Monday, 1 February 2016

وطن کا سپاہی 3

عفت اپنی چوت سے نکلنے والے خون سے بے خبر اپنی چوت میں ہونے والے بے تحاشہ درد کو برداشت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جبکہ میجر دانش اپنی پھول جیسی نازک بیوی کا درد کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ مزید دھکے مار کر اپنی بیوی کو سہاگ رات کے اصل مزے سے آشنا کر سکے۔ اسکے لیے دانش کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، عفت کے اندرموجود گرمی اور سیکس کو انجوائے کرنے کی خواہش نے جلد ہی اسکو درد بھلا دی تھی۔ اور اب وہ قدرے اطمینان کے ساتھ اپنے شوہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اشارہ کر رہی تھی کہ اپنا کام جاری رکھو۔ عفت کی طرف سے اشارہ ملتے ہی دانش اوپر اٹھا اور ایک زور دار دھکا عفت کی چوت میں مارا جس سے دانش کا 8 انچ کا لن مکمل طور پر عفت کی چوت کی گہرائیوں میں اتر گیا تھا۔

ایک بار پھر عفت کی چیخوں سے کمرہ گونجا مگر اس بار عفت نے خود ہی اپنی چیخ پر قابو پا لیا تھا۔ ایک چیخ کے بعد دوسری چیخ اسنے خود ہی روک لی تھی۔ اور دانش نے بھی نیچے بچھی ہوئی چادر پر سرخ نشان دیکھ لیا تھا جس سے وہ مکمل مطمئن ہوگیا تھا کہ عفت کا کنوارہ پن دانش کے مضبوط لن نے ہی ختم کیا ہے۔ اب اسکو اپنی پیاری سی بیوی پر اور بھی زیادہ پیار آنے لگا تھا۔ وہ اپنے لن کو عفت کی چوت میں روک کر اسکا درد کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک ہی عفت نے اپنی گانڈ ہلا کر خود ہی دانش کا لن اپنی چوت کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اتنا مظبوط سگنل ملنے پر دانش نے اب خود سے عفت کی چوت کے اندر جھٹکے مارنے شروع کیا۔ عفت کی چوت نے بہت مضبوطی کے ساتھ دانش کےلن کو جکڑ رکھا تھا جس کی وجہ سے دانش کا لن بہت مشکل سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ دانش کے لن نے بہت عرصے بعد اتنی ٹائٹ چوت میں اپنا لن اتارا تھا۔ اور آج اسکو صحیح مزہ آرہا تھا چودائی کا۔ جبکہ عفت بھی اپنے شوہر کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔ دانش جو ابھی تک آرام آرام سے چت میں لن داخل کر رہا تھا عفت کی طرف سے گانڈ کو تیز تیز ہلانے سے اسکو سگنل ملا کہ اپنی سپیڈ بڑھا دو۔




5
یہ سگنل ملتے ہی دانش نے اپنی سپیڈ بڑھا دی، کچھ ہی جھٹکوں کے بعد عفت کو اپنے جسم میں پہلے کی طرح سوئیاں چبھتی محسوس ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکی چوت نے اپنے پانی سے دانش کے لن کو مکمل بھگو دیا تھا۔ دانش کا لن اب بہت آسانی سے عفت کی چوت میں کھدائی کر رہا تھا۔ عفت کی چوت کے پانی نے اسکی چوت کو اور دانش کے لن کو مزید چکنا کر دیا تھا۔ دانش بغیر رکے دھکے لگانے میں مصروف تھا۔ اور اب دانش کے ان دھکوں سے عفت کی چیخیں سسکیوں میں بدل چکی تھیں۔ چکنی چوت نے لن کو آزادانہ اندر باہر جانے کی اجازت دے دی تھی اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دانش نان سٹاپ مشین چلا رہا تھا اپنی بیوی کی چوت میں۔

کچھ دیر کے بعد دانش نے پوزیشن چینج کرنے کے لیے عفت کی چوت سے اپنے لن کو نکالا تو عفت کو ایسا لگا جیسے اسکی چوت میں پھنسا ہوا کوئی موٹا ڈنڈا ایک دم سے باہر نکل گیا ہو اور اب اسکو اپنی چوت پہلے کی طرح ہلکی پھلکی محسوس ہو رہی تھی۔ مگر دانش نے بغیر ٹائم ضائی کیے خود نیچے لیٹ کر عفت کو اپنے اوپر بٹھا لیا اور اسکی چوت کو اپنے لن کے اوپر سیٹ کر کے نیچے سے ایک زور دار دھکا عفت کی چوت میں مارا۔ اس دھکے نے عفت کے چوتڑوں کو دانش کے زیرِ ناف حصے سے ملا دیا تھا اور دھپ کی ایک آواز پیدا ہوئی۔ ایک بار پھر عفت کو لوہے کی گرم سلاخ اپنی نازک چوت میں جاتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسکی ایک چیخ بھی نکلی مگر اب کی بار اس چیخ میں درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھی تھا۔

دانش کے ایک ہی دھکے سے پورا لن عفت کی چوت میں گھس گیا تھا اور اب دانش کا ہر دھکا عفت کے چوتڑوں اور دانش کے زیر ناف حصے کے ملاب کا باعث بن رہا تھا جس کی وجہ سے پورا کمرہ دھپ دھپ کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ دانش نے عفت کو اپنے اوپر لٹا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ عفت کے ممے دانش کے سینے میں چھپ گئے تھے اور دانش عفت کو چوتڑوں سے پکڑ کر اپنا لن تیزی کے ساتھ اسکی چوت میں اندر باہر کر رہا تھا۔ عفت نے اپنا سر اٹھا کر اپنے گرم ہونٹ دانش کے ہونٹوں سے ملا دیے اور چدائی کے ساتھ ساتھ کسنگ کرنے کا مزہ بھی لینے لگی۔ اب لن کافی روانی کے ساتھ عفت کی چوت میں پمپ چلا رہا تھا۔ اور اس پمپ کے چلنے سے جلد ہی دوبارہ پانی نکلنے والا تھا۔ عفت اب اپنی سہاگ رات کو فل مزے سے انجوئے کر رہی تھی۔

