لوکاٹی جی ہی جی میں سوچ رہا تھا کہ ابھی ماریہ اسکو آنکھیں کھولنے کی اجازت دے اور اسکے ہاتھوں کو آزاد چھوڑ دے تو وہ دل کھول کر ماریہ کو پیار کرے مگر ماریہ کی طرف سے ابھی یہ اجازت نہیں ملی تھی۔ لوکاٹی کو نیچے لٹا کر ماریہ نے ایک بار پھر لوکاٹی کو اپنے ہاتھ سر کے پیچھے باندھنے کو کہا تو لوکاٹی نے کسی فرمانبردار بچے کی طرح اپنے ہاتھ سر کے پیچھے باندھ لیے۔ اب ماریہ نے لوکاٹی کی قمیص کے بٹن کھولنا شروع کیے اور ایک ایک کر کے سارے بٹن کھول کر اسکے سین پر جھک کر پیار کرنے لگی۔ لوکاٹی کو اپنے سینے پر ماریہ کے جوان اور گرم ہونٹوں کا لمس بہت ہی پیارا لگ رہا تھا اسکے ساتھ ساتھ اسے ماریہ کے مموں کا احساس بھی ہو رہا تھا جو اسکے سینے سے ٹکرا رہے تھے۔ کچھ دیر اسی طرح لوکاٹی کو پیار کرنے کے بعد ماریہ نے ایک بار پھر لوکاٹی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور دونوں ہاتھوں کو اپنی طرف کھینچ کر اپنی ٹانگوں پر تھائیز کے اوپر رکھ دیا۔ جیسے ہی ماریہ نے لوکاٹی کے ہاتھ اپنی تھائیز پر رکھے تو لوکاٹی کو ایک جھٹکا لگا اور اس نے اپنی آنکھیں بے اختیار کھول دیں۔ جھٹکا لگنے کی وجہ یہ تھی کہ جب ماریہ نے لوکاٹِ کے ہاتھوں کو اپنی تھائیز پر رکھا تو وہاں اسے کسی کپڑے کے ہونے کا احساس نہیں ہوا بلکہ ماریہ کی تھائیز بالکل ننگی تھیں، اور جب لوکاٹی نے آںکھیں کھولیں تو اسکے سامنے ماریہ ایک خوبصورت نائٹی میں ملبوس اسے بہت پیار سے دیکھ رہی تھی۔
ماریہ کو اس حالت میں دیکھ کر ماریہ کی گانڈ کے نیچے موجود لوکاٹی کے لن نے اپنا سر اٹھا لیا اور مکمل طور پر کھڑا ہوکر ماریہ کی چوت میں جانے کی ضد کرنے لگا۔ مگر ماریہ نے اس پر اپنی گانڈ کا دباو ڈال کر اسے نیچے بٹھا دیا اور صبر کرنے کو کہا۔ ماریہ اس وقت ایک ہلکے نیلے رنگ کی جالی دار نائٹی پہنے ہوئی تھی جس میں اسکے کندھے مکمل ننگے تھے محض باریک ڈوریوں کے ذریعے نائٹی اسکے بدن پر رکی ہوئی تھی۔ ماریہ کا برا گہرے نیلے رنگ کا تھا، فوم والا یہ برا انڈر وائیرڈ تھا یعنی اسکے نیچلے حصے میں ایک رنگ ڈلا ہوا تھا جو مموں کو نہ صرف اوپر کی طرف اٹھاتا ہے بلکہ انکو آپس میں جکڑ کر ایکدوسرے کے ساتھ بھی ملاتا ہے جسکی وجہ سے سیکسی کلیویج بنتی ہے اور چھوٹے ممے ہونے کے باوجود اوپر سے دیکھنے میں بڑے لگتے ہیں۔ اور ماریہ کے ممے تو ویسے ہی 36 سائز کے تھے اور اس پر انڈر وائیرڈ برا نے جو مموں کو اٹھایا تو انکی ایسی خوبصورت اور سیکسی شیپ بنی کے کوئی بھی مرد انکو پکڑنے کےلیے بے اختیار اپنے ہاتھ بڑھا دے۔ ماریہ کے بھی دونوں ممے آپس میں مل کر گہری لائن بنا رہے تھے اور انکا ابھار بھی کافی بڑھ گیا تھا جسکی وجہ سے 36 سائز کے ممے اب 38 سائز کے لگ رہے تھے ۔ برا کے اوپر ماریہ کی باریک جالی دار نائتی تھی جو موم بتی کی ہلکی روشنی مین بہت سیکسی لگ رہی تھی ، یہ نائٹی سینے کے اوپر ایک باریک سی ڈوری کے ساتھ بندھی ہوئی تھی جبکہ اسکے نیچے مکمل کھلی تھی جسکی وجہ سے ماریہ کا پتلا اور سیکسی پیٹ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔ ماریہ کی ناف کی ہلکی سی گہرائی اور چھوٹا سا رنگ بہت خوبصور تھا۔ نائٹی ماریہ کے چوتڑوں تک آکر ختم ہوری تھی جبکہ سامنے سے پینٹی تک بھی نہیں آرہی تھی پینٹی کے اوپر ہی ختم ہورہی تھی۔ نیچے ماریہ نے ایک بہت ہی سیکسی نیلے رنگ کی پینٹی پہن رکھی تھی جو سامنے سے محض اسکی چوت کی لائن کو ڈھانپ رہی تھی جبکہ چوت کی لائن کے ساتھ والا حصہ واضح نظر آرہا تھا اور ماریہ کی بالوں سے پاک نرم و ملائم ٹانگیں اور گوشت سے بھری ہوئی تھائیز بھی بہت سیکسی لگ رہی تھی۔
لوکاٹی کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت اور سیکسی لڑکی کی آج چدائی کرنے والا ہے۔ وہ بلا اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا تھا اور ماریہ اب اسکی گود میں تھی، اٹھ کر بیٹھتے ہی لوکاٹی نے اپنے ہاتھ ماریہ کی پتلی کمر کے گرد لپیٹ لیے تھے جس پر ایک باریک نائٹی موجود تھی جبکہ اسکے ہونٹ ماریہ کے مموں کے ابھاروں پر کلیویج لائن میں پیار کر رہے تھے۔ لوکاٹی اپنی زبان نکال کر مموں کے درمیان ملاپ سے بننے والی لائن کی گہرائی میں اتار رہا تھا مگر اسکی زبان اتنی لمبی نہیں تھی کہ وہ ماریہ کے مموں کی لائن کی گہرائی تک جا سکے۔ کچھ دیر تک وہ اسی طرح ماریہ کی کمر پر ہاتھ رکھے اسکے مموں کے ابھاروں پر پیار کرتا رہا پھر اس نے ماریہ کو بیڈ پر لٹا لیا اور خود ماریہ کے اوپر آکر ماریہ کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبانا شروع کر دیا۔ ماریہ نے اپنی زبان باہر نکال کر اپنے ہونٹوں پر پھیرنی شروع کر دی جس سے لوکاٹی کی خواری میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور وہ ایک بار پھر سے ماریہ کے اوپر جھک کر اسکے مموں کی لائن میں زبان پھیرنے لگا۔ کچھ دیر اسی طرح پیار کرنے کے بعد لوکاٹی کچھ نیچے آیا اور اسکے پیٹ پر اپنے ہونتوں سے پیار کرنے لگا۔ پیٹ سے پیار کرتے کرتے وہ نیچے کی طرف آرہا تھا اور ماریہ کی خوبصورت ناف میں اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی جس سے ماریہ کا پیٹ تھر تھر کانپنے لگا تھا۔
ناف سے نیچے آکر لوکاٹی نے اپنے دونوں ہاتھ ماریہ کے چوتڑوں کے نیچے رکھ لیے تھے اور انہیں ہلکا سا اٹھا کر خود ماریہ کی چوت کے اوپر جھک گیا تھا۔ کچھ دیر تک ماریہ کی چوت کے سائیڈ پر ننگے حصے پر زبان پھیرنے کے بعد اب لوکاٹی ماریہ کی باریک پینٹی کے اوپر سے ماریہ کی چوت کی لائن پر اپنی زبان پھیر رہا تھا جسکی وجہ سے ماریہ کی چوت کافی گیلی ہوگئی تھی۔ کچھ دیر چوت چاٹنے کے بعد اب لوکاٹی کی زبان ماریہ کی گوشت سے بھری ہوئی تھر تھر ہلتی ہوئی تھائیز پر تھی۔ پھر لوکاٹی نے ماریہ کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر اوپر اٹھایا اور اپنے ہاتھ ماریہ کی گانڈ کے نیچے رکھ کر اسے بھی اوپر اٹھا کر اس طرح موڑ دیا کہ ماریہ کی کمر اوپر کی طرف مڑ گئی تھی اور اب ماریہ کے چوتڑ واضح نظر آرہے تھے، ماریہ کی سیکسی پینٹی پیچھے سے صرف اسکی گانڈ کی لائن کو ہی چھپا رہی تھی باقی چوتڑ مکمل ننگے تھے اور اب کی بار لوکاٹی نے پینٹی کو ماریہ کی گانڈ کی لائن سے سائیڈ پر ہٹا کر اسکی گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان رکھ دی تھی اور اسکو چوسنا شروع کر دیا تھا جس سے ماریہ کا پورا جسم کانپنے لگا تھا۔ اسے لوکاٹی کا یہ دیوانہ پن بہت اچھا لگ رہا تھا۔ کچھ دیر تک لوکاٹی ماریہ کو اسی طرح پیار کرتا رہا، مگر ماریہ نے ابھی تک نا تو اپنی پینٹی اتارنے دی تھی اور نہ ہی اپنی نائٹی اور برا اتارنے دیا تھا۔
کچھ دیر بعد ماریہ نے لوکاٹی کو گانڈ چاٹنے سے روک دیا اور لوکاٹی کو نیچے لیٹنے کےلیے کہا۔ لوکاٹی نیچے لیٹا تو ماریہ نے بغیر وقت ضائی کیے لوکاٹی کی وقمیص اوپر اٹھا دی اور اسکا ناڑا کھول کر اسکی شلوار میں ہاتھ ڈالا اور اسکا تنا ہوا لن باہر نکال لیا۔ لن باہر نکالنے کے بعد ماریہ اسکے اوپر جھکی اور اپنی زبان باہر نکال کر لوکاٹی کے لن کی ٹوپی سے نکلنے والی مذی کو اپنی زبان کی نوک سے چاٹ لیا۔ لوکاٹی کو اپنے لن کی ٹوپی پر ماریہ کی زبان کا لمس بہت اچھا محسوس ہوا، مگر ماریہ نے زبان پر لگنے والی اس مذی کو نہ تو نگلا اور نہ ہی اپنی زبان اندر کی، بلکہ وہ اپنی گانڈ لوکاٹی کے لن پر رکھ کر لوکاٹی کے اوپر جھک گئی اور اسکا منہ کھلوا کر اسکی زبان باہر نکلوا کر اپنی زبان پر لگی ہوئی مذی کو لوکاٹی کی زبان کی نوک پر لگا دیا۔ لوکاٹی کو اپنی مذی کا نمکین ذائقہ بہت اچھا لگا، اس نے پہلی بار مذی کا ذائقہ محسوس کیا تھا۔ اور پھر اس نے ماریہ کی زبان کی چوسنا شروع کر دیا تھا، ماریہ لوکاٹی کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور لوکاٹی کا لن ماریہ کی چوت کے بالکل نیچے تھا جو ماریہ کو اکسا رہا تھا کہ وہ جلدی سے اپنی پینٹی اتارے اور لوکاٹی کے تنے ہوئے لن کو اپنی چوت میں داخل کر لے۔ ۔
لوکاٹی بڑے مزے کے ساتھ ماریہ کی زبان کو چوسنے میں مصروف تھا اور پیچھے سے اس نے ماریہ کے بھاری بھر کم چوتڑوں کو اپنے ہاتھ میں پکر رکھا تھا اور تھوڑی کوشش کر کے اپنی ایک انگلی ماریہ کی گانڈ پر بھی پھیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ماریہ نے کھ دیر اسی طرح لیٹے لیٹے لوکاٹی کو اپنی چوت اور زبان کا مزہ دیا اسکے بعد ماریہ لوکاٹی کے لوڑے پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی اور اپنے ممے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر انہیں ہلانے لگی جس سے لوکاٹی کی خواری میں اور اضافہ ہورہا تھا پھر ماریہ نے لوکاٹی کو لیٹے رہنے کا اشارہ کیا اور خود لوکاٹی کے اوپر سے اٹھ کر پاس پڑے فریج کی طرف گئی اور اس میں سے ایک پلیٹ نکال لائی جس میں انگوروں کا ایک گچھا پڑا تھا۔ ماریہ نے وہ پلیٹ اٹھا کر لوکاٹی کے ساتھ رکھی اور ایک بار پھر لوکاٹی کے لن کے اوپر اپنی چوت کر رکھ کر بیٹھ گئی مگر اسکی پینٹی ابھی اتری نہیں تھی۔ پھرماریہ نے اپنے دونوں مموں سے برا کو ہٹا دیا اور اپنے بڑے بڑَ مموں کو نیچے سے پکڑ کر اور اوپر اٹھا کر انکی کلیویج بنا کر لوکاٹی کو دکھانے لگی۔ ماریہ کی ان حرکتوں سے لوکاٹی کی خواری بڑھتی جا رہی تھی اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ آج ماریہ کی چوت میں لن ڈالنے سے پہلے ہی اسکا لن منی چھوڑ دے گا۔
لوکاٹی نے ہاتھ آگے بڑھا کر ماریہ کے مموں کو پکڑنا چاہا تو ماریہ نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی جب تک میں نہیں کہوں گی تب تک انہیں چھیڑنا بھی مت۔ یہ کہ کر ماریہ نے ایک انگور توڑا اور اسے اپنے ہونٹوں میں پھنسا کر لوکاٹی کے اوپر جھک گئی ، لوکاٹی نے فوری اپنا منہ کھول دیا اور ماریہ نے وہ انگور کا دانہ لوکاٹی کے منہ میں ڈال دیا اور ساتھ ہی اسکی زبان کو اپنے ہونٹوں میں لیکر نہ صرف چوسا بلکہ تھوڑا سا تھوک بھی لوکاٹی کے حلق میں انڈیل دیا۔ پھر ماریہ نے ایک اور انگور کا دانہ توڑا اور اسے اپنی پینٹی سے کچھ اوپر زیرِ ناف سے لیکر اپنے سیکسی اور گرم جسم سے رگڑتی ہوئِ اپنے مموں تک لائی اور پھر وہ اپنے ہاتھ سے لوکاٹے کے منہ میں ڈال دیا جسکو لوکاٹی نے مزے سے کھا لیا۔ پھر ماریہ نے انگوروں کے گچھوں سے زیادہ دانے توڑے اور قریب 10 دانوں کو اپنے مموں کے اوپر بننے والی کلیویج میں پھنسا کر اپنے دونوں ممے آپس میں ملا لیے۔ 2، 3 دانے نیچے گرے مگر باقی دانے ماریہ کے مموں کے اوپر ہی پڑے رہے ، پھر ماریہ نے لوکاٹی کو دعوت دی کہ وہ بغیر ہاتھ لگائے اپنی زبان سے ایک ایک دانہ اٹھائے اور اپنے منہ میں ڈالتا رہے۔
لوکاٹی فورا اٹھا اور اس نے اپنی زبان ماریہ کے مموں کے اوپر پڑے ہوئے انگوروں پر رکھ دی اور اپنی زبان کی مدد سے ایک ایک انگور کر کے کھاتا چلا گیا یوں سارے انگور وہ ماریہ کے مموں سے کھا گیا۔ جب ماریہ کے ممے خالی ہوگئے تو ماریہ نے مموں پر لگا انگوروں کا پانی چاٹنے کا کہا تو لوکاٹی وہ بھی چاٹ گیا۔ پھر ماریہ نے انگوروں کا ایک اور دانہ توڑا اور اسکو اپنے نپل کے اوپر رکھ کر لوکاٹی کو کہا کہ اپنے منہ سے یہ انگور کا دانہ اس طرح چوسے کہ نہ تو وہ اسکے نپل سے علیحدہ ہو اور نہ ہی وہ اسکے منہ میں جائے۔ لوکاٹی نے فوران آگے بڑھ کر انگور کا وہ دانہ اپنے منہ میں لے لیا مگر اسے اپنے ہونٹوں سے آگے نہیں جانے دیا تاکہ وہ اس دانے کو ماریہ کے نپل کے ساتھ لگا رہنے دے۔ اس دوران لوکاٹی نے ماریہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے ماریہ کا ایک مما اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا تھا تاکہ وہ پیچھے نہ ہوسکے۔ پھر کچھ دیر کے بعد ماریہ نے یہی دانہ کھانے کو کہا تو لوکاٹی نہ صرف فورا ہی اس دانے کو نگل گیا بلکہ ساتھ ہی اس نے ماریہ کے نپل پر بھی اپنے ہونٹ رکھ کر انکو زور سے چوس لیا جس سے ماریہ کی ایک ہلکی سی سسکاری نکلی مگر اس لوکاٹی کو اس حرکت پر کچھ نہیں کہا۔ پھر ماریہ نے ایک اور دانہ اپنے دوسرے نپل پر رکھا اور اسکو بھی اسی طرح پہلے چوسنے اور بعد میں کھانے کو کہا، لوکاٹی نے دوسرے نپل سے بھی دانہ کھا کر ماریہ کا نپل چوس لیا جس سے ماریہ کی چوت میں چکناہٹ بڑھنے لگی تھی۔ پھر ماریہ نے دوبارہ سے انگوروں کے کچھ دانے توڑے اور خود بیڈ پر لیٹ کر ایک دانہ اپنی ناف میں ڈال کر لوکاٹی کو اپنی زبان سے نکالنے کو کہا۔ لوکاٹی ماریہ کے اوپر جھک گیا اور اسکی ناف سے اس دانے کو نکالنے کی کوشش کرتا رہا۔ تھوڑی سے کوشش کے بعد ماریہ کی ناف سے لوکاٹی نے وہ دانہ نکال کر کھا لیا تو ماریہ نے ایک اور دانے اپنی ناف میں ڈال دیا، اسکی بھی لوکاٹی اسی طرح کھا گیا۔ پھر ماریہ نے کچھ دانے اپنے پیٹ پر رکھے اور اپنا سانس روک کر پیٹ کو اندر کی طرف کھینچ لیا تاکہ دانے نیچے نہ گرے۔ یہ تمام دانے بھی لوکاٹی ایک ایک کر کے ماریہ کے گرم گرم پیٹ سے تمام دانے کھا گیا۔ ۔۔
پھر ماریہ الٹی ہوکر لیٹ گئی اور لوکاٹی کو کچھ دانے پکڑائے کہ وہ ان دانوں کو ماریہ کی گانڈ کی لائن میں ڈال دے، لوکاٹی نے ماریہ کی پینٹی گانڈ کی لائن سے نکالی اور اس کو تحوڑا سا کھول کر اس میں انگور کے دان ڈال دیے، ماریہ نے فورا ہی اپنے خوبصورت چوتڑوں کو آپس میں دبا کر ملا لیا اور ا ب لوکاٹی کو پتا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے، وہ ماریہ کی گانڈ کی لائن سے ایک ایک دانہ اپنی زبان کی مدد سے اپنے منہ میں ڈالتا رہا اور سارے دانے ماریہ کی گانڈ کی لائن سے کھانے کے بعد اسکی گانڈ میں لگے پانی کو بھی زبان سے چاٹ گیا۔ انگوروں کے ذائقے سے ماریہ کی گانڈ کا ذائقہ بھی کچھ میٹھا ہوگیا تھا اب لوکاٹی ماریہ کی گانڈ کو چاٹنا چاہتا تھا مگر ماریہ نے کچھ دانے ہاتھ میں لیکر انکو دبا دیا۔ ان دانوں کا ملیدہ بننے کے بعد ماریہ نے ہاتھ پیچھے لیجا کر اپنی گانڈ کے سوراخ پر مسل دیا تو لوکاٹی فورا ہی ماریہ کی گانڈ پر جھکا اور اپنی زبان سے انگوروں کے اس ملیدے کو ماریہ کی گانڈ سے چاٹنے لگا۔ جب سارا ملیدہ وہ ماریہ کی گانڈ سے چاٹ چکا تو ماریہ سیدھ ہوکر لیٹ گئی اور اب کی بار اس نے اپنی پینٹی نیچے کی اور انگور کا ایک دانا اپنی چوت کے لبوں پر رکھا تو لوکاٹی اسے بھی کھا گیا۔ پھر دوسرا، پھر تیسرا اور پھر چوتھا دانہ، ماریہ ایک ایک کر کے اپنی چوت پر رکھتی گئی اور لوکاٹی اسے ماری کی چوت سے کھاتا گیا۔
پھر ماریہ نے ای دانا اٹھا کر اپنی چوت کے لب کھولے اور انکے اندر دکھ دیا اور لوکاٹی کو کہا وہ بغیر چوت کو ہاتھ سے چھوئے اس دانے کو کھائے۔ لوکاٹی نے کافی محنت سے اپنی زبان کو بغیر ہاتھ لگاںے ماریہ کی چوت کے لبوں کے بیچ داخل کیا اور پھر اس دانے کو ماریہ کی چوت سے نکال کر اسے بھی نگل گیا۔ یہاں بھی ماریہ نے باری باری 6، 7 دانے اپنی چوت میں ڈالے جنہیں لوکاٹی تھوڑی سی محنت کے بعد کھاتا گیا۔
اب ماریہ نے جو کیا اس نے تو لوکاٹی کو پاگل ہی کر دیا تھا۔ ماریہ نے تمام انگور اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیے اور انہیں مسلنے لگی، انگوروں کو اچھی طرح مسلنے کے بعد ماریہ نے انکا ملیدہ اپنے بڑے بڑے مموں پر مسل دیا اور لوکاٹی ماریہ کے مموں پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے کوئی کتا ہڈی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس نے ماریہ کے اوپر چھڑ کر اس کے دونوں مموں پر زبان پھیرنا شروع کر دی اور کچھ ہی دیرمیں وہ ماریہ کے انگوروں سے بھرے ہوئے مموں کو اپنی زبان سے چاٹ کر مکمل صاف کر چکا تھا اور اسکے بعد بھی کافی دیر تک وہ ماریہ کے مموں کو اور اسکے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوستا اور چاٹتا رہا۔ انگوروں کا میٹھا میٹھا ذائقہ اسکو ابھی تک ماریہ کے انگوروں کے سائز جتنے تنے ہوئے نپلز پر محسوس ہورہا تھا اور وہ بہت رغبت کے ساتھ ماریہ کے ممے چوس رہا تھا۔ پھر ماریہ نے لوکاٹی کو لیٹنے کے لیے کہا اور خود فریج میں سے ایک کیلا نکال لائی۔
ماریہ نے لوکاٹی کے اوپر بیٹھ کر وہ کیلا چھیلا اور اسکا چھلکا ایک سائیڈ پر پھینک دیا۔ پھر ماریہ پیچھے کی طرف جھکی جس سے ماریہ کی چوت آگے واضح نظر آنے لگی۔ اب ماریہ نے کیلا اپنی چوت پر پھیرنا شروع کیا اور بڑی نرمی کے ساتھ اس کیلے کو اپنی چوت کے لبوں کے درمیان پھیرتی رہی۔ ماریہ نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس دوران وہ کیلا ٹوٹ نہ جائے۔ جب کیلے پر ماریہ کی چوت کا پانی اچھی طرح لگ گیا تو ماریہ نے وہ کیلا لوکاٹی کی طرف بڑھا دیا جو کافی دیر سے اس کیلے کو کھانے کے لیے مرا جا رہا تھا۔ جیسے ہی ماریہ نے وہ کیلا لوکاٹی کی طرف بڑھایا اس نے آدھا کیلا ایک ہی مرتبہ میں کھا لیا۔ باقی کا آدھا کیلا ماریہ نے اپنی چوت پر رکھ کر اسے چوت پر ہی مسل دیا اور پھر اپنی چوت اٹھا کر لوکاٹی کے منہ کے اوپر بیٹھ گئی، لوکاٹی نے اپنے دونوں ہاتھ ماریہ کے چوتڑوں کے نیچے رکھ کر اسے اونچا کیا اور اپنی زبان ماریہ کی چوت پر لگے ہوئے کیلے پر پھیرنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارا کیلا ماریہ کی چوت سے کھا گیا اب وہاں کیلے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
کچھ دیر تک آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ کی سسکیاں نکانے کے بعد ایک بار پھر ماریہ نے نیچے اتر کر فریج کھولا اور اس میں سے کچھ انگور اور اٹھائے جو علیحدہ رکھے ہوئے تھے۔ ماریہ نے ان انگوروں کے گچھے کو اپنے ہاتھوں سے مسل کر اسکا بھی ملیدہ بنا دیا اور پھر اس ملیدے کو لوکاٹی کے لن پر پھیرنے لگی۔ سارہ ملیدہ لوکاٹی کے لن پر پھیرنے کے بعد ماریہ نے لوکاٹی کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چاٹنے لگی۔ لن منہ میں داخل کر کے اسکو اچھی طرح چاٹ کر صاف کرنے کے بعد ماریہ نے اپنی زبان نکال کر لن کے اس حصے سے بھی ان انگوروں کو چاٹ لیا جو حصہ ماریہ کے منہ میں نہیں جا سکا تھا اور کچھ ہی دیر کے چوپوں کے بعد لوکاٹی کا لن ایسے صاف ہوچکا تھا جیسے وہاں اسے سے پہلے کچھ تھا ہی نہیں۔
لوکاٹی کے لیے یہ سب کچھ بالکل نیا تھا، آج تک کسی نے اسکے ساتھ اسطرح سیکس نہیں کیا تھا، اسکو اس پورے کھیل کا بہت مزہ آرہا تھا مگر حیرت انگیز طور پر اسکو اپنی آنکھیں بھاری بھاری محسوس ہو رہی تھیں۔ اور اسکو غنودگی کا غلبہ ہو رہا تھا۔ ماریہ کو بھی لوکاٹی کی آنکھوں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس پر غنودگی چھا رہی ہے مگر اسکا لن ابھی تک کھڑا تھا، ماریہ نے موقع غنیمت جانا اور فورا ہی اپنی پینٹی اتار کر اپنی چوت کو لوکاٹی کے لن پر رکھا اور آہستہ آہستہ اپنا وزن لوکاٹی کے لن پر ڈالتے ہوئے پورا لن اپنی چوت میں لے لیا۔ اپنے لن پر گرما گرم چکنی چوت کی گرفت کو محسوس کرکے لوکاٹی کی آںکھیں تھوڑی کھولیں اور اس نے چند دھکے ماریہ کی چوت میں مارنے کی کوشش کی، مگر پھر آہستہ آہستہ اسکا لن واپس بیٹھنے لگا اور لن کے بیٹھتے بیٹھتے لوکاٹی بھی نیند کی وادیوں میں کھو چکا تھا۔ جب ماریہ کو یقین ہوگیا کہ لوکاٹی سو چکا ہے تو وہ فورا ہی اٹھی اور اپنا برا صحیح کر کے دوبارہ سے اپنے ممے چھپا لیے اور پھر اپنی پینٹی بھی پہن لی اور دوبارہ سے اپنے بال اور اپنا حلیہ درست کرنے لگی۔ ماریہ کو یہ چیک کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ لوکاٹی واقعی سوگیا ہے یا نہیں کیونکہ اسکے لن کا بیٹھ جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اب اپنے ہوش میں نہیں رہا۔
ماریہ نے دوپہر میں ملنے والی بے ہوشی کی دوا کو پلیٹ میں موجود انگوروں پر اچھی طرح چھڑک دیا تھا اور کیلا چھیلنے کے بعد اپنے ہاتھ پر لگائی گئی دوا کو کیلے پر بھی لگا دیا تھا جس کے اثر سے لوکاٹی گہری نیند سوگیا تھا، جبکہ ایک انگور کا گچھا ماریہ نے جان بوجھ کر علیحدہ رکھ دیا تھا جو اس نے لوکاٹی کے لن پر مسل کر خود چوپے لگا لگا کر کھا لیا تھا۔ دوبارہ سے لپ اسٹک لگانے کے بعد اور دوبارہ سے تیار ہونے کے بعد ماریہ اب اپنے آپ کو ایک اور بڑی چادر سے ڈھانپ چکی تھی۔ پھر اس نے دوبارہ سے لوکاٹی کی طرف دیکھا اور اپنے کمرے سے باہر نکل گئی۔
راہداری سے ہوتی ہوئی ماریہ کچھ ہی دیر بعد کرم کے کمرے کے باہر موجود تھی، ہلکا سا دروازہ کھٹکٹھانے کے بعد اندر سے کرم کی کرخت آواز آئی ابے کون ہے اس وقت، تب ماریہ نے ہلکی آواز میں کرم کو بتایا کہ وہ ماریہ ہے تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے وہم و گما ن میں بھی نہ تھا کہ اس وقت ماریہ اسکے کمرے میں آسکتی ہے۔ اس نے جلدی جلدی اپنی قمیص پہنی اور آںکھیں ملتا ہوا کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔ دروازہ کھولا تو اندر چادر میں لپٹی ماری کھڑی تھی جس کا چہرہ بہت کھلا کھلا اور لپٹ اسٹک لگی ہوئی تھی اس وقت بھی۔ اس نے حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا جی بی بی جی کیا ہوا؟ ماریہ اسکے نکلتے ہی دوسری طرف چل پڑی اور اسے اپنے پیچھے آنے کو کہا، کرم کسی فرمانبردار بچے کی طرح اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد ماریہ اب نذر کے کمرے کے سامنے رک کر اسکا دروازہ بجا رہی تھی۔ مگر اس بار نذر کی بجائے اندر سے اسکی بیگم کی آواز آئی تو ماریہ خود پیچھے ہوکر کھڑی ہوگئی اور کرم کو کہا کہ نذر کو باہر بلائے۔ نذر نے کرخت لہجے میں اپنی بھابھی کو کہا کہ نذر کو اٹھائیں ضرور کام ہے اس سے۔ اپنے جیٹھ کی آواز سن کر نذر کی بیوی نے نذر کو اٹھا دیا۔
نذر بھی اس وقت اپنے بڑے بھائی کے آنے پر حیران تھا مگر اس نے بھی اپنی قمیص پہنی اور دروازے تک آگیا۔ دروازے پر اس نے بھائی کو دیکھا تو کرم نے اسے باہر آنے کو کہا نذر نے باہر آکر دروازہ بند کر دیا اور ساتھ کھڑی ماریہ کو دیکھ کر حیران ہوا مگر ماریہ نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسکو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اور نذر کے کمرے سے اب ایک اور کمرے کی طرف جانے لگی جسکا انتخاب اس نے بڑا سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ اس کمرے میں پہنچ کر اور نذر اور کرم کو کمرے میں بلا کر ماریہ نے دروازہ بند کر دیا اور کمرے کے درمیان میں آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ اب کچھ گہری گہری سانسیں لے رہی تھی، وہ جو کام کرنے جا رہی تھی اس میں اسکی جان کو پورا پورا خطرہ تھا، یا تو اسے مکمل کامیابی ملنے والی تھی یا پھر اسکو یہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑجاتے۔ اسکے علاوہ اور کوئی تیسری صورت نہیں تھی اور اسی ٹینشن میں ماریہ کی سانسیں بے ترتیب ہورہی تھیں مگر اس نے کچھ دیر توقف کر کے اپنی سانسیں بحال کیں اور پھر کرم اور نذر کو مخاطب کرتے ہوئی بولی دیکھو اس وقت میں جو تم سے کہنے جا رہی ہوں وہ بہت ہی اہم ہے۔ اور تمہیں اپنے کان اور دماغ کھول کر میری بات سننی ہے۔ ماریہ کی بات سن کر دونوں ایک دم سیدھے ہوکر کھڑے ہوگئے اور ہمہ تن گوش ہوگئے۔
ماریہ نے کہا جو بات میں تمہیں اب بتانے جا رہی ہوں، اس پر تم دونوں کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ نہ صرف تمہارے بلکہ میرے بھی مستقبل کا دارومدار اسی بات پر ہے۔ لہذا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لینا کہ تم جو فیصلہ لینے جا رہے ہو اس پر قائم بھی رہ سکو گے یا نہیں ، اور بعد میں کہیں تمہیں پچھتانا تو نہیں پڑے گا۔ یہ کہ کر ماریہ کچھ دیر کو رکی تو کرم بولا جی بی بی جی آپ بولیں میں سن رہا ہوں۔ اب ماری جھنجھلا کر بولی میں نے تمہیں منع کیا ہے مجھے بی بی جی مت کہو میں تمہاری بی بی جی نہیں ہوں۔ یہ سن کر نذرنے تعجب سے ماریہ کی طرف دیکھا اور کرم بھی نہ سمجھنے کے انداز میں ماریہ کی طرف دیکھنے لگا۔
پھر ماریہ نے کچھ توقف کیا اور بولی دیکھو، میری تمہارے بابا سائیں کے ساتھ کوئی شادی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہونے والی ہے۔ کرم نے ماریہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا مگر وہ تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماریہ نے بھی کرم کی بات کاٹی اور بولی پہلے میری پوری بات سن لو۔ اتنا تو تم دونوں جانتے ہی ہو گے کہ عنقریب ہولستان کو پاکیشا سے علیحدہ کیے جانے کے پلان پر عملدرآمد ہونے والا ہے۔ ماریہ کے منہ سے یہ بات سنتے ہی دونوں کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا، انکے خیال میں انکے بابا سائیں اتنے پاگل نہیں تھے کہ وہ کسی انجان لڑکی کو حتی کہ اپنی بیوی کو بھی ایسی بات بتائیں گے۔ مگر انہیں کیا پتا تھا کہ بڈھا آدمی جب ٹائٹ چوت کی طلب میں ہو تو وہ کچھ بھی بتا سکتا ہے اسے۔ ماریہ نے انکی حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا حیران ہونے کی ضرورت نہیں مجھے یہ سب کچھ تمہارے بابا نے نہیں بتایا بلکہ میں ہندوستان کی سرکار کی طرف سے اس سپیشل مشن پر یہاں آئی ہوں۔ اور اس مشن میں میرا بھی بہت اہم رول ہے۔ اور ہاں میرا اصل نام ماریہ نہیں بلکہ انجلی ہے۔ اور میں ہندوستانی لڑکی ہوں۔
اس بار جب تمہارے بابا ہندوستان آئے تو ہماری سرکار نے خاص طور پر مجھے تمہارے بابا کے قریب رہنے اور پھر پاکیشا میں تمہارے گھر آکر تم دونوں سے ملنے کی ہدایت کی تھی۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ ہولستان کی آزادی کے بعد یقینی طور پر ہولستان ہندوستان سے الحاق کرے گا، اسی شرط پر ہندوستان تم لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ یہ سن کر کرم نے حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماریہ کی طرف دیکھا، اسکا خیال تھا کہ یہ چھوئی موئی سی لڑکی کسی طرح اسکے باپ نے پھنسا لی ہے مگر اسکو اس حد درجہ تک انفارمیشن ہے تو یہ یقینا کوئی سیکرٹ سروس کی ٹرینڈ لڑکی ہی ہوگی۔ کرم نے پوچھا آپکی بات ٹھیک ہے کہ جلد ہی بڑا اقدام اٹھایا جائے گا اور کرنل وشال بھی کل تک پاکیشا پہنچ جائیں گے اور ہم یہیں بیٹھ کر آگے کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ مگر اس وقت ہمیں یہاں بلانے کا کیا مقصد ہے۔
اس پر ماریہ نے کہا یہی تو اصل بات ہے کہ میں نے یوں تم دونوں کو اچانک یہاں بلایا ہے۔ تمہارے بابا سائیں کی عمر اور انکی صحت تمہارے سامنے ہے۔ وہ زیادہ پریشر برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی بڑے ہجوم کو لیڈ کر سکتے ہیں۔ اور تم یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ کوئی چھوٹا اقدام نہیں ہے، اسکےلیے انسان کو بہت زیادہ پریشر برداشت کرنے کی ہمت ہونی چاہیے اور اس کام کے نتیجے میں جب پاکیشا کی آرمی کی جانب سے حملہ کیا جائے گا تو ہولستان میں بڑے بڑے ہجوم بھی اپنے حقوق کے لیے نکلیں گے انکو لیڈ کرنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے میں ہماری سرکار نہیں چاہتی کہ کوئی بوڑھا اور معمر آدمی اس تحریک کو لیڈ کرے۔ بلکہ انہیں نوجوان خون کی ضرورت ہے۔ جو نہ صرف دماغی طور پر مظبوط اعصاب کے مالک ہوں اور مشکل فیصلے کر سکیں، بلکہ مشکل حالات میں وہ اپنی عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر انکا حوصلہ بھی بلند کر سکیں، اور یاد رکھو جب لیڈر عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہوجائے تو دنیا کی کوئی فوج اس عوام کو ہرا نہیں سکتی۔
ماریہ کی باتیں کچھ کچھ کرم اور نذر کی سمجھ میں آرہی تھیں۔ مگر وہ سب کچھ ماریہ کے منہ سے ہی سننا چاہتے تھے کہ آیا انہیں کوئی غلط فہمی نہ ہو اور کوئی غلط بات منہ سے نہ نکل جائے۔ اب کی بار کرم نے کہا وہ بات تو آپکی ٹھیک ہے مگر ہمیں اس بات کا کیسے یقین ہوگا کہ آپ ہندوستانی سرکار کی طرف سے آئی ہو اور آپ پاکیشا کی ایجنٹ نہیں ہو؟؟؟ اس پر ماریہ مسکرائی اور بولی اگر میں پاکیشا کی ایجنٹ ہوتی تو اسکا مطلب ہے کہ پاکیشا کو اس منصوبے کے بارے میں علم ہو چکا ہے اور اگر ہمارے آخری وار سے پہلے کسی بھی طرح پاکیشا کی سرکار کو یا فوج کو اس تحریک کے بارے میں پتہ چل جائے تو تم سمیت تمہارا پورا خاندان وہ نیست و نابود کر دیں گے۔ یہ بات تم اچھی طرح سے جانتے ہو۔ ماریہ کی بات میں دم تھا اور اس بات نے کرم اور نذر کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ پھر کرم نے پوچھا کہ لیکن آپ ہم سے کیا چاہتی ہیں؟
ماریہ نے کرم کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دیر نذر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی، پھر بولی تم دونوں میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہے کہ وہ پاکیشائی فوج اور سرکار کے خلاف اپنی عوام کے ساتھ کھڑا ہوکر انکو لیڈ کر سکے؟؟؟ اس پر دونوں نے یک زبان کہا میں ایسا کر سکتا ہوں،۔ دونوں کی آواز ایک ساتھ ایسے آئی تھی جیسے وہ ہاں کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہوں۔ پھر دونوں ایکدوسرے کو دیکھنے لگے تو ماریہ نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے کہ تم دونوں اس قابل ہو۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ تم دونوں میں سے زیادہ قابل کون ہے؟ اس بار پھر دونوں نے یک زبان ہوکر کہا آپ آزما کر دیکھ لیں میں ہر امتحان میں پورا اتروں گا۔ اصل میں ان دونوں کے دماغ میں یہ بات آچکی تھی کے انکے باپ کی گیم اب ختم ہوچکی ہے اور ہندوستانی سرکار ان دونوں میں سےکسی ایک کو ہولستان کی آزادی کے بعد ہولستان کی حکومت دینا چاہتی ہے۔ مگر وہ کھل کر اسکا اظہار نہیں کر پا رہے تھے۔
ماریہ نے ان دونوں کی حکومت حاصل کرنے کی لالچ کو دیکھ کر آخری فیصلہ کر لیا کہ وہ اب کھل کر بات کرے گی۔ ماریہ نے اب قدرے دھیمے لہجے میں ان سے پوچھا، کہ تم دونوں ہی حکومت حاصل کرنا چاہتے ہو اور ہولستان پر حکومت کرنا چاہتے ہو۔ ٹھیک کہ رہی ہوں نہ میں۔ اس پر نذر تو خاموش رہا مگر کرم نے ایک شیطانی مسکراہٹ دی اور بولا ظاہری بات ہے جی ، طاقت کا نشہ کسے نہیں ہوتا؟؟؟ اس پر ماریہ نے کہا پھر تمہیں اس بات کی بھی سمجھ آگئی ہوگی کہ لوکاٹی صاحب کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں؟؟؟ یہ کہ کر ماریہ نے باری باری دونوں کے چہرے کے تاثرات دیکھے، مگر وہاں پریشانی یا غصے کی بچائے ایسے آثار تھے جیسے وہ کچھ سوچ رہے ہوں یا آگے کا فیصلہ کر رہے ہوں۔ پھر نذر بولا ہاں ظاہری سی بات ہے بابا سائیں کے ہوتے ہوئے ہم دونوں میں سے کسی کو بھی سرداری نہیں مل سکتی۔ اس پر ماریہ نے کہا کہ ہندوستانی سرکار اس کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ چاہتی ہے کہ انکا قصہ انکے بیٹوں میں سے ہی کوئی ایک تمام کر دے۔ ماریہ کی بات سن کر کمرے میں سناٹا چھا گیا اور کافی دیر تک کوئی نہ بولا۔ مگر پھر ایک دم نذر نے اپنے ہونٹ کھولے اور بولا کب کرنا ہے یہ کام؟؟ اسکی یہ بات سن کر ماریہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور بولی ابھی نہیں کرنا، جب کرنل صاحب یہاں آچکے ہونگے اورآزادی کی تحریک کا اعلان ہونے ہی والا ہوگا، اس اعلان سے پہلے یہ کام کرنا ہوگا اور تب ہم اسکا الزام پاکیشائی افواج پر ڈال دیں گے اور تم میں سے کسی ایک کو ہندوستانی سرکار اگلا سردار منتخب کر کے اسی سے نہ صرف آزادی کی تحریک کا اعلان کروائے گی بلکہ اپنی افواج کو بھی تم لوگوں کی مدد کے لیے بھیج دے گی۔
اب کی بار کرم نے مداخلت کی اور بولا لیکن ہم دونوں میں سے سردار کسے منتخب کیا جائے گا؟ جو یہ کام کرے گا اسے یا پھر کسی اور کو؟ اور ہندوستانی سرکار کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ کام کس نے کیا؟ ہو سکتا ہے یہ کام میں کروں مگر ہندوستانی سرکار سمجھے کہ یہ نذر نے کیا ہے؟؟؟ اسکے لہجے میں واضح تعصب نظر آرہا تھا اپنے سگے بھائی کے لیے۔ اس پر تانیہ مسکرائی اور بولی اسکی فکر نہیں کرو، جو سرکار اتنی بڑی تحریک کا آغاز کروا سکتی ہے اسکے لیے یہ مشکل نہیں کہ وہ تم دونوں میں سے صحیح اہل انسان کا انتخاب نہ کر سکے۔ اور یہ بھی عین ممکنے ہے کہ ہولستان کے ہندوستان کے الحاق کے بعد اسکی 2 ریاستیں بنا دی جائیں اور تم دونوں کو ہی ایک ایک ریاست دے دی جائے۔ مگر اس بارے میں تم لوگوں کو ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں بتایا جا سکتا کیونکہ مجھے خود بھی اس معاملے کے بارے میں علم نہیں، لیکن جو ہوگا بہتر ہی ہوگا۔ اور اگر کوئی ایک بھی چنا گیا تو اسکے لیے بھی پہلے لوکاٹی کا صفایا لازمی ہے۔
پھر کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی اور اسکے بعد ماریہ نے ہی اس خاموشی کو توڑا اور بولی اب تمہارے مستقبل کا فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر تم نے ایسا کر دکھایا تو تم دونوں کا ہی مستقبل روشن ہوگا۔ یہ کہ کر ماریہ نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ جاو، لیکن یاد رکھنا ابھی یہ بات صرف ہم تینوں کے درمیان رہے گی، اور مناسب وقت آںے پر ہی یہ کام کرنا ہے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اس کام میں ورنہ اپنا ہی نقصان ہوگا۔ ماریہ کی اس بات پر ان دونوں نے کہا ٹھیک ہے ہم مناسب وقت کا انتظار کریں گے یہ کہ کر دونوں واپسی کے لیے چل پڑے۔ ابھی وہ دروازے کے پاس ہی پہنچے تھے کہ ماریہ نے کہا کرم تم رکو تم سے ایک اور بات بھی کرنی ہے، نذر تم جاو اپنے کمرے میں۔ یہ سن کر نذر کمرے سے نکل گیا جبکہ کرم وہیں کمرے میں ہی رک گیا۔ نذر کے جانے کے بعد ماریہ نے کرم کو دروازہ بند کرنے کو کہا، کرم نے آہستگی کے ساتھ دروازہ بند کر دیا اور ماریہ کے قریب آیا تو ماریہ نے کرم سے پوچھا کہ دوپہر میں جب تم مجھے حویلی دکھا رہے تھے میں نے دیکھا کہ تمہاری نظریں میرے جسم پر مرکوز تھیں، ایسا کیوں؟؟؟ یہ سن کر کرم کو ایک دم چپ لگ گئی اور اسکی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ اس بات کا کیا جواب دے۔
کرم کو خاموش دیکھ کر ماریہ نے پھر اس سے کہا کہ تمہاری نظریں میرے سینے پر تھیں، آخر کیا دیکھنا چاہ رہے تھے تم۔ اس پر بھی کرم خاموش کھڑا رہا اور اسے سے کوئی ایک بات بھی منہ سے نہیں نکالی گئی۔ کرم کو یوں خاموش دیکھ کر ماریہ نے اپنے جسم سے چادر ہٹا دی اور بولی لو اب جی بھر کر دیکھ لو میرا جسم۔ کرم کی نظر ماریہ کے جسم پر پڑی تو وہ اپنی آنکھیں جھپکانا بھول گیا تھا، ماریہ اسی نائٹی میں ملبوس تھی جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی پہن کر وہ لوکاٹی کے ساتھ سیکس کر رہی تھی۔ سیکسی برا میں بڑے بڑے ممے آپس میں مل کر کلیویج بنا رہے تھے اور اسکے نیچے نیٹ کی باریک نائٹی سے ماریہ کا سارا جسم جھلک رہا تھا جبکہ اسکے پیٹ سے نائیٹی ویسے ہی ہٹی ہوئی تھی اور اسکی ناف نظر آرہی تھی، نیچے محض ایک پینٹی ماریہ نے پہن رکھی تھی اسکے نیچے ماریہ کی ٹانگیں بالکل ننگی تھیں۔ ماریہ کو اتنے سیکسی لباس میں دیکھ کر کرم اپنی نظریں جھپکانا ہی بھول گیا۔ کرم کو یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر ماریہ نے کرم سے کہا اب یوں ہی دیکھتے رہو گے یا کچھ کرو گے بھی؟؟؟ ابھی تمہارے بابا سائیں کے لیے پہنی تھی یہ نائٹی مگر میرے اندر 4، 5 دھکے لگا کر ہی وہ خود تو فارغ ہوگئے اور مجھے ویسے ہی پیاسا چھوڑ دیا، کیا اب تم میری پیاس بجھاو گے؟؟؟
یہ سن کر کرم ایک دام آگے بڑھا اور ماریہ کے جسم پر ٹوٹ پڑا۔ ۔ اس نے ماریہ کو اپنی گود میں اٹھا کر اسکی پتلی کمریا سے زور سے پکڑ لیا تھا اور دیوانہ وار ماریہ کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لبوں پر ٹوٹ پڑا تھا اور ماریہ بھی اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ کچھ دیر ماریہ کے لبوں کو چوسنے کے بعد کرم نے ماریہ کو دوبارہ سے نیچے اتارا اور ایک ہی جھٹکے میں اسکا برا اتار کر سائیڈ پر پھینک دیا اور اسکی نائٹی بھی اتار دی۔ وہ محض اب پینٹی پہنے کرم کے سامنے کھڑی تھی۔ اسے یقین تھا کہ کرم کا طاقتور لن آج اسکو بہت اچھی طرح سے چودے گا۔ کرم برا اتارتے ہی ماریہ کے 36 سائز کے مموں پر ٹوٹ پڑا اور ان پر دیوانہ وار پیار کرنے لگا۔ وہ ماریہ کے مموں کے نپلز کو منہ میں لیکر چوس رہا تھا اور ماریہ شدتِ جذبات سے اپنے منہ سے آہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ ابھی کرم نے مشکل سے 2 منٹ ہی ماریہ کے مموں کو چوسا ہوگا کہ اچانک باہر والا دروازہ کھلا تو دونوں پر سکتہ طاری ہوگیا انہوں نے ایک دم دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں نذر کھڑا تھا۔ اس نے کچھ دیر دونوں کی طرف دیکھا اور پھر دروازے کی کنڈی لگا کر بولا یہ مجھے واپس بھیج کر کیا کر رہی ہو تم؟ ؟؟؟ کرم کے ساتھ یہ سب کچھ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا تم مجھے بھی راستے سے ہٹا کر اسکو ہولستان کی حکومت دلوانا چاہتی ہو؟؟؟
یہ سن کر ماریہ کے ذہن میں ایک اور ترکیب آگئی اور وہ بولی کہ نہیں کرم کافی دیر سے میرے جسم پر خاص طور پر سینے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اور تم لوگوں کے پاس آنے سے پہلے تمہارے بابا نے کچھ دیر مجھے چودا مگر وہ کچھ ہی دیر میں میرے اندر ہی فارغ ہوگئے اور مجھے پیاسا چھوڑ دیا تو میں نے سوچا کہ کرم جو میرے جسم کو پہلے ہی گھور رہا تھا اس کے لن سے اپنی پیاس بجھائی جائے، مگر مجھے اچھا لگے گا اگر تم دونوں بھائی مل کر میری پیاس بجھاو۔ یہ سن کر نذر ایک دم آگے بڑھا اور وہ بھی دیوانہ وار ماریہ کو جپھی ڈال کر اسکے ہونٹوں سے رس کشید کرنے لگا۔ کرم کے لیے یہ سب کچھ عجیب تھا مگر پھر اس نے بھی سوچا کہ آج یہ تجربہ بھی کر ہی لینا چاہیے، اس نے ماریہ کو نذر کی بانہوں میں ہی رہنے دیا مگر خود پیچھے کھڑے ہوکر ماریہ کی پینٹی اتار دی اور نیچے بیٹھ کر اسکے چوتڑوں کو پکڑ کر چوسنے لگا۔ وہ ماریہ کے چوتڑوں کی پھاڑیوں کو کھول کر اس میں موجود گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان چلا رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے ماریہ کے چوتڑوں کو زور زور سے دبا رہا تھا۔ نذر بھی کچھ دیر ماریہ کے لبوں کو چوسنے کے بعد اب ماریہ کے بڑے بڑے مموں سے لطف اندوز ہورہا تھاجبکہ ماریہ نے کرم کو بھی اپنا ہاتھ اسکے چہرے پر رکھ کر اسے اوپر اٹھا لیا تھا اور اپنے ممے چوسنے کا کہا تھا۔ اب ایک مما کرم کے منہ میں تھا اور دوسرا مما نذر کے منہ میں، دونوں بہت ہی بےتابی سے ماریہ کے سیکسی مموں کو چوس رہے تھے۔ انکی اپنی بیویوں کے ممے نہ تو اتنے بڑے تھا اور نہ ہی اتنے سیکسی۔ کرم کی بیوی کے ممے 32 سائز کے تھے اور نذر کی بیوی کے ممے 34 کے تھے مگر ڈھلکے ہوئے تھے۔ ماریہ کے 36 سائز کے کسے ہوئے اور تنے ہوئے ممے دیکھ کر نذر پاگل ہوگیا تھا۔
کچھ دیر بعد کرم اور نذر دونوں ایکدوسرے کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے اور ان دونوں کے درمیان ماریہ زمین پر بیٹھی تھی۔ ان دونوں کے لوڑَ ماریہ کے ہاتھ میں تھے، وہ کبھی نذر کا 8 انچ کا لوڑا چوستی تو کبھی کرم کا 7 انچ لمبا لوڑا اپنے منہ میں ڈال کر چوپے لگاتی۔ کرم اور نذر دونوں ہی اپنی قمست پر ناذاں تھے کہ انہیں اتنی سیکسی اور جوان ہندوستانی لڑکی چدائی کے لیے مل گئی ہے۔ دونوں نے ملکر قریب 2 گھنٹے تک ماریہ کی خوب چدائی کی اور ماریہ نے بھی دونوں کےلن کا خوب مزہ لیا۔ باری باری دونوں سے چدوا کر ماریہ نے اپنی رات کو بہت خوبصورت بنا لیا تھا۔ دونوں کے لن کی منی 2، 2 بار نکلی تھی جبکہ ماریہ کی چوت کا پانی 4 بار نکل چکا تھا۔ وہ اس لمبی چدائی سے تھک تو گئی تھی مگر اس نے انجوائے بھی خوب کیا تھا۔ کرم نے دونوں بار اپنی منی ماریہ کی چوت میں نکالی تھی اور وہ جلدی فارغ ہوگیا تھا دونوں بار جبکہ نذر نے ماریہ کو زیادہ مزہ بھی دیا اور زیادہ دیر تک ماریہ کی چودائی کی کبھی گھوڑی بنا کر تو کبھی اپنے اوپر بٹھا کر اور کبھی خود ماریہ کے اوپر چڑھ کر اس کو چودا۔ نذر نے ایک بار اپنی منی ماریہ کے چوتڑوں پر نکالی جبکہ دوسری بار اس نے منی ماریہ کے منہ میں نکالی جسکو ماریہ نے بڑے شوق کے ساتھ پی لیا تھا۔
ماریہ کو چودنے کے بعد دونوں اپنے اپنے کمرے میں جا کر سوگئے تھے جبکہ ماریہ بھی اپنی چوت چدوانے کے بعد تھوڑا مشکل سے چلتی ہوئی واپس لوکاٹی کے پاس چلی گئی تھی جو ابھی تک سویا پڑا تحا۔ لوکاٹی کے پہلو میں لیٹ کر ماریہ اپنے آپ کو داد دے رہی تھی کہ اس نے بہت آسانی کے ساتھ دونوں بھائیوں کو باپ کے خلاف کر دیا تھا اور انکے لن سے اپنی چوت کو چدوا کر مزے بھی لے لیے تھے۔ اب وہ آنے والے حالات کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ نجانے وہ یہاں سے کیسے نکلے گی اور اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
