Monday, 1 February 2016

وطن کا سپاہی 12

عمران نے ٹینا کو کہا کہ اب وہ ڈرائیو کرے تو ٹینا فوری ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی اور عمران ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ٹینا دھیمی رفتار کے ساتھ گوا کی طرف روانہ ہوگئی۔ گاڑی روانہ ہونے کے بعد عمران نے انجلی سے موبائل مانگا تو ٹینا نے کہا میرا موبائل استعمال کر لو، مگر عمران نے انجلی کا ہی موبائل لیا کیونکہ وہ ٹینا کا موبائل لیکر کسی مصیبت میں نہیں پھنسنا چاہتا تھا، کیا معلوم ٹینا کے موبائل سے کی جانے والی کالز ریکارڈ ہورہی ہوں۔ عمران نے انجلی سے موبائل لیکر امجد کو کال کی مگر اسکا نمبر آف جا رہا تھا، پھر عمران نے ایک اور نمبر پر رابطہ کیا اور ایک نامعلوم شخص کو جسکا عمران نے نام نہیں لیا گاڑی کی لوکیشن اور اسکے نمبر کے بارے میں بتا کر کہا کہ اسکو فی الحال کسی محفوظ مقام پر پہنچا دے، پھر وہ بعد میں فون کر کے بتا دے گا کہ گاڑی کہاں پر چاہیے۔ یہ کہ کر عمران نے فون واپس انجلی کو دے دیا۔

عمران اب گاڑی میں بیٹھا انجلی سے باتیں کرنے لگا اور اسکے بارے میں پوچھنے لگا، انجلی بھی اسکو اپنے بارے میں ایسے بتا رہی تھی جیسے دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو بالکل بھی نہ جانتے ہوں۔ کچھ دیر بعد ٹینا نے انجلی سے پوچھا کہ وہ گوا کس سلسلے میں جا رہی ہے تو انجلی نے کہا کوئی خاص کام نہیں، ماما پاپا ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں وہ بوریت ختم کرنے کے لیے گوا جا رہی ہے۔ ٹینا نے پوچھا کہ ساتھ کوئی بوائے فرینڈ وغیرہ یا کوئی دوست، انجلی کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بولی کہ بس بوائے فرینڈ کو اپنے بزنس سے فرصت نہیں میرے لیے اسکے پاس ٹائم ہی نہیں اس لیے میں اکیلی ہی جا رہی ہوں۔ کافی دیر تینوں مختلف ٹاپکس پر باتیں کرتے رہے ، 3 گھنٹے بعد ٹینا نے عمران کو ڈرائیو کرنے کو کہا اور انجلی کو اگلی سیٹ پر بلا کر خود پچھلی سیٹ پر جا کر لیٹ گئی اور کچھ ہی دیر میں اسکی آنکھ لگ گئی۔ عمران نے آنکھوں ہی آنکھوں میں انجلی کو اشارہ کر دیا تھا کہ ٹینا سے ہوشیار رہے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے اسے پتہ لگے کہ ہم پہلے سے ایکدوسرے کو جانتے ہیں۔

دوسری طرف کیپٹن مکیش اپنی طرف سے جتنا تیز ٹینا کا پچیھا کر سکتا تھا کر رہا تھا۔ مگر پھر بھی اسکی رفتار عمران کے گاڑی چلانے کی رفتار سے بہت کم تھی۔ کچھ دور جا کر ایک دم بریکوں کی زبردست آواز آئی۔ کیپٹن مکیش نے روڈ کے کنارے پر ایک گاڑی کھڑی دیکھی تھی جو اسکو جانی پہچانی لگی۔ اسکو دیکھ کر کیپٹن نے فل بریک لگائی تھی۔ اصل میں کیپٹن نے گاڑی تو پہلی بار دیکھی تھی مگر اسکی نمبر پلیٹ دیکھ کر کیپٹن کی چھٹی حس نے اسے فورا نہرو نگر میں ملنے والے شخص کی یاد دلائی، جو نمبر اس نے بتایا تھا شاید وہی نمبر اس گاڑی کا تھا۔ کیپٹن کی گاڑی اس گاڑی سے کافی آگے جا کر رکی، کیپٹن نے فورا اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا اور اپنی گن ہاتھ میں پکڑے اپنی گاڑی کی اوٹ لیکر کھڑا ہوگیا اور پچھے کھڑی تانیہ کی گاڑی کو دیکھنے لگا، تھوڑی ہی دیر میں کیپٹن مکیش کو اندازہ ہوگیا تھا کہ گاڑی کے آس پاس یا اندر کوئی نہیں ہے، وہ پھر بھی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھوڑا جھک کر چلتا ہوا گاڑی تک گیا اور چاروں اطراف کا جائزہ لینے کے بعد گاڑی کا دراوزہ کھول کر اندر دیکھا جہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا، گاڑی کا نمبر اب کیپٹن مکیش پڑھ چکا تھا اور اسکو یقین تھا کہ یہ وہی گاڑی ہے جسکے بارے میں تانیہ کے گھر کے باہر شخص نے بتایا تھا کہ ایک لڑکی بڑی جلدی میں اس گاڑی میں بیٹھ کر نکلی تھی۔ مگر اس وقت گاڑی میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسکو دیکھ کر کیپٹن مکیش یہ اندازہ لگا سکے کہ آخر گاڑی میں کون کون تھا اور اب وہ لوگ کہاں ہیں۔ کیپٹن مکیش نے فوری قریبی تھانے کا نمبر لیکر وہاں فون کیا اور پولیس کو بلا لیا جو 10 منٹ میں ہی پہنچ گئی۔ پولیس نے گاڑی قبضے میں لے لی اور تھانے لے گئے جبکہ کیپٹن مکیش دوبارہ سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گوا کی طرف چل دیا۔ اب اسکو ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ ٹینا کے انتظار میں تو نہیں کھڑے تھے؟؟؟

کیپٹن نے فورا اپنا فون نکالا اور ٹینا کو کال ملائی ٹینا نے تھوڑی ہی دیر کے بعد فون اٹینڈ کیا تو کیپٹن مکیش نے پوچھا ٹینا میم آپ ٹھیک ہیں؟ تو ٹینا نے کہا ہاں میں ٹھیک ہوں ، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ کیپٹن مکیش نے کہا میڈیم آپکے اغوا میں استعمال ہونے والی گاڑی مجھے راستے میں ملی ہے، وہ خالی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ راستے میں آپکو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ٹینا نے پوچھا کہ کونسی جگہ پر ملی ہے تمہیں وہ گاڑی، کیپٹں مکیش نے اپنی لوکیشن بتائی تو ٹینا نے آگے بیٹھی انجلی کو گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ کیپٹن مکیش نے مزید کچھ تفصیل بتائی تو ٹینا نے کہا پریشانی کی کوئی بات نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے راستے میں ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہو۔ یہ کہ کر ٹینا نے فون بند کر دیا مگر وہ آگے بیٹھی انجلی کو گھور رہی تھی۔

عمران کے کان ٹینا کے فون کی طرف ہی تھی، کال بند ہوتے ہی عمران نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ ٹینا نے بتایا کہ وہی کیپٹن کا فون تھا جس کو پاپا نے بھیجا ہے میری حفاظت کے لیے۔ ۔ عمران نے پوچھا کیا کہ رہا تھا وہ ؟ تو ٹینا نے بتایا کہ وہ بتا رہا تھا مجھے اغوا کرنے والے غنڈوں نے جس گاڑی کا استعمال کیا تھا وہ اسکو راستے میں ملی ہے۔ اور وہ وہی جگہ بتا رہا ہے جہاں سے ہم نے انجلی کو پِک کیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ٹینا کی نظروں میں کچھ خوف اور شک کے ملے جلے تاثرات تھے۔ عمران بھی ایک دم ٹھٹک گیا تھا کیونکہ اسکے اندازے کے مطابق اسکے لوگ ابھی تانیہ کی گاڑی تک نہیں پہنچے ہونگے اس سے پہلے ہی کیپٹں مکیش جو ان سے کچھ ہی فاصلے پر آرہا تھا وہ اس گاڑی تک پہنچ گیا، اسکو کیسے پتا لگا کہ یہ گاڑی تانیہ یا میجر دانش کے استعمال میں تھی۔ مگر اس نے اپنی اس سوچ کو کچھ دیر کے لیے پسِ پشت ڈال دیا اور ٹینا سے بولا کم آن ڈارلنگ، تمہارے اس کیپٹن کا بھی دماغ خراب ہے۔ جس گاڑی میں تمہیں وہ غنڈے ڈال رہے تھے وہ تو سوزوکی ماروتی تھی، جبکہ انجلی کے پاس ہنڈا سِٹی ہے۔ اور تم نے خود بھی دیکھی ہی تھی وہ گاڑی جس میں غنڈے تمہیں ڈالنا چاہ رہے تھے۔ وہ یہ انجلی والی گاڑی ہرگز نہیں تھی۔ کیپٹن بس کرنل صاحب کو خوش کرنا چاہتا ہے یہ بتا کر کے اس نے ان غنڈوں کی گاڑی پکڑ لی ہے لہذا اب جلد ہی وہ غنڈے بھی پکڑے جائیں گے۔

عمران خود بھی جانتا تھا کہ اسکی دی گئی یہ تسلی کچھ خاص کارگر نہیں ہوگی۔ اور ہوا بھی یونہی تھا۔ ٹینا عمران کی بات سے مطمئن نہیں ہوئی تھی ، انجلی کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے، اب وہ ٹینا کی طرف دیکھتی ہوئی بولی، یہ کیا مذاق ہے، کیا اس نے میری گاڑی پکڑ لی ہے؟؟؟ اور یہ غںڈوں کا کیا چکر ہے؟؟؟ میں ابھی پاپا کو فون کرتی ہوں کہ وہ پتا کریں یہ کیا چکر ہے۔ یہ کہ کر انجلی نے ایک نمبر ملایا اور پھر آگے سے فون اٹینڈ کرنے والے کو پاپا کہ کر بلایا اور اسے اپنی گاڑی کے بارے میں بتانے لگی کہ اس طرح کسی کیپٹن نے اسکی گاڑی پکڑ لی ہے پتہ کریں وہ میری ہی گاڑی ہے یا کسی اور کی گاڑی ہے، اور اگر میری ہے تو اپنے کسی دوست کو بھیج کر وہ گاڑی واپس کروائیں بھلا ہمارا غنڈوں سے کیا تعلق۔ یہ کہ کر انجلی نے فون بند کر دیا۔ اس سے ٹینا قدرے مطمئن ہوئی کہ ہو سکتا ہے اسی جگہ پر کوئی اور گاڑی مل گئی ہو کیپٹن مکیش کو اور یہ وہ گاڑی نہ ہو جو انجلی کی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے ٹینا سیٹ پر لیٹ گئی اور سوگئی۔
امجد کی جب آنکھ کھلی تو اسکے چاروں طرف اندھیرا تھا، اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہے۔ اس نے زور زور سے اپنی آنکھوں کو جھپکا اور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا تو آہستہ آہستہ اسکی آںکھیں جو نجانے کب سے بند تھیں کمرے میں موجود روشنی سے مانوس ہونے لگیں اور کچھ ہی دیر میں اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ ایک بند کمرے میں موجود ہے جہاں اسکو ایک کرسی کے ساتھ باندھ کر رکھا ہوا تھا۔ امجد نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بری طرح ناکام ہوگیا، اسکے دونوں پاوں کو لوہے کے راڈز کے ساتھ باندھا ہوا تھا جب کے اسکے دونوں بازوں کو کرسی کے پیچھے لیجا کر نائلون کی رسیوں سے مضبوطی کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔ امجد نے ادھر ادھر گردن گھما کر پورے کمرے کا جائزہ لیا مگر کمرے میں اسکے علاوہ اور کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ امجد کے ذہن میں کاشف کا خیال آیا جو اسکے ساتھ ہی تھا جب آرمی کے جوانوں نے امجد کو گرفتار کیا اور انکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی میں بٹھایا اس وقت بھی امجد کو کاشف کے ساتھ ہونے کا احساس تھا مگر کب اسکے سر میں کوئی وزنی چیز لگی اور وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا، اسکے بعد اب آنکھ کھلی تو کاشف کو نا پاکر امجد پریشان ہوگیا تھا۔

وہ سمجھ گیا تھا کہ اب وہ بڑی مشکل میں پھنس چکا ہے کاشف سے علیحدہ پوچھ گچھ ہوگی اور امجد سے علیحدہ، اس صورتحال میں ننانوے فی صد امکان موجود تھا کہ دونوں کہ بیانات میں تضاد ہوگا جسکی وجہ سے آرمی کا ان پر شک یقین میں بدل جائے گا۔ امجد اپنے ذہن پر زور دے رہا تھا کہ آخر اس سے کہاں پر غلطی ہوگئی کہ آرمی نے اسے اس طرح سے ڈھونڈ نکالا مگر اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اس سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ ایک بار اسکا دھیان ڈانس کلب کی ریسیپشن پر موجود شخص کی طرف بھی گیا مگر پھر اس نے سوچا بھلا وہ کیوں ہماری مخبری کرے گا اور اسے کیا معلوم ہمارے بارے میں وہ تو بس مجھے اور تانیہ کو ہی جانتا ہے اور تانیہ بھی اسکے نزدیک ایک پروفیشنل ڈانسر کے علاوہ کچھ نہیں جو محض چند پیسے کمانے کے لیے اپنے جسم کے جلوے دکھانے ڈانس کلب کا رخ کرتی ہے۔ مگر امجد کو معلوم نہیں تھا کہ اصل میں تانیہ کے ڈانسر ہونے کی وجہ سے ہی وہ اس مصیبت میں پھنسا ہے۔ تانیہ نے جو اپنے حسن کے جلوے کیپٹن مکیش کو دکھائے تھے اور اسکے بعد میجر دانش کا کیپٹن کے روپ میں سفر کرنا ہی اصل فساد کی جڑ بنا۔

کافی دیر تک امجد کمرے میں ادھر ادھر تکتا رہا ، کمرے میں اسکے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا اور نہ ہی اسکی کرسی کے علاوہ کوئی اور سامان موجود تھا۔ ابھی امجد سوچ ہی رہا تھا کہ آگے چل کر اسکے ساتھ کیا ہوگا کہ اچانک اسکو ایک دلخراش چیخ سنائی دی۔ چیخ کی آواز سنتے ہی امجد کے کان کھڑے ہوگئے کہ اتنے میں ایک اور بلند چیخ اسکو کانوں میں پڑی۔ امجد کے ماتھے پر اب پسینے کے قطرے نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے کیونکہ یہ چیخ کسی اور کی نہیں بلکہ اسکے ساتھی کاشف کی تھی۔ امجد سمجھ گیا کہ کاشف کے ساتھ تحقیقات شروع ہوچکی ہیں اور اس وقت تشد د کے ذریعے اس سے سچ اگلوانے کی کوشش کی جارہی ہوگی۔ امجد جانتا تھا کہ کاشف ایک سخت جان انسان ہے مگر وہ کرنل وشال کا تشدد کب تک برداشت کر سکے گا اس بارے میں امجد فکر مند تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کرنل وشال کے سامنے بڑے بڑے سورما سچ اگل دیتے ہیں تو کاشف کیا چیز ہے۔