اگرچہ ابھی بھی عفت کو اپنی چوت کی دیواروں کے ساتھ دانش کا لن رگڑتا ہوا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اسکے جسم کے ساتھ کوئی ریگ مال سے رگڑائی کر رہا ہو، مگر اس چبھن اور رگڑائی کا بھی اپنا ہی انوکھا مزہ تھا۔ کچھ دیر دانش کے ہونٹ چوسنے کے بعد اب عفت اٹھ کر بیٹھ گئی تھی، اب کی بار وہ خود بھی دانش کے لن کے اوپر اچھل رہی تھی جس کی وجہ سے لن کی چوٹ پہلے سے زیادہ لگ رہی تھی۔ پہلے صرف دانش نیچے سے دھکے مار رہا تھا مگر اب عفت خود بھی اچھل رہی تھی، عفت کی چوت سے جب لن باہر نکلتا تو دانش نیچے کی طرف ہوتا اور عفت اوپر کی طرف اٹھتی، جب لن نے اندر جانا ہوتا تو دانش ایک زور دار دھکا اوپر کی طرف مارتا اور عفت بھی اپنے پورے وزن کے ساتھ دانش کے لن کے اوپر آتی۔ دانش اور عفت اب اپنی سہاگ رات کی پہلی چودائی کو فل انجوائے کر رہے تھے۔ اتنے میں عفت کو اپنے جسم میں وہی سوئیاں چبھتی محسوس ہونے لگیں۔ مگر اپ کی بار وہ جانتی تھی کہ اسکے نتیجے میں ملنے والا مزہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

دانش نے بھی اب کی بار پوری رفتار کے ساتھ دھکے لگانا شروع کر دیا تھے اور اس نے عفت کے چوتڑوں کو زور سے پکڑ رکھا تھا۔ کچھ دیر مزید دھکے لگانے کے بعد دانش نے مزید کچھ زور دار دھکے لگائے اور اسکے ساتھ ہی اپنی ساری منی اپنی بیوی عفت کی چوت کے اندر نکال دی۔ جیسے جیسے دانش کے لن سے منی نکل رہی تھی ویسے ہی عفت کی چوت بھی اپنا پانی چھوڑ رہی تھی۔ چوت اور لن نے جب اکٹھے پانی چھوڑا تو عفت کی چوت میں جیسے سیلاب آگیا۔ اور یہ سیلاب بہت ہی زیادہ گرم پانی کا تھا جس سے عفت کی چوت اور گرم جوانی کو ایک سکون مل گیا۔

دونوں اپنا اپنا پانی چھوڑنے کے بعد کافی دیر تک ایک دوسرے کے گلے سے لگ کر گہرے گہرے سانس لیتے رہے۔ دانش کا 8 انچ کا لن اب چھوٹا ہوکر 2 انچ کا ہوگیا تھا جسکو عفت بہت ہی اشتیاق کے ساتھ دیکھ رہی تھی اور حیران ہورہی تھی کہ یہ ننھا منا سا 2 انچ کا لن کچھ ہی دیر پہلے کیسے لوہے کے راڈ کے طرح اسکی چوت میں گھسا ہوا تھا۔ میجر دانش نے آج اپنی بیوی کو ان کھلی کلی سے کھلا ہوا گلاب بنا دیا تھا اور عفت بھی لن کے مزے سے پہلی بار آشنا ہوئی تھی۔ دونوں ابھی تک ایکدوسرے کے جسم کی گرم حاصل کر رہے تھے اور وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو چوم بھی رہے تھے۔

اسی چوما چاٹی کے دوران دانش کے لن نے ایک بار پھر اپنا سر اٹھانا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 2 انچ کی للی سے وہ 8 انچ کا لمبا اور موٹا تازہ لن بن گیا۔ عفت لن کو اس طرح لمبا ہوتے ہوئے بہت حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ عفت سمجھ گئی تھی کہ اسکے شوہر کا ابھی دل نہیں بھرا اور وہ ایک اور چدائی کا راونڈ لگا کر اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے۔ گوکہ عفت بہت بری طرح تھک چکی تھی اور اسکی چوت آج کی پہلی چدائی کے بعد مزید لن لینے کی متحمل نہیں تھی مگر پھر بھی اسنے شوہر کو انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اچھی بیوی وہی ہوتی ہے جو مرد کے لن کے لیے اپنی پھدی کو ہر وقت تیار رکھے۔ یہی عفت نے بھی کیا اور بغیر کوئی نخرہ دکھائے دوبارہ سے چدنے کے لیے تیار ہوگئی۔

دانش ایک بار پھر اپنی بیوی کی ٹانگیں کھولیں اپنا لن ہاتھ میں پکڑے عفت کی پھدی مارنے کے لیے تیار بیٹھا تھا کہ اتنے میں ساتھ پڑے دراز میں موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ میجر دانش نے سب کچھ بھلا کر آگے بڑھ کر موبائل اٹھانا چاہا تو عفت نے منع کر دیا اور کہا کم سے کم آج کی رات تو موبائل کو چھوڑ دو۔ مگر میجر دانش نے کہا کہ اسکا اپنا پرسنل موبائل آف ہے، یہ خاص موبائل ہے جس پر اسکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے انتہائی ضروری کام کے لیے ہی کال آتی ہے وہ اس کال کو ریجیکٹ نہیں کر سکتا۔ یہ کہ کر اسنے کال اٹینڈ کی تو آگے سے فون پر اسکو فوران ڈیوٹی پر آنے کا کہا گیا۔ دشمن ملک کا ایک ایجینٹ پاکستان کے کچھ خفیہ راز چرا کر واپس اپنے ملک بھاگنے کی تیاری کر رہا تھا اور کراچی میں اس وقت میجر دانش سے زیادہ ہونہار خفیہ ایجینٹ موجود نہیں تھا۔ اس لیے آئی ایس آئی نے میجر دانش کی سہاگ رات کا خیال کیے بنا ہی اسکو کال کر کے واپس ڈیوٹی پر بلایا۔

میجر دانش جس میں وطن کی محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس نے بھی بغیر کچھ اور کہے اپنی گرم اور جوان بیوی کی چکنی چوت کو چھوڑا اور فورا ہی اپنی الماری سے عام کپڑے نکال کر بیوی کے سر پر بوسہ دیکر کمرے سے نکل گیا۔ عفت حیران اور پھٹی ہوئی نظروں سے میجر دانش کو دیکھ رہی تھی کہ کیسے اچانک ہی سہاگ رات پر جب وہ اپنا لن عفت کی چوت میں ڈالنے ہی والا تھا، دانش سب کچھ بھول کر اپنا فرض ادا کرنے نکلنے گیا تھا۔ میجر دانش نے اپنی کالے رنگ کی کرولا گاڑی سٹارٹ کی اور گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
میجر دانش انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اسکے سر پر ٹھنڈے یخ پانی کی ایک بالٹی انڈیل دی گئی۔ سر پر ٹھنڈا پانی پڑتے ہی میجر دانش اپنی سوچوں کی دنیا سے واپس آیا تو اسنے دیکھا وہ اسی اندھیرے کمرے میں ہے جہاں کرنل وشال سے آمنا سامنا ہونے کے بعد اسکی آنکھ کھلی تھی۔ یوں تو میجر دانش کو سپیشل ٹرینینگ دی گئی تھی کہ کسی بھی قسم کے حالات میں اپنے ارد گرد کا خیال رکھنا ہے مگر عفت کی یادوں میں گم ہو کر میجر دانش کو پتا ہی نہیں لگا کب اسکے قید خانے کا دروازہ کھلا اور ایک مرد اور ایک عورت اندر داخل ہوئے۔ میجر دانش کو ہوش تب آیا جب اسکے سر پر ٹھنڈے پانی کی بالٹی انڈیلی گئی۔