صبح ماریہ کی آنکھ کھلی تو کمرے میں لوکاٹی موجود نہیں تھا، ماریہ نے کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر نکل گئی جہاں پہلے سے 2 عورتیں کل کی طرح اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگیں مگر ماریہ نے دونوں کو سختی سے منیع کر دیا اور وہیں رکنے کے لیے کہا۔ خود ماریہ اب پہلی منزل پر موجود اس کمرے کی طرف چلی گئی جہاں سے نیچے والے مہمان خانے کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ماریہ وہاں پہنچی تو اسے سامنے کرسی پر ایک آرمی آفیسر بیٹھا دکھائی دیا۔ جو سامنے بیٹھے لوکاٹی سے بات چیت کر رہا تھا جبکہ کمرے میں اور کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔ ماریہ کافی دیر تک اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کرتی رہی مگر اسے سمجھ نہیں لگی کہ یہ کو ن شخص ہے۔ پھر اچانک لوکاٹی نے اسے کرنل وشال کہ کر مخاطب کیا تو ماریہ کے جسم سے جان نکلنے لگی۔ اب یہاں ماریہ کو اپنا بچنا مشکل نظر آرہا تھا، کیونکہ لوکاٹی کے نزدیک ماریہ کا اصل نام انجلی تھا اور وہ کرنل وشال کی بیٹی ٹینا کی دوست تھی اس لحاظ سے ہو سکتا تھا کہ وہ کرنل وشال کوبتا دے کہ وہ انجلی کو اپنے ساتھ لے آیا ہے اور جب وہ کرنل وشال سے ملے گی اور کرنل وشال انکار کر دے گا کہ ٹینا کی تو اس نام کی کوئی دوست نہیں اور نہ ہی وہ اس انجلی کو جانتا ہے تو مسئلہ بڑھ سکتا تھا ماریہ کے لیے۔
ابھی ماریہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسے کرنل وشال کی آواز سنائی دی۔ کرنل وشال جو باتیں لوکاٹی سے کر رہا تھا وہ سن کر ماریہ کا ذہن ماوف ہونے لگا تھا، اس نے میجر دانش کے بارے میں لوکاٹی کو بتا دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ عمران بن کر اسکی بیٹی کے ساتھ رہا اور اب وہ انڈیا میں ہی چھپتا پھر رہا ہے مگر کرنل وشال اب اس پر کاری وار کرنے کے لیے پاکیشا آچکا ہے ۔ پھر کچھ ہی دیر کے بعد ماریہ کو کرنل وشال کا چہرہ نظر آیا تو اس پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ کرنل وشال کو دیکھتے ہی ایک بار اسکا دل کیا کہ وہ ابھی نیچے جائے اور کرنل وشال کو چھریوں کے وار کر کرکے اسکی ایک ایک بوٹی علیحدہ کر دے، مگر اس نے اپنے اوپر قابو رکھا اور اپنے ذہن میں اب یہاں سے بھاگنے کا پلان بنانے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد اس نےسوچ لیا تھا کہ وہ یہاں سے کیسے نکلے گی۔ وہ فورا نذر کے کمرے میں گئی اور نذر کو علیحدگی میں لیجا کر اسکو اسکےبیٹے شاہ میر کی زندگی خطرے میں ہونے کی اطلاع دی۔ اکلوتے بیٹے کی زندگی کا سن کر وہ پریشان ہوگیا تھا، ماریہ نے اسے بتایا کہ نیچے کرنل وشال بیٹھا ہے اور وہ تمہارے بابا سائیں کو کہ رہا ہے کہ ہمیں جلد ہی آزادی کی تحریک کا اعلان کرنا ہوگا، اسکے ساتھ ساتھ کرم کی طرف سے تمہارے بابا سائیں کو مارنے کے بعد تمہیں بھی مارنے کی کوشش کی جائے گی، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے بابا کے بعد تم سردار بننے کے زیادہ حق دار ہوگے کیونکہ تمہارا ایک وارث بھی ہے جبکہ کرم کا وارث کوئی نہیں اس لیے اسے تم سے خطرہ ہے، وہ تمہارے بابا سائیں کو مارنے کے بعد تمہیں اور تمہارے بیٹے کو مارنے کی بھی کوشش کرے گا۔ تمہیں تو میں نہیں بچا سکتی، تمہیں خود اپنی حفاظت کرنی ہوگی، البتہ تمہارے بیٹے کو میں یہاں سے کسی دوسرے شہر لے جارہی ہوں جہاں وہ محفوظ رہے گا اور اگر تمہیں کچھ ہو بھی جاتا ہے تو تمہارا بیٹا بڑا ہوکر واپس اپنے علاقے میں آئے گا تو لوگ اسکو مظلوم سمجھ کر اسکا ساتھ دیں گے اور کرم کے خلاف ہوجائیں گے اور اگر تم کرم کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو شاہ میر فورا ہی تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔
بیٹے کی زندگی کے خطرے کے بارے میں سن کر نذر کافی پریشان ہوگیا تحا اور اس نے بلا سوچے سمجھے اپنے 15 سالہ بیٹے کو ماریہ کےساتھ بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی اور ایک چور راستے سے انہیں حویلی سے نکلوا دیا۔ حویلی سے نکلنے کے بعد ماریہ جلد سے جلد پاکیشا کے پرانے دارالخلافہ جانا چاہتی تھی، کیونکہ وہاں سے اسکا پکڑے جانا بہت مشکل تھا، اتنے بڑے شہر میں کسی چھوٹی سی جگہ پر آسانی سے چھپا جا سکتا تھا اور ہندوستان سے روانگی سے پہلے میجر دانش بے بھی تانیہ کو بتایا تھا کہ وہ ہندوستان سے واپس آئے گا تو سیدھا اپنے شہر میں ہی آئے گا جو پاکیشا کا پرانہ دارالخلافہ تھا۔
ایک دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ماریہ کلاچی پہنچ گئی تھی ۔ وہاں ایک چھوٹے علاقے کے ایک ہوٹل میں کمرہ کرایہ لینے کے بعد تانیہ اب کرنل وشال کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جلد سے جلد اسکا خاتمہ کر دے۔ کرنل وشال کو آج تانیہ نے 10 سال کے بعد دوبارہ دیکھا تھا، آج سے پہلے اسے کرنل کا نام تو معلوم نہیں تھا مگر وہ اسکی شکل آج تک نہیں بھولی تھی۔ یہ کرنل وشال ہی تھا جس نے آج سے 10 سال پہلے کشمیر کی ایک حسین وادی میں خون کی ہولی کھیلی تھی۔ تب وہ کیپٹن رینک کا آفیسر تھا۔ کیپٹن وشال نے ایک خوبصورت صبح میں مقبوضہ کشمیر کے ایک چھوٹے سے خوبصورت گاوں پر تب حملہ کیا تھا جب وہاں کے تمام لوگ اٹھنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس صبح کیپٹن وشال نے اس گوں کے قریب قریب سبھی مردوں کو اپنی فوج کی مدد سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 50 سے 70 مردوں کی لاشیں گاوں کی مختلف گلیوں میں پڑی تھیں اور ان پر کفن ڈالنے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی صبح تانیہ کے والد کو بھی کیپٹن وشال نے گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا اور تانیہ کے گھر میں گھس کر اسکی ماں کو جس کی عمر اس وقت مشکل سے 31 سال ہوگی تانیہ کے سامنے ہی ننگا کر کے چود دیا تھا۔ تب تانیہ خاموشی سے اپنی ماں کو کیپٹن وشال کے 9 انچ کے لن تلے تڑپتے ہوئے دیکھتی رہی مگر وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی اسکو ایک اور فوجی نے پکڑ رکھا تھا اور وہ بھی براہ راست چودائی کا مزہ لے رہا تھا۔ تانیہ کی ماں کو بے دردی سے چودنے کے بعد کیپٹن وشال نے اپنا منی سے بھرا ہوا لن زبردستی اسکی ماں کے منہ میں ڈال کر صاف کیا اور پھر اسکو بھی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا جبکہ تانیہ کو وہیں کونے میں چھوڑ کر وہ اس گاوں سے نکل گئے تھے۔
آج جب تانیہ نے کرنل وشال کو دوبارہ دیکھا تو اسکی آنکھوں میں اسکی ماں کا تڑپتا ہوا جسم دوبار نظر آرہا تھا، اور اسکے باپ کی خون میں بھری لاش بھی تانیہ کے جذبات کو بھڑکا رہی تھی، اس نے کیپٹن وشال سے بدلہ لینے کے لیے ہی امجد اور دوسرے مجاہدین کے ساتھ کام شروع کیا تھا، اور آج 10 سال کے بعد اسے وہی شخص نظر آیا، مگر اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے وہ بہت جلد ترقی کر کے کیپٹن کی بجائے کرنل بن چکا تھا، اور تانیہ اب اسکو مارنے کے لیے بے چین ہوئے جا رہی تھی مگر میجر دانش کے ساتھ کچھ دن گزار کر اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ کبھی بھی جذباتی ہو کر فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ٹھنڈے دماغ سے صحیح وقت کا انتظار کر کے ہی دشمن پر حملہ کرنے میں کامیابی ملتی ہے۔
میجر دانش مرلی کے روپ میں پاکیشا جانے والی فلائیٹ میں فرسٹ کلاس سیکشن میں سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا بور ہو رہا تھا۔ 1 گھنٹے کی فلائٹ کو شروع ہوئے ابھی محض 5 منٹ ہی گزرے تھے مگر نہ تو دیپیکا اسے کوئی لفٹ کروا رہی تھی اور نہ ہی کوئی اور شخص۔ دیپیکا کی خدمت کے لیے ایک ائیر ہوسٹس منتخب کی گئی تھی جو ہر 5 منٹ کے بعد دیپیکا کے پاس پہنچ جاتی کہ اگر اسے کوئی چیز چاہیے تو وہ بتائے۔ اسی طرح 20 منٹ کا وقت گزر چکا تھا ، اور میجر دانش کا بوریت کے مارے برا حال تھا۔ پھر میجر دانش نے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی دیپیکا کو آواز دی: ایکسیوز می میڈیم۔ مرلی کی آواز سن کر دیپیکا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولی ہاں مرلی کیا بات ہے؟ میم ایک منٹ ، آپ کے لیے ضروری پیغام ہے۔ یہ سن کر دیپیکا اپنی سیٹ سے اٹھی اور مرلی کے پاس پہنچ گئی اور بولی ہاں بولو اب کیا ہوگیا؟؟؟ مرلی نے مسکین سی شکل بنا کر کہا دیپیکا کی بچی یہ تم اچھا نہیں کر رہی میرا یہاں بوریت کے مارے برا حال ہو رہا ہے اور تم اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ مزے کر رہی ہو۔۔۔۔ یہ سن کر دیپیکا مسکرائی اور مرلی کے گال کو پچکارتے ہوئے بولی کیا کروں، اب تم خود ہی تو میرے ملازم کی حیثیت سے میرے ساتھ آئے ہو اور تم تو جانتے ہی ہو کہ دیپیکا پڈوکون سٹار آف بالی ووڈ، اپنے ملازم کے ساتھ یوں سرِ عام فری نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اب برداشت کرو میں واپس جا رہی ہوں۔ یہ کہ کر دیپیکا پڈوکون واپس چلی گئی۔
یہ منظر وہاں موجود ایک دوسری ائیر ہوسٹس نے دیکھ لیا تھا اور وہ کافی متاثر ہوئی تھی کہ اس ملازم کی دیپیکا کے ساتھ اس حد تک فرینکنس ہے۔ جبکہ دیپیکا کے جانے کے بعد اب میجر دانش واش روم جانا چاہ رہا تھا، وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اور پھر اسکی نظر اسی ائیر ہوسٹس پر پڑی، چونکہ میجر دانش اس وقت ایک ملازم کے روپ میں تھا اس لیے وہ اپنے آپکو کافی نروس شو کروا رہا تھا جیسے پہلی بار جہاز میں بیٹھا ہو۔ ائیر ہوسٹس کو دیکھ کر میجر دانش نے اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو وہ ائیر ہوسٹس فورا میجر دانش کے پاس آگئی اور نیچے جھک کر انتہائی ادب کے ساتھ بولی جی سر فرمائیے۔ میجر دانش نے اسکی طرف دیکھا تو اسکی نظر ہوسٹ کے مموں پر پڑی جنکی گہرائی ائیر ہوسٹس کی سیکسی شرٹ کے کھلے ہوئے بٹن سے نظر آرہی تھی۔ یہ انڈین ائیر لائن تھی اور انٹرنیشنل پرواز تھی جس نے پاکیشا سے آگے یورپین ممالک کی طرف بھی جانا تھا۔ اسی وجہ سے اس میں ہندوستانی اور انگریز ائیر ہوسٹس موجود تھیں۔ مگر ان سب کی ڈریسنگ یورپین سٹینڈرد کے مطابق ہوتی تھی منی سکرٹ کے ساتھ ایک شرٹ اور سر پر ایک کیپ۔ دوپٹے نام کی کسی چیز کی اجازت نہیں تھی۔ کچھ دیر میجر دانش اس ائیر ہوسٹس کے مموں کی گہرائی کو دیکھتا رہا جب ائیر ہوسٹس نے بولا جی سر میں آپکی کیا مدد کر سکتی ہوں تو میجر دانش اپنے ہوش میں واپس آیا اور بولا کہ مجھے واش روم جانا ہے۔ ائیر ہوسٹس نے کہا آئیں سر میں آپکو لیے چلتی ہوں، یہ کہ کر ائیر ہوسٹ آگے چل پڑی اور میجر دانش اسکے پیچھے پیچھے اسکے بڑے چوتڑوں کو گول گول گھومتا دیکھ کر چلنے لگا۔
اس ائیر ہوسٹس کا نام ںندنی تھی جو اسکی شرٹ پر ایک بیج پر لکھا ہوا تھا، نندنی میجر دانش کو واش روم تک لے گئی۔ کچھ دیر کےبعد میجر دانش واش روم سے باہر نکلا تو اسکے سامنے 3 ائیر ہوسٹس کھڑی تھیں جیسے انہیں میجر دانش کے باہر نکلنے کا انتظار ہو۔ میجر دانش باہر نکلا اور اپنے سامنے 3 خواتین کو دیکھ کر نروس ہوگیا جو اسے مسلسل گھورے جا رہی تھیں۔ میجر دانش نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیا ہوا مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟؟؟ اس پر نندنی بولی تمہارا نام کیا ہے؟؟؟ میجر نے اپنا نام مرلی بتایا کیونکہ وہ تو دیپیکا کے ملازم کی حیثیت سے سفر کر رہا تھا۔ نندنی بولی مرلی یہ تم دیپیکا جی کے پاس جا سکتے ہو؟؟ مرلی نے پوچھا کیا مطلب؟ نندنی بولی مطلب یہ کہ ہمیں دیپیکا میڈیم کے پاس جانے کی اجازت نہیں صرف ایک ائیر ہوسٹس ہے جو انکے پاس جا سکتی ہے۔ میں نے دیکھا تمہارے بلانے پر دیپیکا جی تمہارے پاس آئیں اور تمہارے گال پر ایک پیار سے چماٹ بھی ماری، اسکا مطلب دیپیکا جی تم سے کافی فری ہیں۔ ایسا ہی ہے کیا؟؟ مرلی نے کہا ہاں میں انکے گھر پر انکی خدمت کرتا ہوں، انکے سارے کام کرتا ہوں تو وہ کیا مجھے ہلکی سی چماٹ بھی نہیں مار سکتیں؟؟؟ میجر دانش اس وقت فل ایکٹنگ کر رہا تھا وہ کہیں سے بھی میجر نہیں لگ رہا تھا اور مکمل ان پڑھ جاہل انسان کی طرح جواب دے رہا تھا۔ اسکے جواب پر نندنی ایک بار پھر جھنجلا کر بولی ارے بدھومیں نے کب کہا کہ وہ نہیں کر سکتیں، میں تو بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں اگر تم دیپیکا میڈیم کو یہاں بلاو تو کیا وہ تمہارے کہنے پر آجائیں گی؟؟؟
مرلی نے انکو مشکوک نظروں سے دیکھا اور کہا کیوں میں بھلا انہیں یہاں کیوں بلاوں؟؟؟ اس پر نندنی کے ساتھ کھڑی دوسری ائیر ہوسٹس جسکا نام للیتا تھا بولی پیسے نہیں مانگنے لگے ہم تیری میڈیم سے، بس انکے ساتھ ایک سیلفی بنوانی ہے ہمیں۔ اور یہ کام تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا؟؟؟ اس بار مرلی نے پھر بےوقوفی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا سیلفی کیسے بنواتے ہیں؟؟؟ اب نندنی بولی ابے یار انکی تصویر بنوانی ہے۔ اس پر مرلی نے اپنا موبائل نکالا اور بولا یہ کونسا مشکل کام ہے میں دے دیتا ہوں تمہیں انکی تصویریں بولو کتنی تصویریں چاہیے؟؟ اب کی بار تیسری ائیر ہوسٹس کاجول بولی ارے بدھو۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی تصویروں کا ہم نے اچار ڈالنا ہے کیا وہ تو ہم بھی انٹرنیٹ سے لے سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انکے ساتھ ہم نے اپنی تصویریں بنوانی ہیں تاکہ دوسروں کو دکھا سکیں کہ دیپیکا میڈیم نے ہم سے مل کر ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائی ہیں۔ اب کی بار مرلی نے کاجول کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔۔۔ تو یوں کہو نہ کہ تم نے شوخیاں مارنی ہیں۔ میں کیوں دیپیکا میڈیم کو تنگ کروں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ یہ کہ کر مرلی واپس اپنی نشست کی طرف جانے لگا مگر للیتا نے اسکو کندھے سے پکڑ کر واپس کھینچ لیا اور بولی کیا مطلب ہے تمہارا اس میں انکو تنگ کرنے والی کونسی بات ہے؟ 5 منٹ ہی تو لگیں گے کونسا دیپیکا میڈیم شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ اگر 5 منٹ ہمارے ساتھ بِتا لیں گی تو تمہیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟
اس پر مرلی نے للیتا کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا اور بولا واہ، بڑا نخرہ ہے محترمہ میں، ایک تو کام بھی اپنا کروانا ہے اور اوپر سے تمیز بھی نہیں بات کرنے کی جاو میں نہیں کرتا تمہارا کام۔ نندنی نے کام بگڑتا دیکھا تو اس نے للیتا کو پیچھے کیا اور بڑے پیار سے آگے بڑھی اور مرلی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی سوری مرلی، یہ للیتا تو ہے ہی بد تمیز مگر تم تو اچھے انسان ہو نہ، تو پلیز ہمارا یہ چھوٹا سا کام کر دو نا پلیز۔۔۔ اب کی بار مرلی نے نندنی کو غور سے دیکھا اور بولا مگر مجھے کیا فائدہ ہوگا تمہارا یہ کام کرنے کا۔ اس پر پیچھے کھڑی کاجول نے جلدی سے کہا تمہیں ایک ہزار روپیہ دوں گی میں اگر تم ہمارا یہ کام کر دو؟؟؟ مرلی ہنسا اور بولا جاو جاو، مجھے پیسے کی کمی نہیں، جتنے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے دیپیکا میڈیم فورا دے دیتی ہیں مجھے کہو تو میں دیپیکا میڈیم سے لیکر ابھی تم تینوں کو دس دس ہزار دلوا دیتا ہوں۔ یہ کہ کر مرلی پھر واپس اپنی نشست کی طرف جانے لگا تو اب پھر نندنی نے مرلی کو پیار سے روکا اور بولی دیکھو اگر تم ہمارا یہ چھوٹا سا کام کر دو گے تو اس میں تمہارا تو کوئی نقصان نہیں نہ، ہم تمہیں دعائیں دیں گی۔ اب کی بار مرلی نے طنزیہ قہقہ لگایا اور کہا اگر میں یہ کام نہیں کرتا تو بھی مجھے کوئی نقصان نہیں اور نہ تمہارا کوئی نقصان ہوجائے گا بس شوخی نہیں مارسکو گی تم۔ اور جاو مجھے نہیں چاہیے تمہاری دعائیں۔ جس کام میں فائدہ ہی کوئی نہ ہو میں وہ کام کیوں کروں؟؟
اب نندنی نے دونوں ہاتھوں سے مرلی کو کندھوں سے پکڑ کر واپس پیچھے کیا اور بولی دیکھو مرلی تم بتاو بدلے میں تمہیں کیا چاہیے، جو تم کہو گے تمہیں ملے گا، بس تم ہمارا یہ کام کر دو۔ اب مرلی کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا بھلا تم مجھے کیا دے سکتی ہو؟؟؟ نندنی نے پہلے ہی محسوس کر لیا تھا کہ مرلی میاں کی نظریں اسکے مموں پر تھیں جب اس نے واش روم جانے کو کہا تھا لہذا اس نے اسی چیز کا استعمال کیا اور بولی، جو تم اس وقت دیکھنا چاہ رہے تھے وہ تمہیں دکھا سکتی ہوں میں؟؟؟ اب کی بار مرلی نے کچھ ترچھی نظروں سے للیتا اور کاجول کو دیکھا اور پھر دوبارہ نندنی کو دیکھتے ہوئے بولا کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا دیکھنا چاہتا تھا میں؟؟؟ للیتا اور کاجول بھی حیرانگی سے نندنی کو دیکھنے لگیں کہ یہ کیا کہنا چاہتی ہے؟؟ مرلی کو اپنی جانب ایسے دیکھتے ہوئے نندنی نے کہا جب تم نے مجھے اپنے پاس بلایا تھا اس وقت تم جو چیز دیکھنا چاہ رہے تھے وہ میں دکھا سکتی ہوں تمہیں اگر تم میرا یہ کام کر دو۔۔۔۔ اب کی بار مرلی نے جھنجلاتے ہوئے کہا ارے یار جو کہنا ہے کھل کر کہو یوں پہیلیاں نہ بجھواو مجھ سے۔ اس پر نندنی ایک دم بولی مجھے معلوم ہے تمہاری نظریں اس وقت میرے سینے پر تھیں، میں تمہیں وہ دکھا دوں گی بس تم ایک بار دیپیکا میڈیم کے ساتھ ہماری سیلفی بنوا دو۔ یہ سن کر کاجول اور للیتا دھیمی آواز میں چلائیں اور بولی نندنی پاگل ہوگئی ہے تو؟؟؟ یہ کیا بکواس کر رہی ہے؟؟؟ اس پر نندنی نے کہا یہ میرا مسئلہ ہے تمہیں اس سے کیا پرابلم ہے؟؟؟ بس مجھے دیپیکا میڈیم کے ساتھ تصویر بنوانی ہے اور اس سنجنا کی بچی کو جلانا ہے جو ہر روز دیپیکا کا نام لے لے کر مجھے سڑاتی رہتی ہے کہ اس نے دیپیکا سے ایک شاپنگ مال میں ہاتھ ملایا تھا، میں جب اسے دیپیکا میم کے ساتھ اپنی تصویر دکھاوں گی تو سالی دوبارہ کبھی ہاتھ ملانے کا نام نہیں لے گی۔
نندنی کے خاموش ہونے پر مرلی تھوڑا ہکلایا اور بولا م م میں ک۔۔۔ کب دیک۔۔۔۔ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ت۔ ت۔ ۔ ت تمہارا سینہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر نندنی نے اسکو غصے سے دیکھا اور بولی اتنی بھی بچی نہیں ہوں میں تم جیسے ٹھرکی روز اس جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ان سب کی نظریں ہمارے سینوں پر ہی ہوتی ہیں جیسے انہوں نے کبھی لڑکی کا سینہ دیکھا نہیں ہوتا۔ اب سیدھے سیدھے بتاو اگر تو میرا سینہ دیکھنا چاہتے ہو تو دیپیکا میڈیم کو بلوا دو نہیں تو جاو واپس اپنی نشست پر جا کر بیٹھو اور خبردار جو دوبارہ ہم تینوں میں سے کسی کو بھی اپنے کسی کام کے لیے بلایا۔۔۔۔ اب مرلی کھڑا سوچنے لگا اور پھر بولا مگر اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ دیپیکا میم کے ساتھ تصویر بنانے کے بعد تم اپنا دکھاو گی؟ تم بعد میں مکر جاو گی تو میں کس سے جا کے شکایت کروں گا؟؟؟ پہلے مجھے دکھاو پھر میں میم کو بلاوں گا؟؟؟ اس پر اب للیتا بولی یہ بات تو ہم بھی کر سکتے ہیں کہ اگر نندنی نے تمہیں پہلے اپنا سینہ دکھا دیا تو کیا گارنٹی ہے تم دیپیکا میم کو بلاو گے؟؟ تم بعد میں مکر جاو تو ہم کیا کریں گی؟؟؟ مرلی نے للیتا کو غصے سے دیکھا اور بولا تمہارا سینہ کون دیکھنا چاہتا ہے؟؟؟ میری اور نندنی کی بات ہورہی ہے، اگر تو میری بات پر یقین ہے تو پہلے سینہ دکھاو پھر میں دیپیکا میڈیم کے ساتھ تمہاری سیلفی بنوا دوں گا۔۔۔۔ اور اگر پہلے نہیں دکھانا سینہ تو مجھے راستہ دو میں واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھوں۔۔۔
مگر نندنی نے مرلی کو راستہ نہ دیا اور اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی سوچتی رہی، پھر اچانک وہ اپنے ہاتھ اپنی شرٹ کی طرف لے کر گئی اور شرٹ کے اوپر والے 3 بٹن کھول کر اپنی شرٹ سائیڈ پر ہٹا دی۔ نیچے نندنی نے ہلکے گلابی رنگ کا خوبصورت برا پہن رکھا تھا جس میں نندنی کے 34 سائز کے ممے بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ کچھ سیکنڈز کے لیے نندنی نے اپنی شرٹ کھلی رہنے دی ، اس دوران مرلی کی نظریں نندنی کے مموں پر ہی تھیں اور وہ انکا سائز ماپنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ کاجول اور للیتا حیران ہوکر نندنی کی اس حرکت کو دیکھ رہی تھیں وہ ششدر رہ گئیں تھیں کہ کیسے نندنی نے اتنی جلدی یہ حرکت کر ڈالی۔ مگر جیسے ہی نندنی نے شرٹ کے بٹن دوبارہ بند کرنے کی کوشش کی تو مرلی ایک دم بولا ارے یہ کیا بے ایمانی ہے، کیا دیپیکا میڈیم کے ساتھ تم اتنی سی ہی بات کرو گے جتنی دیر تم نے اپنا سینا دکھایا؟؟؟ یہ سن کر نندنی نے کھا جانے والی نظروں سے مرلی کو دیکھا مگر مرتی کیا نہ کرتی اس نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کرنے کا ارادہ ختم کر دیا اور بولی لو تم دیکھ لو اور اچھی طرح سے۔
اب کی بار مرلی مسکراتا ہوا نندنی کو دیکھنے لگا اور پھر بولا بس شرٹ ہی؟؟؟ نندنی مرلی کی اس بات کو کچھ کچھ سمجھتے ہوئے غصے سے بولی کیا مطلب ہے تمہارا کہ بس شرٹ ہی؟؟؟ مرلی بولا مطلب یہ کہ تم نے اپنا سینہ دکھانے کی بات کی تھی تو پورا سینہ تو دکھاو نہ۔۔۔ نندنی نے کہا پورا ہی تو دکھا رہی ہوں اور کیسے پورا دکھاوں؟؟؟ اس پر مرلی نے کہا پورا کہاں ہے؟؟؟؟ اتنا بڑا تو تم نے برا پہن رکھا ہے جو تمہارے سینے کی اصل خوبصورتی کو چھپا رہا ہے۔۔۔ اب اگر میں دیپیکا میڈیم کو برقع پہنا کر لے آوں تو اسکا کیا فائدہ؟؟؟ اسی طرح تم نے سینہ دکھانے کی بات کی ہے تو پورا سینہ تو دکھاو نہ جو میں دیکھنا چاہتا تھا۔ مرلی کی اس بات پر پیچھسے سے کاجول کی آواز آئی ارے یہ تو بڑھتا ہی جا رہا ہے نندنی چھوڑو اسکو ہم خود ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ کاجول کی بات پوری ہوتی وہ یہ دیکھ کر حیران گئی کہ نندنی اپنی شرٹ کا آخری بٹن کھولنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ پیچھے لیجا کر اپنے برا کی ہُک کھول چکی تھی پھر اس نے ہاتھ واپس آگے لا کر اپنے دونوں مموں پر ہاتھ رکھا اور اپنے برا کو پکڑ کر مموں سے ہٹا دیا۔۔۔۔ واہ کیا نظارہ تھا۔ مرلی نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ یوں جہاز میں بھی وہ کسی کے ایسے خوبصورت ممے دیکھ پائے گا۔ نندنی کے گورے گورے بدن پر گورے گورے 34 سائز کے گول اور سڈول ممے بہت خوبصورت لگ رہے تھے ان پر ایک چھوٹا سا براون گول دائرہ اور اس میں ایک چھوٹا سا نپل جو دیکھنے میں کافی نرم لگ رہا تھا بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ۔ ۔ مرلی یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔ اور اسکا بس نہں چل رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ کر دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لے مگر وہ گرم گرم نوالہ کھانے کا عادی نہیں تھا۔
نندنی کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر اس نے ایسا بولڈ سٹیپ کیوں لے لیا تھا مگر اب تو جو ہونا تھا ہو چکا تھا، وہ اپنے ننگے ممے لیے مرلی کے سامنے کھڑی تھی اور اسکی سانسیں تیز ہورہی تھیں، اس نے آج تک کسی انجان شخص کو یوں اپنے ممے نہیں دکھائے تھے۔ اسکی شادی کو بھی ابھی 1 سال ہی ہوا تھا اور اپنے شوہر کے علاوہ کسے کے سامنے یوں اپنا برا کھولنے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ سانسیں تیز چلنے کی وجہ سے اسکے تنے ہوئے 34 سائز کے ممے اوپر نیچے ہورہے تھے اور مرلی انکو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا رہا تھا جبکہ اسکی پینٹ میں اسکا لن سر اٹھا چکا تھا۔ کچھ دیر تک اپنے ممے دکھا لینے کے بعد نندنی نے پوچھا بس یا ابھی اور بھی دیکھنا ہے؟؟؟ اس بار دانش نے کہا آپ دیپیکا میڈیم کو صرف دیکھیں گی ہی یا انسے ہاتھ بھی ملائیں گی؟؟؟ یہ سن کر پیچھے سے کاجول بولی بہن چود اب اور کیا چاہتا ہے تو؟؟؟ چھوڑ نندنی بہت بڑا کمینہ ہے یہ ہمیں نہیں ملنا دیپیکا شیپیکا سے۔ نندنی کا بھی اب غصے سے برا حال تھا، کاجول کی بات سن کر مرلی نے اسکو طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور بولا تم سے بات کون کر رہا ہے؟ جب نندنی سب کچھ دکھا ہی چکی ہے تو اگر میں انکو ہاتھ بھی لگا لوں گا تو کونسا اسکے ممے گھِس جائیں گے؟؟؟ مرلی کی بات سن کر نندنی نے شدید غصے مگر مجبوری کی حالت میں دانت پیستے ہوئے کہا مادر چود یہ شوق بھی پورا کر لے اپنا، ہاتھ بھی لگا لے، لیکن اب اگر تو نے دیپیکا میم سے ملوانے کا وعدہ پورا نہیں کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ یہ کہنا تھا کہ مرلی نے فورا ہی نندنی کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اسے پنی طرف کھینچ کر اسکے ایک ممے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے دبا دبا کر اسکی سختی کا اندازہ لگانے لگا، بہت ہی خوبصورت مما تھا اسکا۔ گول اور ملائم اور تنا ہوا مما۔ پھر مرلی نے نندنی کے نپل کو اپنی انگلیوں سے پکڑ کر ہلکا سا مسلا تو نندنی کی ایک سسکاری نکل گئی۔ نندنی کا میاں اسکو نپلز سے کھیلتا تھا مگر مرلی نے جب اسکا نپل مسلا تو اسے عجیب سا سرور ملا، شاید یہ ایک اجنبی کے ہاتھوں کی وجہ سے تھا۔
پھر مرلی نندنی کے ممے کے اوپر جھکا اور اپنی زبان نکال کر نندنی کے پیارے سے نپل پر پھیرنے لگا جو اب تن کر سخت ہو چکا تھا۔ نندنی یہ سب کچھ نہیں چاہتی تھی مگر دیپیکا سے ملنے کا شوق اسے پاگل کیے دے رہا تھا اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی مرلی کی زبان لگنے سے اسکی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں تھی جبکہ پیچھے کھڑی للیتا کاجول کے کان میں کہ رہی تھی چل اچھا ہوا اسی نے سب کچھ کر دیا اب ہمیں تو فری میں ہی دیپیکا میم کے ساتھ سیلفی بنوانے کا موقع مل جائے گا۔ جواب میں کاجول نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔ نندنی کو اس وقت اور کسی چیز کا ہو ش نہیں تھا اسے تو ایک انجان مرد سے یوں اچانک اپنے نپل اور ممے دبوانے کا مزہ آرہا تھا اور وہ ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہی تھی جبکہ مرلی نے للیتا کی یہ بات سن لی تھی اور دل ہی دل میں ان پر ہنس رہا تھا۔ کچھ دیر تک نندنی کا پیارا سا مما اور اسکا نپل چوسنے کے بعد اب مرلی نے اپنا دوسرا ہاتھ اسکی کمر میں ڈالا اور پہلے جو ہاتھ کمر میں تھا اس سے نندنی کا دوسرا مما پکڑ لیا اور اسے بھی چوسنے لگا۔ جب مرلی نے دیپیکا کے اس ممے کو چوسنا شروع کیا تو نیچے سے اسکا لن فل جوبن پر آچکا تھا اور وہ بھی اب اپنے آپے سے باہر ہورہا تھا تبھی اس نے ذرا زور سے نندنی کا نپل چوسا تو اسکے منہ میں کچھ نمکین، کچھ تھیکا اور کچھ کڑوا سا پانی آیا۔ مرلی نے ایک دم سے نپل منہ سے نکالا اور اسے دیکھنے لگا تو نپل کے اوپر ایک سفید یا پھر یوں کہیے ہلکا پیلے رنگ کا قطرہ تھا، یہ نندنی کے نپل سے نکلنے والا دودھ تھا۔ وہ ایک بچے کی ماں تھی جو اسکی شادی کے 9 ماہ بعد ہی ہوگیا تھا اسی وجہ سے اسکے مموں میں دودھ بھی تھا،
مرلی جب یوں اسکے نپلز کو چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا تو نندنی بولی رک کیوں گئے اور چوسو نا پلیز، نندنی نے یہ کہا تو مرلی ایک بار پھر اسکے نپل کو چوسنے لگا مگر اس بار وہ اسکا دود بھی پی رہا تھا جو اسکو مزہ دے رہا تھا۔ کچھ ہی دیر تک ممے چوسنے کے بعد نندنی کے مموں سے دودھ آنا بند ہوگیا تو مرلی نے بھی سوچا کہ بس اب بہت ہوگئی ہے اب اس بیچاری کو دیپیکا سے ملوا دینا چاہیے۔ اس نے اپنا منہ نندنی کے ممے سے ہٹایا۔ اور بولا چلو اب تم اپنے کپڑے ٹھیک کر لو میں تمہیں دیپیکا جی سے ملوا لاتا ہوں۔ یہ سن کر للیتا اور کاجول ایک دم چلائیں: کیا مطلب ملوا لاتا ہوں؟؟؟ تم نے کہا تھا تم دیپیکا میم کو یہاں بلاو گے تاکہ ہم انکے ساتھ سیلفی بنوا سکیں۔ مرلی نے انہیں مسکرا کر دیکھا اور بولا ہاں تو وہاں جا کر نندنی دیپیکا جی کے ساتھ سیلفی بنوا لے گی۔ ضروری تو نہیں کہ یہیں بلوا کر سیلفی لی جائے۔ اس پر للیتا بولی نندنی میں نے کہا تھا نہ یہ مکر جائے گا۔ اسکو کچھ مت دکھاو۔
للیتا کی بات سن کر نندنی نے کہا: وہ کب مکرا ہے وہ مجھے لے جا تو رہا ہے دیپیکا جی کے پاس۔۔۔ اس پر کاجول چلائی کیا مطلب تمہیں لے جارہا ہے؟؟؟ اور ہمارا کیا؟ اب کی بار مرلی مسکرایا اور بولا جس نے مجھے اپنا سینہ دکھا دیا اسی کو لے کر جاوں گا نہ۔ تم نے کچھ دکھایا ہی نہیں تو تم سے کیوں ملواوں؟؟؟؟ اسکی بات سن کر کاجول نے کہا اب اس امید پر نہ رہنا کہ ہم بھی اپنا جسم تجھے دکھائیں گی چل دفعہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ اس سے پہلے کہ کاجول کی بات پوری ہوتی للیتا اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر شرٹ سائیڈ پر کرچکی تھی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے کالے رنگ کے برا کی ہُک کھول کر اپنا برا بھی اتار رہی تھی اور یہ منظر دیکھ کر کاجول کو تو چپ لگ گئی تھی۔ للیتا نے اپنا برا اتارا اور مرلی کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ، نندنی نے بھی ابھی تک نہ تو اپنا برا پہنا تھا اور نہ ہی شرٹ۔ للیتا نے مرلی کے قریب آکر کہا لو میرے بھی دیکھ لو اور انکو بھی پکڑ لو مگر مجھے بھی دیپیکا میم سے ملوانا ہے لازمی۔ اس پر کاجول بولی اری تم دونوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا کر رہی ہو یہ؟؟؟
مرلی نے للیتا کے مموں کی طرف دیکھا تو اسے کچھ خاص مزہ نہ آیا۔ 32 سائز کے ممے تنے ہوئے تو تھے مگر سائز میں چھوٹے تھے ۔ مرلی نے للیتا کے مموں سے نظریں ہٹا کر کہا تمہارے مموں میں وہ بات نہیں جو نندنی کے مموں میں ہیں ، یہ کہ کر اس نے ایک پار بھر نندنی کا ایک مما اپنے منہ میں لیکر اسکا نپل چوس لیا جس سے نندنی کی سسکی نکلی۔ پھر مرلی نے دوبارہ سے للیتا کی طرف دیکھا جو اب رونے والی ہورہی تھی کہ اپنا سینہ بھی دکھا دیا مگر مرلی نے کوئی لفٹ ہی نہیں کروائی۔ للیتا کی رونے والی شک پر مرلی کو ترس آیا تو وہ بولا اچھا تم اگر ایک کام کر دو تو تمہیں بھی ملوا سکتا ہوں، اس پر للیتا بولی ہاں بولو؟؟؟ مرلی نے اپنی پینٹ کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ کافی پھدک رہا ہے، اس پر تھوڑا ہاتھ پھیرو اسکو سکون پہنچاو تو میں تمہیں بھی ملوا دوں گا۔ یہ سن کر للیتا تھوڑا اور آگے بڑھی اور مرلی کی پینٹ کے اوپر سے ہی اسکے 8 انچ کے لن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اسکو اپنے ہاتھ سے دبانے لگی۔ نندنی بھی اب ایک سائیڈ پر ہوکر للیتا کو مرلی کا لن دباتے ہوئے دیکھ رہی تھی مگر اسکی کمر کے گرد ابھی تک مرلی کا بازو تھا جو کمر سے ہوتا ہوا واپس اسکے ممے پر آرہا تھا۔ مرلی نے للیتا کو کہا، پینٹ کا بٹن اور زِپ کھول کر اندر ہاتھ ڈالو۔
للیتا نے بغیر وقت ضائع کیے مرلی کی پینٹ کی زپ کھول دی اور بٹن بھی کھول کر انڈر وئیر میں ہاتھ ڈال دیا۔ انڈر وئیر کے اندر ہی للیتا نے مرلی کا 8 انچ لمبا اور موٹا تازہ لن پکڑا اور اسکو ہاتھ میں پکڑتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لن ان سب سے بڑا ہے جن سے پہلے للیتا چودائی کروا چکی ہے۔ کاجول یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، جب اسکی دونوں ساتھی ائیر ہوسٹس اپنے اپنے ممے دکھا چکی تھیں اور ایک تو لن بھی پکڑ کر بیٹھی تھی تو کاجول نے بھی سوچا کہ دیپیکا سے ملنے کا موقع دوبارہ نہیں آنا، جہاں اتنے لوگوں سے پہلے پیسے لے کر چودائی کروا چکی ہے تو کیوں نہ آج دیپیکا سے ملنے کے لیے ہی اپنے ممے دکھا دے اس مرلی کے بچے کو۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی شرٹ کے ابھی 2 بٹن ہی کھولے تھے کہ اس کیبن میں ایک بیپ ہوئی۔ یہ کسی سواری کی طرف سے بجائی گئی تھی تو نندنی نے کہا جاو کاجول دیکھو کیا کام ہے پیسنجر کو؟ کاجول جلی کٹی بولی میں کیوں جاوں؟ تم خود چلی جاو؟؟؟ اس پر مرلی نے کہا جاو دیکھ آو تمہیں بھی ملوا دوں گا دیپیکا میم سے تم بھی کیا یاد کرو گی۔ یہ سن کر کاجول کو کچھ حوصلہ ہوا اس نے دوبارہ سے اپنے بٹن بند کیے اور پیسنجر کے پاس چلی گئی۔
للیتا نے جب سے مرلی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا اسکے منہ اور چوت دونوں میں ہی پانی آگیا تھا اور وہ اب یہ لن دیکھنے کےلیے بیتاب تھی، بالآخر اس سے برداشت نہیں ہوا اور اس نے ایک جھٹکے سے لن کو باہر کھینچ لیا۔ لن باہر نکالتے ہی للیتا پھٹی پھٹی آنکھوں سے مرلی کے لن کو دیکھنے لگی، پھر اس نے منہ اوپر اٹھایا تو اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی، اس نے نندنی کو آواز دی جسکے ممے مرلی کے منہ میں تھے اور وہ آنکھیں بند کیے مزے لے رہی تھی۔ للیتا بولی دیکھ نندنی کیا تازہ اور سالڈ ہتھیار ہے اس چرکُت کے پاس۔۔۔ نندنی نے اپنی آنکھیں کھول کر نیچے دیکھا اور ایک بار وہ بھی مرلی کے لن سے اپنی نظریں ہٹانا بھول گئی۔ مرلی کو نندنی کے ممے کچھ زیاہ ہی پسند آگئے تھے، اسنے اب نندنی کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور دوبارہ سے نندنی کے مموں پر ٹوٹ پڑا۔ جبکہ للیتا جو مرلی کا لن دیکھ کر بہت خوش تھی کچھ دیر تک اپنے ہاتھ سے اسے دباتی رہی اور اسکی ہلکی ہلکی مٹھ مارتی رہی۔ پھر اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اپنی زبان نکال کر پہلے تو مرلی کے لن کی ٹوپی پر پھیری جہاں سے اس نے مرلی کی مذی چاٹ لی اسکے بعد للیتا نے لن کی ٹوپی اپنے ہونٹوں میں پھنسا کر اس پر پیار کرنا شروع کر دیا۔ للیتا چوپے لگانے میں ماہر تھی اس نے اپنے ہونٹوں کا حلقہ بنا کر لن کی ٹوپی پر اسطرح لن پھنسایا تھا کہ مرلی کے لن میں ہلکی ہلکی گد گدی سی ہونے لگی تھی اور اسے بہت مزہ آرہا تھا، وہ اپنا چہرہ گھما گھما کر ٹوپی کے گرد اپنے ہونٹ گھما رہی تھی اور کبھی کبھی اپنی زبان کی نوک ہونٹوں کے درمیان لا کر ٹوپی سے نکلنے والی مذی بھی چاٹ رہی تھی جبکہ مرلی کی گود میں نندنی اب اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھی، مرلی نے اسکے نپل چوس چوس کر اسے بہت مزہ دیا تھا۔ وہ اب بے تابی سے مرلی کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہی تھی اور اپنی زبان بھی نکال کر مرلی کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
للیتا اب مرلی کا پورا لن اپنے منہ میں لینے کی کوشش کر رہی تھی مگر 5 انچ سے زیادہ لن اسکے منہ میں نہیں جا سکا تھا۔ وہ بڑی مہارت کے ساتھ لن کے چوپے لگانے میں مصروف تھی اپنے دونوں ہاتھوں سے لن کا شافٹ پکڑ کر وہ اپنے ہاتھوں کو گول گول گھما رہی تھی اور اپنا منہ آگے پیچھے کر کے چوپے بھی لگا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر کے بعد کاجول بھی پیسنجر کو پانی پلا کر واپس آچکی تھی۔ کیبن میں آکر اس نے اندر کا جو منظر دیکھا تو وہ بھی ششدر رہ گئی، نندنی کی شرٹ بھی اتر چکی تھی اور وہ اوپر سے مکمل ننگی تھی اور مرلی کی گود میں چڑھ کر اسکے ہونٹ چوس رہی تھی جبکہ نیچے للیتا اپنا برا اتار کربیٹھی 8 انچ کے لن کے چوپے لگا رہی تھی مگر اسکی شرٹ ابھی تک اسکے جسم پر تھی۔ کاجول کی نظر جب مرلی کے لن پر پڑی تو وہ بے اختیار بول اٹھی ہائے راما اتنا بڑا لوڑا؟؟؟؟ یہ کہ کر وہ سیدھی للیتا کی طرف گئی اور اسکے ہاتھ سے مرلی کا لن پکڑ کر خود دیکھنے لگی۔ اسکی آنکھوں میں بھی ایک چمک آگئی تھی اس نے بغیر انتظارکیے لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسکے چوپے لگانے لگی۔ مرلی کی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی، مفت میں ہی 3 ، 3 گرم جوانیاں اسکے جسم کے ساتھ کھیل رہی تھیں، للیتا اب اوپر اٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی اور نندنی اور مرلی کے جسم کے درمیان خلا بنا کر اپنا منہ داخل کر کے مرلی کے سینے پر پیار کر رہی تھی۔ وہ اب مرلی کے چھوٹے چھوٹے مگر سخت نپلز کو اپنی زبان سے تیز تیز چاٹ رہی تھی جسکا مرلی کو بھی مزہ آنے لگا تھا۔
کچھ دیر تک یہی سب کچھ چلتا رہا پھر للیتا نے مرلی کے کان میں کہا، تم دیپیکا سے ملواو یا نہ ملواو، مگر میری چوت کو ایک بار اپنے اس لوڑے سے ملوادو پلیز۔ مرلی نے یہ سنا تو اسکو کہا اپنا سکرٹ اور پینٹی اتار دے۔ للیتا نے فورا ہی پیچھے ہٹ کر اپنا سکرٹ اتارنے کے بعد اپنی پینٹی بھی اتار دی۔ اسکی چوت بہت پیاری تھی، اسکی چوت کے لب تھوڑے کھلے ہوئے تھے کیونکہ وہ اکثر ہی چدائی کروا لیتی تھی مگر اسکی چوت بالوں سے بالکل پاک تھی۔ مرلی نے اب نندنی کو اپنی گود سے اتارا اور نندنی کو للیتا کی چوت چاٹنے کے لیے کہا۔۔۔ نندنی نے کہا میں نے پہلے ایسے کبھی نہیں کیا جس پر مرلی نے اسے کہا تم نیچے بیٹھ کر اسکی چوت تو چاٹو دیکھنا بہت مزہ آئے گا۔ للیتا نے بھی نندنی کو کہا چل آج تجھے یہ مزہ بھی مل جائے گا، پہلے تو میری چوت چاٹ پھر میں تیری چوت چاٹوں گی۔ یہ سن کر نندنی نیچے بیٹھ گئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی للیتا کی گیلی چوت پر اپنی زبان رکھ دی۔ زبان رکھتے ہی اسے نمکین ذائقہ زبان پر محسوس ہوا تو اس نے اپنا منہ پیچھے ہٹا لیا مگر للیتا نے اسکا سر پکڑ کر دوبارہ اپنی چوت کی طرف دھکیلا اور بولی چاٹ اسکو پھر دیکھ تجھے کتنے مزے آئیں گے اور نندنی نے دوبارہ سے للیتا کی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔
مرلی اب کاجول کی طرف دیکھ رہا تھا جو بڑی مہارت کے ساتھ مرلی کا لن چوس رہی تھی مگر اسکے جسم پر ابھی تک کپڑے موجود تھے۔ مرلی نے کاجول سے کھڑے ہونے کا کہا۔ کاجول کھڑی ہوئی تو مرلی نے ایک ہی جھٹکے میں اسکی شرٹ اتار دی۔ نیچے کاجول نے سرخ رنگ کا برا پہن رکھا تھا اور اسکے ممے بہت بڑے تھے۔38 سائز کے گول ممے برا میں پھنسے ہوئے تھے اور آزاد ہونے کو بے چین تھے جنہیں مرلی نے ایک ہی جھٹکے میں برا سے آزاد کر دیا تھا۔ برا سے آزاد ہوتے ہی کاجول کے ممے جیلی کی طرح ہلنے لگے جنکو مرلی نے اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر روک لیا اور بغیر انتظار کیا کاجول کے گہرے براون نپل کو اپنے منہ مین لیکر چوسنا شروع کر دیا جس سے کاجول کی بھی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئی تھیں، مگر اسکا ایک ہاتھ ابھی بھی مرلی کے لن پر تھا جس سے وہ مرلی کے لن کی مٹھ مار رہی تھی۔ کچھ دیر تک کاجول کے بڑے بڑے ممے چوسنے کے بعد مرلی نے کاجول سے کہا کہ وہ نیچے بیٹھ جائے اور لن کو اپنے مموں میں لیکر اسکی مٹھ مارے۔ کاجول فورا ہی نیچے بیٹھ گئی، اس نے مرلی کا لن اپنے مموں کے درمیان میں رکھا اور پھر دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے آپس میں ملا کر اور انکی لن کے گرد گرفت مضبوطر کر کے انکو اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا۔ وہ اس کام میں ماہر تھی کیونکہ جو بھی اسکی چدائی کرتا تھا وہ اسکے مموں کا سائز دیکھ کر اسکے ممے چودنے کی خواہش ضرور کرتاتھا۔ اور یہی کام مرلی نے بھی کیا تھا۔
کچھ دیر تک مرلی اسی طرح کاجول کے مموں کو چوستا رہا، پھر اس نے کاجول سے کہا کہ وہ نندنی کو ننگا کر دے اور اسکی چوت کو چاٹے ، یہ سن کر نندنی خود ہی اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی اور اس نے اپنی سکرٹ اور پینٹی اتار دی۔ نیچے نندنی کی چوت بالوں سے ڈھکی ہوئی تھی، بال زیادہ لمبے تو نہیں تھے مگر لگ رہا تھا کہ نندنی نے 8 دن سے اپی چوت کی صفائی نہی کی۔ چوت کے چھوٹے چھوٹے کال بالوں پر نندنی کی چوت کا پانی چمک رہا تھا، کاجول فورا ہی نندنی کے سامنے بیٹھی اور اپنی زبان سے اسکی چوت کو چاٹنا شروی کیا۔ نندنی کے لیے یہ تجربہ نیا نہیں تھا کیونکہ اسکا شوہر اسکی چوت بہت شوق سے چاٹتا تھا۔ کاجول کو نندنی کی چوت چاٹنے پر لگا کر مرلی نے للیتا کو اپنے پاس بلایا تو ننگی للیتا فورا ہی مرلی کے پاس آگئی، مرلی نے للیتا کو منہ دوسری طرف کرنے کو کہا اور اپنی گانڈ باہر نکالنے کو بولا تو للیتا نے فورا ہی منہ دوسری طرف کر کے دیوار کا سہارا لیا اور اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھول کر اپنی گانڈ باہر نکال دی۔
مرلی نے اپنی انگلیوں کو للیتا کی چوت پر رکھ اسکی چکنائی چیک کی۔ وہ چودائی کے لیے مکمل تیار تھی، اور اسکی چوت کے لب بھی کھلے ہوئے تھے۔ مرلی نے اپنے لن کی ٹوپی کو للیتا کی چوت کے لبوں کے درمیان رکھا اور ہلکا سا دباو ڈالا تولن خود بخود للیتا کی چکنی چوت میں غائب ہوتا گیا۔ جب سارا لن للیتا کی چوت میں چلا گیا تو للیتا نے ایک ہلکی سی سسکی لیکر گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور اپنے ہونٹوں کا ایک گول دائرہ بنا کر مرلی کو ایک ہوائی بوسہ دیا اور بولی چود دو۔۔۔۔۔ مرلی نے للیتا کی بات سن کر اسکی چوت میں دھکے لگانا شروع کیے تو للیتا نے ہلکی ہلکی سسکیاں لینا شروع کر دیں۔ مرلی اپنی فل رفتار سے دھکے نہیں لگا رہا تھا کیونکہ یہ ایک ہوائی جہاز کا کیبن تھا اس میں سے آوازیں باہر نہیں جانی چاہیے تھی، اور للیتا بھی جتنے مزے میں تھی 8 انچ کا لن اپنی چوت میں لیکر وہ اس حساب سے سسکیاں نہیں لے رہی تھی کیونکہ اسکو بھی اس بات کا خیال تھا کہ اسکی آواز باہر نہیں جانی چاہیے۔
