Monday, 1 February 2016

وطن کا سپاہی 4

کچھ دیر کے بعد اس شخص نے لیور واپس نیچے کیا تو میجر دانش کو ایک جھٹکا لگا اور پھر آہستہ آہستہ اسکے جسم کو سکون ملنے لگا۔ اب کی بار سونیہا میجر دانش کے قریب آئی اور اسکے چہرے پر اپنے ہاتھ پھیرنے لگی، میجر دانش اپنی ساری تکلیف بھول کر سونیہا کو ایسے دیکھنے لگا جیسے ابھی آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی چدائی کر ڈالے گا۔ سونیہا بڑے ہی پیار سے بولی دیکھ میری جان یہ دونوں کمینے بہت ظالم ہیں۔ اگر تم انکو سچ نہیں بتاو گے تو یہ تمہاری بوٹی بوٹی کر دیں گے۔ لہذا بہتری اسی میں ہے کہ ان لوگوں کو سچ بتا دو۔ یہ کہ کر سونیہا پیچھے ہوگئی مگر میجر دانش کی نظریں اسکے مموں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ شارٹ بلاوز میں اسکے مموں کا ابھار بہت ہی سیکسی لگ رہا تھا۔

اب کی بار پھر سے ایک کرخت آواز آئی سچ سچ بتاو تم کون ہو اور کرنل وشال کا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟ میجر دانش کی زبان ایک بار پھر چل پڑی: میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال شاہراۃی فیصل پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر میجر دانش کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا اور اسکو اپنے ہاتھ اور پاوں میں وہی سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں اور اسکا رنگ زرد ہوگیا۔ کچھ دیر بعد لیور کو نیچے کیا گیا تو میجر کی حالت کچھ سنبھلی۔ اب کی بار پھر سے سونیہا میجر کے قریب آئی اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتی ہوئی بولی بتادے میر ی جان، ان لوگوں کو سب کچھ سچ سچ بتا دے۔ ورنہ یہ تجھے نہیں چھوڑیں گے۔ سونیہا کے خاموش ہوتے ہی میجر دانش نے اپنے ہونٹوں سے سونیہا کے رسیلے ہونٹ چوس ڈالے۔ میجر نے ایسی کمال کی پپی لی تھی سونیہا کی کہ ایک لمحے کے لیے تو وہ بھول ہی گئی کہ وہ دشمن ملک کے خفیہ ایجینٹ کے سامنے کھڑی ہے۔ میجر دانش نے سونیہا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور بولا جانِ من تمہاری اس گرم جوانی کی قسم جو کہ رہا ہوں سچ کہ رہا ہوں۔ اگر انکو میری بات پر یقین نہیں آتا تو یہ بتا دیں انکو کیا جواب چاہیے۔ جو یہ کہیں گے میں وہی لفظ بہ لفظ دہرا دوں گا۔

اس پر دوسرا شخص بولا مان جا کہ تو آئی ایس آئی کا ایجینٹ ہے۔ میجر دانش نے کہا ہاں میں آئی ایس آئی کا ایجینٹ ہوں۔ اس پر دوسرا شخص بولا اور تجھے میجر جنرل اشفاق نے کرنل وشال کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ دانش بولا ہاں مجھے میجر جنرل اشفاق نے کرنل وشال کا پیچھا کرنے بھیجا تھا۔ پہلا شخص غریا اور بولا اب بتا کہ کیوں کر رہا تھا تو کرنل وشال کا پیچھا؟؟؟ اس پر میجر دانش بولا تم ہی بتاو نہ کہ میں نے کیا کہنا ہے۔ جیسا تم کہو گے ویسے ہی میں دہراوں گا۔ ایک زناٹے دار تھپڑ سے میجر دانش کا گال لال ہوگیا اور وہ شخص پھر سے غرایا حرامزادے۔۔۔۔ سچ سچ بول تو کون ہے اور کرنل وشال کا پیچھا کیوں کر رہا تھا۔

میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بار پھر میجر دانش کا رنگ زرد ہوگیا۔ وہی کرنٹ اسکے جسم میں دوبارہ سے چھوڑا گیا تھا۔ اب کی بار میجر کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بے ہوش ہونے سے پہلے جو آخری چیز میجر دانش کی آنکھوں کے سامنے تھی وہ سونیہا کے ممے تھے ۔

================================================== ==============================================

رات کے 12 بجے عمیر باقی لوگوں کے ہمراہ مری پہنچ چکا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی آرمی ہٹ میں عمیر اور نادیہ اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ عفت اور پنکی دوسرے روم میں چلے گئے۔ میجر دانش کی وجہ سے عمیر کی پہلے سے ہی ایک خوبصورت آرمی ہٹ میں بکنگ تھی۔ کراچی سے فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد اور پھر آگے سے ٹیکسی میں مری تک کے سفر نے سب کو تھکا دیا تھا۔ بٹ مین نے سارا سامان عمیر کے کہنے کے مطابق مناسب کمروں میں رکھ دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بٹ میں نے پہلے عمیر اور پھر عفت کا کمرہ کھٹکھٹایا اور اور انہیں کھانے کے لیے ڈائنگ ٹیبل پر آنے کا کہا۔ کچھ ہی دیر میں سب لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ عفت اور پنکی اپنے کمرے میں گئے جبکہ نادیہ اور عمیر اپنے روم میں چلے گئے۔ عمیر کے روم میں ایک کھڑکی تھی جسکے پیچھے مری کے پہاڑ اور درخت ہی درخت ہی درخت تھے۔ رات کے اس پہر میں یہ منظر خاصہ خوفناک لگ رہا تھا مگر عمیر جانتا تھا کہ آرمی کے انڈر ہونے کی وجہ سے یہ محفوظ علاقہ ہے۔ نادیہ نے کمرے میں جاتے ہی اس کھڑکی کے پردے گرا دیے اور واش روم چلی گئی۔

عمیر نے کمرے کی لائٹس آف کیں اور ایک زیرو کا بلب جلتا رہنے دیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اور اب کچھ سونا چاہتا تھا۔ اپنے بوٹ اور کوٹ اتار کر ابھی وہ کمبل میں گھسنے ہی لگا تھا کہ واش روم کا دروازہ کھلا اور نادیہ باہر آئی۔ نادیہ پر نظر پڑتے ہی عمیر اپنی نظریں ہٹانا بھول گیا تھا۔ پِنک کلر کی شارٹ نائٹی میں نادیہ اس وقت کوئی سیکس کوئین لگ رہی تھی۔ گہرے گلے والی نائٹی میں نادیہ کے 38 سائز کے مموں کا ابھار بہت واضح نظر آرہا تھا۔ کسے ہوئے سخت ممے آپس میں جڑے ہوئے تھے اور انکے درمیان بننے والی کلیویج لائن کسی بھی مرد کو پاگل کر دینے کے لیے کافی تھی۔ نائٹی بمشکل نادیہ کے 34 سائز کے چوتڑوں ڈھانپ رہی تھی۔ نیچے نادیہ نے ایک جی سٹرنگ پینٹی پہن رکھی تھی جس نے سامنے سے نادیہ کی چوت کو ڈھانپ رکھا تھا جبکہ پیچھے سے نادیہ کے چوتڑوں کو ڈھانپنے کے لیے پینٹی موجود ہی نہیں تھی۔ پیچھے کی سائیڈ پر محض پینٹی کی ایک سٹرنگ تھی جو نادیہ کے 34 سائز کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں کی لائن میں گم ہوگئی تھی۔

نادیہ نے مدہوش نظروں سے عمیر کو دیکھا اور ایک قاتل انگڑائی لی جس سے نادیہ کی شارٹ نائٹی اور اوپر اٹھ گئی اور اسکی جی سٹرنگ پینٹی واضح نظر آنے لگی۔ اسی طرح نادیہ نے منہ دوسری طرف کر لیا تو نائٹی اوپر اٹھی ہونے کی وجہ سے اسکے بھرے ہوئے چوتڑ بھی اپنا جلوہ دکھانے لگے۔ نادیہ کو اس حالت میں دیکھتے ہی عمیر کی پینٹ میں لن سر اٹھانے لگا اور مری میں نومبر کی سردی میں عمیر کے جسم میں آگ لگا دی۔