گو کہ امجد جانتا تھا کہ اب اسکی باری بھی آنے ہی والی ہے مگر اسکو پھر بھی اپنے سے زیادہ کاشف کی فکر تھی ۔ مزید 15 منٹ تک کاشف کی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ اس دوران امجد کاشف کے بارے میں فکر مند تو تھا ہی مگر ساتھ ساتھ وہ اپنے ذہن میں بھی ایک کہانی بنانے میں مصروف تھا کہ اس سے کس طرح کے سوالات کیے جائیں گے اور اس نے ان کے کس طرح سے جواب دینے ہیں۔ امجد ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسے اپنے کمرے کے باہر تیز تیز قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ امجد تیار ہوگیا کہ اب کی بار تشدد سہنے کی باری امجد کی ہے۔ اتنے میں کمرے میں موجود واحد دروازہ کھلا اور جو چہرہ امجد کو سب سے پہلے نظر آیا وہ کسی اور کانہیں بلکہ کرنل وشال کا چہرہ تھا۔ امجد کے خیال کے برعکس کرنل وشال کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی اور وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ اسکے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر امجد کے ذہن میں پہلا ہی خیال یہ آیا کہ شاید کاشف کرنل کے تشدد کو برداشت نہیں کر پایا اور سب کچھ اگل دیا ہے۔ کرنل کے پیچھے ایک لڑکی اور ایک 40 سالہ شخص بھی تھے، لڑکی کے ایک ہاتھ میں چمڑے کا ہنٹر تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک ڈبہ نما باکس تھا جس میں نجانے کیا چیزیں موجود تھیں جبکہ دوسرے شخص کے ہاتھ میں ایک کرسی تھی جو اس نے پھرتی کے ساتھ کرنل کے اندر پہنچنے سے پہلے ہی آگے بڑھ کر امجد کے سامنے رکھ دی اور کرنل بڑے فاتحانہ انداز میں اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کرنل نے اپنی ٹانگیں اوپر اٹھا کر پھیلا لیں اور امجد کی ٹانگوں پر تضحیک آمیز انداز میں رکھ دیں۔ کرنل نے اپنا دایاں پاوں بائیں پاوں کے اوپر رکھا تھا جس سے کرنل کے بوٹ امجد کے چہرے سے کچھ ہی فاصلے پر موجود تھے اور جوتوں کی بدبو امجد کے ناک کے نتھنوں تک با آسانی پہنچ رہی تھی۔

کرنل وشال نے مسکراتے ہوئے امجد کو دیکھا اور بولا سردار جی اب بتاو اب کونسا بہانہ بناو گے؟ کل کیسے دوبارہ اسی گیس سٹیشن پر پہنچ گئے، پہلے تو اس دہشت گرد دانش نے تمہیں بندی بنایا ہوا تھا مگر کل پھر سے تم اسی گیس سٹیشن پر موجود تھے۔ یہ سن کر امجد کو کچھ حوصلہ ہوا کہ کاشف نے کچھ نہیں بتایا کیونکہ کرنل نے اب بھی امجد کو اسی نام سے مخاطب کیا تھا جو اس نے پہلی بار پکڑے جانے پر بتایا تھا۔ امجد نے مسکین سا چہرہ بناتے ہوئے کہا سر جی اس دن جب آپکے آدمی نے مجھے پٹرول پمپ سے واپس گھر جانے کو بولا تھا تو میں تو سمجھا مصیبت ٹل گئی ہے وہ دہشت گرد پکڑا گیا ہوگا، مگر اگلے دن پھر سے مجھے اس کی کال آگئی کہ اپنے کسی دوست کو لو اور اسکو میری طرح کا حلیہ دے کر دوبارہ سے اسی گیس سٹیشن پر جا کر اس سردار کو تنگ کرو ورنہ تمہارے گھر والوں کی خیر نہیں۔ میں تو جی اسی کے کہنے پر اپنے اس بیچارے دوست کو لیکر اس گیس سٹیشن پر چلا گیا تھا تاکہ میرے گھر والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔

امجد کی بات ختم ہوئی تو کرنل اب بھی مسکرا کر امجد کو دیکھ رہا تھا جبکہ پیچھے کھڑی لڑکی اور دوسرا شخص بھی ظنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے امجد کو دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک دم سے کرنل وشال کے چہرے پر مسکراہٹ کی بجائے غصے نے لے لی اور اس نے لڑکی کو ایک اشارہ کیا جس پر اس نے آگے بڑھ کر اپنی پوری طاقت سے چمڑے کا ہنٹر امجد کی پیٹھ پر دے مارا اور پھر فورا ہی اس لڑکی نے دوسرا وار کیا اور اب کی بار ہنٹر امجد کی گردن کے پچھلے حصے پر نشان چھوڑ گیا۔ پھر اس لڑکی نے ایک اور وار امجد کی گردن پر کیا مگر اس بار اس وار میں پہلے والی طاقت نہیں تھی، جسکی وجہ سے ہنٹر گردن پر زیادہ زور سے تو نہ لگا مگر لمبے ہنٹر نے امجد کی گردن کے گرد پھندا بنا لیا۔ ہنٹر امجد کی گردن کے گرد لپٹ گیا تھا اور تب اس لڑکی نے زور سے ہنٹر واپس اپنی طرف کھینچا تو امجد کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا اور اسکی آنکھیں باہر آہنے لگیں۔ اب کی بار کرنل وشال نے ایک قہقہ لگایا اور بولا امجد صاحب آپکے دوست کاشف نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ آپکی گیم ختم ہوگئی ہے۔ بس اب اتنا بتا دو کہ اس وقت تمہارا ساتھی میجر دانش اور وہ لڑکی تانیہ کہاں پر ہیں؟؟؟ اور تمہارا ایک تیسرا ساتھی سرمد بھی ہے جو اب تک کاشف کے بتائے ہوئے ایڈریس کی مدد سے پکڑا جا چکا ہوگا۔

کرنل کی بات ختم ہوئی تو لڑکی نے اپنا ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا اور آگے بڑھ کر امجد کی گردن کے گرد سے اپنا ہنٹر علیحدہ کر لیا اور پھر سے پیچھے ہوکر کھڑی ہوگئی۔ امجد کی آںکھوں میں اب بے یقینی کے اثرات تھے۔ اسکا شک درست ثابت ہوا تھا کہ کاشف سب کچھ اگل چکا ہے۔ کیونکہ اب کی بار کرنل نے امجد کو اسکے اصل نام سے بلایا تھا ساتھ میں اسنے کاشف کا نام بھی لیا اور سرمد کا نام بھی جو اس وقت جونا گڑھ میں موجود تھا اور تو اور کرنل نے تانیہ کا نام بھی لیا جو اس وقت میجر دانش کے ساتھ کہیں موجود تھی۔ امجد سمجھ چکا تھا کہ اب واقعی انکی گیم ختم ہوگئی ہے اور اب کچھ بھی جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ امجد نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے کیونکہ جھوٹ بولنے پر تشدد ہونا تھا اور آخر میں کرنل نے امجد اور کاشف دونوں کو مار دینا تھا سچ بتانے کی صورت میں بھی کرنل نے ان دونوں کو مارنا ہی تھا مگر اس طرح اسکے تشدد سے نجات مل سکتی تھی۔

امجد نے سپاٹ چہرے کے ساتھ کرنل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا بس مجھے ایک گلاس پانی پلا دو۔ امجد کی بات سن کر کرنل نے لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ فوری کمرے سے باہر گئی اور کچھ ہی دیر کے بعد واپس کمرے میں آئی تو اسکے ہاتھ میں پانی کا گلاس موجود تھا۔ اس نے آتے ہی وہ گلاس امجد کے ہونٹوں سے لگا دیا اور اسکے اوپر انڈیل دیا ، پانی امجد کے چہرے پر گر گیا ، کچھ تو اسکے منہ میں گیا مگر زیادہ پانی اسکے چہرے اور گردن پر گر گیا۔ مگر اس تھوڑے سے پانی نے بھی امجد کو کچھ حوصلہ دیا تھا اور اسکا خشک گلا اب کچھ بولنے کے قابل ہوا تھا۔ اب کی بار امجد بولا کہ میں یہ تو نہیں جانتا کہ میجر دانش اس وقت کہاں ہے مگر۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ لڑکی کا ہاتھ ایک بار پھر گھوما اور اسکا ہنٹر امجد کے جسم پر موجود قمیص کو پھاڑتے ہوئے اسکے سینے پر اپنے نشان چھوڑ گیا۔ گو کہ امجد ایک سخت جان انسان تھا اور بہت بار وہ انڈین آرمی کے ظلم و ستم برداشت کرتا رہا تھا مگر یہ ہنٹر والا تشدد اس پر پہلی بار ہورہا تھا اور نجانے اس ہنٹر میں ایسا کیا تھا کہ جسم پر چھوٹے چھوٹے نشان بنتے جا رہے تھے۔ شاید کچھ باریک نوکیلی شے ہنٹر میں موجود تھی جو جسم میں کسی ڈنک کی طرح پیوست ہورہی تھیں۔ امجد کی برداشت جواب دے گئی تھی اور اس ہنٹر پر ایک زور دار چیخ سے کمرہ گونج اٹھا۔ اب امجد کو احساس ہوگیا تھا کہ آخر کاشف کیوں نہ برداشت کر پایا تھا یہ تشدد۔

امجد نے کچھ دیر توقف کے بعد پھر سے اپنے لب کھولے اور بولا یہ تھیک ہے کہ میجر دانش میرے ساتھ تھا اور میں خود ہی اسے اپنے گھر لے کر گیا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت وہ کہاں پر ہے میں نہیں جانتا۔ لڑکی کا ہاتھ ایک بار پھر ہوا میں لہرایا مگر اس بار کرنل وشال نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو روک دیا۔ کرنل کو شاید امجد کی بات میں سچائی نظر آرہی تھی۔ اب کی بار کرنل نے امجد سے پوچھا یہ بتاو کہ تم نے میجر دانش کو میری قید سے کیسے آزاد کروایا؟؟؟ کرنل کی بات سن کر امجد نے کہا مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال ریسیو ہوئی تھی اور بھاٹیا سوسائٹی میں موجود ایک بلڈنگ کا ایڈریس دیا تھا جہاں سے ایک قیدی کو چھڑوانا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے۔ مجھے اسکے عوض 10 لاکھ روپے ملے تھے ۔ کرنل نے امجد کی بات کاٹی اور بولا فون پر تمہیں کس نے کہا تھا قیدی کو چھڑوانے کا؟؟ تو امجد نے کہا میں اسے نہیں جانتا، مجھے تو بس پیسوں کی آفر ہوئی اور سارے پیسے ایڈوانس مل گئے تھے اس لیے مِں فوری راضی ہوگیا۔

اب کی بار کرنل نے اپنا ہاتھ لڑکی طرف بڑھایا تو لڑکی نے اپنا ہنٹر کرنل کو پکڑا دیا، کرنل نے دو بار ہنٹر کو ہوا میں لہرایا تو شاں شاں کی آوازیں دل کو دہلانے لگیں۔ کرنل نے اب کی بار ہنٹر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں کیسے مان لوں کہ آئی ڈی آئی والے اتنے نا تجربہ کار ہیں کہ وہ کسی بھی انجان شخص کو اپنے میجر کو چھڑوانے کا ٹاسک دے سکتے ہیں؟؟؟ یہ کہتے ہوئے کرنل کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ جیسے وہ یہ کہ رہا ہو کہ امجد اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔ لیکن امجد نے پورے اعتماد کے ساتھ دوبارہ کہا کہ آئی ڈی آئی میں میری شہرت ہے، میرے یہاں انڈیا میں ہر بڑے شہر میں انڈر ورلڈ گینگ کے ساتھ تعلقات ہیں اور میں ماضی میں بھی آئی ڈی آئی کے لیے کام کرتا رہا ہوں، میں انکے لیے انجان نہیں ہوں، وہ مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں میرے ہر ہر ٹھکانے سے واقف ہیں مگر وہ لوگ میری لیے انجان ہی ہیں۔ نہ تو وہ کبھی کھل کر سامنے آئے ہیں میرے اور نہ ہی کبھی کسی نے میرے سے ملاقات کی ہے۔ اب کی بار کرنل کو امجد کی بات میں سچائی نظر آئی تھی۔ کرنل نے مزید پوچھا کہ پھر تم نے کیسے چھڑوایا میجر دانش کو؟؟؟
اب کی بار امجد نے پوری سچائی سے کرنل کو بتادیا کہ اس نے میجر دانش کو نہیں چھڑوایا بلکہ میجر دانش خود ہی اسکی قید سے نکل بھاگا تھا، ہم نے اپنی ایک ساتھی لڑکی تانیہ کو اس بلڈنگ کا معائنہ کرنے کے لیے بھیجا تھا تو اس نے وہاں کچھ گہما گہمی دیکھی تھی اور اسے محسوس ہوا تھا کہ شاید یہاں کوئی حادثہ پیش آیا ہے، اور اس سے پہلے کہ ہماری ساتھی ہمارے پاس واپس آتی ہمیں اس بلڈنگ کی طرف سے ایک نوجوان شخص ہانپتا اور بھاگتا ہوا اپنی طرف آتا دکھائی دیا اور پھر پیچھے سے آنے والی تانیہ کی گاڑی کی وجہ سے وہ جھاڑیوں میں چھپ گیا، ہمیں شک ہوا اس پر تو ہم نے اسے وہیں گھیر لیا اور وہیں ہمیں پتہ لگا کہ یہ مجر دانش ہے جو خود ہی اس بلڈنگ سے نکل بھاگا تھا۔ ہم تو ابھی پلاننگ ہی کر رہے تھے کہ آخر اس بلڈنگ میں کیسے داخل ہوں اور کیسے میجر دانش کو صحیح سلامت وہاں سے نکالیں۔ مگر ہمارے کچھ کرنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے نکل بھاگا تھا۔

اب کرنل کو یقین ہوگیا تھا کہ امجد سچ بول رہا ہے کیونکہ اتنا تو وہ بھی جان گیا تھا کہ کیسے سنیہا کے ساتھ سیکس کرنے کے بعد میجر دانش نے اسکو وہیں مار دیا تھا اور پھر باقی 2 لوگوں کو مار کر سیکورٹی کیمروں کے ناکارہ بنا کر وہ بلڈنگ سے اکیلا ہی نکل بھاگا تھا۔ یہ سب اس نے خود سیکیورٹی کیمروں کی ویڈیو میں بھی دیکھ لیا تھا۔ اب کرنل نے پھر سے پوچھا کہ اچھا یہ بتاو کہ وہاں سے نکلنے کے بعد تم اسے کہاں لیکر گئے تھے۔ اور کیسے ہمارے ہاتھوں سے بچتے رہے؟؟؟ اس سوال کے جواب میں امجد نے تھوڑا سا جھوٹ بولا کہ جیسے ہی وہ ہمارے ساتھ گاڑی میں گیا اس نے ہم سے ایک پسٹل مانگا اور ہم نے اسے پسٹل دیا تو اس نے ہماری ہی ساتھی تانیہ کی گردن پر پستول رکھ کر ہمیں اپنی مرضی سے مختلف علاقوں میں گھماتا رہا۔ آگے کی ساری پلاننگ وہ خود ہی کرتا رہا ہمیں صرف حکم دیتا تھا کہ اب یہاں جاو اور اب وہاں جاو۔ ہماری ساتھی تانیہ ابھی بھی اسکے قبضے میں ہے اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہے۔