مگر پھر بھی اسکی سسکیوں کی آواز اتنی تھی کہ نندنی اور کاجول دونوں ہی اب مڑ کر للیتا کی چودائی دیکھ رہی تھیں۔ للیتا کے چھوٹے مگر تنے ہوئے ممے ہوا میں ہل رہے تھے، نندنی نے آگے بڑھ کر تھوڑا سا جھک کر اپنا چہرہ للیتا کے مموں کے نیچے کر لیا اور اسکے ممے منہ میں لیکر چوسنے لگی تو للیتا کا مزہ دوبالا ہوگیا۔ پیچھے سے چوت میں 8 انچ کا لن اسکی چودائی کر رہا تھا تو آگے سے اسکے ممے نندنی اپنے منہ میں لیکر اسکے نپل چوس رہی تھی جبکہ کاجول اب مرلی کے پیچھے آگئی تھی اور نیچے بیٹھ کر اسکی ٹانگوں کے درمیاں سے اپنا منہ آگے لیجا کر اسکے ٹٹوں کو اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ کچھ دیر تو مرلی نے کاجول کو یہ حرکت کرنے دی، مگر اس طرح اسکی چودنے کی رفتار خاصی کم ہوگئی تھی، پھر مرلی نے کاجول کو یہاں سے نکلنے کا کہا اور دوبارہ سے للیتا کی چکنی چوت میں اپنے لن کے گھسے مارنے شروع کر دیے۔ کاجول اب دوبارہ سے نندنی کی چوت کو چاٹنے میں مصروف ہوگئی تھی جبکہ للیتا کی چوت مسلسل دھکوں سے اب خاصے مزے میں تھی۔ وہ اب بار بار اپنی چوت کو ٹائٹ کر رہی تھی تاکہ مرلی کے لمبے اور موٹے لن کی زیادہ سے زیادہ رگڑ اسکی چوت کی دیواروں میں لگ سکے اور وہ جلد سے جلد اپنا پانی چھوڑ سکے۔
کچھ دیر مزید چودائی کے بعد للیتا نے مرلی کو کہا ٹھوک کے چود مجھے، فل زور لگا، بس میں چھوٹنے ہی والی ہوں۔ یہ سن کر مرلی نے اپنی رفتار تیز کر دی اور للیتا نے اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیا ،جس سے نہ صرف للیتا کو چودائی کا مزہ آیا بلکہ مرلی کو بھی چوت ٹائٹ ہونے کی وجہ سے خوب مزہ آیا اور اس نے 10، 15 دھکے فل رفتار میں لگائے تو للیتا کی چوت نے اپنے پیار کا رس مرلی کے لن پر بہانا شروع کر دیا۔ اسکی چوت نے پانی چھوڑ دیا تھا جس سے مرلی کا سارا لن بھیگ گیا تھا۔ جب للیتا کے جسم نے جھٹکے لینا بند کر دیے تو مرلی نے اپنا لن للیتا کی چوت سے باہر نکالا جو للیتا کی چوت کے پانی سے بھرا ہوا تھا، مرلی نے کاجول کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ وہ اسکا لن چوس کر صاف کر دے۔ کاجول نے کچھ ہی دیر میں مرلی کے لن کے چوپے لگا لگا کر اسکا لن بالکل صاف کر دیا۔ اب مرلی نے نندنی کو اپنے پاس بلایا تو وہ ڈرتے ڈرتے مرلی کے پاس آگئی۔ اس کے شوہر کا لن مشکل سے 6 انچ کا تھا اور اسکی موٹائی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ گو کہ اسکا شوہر اسے جب بھی ملتا ضرور چودتا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ نندنی کی اپنے شوہر سے 3، 4 دن کے بعد ہی ہوتی تھی ، مگر 3 4 دن کے بعد اسکا شوہر اسے 2 دن تک خوب چودتا تھا۔ مگر آج مرلی کا لن دیکھ کر نندنی کی چوت میں درد شروع ہوگئی تھی اور وہ ڈر رہی تھی کہ اتنا بڑا اور موٹا لن اسکی چوت کی بری حالت کر دے گا۔ مگر مرلی نے اسے حوصلہ دیا اور بولا ڈرو نہیں کچھ نہیں ہوگا، بلکہ تمہیں آج کی چودائی ہمیشہ یاد رہے گی۔ یہ کر کر مرلی نے نندنی کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور اسی چوت پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اسے تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور اپنے ایک ہاتھ سے اپنا لن پکڑ کر اسکی چوت پر فٹ کیا اور پھر ایکدم سے نندنی کا وزن جو اپنے ہاتھ سے سنبھالا ہوا تھا اسے نیچے گرا دیا۔ نندنی اپنے ہی وزن پر نیچے کی طرف گئی تو سارے کا سارا لن نندنی کی چوت میں داخل ہوگیا، نندنی کی چیخ کیبن سے باہر بیٹھی دیپیکا تک ضرور جاتی اگر مرلی بروقت اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکی چیخ کو دبا نہ دیتا۔
پھر مرلی نے بغیر انتظار کیے نندنی کی چوت میں بھی دھکے لگانا شروع کردیے۔ نندنی کی آنکھوں میں آنسو تھے، اسے اپنی چوت میں بہت درد ہورہا تھا مگر مرلی نے اس چیز کا خیال نہیں کیا اور لگاتار اسے چوتڑوں سے پکڑ کر تھوڑا سا اٹحائے رکھا اور نیچے سے اپنے لن کے دھکے اسکی پیاری سی بالوں والی چوت میں لگانا جاری رکھے۔ کچھ ہی دھکوں کے بعد مرلی تھک گیا تھا کیونکہ گود میں اٹھا کر چودائی کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ پھر مرلی نے نندنی کو اپنی گود سے نیچے اتارا اور اسکی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے بازو پر رکھ لی اور دوسرے بازہ سے اسکو سہارا دیا۔ پھر اسنے اپنا لن نندنی کی چوت پر فِٹ کر کے ایک زور دار دھکا مارا اور سارا لن نندنی کی چوت میں چلا گیا، اس بار بھی نندنی کی چیخ نکلی مگر وہ پہلے سے بہت ہلکی تھی اور پھر مرلی اسکی چیخ کو دبانا بھی نہیں بھولا تھا۔ مرلی نے پھر سے نندنی کی چوت میں دھکےلگانا شروع کیے اور ساتھ ہی اسکے ہونٹ بھی چوستا رہا۔ تھوڑی دیر کی چودائی کے بعد اب نندنی کو مزہ آنے لگا تھا اور وہ بھی خوش ہوکر مرلی کے ہونٹ چوس رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ہونٹوں کو چھوڑ کر آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ف۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی سسکیاں نکال رہی تھی۔
کچھ دیر کی چودائی کے بعد مرلی نے نندنی سے پوچھا کہ مزہ آرہا ہے تو نندنی نے کہا ہاں بہت مزہ آرہا ہے۔۔۔۔ تمہارا لن بہت اچھا ہے، ایسا مزہ تو پہلے کبھی نہیں آیا مجھے۔۔۔۔ اور تیز تیز چودو مجھے، میری چوت کو کچھ کچھ ہورہا ہے، تیز تیز چودائی کرو، ساری پیاس بجھا دو آج میری۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اف ف ف ف ف۔۔۔۔ کیا لن ہے تمہارا۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ یہ سن کر مرلی نے اپنے دھکوں کی رفتار اور بڑھا دی اور 3 منٹ تک مسلسل بغیر رکے نندنی کی چوت میں اپنے لن سے چدائی کرتا رہا۔ پھر اس نے نندنی کی چوت سے لن نکالا، اسکی ٹانگ تھک چکی تھی، اب مرلی نے نندنی کو نیچے لیٹنے کو کہا تو نندنی نیچے فرش پر لیٹ گئی، مرلی اسکے اوپر آگیا اور اسکی ٹانگیں اٹھا کرلن اسکی چوت میں داخل کر کے دھکے لگانا شروع کر دیے۔ وہ پہلے کی طرح ہی سسکیاں لینا شروع ہوگئی تھی۔ جبکہ دوسری طرف للیتا بھی فرش پر لیٹ گئی تھی اور کاجول اسکے اوپر 69 پوزیشن میں لیٹی ہوئی تھی اور دونوں ایکدوسرے کی چوت چاٹ چاٹ کر مزے لے رہی تھیں۔ کچھ دیر کی مزید چودائی کے بعد نندنی کو لگا کہ اب وہ چھوٹنے والی ہے تو اس نے خود بھی اپنی گانڈ کو اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیا اور مرلی کو بھی چدائی کی رفتار تیز کرنے کو کہا۔ مرلی نے فل رفتار سے دھکے لگانا شروع کر دیے اور چند دھکوں کے بعد نندنی کی چوت نے بہت سارا پانی چھوڑ دیا جس سے ایک بار پھر مرلی کا لن بھیگ گیا تھا۔
نندنی کو فارغ ہوتے دیکھ کر کاجول فورا ہی للیتا کی چوت کو چھوڑ کر مرلی کے قریب آگئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اب اسکی باری ہے ۔ جب مرلی نے لن باہر نکالا تو کاجول نے بغیر کچھ کہے مرلی کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور جلدی جلدی اسکے لن سے ساری چکنائی کو چاٹ کر صاف کر دیا۔ پھر وہ کھڑی ہوئی اور اپنی آنکھوں میں لن کی تڑپ لیے مرلی سے بولا، کسیے چودنا چاہو گے مجھے؟؟؟ مرلی نے کاجول کی طرف دیکھا اور بولا تمہاری تو میں نے گانڈ مارنی ہے۔۔۔ یہ سن کر کاجول نے کہا گانڈ بھی مار لینا مگر پہلے میری چوت کا کچھ کرو۔ مرلی نے کہا چوت کا بھی ہوجائے گا مگر پہلے تمہاری گانڈ۔ یہ سن کر کاجول نے کہا اچھا چلو جیسے تمہاری مرضی، مگر ذرا آرام سے۔ میں گانڈ تو مرواتی ہوں پہلے بھی مگر اتنا بڑا لن میری گانڈ میں پہلے کبھی نہیں گیا اس لیے ذرا احتیاط سے کرنا۔ مرلی نے کہا تم فکر ہی نہ کرو، ایسے گانڈ ماروں گا تم بعد میں جب بھی گانڈ مرواو گی تمہیں میرے لن کی یاد ضرور آئے گی۔ یہ کر کر مرلی نے کاجول کو دوسیری طرف منہ کرنے کو کہا۔
کاجول بھی للیتا کی طرح دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑی ہوگئی اور اپنی گانڈ باہر نکال لی، مرلی نے کاجول کی گانڈ پر تھوڑا سا تھوک لگایا اور اسکے بعد اپنی ٹوپی اسکی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر دباو ڈالا مگر لن نے اندر جانے سے انکار کر دیا۔ جبکہ کاجول کی پھر بھی ہلکی سی چیخ نکلی حالانکہ ابھی لن اندر نہیں گیا تھا۔ نندنی نے پہلے کبھی گانڈ نہیں مروائی تھی ، وہ بہت غور سے کاجول کو دیکھ رہی تھی جسکی گانڈ میں ابھی مرلی کا لن جانے والا تھا، پھر مرلی نے ایک زور دار دھکا کاجول کی گانڈ میں لگایا تو اسکی ایک دلخراش چیخ نکلی مگر اس نے اپنا منہ نہیں کھلنے دیا اور چیخ اسکے منہ میں ہی رہ گئی جبکہ مرلی کی موٹی ٹوپی اسکی گانڈ کے سوراخ میں جا چکی تھی۔ پھر مرلی نے ایک اور دھکا لگایا تو آدھا لن کاجول کی گانڈ کو پھاڑتا ہوا اسمیں گھس چکا تھا۔ کاجول نے کہا آرام سے کرو یار۔۔۔ بہت موٹا لن ہے تمہارا۔۔۔ مرلی نے کہا مادر چود مجھے گالیاں دے رہی تھی تو، تیری تو ایسی گانڈ ماروں گا تجھے نانی یاد آجائے گی۔
یہ کر کر مرلی نے لن باہر نکالا مگر ٹوپی اندر ہی رہنے دی اور ایک اور فل طاقت کے ساتھ دھکا لگایا تو مرلی کا 8 انچ کا لن کاجول کی گانڈ کے اندر گم ہوچکا تھا۔ پھر مرلی نے آہستہ آہستہ کاجول کی گانڈ میں لن اندر باہر کرنا شروع کیا، مگر کاجول ابھی تک ہلکی ہلکی چیخیں مار رہی تھی۔ تکلیف سے اسکا برا حال ہورہا تھا جبکہ مرلی کو بھی کچھ خاص مزہ نہیں آرہا تھا۔ کیونہ اسکی گانڈ مکمل خشک تھی، نہ تو اس میں تیل لگایا تھا اور نہ ہی اسکے لن پر چکناہٹ تھی۔ تھوڑی دیر تک آہستہ آہستہ دھکے لگانے کے بعد مرلی نے اپنا پورا لن اسکی گانڈ سے نکال لیا اور للیتا کو لن چوسنے کا کہا۔ للیتا فورا آگے بڑھی اور مرلی کا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ جب لن اچھی طرح للیتا کے تھوک سے گیلا ہوگیا تو اس نے اب دوبارہ سے کاجول کی طرف منہ کیا مگر اس بار اسنے لن گانڈ میں ڈالنے کی بجائے کاجول کی چوت پر رکھا اور ایک ہی دھکے میں لن اسکی چوت میں داخل کر دیا۔ گانڈ مروانے کی وجہ سے کاجول کی گانڈ بھی کسی حد تک خشک ہو چکی تھی مگر چند ہی دھکوں نے کاجول کی چوت کو چکنا کر دیا تھا۔ اور اسکا چکنا پانی اب مرلی کے لن کو بھی چکنا کر رہا تھا۔ 5 منٹ تک مرلی کاجول کی چوت میں طوفانی دھکے مارتا رہا پھر اس نے اپنا لن کاجول کی چوت سے باہر نکال لیا اور اسکی چوت پر ہاتھ پھیر کر اسکی چوت سے اپنے ہاتھ کو اور انگلیوں کو بھی چکنا کر لیا اور پھر وہی ہاتھ کاجول کی گانڈ پر پھیرنے لگا۔ پھر اپنی ایک گیلی انگلی کو اسنے کاجول کی گانڈ میں داخل کیا اور اپنا لن دوبارہ سے کاجول کی چوت میں داخل کر دیا ۔ اب کاجول کی گانڈ میں مرلی کی انگلی تھی جبکہ اسکی چوت میں مرلی کا لن تھا جس کی وجہ سے اسکی چوت میں ایک طوفان برپا تھا اور وہ سسکیاں لے لے کر مرلی کے لن کی تعریفیں کر رہی تھی۔ مگر یہ کام بھی مرلی نے تھوڑی ہی دیر کیا اور پھر دوبارہ سے لن کاجول کی گانڈ پر رکھا اور ایک ہی دھکے میں آدھا لن کاجول کی گانڈ میں اتار دیا پھر ایک اور زور دار دھکا لگا اور مرلی کا پورا لن کاجول کی گانڈ میں اتر گیا۔
کاجول کی گانڈ کو مرلی پہلے ہی چکنا کر چکا تھا اب اسکا لن بھی کاجول کی چوت کے پانی سے چکنا تھا تو اب اسکی گانڈ مارنے کا بھی مرلی کو مزہ آرہا تھا اور اب کی بار مرلی کی رفتار بھی خاصی تیز تھی۔ مرلی کی دھکوں سے کاجول کو اپنی گانڈ میں اٹھتی دردوں سے برا ہورہا تھا۔ وہ مسلسل مرلی کو کہ رہی تھی کہ آہستہ چودو میری گانڈ کو مگر مرلی اسکی ایک نہیں سن رہا تھا۔ وہ کاجول کے بڑے بڑے چوتڑوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر مسلسل اسکی گانڈ میں دھکے لگا رہا تھا، جبکہ کاجول اپنی چوت پر انگلی پھیر کر مزے لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ 5 منٹ تک مرلی مسلسل کاجول کی گانڈ میں دھکے مارتا رہا۔ اسکی گانڈ سوج چکی تھی اور اسمیں کافی درد بھی ہورہی تھی مگر مرلی تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ پھر مرلی کو محسوس ہوا کہ اسکا لن اب پانی چھوڑںے والا ہے تو اس نے اپنے دھکون کی رفتار اور بھی تیز کر دیا۔ جبکہ کاجول کو بھی اپنی چوت میں خارش ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ کچھ دیر کے مزید دھکوں کے بعد کاجول کی چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا مگر لن اسکی گانڈ میں مسلسل طوفانی دھکے لگا رہا تھا۔ کاجول کو چوت کا پانی نکال کر سکون تو ملا مگر اسے لگ رہا تھا کہ جیسے مرلی نے اسکی گانڈ ماری ہے وہ 2 دن صحیح طرح سے چل بھی نہیں سکے گی۔
للیتا سمجھ گئی تھی کہ مرلی اب اپنے عروج پر ہے اور اسکا لن کسی بھی وقت پانی چھوڑ سکتا ہے۔ اس نے مرلی کو کہا اسکی گانڈ میں نہ فارغ ہونا، لن مجھے دے دو، یہ سن کر مرلی نے فورا ہی اپنا لن اسکی گانڈ سے نکال لیا اور اپنا رخ للیتا کی طرف کر لیا جس نے فورا ہی مرلی کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسکے چوپے لگانے لگی، ساتھ ساتھ وہ اپنے ہاتھ سے مرلی کے لن کی مٹھ بھی مار رہی تھی۔ کاجول کی چوت سے لن نکلا تو اسکو ایسے لگا جیسے کوئی بڑا لوہے کا راڈ اسکی گانڈ میں تھا جو نکل تو گیا باہر مگر اب اس لوہے کے ڈنڈے کی وجہ سے اسکی گانڈ میں مرچیں لگی ہوئی تھیں۔ وہ مان گئی تھی کہ مرلی چودے کا ماہر ہے، اسے مزہ تو آیا تھا مگر درد بھی بہت ہوئی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اگر وہ پیار سے مرلی سے چدواتی تو وہ اسکی چوت کو بھی بہت مزہ دیتا اور پھر اسکی گانڈ مارتے ہوئے بھی اسکو مزہ دیتا ۔ للیتا کے گرم گرم منہ میں مرلی کا لن اپنی منی چھوڑنا شروع کر چکا تھا۔ مرلی کے 2 جھٹکے تو للیتا کے منہ میں ہی لگے جس سے للیتا کا منہ مرلی کی گاڑھی منی سے بھر گیا تھا، پھر اس نے لن منہ سے نکالا اور اسکا رخ نندنی کے مموں کی طرف کر دیا۔ باقی کی منی مرلی نے نندنی کے مموں پر چھوڑ دی جسکو بعد میں کاجول اور للیتا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔
اب نندنی اور للیتا دوبارہ سے اپنے کپڑے پہن چکی تھیں اور شیشے میں دیکھ کر انہوں نے اپنا حلیہ بھی درست کر لیا تھا جبکہ کاجول ابھی تک اپنی گانڈ میں ہونے والی درد کی وجہ سے ہلنے کا نام نہیں ہے تھی۔ للیتا نے مرلی کو پیار کیا اور بولی آج تو بہت مزہ آگیا تمہاری چدائی سے، پھر اسنے نندنی کی طرف دیکھا اور بولی کیوں نندنی کیسا لگا اسکے لن سے چودائی کروا کر؟؟؟ نندنی مسکرائی اور بولی ایسا مزہ تو سہاگ رات پر بھی نہیں آیا تھا جیسا آج اس نے چود چود کر دیا ہے۔ پھر مرلی نے بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔ اور کاجول کو بھی کہا کہ اب فورا کپڑے پہن لو، میں دیپیکا میم کو بلانے جا رہا ہوں، انکے ساتھ سیلفیاں بنوا لو پھر جہاز لینڈ کرنے والا ہے۔
یہ کہ کر مرلی باہر چلا گیا اور دیپیکا سے گذارش کی کہ ایک ائیر ہوسٹس اسکی جاننے والی ہے وہ آپکے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی ہے۔ تو دیپیکا نے کہا اس میں ایسی کونسی بات ہے چلو۔ یہ کہ کر دیپیکا مرلی کے ساتھ اسی کیبن میں چلی گئی جہاں اب کاجول بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی اور نندنی اور للیتا کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے اپنا حلی بھی درست کر چکی تھی مگر اس سے ابھی بھی گانڈ کی درد کی وجہ سے ہلا نہیں جا رہا تھا۔ مرلی نے نندنی سے ملواتے ہوئے دیپیکا کو بتایا کہ یہ اسکی دور کی رشتے دار ہے۔ جبکہ کاجول اور للیتا اسکی دوست ہیں۔ تینوں نے مل کر دیپیکا کے ساتھ ایک تصویر بنوائی جو دیپیکا نے نندنی کے موبائل سے خود اپنے ہاتھ سے بنائی۔ پھر سپیشل نندنی نے دیپیکا کے ساتھ ایک تصویر بنائی مگر اس بار موبائل نندنی کے ہاتھ میں تھا اور دیپیکا لمبی ہونے کی وجہ سے تھوڑا جھک کر کھڑی تھی اور اسنے اپنے ہاتھ نندنی کے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے اور اپنا چہرہ نندنی کے چہرے کے ساتھ جوڑا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر کاجول اور للیتا نے بھی اسی طرح سیلفی لینے کی خواہش ظاہر کی مگر مرلی نے منع کر دیا اور دیپیکا کو کہا آپ تیاری کریں جہاز لینڈ کرنے لگا ہے ۔ یہ سن کر دیپیکا واپس چلی گئی
دیپیکا کے واپس جانے کے بعد کاجول اور للیتا نے سڑ کر نندنی کی طرف دیکھا اور پھر مرلی کو کہا یہ کیا بدتمیزی ہے؟؟ ہم نے بھی ایسے ہی تصویر بنوانی تھی۔۔۔ مرلی نے نندنی کو ایک پیار بھری کِس کی اور بولا اصل میں تو تم نے ہی اپنا جسم مجھے دکھایا تھا یہ دونوں تو بعد میں آئی تھیں مجبورا، اس لیے تمہارے لیے میں نے دیپکا جی سے کہا تھا کہ صرف نندنی کے ساتھ ہی اکیلے سیلفی بنوانی ہے، باقی دونوں کے ساتھ گروپ سیلفی ہوگی۔ یہ کہ کر مرلی واپس اپنی نشست پر بیٹھ گیا جبکہ کاجول اور للیتا نندنی کو گھورنے لگیں، مگر اسکو انکے گھورنے کی پرواہ نہیں تھی، مرلی نے سب سے زیادہ مزہ بھی نندنی کو دیا تھا چدائی کے دوران اور پھر سیلفی بھی نندنی کے ساتھ ہی اچھی بنوائی تھی۔
جہاز پاکیشا کی سرزمین پر لینڈ کر چکا تھا، جہاز سے اترنے سے پہلے مرلی دیپیکا کے قریب گیا اور بولا کہ آپکی وہ سی ڈی میرے پاس ہی ہے۔ میں یہیں ائیر پورٹ سے ہی غائب ہوجاوں گا کیونکہ میں اگر آُکے ساتھ جاوں گا تو خطرہ ہے کہ کوئی پاکیشائی انٹیلی جنس کا بندہ مجھے پہچان نہ لے۔ اس لیے میں ائیر پورٹ پر ایک آدمی کو پیسے دے چکا ہوں جو مجھے چور راستے سے باہر نکلوا دے گا، میں بعد میں آپ سے ملوں گا۔ یہ کہ کر وہ دیپیکا سے علیحدہ ہوگیا اور عام سواریوں کے ساتھ جہاز سے اترا اور ائیر پورٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوگیا، آگے وہ کہاں گیا دیپیکا کو کچھ پتا نہیں لگا۔ جبکہ نندنی ائیر پورٹ پر اترتے ہی اپنی دوسری ائیر ہوسٹس ساتھی سنجنا کو ڈھونڈ رہی تھی جو ایک فلائیٹ کے ذریعے ہندوستان جانے والی تھی، تھوڑی ہی کوشش کے بعد نندنی کو سنجنا مل گئی ۔ سنجنا نے نندنی کو دیکھتے ہی کہا کہ ارے تمہیں پتا ہے آج دیپیکا جی پاکیشا آرہی ہیں میں تو انہی کو ڈھونڈ رہی ہوں، پہلے ہم انڈیا کے شاپنگ مال میں لے تھے نا تو میں نے ان سے ہاتھ بھی ملایا تھا، سنجنا پھر وہی باتیں کر رہی تھی جبکہ نندنی موبائل سے اپنی اور دیپیکا کی تصویر نکال چکی تھی، وہ تصویر نکال کر نندنی نے فورا سنجنا کو دکھائی اور بولی یہ دیکھ تو ہاتھ ملا کر خوش ہورہی ہے دیپیکا جی سارے راستے فلائٹ میں میرے ساتھ رہی ہیں، اور ہم نے اکٹھے بیٹھ کر بہت سی باتیں بھی کیں اور یہ انہوں نے میرے ساتھ اترنے سے پہلے تصویر بھی بنوائی ہے اور مجھے دہلی میں اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی ہے، اب واپس ہندوستان جا کر میں دیپیکا جی کے گھر جا کر انسے ملوں گی، میری اور انکی تو دوستی ہوگئی ہے۔ نندنی نے بھی سنجنا کو جلانے کے لیے جو کچھ منہ میں آیا بک دیا تھا۔ اور سنجنا کو تو جیسے چپ لگ گئی تھی اب وہ نندنی کے پیچھے پیچھے تھی اور اسکی منتیں کر رہی تھی کہ دیکھو جب تم دیپیکا جی سے ملنے جاو تو مجھے مت بھولنا مجھے بھی ساتح لیکر جانا، مگر نندنی کے اب نخرے ختم نہیں ہورہے تھے، اس نے کہا دیکھو میں وعدہ نہی کرتی مگر دیپیکا جی سے پوچھ لونگی کہ میرے ساتھ ایک دوست بھی ہے جو آپ سے ملنا چاہتی ہے، اگر انہوں نے اجازت دی تو تمہیں لے جاوں گی مگر مجھے زیادہ امید نہیں کہ وہ اجازت دیں گی۔ اس پر سنجنا اپنا سا منہ لیکر رہ گئی جبکہ نندنی اب اٹھلاتی ہوئی ائیر پورٹ میں ریسٹ کرنے چلی گئی۔ کچھ ہی دیر کے بعد جب للیتا اور کاجول سنجنا سے ملیں تو انہوں نے بھی اپنا گروپ فوٹو سنجنا کو دکھایا جس پر سنجنا کو اور بھی افسوس ہوا کہ وہ انکے ساتھ کیوں نہیں تھی۔ سنجنا کو جلا کر للیتا ،کاجول اور نندنی تینوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوگئے تھے جبکہ ان تینوں کی چوت کو مرلی پہلے ہی ٹھنڈا کر چکا تھا۔
کرنل وشال دیپیکا کو لیکر کافی پریشان تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی اسے علم ہوا تھا کہ دیپیکا کی فلم کو ہولستان میں ہائی کورٹ نے بین کر دیا ہے۔ دیپیکا کی فلم پورے پاکیشا میں دکھائی جائے گی سوائے ہولستان کے۔ اصل میں کرنل وشال کا پلان یہ تھا کہ اس نے ایک مشہور فلم ہاوس فل کو پاکیشا میں نمائش کے لیے منتخب کیا تھا پورے ملک میں یہی فلم چلنی تھی مگر ہولستان کے سینما گھروں میں ہاوس فل سے سٹارٹ لیکر درمیان میں مووی تبدیل کردینی تھی اور وہی مووی چلانی تھی جو پاکیشا کے خلاف اور ہولستان کی آزادی کی تحریک کو ہوا دینے کے لیے خفیہ طور پر بنائی گئی تھی۔ اس کام کے لیے ہولستان کے سینما گھروں کےمالکان کو بھاری رقوم دے کر راضی کر لیا گیا تھا، مگر اچانک ہائیکورٹ نے ہولستان میں فلم پر پابندی لگا کر کرنل وشال کو پریشان کر دیا تھا، وہ حیران تھا کہ آخر یہ کیسے ہوگیا کہ پورے پاکیشا میں فلم کی نمائش پر پابندی نہیں ہے اگر ہے تو صرف ہولستان میں۔ کسی اور فلم کےلیے زیادہ پبلک کو سینما گھروں میں لانا بھی ممکن نہیں تھا، دیپیکا پڈوکون ایک مشہور اور سیکسی ایکٹریس تھی جسکو دیکھنے کے لیے لازمی طور پر بڑی عوام نے سینما گھروں کا رخ کرنا تھا، مگر عین وقت پر فلم پر پابندی سے اب کرنل وشال کافی پریشان تھا۔ وہ ہولستان سے کولاچی دیپیکا پڈوکون کرو ریسیو کرنے گیا تھا تاکہ اس موضوع پر وہ اس سے بات کر سکے شاید کوئی کام کی بات مل جائے، کہیں دیپیکا سے وہ فلم کوئی لے نہ اڑا ہو اور وہ پاکیشائی حکام تک پہنچ گئی ہو تبھی انہوں نے ہولستان میں دیپیکا کی فلم پر پابندی لگا دی تھی۔
کرنل وشال بڑی بے چینی سے ائیر پورٹ پر دیپیکا کا انتظار کررہا تھا، یہاں ہر طرف پاکیشا کے میڈیا نیوز چینلز بھی پہنچے ہوئے تھے جنہوں نےدیپیکا سے اسکی فلم کے بارے میں بات چیت کرنی تھی، اور اس وقت دیپیکا انہی میں گھری ہوئی تھی، وہ کیمرہ کے سامنے اپنے مداحوں کو ہاوس فل کے بارے میں بتا رہی تھی اور اس نے خاص طور پر ہولستان کے لوگوں کا نام لیکر کہا کہ وہ اس فلم کو ضرور دیکھنے آئیں کیونکہ دیپیکا خود بھی فلم کی نمائش پر ہولستان جا کر ہی سینما گھر میں اس فلم کو دیکھے گی۔ یہ کہ کر دیپیکا نے رپورٹرز سے معذرت کی اور اپنی سیکورٹی کے ساتھ وہاں سے آگے چل پڑی، جبکہ رپورٹرز اسے یہ بات بتانا چاہتے تھے کہ اسکی فلم ہولستان میں بین کر دی گئی ہے۔ کچھ ہی دیر کی کوشش کے بعد کرنل وشال دیپیکا تک پہنچ چکا تھا، دیپیکا کی سیکیورٹی نے کرنل کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ عام کپڑوں میں ملبوس تھا، مگر دیپیکا نے اسے پہچان کر سیکیورٹی کو کہا کہ انہیں آنے دیں۔ کرنل وشال دیپیکا کے پاس آیا اور اسے کھینچ کر اپنی گاڑی کی جانب لے گیا۔ اس دوران اس نے دیپیکا کے ساتھ آنے والوں پر ایک نظر ڈالی اور وہاں مرلی کو نا پاکر تھوڑا پریشان ہوا، کیونکہ کرنل وشال کو دیپیکا کے ساتھ آنے والے ایک ایک شخص کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔ ان میں دیپیکا کا اصل ملازم مرلی بھی ہونا چاہیے تھا جو اس وقت اسکے ساتھ نہیں تھا۔
کرنل وشال نے دیپیکا کو اپنی لینڈ کروزر میں بٹھایا اور ڈرائیور نے گاڑی ایک نامعلوم مقام کی طرف بڑھا دی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی کرنل وشال نے سب سے پہلے تو دیپیکا کی خیریت معلوم کی، پھر دیپیکا سے پوچھا کہ اسکی فلم ہولستان میں کیوں بین ہوئی ہے؟؟؟ اس پر دیپیکا نے ہنستے ہوئے کہا کیا ہوا کرنل؟؟؟ کس نے کہا فلم بین ہے؟ کل وہاں فلم چلے گی اور میں وہیں جا کر فلم دیکھوں گی تاکہ زیاہ سے زیادہ لوگ سینما گھر جائیں۔ اس پر کرنل وشال نے دانت پیستے ہوئے کہا کہ ابھی 4 گھنٹے پہلے ہی ہولستان کی ہائیکورٹ نے آرڈر دے کر تمہاری فلم کو بین کر دیا ہے۔ اس پر دیپیکا نے بھی حیرت کا اعلان کیا اور کہا کہ لیکن ایسا کیوں ہوا؟؟؟ کرنل وشال نے اسکا جواب دینے کی بجائے اس سے پوچھا کہ تم نے کسی کو فلم دکھائی تو نہیں ؟؟؟ اس سے پہلے کہ دیپیکا اسکے سوال کا جواب دیتی ، کرنل وشال نے اگلا سوال کر دیا، تمہارے ساتھ مرلی نظر نہیں آیا؟؟؟ وہ کہاں ہے؟ دیپیکا نے کہا وہ تو ائیر پورٹ سے ہی چور راستے کے ذریعے نکل گیا۔ کرنل وشال نے حیرت سے دیپیکا کی طرف دیکھا اور بولا کیا مطلب؟؟؟ وہ کیوں چور راستے سے نکل گیا؟ اسکو ایسی کیا ضرورت پڑ گئی؟؟ اس پر دیپیکا نے کہا مجھے نہیں معلوم، اس نے مجھے یہی بتایا تھا کہ پلان کے مطابق وہ ائیر پورٹ سے ہی غائب ہوجائے گا کیونکہ یہاں پاکیشائی ایجینسیاں اسکو جانتی ہیں، تو اسکے پہچانے جانے کا خطرہ ہے؟؟؟
اس پر کرنل وشال نے پہلے سے بھی زیادہ حیرانگی کا مظاہرہ کیا اور بولا ارے بابا تمہارے ملازم کا پاکیشائی ایجنسیوں سے یا ہمارے پلان سے کیا تعلق ہے؟؟ اب دیپیکا نے پریشان سے کہا کرنل صاحب اصلی مرلی کو تو آپ نے انڈر گراونڈ کروا دیا تھا نا، پھر کیپٹن سنجے شرما مرلی کے بھیس میں میرے ساتھ فلائٹ میں ہی پاکیشا آیا ہے اور ائیر پورٹ سے وہ غائب ہوگیا ہے۔ پھر دیپیکا نے ہوٹل مہاراجہ میں کیپٹں سنجے شرما سے ہونے والی ملاقات سے لیکر پاکیشا ائیر پورٹ آمد تک پوری کہانی بتا دی سوائے اس چودائی کے جو کیپٹن سنجے شرما نے اسکی کی تھی۔ پوری کہانی سن کر کرنل وشال اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دیپیکا کو یہیں پر چیر پھاڑ کر دکھ دے۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اس میں دیپیکا کا قصور نہیں، جو ایجنٹ کرنل کے ہاتھ نہیں آسکا اور جگہ جگہ اسکو چکمہ دیتا رہا وہ بھلا دیپیکا کو کیسے نہیں پھنسا سکتا تھا۔ مگر کرنل کی سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی تھی کہ آخر میجر دانش کو اس فلم کے بارے میں کیسے شک ہوگیا جو وہ دیپیکا تک گیا اور اس نے سپیشل اس فلم کے بارے میں پوچھا؟؟؟ یہ چیز ابھی تک اسکی سمجھ سے باہر تھی۔ کرنل وشال نے بہت سوچا مگر اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر یہ بات میجر دانش کو کہاں سے معلوم ہوئی کہ دیپیکا پڈوکون کی فلم کے ذریعے ہولستان میں بغاوت کو ہوا دی جائے گی۔
اب دیپیکا بھی پریشان تھی، کرنل وشال اسکو بتا چکا تھا کہ وہ شخص جو کیپٹن سنجے شرما بن کر آیا وہی اصل میں میجر دانش تھا جو پاکیشا کی ایجنسی آئی ڈی آئی کا خاص ایجنٹ تھا ، تب سے دیپیکا بھی پریشان بیٹھی تھی کہ اسکی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اسکے ملک کو اتنا بڑا نقصان ہورہا ہے۔ مگر پھر کرنل وشال نے کچھ سوچ کر ایک فون کیا اور کسی کو فون پر کہا، کل کا پروگرام جو تھا اسکے لیے اب مزید انتظار نہیں ہوسکتا، وہ کام ابھی اور اسی وقت ہونا چاہیے۔ ٹھیک 30 منٹ بعد میں ٹی وی پر خبریں سننا چاہتا ہوں کہ ہولستان میں انکے قائد کی آخری آرام گا پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا۔ یہ کہ کر کرنل وشال نے فون بند کر دیا اور دانت پیستا ہوا بولا، تو میجر دانش تو آخر پاکیشا واپس پہنچ ہی گیا، مگر اب میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ مجھ سے الجھنے کا انجام اب تجھے پتا لگے گا۔ تیری سات نسلیں توبہ کریں گی کہ آئندہ کسی ہندوستانی سے پنگا نہیں لینا۔
میجر دانش ائیر پورٹ سے نکلنے سے پہلے اپنا میک اپ صاف کر چکا تھا اور اب وہ میجر دانش کے ہی روپ میں تھا۔ ہندوستان سے روانگی کے وقت اس نے میجر علینہ کو اپنے پاکیشا آنے کی اطلاع دے دی تھی اور میجر علینہ نے ائیر پورٹ پر پورے عملے کو مطلع کر دیا تھا کہ ہمارا ایک ایجنٹ دیپیکا ے ساتھ اسے ملازم کے حلیے میں آرہا ہے، جسکی وجہ سے ائیر پورٹ عملے نے خود ہی میجر دانش کو مرلی کے حلیے میں پہچان کر کچھ دیر ائیر پورٹ پر ہی محفوظ پنا ہ دی، اور پھر جب وہ اپنا میک اپ صاف کر کے میجر دانش کی شکل میں واپس آچکا تھا تو ائیر پورٹ انتظامیہ نے میجر دانش کو وہاں سے نکلنے میں مدد فراہم کی تھی۔ ائیر پورٹ سے نکلنے کے بعد سب سے پہلے میجر دانش اپنے آرمی کیمپ رپورٹ کرنے گیا، جہاں اسکا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اسکے تمام دوست جو آرمی میں ہی تھی وہاں اسکے استقبال کے لیے موجود تھے، سب اس بات پر خوش تھے کہ انکا ایک ایجنٹ ہندوستان کی پوری آرمی اور را کا سر درد بن کر صحیح سلامت واپس آچکا ہے، نہ صرف واپس آچکا بلکہ انکے پلان کے بارے میں بہت سارا مواد بھی لے آیا۔ جو اب پاکیشا اپنے دفاع کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور ہندوستان کے اس خطرناک منصوبے کو ناکام بنا سکتا ہے۔ میجر علینہ بھی یہیں موجود تھی اس نے بھی بڑی گرمجوشی سے میجر دانش کا استقبال کیا اور اسے اس کامیاب مشن پر بہت بہت مبارک باد دی۔ میجر دانش نے اپنے پاس ضرور مواد آرمی کیمپ میں اپنے افسران کے حوالے کیا اور پھر ان سے گھر جانے کی اجازت چاہی تاکہ وہ اپنی ماں کو اپنا چہرہ دکھا کر انکی راجت کا سامان بن سکے اور اسکے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کو بھی حوصلہ دے سکے جسے وہ سہاگ رات پر ہی اکیلا چھوڑ کر کرنل وشال کے تعاقب میں چلا گیا تھا۔
آرمی کیمپ میں میجر دانش کے سب دوستوں نے اسکو تحائف دیے جس میں زیادہ تر پھولوں کے گلد ستے تھے اور پھر میجر کو گھر جانے کا کہا تاکہ وہ اپنی ماں اور اپنی بیوی کو مل سکے۔ ابھی میجر دانش گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ اندر سے میجر علینہ بھاگتی ہوئی آئی اور میجر دانش کو کہا کہ مجھے افسوس ہے تم ابھی اپنی امی اور عفت سے نہیں مل سکتے، ایک بری خبر ہے، جلدی اندر آو۔۔۔ میجر دانش علینہ کی بات سن کر پریشان ہوگیا اور جلدی سے اندر گیا جہاں تمام آرمی آفیسرز ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹنگ دیکھ رہتے تھے جو ہولستان میں قائد کی آخری آرام گاہ پر حملے کی خبریں نشر کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میجر دانش کو ایک بڑا دھچکا لگا تھا اور وہ بے بسی سے اپنے دانت پیس رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس سب کے پیچھے کرنل وشال کا ہاتھ ہوگا۔ تانیہ نے گوا میں اسکو یہ تو بتایا تھا کہ قائد سے متعلق کسی عمارت پر حملہ کیا جائے گا منصوبے کے مطابق مگر میجر دانش نے غلطی یہ کی کے اس نے خود ہی یہ سمجھ لیا کہ یہ حملہ کولاچی میں ہی قائد کے مزار پر ہوگا، مگر کرنل وشال نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا، آخری آرام گاہ ہولستان میں تھی اسی لیے وہاں پر لوگوں کی قائد اور پاکیشا کی نفرت دکھانے کے لیے وہیں پر انکی آخری آرام گاہ کو نشانہ بنایا تھا۔
پاکیشا کی ساری سیکرٹ سروسز اس بڑے سانحے کے بعد حرکت میں آگئی تھیں، یہاں تک کہ چیف آف آرمی سٹاف بھی اس سانحے کو اپنی اینٹلی جنس ایجنسی کی ناکامی سے تشبیہ دے رہا تھا۔ میجر دانش کی اپنی ساری خوشی خاک میں مل گئی تھی اور اب اس نے اپنی والدہ اور بیوی سے ملنے کی بجائے کرنل وشال سے اور غدارِ وطن لوکاٹی سے 2، 2 ہاتھ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ چیف آف آرمی سٹاف نے اسلام نگر میں میجر دانش کو فوری طلب کیا تھا اور وہ اب ایک سپیشل طیارے کے زریعے اسلام نگر جانے لگا تھا، جانے سے پہلے میجر نے علینہ سے تانیہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا میری معلومات کے مطابق وہ کل رات حویلی سے نکل گئی تھی اور اسکے ساتھ نذر لوکاٹی کا بیٹا شاہ میر لوکاٹی بھی تھا، اور نذر کے اپنے لوگ تانیہ کو اپنی حفاظت میں کولاچی پہنچا چکے ہیں، اب وہ کہاں ہے اس بارے میں کچھ علم نہیں، محفوظ بھی ہے یا نہیں میں نہیں جانتی۔ میجر دانش نے ایک بار پھر اپنے آپ کو کوسا، کیونکہ اس نے امجد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسکی بہن کو صحیح سلامت واپس کشمیر پہنچا دے گا، مگر اب میجر دانش کو اپنے اوپر غصہ آرہا تھا جس نے تانیہ جیسی معصوم لڑکی کو ان بھیڑیوں کے درمیان پھنسا دیا تھا۔ میجر دانش نہیں جانتا تھا کہ تانیہ اپنا کام کرنے میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں، بلکہ اب اسکو یہ خوف تھا کہ کہیں اسکی اصلیت سامنے نہ آگئی ہو تبھی نذر نے تانیہ کو کہیں روپوش کروا دیا ہو تاکہ وہ حویلی اور ہولستان کے اگلے منصوبوں کے بارے میں پاکیشا کی آرمی کو مزید اطلاعات نہ دے سکے۔
بوجھل دل کے ساتھ میجر دانش طیارے میں سوار ہوگیا تھا اور کچھ ہی دیر بعد وہ کولاچی سے اسلام نگر پہنچ چکا تھا جہاں چیف آف آرمی سٹاف جنرل وقار شریف موجود تھے۔ اور بے چینی سے ٹہلتے ہوئے میجر دانش کا انتظار کر رہے تھے۔ میجر دانش کےپہنچنے پر سب سے پہلے جنرل صاحب نے میجر دانش کو اپنا مشن کامیاب سے اور بہادری سے کرنے پر مبارکباد دی، مگر میجر کے لیے یہ مبارکباد کسی کام کی نہیں تھی کیونکہ دشمن نے اسکے پیارے وطن کی ایک عظیم یادگار کو نقصان پہنچایا تھا اور اس وقت وہ دشمن کو نیست و نابود کر دینا چاہتا تھا۔ جنرل صاحب بھی یہ بات جانتے تھے کہ ایک سپاہی کیسے اپنے وطن کے لیے تڑپتا ہے اگر اسکے وطن پر کوئی آنچ آئے۔ جنرل صاحب میجر دانش کی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے، انہوں نے میجر دانش سے مشورہ لیا کہ آگے کیا کرنا چاہیے، گوکہ وہ خود بھی پلان کر چکے تھے مگر میجر دانش کی رائے لینا بھی ضروری تھا۔ میجر دانش نے کہا کہ سر ہمیں سب سے پہلے تو وزیرِ اعظم جناب شریف صاحب کو ساتھ لیکر ہولستان جا کر قائد کی آخری آرام گاہ پر جا کر سبز ہلالی پرچم لہرانا ہوگا۔ اور وہیں اسی تقریب میں غدار لوکاٹی کو بھی بلانا ہوگا تاکہ ہولستان کی عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ انکا وزیرِ اعلی اپنے ہاتھوں سے پاکیشائی پرچم لہرا رہا ہے، اسکے بعد اس غدار کو آخری وارننگ دی جائے گی، اگر وہ باز آگیا تو ٹھیک، نہیں تو لوکاٹی کے کل ہونے والے جلسے میں بڑی سکرین پر اسکے کرتوت سب کو دکھا دیے جائیں گے اور اس کا کھیل ختم ہوجائے گا۔ جنرل صاحب نے میجر دانش کی رائے سے اتفاق کیا، وہ بھی یہی پلان کر کے بیٹھے تھے۔ تبھی انہوں نے فوری وزیرِ اعظم کو فون کیا اور ہولستان چلنے کو کہا، پہلے تو وزیرِ اعظم نے ٹال مٹول سے کام لیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ہولستان میں دشمن سرگرم ہے اور وہاں جان کا خطرہ ہے، مگر جب چیف آف آرمی سٹاف نے وزیرِ اعظم کو اپنے تیور دکھائے تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وزیرِ اعظم نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی۔
چیف آف آرمی سٹاف نے خاص طور پر وزیرِ اعظم کی حفاظت کابندوبست کیا تھا، کیونکہ وزیریِ اعظم کسی بھی ملک کا سب سے معتبر شخص ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو پوری عوام کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ میجر دانش نے خود وزیرِ اعظم کی سیکورٹی کا ذمہ لیا اور کچھ دیر بعد سپیشل پرواز کے زریعے پاکیشا کا آرمی سٹاف اپنے بہادر جوانوں کے ساتھ وزیرِ اعظم کو لیے قائد کی آخری رہائش گاہ پر موجود تھے اور پورا میڈیا پاکیشائی آرمی اور وزیرِ اعظم کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا کہ انہوں نے کس بہادری سے عوام کو یکجا کرنے کے لیے ہولستان جا کر پاکشا کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا تھا ۔ آرمی چیف بھی میڈیا کی اس رپورٹنگ سے خوش تھے، اور میجر دانش بھی، گوکہ میڈیا میجر دانش کو نہیں جانتا تھا اور اس پورے واقعہ میں میجر دانش کا نام تک نہیں آیا تھا جس نے اپنی بہادری سے دشمن کے خطرناک ارادوں کو نہ صرف بھانپ لیتا تھا بلکہ انکا توڑ بھی حاصل کر لیا تھا اور اس ہیرو کا نام کسی میڈیا چینل پر نہیں تھا، مگر وہ خوش تھا کہ اس رپورٹنگ سے پوری قوم ایک ہوگئی ہے اور جب پوری قوم متحد ہوجاے تو بڑے سے بڑا دشمن بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
چیف آف آرمی سٹاف کی وجہ سے اکبر لوکاٹی کو بھی اس تقریب میں شرکت کرنا پڑی تھی اور وہ وزیرِ اعظم کے ساتھ مل کر پرچم کشائی کرنے پر مجبور تھا اور پورا ملک یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد تقریب ختم ہوگئی اور سب سے پہلے چیف آف آرمی سٹاف نے قوم سے خطاب کیا، پھر لوکاٹی نے چند الفاظ بولے اور اسے مجبورا پاکیشا زندہ باد کا نعرہ لگانا پڑا اور آخر میں وزیرِ اعظم نے تقریر کی جس میں انہوں نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کا تہیہ کیا اور پاکیشا کی افواج کو حکم دیا کہ انہیں جہاں کہیں بھی اس حملے میں ملوث کوئی ملے اسکو گرفتار کرنے یا پھر جان سے مار دینے کی پوری آزادی ہے، ہمیں ہر حال میں اس دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ لوکاٹی پر یہ تقریر بجلی بن کر گری مگر وہ اندر ہی اندر خوش تھا کہ اس بارے میں ابھی کسی کو کچھ علم نہیں۔
کچھ دیر بعد وزیرِ اعظم کو سخت سیکورٹی کے حصار میں واپس اسلام نگر پہنچا دیا گیا، اور چیف آف آرمی سٹاف بھی واپس اسلام نگر چلے گئے، مگر میجر دانش نے ہولستان میں ہی رکنے کا تہیہ کیا۔ رات میجر دانش نے وہیں پر ایک آرمی کیمپ میں گزاری، اور صبح ہوتے ہی اپنے خاکی یونیفارم میں وہ لوکاٹی کی حویلی چلا گیا جہاں لوکاٹی کرنل وشال سے فون پر بات کر رہا تھا اور آگے کا منصوبہ مکمل کر رہا تھا، انکے منصوبے کے مطابق اب آج شام کے جلسے میں لوکاٹی نے ایک جذباتی تقریر کرنی تھی جس میں ہولستان کی عوام پر ہونے والے ظلم کا ذکر کیا جانا تھا اور پھر اسکے بعد وہاں ایک بڑی سکرین پر دیپیکا کی اس مووی کو چلایا جانا تھا جو میجر دانش نے دیپیکا کے کمرے میں دیکھی تھی۔ وہ مووی چلا کر وہاں کے عوام کا لہو گرم کیا جائے گا، اور چونکہ اس جلسے میں ہولستان کے سب سردار شامل ہونگے جنہیں پہلے سے ہی نئے ہولستان میں بڑے بڑے عہدوں کی لالچ دے دی گئی تھی انکی موجودگی میں ہی بغاوت کا اعلان کیا جائے گا اور تبھی بارڈر سے ہندوستانی افواج ہولستان میں داخل ہوجائیں گی اور ہولستان پر قبضہ کر لیں گی۔
ابھی یہ پلاننگ جاری تھی کہ کسی نے لوکاٹی کو آکر میجر دانش کے بارے میں اطلاع دی۔ لوکاٹی میجر دانش کو جانتا تک نہیں تھا، وہ حیران تھا کہ میجر دانش کون ہے اور وہ اس سے ملنے کیوں آیا ہے۔ پھر اس نے سوچا شاید کل والے واقعہ سے متعلق بات کرنے آیا ہو، لوکاٹی نے اسے اندر بلانے کا کہا۔ میجر جو اسکی حویلی کے باہر منتظر تھا اسے ایک شخص نے اندر آنے کا کہا تو میجر دانش تن تنہا بغیر کسی خوف کے لوکاٹی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ لوکاٹی نے میجر کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فون پر باتیں جاری رکھیں، مگر وہ بات اسطرح کر رہا تھا کہ میجر دانش کو سمجھ نہ لگے کہ یہ کیا کہ رہا ہے۔
کچھ دیر بعد فون سے فارغ ہوکر لوکاٹی نے میجر دانش کی طرف دیکھا اور بولا ہاں میجر بولو کیسے آنا ہوا، میجر دانش سر جھکائے بیٹھا تھا، اس نے اپنی کیپ اتاری اور سر اوپر اٹھا کر لوکاٹی کی طرف دیکھا جو بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ لوکاٹنی نے میجر دانش کو دیکھا تو اسکے چہرے کی مسکراہٹ پہلے تو غائب ہوئی، پھر وہاں حیرت کے آثار نظر آنے لگے اور پھر خوف کے واضح آثار لوکاٹی کے چہرے پر آئے۔ پھر لوکاٹی کانپتی ہوئی آواز میں بولا، ت۔۔ ۔ ۔ ت۔ ۔ ۔ تم تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹی ۔۔۔ ٹین۔۔۔ ۔ٹینا کے دوست ہو ن۔ ۔ ۔ ن نا۔۔۔۔۔۔۔اس پر میجر دانش نے طنزیہ مسکراہٹ دی اور بولا نہیں، میں اس پاک وطن کا فرزند ہوں، جو دشمن کو گردن سے پکڑ کر کچل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور میں یہاں تمہیں وارن کرنے آیا ہوں کہ اپنی حرکتوں سے باز آجاو ورنہ آج کا دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔
میجر دانش کے منہ سے یہ الفاظ سن کر لوکاٹی شدید غصے کی حالت میں چلایا اور اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ میجر دانش کو اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک آرمی آفیسر کو ہاتھ لگانے کی جرات کسی میں نہیں ہوتی ، لہذا اسکی آواز پر کوئی بھی آگے نہ بڑھا تو میجر دانش خود اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور لوکاٹی کو کہا کہ صرف میں ہی نہیں ، بلکہ وہ انجلی جو تمہارے ساتھ پاکیشا آئی اور جس نے تم سے سارے راز اگلوا کر تمہاری ویڈیو بھی بنائی وہ بھی اس وطن کی بیٹی ہے اور اس نے وہ ویڈیو مجھے دے دی ہیں جو میں ہولستان میں عوام کو دکھا دوں گا اگر تم نے کرنل وشال کے ساتھ اپنے تعلقات کو ابھی اور اسی وقت ختم نہ کیا تو۔ انجلی کا نام سن کر لوکاٹی کو ایک اور دھچکہ لگا، وہ تو ویسے ہی کل سے ماریہ جو اسکے خیال میں انجلی تھی اسکو ڈھونڈ رہا تھا اور نذر نے اسے بتایا تھا کہ وہ شام میں ایک جیپ پر کسی ملازم کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی تھی اور ابھی تک واپس نہیں آئی۔ مگر نذر نے اپنے بیٹے شاہ میر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا، کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا اس بارے میں کرم کو پتا لگے۔ اور اس وقت بھی نذر اور کرم دونوں میں سے کوئی یہاں موجود نہیں تھا کہ انہیں ماریہ کی اصلیت پتا لگتی جو اسے انڈیا کی ایجنٹ سمجھ رہے تھے اور اپنے باپ کو مارنے کے لیے بھی تیار تھے۔ یہ سب سن کر لوکاٹی ایک لمحے کے لیے پریشان ہوا، مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر واقعی میں ایسا ہوتا تو اب تک تو اسکو گرفتار کر لیا جاتا ، کیونکہ کل رات جو واقعہ پیش آیا اس پر اگر آرمی کے پاس لوکاٹی کے خلاف کوئی ثبوت ہوتا تو وہ اسے وہیں پر موت کے گھاٹ اتاردیتے غداری کے الزام میں۔ مگر ایسا نہ کیے جانے کا مطلب تھا کہ میجر دانش اسکو بلیک میل کرنے کے لیے دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے، اصل میں اسکے پاس کوئی ثبوت نہیں۔
یہ سوچ کر لوکاٹی نے میجر دانش سے کہا تم سے جو ہوتا ہے تم کر لو، لیکن یاد رکھو آج شام کے بعد سے ہولستان پاکیشا کی فوج کا قبرستان ثابت ہوگا، لہذا بہتر ہے کہ شام ہونے سے پہلے پہلے خود ہی ہولستان چھوڑ جاو۔ یہ کہ کر لوکاٹی نے حقارت سے میجر دانش کو دیکھا اور اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پیچھے سے میجر دانش نے اونچی آواز میں کہا کہ تمہارے ان ناپاک عزائم کو پاک آرمی کا ایک ایک نوجوان اپنا خون دے کر ناکام بننا دے گا۔ یہ کہ کر میجر دانش اسکی حویلی سے واپس نکل آیا اور اپنی جیپ میں بیٹھ کر واپس آرمی کیمپ چلا گیا۔ جب کہ لوکاٹی اپنے کمرے میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ جان گیا تھا کہ اسکے پلان کے بارے میں پاکیشا کی آرمی کو پتا لگ چکا ہے، ایسے میں اسکی جان کو خطرہ تھا ، اس نے تمام سرداروں کو اپنی حویلی میں بلا لیا اور انہیں بڑی بڑی لالچ دیکر ہندوستان سے الحاق کی حمایت پر آمادہ کر لیا تھا۔ ویسے بھی لوکاٹی کا خیال تھا کہ جب دیپیکا پڈوکون کی فلم اتنی عوام کو سکرین پر دکھائی جائے گی تو پھر میجر دانش کتنے ہی ثبوت کیوں نہ پیش کرلے عوام اتنی جذباتی ہوچکی ہوگی کہ وہ میجر کی کسی بات کو نہیں سنے گی اور لوکاٹی کی لیڈرشپ میں پاکیشا سے علیحدگی کے لیے تحریک کا آغاز کر کے ہندوستان سے الحاق کی حمایت کر دیں گے۔ تمام سرداروں کو اس بات پر منانے کے بعد اب لوکاٹی نے فیصلہ کیا کہ اپنی حویلی میں بیٹھنے کی بجائے جلسہ گاہ چلے جانا چاہیے ، کیونکہ حویلی میں اس پر چھپ کر حملہ کیا جا سکتا ہے مگر جلسہ گاہ میں میڈیا کے کیمرے ہونگے وہاں پاکیشا کی آرمی لوکاٹی پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچے گی بھی نہیں۔
لوکاٹی نے اس بارے میں کرنل وشال سے بھی بات کی، تو اس نے بھی لوکاٹی کی بات سے متفق ہوتے ہوئے اسے جلسہ گاہ جانے کی تلقین کی اور اسے بتایا کہ اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں وہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس اسکے لوگ ہونگے جو اسکی حفاظت کریں گے اور میجر دانش کی طرف سے وہ بے فکر رہے وہ کبھی بھی اسکی کوئی ویڈیو یا کوئی ثبوت عوام کے سامنے پیش نہیں کر سکے گا اسکا بندوبست ہوچکا ہے ۔
کرنل وشال سے تسلی ملنے کے بعد اور خاص طور پر یہ الفاظ سننے کے بعد کہ میجر دانش کا بندوبست ہوچکا ہے لوکاٹی مطمئن ہوگیا تھا۔ پھر اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں جلسہ گاہ چلنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنے کمرے سے دیپیکا پڈوکون کی سی ڈی اٹھا لایا جو اسے کرنل وشال نے ایک رات پہلے ہی فراہم کی تھی۔ وہ سی ڈی اپنے ہمراہ لیکر لوکاٹی نے اپنے ایک ملازم کو ہدایت کی کہ وہ جلسے میں لائیو فلم دکھانے کی تیاری کرے جہاں پروجیکٹر کے ذریعے بڑی سکرین پر دیپیکا پڈوکون کی فلم دکھائی جائے گی اور جب فلم میں پاکیشا کے آرمی چیف اور نوجوانوں کو دیپیکا پڈوکون ہولستان کی سڑکوں پر گھسیٹے گی تو ہم علیحدگی کا اعلان کر دیں گے۔ یہ ہدایت کر کے لوکاٹی جلسہ گاہ پہنچ گیا اور سٹیج پر جا کر عوام کا لہو گرمانے لگا۔ عوام بھی اپنے لیڈر کو اپنے سامنے دیکھ کر خوش ہوگئی، اور جو لوگ ابھی تک گھروں میں بیٹھے تھے کہ جلسہ گاہ میں لوکاٹی آخری وقت میں آئے گا وہ بھی گھروں سے نکلنا شروع ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جلسہ گاہ عوام سے کھچا کھچ بھر چکا تھا ہر طرف سر ہی سر تھے اور کہیں پاوں رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر لوکاٹی کافی مطمئن تھا، وہ وقفے وقفے سے چھوٹی چھوٹی تقریریں کر رہا تھا جس میں وہ ہولستان کے مالی وسائل پر دوسرے صوبوں کے قبضے کے بارے میں زہر اگل رہا تھا اور عوام بھی یہ سب سن کر جذباتی ہورہی تھی کہ آخر انکے حق پر کیسے کوئی ڈاکہ ڈال سکتا ہے۔
دوسری طرف میجر دانش اپنا سارا پلان تیار کر چکا تھا وہ خود بھی ایک محفوظ جگہ پر سادہ کپڑوں میں ملبوس لوکاٹی کےجلسے میں ہی تھا، اسے آج ہر صورت میں اپنے پلان کو کامیاب بنانا تھا اور اس وطن کی حفاظت کی کھائی ہوئی قسم کو پورا کرنا تھا۔ جیسے جیسے جلسے کے باقاعدہ آغاز کا وقت قریب آرہا تھا میجر دانش کے دل کی دھڑکینیں تیز ہو رہی تھیں، جبکہ میجر دانش نے چیف آف آرمی سٹاف کو بارڈر سے ممکنہ دشمن فوج کے حملے سے آگاہ کر دیا تھا جسکے لیے چیف آف آرمی سٹاف نے اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم دیا تھا تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان کا چیف آف آرمی سٹاف کرنل وشال کے سگنل کے انتظار میں تھا کہ جیسے ہی سرحد پار سے کرنل حملے کا سگنل دے تو وہ اپنی آرمی کو پاکیشا پر حملہ کرنے کا آرڈر جاری کر دے۔
ب مختلف سرداروں کی طرف سے تقاریر کا سلسلہ جاری تھا، ان میں سے زیادہ تر تو ہولستان کی ترقی اور عوام کی بہبود کے بارے میں تھیں جبکہ کچھ سردار بیچ بیچ میں پاکیشا کے خلاف بھی زہر اگل رہے تھے جس سے وہاں موجود عوام کا خون کھولنے لگا تھا اور انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور آج اس ظلم و ستم سے نجات کا دن ہے۔ ان میں سے زیادہ تر باتیں تو جھوٹ پر مبنی تھیں، مگر کچھ باتیں سچی بھی تھیں، جہاں پاکیشا کی سرکار قصور وار تھی ، انہوں نے کچھ معاملات میں واقعی ہولستان کو وہ حقوق نہیں دیے تھے جسکے وہ مستحق تھے لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ ہولستان کے لوگ غداری کا اعلان کر کے ہندوستان سے جا ملیں جہاں پہلے ہی آزادی کی بیسیوں تحریکیں چل رہی تھیں۔ اور انکو دبانے میں ہندوستان کی حکومت بری طرح ناکام ہورہی تھی۔
آخر کار وہ وقت بھی آگیا جسکا میجر دانش کو بے چینی سے انتظار تھا۔ یہ لوکاٹی کی تقریر تھی۔ میجر دانش نےسٹیج پر اپنا ایک آدمی بٹھا رکھا تھا تاکہ اگر لوکاٹی کچھ غلط اعلان کرنا چاہے تو اسکا آدمی دوبارہ اسے آخری وارننگ دے سکے۔ لوکاٹی نے تقریر کا دھواں دار آغاز کیا جس میں پاکیشا سے محبت کوٹ کوٹ کر نظر آرہی تھی، لوکاٹی نے 1947 کے واقعات کا آغاز کیا جب ہولستان کے غیور عوام نے پاکیشا سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا اور ایک نئے ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقسشے پر پاکیشیا ابھرا تو اس میں ہولستان کے سرداروں اور غیور عوام کا نام روشن الفاظ کے ساتھ لکھا گیا تھا، پھر مختلف مواقع پر جب جب ہولستان نے پاکیشا کے لیے قربانیاں دی انکا ذکر تھا۔ جس سے ظاہری طور پر لگ رہا تھا کہ شاید لوکاٹی اپنا منصوبہ ترک کر چکا ہے اور اب وہ ایسا کوئی اعلان نہیں کرے گا جس سے بغاوت سر اٹھا سکے۔ مگر کہیں نہ کہیں میجر دانش کو یقین تھا کہ لوکاٹی اپنی اصلیت ضرور دکھائے گا، اور آخر وہی ہوا جسکا ڈر تھا، لوکاٹی آہستہ آہستہ اپنی اوقات دکھانا شروع کر دی۔ اس نے اب ہولستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ شروع کر دیا۔ پاکیشا کی سرکار نے کیسے ہولستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا اسکے بارے میں جھوٹی کہانیاں بنا کر بیان کرنا شروع کر دیں جسکی وجہ سے ہولستان کی معصوم عوام لوکاٹی کی باتوں میں آکر جذباتی نعرے لگانے لگ گئی تھی۔ اب میجر دانش کو لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت لوکاٹی بغاوت کا اعلان کر سکتا ہے اور تب حالات کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
آہستہ آہستہ لوکاٹی کی تقریر میں پاکیشا کے لیے نفرت بڑھتی جا رہی تھی، پھر لوکاٹی نے کہا کہ میں آپکو آج ہولستان کی ایک بہادر بیٹی کی کہانی سنانا چاہتا ہوں، اور پھر اسی کہانی پر بننے والی ایک فلم بھی آپکو یہاں دکھائی جائے گی، اسکے بعد آپ خود فیصلہ کریں گے کہ آپ پاکیشا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟؟؟ یہ کہ کر لوکاٹی نے کہانی سنانا شروع کی۔ یہ وہی کہانی تھی جس پر دیپیکا پڈوکون کی فلم بنائی گئی تھی جیسے جیسے لوکاٹی کہانی سناتا جا رہا تھا عوام کاجوش اور جذبہ بڑھتا جا رہا تھا۔ جب لوکاٹی کہانی کے اس حصے پر پہنچا جہاں دیپیکا پڈوکون جسکا کہانی میں نام جنت تھااسکو سرِ عام سڑک پر ذلیل کیا گیا اسکی چادر اتاری گئی اور اسکی عزت کو تار تار کیا گیا تو عوام کا جوش بہت بڑھ گیا تھا اور میجر دانش کو ایسا لگنے لگا کہ اب حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔ میجر دانش کے ساتھ ساتھ چیف آف آرمی سٹاف بھی اس تقریر کو اسلام نگر میں بیٹھ کر لائیو سن رہے تھے انہوں نے میجر دانش کو ابھی ایکشن لینے سے روک رکھا تھا۔ حتی کہ لوکاٹی نے اپنی کہانی مکمل کر لی۔ کہہانی کے اختتام پر لوکاٹی کی آنکھوں میں آنسو تھے، اپنے لیڈر کو روتا دیکھ کر سامنے کھڑی عوام اور بھی زیادہ جذباتی ہوگئی تھی۔ اور اب پاکیشا مخالف نعرے لگنے شروع ہوگئے تھے، لوکاٹی کچھ دیر کے لیے اپنی تقریر روک چکا تھا اور اس نے اعلان کیا تھا کہ ابھی کچھ ہی دیر میں اسی کہانی پر مبنی فلم بھی آپکو دکھائی جائے گی۔
اس اعلان کے فورا بعد میجر دانش نے سٹیج پر موجود اپنے خاص آدمی کو پیغام پہنچایا کہ لوکاٹی کو کہو اگر یہ فلم چلائی یا پاکیشا سے بغاوت کا اعلات کیا تو ابھی اور اسی وقت وہ فلم چل جائے گی جو تانیہ نے اور کرنل وشال نے مختلف اوقات میں بنائی ہے۔ میجر دانش کے خاص آدمی نے فوری یہ پیغام لوکاٹی کو پہنچایا تو لوکاٹی نے سٹیج سے ہٹ کر ایک زور دار قہقہ لگایا اور بولا اسکو کہو جو کرنا ہے کر لے، اسکے ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا، یہ لاکھوں کی عوام میرے ساتھ ہے اور اسکو سنبھالنا آسان کام نہیں۔ میرے ایک حکم پر یہ عوام میجر دانش کی دھجیاں اڑا دیں گی۔ یہ کہ کر لوکاٹی نے منہ دوسری طرف کر لیا اور اپنے سامنے کھڑی عوام کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہوا میں لہرانے لگا۔ وہ فلم چلانے سے پہلے عوام کے جذبات کو اور بھی ابھارنا چاہتا تھا اسی لیے اب وہ اپنے حقوق کے لیے نعرے لگوا رہا تھا۔
تبھی میجر دانش نے باالآخر فیصلہ کرلیا کہ وہ لوکاٹی کی فلم یہیں پر چلا دے گا۔ اس نے لوکاٹی کے اسی خاص آدمی کو حکم دیا کہ جیسے ہی میں اشارہ کروں تم وہ سی ڈی چلا دینا جو میں نے تمہیں دی ہے۔ یہ وہی آدمی تھا جسکو لوکاٹی نے دیپیکا پڈوکون کی فلم چلانے کی تیاری کرنے کو کہا تھا، کسی طرح میجر دانش کو اس کے بارے میں معلوم ہوگیا اورمیجر دانش نے اسکو لوکاٹی کی اصلیت بتا کر اسے اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ دیپیکا پڈوکون کی فلم کی بجائے وہ اسکی دی ہوئی سی ڈی کو چلائے گا ۔ اور وہ شخص بھی راضی ہوگیا تھا کیونکہ ہولستان کی عوام میں اپنے سرداروں کے لیے جتنا بھی ادب و احترام اور خوف ہو، مگر وطن کی محبت بحرحال انکے دلوں میں موجود تھی۔ بس مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے سرداروں کی کہی ہوئی باتوں پر یقین کر لیتے تھے، مگر آج جب لوکاٹی کے اس خاص آدمی نے لوکاٹی کی اصلیت دیکھی تو وہ دل سے میجر دانش کے ساتھ ہوگیا تھا اور اسکے ایک حکم پر اپنی جان کی بازی لگانے پر بھی تیار تھا۔
میجر دانش نے اس آدمی کو بھی خاص طور پر پروٹیکشن دلوائی تھی۔ اسکے چاروں طرف بلٹ پروف شیشہ تھا اور سکرین کافی اونچائی پر بنوائی گئی تھی اسکے سامنے بھی شیشہ لگوا دیا گیا تھا تاکہ فلم کے دوران کوئی بھی فائرنگ کر کے سکرین کو خراب نہ کر سکے اور نہ ہی اس شخص کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔ بجلی کا بھی خاص طور پر انتظام کیا گیا تھا کہ اگر بجلی چلی بھی جائے تو فلم نہ رکنے پائے۔ یہ تمام انتظامات اصل میں میجر دانش کے کہنے پر کیے گئے تھے مگر ان انتظاماات کو کروانے والا وہی شخص تھا جسکو لوکاٹی نے فلم چلانے کو کہا تھا اور اس نے یہ تمام انتظامات لوکاٹی کی اجازت سے یہ کہ کر کیے تھے کہ جب یہ فلم چلے گی تو پاکیشا کی حکومت ہماری بجلی بھی بند کر سکتی ہے اسلیے ہمیں علیحدہ سے بجلی کا بندوبست کرنا ہوگا، اسکے ساتھ ساتھ سکرین کو بھی حفاظت کے ساتھ لگانا ہوگا تاکہ اسکو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ بذاتِ خود اسکی اپنی سیکورٹی بھی ضرور تھی تاکہ وہ شروع سے آخر تک فلم کو چلا سکے، اور لوکاٹی نے خود یہ انتظامات بہترین طریقے سے کروانے کے احکامات دے دیے تھے۔ اور یہی اب میجر دانش کے کام آںے تھے۔
اس سے پہلے کہ میجر دانش لوکاٹی کی سی ڈی چلانے کا اشارہ کرتا اسکو اپنے موبائل پر ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال کسی نامعلوم نمبر سے تھی۔ میجر دانش نے کال ریسیو کی تو آگے سے آواز آئی، کیوں داماد جی، ہمارے بنائے ہوئے پلان پر مٹی ڈالنے کا ارادہ ہے کیا آپکا؟؟؟ میجر دانش کو کچھ سمجھ نہیں آئی اس نے گرجدار آوز میں پوچھا کیا مطلب ہے تمہارا؟ کون بول رہے ہو؟؟؟ آگے سے ایک زور دار قہقہ لگایا گیا اور پھر کرنل وشال کی گرجدار آواز سنائی دی، ٹینا کے موبائل سے مجھے تم نے ہی کال کی تھی نہ اور سسر جی کہ کر بلایا تھا، آج اپنے سسر کو ہی بھول گئے کیا؟؟؟ میجر کو ٹینا کام سن کر سمجھ آگئی تھی کہ یہ کرنل وشال کی آواز ہے۔
میجر دانش نے کرنل وشال کو کہا کرنل تمہاری گیم ختم ہوگئی ہے، ابھی کچھ ہی دیر میں لوکاٹی کی اصلیت دنیا کے سامنے آجائے گی اور پھر ہولستان کی محبِ وطن عوام لوکاٹی کو یہیں زمین میں دفن کر دے گی، نہ تو تمہاری ڈرپوک فوج میں اتنی ہمت ہوگی کہ ہماری سرزمین پر حملہ کر سکیں اور نہ ہی تمہیں یہاں کوئی اپنا حمایتی ملے گا، تم کتے کی موت مارے جاو گے اور میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا۔ جواب میں کرنل وشال نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور بولا، جو جیسا کرتا ہے اسکے ساتھ ویسا ہی ہوتا ہے۔ تم نے میری بیٹی کو بندی بنا کر مجھ سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروایا تھا نہ، تو سنو، غور سے سنو، تمہاری پیاری سی خوبصورت سی، جوان بیوی اس وقت میری قبضے میں ہے، اگر تم نے لوکاٹی کی فلم چلائی یا میرے راستے میں آنے کی کوشش کی تو تمہاری بیوی اور تمہارا بچہ دونوں کا ہی خاتمہ ہوجائے گا ابھی اور اسی وقت۔
یہ سن کر میجر کے پاوں تلے زمین ہی نہ رہی، اسے لگا جیسے وہ ابھی اپنی جگہ پر گر جائے گا۔ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، ب۔۔۔۔۔۔۔ بچہ۔۔۔۔۔ کونسا بچہ۔۔۔۔؟؟؟ کرنل وشال نے پھر طنزیہ قہقہ لگایا اور بولا وہی بچہ جو تمہاری جوان بیوی کے پیٹ میں پل رہا ہے، لو اپنی بیوی سے بات کرو۔۔۔ یہ کہ کر کرنل وشال نے فون عفت کے کان سے لگا دیا جسکے ہاتھ پاوں کرنل وشال باندھ چکا تھا اور وہ ایک نامعلوم جگہ پر قید تھی۔ میجر دانش کو عفت کی آواز سنائی دی: ہیلو دانش؟؟؟ عفت کی آواز سن کر میجر دانش کے اوسان خطا ہوگئے، وہ واقعی کرنل وشال جیسے بے حِس اور ظالم شخص کی قید میں تھی، بے اختیار میجر دانش کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، وہ بہت بہادر اور مظبوط اعصاب کا مالک تھا مگر اس وقت وہ بالکل کمزور بچے کی طرح تھا جسکے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا، اسنے ہکلاتی ہوئی آواز میں کہا، عفت تم کہاں ہو؟؟؟ مگر آگے سے عفت کی گونجدار اور پرسکون آواز سنائی دی: دانش تم نے ساری زندگی میرے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا، اور میری حفاظت کا مجھے یقین دلایا تھا، اور مجھے تم پر پورا یقین ہے کہ تم کبھی وعدہ خلافی نہیں کر سکتے۔ مگر یاد رکھنا ایک وعدہ تم نے اس پاک سرزمین سے بھی کیا تھا کہ اپنی جان پر کھیل کر اس وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرو گے۔ دانش آج میں رہوں یا نہ رہوں، مگر تمہین میری قسم اس وطن پر ، پمارے ملک پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔۔۔۔ عفت کی اتنی پرسکون اور جذبات سے بھرپور آواز سن کر میجر دانش رو پڑا تھا، اسکی آنکھوں سے نہ صرف آنسو جاری تھے بلکہ وہ بچے کی طرح بلبلا کر رو رہا تھا۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسکی وجہ سے کبھی اسکی بیوی پر اتنا برا وقت آجائے گا۔ وہ اب بھول چکا تھا کہ وہ کس مشن پر ہے اور لوکاٹی عنقریب کتنا خطرناک اعلان کرنے والا تھا، اسکے ذہن میں اگر کچھ تھا تو اسکی بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکا بچہ۔۔۔ جو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں تھا۔
میجر دانش نے روتے ہوئے کہا عفت ہمارا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ عفت ہلکی آواز میں مسکرائی اور بولی ہاں ہمارے بچے کو بھی اپنے بابا پر فخر ہوگا ، اور تمہیں بھی اپنے بچے پر اور اپنی بیوی پر فخر ہونا چاہیے کہ وہ اپنے وطن کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں، میجر دانش پھر رونے لگا، نہیں عفت نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ کبھی نہیں ہونے دوں گا۔ اس سے پہلے کہ عفت کچھ اور کہ پاتی، کرنل وشال نے اس کے کان سے فون ہٹا لیا اور بولا چل ہٹ، بڑی آئی جان کی قربانی دینے والی، تو کیا سمجھتی ہے تیری یہ باتیں پاکیشا کو ٹوٹنے سے بچا لیں گی؟ یہ کہ کر اس نے عفت کے پیٹ میں ایک لات ماری جس سے عفت کی ایک دلخراش چیخ نکلی جو میجر دانش کے کانوں کو چیرتی ہوئی ختم ہوگئی۔ میجر دانش سمجھ گیا تھا کہ کرنل وشال نے عفت پر وار کیا ہے، وہ چلاتا ہوا کرنل وشال سے بولا کہ خبردار جو عفت کو ایک خراش تک بھی پہنچائی نہیں تو میں تیری بوٹی بوٹی کر دوں گا۔
مگر کرنل وشال کا اس دھمکی پر کوئی اثر نہیں ہوا، وہ جانتا تھا کہ اس وقت میجر دانش کچھ نہیں کر سکتا۔ اب میجر دانش کو بھی اپنی دھمکی کھوکھلی محسوس ہو رہی تھی، وہ بھی جانتا تھا کہ اسکے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا، گیم ختم ہوچکی ہے، اب اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہورہا تھا، جب تانیہ نے میجر دانش کو اس بات پر اکسایا تھا کہ کرنل وشال کو ٹینا کے بارے میں بتا کر امجد اور اسکے ساتھیوں کو رہا کروائے تو ایک لمحے کے لیے میجر دانش نے سوچا تھا کہ یہ صحیح نہیں ہے،اپنی آپس کی جنگ میں کسی کی بیٹی، کسی کی عزت سے کھیلنا اور اسکا فائدہ اٹھانا ٹھیک نہیں۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ وہ کونسا حقیقت میں ٹینا کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، بس ایک دھمکی ہی دینی ہے اور کرنل وشال بیٹی کے پیار میں اسکی بات مان جائے گا۔ یہی میجر دانش کی غلطی تھی کہ اس نے ایک باپ کے جذبات کا خیال نہیں کیا، بے شک اس نے ٹِنا کو کچھ نہیں کہا، مگر کرنل وشال آخر ایک باپ تھا، بیٹی کا سنکر اسے کیسا محسوس ہوا ہوگا؟ وہ کس کرب سے گزرا ہوگا ، میجر دانش نے یہ سوچا ہی نہیں تھا، اور اب اسکو اس غلطی کا شدت سے احساس ہورہا تھا۔
وہ اب فون پر کرنل وشال کی منتیں کر رہا تھا کہ خدا کے لیے میری بیوی اور بچے کو چھوڑ دو، انکا کوئی قصور نہیں، میرا بچہ تو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں۔۔۔۔ اس پر کرنل وشال انتہائی دکھ بھرے لہجے میں بولا، میری بیٹی ٹینا کا کیا قصور تھا؟؟؟ تب تمہیں خیال نہیں آیا کہ ایک باپ کے دل پر کیا گزرے گی ؟؟؟ میجر دانش نے کہا تم اپنی بیٹی سے پوچھ لو اگر میں نے اسکو ذرا برابر بھی نقصان پہنچایا ہو، میں تو تمہیں فون کرنے کے بعد اسکا فون لیکر وہاں سے چلا گیا تھا اور وہ مکمل آزاد تھی تمہاری بیٹی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ پلیز میری بیوی کو چھوڑ دو۔۔۔۔ مگر کرنل وشال کہاں سننے والا تھا، اسکے دل میں نہ صرف ٹینا کا بدلہ تھا بلکہ پاکیشا کو دو لخت کرنے کا مشن بھی تھا، آخر کار کرنل وشال نے کہا میں تمہاری بیوی کو چھوڑ دوں گا، مگر تم وہاں سے واپس آجاو، اور خبردار جو تم نے لوکاٹی کی کوئی سی ڈی وہاں چلائی۔ دیپیکا پڈوکون کی فلم والی سی ڈی چلنے دو، لوکاٹی کو بغاوت کا اعلان کرنے دو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، ایک آرمی کرنل تمہیں اپنے الفاظ دے رہا ہے کہ میں تمہاری بیوی کو چھوڑ دوں گا اور پھر بغاوت کو کچلنے کے لیے تم پورا زور لگا لینا، پھر میدانِ جنگ میں ہی ہم دونوں آمنے سامنے آئیں گے، اور میرا تم سے وعدہ ہے تمہییں تمہاری سرزمین پر ہی اپنے پاوں سے کچل کر ماروں گا اور تمہاری بیوی ساری زندگی شہید کی بیوہ بن کر خوشی خوشی زدنگی گزار لے گی۔
میجر دانش نے پھر کہا کہ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں، میں لوکاٹی کو بھی کچھ نہیں کہوں گا، میں اسکی سی ڈی بھی نہیں چلاوں گا مگر خدا کے لیے میری بیوی کو چھوڑ دو۔ اس پر کرنل وشال نے قہقہ لگایا اور بولا پہلے پہلے بغاوت کا آغاز تو ہو لینے دو پھر تمہاری اس خوبصورت اور جوان بیوی کو بھی چھوڑ دوں گا۔ ابھی کرنل وشال نے اتنا ہی کہا تھا کہ میجر دانش کے کانوں میں لوکاٹی کی آواز گونجی، وہ ایک بار پھر سٹیج پر کھڑا ہوگیا تھا اور اس نے اعلان کر دیا تھا کہ اب ہم آپکو وہ فلم دکھائیں گے جو کہانی میں نے آپکو ابھی سنائی ہے، اگر ہماری اس بیٹی کے سر سے اترتی چادر دیکھ کر بھی آپکی غیرت نہیں جاگتی تو میں لعنت بھیجوں گا آپکی مردانگی پر اور یہیں اس جلسے میں اپنے آپکو گولی مار کر اڑا دوں گا، کہ میں ایسی بے غیرت قوم کا لیڈر نہیں بن سکتا جسکی اپنی بیٹی کی عزت لٹتی دیکھ کر بھی غیرت نا جاگے۔ اور اگر اس فلم کو دیکھنے کے بعد آپکی غیرت جاگ اٹھے، آپ میری ایک آواز پر اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوجاو، تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس قوم کی ہر بیٹی کی عزت کی حفاظت کے لیے آپکے شانہ بشانہ کھڑا رہوں گا، اپنے خون کا آخری قطرہ تک آپکی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر دینے کے لیے تیار رہوں گا، پاکیشا کی ظالم فوج کے مظالم اور آپکی بیٹیوں کی عزت کے درمیان میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجاوں گا، پاکیشا کی آرمی پہلے میری لاش پر سے گزرے گی پھر آپ کی بیٹیوں کی عزت پر ہاتھ ڈالے گی، لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی میری جگہ لینے میری قوم کے غیور عوام موجود ہونگے، اور آزادی کی اس جنگ کو تب تک لڑیں گے جب تک اس قوم کا ہر مرد مارا نا جائے، یا پھر آزادی حاصل نہ کر لیں۔۔۔
لوکاٹی کی اتنی کاٹ دار تقریر سن کر وہاں موجود لوگوں کے جذبات اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے اور اب پوری جلسہ گاہ میں پاکیشا کی آرمی کے خلاف نعرے بازی ہورہی تھی اور ہر کوئی عہد کر رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہیں۔ ادھر کرنل وشال بھی میجر دانش کے فون کے ذریعے یہ ساری تقریر سن رہا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا، اسے یقین تھا کہ اس تقریر کے بعد کوئی بھی غیرت مند نوجوان بنا کچھ سوچے سمجھے بغاوت کا اعلان کر دے گا اور اسکے لیے اپنی جان بھی قربان کر دے گا۔ اس نے ایک بار پھر فون پر میجر دانش کو کہا کہ دیکھو ان لوگوں کے جذبات کو۔۔۔۔ کیا تم انکے جذبات کو اپنی گولیوں سے روک سکتے ہو؟ کیا تم انکی غیرت کو ختم کر سکتے ہو؟؟؟؟ نہیں میجر نہیں۔۔۔ تم ہار چکے ہو، تم کچھ نہیں کر سکتے، لہذا بہتری اسی میں ہے کہ چپ چاپ وہاں سے واپس آجاو اور اپنی بیوی اور اپنے بچے کے ساتھ باقی کی زندگی آرام سے گزارو۔
میجر دانش کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا، پھر اسکی نظر ایک سائیڈ پر بلٹ پروف شیشے پر پڑی جہاں لوکاٹی کا خاص آدمی جس نے فلم چلانی تھی وہ میجر دانش کے اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ تب میجر دانش کو ہوش آیا کہ وہ یہاں کیوں آیا تھا اور اسکا مقصد کیا تھا، اسکے ذہن میں ایک طرف آرمی جوائن کرتے وقت کھائی گئی قسمیں تھیں کہ وہ اپنے ملک کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دے گا، تو دوسری طرف اپنی پیار کرنے والی بیوی کے ساتھ گزارے گئے وہ چند لمحات تھے جنکے نتیجے میں اسکی بیوی پیٹ سے تھی اور اسکے بچے کی ماں بننے والی تھی میجر کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا، وہ اپنی بے قصور بیوی اور بچے کو کیسے قربان کر سکتا ہے؟؟؟ مگر پھر لوکاٹی کی آواز اسکےکانوں میں گونجی کہ فلم چلاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی یہ آوز میجر دانش کے کانوں میں گونجی، نیجر دانش کی نظروں کے سامنے وہ معصوم بچے آنے لگے ، وہ معصوم جانیں آنے لگیں، وہ معصوم بیٹیاں اور اس قوم کی عزتیں آنے لگیں جو اس بغاوت کے نتیجے میں ہندوستانی فوجیوں سے بے آبرو ہونے والی تھیں۔۔۔
ایک طرف میجر دانش کے سامنے اپنی بیوی کے پیٹ میں پلنے والا معصوم بچہ، اور اپنی پاک دامن اور بے قصور بیوی تھی جس نے ابھی زندگی کی خوشیاں دیکھی ہی نہیں تھیں، تو دوسری طرف اپنی قوم کی وہ بے شمار بچیاں تھیں جو انڈین آرمی کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے جا رہی تھیں، ہندو بنیے جو مظالم کرنے والے تھے ان بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے ساتھ اسکا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا ان لوگوں کو، باالآخر میجر دانش نے گہرا سانس لیا اور اپنی ہمت کو جمع کرنے لگا، تبھی اسکوموبائل پر عفت کی چیخ سنائی دی، عفت پوری آواز کے ساتھ چیخ کر کہ رہی تھی: دانش میری جان: بیوی تو اور بھی مل جائے گی، بچے بھی اور مل جائیں گے، لیکن اگر تم نے اپنے وطن سے غداری کی تو تمہیں یہ عفت کبھی نہیں ملے گی، اور نہ ہی تمہارا ہونے والا بچہ تمہیں کبھی معاف کرے گا۔
عفت کی اس بات نے میجر دانش کو وہ حوصلہ دیا جس کے نتیجے میں کوئی بھی فوجی جوان اپنے وطن کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے، آخر کار عفت کی اس بات نے میجر دانش کے اندر وہی جوش اور ولولہ پیدا کر دیا جو آرمی جوائن کرتے وقت میجر کے اندر تھا، میجر دانش نے بلٹ پروف شیشے میں اس آدمی کی طرف دیکھا جو ابھی تک حسرت بھری نگاہوں سے میجر دانش کے اشارے کا منتظر تھا، تھوڑی دیر اور ہوجاتی تو اسے دیپیکا پڈوکون کی فلم چلانی ہی پڑتی، میجر دانش نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا، ایک نعرہ ءِ تکبیر کی صدا بلند کی اور اس شخص کو لوکاٹی کی سی ڈی چلانے کی ہدایت دے دی، جیسے ہی سکرین آن ہوئی اس پر سب سے پہلا چہرہ لوکاٹی کا ہی نظر آیا، جسکو دیکھ کر جلسہ گاہ میں موجود لوکاٹی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ گئیں کیونکہ اسکو کرنل وشال نے یقین دلایا تھا کہ یہ ویڈیو جلسے میں نہیں چلے گی۔ لوکاٹی اس وقت ویدڈیو میں کرنل وشال سے باتیں کر رہا تھا جس میں وہ ہولستان میں آزادی کی تحریک چلانے کے عوض اپنے مطالبات رکھ رہا تھا کہ اسے ہندوستان کی خوبصورت اداکارائیں مہیا کی جائیں روز وہ کسی نئی اداکارہ کے ساتھ رات گزارے گا۔ پھر دوسرے سین میں لوکاٹی انڈیا کی ایک سرکاری شخصیت سے پاکیشا میں آزادی کی تحریک چلانے کے لیے سازگار ماحول بنانے کے عوض 200 ارب روپے مانگ رہا تھا۔ یہ ویڈیو دیکھ کر جلسہ گاہ میں مکمل خاموشی ہوگئی تھی سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، اتنی خاموشی تھی کہ سوئی گرنے کی بھی آواز سنائی دے، پھر اسی طرح کے کچھ اور سین چلے جس میں لوکاٹی پاکیشا سے غداری کے عوض بڑی بڑی رقوم بٹور رہا تھا اور بدلے میں ہندوستان سے الحاق کی یقین دہانی بھی کروا رہا تھا ، جبکہ اس غدار نے اپنے لوگوں کو تو آزادی کے خواب دکحائے تھے۔۔۔۔ لوکاٹی کو اپنا سب کچھ ختم ہوتا نظر آنے لگا، اس نے ساتھ کھڑَ سیکورٹی گارڈ سے گن پکڑی اور سکرین کی طرف کر کے گن چلانے لگا، مگر وہ بھول گیا تھا کہ سکرین کی حفاظت کے لیے تو وہ خود اسکے سامنے بلٹ پروف شیشہ لگوا چکا تھا، پھر اس نے جلسہ گاہ کی بجلی بند کرنے کی ہدایت دی، پورے جلسہ گاہ کی بجلی بند ہوگئی مگر سکرین کو بجلی شاید کہیں اور سے مل رہی تھی وہ بند نہ ہوئی وہ چلتی رہی۔
بالآخر سکرین پر وہ سین بھی چلا جب لوکاٹی کی حالت بری ہورہی تھی، وہ بیڈ پر لیٹا ہوا اوپر نیچے ہل رہا تھا کیمرہ اسکے چہرے پر تھا، اسکے چہرے سے صاف لگ رہا تحھا کہ وہ اس وقت بہت مزے میں ہے، اور پھر ایک لرکی یعنی تانیہ کی سسکیوں کی آواز آئی، اور انہی سسکیوں کے دوران تانیہ نے پوچھا کہ ہولستان کے سردار بھی حکومت میں حصہ مانگیں گے تو کیا کرو گے؟ تو لوکاٹی نے حقارت سے جواب دیا تھا کہ ان پاگلوں کو بھلا کیا ملنا ہے؟ آزادی کا اعلان اور ہندوستان سے الحاق کے اعلان کے بعد جب ہندوستانی آرمی ہولستان میں داخل ہوجائیں گی تو سب سے پہلے ان سرداروں کا ہی صفایہ ہوگا میں اپنی دولت اور اپنی حکومت میں کسی کو شامل نہیں کروں گا۔ یہ لائن چلنے کی دیر تھی کہ وہاں موجود تمام سردار اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے، اور ان سرداروں کی ماننے والی عوام بھی غصے سے پاگل ہوگئی، وہ سمجھ گئے تھے کہ لوکاٹی انہیں آزادی کے خواب دکھا کر صرف اپنے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس سے پہلے کہ کوئی سردار لوکاٹی کو مارتا، وہاں موجود لوکاٹی کے بیٹے نذر نے سوچا کہ یہی صحیح موقع ہے، ماریہ بی بی یعنی انجلی نے جو بتایا تھا کہ کب لوکاٹی کومارنہ ہے یہ تمہیں پتا چل جائے گا، اس نے اپنی گن نکالی اور اپنے باپ کی طرف لپکا، اس نے اپنے باپ کو غدار کہ کر پکارا اور اس پر نشانہ تان کر گولی چلا دی، اسکا خیال تھا کہ ہولستان رہے گا تو پاکیشا کے ساتھ ہی ، مگر اپنے غدار باپ کو موت کی نیند سلانے کے بعد پاکیشا کی آرمی اسی کو یہاں حکومت کےلیے چن لیں گی اور عوام بھی اس سے خوش ہوگی کہ اس نے اپنے وطن کی خاطر اپنے باپ کی جان لے لی، دوسری طرف کرم تھا جو گیم بگڑتی ہوئی دیکھ رہا تھا، وہ سمجھ گیا تھا کہ اب کوئی آزادی نہیں، اب کوئی حکومت نہیں، مگر جب اس نے دیکھا کہ نذر نے اپنے ہی باپ کو مار دیا ہے تو وہ سمجھ گیا کہ اگلا سردار اب نذر ہوگا، مگر وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا، اس نے اپنی گن نکالی اور اپنے بھائی کو گولیوں سے چھلنی کرنے لگا جبکہ نذر نے بھی آخری سانسیں لیتے ہوئے اپنی گن کا رخ کرم کی طرف کیا اور گن میں موجود باقی گولیاں کرم کے جسم میں اتار دیں۔
لوکاٹی کی گیم ختم ہوچکی تھی، کرنل وشال جو پاکیشا کو دو لخت کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا تھا وہ سب ملیا میٹ ہو چکا تھا، بارڈر کے پار جو انڈین آرمی پاکیشا پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھیں ان تک خبر پہنچ گئی تھی کہ ہولستان کی عوام پر لوکاٹی کی غداری عیاں ہوگئی ہے، اور اب وہاں کی عوام اپنی غیور افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے، لہذا ایسی صورت میں پاکیشا پر حملہ کرنا اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارنے کے برابر تھا۔ 6 ستمبر 1965 کو ابھی وہ بھولے نہیں تھے۔ ایسے میں دوبارہ سے اس ملک پر حملہ کرنا جہاں کی عوام اپنی فوج کے ساتھ گولیاں کھانے کے لیے اپنا سینہ تان کر کھڑی ہو وہاں حملہ کرنا سب سے بڑی بے وقوفی ہوگی۔
مگر دوسری طرف میجر دانش کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ جب اس نے لوکاٹی کی ویڈیو چلانے کا حکم دیا اور فون پر کرنل وشال کو معلوم ہوگیا کہ میجر دانش نے عفت کے آخری الفاظ سن کر بیوی اور بیٹے کی قربانی دینے کا سوچ لیا ہے تووہ غصے سے کانپنے لگا تھا، اسکا ذہن ماوف ہوگیا تھا، اب اسکے سامنے میجر دانش سے بدلہ لینے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ تھا اسکی بیوی اور بیوی کے پیٹ میں محض 1 سے ڈیڑھ ماہ کے بچے کو موت کے گھاٹ اتارنا تھا تاکہ میجر دانش ساری زندگی کرنل وشال کا یہ بدلہ نہ بھول سکے۔ تبھی میجر دانش کو فون پر گولی چلنے کی آواز سنائی دی، اور عفت کی ایک دلخراش چیخ میجر دانش کے کانوں کو چیرتی ہوئی چلی گئی۔۔۔۔ میجر دانش کے ہاتھ سے موبائل گر چکا تھا، اسکی دنیا اجڑ چکی تھی، اسکی پیاری بیوی جسکو ابھی اسنے جی بھر کر پیار بھی نہیں کیا تھا اسکی ایک چھوٹی سی غلطی کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ میجر دانش اپنی جگہ بیٹھا زارو قطار رو رہا تھا، جلسہ گاہ میں کیا ہورہا تھا، کب لوکاٹی کو نذر نے مارا، اور کب کرم نے نذر کو مارا، میجر دانش کو اسکا کچھ علم نہیں تھا۔ اگر اسکے ذہن میں کچھ تھا تو اسکی بے قصور بیوی اور اسکا بیٹا جو ابھی اس دنیا میں آیا ہی نہیں تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اسکی دنیا اجڑ گئی ہے، وہ اپنے آپ کو اپنی بیوی اور بچے کا قاتل سمجھ رہا تھا۔۔۔۔ مگر پھر اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میجر دانش کو ایک نئی زندگی ملی۔۔۔۔ جب اسکے کانوں میں پاکیشا زندہ باد۔۔۔۔ پاکیشا زندہ باد کے نعرے گونجنے لگے۔۔۔۔۔ ہندوستان مردہ باد، ہندوستان مردہ باد کے نعروں نے میجر دانش کو ایک نئی زندگی دی اور اسے یہ احساس دلایا کہ وہ اس وطن کا سپاہی ہے۔۔۔ اسکے سارے رشتے سارے ناطے بعد میں، سب سے پہلے یہ وطن ، اس وطن کی حفاظت۔ وطن ہے تو سب کچھ ہے۔۔۔ وطن نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
میجر دانش نے سر اٹھا کر دیکھا تو جلسہ گاہ میں لوکاٹی کی لاش عبر کا نشانہ بن چکی تھی، وہاں موجود عوام اور سرداروں نے لوکاٹی کی اصلیت جان لینے کے بعد اسکی لاش کو جلا دیا تھا۔ اور اب جلسہ گاہ کے سٹیج پر میجر دانش کا خاص آدمی موجود تھا جو مائک پر پر جوش آواز میں پاکیشا زندہ باد کے نعرے لگوا رہا تھا، اور انہیں بتا رہا تھا کہ اس غدارِ وطن نے کیسے یہاں کی عوام کو ان پڑھ رکھا اور انہیں انکی بیٹیوں کی عزت کی قسمیں دے کر اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ ہولستان کی وام کے دل میں وطن کی محبت موجود تھی، بس اس پر لوکاٹی کی جھوٹی کہانیوں نے تھوڑی گرد جما دی تھی، ویڈیو میں لوکاٹی کی اصلیت دیکھ لینے کے بعد یہ گرد اڑ گئی تھی اور وہی جذبہ جو اس قوم کے آباو اجداد کا 1947 میں تھا، آج 6 ستمبر کے موقع پر بھی اس قوم کے بیٹوں کا وہی جذبہ تھا اور لاکھوں کا مجمع تا قیامت اس ملک کی حفاظت اور اس ملک کو لوکاٹی جیسے خبیث لوگوں سے بچانے کی قسمیں کھا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میجر دانش اپنی بیوی اور بچے کی قربانی بھول گیا تھا۔ اب اسے اندازہ ہوا تھا کہ وہ ہارا نہیں، بلکہ وہ جیت گیا ہے۔ کرنل وشال کی زندگی بھر کی محنت رائیگاں گئی تھی، اسکے ناپاک منصوبے مٹی میں مل گئے تھے اور ہولستان ایک بار پھر پاکیشائی جھنڈوں سے سج گیا تھا۔
چیف آف آرمی سٹاف نے میجر دانش کو اس بڑی کامیابی پر مبارک باد دی ، وزیرِ اعظم نے بھی اس عظیم بغاوت کو کچلنے پر میجر دانش کو فون کر کے مبارک باد دی اور ترقی دینے کی خوشخبری سنائی۔ میجر دانش کو اپنی بیوی اور بچے کو کھو دینے کا غم تھا، مگر اب وہ کمزور نہیں تھا، بلکہ وہ خوش تھا کہ اس نے اپنی سب سے پیاری چیز کی قربانی دیکر اس ملک کو بچالیا تھا۔ یہی وطن کے سپاہی کی اصل دولت ہے۔ اب اسکے ذہن میں صرف ایک بات تھی۔ امجد سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرنا۔ اسکی بہن تانیہ کو با حفاظت اسکے گھر پہنچانا۔
انہی سوچوں کے ساتھ میجر دانش واپس کلاچی پہنچ چکا تھا۔ اور تانیہ کو ڈھونڈنا چاہتا تھا، اس نے میجر علینہ کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ تانیہ کہاں ہے؟؟؟ میجر علینہ نے میجر دانش کو خوشخبری سنائی کہ مبارک ہو، تانیہ مل گئی ہے، اور میں اس وقت تانیہ کو لیکر تمہارے گھر پر تمہاری امی کے ساتھ ہی ہوں، آجاو تم بھی ، تمہاری ماں اپنے بہادر بچے کو دیکھنے کے لیے بے چین ہورہی ہے۔ ماں کا سن کر میجر دانش بے اختیار اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ گھر پہنچ کر میجر دانش نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو دروازے پر ہی اسے اپنی ماں دکھائی دی، ماں کو دیکھتے ہی میجر دانش اپنی ماں سے لپٹ گیا، میجر دانش کی آنکھوں میں آنسو تھے، بہت عرصے بعد وہ اپنی ماں سے ملا تھا ، جس ماں کا چہرہ وہ روزانہ دیکھا کرتا تھا آج قریب 2 ماہ کے بعد وہ اپنی ماں سے مل رہا تھا۔ مگر اس ماں کی آنکھوں میں ایک آنسو بھی نہں تھا، بلکہ اس کی آنکھوں میں اپنے بہادر بیٹے کے لیے محبت ہی محبت تھی اور سینہ فخر سے پھولا ہوا تھا، اور چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان تھا جو شاید قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔ میجر دانش کے دل میں کہیں عفت کا بھی خیال تھا کہ اگر آج عفت بھی ہوتی تو وہ کتنی خوش ہوتی۔ ماں سے ملنے کے بعد میجر دانش نے میجر علینہ کی طرف دیکھا جو فخر سے میجر دانش کو دیکھ رہی تھی، اس نے میجر دانش کو ایک سلیوٹ کیا اور اسے اس شاندار کارنامے پر مبارک باد دی۔ میجر علینہ کے پیچھے تانیہ کھڑی تھی، وہ بھی خوش تھی اور اسکی آنکھوں میں جہاں میجر دانش کی کامیابی پر خوشی اور فخر تھا، وہیں شاید ایک کرب بھی تھا، وہ جانتی تھی کہ اب اسے میجر دانش سے جدا ہونا ہے۔ کچھ دن میجر دانش کے ساتھ گزار کر وہ اس سے پیار کرنے لگی تھی۔ اور ساری زندگی اسی کے ساتھ بتانا چاہتی تھی، مگر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔۔۔۔۔
تانیہ اپنی جگہ سے سائیڈ پر ہٹی تو اسکے پیچھے میجر دانش نے جو منظر دیکھا، اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ خوشی سے روئے یا چیخیں مارے۔ تانیہ کےپیچھے میجر دانش کو عفت نظر آئی تھی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ میجر دانش نے ایک بار اپنی آنکھیں ملیں اور پھر دوبارہ سے دیکھا تو عفت ابھی تک اپنی جگہ پر موجود تھی اور اسکی آنکھیں پر عزم اور اپنے شوہر کی بہادری پر فخر سے چمکتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ میجر دانش ایک دم سے آگے بڑھا اور سب کے سامنے ہی اپنی بیوی کو اپنے گلے سے لگا لیا، عفت بھی اپنے شوہر کے سینے سے لگ کر ساری اذیت بھول گئی تھی جو اسے کرنل وشال سے ملی تھی، یا جو جدائی کے دن اس نے سہاگ رات سے ہی گزارنا شروع کر دیے تھے، شوہر کے سینے سے لگ کر اسے اسکی دنیا واپس مل گئی تھی، اسکا پیار واپس مل گیا تھا۔ میجر دانش کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ آخر یہ سب کیسے ہوا؟
تب میجر علینہ نے میجر دانش کو کہا کہ تمہیں تانیہ کا بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہیے، جس نے کرنل وشال کی قید سے عفت کو نہ صرف بچایا بلکہ اسکو عبرت ناک سزا بھی دی، اور اسکی لاش اس وقت انڈین بارڈر پر پڑی ہے، اور کوئی اسے اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا۔ میجر دانش نے تانیہ کی طرف دیکھا اور اب کی بار آگے بڑھ کر اسے بھی گلے سے لگا لیا، اور اسکا ماتھا چوم کر اسکا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