عمیر بیڈ سے اٹھا اور فورا نادیہ کے پاس پہنچ کر اسکو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ گود میں اٹھایا تو نادیہ کے 38 سائز کے گول ممے عمیر کے چہرے کے سامنے آگئے جبکہ عمیر کے ہاتھ نادیہ کی ٹانگوں کے گرد تھے۔ نادیہ نے اپنی ٹانگیں پیچھے کی جانب فولڈ کر کے اوپر اٹھا لیں اور عمیر کو سر سے پکڑ کر اپنے سینے کے ساتھ لگا دیا۔ نادیہ کے سینے پر سر رکھتے ہی عمیر کو محسوس ہوا جیسے اسنے اپنا سر کسی نرم و گداز تکیے پر رکھ دیا ہو۔ عمیر نے اپنا سر اٹھایا اور نادیہ کی کلیویج لائن کو دیکھنے لگا پھر اس نے اپنے گرم گرم ہونٹ نادیہ کے مموں کے ابھاروں پر رکھد یے جو نائٹی سے باہر نظر آرہے تھے۔ عمیر دیوانہ وار نادیہ کے مموں کو پیار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد عمیر نے نادیہ کو بیڈ پر دھکا دیا اور خود اسکے اوپر گر کر اسکو دیوانہ وار چومنے لگا۔ عمیر کبھی نادیہ کے نرم ہونٹوں کا رس چوستا تو کبھی اسکی گردن کو دانتوں سے کھانے لگتا۔ کبھی اسکے ممے ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دباتا تو کبھی نادیہ کے چوتڑوں کا گوشت ہاتھ میں لیکر انکو زور سے دباتا۔

نادیہ کی موٹی تھائیز پر پیار کرتے ہوئے عمیر انکی نرمی کا دیوانہ ہوا جا رہا تھا۔ وہ بڑے جوش کے ساتھ نادیہ کی تھائیز کو چوم رہا تھا اور پھر عمیر کے ہونٹ تھائیز سے ہوتے ہوئے نادیہ کی پینٹی تک پہنچ گئے جو اب تک کی کاروائی کے نتیجے میں خاصی گیلی ہو چکی تھی۔ نادیہ کی پینٹی سے آنے والی خوشبو نے عمیر کو مدہوش کر دیا تھا۔ عمیر نے اپنی زبان نکالی اور پینٹی کے گیلے حصے پر رکھ کر اسکو چاٹنے لگا۔ نادیہ نے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھا کر عمیر کی گردن کے گرد لییٹ دیں اور اسکے سر کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگی۔ جیسے جیسے عمیر نادیہ کی پینٹی پر اپنی زبان پھیر رہا تھا ویسے ویسے نادیہ کی آوچ، اف ، اف، آہ آہ آہ۔ آہ آہ ۔ ۔ اف۔ ۔ ۔ ام امم۔۔۔۔ مزہ آگیا جان، ، آہ ، کھاجاو اسکو تمہاری ہے یہ، ، آوچ جیسی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد عمیر نے نادیہ کی پینٹی اتار دی۔ پینٹی اتارتے ہی وہ نادیہ کی ہلکے گلابی رنگ کی چوت پر ٹوٹ پڑا۔ نادیہ کی چوت محض 10 دن پہلے ہی پہلی بار پھٹی تھی اسی لیے ابھی تک اسکی چوت کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے۔ جب پر عمیر کی زبان بڑی تیزی کے ساتھ چل رہی تھی۔ نادیہ نے مری آنے سے پہلے خاص طور پر اپنی چوت کی صفائی کی تھی۔ اسکا پہلے سے پروگرام تھا کہ مری جاتے ہی وہاں کی سخت سردی میں عمیر کے گرما گرم لن سے اپنی چوت کی پیاس بجھانی ہے۔ کچھ ہی دیر کے بعد عمیرا کی زبان کی رگڑائی کی وجہ سے نادیہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔

اس سخت سردی میں بھی نادیہ کی چوت نے بہت گرم پانی چھوڑا تھا جس سے عمیر کا چہرہ بھر گیا تھا۔ اسکے بعد نادیہ نے پاس پڑے ٹشو باکس میں سے ٹشو نکال کر دانش کا چہر صاف کیا اور اسکو چومنے لگی۔ پھر نادیہ نے عمیر کی شرٹ کو گلے سے پکڑا اور ایک ہی جھٹکا مار، عمیر کی شرٹ کھلتی چلی گئی اسکی شرٹ کے بٹن ٹوٹ چکے تھے اور نادیہ نے بغیر انتظار کیے اسکی شرٹ اتارنے کے بعد اسکی بنیان بھی ایک ہی جھٹکے میں اتار دی اور اسکے سینے پر دیوانہ وار پیار کرنے لگی۔ وہ کسی جنگلی بلی کی طرح عمیر پر ٹوٹ پڑی تھی۔ گوکہ شادی کے بعد عمیر اسکو 5، 6 بار چود چکا تھا مگر ایسی دیوانگی عمیر نے ابھی تک نہیں دیکھی تھی۔ عمیر کو نادیہ کی یہ دیوانگی اور جنگلی پن بہت اچھا لگ رہا تھا۔ نادیہ اپنے ہاتھ اور انگلیاں عمیر کی کمر پر پھیر رہی تھی اسکے ناخن عمیر کی کمر پر اپنے نشان چھوڑ رہے تھے جس سے عمیر کی دیوانگی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر نادیہ نے عمیر کو بیڈ پر دھکا دیا اور اسکی پینٹ کی بیلٹ کھولنے کے بعد زِپ کھولی اور اسکی پینٹ کو گھٹنوں تک نیچے اتار دیا۔

مذی کے نکلنے والے قطروں کی وجہ سے عمیر کا انڈر وئیر گیلا ہوچکا تھا عمیر کی طرح نادیہ نے بھی اپنی زبان عمیر کے گیلے انڈر وئیر پر رکھ دی اور اسکی منی کی مہک سے اپنے آپ کو لطف اندوز کرنے لگی۔ کچھ دیر تک اسکا انڈر وئیر چاٹنے کے بعد اب نادیہ نے عمیر کا انڈروئیر بھی اتار دیا اور پینٹ بھی اتار دی تھی۔ عمیر اب مکمل ننگا تھا اور اسکا 7 انچ کا لن نادیہ کے ہاتھ میں تھا جسکو وہ کسی لالی پاپ کی طرح چوسنے میں مصروف تھی۔ عمیر کی ٹوپی سے نکلنے والا پانی نادیہ اپنی زبان سے چاٹتی اور پھر اس پر تھوک کا گولا بنا کر گراتی اور اپنے ہاتھوں سے اسکو پورے لن پر مسل دیتی۔ اسکے بعد دوبارہ سے عمیرکے لن کی ٹوپی کو اپنے منہ میں ڈالتی اور عمیر کا لن پھسلتا ہوا اپنی جڑ تک نادیہ کےمنہ میں چلا جاتا۔ نادیہ کے منہ کی گرمی عمیر کے لن کو بہت مزہ دے رہی تھی۔ نادیہ بہت ہی مزے کے ساتھ عمیر کے لن کے چوپے لگا رہی تھی۔

کچھ دیر کے چوپوں کے بعد عمیر کے لن کی موٹائی تھوڑی بڑھی اور اسکی نسیں واضح ہونے لگیں۔ نادیہ سمجھ گئی کہ اسکا لن منی اگلنے والا ہے مگر آج تو نادیہ اپنے آپ میں نہیں تھی اس نے بغیر اس کی پرواہ کیے عمیر کے لن کے چوپے لگانا جاری رکھے اور آخر کار عمیر نے اپنی ساری منی نادیہ کے منہ میں ہی نکال دی جسکا آخری قطرہ تک نادیہ نے اپنے حلق سے نیچے اتار لیا۔ جب عمیر اپنی ساری منی نکال چکا تو نادیہ نے اپنی زبان سے اسکے لن پر لگی ہوئی منی بھی چاٹ لی اور پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر اسکے مزے لینے لگی۔