اب کی بار کرنل کا ہاتھ گھوما اور امجد کے بازو اور کمر سے قمیص کو پھاڑتا ہوا ہنٹر شائیں کی آواز کے ساتھ امجد کے جسم میں کسی چھری کی طرح لگا۔ کرنل نے اپنی پوری طاقت سے ہنٹر گھمایا تھا اور اب امجد کے جسم سے خون رسنے لگا تھا۔ امجد کچھ دیر کراہتا رہا اور پھر بولا میں صحیح کہ رہا ہوں آپکو، سردار کا حلیہ اپنانے کا مشورہ بھی اسی کا تھا، اسکے بعد میں نے جامنگر سے جونا گڑھ جانے والا راستے پر جو آپکو جگہ دکھائی تھی جہاں میں نے ان دونوں کو چھوڑا تھا وہ بھی سچ تھا۔ میں نے میجر دانش کو بالکل اسی جگہ پر چھوڑا تھا اور اسکے بعد وہ کہاں گئے میں نہیں جانتا۔ مگر میرا خیال تھا کہ جس گاوں کی طرف آپ گئے وہاں وہ مل جائیں گے۔ مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ جونا گڑھ پہنچ کر جب آپکے بھیجے ہوئے شخص نے مجھے واپس جانے کو بولا تو اسکے بعد ایک بار پھر میجر دانش نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا اورمجھے چپ چاپ جونا گڑھ میں رکنے کو کہا، مگر پھر اسی دن شام کو اس نے مجھے واپس جامنگر آنے کو بولا۔ اور ساتھ میں ایک ساتھی کو لینے کو کہا جسکا حلیہ اس نے اپنے ہی لوگوں کے ذریعے ایسا بنا دیا کہ جلدی میں دیکھنے پر میجر دانش کا ہی گمان گزرے۔ کرنل وشال نے کہا اسکے لوگ جنہوں نے کاشف کا میک اپ کیا وہ کون تھے؟؟؟

امجد نے کہا وہ انہیں بھی نہیں جانتا، اسی گیس سٹیشن سے کچھ پہلے انہیں ایک گاڑی ملی جسکے بارے میں دانش نے پہلے ہی بتا دیا تھا اسی گاڑی میں وہ لوگ موجود تھے انہوں نے کاشف کا میک اپ کیا اور فوری وہاں سے چلے گئے۔ اسکے بعد ہم دونوں اس گیس سٹیشن پر گئے اور جیسے ہی وہاں کے مالک نے ہمیں پہچانا ہم بھاگ نکلے اور اس ڈانس کلب میں جا کر آرام کرنے لگے جہاں سے آپ نے ہمیں پکڑا ہے۔ اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں جانتا۔ کرنل کو اب امجد کی بتائی ہوئی باتوں پر یقین آنے لگا تھا کیونکہ اس میں زیادہ تر امجد نے ہر بات سچ بتائی تھی البتہ وہ یہ جانتا تھا کہ دانش اور تانیہ اس وقت ممبئی میں ہیں مگر کرنل سے اس نے اس بات کو چھپا لیا تھا۔ ۔ ۔ کرنل نے اب وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا اور جاتے جاتے امجد کو بولا کہ اگر کل تک تم نے نہ بتایا کہ میجر دانش اور تمہاری ساتھی تانیہ کہاں ہیں تو مرنے کے لیے تیار رہنا۔ یہ کہ کر کرنل وہاں سے نکل گیا اور امجد اب اپنی موت کا انتظار کرنے لگا۔ کیونکہ اگر وہ بتا دیتا کہ میجر دانش کہاں ہے تب بھی کرنل نے اس کو مارنا ہی تھا، جب دونوں صورتوں میں مرنا ہی ہے تو امجد نے بہتر سمجھا کہ میجر دانش اور تانیہ کی زندگی کو بچانے کی آخری کوشش کرنا بہتر ہے چاہے اسکے نتیجے میں خود موت کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
ٹینا کے سوجانے کے بعد بھی انجلی اور عمران نے ایکدوسرے سے زیادہ فری ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ دونوں نے سرسری طور پر ادھر ادھر کی باتیں کی جیسے 2 انجان لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ عمران کو اس بات کا پورا خیال تھا کہ کہیں ٹینا سونے کا ڈرامہ نہ کر رہی ہو اور اگر اس کو اس بات کی بھنک پڑ گئی کہ انجلی اور عمران یعنی تانیہ اور میجر دانش ایکدوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں تو ان دونوں کے لیے بہت مشکلات کھڑی ہوجائیں گی اور پھر انکا کرنل وشال سے بچنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ راستے میں انجلی نے اپنا لنچ باکس کھول کر اس میں سے خود بھی پلاو کھلایا اور عمران کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھلایا کیونکہ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور کہیں رکنے کا چانس وہ لینا نہیں چاہتا تھا رات بہت ہو رہی تھی اور کیپٹن مکیش بھی ان سے محض ایک گھنٹے کی دوری پر انکے پیچھے آرہا تھا ایسے میں گاڑی روکنے کا رسک لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا عمران کا۔

رات کے کوئی ایک بجے کے قریب وہ گوا کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ اب ٹینا کی بھی آنکھ کھل چکی تھی اور وہ فون پر کسی سے بات کر کے اپنے اور عمران کے لیے گوا کے ساحل پر ہی ایک ہٹ بک کروا چکی تھی اس بکنگ کے لیے اس نے خاص طور پر اپنے پاپا کرنل وشال کا ریفرنس استعمال کیا تھا۔ ساحل کے قریب وی آئی پی قسم کے یہ ہٹس بہت ہی رومانٹک انداز میں بنائے گئے تھے جو عام لوگوں کو نہیں ملتے تھے یا پھر بہت ہی زیادہ ریٹس پر ملتے تھے۔ اپنے لیے بکنگ کروا کر ٹینا نے انجلی سے پوچھا کہ وہ کہاں رکے گی تو انجلی نے اسے بتایا کہ وہ کسی خاص ہوٹل کے بارے میں نہیں جانتی، جو بھی گوا کا بہترین ہوٹل ہے وہاں اسے ڈراپ کر دے تو بہت مہربانی ہوگی۔ یہ سن کر ٹینا نے گوا کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں فون کی اور وہاں بھی ایک کمرہ انجلی کے لیے بک کروا لیا۔

کچھ ہی دیر کے بعد عمران نے اپنی گاڑی ایک فائیو سٹار ہوٹل کی پارکنگ میں روکی اور انجلی کے گاڑی سے اترنے پر گاڑی واپس لیجانے لگا تو ٹینا بولی ارے صبر تو کرو اتنی جلدی بھی کیا ہے انجلی کو اسکے روم تک تو چھوڑ آئیں۔ یہ کہ کر ٹینا گاڑی سے نیچے اتر آئی اور عمران بھی گاڑی سے نیچے اتر کر انجلی اور ٹینا کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ریسیپشن پر پہنچ کر ٹینا نے اپنا تعارف کروایا اور بک کروائے گئے روم کے بارے میں معلوم کیا اور انجلی نے اپنے ہینڈ بیگ سے پیسے نکال کر ریسیپشن پر ادا کیے۔ انجلی کے پاس کوئی خاص سامان تو نہیں تھا مگر پھر بھی ایک ویٹر نے فوری آگے بڑھ کر انجلی اسے اسکے ہاتھ میں موجود ہینڈ بیگ اور کچھ دوسرا چھوٹا سامان اور ایک چھوٹا بیگ پکڑ لیا اور انجلی کے کمرے کی طرف چلنے لگا، باقی تینوں بھی ویٹر کے پیچھے پیچھے جانے لگے۔ پانچویں منزل پر جا کر ویٹر لفٹ سے نکلا اور انجلی کے روم نمبر 507 کی طرف جانے لگا۔ ٹینا بھی اسکے پیچھے پیچھے جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص آتا دکھائی دیا جسے دیکھتے ہی ٹینا نے ہیلو انکل کی آواز لگائی، عمران نے اس شخص کو غور سے دیکھا تو ایک بار اسکے چہرے پر ناگواری کے واضح آثار دکھائی دیے مگر فورا ہی اس نے اپنی ناگواری کو خوش اخلاقی میں بدل لیا اور چہرے پر ایک مسکراہٹ سجا لی۔

اس شخص نے ٹینا کو دیکھا تو پہلے حیرت اور پھر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹینا سے ملا اور بولا کیسی ہے ہماری بیٹی؟؟ ٹینا نے بھی بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ اس شخص سے ہاتھ ملایا اور بولی کہ میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کہاں کی سیریں کر رہے ہیں؟؟؟ وہ شخص بولا بس سوچا ذرا گوا کی خوبصورتی ہی دیکھ لیں یہ کہتے ہوئے اسکی نظریں انجلی کی طرف تھیں۔ ٹینا نے فوری انجلی کا تعارف کروایا انکل یہ میری دوست ہے انجلی، بہت اچھی ڈانسر ہے اور ان سے ملیے یہ میرے دوست ہیں عمران۔ انجلی اور عمران نے آگے بڑھ کر اس شخص سے ہاتھ ملایا پھر ٹینا نے اس شخص کا تعارف بھی انجلی اور عمران سے کروایا۔ عمران تو پہلے ہی پچان گیا تھا مگر انجلی نہیں جانتی تھی کہ وہ کون ہے۔ یہ پاکیشا کے صوبے ہولستان کے مکھیہ منتری تھے۔ یعنی وہاں کے وزیرِ اعلی۔

ان دونوں سے ملنے کے بعد اس شخص نے جسکا نام اکبر لوکاٹی تھا ٹینا سے پوچھا کہ وہ کہاں ٹھہری ہے تو ٹینا نے عمران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں تو انکے ساتھ بیچ پر ایک ہٹ بک کروا چکی ہوں البتہ میری دوست انجلی یہیں رہے گی روم نمبر 507 میں ۔ لوکاٹی نے یہ بات سن کر انجلی کی طرف دیکھا اور بولا پھر تو آپ سے تفصیلی ملاقات ہوگی، انجلی نے بھی خوش اخلاقی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا جی کیوں نہیں آپ جیسے بڑے لوگوں سے ملنا تو ویسے ہی میری خواہش تھی، بہت اچھا ہوا جو آج آپ سے ملاقات ہوگئی۔ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہوگی اگر آپ جیسی شخصیت اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت مجھ ناچیز کے لیے بھی نکالے۔ یہ سن کر اس شخص نے ایک قہقہ لگایا اور بولا اجی آپ جیسی خوبصورت لڑکی کے لیے تو کوئی بھی بڑے سے بڑا شخص وقت نکال سکتا ہے ہم کیا چیز ہیں۔ چلیں پھر آپ سے کچھ دیر میں ملاقات ہوتی ہے میں کچھ ضروری کام سے نیچے ریسیپشن تک جا رہا ہوں۔ یہ کہ کر اکبر لوکاٹی اپنے 2 سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ لفٹ کے ذریعے نیچے چلا گیا جبکہ ٹینا نے انجلی کو اسکے روم 507 تک پہنچا دیا اور پھر عمران کے ساتھ واپس نیچے آئی جہاں اکبر لوکاٹی کسی سے فون پر بات کر رہا تھا، ٹینا نے دور سے ہی بائے بائے کا اشارہ کیا اور عمران کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اپنی گاڑی کی طرف چل دی۔
تانیہ کو میجر دانش نے ممبئی میں جب فون کیا تھا تو اسنے وہیں بتا دیا تھا کہ انکا اصل مقصد وہاں ہولستان کے وزیرِ اعلی سے ملاقات کرنا ہے اور تانیہ کو میجر دانش نے یہ ذمہ داری دی تھی کہ وہ کسی بھی طرح اکبر لوکاٹی سے قریب ہوکر اسکے اگلے پلان کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کے ہوٹل میں داخل ہوتے ہی اکبر لوکاٹی سے ملاقات ہوگئی اور وہ 70 سالا بوڑھا ٹھرکی بھی فورا ہی تانیہ پر فدا ہوگیا تھا۔ تانیہ جانتی تھی کہ اب آگے اسے کیا کرنا ہے۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے سب سے پہلے اپنا سامان ایک الماری میں رکھوایا، اس میں ایک ہینڈ بیگ اور ایک چھوٹا سا بیگ تھا جسمیں تانیہ کے کچھ کپڑے تھے۔ اپنا سامان الماری میں رکھوانے کے بعد تانیہ فورا فریش ہونے کے لیے واش روم میں چلی گئی۔ واش روم میں جا کر تانیہ نے اپنے کپڑے اتارے اور شاور کھول کر اسکے نیچے کھڑی ہوگئی۔ گوا کے حبس والے موسم میں شاور سے نکلتا ٹھنڈا پانی جب تانیہ کے بدن پر گرا تو اس سکون مل گیا۔ لمبے سفر کی تھکاوٹ اور گوا کی گرمی سے تانیہ کافی تھک چکی تھی مگر شاور لیتے ہی اسکے جسم میں دوبارہ سے جان آگئی۔ 15 مننٹ تک تانیہ مسلسل شاور کے نیچے کھڑی رہی اور ٹھنڈَ ٹھنڈے پانی سے اپنے جسم کی گرمی کو نکالتی رہی اس دوران تانیہ نے واش روم میں پڑے عرقِ گلاب کو بھی اپنے جسم پر اچھی طرح ملا جس سے نہ صرف اسکے جسم سے پسینے کی وجہ سے آنے والی بدبو ختم ہوگئی بلکہ اب تانیہ کا جسم گلاب کی طرح مہکنے لگا تھا۔

اچھی طرح شاور لینے کے بعد تانیہ نے شاور بند کیا اور گیلے بدن کے ساتھ ہی واش روم سے نکل آئی۔ باہر نکل کر تانیہ نے اپنے کپڑوں والا بیگ نکالا اور اس میں سے سرخ رنگ کا انڈر وائیرڈ برا نکال لیا جس کے کپ کا اوپر والا حصہ جالی کا اور نیچے والے حصے میں رنگ ڈلا ہوا تھا جو بریسٹس کی شیپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ رنگ کی وجہ سے بوبوس کو سپورٹ ملتی ہے اور برا دونوں مموں کو آپس میں ملا کر رکھتا ہے جس کی وجہ سے کلیویج لائن بہت خوبصورت بنتی ہے۔ یہ برا نکال کر تانیہ نے پہن لیا اور دونوں ہاتھ پیچھے لیجا کر اسکی ہُک بھی بند کر لی اسکے بعد اپنے برا میں ہاتھ ڈال کر اپنے مموں کو تھوڑا اوپر اٹھایا اور برا کو سیٹ کیا تاکہ سینے کے ابھار واضح ہو سکیں اور کلیویج لائن بھی سیکسی بن جائے۔ اسکے بعد تانیہ نے اسی رنگ کی ایک پینٹی نکال لی۔ جی سٹرنگ پینٹی کا پچھلا حصہ تانیہ کے چوتڑوں کی لائن میں گم ہوگیا اور اسکے چوتڑوں کا گوشت دعوتِ نظارہ دینے دینے لگا جبکہ پینٹی کا اگلا حصہ جو پھدی کو چھپانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس پر ایک چھوٹا سا خوبصورت سا پھول بنا ہوا تھا۔

اپنے آپ کو شیشے میں دیکھنے کے بعد تانیہ نے دل ہی دل میں اپنے خوبصورت بدن کی تعریف کی اور پھر اپنے بیگ میں سے ایک نائٹی نکال کر زیب تن کر لی۔ ہلکے سبز رنگ کی یہ نائٹی بہت ہی خوبصورت تھی اور تانیہ کے خوبصورت جسم پر اور بھی قیامت ڈھا رہی تھی۔ نائٹی میں تانیہ کے سینے کے ابھار بہت واضح نظر آرہے تھے جبکہ جسم کا اوپری حصہ یعنی کندھے اور سینہ بالکل ننگا تھا محض نائیٹی کی 2 سٹرپس تھیں جن کی وجہ سے ریشمی نائٹی تانیہ کے ریشمی بند پر رکی ہوئی تھی۔
نیچے سے سائیڈ کٹ نائیٹی تانیہ کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر رہی تھی۔ سائیڈ کٹ نائیٹی تانیہ کی دائیں ٹانگ پر گھٹنے تک جبکہ بائیں ٹانگ پر اسکی ہاف تھائیز تک تھی۔ تانیہ کی ٹانگیں بالوں سے باکل پاک تھیں نرم اور ملائم ریشمی ٹانگیں کسی بھی مرد کی نیت خراب کرنے کے لیے کافی تھیں۔ ان سب پر قیامت ، یہ نائٹی نیٹ کی تھی، نیٹ بہت زیادہ باریک نہیں تھی مگر پھر بھی غور سے دیکھنے پر نائٹی کے اندر چھپا تانیہ کا حسین مخملی بدن دیکھا جا سکتا تھا۔ سرخ پینٹی کا بھی ہلکا سا شیڈ نائیٹی سے نظر آرہا تھا جس سے نائیٹی کے اوپر سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس خوبصورت حسینہ نے سرخ رنگ کی نائیٹی پہن رکھی ہے۔