اصل میں تانیہ جب کلاچی پہچنی تھی تو اس نے نذر کے بیٹے شاہ میر کو ایک چھوٹے سے ہوٹ میں کمرہ لیکر اسی میں ٹھہرا دیا تھا جبکہ خود وہ ائیر پورٹ چلی گئی تھی کیونکہ میجر دانش نے اسے بھی اپنی پاکیشا آمد کے بارے میں بتایا تھا اور وہ جانتی تھی کہ میجر دانش کلاچی ائیر پورٹ پر ہی آئے گا۔ اسنے اپنی حفاظت کی غرض سے ایک چھوٹی پسٹل بھی اپنے ساتھ رکھ لی تھی جو اس نے اپنے پاس موجود چھوٹے ہینڈ بیگ میں چھپا لی تھی۔ ائیر پورٹ پر پہنچ کر وہ دانش کو ڈھونڈنے لگی مگر وہاں اسکی نظر کرنل وشال پر پڑی جو عام کپڑوں میں ملبوس دیپیکا کے ساتھ ایک گاڑی میں بیٹھ رہا تھا، تانیہ نے وہیں سے ٹیکسی میں کرنل وشال کا پیچھا شروع کیا جو دیپیکا کو ایک ہوٹل میں ٹھہرا کر خود میجر دانش کے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ تانیہ کے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ کرنل وشال اسے پہچانتا نہیں تھا، وہ اتنا تو جانتا تھا کہ میجر دانش کے ساتھ کوئی تانیہ نامی لڑکی بھی ہے ، مگر وہ ابھی تک اسکو دیکھ نہیں پایا تھا اسی لیے جب کرنل وشال میجر دانش کے گھر کے پاس موجود ایک شاپنگ مال میں گیا تو تانی بھی بلا جھجک وہاں داخل ہوگئی اور وہ 2، 3 بار اسے سامنے سے بھی گزری۔ کرنل وشال بار بار اپنے فون پر کسی لڑکی کی تصویر دیکھ رہا تھا ایک بار تانیہ نے اسکے قریب سے گزرتے ہوئے اسکی طرف دیکھا تو وہ ابھی بھی کسی لڑکی کی تصویر دیکھ رہا تھا، اور پھر کچھ ہی آگے جا کر تانیہ کو ایک دکان میں وہی لڑکی نظر آئی جسکی تصویر کرنل وشال کے موبائل میں تھی ۔ یہ لڑکی عفت تھی جو کچھ دن پہلے ہی ڈاکٹر کے ہوکر آئی تھی اور اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے، اور اسی خوشی میں وہ اپنے ہونے والے بچے کی چھوٹی چھوٹی چیزیں دیکھنے شاپنگ مال میں موجود تھی۔
کرنل وشال دیپیکا کو چھوڑنے کے بعد میجر دانش کی بیوی کو اغوا کرنے آیا تھا اور یہاں موجود اسکے لوگوں نے کرنل کو اطلاع دی تھی کہ میجر کی بیوی عفت اس وقت ایک شاپنگ مال میں موجود ہے۔ تانیہ ابھی عفت سے ملی نہیں تھی وہ دور کھڑی اسے دیکھ رہی تھی، وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کون ہے۔ پھر اسے کرنل وشال دکھائی دیا جو عفت کی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔ تانیہ دور کھڑی عفت کو اور کرنل وشال کو دیکھ رہی تھی، اسکا خیال تھا کہ یہ یقینا کرنل وشال کی ساتھی ہوگی جو اسکی یہاں مدد کرتی ہوگی۔ اتنے میں کرنل وشال عفت کے قریب جا کر بولا ہیلو عفت میڈیم کیسی ہیں آپ؟؟؟؟ عفت نے کرنل وشال کو دیکھا اور حیرت سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی سوری میں نے آپکو پہچانا نہیں۔۔۔۔ کرنل وشال نے کہا آپ میجر دانش کی وائف ہیں نا؟؟؟ اس پر عفت نے کہا ہاں۔۔۔۔ مگر آپ کون؟؟؟ کرنل نے انتہائی خوش اخلاقی سے کہا میں کرنل ہوں، کرنل مشتاق، دانش سے آپکے بارے میں بہت سنا تھا، آپکی تصویر بھی دیکھی تھی، آج اپ سے ملاقات بھی ہو ہی گئی۔ پھر عفت کی خیریت پوچھ کر کرنل وشال واپس شاپنگ مال سے واپس چلا گیا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر عفت کا انتظار کرنے لگا۔ تانیہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہیے اس نے دیکھا کہ عفت بھی شاپنگ ختم کر کے شاپنگ مال سے باہر جا رہی تھی، تانیہ بھی اسکے پیچھے پیچھے جانے لگی کہ اچانک اسنے دیکھا عفت ایک کالی گاڑی کے قریب سے گزری تو گاڑی کا دروازہ کھلا اور اندر سے ایک ہاتھ نکلا جس نے عفت کو گاڑی کے اندر کھینچ لیا۔ اور گاڑی فراٹے بھرتی شہر سے دور جانے لگی۔
تانیہ نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑکی کون ہے، وہ تو بس کرنل وشال سے اپنی مظلوم ماں کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔ اسی لیے وہ کرنل وشال کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ پھر سے ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر اس گاڑی کے پیچھے پیچھے شہر سے دور ایک کچی آبادی میں داخل ہوگئی تھی جہاں دور کالی گاڑی رک چکی تھی اور ایک آدمی عفت کو گود میں اٹھائے ایک مکان کے اندر لے گیا تھا جبکہ گاڑی سیدھی نکل گئی تھی۔ عفت نے ٹیکسی اس گھر سے دور رکوائی اور گاڑی والے کو پیسے دیے اور اس گھر کی طرف چل پڑی۔ اس آبادی میں آس پاس کوئی شخص موجود نہیں تھااس نے گھر کا چاروں طرف سے جائزہ لیا اور پھر ایک چھوٹی دیوار کو دیکھ کر انہتائی مہارت کے ساتھ اس دیوار پر چھڑ کر گھر کے اندر چھلانگ لگا دی۔ چھلانگ لگاتے ہوئے اس نے اس بات کا خیال رکھا کہ زیادہ آواز پیدا نہ ہو اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی تھی، کراٹے کی ٹریننگ تو وہ پہلے ہی لے چکی تھی جب وہ ہندوستان میں تھی۔ اور امجد کے ساتھ بھی اس طرح کے کام اسکی روز مرہ زندگی کا حصہ تھے۔ گھر کے اندر جا کر وہ بڑی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے لگی اور اس نے اپنی گن نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے لوڈ بھی کر لیا تھا اور سیفٹی لاک بھی ہٹا چکی تھی۔ تب اسے ایک کمرے کے سامنے کچھ ہلچل دکھائی دی، دروازہ باہر کی طرف کھلا تھا اور اسکے نیچے سے آنے والی روشنی سے اندازہ ہورہا تھا کہ دروازے کے دوسری طرف کوئی موجود ہے، تانیہ بہت احتیاط کے ساتھ اس کمرے کے قریب گئی تو اندر کرنل وشال کا قہقہ سنائی دیا ، اور پھر اسے عفت کی آواز سنائی دی جو میجر دانش کو فون پر حوصلہ دے رہی تھی اور وطن کی خاطر اپنی بیوی کی اور ہونے والے بچے کی فکر نہ کرنے کی تلقین کر رہی تھی۔ تانیہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ یہ میجر دانش کی بیوی تھی اور امید سے تھی۔ اسکے پیٹ میں میجر دانش کا بچہ تھا۔ اور ظالم کرنل وشال اسے مارنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔
تانیہ نے کچھ دیر انتظار کیا پھر دبے قدموں کے ساتھ دروازے کی اوٹ لیکر اندر کا منظر دیکھنے لگی، جہاں کرنل وشال میجر کو سمجھا رہا تھا کہ لوکاٹی کی ویڈیو نہ چلائے تو اسکی بیوی کی جان بچ جائے گی۔ تانیہ اب اپنی ماں کا بدلہ بھول چکی تھی، اسکے نزدیک اب ایک وطن کے سپاہی کی بیوی اور اسکے ہونے والے بچے کی زندگی تھی جن کی پرواہ کیے بغیر وہ سپاہی اپنے وطن کو بچانے کی آخری کوشش کررہا تھا۔ پھر جب کرنل وشال کو فون پر لوکاٹی کی ویڈیو کی سیی ڈی چلنے کی آواز آئی تو اس نے میجر دانش کو للکارا کہ تو نہیں مانا یہ لے تیرے بیوی بچے گئے، پھر کرنل وشال نے عفت کی طرف اپنی بندوق کا رخ کیا اور گولی چلنے کی آواز آئی تو عفت کی ایک زور دار چیخ نکلی۔ یہ گولی کرنل وشال کی نہیں بلکہ تانیہ کی پسٹل سے نکلی تھی جو سیددھی کرنل وشال کے دائیں کندھے میں جا کر لگی تھی، عفت یہی سمجھی کہ یہ گولی اسکے اوپر چلی ہے جسکی وجہ سے اسکی بے اختیار چیخ نکل گئی تھی جبکہ کرنل وشال کے ہاتھ سے گن گر گئی اور دور جا گری، اس نے تکلیف کی شدت سے اپنا کندھا پکڑ لیا اور پیچھے مڑکر دیکھا جہاں ایک نوجوان لڑکی اس پر بندوق تانے کھڑی تھی۔ کرنل کی آنکھوں میں اب خوف تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی گری ہوئی گن کی طرف جانا شروع کی اور تانیہ سے پوچھا تم کون ہو؟؟؟ تانیہ نے کہا میں بھی میجر دانش کی طرح اس ملک کی سپاہی ہوں۔ میرا نام تانیہ ہے۔۔۔ تانیہ کا نام سن کر کرنل وشال فورا سمجھ گیا کہ یہ امجد کی ساتھی ہے۔ کرنل وشال نے کہا مگر تمہارے بھائی کو تو میں آزاد کر چکا ہوں تم اب یہاں کیا لینے آئی ہو؟؟؟ تو تانیہ نے کہا اس لڑکی کو بچانے آئی ہوں میں، یہ اس وطن کے سپاہی کی عزت ہے ، اور تجھ جیسا بے غیرت انسان اسکی طرف بری نظر سے دیکھے یا اسکو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، ایسا میں ہونے نہیں دوں گی۔ اس دوران کرنل وشال اپنی گن کے قریب پہنچ چکا تھا، اس نے جھک کر اپنی گن اٹھانی چاہیے تو تانیہ کی پسٹل سے ایک اور گولی نکلی جو کرنل وشال کے پاوں میں لگی اور ہ لڑکھڑا گیا اور زمین پر آگرا، اور تانیہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر کرنل وشال سے کچھ فاصلے پر پڑی گن اپنے پاوں سے دور کر دیا اور پھر کرنل وشال ی طرف بندوق تان کر کھڑی ہوگئی۔
کرنل وشال اب زمین پر لیٹا تکلیف سے کراہ رہا تھا، اسکو اس چیز کی تکلیف تھی کہ اسے مارنے والا کوئی پاک آرمی کا جوان نہیں بلکہ ایک معمولی لڑکی ہے۔ یہ دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا، اسکی موت اسکی آنکھوں کے سامنے تھی، وہ ہمیشہ سے میدان جنگ میں اپنی ٹکر کے انسان سے گولی کھا کر مرنا چاہتا تھا مگر یہاں چوہے کی طرح ایک معمولی اور معصوم لڑکی کے ہاتھوں موت اسے کسی صورت قبول نہیں تھی۔ وہ ساری زندگی لڑا تھا، مگر اس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک لڑکی کے ہاتھوں کتے کی موت مارا جائے گا۔ اب تانیہ نے کرنل وشال کو کہا، صرف اس لڑکی کو بچانے ہی نہیں بلکہ میں اپنی ماں کا بدلہ لینے بھی آئی ہوں، آج سے 10 سال پہلے تو نے کشمیر کے ایک گاوں میں میرے باپ اور میری ماں کو میری آنکھوں کے سامنے مار دیا تھا، اور تجھ جیسے بے غیرت انسان نے میری ماں کو مارنے سے پہلے اسکی عزت بھی تار تار کر دی تھی، تب میں ایک چھوٹی سی 10 سال کی بچی تھی جو اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی، تب سے میں امجد کے ساتھ ہوں، صرف ایک وجہ سے، کہ اپنی مظلوم ماں کا بدلہ لے سکوں اور تجھے موت کے گھاٹ اتار کر ہزاروں معصوم عورتوں کی عزت بچا سکوں ۔۔ آج تو مل ہی گیا آخر کار آج تو تجھے میں ہیں چھوڑوں گی، یہ کہ کر تانیہ نے ایک اور گولی چلائی جو کرنل کے بازو میں لگی تھی۔
پھر تانیہ نے عفت کی طرف بڑھ کر اسکے ہاتھوں سے رسی کھول دی اور اسکی ٹانگوں کو بھی آزا د کر دیا، اس دوران وہ پوری طرح چوکنی تھی کہ کرنل وشال اپنی جگہ سے ہلنے نا پائے، وہ جانتی تھی کہ 3 گولیاں لگنے کے باوجود کرنل کسی بھِ وقت جوابی حملہ کر سکتا تھا، دشمن کو کمزور نہ سمجھنا اس نے دانش سے سیکھا تھا۔ عفت کو آزاد کروانے کے بعد تانیہ نے کمرے میں نظریں دوڑائیں ۔ تو اسے ایک لوہے کا راڈ نظر آیا، تانیہ نے پہلے کرنل وشال کی گن اپنے قبضے میں کی پھر لوہے کا راڈ اٹھا کر کرنل وشال کی طرف بڑھی اور کرنل وشال کی دونوں ٹانگوں کے درمیان تانیہ نے ایک زور دار وار کیا، لوہے کا راڈ سیدھا کرنل کے لن پر جا کر لگا جس سے اسکی دلخراش چیخیں پورے کمرے میں گونجنے لگیں، پھر تانیہ نے اسی جگہ پر ایک اور وار کیا، پھر دوسرا پھر تیسرا۔۔۔۔ لگاتار وار کر کرکے تانیہ نے کرنل کی حالت غیر کر دی تھی، 3 گولیاں کھانے کے بعد بھی شاید کرنل وشال اٹھ کر جوابی حملہ کر سکتا تھا مگر اب جس جگہ پر تانیہ نے حملے کیے تھے اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ کرنل وشال اٹھنے کی ہمت کر سکے۔ پھر تانیہ نے بندوق اٹھائی اور بولی تو ٹینا کا بدلہ اس معصوم سے لینا چاہتا تھا نہ، تو سن میجر دانش ایک فرض شناس سپاہی ہے ، اس نے تیری بیٹی کو ایک خراش تک نہیں پہنچائی، صرف تجھے دھمکی دی تاکہ تو ہمارے ساتھیوں کو چھوڑ دے، آج بھی تیری بیٹی اپنے گھر بیٹھی میجر دانش کا انتظار کر رہی ہوگی، وہ تو میجر سے محبت کرنے لگ گئی، ہمارا سپاہی تمہارے وطن گیا تو وہاں کی بیٹی ہمارے سپاہی کی محبت میں ڈوب گئی اور آج بھی میجر دانش کے انتظارمیں ہے، اور تجھ جیسا بے غیرت شخص جو مردوں کی طرح لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا ہمارے سپاہیوں کی عزت پر ہاتھ ڈالنے چلا تھا ؟؟؟ مگر تو یہ بھول گیا کہ اس قم کی بیٹیاں بھی کسی سپاہی سے کم نہیں، تجھ جیسے بھارتی چوہوں کو تو ہم اپنے پاوں تلے روند دیں گی۔
یہ کہ کر تانیہ نے کرنل وشال کے لن کا نشانہ لیکر ایک اور گولی چلائی جس سے کرنل کی چیخیں کمرے میں گونجنے لگیں۔ کچھ ہی دیر میں یہ چیخیں ختم ہوگئی تھیں کرنل بے ہوش ہوچکا تھا، درد کی شدت سے وہ اپنے ہوش و ہواس کھو چکا تھا۔ تانیہ کرنل کے لن پر اس لیے حملے کر رہی تھی کہ اسی لن سے اس نے تانیہ کی ماں کی عزت لوٹی تھی۔ تانیہ نے اس لن کا سرے سے ہی خاتمہ کر دیا تھاکرنل کو بے ہوش حالت میں چھوڑ کر تانیہ عفت کو لیکر اس مکان سے باہر آگئی، مگر اپنی پسٹل میں ایک گولی وہ کرنل کے لیے چھوڑ آئی تھی۔ کرنل کو جب ہوش آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ اب نامرد ہوچکا ہے ، تو اسنے پاس پڑی پسٹل سے خود ہی اپنے سر میں گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ کسی بزدل کی طرح خود کشی کر کے کرنل وشال نے اپنے آپکو اس ذلت سے تو بچا لیا تھا جو ناکام کی کالک منہ پر لیے اور نا مردی کا غم دل میں لیے وہ زندہ اپنے ملک واپس جاتا، مگر کسی بزدل کی طرح خود کشی کرنے کی ذلت رہتی دنیا تک اسکے لیے بدنامی کا باعث بن گئی تھی۔
عفت کو خیریت سے گھر پہنچانے کے بعد تانیہ جانے لگی تو عفت نے اسے روک لیا اور میجر دانش کے آنے تک رکنے کو بولا، تانیہ میجر کے آنے سے پہلے پہلے یہاں سے چلی جانا چاہتی تھی مگر ایسا نہ ہوسکا عفت کو وہ انکار نا کرسکی۔ پھر میجر علینہ بھی وہیں آگئی تو تانیہ نے میجر علینہ کو کرنل وشال کے انجام کے بارے میں بتایا، میجر علینہ نے آرمی کے کچھ نوجوان بھیج کر کرنل وشال کی موت کی تصدیق کروائی اور پھر اسکی لاش کا تحفہ بارڈر پر بھجوا دیا اسکی لاش سے نا امیدی واضح نظر آرہی تھی اور اسکی کنپٹی میں گولی کا نشان اس بات کا ثبوت تھا کہ اتنے بڑے کرنل نے خود کشی کر لی جو انڈین آرمی کے لیے کسی زلت سے کم نہیں تھی۔
میجر دانش کو یہ سب معلوم ہوا تو اس نے ایک بار پھر تانیہ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر سجدہ ءِ شکر ادا کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
تانیہ ایک دن میجر دانش کے گھر ہی رہی، پھر اگلے دن میجر دانش کی پروموشن کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد عفت اور دانش نے اپنی ادھوری سہاگ رات کو مکمل کرنے کا پروگرام بنایا، مگر یہ پروگرام اب گھر پر نہیں بلکہ آزاد کشمیر جا کر بنانا تھا۔ عفت اور دانش تانیہ کو ساتھ لیے آزاد کشمیر چلے گئے تھے جہاں مقبوضہ کشمیر کی سرحد پر لیفٹینینٹ کرنل دانش نے تانیہ کو امجد کے سپرد کر دیا تھا، امجد بھی لیفٹینینٹ کرنل دانش کو دیکھ کر اور اسکے کارنامے اور ترقی کا سن کر بہت خوش ہوا ساتھ ہی اپنا وعدہ نبھانے اور تانیہ کو صحیح سلامت واپس اسکے گھر پہنچانے پر وہ لیفٹینینٹ کرنل دانش کا بہت شکر گزار تھا۔ واپسی سے پہلے امجد نے دانش کو اپنی اور تانیہ کی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا آئندہ کبھی بھی وطنِ عزیز کو ہماری ضرورت پڑے تو ہمیں ضرور بتانا ، وطن کی خاطر جان دینے پڑے تو ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ کہ کر امجد لیفٹینینٹ کرنل دانش سے گلے ملا اور اپنی بہن تانیہ کو لیکر واپس مقبوضہ کشمیر چلا گیا، جبکہ دانش اپنی نئی نویلی دلہن کو، جسکے ساتھ اس نے محض 2 سے 3 گھنٹے ہی سہاگ رات کے گزارے تھے، لیکر ایک آرمی کے ہٹ میں چلا گیا جو اس نے سپیشل اپنی ادھوری سہاگ رات کو مکمل کرنے کے لیے بک کروایا تھا۔ اپنے کمرے میں جاتے ہی عفت واش روم میں گئی، اور جب باہر نکلی تو اسکے بدن پر ایک سیکسی نائٹی جسکو دیکھ کر لیفٹینینٹ صاحب کا 8 انچ کا لن اپنی پینٹ میں سر اٹھا چکا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ 8 انچ کا لن عفت کے منہ میں تھا جسے وہ بہت مزے سے چوس رہی تھی اور دانش سوچ رہا تھا کہ جو مزہ اپنی بیوی کے ساتھ سیکس کرنے میں ہے وہ کسی اور کے ساتھ سیکس کرنے میں نہیں۔ جسمانی لذت تو شاید کوئی اور عورت پہنچا بھی دے، مگر روح کو تسکین تبھی ملتی ہے جب پیار کرنے والی بیوی کے ساتھ سیکس کیا جائے۔
آگے لیفٹینینٹ کرنل دانش نے اپنی بیوی کو کیسے چودا، کتنی دیر چودا، کس کس پوزیشن میں چودا، یہ بتانے کی ضرورت یہاں نہیں ہے۔۔۔
امید ہے تمام میمبرز کو میری یہ کوشش پسند آئی ہوگی جس میں سیکس کے ساتھ ساتھ میں نے وطن کی محبت کو اجاگر کرنے کی بھی ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اگر پسند آئے تو ایک بار زور سے نعرہ ضرور لگائیے گا:
پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔
<<<<<<<<<<<<<<<<<<<ختم شد>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>
ماریہ کو اس حالت میں دیکھ کر ماریہ کی گانڈ کے نیچے موجود لوکاٹی کے لن نے اپنا سر اٹھا لیا اور مکمل طور پر کھڑا ہوکر ماریہ کی چوت میں جانے کی ضد کرنے لگا۔ مگر ماریہ نے اس پر اپنی گانڈ کا دباو ڈال کر اسے نیچے بٹھا دیا اور صبر کرنے کو کہا۔ ماریہ اس وقت ایک ہلکے نیلے رنگ کی جالی دار نائٹی پہنے ہوئی تھی جس میں اسکے کندھے مکمل ننگے تھے محض باریک ڈوریوں کے ذریعے نائٹی اسکے بدن پر رکی ہوئی تھی۔ ماریہ کا برا گہرے نیلے رنگ کا تھا، فوم والا یہ برا انڈر وائیرڈ تھا یعنی اسکے نیچلے حصے میں ایک رنگ ڈلا ہوا تھا جو مموں کو نہ صرف اوپر کی طرف اٹھاتا ہے بلکہ انکو آپس میں جکڑ کر ایکدوسرے کے ساتھ بھی ملاتا ہے جسکی وجہ سے سیکسی کلیویج بنتی ہے اور چھوٹے ممے ہونے کے باوجود اوپر سے دیکھنے میں بڑے لگتے ہیں۔ اور ماریہ کے ممے تو ویسے ہی 36 سائز کے تھے اور اس پر انڈر وائیرڈ برا نے جو مموں کو اٹھایا تو انکی ایسی خوبصورت اور سیکسی شیپ بنی کے کوئی بھی مرد انکو پکڑنے کےلیے بے اختیار اپنے ہاتھ بڑھا دے۔ ماریہ کے بھی دونوں ممے آپس میں مل کر گہری لائن بنا رہے تھے اور انکا ابھار بھی کافی بڑھ گیا تھا جسکی وجہ سے 36 سائز کے ممے اب 38 سائز کے لگ رہے تھے ۔ برا کے اوپر ماریہ کی باریک جالی دار نائتی تھی جو موم بتی کی ہلکی روشنی مین بہت سیکسی لگ رہی تھی ، یہ نائٹی سینے کے اوپر ایک باریک سی ڈوری کے ساتھ بندھی ہوئی تھی جبکہ اسکے نیچے مکمل کھلی تھی جسکی وجہ سے ماریہ کا پتلا اور سیکسی پیٹ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔ ماریہ کی ناف کی ہلکی سی گہرائی اور چھوٹا سا رنگ بہت خوبصور تھا۔ نائٹی ماریہ کے چوتڑوں تک آکر ختم ہوری تھی جبکہ سامنے سے پینٹی تک بھی نہیں آرہی تھی پینٹی کے اوپر ہی ختم ہورہی تھی۔ نیچے ماریہ نے ایک بہت ہی سیکسی نیلے رنگ کی پینٹی پہن رکھی تھی جو سامنے سے محض اسکی چوت کی لائن کو ڈھانپ رہی تھی جبکہ چوت کی لائن کے ساتھ والا حصہ واضح نظر آرہا تھا اور ماریہ کی بالوں سے پاک نرم و ملائم ٹانگیں اور گوشت سے بھری ہوئی تھائیز بھی بہت سیکسی لگ رہی تھی۔
لوکاٹی کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت اور سیکسی لڑکی کی آج چدائی کرنے والا ہے۔ وہ بلا اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا تھا اور ماریہ اب اسکی گود میں تھی، اٹھ کر بیٹھتے ہی لوکاٹی نے اپنے ہاتھ ماریہ کی پتلی کمر کے گرد لپیٹ لیے تھے جس پر ایک باریک نائٹی موجود تھی جبکہ اسکے ہونٹ ماریہ کے مموں کے ابھاروں پر کلیویج لائن میں پیار کر رہے تھے۔ لوکاٹی اپنی زبان نکال کر مموں کے درمیان ملاپ سے بننے والی لائن کی گہرائی میں اتار رہا تھا مگر اسکی زبان اتنی لمبی نہیں تھی کہ وہ ماریہ کے مموں کی لائن کی گہرائی تک جا سکے۔ کچھ دیر تک وہ اسی طرح ماریہ کی کمر پر ہاتھ رکھے اسکے مموں کے ابھاروں پر پیار کرتا رہا پھر اس نے ماریہ کو بیڈ پر لٹا لیا اور خود ماریہ کے اوپر آکر ماریہ کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبانا شروع کر دیا۔ ماریہ نے اپنی زبان باہر نکال کر اپنے ہونٹوں پر پھیرنی شروع کر دی جس سے لوکاٹی کی خواری میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور وہ ایک بار پھر سے ماریہ کے اوپر جھک کر اسکے مموں کی لائن میں زبان پھیرنے لگا۔ کچھ دیر اسی طرح پیار کرنے کے بعد لوکاٹی کچھ نیچے آیا اور اسکے پیٹ پر اپنے ہونتوں سے پیار کرنے لگا۔ پیٹ سے پیار کرتے کرتے وہ نیچے کی طرف آرہا تھا اور ماریہ کی خوبصورت ناف میں اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی جس سے ماریہ کا پیٹ تھر تھر کانپنے لگا تھا۔
ناف سے نیچے آکر لوکاٹی نے اپنے دونوں ہاتھ ماریہ کے چوتڑوں کے نیچے رکھ لیے تھے اور انہیں ہلکا سا اٹھا کر خود ماریہ کی چوت کے اوپر جھک گیا تھا۔ کچھ دیر تک ماریہ کی چوت کے سائیڈ پر ننگے حصے پر زبان پھیرنے کے بعد اب لوکاٹی ماریہ کی باریک پینٹی کے اوپر سے ماریہ کی چوت کی لائن پر اپنی زبان پھیر رہا تھا جسکی وجہ سے ماریہ کی چوت کافی گیلی ہوگئی تھی۔ کچھ دیر چوت چاٹنے کے بعد اب لوکاٹی کی زبان ماریہ کی گوشت سے بھری ہوئی تھر تھر ہلتی ہوئی تھائیز پر تھی۔ پھر لوکاٹی نے ماریہ کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر اوپر اٹھایا اور اپنے ہاتھ ماریہ کی گانڈ کے نیچے رکھ کر اسے بھی اوپر اٹھا کر اس طرح موڑ دیا کہ ماریہ کی کمر اوپر کی طرف مڑ گئی تھی اور اب ماریہ کے چوتڑ واضح نظر آرہے تھے، ماریہ کی سیکسی پینٹی پیچھے سے صرف اسکی گانڈ کی لائن کو ہی چھپا رہی تھی باقی چوتڑ مکمل ننگے تھے اور اب کی بار لوکاٹی نے پینٹی کو ماریہ کی گانڈ کی لائن سے سائیڈ پر ہٹا کر اسکی گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان رکھ دی تھی اور اسکو چوسنا شروع کر دیا تھا جس سے ماریہ کا پورا جسم کانپنے لگا تھا۔ اسے لوکاٹی کا یہ دیوانہ پن بہت اچھا لگ رہا تھا۔ کچھ دیر تک لوکاٹی ماریہ کو اسی طرح پیار کرتا رہا، مگر ماریہ نے ابھی تک نا تو اپنی پینٹی اتارنے دی تھی اور نہ ہی اپنی نائٹی اور برا اتارنے دیا تھا۔
کچھ دیر بعد ماریہ نے لوکاٹی کو گانڈ چاٹنے سے روک دیا اور لوکاٹی کو نیچے لیٹنے کےلیے کہا۔ لوکاٹی نیچے لیٹا تو ماریہ نے بغیر وقت ضائی کیے لوکاٹی کی وقمیص اوپر اٹھا دی اور اسکا ناڑا کھول کر اسکی شلوار میں ہاتھ ڈالا اور اسکا تنا ہوا لن باہر نکال لیا۔ لن باہر نکالنے کے بعد ماریہ اسکے اوپر جھکی اور اپنی زبان باہر نکال کر لوکاٹی کے لن کی ٹوپی سے نکلنے والی مذی کو اپنی زبان کی نوک سے چاٹ لیا۔ لوکاٹی کو اپنے لن کی ٹوپی پر ماریہ کی زبان کا لمس بہت اچھا محسوس ہوا، مگر ماریہ نے زبان پر لگنے والی اس مذی کو نہ تو نگلا اور نہ ہی اپنی زبان اندر کی، بلکہ وہ اپنی گانڈ لوکاٹی کے لن پر رکھ کر لوکاٹی کے اوپر جھک گئی اور اسکا منہ کھلوا کر اسکی زبان باہر نکلوا کر اپنی زبان پر لگی ہوئی مذی کو لوکاٹی کی زبان کی نوک پر لگا دیا۔ لوکاٹی کو اپنی مذی کا نمکین ذائقہ بہت اچھا لگا، اس نے پہلی بار مذی کا ذائقہ محسوس کیا تھا۔ اور پھر اس نے ماریہ کی زبان کی چوسنا شروع کر دیا تھا، ماریہ لوکاٹی کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور لوکاٹی کا لن ماریہ کی چوت کے بالکل نیچے تھا جو ماریہ کو اکسا رہا تھا کہ وہ جلدی سے اپنی پینٹی اتارے اور لوکاٹی کے تنے ہوئے لن کو اپنی چوت میں داخل کر لے۔ ۔
لوکاٹی بڑے مزے کے ساتھ ماریہ کی زبان کو چوسنے میں مصروف تھا اور پیچھے سے اس نے ماریہ کے بھاری بھر کم چوتڑوں کو اپنے ہاتھ میں پکر رکھا تھا اور تھوڑی کوشش کر کے اپنی ایک انگلی ماریہ کی گانڈ پر بھی پھیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ماریہ نے کھ دیر اسی طرح لیٹے لیٹے لوکاٹی کو اپنی چوت اور زبان کا مزہ دیا اسکے بعد ماریہ لوکاٹی کے لوڑے پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی اور اپنے ممے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر انہیں ہلانے لگی جس سے لوکاٹی کی خواری میں اور اضافہ ہورہا تھا پھر ماریہ نے لوکاٹی کو لیٹے رہنے کا اشارہ کیا اور خود لوکاٹی کے اوپر سے اٹھ کر پاس پڑے فریج کی طرف گئی اور اس میں سے ایک پلیٹ نکال لائی جس میں انگوروں کا ایک گچھا پڑا تھا۔ ماریہ نے وہ پلیٹ اٹھا کر لوکاٹی کے ساتھ رکھی اور ایک بار پھر لوکاٹی کے لن کے اوپر اپنی چوت کر رکھ کر بیٹھ گئی مگر اسکی پینٹی ابھی اتری نہیں تھی۔ پھرماریہ نے اپنے دونوں مموں سے برا کو ہٹا دیا اور اپنے بڑے بڑَ مموں کو نیچے سے پکڑ کر اور اوپر اٹھا کر انکی کلیویج بنا کر لوکاٹی کو دکھانے لگی۔ ماریہ کی ان حرکتوں سے لوکاٹی کی خواری بڑھتی جا رہی تھی اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ آج ماریہ کی چوت میں لن ڈالنے سے پہلے ہی اسکا لن منی چھوڑ دے گا۔
لوکاٹی نے ہاتھ آگے بڑھا کر ماریہ کے مموں کو پکڑنا چاہا تو ماریہ نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی جب تک میں نہیں کہوں گی تب تک انہیں چھیڑنا بھی مت۔ یہ کہ کر ماریہ نے ایک انگور توڑا اور اسے اپنے ہونٹوں میں پھنسا کر لوکاٹی کے اوپر جھک گئی ، لوکاٹی نے فوری اپنا منہ کھول دیا اور ماریہ نے وہ انگور کا دانہ لوکاٹی کے منہ میں ڈال دیا اور ساتھ ہی اسکی زبان کو اپنے ہونٹوں میں لیکر نہ صرف چوسا بلکہ تھوڑا سا تھوک بھی لوکاٹی کے حلق میں انڈیل دیا۔ پھر ماریہ نے ایک اور انگور کا دانہ توڑا اور اسے اپنی پینٹی سے کچھ اوپر زیرِ ناف سے لیکر اپنے سیکسی اور گرم جسم سے رگڑتی ہوئِ اپنے مموں تک لائی اور پھر وہ اپنے ہاتھ سے لوکاٹے کے منہ میں ڈال دیا جسکو لوکاٹی نے مزے سے کھا لیا۔ پھر ماریہ نے انگوروں کے گچھوں سے زیادہ دانے توڑے اور قریب 10 دانوں کو اپنے مموں کے اوپر بننے والی کلیویج میں پھنسا کر اپنے دونوں ممے آپس میں ملا لیے۔ 2، 3 دانے نیچے گرے مگر باقی دانے ماریہ کے مموں کے اوپر ہی پڑے رہے ، پھر ماریہ نے لوکاٹی کو دعوت دی کہ وہ بغیر ہاتھ لگائے اپنی زبان سے ایک ایک دانہ اٹھائے اور اپنے منہ میں ڈالتا رہے۔
لوکاٹی فورا اٹھا اور اس نے اپنی زبان ماریہ کے مموں کے اوپر پڑے ہوئے انگوروں پر رکھ دی اور اپنی زبان کی مدد سے ایک ایک انگور کر کے کھاتا چلا گیا یوں سارے انگور وہ ماریہ کے مموں سے کھا گیا۔ جب ماریہ کے ممے خالی ہوگئے تو ماریہ نے مموں پر لگا انگوروں کا پانی چاٹنے کا کہا تو لوکاٹی وہ بھی چاٹ گیا۔ پھر ماریہ نے انگوروں کا ایک اور دانہ توڑا اور اسکو اپنے نپل کے اوپر رکھ کر لوکاٹی کو کہا کہ اپنے منہ سے یہ انگور کا دانہ اس طرح چوسے کہ نہ تو وہ اسکے نپل سے علیحدہ ہو اور نہ ہی وہ اسکے منہ میں جائے۔ لوکاٹی نے فوران آگے بڑھ کر انگور کا وہ دانہ اپنے منہ میں لے لیا مگر اسے اپنے ہونٹوں سے آگے نہیں جانے دیا تاکہ وہ اس دانے کو ماریہ کے نپل کے ساتھ لگا رہنے دے۔ اس دوران لوکاٹی نے ماریہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے ماریہ کا ایک مما اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا تھا تاکہ وہ پیچھے نہ ہوسکے۔ پھر کچھ دیر کے بعد ماریہ نے یہی دانہ کھانے کو کہا تو لوکاٹی نہ صرف فورا ہی اس دانے کو نگل گیا بلکہ ساتھ ہی اس نے ماریہ کے نپل پر بھی اپنے ہونٹ رکھ کر انکو زور سے چوس لیا جس سے ماریہ کی ایک ہلکی سی سسکاری نکلی مگر اس لوکاٹی کو اس حرکت پر کچھ نہیں کہا۔ پھر ماریہ نے ایک اور دانہ اپنے دوسرے نپل پر رکھا اور اسکو بھی اسی طرح پہلے چوسنے اور بعد میں کھانے کو کہا، لوکاٹی نے دوسرے نپل سے بھی دانہ کھا کر ماریہ کا نپل چوس لیا جس سے ماریہ کی چوت میں چکناہٹ بڑھنے لگی تھی۔ پھر ماریہ نے دوبارہ سے انگوروں کے کچھ دانے توڑے اور خود بیڈ پر لیٹ کر ایک دانہ اپنی ناف میں ڈال کر لوکاٹی کو اپنی زبان سے نکالنے کو کہا۔ لوکاٹی ماریہ کے اوپر جھک گیا اور اسکی ناف سے اس دانے کو نکالنے کی کوشش کرتا رہا۔ تھوڑی سے کوشش کے بعد ماریہ کی ناف سے لوکاٹی نے وہ دانہ نکال کر کھا لیا تو ماریہ نے ایک اور دانے اپنی ناف میں ڈال دیا، اسکی بھی لوکاٹی اسی طرح کھا گیا۔ پھر ماریہ نے کچھ دانے اپنے پیٹ پر رکھے اور اپنا سانس روک کر پیٹ کو اندر کی طرف کھینچ لیا تاکہ دانے نیچے نہ گرے۔ یہ تمام دانے بھی لوکاٹی ایک ایک کر کے ماریہ کے گرم گرم پیٹ سے تمام دانے کھا گیا۔ ۔۔
پھر ماریہ الٹی ہوکر لیٹ گئی اور لوکاٹی کو کچھ دانے پکڑائے کہ وہ ان دانوں کو ماریہ کی گانڈ کی لائن میں ڈال دے، لوکاٹی نے ماریہ کی پینٹی گانڈ کی لائن سے نکالی اور اس کو تحوڑا سا کھول کر اس میں انگور کے دان ڈال دیے، ماریہ نے فورا ہی اپنے خوبصورت چوتڑوں کو آپس میں دبا کر ملا لیا اور ا ب لوکاٹی کو پتا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے، وہ ماریہ کی گانڈ کی لائن سے ایک ایک دانہ اپنی زبان کی مدد سے اپنے منہ میں ڈالتا رہا اور سارے دانے ماریہ کی گانڈ کی لائن سے کھانے کے بعد اسکی گانڈ میں لگے پانی کو بھی زبان سے چاٹ گیا۔ انگوروں کے ذائقے سے ماریہ کی گانڈ کا ذائقہ بھی کچھ میٹھا ہوگیا تھا اب لوکاٹی ماریہ کی گانڈ کو چاٹنا چاہتا تھا مگر ماریہ نے کچھ دانے ہاتھ میں لیکر انکو دبا دیا۔ ان دانوں کا ملیدہ بننے کے بعد ماریہ نے ہاتھ پیچھے لیجا کر اپنی گانڈ کے سوراخ پر مسل دیا تو لوکاٹی فورا ہی ماریہ کی گانڈ پر جھکا اور اپنی زبان سے انگوروں کے اس ملیدے کو ماریہ کی گانڈ سے چاٹنے لگا۔ جب سارا ملیدہ وہ ماریہ کی گانڈ سے چاٹ چکا تو ماریہ سیدھ ہوکر لیٹ گئی اور اب کی بار اس نے اپنی پینٹی نیچے کی اور انگور کا ایک دانا اپنی چوت کے لبوں پر رکھا تو لوکاٹی اسے بھی کھا گیا۔ پھر دوسرا، پھر تیسرا اور پھر چوتھا دانہ، ماریہ ایک ایک کر کے اپنی چوت پر رکھتی گئی اور لوکاٹی اسے ماری کی چوت سے کھاتا گیا۔
پھر ماریہ نے ای دانا اٹھا کر اپنی چوت کے لب کھولے اور انکے اندر دکھ دیا اور لوکاٹی کو کہا وہ بغیر چوت کو ہاتھ سے چھوئے اس دانے کو کھائے۔ لوکاٹی نے کافی محنت سے اپنی زبان کو بغیر ہاتھ لگاںے ماریہ کی چوت کے لبوں کے بیچ داخل کیا اور پھر اس دانے کو ماریہ کی چوت سے نکال کر اسے بھی نگل گیا۔ یہاں بھی ماریہ نے باری باری 6، 7 دانے اپنی چوت میں ڈالے جنہیں لوکاٹی تھوڑی سی محنت کے بعد کھاتا گیا۔
اب ماریہ نے جو کیا اس نے تو لوکاٹی کو پاگل ہی کر دیا تھا۔ ماریہ نے تمام انگور اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیے اور انہیں مسلنے لگی، انگوروں کو اچھی طرح مسلنے کے بعد ماریہ نے انکا ملیدہ اپنے بڑے بڑے مموں پر مسل دیا اور لوکاٹی ماریہ کے مموں پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے کوئی کتا ہڈی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس نے ماریہ کے اوپر چھڑ کر اس کے دونوں مموں پر زبان پھیرنا شروع کر دی اور کچھ ہی دیرمیں وہ ماریہ کے انگوروں سے بھرے ہوئے مموں کو اپنی زبان سے چاٹ کر مکمل صاف کر چکا تھا اور اسکے بعد بھی کافی دیر تک وہ ماریہ کے مموں کو اور اسکے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوستا اور چاٹتا رہا۔ انگوروں کا میٹھا میٹھا ذائقہ اسکو ابھی تک ماریہ کے انگوروں کے سائز جتنے تنے ہوئے نپلز پر محسوس ہورہا تھا اور وہ بہت رغبت کے ساتھ ماریہ کے ممے چوس رہا تھا۔ پھر ماریہ نے لوکاٹی کو لیٹنے کے لیے کہا اور خود فریج میں سے ایک کیلا نکال لائی۔
ماریہ نے لوکاٹی کے اوپر بیٹھ کر وہ کیلا چھیلا اور اسکا چھلکا ایک سائیڈ پر پھینک دیا۔ پھر ماریہ پیچھے کی طرف جھکی جس سے ماریہ کی چوت آگے واضح نظر آنے لگی۔ اب ماریہ نے کیلا اپنی چوت پر پھیرنا شروع کیا اور بڑی نرمی کے ساتھ اس کیلے کو اپنی چوت کے لبوں کے درمیان پھیرتی رہی۔ ماریہ نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس دوران وہ کیلا ٹوٹ نہ جائے۔ جب کیلے پر ماریہ کی چوت کا پانی اچھی طرح لگ گیا تو ماریہ نے وہ کیلا لوکاٹی کی طرف بڑھا دیا جو کافی دیر سے اس کیلے کو کھانے کے لیے مرا جا رہا تھا۔ جیسے ہی ماریہ نے وہ کیلا لوکاٹی کی طرف بڑھایا اس نے آدھا کیلا ایک ہی مرتبہ میں کھا لیا۔ باقی کا آدھا کیلا ماریہ نے اپنی چوت پر رکھ کر اسے چوت پر ہی مسل دیا اور پھر اپنی چوت اٹھا کر لوکاٹی کے منہ کے اوپر بیٹھ گئی، لوکاٹی نے اپنے دونوں ہاتھ ماریہ کے چوتڑوں کے نیچے رکھ کر اسے اونچا کیا اور اپنی زبان ماریہ کی چوت پر لگے ہوئے کیلے پر پھیرنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارا کیلا ماریہ کی چوت سے کھا گیا اب وہاں کیلے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
کچھ دیر تک آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ کی سسکیاں نکانے کے بعد ایک بار پھر ماریہ نے نیچے اتر کر فریج کھولا اور اس میں سے کچھ انگور اور اٹھائے جو علیحدہ رکھے ہوئے تھے۔ ماریہ نے ان انگوروں کے گچھے کو اپنے ہاتھوں سے مسل کر اسکا بھی ملیدہ بنا دیا اور پھر اس ملیدے کو لوکاٹی کے لن پر پھیرنے لگی۔ سارہ ملیدہ لوکاٹی کے لن پر پھیرنے کے بعد ماریہ نے لوکاٹی کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چاٹنے لگی۔ لن منہ میں داخل کر کے اسکو اچھی طرح چاٹ کر صاف کرنے کے بعد ماریہ نے اپنی زبان نکال کر لن کے اس حصے سے بھی ان انگوروں کو چاٹ لیا جو حصہ ماریہ کے منہ میں نہیں جا سکا تھا اور کچھ ہی دیر کے چوپوں کے بعد لوکاٹی کا لن ایسے صاف ہوچکا تھا جیسے وہاں اسے سے پہلے کچھ تھا ہی نہیں۔
لوکاٹی کے لیے یہ سب کچھ بالکل نیا تھا، آج تک کسی نے اسکے ساتھ اسطرح سیکس نہیں کیا تھا، اسکو اس پورے کھیل کا بہت مزہ آرہا تھا مگر حیرت انگیز طور پر اسکو اپنی آنکھیں بھاری بھاری محسوس ہو رہی تھیں۔ اور اسکو غنودگی کا غلبہ ہو رہا تھا۔ ماریہ کو بھی لوکاٹی کی آنکھوں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس پر غنودگی چھا رہی ہے مگر اسکا لن ابھی تک کھڑا تھا، ماریہ نے موقع غنیمت جانا اور فورا ہی اپنی پینٹی اتار کر اپنی چوت کو لوکاٹی کے لن پر رکھا اور آہستہ آہستہ اپنا وزن لوکاٹی کے لن پر ڈالتے ہوئے پورا لن اپنی چوت میں لے لیا۔ اپنے لن پر گرما گرم چکنی چوت کی گرفت کو محسوس کرکے لوکاٹی کی آںکھیں تھوڑی کھولیں اور اس نے چند دھکے ماریہ کی چوت میں مارنے کی کوشش کی، مگر پھر آہستہ آہستہ اسکا لن واپس بیٹھنے لگا اور لن کے بیٹھتے بیٹھتے لوکاٹی بھی نیند کی وادیوں میں کھو چکا تھا۔ جب ماریہ کو یقین ہوگیا کہ لوکاٹی سو چکا ہے تو وہ فورا ہی اٹھی اور اپنا برا صحیح کر کے دوبارہ سے اپنے ممے چھپا لیے اور پھر اپنی پینٹی بھی پہن لی اور دوبارہ سے اپنے بال اور اپنا حلیہ درست کرنے لگی۔ ماریہ کو یہ چیک کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ لوکاٹی واقعی سوگیا ہے یا نہیں کیونکہ اسکے لن کا بیٹھ جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اب اپنے ہوش میں نہیں رہا۔
ماریہ نے دوپہر میں ملنے والی بے ہوشی کی دوا کو پلیٹ میں موجود انگوروں پر اچھی طرح چھڑک دیا تھا اور کیلا چھیلنے کے بعد اپنے ہاتھ پر لگائی گئی دوا کو کیلے پر بھی لگا دیا تھا جس کے اثر سے لوکاٹی گہری نیند سوگیا تھا، جبکہ ایک انگور کا گچھا ماریہ نے جان بوجھ کر علیحدہ رکھ دیا تھا جو اس نے لوکاٹی کے لن پر مسل کر خود چوپے لگا لگا کر کھا لیا تھا۔ دوبارہ سے لپ اسٹک لگانے کے بعد اور دوبارہ سے تیار ہونے کے بعد ماریہ اب اپنے آپ کو ایک اور بڑی چادر سے ڈھانپ چکی تھی۔ پھر اس نے دوبارہ سے لوکاٹی کی طرف دیکھا اور اپنے کمرے سے باہر نکل گئی۔
راہداری سے ہوتی ہوئی ماریہ کچھ ہی دیر بعد کرم کے کمرے کے باہر موجود تھی، ہلکا سا دروازہ کھٹکٹھانے کے بعد اندر سے کرم کی کرخت آواز آئی ابے کون ہے اس وقت، تب ماریہ نے ہلکی آواز میں کرم کو بتایا کہ وہ ماریہ ہے تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے وہم و گما ن میں بھی نہ تھا کہ اس وقت ماریہ اسکے کمرے میں آسکتی ہے۔ اس نے جلدی جلدی اپنی قمیص پہنی اور آںکھیں ملتا ہوا کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔ دروازہ کھولا تو اندر چادر میں لپٹی ماری کھڑی تھی جس کا چہرہ بہت کھلا کھلا اور لپٹ اسٹک لگی ہوئی تھی اس وقت بھی۔ اس نے حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا جی بی بی جی کیا ہوا؟ ماریہ اسکے نکلتے ہی دوسری طرف چل پڑی اور اسے اپنے پیچھے آنے کو کہا، کرم کسی فرمانبردار بچے کی طرح اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد ماریہ اب نذر کے کمرے کے سامنے رک کر اسکا دروازہ بجا رہی تھی۔ مگر اس بار نذر کی بجائے اندر سے اسکی بیگم کی آواز آئی تو ماریہ خود پیچھے ہوکر کھڑی ہوگئی اور کرم کو کہا کہ نذر کو باہر بلائے۔ نذر نے کرخت لہجے میں اپنی بھابھی کو کہا کہ نذر کو اٹھائیں ضرور کام ہے اس سے۔ اپنے جیٹھ کی آواز سن کر نذر کی بیوی نے نذر کو اٹھا دیا۔
نذر بھی اس وقت اپنے بڑے بھائی کے آنے پر حیران تھا مگر اس نے بھی اپنی قمیص پہنی اور دروازے تک آگیا۔ دروازے پر اس نے بھائی کو دیکھا تو کرم نے اسے باہر آنے کو کہا نذر نے باہر آکر دروازہ بند کر دیا اور ساتھ کھڑی ماریہ کو دیکھ کر حیران ہوا مگر ماریہ نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسکو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اور نذر کے کمرے سے اب ایک اور کمرے کی طرف جانے لگی جسکا انتخاب اس نے بڑا سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ اس کمرے میں پہنچ کر اور نذر اور کرم کو کمرے میں بلا کر ماریہ نے دروازہ بند کر دیا اور کمرے کے درمیان میں آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ اب کچھ گہری گہری سانسیں لے رہی تھی، وہ جو کام کرنے جا رہی تھی اس میں اسکی جان کو پورا پورا خطرہ تھا، یا تو اسے مکمل کامیابی ملنے والی تھی یا پھر اسکو یہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑجاتے۔ اسکے علاوہ اور کوئی تیسری صورت نہیں تھی اور اسی ٹینشن میں ماریہ کی سانسیں بے ترتیب ہورہی تھیں مگر اس نے کچھ دیر توقف کر کے اپنی سانسیں بحال کیں اور پھر کرم اور نذر کو مخاطب کرتے ہوئی بولی دیکھو اس وقت میں جو تم سے کہنے جا رہی ہوں وہ بہت ہی اہم ہے۔ اور تمہیں اپنے کان اور دماغ کھول کر میری بات سننی ہے۔ ماریہ کی بات سن کر دونوں ایک دم سیدھے ہوکر کھڑے ہوگئے اور ہمہ تن گوش ہوگئے۔
ماریہ نے کہا جو بات میں تمہیں اب بتانے جا رہی ہوں، اس پر تم دونوں کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ نہ صرف تمہارے بلکہ میرے بھی مستقبل کا دارومدار اسی بات پر ہے۔ لہذا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لینا کہ تم جو فیصلہ لینے جا رہے ہو اس پر قائم بھی رہ سکو گے یا نہیں ، اور بعد میں کہیں تمہیں پچھتانا تو نہیں پڑے گا۔ یہ کہ کر ماریہ کچھ دیر کو رکی تو کرم بولا جی بی بی جی آپ بولیں میں سن رہا ہوں۔ اب ماری جھنجھلا کر بولی میں نے تمہیں منع کیا ہے مجھے بی بی جی مت کہو میں تمہاری بی بی جی نہیں ہوں۔ یہ سن کر نذرنے تعجب سے ماریہ کی طرف دیکھا اور کرم بھی نہ سمجھنے کے انداز میں ماریہ کی طرف دیکھنے لگا۔
پھر ماریہ نے کچھ توقف کیا اور بولی دیکھو، میری تمہارے بابا سائیں کے ساتھ کوئی شادی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہونے والی ہے۔ کرم نے ماریہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا مگر وہ تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماریہ نے بھی کرم کی بات کاٹی اور بولی پہلے میری پوری بات سن لو۔ اتنا تو تم دونوں جانتے ہی ہو گے کہ عنقریب ہولستان کو پاکیشا سے علیحدہ کیے جانے کے پلان پر عملدرآمد ہونے والا ہے۔ ماریہ کے منہ سے یہ بات سنتے ہی دونوں کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا، انکے خیال میں انکے بابا سائیں اتنے پاگل نہیں تھے کہ وہ کسی انجان لڑکی کو حتی کہ اپنی بیوی کو بھی ایسی بات بتائیں گے۔ مگر انہیں کیا پتا تھا کہ بڈھا آدمی جب ٹائٹ چوت کی طلب میں ہو تو وہ کچھ بھی بتا سکتا ہے اسے۔ ماریہ نے انکی حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا حیران ہونے کی ضرورت نہیں مجھے یہ سب کچھ تمہارے بابا نے نہیں بتایا بلکہ میں ہندوستان کی سرکار کی طرف سے اس سپیشل مشن پر یہاں آئی ہوں۔ اور اس مشن میں میرا بھی بہت اہم رول ہے۔ اور ہاں میرا اصل نام ماریہ نہیں بلکہ انجلی ہے۔ اور میں ہندوستانی لڑکی ہوں۔
اس بار جب تمہارے بابا ہندوستان آئے تو ہماری سرکار نے خاص طور پر مجھے تمہارے بابا کے قریب رہنے اور پھر پاکیشا میں تمہارے گھر آکر تم دونوں سے ملنے کی ہدایت کی تھی۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ ہولستان کی آزادی کے بعد یقینی طور پر ہولستان ہندوستان سے الحاق کرے گا، اسی شرط پر ہندوستان تم لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ یہ سن کر کرم نے حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماریہ کی طرف دیکھا، اسکا خیال تھا کہ یہ چھوئی موئی سی لڑکی کسی طرح اسکے باپ نے پھنسا لی ہے مگر اسکو اس حد درجہ تک انفارمیشن ہے تو یہ یقینا کوئی سیکرٹ سروس کی ٹرینڈ لڑکی ہی ہوگی۔ کرم نے پوچھا آپکی بات ٹھیک ہے کہ جلد ہی بڑا اقدام اٹھایا جائے گا اور کرنل وشال بھی کل تک پاکیشا پہنچ جائیں گے اور ہم یہیں بیٹھ کر آگے کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ مگر اس وقت ہمیں یہاں بلانے کا کیا مقصد ہے۔