اب عمیر کا لن تھوڑا مرجھا گیا تھا۔ اب عمیر اٹھا اور نادیہ کی نائٹی اتار دی۔ نادیہ نے نیچے برا پہننے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اسکے 38 سائز کے ہیوی ممے عمیر کے ہاتھوں میں تھے جن پر وہ اپنی زبان پھیر رہا تھا۔ نادیہ نے عمیر کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھا اور دوسرا ہاتھ مموں پر ہی رہنے دیا، عمیر اب ایک ہاتھ سے اسکا دایاں مما دبا رہا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسکی چوت میں انگلی پھیر رہا تھا اور نادیہ کا بایاں مما عمیر کے منہ میں تھا جسکا نپل عمیر مسلسل چوس رہا تھا اور نادیہ اف۔ آہ آوچ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ نادیہ آج بلا خوف و خطر اپنی سسکیاں لے رہی تھی اور اج کی رات کا سیکس انجوائے کر رہی تھی۔

گو کہ نادیہ کی سسکیاں گھر میں بھی عفت کو سنائی دیتی تھیں مگر وہاں نادیہ کافی حد تک کنٹرول کرتی تھی مگر کمرہ ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سسکیاں ساتھ والے کمرے میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ مگر آج تو نادیہ کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ وہ بغیر کسی ڈر کے زور زور سے سسک رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ عورت کی سسکیاں مرد کو جوش دلاتی ہیں اور وہ پھر جم کر چودائی کرتا ہے۔ اور ہو بھی ایسا ہی رہا تھا نادیہ کی سسکیوں کی ہی وجہ سے عمیر کا لن ایک بار پھر تن چکا تھا اور چوت میں جانے کے لیے تیار تھا۔ ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرے کمرے میں لیٹی عفت بھی نادیہ کی سسکیاں سن رہی تھی جبکہ پنکی کمرے میں پہنچتے ہی سو گئی تھی۔ نادیہ کی سنائی دینے والی سسکیاں عفت کو شدت سے دانش کی یاد دلا رہی تھیں۔ دانش نے پہلی رات میں عفت کو اپنے 8 انچ کے لن سے جو مزہ دیا تھا عفت وہ مزہ ابھی تک نہیں بھولی تھی۔ اور نادیہ کی سسکیاں عفت کی چوت کو بھی گرم کر رہی تھیں۔

یہی وجہ تھی کہ ادھر نادیہ کی سسکیاں عمیر کے لن کو کھڑا کر چکی تھیں تو ادھر اسکی سسکیوں سے عفت اپنی چوت میں انگلی پھیر رہی تھی۔ عفت کی چوت آج بھی ایسی ہی تھی جیسے بالکل کنواری چوت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں محض ایک بار ہی سہاگ رات والے دن لن گیا تھا۔

جب عمیر کا لن دوبارہ سے چودائی کے لیے تیار ہوا تو عمیر نے نادیہ کی ٹانگیں کھولنا چاہیں تاکہ وہ اسکی چوت میں اپنا لن اتار سکے۔ مگر نادیہ نے اسکو منع کر دیا اور عمیر کو لیٹنے کو کہا۔ عمیر لیٹ گیا تو نادیہ عمیر کے اوپر آئی اور اسکے لن کا ٹوپا اپنی چوت کے سوراخ پر فٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں اسکے لن پر بیٹھ گئی۔ عمیر کا لن نادیہ کی چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھاتا ہوا اسکی چوت کی گہرائیوں تک اتر گیا اور بچہ دانی سے جا ٹکرایا جس پر نادیہ نے ایک زور دار سسکی بھری جس نے عفت کے کانوں میں گھس کر اسکی چوت میں مزید آگ لگا دی۔ ادھر نادیہ عمیر کے لن پر وحشیوں کی طرح سواری کر رہی تھی اور آوازیں نکال رہی تھی تو دوسرے کمرے میں عفت کی انگلی اب چوت میں پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ اپنا کام کر رہی تھی۔

جب نادیہ عمیر کے لن پر اچھل اچھل کر تھک گئی تو عمیر نے اسے اپنے اوپر لٹا لیا اور نیچے سے اپنا لن پوری سپیڈ کے ساتھ نادیہ کی چوت میں چلانا شروع کیا۔ 5 منٹ کی چودائی کے بعد نادیہ کی پھدی میں سیلاب آگیا اور اسکی چوت کا سارا پانی عمیر کے ٹٹوں اور تھائز تک آگیا تھا۔ نادیہ نے بغیر انتظار کیے عمیر کی گود سے اتر کر ڈوگی سٹائل کی پوزیشن اختیار کر لی اور عمیر کو دعوت دی کہ وہ اب پیچھے سے آکر نادیہ کی چودائی کرے۔ عمیر نے بھی بغیر وقت ضائع کیے پیچھے سے آکر نادیہ کی چوت پر اپنا لن رکھا اور ایک ہی دھکے میں پورا لن جڑ تک نادیہ کی چوت میں اتار دیا۔ ایک بار پھر نادیہ کی ٹائٹ پھدی میں عمیر کا 7 انچ کا لن پکڑن پکڑائی کھیلنے لگا۔ جیسے ہی لن اندر کی طرف دھکا لگاتا چوت پوری طاقت کے ساتھ اسکو پکڑ لیتی جسکی وجہ سے پورا لن ایک لمحے کے لیے دب سا جاتا پھر لن اپنی طاقت سے چوت کی گرفت سے نکلتا اور چوت سے باہر نکل آتا صرف ٹوپہ ہی چوت کے اندر رہ جاتا، جہاں سے ایک بار پھر دھکا لگتا اور دوبارہ سے لن چوت کے اندر جاتا اور چوت دوبارہ سے اسکو پوری طاقت کے ساتھ پکڑ لیتی۔

نادیہ کا یہ روپ عمیر کے لیے بالکل نیا تھا۔ اسنے پہلے بھی بہت شدت سے نادیہ کو چودا تھا مگر نادیہ نے ایسا دیوانہ پن پہلے کبھی نہیں دکھایا تھا۔ پہلے نادیہ ڈوگی سٹائل میں چودائی کرواتے ہوئے تھوڑی تکلیف محسوس کرتی تھی مگر آج تو وہ خود اپنی گانڈ آگے پیچھے کر کے چودائی کا مزہ اٹھا رہی تھی۔ عمیر جیسے جیسے نادیہ کی چوت میں گھسے مار رہا تھا ویسے ہی ساتھ ساتھ اسکے چوتڑوں پر تھپڑ مار مار کر نادیہ کو اور زیادہ خوار کر رہا تھا سات میں چوتڑوں سے ٹکرانے پر دھپ دھپ کی آوازیں کمرے کے ماحول کو بہت سیکسی بنا رہی تھیں۔ نادیہ کے 38 سائز کے ممے ہوا میں لٹکے ہوئے تھے جو ہر دھکے کے ساتھ آگے کو ہلتے اور جب لن باہر نکلتا تو ممے بھی واپس پیچھے کی طرف جھولتے۔ جب چوتڑوں پر ہاتھ مار مار کر نادیہ کے چوتڑ لال ہوگئے تو عمیر نے آگے جھک کر نادیہ کے ممے پکڑ لیے، اب عمیر کے پاس زیادہ گیپ نہیں تھا وہ لن کو زیادہ باہر نہیں نکال پا رہا تھا۔ مگر اب اسکے دھکے پہلے کی نسبت زیادہ رفتار سے لگ رہیے تھے، عمیر کا آدھا لن پھدی سے باہر نکلتا اور ایک زور دار دھکے کے ساتھ واپس پھدی کی گہرائیوں سے جا کر ٹکراتا۔