میجر دانش نے ہوش میں آتے ہی دوبارہ ہلنے جلنے کی کوشش کی مگر ایک بار پھر وہ بری طرح ناکام رہا۔ کمرے میں بہت ہلکی سی روشنی تھی جس میں وہ آنے والے مرد اور عورت کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔ انکی بلکہ مدھم سی شکل نظر آرہی تھی۔ میجر دانش نے اندازہ لگایا کہ مرد کی عمر 30 کے لگ بھگ رہی ہوگی جبکہ عورت کی عمر 25 سے 26 سال ہوگی۔ میجر دانش انکو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ آنے والے مرد نے عورت کو واپس چلنے کا اشارہ کیا اور بولا آ ہی گیا ہے یہ پاکستانی کتا ہوش میں، چل اب اسکے لیے کھانا بھجوا دے۔ میجر دانش نے مرد کو آواز دی اور پوچھا کہ تم کون ہو ؟؟ اور میں کہاں ہوں اسوقت؟؟ مرد نے ایک بار مڑ کی میجر دانش کو دیکھا اور بغیر کوئی جواب دیے واپس چلا گیا۔

کچھ دیر کے بعد دوبارہ سے دروازہ کھلا اور وہی عورت جو پہلے اندر آئی تھی اپنے ہاتھ میں ایک پلیٹ لیے اندر آئی۔ اس نے میجر دانش کے سامنے آکر بڑی حقارت سے اسکے سامنے پلیٹ رکھی اور بولی چل اب کھا لے ۔ یہ کہ کر وہ عورت چپ چاپ واپسی کے لیے مڑ گئی۔ میجر دانش ایک بار پھر چلایا کہ تم کون ہو؟؟ اور میں کہاں ہوں؟ عورت مڑی اور بولی میں کون ہوں تجھے اس سے مطلب چپ کر کے روٹی کھا پھر تجھے ادھر سے شفٹ کرنا ہے۔ میجر دانش نے ایک بار پھر پوچھا اتنا تو بتا دو میں کب سے ہوں ادھر؟؟ اس پر عورت بولی کل رات تجھے باس بےہوشی کی حالت میں لایا تھا اور آج تجھے ہوش آیا ہے۔ یہ کہ کر وہ عورت واپس چلی گئی اور دروازہ ایک بار پھر بند ہوگیا۔

میجر دانش نے پہلے تو حقارت سے کھانے کی طرف دیکھا جیسا کہ کہنا چاہ رہا ہو کہ وہ دشمن کا دیا ہوا کھانا نہیں کھائے گا۔ مگر پھر کھانے پر نظر پڑتے ہی اسکے شدید بھوک محسوس ہونے لگی اور وہ چپ چاپ پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھانے لگا۔ پلیٹ میں پتلی دال اور ساتھ کچھ روٹیاں پڑی تھیں۔ میجر دانش کے دونوں ہاتھ آپس میں مضبوطی سے بندھے ہوئے تھے۔ اس نے بہت مشکل سے روٹی کھائی ۔ حیرت انگیز طور پر میجر دانش سارا کھانا کھا گیا اور پلیٹ ایسی صاف کر دی جیسے دھلی ہوئی ہو۔ اسکو شدید بھوک لگی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد میجر دانش نے پھر سے کمرے میں نظریں دوڑائیں تو پورا کمرہ خالی تھا۔ اندر اندھیرے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ پھر میجر دانش چلایا اور پانی مانگنے لگا۔ مگر شاید اسکی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔

کافی وقت گزرنے کے بعد میجر دانش کو پھر سے دروازے کے پاس کچھ قدموں کی آواز آئی تو اس نے پھر سے پانی کے لیے چلانا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور وہی عورت ہاتھ میں پانی کا جگ لے آئی۔ اور میجر دانش کے سامنے رکھ کر کھانے والی پلیٹ اٹھا کر باہر چلی گئی۔ میجر دانش نے اس بار اس سے کچھ نہیں پوچھا کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس سے کوئی جواب نہیں ملے گا۔ لہذا وہ چپ چاپ پانی پینے میں لگ گیا۔ اتنا تو اسکو یقین تھا کہ وہ کرنل وشال کی قید میں ہے۔ مگر اندر آنے والا مرد کرنل وشال ہرگز نہیں تھا۔ اور یہ عورت کون تھی میجر دانش اسکو بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کب سے اس کمرے میں قید ہے۔

میجر دانش اب آنے والے حالات کے بارے مین سوچنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ مجھے ماریں گے تو نہیں۔ کیونکہ دشمن ہمیشہ اپنے دشمن کو زندہ رکھنے کی ہی کوشش کرتا ہے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ راز اگلوا سکے۔ اب میجر دانش اندازہ لگانے لگا کہ آخر کرنل وشال کونسی معلومات لیکر پاکستان سے فرار ہوا تھا؟؟ اور اب وہ میجر دانش کے ساتھ کیا کرے گا۔ مگر ان میں سے کسی بھی بات کا جواب نہیں تھا میجر کے پاس۔ میجر انہی خیالوں میں گم تھا کہ دوبارہ سے دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا آدمی اندر داخل ہوا۔ اسکے پیچھے 2 آدمی اور بھی تھے جو ہاتھ میں گن لیے کھڑے تھے۔ یہ تینوں لوگ شکل سے ہی کسی بدماش گروپ کے غنڈے لگ رہے تھے۔ آگے آنے والے شخص نے میجر دانش کے قریب کھڑے ہوکر اسکو سر کے بالوں سے پکڑا اور کھڑا ہونے کو کہا۔ میجر دانش لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوگیا اور اس آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا کہ تم کون ہو اور میں یہاں کیوں ہوں؟؟ میجر کی آنکھوں میں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس شخص نے میجر دانش کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا جس سے میجر کا منہ ایک لمحے کے لیے دائیں سائیڈ پر مڑ گیا مگر میجر نے فورا ہی واپس اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور بولا بتاو مجھے تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟؟

اب کی بار بھی میجر کی آنکھوں میں خوف نہیں تھا۔ میجر سیدھا کھڑا تھا اسکے پاوں بھی بندھے ہوئے تھے اور ہاتھ بھی۔ میجر کی بات کا جواب دینے کی بجائے اس شخص نے کہا یہاں میں تیری باتوں کے جواب دینے نہیں آیا، جو میں پوچھوں صرف اسکا جواب دے۔ ورنہ یہ پیچھے جو لوگ کھڑے ہیں یہ اپنی بندوق کی ساری گولیاں تیرے جسم میں اتار دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اس شخص کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میجر دانش نے اپنا سر بہت زور دار طریقے سے سامنے کھڑے شخص کی ناک پر دے مارا جس سے وہ بلبلاتا ہوا پیچھے کی طرف لڑکھڑاتا ہوا 4، 5 قدم پیچھے ہوگیا۔ دانش کی اس حرکت سے پیچھے دو کھڑے لوگوں نے اپنی اپنی بندوقوں کے رخ دانش کے سر کی طرف کر دیے مگر انکے باس نے فورا ہی ہاتھ کے اشارے سے انکو منع کر دیا کہ گولی نہیں چلانی۔

اب وہ غصے میں دانش کی طرف دیکھنے لگا تو میجر دانش بولا تیرے ان کرائے کے کتوں سے میں تو کیا میرے ملک کا بچہ بھی نہیں ڈرے گا۔ ہمت ہے تو انکو کہ میرے پر گولی چلائیں۔ اصل میں دانش جو آئی ایس آئی کا قابل ایجینٹ تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کوئی بھی آرمی کبھی دوسری آرمی کے قیدی کو اتنی آسانی سے نہیں مارتے۔ کیونکہ انکا مقصد قیدی سے زیادہ سے زیادہ معلومات لینا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ کبھی گوارا نہیں کرتے کہ ہاتھ آئے قیدی کو کچھ معلومات لیے بغیر مار دیں۔ یہی وجہ تھی کہ میجر دانش بالکل نڈر کھڑا تھا۔

اب کی بار اندر آنے والے شخص نے پوچھا بتاو تم لیفٹینینٹ کرنل ہارون کا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟ اور ہماری شپ پر کیا کرنے آئے تھے؟؟؟ اسکی یہ بات سن کر میجر دانش نے ایک قہقہ لگایا اور بولا یہ دھوکا کسی اور کو دینا، کرنل وشال جیسے کتے کو میں کسی بھی روپ میں پہچان سکتا ہوں۔ وہ لیفٹینینٹ کرنل ہارون نہیں بلکہ کرنل وشال تھا جسکا میں پیچھا کر رہا تھا۔ میجر کی یہ بات سن کر وہ شخص مسکرایا اور بولا اچھا تو تم جانتے ہو کہ وہ کرنل وشال تھا۔ چلو یہ تو اچھی بات ہے۔ اب یہ بھی بتا دو کہ تم انکا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟؟؟ اسکی یہ بات سن کر دانش بولا کہ میں تب تک تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا جب تک تم میرے چند سوالوں کے جواب نہیں دے دیتے۔ دوسرے شخص نے پوچھا کونسے سوال؟؟ تو میجر دانش بولا کہ میں اس وقت کہاں ہوں؟؟ اور تم لوگ کون ہو؟ دانش کی بات سن کر وہ شخص بولا تم اس وقت جام نگر میں ہو اور ہم کون ہیں یہ جاننے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔

یہ جواب سن کر دانش نے اندازہ لگا لیا کہ یہ انڈیا کا ساحلی شہر ہے ، اب میجر دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ ہندوستان کا قیدی بن چکا ہے۔ مگر اسنے بغیر پریشان ہوئے اگلا سوال کیا کہ میں کتنی دیر بےہوش رہا؟؟ اس پر وہ شخص بولا ہمیں 3 دن پہلے بتا دیا گیا تھا کہ ایک پاکستان کتا پکڑا گیا ہے اور کل تمہیں یہاں پہنچا دیا گیا تھا۔ تب سے تم ادھر ہی ہو۔ یہ سن کر میجر دانش حیران رہ گیا۔ 3 دن پہلے اس شخص کو پتا لگا تھا کہ میجر دانش کرنل وشال کے قبضے میں ہے، اسکا مطلب کہ میجر دانش کم سے کم 3 دن سے بے ہوش پڑا تھا۔ اب کی بار وہ شخص دھاڑا کہ اب بتاو تم کرنل وشال کا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟؟؟ اسکی بات سن کر میجر دانش نے بلا توقف کہا جب وہ روڈ پر ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 90 کی بجائے 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے گاڑی چلائے گا تو میں تو اسکا پیچھا کروں گا ہی نا۔ میری تو ڈیوٹی ہے یہ۔ میجر دانش کا یہ جواب سن کر دوسرا شخص دھاڑا کیا مطلب ہے تمہارا؟ میجر دانش مسکراتے ہوئے بولا ارے یار میں ٹریفک پولیس میں ہوں کراچی میں۔ رات 3 بجے ایک ہنڈا اکارڈ جس میں تمہارا کرنل وشال کہیں جا رہا تھا اس گاڑی کا پیچھا کیا کیونکہ وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے 130 کلومیٹر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش کی بات مکمل ہوتی ایک زناٹے دار تھپڑ میجر کے منہ پر پڑا جس نے میجر دانش کے چاروں طبق روشن کر دیے تھے۔

میجر دانش کو دوبارہ سے اسی شخص کی غراتی ہوئی آواز آئی ابے خبیث انسان ایک ٹریفک پولیس کو کیسے پتا ہوسکتا ہے کہ لیفٹینینٹ کرنل ہارون کے بھیس میں کرنل وشال جا رہا ہے۔۔۔ تو یقینا آئی ایس آئی کا کتا ہے۔ سچ سچ بول نہیں تو تیری زبان کھینچ کر سچ اگلوا لوں گا میں۔۔۔۔ اس شخص کی یہ بات سن کر میجر دانش نے اپنی زبان باہر نکال دی۔۔۔۔ وہ شخص حیران ہوکر میجر کو دیکھنے لگا تو میجر بولا لو پکڑ لو زبان اگلوا لو جو سچ تم نے اگلوانا ہے۔ یہ کہ کر میجر دانش ہنسنے لگا اور پھر بولا یار گاڑی کے شیشے کالے تھے مجھے تو نہیں پتا تھا اندر کون ہے۔ میں نے تو پیچھا کرنا شروع کر دیا تھا۔ پھر بندر گاہ کے قریب میں نے کرنل وشال کو کچھ اسلحہ برادر لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے سنا، وہ لوگ اسکو کرنل وشال کہ کر ہی مخاطب کر رہے تھے تو میں سمجھ گیا کہ یہ آدمی جو قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے یہ کرنل وشال ہے۔