تانیہ کے بال ابھی تک گیلے تھے، اس سے پہلے کہ وہ اپنے بالوں کو سکھا کر ان میں کنگھا کرتی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ تانیہ جانتی تھی کہ اس وقت کون ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اس نے شیشے کے سامنے کھڑے کھڑے ہی اونچی آواز میں کہا کم اِن۔ تانیہ کی پیٹھ پیچھے دروازہ آہستہ آہستہ کھلا اور پھر اسی طرح آہستگی کے ساتھ بند ہوگیا۔ پھر تانیہ کو ہلکے ہلکے قدموں کی آواز سنائی دی ، وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اکبر لوکاٹی ہی ہے۔ پھر جیسے ہی آنے والا شخص مزید آگے بڑھا تانیہ کو شیشے میں اسکا چہرہ دکھائی دیا۔ یہ اکبر لوکاٹی ہی تھا۔ تانیہ پر نظر پڑتے ہی لوکاٹی جیسے پتھر کا ہوگیا تھا، تانیہ نے بھی ایک دم سے پیچھے مڑ کے دیکھا اور حیرانگی کا ڈرامہ کرتے ہوئے بولی ارے لوکاٹی صاحب آپ۔۔۔ میں سمجھی ویٹر ہوگا۔ یہ کہ کر تانیہ آگے بڑھی اور لوکاٹی کو پاس پڑے صوف پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ذرا شرمندہ ہوتے ہوئے بولی کہ میں نے سوچا اب آپ نہیں آئیں گے کافی رات ہوگئی تھی اس لیے میں سونے کی تیاری کر رہی تھی۔ اسی لیے نائٹ ڈریس پہن لیا تھا، آپ بیٹھیں میں بس 5 منٹ میں چینج کر کے آئی۔ لوکاٹی بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اتنی حسین و جمیل لڑکی جسکو وہ کچھ دیر پہلے دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اسکے جسم کے ابھار کیسے ہونگے، وہ اب اسکے سامنے نائٹی پہنے کھڑی ہے اور لوکاٹی اسکو کپڑے چینج کرنے دے۔ لوکاٹی جو صوفے پر بیٹھ رہا تھا انجلی یعنیی تانیہ کی بات سنتے ہی دوبارہ سے کھڑا ہوگیا اور مسکراتے ہوئے بولا ارے نہیں نہیں انجلی جی، یہ ظلم مت کیجیے گا، اس نائٹ ڈریس میں آپ کسی حسن کی دیوی سے کم حسین نہیں لگ رہیں، ہمیں بھی یہ اعزاز بخشیں کہ ہم آپکے اس خوبصورت سراپے کا نظارہ کر کے اپنی آنکھوں کو خیرہ کر سکیں۔ انجلی پھر سے تھوڑا ہچکچائی اور بولی وہ اصل میں مجھے عجیب سا لگ رہا ہے اس حلیے میں آپکے سامنے آنا۔۔۔ اسکی ہچکچاہٹ دیکھتے ہوئے لوکاٹی بولا آپ حکم کریں ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ پھر مسکراتے ہوئے بولا انجلی جی اب ایسا بھی کیا شرمانا ہم سے۔ ہم آپکو کھا تھوڑی ہی جائیں گے بس چند لمحے آپکے پاس بیٹھ کر آپکو جاننے کی کوشش کریں گے، کچھ اپنے بارے میں بتائیں گے کچھ ہنسی مذاق کی بات کریں گے، پھر ہم اپنے کمرے میں واپس کیونکہ آپ بھی کافی تھکی ہوئی معلوم ہورہی ہیں۔

اب انجلی تھوڑی نارمل ہوئی اور بولی اچھا چلیں آپ بیٹھیں میں نےبہت لمبا سفر کیا ہے اور کافی بھوک لگی ہے، کیا آپ میرے ساتھ کچھ کھانا پسند کریں گے؟؟ لوکاٹی جو اب انجلی کے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اور صوفے کے کارنر سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکا تھا بولا کسی بھی چیز کی طلب نہیں ما سوائے اگر آپکے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے ایک جام مل جائے تومزہ آجائے گا۔ یہ بات کرتے ہوئے لوکاٹی کی نظریں انجلی کی نائیٹی کو پھاڑ کر اسکےجسم پر موجود برا کو بھی ہٹا کر اسکے مموں کو دیکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں اور انجلی نے بھی اسکی نظروں کی گرمی کو اپنے مموں پر محسوس کر لیا تھا مگر اس نے اس پر کوئی رسپانس نہیں دیا اور محض لوکاٹی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اٹھ کر ساتھ موجود فریج میں سے اپنے لیے کوک کا ایک ٹِن پیک اور ساتھ کچھ بسکٹ اٹھا لیے جب کہ لوکاٹی کے لیے ایک جام بنا کر اسکو پیش کر دیا۔ انجلی جب لوکاٹی کو جام پیش کرنے کے لیے تھوڑی سی نیچے جھکی تو اسکے نازک سے برا نے انجلی کے 36 سائز کے وزنی مموں کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا اور اسکے ممے کافی حد تک برا سے باہر نکل آئے۔ لوکاٹی کے لیے تو یہ نظارہ کسی جام سے بھی زیادہ نشیلہ تھا ، اسکا دل کیا کہ بڑھ کر ان خوبصورت مموں پر اپنے ہاتھ رکھ دے اور ساری دنیا کو بھول جائے مگر وہ اس کام میں اتنی جلدی نہیں کرنا چاہتا تھا، انجلی کے برا سے باہر نکلے ہوئے مموں پر نظریں جمائے اس نے انجلی سے جام پکڑا اور صوفے پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

انجلی واپس کھڑی ہوئی اور ایک شیطانی مسکراہٹ سے لوکاٹی کو دیکھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر انکو تھوڑا سا ہلا کر صحیح کیا تاکہ وہ دوبارہ سے برا کے اندر جا کر لوکاٹی کی نظروں سے چھپ سکیں اور اسکو ترسا سکیں۔ یہ حرکت کرنے کے بعد انجلی دوبارہ جا کر اپنے صوفے پر بیٹھ گئی اور کوک کا ٹِن پیک اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ تھوڑی سی کوک پینے کے بعد انجلی نے آہستہ آہستہ بسکٹ کھانے شروع کیے اور ساتھ ساتھ لوکاٹی سے باتیں بھی کرتی جارہی تھی۔ انجلی اب ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر بیٹھی تھی جس کی وجہ سے اسکی ایک ٹانگ کی تھائی قریب قریب ساری ہی ننگی تھی اور اسکی یہ گوری گوری تھائی لوکاٹی کی پینٹ میں موجود لن کو سر اٹھانے پر مجبور کر رہی تھی اور کسی حد تک اسکی پینٹ کا ابھار بھی واضح ہونا شروع ہوگیا تھا۔ باتیں کرتے کرتے انجلی نے اپنا سرسری سا تعارف کروایا اور اسکے بعد لوکاٹی سے پاکیشا اور خصوصا اسکے صوبے ہولستان کے بارے میں پوچھنے لگی۔ لوکاٹی جو وہاں کا وزیرِ اعلی تھا اس نے بھی اپنے علاقے کی مشہور چیزوں کے بارے میں بتایا، وہاں کے خوبصورت علاقے اور وہاں کے رہن سہن کے بارے میں بتایا۔ اس دوران انجلی اپنی کوک اور لوکاٹی اپنا جام ختم کر چکا تھا۔
انجلی نے جب دیکھا کہ لوکاٹی کا جام ختم ہوگیا ہے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اسکے ہاتھ سے جام پکڑ کر دوبارہ فریج کے پاس گئی، وہاں جا کر ایک جام اور بنایا، اس میں آئس کیوبز ڈالے اور دوبارہ سے لوکاٹی کے سامنے آکر اسکو جام پیش کیا۔ اس دوران انجلی ایک بار پھر جھکی اور پہلے کی طرح پھر سے اسکے ممے نازک سے برا سے نکلنے کی ضد کرنے لگے، کافی حد تک ممے باہر نکل بھی آئے جس پر لوکاٹی کی نظریں گڑھ چکی تھیں مگر انجلی کے نپلز ابھی تک برا کے اندر ہی تھے جنکو دیکھنے کے لیے لوکاٹی بے تاب ہورہا تھا۔ لوکاٹی نے انجلی کے ہاتھ سے جام پکڑا تو انجلی ایک بار پھر سے سیدھی ہوئی اور دوبارہ سے اپنے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر انکو ہلکا سا دبایا تاکہ ممے دوبارہ برا کے اندر جا سکیں۔ اس دوران لوکاٹی نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی نظریں انجلی کے ان خوبصورت مموں سے نہیں ہٹائیں تھیں۔ انجلی نے بھی ایک شرمیلی سی مسکراہٹ سے لوکاٹی کو دیکھا اور بولی وہ اصل میں نائٹ ڈریس پہن رکھا ہے نا تو لوز ہونے کی وجہ سے بریسٹ باہر نکلتے ہیں۔ انجلی کے منہ سے اتنی بولڈ بات سن کر تو لوکاٹی کے لن نے پوری طرح اپنا سر اٹھا لیا جسکو انجلی نے بھی دیکھ لیا تھا۔ پھر انجلی واپس اپنی سیٹ پر جانے لگی مگر پھر رک گئی اور بولی اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں یہیں بیٹھ جاوں؟؟؟ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں۔ لوکاٹی فورا سیدھا ہوگیا اور انجلی کو اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی۔ انجلی بڑے ہی نازک انداز سے لوکاٹی کی دائیں سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ انجلی نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر صوفے پر موڑ کر رکھ لی جب کہ دوسری ٹانگ نیچے ہی رہی، ٹانگ فولڈ کرنے پر اب انجلی کی بائیں ٹانگ کا کچھ حصہ لوکاٹی کی دائیں ٹانگ اور تھائی کے اوپر تھا۔ لوکاٹی بھی اب اندازہ لگا چکا تھا کہ انجلی ایک بولڈ لڑکی ہے جس پر چانس مارنے میں کوئی حرج نہیں، اسی لیے اس نے فوری طور اپنا اپنا جام بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا اور اپنا دایاں ہاتھ ہولے سے انجلی کی ٹانگ پر رکھ دیا۔ نرم و ملائم مخملی ٹانگ پر ہاتھ رکھا تو لوکاٹی کے پورے بدن میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا۔ اتنی ملائم بالوں سے پاک اور گرم تھائی پر ہاتھ رکھتے ہی لوکاٹی جیسے میچور آدمی کو معلوم ہوگیا تھا کہ انجلی میں بہت گرمی ہے جسکو کچھ ہی دیر میں لوکاٹی کا لن نکلانے کی کوشش کرے گا۔

انجلی نے بھی اپنا ایک ہاتھ لوکاٹی کے کندھے پر رکھ دیا اور بولی لیکن میں نے سنا ہے کہ آپکے صوبے میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی بہت چل رہی ہیں۔ لوکاٹی نے کن اکھیوں سے انجلی کو دیکھا اور بولالگتا ہے آپکو سیاست میں کافی انٹرسٹ ہے۔ انجلی مسکرائی اور بولی یہ تو کوئی خاص بات نہیں، روازنہ کے نیوز بلیٹن میں پاکیشا میں ہونے والی علیحدگی پسند تحریکوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اور اس میں سب سے زیادہ ہولستان کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ بلکہ میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وہاں کے لوگ ہندوستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں؟؟؟

اب کی بار لوکاٹی نے تھوڑا سیریس موڈ بناتے ہوئے کہا کہ ہاں تم ٹھیک کہ رہی ہو ، جب ہماری حکومت ہمارے ساتھ نا انصافی کرے گی ہمارے حقوق ہمیں نہیں دے گی تو ہمارے لوگ اپنے حقوق لینے کے لیے احتجاج تو کریں گے ہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ لوکاٹی کی بات مکمل ہونے پر انجلی نے پوچھا مگر آپ تو وہاں کے وزیرِ اعلی ہیں، آپ کیوں نہیں حل کرتے لوگوں کے مسائل۔ بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ آپ خود بھی ہندوستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں اور وہاں ہونے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینے میں بھی آپکا اہم کردار ہے۔ یہ کہتے ہوئے انجلی کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی۔ لوکاٹی نے کچھ دیر توقف کیا اور انجلی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا رہا، پھر بولا یہ بات تو کسی نیوز بلیٹن میں نہیں بتائی گئی۔ اس پر انجلی نے ایک ہلکہ سا قہقہہ لگایا اور بولی ٹینا کسی نیوز بلیٹن سے کم ہے کیا؟ کل ہم دونوں انکل وشال کی کچھ تصویریں دیکھ رہے تھے تو اس میں آپکی تصویر بھی آئی اور میں نے جب ٹینا سے آپکے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے تفصیل سے یہ باتیں بتائیں تھیں۔ بلکہ اسکا کہنا تو تھا کہ آپکا یہاں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے ہماری حکومت سے بات چیت کر سکیں اور انکے مسائل حل کرنے کے لیے ہندوستان کی حکومت آپکی مدد کرے۔

لوکاٹی نے اب کی بار مسکراتے ہوئے کہا کہ اپنے لوگوں کے حقوق کی بات کرنا غلط ہے کیا؟؟؟ اس پر انجلی بولی، ارنے نہیں میں نے ایسا کب کہا۔ بلکہ میں تو آپ سے متاثر ہوئی ہوں کہ اپنے لوگوں کو حقوق دلوانے کے لیے آپ اپنے ملک کے کرپٹ حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہیں ، اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایک وزیرِ اعلی کو یہی کرنا چاہیے کہ اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے کسی بھی حد تک جائے۔ اگر آپ اپنے لوگوں کو انکے حقوق نہیں دلوا سکتے تو آپکو کوئی حق نہیں کے آپ اس صوبے پر حکمرانی کریں۔ اب لوکاٹی تھوڑا نارمل ہوا، کچھ اس پر ہلکا ہلکا شراب کا نشہ بھی طاری ہوگیا تھا، دوسرا جام بھی وہ خالی کر چکا تھا۔ وہ اب انجلی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ میں ان تحریکوں کی پشت پناہی کرتا ہوں۔ اور میری پوری کوشش ہوگی کہ میں ہولستان کو پاکیشا سے علیحدہ کر کے ایک آزاد ریاست بنا سکوں، یا پھر کم سے کم ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر سکوں۔ اور اس کوشش میں کافی حد تک میں کامیاب بھی ہوچکا ہوں۔ میری عوام میرے ساتھ ہے، بس پاکیشا کی آرمی میرے راستے کا پتھر ہے۔ اگر ہندوستان کی حکومت اور آرمی مل کر پاکیشا کی آرمی کو دہشت گردی اور طالبان کے خلاف الجھائے رکھے اور پاکیشا کی آرمی کی توجہ ہولستان سے ہٹ جائے تو میں کسی بھی وقت یہ اعلان کر سکتا ہوں اور تب فوری طور پر ہندوستان کی حکومت ہماری مدد کے لیے اپنی افواج کو ہولستان میں داخل کر دے گی پھر پاکیشا بے بس ہوگا وہ ہمارے خلاف کچھ نہیں کر سکے گا۔ اور اس کام میں امریکہ اور اسرائیل بھی ہمارے ساتھ ہیں، جیسے ہی میں اعلان کروں گا، سب سے پہلے اسرائیل اور پھر امریکہ ہماری آزاد حیثیت کو تسلیم کر کے عالمی سطح پر ہماری آزادی کو قانونی حیثیت دے دیں گے۔