اب نادیہ نے اپنا اگلا حصہ اوپر اٹھا لیا تھا۔ گو کہ وہ اب بھی ایک طرح سے ڈوگی سٹائل میں ہی چدائی کروا رہی تھی کیونکہ عمیر پیچھے سے ہی اسکی چوت میں لن ڈالے اسکو چود رہا تھا مگر اسنے اپنا اگلا دھڑ اٹھا لیا تھا اور گھٹنوں کے بل کھڑی ہوگئی تھی جبکہ اسکی گانڈ باہر نکلی ہوئی تھی کیونکہ لن کو چوت تک کا راستہ چاہیے تھا۔ نادیہ کی کمر عمیر کے سینے سے جڑی ہوئی تھی اور گانڈ باہر نکل کر عمیر کے زیرِ ناف حصے سے ٹکراتی تھی جبکہ لن مسلسل نادیہ کی چوت کی کھدائی کر رہا تھا۔ اس پوزیشن میں نادیہ کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھیں عمیر نے اسے آواز ہلکی رکھنے کو کہا مگر نادیہ اس وقت اپنے آپ میں نہیں تھی اس پر چودائی کا بھوت سوار تھا اور وہ اپنی ہنی مون کی پہلی رات کو یادگار بنانا چاہتی تھی۔ وہ عمیر کے طوفانی دھکوں کو کافی دیر سے برداشت کر رہی تھی ساتھ ساتھ اپنی چوت کو اپنی انگلی سے بھی سہلا رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک بار پھر نادیہ کی چوت نے پانی چھوڑی دیا جو فوارے کی شکل میں بیڈ شیٹ پر گرتا چلا گیا۔ مگر نادیہ کی خواری اور پانی کے پریشر کی وجہ سے نادیہ کی چوت کا پانی نا صرف بیڈ شیت پر بالکہ کچھ قطرے بیڈ کی دوسری طرف فرش پر بھی جا گرے۔

دوسرے کمرے میں عفت کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اسکو اس وقت دانش کے لن کی طلب محسوس ہورہی تھی مگر وہ صرف اپنی انگلی ہی اپنی چوت میں چلا رہی تھی۔ اسکی چوت اس وقت نادیہ کی سسکیاں سن سن کر کافی گیلی ہو چکی تھی جبکہ عفت کا دوسرا ہاتھ اسکے مموں پر تھا اور وہ اپنا مما زور زور سے دبا رہی تھی۔

نادیہ اب تیسرے راونڈ کے لیے تیار تھی جبکہ عمیر کے لن نے ابھی تک پانی نہیں چھوڑا تھا۔ نادیہ اب بست پر لیٹ گئی اور خود ہی اپنی ٹانگیں کھول کر عمیر کو درمیان میں بیٹھنے کی دعوت دی، عمیر نے نادیہ کی ٹانگیں پکڑ کر مزید کھولیں اور اسکے درمیان بیٹھ کر اپنے لن کی ٹوپی نادیہ کی چوت کے سر پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں لن اسکی چوت کے اندر داخل کر دیا۔ اب عمیر کا لن بڑے سکون سے نادیہ کی چوت کو چود رہا تھا اور نادیہ اپنے مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر انکو دبا دبا کر مزید خواری کا اظہار کر رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں لال ڈورے تھے اور وہ عمیر کو تعریفی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اسکو مزید اکسا رہی تھی کہ وہ مزید طاقت کے ساتھ اسکی چوت کی چودائی کرے۔

5 منٹ کی مزید چودائی نے نادیہ کی چوت کو لال کر دیا تھا اب عمیر کے طاقتور لن کے سامنے اسکو اپنی چوت ہار مانتی نظر آرہی تھی اور اسکی ہمت جواب دے رہی تھی، عمیر کے دھکے بھی پہلے کی نسبت طوفانی ہوتے جا رہے تھے اور کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں اکٹھے ہی اپنا اپنا پانی نکالنے لگے۔ نادیہ اور عمیر کا پانی نادیہ کی چوت میں ہی مل گیا جبکہ عفت کی چوت کا پانی اسکی شلوار کے اندر ہی بہتا رہا۔ نادیہ اور عفت دونوں نے چوت کا پانی نکلتے ہوئے سسکیاں لیں اور عمیر بھی اپنا پانی نکالنے کے بعد نادیہ کے اوپر گر گیا۔

نادیہ اب پیار سے عمیر کو چوم رہی تھی اور اسکی تعریف کر رہی تھی کہ اسنے آج بہت مزہ دیا۔ جب کہ عمیر بھی نادیہ کے وحشی پن سے بہت خوش تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اسکی بیوی میں اتنی آگ بھری ہوئی ہے ورنہ وہ شادی کے تیسرے دن ہی اسکو ہنی مون پر لا کر خوب چودتا۔ کچھ دیر بعد عمیر اور نادیہ ایک دوسرے کے سینے سے لگے سو چکے تھے۔ وہ ننگے ہی بغیر کپڑے پہنے سوگئے تھے۔ پہلے سفر کی تھکاوٹ اور پھر نادیہ کے وحشی پن کی وجہ سے زبردست چودائی نے دونوں کو خوب تھکا دیا تھا۔ دوسری طرف عفت بھی چوت کا پانی نکلنے کے بعد کچھ پرسکون ہوئی تھی اور دانش کا لن یاد کرتے کرتے سو گئی۔

================================================== ========================================

اب کی بار میجر دانش کی آنکھ کھلی تو حسن کی دیوی سونیہا اپنے تمام تر حسن کے ساتھ اسکے سامنے کھڑی تھی۔ اب بھی وہ ٹائٹ پینٹ میں شارٹ بلاوز کے ساتھ اپنے مموں کا جلوہ میجر دانش کو دکھا رہی تھی۔ دانش کے ہوش میں آتے ہی اسکا لن بھی ہوش میں آنے لگا تھا کیونکہ سونیہا کے ممے اور اسکی موٹی گانڈ کے سامنے کوئی بھی لن سوجائے ایسا ممکن نہیں تھا۔ سونیہا کے ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ تھی ۔ اس نے اپنے ہاتھ سے نوالہ توڑا اور میجر دانش کو کھلانے لگا جو اس نے بڑے ہی پیار سے کھا لیا۔ اسی طرح سنیہا نے سارا کھانا میجر دانش کو کھلا دیا۔ بھوک کی وجہ سے اسکا برا حال تھا۔ اوپر سے بجلی کے جھٹکوں نے بھی اسے نڈھال کر دیا تھا اسے طاقت کی ضروت تھی جو اس کھانے سے پوری ہوگئی تھی۔ میجر دانش کو کھانا کھلانے کے بعد سونیہا نے بالکل سیریس ہوتے ہوئے میجر دانش کو کہا دیکھو تم جو بھی ہو جہاں سے بھی آئے ہو ان لوگوں کو سب سچ سچ بتا دو، ورنہ یہ تمہارے ساتھ برا سلوک کریں گے۔ تم پہلے قیدی ہو جو مجھے پسند آئے ہو۔ تمہاری بہادری اور بے باکی نے میرا دل جیت لیا ہے۔ میں نے ہر قیدی کو ان لوگوں کے سامنے بلکتے اور سسکتے دیکھا ہے مگر تم پہلے قیدی ہو جو ان لوگوں کو خاطر میں لائے بغیر میرے سینے پر نظریں جمائے مزے لیتا رہا اور بجلی کے جھٹکی لگنے کے بعد بھی میں نے تمہاری آنکھوں میں خوف کا شائبہ تک نہیں دیکھا۔ لہذا ان لوگوں کو سب کچھ سچ سچ بتادو اسی میں تمہاری بہتری ہے۔