میجر کی یہ بات ختم ہوئی تو وہ شخص مسکرانے لگا اور بولا چوتیا سمجھ رکھا ہے کیا تو نے ہمیں؟؟ کچھ بھی بولے گا اور ہم مان لیں گے؟؟؟ میجر دانش برا سا منہ بناتے ہوئے بولا اچھا یار نہ مانو۔ جو سچ ہے میں نے تمہیں بتا دیا۔ وہ شخص پھر بولا سچ سچ بتا آئی ایس آئی نے کس مقصد سے تجھے بھیجا تھا کرنل کے پیچھے؟؟؟ میجر دانش نے انجان بنتے ہوئے کہا کون آئی ایس آئی؟؟؟ پھر خود ہی بول پڑا اچھا اچھا پاکستان کی خفیہ ایجینسی۔۔۔ ارے یار وہ اتنے پاگل تھوڑی ہیں ایک ٹریفک کانسٹیبل کو کرنل کا پیچھا کرنے بھیج دیں، میں نے بتایا نا کہ وہ اوور سپیڈینگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک اور زناٹے دار تھپڑ میجر دانش کے چہرے پر لگا اور اسکی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ اب کی بار میجر دانش نے غصے سے اس شخص کی طرف دیکھا اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا کہ اس تھپڑ کا بدلہ تو میں تجھ سے ضرور لوں گا۔ ایک بار میرے ہاتھ تو کھول پھر دیکھ تجھے تیرے ان بھائیوں کے سامنے کتے کی موت ماروں گا۔

میجر دانش کی یہ بات سن کر وہ شخص زور زور سے ہنسنے لگا۔ اور بولا اچھا چل یہ بتا کہ ایک ٹریفک پولیس والے نے ہمارے آرمی کیپٹن کو ایک ہی وار میں کیسے جان سے مار دیا؟؟؟ اس پر میجر دانش نے کہا اس میں کونسا بڑی بات ہے، میرے ہاتھ کھول ابھی بتا دیتا ہوں کہ اسے کیسے مارا تھا۔ یہ کہ کر میجر دانش ہنسنے لگا اور بولا اچھا تو وہ جو میرا ایک ہاتھ لگنے سے مر گیا وہ تمہارا آرمی کیپٹن تھا؟؟؟ حیرت ہے یار کیا زنخے بھرتی کرتے ہو تم لوگ آرمی میں۔۔ ابھی شکر کرو انکے سامنے پاکستان کا ٹریفک کانسٹیبل تھا کہیں واقعی میں آئی ایس آئی کا ایجینٹ آجاتا تو تمہارا کرنل وشال بھی اسی کیپٹن کی طرح اگلے جہاں پہنچ جاتا۔

ایک اور تھپڑ میجر دانش کے چہرے پر لگا مگر اس بار میجر دانش نے تھپڑ کھاتے ہی جوابی حملہ کیا اور ایک بار پھر اپنا سر اس شخص کی ناک پر دے مارا۔ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور زمین پر جا گرا۔ پیچھے کھڑے گن مین ایک بار پھر اپنی گنوں کا رخ میجر دانش کی طرف کر کے کھڑے ہوگئے مگر اس بار وہ ڈرے ہوئے تھے اور 2، 2 قدم پیچھے ہٹ گئے تھے۔ انکو دیکھ کر میجر دانش نے قہقہ لگایا اور بولا چلاو گولی چلاو۔۔۔ مگر انہوں نے گولی نہیں چلائی اور وہ شخص بھی اب اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا تھا۔ اسکے ناک سے اب خون نکل رہا تھا۔ اسکا ایک ہاتھ اپنی ناک پر تھا۔ وہ شخص اب غصے میں بولا گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا تو انگلی ٹیڑھی بھی کرنی آتی ہے ہمیں۔ راء کے پاس تم جیسے آئی ایس آئی کے پِلوں کو سیدھا کرنے کے ایک سو ایک طریقے ہیں۔ اب وہی تم سے نمٹیں گے۔ یہ کہ کر وہ شخص واپس چلا گیا اور کمرے میں ایک عجیب سی بدبو پھیل گئی۔ میجر دانش سمجھ گیا تھا کہ یہ سپیشل گیس چھوڑی گئی ہے میجر کو بے ہوش کرنے کے لیے۔ اس نے اپنی سانس روکنے کی بالکل کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اتنی دیر سانس نہیں روک سکتا کہ اس گیس کا اثر زائل ہوسکے لہذا فضول میں سانس روکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کچھ ہی سیکنڈ میں میجر دانش زمین پر بے ہوش پڑا تھا۔

================================================== ======================================

میجر دانش کے گھر سے نکلنے کا عفت کے سوا اور کسی کو معلوم نہ ہوا۔۔ البتہ عفت دانش کے کمرے سے نکلتے ہی فورا اپنے کپڑے پہن کر دانش کو روکنے کے لیے باہر نکلی مگر جیسے ہی وہ گھر کے گیٹ پر پہنچی چوکیدار دروازہ بند کر رہا تھا اور دور میجر دانش کی گاڑی کی بیک لائٹس نظر آرہی تھیں۔ عفت کو دیکھ کر چوکیدار بولا سلام بی بی جی۔--- میں شرفو۔۔۔ آپکا چوکیدار۔۔۔ میجر صاحب اکثر رات کو اسی طرح اچانک چلے جاتے ہیں اور اگلی صبح تک واپس آجاتے ہیں۔ آپ بے فکر ہوکر اندر جائیں۔ عفت چوکیدار کی بات سنے بغیر اندر آگئی تھی۔ ابھی وہ اپنے کمرے میں جانے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی بیٹا کیا ہوا؟؟ یہ دانش کی امی کی آواز تھی یعنی عفت کی ساس۔ عفت نے ساس کو سامنے دیکھ کر انکو سلام کیا اور بتایا کہ اچانک دانش کو کوئی فون کال آئی اور وہ بنا کچھ بتائے گاڑی لیکر کہیں چلے گئے ہیں۔