لوکاٹی کی یہ باتیں سن کر انجلی اندر ہی اندر اسکی ماں بہن ایک کر رہی تھی مگر چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس نے لوکاٹی کی تعریف کی اور کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو تاریخ میں آپکو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، گاندھی جی اور جناح کے ساتھ آپکا نام بھی آئے گا کہ آپ نے بھی اپنے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف اکیلے ہی آواز اٹھائی اور انکو انکے حقوق دلوانے کے لیے اپنی جان تک کو خطرے میں ڈال دیا۔

انجلی کی یہ بات سن کر لوکاٹی مسکرایا اور بولا اجی ہماری جان تو اس وقت آپ میں ہیں۔ یہ سن کر انجلی مسکرائی اور اپنی جگہ سے اٹھ کر دوبارہ سے لوکاٹی کے ہاتھ سے خالی جام پکڑا اور ایک نیا جام بنا کر لے آئی، مگر اس بار اس نے لوکاٹی کے آگے اپنا خالی ہاتھ بڑھایا اور بولی آئیں ذرا باہر چلتے ہیں ٹیریس پر۔ لوکاٹی نے فورا انجلی کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا، انجلی اب لوکاٹی کو لیکر ٹیریس پر چلی گئی ۔ یہ چھوٹا سا ایک ٹیریس تھا اور اس سے گوا کے بیچ کا منظر بہت واضح نظر آتا تھا مگر رات ہونے کے باعث باہر مکمل اندھیرا تھا، بیچ خالی تھا اور پانی کی سفید لہریں مدھم مدھم دکھائی دے رہی تھیں۔ سطح سمندر سے اوپر آسمان پر آدھا چاند بھی بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور ٹیریس پر بھی محض چاند کی ہی روشنی تھی۔ ہوا میں ہلکی ہلکی نمی تھی اور کسی بھی نوجوان جوڑے کے لیے ایسے ٹیریس پر اکٹھے وقت گزارنا ایک بہت ہی ایکسائٹڈ چیز ہو سکتا ہے۔ مگر اس وقت یہاں کوئی نوجوان جوڑا نہیں تھا۔ دونوں میں 2 نسلوں کا فرق تھا۔ ایک طرف 20 سالہ چھوئی موئی خوبصورت انجلی تو دوسری طرف اسکے دادا کی عمر کا ایک 70 سالہ بوڑھا جسکو اس وقت جوان ہونے کا شوق چڑھا جا رہا تھا۔

ٹیریس پر پہنچ کر انجلی نے اپنے ہاتھ سے ایک جام لوکاٹی کو پلایا جو کسی بچے کی طرح انجلی کے ہاتھوں سے جام پینے لگا۔ کچھ تو اسکو پہلے چڑھ چکی تھی کچھ انجلی کے سیکسی بدن نے اس پر نشہ طاری کر دیا تھا اور اب پھر سے ایک جام ایک ہی سانس میں انجلی کے ہاتھوں سے پی کر لوکاٹی مکمل ٹُن ہوچکا تھا۔ جام ختم ہونے کے بعد انجلی نے خالی گلاس ایک سائیڈ پر رکھ دیا اور خود ٹیریس پر باہر والی سائیڈ پر موجود جنگلے پر ہاتھ رکھ کر جھک کر کھڑی ہوگئی۔ جھک کر کھڑی ہونے سے انجلی کی نیٹ کی نائٹی تھوڑی ٹائٹ ہوگئی اور اسکے چوتڑوں کے گرد نیٹ تھوڑی کھل گئی۔ انجلی کی 32 سائز کے چوتڑ جب جھکنے کی وجہ سے باہر کو نکلے تو چوتڑوں کے گوشت کی پھاڑیاں اسکی ٹانگوں کے اوپر علیحدہ ہی نظر آرہی تھیں۔ انجلی نے ہائی پینسل ہیل پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ سیکسی لگ ری تھی۔ لوکاٹی بھی انجلی کے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا اور اپنا چہرہ انجلی کی طرف کر لیا۔ ایک بار پھر انجلی کے ممے اسکی نائیٹی سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے اور لوکاٹی اپنی نظریں ان پر جمائے ہوئے تھے۔

انجلی سمجھ گئی تھی کہ اب لوکاٹی بہت گرم ہوچکا ہے اور اب اسکو زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا۔ مگر پھر بھی انجلی نے تھوڑا مزید طول دینے کے لیے لوکاٹی سے اسکی فیملی کے بارے میں پوچھا تو لوکاٹی نے بتایا کہ اسکی ایک بیٹی ہے جو لگ بھگ 30 سال کی ہے۔ اسکے علاوہ 2 بیٹے ہیں جو لندن میں ہوتے ہیں۔ انجلی نے لوکاٹی سے اسکی بیوی کے بارے میں پوچھا تو لوکاٹی نے سرد آہ بھر کر کہا اسکو گزرے 25 برس ہو چلے ہیں۔ اس پر انجلی نے افسوس کرنے کی بجائے مسکرا کر لوکاٹی کی طرف دیکھا اور بولی پھر آپ گزارا کیسے کرتے ہیں؟؟؟ انجلی کی ذو معنی مسکراہٹ دیکھ کر لوکاٹی کے چہرے پر بھی ایک شیطانی مسکراہٹ آئی اور بولا دنیا حسین لڑکیوں سے بھری پڑی ہے۔ اور جہاں دولت کی چمک دمک ہو وہاں ہر کوئی میرے بستر کو گرم کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ تانیہ کے کندھے پر رکھ دیا اور ہولے ہولے اس پر ہاتھ پھیر کر انجلی کے مخملی بدن کا لمس محسوس کرنے لگا۔ انجلی نے بھی اسکو روکا نہیں اور اسکو فوری جواب دیا، مگر میں ان لڑکیوں میں سے ہرگز نہیں جسے کسی کی دولت متاثر کر دے۔ میرے پاپا کے پاس اتنا پیسا ہے کو وہ کسی بھی بڑے سے بڑے سیاستدان کو خرید سکتے ہیں۔ میں اگر اس وقت آپ کے ساتھ ہوں تو محض آپکی متاثر کن شخصیت کی وجہ سے اور آپکا اپنے لوگوں کے درد کو محسوس کرنا مجھے متاثر کر گیا۔
انجلی کی اس بات کے دوران لوکاٹی کا ہاتھ انجلی کے کندھے سے ہوتے ہوئے اسکی کمر تک پہنچ چکا تھا۔ انجلی کی لچکیلی بل کھاتی کمر نے ہلکی سی انگڑائی لی مگر اس نے اس بات کا برا نہیں منایا، جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اب اکبر لوکاٹی انجلی کے بالکل ساتھ جڑ کر کھڑا ہوچکا تھا اور وہ بھی انجلی کی طرح اپنا ایک بازو جنگلے پر ٹکائیے جھک گیا تھا مگر اسکا داہنا ہاتھ اب انجلی کے چوتڑوں تک پہنچ چکا تھا جس پر انجلی نے نشیلی آنکھوں کے ساتھ لوکاٹی کی طرف دیکھا جو حوس سے بھری پڑی تھیں، انجلی نے کہا لوکاٹی صاحب آپ تو بہت رومانٹک ہورہے ہیں۔ لوکاٹی جسکا ہاتھ اب انجلی کے چوتڑوں کو چھو رہا تھا اسکا بائیں چوتڑ ہلکا سا دبا کر بولا اتنی سندر اور جوان حسینہ ساتھ ہو اور مرد رومانٹک نہ ہو تو لعنت ہے ایسی مردانگی پر۔ یہ سن کر انجلی نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور سیدھی ہوکر کھڑی ہوگئی۔ قہقہہ لگاتے ہوئے وہ تھوڑا سا پیچھے کو بھی جھکی اور پھر واپس سیدھی کھڑی ہوکر لوکاٹی کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا جو اب خود بھی سیدھا ہوکر کھڑا ہوچکا تھا۔

انجلی نے لوکاٹی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پیار سے دیکھا اور بولی اس عمر میں بھی آپکی مردانگی کو داد دینا پڑے گی۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا کہ کر انجلی کچھ دیر کو رکی تو لوکاٹی جو شراب پی پی کر نشے سے چور تھا بولا مگر کیا؟؟ آگے بھی بولو نہ کچھ۔ ۔ ۔ انجلی اب دوبارہ سے ٹیریس کے جنگلے پر بازو رکھ کر جھک کر کھڑی ہوگئی اور بولی خالی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا نہ، مردانگی کا ثبوت بھی تو دینا پڑتا ہے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے انجلی کی آنکھیں لوکاٹی کی پینٹ میں بنے ہوئے ابھار پر تھیں۔ یہ بات سن کر لوکاٹی انجلی کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا اور اپنے ہاتھ اسکی کمر پر رکھ کر بالکل ساتھ جڑ گیا۔ ویسے تو انجلی کا قد لوکاٹی سے کافی چھوٹا تھا مگر ہائی ہیل پہننے کی وجہ سے اب انجلی کے چوتڑ اور لوکاٹی کا لن آپس میں مل رہے تھے۔ انجلی کو بھی اپنی گانڈ پر لوکاٹی کا لن محسوس ہوا تو اس نے ہلکی سی آہ ہ ہ کی آواز نکالی اور اپنی گانڈ کو ہولے سے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے لوکاٹی کے لن کے ساتھ اور بھی ٹائٹ کر لیا۔ لوکاٹی اب ہولے ہولے سے اپنے لن کو انجلی کی گانڈ کے ساتھ رگڑ رہا تھا اور ساتھ میں اسکی کمر پر بھی ہاتھ پھیر رہا تھا۔

انجلی بھی لوکاٹی کو پورا پورا رسپانس دے رہی تھی۔ لوکاٹی نے کچھ دیر اپنا لن انجلی کی گانڈ پر رگڑنے کے بعد پیچھے ہٹ کر اپنے دونوں ہاتھ انجلی کے چوتڑوں پر رکھ دیے۔ اسکے بڑے بڑے ہاتھوں میں انجلی کے چوتڑ بہت آرام سے آگئے جنہیں وہ ہولے ہولے دبانے لگا اور انجلی گانڈ ہلا ہلا کر آہ آہ آوچ کی آوازیں نکالنے لگی۔ انجلی کی باہر کو نکلی ہوئی گانڈ بہت سیکسی لگ رہی تھی اور لوکاٹی اسکا بھرپور مزہ لے رہا تھا۔ کافی عرصے بعد اسکو کوئی اتنی جوان اور حسین لڑکی میسر آئی تھی سیکس کے لیے ورنہ اس سے پہلے تو وہ کال گرلز پر ہی گزارہ کر رہا تھا۔ لوکاٹی نے اب انجلی کے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اپنا ایک ہاتھ اسکی بائیں ٹانگ پر پھیرنا شروع کر دیا تھا۔ اور پھر اس نے آہستہ آہستہ بائیں ٹانگ سے انجلی کی باریک نائٹی کو بھی ہٹانا شروع کر دیا، جو پہلے ہی آدھی تھائی ننگی تھی اب پوری تھائی ننگی ہوچکی تھی اور لوکاٹی اس پر اپنا ہاتھ پھیر پھیر کر انجلی کے جسم سے گرمی حاصل کر رہا تھا۔ لوکاٹی کا ہاتھ انجلی کی نرم و ملائم گوشت سے بھری ہوئی تھائی سے ہوتا ہوا آہستہ آہستہ اسکے بائیں چوتڑ تک پہنچ چکا تھا جہاں سے وہ اب نائٹی ہٹا چکا تھا اور چوتڑ ننگا تھا۔ لوکاٹی نے مٹھی بھر کر انجلی کے بائیں چوتڑ کو زور سے دبایا تو انجلی کی ایک ہلکی سی سسکاری نکلی اور اس نے اپنی گانڈ اور بھی باہر نکال دی تھی۔ اب انجلی اپنے بازوں کے ساتھ ساتھ جنگلے کے اوپر اس حد تک جھک چکی تھی کے اسکا سینا بھی جنگلے کو چھو رہا تھا اور اسکے 36 سائز کے خوبصورت گول گول ممے اسکی نائٹی سے نکلنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ مگر لوکاٹی کی ساری توجہ اس وقت انجلی کی چوتڑوں پر تھی جہاں وہ اب دائیں ٹانگ سے بھی نائٹی کو اوپر اٹھا کر انجلی کی کمر تک موڑ چکا تھا اور انجلی کے دونوں چوتڑ اب بالکل ننگے تھے ۔ محض چوتڑوں کی لائن میں انجلی کی پینٹی کی ایک باریک سی سٹرپ تھی جو اسکی گانڈ کے سوراخ کو چھپائے ہوئے تھی اسکے علاوہ چوتڑوں کی دونوں پھاڑیاں اب لوکاٹی کے ہاتھ میں تھیں جنکو وہ زور زور سے اپنے ہاتھوں سے دبانے کے بعد اب اپنے گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا تھا اور اپنی زبان انجلی کے چوتڑوں پر پھیر رہا تھا۔ انجلی بھی لوکاٹی کی زبان کا مزہ پا کر بے خود ہورہی تھی اور اپنے چوتڑوں کو ہولے ہولے گول دائرے میں گھما کر سسکیاں بھر رہی تھی۔

کچھ دیر انجلی کی کے چوتڑوں پر زبان پھیرنے کے بعد اب لوکاٹی نے انجلی کے دونوں چوتڑ اپنے ہاتھوں سے پکڑے اور انکو تھوڑا سائیڈ پر کر کے کھول دیا اور اب اپنی زبان گانڈ کی لائن میں رکھ کر پینٹی کے اوپر سے ہی اسکو چاٹںے لگا۔ چوتڑوں کی لائن میں زبان کا مزہ پاکر انجلی کی چوت بھی اب مچلنے لگی تھی اور اس سے نکلنے والے گاڑھے پانی نے اب انجلی کی پینٹی کو بھی گیلا کر دیا تھا۔ کچھ دیر زبان پھیرنے کے بعد لوکاٹی نے انجلی کی پینٹی کی سٹریپ کو پکڑا اور اسے کھینچ کر گانڈ کی لائن سے باہر نکال کر دائیں چوتڑ کی طرف موڑ دیا۔ نیچے انجلی کے گورے گورے چوتڑوں کے بیچ کی لائن میں اب انجلی کی قدرے کالی گانڈ اور اسکا چھوٹا ساگول سوراخ لوکاٹی کے سامنے تھا جس پر وہ فورا ہی اپنی زبان رکھ چکا تھا اور تیزی کے ساتھ اپنی زبان کی نوک سے انجلی کی گانڈ کو چاٹ رہا تھا۔ لوکاٹی کی اس حرکت نے انجلی کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اور وہ مسلسل آہ ، آہ۔۔۔۔ اور چاٹو اس کو، کھاجاو میری گانڈ کو ۔۔۔۔ اندر تک زبان پھیرو۔ اف۔ اف آہ۔ آہ آہ۔ ام ام ام ۔۔۔۔ آوچ جیسی آوازیں نکال رہی تھی۔