اس پر ماریہ نے کہا یہی تو اصل بات ہے کہ میں نے یوں تم دونوں کو اچانک یہاں بلایا ہے۔ تمہارے بابا سائیں کی عمر اور انکی صحت تمہارے سامنے ہے۔ وہ زیادہ پریشر برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی بڑے ہجوم کو لیڈ کر سکتے ہیں۔ اور تم یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ کوئی چھوٹا اقدام نہیں ہے، اسکےلیے انسان کو بہت زیادہ پریشر برداشت کرنے کی ہمت ہونی چاہیے اور اس کام کے نتیجے میں جب پاکیشا کی آرمی کی جانب سے حملہ کیا جائے گا تو ہولستان میں بڑے بڑے ہجوم بھی اپنے حقوق کے لیے نکلیں گے انکو لیڈ کرنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے میں ہماری سرکار نہیں چاہتی کہ کوئی بوڑھا اور معمر آدمی اس تحریک کو لیڈ کرے۔ بلکہ انہیں نوجوان خون کی ضرورت ہے۔ جو نہ صرف دماغی طور پر مظبوط اعصاب کے مالک ہوں اور مشکل فیصلے کر سکیں، بلکہ مشکل حالات میں وہ اپنی عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر انکا حوصلہ بھی بلند کر سکیں، اور یاد رکھو جب لیڈر عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہوجائے تو دنیا کی کوئی فوج اس عوام کو ہرا نہیں سکتی۔
ماریہ کی باتیں کچھ کچھ کرم اور نذر کی سمجھ میں آرہی تھیں۔ مگر وہ سب کچھ ماریہ کے منہ سے ہی سننا چاہتے تھے کہ آیا انہیں کوئی غلط فہمی نہ ہو اور کوئی غلط بات منہ سے نہ نکل جائے۔ اب کی بار کرم نے کہا وہ بات تو آپکی ٹھیک ہے مگر ہمیں اس بات کا کیسے یقین ہوگا کہ آپ ہندوستانی سرکار کی طرف سے آئی ہو اور آپ پاکیشا کی ایجنٹ نہیں ہو؟؟؟ اس پر ماریہ مسکرائی اور بولی اگر میں پاکیشا کی ایجنٹ ہوتی تو اسکا مطلب ہے کہ پاکیشا کو اس منصوبے کے بارے میں علم ہو چکا ہے اور اگر ہمارے آخری وار سے پہلے کسی بھی طرح پاکیشا کی سرکار کو یا فوج کو اس تحریک کے بارے میں پتہ چل جائے تو تم سمیت تمہارا پورا خاندان وہ نیست و نابود کر دیں گے۔ یہ بات تم اچھی طرح سے جانتے ہو۔ ماریہ کی بات میں دم تھا اور اس بات نے کرم اور نذر کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ پھر کرم نے پوچھا کہ لیکن آپ ہم سے کیا چاہتی ہیں؟
ماریہ نے کرم کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دیر نذر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی، پھر بولی تم دونوں میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہے کہ وہ پاکیشائی فوج اور سرکار کے خلاف اپنی عوام کے ساتھ کھڑا ہوکر انکو لیڈ کر سکے؟؟؟ اس پر دونوں نے یک زبان کہا میں ایسا کر سکتا ہوں،۔ دونوں کی آواز ایک ساتھ ایسے آئی تھی جیسے وہ ہاں کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہوں۔ پھر دونوں ایکدوسرے کو دیکھنے لگے تو ماریہ نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے کہ تم دونوں اس قابل ہو۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ تم دونوں میں سے زیادہ قابل کون ہے؟ اس بار پھر دونوں نے یک زبان ہوکر کہا آپ آزما کر دیکھ لیں میں ہر امتحان میں پورا اتروں گا۔ اصل میں ان دونوں کے دماغ میں یہ بات آچکی تھی کے انکے باپ کی گیم اب ختم ہوچکی ہے اور ہندوستانی سرکار ان دونوں میں سےکسی ایک کو ہولستان کی آزادی کے بعد ہولستان کی حکومت دینا چاہتی ہے۔ مگر وہ کھل کر اسکا اظہار نہیں کر پا رہے تھے۔
ماریہ نے ان دونوں کی حکومت حاصل کرنے کی لالچ کو دیکھ کر آخری فیصلہ کر لیا کہ وہ اب کھل کر بات کرے گی۔ ماریہ نے اب قدرے دھیمے لہجے میں ان سے پوچھا، کہ تم دونوں ہی حکومت حاصل کرنا چاہتے ہو اور ہولستان پر حکومت کرنا چاہتے ہو۔ ٹھیک کہ رہی ہوں نہ میں۔ اس پر نذر تو خاموش رہا مگر کرم نے ایک شیطانی مسکراہٹ دی اور بولا ظاہری بات ہے جی ، طاقت کا نشہ کسے نہیں ہوتا؟؟؟ اس پر ماریہ نے کہا پھر تمہیں اس بات کی بھی سمجھ آگئی ہوگی کہ لوکاٹی صاحب کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں؟؟؟ یہ کہ کر ماریہ نے باری باری دونوں کے چہرے کے تاثرات دیکھے، مگر وہاں پریشانی یا غصے کی بچائے ایسے آثار تھے جیسے وہ کچھ سوچ رہے ہوں یا آگے کا فیصلہ کر رہے ہوں۔ پھر نذر بولا ہاں ظاہری سی بات ہے بابا سائیں کے ہوتے ہوئے ہم دونوں میں سے کسی کو بھی سرداری نہیں مل سکتی۔ اس پر ماریہ نے کہا کہ ہندوستانی سرکار اس کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ چاہتی ہے کہ انکا قصہ انکے بیٹوں میں سے ہی کوئی ایک تمام کر دے۔ ماریہ کی بات سن کر کمرے میں سناٹا چھا گیا اور کافی دیر تک کوئی نہ بولا۔ مگر پھر ایک دم نذر نے اپنے ہونٹ کھولے اور بولا کب کرنا ہے یہ کام؟؟ اسکی یہ بات سن کر ماریہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور بولی ابھی نہیں کرنا، جب کرنل صاحب یہاں آچکے ہونگے اورآزادی کی تحریک کا اعلان ہونے ہی والا ہوگا، اس اعلان سے پہلے یہ کام کرنا ہوگا اور تب ہم اسکا الزام پاکیشائی افواج پر ڈال دیں گے اور تم میں سے کسی ایک کو ہندوستانی سرکار اگلا سردار منتخب کر کے اسی سے نہ صرف آزادی کی تحریک کا اعلان کروائے گی بلکہ اپنی افواج کو بھی تم لوگوں کی مدد کے لیے بھیج دے گی۔
اب کی بار کرم نے مداخلت کی اور بولا لیکن ہم دونوں میں سے سردار کسے منتخب کیا جائے گا؟ جو یہ کام کرے گا اسے یا پھر کسی اور کو؟ اور ہندوستانی سرکار کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ کام کس نے کیا؟ ہو سکتا ہے یہ کام میں کروں مگر ہندوستانی سرکار سمجھے کہ یہ نذر نے کیا ہے؟؟؟ اسکے لہجے میں واضح تعصب نظر آرہا تھا اپنے سگے بھائی کے لیے۔ اس پر تانیہ مسکرائی اور بولی اسکی فکر نہیں کرو، جو سرکار اتنی بڑی تحریک کا آغاز کروا سکتی ہے اسکے لیے یہ مشکل نہیں کہ وہ تم دونوں میں سے صحیح اہل انسان کا انتخاب نہ کر سکے۔ اور یہ بھی عین ممکنے ہے کہ ہولستان کے ہندوستان کے الحاق کے بعد اسکی 2 ریاستیں بنا دی جائیں اور تم دونوں کو ہی ایک ایک ریاست دے دی جائے۔ مگر اس بارے میں تم لوگوں کو ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں بتایا جا سکتا کیونکہ مجھے خود بھی اس معاملے کے بارے میں علم نہیں، لیکن جو ہوگا بہتر ہی ہوگا۔ اور اگر کوئی ایک بھی چنا گیا تو اسکے لیے بھی پہلے لوکاٹی کا صفایا لازمی ہے۔
پھر کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی اور اسکے بعد ماریہ نے ہی اس خاموشی کو توڑا اور بولی اب تمہارے مستقبل کا فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر تم نے ایسا کر دکھایا تو تم دونوں کا ہی مستقبل روشن ہوگا۔ یہ کہ کر ماریہ نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ جاو، لیکن یاد رکھنا ابھی یہ بات صرف ہم تینوں کے درمیان رہے گی، اور مناسب وقت آںے پر ہی یہ کام کرنا ہے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اس کام میں ورنہ اپنا ہی نقصان ہوگا۔ ماریہ کی اس بات پر ان دونوں نے کہا ٹھیک ہے ہم مناسب وقت کا انتظار کریں گے یہ کہ کر دونوں واپسی کے لیے چل پڑے۔ ابھی وہ دروازے کے پاس ہی پہنچے تھے کہ ماریہ نے کہا کرم تم رکو تم سے ایک اور بات بھی کرنی ہے، نذر تم جاو اپنے کمرے میں۔ یہ سن کر نذر کمرے سے نکل گیا جبکہ کرم وہیں کمرے میں ہی رک گیا۔ نذر کے جانے کے بعد ماریہ نے کرم کو دروازہ بند کرنے کو کہا، کرم نے آہستگی کے ساتھ دروازہ بند کر دیا اور ماریہ کے قریب آیا تو ماریہ نے کرم سے پوچھا کہ دوپہر میں جب تم مجھے حویلی دکھا رہے تھے میں نے دیکھا کہ تمہاری نظریں میرے جسم پر مرکوز تھیں، ایسا کیوں؟؟؟ یہ سن کر کرم کو ایک دم چپ لگ گئی اور اسکی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ اس بات کا کیا جواب دے۔
کرم کو خاموش دیکھ کر ماریہ نے پھر اس سے کہا کہ تمہاری نظریں میرے سینے پر تھیں، آخر کیا دیکھنا چاہ رہے تھے تم۔ اس پر بھی کرم خاموش کھڑا رہا اور اسے سے کوئی ایک بات بھی منہ سے نہیں نکالی گئی۔ کرم کو یوں خاموش دیکھ کر ماریہ نے اپنے جسم سے چادر ہٹا دی اور بولی لو اب جی بھر کر دیکھ لو میرا جسم۔ کرم کی نظر ماریہ کے جسم پر پڑی تو وہ اپنی آنکھیں جھپکانا بھول گیا تھا، ماریہ اسی نائٹی میں ملبوس تھی جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی پہن کر وہ لوکاٹی کے ساتھ سیکس کر رہی تھی۔ سیکسی برا میں بڑے بڑے ممے آپس میں مل کر کلیویج بنا رہے تھے اور اسکے نیچے نیٹ کی باریک نائٹی سے ماریہ کا سارا جسم جھلک رہا تھا جبکہ اسکے پیٹ سے نائیٹی ویسے ہی ہٹی ہوئی تھی اور اسکی ناف نظر آرہی تھی، نیچے محض ایک پینٹی ماریہ نے پہن رکھی تھی اسکے نیچے ماریہ کی ٹانگیں بالکل ننگی تھیں۔ ماریہ کو اتنے سیکسی لباس میں دیکھ کر کرم اپنی نظریں جھپکانا ہی بھول گیا۔ کرم کو یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر ماریہ نے کرم سے کہا اب یوں ہی دیکھتے رہو گے یا کچھ کرو گے بھی؟؟؟ ابھی تمہارے بابا سائیں کے لیے پہنی تھی یہ نائٹی مگر میرے اندر 4، 5 دھکے لگا کر ہی وہ خود تو فارغ ہوگئے اور مجھے ویسے ہی پیاسا چھوڑ دیا، کیا اب تم میری پیاس بجھاو گے؟؟؟
یہ سن کر کرم ایک دام آگے بڑھا اور ماریہ کے جسم پر ٹوٹ پڑا۔ ۔ اس نے ماریہ کو اپنی گود میں اٹھا کر اسکی پتلی کمریا سے زور سے پکڑ لیا تھا اور دیوانہ وار ماریہ کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لبوں پر ٹوٹ پڑا تھا اور ماریہ بھی اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ کچھ دیر ماریہ کے لبوں کو چوسنے کے بعد کرم نے ماریہ کو دوبارہ سے نیچے اتارا اور ایک ہی جھٹکے میں اسکا برا اتار کر سائیڈ پر پھینک دیا اور اسکی نائٹی بھی اتار دی۔ وہ محض اب پینٹی پہنے کرم کے سامنے کھڑی تھی۔ اسے یقین تھا کہ کرم کا طاقتور لن آج اسکو بہت اچھی طرح سے چودے گا۔ کرم برا اتارتے ہی ماریہ کے 36 سائز کے مموں پر ٹوٹ پڑا اور ان پر دیوانہ وار پیار کرنے لگا۔ وہ ماریہ کے مموں کے نپلز کو منہ میں لیکر چوس رہا تھا اور ماریہ شدتِ جذبات سے اپنے منہ سے آہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ ابھی کرم نے مشکل سے 2 منٹ ہی ماریہ کے مموں کو چوسا ہوگا کہ اچانک باہر والا دروازہ کھلا تو دونوں پر سکتہ طاری ہوگیا انہوں نے ایک دم دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں نذر کھڑا تھا۔ اس نے کچھ دیر دونوں کی طرف دیکھا اور پھر دروازے کی کنڈی لگا کر بولا یہ مجھے واپس بھیج کر کیا کر رہی ہو تم؟ ؟؟؟ کرم کے ساتھ یہ سب کچھ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا تم مجھے بھی راستے سے ہٹا کر اسکو ہولستان کی حکومت دلوانا چاہتی ہو؟؟؟
یہ سن کر ماریہ کے ذہن میں ایک اور ترکیب آگئی اور وہ بولی کہ نہیں کرم کافی دیر سے میرے جسم پر خاص طور پر سینے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اور تم لوگوں کے پاس آنے سے پہلے تمہارے بابا نے کچھ دیر مجھے چودا مگر وہ کچھ ہی دیر میں میرے اندر ہی فارغ ہوگئے اور مجھے پیاسا چھوڑ دیا تو میں نے سوچا کہ کرم جو میرے جسم کو پہلے ہی گھور رہا تھا اس کے لن سے اپنی پیاس بجھائی جائے، مگر مجھے اچھا لگے گا اگر تم دونوں بھائی مل کر میری پیاس بجھاو۔ یہ سن کر نذر ایک دم آگے بڑھا اور وہ بھی دیوانہ وار ماریہ کو جپھی ڈال کر اسکے ہونٹوں سے رس کشید کرنے لگا۔ کرم کے لیے یہ سب کچھ عجیب تھا مگر پھر اس نے بھی سوچا کہ آج یہ تجربہ بھی کر ہی لینا چاہیے، اس نے ماریہ کو نذر کی بانہوں میں ہی رہنے دیا مگر خود پیچھے کھڑے ہوکر ماریہ کی پینٹی اتار دی اور نیچے بیٹھ کر اسکے چوتڑوں کو پکڑ کر چوسنے لگا۔ وہ ماریہ کے چوتڑوں کی پھاڑیوں کو کھول کر اس میں موجود گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان چلا رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے ماریہ کے چوتڑوں کو زور زور سے دبا رہا تھا۔ نذر بھی کچھ دیر ماریہ کے لبوں کو چوسنے کے بعد اب ماریہ کے بڑے بڑے مموں سے لطف اندوز ہورہا تھاجبکہ ماریہ نے کرم کو بھی اپنا ہاتھ اسکے چہرے پر رکھ کر اسے اوپر اٹھا لیا تھا اور اپنے ممے چوسنے کا کہا تھا۔ اب ایک مما کرم کے منہ میں تھا اور دوسرا مما نذر کے منہ میں، دونوں بہت ہی بےتابی سے ماریہ کے سیکسی مموں کو چوس رہے تھے۔ انکی اپنی بیویوں کے ممے نہ تو اتنے بڑے تھا اور نہ ہی اتنے سیکسی۔ کرم کی بیوی کے ممے 32 سائز کے تھے اور نذر کی بیوی کے ممے 34 کے تھے مگر ڈھلکے ہوئے تھے۔ ماریہ کے 36 سائز کے کسے ہوئے اور تنے ہوئے ممے دیکھ کر نذر پاگل ہوگیا تھا۔
کچھ دیر بعد کرم اور نذر دونوں ایکدوسرے کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے اور ان دونوں کے درمیان ماریہ زمین پر بیٹھی تھی۔ ان دونوں کے لوڑَ ماریہ کے ہاتھ میں تھے، وہ کبھی نذر کا 8 انچ کا لوڑا چوستی تو کبھی کرم کا 7 انچ لمبا لوڑا اپنے منہ میں ڈال کر چوپے لگاتی۔ کرم اور نذر دونوں ہی اپنی قمست پر ناذاں تھے کہ انہیں اتنی سیکسی اور جوان ہندوستانی لڑکی چدائی کے لیے مل گئی ہے۔ دونوں نے ملکر قریب 2 گھنٹے تک ماریہ کی خوب چدائی کی اور ماریہ نے بھی دونوں کےلن کا خوب مزہ لیا۔ باری باری دونوں سے چدوا کر ماریہ نے اپنی رات کو بہت خوبصورت بنا لیا تھا۔ دونوں کے لن کی منی 2، 2 بار نکلی تھی جبکہ ماریہ کی چوت کا پانی 4 بار نکل چکا تھا۔ وہ اس لمبی چدائی سے تھک تو گئی تھی مگر اس نے انجوائے بھی خوب کیا تھا۔ کرم نے دونوں بار اپنی منی ماریہ کی چوت میں نکالی تھی اور وہ جلدی فارغ ہوگیا تھا دونوں بار جبکہ نذر نے ماریہ کو زیادہ مزہ بھی دیا اور زیادہ دیر تک ماریہ کی چودائی کی کبھی گھوڑی بنا کر تو کبھی اپنے اوپر بٹھا کر اور کبھی خود ماریہ کے اوپر چڑھ کر اس کو چودا۔ نذر نے ایک بار اپنی منی ماریہ کے چوتڑوں پر نکالی جبکہ دوسری بار اس نے منی ماریہ کے منہ میں نکالی جسکو ماریہ نے بڑے شوق کے ساتھ پی لیا تھا۔
ماریہ کو چودنے کے بعد دونوں اپنے اپنے کمرے میں جا کر سوگئے تھے جبکہ ماریہ بھی اپنی چوت چدوانے کے بعد تھوڑا مشکل سے چلتی ہوئی واپس لوکاٹی کے پاس چلی گئی تھی جو ابھی تک سویا پڑا تحا۔ لوکاٹی کے پہلو میں لیٹ کر ماریہ اپنے آپ کو داد دے رہی تھی کہ اس نے بہت آسانی کے ساتھ دونوں بھائیوں کو باپ کے خلاف کر دیا تھا اور انکے لن سے اپنی چوت کو چدوا کر مزے بھی لے لیے تھے۔ اب وہ آنے والے حالات کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ نجانے وہ یہاں سے کیسے نکلے گی اور اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
صبح ماریہ کی آنکھ کھلی تو کمرے میں لوکاٹی موجود نہیں تھا، ماریہ نے کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر نکل گئی جہاں پہلے سے 2 عورتیں کل کی طرح اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگیں مگر ماریہ نے دونوں کو سختی سے منیع کر دیا اور وہیں رکنے کے لیے کہا۔ خود ماریہ اب پہلی منزل پر موجود اس کمرے کی طرف چلی گئی جہاں سے نیچے والے مہمان خانے کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ماریہ وہاں پہنچی تو اسے سامنے کرسی پر ایک آرمی آفیسر بیٹھا دکھائی دیا۔ جو سامنے بیٹھے لوکاٹی سے بات چیت کر رہا تھا جبکہ کمرے میں اور کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔ ماریہ کافی دیر تک اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کرتی رہی مگر اسے سمجھ نہیں لگی کہ یہ کو ن شخص ہے۔ پھر اچانک لوکاٹی نے اسے کرنل وشال کہ کر مخاطب کیا تو ماریہ کے جسم سے جان نکلنے لگی۔ اب یہاں ماریہ کو اپنا بچنا مشکل نظر آرہا تھا، کیونکہ لوکاٹی کے نزدیک ماریہ کا اصل نام انجلی تھا اور وہ کرنل وشال کی بیٹی ٹینا کی دوست تھی اس لحاظ سے ہو سکتا تھا کہ وہ کرنل وشال کوبتا دے کہ وہ انجلی کو اپنے ساتھ لے آیا ہے اور جب وہ کرنل وشال سے ملے گی اور کرنل وشال انکار کر دے گا کہ ٹینا کی تو اس نام کی کوئی دوست نہیں اور نہ ہی وہ اس انجلی کو جانتا ہے تو مسئلہ بڑھ سکتا تھا ماریہ کے لیے۔
ابھی ماریہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسے کرنل وشال کی آواز سنائی دی۔ کرنل وشال جو باتیں لوکاٹی سے کر رہا تھا وہ سن کر ماریہ کا ذہن ماوف ہونے لگا تھا، اس نے میجر دانش کے بارے میں لوکاٹی کو بتا دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ عمران بن کر اسکی بیٹی کے ساتھ رہا اور اب وہ انڈیا میں ہی چھپتا پھر رہا ہے مگر کرنل وشال اب اس پر کاری وار کرنے کے لیے پاکیشا آچکا ہے ۔ پھر کچھ ہی دیر کے بعد ماریہ کو کرنل وشال کا چہرہ نظر آیا تو اس پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ کرنل وشال کو دیکھتے ہی ایک بار اسکا دل کیا کہ وہ ابھی نیچے جائے اور کرنل وشال کو چھریوں کے وار کر کرکے اسکی ایک ایک بوٹی علیحدہ کر دے، مگر اس نے اپنے اوپر قابو رکھا اور اپنے ذہن میں اب یہاں سے بھاگنے کا پلان بنانے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد اس نےسوچ لیا تھا کہ وہ یہاں سے کیسے نکلے گی۔ وہ فورا نذر کے کمرے میں گئی اور نذر کو علیحدگی میں لیجا کر اسکو اسکےبیٹے شاہ میر کی زندگی خطرے میں ہونے کی اطلاع دی۔ اکلوتے بیٹے کی زندگی کا سن کر وہ پریشان ہوگیا تھا، ماریہ نے اسے بتایا کہ نیچے کرنل وشال بیٹھا ہے اور وہ تمہارے بابا سائیں کو کہ رہا ہے کہ ہمیں جلد ہی آزادی کی تحریک کا اعلان کرنا ہوگا، اسکے ساتھ ساتھ کرم کی طرف سے تمہارے بابا سائیں کو مارنے کے بعد تمہیں بھی مارنے کی کوشش کی جائے گی، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے بابا کے بعد تم سردار بننے کے زیادہ حق دار ہوگے کیونکہ تمہارا ایک وارث بھی ہے جبکہ کرم کا وارث کوئی نہیں اس لیے اسے تم سے خطرہ ہے، وہ تمہارے بابا سائیں کو مارنے کے بعد تمہیں اور تمہارے بیٹے کو مارنے کی بھی کوشش کرے گا۔ تمہیں تو میں نہیں بچا سکتی، تمہیں خود اپنی حفاظت کرنی ہوگی، البتہ تمہارے بیٹے کو میں یہاں سے کسی دوسرے شہر لے جارہی ہوں جہاں وہ محفوظ رہے گا اور اگر تمہیں کچھ ہو بھی جاتا ہے تو تمہارا بیٹا بڑا ہوکر واپس اپنے علاقے میں آئے گا تو لوگ اسکو مظلوم سمجھ کر اسکا ساتھ دیں گے اور کرم کے خلاف ہوجائیں گے اور اگر تم کرم کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو شاہ میر فورا ہی تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔
بیٹے کی زندگی کے خطرے کے بارے میں سن کر نذر کافی پریشان ہوگیا تحا اور اس نے بلا سوچے سمجھے اپنے 15 سالہ بیٹے کو ماریہ کےساتھ بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی اور ایک چور راستے سے انہیں حویلی سے نکلوا دیا۔ حویلی سے نکلنے کے بعد ماریہ جلد سے جلد پاکیشا کے پرانے دارالخلافہ جانا چاہتی تھی، کیونکہ وہاں سے اسکا پکڑے جانا بہت مشکل تھا، اتنے بڑے شہر میں کسی چھوٹی سی جگہ پر آسانی سے چھپا جا سکتا تھا اور ہندوستان سے روانگی سے پہلے میجر دانش بے بھی تانیہ کو بتایا تھا کہ وہ ہندوستان سے واپس آئے گا تو سیدھا اپنے شہر میں ہی آئے گا جو پاکیشا کا پرانہ دارالخلافہ تھا۔
ایک دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ماریہ کلاچی پہنچ گئی تھی ۔ وہاں ایک چھوٹے علاقے کے ایک ہوٹل میں کمرہ کرایہ لینے کے بعد تانیہ اب کرنل وشال کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جلد سے جلد اسکا خاتمہ کر دے۔ کرنل وشال کو آج تانیہ نے 10 سال کے بعد دوبارہ دیکھا تھا، آج سے پہلے اسے کرنل کا نام تو معلوم نہیں تھا مگر وہ اسکی شکل آج تک نہیں بھولی تھی۔ یہ کرنل وشال ہی تھا جس نے آج سے 10 سال پہلے کشمیر کی ایک حسین وادی میں خون کی ہولی کھیلی تھی۔ تب وہ کیپٹن رینک کا آفیسر تھا۔ کیپٹن وشال نے ایک خوبصورت صبح میں مقبوضہ کشمیر کے ایک چھوٹے سے خوبصورت گاوں پر تب حملہ کیا تھا جب وہاں کے تمام لوگ اٹھنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس صبح کیپٹن وشال نے اس گوں کے قریب قریب سبھی مردوں کو اپنی فوج کی مدد سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 50 سے 70 مردوں کی لاشیں گاوں کی مختلف گلیوں میں پڑی تھیں اور ان پر کفن ڈالنے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی صبح تانیہ کے والد کو بھی کیپٹن وشال نے گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا اور تانیہ کے گھر میں گھس کر اسکی ماں کو جس کی عمر اس وقت مشکل سے 31 سال ہوگی تانیہ کے سامنے ہی ننگا کر کے چود دیا تھا۔ تب تانیہ خاموشی سے اپنی ماں کو کیپٹن وشال کے 9 انچ کے لن تلے تڑپتے ہوئے دیکھتی رہی مگر وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی اسکو ایک اور فوجی نے پکڑ رکھا تھا اور وہ بھی براہ راست چودائی کا مزہ لے رہا تھا۔ تانیہ کی ماں کو بے دردی سے چودنے کے بعد کیپٹن وشال نے اپنا منی سے بھرا ہوا لن زبردستی اسکی ماں کے منہ میں ڈال کر صاف کیا اور پھر اسکو بھی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا جبکہ تانیہ کو وہیں کونے میں چھوڑ کر وہ اس گاوں سے نکل گئے تھے۔
آج جب تانیہ نے کرنل وشال کو دوبارہ دیکھا تو اسکی آنکھوں میں اسکی ماں کا تڑپتا ہوا جسم دوبار نظر آرہا تھا، اور اسکے باپ کی خون میں بھری لاش بھی تانیہ کے جذبات کو بھڑکا رہی تھی، اس نے کیپٹن وشال سے بدلہ لینے کے لیے ہی امجد اور دوسرے مجاہدین کے ساتھ کام شروع کیا تھا، اور آج 10 سال کے بعد اسے وہی شخص نظر آیا، مگر اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے وہ بہت جلد ترقی کر کے کیپٹن کی بجائے کرنل بن چکا تھا، اور تانیہ اب اسکو مارنے کے لیے بے چین ہوئے جا رہی تھی مگر میجر دانش کے ساتھ کچھ دن گزار کر اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ کبھی بھی جذباتی ہو کر فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ٹھنڈے دماغ سے صحیح وقت کا انتظار کر کے ہی دشمن پر حملہ کرنے میں کامیابی ملتی ہے۔
میجر دانش مرلی کے روپ میں پاکیشا جانے والی فلائیٹ میں فرسٹ کلاس سیکشن میں سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا بور ہو رہا تھا۔ 1 گھنٹے کی فلائٹ کو شروع ہوئے ابھی محض 5 منٹ ہی گزرے تھے مگر نہ تو دیپیکا اسے کوئی لفٹ کروا رہی تھی اور نہ ہی کوئی اور شخص۔ دیپیکا کی خدمت کے لیے ایک ائیر ہوسٹس منتخب کی گئی تھی جو ہر 5 منٹ کے بعد دیپیکا کے پاس پہنچ جاتی کہ اگر اسے کوئی چیز چاہیے تو وہ بتائے۔ اسی طرح 20 منٹ کا وقت گزر چکا تھا ، اور میجر دانش کا بوریت کے مارے برا حال تھا۔ پھر میجر دانش نے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی دیپیکا کو آواز دی: ایکسیوز می میڈیم۔ مرلی کی آواز سن کر دیپیکا نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولی ہاں مرلی کیا بات ہے؟ میم ایک منٹ ، آپ کے لیے ضروری پیغام ہے۔ یہ سن کر دیپیکا اپنی سیٹ سے اٹھی اور مرلی کے پاس پہنچ گئی اور بولی ہاں بولو اب کیا ہوگیا؟؟؟ مرلی نے مسکین سی شکل بنا کر کہا دیپیکا کی بچی یہ تم اچھا نہیں کر رہی میرا یہاں بوریت کے مارے برا حال ہو رہا ہے اور تم اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ مزے کر رہی ہو۔۔۔۔ یہ سن کر دیپیکا مسکرائی اور مرلی کے گال کو پچکارتے ہوئے بولی کیا کروں، اب تم خود ہی تو میرے ملازم کی حیثیت سے میرے ساتھ آئے ہو اور تم تو جانتے ہی ہو کہ دیپیکا پڈوکون سٹار آف بالی ووڈ، اپنے ملازم کے ساتھ یوں سرِ عام فری نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اب برداشت کرو میں واپس جا رہی ہوں۔ یہ کہ کر دیپیکا پڈوکون واپس چلی گئی۔
یہ منظر وہاں موجود ایک دوسری ائیر ہوسٹس نے دیکھ لیا تھا اور وہ کافی متاثر ہوئی تھی کہ اس ملازم کی دیپیکا کے ساتھ اس حد تک فرینکنس ہے۔ جبکہ دیپیکا کے جانے کے بعد اب میجر دانش واش روم جانا چاہ رہا تھا، وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اور پھر اسکی نظر اسی ائیر ہوسٹس پر پڑی، چونکہ میجر دانش اس وقت ایک ملازم کے روپ میں تھا اس لیے وہ اپنے آپکو کافی نروس شو کروا رہا تھا جیسے پہلی بار جہاز میں بیٹھا ہو۔ ائیر ہوسٹس کو دیکھ کر میجر دانش نے اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو وہ ائیر ہوسٹس فورا میجر دانش کے پاس آگئی اور نیچے جھک کر انتہائی ادب کے ساتھ بولی جی سر فرمائیے۔ میجر دانش نے اسکی طرف دیکھا تو اسکی نظر ہوسٹ کے مموں پر پڑی جنکی گہرائی ائیر ہوسٹس کی سیکسی شرٹ کے کھلے ہوئے بٹن سے نظر آرہی تھی۔ یہ انڈین ائیر لائن تھی اور انٹرنیشنل پرواز تھی جس نے پاکیشا سے آگے یورپین ممالک کی طرف بھی جانا تھا۔ اسی وجہ سے اس میں ہندوستانی اور انگریز ائیر ہوسٹس موجود تھیں۔ مگر ان سب کی ڈریسنگ یورپین سٹینڈرد کے مطابق ہوتی تھی منی سکرٹ کے ساتھ ایک شرٹ اور سر پر ایک کیپ۔ دوپٹے نام کی کسی چیز کی اجازت نہیں تھی۔ کچھ دیر میجر دانش اس ائیر ہوسٹس کے مموں کی گہرائی کو دیکھتا رہا جب ائیر ہوسٹس نے بولا جی سر میں آپکی کیا مدد کر سکتی ہوں تو میجر دانش اپنے ہوش میں واپس آیا اور بولا کہ مجھے واش روم جانا ہے۔ ائیر ہوسٹس نے کہا آئیں سر میں آپکو لیے چلتی ہوں، یہ کہ کر ائیر ہوسٹ آگے چل پڑی اور میجر دانش اسکے پیچھے پیچھے اسکے بڑے چوتڑوں کو گول گول گھومتا دیکھ کر چلنے لگا۔
اس ائیر ہوسٹس کا نام ںندنی تھی جو اسکی شرٹ پر ایک بیج پر لکھا ہوا تھا، نندنی میجر دانش کو واش روم تک لے گئی۔ کچھ دیر کےبعد میجر دانش واش روم سے باہر نکلا تو اسکے سامنے 3 ائیر ہوسٹس کھڑی تھیں جیسے انہیں میجر دانش کے باہر نکلنے کا انتظار ہو۔ میجر دانش باہر نکلا اور اپنے سامنے 3 خواتین کو دیکھ کر نروس ہوگیا جو اسے مسلسل گھورے جا رہی تھیں۔ میجر دانش نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیا ہوا مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟؟؟ اس پر نندنی بولی تمہارا نام کیا ہے؟؟؟ میجر نے اپنا نام مرلی بتایا کیونکہ وہ تو دیپیکا کے ملازم کی حیثیت سے سفر کر رہا تھا۔ نندنی بولی مرلی یہ تم دیپیکا جی کے پاس جا سکتے ہو؟؟ مرلی نے پوچھا کیا مطلب؟ نندنی بولی مطلب یہ کہ ہمیں دیپیکا میڈیم کے پاس جانے کی اجازت نہیں صرف ایک ائیر ہوسٹس ہے جو انکے پاس جا سکتی ہے۔ میں نے دیکھا تمہارے بلانے پر دیپیکا جی تمہارے پاس آئیں اور تمہارے گال پر ایک پیار سے چماٹ بھی ماری، اسکا مطلب دیپیکا جی تم سے کافی فری ہیں۔ ایسا ہی ہے کیا؟؟ مرلی نے کہا ہاں میں انکے گھر پر انکی خدمت کرتا ہوں، انکے سارے کام کرتا ہوں تو وہ کیا مجھے ہلکی سی چماٹ بھی نہیں مار سکتیں؟؟؟ میجر دانش اس وقت فل ایکٹنگ کر رہا تھا وہ کہیں سے بھی میجر نہیں لگ رہا تھا اور مکمل ان پڑھ جاہل انسان کی طرح جواب دے رہا تھا۔ اسکے جواب پر نندنی ایک بار پھر جھنجلا کر بولی ارے بدھومیں نے کب کہا کہ وہ نہیں کر سکتیں، میں تو بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں اگر تم دیپیکا میڈیم کو یہاں بلاو تو کیا وہ تمہارے کہنے پر آجائیں گی؟؟؟
مرلی نے انکو مشکوک نظروں سے دیکھا اور کہا کیوں میں بھلا انہیں یہاں کیوں بلاوں؟؟؟ اس پر نندنی کے ساتھ کھڑی دوسری ائیر ہوسٹس جسکا نام للیتا تھا بولی پیسے نہیں مانگنے لگے ہم تیری میڈیم سے، بس انکے ساتھ ایک سیلفی بنوانی ہے ہمیں۔ اور یہ کام تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا؟؟؟ اس بار مرلی نے پھر بےوقوفی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا سیلفی کیسے بنواتے ہیں؟؟؟ اب نندنی بولی ابے یار انکی تصویر بنوانی ہے۔ اس پر مرلی نے اپنا موبائل نکالا اور بولا یہ کونسا مشکل کام ہے میں دے دیتا ہوں تمہیں انکی تصویریں بولو کتنی تصویریں چاہیے؟؟ اب کی بار تیسری ائیر ہوسٹس کاجول بولی ارے بدھو۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی تصویروں کا ہم نے اچار ڈالنا ہے کیا وہ تو ہم بھی انٹرنیٹ سے لے سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انکے ساتھ ہم نے اپنی تصویریں بنوانی ہیں تاکہ دوسروں کو دکھا سکیں کہ دیپیکا میڈیم نے ہم سے مل کر ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائی ہیں۔ اب کی بار مرلی نے کاجول کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔۔۔ تو یوں کہو نہ کہ تم نے شوخیاں مارنی ہیں۔ میں کیوں دیپیکا میڈیم کو تنگ کروں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ یہ کہ کر مرلی واپس اپنی نشست کی طرف جانے لگا مگر للیتا نے اسکو کندھے سے پکڑ کر واپس کھینچ لیا اور بولی کیا مطلب ہے تمہارا اس میں انکو تنگ کرنے والی کونسی بات ہے؟ 5 منٹ ہی تو لگیں گے کونسا دیپیکا میڈیم شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ اگر 5 منٹ ہمارے ساتھ بِتا لیں گی تو تمہیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟
اس پر مرلی نے للیتا کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا اور بولا واہ، بڑا نخرہ ہے محترمہ میں، ایک تو کام بھی اپنا کروانا ہے اور اوپر سے تمیز بھی نہیں بات کرنے کی جاو میں نہیں کرتا تمہارا کام۔ نندنی نے کام بگڑتا دیکھا تو اس نے للیتا کو پیچھے کیا اور بڑے پیار سے آگے بڑھی اور مرلی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی سوری مرلی، یہ للیتا تو ہے ہی بد تمیز مگر تم تو اچھے انسان ہو نہ، تو پلیز ہمارا یہ چھوٹا سا کام کر دو نا پلیز۔۔۔ اب کی بار مرلی نے نندنی کو غور سے دیکھا اور بولا مگر مجھے کیا فائدہ ہوگا تمہارا یہ کام کرنے کا۔ اس پر پیچھے کھڑی کاجول نے جلدی سے کہا تمہیں ایک ہزار روپیہ دوں گی میں اگر تم ہمارا یہ کام کر دو؟؟؟ مرلی ہنسا اور بولا جاو جاو، مجھے پیسے کی کمی نہیں، جتنے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے دیپیکا میڈیم فورا دے دیتی ہیں مجھے کہو تو میں دیپیکا میڈیم سے لیکر ابھی تم تینوں کو دس دس ہزار دلوا دیتا ہوں۔ یہ کہ کر مرلی پھر واپس اپنی نشست کی طرف جانے لگا تو اب پھر نندنی نے مرلی کو پیار سے روکا اور بولی دیکھو اگر تم ہمارا یہ چھوٹا سا کام کر دو گے تو اس میں تمہارا تو کوئی نقصان نہیں نہ، ہم تمہیں دعائیں دیں گی۔ اب کی بار مرلی نے طنزیہ قہقہ لگایا اور کہا اگر میں یہ کام نہیں کرتا تو بھی مجھے کوئی نقصان نہیں اور نہ تمہارا کوئی نقصان ہوجائے گا بس شوخی نہیں مارسکو گی تم۔ اور جاو مجھے نہیں چاہیے تمہاری دعائیں۔ جس کام میں فائدہ ہی کوئی نہ ہو میں وہ کام کیوں کروں؟؟
اب نندنی نے دونوں ہاتھوں سے مرلی کو کندھوں سے پکڑ کر واپس پیچھے کیا اور بولی دیکھو مرلی تم بتاو بدلے میں تمہیں کیا چاہیے، جو تم کہو گے تمہیں ملے گا، بس تم ہمارا یہ کام کر دو۔ اب مرلی کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا بھلا تم مجھے کیا دے سکتی ہو؟؟؟ نندنی نے پہلے ہی محسوس کر لیا تھا کہ مرلی میاں کی نظریں اسکے مموں پر تھیں جب اس نے واش روم جانے کو کہا تھا لہذا اس نے اسی چیز کا استعمال کیا اور بولی، جو تم اس وقت دیکھنا چاہ رہے تھے وہ تمہیں دکھا سکتی ہوں میں؟؟؟ اب کی بار مرلی نے کچھ ترچھی نظروں سے للیتا اور کاجول کو دیکھا اور پھر دوبارہ نندنی کو دیکھتے ہوئے بولا کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا دیکھنا چاہتا تھا میں؟؟؟ للیتا اور کاجول بھی حیرانگی سے نندنی کو دیکھنے لگیں کہ یہ کیا کہنا چاہتی ہے؟؟ مرلی کو اپنی جانب ایسے دیکھتے ہوئے نندنی نے کہا جب تم نے مجھے اپنے پاس بلایا تھا اس وقت تم جو چیز دیکھنا چاہ رہے تھے وہ میں دکھا سکتی ہوں تمہیں اگر تم میرا یہ کام کر دو۔۔۔۔ اب کی بار مرلی نے جھنجلاتے ہوئے کہا ارے یار جو کہنا ہے کھل کر کہو یوں پہیلیاں نہ بجھواو مجھ سے۔ اس پر نندنی ایک دم بولی مجھے معلوم ہے تمہاری نظریں اس وقت میرے سینے پر تھیں، میں تمہیں وہ دکھا دوں گی بس تم ایک بار دیپیکا میڈیم کے ساتھ ہماری سیلفی بنوا دو۔ یہ سن کر کاجول اور للیتا دھیمی آواز میں چلائیں اور بولی نندنی پاگل ہوگئی ہے تو؟؟؟ یہ کیا بکواس کر رہی ہے؟؟؟ اس پر نندنی نے کہا یہ میرا مسئلہ ہے تمہیں اس سے کیا پرابلم ہے؟؟؟ بس مجھے دیپیکا میڈیم کے ساتھ تصویر بنوانی ہے اور اس سنجنا کی بچی کو جلانا ہے جو ہر روز دیپیکا کا نام لے لے کر مجھے سڑاتی رہتی ہے کہ اس نے دیپیکا سے ایک شاپنگ مال میں ہاتھ ملایا تھا، میں جب اسے دیپیکا میم کے ساتھ اپنی تصویر دکھاوں گی تو سالی دوبارہ کبھی ہاتھ ملانے کا نام نہیں لے گی۔
نندنی کے خاموش ہونے پر مرلی تھوڑا ہکلایا اور بولا م م میں ک۔۔۔ کب دیک۔۔۔۔ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ت۔ ت۔ ۔ ت تمہارا سینہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر نندنی نے اسکو غصے سے دیکھا اور بولی اتنی بھی بچی نہیں ہوں میں تم جیسے ٹھرکی روز اس جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ان سب کی نظریں ہمارے سینوں پر ہی ہوتی ہیں جیسے انہوں نے کبھی لڑکی کا سینہ دیکھا نہیں ہوتا۔ اب سیدھے سیدھے بتاو اگر تو میرا سینہ دیکھنا چاہتے ہو تو دیپیکا میڈیم کو بلوا دو نہیں تو جاو واپس اپنی نشست پر جا کر بیٹھو اور خبردار جو دوبارہ ہم تینوں میں سے کسی کو بھی اپنے کسی کام کے لیے بلایا۔۔۔۔ اب مرلی کھڑا سوچنے لگا اور پھر بولا مگر اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ دیپیکا میم کے ساتھ تصویر بنانے کے بعد تم اپنا دکھاو گی؟ تم بعد میں مکر جاو گی تو میں کس سے جا کے شکایت کروں گا؟؟؟ پہلے مجھے دکھاو پھر میں میم کو بلاوں گا؟؟؟ اس پر اب للیتا بولی یہ بات تو ہم بھی کر سکتے ہیں کہ اگر نندنی نے تمہیں پہلے اپنا سینہ دکھا دیا تو کیا گارنٹی ہے تم دیپیکا میم کو بلاو گے؟؟ تم بعد میں مکر جاو تو ہم کیا کریں گی؟؟؟ مرلی نے للیتا کو غصے سے دیکھا اور بولا تمہارا سینہ کون دیکھنا چاہتا ہے؟؟؟ میری اور نندنی کی بات ہورہی ہے، اگر تو میری بات پر یقین ہے تو پہلے سینہ دکھاو پھر میں دیپیکا میڈیم کے ساتھ تمہاری سیلفی بنوا دوں گا۔۔۔۔ اور اگر پہلے نہیں دکھانا سینہ تو مجھے راستہ دو میں واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھوں۔۔۔
مگر نندنی نے مرلی کو راستہ نہ دیا اور اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی سوچتی رہی، پھر اچانک وہ اپنے ہاتھ اپنی شرٹ کی طرف لے کر گئی اور شرٹ کے اوپر والے 3 بٹن کھول کر اپنی شرٹ سائیڈ پر ہٹا دی۔ نیچے نندنی نے ہلکے گلابی رنگ کا خوبصورت برا پہن رکھا تھا جس میں نندنی کے 34 سائز کے ممے بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ کچھ سیکنڈز کے لیے نندنی نے اپنی شرٹ کھلی رہنے دی ، اس دوران مرلی کی نظریں نندنی کے مموں پر ہی تھیں اور وہ انکا سائز ماپنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ کاجول اور للیتا حیران ہوکر نندنی کی اس حرکت کو دیکھ رہی تھیں وہ ششدر رہ گئیں تھیں کہ کیسے نندنی نے اتنی جلدی یہ حرکت کر ڈالی۔ مگر جیسے ہی نندنی نے شرٹ کے بٹن دوبارہ بند کرنے کی کوشش کی تو مرلی ایک دم بولا ارے یہ کیا بے ایمانی ہے، کیا دیپیکا میڈیم کے ساتھ تم اتنی سی ہی بات کرو گے جتنی دیر تم نے اپنا سینا دکھایا؟؟؟ یہ سن کر نندنی نے کھا جانے والی نظروں سے مرلی کو دیکھا مگر مرتی کیا نہ کرتی اس نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کرنے کا ارادہ ختم کر دیا اور بولی لو تم دیکھ لو اور اچھی طرح سے۔
اب کی بار مرلی مسکراتا ہوا نندنی کو دیکھنے لگا اور پھر بولا بس شرٹ ہی؟؟؟ نندنی مرلی کی اس بات کو کچھ کچھ سمجھتے ہوئے غصے سے بولی کیا مطلب ہے تمہارا کہ بس شرٹ ہی؟؟؟ مرلی بولا مطلب یہ کہ تم نے اپنا سینہ دکھانے کی بات کی تھی تو پورا سینہ تو دکھاو نہ۔۔۔ نندنی نے کہا پورا ہی تو دکھا رہی ہوں اور کیسے پورا دکھاوں؟؟؟ اس پر مرلی نے کہا پورا کہاں ہے؟؟؟؟ اتنا بڑا تو تم نے برا پہن رکھا ہے جو تمہارے سینے کی اصل خوبصورتی کو چھپا رہا ہے۔۔۔ اب اگر میں دیپیکا میڈیم کو برقع پہنا کر لے آوں تو اسکا کیا فائدہ؟؟؟ اسی طرح تم نے سینہ دکھانے کی بات کی ہے تو پورا سینہ تو دکھاو نہ جو میں دیکھنا چاہتا تھا۔ مرلی کی اس بات پر پیچھسے سے کاجول کی آواز آئی ارے یہ تو بڑھتا ہی جا رہا ہے نندنی چھوڑو اسکو ہم خود ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ کاجول کی بات پوری ہوتی وہ یہ دیکھ کر حیران گئی کہ نندنی اپنی شرٹ کا آخری بٹن کھولنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ پیچھے لیجا کر اپنے برا کی ہُک کھول چکی تھی پھر اس نے ہاتھ واپس آگے لا کر اپنے دونوں مموں پر ہاتھ رکھا اور اپنے برا کو پکڑ کر مموں سے ہٹا دیا۔۔۔۔ واہ کیا نظارہ تھا۔ مرلی نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ یوں جہاز میں بھی وہ کسی کے ایسے خوبصورت ممے دیکھ پائے گا۔ نندنی کے گورے گورے بدن پر گورے گورے 34 سائز کے گول اور سڈول ممے بہت خوبصورت لگ رہے تھے ان پر ایک چھوٹا سا براون گول دائرہ اور اس میں ایک چھوٹا سا نپل جو دیکھنے میں کافی نرم لگ رہا تھا بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ۔ ۔ مرلی یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔ اور اسکا بس نہں چل رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ کر دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لے مگر وہ گرم گرم نوالہ کھانے کا عادی نہیں تھا۔
نندنی کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر اس نے ایسا بولڈ سٹیپ کیوں لے لیا تھا مگر اب تو جو ہونا تھا ہو چکا تھا، وہ اپنے ننگے ممے لیے مرلی کے سامنے کھڑی تھی اور اسکی سانسیں تیز ہورہی تھیں، اس نے آج تک کسی انجان شخص کو یوں اپنے ممے نہیں دکھائے تھے۔ اسکی شادی کو بھی ابھی 1 سال ہی ہوا تھا اور اپنے شوہر کے علاوہ کسے کے سامنے یوں اپنا برا کھولنے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ سانسیں تیز چلنے کی وجہ سے اسکے تنے ہوئے 34 سائز کے ممے اوپر نیچے ہورہے تھے اور مرلی انکو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا رہا تھا جبکہ اسکی پینٹ میں اسکا لن سر اٹھا چکا تھا۔ کچھ دیر تک اپنے ممے دکھا لینے کے بعد نندنی نے پوچھا بس یا ابھی اور بھی دیکھنا ہے؟؟؟ اس بار دانش نے کہا آپ دیپیکا میڈیم کو صرف دیکھیں گی ہی یا انسے ہاتھ بھی ملائیں گی؟؟؟ یہ سن کر پیچھے سے کاجول بولی بہن چود اب اور کیا چاہتا ہے تو؟؟؟ چھوڑ نندنی بہت بڑا کمینہ ہے یہ ہمیں نہیں ملنا دیپیکا شیپیکا سے۔ نندنی کا بھی اب غصے سے برا حال تھا، کاجول کی بات سن کر مرلی نے اسکو طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور بولا تم سے بات کون کر رہا ہے؟ جب نندنی سب کچھ دکھا ہی چکی ہے تو اگر میں انکو ہاتھ بھی لگا لوں گا تو کونسا اسکے ممے گھِس جائیں گے؟؟؟ مرلی کی بات سن کر نندنی نے شدید غصے مگر مجبوری کی حالت میں دانت پیستے ہوئے کہا مادر چود یہ شوق بھی پورا کر لے اپنا، ہاتھ بھی لگا لے، لیکن اب اگر تو نے دیپیکا میم سے ملوانے کا وعدہ پورا نہیں کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ یہ کہنا تھا کہ مرلی نے فورا ہی نندنی کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اسے پنی طرف کھینچ کر اسکے ایک ممے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے دبا دبا کر اسکی سختی کا اندازہ لگانے لگا، بہت ہی خوبصورت مما تھا اسکا۔ گول اور ملائم اور تنا ہوا مما۔ پھر مرلی نے نندنی کے نپل کو اپنی انگلیوں سے پکڑ کر ہلکا سا مسلا تو نندنی کی ایک سسکاری نکل گئی۔ نندنی کا میاں اسکو نپلز سے کھیلتا تھا مگر مرلی نے جب اسکا نپل مسلا تو اسے عجیب سا سرور ملا، شاید یہ ایک اجنبی کے ہاتھوں کی وجہ سے تھا۔
پھر مرلی نندنی کے ممے کے اوپر جھکا اور اپنی زبان نکال کر نندنی کے پیارے سے نپل پر پھیرنے لگا جو اب تن کر سخت ہو چکا تھا۔ نندنی یہ سب کچھ نہیں چاہتی تھی مگر دیپیکا سے ملنے کا شوق اسے پاگل کیے دے رہا تھا اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی مرلی کی زبان لگنے سے اسکی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں تھی جبکہ پیچھے کھڑی للیتا کاجول کے کان میں کہ رہی تھی چل اچھا ہوا اسی نے سب کچھ کر دیا اب ہمیں تو فری میں ہی دیپیکا میم کے ساتھ سیلفی بنوانے کا موقع مل جائے گا۔ جواب میں کاجول نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔ نندنی کو اس وقت اور کسی چیز کا ہو ش نہیں تھا اسے تو ایک انجان مرد سے یوں اچانک اپنے نپل اور ممے دبوانے کا مزہ آرہا تھا اور وہ ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہی تھی جبکہ مرلی نے للیتا کی یہ بات سن لی تھی اور دل ہی دل میں ان پر ہنس رہا تھا۔ کچھ دیر تک نندنی کا پیارا سا مما اور اسکا نپل چوسنے کے بعد اب مرلی نے اپنا دوسرا ہاتھ اسکی کمر میں ڈالا اور پہلے جو ہاتھ کمر میں تھا اس سے نندنی کا دوسرا مما پکڑ لیا اور اسے بھی چوسنے لگا۔ جب مرلی نے دیپیکا کے اس ممے کو چوسنا شروع کیا تو نیچے سے اسکا لن فل جوبن پر آچکا تھا اور وہ بھی اب اپنے آپے سے باہر ہورہا تھا تبھی اس نے ذرا زور سے نندنی کا نپل چوسا تو اسکے منہ میں کچھ نمکین، کچھ تھیکا اور کچھ کڑوا سا پانی آیا۔ مرلی نے ایک دم سے نپل منہ سے نکالا اور اسے دیکھنے لگا تو نپل کے اوپر ایک سفید یا پھر یوں کہیے ہلکا پیلے رنگ کا قطرہ تھا، یہ نندنی کے نپل سے نکلنے والا دودھ تھا۔ وہ ایک بچے کی ماں تھی جو اسکی شادی کے 9 ماہ بعد ہی ہوگیا تھا اسی وجہ سے اسکے مموں میں دودھ بھی تھا،
