہ تو اسے میجر دانش ملا اور نہ ہی کوئی گاڑی ملی۔ البتہ اپنی جیب کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں کرنل وشال کو ایک کار کے ٹائرز کے نشان ضرور ملے چند جگہوں پر۔ جہاں کہیں بالکل کچا راستہ آتا وہاں کرنل کو گاڑی کے ٹائر کے نشان نظر آتے جس سے اسکی امید اور بڑھتی جاتی کہ وہ صحیح سمت میں جا رہا ہے مگر جونا گڑھ پہنچنے تک بھی اسکو کوئی گاڑی نہیں ملی تو وہ سیدھا جونا گڑھ میں موجود آرمی کے ہیڈ کوارٹر چلا گیا۔ کرنل مسلسل سی آئی ڈی کے اے سی پی اور راء کے اعلی عہدیداروں سے رابطے میں تھا مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ میجر دانش کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ صبح کے ٹائم کرنل کو اس سپاہی کی کال آئی جسے کرنل نے امجد عرف سردار سنجیت سنگھ کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اسنے فون پر امجد کے بارے میں بتایا کہ اس پر شک کرنا بالکل صحیح نہیں وہ کافی دیر سے انکے بتائے ہوئے پٹرول پمپ پر کھڑا ہے مگر وہاں کہیں بھی کسی دہشت گرد کے آنے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔

تب کرنل نے اس سپاہی کو کہا کہ سردار جی سے کہو اب یہاں سے جائیں اور کسی محفوظ ٹھکانے پر جا کر رہیں کہیں دوبارہ سے دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ اسکے بعد کرنل نے راجکوٹ بھیجی ہوئی ٹیم سے رابطہ کیا کہ شاید کرنل کا خیال غلط ہو اور میجر دانش جونا گڑھ کی بجائے راجکوٹ کی طرف چلا گیا ہو، مگر وہاں سے بھی اسے یہی رپورٹ ملی کے ہر بس اور ہر گاڑی کو چیک کیا گیا مگر مطلوبہ افراد ابھی تک نہیں مل سکے۔ کرنل اب سر پکڑ کر بیٹھا تھا کہ آخر دانش کو ڈھونڈے توڈھونڈے کیسے؟؟؟ اب یہ کرنل کی انا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ اور وہ ہر صورت میں میجر دانش کو پکڑ کر عبرت ناک سزا دینا چاہتا تھا۔ ایک لمحے کو کرنل کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ ہوسکتا ہے جہاں پر اسے دانش کے استعمال میں موبائل ملا تھا دانش اس سے آگے ہی بیدی پورٹ کی طرف چلا گیا ہو اور ہائی وے نمبر 6 پر ریلائنس گیس پمپ پر جو ویڈیو کرنل نے دیکھی وہ دانش کی نہ ہو بلکہ اس سے مشابہ کوئی شخص ہو۔۔۔ مگر پھر کرنل نے اس خیال کو بھی جھٹک دیا کیونکہ سردار سنجیت سنگھ کا پکڑے جانا اور اسکا یہ بتانا کہ 2 دہشت گرد اور 1 لڑکی جامنگر بائی پاس روڈ سے کچے علاقے کی طرف گئے تھے اور پھر وہ مونچھوں والا شخص جو کرنل نے ویڈیو میں دیکھا ، کرنل کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں وہ یقینا دانش ہی تھا، اس خیال کے آتے ہی کرنل نے بیدی پورٹ جانے والے خیال کو ذہن سے نکال دیا اور دوبارہ سے سوچنے لگا کہ آخر دانش کہاں جا سکتا ہے، کونسے ایسے علاقے ہیں جہاں سے دانش کو مدد مل سکتی ہے اور وہ کہاں پناہ لے سکتا ہے؟؟؟

مگر کرنل کو اپنا دماغ خالی محسوس ہورہا تھا اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم ہوتی جا رہی تھیں۔ کرنل نے شام کے وقت ایک میٹنگ بھی بلائی جس میں آرمی کے مزید 2 کرنل راٹھوڑ سنگھ اور سمیر الیاس شامل تھے اور انکے ساتھ راء کی پروفیشنل ٹیم بھی تھی جو فون کی مدد سے کسی بھی شخص کو ٹریس کرنے میں ماہر تھیں۔ مگر انکے لیے بھی میجر دانش کا سراغ لگانا نا ممکن نظر آرہا تھا۔ انکو میجر کی آخری لوکیشن جامنگر بائی پاس ہی مل رہی تھی جسکا ذکر سردار سنجیت سنگھ نے کرنل وشال کے سامنے کیا تھا۔ جب کچھ نہ بن پایا تو آخر کار سب نے یہی فیصلہ کیا کہ اب دوبارہ سے سردار سنجیت سنگھ کی تلاش کی جائے تاکہ اسے سے مزید پوچھ گچھ ہوسکے اور ہوسکتا ہے وہ میجر دانش کے ساتھ ملا ہوا ہو اور اسنے جان بوچھ کر کرنل کو غلط راستے کی طرف بھیج دیا ہو۔ گوکہ کرنل وشال بذاتِ خود اس فیصلے کے حق میں نہیں تھا کیونکہ اسکو امجد یعنی سردار سنجیت سنگھ کی باتوں میں سچائی اور اعتماد نظر آیا تھا اور کرنل وشال کا خیال تھا کہ وہ کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔ اس لیے وہ اس فیصلے کے خلاف تھا، مگر باقی دونوں کرنلز اور راء کی اعلی قیادت کے دباو کے تحت سردار سنجیت سنگھ کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

یہ فصلہ ہونے کے بعد میٹینگ ختم ہوگئی اور جونا گڑھ شہر میں سادہ کپڑوں میں پولیس، سی آئی ڈی اور راء کے لوگ سردار سنجیت سنگھ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، کرنل وشال نے اپنے ٹیبلیٹ میں موجود ویڈیو دکھا کر امجد کی تصویریں بھی نکال لی تھیں اور تمام ڈیپارٹمنٹس کو بھیج دی تھی کہ اگر اس حلیے کا کوئی بھی شخص نظر آئے تو اسکو فوری حراست میں لیکر آرمی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا جائے ۔

کرنل وشال پچھلے دو دن سے میجر دانش کی وجہ سے خوار ہورہا تھا۔ پہلے تو اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے وفادار داود اسمعیل اور اسکے گینگ کا خاتمہ کر دیا تھا اور اب میجر دانش کو ڈھونڈنے میں وہ بری طرح ناکام دکھائی دے رہا تھا۔ اب وہ تھوڑا ریلیکس کرنا چاہتا تھا۔ ریلیکس کرنے کی غرض سے کرنل اب اپنے آفس سے نکلا اور جامنگر میں موجود آرمی کالونی پہنچ گیا جہاں وہ ایک کیپٹن کو جانتا تھا۔ کیپٹن کا نام سریش چوپڑا تھا جو کچھ عرصہ قبل ہی ممبئی میں کرنل وشال سے ٹریننگ لیکر آیا تھا اور اب اسکی پوسٹنگ جونا گڑھ میں تھی جہاں وہ اپنی پتنی نیہا چوپڑا کے ساتھ رہتا تھا۔ کیپٹن کی شادی کو ابھی صرف 3 ماہ ہوئے تھے اور ممبئی سے واپسی پر وہ کرنل وشال کو خاص طور پر اپنے ہاں دعوت کا کہ کر آیا تھا۔ جب کرنل وشال نے آرام کرنے کا سوچا تو اسکے ذہن میں کیپٹن کی دی ہوئی دعوت آگئی، کرنل نے سوچا کہ یہاں رہ کر اپنا دماغ مزید خراب کرنے سے بہتر ہے اسکے گھر جا کر تھوڑی دیر آرام کروں گا اور نہا دھوکر تازہ دم ہوکر پھر سے اپنے مشن پر لگ جاوں گا۔ تھکاوٹ دور ہوگی تو اسکا ذہن پہلے کی طرح تیزی سے کام کرنا شروع کر دے گا۔