لوکاٹی بھی مگن ہوکر انجلی کی گانڈ چاٹنے میں مصروف تھا، انجلی کی گانڈ سے آنے والی بو اور اسکے جسم سے آنے والی عرقِ گلاب کی مہک لوکاٹی کو اپنا دیوانہ بنا رہی تھی۔ لوکاٹی نے اپنا ایک ہاتھ انجلی کے چوتڑوں کے نیچلے حصے پر رکھا اور اس پر ہلکا سا دباو ڈالا تو انجلی سمجھ گئی اور فوری اپنی ٹانگیں کھول دیں۔ ٹانگیں کھولنے سے نہ صرف انجلی کی گانڈ کے سوراخ تک لوکاٹی کی زبان پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے پہنچ رہی تھی بلکہ اب لوکاٹی کے دائیں ہاتھ کی 2 انگلیاں چوتڑوں کے نیچے سے ہوکر انجلی کی چوت تک پہنچ چکی تھیں جہاں سے وہ انجلی کی پینٹی ہٹا کر اسکی چوت پر انلگیاں رکھ چکا تھا۔ انجلی کی چوت سے نکلنے والے پانی نے لوکاٹی کو بتا دیا تھا کہ انجلی چدنے کے لیے بالکل تیار ہے ۔ ایک عرصے سے انجلی نے چدائی نہیں کروائی تھی آج وہ لوکاٹی کا لن لینے کے لیے بیتب ہورہی تھی تبھی اسکی چوت ڈھیر سارا پانی چھوڑ کر اپنی بیتابی کے بارے میں لوکاٹی کو آگاہ کر رہی تھی۔ مگر لوکاٹی ابھی انجلی کو مزید تڑپانے کے موڈ میں تھا تبھی اس نے انجلی کی گانڈ کو چاٹنا جاری رکھا۔

انجلی اب اپنا سارا وزن جنگلے پر ڈالے جھکی ہوئی تھی اور اپنی ٹانگیں کھولیں گانڈ باہر نکالے لوکاٹی کی زبان سے اپنی گانڈ چٹوانے میں مصروف تھی۔ ساتھ ساتھ انجلی کے منہ سے نکلنے والی مزے کی سسکاریاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی تھیں۔ کھلے آسمان تلے چاند کی روشنی میں 70 سالہ لوکاٹی اور 20 سالہ انجلی فائیو سٹار ہوٹل میں سیکس کا مزہ اٹھا رہے تھے۔ بیچ بیچ میں لوکاٹی انجلی کے چوتڑوں کو کھول کر اپنے چہرے کا زیادہ تر حصہ انجلی کے چوتڑوں میں پھنسا کر انجلی کی گانڈ کے سوراخ کو اپنے دانتوں سے بھی پکڑتا جس پر انجلی کا پورا جسم کانپنے لگتا اور اسکے گوشت سے بھرے چوتڑ ایک دم ٹائٹ ہوجاتے۔ لوکاٹی کی یہ حرکت انجلی کی سیکس کی طلب کو اسکی آخری حدوں تک چھو رہی تھی۔ اور اسکی چوت اب فوری طور پر ایک لن کی طلب کر رہی تھی مگر لوکاٹی انجلی کی کنواری گانڈ کو چھوڑنے پر تیا ر نہ تھا۔
آخر انجلی نے خود ہی سسکیوں کے ساتھ کہا جان بس بھی کرو اب میری چوت کی پیاس بجھاو نا۔ اتنا سننا تھا کہ لوکاٹی اب اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اپنی پینٹ کی زپ کھول کر پینٹ گھٹنوں تک نیچے اتار دی۔ پینٹ اترتے ہی لوکاٹی کا 7 انچ کا لن لہراتا ہوا باہر نکلا۔ گوکہ اس میں جوان لن والی سختی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ اس قابل ضرور تھا کہ وہ کسی بھی جوان پھدی کی پیاس بجھا سکتا تھا۔ لن کو باہرنکالنے کے بعد لوکاٹی نے اپنے لن پر تھوک پھینکا اور اسکو لن کی ٹوپی پر مسل کر لن کو 2، 3 جھٹکے لگائے جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے اس نے انجلی کی چوت کو پکڑ رکھا تھا اور اپنی 2 انگلیاں چوت میں ڈالی ہوئی تھیں۔ اب لوکاٹی نے انجلی کی چوت سے اپنی انگلیاں نکالیاں اور اسکی کمر پر ہلکا سا دباو ڈالا تو انجلی نے اپنی گانڈ اور بھی باہر نکال دی اور کمر کو مزید نیچے جھکا دیا۔ اب لوکاٹی نے اپنے لن کی ٹوپی کو پکڑا اور انجلی کے چوتڑوں کے نیچے سے لیجاتا ہوا اسکی چوت کے سوراخ پر فِٹ کیا۔ اپنی چوت کے سوراخ پر لن کی ٹوپی کو محسوس کر کے تانیہ نے ایک زور کی سسکی لی اور مدہوش ہوتی ہوئی بولی ڈال دو جان اسکو میری چوت میں۔ پھاڑ دو میری چو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ انجلی کی بات پوری ہوتی لوکاٹی نے ایک زور دار دھکا لگایا اور اسکے لن کی ٹوپی انجلی کی چکنی چوت میں با آسانی جگہ بنا چکی تھی۔ انجلی کی ٹانگیں اب بھی کھلی ہوئیں تھیں مگر اسکی چوت ایک دم ٹائٹ ہوگئی تھی، ایک عرصے بعد چوت نے جب لن کی ٹوپی کو اپنے اند پایا تو اسکو زور سے جکڑ لیا تھا۔ لوکاٹی کو انجلی کی چوت کی پکڑ اور اسکی چکناہٹ نے بہت مزہ دیا، کچھ سیکینڈ توقف کے بعد لوکاٹی نے اپنے لن کی ٹوپی کو تھوڑا سا واپس کھینچا تو انجلی نے بھی اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ 70 سالہ بوڑھے کا لن ہے اور اس میں اتنی سختی نہیں کہ یہ انجلی جیسی جوان لڑکی کی ٹائٹ چوت میں با آسانی جا سکے، اور اگر انجلی اپنی چوت کو مزید جکڑے رکھے گی تو پھر تو یہ لن اندر جا ہی نہیں سکتا تھا اسی لیے انجلی نے فوری اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیا تاکہ لن چوت کی گہرائی تک اتر سکے۔

اب لوکاٹی نے ایک اور دھکا لگایا مگر اب کی بار بھی محض ٹوپی ہی چوت کے اندر جا سکی۔ پھر لوکاٹی نے ایک بار پھر سے زور دار دھکا لگایا تو ٹوپی کے ساتھ لن کا کچھ حصہ انجلی کی چوت میں داخل ہوگیا جس سے انجلی کی ایک سسکی نکلی ۔ انجلی نے اپنی چوت کو مکمل ڈھیلا چھوڑا ہوا تھا اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوکاٹی نے ایک بار پھر لن کو تھوڑا سا باہر نکال کر ایک زور دار دھکا لگایا تو آدھے سے زیادہ لن انجلی کی چکنی چوت میں پھسلتا چلا گیا۔ ایک بار پھر انجلی کی سسکاری نکلی اور اب کی بار اس نے لن کو دوبارہ سے جکڑ لیا تھا جیسے کبھی چھوڑنے کا ارادہ نہ ہو۔ اب کی بار لوکاٹی نے پھر سے کچھ دیر توقف کیا۔ انجلی کی چوت کی جکڑ لن پر بہت مضبوط تھی جسکا لوکاٹی کو بہت مزہ آرہا تھا۔ بہت عرصے بعد ایسی ٹائٹ اور چکنی چوت لوکاٹی کو نصیب ہوئی تھی۔ وہ اسکا بھرپور مزہ اٹھانا چاہتا تھا۔ کچھ دیر توقف کے بعد لوکاٹی نے پھر سے گھسا مارنے کے لیے لن کو تھوڑا باہر نکالنا چاہا تو اسکو ناکامی ہوئی کیونکہ انجلی کی چوت کی پکڑ بہت مضبوط تھی لوکاٹی کے لوڑے پر۔ مگر لوکاٹی نے مزید زور کے ساتھ لن کو باہر کھینچا تو چوت کی چکناہٹ کی وجہ سے لن تھوڑا سا باہر تو آیا مگر اس نے انجلی کی چوت کی دیواروں کو بری طرح رگڑ دیا تھا جسکا انجلی کو بہت مزہ آیا۔ اب دوبارہ سے اندر گھسا لگنے لگا تھا اسی لیے انجلی نے پھر سے اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑا اور ایک زور دار جھٹکے کی بدولت لوکاٹی کا مکمل 7 انچ کا لن انجلی کی چوت کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا۔

اب لوکاٹی نے بغیر رکے انجلی کی چکنی چوت میں دھکے مارنے شروع کر دیے تھے ، انجلی کے چوتڑ جب لوکاٹی کے زیرِ ناف حصے سے ٹکراتے تو رات کی خاموشی میں دھپ دھپ کی آواز پیدا ہوتی جس سے چاندنی رات کا یہ ماحول اور بھی زیادہ سیکسی ہورہا تھا اور لوکاٹی کی چودنے کی رفتار بھی تیز رہ رہی تھی۔ انجلی لوکاٹی کے ہر دھکے کو انجوائے کر رہی تھی، جیسے لی لوکاٹی چوت میں دھکا مارنے لگتا انجلی اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیتی جسکی وجہ سے لن چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھاتا ہوا بڑی مشکل سے اندر جاتا، مگر اس سے فائدہ یہ ہوا کہ لوکاٹی اور انجلی دونوں ہی اس چودائی کو بہت زیادہ انجوائے کر رہے تھے اور جب لوکاٹی نے لن باہر نکالنا ہوتا تو انجلی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی۔ کوئی 5 منٹ تک لوکاٹی انجلی کو یونہی پیچھے سے چودتا رہا اور ٹیریس پر دھپ دھپ کی سریلی آوازیں انجلی کی سیکسی سسکیوں کے ساتھ ماحول کو گرماتی رہیں۔ 5 منٹ کی نان سٹاپ چدائی کے بعد لوکاٹی نے انجلی کی چوت سے لن باہر نکالا تو وہ مکمل گیلا تھا۔ اس پر انجلی کی چوت کا گاڑھا پانی لگا ہوا تھا جس نے لوکاٹی کے پورے لن کو چکنا کر دیا تھا۔

اب انجلی سیدھی کھڑی ہوئی اور لوکاٹی کی طرف منہ کر اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھا لی جسکو لوکاٹی نے اپنے بازو سے سہارا دیا اور دوسرے ہاتھ سے اپنا گیلا لن دوبارہ سے انجلی کی چوت پر سیٹ کیا اور ایک زور دار دھکے سے لن دوبارہ انجلی کی چوت میں اتار دیا۔ لوکاٹی کا لن ایک بار پھر جڑ تک انجلی کی چوت میں جا کر چودائی کر رہا تھا جبکہ انجلی کے ہونٹ اب لوکاٹی کے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف تھے ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ لوکاٹی انجلی کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا تو زیادہ بہتر ہوگا۔ انجلی کی نرم و ملائم گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کا رس لوکاٹی کبھی اپنے ہونٹوں سے تو کبھی اپنی زبان سے چوسنے میں مصروف تھا جبکہ نیچے سے اسکا لن انجلی کی چوت کا رس چوس رہا تھا۔ اس پوزیشن میں انجلی اپنی چوت کو ٹائٹ نہیں کر پا رہی تھی جسکی وجہ سے لن بہت روانی اور تیز رفتاری کے ساتھ انجچلی کی چوت کی کھدائی کرنے میں مصروف تھا۔ جبکہ انجلی کے ممے ابھی تک اسکے برا کی قید میں تھے البتہ مموں کا اوپری حصہ کافی حد تک برا اور نائٹی سے باہر نکل کر کسی جیلی کی طرح ہل رہا تھا، مگر لوکاٹی کی نظریں اس خوبصورت منظر کو دیکھنے سے محروم تھیں کیونکہ وہ انجلی کے ہونٹوں سے آبِ حیات پینے میں مصروف تھا۔

انجلی کی پیاسی چوس کو اب تک کی چدائی سے کافی سکون ملا تھا یہی وجہ تھی کہ مزید چند جاندار گھسوں کے بعد انجلی کی چوت نے لوکاٹی کے لن پر اپنے پیار کی بارش کر دی اور لوکاٹی کا پورا لن اور پیٹ کا نچلا حصہ انجلی کی چوت کے پانی سے گیلا ہوگیا۔ چوت سے پانی نکالتے ہوئے انجلی ایک لمحے کے لیے ساکت ہوگئی تھی اور اس نے لوکاٹی کے ہونٹوں کو اپنے دانتوں میں لیکر بھینچ لیا تھا۔ لوکاٹی کو تکلیف تو ہوئی مگر وہ جانتا تھا کہ انجلی اپنی آخری سٹیج پر پہنچ چکی ہے اس وقت کوئی ردِ عمل مناسب نہیں اسی لیے وہ یہ تکلیف برداشت کر گیا اور انجلی نے آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ اف۔۔۔۔۔۔۔۔ کی سسکیوں کے ساتھ اپنی چوت کا رس لوکاٹی کے لن اور اسکے پیٹ پر نکال دیا ۔
جیسے ہی انجلی کو چوت کا پانی نکالنے کے بعد سکون ملا اور وہ ریلیکس ہوئی تو لوکاٹی نے دوبارہ سے اپنے لن کے گھسے انجلی کی چوت میں لگانے شروع کر دیے۔ اب کی باری انجلی کی چوت پہلے سے زیادہ گیلی اور چکنی تھی اسی لیے لوکاٹی کا لن پوری آزادی کے ساتھ انجلی کی چوت کو چودنے میں مصروف تھا۔

اب لوکاٹی نے انجلی کے ہونٹوں کو چھوڑا تو اسکی نظر انجلی کے خوبصورت گول مول مموں پر پڑی جو کسی جیلی کی طرح انجلی کی نائٹی کے اندر ہل رہے تھے اور باہر نکلنے کو مچل رہے تھے۔ مموں پر نظر پڑتے ہی لوکاٹی کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے انجلی کی وہ ٹانگ جو اپنے بازو پر اٹھا رکھی تھی واپس زمین پر رکھ دی اور انجلی کی نائٹی اتار کر سائیڈ پر پھینک دی۔ اب انجلی کی دونوں ٹانگیں زمین پر ہونے کی وجہ سے اسکی چوت کافی ٹائٹ ہوگئی تھی اور لوکاٹی تھوڑا سا اپنی کمر کو پیچھے کو جھکا کر انجلی کی چوت میں دھکے لگا رہا تھا۔ انجلی کے بدن پر اب صرف ایک برا تھاجس میں اسکے ممے قید تھے جبکہ اسکی پینٹی اب تک انجلی کے بدن پر موجود تھی مگر اسکی سٹریپ سائڈ پر ہٹا کر لوکاٹی انجلی کی چودائی کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر تک اسی پوزیشن میں انجلی کو چودنے کے بعد لوکاٹی کی مردانگی نے ایک انگڑائی لی اور اس نے انجلی کو چوتڑوں سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا اور انجلی نے بھی فورا اپنی ٹانگیں لوکاٹکی کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اب لوکاٹی نے ایسے ہی کھڑے کھڑے انجلی کی چوت میں ایک بار پھر اپنے لن کی مدد سے کھدائی شروع کی اور اس بار اسکی رفتار پہلے سے کافی تیز تھی اور لوکاٹی خود تھوڑا سا جھک کر اپنی زبان انجلی کے گورے چٹے گول مول ہلتے ہوئے مموں پر پھیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انجلی بھی اپنے بازوں کو لوکاٹی کی گردن میں ڈال کر تھوڑا پیچھے جھک گئی تھی تاکہ لوکاٹی ٹھیک سے انجلی کے سیکسی مموں کا نظارہ کر سکے۔