میجر دانش کی والدہ نے آگے بڑھ کر اپنی بہو کو پیار کیا اور کہنے لگیں بیٹا تمہیں تو پتا ہی ہے وہ ایک سپاہی ہے اور وطن کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہے۔ اکثر اسکو ایمرجینسی میں جب بھی بلایا جاتا ہے وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنا فرض ادا کرنے چلا جاتا ہے۔ بس تم دعا کرو کہ وہ خیریت سے واپس آجائے۔ اسکے بعد دانش کی والدہ نے ایک بار پھر اپنی نئی نویلی دلہن کا ماتھا چوما اور واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ عفت بھی اپنے کمرے میں جانے ہی لگی تھی کہ اسکو کچھ آوازیں سنائی دیں۔ یہ آوازیں عفت کے ساتھ والے کمرے سے آرہی تھیں۔ عفت نے کان لگا کر سنا تو یہ عمیر کی بیوی نادیہ کی آوازیں تھیں۔ اوئی میں مر گئی، پلیز عمیر آہستہ کریں۔ آہ۔۔۔۔ اف اف اف آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ آوچ۔ ۔ ۔ ہائے میں مر گئی۔۔۔ آوازیں سیکس سے بھرپور تھیں اور نادیہ کی ان آوازوں کے ساتھ ساتھ دھپ دھپ کی مخصوص آوازیں بھی آرہی تھیں جن سے عفت سمجھ گئی کہ جس طرح ابھی دانش عفت کی چودائی کر رہا تھا اسی طرح اسکا بھائی عمیر بھی اپنی نئی نویلی دلہن کو چودنے میں مصروف ہے۔

نادیہ کی یہ آوازیں سن کر عفت کو ایک عجیب سا سرور ملا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی اندر کمرے میں آگئی اور دروازہ بند کر کے اپنے کان پھر سے دیوار کے ساتھ لگا دیے۔ اب کی بار اسکو یہ آوازیں اور بھی واضح آرہی تھیں۔ دھپ دھپ کی آوازوں میں کافی تیزی آگئی تھی اور نادیہ اب اف آہ۔۔۔ مزہ آگیا جانو، اور زور سے چودو مجھے، مزہ آرہا ہے، زور زور سے دھکے مارو۔۔۔۔ آہ جانو بہت مزہ آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ جیسی آوازیں نکال رہی تھی۔ عفت سمجھ گئی کہ اب نادیہ سیکس کو انجوائے کر رہی ہے جس طرح کچھ دیر پہلے عفت کر رہی تھی۔ پھر اچانک ہی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔ عفت نے کچھ دیر مزید انتظار کیا مگر اب دوسری طرف سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔

پھر عفت واپس اپنے بستر پر جا کر لیٹنے لگی تو اسکی نظر اس سفید چادر پر پڑی جو اس نے چودائی سے پہلے اپنے نیچے بچھائی تھی۔ اس پر سرخ رنگ کے نشان تھے۔ عفت ان سرخ نشانوں کو دیکھتے ہی اپنی شلوار اتار کر اپنی چوت کو دیکھنے لگی۔ وہاں اب خون کا کوئی نشان نہیں تھا۔ پھر عفت نے وہ چادر اٹھائی اور اٹیچ باتھ روم میں لیجا کر ایک خانے میں رکھ دی اور خود بستر پر آکر لیٹ گئی اور دانش کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔ دعا مانگتے مانگتے نجانے اسکی کب آنکھ لگ گئی۔

صبح 12 بجے کے قریب اسکی آنکھ کھلی تو اسکو گھر میں تھوڑی چہل پہل محسوس ہوئی۔ ابھی وہ بستر سے اٹھ کر بیٹھی ہی تھی کہ اسکے کمرے کا دروازہ ناک ہوا۔ عفت نے فورا اٹھ کر اپنا دوپٹہ لیا اور کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے اسکی ساس کھڑی تھیں۔ انہوں نے عفت کو پیار کیا اور بولیں بیٹا گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں تم تیار ہوکر تھوڑی دیر تک باہر آجاو۔ یہ کہ کر وہ باہر چلی گئیں اور عفت تیار ہونے لگی۔ ایک گھنٹے کے بعد عفت جب اپنے کمرے سے نکلی تو اس نے بلیک کلر کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ بلاوز کی لمبائی کچھ زیادہ نہ تھی، عفت کی ساڑھی کا بلیک بلاوز ناف یعنی بیلی بٹن سے کچھ اوپر ختم ہو رہا تھا۔ نیچے اسکا پیٹ اور کمر کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا اور اسکے نیچے ساڑھی کا نیچے والا حصہ تھا۔ باریک پلو اسکے پیٹ سے ہوتا ہوا سینے کے ابھاروں کو چھوتا ہوا بائیں کندھے کے اوپر سے گھوم کر دائیں بازو پر آرہا تھا۔ اسکے ساتھ ہلکے رنگ کا میک اپ عفت کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا۔

عفت باہر آئی تو باری باری تمام مہمانوں سے ملی۔ عمیر کی دلہن نادیہ بھی وہیں موجود تھی وہ بھی خاصی تیار ہو کر نکلی تھی۔ عفت نادیہ سے گلے ملنے کے بعد عمیر سے ہاتھ ملا کر ایک صوفے پر بیٹھ گئی جہاں باقی مہمان بھی بیٹھے تھے۔ کچھ نے دانش کے بارے میں معلوم کرنا چاہا تو عفت نے انہیں بتایا کہ وہ کچھ نہیں جانتی انسے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔ وہ اپنا موبائل بھی گھر چھوڑ گئے ہیں۔ جبکہ کچھ مہمانوں نے عفت کو تسلی دی کہ بیٹا فکر نہیں کرو وہ جلد ہی آجائے گا۔ سب مہمان باتوں میں مشغول ہوگئے تو عفت وہاں سے اٹھی اور عمیر کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔

بڑی بھابھی کا اشارہ پا کر عمیر عفت کے پیچھے چل پڑا۔ عفت اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر بیٹھ چکی تھی۔ عمیر بھی کمرے میں آیا اور بولا جی بھابھی بتائیں کیا بات ہے؟ عفت روہانسی سی شکل بنا کر بولی عمیر بھائی پلیز کسی طرح دانش کا پتا لگاو وہ کہاں ہیں مجھے بہت فکر ہو رہی ہے انکی۔ عمیر نے بھابھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا اور تسلی دیتے ہوئے بولا عفت بھابھی آپ فکر نہ کریں دانش بھائی بالکل خیریت سے ہونگے۔ میں نے صبح ہی انکے آفس سے پتا کیا ہے تو وہاں سے مجھے بتایا گیا کہ انکو ایک سپیشل مشن پر بھیجا گیا ہے جو بہت ضروری تھا۔ انہیں بس ایک شخص کی مخبری کرنی ہے اسکے بعد وہ واپس آجائیں گے۔ یہ سن کر عفت بولی کہ آج آجائیں گے نا وہ واپس؟ رات کو ولیمے کی دعوت بھی ہے۔ ؟؟؟ عمیر بولا کہ بھابھی آج کا تو میں کچھ نہیں کہ سکتا بس انکے آفس سے اتنا ہی پتا لگا ہے کہ وہ جلد آجائیں گے۔ آپ فکر نہ کریں باہر باقی مہمانوں کے ساتھ آکر بیٹھ جائیں آپکا دل لگا رہے گا۔