مرلی جب یوں اسکے نپلز کو چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا تو نندنی بولی رک کیوں گئے اور چوسو نا پلیز، نندنی نے یہ کہا تو مرلی ایک بار پھر اسکے نپل کو چوسنے لگا مگر اس بار وہ اسکا دود بھی پی رہا تھا جو اسکو مزہ دے رہا تھا۔ کچھ ہی دیر تک ممے چوسنے کے بعد نندنی کے مموں سے دودھ آنا بند ہوگیا تو مرلی نے بھی سوچا کہ بس اب بہت ہوگئی ہے اب اس بیچاری کو دیپیکا سے ملوا دینا چاہیے۔ اس نے اپنا منہ نندنی کے ممے سے ہٹایا۔ اور بولا چلو اب تم اپنے کپڑے ٹھیک کر لو میں تمہیں دیپیکا جی سے ملوا لاتا ہوں۔ یہ سن کر للیتا اور کاجول ایک دم چلائیں: کیا مطلب ملوا لاتا ہوں؟؟؟ تم نے کہا تھا تم دیپیکا میم کو یہاں بلاو گے تاکہ ہم انکے ساتھ سیلفی بنوا سکیں۔ مرلی نے انہیں مسکرا کر دیکھا اور بولا ہاں تو وہاں جا کر نندنی دیپیکا جی کے ساتھ سیلفی بنوا لے گی۔ ضروری تو نہیں کہ یہیں بلوا کر سیلفی لی جائے۔ اس پر للیتا بولی نندنی میں نے کہا تھا نہ یہ مکر جائے گا۔ اسکو کچھ مت دکھاو۔
للیتا کی بات سن کر نندنی نے کہا: وہ کب مکرا ہے وہ مجھے لے جا تو رہا ہے دیپیکا جی کے پاس۔۔۔ اس پر کاجول چلائی کیا مطلب تمہیں لے جارہا ہے؟؟؟ اور ہمارا کیا؟ اب کی بار مرلی مسکرایا اور بولا جس نے مجھے اپنا سینہ دکھا دیا اسی کو لے کر جاوں گا نہ۔ تم نے کچھ دکھایا ہی نہیں تو تم سے کیوں ملواوں؟؟؟؟ اسکی بات سن کر کاجول نے کہا اب اس امید پر نہ رہنا کہ ہم بھی اپنا جسم تجھے دکھائیں گی چل دفعہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ اس سے پہلے کہ کاجول کی بات پوری ہوتی للیتا اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر شرٹ سائیڈ پر کرچکی تھی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے کالے رنگ کے برا کی ہُک کھول کر اپنا برا بھی اتار رہی تھی اور یہ منظر دیکھ کر کاجول کو تو چپ لگ گئی تھی۔ للیتا نے اپنا برا اتارا اور مرلی کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ، نندنی نے بھی ابھی تک نہ تو اپنا برا پہنا تھا اور نہ ہی شرٹ۔ للیتا نے مرلی کے قریب آکر کہا لو میرے بھی دیکھ لو اور انکو بھی پکڑ لو مگر مجھے بھی دیپیکا میم سے ملوانا ہے لازمی۔ اس پر کاجول بولی اری تم دونوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا کر رہی ہو یہ؟؟؟
مرلی نے للیتا کے مموں کی طرف دیکھا تو اسے کچھ خاص مزہ نہ آیا۔ 32 سائز کے ممے تنے ہوئے تو تھے مگر سائز میں چھوٹے تھے ۔ مرلی نے للیتا کے مموں سے نظریں ہٹا کر کہا تمہارے مموں میں وہ بات نہیں جو نندنی کے مموں میں ہیں ، یہ کہ کر اس نے ایک پار بھر نندنی کا ایک مما اپنے منہ میں لیکر اسکا نپل چوس لیا جس سے نندنی کی سسکی نکلی۔ پھر مرلی نے دوبارہ سے للیتا کی طرف دیکھا جو اب رونے والی ہورہی تھی کہ اپنا سینہ بھی دکھا دیا مگر مرلی نے کوئی لفٹ ہی نہیں کروائی۔ للیتا کی رونے والی شک پر مرلی کو ترس آیا تو وہ بولا اچھا تم اگر ایک کام کر دو تو تمہیں بھی ملوا سکتا ہوں، اس پر للیتا بولی ہاں بولو؟؟؟ مرلی نے اپنی پینٹ کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ کافی پھدک رہا ہے، اس پر تھوڑا ہاتھ پھیرو اسکو سکون پہنچاو تو میں تمہیں بھی ملوا دوں گا۔ یہ سن کر للیتا تھوڑا اور آگے بڑھی اور مرلی کی پینٹ کے اوپر سے ہی اسکے 8 انچ کے لن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اسکو اپنے ہاتھ سے دبانے لگی۔ نندنی بھی اب ایک سائیڈ پر ہوکر للیتا کو مرلی کا لن دباتے ہوئے دیکھ رہی تھی مگر اسکی کمر کے گرد ابھی تک مرلی کا بازو تھا جو کمر سے ہوتا ہوا واپس اسکے ممے پر آرہا تھا۔ مرلی نے للیتا کو کہا، پینٹ کا بٹن اور زِپ کھول کر اندر ہاتھ ڈالو۔
للیتا نے بغیر وقت ضائع کیے مرلی کی پینٹ کی زپ کھول دی اور بٹن بھی کھول کر انڈر وئیر میں ہاتھ ڈال دیا۔ انڈر وئیر کے اندر ہی للیتا نے مرلی کا 8 انچ لمبا اور موٹا تازہ لن پکڑا اور اسکو ہاتھ میں پکڑتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لن ان سب سے بڑا ہے جن سے پہلے للیتا چودائی کروا چکی ہے۔ کاجول یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، جب اسکی دونوں ساتھی ائیر ہوسٹس اپنے اپنے ممے دکھا چکی تھیں اور ایک تو لن بھی پکڑ کر بیٹھی تھی تو کاجول نے بھی سوچا کہ دیپیکا سے ملنے کا موقع دوبارہ نہیں آنا، جہاں اتنے لوگوں سے پہلے پیسے لے کر چودائی کروا چکی ہے تو کیوں نہ آج دیپیکا سے ملنے کے لیے ہی اپنے ممے دکھا دے اس مرلی کے بچے کو۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی شرٹ کے ابھی 2 بٹن ہی کھولے تھے کہ اس کیبن میں ایک بیپ ہوئی۔ یہ کسی سواری کی طرف سے بجائی گئی تھی تو نندنی نے کہا جاو کاجول دیکھو کیا کام ہے پیسنجر کو؟ کاجول جلی کٹی بولی میں کیوں جاوں؟ تم خود چلی جاو؟؟؟ اس پر مرلی نے کہا جاو دیکھ آو تمہیں بھی ملوا دوں گا دیپیکا میم سے تم بھی کیا یاد کرو گی۔ یہ سن کر کاجول کو کچھ حوصلہ ہوا اس نے دوبارہ سے اپنے بٹن بند کیے اور پیسنجر کے پاس چلی گئی۔
للیتا نے جب سے مرلی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا اسکے منہ اور چوت دونوں میں ہی پانی آگیا تھا اور وہ اب یہ لن دیکھنے کےلیے بیتاب تھی، بالآخر اس سے برداشت نہیں ہوا اور اس نے ایک جھٹکے سے لن کو باہر کھینچ لیا۔ لن باہر نکالتے ہی للیتا پھٹی پھٹی آنکھوں سے مرلی کے لن کو دیکھنے لگی، پھر اس نے منہ اوپر اٹھایا تو اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی، اس نے نندنی کو آواز دی جسکے ممے مرلی کے منہ میں تھے اور وہ آنکھیں بند کیے مزے لے رہی تھی۔ للیتا بولی دیکھ نندنی کیا تازہ اور سالڈ ہتھیار ہے اس چرکُت کے پاس۔۔۔ نندنی نے اپنی آنکھیں کھول کر نیچے دیکھا اور ایک بار وہ بھی مرلی کے لن سے اپنی نظریں ہٹانا بھول گئی۔ مرلی کو نندنی کے ممے کچھ زیاہ ہی پسند آگئے تھے، اسنے اب نندنی کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور دوبارہ سے نندنی کے مموں پر ٹوٹ پڑا۔ جبکہ للیتا جو مرلی کا لن دیکھ کر بہت خوش تھی کچھ دیر تک اپنے ہاتھ سے اسے دباتی رہی اور اسکی ہلکی ہلکی مٹھ مارتی رہی۔ پھر اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اپنی زبان نکال کر پہلے تو مرلی کے لن کی ٹوپی پر پھیری جہاں سے اس نے مرلی کی مذی چاٹ لی اسکے بعد للیتا نے لن کی ٹوپی اپنے ہونٹوں میں پھنسا کر اس پر پیار کرنا شروع کر دیا۔ للیتا چوپے لگانے میں ماہر تھی اس نے اپنے ہونٹوں کا حلقہ بنا کر لن کی ٹوپی پر اسطرح لن پھنسایا تھا کہ مرلی کے لن میں ہلکی ہلکی گد گدی سی ہونے لگی تھی اور اسے بہت مزہ آرہا تھا، وہ اپنا چہرہ گھما گھما کر ٹوپی کے گرد اپنے ہونٹ گھما رہی تھی اور کبھی کبھی اپنی زبان کی نوک ہونٹوں کے درمیان لا کر ٹوپی سے نکلنے والی مذی بھی چاٹ رہی تھی جبکہ مرلی کی گود میں نندنی اب اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھی، مرلی نے اسکے نپل چوس چوس کر اسے بہت مزہ دیا تھا۔ وہ اب بے تابی سے مرلی کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہی تھی اور اپنی زبان بھی نکال کر مرلی کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
للیتا اب مرلی کا پورا لن اپنے منہ میں لینے کی کوشش کر رہی تھی مگر 5 انچ سے زیادہ لن اسکے منہ میں نہیں جا سکا تھا۔ وہ بڑی مہارت کے ساتھ لن کے چوپے لگانے میں مصروف تھی اپنے دونوں ہاتھوں سے لن کا شافٹ پکڑ کر وہ اپنے ہاتھوں کو گول گول گھما رہی تھی اور اپنا منہ آگے پیچھے کر کے چوپے بھی لگا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر کے بعد کاجول بھی پیسنجر کو پانی پلا کر واپس آچکی تھی۔ کیبن میں آکر اس نے اندر کا جو منظر دیکھا تو وہ بھی ششدر رہ گئی، نندنی کی شرٹ بھی اتر چکی تھی اور وہ اوپر سے مکمل ننگی تھی اور مرلی کی گود میں چڑھ کر اسکے ہونٹ چوس رہی تھی جبکہ نیچے للیتا اپنا برا اتار کربیٹھی 8 انچ کے لن کے چوپے لگا رہی تھی مگر اسکی شرٹ ابھی تک اسکے جسم پر تھی۔ کاجول کی نظر جب مرلی کے لن پر پڑی تو وہ بے اختیار بول اٹھی ہائے راما اتنا بڑا لوڑا؟؟؟؟ یہ کہ کر وہ سیدھی للیتا کی طرف گئی اور اسکے ہاتھ سے مرلی کا لن پکڑ کر خود دیکھنے لگی۔ اسکی آنکھوں میں بھی ایک چمک آگئی تھی اس نے بغیر انتظارکیے لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسکے چوپے لگانے لگی۔ مرلی کی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی، مفت میں ہی 3 ، 3 گرم جوانیاں اسکے جسم کے ساتھ کھیل رہی تھیں، للیتا اب اوپر اٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی اور نندنی اور مرلی کے جسم کے درمیان خلا بنا کر اپنا منہ داخل کر کے مرلی کے سینے پر پیار کر رہی تھی۔ وہ اب مرلی کے چھوٹے چھوٹے مگر سخت نپلز کو اپنی زبان سے تیز تیز چاٹ رہی تھی جسکا مرلی کو بھی مزہ آنے لگا تھا۔
کچھ دیر تک یہی سب کچھ چلتا رہا پھر للیتا نے مرلی کے کان میں کہا، تم دیپیکا سے ملواو یا نہ ملواو، مگر میری چوت کو ایک بار اپنے اس لوڑے سے ملوادو پلیز۔ مرلی نے یہ سنا تو اسکو کہا اپنا سکرٹ اور پینٹی اتار دے۔ للیتا نے فورا ہی پیچھے ہٹ کر اپنا سکرٹ اتارنے کے بعد اپنی پینٹی بھی اتار دی۔ اسکی چوت بہت پیاری تھی، اسکی چوت کے لب تھوڑے کھلے ہوئے تھے کیونکہ وہ اکثر ہی چدائی کروا لیتی تھی مگر اسکی چوت بالوں سے بالکل پاک تھی۔ مرلی نے اب نندنی کو اپنی گود سے اتارا اور نندنی کو للیتا کی چوت چاٹنے کے لیے کہا۔۔۔ نندنی نے کہا میں نے پہلے ایسے کبھی نہیں کیا جس پر مرلی نے اسے کہا تم نیچے بیٹھ کر اسکی چوت تو چاٹو دیکھنا بہت مزہ آئے گا۔ للیتا نے بھی نندنی کو کہا چل آج تجھے یہ مزہ بھی مل جائے گا، پہلے تو میری چوت چاٹ پھر میں تیری چوت چاٹوں گی۔ یہ سن کر نندنی نیچے بیٹھ گئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی للیتا کی گیلی چوت پر اپنی زبان رکھ دی۔ زبان رکھتے ہی اسے نمکین ذائقہ زبان پر محسوس ہوا تو اس نے اپنا منہ پیچھے ہٹا لیا مگر للیتا نے اسکا سر پکڑ کر دوبارہ اپنی چوت کی طرف دھکیلا اور بولی چاٹ اسکو پھر دیکھ تجھے کتنے مزے آئیں گے اور نندنی نے دوبارہ سے للیتا کی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔
مرلی اب کاجول کی طرف دیکھ رہا تھا جو بڑی مہارت کے ساتھ مرلی کا لن چوس رہی تھی مگر اسکے جسم پر ابھی تک کپڑے موجود تھے۔ مرلی نے کاجول سے کھڑے ہونے کا کہا۔ کاجول کھڑی ہوئی تو مرلی نے ایک ہی جھٹکے میں اسکی شرٹ اتار دی۔ نیچے کاجول نے سرخ رنگ کا برا پہن رکھا تھا اور اسکے ممے بہت بڑے تھے۔38 سائز کے گول ممے برا میں پھنسے ہوئے تھے اور آزاد ہونے کو بے چین تھے جنہیں مرلی نے ایک ہی جھٹکے میں برا سے آزاد کر دیا تھا۔ برا سے آزاد ہوتے ہی کاجول کے ممے جیلی کی طرح ہلنے لگے جنکو مرلی نے اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر روک لیا اور بغیر انتظار کیا کاجول کے گہرے براون نپل کو اپنے منہ مین لیکر چوسنا شروع کر دیا جس سے کاجول کی بھی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئی تھیں، مگر اسکا ایک ہاتھ ابھی بھی مرلی کے لن پر تھا جس سے وہ مرلی کے لن کی مٹھ مار رہی تھی۔ کچھ دیر تک کاجول کے بڑے بڑے ممے چوسنے کے بعد مرلی نے کاجول سے کہا کہ وہ نیچے بیٹھ جائے اور لن کو اپنے مموں میں لیکر اسکی مٹھ مارے۔ کاجول فورا ہی نیچے بیٹھ گئی، اس نے مرلی کا لن اپنے مموں کے درمیان میں رکھا اور پھر دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے آپس میں ملا کر اور انکی لن کے گرد گرفت مضبوطر کر کے انکو اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا۔ وہ اس کام میں ماہر تھی کیونکہ جو بھی اسکی چدائی کرتا تھا وہ اسکے مموں کا سائز دیکھ کر اسکے ممے چودنے کی خواہش ضرور کرتاتھا۔ اور یہی کام مرلی نے بھی کیا تھا۔
کچھ دیر تک مرلی اسی طرح کاجول کے مموں کو چوستا رہا، پھر اس نے کاجول سے کہا کہ وہ نندنی کو ننگا کر دے اور اسکی چوت کو چاٹے ، یہ سن کر نندنی خود ہی اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی اور اس نے اپنی سکرٹ اور پینٹی اتار دی۔ نیچے نندنی کی چوت بالوں سے ڈھکی ہوئی تھی، بال زیادہ لمبے تو نہیں تھے مگر لگ رہا تھا کہ نندنی نے 8 دن سے اپی چوت کی صفائی نہی کی۔ چوت کے چھوٹے چھوٹے کال بالوں پر نندنی کی چوت کا پانی چمک رہا تھا، کاجول فورا ہی نندنی کے سامنے بیٹھی اور اپنی زبان سے اسکی چوت کو چاٹنا شروی کیا۔ نندنی کے لیے یہ تجربہ نیا نہیں تھا کیونکہ اسکا شوہر اسکی چوت بہت شوق سے چاٹتا تھا۔ کاجول کو نندنی کی چوت چاٹنے پر لگا کر مرلی نے للیتا کو اپنے پاس بلایا تو ننگی للیتا فورا ہی مرلی کے پاس آگئی، مرلی نے للیتا کو منہ دوسری طرف کرنے کو کہا اور اپنی گانڈ باہر نکالنے کو بولا تو للیتا نے فورا ہی منہ دوسری طرف کر کے دیوار کا سہارا لیا اور اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھول کر اپنی گانڈ باہر نکال دی۔
مرلی نے اپنی انگلیوں کو للیتا کی چوت پر رکھ اسکی چکنائی چیک کی۔ وہ چودائی کے لیے مکمل تیار تھی، اور اسکی چوت کے لب بھی کھلے ہوئے تھے۔ مرلی نے اپنے لن کی ٹوپی کو للیتا کی چوت کے لبوں کے درمیان رکھا اور ہلکا سا دباو ڈالا تولن خود بخود للیتا کی چکنی چوت میں غائب ہوتا گیا۔ جب سارا لن للیتا کی چوت میں چلا گیا تو للیتا نے ایک ہلکی سی سسکی لیکر گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور اپنے ہونٹوں کا ایک گول دائرہ بنا کر مرلی کو ایک ہوائی بوسہ دیا اور بولی چود دو۔۔۔۔۔ مرلی نے للیتا کی بات سن کر اسکی چوت میں دھکے لگانا شروع کیے تو للیتا نے ہلکی ہلکی سسکیاں لینا شروع کر دیں۔ مرلی اپنی فل رفتار سے دھکے نہیں لگا رہا تھا کیونکہ یہ ایک ہوائی جہاز کا کیبن تھا اس میں سے آوازیں باہر نہیں جانی چاہیے تھی، اور للیتا بھی جتنے مزے میں تھی 8 انچ کا لن اپنی چوت میں لیکر وہ اس حساب سے سسکیاں نہیں لے رہی تھی کیونکہ اسکو بھی اس بات کا خیال تھا کہ اسکی آواز باہر نہیں جانی چاہیے۔
مگر پھر بھی اسکی سسکیوں کی آواز اتنی تھی کہ نندنی اور کاجول دونوں ہی اب مڑ کر للیتا کی چودائی دیکھ رہی تھیں۔ للیتا کے چھوٹے مگر تنے ہوئے ممے ہوا میں ہل رہے تھے، نندنی نے آگے بڑھ کر تھوڑا سا جھک کر اپنا چہرہ للیتا کے مموں کے نیچے کر لیا اور اسکے ممے منہ میں لیکر چوسنے لگی تو للیتا کا مزہ دوبالا ہوگیا۔ پیچھے سے چوت میں 8 انچ کا لن اسکی چودائی کر رہا تھا تو آگے سے اسکے ممے نندنی اپنے منہ میں لیکر اسکے نپل چوس رہی تھی جبکہ کاجول اب مرلی کے پیچھے آگئی تھی اور نیچے بیٹھ کر اسکی ٹانگوں کے درمیاں سے اپنا منہ آگے لیجا کر اسکے ٹٹوں کو اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ کچھ دیر تو مرلی نے کاجول کو یہ حرکت کرنے دی، مگر اس طرح اسکی چودنے کی رفتار خاصی کم ہوگئی تھی، پھر مرلی نے کاجول کو یہاں سے نکلنے کا کہا اور دوبارہ سے للیتا کی چکنی چوت میں اپنے لن کے گھسے مارنے شروع کر دیے۔ کاجول اب دوبارہ سے نندنی کی چوت کو چاٹنے میں مصروف ہوگئی تھی جبکہ للیتا کی چوت مسلسل دھکوں سے اب خاصے مزے میں تھی۔ وہ اب بار بار اپنی چوت کو ٹائٹ کر رہی تھی تاکہ مرلی کے لمبے اور موٹے لن کی زیادہ سے زیادہ رگڑ اسکی چوت کی دیواروں میں لگ سکے اور وہ جلد سے جلد اپنا پانی چھوڑ سکے۔
کچھ دیر مزید چودائی کے بعد للیتا نے مرلی کو کہا ٹھوک کے چود مجھے، فل زور لگا، بس میں چھوٹنے ہی والی ہوں۔ یہ سن کر مرلی نے اپنی رفتار تیز کر دی اور للیتا نے اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیا ،جس سے نہ صرف للیتا کو چودائی کا مزہ آیا بلکہ مرلی کو بھی چوت ٹائٹ ہونے کی وجہ سے خوب مزہ آیا اور اس نے 10، 15 دھکے فل رفتار میں لگائے تو للیتا کی چوت نے اپنے پیار کا رس مرلی کے لن پر بہانا شروع کر دیا۔ اسکی چوت نے پانی چھوڑ دیا تھا جس سے مرلی کا سارا لن بھیگ گیا تھا۔ جب للیتا کے جسم نے جھٹکے لینا بند کر دیے تو مرلی نے اپنا لن للیتا کی چوت سے باہر نکالا جو للیتا کی چوت کے پانی سے بھرا ہوا تھا، مرلی نے کاجول کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ وہ اسکا لن چوس کر صاف کر دے۔ کاجول نے کچھ ہی دیر میں مرلی کے لن کے چوپے لگا لگا کر اسکا لن بالکل صاف کر دیا۔ اب مرلی نے نندنی کو اپنے پاس بلایا تو وہ ڈرتے ڈرتے مرلی کے پاس آگئی۔ اس کے شوہر کا لن مشکل سے 6 انچ کا تھا اور اسکی موٹائی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ گو کہ اسکا شوہر اسے جب بھی ملتا ضرور چودتا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ نندنی کی اپنے شوہر سے 3، 4 دن کے بعد ہی ہوتی تھی ، مگر 3 4 دن کے بعد اسکا شوہر اسے 2 دن تک خوب چودتا تھا۔ مگر آج مرلی کا لن دیکھ کر نندنی کی چوت میں درد شروع ہوگئی تھی اور وہ ڈر رہی تھی کہ اتنا بڑا اور موٹا لن اسکی چوت کی بری حالت کر دے گا۔ مگر مرلی نے اسے حوصلہ دیا اور بولا ڈرو نہیں کچھ نہیں ہوگا، بلکہ تمہیں آج کی چودائی ہمیشہ یاد رہے گی۔ یہ کر کر مرلی نے نندنی کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور اسی چوت پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اسے تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور اپنے ایک ہاتھ سے اپنا لن پکڑ کر اسکی چوت پر فٹ کیا اور پھر ایکدم سے نندنی کا وزن جو اپنے ہاتھ سے سنبھالا ہوا تھا اسے نیچے گرا دیا۔ نندنی اپنے ہی وزن پر نیچے کی طرف گئی تو سارے کا سارا لن نندنی کی چوت میں داخل ہوگیا، نندنی کی چیخ کیبن سے باہر بیٹھی دیپیکا تک ضرور جاتی اگر مرلی بروقت اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکی چیخ کو دبا نہ دیتا۔
پھر مرلی نے بغیر انتظار کیے نندنی کی چوت میں بھی دھکے لگانا شروع کردیے۔ نندنی کی آنکھوں میں آنسو تھے، اسے اپنی چوت میں بہت درد ہورہا تھا مگر مرلی نے اس چیز کا خیال نہیں کیا اور لگاتار اسے چوتڑوں سے پکڑ کر تھوڑا سا اٹحائے رکھا اور نیچے سے اپنے لن کے دھکے اسکی پیاری سی بالوں والی چوت میں لگانا جاری رکھے۔ کچھ ہی دھکوں کے بعد مرلی تھک گیا تھا کیونکہ گود میں اٹھا کر چودائی کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ پھر مرلی نے نندنی کو اپنی گود سے نیچے اتارا اور اسکی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے بازو پر رکھ لی اور دوسرے بازہ سے اسکو سہارا دیا۔ پھر اسنے اپنا لن نندنی کی چوت پر فِٹ کر کے ایک زور دار دھکا مارا اور سارا لن نندنی کی چوت میں چلا گیا، اس بار بھی نندنی کی چیخ نکلی مگر وہ پہلے سے بہت ہلکی تھی اور پھر مرلی اسکی چیخ کو دبانا بھی نہیں بھولا تھا۔ مرلی نے پھر سے نندنی کی چوت میں دھکےلگانا شروع کیے اور ساتھ ہی اسکے ہونٹ بھی چوستا رہا۔ تھوڑی دیر کی چودائی کے بعد اب نندنی کو مزہ آنے لگا تھا اور وہ بھی خوش ہوکر مرلی کے ہونٹ چوس رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ہونٹوں کو چھوڑ کر آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ف۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی سسکیاں نکال رہی تھی۔
کچھ دیر کی چودائی کے بعد مرلی نے نندنی سے پوچھا کہ مزہ آرہا ہے تو نندنی نے کہا ہاں بہت مزہ آرہا ہے۔۔۔۔ تمہارا لن بہت اچھا ہے، ایسا مزہ تو پہلے کبھی نہیں آیا مجھے۔۔۔۔ اور تیز تیز چودو مجھے، میری چوت کو کچھ کچھ ہورہا ہے، تیز تیز چودائی کرو، ساری پیاس بجھا دو آج میری۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اف ف ف ف ف۔۔۔۔ کیا لن ہے تمہارا۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ یہ سن کر مرلی نے اپنے دھکوں کی رفتار اور بڑھا دی اور 3 منٹ تک مسلسل بغیر رکے نندنی کی چوت میں اپنے لن سے چدائی کرتا رہا۔ پھر اس نے نندنی کی چوت سے لن نکالا، اسکی ٹانگ تھک چکی تھی، اب مرلی نے نندنی کو نیچے لیٹنے کو کہا تو نندنی نیچے فرش پر لیٹ گئی، مرلی اسکے اوپر آگیا اور اسکی ٹانگیں اٹھا کرلن اسکی چوت میں داخل کر کے دھکے لگانا شروع کر دیے۔ وہ پہلے کی طرح ہی سسکیاں لینا شروع ہوگئی تھی۔ جبکہ دوسری طرف للیتا بھی فرش پر لیٹ گئی تھی اور کاجول اسکے اوپر 69 پوزیشن میں لیٹی ہوئی تھی اور دونوں ایکدوسرے کی چوت چاٹ چاٹ کر مزے لے رہی تھیں۔ کچھ دیر کی مزید چودائی کے بعد نندنی کو لگا کہ اب وہ چھوٹنے والی ہے تو اس نے خود بھی اپنی گانڈ کو اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیا اور مرلی کو بھی چدائی کی رفتار تیز کرنے کو کہا۔ مرلی نے فل رفتار سے دھکے لگانا شروع کر دیے اور چند دھکوں کے بعد نندنی کی چوت نے بہت سارا پانی چھوڑ دیا جس سے ایک بار پھر مرلی کا لن بھیگ گیا تھا۔
نندنی کو فارغ ہوتے دیکھ کر کاجول فورا ہی للیتا کی چوت کو چھوڑ کر مرلی کے قریب آگئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اب اسکی باری ہے ۔ جب مرلی نے لن باہر نکالا تو کاجول نے بغیر کچھ کہے مرلی کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور جلدی جلدی اسکے لن سے ساری چکنائی کو چاٹ کر صاف کر دیا۔ پھر وہ کھڑی ہوئی اور اپنی آنکھوں میں لن کی تڑپ لیے مرلی سے بولا، کسیے چودنا چاہو گے مجھے؟؟؟ مرلی نے کاجول کی طرف دیکھا اور بولا تمہاری تو میں نے گانڈ مارنی ہے۔۔۔ یہ سن کر کاجول نے کہا گانڈ بھی مار لینا مگر پہلے میری چوت کا کچھ کرو۔ مرلی نے کہا چوت کا بھی ہوجائے گا مگر پہلے تمہاری گانڈ۔ یہ سن کر کاجول نے کہا اچھا چلو جیسے تمہاری مرضی، مگر ذرا آرام سے۔ میں گانڈ تو مرواتی ہوں پہلے بھی مگر اتنا بڑا لن میری گانڈ میں پہلے کبھی نہیں گیا اس لیے ذرا احتیاط سے کرنا۔ مرلی نے کہا تم فکر ہی نہ کرو، ایسے گانڈ ماروں گا تم بعد میں جب بھی گانڈ مرواو گی تمہیں میرے لن کی یاد ضرور آئے گی۔ یہ کر کر مرلی نے کاجول کو دوسیری طرف منہ کرنے کو کہا۔
کاجول بھی للیتا کی طرح دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑی ہوگئی اور اپنی گانڈ باہر نکال لی، مرلی نے کاجول کی گانڈ پر تھوڑا سا تھوک لگایا اور اسکے بعد اپنی ٹوپی اسکی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر دباو ڈالا مگر لن نے اندر جانے سے انکار کر دیا۔ جبکہ کاجول کی پھر بھی ہلکی سی چیخ نکلی حالانکہ ابھی لن اندر نہیں گیا تھا۔ نندنی نے پہلے کبھی گانڈ نہیں مروائی تھی ، وہ بہت غور سے کاجول کو دیکھ رہی تھی جسکی گانڈ میں ابھی مرلی کا لن جانے والا تھا، پھر مرلی نے ایک زور دار دھکا کاجول کی گانڈ میں لگایا تو اسکی ایک دلخراش چیخ نکلی مگر اس نے اپنا منہ نہیں کھلنے دیا اور چیخ اسکے منہ میں ہی رہ گئی جبکہ مرلی کی موٹی ٹوپی اسکی گانڈ کے سوراخ میں جا چکی تھی۔ پھر مرلی نے ایک اور دھکا لگایا تو آدھا لن کاجول کی گانڈ کو پھاڑتا ہوا اسمیں گھس چکا تھا۔ کاجول نے کہا آرام سے کرو یار۔۔۔ بہت موٹا لن ہے تمہارا۔۔۔ مرلی نے کہا مادر چود مجھے گالیاں دے رہی تھی تو، تیری تو ایسی گانڈ ماروں گا تجھے نانی یاد آجائے گی۔
یہ کر کر مرلی نے لن باہر نکالا مگر ٹوپی اندر ہی رہنے دی اور ایک اور فل طاقت کے ساتھ دھکا لگایا تو مرلی کا 8 انچ کا لن کاجول کی گانڈ کے اندر گم ہوچکا تھا۔ پھر مرلی نے آہستہ آہستہ کاجول کی گانڈ میں لن اندر باہر کرنا شروع کیا، مگر کاجول ابھی تک ہلکی ہلکی چیخیں مار رہی تھی۔ تکلیف سے اسکا برا حال ہورہا تھا جبکہ مرلی کو بھی کچھ خاص مزہ نہیں آرہا تھا۔ کیونہ اسکی گانڈ مکمل خشک تھی، نہ تو اس میں تیل لگایا تھا اور نہ ہی اسکے لن پر چکناہٹ تھی۔ تھوڑی دیر تک آہستہ آہستہ دھکے لگانے کے بعد مرلی نے اپنا پورا لن اسکی گانڈ سے نکال لیا اور للیتا کو لن چوسنے کا کہا۔ للیتا فورا آگے بڑھی اور مرلی کا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ جب لن اچھی طرح للیتا کے تھوک سے گیلا ہوگیا تو اس نے اب دوبارہ سے کاجول کی طرف منہ کیا مگر اس بار اسنے لن گانڈ میں ڈالنے کی بجائے کاجول کی چوت پر رکھا اور ایک ہی دھکے میں لن اسکی چوت میں داخل کر دیا۔ گانڈ مروانے کی وجہ سے کاجول کی گانڈ بھی کسی حد تک خشک ہو چکی تھی مگر چند ہی دھکوں نے کاجول کی چوت کو چکنا کر دیا تھا۔ اور اسکا چکنا پانی اب مرلی کے لن کو بھی چکنا کر رہا تھا۔ 5 منٹ تک مرلی کاجول کی چوت میں طوفانی دھکے مارتا رہا پھر اس نے اپنا لن کاجول کی چوت سے باہر نکال لیا اور اسکی چوت پر ہاتھ پھیر کر اسکی چوت سے اپنے ہاتھ کو اور انگلیوں کو بھی چکنا کر لیا اور پھر وہی ہاتھ کاجول کی گانڈ پر پھیرنے لگا۔ پھر اپنی ایک گیلی انگلی کو اسنے کاجول کی گانڈ میں داخل کیا اور اپنا لن دوبارہ سے کاجول کی چوت میں داخل کر دیا ۔ اب کاجول کی گانڈ میں مرلی کی انگلی تھی جبکہ اسکی چوت میں مرلی کا لن تھا جس کی وجہ سے اسکی چوت میں ایک طوفان برپا تھا اور وہ سسکیاں لے لے کر مرلی کے لن کی تعریفیں کر رہی تھی۔ مگر یہ کام بھی مرلی نے تھوڑی ہی دیر کیا اور پھر دوبارہ سے لن کاجول کی گانڈ پر رکھا اور ایک ہی دھکے میں آدھا لن کاجول کی گانڈ میں اتار دیا پھر ایک اور زور دار دھکا لگا اور مرلی کا پورا لن کاجول کی گانڈ میں اتر گیا۔
کاجول کی گانڈ کو مرلی پہلے ہی چکنا کر چکا تھا اب اسکا لن بھی کاجول کی چوت کے پانی سے چکنا تھا تو اب اسکی گانڈ مارنے کا بھی مرلی کو مزہ آرہا تھا اور اب کی بار مرلی کی رفتار بھی خاصی تیز تھی۔ مرلی کی دھکوں سے کاجول کو اپنی گانڈ میں اٹھتی دردوں سے برا ہورہا تھا۔ وہ مسلسل مرلی کو کہ رہی تھی کہ آہستہ چودو میری گانڈ کو مگر مرلی اسکی ایک نہیں سن رہا تھا۔ وہ کاجول کے بڑے بڑے چوتڑوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر مسلسل اسکی گانڈ میں دھکے لگا رہا تھا، جبکہ کاجول اپنی چوت پر انگلی پھیر کر مزے لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ 5 منٹ تک مرلی مسلسل کاجول کی گانڈ میں دھکے مارتا رہا۔ اسکی گانڈ سوج چکی تھی اور اسمیں کافی درد بھی ہورہی تھی مگر مرلی تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ پھر مرلی کو محسوس ہوا کہ اسکا لن اب پانی چھوڑںے والا ہے تو اس نے اپنے دھکون کی رفتار اور بھی تیز کر دیا۔ جبکہ کاجول کو بھی اپنی چوت میں خارش ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ کچھ دیر کے مزید دھکوں کے بعد کاجول کی چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا مگر لن اسکی گانڈ میں مسلسل طوفانی دھکے لگا رہا تھا۔ کاجول کو چوت کا پانی نکال کر سکون تو ملا مگر اسے لگ رہا تھا کہ جیسے مرلی نے اسکی گانڈ ماری ہے وہ 2 دن صحیح طرح سے چل بھی نہیں سکے گی۔
للیتا سمجھ گئی تھی کہ مرلی اب اپنے عروج پر ہے اور اسکا لن کسی بھی وقت پانی چھوڑ سکتا ہے۔ اس نے مرلی کو کہا اسکی گانڈ میں نہ فارغ ہونا، لن مجھے دے دو، یہ سن کر مرلی نے فورا ہی اپنا لن اسکی گانڈ سے نکال لیا اور اپنا رخ للیتا کی طرف کر لیا جس نے فورا ہی مرلی کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسکے چوپے لگانے لگی، ساتھ ساتھ وہ اپنے ہاتھ سے مرلی کے لن کی مٹھ بھی مار رہی تھی۔ کاجول کی چوت سے لن نکلا تو اسکو ایسے لگا جیسے کوئی بڑا لوہے کا راڈ اسکی گانڈ میں تھا جو نکل تو گیا باہر مگر اب اس لوہے کے ڈنڈے کی وجہ سے اسکی گانڈ میں مرچیں لگی ہوئی تھیں۔ وہ مان گئی تھی کہ مرلی چودے کا ماہر ہے، اسے مزہ تو آیا تھا مگر درد بھی بہت ہوئی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اگر وہ پیار سے مرلی سے چدواتی تو وہ اسکی چوت کو بھی بہت مزہ دیتا اور پھر اسکی گانڈ مارتے ہوئے بھی اسکو مزہ دیتا ۔ للیتا کے گرم گرم منہ میں مرلی کا لن اپنی منی چھوڑنا شروع کر چکا تھا۔ مرلی کے 2 جھٹکے تو للیتا کے منہ میں ہی لگے جس سے للیتا کا منہ مرلی کی گاڑھی منی سے بھر گیا تھا، پھر اس نے لن منہ سے نکالا اور اسکا رخ نندنی کے مموں کی طرف کر دیا۔ باقی کی منی مرلی نے نندنی کے مموں پر چھوڑ دی جسکو بعد میں کاجول اور للیتا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔
اب نندنی اور للیتا دوبارہ سے اپنے کپڑے پہن چکی تھیں اور شیشے میں دیکھ کر انہوں نے اپنا حلیہ بھی درست کر لیا تھا جبکہ کاجول ابھی تک اپنی گانڈ میں ہونے والی درد کی وجہ سے ہلنے کا نام نہیں ہے تھی۔ للیتا نے مرلی کو پیار کیا اور بولی آج تو بہت مزہ آگیا تمہاری چدائی سے، پھر اسنے نندنی کی طرف دیکھا اور بولی کیوں نندنی کیسا لگا اسکے لن سے چودائی کروا کر؟؟؟ نندنی مسکرائی اور بولی ایسا مزہ تو سہاگ رات پر بھی نہیں آیا تھا جیسا آج اس نے چود چود کر دیا ہے۔ پھر مرلی نے بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔ اور کاجول کو بھی کہا کہ اب فورا کپڑے پہن لو، میں دیپیکا میم کو بلانے جا رہا ہوں، انکے ساتھ سیلفیاں بنوا لو پھر جہاز لینڈ کرنے والا ہے۔
یہ کہ کر مرلی باہر چلا گیا اور دیپیکا سے گذارش کی کہ ایک ائیر ہوسٹس اسکی جاننے والی ہے وہ آپکے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی ہے۔ تو دیپیکا نے کہا اس میں ایسی کونسی بات ہے چلو۔ یہ کہ کر دیپیکا مرلی کے ساتھ اسی کیبن میں چلی گئی جہاں اب کاجول بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی اور نندنی اور للیتا کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے اپنا حلی بھی درست کر چکی تھی مگر اس سے ابھی بھی گانڈ کی درد کی وجہ سے ہلا نہیں جا رہا تھا۔ مرلی نے نندنی سے ملواتے ہوئے دیپیکا کو بتایا کہ یہ اسکی دور کی رشتے دار ہے۔ جبکہ کاجول اور للیتا اسکی دوست ہیں۔ تینوں نے مل کر دیپیکا کے ساتھ ایک تصویر بنوائی جو دیپیکا نے نندنی کے موبائل سے خود اپنے ہاتھ سے بنائی۔ پھر سپیشل نندنی نے دیپیکا کے ساتھ ایک تصویر بنائی مگر اس بار موبائل نندنی کے ہاتھ میں تھا اور دیپیکا لمبی ہونے کی وجہ سے تھوڑا جھک کر کھڑی تھی اور اسنے اپنے ہاتھ نندنی کے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے اور اپنا چہرہ نندنی کے چہرے کے ساتھ جوڑا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر کاجول اور للیتا نے بھی اسی طرح سیلفی لینے کی خواہش ظاہر کی مگر مرلی نے منع کر دیا اور دیپیکا کو کہا آپ تیاری کریں جہاز لینڈ کرنے لگا ہے ۔ یہ سن کر دیپیکا واپس چلی گئی
دیپیکا کے واپس جانے کے بعد کاجول اور للیتا نے سڑ کر نندنی کی طرف دیکھا اور پھر مرلی کو کہا یہ کیا بدتمیزی ہے؟؟ ہم نے بھی ایسے ہی تصویر بنوانی تھی۔۔۔ مرلی نے نندنی کو ایک پیار بھری کِس کی اور بولا اصل میں تو تم نے ہی اپنا جسم مجھے دکھایا تھا یہ دونوں تو بعد میں آئی تھیں مجبورا، اس لیے تمہارے لیے میں نے دیپکا جی سے کہا تھا کہ صرف نندنی کے ساتھ ہی اکیلے سیلفی بنوانی ہے، باقی دونوں کے ساتھ گروپ سیلفی ہوگی۔ یہ کہ کر مرلی واپس اپنی نشست پر بیٹھ گیا جبکہ کاجول اور للیتا نندنی کو گھورنے لگیں، مگر اسکو انکے گھورنے کی پرواہ نہیں تھی، مرلی نے سب سے زیادہ مزہ بھی نندنی کو دیا تھا چدائی کے دوران اور پھر سیلفی بھی نندنی کے ساتھ ہی اچھی بنوائی تھی۔
جہاز پاکیشا کی سرزمین پر لینڈ کر چکا تھا، جہاز سے اترنے سے پہلے مرلی دیپیکا کے قریب گیا اور بولا کہ آپکی وہ سی ڈی میرے پاس ہی ہے۔ میں یہیں ائیر پورٹ سے ہی غائب ہوجاوں گا کیونکہ میں اگر آُکے ساتھ جاوں گا تو خطرہ ہے کہ کوئی پاکیشائی انٹیلی جنس کا بندہ مجھے پہچان نہ لے۔ اس لیے میں ائیر پورٹ پر ایک آدمی کو پیسے دے چکا ہوں جو مجھے چور راستے سے باہر نکلوا دے گا، میں بعد میں آپ سے ملوں گا۔ یہ کہ کر وہ دیپیکا سے علیحدہ ہوگیا اور عام سواریوں کے ساتھ جہاز سے اترا اور ائیر پورٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوگیا، آگے وہ کہاں گیا دیپیکا کو کچھ پتا نہیں لگا۔ جبکہ نندنی ائیر پورٹ پر اترتے ہی اپنی دوسری ائیر ہوسٹس ساتھی سنجنا کو ڈھونڈ رہی تھی جو ایک فلائیٹ کے ذریعے ہندوستان جانے والی تھی، تھوڑی ہی کوشش کے بعد نندنی کو سنجنا مل گئی ۔ سنجنا نے نندنی کو دیکھتے ہی کہا کہ ارے تمہیں پتا ہے آج دیپیکا جی پاکیشا آرہی ہیں میں تو انہی کو ڈھونڈ رہی ہوں، پہلے ہم انڈیا کے شاپنگ مال میں لے تھے نا تو میں نے ان سے ہاتھ بھی ملایا تھا، سنجنا پھر وہی باتیں کر رہی تھی جبکہ نندنی موبائل سے اپنی اور دیپیکا کی تصویر نکال چکی تھی، وہ تصویر نکال کر نندنی نے فورا سنجنا کو دکھائی اور بولی یہ دیکھ تو ہاتھ ملا کر خوش ہورہی ہے دیپیکا جی سارے راستے فلائٹ میں میرے ساتھ رہی ہیں، اور ہم نے اکٹھے بیٹھ کر بہت سی باتیں بھی کیں اور یہ انہوں نے میرے ساتھ اترنے سے پہلے تصویر بھی بنوائی ہے اور مجھے دہلی میں اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی ہے، اب واپس ہندوستان جا کر میں دیپیکا جی کے گھر جا کر انسے ملوں گی، میری اور انکی تو دوستی ہوگئی ہے۔ نندنی نے بھی سنجنا کو جلانے کے لیے جو کچھ منہ میں آیا بک دیا تھا۔ اور سنجنا کو تو جیسے چپ لگ گئی تھی اب وہ نندنی کے پیچھے پیچھے تھی اور اسکی منتیں کر رہی تھی کہ دیکھو جب تم دیپیکا جی سے ملنے جاو تو مجھے مت بھولنا مجھے بھی ساتح لیکر جانا، مگر نندنی کے اب نخرے ختم نہیں ہورہے تھے، اس نے کہا دیکھو میں وعدہ نہی کرتی مگر دیپیکا جی سے پوچھ لونگی کہ میرے ساتھ ایک دوست بھی ہے جو آپ سے ملنا چاہتی ہے، اگر انہوں نے اجازت دی تو تمہیں لے جاوں گی مگر مجھے زیادہ امید نہیں کہ وہ اجازت دیں گی۔ اس پر سنجنا اپنا سا منہ لیکر رہ گئی جبکہ نندنی اب اٹھلاتی ہوئی ائیر پورٹ میں ریسٹ کرنے چلی گئی۔ کچھ ہی دیر کے بعد جب للیتا اور کاجول سنجنا سے ملیں تو انہوں نے بھی اپنا گروپ فوٹو سنجنا کو دکھایا جس پر سنجنا کو اور بھی افسوس ہوا کہ وہ انکے ساتھ کیوں نہیں تھی۔ سنجنا کو جلا کر للیتا ،کاجول اور نندنی تینوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوگئے تھے جبکہ ان تینوں کی چوت کو مرلی پہلے ہی ٹھنڈا کر چکا تھا۔
کرنل وشال دیپیکا کو لیکر کافی پریشان تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی اسے علم ہوا تھا کہ دیپیکا کی فلم کو ہولستان میں ہائی کورٹ نے بین کر دیا ہے۔ دیپیکا کی فلم پورے پاکیشا میں دکھائی جائے گی سوائے ہولستان کے۔ اصل میں کرنل وشال کا پلان یہ تھا کہ اس نے ایک مشہور فلم ہاوس فل کو پاکیشا میں نمائش کے لیے منتخب کیا تھا پورے ملک میں یہی فلم چلنی تھی مگر ہولستان کے سینما گھروں میں ہاوس فل سے سٹارٹ لیکر درمیان میں مووی تبدیل کردینی تھی اور وہی مووی چلانی تھی جو پاکیشا کے خلاف اور ہولستان کی آزادی کی تحریک کو ہوا دینے کے لیے خفیہ طور پر بنائی گئی تھی۔ اس کام کے لیے ہولستان کے سینما گھروں کےمالکان کو بھاری رقوم دے کر راضی کر لیا گیا تھا، مگر اچانک ہائیکورٹ نے ہولستان میں فلم پر پابندی لگا کر کرنل وشال کو پریشان کر دیا تھا، وہ حیران تھا کہ آخر یہ کیسے ہوگیا کہ پورے پاکیشا میں فلم کی نمائش پر پابندی نہیں ہے اگر ہے تو صرف ہولستان میں۔ کسی اور فلم کےلیے زیادہ پبلک کو سینما گھروں میں لانا بھی ممکن نہیں تھا، دیپیکا پڈوکون ایک مشہور اور سیکسی ایکٹریس تھی جسکو دیکھنے کے لیے لازمی طور پر بڑی عوام نے سینما گھروں کا رخ کرنا تھا، مگر عین وقت پر فلم پر پابندی سے اب کرنل وشال کافی پریشان تھا۔ وہ ہولستان سے کولاچی دیپیکا پڈوکون کرو ریسیو کرنے گیا تھا تاکہ اس موضوع پر وہ اس سے بات کر سکے شاید کوئی کام کی بات مل جائے، کہیں دیپیکا سے وہ فلم کوئی لے نہ اڑا ہو اور وہ پاکیشائی حکام تک پہنچ گئی ہو تبھی انہوں نے ہولستان میں دیپیکا کی فلم پر پابندی لگا دی تھی۔
کرنل وشال بڑی بے چینی سے ائیر پورٹ پر دیپیکا کا انتظار کررہا تھا، یہاں ہر طرف پاکیشا کے میڈیا نیوز چینلز بھی پہنچے ہوئے تھے جنہوں نےدیپیکا سے اسکی فلم کے بارے میں بات چیت کرنی تھی، اور اس وقت دیپیکا انہی میں گھری ہوئی تھی، وہ کیمرہ کے سامنے اپنے مداحوں کو ہاوس فل کے بارے میں بتا رہی تھی اور اس نے خاص طور پر ہولستان کے لوگوں کا نام لیکر کہا کہ وہ اس فلم کو ضرور دیکھنے آئیں کیونکہ دیپیکا خود بھی فلم کی نمائش پر ہولستان جا کر ہی سینما گھر میں اس فلم کو دیکھے گی۔ یہ کہ کر دیپیکا نے رپورٹرز سے معذرت کی اور اپنی سیکورٹی کے ساتھ وہاں سے آگے چل پڑی، جبکہ رپورٹرز اسے یہ بات بتانا چاہتے تھے کہ اسکی فلم ہولستان میں بین کر دی گئی ہے۔ کچھ ہی دیر کی کوشش کے بعد کرنل وشال دیپیکا تک پہنچ چکا تھا، دیپیکا کی سیکیورٹی نے کرنل کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ عام کپڑوں میں ملبوس تھا، مگر دیپیکا نے اسے پہچان کر سیکیورٹی کو کہا کہ انہیں آنے دیں۔ کرنل وشال دیپیکا کے پاس آیا اور اسے کھینچ کر اپنی گاڑی کی جانب لے گیا۔ اس دوران اس نے دیپیکا کے ساتھ آنے والوں پر ایک نظر ڈالی اور وہاں مرلی کو نا پاکر تھوڑا پریشان ہوا، کیونکہ کرنل وشال کو دیپیکا کے ساتھ آنے والے ایک ایک شخص کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔ ان میں دیپیکا کا اصل ملازم مرلی بھی ہونا چاہیے تھا جو اس وقت اسکے ساتھ نہیں تھا۔
کرنل وشال نے دیپیکا کو اپنی لینڈ کروزر میں بٹھایا اور ڈرائیور نے گاڑی ایک نامعلوم مقام کی طرف بڑھا دی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی کرنل وشال نے سب سے پہلے تو دیپیکا کی خیریت معلوم کی، پھر دیپیکا سے پوچھا کہ اسکی فلم ہولستان میں کیوں بین ہوئی ہے؟؟؟ اس پر دیپیکا نے ہنستے ہوئے کہا کیا ہوا کرنل؟؟؟ کس نے کہا فلم بین ہے؟ کل وہاں فلم چلے گی اور میں وہیں جا کر فلم دیکھوں گی تاکہ زیاہ سے زیادہ لوگ سینما گھر جائیں۔ اس پر کرنل وشال نے دانت پیستے ہوئے کہا کہ ابھی 4 گھنٹے پہلے ہی ہولستان کی ہائیکورٹ نے آرڈر دے کر تمہاری فلم کو بین کر دیا ہے۔ اس پر دیپیکا نے بھی حیرت کا اعلان کیا اور کہا کہ لیکن ایسا کیوں ہوا؟؟؟ کرنل وشال نے اسکا جواب دینے کی بجائے اس سے پوچھا کہ تم نے کسی کو فلم دکھائی تو نہیں ؟؟؟ اس سے پہلے کہ دیپیکا اسکے سوال کا جواب دیتی ، کرنل وشال نے اگلا سوال کر دیا، تمہارے ساتھ مرلی نظر نہیں آیا؟؟؟ وہ کہاں ہے؟ دیپیکا نے کہا وہ تو ائیر پورٹ سے ہی چور راستے کے ذریعے نکل گیا۔ کرنل وشال نے حیرت سے دیپیکا کی طرف دیکھا اور بولا کیا مطلب؟؟؟ وہ کیوں چور راستے سے نکل گیا؟ اسکو ایسی کیا ضرورت پڑ گئی؟؟ اس پر دیپیکا نے کہا مجھے نہیں معلوم، اس نے مجھے یہی بتایا تھا کہ پلان کے مطابق وہ ائیر پورٹ سے ہی غائب ہوجائے گا کیونکہ یہاں پاکیشائی ایجینسیاں اسکو جانتی ہیں، تو اسکے پہچانے جانے کا خطرہ ہے؟؟؟
اس پر کرنل وشال نے پہلے سے بھی زیادہ حیرانگی کا مظاہرہ کیا اور بولا ارے بابا تمہارے ملازم کا پاکیشائی ایجنسیوں سے یا ہمارے پلان سے کیا تعلق ہے؟؟ اب دیپیکا نے پریشان سے کہا کرنل صاحب اصلی مرلی کو تو آپ نے انڈر گراونڈ کروا دیا تھا نا، پھر کیپٹن سنجے شرما مرلی کے بھیس میں میرے ساتھ فلائٹ میں ہی پاکیشا آیا ہے اور ائیر پورٹ سے وہ غائب ہوگیا ہے۔ پھر دیپیکا نے ہوٹل مہاراجہ میں کیپٹں سنجے شرما سے ہونے والی ملاقات سے لیکر پاکیشا ائیر پورٹ آمد تک پوری کہانی بتا دی سوائے اس چودائی کے جو کیپٹن سنجے شرما نے اسکی کی تھی۔ پوری کہانی سن کر کرنل وشال اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دیپیکا کو یہیں پر چیر پھاڑ کر دکھ دے۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اس میں دیپیکا کا قصور نہیں، جو ایجنٹ کرنل کے ہاتھ نہیں آسکا اور جگہ جگہ اسکو چکمہ دیتا رہا وہ بھلا دیپیکا کو کیسے نہیں پھنسا سکتا تھا۔ مگر کرنل کی سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی تھی کہ آخر میجر دانش کو اس فلم کے بارے میں کیسے شک ہوگیا جو وہ دیپیکا تک گیا اور اس نے سپیشل اس فلم کے بارے میں پوچھا؟؟؟ یہ چیز ابھی تک اسکی سمجھ سے باہر تھی۔ کرنل وشال نے بہت سوچا مگر اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر یہ بات میجر دانش کو کہاں سے معلوم ہوئی کہ دیپیکا پڈوکون کی فلم کے ذریعے ہولستان میں بغاوت کو ہوا دی جائے گی۔