کرنل نے کیپٹن سریش کے دروازے پر دستک دی تو دوسری دستک پر کیپٹن نے دروازہ کھولا اور کرنل کو اپنے سامنے پا کر بہت خوش ہوا اور ایک زور دار سلیوٹ مارا۔ کرنل نے خوشدلی سے آگے بڑھ کرکیپٹن سے ہاتھ ملایا اور کیپٹن اسے سیدھا اپنے گھر لے گیا۔ اندر لیجا کر سریش نے کرنل کو صوفے پر بٹھایا اور اسکا حال چال پوچھنے لگا۔ کرنل وشال کمرے میں موجود بڑے صوفے پر بیٹھ گیا تھا جبکہ سریش اسکے سامنے پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ کرنل وشال سے جب سریش نے پوچھا کہ آپ کب سے جونا گڑھ میں موجود ہیں تو پہلے تو کرنل اپنی پوری کہانی بتانے لگا مگر پھر یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ایک کیپٹن کیا سوچے گا کہ اسکا آفیسر ایک پاکستانی ایجنٹ کو گرفتار نہیں کر سکا۔۔ بلکہ وہ کرنل کی قید سے نکل کر بھاگ بھی گیا اور ابھی تک پکڑا نہیں جا سکا۔

کرنل نے جیسے ہی یہ سوچا اس نے فوری بات بنا دی کہ بس جونا گڑھ میں ایک ضروری میٹنگ تھی ، تو میٹنگ سے فارغ ہوکر تمہارا خیال آیا۔ سوچا تم سے بھی مل لیں اور ابھی تمہاری نئی نئی شادی ہوئی ہے تو تمہیں اور تمہاری پتنی کو شادی کا کوئی تحفہ بھی دے دیں۔ کیپٹن سریش کرنل کی بات سن کر بہت خوش ہوا اور بولا کہ سر نیہا تو ابھی نہا رہی ہے وہ نکلتی ہے تو میں اسکو بتاتا ہوں کہ کرنل صاحب آئے ہیں ہمارے غریب خانے پر اور ایک آرمی آفیسر کے لیے سب سے بڑا تحفہ تو اسکی پروموشن ہی ہوتی ہے۔ اگر مجھے کیپٹن سے میجر کے عہدے پر پروموٹ کردیں تو آپکی بڑی کِرپا ہوگی۔ کرنل نے کیپٹن کی بات سنی تو سپاٹ لہجے میں بولا پروموشن اتنی آسانی سے نہیں ہوتی سریش، بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اپنے افسروں کو خوش کرنا پڑتا ہے ، کارکردگی دکھانا پڑتی ہے جس سے افسر کی نظروں میں تمہاری اہمیت بڑھ جائے اور پھر ٹیسٹ پاس کرنا بھی ضرور ہوتا ہے۔ کرنل کی بات سن کر سریش کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا اور بولا سر آپکو تو معلوم ہی ہے میری کارکردگی کے بارے میں اور میں نے ٹیسٹ بھی دے رکھا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو مجھے اس ٹیسٹ میں پاس بھی کروا سکتے ہیں اور میری سفارش کر کے مجھے پروموشن بھی دلوا سکتے ہیں۔

کیپٹن کی بات سن کر میجر نے ایک لمبی ہوں ں ں کی اور بولا سریش میاں تم تو ایسے سمجھ رہے ہو جیسے پروموشن میرے کہنے پر ہی ہونی ہے۔ اپنے افسروں کو خوش کرو پروموشن ہوجائے گی تمہاری۔ سریش ایک بار پھر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا سر آپ تو میرے افسروں کے بھی افسر ہیں آپ کہیں گے تو بھلا کس میں جرات ہے کہ میری پروموشن کو روک سکے۔ اس سے پہلے کہ کرنل وشال اسکی بات کا جواب دیتا کمرے میں موجود دوسرا دروازہ کھلا اور ایک 23 سالہ لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ نیہا چوپڑا تھی سریش چوپڑا کی پتنی۔ کمرے میں آتے ہی نیہا سریش سے مخاطب ہوئی جانو اب می نے نہا لیا ہے آج رات خوب مزے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ نیہا اس سے آگے کچھ کہتی اسکی نظر سامنے بیٹھے کرنل وشال پر پڑگئی اور اسکی بولتی یہیں پر بند ہوگئی۔ سریش بھی نیہا کی بات سن کر تھوڑا سا شرمندہ ہوا اور مگر نیہا کو ہاتھ کے اشارے سے آگے بلایا اور کرنل وشال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا سر کو پرنام کرو۔ یہ ہمارے کرنل صاحب ہیں جن کے بارے میں میں نے تمہیں بتایا تھا۔

کرنل کا نام سنتے ہی نیہا نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا لی اور آگے بڑھ کر کرنل وشال کے سامنے جھکی اور اسکے پاوں چھونے لگی۔ کرنل وشال اپنے صوفے پر ہی بیٹھا حسن کے اس مجسمے کو دیکھ رہا تھا، نیہا جب کرنل کے سامنے جھکی تو اسکے ہاف بلاوز میں سے اسکے 36 سائز کے مموں کا ابھار دیکھ کر کرنل کو سریش کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ کرنل نے اپنے ہاتھ سے نیہا کے کندھے پر تھپکی دی جو اسکے سامنے جھک کر اسکے پیر چھو رہی تھی، جھکتے ہوئے جلدی میں اسکی ساڑھی کا پلو ڈھلک گیا تھا جس کی وجہ سے کرنل کو نیہا کے سینے پر موجود 2 خوبصورت مموں کے درمیان بننے والی خوبصورت لائن دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ کرنل نے جب نیہا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپکی دی تو اسکا جسم گرم اور گیلا تھا۔ وہ نہا کر ساڑھی لگا کر سیدھی اسی کمرے میں آئی تھی اور اس نے اپنا جسم ٹاول سے صاف کرنا بھی گوارہ نہ کیا تھا۔

نیہا جب کرنل کے پاوں چھو کر واپس اٹھی تو اس نے اپنے پلو کو دوبارہ سے سینے پر سجا لیا اور کرنل کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کا اسے پرنام کیا۔ نیہا سیدھی کھڑی ہوئی تو اب اسکے گیلے بدن پر پانی کے قطرے نظر آنے لگے، کرنل وشال کی نظریں نیہا کے پیٹ پر موجود اسکی خوبصورت ناف پر پڑی جہاں پانی کا ایک موٹا قطرہ ناف کے سوراخ میں اٹکا ہوا تھا، کرنل کا دل کیا کہ اپنی زبان نیہا کی ناف پر رکھ کر پانی کے اس قطرے کو پی جائے مگر وہ ایسا نہ کر سکا اور محض اپنی اس خواہش کو ہی پی سکا ۔ سریش نے نیہا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ کرنل کے ساتھ ہی اسکے صوفے پر تھوڑی فاصلے پر بیٹھ گئی۔ کرنل وشال نے اسکا حال چال پوچھا اور پھر سریش کے بارے میں پوچھنا شروع کیا کہ یہ خوش تو رکھتا ہے نا تمہیں؟؟ تو نیہا نے شرماتے ہوئے ہاں میں سرہلایا۔ کرنل ابھی بھی اپنی آنکھوں کو نیہا کے گیلے بدن کی خوبصورتی سے خیرہ کر رہا تھا۔ آخری بار اس نے بالی ووڈ اداکارہ زرین خان کی چدائی کی تھی جسکا جسم بہت بھرا ہوا اور بھاری تھا اور اس وقت اسکے سامنے ایک جوان دبلی پتلی مگر گرم جسم والی لڑکی بیٹھی تھی اور کرنل وشال کا لن بار بار اسکے کان میں کہ رہا تھا کہ اس لڑکی چوت کی گرمی چیک کرنی چاہیے۔

سریش کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کرنل کی نظریں اسکی بیوی کے گیلے بدن پر ہیں۔ کرنل کبھی نیہا کے مموں پر نظریں جمائے تو کبھی سائڈ سے اسکے پیٹ کے کچھ حصے پر نظریں جمائے سریش اور نیہا سے باتیں کر رہا تھا، کبھی کبھی کرنل وشال نیہا کی ننگی کمر کا بھی دیدار کرنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ کرنل وشال کو اس طرح اپنی پتنی کی طرف دیکھتے ہوئے سریش کو فطری طور پر غصہ آنا چاہیے تھا مگر شاید وہ کسی اور طبیعت کا مالک تھا۔ غصہ کرنے کی بجائے وہ خوش ہورہا تھا کہ کرنل صاحب کو اسکی بیوی کا جسم پسند آیا اور وہ بار بار اسکے جسم کا نظارہ کر رہے ہیں۔ یہیں سے کیپٹن سریش کے ذہن میں ایک گھٹیا خیال آیا کہ میں اپنے افسر کو خوش کروں یا نہ کروں مگر میری پتنی نیہا کرنل وشال کو خوش کر سکتی ہے اور اس طرح میری پروموشن پکی ہے ۔ یہ سوچ آتے ہی اسکے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آگئی اور وہ بہانے سے دوسرے کمرے میں گیا اور نیہا کو بھی آواز دی۔