یہ کہ کر عمیر کمرے سے نکل گیا۔ کچھ ہی دیر بعد عفت نے بھی اپنی بھیگی آنکھوں کو صاف کیا میک اپ کا ایک ٹچ دیکر باہر مہمانوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ دانش کی بہنیں فوزیہ اور پنکی بھی وہیں موجود تھیں جبکہ شام تک عفت کی کچھ کالج کی فرینڈز بھی آچکی تھیں۔ کالج کی فرینڈز کو لیکر عفت اپنے کمرے میں آگئی۔ کمرے میں آتے ہی عفت کی دوستوں نے عفت کو گھیر لیا اور اس سے پوچھنے لگی کہ دانش بھائی کے ساتھ رات کیسی گزری؟ جس پر عفت نے تھوڑا شرماتے ہوئے اور تھوڑا اٹھلاتے ہوئے انہیں اپنا منہ دکھائی کا تحفہ بھی دکھایا اور دبے الفاظ میں اپنا کنوارہ پن ختم ہونے کا بھی بتایا۔ عفت کی ایک دوست جو زیادہ ہی منہ پھٹ تھی وہ بولی تجھے بھی فارغ کروایا دانش بھائی نے یا خود ہی 2 منٹ میں فارغ ہوکر سائیڈ پر ہوگئے؟؟ اس پر عفت نے بڑے غرور سے کہا انہیں واپس تو آنے دے تجھے بھی وہ ۵ بار فارغ کروا دیں گے۔ اس پر تمام دوستیں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔

یونہی وقت گزرتا گیا، دعوتِ ولیمہ کا فنکشن بھی ہوگیا، عفت نے دلہن کی بجائے گھر کی بہو کی حیثیت سے دعوت میں شرکت کی کیونکہ شوہر کے بنا دلہن بن کر ولیمہ کی دعوت میں بیٹھنا کسی طور بھی مناسب نہیں تھا جبکہ عمیر اور اسکی دلہن نادیہ نے دلہا دلن کی حیثیت سے ولیمہ اٹینڈ کیا۔

3 دن گزر چکے تھے مگر دانش کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ فوزیہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس اپنے گھر جا چکی تھی جبکہ دانش کی چھوٹی بہن پنکی دانش کی غیر موجودگی میں عفت کے ساتھ ہی اسکے کمرے میں سوتی تھی۔ عفت اور پنکی دونوں رات کو نماز پڑھ کر دانش کی سلامتی کی خصوصی دعائیں مانگتی اور اسکے بعد بستر پر لیٹ کر لمبی لمبی باتیں کرتیں۔ پنکی اپنی عفت بھابھی کو حوصلہ دیتی اور اسے اپنے بھائی کی بہادری کے قصے بھی سناتی۔

عفت کی شادی کو اب پورے 7 دن ہوچکے تھے۔ مگر ابھی تک دانش کا کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ عفت کے گھر والے ، عفت خود اور دانش کے گھر والے اب دانش کو لیکر کافی پریشان تھے۔ کیونکہ دانش کے آفس سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا تھا۔ نہ ہی ابھی تک دانش نے گھر رابطہ کیا تحا۔ کرتا بھی کیسے وہ تو کرنل وشال کی قید میں تھا جہاں سے کبھی کوئی قیدی بچ کر نہیں نکل سکا تھا۔

عمیر کو بھی اپنے بھائی کی فکر تھی یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنا ہنی مون کا پلان بھی کینسل کر دیا تھا جو شادی کے 3 دن بعد کا تھا۔ اس پلان کے مطابق شادی کے 3دن بعد عمیر اور اسکی بیوی نادیہ اور دانش اور عفت نے ملکر مری جانے کا پوگرام بنایا تھا۔ مگر دانش کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ پوگرام کینسل ہوگیا تھا۔

اس دوران عفت 3 دن کے لیے اپنے میکے سے بھی ہوآئی تھی۔ دوسری طرف عمیر کی بیوی نادیہ سے اب صبر نہیں ہورہا تھا۔ اس نے عمیر پر زور ڈالنا شروع کیا کہ اب انہیں ہنی مون کے لیے جانا ہی چاہیے۔ پہلے پہل تو عمیر نے اسے ڈانٹ دیا مگر پھر آخر کار اسے ماننا ہی پڑا۔ طے یہ پایا کہ عمیر، اسکی بیوی نادیہ، عفت اور عمیر کی بہن پنکی یہ چاروں لوگ مری جائیں گے۔ جب عفت کو اس پروگرام کا پتہ چلا تو اسنے فورا ہی منع کر دیا کہ اول تو وہ دانش کے بغیر نہیں جائے گی، دوسری بات یہ عمیر کا ہنی مون ٹرپ ہے لہذا اس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہی جائے۔ اگر دانش ہوتے تو بات اور تھی مگر یوں اس طرح دانش کے بغیر ہنی مون ٹرپ پر عفت کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں۔ مگر دانش کی عدم موجودگی سے پنکی کو جو موقع ملا تھا مری کی سیر کرنے کا وہ اسکو ضائع نہیں کرنا لہذا وہ عفت کی منتیں کرنے لگ گئی کہ بھابھی اگر آپ نہیں جائیں گی تو عمیر بھائی مجھے بھی نہیں لیکر جائیں گے۔ اور اگر آپ جائیں گی تو ساتھ میں بھی جا سکتی ہوں۔

عفت نے پنکی کو سمجھانا چاہا کہ دانش کی غیر موجودگی میں اسکا بالکل دل نہیں کر رہا وہ ایسے نہیں جا سکتی۔ اگر دانش کی کوئی خیر خبر ہی مل جاتی تو شاید وہ چلی بھی جاتی۔ مگر اب نہیں جا سکتی۔ لیکن پنکی کہاں ٹلنے والی تھی۔ حالانکہ پنکی عمر میں عفت سے ایک سال بڑی تھی مگر رشتے میں عفت نہ صرف پنکی سے بڑی تھی بلکہ عمیر سے بھی بڑی تھی۔ لہذا پنکی عفت کے سامنے ایسے ہی ضد کر نے لگی جیسے وہ اپنے بڑے بھائی دانش کے سامنے بچی بن کر ضد کرتی تھی۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے پنکی میں بچپنہ بھی کافی تھا۔ عفت نے پنکی کو یہ بھی سمجھانا چاہا کہ عمیر اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون پر جانا چاہتا ہے ہم وہاں کباب میں ہڈی ہونگے تو پنکی فورا بولی کہ ہم علیحدہ روم میں رہیں گے وہ دونوں علیحدہ میں اب اور کوئی بہانہ نہیں بس آپ چلنے کی تیاری کریں۔ آخر کار عفت کو پنکی کی ضد کے آگے ہار ماننی پڑی۔ شادی کے 10 دن بعد عمیر، نادیہ ، عفت اور پنکی ہنی مون ٹرپ پر مری جا رہے تھے ۔ نادیہ اور پنکی تو بہت خوش تھے ، جبکہ عفت کا بالکل بھی دل نہیں لگ رہا تھا دانش کے بغیر دوسری طرف عمیر بھی قدرے شرمندہ تھا اپنی بھابھی کے سامنے ، اسکو احساس تھا کہ دانش کی غیر موجودگی میں اسے اپنا ہنی مون ٹرپ
پلان نہیں کرنا چاہیے تھا مگر کیا کرتا بیوی کی ضد کے سامنے اسکی ایک نہیں چلی تھی۔