انجلی کو چودائی کرواتے ہوئے 10 منٹ ہونے کو تھے اور لوکاٹی کا بوڑھا لن اس سے زیادہ چودائی کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا، تبھی انجلی کو گود میں ہی اٹھائے لوکاٹی کے دھکے طوفانی رفتار سے تیز ہوگئے اور انجلی سمجھ گئی کہ اب لوکاٹی اپنی منزل کو پہنچنے والا ہے۔ لوکاٹی کو چدائی کا آخری مزہ دینے کے لیے انجلی نے اپنی چوت کو ایک بار پھر ٹائٹ کر لیا، مگر اس بار اسکی ٹائٹ چوت لوکاٹی کے لوڑے کے طوفانی دھکوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں، چوت ٹائٹ ہونے کے باوجود لوکاٹی کے طوفانی دھکوں کی رفتار میں کوئی کمی نہ آئی البتہ چوت ٹائٹ ہونے کے بعد لوکاٹی مزے کی شدت سے سسکیاں لینے لگا، آہ آہ کی چند آوازوں کے ساتھ لوکاٹی کے لن نے اپنا سارا پانی انجلی کی چوت کے اندر نکال دیا۔ چند گھسے لگانے کے بعد جب سارا پانی نکل چکا تو انجلی لوکاٹی کی گود سے نیچے اتر آئی۔ نیچے اتر کر انجلی نے اپنی پینٹی کو صحیح کیا اور دوبارہ سے اپنی چوت اور گانڈ اپنی پینٹی سے چھپا لی جبکہ لوکاٹی نے اپنی پینٹ جو گھٹنوں تک اتاری تھی اور اب اسکے پاوں میں پڑی تھی وہ مکمل اتار دی۔ انجلی نے اپنی نائٹی اٹھا کر لوکاٹی کے گلے میں ڈال دی اور اسکو مرجھائے ہوئے لن سے پکڑ کر کھینچتی ہوئی واپس کمرے میں لے گئی لوکاٹی کو صوفے پر بٹھانے کے بعد اب سیکسی انجلی سرخ رنگ کا برا اور پینٹی اپنے گورے بدن پر سجائے فریج کی طرف جا رہی تھی جہاں سے اس نے خود اپنے لیے جوس نکالا اور لوکاٹی کے لیے ایک اور تیز جام تیار کیا جو لوکاٹی کو اسکے ہوش و حواس سے بیگانہ کرنے کے لیے کافی تھا۔
5 منٹ کی ڈرائیو کے بعد ٹینا نے گاڑی ساحل سمندر پر ایک خوبصورت ہٹ کے قریب روک لی، گاڑی سے ضروری سامان لیا اور روف بند کرنے کے بعد گاڑی لاک کی اور عمران کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ساحل کے بالکل قریب یہ جگہ بہت خوبصورت معلوم ہورہی تھی چاند کی ہلکی روشنی میں پانی کی لہروں کا شور اور رات کا سناٹا بہت ہی خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا اس پر ساتھ میں ٹینا جیسی لڑکی جو خود ہی اپنا جسم عمران کے حوالے کرنے کے لیے مری جا رہی تھی، عمران کی تو جیسے عید ہی ہوگئی تھی۔ ٹینا کے پیچھے چلتے چلتے کچھ ہی دیر میں عمران اب ساحل کنارے بنے ہوئے ہٹ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ یہاں پر بہت سے ہٹس موجود تھے اور رات کے 2 بجے کے قریب بھی یہاں پر مختلف نوجوان جوڑے سمندر کی لہریں دیکھنے کے لیے ایکدوسرے کے ساتھ ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔ انکے حلیے اور چال ڈھال سے ہی لگ رہا تھا کہ انکا تعلق ہائی کلاس فیمیلیز سے ہے۔

ایک مخصوص ہٹ کے سامنے جا کر ٹینا رک گئی یہاں پر ایک سیکیورٹی گارڈ کرسی پر براجمان تھا۔ ٹینا کو دیکھتے ہی وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوا اور ٹینا کو سلیوٹ کرنے کے بعد آگے بڑھ کر عمران کے ہاتھ میں موجود سامان پکڑ لیا۔ ٹینا سیدھی ہٹ میں داخل ہوگئی عمران بھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اندر جا کر مین روم میں پہنچ کر سامنے پڑے صوفے پر ٹینا نے اپنا ہینڈ بیگ پھینکا اور صوفے پر ڈھے گئی۔ سارے دن کے سفر سے وہ بہت تھک چکی تھی۔ عمران بھی اسکے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا اور اپنا سر صوفے کی پچھلی سائیڈ پر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ بھی کافی زیادہ تھک چکا تھا، پچھلی رات بھی صحیح طرح سے سو نہیں پایا تھا اور پھر اتنے لمبے سفر میں زیادہ تر اسی نے ڈرائیو کی تھی۔ سیکیورٹی گارڑ نے سٹور روم میں سامان رکھا اور مین روم میں آکر ٹینا سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا بی بی جی ضرورت کا سارا سامان ہٹ میں موجود ہے، پھر بھی اگر آپکو کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے کسی بھی وقت فون کر سکتی ہیں۔ ٹینا نے آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھا اور بولی ہاں ٹھیک ہے تم جاو اب۔ امید ہے صبح تک کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوگی تم آرام کرو۔ یہ کہ کر اس نے عمران کی طرف دیکھا جو نیند کی آغوش میں جا چکا تھا ، صوفے پر لیٹتے ہی اسکو نیند آگئی تھی اور اسکے خراٹے کمرے میں گونجنے لگے تھے۔

عمران کو شاید تانیہ پسند آنے لگی تھی، جب سے وہ ممبئی سے نکلے تھے اسے تانیہ کی فکر تھی، پہلے اسنے تانیہ کو فون پر شاپنگ مال سے اچھی طرح اپنا خیال رکھنے کی تاکید کی تھی اور اکبر لوکاٹی کے بارے میں ضروری ہدایات کی تھیں اسکے بعد بھی وہ سارے راستے تانیہ کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ اور جب وہ تانیہ کو ہوٹل میں چھوڑ کے واپس آئے تب بھی وہ تانیہ کے بارے میں فکر مند تھا کہ نجانے وہ اکبر لوکاٹی کو صحیح سے ہینڈل کر بھی پائے گی یا نہیں اور کوئی کام کی بات اگلوا سکے گی اس سے یا نہیں۔ اور اکبر لوکاٹی کو اگر اس پر شک ہوگیا تو وہ تانیہ کے ساتھ کیسا سلوک کرے گا، یہ سب باتیں عمران کو پریشان کر رہی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی وہ صوفے پر بیٹھا اور اسے نیند آئی تو اسکے خواب میں بھی تانیہ ہی آئی تھی۔ وہ خواب میں بھی تانیہ کو دیکھ رہا تھا۔ مگر یہ کیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ خواب میں تو وہ تانیہ کے خوبصورت جسم کو دیکھ رہا تھا۔ ڈانس کلب میں جب تانیہ کو گود میں بٹھایا تھا تو عمران کو ایک عجیب سا نشہ محسوس ہوا تھا، اسکے بدن سے ایک خوشبو آئی تھی جسے وہ اب تک بھول نہ پایا تھا۔ اسکے بعد بھی تانیہ کے ساتھ گزارے ہوئے پل اسے یاد آرہے تھے۔ اور تو اور نیند میں بھی اب اسے تانیہ ہی نظر آرہی تھی۔ شاور کے نیچے بنا لباس کے شاور لیتی ہوئی تانیہ کو وہ بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ تانیہ کے کھلے بال جو اسکی کمر تک آرہے تھے اسکے بدن کے ساتھ چپکے ہوئے تھے کچھ بال اسکے چہرے پر تھے اور ان سے ٹپکتا ہوا پانی اسکے ہونٹوں سے ہوتا ہوا نیچے گر رہا تھا۔ تانیہ کا ننگا جسم گویا کسی ماہر مجسمہ ساز کا بنایا ہوا ماسٹر پیس تھا جس میں کوئی عیب نہ ہو۔ سنگِ مرمر سا تراشا ہوا بدن اور اس پر پانی کے قطرے ایسا لگتا تھا جیسے کسی سفید مورتی کو دودھ سے غسل دیا جا رہا ہو۔ پانی کے بہتے ہوئے قطرے تانیہ کی گردن سے ہوتے ہوئے اسکے سفید اور گورے مموں کے اوپر سے ہوکر نیچے گرتے تو کچھ قطرے اسکے کلیویج لائن میں سے ہوتے ہوئے اسکی ناف میں جا کر گم ہوجاتے۔ تانیہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بدن کو مسل رہی تھی ، وہ کبھی اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے پتلے پیٹ پر پھیرتی تو کبھی ہاتھوں کو پیٹ سے اوپر لیجا کر اپنے مموں کو مسلنے لگتی۔ اس دوران وہ اپنے شبنمی گیلے ہونٹوں کو بھی اپنے دانتوں میں لیکر دبا رہی تھی۔

پھر تانیہ نے شاور بند کیا اور ساتھ دیوار پر لٹکتا ٹاول اپنے جسم پر لپیٹ کر عمران کی طرف آنے لگی۔ تانیہ کے بدن پر ٹاول اسکے مموں سے شروع ہوکر اسکی تھائیز تک آرہا تھا۔ ٹاول میں سے بھی اسکی کلیویج لائن نظر آرہی تھی اور اسکا گیلا بدن کسی بھی سوئے ہوئے لن کو کھڑا کرنے کے لیے کافی تھا۔ پھر تانیہ اپنی کمر لچکاتی ہوئی عمران کی طرف بڑھنے لگی، اور پھر عمران کے اوپر جھک کر اس نے اپنے گیلے بالوں کو بڑے پیار کے ساتھ عمران کے چہرے پر پھیرا۔ بالوں سے ٹپکتا ہوا پانی عمران کے چہرے پر گرا تو اس نے بھی بہت پیار کے ساتھ تانیہ کو دیکھا۔ پھر تانیہ نے اپنے گیلے بالوں کو عمران کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کیا تو اسکے بالوں سے ٹپکتا ہوا پانی عمران نے آبِ حیات سمجھ کر پی لیا۔ پھر تانیہ نے بہت پیار کے ساتھ عمران کا نام لیا اور کہا عمران ڈارلنگ اٹھو نہ، کیا ہم یہاں سونے آئے ہیں؟ عمران جو تانیہ کے خوابوں میں گم تھا سوچنے لگا کہ تانیہ کہ کیا کہ رہی ہے؟ تانیہ نے پھر سے عمران کو ہولے سے جھنجھوڑا اور بولی اٹھو نا جانو، اتنی سیکسی لڑکی تمہارے سامنے ہے اور تم سو رہے ہے؟؟ یہ کہ کر تانیہ عمران کی گود میں بیٹھ گئی۔
تبھی عمران کی آنکھ کھلی تو اسنے دیکھا کہ اسکے سامنے تانیہ نہیں بلکہ ٹینا تھی۔ ٹینا پر نظر پڑتے ہی عمران ایک دم سے ہڑبڑا کر سیدھا ہوا۔ ٹینا اس بات سے بے خبر کہ عمران کس کے سپنے دیکھ رہا تھا عمران سے بولی کہ خود تو سو رہے ہو مگر تمہارا یہ سوتے میں بھی جاگ رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ٹینا نے عمران کی گود میں بیٹھی بیٹھی اپنی گانڈ کو ہلا کر لن کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت ٹینا کی گانڈ کے بالکل نیچے تھا۔ تانیہ کے سپنے دیکھتے ہوئے عمران کا لوڑا نیند کے باوجود کھڑا ہوگیا تھا جس پر اب ٹینا بیٹھی تھی۔ عمران کو سمجھ لگ گئی کہ اصل میں اسے نیند شاور کی آواز آئی ہوگی کیونکہ ٹینا اسی کمرے میں موجود واش روم میں شاور لے رہی تھی تو عمران کے سپنوں میں تانیہ آگئی اور وہ اسے نہاتے ہوئے دیکھنے لگا تھا۔ لیکن اب عمران کی گود میں ٹینا بیٹھی تھی جس نے ایک ہلکا سا نائٹ ڈریس پہن رکھا۔ یہ ڈریس اتنا باریک تھا کہ ٹِنا کے گیلے بدن کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور اسکا بدن بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔ عمران نے ایک نظر ٹینا کو اسکے سر سے لیکر پاوں تک دیکھا تو ٹینا کی گانڈ کے نیچے موجود لن نے ایک انگڑائی لی اور عمران سے سرگوشی کرتے ہوئے بولا چل بیٹا آج اسی کو چود دے، تانیہ ہو یا ٹینا مجھے اس سے کیا مجھے تو ایک ٹائٹ چوت چاہیے اپنا لاوا اگلنے کے لیے۔ عمران نے اپنے لن کی سرگوشی سے اتفاق کیا اور اپنا ایک ہاتھ ٹینا کی ننگی تھائی پر رکھ کر اس پر مسلنے لگا اور دوسرا ہاتھ ٹِنا کے سر کے نیچے رکھ دیا اور اس تھوڑا سا اوپر اٹھا کر اسکے شربتی ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔

ٹینا جو پہلے سے ہی اسکے لیے تیار تھی اور ایک رات پہلے بھی وہ کوشش کر چکی تھی عمران کے ورزشی جسم کو دیکھ کر ٹِنا کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایسے مضبوط جسم کے مالک آدمی سے اپنی چوت کی پیاس بجھوائے۔ اور اب وہ موقع آن پہنچا تھا۔ ٹینا بھلا کیسے اس موقع کو ضائع کرتی اس نے بھی فورا عمران کی کسنگ کا جواب دیا اور اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ ٹینا کی گانڈ کی لائن اس وقت عمران کے لن کے عین اوپر تھی۔ اور وہ اپنی گانڈ ہولے ہولے ہلا کر عمران کے لن کا مزہ لے رہی تھی۔ عمران کو بھی ٹینا کی چوت میں ہونے والی ہلچل کا مکمل احساس تھا پچھلی رات اور پھر ممبی سے گوا آتے ہوئے راستے میں گاڑی میں جو ٹینا نے اپنے پاوں کی مدد سے عمران کے لن کا مساج کیا تھا اسکے بعد گاڑی سے اتر کر لن کے چوپے لگائے تھے مگر ٹائم کی کمی کے باعث وہ اس لن کو اپنی چوت کی سیر نہیں کروا سکی تھی اب وہ مطمئن تھی کہ آخر کار اب تو لن چوت کی سیر کرے گا ہی کرے گا۔