نیہا کرنل وشال سے اجازت لیکر اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے پتی کی بات سننے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ سریش نے نیہا کے اندر آتے ہی اسکو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اپنا ہاتھ اسکی گیلی کمر پر پھیرتا ہوا بولا آج تو میری جان قیامت لگ رہی ہے۔ یہ گیلا بدن اور اس پر تمہارے پستانوں کا ابھار مجھے پاگل کر رہے ہیں۔ سریش کے منہ سے اپنے سیکسی جسم کی تعریف سن کر نیہا بولی صرف تمہیں ہی نہیں تمہارے اس بڈھے ٹھرکی افسر کو بھی میرا جسم پاگل کیے دے رہا ہے۔ نیہا کی بات سن کر سریش آہستہ سے ہنسا اور بولا ہاں میں نے دیکھا ہے اسکی نظریں تو تمہارے جسم سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ بس تم اب اپنے پتی کا ایک کام کر دو۔ نیہا نے سوالیہ نظروں سے سریش کو دیکھا کہ کونسا کام؟؟؟ تو سریش نے کہا بس اسی طرح کرنل صاحب کے پاس بیٹھی رہو ، بلکہ تھوڑا قریب ہوکر بیٹھ جاو تاکہ تمہارے جسم کی خوشبو سے بھی ہو لطف اندوز ہوسکے، اس سے تھوڑا ہنسی مذاق کروکہ اسے یہ اپنا ہی گھر معلوم ہو، اسے خوش کرو تاکہ تمہارا پتی کیپٹن کے عہدے سے میجر کے عہدے پر ترقی پا سکے۔۔۔

نیہا نے اپنے پتی کی بات سنی تو بولی وہ سب تو ٹھیک ہے مگر اس بڈھے کی نیت خراب ہوجانی ہے تمہاری پتنی پر۔ سریش، جو یہی چاہتا تھا کہ وشال کی نیت خراب ہو اور وہ نیہا کے جسم سے لطف اندوز ہو مگر نیہا کو کھل کر نہیں کہ رہا تھا، بولا اسکی نیت خراب ہو بھی جائے تو وہ بڈھا آخر کیا کر لے گا تم ہٹی کٹی ہو ایک دینا اسکو الٹے ہاتھ کی، میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ بس تم اس سے تھوڑا دل لگی کرو، میں کسی بہانے سے تھوڑی دیر کو باہر چلا جاوں گا تاکہ وہ بڈھا بھی اپنی ٹھرک پوری کر سکے مگر بدلے میں تم اس سے میری پروموشن کی بات ضرور کرنا۔ نیہا نے سریش سے کہا اور اگر اس نے حد سے زیادہ بڑھنے کی کوشش کی اور میرے ساتھ کچھ غلط کرنا چاہا تو؟؟؟ کیپٹن وشال نے کہا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم دیکھ لینا تمہیں کیا کرنا ہے۔۔۔ سنبھالنے کی کوشش کرنا مسئلہ زیادہ خراب ہو تو مجھے کال کر لینا مایں ساتھ ہی تو جاوں گا فورا آجاوں گا۔ نیہا نے اثبات میں سر ہلایا اور واپس کرنل وشال کے پاس جا کر بیٹھ گئی مگر اب کی بار وہ وشال کے قدرے قریب بیٹھی تھی اور اسکی ساڑھی کا پلو جو پہلے اسکے سینے پر پھیلا ہوا تھا اب بیچ میں سکڑ گیا تھا جس سے نیہا کی کلیوج لائن واضح ہوگئی تھی اور اب کرنل بغیر کسی رکاوٹ کے نیہا کی کلیویج لائن کی خوبصرورتی کو دیکھ سکتا تھا۔

کچھ دیر تک تینوں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور نیہا بہانے سے کرنل کے مزید قریب ہوگئی تھی، اب نیہا کے بدن کی میٹھی میٹھی خوشبو کرنل کے جسم میں آگ لگا رہی تھی اور اسے پہلے سے زیادہ نیہا کے بدن کی طلب محسوس ہونے لگی تھی۔ اس سے پہلے کہ کرنل وشال کی طلب اور بڑھتی سریش نے کرنل کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہاں سے کھسکنے کا سوچا، وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور بولا سر میں آپکے کھانے وغیرہ کا بندوبست کرتا ہوں، مارکیٹ سے کچھ کھانے کو لے آوں تب تک آپ اور نیہا بیٹھ کر باتیں کریں۔ اور ہاں نیہا، سر سے میری پروموشن کی بات ضرور کرنا، شاید تمہاری بات مان جائیں سر۔ یہ کہ کر کیپٹن سریش فورا کمرے سے نکل گیا اور پیچھے صوفے پر سریش کی جوان پتنی نیہا اپنے گیلے بدن کے ساتھ کرنل وشال کو اپنے بدن کی گرمی سے خوش کرنے کا پورا پلان بنا چکی تھی۔

سریش کے جاتے ہی نیہا بغیر ٹائم ضائع کیے کرنل وشال کے بالکل قریب ہوکر بیٹھ گئی، نیہا کا ننگا گیلا بدن اب کرنل کے بازو کے ساتھ لگ رہا تھا اور نیہا نے اپنا ہاتھ کرنل کے کندھے پر رکھا اور دوسرا ہاتھ کرنل کی ٹانگ پر رکھ کر اسکو سہلاتے ہوئے بولی کہ سر اگر میں کہوں تو کیا واقعی آپ میرے پتی کی پروموشن کروا دیں گے؟؟؟ نیہا کے اس طرح فوری رسپانس نے کرنل وشال کو تھوڑا حیران تو کیا مگر وہ کہتے ہیں نہ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں، جس چکنے بدن کو چودنے کی خواہش کرنل پچھلے آدھے گھنٹے سے دل میں دبائے بیٹھا تھا وہ خود ہی چدنےکے لیے تیار تھی۔

کرنل نے اپنا بازو نیہاکے گرد لپیٹا اور اپنا ہاتھ اسکی کمر سے مسلتا ہوا اسکے پیٹ تک لے آیا اور نیہا کےپیٹ کو مسلتے ہوئے بولا تمہاری بات نہیں مانیں گے ہم تو بھلا اور کس کی مانیں گے ؟؟؟ کرنل نے اپنے ہاتھ سے نیہا کے پیٹ پر ایک چٹکی کاٹی جس پر نیہا نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر ایک سسکی لی اور بولی اوئی ماں۔۔۔۔۔ اور پھر نیہا اپنا ہاتھ کرنل کی ٹانگ سے اٹھا کر اسکے سینے پر پھیرنے لگی۔ کرنل نے ابھی تک اپنی یونیفارم پہن رکھی تھی جسکی شرٹ کے اوپری بٹن نیہا نے فورا ہی کھول لیے تھے اور کرنل کے سینے پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگی ۔

کرنل نے بھی بغیر سمے برباد کیے اپنا ہاتھ نیہا کی کمر پر رکھا اور اسکی کمر کو کھینچ کر نیہا کو اپنے سامنے اپنی گود میں لے آیا، نیہا نے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا لیں اور کرنل کی گود میں گٹھنے صوفے پر لگا کر بیٹھ گئی۔ نیہا کی ساڑھی کا پلو ابھی بھی نیہا کے سینے پر تھا مگر اسکی کلیویج سے ہٹ چکا تھا اور ایک سائیڈ پر سمٹا ہوا تھا۔ کرنل نے نیہا کے کندھے سے پلو ہٹایا اور نیچے گرا دیا۔ اب نیہا کرنل کے سامنے اپنے شارٹ بلاوز میں اسکی گود میں بیٹھی تھی۔ نیہا کا بلاوز اسکے مموں کے اوپری حصے کو چھپانے کے لیے ناکافی تھا، مموں کا اوپر والا حصہ کرنل کی آنکھوں کے سامنے تھا اور بلاوز کی فٹنگ نیہا کے مموں کو آپس میں ملائے ہوئے تھی جسکی وجہ سے مموں کے درمیان گہری لائن بن رہی تھی جو کسی بھی عورت کی خوبصورتی کی علامت ہوتی ہے، اور مموں کی یہی لائن مردوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ نیہا کا بلاوز ممے ختم ہوتی ہی محض ایک انچ نیچے تک جا رہا تھا اسکے بعد اسکے جسم ناف کے نیچے تک ننگا تھا یہاں تک کہ نیہا کی ساڑھی کا نچلا حصہ شروع ہوگیا۔ کرنل کا ہاتھ نیہا کی ننگی کمر کا مساج کر رہا تھا۔ گردن سے لیکر نیچے ساڑھی تک نیہا کی کمر ننگی تھی بلاوز کا پچھلا حصہ محض 8 باریک ڈوریوں سے آپس میں کسا ہوا تھا جبکہ اسکی کمر اور باقی کا خوبصورت بدن ابھی بھی کافی حد تک گیلا تھا اور پانی کی بوندیں اسکے بدن کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ کرنل کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ سیکس کا آغاز لڑکی کے ہونٹ چوس کر کرتا تھا مگر آج نیہا کے گرم جوان بدن پر موجود پانی کے قطرے کرنل کا دل لے گئے تھے اور اس نے نیہا کے ہونٹوں سے شہد پینے کی بجائے اسکے بدن سے آبِ حیات پینا شروع کردیا۔ کرنل نے اپنے ہونٹ سب سے پہلے نیہا کے کندھے اور گردن کے درمیان والی ہڈی پر رکھے اور بہت پیار کے ساتھ ہونٹوں کو آپس میں ملا کر نیہا کے جسم کے اس حصے پر موجود پانی کو چوس لیا، پھر میجر نے اپنی زبان باہر نکالی اور نیہا کی گردن سے لیکر اسکے مموں کے ابھار تک موجود سارا پانی اپنی زبان سے چاٹ لیا ۔ جیسے جیسے کرنل نیہا کے بدن سے آبِ حیات پی رہا تھا ویسے ویسے نیہا کی سسکیاں کرنل کے جوش میں اضافہ کر رہی تھیں اور اسکی پینٹ میں لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔

نیہا گھٹنوں کے بل کرنل کی گود میں بیٹھی اپنے مموں کو کرنل کے آگے کر رہی تھی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نیہا کے بدن کو چاٹ سکے ، مموں پر موجود پانی کو کرنل نے شہد سمجھ کر اپنے ہونٹوں سے پیا اور پھیر مموں سے نیچے اپنے ہونٹ لاتے ہوئے نیہا کے پیٹ کو اوپری حصے سے زیرِ ناف تک پورے بدن کو اپنے ہونٹوں اور زبان سے چاٹنے اور چوسنے لگا۔ نیہا اب پیچھے کی جانب جھکی ہوئی تھی جبکہ اسکا پیٹ اگے کی جانب نکلا ہوا تھا جس پر میجر کی زبان تیز تیز چل رہی تھی اور پانی کا ایک ایک قطرہ پینے میں مصروف تھی، کرنل نے اپنے ہاتھ نیہا کی کمر پر رکھ کر اسکو پیچھے جھکنے میں سہارا دے رکھا تھا۔ چھوئی موئی سی نیہا کا وزن کچھ زیادہ نہ تھا اس لیے کرنل نے ایک ہاتھ نیہا کی کمر سے ہٹایا اور اسکے بلاوز کے اوپر سے ہی اسکے بائیں دائیں ممے پر ہولے سے رکھ دیا۔ اپنے مموں پر کرنل کا مضبوط ہاتھ محسوس کیا تو نیہا نے بھی ایک سسکی لی اور اپنا ایک ہاتھ کرنل کے ہاتھ پر رکھ کر آہستہ سے دبا دیا۔ جسکا مطلب تھا کہ کرنل اپنے ہاتھ سے نیہا کے نرم و نازک ممے کو دبانا شروع کرے، اور کرنل نے یہی کیا جہاں ایک طرف اسکی زبان اب نیہا کی ناف میں گول گول گھوم رہی تھی وہیں اسکا بایاں ہاتھ نیہا کے دائیں ممے کو آہستہ آہستہ دبا رہا تھا۔

نیہا اپنا ایک ہونٹ دانتوں میں دبائیں آہ آہ ، ام ام کی ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہی تھی۔ جب کرنل نیہا کے گیلے بدن سے سارا پانی پی چکا تو اس نے نییہا کو کمر سے پکڑا اور صوفے پر لٹا کر خود اسکے اوپر آگیا، نیہا کی ایک ٹانگ صوفے پر سیدھی تھی جب کہ دوسری آدھی مڑی ہوئی تھی اور صوفے سے نیچے تھی جبکہ اسکی دونوں ٹانگوں کے درمیں کرنل کی ایک ٹانگ تھی، نیہا کو صوفے پر لٹا کر کرنل نے اپے یونیفارم کی شرٹ کے سارے بٹن کھول دیے اور شرٹ اتار کر ساتھ موجود ٹیبل پر رکھ دی اور اسکے بعد اپنی بنیان بھی اتار دی۔ کرنل کے سینے پر ہلکے ہلکے بال تھے جنہیں دیکھ کر نیہا نے ایک بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور پھر کرنل کی طرف ایک فلائنگ کس پھینکی، نیہا کے ہونٹ جب گول گول گھومے اور آپس میں ملے تو کرنل اسکے ہونٹوں کا بھی دیوانہ ہوگیا اور اسکے اوپر جھک کر دیوانہ وار اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگا جبکہ نیہا کی دیوانگی بھی کچھ کم نہیں تھی وہ اپنے دونوں ہاتھ کرنل کی کمر پر پھیر رہی تھی اور کرنل کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی، نیہا نے اپنا منہ کھولا اور کرنل کی زبان کو اندر جانے کا راستہ دیا، جیسے ہی کرنل نے اپنی زبان نیہا کے گرم گرم منہ میں ڈالی نیہا نے منہ بند کر لیا اور اسکی زبان کو اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔

کرنل کو نیہا کی یہ دیوانگی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اسکو ہمیشہ ایسی لڑکیاں پسند تھیں جو نہ صرف چودائی میں مرد کا پورا پورا ساتھ دیں بلکہ مرد سے زیادہ شدت کا مظاہرہ کریں۔ اور چودائی سے پہلے فور پلے کا بھی خوب مزہ لیں۔ نیہا ایسی ہی ایک لڑکی تھی جو نہ صرف چدائی اور فور پلے کا خود مزہ لیتی بلکہ مرد کو اکسانا اور زیادہ شدت سے پیار کرنے پر بھی مجبور کرتی تھی۔ یہ خوبی بہت ہی کم لڑکیوں میں ہوتی ہے ۔ اور نیہا انہی چند لڑکیوں میں سے تھی۔ کیپٹن سریش کا خیال تھا کہ نیہا کرنل کو اپنے بدن کا تھوڑا تھوڑا نظارہ کروائے گی اور کرنل وہیں پر ہتھیار ڈال دے گا اور پروموشن پر مان جائے گا اور اگر بات آگے بڑھی تو چوما چاٹی تک چلی جائے گی اور سریش جانتا تھا کہ اسکی پتنی کسنگ کرنے میں کمال درجے کی مہارت رکھتی ہے لہذا اسے یقین تھا کہ اپنے ہونٹوں کے جادو سے نیہا کرنل وشال کو منا لے گی۔ ایک خیال سریش کے دل میں یہ بھی تھا کہ شاید گرمی اس حد تک بڑھ جائے کہ کرنل اسکی پتنی کی چوت لینے کی ضد کر بیٹھے، ایسے میں اول تو سریش کا یقین تھا کہ سنیہا حالات کے مطابق سنبھال لے گی اور دوسری طرف اسکے شیطانی ذہن میں تھا کہ اب اسکی پتنی نہ بھی سنبھال سکی کرنل کو تب بھی زیادہ سے زیادہ ایک بار ہی کرنل اسکی پتنی کی چودائی کرے گا مگر بدلے میں سریش کی پروموشن پکی ہوجائے گی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اسکی پتنی جنگلی بلی ہے اور لن کی کس حد تک دیوانی ہے۔ نیہا نہ صرف شادی سے پہلے سریش کا لن لے چکی تھی بلکہ اپنے محلے کے کچھ اور لوڑوں سے بھی اپنی چوت کی پیاس بجھاتی رہی تھی اور شادی کے بعد بھی جب سریش ڈیوٹی پر ہوتا تھا تو وہ کالونی میں موجود ایک میجر کے لن کو اپنی چوت سے سکون پہنچانے کا کام کرتی تھی۔ اور آج جب سریش نے خود ہی اپنی پتنی کو کرنل کو خوش کرنے کو کہا تو نیہا دل و جان سے راضی ہوگئی اور اس نے تبھی سوچ لیا تھا کہ آج کرنل کے لوڑے سے بھی چدائی کروا کے دیکھے گی۔