================================================== ===========================================

دانش کی آنکھ کھلی تو اب کی بار وہ پہلے سے نسبتا چھوٹے کمرے میں قید تھا۔ اور اس بار نائلون کی رسی کی بجائے اسکے ہاتھ لوہے کے راڈز کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے۔ دانش کو ایک دیوار کے ساتھ سیدھا کھڑا کیا گیا تھا اسکے ہاتھ سر سے اوپر دیوار کے ساتھ لگے ہوئے لوہے کے راڈز کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے جبکہ پاوں بھی اسی طرح کے لوہے کے گول راڈز کے ساتھ جکڑے گئے تھے۔ اب کی بار دانش اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔ اند راڈز کو دیکھ کر دانش نے پریشان ہونے کی بجائے کچھ سکھ کا سانس لیا۔ کیونکہ نائیلون کی رسی سے اپنے ہاتھ چھڑوانا اسکے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ اس کمرے میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی کہ جس سے وہ اپنی رسی کاٹ سکتا ۔ جبکہ لوہے کے ان راڈز کو وہ کسی بھی لوہے کی پتلی پن سے با آسانی کھول سکتا تھا۔ اب مسئلہ صرف ایسی پن کا حصول تھا۔

دانش ابھی کمرے کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ کمرے کی لائٹس آن ہوگئیں۔ یہ ایک مکمل ٹارچر سیل تھا جس میں مختلف قسم کے آلات موجود تھے۔ ان آلات کو دانش نے پہلے بھی دیکھ رکھا تھا کیونکہ وہ بھی آخر پاکستان کی خفیہ تنظیم کا ایجینٹ تھا۔ کمرے کی لائٹس آن ہونے کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا جو لوہے کی بھاری چادر سے بنا ہوا تھا اور بِنا کوڈ کے اسکو کھولنا ممکن نہ تھا۔ دروازے سے اس بار 2 مرد اور ایک لڑکی اندر آئے۔ دونوں مردوں کو چھوڑ کر میجر دانش نے لڑکی کا سرتا پا جائزہ لینا شروع کردیا۔ یہ لڑکی تھی ہی ایسی کہ جو بھی ایک بار دیکھ لے وہ اپنی نظریں ہٹانا بھول جائے۔ 22 سالہ سونیہا کو راء نے خاص طور پر ہائیر کیا تھا۔ سونیہا کی خاص بات اسکا جسم اور اسکے اتار چڑھاو تھے جو کسی بھی مرد کو دیوانہ بنا سکتے تھے۔ سونیہا کا استعمال اکثر دشمن سے مختلف راز اگلوانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ سونیہا کسی بھی دشمن کو اپنے بستر پر لیجا کر اسے خوب مزہ دیتی تھی ، لیکن اس مزے کے ساتھ ساتھ اسکو خوب تڑپاتی بھی تھی اور باتوں ہی باتوں میں اس سے مختلف قسم کے راز اگلوا کر اپنے اعلی حکام تک پہنچاتی تھی۔

22 سال کی گرم جوانی میں اسکے سینے پر 36 سائز کے پہاڑ جیسے ممے سر اٹھائے کھڑے تھے اور 34 سائز کے باہر کو نکلے ہوئے اسکے چوتڑ کسی بھی بے جان لن میں جان ڈالنے کے لیے کافی تھے۔ 30 کی کمر کے ساتھ سونیہا ایک پٹاخہ لڑکی تھی ۔ سونیہا اب تک 3 سری لنکن، 2 بنگالی اور 5 پاکستانی فوجیوں کو اپنے بستر پر لیجا کر ان سے مختلف راز اگلوا چکی تھی۔ اور کرنل وشال اور راء کے دوسرے اعلی حکام سونیہا کی پرفارمنس سے بہت خوش تھے۔ سونیہا نے اس وقت ایک ٹائٹ پینٹ پہن رکھی تھی جس میں اسکے گوشت سے بھرے ہوئے پٹ اور 34 کے چوتڑ بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ اوپر اس نے ایک چھوٹی سی شرٹ پہن رکھی تھی جو محض اسکے 36 سائز کے مموں کو چھپانے کا کام کر رہی تھی۔ پیٹ کا زیادہ تر حصہ ننگا تھا اسی طرح کمر کا پچھلا حصہ بھی زیادہ تر ننگا ہی تھا۔ کندھوں تک چھوٹے اور ہلکے بالوں کو اس نے پونی کی شکل دے کر سر کے پیچھے باندھ رکھا تھا۔

سونیہا نے جب میجر دانش کو یوں اپنا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا تو اس نے ایک سیکسی سمائل پاس کی اور دل ہی دل میں بولی کہ یہ بھی گیا کام سے۔ سونیہا کے ساتھ آئے 2 مردوں نے میجر دانش کو مخاطت کیا اور کرخت لہجے میں بولے کہ تم کون ہو اور کرنل وشال تک کیسے پہنچے؟؟ میجر دانش نے سونیہا کے مموں سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال شاہراہِ فیصل پر 130 کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے ہنڈا اکارڈ چلا رہا تھا اسی لیے میں اسکا پیچھا کرنے لگا اور جب مجھے پتا چلا کہ یہ دشمن ملک کا کرنل ہے تو میں نے اسکو پکڑنے کے لیے اسکی بوٹ تک اسکا پیچھا کیا۔ میجر دانش نے ایک ہی سانس میں جواب دیا۔ یہ جواب وہ تب سے سوچ بیٹھا تھا جب پہلے والے کمرے میں اس سے پوچھ گچھ شروع ہوئی تھی۔ میجر دانش نے جیسے ہی جواب ختم کیا ایک شخص نے دیوار کے ساتھ لگا ہوا لیور اوپر اٹھا دیا۔ لیور اوپر اٹھاتے ہی میجر دانش کو اپنا جسم کٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اسکے ہاتھوں اور پاوں میں سویاں چبھنے لگیں۔ یہ تکلیف نا قابلِ برداشت تھی۔ میجر کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور رنگ پھیکا پڑنے لگا۔

No comments:

Post a Comment

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...