سونیہا کی یہ باتیں سن کر میجر دانش بولا تمہارا نام کیا ہے؟؟ سونیہا نے اپنا نام بتایا تو میجر دانش بولا میں نے بہت سی حسین لڑکیاں دیکھی ہیں مگر تم جیسی حسین و جمیل لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ تمہارے جسم کے ابھار مجھے پاگل کیے دے رہے ہیں۔ میجر دانش ابھی اور بھی بہت کچھ کہتا مگر سونیہا نے اسکی بات کاٹی اور بولی میں تمہیں کیا کہ رہی ہوں اور تمہیں عاشقی سوجھ رہی ہے۔ سونیہا نے ادھر ادھر دیکھا جیسے دیکھنا چاہ رہی ہو کہ کوئی آس پاس ہے یا نہیں۔۔۔ پھر میجر دانش کے کان کے قریب ہوکر بولی تم جانتے ہی ہوگے کہ جب تم نے ان لوگوں کو سب کچھ بتا دیا جو یہ جاننا چاہتے ہیں تو یہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، اور اگر مزید کچھ دن تم انہیں سچ نہیں بتاو گے تب بھی یہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ یہ ہر صورت میں تمہیں مار دیں گے۔ اور میرا استعمال بھی کریں گے تم سے سچ اگلوانے کے لیے۔

میں اپنے حسن سے مردوں کو پاگل کرتی ہوں اور جب انکو میری طلب حد سے زیادہ ہوتی ہے تو انہیں تڑپا تڑپا کر میں سب اگلوا لیتی ہوں۔ اور اسکے بعد یہ لوگ اسے مار دیتے ہیں۔ مگر تم مجھے پسند آئے ہو، تم انہیں سچ سچ بتاو جو یہ پوچھتے ہیں اسکے بعد میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمہاری یہاں سے نکلنے میں مدد کروں گی۔ دانش نے اسکی یہ بات سنی تو حیران ہو کر بولا بھلا تم میری مدد کیوں کرو گی؟؟؟ سونیہا نے کہا کیونکہ تمہاری مردانگی مجھے پسند آگئی ہے۔ میں نے بہت سے کڑیل جوانوں کو اس قید خانے میں سسکتے اور بلکتے دیکھا ہے۔ مگر تم ان سب سے الگ ہو نڈر اور بے باک۔ اس لیے میں نہیں چاہتی کہ یہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔

سونیہا کی بات سن کر میجر دانش اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں پہلے والے تمام قیدیوں سے الگ ہوں اور بہادر اور نڈر ہوں تو تمہیں یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ یہاں سے رہائی پانے کے لیے میں کسی عورت کی اور وہ بھی دشمن ملک کی عورت کی مدد نہیں مانگوں گا۔ میں مر تو جاوں گا مگر تمہارے سامنے مدد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاوں گا۔ یہ کہ کر میجر دانش نے ایک بار پھر اپنا چہرہ آگے کر کے سونیہا کے ہونٹوں کو چوس لیا۔ سونیہا نے ناگواری سے پیچھے ہٹتے ہوئے میجر دانش کو ایک گالی دی اور باہر چلی گئی جبکہ پیچھے میجر دانش قہقہے لگانے لگا۔

سونیہا کے جانے کے بعد دوبارہ سے وہی 2 بدمعاش اندر آئے اور میجر دانش سے سوالات کرنے لگے اور میجر دانش بنا سوچے سمجھے وہ سٹوری سنانے لگا میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال شاہراۃ فیصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ او رپھر سے میجر دانش کے جسم میں کرنٹ دوڑنے لگتا۔ آج پھر یہ سوال جواب 3 دفعہ ہوئے مگر میجر دانش کا جواب تبدیل نہ ہوا۔ آخر کار ان میں سے ایک بدمعاش نے غصے میں آکر پاس پرا لوہے کا راڈ اٹھا لیا اور میجر دانش کی ٹانگوں پر برسانا شروع کر دیا۔ لوہے کا راڈ میجر کی ٹانگوں پر پڑتا تو میجر کی جان ہی نکلنے لگتی اسکو اپنی ماں یاد آنے لگتی اور وہ چیخیں مارنے لگتا۔ مگر اس نے اپنا بیان نہیں بدلا۔ 10 منٹ تک مار کھانے کے بعد بھی جب میجر دانش سے سوال پوچھا گیا تو اسنے کانپتی ہوئی آواز اور ڈھلکے ہوئے چہرے کے ساتھ وہی کہانی سنائی میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک مرتبہ پھر بجلی کے جھٹکے لگے میجر دانش کو اور وہ دوبارہ سے بے ہوش ہوگیا۔

میجر دانش کو دوبارہ ہوش آیا تو ایک بار پھر سونیہا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اسکے سامنے موجود تھی۔ جبکہ میجر کا مار کھا کھا کر برا حال ہوچکا تھا۔ اب کی بار پھر سونیہا نے اس پر ترس کھاتے ہوئے کہا دیکھو جان انکو سب کچھ سچ سچ بتا دو اور مجھے یہاں سے لیکر بھاگ جاو میں اپنی باقی زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔ میں یہاں کے ہر سیکیورٹی سسٹم سے واقف ہوں میں تمہاری مدد کروں گی یہاں سے بھاگنے میں اور پھر اپنی ساری زندگی تمہاری بانہوں میں بیتا دوں گی۔ سونیہا کی آواز میں سچائی بھی تھی اور درد بھی۔ وہ شاید واقعی میجر دانش سے پیار کرنے لگی تھی۔ اسکی آنکھوں میں نمی بھی تھی۔ میجر دانش نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور بولا اگر تم سچ کہ رہی ہو تو مجھے بتاو کہ سامنے جو دروازہ ہے اسکو کھولنے کا کوڈ کیا ہے؟؟؟ سونیہا نے بلا تردد وہ کوڈ بتا دیا۔ میجر دانش جانتا تھا کہ کوڈ صحیح بتایا گیا ہے کیونکہ اس نے نیم بےہوشی کی حالت میں سونیہا کے ساتھ آنے والے بدمعاشوں کو باہر جاتے دیکھا تھا تب انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے جو کوڈ لگایا تھا میجر دانش نے اسکو ذہن نشین کر لیا تھا۔ اور سونیہا نے بالکل وہی کوڈ میجر دانش کو بتا دیا تھا۔

اب کی بار میجر دانش کی آواز دھیمی تھی۔ وہ سونیہا کو کہ رہا تھا کہ مجھے بھی تم اچھی لگی ہو مگر یہ تمہاری بھول ہے کہ ہم دونوں یہاں سے بچ کر نکل سکتے ہیں۔ میں نے ایسے قید خانے دیکھ رکھے ہیں۔ میں اس دروازے سے نکل بھی جاوں تو بھی یہاں سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہوگا باہر بے شمار سیکورٹی اہلکار ہونگے اسکے علاوہ آٹو سسٹم بھی ہوگا جو مجھے مونیٹر کر رہا ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ یہ جو سامنے دروازے پر کوڈ لگا ہوا ہے یہ فنگر پرنٹس بھی ریڈ کرتا ہوگا۔ ہمیں صحیح کوڈ معلوم بھی ہو تب بھی ہم یہاں سے نکل نہیں سکیں گے۔ اس پر سونیہا نے اسے بتایا کہ تمہاری یہ بات تو صحیح ہے کہ یہاں سسٹم آٹومیٹک ہے۔ مگر یہاں سیکورٹی کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔ صرف میں ہوں اور باہر وہ 2 لوگ ہیں جو تمہارے سے انویسٹیگیٹ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک لمبی راہداری ہے جس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آخر میں داخلی گیٹ ہے جس پر 3 گن میں موجود ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ پوری بلڈنگ میں کوئی نہیں۔ البتہ راہداری کے کیمرے میں جیسے ہی کوئی انجان شخص آئے گا تو آٹومیٹک راہداری میں لیزر شعائیں گزرنے لگ جائیں گی جو انسانی جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتی ہیں۔ اس سے تم بچا کر نکل جاو تو ہم با آسانی گیٹ پر موجود گن مین کو قابو کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بہت ریلیکس بیٹھے ہوتے ہیں آج تک اس کمرے سے کوئی بچ کر بھاگ نہیں سکا اس لیے انہیں فکر نہیں ہوتی۔ ایسے میں انکو قابو کرنا آسان ہے۔ اور رہ گئی بات فنگر پرنٹس کی تو تمہاری بات ٹھیک ہے۔ مگر جب میں تمہارے ساتھ موجود ہوں تو میرے فنگر پرنٹس پر یہ لاک کھل جائے گا جسکا ثبوت تمہیں ابھی مل جائے گا جب میں باہر جاوں گی۔