اور ابھی تک نیہا کا یہ ایکسپیرینس بہت اچھا جا رہا تھا۔ کرنل نے بہت ہی رومانٹک انداز میں پہلے نیہا کے بدن سے پانی پیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ سے اسکے ممے دبانا شروع کیے تھے، کرنل کو کسی چیز کی جلدی نہیں تھی۔ وہ آرام سے اور سکون کے ساتھ نیہا کی چوت لینا چاہتا تھا۔ جو مرد جلدی کرتے ہیں وہ عورت کو بیچ راہ میں چھوڑ کر فارغ ہوجاتے ہیں جبکہ کرنل 45 سال کو تجربہ کار مرد تھا جو اچھی طرح جانتا تھا کہ عورت کو منزل تک پہنچانے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ تبھی وہ فور پلے کا ہمیشہ سے ہی شوقین رہا تھا۔ کسنگ کے دوران کرنل اپنا ایک ہاتھ نیہا کی کمر کے نیچے لیجا کر اسکے برائے نام بلاوز کی ڈوریا کھول چکا تھا اور اب مموں پر بلاوز کی گرفت کمزور ہوگئی تھی جسکی وجہ سے نیہا کے ممے جو گہری لائن بنا رہے تھے اب اس میں تھوڑی کمی آگئی تھی۔ نیہا کے خوبصورت گلابی ہونٹوں کا رس چوس کر اب کرنل نے دونوں ہاتھوں سے نیہا کے ممے بلاوز کے اوپر سے ہی پکڑ رکھے تھے اور انکو دبا رہا تھا جبکہ اپنی زبان وہ نیہا کی کلیویج لائن میں پھیر کر پیار کر رہا تھا۔

نیہا کے دونوں ہاتھ جو کرنل کی کمر پر کافی دیر سے مسج کر رہے تھے ان میں سے ایک ہاتھ رینگتا ہوا کرنل کی ٹانگوں تک جا چکا تھا اور ٹانگ سے ہوتا ہوا اب دونوں ٹانگوں کے درمیان موجود لوڑے کو تلاش کر رہا تھا۔ جلدی ہی نیہا کو اپنی مطلوبہ چیز مل گئی اور کرنل کے لوڑے پر ہاتھ لگتے ہی اسکی چوت نے اپنا منہ کھول دیا جیسے ابھی اور اسی وقت وہ اس لوڑے کو اپنے اندر سما لینا چاہتی ہو۔ کرنل کے لوڑے کو پینٹ کے اوپر سے ہی ہاتھ لگا کر نیہا کو اتنا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ کرنل کے پاس اس بڑھاپے میں بھی کافی تگڑا لن ہے ۔ کچھ دیر نیہا کے مموں کو بلاوز کے اوپر سے دبانے کے بعد کرنل نے ایک ہی جھٹکے میں نیہا کے مموں کو اس چھوٹے سے بلاوز کی قید سے آزاد کروا دیا۔ ممے جیسے ہی بلاوز کی قید سے آزاد ہوئے جیلی کی طرح دائیں بائیں ہل کر انہوں نے اپنی آزادی کا جشن منایا۔ اتنے سافٹ اور خوبصورت ممے دیکھ کر کرنل کی رال ٹپکنے لگی تھی۔ کرنل کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک بچی تھی جو کرنل کے ایک اشارے پر اسکے لن کے نیچے آجاتی تھی اور اپنے بڑے بڑے مموں سے کرنل کو اپنا دودھ پلاتی تھیں، مگر جو بات نیہا کے مموں میں تھی وہ کسی اور کے مموں میں کرنل کو نظر نہیں آئی۔

کرنل نیہا کے مموں پر چھوٹے چھوٹے ہلکے گلابی رنگ کے نپلز کو چیری سمجھ کر کھانے لگا اور نیہا کی سسکیاں اب آہ آہ سے آوچ آوچ میں تبدیل ہوگئی تھیں، نیہا کے نپلز سے نکلنے والا رس کرنل کے لیے آبِ حیات ہی تھا، جسکو وہ بہت شوق سے پی رہا تھا، تھوڑی دیر نیہا کے نپلز کو دانتوں سے کاٹنے کے بعد کرنل نے نیہا کے ممے اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی مگر 36 سائز کے ممے اسکے منہ کے سائز سے کافی بڑے تھے اور کرنل آدھا مما ہی اپنے منہ میں لے سکا اس سے زیادہ نہیں۔ نیہا کی کمر پتلی تھی اور سینا بھی زیادہ چوڑا نہیں تھا مگر سینے پر موجود ممے علیحدہ ہی اوپر اٹھے ہوئے نظر آرہے تھے۔ نیہا کے برا کا سائز یقینا 36 ڈی ہوگا۔ نیہا کے مموں سے پیٹ بھرا تو کرنل آہستہ آہستہ نیچے رینگنے لگا اور نیہا کے پیٹی کوٹ سے کچھ اوپر زیرِ ناف حصے پر اپنی زبان پھیرنے لگا

پھر کرنل نے نیہا کی ایک ٹانگ اوپر اٹھائی اور اپنے کندھے پر رکھ لی، نیہا کی ساڑھی اب ٹانگ سے سرکتی ہوئی اسکی تھائیز تک جا پہنچی تھی ، کرنل نے ایک بار نیہا کی بالوں سے پاک صاف ستھری ٹانگ پر پاوں سے لیکر گوشت سے بھری ہوئی تھائیز تک اپنا ہاتھ پھیرا اور اسکے بعداپنی زبان سے نیہا کے پاوں کی انگلیاں چوسنے لگا۔ نیہا کے لیے یہ بالکل نیا تجربہ تھا آج تک کسی نے اسکو اس طرح سے پیار نہیں کیا تھا۔ نیہا دل ہی دل میں کرنل کے سیکس سٹائل کی عاشق ہوگئی تھی۔ کرنل نیہا کے پاوں کی انگلی کو اپنے منہ میں لیتا اور ہونٹوں سے چوستا ہوا انگلی باہر نکالتا، پھر اس نے نیہا کے پاوں کے نچلے حصے پر اپنی زبان کی نوک پھیرنا شروع کی تو نیہا کو مزے کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی گد گدی بھی ہونے لگی، اور وہ مزے کی شدت میں اپنا سر دائیں بائیں گھمانے لگی، نیہا کے خوبصورت لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ تھی اسکو کرنل کا یہ انداز بہت اچھا لگا تھا۔ پھر کرنل نے اپنی زبان نیہا کے پاوں پر رکھی اور رگڑتا ہوا نیہا کی پنڈلی سے گھٹنوں تک اور وہاں سے نیہا کی تھائیز تک لے آیا۔ 2،تین بار یہ حرکت کرنے کے بعد اس نے بالکل اسی طرح سے نیہا کی دوسری ٹانگ اور پاوں کی انگلیوں پر بھی پیار کیا۔

کرنل کے اس عمل نے نیہا کی چوت میں آگ لگا دی تھی اور پیٹی کوٹ سے نیچے نیہا کی پینٹی جو پہلے اسکے بدن پر موجود پانی سے گیلی تھی اب نیہا کی چوت سے نکلنے والے پانی سے جو فائنل آرگزم سے پہلے نکلا ہے اسکی وجہ سے گیلی ہو چکی تھی۔ دونوں ٹانگوں پر اسی طرح پیار کرنے کے بعد کرنل نے نیہا کو صوفے سے اٹھا کر نیچے کھرا کر دیا، اور خود صوف پر بیٹھا رہا ۔ کرنل نے اب نیہا کا پیٹی کوٹ کھولا اور ایک ہی لمحے میں اسکی ساڑھی اسکے بدن سے ہوتی ہوئی اسکے پاوں میں جا گری۔ ساڑھی کے نیچے نیہا نے سیکسی بلیک رنگ کی پینٹی پہن رکھی تھی۔ پینٹی کا اگلا حصہ انہتائی باریک تھا جو بمشکل نیہا کی چوت کے لبوں کو اور چوت کی لائن کو چھپانے کا کام کر رہا تھا جبکہ اسکے علاوہ آس پاس کا سارا حصہ ننگا تھا، جبکہ پینٹی کو کولہوں کے سائڈ پر ڈوری باندھ کر سہارا دیا گیا تھا۔ نیہا کے خوبصورت گورے بے داغ جسم پر کالے رنگ کی یہ سیکسی پینٹی بہت ہی خوبصور لگ رہی تھی۔