عمران نے کچھ دیر کسنگ جاری رکھی اسکے بعد عمران کے ہاتھ رینگتے ہوئے ٹینا کے سینے تک آئے اور وہاں سے اس نے باریک نائٹ ڈریس کے اوپر سے ہی اپنے ہاتھ ٹِنا کے 36 سائز کے ٹائٹ کسے ہوئے مموں پر رکھا دیا۔ ٹینا نے نائٹ ڈریس کے نیچے سے برا بھی نہیں پہنا تھا جسکی وجہ سے اسکا نائٹ ڈریس اسکے مموں کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور گیلا ہونے کی وجہ سے اسکے گورے ممے بھی واضح ںظر آرہے تھے اس سیکسی ڈ ریس میں سے۔ اوپر سے ٹِنا کے مموں پر چھوٹا سا گلابی رنگ کا نپل جو اس وقت سخت ہو رہا تھا اسکی اپنی ہی ایک خوبصورتی تھی۔ ٹینا کے ممے عمران نے ہولے سے دبائے تو اسکو اندازہ ہوگیا کہ ان مموں کوزیادہ دبایا نہیں گیا کافی ٹائٹ ممے تھے۔ اب عمران نے اپنا ایک بازو ٹِنا کی ٹانگوں کے نیچے ڈالا اور دوسرا بازو اسکی گردن کے نیچے ڈال کر ٹینا کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹینا نے بھی اپنی دونوں بانہیں عمران کی گردن کے گرد ڈال دیں اور ایک بار پھر اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ عمران بھی اسی طرح چلتا چلتا ٹینا کو بیڈ روم تک لے گیا جہاں ہلکی لائٹ آن تھی اور کمرے سے سوندھی سوندھی خوشبو آرہی تھی جیسے کچھ ہی دیر پہلے کسی نے یہاں ائیر فریشنر سپرے کیا ہو۔ بیڈ کے آس پاس گلاب کے گلدستے پڑے تھے اور بیڈ پر سرخ رنگ کی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی تھی جسکے ساتھ تکیے پڑے تھے جو دل کی شیپ میں بنے ہوئے تھے۔ عمران نے ٹینا کو ہولے سے بیڈ پر پھینکا تو ٹینا نے فورا ہی اپنی بانہیں پھیلا کر عمران کو اپنے قریب آنے کا کہا۔ مگر عمران نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر اپنی شرٹ اتاری اور اسکے بعد اپنی شارٹس بھی اتار دیں۔ اب عمران صرف انڈر وئیر میں ٹینا کے سامنے کھڑا تھا اور عمران کا جسم دیکھ کر ٹینا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔ وہ تو جیسے پتھر کی ہوگئی تھی۔ عمران کو اس نے اس حالت میں پہلی بار دیکھا تھا اور اسکے جسم کی مضبوطی کی قائل تو وہ پہلے ہی تھی مگر اب تو وہ اس پر فدا ہوگئی تھی۔ اور انڈر وئیر سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والا لن بھی ٹینا کے لیے کافی مسحور کن تھا۔ گو کہ وہ اس لن کا پہلے چوپا لگا چکی تھی مگر اب یہ سوچ کر کہ اتنا بڑا لن اسکی چوت میں جائے گا ٹینا کے پورے بدن میں گدگدی سی ہورہی تھی۔

اب ٹینا اپنی جگہ سے اٹھی اور بیڈ پر گھٹنے لگا کر ٹانگیں فولڈ کر کے کھڑی ہوگئی اور اپنے ہاتھ عمران کے مظبوط سینے پر پھیرنے لگی۔ عمران کے جسمی کی سختی ٹینا کے نازک ہاتھوں کو بہت پیاری لگی تھی کچھ دیر عمران کے سینے پر ور اسکے 6 پیک باڈی پر ہاتھ پھیرنے کے بعد ٹینا کے منہ سے اسکی زبان باہر نکلی اور عمران کے سینے کو چوسنے لگی۔ ٹینا نے اپنی زبان عمران کے سینے پر دائیں بائیں پھیرنا شروع کی اور پھر اپنی زبان کی نوک سے عمران کے سخت نپلز کو چاٹنا شروع کر دیا، عمران نے اپنا ایک ہاتھ ٹینا کے سر پر رکھ لیا اور اسے اپنے نپلز چاٹتے رہنے کو کہا اور دوسرا ہاتھ اس نے ٹینا کے چوتڑوں پر رکھ کر انکو اپنی مٹھی میں دبا لیا۔ نائٹ ڈریس کے اوپر سے ہی ٹِنا کے چوتڑ عمران کو بہت بھلے لگے اور وہ آہستہ آہستہ ان پر مساج کرنے لگا۔ کبھی کھی وہ چوتڑوں کو مٹھی میں لیکر زور سے دبا دیتا اور پھر ایک تھپڑ مارتا ان پر اور اسکے بعد پھر سے اس پر مساج شروع کر دیتا۔ تھپڑ لگنے پر ٹینا کی ہلکی سی سسکی نکلتی اور وہ عمران کے سخت نپلز کو اپنے دانتوں میں لیکر ہلکا سا کاٹ لیتی جسکا عمران کو مزہ آرہا تھا۔

کچھ دیر اسی طرح عمران کے نپلز کو چاٹنے کے بعد اب ٹِنا آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آرہی تھی۔ عمران نے ٹینا کے چوتڑوں کو چھوڑ دیا تھا اور ٹینا نیچے جھکتی چلی گئی یہاں تک کہ پیٹ سے ہوتے ہوئی اب اسکی زبان انڈر وئیر کے اوپر سے ہی عمران کے لن کی گرمی کو محسوس کر رہی تھی۔ پھر ٹینا نے عمران کا انڈر وئیر اسکے گھٹنوں تک اتارا تو عمران کا لن انڈر وئیر سے نکلتے ہی ایسے سیدھا ہوگیا جیسے اسکے نیچے کوئی سپرنگ لگا ہو جس نے فوری لن کو اوپر کی طرف کھڑا کر دیا ہو۔ ٹینا کی نظریں ایک بار پھر عمران کے لن کو دیکھ کر چمکنے لگیں تھیں ۔ ٹینا نے عمران کے لن کو اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ کر اپنے منہ کی طرف کیا اور پھر منہ کھول کر فورا ہی لن کو اپنے منہ میں ڈال لیا اور اسکے چوپے لگانے لگی۔ ٹینا کے چوپوں میں اس وقت عجیب ہی نشہ تھا وہ اپنے دانتوں زبان اور ہونٹوں کا بہت اچھی طرح استعمال کر رہی تھی، عمران کے لن کی ٹوپی کو وہ اپنے ہونٹوں اور زبان سے چوستی اور لن کے شافٹ پر اپنے دانت ہولے ہولے رگڑتی جس سے عمران کو بہت سرور مل رہا تھا۔ ٹینا کے لعاب سے عمران کا لن مکمل گیلا ہو چکا تھا اور کچھ ٹینا کے منہ میں عمران کے لن سے نکلنے والی مذی بھی موجود تھی جو وہ بار بار عمران کے لن پر ہی مسل رہی تھی۔ عمران نے اپنا ایک بازو لمبا کیا اور ٹینا کے چوتڑوں سے اسکے نائٹ ڈریس کو ہٹا کر اوپر کمر تک لے آیا۔ نیچے سے ٹِنا کے چوتڑ بالکل ننگے تھے اس نے کوئی سی بھی پینٹی نہیں پہن رکھی تھی۔ عمران نے ایک بار پھر ٹینا کے گورے گورے چوتڑوں کو اپنے ہاتھ سے دبانا شروع کر دیا۔ 34 سائز کے ٹِنا کے چوتڑ بہت سیکسی تھے جو اسکی کمر کے نیچے سے باہر کو گولائی میں نکلے ہوئے تھے اور دیکھنے والے کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کافی تھی۔ ٹینا کے چوپے جاری تھی ساتھ میں عمران نے ٹینا کے چوتڑوں کو دبانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ کی بڑی انگلی ٹینا کی چوت میں پھیرنی شروع کر دی تھی جس سے ٹینا کی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں تھیں۔

تھوڑی دیر مزید چوپے لگوانے کے بعد عمران نے ٹینا کو بیڈ پر لیٹنے کو کہا تو وہ فورا ہی لیٹ گئی، عمران بھی ٹینا کے اوپر لیٹ گیا مگر اسطرح کہ عمران کا لن ٹینا کے منہ میں تھا اور عمران کا منہ ٹینا کی چوت کے اوپر تھا۔ 69 پوزیشن میں لیٹ کر دونوں ایکدوسرے کو مزہ دینے میں مصروف تھے۔ ٹینا نے نیچے لیٹ کر عمران کا 8 انچ کا لمبا اور موٹا لن اپنے منہ میں لیا ہوا تھا جسکو وہ پورا منہ میں لینے کی کوشش کرتی تھی مگر آدھے سے کچھ زیادہ ہی ٹِنا کے منہ میں جارہا تھا، ساتھ ساتھ ٹینا عمران کے ٹٹوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لیکر آۃستہ آہستہ مسل رہی تھی جس سے عمران کو سرور مل رہا تھا۔ جبکہ عمران اپنی زبان ٹینا کی چکنی چوت میں رگڑ رہا تھا۔ ٹینا کی چوت کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے جس سے معلو م ہوتا تھا کہ اس نے بہت ہی کم چدائی کامزہ لیا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ محض چند بار ہی ٹینا نے اپنے پرانے بوائے فرینڈ اجے کا 6 انچ کا لن اپنی چوت میں لیا تھا اور وہ بھی 5 منٹ کی چدائی کے بعد جھڑ جاتا تھا۔ چوت کے ہلکے گلابی اور قدرے کالے لب عمران نے اپنے ہاتھوں سے کھول رکھے تھے اور بیچ میں موجود دانے کو عمران اپنی زبان سے مسلسل رگڑ رہا تھا جس سے ٹینا کو بہت مزہ آرہا تھا اور وہ بیچ بیچ میں عمران کے لن کو منہ سے باہر نکال کر سسکیاں بھی لیتی اور عمران کو کہتی کھا جاو جانِ من میری پھدی کو، کھا جاو اسکو، زور سے چاٹو، اور زور سے۔۔۔۔ سارا پانی نکال دو اسکا۔۔۔ آہ۔۔۔۔ اف۔۔۔اور پھر دوبارہ سے منہ میں لن ڈال کر چوپے لگانے لگتی۔
عمران بھی اپنی زبان کو ٹینا کی چوت میں خوب گھما رہا تھا۔ کبھی وہ چوت کے لبوں کو کھول کر زبان اندر داخل کرنے کی کوشش کرتا تو کبھی اسکے دانے پر زبانے پھیرتا اور کبھی چوت کے باہر اسکی نرم و نازک پھدی کو چوسنے لگا جو بالوں سے بالکل پاک تھی۔ ٹینا بھی لن کے چوپے لگاتے لگاتے کبھی لن منہ سے نکالتی اور عمران کے ٹٹوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگتی اسکے بعد دوبارہ سے لن پر زبان پھیرتی ، لن کی ٹوپی سے لیکر لن کی جڑ تک زبان پھیرتے ہوئے ٹِنا اپنے دانت بھی لن کے ساتھ لگاتی جس سے عمران کو سرور ملتا۔ عمران کی زبان ٹینا کی پیاسی چوت میں اپنا جادو جگا رہی تھی اور ٹینا کی چوت کی برداشت اب ختم ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر کے بعد ٹینا نے لن اپنے منہ سے نکالا اور اپنے چوتڑوں کو تھوڑا سا اوپر اٹھا لیا تاکہ اسکی چوت عمران کے اور قریب ہو سکے اور وہ اپنے منہ سے اسکو اور زیادہ تسکین پہنچا سکے، اسکے ساتھ ہی ٹینا کا جسم اکڑنا شروع ہوگیا تھا۔ عمران سمجھ گیا کہ اب ٹینا کی چوت پانی چھوڑنے والی ہے اس نے فورا اپنا منہ سائیڈ پر کر لیا اور پنی ایک انگلی ٹینا کی چوت میں داخل کر کے زور زور سے ہلانے لگا۔ چوت نے اپنے اندر انگلی آتے ہی اسکو جکڑ لیا اور پانی کا فوارہ چھوڑ دیا۔ ٹینا کی چوت مکمل طور پر اندر سے گیلی ہوگئی تھی اور اس میں ایک سیلاب آگیا تھا، ٹینا کے جسم کو مسلسل جھٹکے لگ رہے تھے، اور ہر جھٹکے پر پانی کی ایک پھوار اسکی چوت سے نکلتی ۔ عمران کا پورا ہاتھ ٹینا کی چوت کے گاڑھے پانی سے بھر گیا تھا جو اس نے بیڈ شیٹ کے ساتھ صاف کیا۔

جب ٹینا کے جسم کو سکون مل گیا تو اس نے دوبارہ سے عمران کا لن اپنے منہ میں لے کر چوپا لگانا شروع کیا مگر اب کی بار عمران نے اسکو منع کر دیا اور خود ٹینا کی ٹاننگیں کھول کر اسکے درمیان بیٹھ گیا۔ ٹینا سمجھ گئی کہ اب عمران اپنا لن ٹینا کی نازک چوت میں داخل کرنے والا ہے۔ ٹینا نے پہلے کبھی اتنا لمبا لن اپنی چوت میں داخل نہیں کیا تھا۔ عام طور پرایشیائی لڑکیاں لمبے لن سے خوفزدہ ہوتی ہیں مگر ٹینا پر اس وقت سیکس کا بھوت سوار تھا اسکی چوت میں اتنا لمبا اور موٹا لن دیکھ کر پانی آرہا تھا اور وہ جلد سے جلد اس لن کامزہ لینا چاہتی تھی، جیسے ہی عمران اسکی ٹانگوں کے درمیان میں بیٹھا ٹینا بھی اپنے چوتڑوں کو اٹھا کر اور کمر کو گھسیٹ کر عمران کے نزدیک ہوگئی تاکہ اسکی چوت اور عمران کے لن کا فاصلہ کم سے کم ہوسکے۔ عمران بھی ٹینا کی بےتابی کو سمجھ چکا تھا، اس نے ٹینا کی دونوں تھائیز کو پکڑا جو گوشت سے بھی ہوئی تھیں، پہلے ان پر ہاتھ پھیرا اور پھر انکو تھوڑا مزید کھول کر ٹینا چوتڑوں سے پکڑ کر اپنے مزید قریب کر لیا ، پھر عمران نے اپنا لن ایک ہاتھ سے پکڑا اور لن کی ٹوپی کو ٹینا کی چوت کے لبوں پر دھیرے دھیرے پھیرنے لگا۔ جس سے ٹِنا کی چوت کے لب پھڑکنے لگے۔ اسکی بےتابی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ پھر عمران نے اپنے لن کو پکڑا اور اسکو زور زور سے ٹینا کی چوت پر مارا جس سے ٹینا کی سسکیاں نکل آئیں۔ ٹینا اب اپنا سر ہلکا سا اوپر اٹھا کر لن اور پھدی کا ملاپ دیکھنے کی کوشش کررہی تھی مگر اسے لن کی ٹوپی ہی نظر آرہی تھی جو اسکی پھدی پر مساج کرنے میں مصروف تھی۔

ٹینا نے سسکتی ہوئی آواز میں کہا عمران پلیز، ڈال دو نا اب اسکو ۔۔۔۔ مزید مت تڑپاو۔ یہ سنتے ہی عمران نے لن کی ٹوپی پکڑ کر پھدی کے سوراخ پر رکھی اور ایک زور دار دھکا لگایا جس سے عمران کا آدھا لن ٹینا کی پھدی کو چیرتا ہوا اندر داخل ہوگیا اور کمرہ ٹینا کی زور دار چیخوں سے گونجنے لگا۔ اوئی۔۔۔۔ باہر نکالو اسکو، اوئی ماں۔۔۔۔ میں مرگئی۔۔۔۔ عمران کتنے ظالم ہو تم۔۔۔۔ا ف۔ ۔۔۔ اف۔۔۔۔ باہر نکالو پلیز اسکو میری چوت میں مرچیں لگ گئی ہیں۔ مگر عمران بھلا کہاں باہر نکالنے والا تھا لن کو۔ اس نے ٹینا کی چوت کے لب اپنی انگلی سے کھولے اور اسکے دانے کو بھی مسلنے لگا جس سے ٹینا کی سسکیاں نکلنے لگیں اور وہ اپنی چوت کو اوپر نیچے ہلانے لگی۔ چوت اوپر نیچے ہلانے سے عمران کے لن نے بھی چوت میں حرکت شروع کی اور ٹینا کو تکلیف کے ساتھ ساتھ مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر ایسے ہی مزے لینے کے بعد ٹینا کو ایک بار پھر زور دار چیخ مارنی پڑی جب عمران نے اپنا لن ایک بار باہر نکالا اور محض ٹوپی ہی اندر رہنے دی اور ایک جاندار دھکے سے اپنا 8 انچ کا لوڑا ٹینا کی نازک اور تنگ چوت میں داخل کر دیا۔ اب محض عمران کے ٹٹے ہی ٹینا کی چوت سے باہر تھے باقی پورا لن ٹوپی اور شافٹ سمیت ٹینا کی چکنی چوت میں داخل ہوچکا تھا۔

No comments:

Post a Comment

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...