میجر دانش اب سوچ میں پڑگیا تھا اور باہر نکلنے کی تدبیر کرنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ سونیہا پر اعتبار کرنا چاہیے یا نہیں؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دشمن کی کوئی چال ہو؟؟؟ مگر پھر اچانک میجر دانش نے سونیہا کو بتایا کہ میرا نام دانش ہے اور میں پاک آرمی میں میجر ہوں۔ اور مجھے کرنل وشال کو پکڑنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جس میں میں ناکام رہا ۔ اس سے زیادہ ابھی میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ میجر دانش کی یہ بات سن کر سونیہا نے آگے بڑھ کر میجر دانش کو گلے لگایا اور اسکو کسنگ کرنے لگی۔ وہ ٹوٹ کر میجر دانش کے ہونٹ چوس رہی تھی اور اپنے پیار کا اظہار کر رہی تھی۔ میجر دانش بھی اسی بے تابی کے ساتھ سونیہا کے رس بھرے ہونٹوں سے اسکا رس چوس رہا تھا۔ سونیہا کے ممے میجر دانش کے سینے میں کھب گئے تھے جنکو میجر دانش اپنے سینے پر محسوس کر رہا تھا، اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اسکے ہاتھ کھولیں اور وہ سونیہا کے ممے پکڑ کر انکو چوسنے لگ جائے۔

کچھ دیر ایکدوسرے کے ہونٹوں کا رس چوسنے کے بعد سونیہا پیچھے ہٹی۔ اسکی آنکھوں میں نشہ تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اسنے میجر دانش کو کہا کہ بس تم باقی سب چیزیں بھی ان لوگوں کو سچ سچ بتا دینا۔ جب تم سب کچھ بتا چکو تو یہ لوگ خود تمہیں یہاں سے نکالیں گے اور جیسے ہی ہم اس بلڈنگ سے نکلیں گے تب ہم بھاگنے کا پلان بنائیں گے۔ میجر دانش نے پوچھا مگر یہ مجھے یہاں سے باہر نکالیں گے کیوں؟؟ تو سونیہا نے کہا کہ یہ کسی جعلی مقابلے میں تمہیں ماریں گے اور میڈیا میں دکھائیں گے کہ پاکستان سے بھیجا ہوا ایک کشمیری آتنگوادی کو بھارتی پولیس نے ہلاک کر دیا۔ اس طرح یہ تم سے جان بھی چھڑوالیں گے اور پولیس کی بھی میڈیا میں تعریفیں ہونگی اور عالمی سطح پر یہ لوگ پاکستان پر پریشر بڑھا سکیں گے۔

میجر دانش کو سونیہا کی ایک ایک بات میں سچائی نظر آرہی تھی۔ اب سونیہا نے میجر دانش کو آگے کا پلان بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو کہے گی کہ جب ہم لوگ تمہیں یہاں سے نکالنے لگیں گے تو وہ ہم پر حملہ کر دیں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہم بھاگ نکلیں گے۔ ساتھ ہی سونیہا نے سوالیہ نظروں سے میجر دانش کو دیکھا اور بولی اگر تمہارے بھی کوئی ساتھی ہیں تو میں ان سے کونٹیکٹ کر لوں گی وہ ہماری یہاں سے نکلنے میں مدد کریں گے۔ اس طرح ہمیں رہنے کا ٹھکانہ بھی مل جائے گا اور ان لوگوں سے بھی جان چھڑوا لیں گے۔ میجر دانش نے سونیہا کو کہا کہ وہ کسی طرح ایک فون کا بندوبست کر دے تو وہ خود اپنے لوگوں سے رابطہ کر کے اپنی لوکیشن بتا سکتا ہے اور باہر نکلنے پر وہ لوگ ہماری مدد کو آجائیں گے۔

میجر کی یہ بات سن کر سونیہا نے وعدہ کیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح فون کا بندوبست کر لے گی۔ یہ کہ کر سونیہا دروازے کی طرف گئی اور وہی کوڈ اینٹر کیا ، دروازہ کھلا اور سونیہا باہر نکل گئی۔

میجر دانش اب آنے والے حالات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسکا مقصد کرنل وشال کو پکڑنا تھا اور اسکے لیے یہاں سے نکلنا بہت ضروری تھا۔ اور میجر دانش یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ یہاں سے نکلنے کے لیے وہ سونیہا کی مدد لے گا۔

دانش کے کمرے سے سونیہا باہر نکلی تو لمبی راہداری سے ہوتی ہوئی سیدھے ہاتھ پر بنے کنٹرول روم میں گئی اور وہاں بیٹھے انہی دو بد معاشوں میں سے ایک کی گود میں جا کر بیٹھ گئی اور اسکی ایک لمبی کس کی۔ اس بدمعاش نے بھی اپنا ایک ہاتھ سونیہا کے ممے پر رکھ دیا اور بولا بول میری جان کچھ منہ سے پھوٹا وہ پاکستانی؟؟؟ تو سونیہا نے اٹھلاتے ہوئے کہا دنیا میں ایسا کوئی مرد نہیں جو سونیہا کے حسن کے آگے جھک نا جائے۔ اس بھڑوے کا نام دانش ہے اور وہ پاکستانی آرمی میں میجر رینک کا آفیس ہے۔ اسکا مقصد کرنل وشال کو گرفتار کرنا تھا شاید وہ لوگ جان گئے ہیں کہ کرنل کس مشن کی تکمیل کے لیے پاکستان گیا تھا۔ سونیہا کی بات سن کر دونوں بدمعاش زور زور سے ہنسنے لگے۔

سونیہا نے دوسرے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا صرف یہی نہیں ایک اور خوشخبری بھی ہے ۔ اس شخص نے پوچھا وہ کیا؟ تو سونیہا بولی کہ اس نے ایک فون مانگا ہے۔ جس سے وہ اپنے ساتھیوں کو فون کرے گا اور ایک مقررہ وقت بتائے گا جس پر ہم لوگ اسکو لیکر یہاں سے نکلیں گے۔ اور ایک مخصوص مقام پر اسکے ساتھی اسے اور مجھے چھڑوانے کے لیے ہم پر حملہ کریں گے۔ سونیہا کی یہ بات سن کر کمرہ ایک بار پھر ان تینوں کے قہقہوں سے گونجنے لگا۔ ان میں سے ایک شخص بولا یعنی یہ کتا باقی کتوں کی بھی موت کا سبب بنے گا۔ یہ کہ کر اس شخص نے سونیہا کو اپنا فون دیا اور بولا کل جا کر یہ فون اسکو دے دینا۔ ہم ٹریس کرلیں گے کہ اسنے کہاں کال کی ہے۔ اس طرح ہم ان پاکستانیوں کا پورا نیٹ ورک خاک میں ملا دیں گے۔ کمرہ اب قہقہوں کی بجائے پچک پچک کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ سونیہا ایک بدمعاش کی گود میں بیٹھی اسکے ہونٹ چوس رہی تھی جبکہ دوسرا بدمعاش اسکی گانڈ اوپر اٹھا کر اسکی پینٹ نیچے کر کے اسکی چوت میں لن ڈالے گھسے مارنے میں مصروف تھا۔

اگلے دن میجر دانش سونیہا کا بےتابی سے انتظار کر رہا تھا۔ سونیہا تو آئی مگر اسکے ساتھ باقی دو غنڈے بھی تھے۔ انہوں نے میجر دانش سے وہی سوال کیے تو میجر نے بلا چوں چرا بتا دیا کہ وہ میجر دانش ہے اور اسکا ٹاسک کرنل وشال کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اتارنا تھا۔ کیونکہ وہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے ٹھکانوں کے بارے میں کچھ اہم معلومات جان چکا تھا۔ اس خفیہ معلومات کی مدد سے کرنل وشال ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبصہ کر سکتا ہے اور کسی بھی ملک کی طرف ہمارے ایٹمی مزائل چلا سکتا ہے۔ جو کہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اسی طرح میجر دانش نے کچھ اور باتیں بھی بتائیں۔ جس پر وہ دونوں بدمعاش سونیہا کے ساتھ باہر نکل گئے۔