کرنل نے نیہا کو چوتڑوں سے پکڑا اور اپنے قریب کر لیا، پھر اپنا منہ نیہا کی پینٹی کے قریب لیجا کر اسکی پینٹی پر لگے پانی کی خوشبو سونگھنے لگا۔ کرنل کے لیے چوت کے پانی کی خوشبو کسی بیش قیمت پرفیوم سے کم نہ تھی اس نے پہلے پہل تو نیہا کی پینٹی پر ہی اپنی زبان رکھ دی اور اسکو چوسنے لگا، مگر پھر کرنل نے نوٹ کیا کہ نیہا کی چوت آس پاس کا سارا حصہ بالوں سے ایسے پاک ہے جیسے وہ چند منٹ پہلے ہی اپنی چوت کے بال صاف کر کے آئی ہو۔ پھر کرنل کو یاد آیا کہ کمرے میں آتے ہی نیہا نے کہا تھا میں نے نہا لیا ہے آج رات مزے کریں گے۔۔۔ اس سے کرنل نے اندازہ لگایا کہ نیہا کو آج ماہواری ختم ہوئی ہوگی اور اسنے نہانے کے ساتھ ساتھ اپنی چوت کو بھی صاف کیا تھا اور تمام بال اتار دیے تھے تاکہ وہ اپنے پتی سریش کے ساتھ آج رات مزے کر سکے ، مگر اسے کیا معلوم تھا کہ اسکے پتی کے لن کی جگہ اسکو آج کرنل کا لن ملے گا اور کرنل ہی اسکی بالوں سے پاک صاف شفاف چوت کو چاٹ کر اسکا رس پیے گا۔

کرنل نے اب نیہا کے کولہوں پر موجود پینٹی کی ایک سائیڈ کی ڈوری کو کھولا تو پینٹی ایک سائیڈ سے نیچے ڈھلک گئی مگر ابھی بھی نیہا کی چوت کے لب پینٹی نے چھپا رکھے تھے، پھر کرنل نے نیہا کو مزید اپنی طرف کھینچا اور اسکی پینٹی کی دوسری سائیڈ کی ڈوری کو اپنے منہ سے پکڑ کر آہستہ آہستہ کھینااور کھینچتے کھینچتے پیچھے صوفے سے ٹیک لگا لی، نیہا کی پیننٹی کرنل کے منہ کے ساتھ ساتھ پیچھے آگئی تھی جبکہ نیہا اب مکمل طور پر کرنل کے سامنے ننگی کھڑی تھی اور اسکی چوت پر پانی ایسے چمک رہا تھا جیسے صبح صبح گھاس پر شبنم کے قطرے چمکتے ہیں۔

کرنل ایک بار پھر آگے بڑھا اور نیہا کی چوت سے شبنم کے ان قطروں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگا۔ نیہا نے اپنی دونوں ٹانگیں تھوڑی سی کھول لیں اوراپنے دونوں ہاتھ کرنل کے سر پر رکھ کر اسکو اپنی چوت کی طرف دھکیلنے لگی۔ چوت سے شبنم کے قطرے چاٹنے کے بعد اب کرنل نے نیہا کی ٹائٹ چوت کو اپنے انگوٹھوں سے تھوڑا سا کھولا اور چوت کے لبوں کے بیچ میں جگہ بناتا ہوا اپنی زبان کو چوت کے اندر لے گیا۔ نیہا ایک ہفتے سے لن کی پیاسی تھی ماہواری کی وجہ سے وہ اپنی پیاس نہیں بجھا سکی تھی، آج ہفتے بعد اسکی چوت کو کرنل کی زبان نے چھوا تو اسکے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی، اور اسکی ٹانگیں ہولے ہولے کانپنے لگیں تھیں۔ کرنل وشال نیہا کی باپ کی عمر کا تھا اور یہ سوچ سوچ کر نیہا مزید خوار ہورہی تھی کہ آج وہ اپنے باپ کی عمر کے شخص سے چدائی کروائے گی۔ جب کے کرنل تو پہلے سے ہی جوان لڑکیوں کی چوت مارنے کا عادی تھا۔ اسکے لیے اگر کوئی نئی بات تھی تو وہ اتنے خوبصورت جسم کا ہونا اور لن کی اتنی شدید طلب ہونا تھا جو کہ عموما لڑکیوں میں ہو بھی صحیح تو وہ اسکا اظہار نہیں کرتیں۔ جبکہ نیہا کسی سیکسی بلی کی طرح کرنل کو اپنے جسم سے کھیلنے دے رہی تھی۔ کرنل کی زبان مسلسل نیہا کی چوت کے لبوں میں جاکر اسکی گرمی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر کار نیہا کے جسم میں تھوڑا تناو پیدا ہونے لگا،اور پھر یہ تناو اچانک ہی ختم ہوگیا جب نیہا کے جسم کو کچھ جھٹکے لگے اور اس نے اپنی چوت کا پانی کرنل کے منہ پر ہی چھوڑ دیا۔

نیہا نے چوت کا پانی نکلتے ہی کرنل کا منہ اپنی چوت سے ہٹا دیا اور نیچے بیٹھ کر کرنل کی پینٹ اتارنے لگی، کرنل نے پہلے اپنی بیلٹ کھولی اور پھر بٹن اور ذپ کھول کر اپنے چوتڑوں کو صوفے سے اوپر اٹھایا اور پینٹ آدھی اتار دی، باقی آدھی نیہا نے خود اپنے ہاتھوں سے اتاری۔ اور کرنل کے 9 انچ موٹے لن کو ہوس بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ اتنا بڑا لن دیکھ کر نیہا کو اپنے محلے کا درزی یاد آگیا جس سے وہ اکثر اپنی چدائی کرواتی تھی، جب بھی نیہا کو کوئی ساڑھی یا اور کپڑے سلوانے ہوتے اور وہ سائز دینے کے لیے درزی کے پاس جاتی تو اپنا سائز دینے کے ساتھ ساتھ اسکے لن کا سائز بھی ضرور چیک کرتی اور ہر بار اس کے لن کو اپنی چوت میں داخل ہونے کی اجازت دیتی۔ مگر پھر نیہا کی شادی ہوگئی تو وہ شوہر کے گھر آگئی اور اس درزی سے تعلق ختم ہوگیا۔ آج بہت عرصے کے بعد نیہا نے اتنا بڑا لن دوبارہ سے دیکھا تھا اور اسکی چوت نے نیہاکو مزید تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ جلد سے جلد اس موٹے اور لمبے لن کو اپنی چوت میں سمانا چاہتی تھی۔

لیکن اتنے بڑے لن کو چوت میں لینے سے پہلے اسکو چکنا کرنا ضروری ہوتا ہے وگرنہ چوت کا برا حال ہوجاتا ہے ایسے لن سے ، اسی لیے نیہا نے فوا ہی کرنل کا لن ہاتھ میں پکڑا اور اسکی مٹھ مارنے لگی، چند جھٹکوں کے بعد ہی کرنل کے لن کی ٹوپی پر مذی کے قطرے چمکنے لگے اور نیہا اسکو دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی، وہ مسلسل دونوں ہاتھ سے لن پکڑے اسکی مٹھ مار رہی تھی، مذی زیادہ ہوتی ہوتی ٹوپی کے اوپر پھیل گئی تو نیہا نے اپنا ایک ہاتھ کرنل کی ٹوپی پر مسلا اور اسکی مذی کو پورے لن پر مسلنے لگی، اسکے بعد دوبارہ سے کرنل کی مٹھ مارنے لگی اور دوبارہ سے مذی کے قطرے نکلنے لگے اور قطرے زیادہ ہونے پر نیہا نے ایک بار پھر اسکو کرنل کے لن پر اچھی طرح مسل دیا۔ پھر نیہا نے اپنی زبان کرنل کے لن کی ٹوپی پر رکھ اور گول گول گھمانے لگی۔ کرنل کے لن پر گرم گرم زبان لگی تو مذی کے مزید قطرے نکلنے لگے جو نیہا اپنی زبان سے ہی چاٹتی رہی اور پھر اپنی زبان کو کرنل کے لن سے نیچے تک پھیرنے لگی۔ کچھ دیر اپنی زبان کرنل کے لن پر پھیرنے کے بعد نیہا نے اپنا منہ کھولا اور کرنل کے لن کی ٹوپی اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی ۔ نیہا کبھی لن کی ٹوپی پر اپنے دانت ہولے سے گاڑھ دیتی تو کبھی اسکو اپنے ہونٹوں میں پھنسا کر گول گول گھماتی اور پھر نیہا نے کرنل کا لوڑا اپنے منہ میں ڈال لیا۔ بمشکل آدھا لن نیہا کے منہ میں گیا جسکو وہ قلفی کی طرح چوسنے لگی، نیہا کے منہ کی گرمی اور اسکا لعاب کرنل کے لن پر لگا تو اسکے لن کی رگیں اور بھی پھولنے لگیں اور اسکی سختی پہلے کی نسبت بڑھ گئی۔

نیہا جیسی گرم لڑکی سے چوپے لگوانے کا کرنل کو بہت مزہ آرہا تھا اس نے 10 منٹ تک نیہا سے چوپے لگوائے اور نیہا بھی پورے شوق سے اور مزے لے لیکر کرنل کے لن کے چوپے لگا رہی تھی۔ جب کرنل کا چوپوں سے دل بھر گیا تو اس نے نیہا کو اٹھنے کا بولا اور صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ صوفے پر بیٹھنے کے بعد کرنل نے نیہا کو گھوڑی بننے کو بولا تو نیہا فورا صوفے کی بیک سائیڈ پر ہاتھ اور چہرہ رکھ گھوڑی بن گئی اور اپنی گانڈ کرنل کی طرف کردی۔ کرنل نے نیہا کے گوشت کے پہاڑ جیسے چوتڑ دیکھے تو اسکا دل خوش ہوگیا اور اس نے نیہا کے چوتڑوں پر 2 چماٹیں ماریں جس سے اسکے چوتڑوں پر کرنل کی انگلیوں کے ہلکے نشان بھی پڑ گئے اور نیہا کے منہ سے آوچ آوچ کی آوازیں نکلنے لگی، پھر کرنل نے اپنے ہاتھ سے نیہا کی چوت کو سہلانا شروع کیا، اور انگلی پھیل کر اسکی چوت کے گیلے پن کا اندازہ کرنے لگا، انگلی لگا کر کرنل سمجھ گیا کہ نیہا کی چوت لن لینے کے لیے کس قدر بے تاب ہے۔ اس نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر اوپر کیا اور اسکی ٹوپی پر اپنے منہ سے ایک تھوک کا گولا بنا کر پھینکا جو سیدھا ٹوپی کے اوپر جا کر گرا ۔ کرنل نے اپنے ہاتھ سے تھوک کو لن کی ٹوپی پر اچھی طرح مسل دیا اور پھر ٹوپی نیہا کی چوت پر رکھ کر آہستہ آہستہ اپنا دباو بڑھانے لگا۔ چونکہ نییہا ایک شادی شدہ اور لن کی شوقین لڑکی تھی لہذا کرنل کا موٹا لوڑا آہستہ آہستہ اسکی چوت میں اترنے لگا۔ لوڑے کی چمڑی نے جب نیہا کی چوت کی دیواروں کو سائیڈ پر کرتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کیا تو نیہا کو اپنی چوت کے اندر مرچیں لگتی محسوس ہوئیں کافی عرصے کے بعد اتنا موٹا لوڑا اسکی چوت میں جا رہا تھا۔ نیہا کے منہ سے لمبی لمبی آہ- - - - - آہ- - - - - آہ-- - - - -- کی آوازیں نکل رہی تھیں۔

آدھے سے زیادہ لوڑا نیہا کی چوت میں گیا تو کرنل نے ایک بار لن باہر نکالا، اور لن کو دیکھا تو وہ نیہا کی چوت میں موجود گاڑھے پانی سے چمک رہا تھا۔ اب کی بار کرنل نے آہستہ سے دباو ڈالنے کی بجائے ایک جھٹکا مارا اور نیہا کا پورا جسم ہل کر رہ گیا، اور اسکے منہ سے ایک چیخ نکلی مگر اس نے کرنل کو رکنے کا نہیں کہا کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ کرنل آج اسکی جم کر چودائی کرے۔ کرنل نے ایک بار پھر لن باہر نکالا مگر ٹوپی اندر ہی رہنے دی اور پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ دھکا مارا تو کرنل کا لن سارے کا سارا نیہا کی چوت میں گھس گیا اور اسکے منہ سے آہ، آہ کی آوازیں نکلنے لگیں۔ اب کرنل رکا نہیں اور مسلسل نیہا کو چودنے لگا۔ 5 منٹ مسلسل بغیر رکے ڈاگی سٹائل میں نیہا کی چودائی ہوئی تو اسکی چوت نے کرنل کے لن پر پانی کی برسات کر کے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاگی سٹائل میں نیہا کو چودتے ہوئے کرنل نے اسکے چوتڑوں کو لال کر دیا تھا وہ بار بار نیہا کے 34 سائز کے بھرے ہوئے چوتڑوں پر تھپڑ مار مار کر نیہا کی خواری میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ چوت نے ایک بار برسات کی تو کرنل نے اپنا لن نیہا کی چوت سے باہر نکال لیا اور پاس پڑی نیہا کی ساڑھی سے لن صاف کرنے لگا۔

اب کرنل صوفے پر بیٹھ گیا اور نیہا کو اپنی گود میں آنے کو کہا۔ نیہا فورا ہی کرنل کی گود میں آگئی اور اپنی ٹانگیں پھیلا کر کرنل کے لن کے اوپر آگئی، نیہا گھٹنوں کے بل کرنل کی گود میں بیٹھی تھی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ کرنل کی گردن کے گرد لپیٹ لیے تھے۔ کرنل کا لوڑا جو اوپر کی طرف کھڑا تھا اور کرنل کے پیٹ کے ساتھ لگ رہا تھا اسکو نیہا نے اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اس پر موجود اپنی چوت کے پانی کو اچھی طرح اپنے ہاتھ سے لن پر مسلنے کے بعد لن کی ٹوپی کو اپنی چوت کے سوراخ پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں لن کے اوپر بیٹھ گئی اور خود ہی لن پر اپنی بساط کے مطابق چھلانگیں لگا لگا کر اپنی چوت چودنے لگ گئی۔ جیسے جیسے نیہا کرنل کے لن پر اچھل رہی تھی ویسے ویسے نیہا کے 36 سائز کے گول سڈول اور کسے ہوئے ممے کرنل کے چہرے کے سامنے اچھل رہے تھے اور کبھی کبھی کرنل کے چہرے کو بھی چھوتے۔ ۔ کچھ دیر بعد جب نیہا چھلانگیں مار مار کر تھک گئی تو وہ آگے کی طرف جھک کر بیٹھ گئی اور اپنا پورا جسم کرنلے کے جس سے لگا دیا، اس کی کمر اندر کی طرف دھنس گئی اور گانڈ باہر کی طرف نکل گئی۔ اب نیہا نے چھلانگیں مارنے کی بجائے محض اپنی گانڈ ہلانا شروع کی جس سے کرنل کا لن پھر سے نیہا کی چوت کی چودائی کرنے لگا۔ ابھی کرنل نے نیچے سے دھکے لگانا شروع نہیں کیے تھے نیہا خود ہی اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اپنی چودائی کروا رہی تھی۔

کرنل کو چودائی کا یہ انداز بہت پیار لگا، وہ اپنا چہرہ سائیڈ پر نکال کر نیہا کی گانڈ کو دیکھنے لگا۔ 34 سائز کے گوشت کسے بھرے ہوئے چوتڑ اوپر نیچے ہلتا دیکھ کر کرنل کو بہت مزہ آرہا تھا اور حیرت انگیز طور پر نیہا کے جسم کے اور حصے نہیں ہل رہے تھے بس اسکی گانڈ ہی اوپر نیچے ہورہی تھی اور کرنل کا لن نیہا کی چوت کے اندر رگڑائی کرنے میں مصروف تھا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کرنل نے پمپ ایکشن سٹارٹ کرنے کا ارادہ کیا اور نیہا کو مموں سے پکڑ کر اپنے سے تھوڑا دور کر دیا اور نیہا کو کہا کو گھٹنو ں کے بل تھوڑا سا اوپر ہو کر اسطرح بیٹھ جائے کہ محض کرنل کی ٹوپی ہی چوت کے اندر رہے باقی لن باہر نکل آئے۔ نیہا نے کرنل کی گردن کے گرد اپنے بازو ڈالے اور اونچا ہوکر بیٹھ گئی سارا لن باہر نکل آیا محض ٹوپی ہی چوت کے اندر رہ گئی۔ پھر کرنل نے نیہا کو چوتڑوں سے پکڑا اور نیچے سے اپنے 9 انچ کے لن کا استعمال کرتے ہوئے پمپ ایکشن شروع کر دیا۔ ایک بار پھر نیہا کی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں ۔۔۔