کچھ دیر بعد سونیہا کمرے میں آئی اور میجر دانش کو پہلے کی طرح کھانا کھلایا ۔ اس دوران میجر دانش نے سونیہا سے آگے کا پروگرام جاننے کی کوشش کی مگر سونیہا نے ہاتھ کے اشارے سے بولنے سے منع کر دیا اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ایک مائکرو فون دکھایا۔ یہ اس چیز کا اشارہ تھا کہ سونیہا کی نگرانی ہورہی ہے اور اندر ہم جو باتیں کریں گے وہ باہر سنیں جائیں گی۔

میجر دانش نے فورا ہی ٹاپک بدل دیا اور سونیہا کے حسن کی تعریف کرنے لگا۔ سونیہا نے میجر دانش سے مزید کچھ سوال پوچھے جنکا میجر دانش جواب دیتا رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ باتیں باہر سنی جا رہی ہیں اس لیے وہ سب کچھ بتاتا چلا گیا۔ مگر اس دوران اس نے اپنے اور سونیہا کے بھاگنے کے بارے میں کوئی با ت نہ کی۔ کھانا کھلانے کے بعد سونیہا وہاں سے چلی گئی۔

کوئی 2 گھنٹے کے بعد کمرے کا دوبارہ دروازہ کھلا اور سونیہا اندر آئی۔ وہ بہت رازدارانہ انداز مین اندر آئی تھی۔ اندر آکر اس نے میجر دانش کو ایک بار اپنے سینے سے لگایا اور پھر اسکے ہونٹوں پر پیار کرنے لگی۔ پھر سونیہا نے اپنے شارٹ بلاوز میں ہاتھ ڈالا اور وہاں سے ایک چھوٹے ایم پی تھری پلیئر کے برابر کا ایک موبائل فون نکالا۔ یہ بہت چھوٹا فون تھا جو با آسانی کہیں بھی چھپایا جا سکتا تھا۔ سونیہا نے یہ فون میجر دانش کی طرف بڑھایا تو میجر دانش نے اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا جو بندھے ہوئے تھے۔

سونیہا نے یہ دیکھ کر کہا کہ اچھا چلو مجھے نمبر بتاو میں نمبر ملاتی ہوں۔ میجر دانش نے سونیہا کو نمبر بتایا اور پھر اسکو کہا کہ موبائل فون دانش کے کان کے ساتھ لگا دے۔ سونیہا نے میجر کا بتایا ہوا نمبر ملایا اور دانش کے کان سے لگا دیا۔ اس دوران میجر دانش نے سونیہا سے پوچھا کہ وہ جگہ کا نام کیا بتائے تو سونیہا نے اسے بتایا کہ جام نگر بھاٹیا سوسائٹی سے نکلیں گے ہم۔ کچھ دیر بعد فون سے ہیلو کی آواز آئی تو میجر دانشے نے ایک کوڈ ورڈ بولا۔ ایلفا 43 ریڈ زون۔ ایجینٹ 35 سپیکنگ۔ میں دشمن کی قید میں ہوں، کل کسی بھی ٹائم مجھے جام نگر بھاٹیا سوسائٹی سے نکالا جائے گا۔ تم لوگ حملے کے لیے تیار رہنا۔ یہ کہ کر میجر دانش نے اور کہ دیا اور سونیہا کو فون بند کرنے کو کہا۔

سونیہا نے فورا ہی فون بند کر دیا۔ کنٹرول روم میں بیٹھے دونوں بدمعاش فون پر ہونے والی گفتگو بھی سن چکے تھے اور اس نمبر سے بھی واقف تھے جو اس فون سے ڈائل کیا گیا۔ میجر دانش کی بات مکمل ہونے کے بعد آگے سے محض اوکے کی آواز آئی تھی اور فون بند ہوگیا تھا۔ اب دونوں بدمعاش اس فون کو ٹریس کرنے میں مصروف ہوگئے۔

جبکہ دوسری طرف سونیہا کمرے سے باہر جانے لگی تو میجر دانش نے سونیہا کو آواز دی۔ سونیہا نے واپس مڑ کر دیکھا تو میجر دانش نے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔ سونیہا نے دیکھا کہ میجر دانش اپنے لن کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو اسکی پینٹ میں ٹینٹ بنائے کھڑا تھا۔۔۔۔ سونیہا نے میجر دانش کا لن دیکھا تو رک گئی اور بولی ابھی تو بھاگنے کا پلان بنانا ہے بعد میں میں تمہارے پاس ہی رہونگی یہ کام بعد میں کریں گے۔ مگر میجر دانش بولا جان کتنے دنوں سے میں قید میں ہوں۔ نہ تو کوئی لڑکی چودنے کو ملی اور نہ ہی اپنی مٹھ مار کر اسے سکون دے سکا ہوں۔ آج پلیز اسکو سکون پہنچا دو۔

میجر دانش کی تڑپ دیکھ کر سونیہا میجر کی طرف بڑھی اور اسکی پینٹ پر لن کے اوپر ہاتھ پھیرنے لگی۔ سونیہا نے جب میجر دانش کے لن پر ہاتھ پھیرا تو اسکی لمبائی سے بہت متاثر ہوئی اور تعریفی نظروں سے دانش کو دیکھنے لگی۔ پھر اس نے نیچے جھک کر میجر دانش کی پینٹ کی زپ کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کر لن پکڑ لیا۔ لن ہاتھ مین لینے کے بعد سونیہا نے اسکو موٹائی اور سختی کو ماپنا شروع کیا تو اسکے منہ اور چوت میں پانی آنے لگا۔ اس نے فورا ہی میجر دانش کی زپ کے راستے اسکا ہن باہر نکال لیا۔ 8 انچ کا لمبا اور موٹا لن دیکھ کر سونیہا کی آنکھوں میں نشہ سا آگیا۔ سونیہا کا جسم جتنا سیکسی تھا اسکو سیکس کی طلب بھی اتنی ہی زیادہ تھی۔

سیکس کرتے ہوئے سونہیا جنگلی بلی بن جاتی تھی جسکو آگے پیچھے کا کوئی ہوش نہیں رہتا تھا۔ میجر دانش کا 8 انچ لن دیکھ کر سونیہا کی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ اس نے فورا ہی میجر کا لن اپنے منہ میں لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ سونیہا چوپا لگانے میں ماہر تھی۔ باہر بیٹھے دونوں بدمعاش فارغ وقت میں سونیہا سے چوپا لگواتے رہتے تھے۔ مگر انکے لن اتنے بڑے نہیں تھے جتنا بڑا دانش کا لن تھا۔ ساتھ ساتھ دانش کے لن کا ٹوپا بھی سونیہا کو بہت پسند آیا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ٹوپا اسکی پھدی کو بہت مزہ دے گا۔

کچھ دیر تک سونیہا دانش کا لن چوستی رہی تو پھر دانش نے سونیہا کو کہا جان اب اپنے ممے بھی دکھا دو۔ کتنے دنوں سے تمہارے مموں کا ابھار دیکھ دیکھ کر میرا لن سخت ہوتا رہا ہے۔ آج دکھا بھی دو ممے۔ یہ سن کر سونیہا اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور چھلانگ لگا کر میجر دانش کی گود میں چڑھ گئی۔ اس نے اپنا شارٹ بلاوز ایک ہی جھٹکے میں اتارا تو اسکے 36 سائز کے ممے اچھلتے ہوئے باہر آگئے۔ گول سڈول اور کسے ہوئے ممے ایسے اچھل رہے تھے جیسے ان میں سپرنگ لگے ہوئے ہوں۔ ان اچھلتے ہوئے مموں کو دیکھ کر دانش کے منہ میں پانی آگیا اور اسنے فورا ہی اپنا منہ سونیہا کے مموں پر رکھ دیا۔ اور انکو چوسنے لگا۔