مزے کی شدت سے نیہا بار بار اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی اور اب فک می کرنل، فک می ہارڈ، مور، مور، فک می لائک اے بِچ۔ آہ آہ۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔ یس۔۔۔۔۔ یس۔۔۔۔۔ لائک دس بے بی۔۔۔۔ فک می ، فک می۔۔۔ فک می ہارڈ بے بی کی آوازیں لگا کر کرنے کے جوش کو اور بڑھا رہی تھی، فک می فک می ہارڈ کی آوازیں لگاتے ہوئے نیہا نے اپنے ہاتھ کرنل کی گردن سے نکال لیے تھے اور اب اپنی گردن پر اور گردن کی بیک سائیڈ پر زور زور سے مسل رہی تھی ، اپنا چہرہ اوپر اٹھا کر اپنے ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے اور اپنے ہاتھ اپنی ہی گردن پر شدتِ جذبات سے پھیرتے ہوئے ساتھ میں فک می بے بی کی آوازیں لگاتے ہوئے نیہا اس وقت وحشیہ لگ رہی تھی جو لن کے لے نجانے کب سے بے تاب ہو اور آج لن ملا تو جی بھر کر اپنی چودائی کروا لینا چاہتی ہو۔

نیہا کی یہ بے تابی دیکھ کر کرنل کو بھی جوش چڑھا اور وہ اسی طرح نیہا کی چودائی کرتے کرتے صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا مگر لن چوت سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ جیسے ہی کرنل اٹھا نیہا نے اپنی ٹانگیں کرنل کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور اپنا ایک ہاتھ اسکی گردن کے گرد لپیٹ کر سہارا لیا جبکہ دوسرا ہاتھ پہلے کی طرح ہی اپنی گردن پر اور مموں پر پھیرنے لگی، ساتھ ہی ہونٹوں میں دبا ہوا ہونٹ اسکی بے چینی کو واضح کرنے لگا۔ کرنل نے بھی اب کی بار نیہا کو گود میں اٹھائے خوب جم کر دھکے لگائے اور ایک بار پھر نیہا کی چوت کا پانی نکلوا دیا۔ اس بار جب نیہا کی چوت نے پانی نکالا تو اس نے جنگلی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوب زور زور کی سسکیاں لیں، سسکیاں کم اور چیخیں زیادہ لگ رہی تھیں یہ ۔ چوت کا پانی نکلتے ہی نیہا کسی کرنل کے ہونٹوں پر ٹوٹ پڑی اور اپنی زبان کرنل کے منہ میں داخل کر کے اسکی زبان کے ساتھ زبان لڑانے لگی، کرنل نے بھی نیہا کی اس بے تاب اور جذبات سے بھرپور کسنگ کا جواب دیا اور اسکو بے تحاشہ چومنے لگا۔ کرنل کا لن ابھی تک نیہا کی چوت میں تھا اور پہلے جیسے سختی کے ساتھ ہی اکڑا ہوا تھا۔

کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد نیہا نے کرنل کو اشارہ کیا کہ اسے نیچے اتاردے تو کرنل نے پہلے اسے چوتڑوں سے پکڑ کر اپنے لن سے اوپر اٹھایا، اپنا لن باہر نکالا اور پھر نیہا کو نیچے اتار دیا۔ نیہا نیچے اتری اور دوبارہ سے میجر کا تنا ہوا لن منہ میں لیکر اسے چوسنے لگی۔ کچھ دیر لن چوسنے کے بعد نیہا اب اپنی گانڈ کو لچکاتی ہوئی دیوار کے پاس گئی اور دیوار کی طرف منہ کر کے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور گانڈ باہر نکال کر کرنل کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا، کرنل نیہا کے پاس گیا اور ایک بار پھر اسکی چوت پر انگلی پھیری اور پھر اپنے لن کی ٹوپی پر ہاتھ پھیر کر نیہا کی چوت پر رکھ دی اور ایک ہی جھٹکے میں کرنل کا لن نیہا کے اندر چلا گیا۔ اب کرنل نے نیہا کو دھکے پے دھکا مارنا شروع کیا اور نیہا نے بھی کرنل کا جوش بڑھانے کے لیے خوب سسکیاں لینا شروع کیں، کبھی آوچ آوچ کی آوازیں تو کبھی اوئی ماں میری چوت گئی، کبھی آہ آہ کی آوازیں تو کبھی فک میر ہارڈ بے بی، فک می لائک اے بِچ کی آوازیں کرنل کا جوش بڑھانے لگیں۔

اس پوزیشن میں عورت کے لیے کھڑے ہوکر چدائی کروانا تھوڑی مشکل ہوتی ہے تبھی نیہا جلد ہی تھک گئی اور اس نے کرنل کو لن باہر نکلانے کا کہا۔ کرنل نے لن باہر نکالا تو نیہا نے فرمائش کی کہ مجھے میرے بیڈروم میں لیجا کر میرے ہی بیڈ پر چودو۔ کرنل نے نیہا کو گود میں اٹھایا اور اساسکو کسنگ کرتا ہوا بیڈروم تک لے گیا۔ بیڈ روم میں لیجا کر بیڈ پر لٹا دیا۔ کرنل نیہا کی ٹانگیں کھول کر اس کی چوت میں لن ڈالنے لگا تو نیہا نے منع کر دیا اور کرنل کو نیچے لیٹںے کو کہا، کرنل نیچے لیٹ گیا تو نیہا نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی چوت کو کرنل کے لن کے اوپر سیٹ کیا آہستہ آہستہ لن کے اوپر بیٹھ کر پورا لن اندر لے لیا۔ اب نیہا اپنے پاوں کے بل بیٹھی تھی اور کرنل کے سینے پر ہاتھ رکھ کر سہارا لیا اور اپنی گانڈ اچھال اچھال کر خود ہی اپنی چودائی کرنے لگی۔ نیہا جب اوپر اٹھتی تو اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی اور نیچے بیٹھتے ہوئے چوت کی دیواروں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتی جس سے چوت مکمل ٹائٹ ہوجاتی اور کرنل کی ٹوپی چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتی ہوئی نیہا کی چوت کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔

کیپٹں سریش جو کافی دیر سے باہر تھا اور اب ایک گھنٹہ ہو چکا تھا اس نے سوچا کہ اب تک نیہا کرنل کو منا چکی ہوگی اور کرنل بھی خوش ہوگیا ہوگا، اگر بات چدائی تک پہنچی ہوگی تو وہ بھی اب تک ہو چکی ہوگی، وہ کھانا لیکر گھر میں داخل ہوگیا اور جیسے ہی اس کمرے میں پہنچا جہاں وہ اپنی پتنی اور کرنل کو چھوڑ کر گیا تھا تو اسکی نظر کرنل کے یونیفارم پر پڑی، ایک سائیڈ پر نیہا کا چھوٹا سا بلاوز پڑا تھا جب کہ ایک طرف نیہا کی بلیک رنگ کی پینٹی پڑی تھی۔ یہ دیکھ کر سریش سمجھ گیا کہ کرنل آسانی سے راضی نہیں ہوا آخر کار اسکی پتنی کو اپنے پتی کی خاطر اپنی عزت کی قربانی دینی پڑی ہے، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اسکی پتنی بہت عرصے سے ایسے ہی کسی لن کے لیے بےتاب تھی جو آج سریش کی وجہ سے اسے مل گیا تھا۔

ابھی سریش یہی سوچ رہا تھا کہ اسے اپنی پتی کی آواز آئی جو کہ رہی تھی اور زور سے چودو مجھے وشال، میری چوت پھاڑ دو آج۔ پلیز اور تیز دھکے لگاو۔۔۔۔ سریش کی نظر اب اپنے بیڈ روپ پر پڑی جو اس کمرے کے ساتھ ہی تھا اور بیچ میں ایک دروازہ تھا۔ سریش آہستہ آہستہ دبے قدموں چلتا ہوا بیڈروم کی طرف گیا ، روم کا دروازہ آدھا کھلا تھا، سامنے ہی سریش کا بیڈ تھا جس پر اس نے 3 ماہ قبل اپنی سہاگ رات منائی تھی اور اپنے 6 انچ کے لن سے نیہا کی چدائی کی تھی۔ گو کہ سریش کا سٹیمنا اچھا تھا اوراس نے اپنی پتی کی خوب جم کر چودائی کی تھی مگر اسکے لن میں وہ بات نہیں تھی جو نیہا کے درزی کے لن میں تھی یا پھر آج کرنل کے لن میں تھی۔ اب سریش کی نظر بیڈ پر پڑی جہاں کرنل وشال لیٹا ہوا تھا ، اسکا سر باہر دروازے کی طرف تھا جسکی وجہ سے وہ سریش کو دیکھ نا پایا، مگر اسکے اوپر نیہا بیٹھی تھی جو خود ہی جمپ لگا لگا کر اپنی چودائی کر رہی تھی۔

No comments:

Post a Comment

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...