سونیہا کے ممے چوستے ہوئے دانش کا لن وقفے قفے سے جھٹکے کھا رہا تھا۔ آخری مرتبہ اسنے عفت کو چدائی کی تھی سہاگ رات پر اور جب دوبارہ اسکی چوت میں لن ڈالنے لگا تھا تو اسکو ضروری کال آگئی تھی اور وہ عفت کی پیاسی چوت کو پیاسا ہی چھوڑ کر نکل گیا تھا۔ دانش کی گود میں چڑھی ہوئی سنیا کو بھی اپنی گانڈ پر میجر دانش کا لن محسوس ہورہا تھا۔ مگر اس وقت وہ دانش کو بڑے پیار سے اپنے ممے چوستا دیکھ رہی تھی۔ میجر دانش نے سونیہا کے ایک ممے کا نپل اپنے منہ مین لیا اور اسکو کاٹنے لگا۔ دانش کی اس حرکت سے سونیہا کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ زور زور سے سسکیاں لینے لگی۔ دانش کی پیاس دیکھ کر سونیہا کو سرور مل رہا تھا کیونکہ اسے دانش کا لن دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ آج کافی دن کے بعد اسکی چوت کو کوئی تگڑا لن چودے گا۔

کچھ دیر سونیہا کے 36 سائز کے ممے چوسنے کے بعد دانش نے سونیہا سے اپنی چوت دکھانے کی فرمائش کی ۔ سونیہا فورا دانش کی گود سے اتری اور اور اپنی پینٹ اتار کر اسکو اپنی چوت کا نظارہ کروانے لگی۔ سونیہا کی چوت دیکھ کر دانش کالن اسکی چوت کی طرف لپکنے لگا۔ مگر دانش نے سونیہا کو کہا ک اگر وہ اسکے ہاتھ کھول دے تو دانش سکون کے ساتھ اسکی چوت چاٹ سکتا ہے۔ دانش کی بات سن کر سونیہا مسکرائی اور بولی جانِ من ابھی تمہارے ہاتھ کھولنے کا رسک نہیں لے سکتی میں۔ اگر باہر ان دونوں کو پتہ لگ گیا تو وہ تو مجھے یہیں مار ڈالیں گے۔ البتہ اگر تمہیں میری چوت چاٹنی ہی ہے تو یہ لہ چاٹو، یہ کہ کر سنیہا نے ایک جمپ لگایا اور اپنا ایک پاوں دانش کی زیر ناف ٹانگ والی ہڈی پر جمایا اور اوپر اچھل کر اپنا دوسرا پاوں میجر کے سینے تک لائی اور گھٹنا میجر کے کندھے پر رکھ دیا ۔ اور جن راڈز کے ساتھ میجر کے ہاتھ باندھے گئے تھے انہی راڈز سے سہارا لےکر کھڑی ہوگئی۔

سونیہا کے اس طرح اچھلنے سے میجر دانش کو اندازہ ہوگیا تھا کہ سونیہا کو لڑئی کی پراپر ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس طرح چھلانگ لگا کر اپنی چوت کھڑے ہوئے شخس کے منہ کے سامنے لے آنا عام لڑکی کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ وہی کر سکتی تھی جسکو جمناسٹک کی ٹریننگ ملی ہو۔ مگر میجر دانش کو اس سے کیا، اسکے سامنے تو سونیہا کی چوت تھی جو چاٹنے لائق تھی۔ چوت پر ہلکے ہلکے براون بال بتا رہے تھے کہ سونیہا نے 3 دن پہلے ہی اپنی چوت کی صفائی کی ہے۔

اب کمرے میں میجر دانش لوہے کے راڈز سے بندھا ہوا تھا اسکے ہاتھ پاوں جکڑے ہوئے تھے مگر اسکی ٹانگ کے سہارے سے ایک 22 سالہ قاتل حسینہ اپنی چوت اسکے منہ کے بالکل سامنے کیے کھڑی تھی اور اسنے اپنا ایک گھٹنہ دانش کے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔ دانش اپنی زبان نکالے سونیہا کی چوت کے لبوں کے درمیان اپنی زبان چلا رہا تحا جس سے سونیہا یسسکیاں نکل رہی تھیں اور وہ دانش کے سر میں ہاتھ پھیر کر اسکا سر مزیر چوت کی طرف دبا رہی تھی۔ 5 منٹ تک دانش سونیہا کی چوت کو اپنی زبان سے چوستا رہا اسکا بہت دل کر رہا تھا کہ وہ اس چوت میں اپنی انگلی بھی ڈالے مگر وقت کی ستم ظریفی کہ وہ اپنے ہاتھ آزاد نہیں کروا سکتا تھا۔ 5 منٹ کے بعد سونیہا کی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا جس سے میجر دانش کا سارا منہ بھر گیا۔

پھر سونیہا نیچے اتری اور میجر دانش کا چہرہ چاٹ کر اپنے پانی کا مزہ لینے لگی۔ وہ زبان کے ساتھ میجر دانشے کے چہرے پر لگے اپنے چوت کے پانی کو چاٹ رہی تھی اور میجر دانش بھی اسکے ہونٹوں کو چوسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب سونیہا دوبارہ سے میجر دانش کے لن کی طرف متوجہ ہوئی اور اسکو ہاتھ میں پکڑ کر اسکے چوپے لگانے لگی۔

تھوڑی دیر کے بعد سونیہا کی چوت نے لن مانگا تو سونیہا نے اپنی ایک ٹانگ اٹھائی اور میجر دانش کے لن کے اوپر اپنی پھدی فٹ کر دی۔ اور پھر خود ہی ایک دھکا لگا کر میجر کا لن اپنی چوت میں اتار لیا۔ اسکے بعد میجر نے بھی دھکے لگانے شروع کیے اور سونیہا نے بھی۔ مگر اس طرح چودائی کا مزہ نہیں آرہا تھا کیونکہ میجر کا قد بڑا تھا اور سنیہا کی پھدی صحیح طرح سے میجر دانش کے لن تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ اس لیے سونیہا کا اسطرح کھڑے ہونا مشکل تھا۔

اسکا حل سونیہا نے یہ نکالا کہ وہ ایک بار پھر میجر دانش کی گود میں چڑھ گئی۔ اسکی گردن میں انپے ہاتھ ڈالے اور اپنی چوت کے سوراخ کو میجر دانش کے لن کی ٹوپی پر رکھا اور ایک جھٹکے میں لن کے اوپر بیٹھ گئی۔ پھر سونیہا نے میجر دانش کے لن کے اوپر اچھلنا شروع کر دیا۔ نیچے سے میجر دانش بھی اپنی گانڈ ہلا ہلا کر دھکے لگا رہا تھا۔ مگر ٹانگیں بندھیں ہونے کی وجہ سے وہ صحیح طرح سے چودائی نہی کر پا رہا تھا۔ اسکے باوجود میجر دانشے کے 8 انچ لمبے لن نے 5 منٹ میں ہی سونیہا کی چوت کو ایک بار پھر پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جب سونیہا کی چوت نے پانی چھوڑی تو وہ میجر کی گود سے نیچے اتر آئی اور نشیلی نظروں سے میجر دانش کو دیکھنے لگی۔ اسکو میجر دانش کی چودائی کا بے حد مزہ آیا تھا۔ مگر میجر کا لن ابھی بھی سونیہا کی چوت مانگ رہا تھا۔ اب کی بار سونینا نے اپنی گانڈ میجر دانش کی طرف کی اور پنجو کے بل کھڑی ہوکر اپنی چوت کا سوراخ میجر کے لن کے اوپر کیا اور میجر نے دھکا مار کر لن سونیہا کی چوت میں اتار دیا۔

No comments:

Post a Comment

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...