اب دیپیکا بھی پریشان تھی، کرنل وشال اسکو بتا چکا تھا کہ وہ شخص جو کیپٹن سنجے شرما بن کر آیا وہی اصل میں میجر دانش تھا جو پاکیشا کی ایجنسی آئی ڈی آئی کا خاص ایجنٹ تھا ، تب سے دیپیکا بھی پریشان بیٹھی تھی کہ اسکی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اسکے ملک کو اتنا بڑا نقصان ہورہا ہے۔ مگر پھر کرنل وشال نے کچھ سوچ کر ایک فون کیا اور کسی کو فون پر کہا، کل کا پروگرام جو تھا اسکے لیے اب مزید انتظار نہیں ہوسکتا، وہ کام ابھی اور اسی وقت ہونا چاہیے۔ ٹھیک 30 منٹ بعد میں ٹی وی پر خبریں سننا چاہتا ہوں کہ ہولستان میں انکے قائد کی آخری آرام گا پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا۔ یہ کہ کر کرنل وشال نے فون بند کر دیا اور دانت پیستا ہوا بولا، تو میجر دانش تو آخر پاکیشا واپس پہنچ ہی گیا، مگر اب میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ مجھ سے الجھنے کا انجام اب تجھے پتا لگے گا۔ تیری سات نسلیں توبہ کریں گی کہ آئندہ کسی ہندوستانی سے پنگا نہیں لینا۔
میجر دانش ائیر پورٹ سے نکلنے سے پہلے اپنا میک اپ صاف کر چکا تھا اور اب وہ میجر دانش کے ہی روپ میں تھا۔ ہندوستان سے روانگی کے وقت اس نے میجر علینہ کو اپنے پاکیشا آنے کی اطلاع دے دی تھی اور میجر علینہ نے ائیر پورٹ پر پورے عملے کو مطلع کر دیا تھا کہ ہمارا ایک ایجنٹ دیپیکا ے ساتھ اسے ملازم کے حلیے میں آرہا ہے، جسکی وجہ سے ائیر پورٹ عملے نے خود ہی میجر دانش کو مرلی کے حلیے میں پہچان کر کچھ دیر ائیر پورٹ پر ہی محفوظ پنا ہ دی، اور پھر جب وہ اپنا میک اپ صاف کر کے میجر دانش کی شکل میں واپس آچکا تھا تو ائیر پورٹ انتظامیہ نے میجر دانش کو وہاں سے نکلنے میں مدد فراہم کی تھی۔ ائیر پورٹ سے نکلنے کے بعد سب سے پہلے میجر دانش اپنے آرمی کیمپ رپورٹ کرنے گیا، جہاں اسکا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اسکے تمام دوست جو آرمی میں ہی تھی وہاں اسکے استقبال کے لیے موجود تھے، سب اس بات پر خوش تھے کہ انکا ایک ایجنٹ ہندوستان کی پوری آرمی اور را کا سر درد بن کر صحیح سلامت واپس آچکا ہے، نہ صرف واپس آچکا بلکہ انکے پلان کے بارے میں بہت سارا مواد بھی لے آیا۔ جو اب پاکیشا اپنے دفاع کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور ہندوستان کے اس خطرناک منصوبے کو ناکام بنا سکتا ہے۔ میجر علینہ بھی یہیں موجود تھی اس نے بھی بڑی گرمجوشی سے میجر دانش کا استقبال کیا اور اسے اس کامیاب مشن پر بہت بہت مبارک باد دی۔ میجر دانش نے اپنے پاس ضرور مواد آرمی کیمپ میں اپنے افسران کے حوالے کیا اور پھر ان سے گھر جانے کی اجازت چاہی تاکہ وہ اپنی ماں کو اپنا چہرہ دکھا کر انکی راجت کا سامان بن سکے اور اسکے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کو بھی حوصلہ دے سکے جسے وہ سہاگ رات پر ہی اکیلا چھوڑ کر کرنل وشال کے تعاقب میں چلا گیا تھا۔
آرمی کیمپ میں میجر دانش کے سب دوستوں نے اسکو تحائف دیے جس میں زیادہ تر پھولوں کے گلد ستے تھے اور پھر میجر کو گھر جانے کا کہا تاکہ وہ اپنی ماں اور اپنی بیوی کو مل سکے۔ ابھی میجر دانش گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ اندر سے میجر علینہ بھاگتی ہوئی آئی اور میجر دانش کو کہا کہ مجھے افسوس ہے تم ابھی اپنی امی اور عفت سے نہیں مل سکتے، ایک بری خبر ہے، جلدی اندر آو۔۔۔ میجر دانش علینہ کی بات سن کر پریشان ہوگیا اور جلدی سے اندر گیا جہاں تمام آرمی آفیسرز ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹنگ دیکھ رہتے تھے جو ہولستان میں قائد کی آخری آرام گاہ پر حملے کی خبریں نشر کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میجر دانش کو ایک بڑا دھچکا لگا تھا اور وہ بے بسی سے اپنے دانت پیس رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس سب کے پیچھے کرنل وشال کا ہاتھ ہوگا۔ تانیہ نے گوا میں اسکو یہ تو بتایا تھا کہ قائد سے متعلق کسی عمارت پر حملہ کیا جائے گا منصوبے کے مطابق مگر میجر دانش نے غلطی یہ کی کے اس نے خود ہی یہ سمجھ لیا کہ یہ حملہ کولاچی میں ہی قائد کے مزار پر ہوگا، مگر کرنل وشال نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا، آخری آرام گاہ ہولستان میں تھی اسی لیے وہاں پر لوگوں کی قائد اور پاکیشا کی نفرت دکھانے کے لیے وہیں پر انکی آخری آرام گاہ کو نشانہ بنایا تھا۔
پاکیشا کی ساری سیکرٹ سروسز اس بڑے سانحے کے بعد حرکت میں آگئی تھیں، یہاں تک کہ چیف آف آرمی سٹاف بھی اس سانحے کو اپنی اینٹلی جنس ایجنسی کی ناکامی سے تشبیہ دے رہا تھا۔ میجر دانش کی اپنی ساری خوشی خاک میں مل گئی تھی اور اب اس نے اپنی والدہ اور بیوی سے ملنے کی بجائے کرنل وشال سے اور غدارِ وطن لوکاٹی سے 2، 2 ہاتھ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ چیف آف آرمی سٹاف نے اسلام نگر میں میجر دانش کو فوری طلب کیا تھا اور وہ اب ایک سپیشل طیارے کے زریعے اسلام نگر جانے لگا تھا، جانے سے پہلے میجر نے علینہ سے تانیہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا میری معلومات کے مطابق وہ کل رات حویلی سے نکل گئی تھی اور اسکے ساتھ نذر لوکاٹی کا بیٹا شاہ میر لوکاٹی بھی تھا، اور نذر کے اپنے لوگ تانیہ کو اپنی حفاظت میں کولاچی پہنچا چکے ہیں، اب وہ کہاں ہے اس بارے میں کچھ علم نہیں، محفوظ بھی ہے یا نہیں میں نہیں جانتی۔ میجر دانش نے ایک بار پھر اپنے آپ کو کوسا، کیونکہ اس نے امجد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسکی بہن کو صحیح سلامت واپس کشمیر پہنچا دے گا، مگر اب میجر دانش کو اپنے اوپر غصہ آرہا تھا جس نے تانیہ جیسی معصوم لڑکی کو ان بھیڑیوں کے درمیان پھنسا دیا تھا۔ میجر دانش نہیں جانتا تھا کہ تانیہ اپنا کام کرنے میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں، بلکہ اب اسکو یہ خوف تھا کہ کہیں اسکی اصلیت سامنے نہ آگئی ہو تبھی نذر نے تانیہ کو کہیں روپوش کروا دیا ہو تاکہ وہ حویلی اور ہولستان کے اگلے منصوبوں کے بارے میں پاکیشا کی آرمی کو مزید اطلاعات نہ دے سکے۔
بوجھل دل کے ساتھ میجر دانش طیارے میں سوار ہوگیا تھا اور کچھ ہی دیر بعد وہ کولاچی سے اسلام نگر پہنچ چکا تھا جہاں چیف آف آرمی سٹاف جنرل وقار شریف موجود تھے۔ اور بے چینی سے ٹہلتے ہوئے میجر دانش کا انتظار کر رہے تھے۔ میجر دانش کےپہنچنے پر سب سے پہلے جنرل صاحب نے میجر دانش کو اپنا مشن کامیاب سے اور بہادری سے کرنے پر مبارکباد دی، مگر میجر کے لیے یہ مبارکباد کسی کام کی نہیں تھی کیونکہ دشمن نے اسکے پیارے وطن کی ایک عظیم یادگار کو نقصان پہنچایا تھا اور اس وقت وہ دشمن کو نیست و نابود کر دینا چاہتا تھا۔ جنرل صاحب بھی یہ بات جانتے تھے کہ ایک سپاہی کیسے اپنے وطن کے لیے تڑپتا ہے اگر اسکے وطن پر کوئی آنچ آئے۔ جنرل صاحب میجر دانش کی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے، انہوں نے میجر دانش سے مشورہ لیا کہ آگے کیا کرنا چاہیے، گوکہ وہ خود بھی پلان کر چکے تھے مگر میجر دانش کی رائے لینا بھی ضروری تھا۔ میجر دانش نے کہا کہ سر ہمیں سب سے پہلے تو وزیرِ اعظم جناب شریف صاحب کو ساتھ لیکر ہولستان جا کر قائد کی آخری آرام گاہ پر جا کر سبز ہلالی پرچم لہرانا ہوگا۔ اور وہیں اسی تقریب میں غدار لوکاٹی کو بھی بلانا ہوگا تاکہ ہولستان کی عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ انکا وزیرِ اعلی اپنے ہاتھوں سے پاکیشائی پرچم لہرا رہا ہے، اسکے بعد اس غدار کو آخری وارننگ دی جائے گی، اگر وہ باز آگیا تو ٹھیک، نہیں تو لوکاٹی کے کل ہونے والے جلسے میں بڑی سکرین پر اسکے کرتوت سب کو دکھا دیے جائیں گے اور اس کا کھیل ختم ہوجائے گا۔ جنرل صاحب نے میجر دانش کی رائے سے اتفاق کیا، وہ بھی یہی پلان کر کے بیٹھے تھے۔ تبھی انہوں نے فوری وزیرِ اعظم کو فون کیا اور ہولستان چلنے کو کہا، پہلے تو وزیرِ اعظم نے ٹال مٹول سے کام لیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ہولستان میں دشمن سرگرم ہے اور وہاں جان کا خطرہ ہے، مگر جب چیف آف آرمی سٹاف نے وزیرِ اعظم کو اپنے تیور دکھائے تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وزیرِ اعظم نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی۔
چیف آف آرمی سٹاف نے خاص طور پر وزیرِ اعظم کی حفاظت کابندوبست کیا تھا، کیونکہ وزیریِ اعظم کسی بھی ملک کا سب سے معتبر شخص ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو پوری عوام کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ میجر دانش نے خود وزیرِ اعظم کی سیکورٹی کا ذمہ لیا اور کچھ دیر بعد سپیشل پرواز کے زریعے پاکیشا کا آرمی سٹاف اپنے بہادر جوانوں کے ساتھ وزیرِ اعظم کو لیے قائد کی آخری رہائش گاہ پر موجود تھے اور پورا میڈیا پاکیشائی آرمی اور وزیرِ اعظم کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا کہ انہوں نے کس بہادری سے عوام کو یکجا کرنے کے لیے ہولستان جا کر پاکشا کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا تھا ۔ آرمی چیف بھی میڈیا کی اس رپورٹنگ سے خوش تھے، اور میجر دانش بھی، گوکہ میڈیا میجر دانش کو نہیں جانتا تھا اور اس پورے واقعہ میں میجر دانش کا نام تک نہیں آیا تھا جس نے اپنی بہادری سے دشمن کے خطرناک ارادوں کو نہ صرف بھانپ لیتا تھا بلکہ انکا توڑ بھی حاصل کر لیا تھا اور اس ہیرو کا نام کسی میڈیا چینل پر نہیں تھا، مگر وہ خوش تھا کہ اس رپورٹنگ سے پوری قوم ایک ہوگئی ہے اور جب پوری قوم متحد ہوجاے تو بڑے سے بڑا دشمن بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
چیف آف آرمی سٹاف کی وجہ سے اکبر لوکاٹی کو بھی اس تقریب میں شرکت کرنا پڑی تھی اور وہ وزیرِ اعظم کے ساتھ مل کر پرچم کشائی کرنے پر مجبور تھا اور پورا ملک یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد تقریب ختم ہوگئی اور سب سے پہلے چیف آف آرمی سٹاف نے قوم سے خطاب کیا، پھر لوکاٹی نے چند الفاظ بولے اور اسے مجبورا پاکیشا زندہ باد کا نعرہ لگانا پڑا اور آخر میں وزیرِ اعظم نے تقریر کی جس میں انہوں نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کا تہیہ کیا اور پاکیشا کی افواج کو حکم دیا کہ انہیں جہاں کہیں بھی اس حملے میں ملوث کوئی ملے اسکو گرفتار کرنے یا پھر جان سے مار دینے کی پوری آزادی ہے، ہمیں ہر حال میں اس دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ لوکاٹی پر یہ تقریر بجلی بن کر گری مگر وہ اندر ہی اندر خوش تھا کہ اس بارے میں ابھی کسی کو کچھ علم نہیں۔
کچھ دیر بعد وزیرِ اعظم کو سخت سیکورٹی کے حصار میں واپس اسلام نگر پہنچا دیا گیا، اور چیف آف آرمی سٹاف بھی واپس اسلام نگر چلے گئے، مگر میجر دانش نے ہولستان میں ہی رکنے کا تہیہ کیا۔ رات میجر دانش نے وہیں پر ایک آرمی کیمپ میں گزاری، اور صبح ہوتے ہی اپنے خاکی یونیفارم میں وہ لوکاٹی کی حویلی چلا گیا جہاں لوکاٹی کرنل وشال سے فون پر بات کر رہا تھا اور آگے کا منصوبہ مکمل کر رہا تھا، انکے منصوبے کے مطابق اب آج شام کے جلسے میں لوکاٹی نے ایک جذباتی تقریر کرنی تھی جس میں ہولستان کی عوام پر ہونے والے ظلم کا ذکر کیا جانا تھا اور پھر اسکے بعد وہاں ایک بڑی سکرین پر دیپیکا کی اس مووی کو چلایا جانا تھا جو میجر دانش نے دیپیکا کے کمرے میں دیکھی تھی۔ وہ مووی چلا کر وہاں کے عوام کا لہو گرم کیا جائے گا، اور چونکہ اس جلسے میں ہولستان کے سب سردار شامل ہونگے جنہیں پہلے سے ہی نئے ہولستان میں بڑے بڑے عہدوں کی لالچ دے دی گئی تھی انکی موجودگی میں ہی بغاوت کا اعلان کیا جائے گا اور تبھی بارڈر سے ہندوستانی افواج ہولستان میں داخل ہوجائیں گی اور ہولستان پر قبضہ کر لیں گی۔
ابھی یہ پلاننگ جاری تھی کہ کسی نے لوکاٹی کو آکر میجر دانش کے بارے میں اطلاع دی۔ لوکاٹی میجر دانش کو جانتا تک نہیں تھا، وہ حیران تھا کہ میجر دانش کون ہے اور وہ اس سے ملنے کیوں آیا ہے۔ پھر اس نے سوچا شاید کل والے واقعہ سے متعلق بات کرنے آیا ہو، لوکاٹی نے اسے اندر بلانے کا کہا۔ میجر جو اسکی حویلی کے باہر منتظر تھا اسے ایک شخص نے اندر آنے کا کہا تو میجر دانش تن تنہا بغیر کسی خوف کے لوکاٹی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ لوکاٹی نے میجر کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فون پر باتیں جاری رکھیں، مگر وہ بات اسطرح کر رہا تھا کہ میجر دانش کو سمجھ نہ لگے کہ یہ کیا کہ رہا ہے۔
کچھ دیر بعد فون سے فارغ ہوکر لوکاٹی نے میجر دانش کی طرف دیکھا اور بولا ہاں میجر بولو کیسے آنا ہوا، میجر دانش سر جھکائے بیٹھا تھا، اس نے اپنی کیپ اتاری اور سر اوپر اٹھا کر لوکاٹی کی طرف دیکھا جو بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ لوکاٹنی نے میجر دانش کو دیکھا تو اسکے چہرے کی مسکراہٹ پہلے تو غائب ہوئی، پھر وہاں حیرت کے آثار نظر آنے لگے اور پھر خوف کے واضح آثار لوکاٹی کے چہرے پر آئے۔ پھر لوکاٹی کانپتی ہوئی آواز میں بولا، ت۔۔ ۔ ۔ ت۔ ۔ ۔ تم تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹی ۔۔۔ ٹین۔۔۔ ۔ٹینا کے دوست ہو ن۔ ۔ ۔ ن نا۔۔۔۔۔۔۔اس پر میجر دانش نے طنزیہ مسکراہٹ دی اور بولا نہیں، میں اس پاک وطن کا فرزند ہوں، جو دشمن کو گردن سے پکڑ کر کچل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور میں یہاں تمہیں وارن کرنے آیا ہوں کہ اپنی حرکتوں سے باز آجاو ورنہ آج کا دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔
میجر دانش کے منہ سے یہ الفاظ سن کر لوکاٹی شدید غصے کی حالت میں چلایا اور اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ میجر دانش کو اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک آرمی آفیسر کو ہاتھ لگانے کی جرات کسی میں نہیں ہوتی ، لہذا اسکی آواز پر کوئی بھی آگے نہ بڑھا تو میجر دانش خود اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور لوکاٹی کو کہا کہ صرف میں ہی نہیں ، بلکہ وہ انجلی جو تمہارے ساتھ پاکیشا آئی اور جس نے تم سے سارے راز اگلوا کر تمہاری ویڈیو بھی بنائی وہ بھی اس وطن کی بیٹی ہے اور اس نے وہ ویڈیو مجھے دے دی ہیں جو میں ہولستان میں عوام کو دکھا دوں گا اگر تم نے کرنل وشال کے ساتھ اپنے تعلقات کو ابھی اور اسی وقت ختم نہ کیا تو۔ انجلی کا نام سن کر لوکاٹی کو ایک اور دھچکہ لگا، وہ تو ویسے ہی کل سے ماریہ جو اسکے خیال میں انجلی تھی اسکو ڈھونڈ رہا تھا اور نذر نے اسے بتایا تھا کہ وہ شام میں ایک جیپ پر کسی ملازم کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی تھی اور ابھی تک واپس نہیں آئی۔ مگر نذر نے اپنے بیٹے شاہ میر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا، کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا اس بارے میں کرم کو پتا لگے۔ اور اس وقت بھی نذر اور کرم دونوں میں سے کوئی یہاں موجود نہیں تھا کہ انہیں ماریہ کی اصلیت پتا لگتی جو اسے انڈیا کی ایجنٹ سمجھ رہے تھے اور اپنے باپ کو مارنے کے لیے بھی تیار تھے۔ یہ سب سن کر لوکاٹی ایک لمحے کے لیے پریشان ہوا، مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر واقعی میں ایسا ہوتا تو اب تک تو اسکو گرفتار کر لیا جاتا ، کیونکہ کل رات جو واقعہ پیش آیا اس پر اگر آرمی کے پاس لوکاٹی کے خلاف کوئی ثبوت ہوتا تو وہ اسے وہیں پر موت کے گھاٹ اتاردیتے غداری کے الزام میں۔ مگر ایسا نہ کیے جانے کا مطلب تھا کہ میجر دانش اسکو بلیک میل کرنے کے لیے دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے، اصل میں اسکے پاس کوئی ثبوت نہیں۔
یہ سوچ کر لوکاٹی نے میجر دانش سے کہا تم سے جو ہوتا ہے تم کر لو، لیکن یاد رکھو آج شام کے بعد سے ہولستان پاکیشا کی فوج کا قبرستان ثابت ہوگا، لہذا بہتر ہے کہ شام ہونے سے پہلے پہلے خود ہی ہولستان چھوڑ جاو۔ یہ کہ کر لوکاٹی نے حقارت سے میجر دانش کو دیکھا اور اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پیچھے سے میجر دانش نے اونچی آواز میں کہا کہ تمہارے ان ناپاک عزائم کو پاک آرمی کا ایک ایک نوجوان اپنا خون دے کر ناکام بننا دے گا۔ یہ کہ کر میجر دانش اسکی حویلی سے واپس نکل آیا اور اپنی جیپ میں بیٹھ کر واپس آرمی کیمپ چلا گیا۔ جب کہ لوکاٹی اپنے کمرے میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ جان گیا تھا کہ اسکے پلان کے بارے میں پاکیشا کی آرمی کو پتا لگ چکا ہے، ایسے میں اسکی جان کو خطرہ تھا ، اس نے تمام سرداروں کو اپنی حویلی میں بلا لیا اور انہیں بڑی بڑی لالچ دیکر ہندوستان سے الحاق کی حمایت پر آمادہ کر لیا تھا۔ ویسے بھی لوکاٹی کا خیال تھا کہ جب دیپیکا پڈوکون کی فلم اتنی عوام کو سکرین پر دکھائی جائے گی تو پھر میجر دانش کتنے ہی ثبوت کیوں نہ پیش کرلے عوام اتنی جذباتی ہوچکی ہوگی کہ وہ میجر کی کسی بات کو نہیں سنے گی اور لوکاٹی کی لیڈرشپ میں پاکیشا سے علیحدگی کے لیے تحریک کا آغاز کر کے ہندوستان سے الحاق کی حمایت کر دیں گے۔ تمام سرداروں کو اس بات پر منانے کے بعد اب لوکاٹی نے فیصلہ کیا کہ اپنی حویلی میں بیٹھنے کی بجائے جلسہ گاہ چلے جانا چاہیے ، کیونکہ حویلی میں اس پر چھپ کر حملہ کیا جا سکتا ہے مگر جلسہ گاہ میں میڈیا کے کیمرے ہونگے وہاں پاکیشا کی آرمی لوکاٹی پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچے گی بھی نہیں۔
لوکاٹی نے اس بارے میں کرنل وشال سے بھی بات کی، تو اس نے بھی لوکاٹی کی بات سے متفق ہوتے ہوئے اسے جلسہ گاہ جانے کی تلقین کی اور اسے بتایا کہ اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں وہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس اسکے لوگ ہونگے جو اسکی حفاظت کریں گے اور میجر دانش کی طرف سے وہ بے فکر رہے وہ کبھی بھی اسکی کوئی ویڈیو یا کوئی ثبوت عوام کے سامنے پیش نہیں کر سکے گا اسکا بندوبست ہوچکا ہے ۔
کرنل وشال سے تسلی ملنے کے بعد اور خاص طور پر یہ الفاظ سننے کے بعد کہ میجر دانش کا بندوبست ہوچکا ہے لوکاٹی مطمئن ہوگیا تھا۔ پھر اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں جلسہ گاہ چلنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنے کمرے سے دیپیکا پڈوکون کی سی ڈی اٹھا لایا جو اسے کرنل وشال نے ایک رات پہلے ہی فراہم کی تھی۔ وہ سی ڈی اپنے ہمراہ لیکر لوکاٹی نے اپنے ایک ملازم کو ہدایت کی کہ وہ جلسے میں لائیو فلم دکھانے کی تیاری کرے جہاں پروجیکٹر کے ذریعے بڑی سکرین پر دیپیکا پڈوکون کی فلم دکھائی جائے گی اور جب فلم میں پاکیشا کے آرمی چیف اور نوجوانوں کو دیپیکا پڈوکون ہولستان کی سڑکوں پر گھسیٹے گی تو ہم علیحدگی کا اعلان کر دیں گے۔ یہ ہدایت کر کے لوکاٹی جلسہ گاہ پہنچ گیا اور سٹیج پر جا کر عوام کا لہو گرمانے لگا۔ عوام بھی اپنے لیڈر کو اپنے سامنے دیکھ کر خوش ہوگئی، اور جو لوگ ابھی تک گھروں میں بیٹھے تھے کہ جلسہ گاہ میں لوکاٹی آخری وقت میں آئے گا وہ بھی گھروں سے نکلنا شروع ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جلسہ گاہ عوام سے کھچا کھچ بھر چکا تھا ہر طرف سر ہی سر تھے اور کہیں پاوں رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر لوکاٹی کافی مطمئن تھا، وہ وقفے وقفے سے چھوٹی چھوٹی تقریریں کر رہا تھا جس میں وہ ہولستان کے مالی وسائل پر دوسرے صوبوں کے قبضے کے بارے میں زہر اگل رہا تھا اور عوام بھی یہ سب سن کر جذباتی ہورہی تھی کہ آخر انکے حق پر کیسے کوئی ڈاکہ ڈال سکتا ہے۔
دوسری طرف میجر دانش اپنا سارا پلان تیار کر چکا تھا وہ خود بھی ایک محفوظ جگہ پر سادہ کپڑوں میں ملبوس لوکاٹی کےجلسے میں ہی تھا، اسے آج ہر صورت میں اپنے پلان کو کامیاب بنانا تھا اور اس وطن کی حفاظت کی کھائی ہوئی قسم کو پورا کرنا تھا۔ جیسے جیسے جلسے کے باقاعدہ آغاز کا وقت قریب آرہا تھا میجر دانش کے دل کی دھڑکینیں تیز ہو رہی تھیں، جبکہ میجر دانش نے چیف آف آرمی سٹاف کو بارڈر سے ممکنہ دشمن فوج کے حملے سے آگاہ کر دیا تھا جسکے لیے چیف آف آرمی سٹاف نے اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم دیا تھا تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان کا چیف آف آرمی سٹاف کرنل وشال کے سگنل کے انتظار میں تھا کہ جیسے ہی سرحد پار سے کرنل حملے کا سگنل دے تو وہ اپنی آرمی کو پاکیشا پر حملہ کرنے کا آرڈر جاری کر دے۔
ب مختلف سرداروں کی طرف سے تقاریر کا سلسلہ جاری تھا، ان میں سے زیادہ تر تو ہولستان کی ترقی اور عوام کی بہبود کے بارے میں تھیں جبکہ کچھ سردار بیچ بیچ میں پاکیشا کے خلاف بھی زہر اگل رہے تھے جس سے وہاں موجود عوام کا خون کھولنے لگا تھا اور انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور آج اس ظلم و ستم سے نجات کا دن ہے۔ ان میں سے زیادہ تر باتیں تو جھوٹ پر مبنی تھیں، مگر کچھ باتیں سچی بھی تھیں، جہاں پاکیشا کی سرکار قصور وار تھی ، انہوں نے کچھ معاملات میں واقعی ہولستان کو وہ حقوق نہیں دیے تھے جسکے وہ مستحق تھے لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ ہولستان کے لوگ غداری کا اعلان کر کے ہندوستان سے جا ملیں جہاں پہلے ہی آزادی کی بیسیوں تحریکیں چل رہی تھیں۔ اور انکو دبانے میں ہندوستان کی حکومت بری طرح ناکام ہورہی تھی۔
آخر کار وہ وقت بھی آگیا جسکا میجر دانش کو بے چینی سے انتظار تھا۔ یہ لوکاٹی کی تقریر تھی۔ میجر دانش نےسٹیج پر اپنا ایک آدمی بٹھا رکھا تھا تاکہ اگر لوکاٹی کچھ غلط اعلان کرنا چاہے تو اسکا آدمی دوبارہ اسے آخری وارننگ دے سکے۔ لوکاٹی نے تقریر کا دھواں دار آغاز کیا جس میں پاکیشا سے محبت کوٹ کوٹ کر نظر آرہی تھی، لوکاٹی نے 1947 کے واقعات کا آغاز کیا جب ہولستان کے غیور عوام نے پاکیشا سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا اور ایک نئے ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقسشے پر پاکیشیا ابھرا تو اس میں ہولستان کے سرداروں اور غیور عوام کا نام روشن الفاظ کے ساتھ لکھا گیا تھا، پھر مختلف مواقع پر جب جب ہولستان نے پاکیشا کے لیے قربانیاں دی انکا ذکر تھا۔ جس سے ظاہری طور پر لگ رہا تھا کہ شاید لوکاٹی اپنا منصوبہ ترک کر چکا ہے اور اب وہ ایسا کوئی اعلان نہیں کرے گا جس سے بغاوت سر اٹھا سکے۔ مگر کہیں نہ کہیں میجر دانش کو یقین تھا کہ لوکاٹی اپنی اصلیت ضرور دکھائے گا، اور آخر وہی ہوا جسکا ڈر تھا، لوکاٹی آہستہ آہستہ اپنی اوقات دکھانا شروع کر دی۔ اس نے اب ہولستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ شروع کر دیا۔ پاکیشا کی سرکار نے کیسے ہولستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا اسکے بارے میں جھوٹی کہانیاں بنا کر بیان کرنا شروع کر دیں جسکی وجہ سے ہولستان کی معصوم عوام لوکاٹی کی باتوں میں آکر جذباتی نعرے لگانے لگ گئی تھی۔ اب میجر دانش کو لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت لوکاٹی بغاوت کا اعلان کر سکتا ہے اور تب حالات کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
آہستہ آہستہ لوکاٹی کی تقریر میں پاکیشا کے لیے نفرت بڑھتی جا رہی تھی، پھر لوکاٹی نے کہا کہ میں آپکو آج ہولستان کی ایک بہادر بیٹی کی کہانی سنانا چاہتا ہوں، اور پھر اسی کہانی پر بننے والی ایک فلم بھی آپکو یہاں دکھائی جائے گی، اسکے بعد آپ خود فیصلہ کریں گے کہ آپ پاکیشا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟؟؟ یہ کہ کر لوکاٹی نے کہانی سنانا شروع کی۔ یہ وہی کہانی تھی جس پر دیپیکا پڈوکون کی فلم بنائی گئی تھی جیسے جیسے لوکاٹی کہانی سناتا جا رہا تھا عوام کاجوش اور جذبہ بڑھتا جا رہا تھا۔ جب لوکاٹی کہانی کے اس حصے پر پہنچا جہاں دیپیکا پڈوکون جسکا کہانی میں نام جنت تھااسکو سرِ عام سڑک پر ذلیل کیا گیا اسکی چادر اتاری گئی اور اسکی عزت کو تار تار کیا گیا تو عوام کا جوش بہت بڑھ گیا تھا اور میجر دانش کو ایسا لگنے لگا کہ اب حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔ میجر دانش کے ساتھ ساتھ چیف آف آرمی سٹاف بھی اس تقریر کو اسلام نگر میں بیٹھ کر لائیو سن رہے تھے انہوں نے میجر دانش کو ابھی ایکشن لینے سے روک رکھا تھا۔ حتی کہ لوکاٹی نے اپنی کہانی مکمل کر لی۔ کہہانی کے اختتام پر لوکاٹی کی آنکھوں میں آنسو تھے، اپنے لیڈر کو روتا دیکھ کر سامنے کھڑی عوام اور بھی زیادہ جذباتی ہوگئی تھی۔ اور اب پاکیشا مخالف نعرے لگنے شروع ہوگئے تھے، لوکاٹی کچھ دیر کے لیے اپنی تقریر روک چکا تھا اور اس نے اعلان کیا تھا کہ ابھی کچھ ہی دیر میں اسی کہانی پر مبنی فلم بھی آپکو دکھائی جائے گی۔
اس اعلان کے فورا بعد میجر دانش نے سٹیج پر موجود اپنے خاص آدمی کو پیغام پہنچایا کہ لوکاٹی کو کہو اگر یہ فلم چلائی یا پاکیشا سے بغاوت کا اعلات کیا تو ابھی اور اسی وقت وہ فلم چل جائے گی جو تانیہ نے اور کرنل وشال نے مختلف اوقات میں بنائی ہے۔ میجر دانش کے خاص آدمی نے فوری یہ پیغام لوکاٹی کو پہنچایا تو لوکاٹی نے سٹیج سے ہٹ کر ایک زور دار قہقہ لگایا اور بولا اسکو کہو جو کرنا ہے کر لے، اسکے ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا، یہ لاکھوں کی عوام میرے ساتھ ہے اور اسکو سنبھالنا آسان کام نہیں۔ میرے ایک حکم پر یہ عوام میجر دانش کی دھجیاں اڑا دیں گی۔ یہ کہ کر لوکاٹی نے منہ دوسری طرف کر لیا اور اپنے سامنے کھڑی عوام کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہوا میں لہرانے لگا۔ وہ فلم چلانے سے پہلے عوام کے جذبات کو اور بھی ابھارنا چاہتا تھا اسی لیے اب وہ اپنے حقوق کے لیے نعرے لگوا رہا تھا۔
تبھی میجر دانش نے باالآخر فیصلہ کرلیا کہ وہ لوکاٹی کی فلم یہیں پر چلا دے گا۔ اس نے لوکاٹی کے اسی خاص آدمی کو حکم دیا کہ جیسے ہی میں اشارہ کروں تم وہ سی ڈی چلا دینا جو میں نے تمہیں دی ہے۔ یہ وہی آدمی تھا جسکو لوکاٹی نے دیپیکا پڈوکون کی فلم چلانے کی تیاری کرنے کو کہا تھا، کسی طرح میجر دانش کو اس کے بارے میں معلوم ہوگیا اورمیجر دانش نے اسکو لوکاٹی کی اصلیت بتا کر اسے اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ دیپیکا پڈوکون کی فلم کی بجائے وہ اسکی دی ہوئی سی ڈی کو چلائے گا ۔ اور وہ شخص بھی راضی ہوگیا تھا کیونکہ ہولستان کی عوام میں اپنے سرداروں کے لیے جتنا بھی ادب و احترام اور خوف ہو، مگر وطن کی محبت بحرحال انکے دلوں میں موجود تھی۔ بس مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے سرداروں کی کہی ہوئی باتوں پر یقین کر لیتے تھے، مگر آج جب لوکاٹی کے اس خاص آدمی نے لوکاٹی کی اصلیت دیکھی تو وہ دل سے میجر دانش کے ساتھ ہوگیا تھا اور اسکے ایک حکم پر اپنی جان کی بازی لگانے پر بھی تیار تھا۔
میجر دانش نے اس آدمی کو بھی خاص طور پر پروٹیکشن دلوائی تھی۔ اسکے چاروں طرف بلٹ پروف شیشہ تھا اور سکرین کافی اونچائی پر بنوائی گئی تھی اسکے سامنے بھی شیشہ لگوا دیا گیا تھا تاکہ فلم کے دوران کوئی بھی فائرنگ کر کے سکرین کو خراب نہ کر سکے اور نہ ہی اس شخص کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔ بجلی کا بھی خاص طور پر انتظام کیا گیا تھا کہ اگر بجلی چلی بھی جائے تو فلم نہ رکنے پائے۔ یہ تمام انتظامات اصل میں میجر دانش کے کہنے پر کیے گئے تھے مگر ان انتظاماات کو کروانے والا وہی شخص تھا جسکو لوکاٹی نے فلم چلانے کو کہا تھا اور اس نے یہ تمام انتظامات لوکاٹی کی اجازت سے یہ کہ کر کیے تھے کہ جب یہ فلم چلے گی تو پاکیشا کی حکومت ہماری بجلی بھی بند کر سکتی ہے اسلیے ہمیں علیحدہ سے بجلی کا بندوبست کرنا ہوگا، اسکے ساتھ ساتھ سکرین کو بھی حفاظت کے ساتھ لگانا ہوگا تاکہ اسکو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ بذاتِ خود اسکی اپنی سیکورٹی بھی ضرور تھی تاکہ وہ شروع سے آخر تک فلم کو چلا سکے، اور لوکاٹی نے خود یہ انتظامات بہترین طریقے سے کروانے کے احکامات دے دیے تھے۔ اور یہی اب میجر دانش کے کام آںے تھے۔
اس سے پہلے کہ میجر دانش لوکاٹی کی سی ڈی چلانے کا اشارہ کرتا اسکو اپنے موبائل پر ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال کسی نامعلوم نمبر سے تھی۔ میجر دانش نے کال ریسیو کی تو آگے سے آواز آئی، کیوں داماد جی، ہمارے بنائے ہوئے پلان پر مٹی ڈالنے کا ارادہ ہے کیا آپکا؟؟؟ میجر دانش کو کچھ سمجھ نہیں آئی اس نے گرجدار آوز میں پوچھا کیا مطلب ہے تمہارا؟ کون بول رہے ہو؟؟؟ آگے سے ایک زور دار قہقہ لگایا گیا اور پھر کرنل وشال کی گرجدار آواز سنائی دی، ٹینا کے موبائل سے مجھے تم نے ہی کال کی تھی نہ اور سسر جی کہ کر بلایا تھا، آج اپنے سسر کو ہی بھول گئے کیا؟؟؟ میجر کو ٹینا کام سن کر سمجھ آگئی تھی کہ یہ کرنل وشال کی آواز ہے۔
میجر دانش نے کرنل وشال کو کہا کرنل تمہاری گیم ختم ہوگئی ہے، ابھی کچھ ہی دیر میں لوکاٹی کی اصلیت دنیا کے سامنے آجائے گی اور پھر ہولستان کی محبِ وطن عوام لوکاٹی کو یہیں زمین میں دفن کر دے گی، نہ تو تمہاری ڈرپوک فوج میں اتنی ہمت ہوگی کہ ہماری سرزمین پر حملہ کر سکیں اور نہ ہی تمہیں یہاں کوئی اپنا حمایتی ملے گا، تم کتے کی موت مارے جاو گے اور میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا۔ جواب میں کرنل وشال نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور بولا، جو جیسا کرتا ہے اسکے ساتھ ویسا ہی ہوتا ہے۔ تم نے میری بیٹی کو بندی بنا کر مجھ سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروایا تھا نہ، تو سنو، غور سے سنو، تمہاری پیاری سی خوبصورت سی، جوان بیوی اس وقت میری قبضے میں ہے، اگر تم نے لوکاٹی کی فلم چلائی یا میرے راستے میں آنے کی کوشش کی تو تمہاری بیوی اور تمہارا بچہ دونوں کا ہی خاتمہ ہوجائے گا ابھی اور اسی وقت۔
یہ سن کر میجر کے پاوں تلے زمین ہی نہ رہی، اسے لگا جیسے وہ ابھی اپنی جگہ پر گر جائے گا۔ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، ب۔۔۔۔۔۔۔ بچہ۔۔۔۔۔ کونسا بچہ۔۔۔۔؟؟؟ کرنل وشال نے پھر طنزیہ قہقہ لگایا اور بولا وہی بچہ جو تمہاری جوان بیوی کے پیٹ میں پل رہا ہے، لو اپنی بیوی سے بات کرو۔۔۔ یہ کہ کر کرنل وشال نے فون عفت کے کان سے لگا دیا جسکے ہاتھ پاوں کرنل وشال باندھ چکا تھا اور وہ ایک نامعلوم جگہ پر قید تھی۔ میجر دانش کو عفت کی آواز سنائی دی: ہیلو دانش؟؟؟ عفت کی آواز سن کر میجر دانش کے اوسان خطا ہوگئے، وہ واقعی کرنل وشال جیسے بے حِس اور ظالم شخص کی قید میں تھی، بے اختیار میجر دانش کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، وہ بہت بہادر اور مظبوط اعصاب کا مالک تھا مگر اس وقت وہ بالکل کمزور بچے کی طرح تھا جسکے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا، اسنے ہکلاتی ہوئی آواز میں کہا، عفت تم کہاں ہو؟؟؟ مگر آگے سے عفت کی گونجدار اور پرسکون آواز سنائی دی: دانش تم نے ساری زندگی میرے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا، اور میری حفاظت کا مجھے یقین دلایا تھا، اور مجھے تم پر پورا یقین ہے کہ تم کبھی وعدہ خلافی نہیں کر سکتے۔ مگر یاد رکھنا ایک وعدہ تم نے اس پاک سرزمین سے بھی کیا تھا کہ اپنی جان پر کھیل کر اس وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرو گے۔ دانش آج میں رہوں یا نہ رہوں، مگر تمہین میری قسم اس وطن پر ، پمارے ملک پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔۔۔۔ عفت کی اتنی پرسکون اور جذبات سے بھرپور آواز سن کر میجر دانش رو پڑا تھا، اسکی آنکھوں سے نہ صرف آنسو جاری تھے بلکہ وہ بچے کی طرح بلبلا کر رو رہا تھا۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسکی وجہ سے کبھی اسکی بیوی پر اتنا برا وقت آجائے گا۔ وہ اب بھول چکا تھا کہ وہ کس مشن پر ہے اور لوکاٹی عنقریب کتنا خطرناک اعلان کرنے والا تھا، اسکے ذہن میں اگر کچھ تھا تو اسکی بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکا بچہ۔۔۔ جو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں تھا۔
میجر دانش نے روتے ہوئے کہا عفت ہمارا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ عفت ہلکی آواز میں مسکرائی اور بولی ہاں ہمارے بچے کو بھی اپنے بابا پر فخر ہوگا ، اور تمہیں بھی اپنے بچے پر اور اپنی بیوی پر فخر ہونا چاہیے کہ وہ اپنے وطن کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں، میجر دانش پھر رونے لگا، نہیں عفت نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ کبھی نہیں ہونے دوں گا۔ اس سے پہلے کہ عفت کچھ اور کہ پاتی، کرنل وشال نے اس کے کان سے فون ہٹا لیا اور بولا چل ہٹ، بڑی آئی جان کی قربانی دینے والی، تو کیا سمجھتی ہے تیری یہ باتیں پاکیشا کو ٹوٹنے سے بچا لیں گی؟ یہ کہ کر اس نے عفت کے پیٹ میں ایک لات ماری جس سے عفت کی ایک دلخراش چیخ نکلی جو میجر دانش کے کانوں کو چیرتی ہوئی ختم ہوگئی۔ میجر دانش سمجھ گیا تھا کہ کرنل وشال نے عفت پر وار کیا ہے، وہ چلاتا ہوا کرنل وشال سے بولا کہ خبردار جو عفت کو ایک خراش تک بھی پہنچائی نہیں تو میں تیری بوٹی بوٹی کر دوں گا۔
مگر کرنل وشال کا اس دھمکی پر کوئی اثر نہیں ہوا، وہ جانتا تھا کہ اس وقت میجر دانش کچھ نہیں کر سکتا۔ اب میجر دانش کو بھی اپنی دھمکی کھوکھلی محسوس ہو رہی تھی، وہ بھی جانتا تھا کہ اسکے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا، گیم ختم ہوچکی ہے، اب اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہورہا تھا، جب تانیہ نے میجر دانش کو اس بات پر اکسایا تھا کہ کرنل وشال کو ٹینا کے بارے میں بتا کر امجد اور اسکے ساتھیوں کو رہا کروائے تو ایک لمحے کے لیے میجر دانش نے سوچا تھا کہ یہ صحیح نہیں ہے،اپنی آپس کی جنگ میں کسی کی بیٹی، کسی کی عزت سے کھیلنا اور اسکا فائدہ اٹھانا ٹھیک نہیں۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ وہ کونسا حقیقت میں ٹینا کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، بس ایک دھمکی ہی دینی ہے اور کرنل وشال بیٹی کے پیار میں اسکی بات مان جائے گا۔ یہی میجر دانش کی غلطی تھی کہ اس نے ایک باپ کے جذبات کا خیال نہیں کیا، بے شک اس نے ٹِنا کو کچھ نہیں کہا، مگر کرنل وشال آخر ایک باپ تھا، بیٹی کا سنکر اسے کیسا محسوس ہوا ہوگا؟ وہ کس کرب سے گزرا ہوگا ، میجر دانش نے یہ سوچا ہی نہیں تھا، اور اب اسکو اس غلطی کا شدت سے احساس ہورہا تھا۔
وہ اب فون پر کرنل وشال کی منتیں کر رہا تھا کہ خدا کے لیے میری بیوی اور بچے کو چھوڑ دو، انکا کوئی قصور نہیں، میرا بچہ تو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں۔۔۔۔ اس پر کرنل وشال انتہائی دکھ بھرے لہجے میں بولا، میری بیٹی ٹینا کا کیا قصور تھا؟؟؟ تب تمہیں خیال نہیں آیا کہ ایک باپ کے دل پر کیا گزرے گی ؟؟؟ میجر دانش نے کہا تم اپنی بیٹی سے پوچھ لو اگر میں نے اسکو ذرا برابر بھی نقصان پہنچایا ہو، میں تو تمہیں فون کرنے کے بعد اسکا فون لیکر وہاں سے چلا گیا تھا اور وہ مکمل آزاد تھی تمہاری بیٹی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ پلیز میری بیوی کو چھوڑ دو۔۔۔۔ مگر کرنل وشال کہاں سننے والا تھا، اسکے دل میں نہ صرف ٹینا کا بدلہ تھا بلکہ پاکیشا کو دو لخت کرنے کا مشن بھی تھا، آخر کار کرنل وشال نے کہا میں تمہاری بیوی کو چھوڑ دوں گا، مگر تم وہاں سے واپس آجاو، اور خبردار جو تم نے لوکاٹی کی کوئی سی ڈی وہاں چلائی۔ دیپیکا پڈوکون کی فلم والی سی ڈی چلنے دو، لوکاٹی کو بغاوت کا اعلان کرنے دو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، ایک آرمی کرنل تمہیں اپنے الفاظ دے رہا ہے کہ میں تمہاری بیوی کو چھوڑ دوں گا اور پھر بغاوت کو کچلنے کے لیے تم پورا زور لگا لینا، پھر میدانِ جنگ میں ہی ہم دونوں آمنے سامنے آئیں گے، اور میرا تم سے وعدہ ہے تمہییں تمہاری سرزمین پر ہی اپنے پاوں سے کچل کر ماروں گا اور تمہاری بیوی ساری زندگی شہید کی بیوہ بن کر خوشی خوشی زدنگی گزار لے گی۔
میجر دانش نے پھر کہا کہ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں، میں لوکاٹی کو بھی کچھ نہیں کہوں گا، میں اسکی سی ڈی بھی نہیں چلاوں گا مگر خدا کے لیے میری بیوی کو چھوڑ دو۔ اس پر کرنل وشال نے قہقہ لگایا اور بولا پہلے پہلے بغاوت کا آغاز تو ہو لینے دو پھر تمہاری اس خوبصورت اور جوان بیوی کو بھی چھوڑ دوں گا۔ ابھی کرنل وشال نے اتنا ہی کہا تھا کہ میجر دانش کے کانوں میں لوکاٹی کی آواز گونجی، وہ ایک بار پھر سٹیج پر کھڑا ہوگیا تھا اور اس نے اعلان کر دیا تھا کہ اب ہم آپکو وہ فلم دکھائیں گے جو کہانی میں نے آپکو ابھی سنائی ہے، اگر ہماری اس بیٹی کے سر سے اترتی چادر دیکھ کر بھی آپکی غیرت نہیں جاگتی تو میں لعنت بھیجوں گا آپکی مردانگی پر اور یہیں اس جلسے میں اپنے آپکو گولی مار کر اڑا دوں گا، کہ میں ایسی بے غیرت قوم کا لیڈر نہیں بن سکتا جسکی اپنی بیٹی کی عزت لٹتی دیکھ کر بھی غیرت نا جاگے۔ اور اگر اس فلم کو دیکھنے کے بعد آپکی غیرت جاگ اٹھے، آپ میری ایک آواز پر اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوجاو، تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس قوم کی ہر بیٹی کی عزت کی حفاظت کے لیے آپکے شانہ بشانہ کھڑا رہوں گا، اپنے خون کا آخری قطرہ تک آپکی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر دینے کے لیے تیار رہوں گا، پاکیشا کی ظالم فوج کے مظالم اور آپکی بیٹیوں کی عزت کے درمیان میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجاوں گا، پاکیشا کی آرمی پہلے میری لاش پر سے گزرے گی پھر آپ کی بیٹیوں کی عزت پر ہاتھ ڈالے گی، لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی میری جگہ لینے میری قوم کے غیور عوام موجود ہونگے، اور آزادی کی اس جنگ کو تب تک لڑیں گے جب تک اس قوم کا ہر مرد مارا نا جائے، یا پھر آزادی حاصل نہ کر لیں۔۔۔
لوکاٹی کی اتنی کاٹ دار تقریر سن کر وہاں موجود لوگوں کے جذبات اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے اور اب پوری جلسہ گاہ میں پاکیشا کی آرمی کے خلاف نعرے بازی ہورہی تھی اور ہر کوئی عہد کر رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہیں۔ ادھر کرنل وشال بھی میجر دانش کے فون کے ذریعے یہ ساری تقریر سن رہا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا، اسے یقین تھا کہ اس تقریر کے بعد کوئی بھی غیرت مند نوجوان بنا کچھ سوچے سمجھے بغاوت کا اعلان کر دے گا اور اسکے لیے اپنی جان بھی قربان کر دے گا۔ اس نے ایک بار پھر فون پر میجر دانش کو کہا کہ دیکھو ان لوگوں کے جذبات کو۔۔۔۔ کیا تم انکے جذبات کو اپنی گولیوں سے روک سکتے ہو؟ کیا تم انکی غیرت کو ختم کر سکتے ہو؟؟؟؟ نہیں میجر نہیں۔۔۔ تم ہار چکے ہو، تم کچھ نہیں کر سکتے، لہذا بہتری اسی میں ہے کہ چپ چاپ وہاں سے واپس آجاو اور اپنی بیوی اور اپنے بچے کے ساتھ باقی کی زندگی آرام سے گزارو۔
میجر دانش کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا، پھر اسکی نظر ایک سائیڈ پر بلٹ پروف شیشے پر پڑی جہاں لوکاٹی کا خاص آدمی جس نے فلم چلانی تھی وہ میجر دانش کے اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ تب میجر دانش کو ہوش آیا کہ وہ یہاں کیوں آیا تھا اور اسکا مقصد کیا تھا، اسکے ذہن میں ایک طرف آرمی جوائن کرتے وقت کھائی گئی قسمیں تھیں کہ وہ اپنے ملک کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دے گا، تو دوسری طرف اپنی پیار کرنے والی بیوی کے ساتھ گزارے گئے وہ چند لمحات تھے جنکے نتیجے میں اسکی بیوی پیٹ سے تھی اور اسکے بچے کی ماں بننے والی تھی میجر کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا، وہ اپنی بے قصور بیوی اور بچے کو کیسے قربان کر سکتا ہے؟؟؟ مگر پھر لوکاٹی کی آواز اسکےکانوں میں گونجی کہ فلم چلاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی یہ آوز میجر دانش کے کانوں میں گونجی، نیجر دانش کی نظروں کے سامنے وہ معصوم بچے آنے لگے ، وہ معصوم جانیں آنے لگیں، وہ معصوم بیٹیاں اور اس قوم کی عزتیں آنے لگیں جو اس بغاوت کے نتیجے میں ہندوستانی فوجیوں سے بے آبرو ہونے والی تھیں۔۔۔
ایک طرف میجر دانش کے سامنے اپنی بیوی کے پیٹ میں پلنے والا معصوم بچہ، اور اپنی پاک دامن اور بے قصور بیوی تھی جس نے ابھی زندگی کی خوشیاں دیکھی ہی نہیں تھیں، تو دوسری طرف اپنی قوم کی وہ بے شمار بچیاں تھیں جو انڈین آرمی کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے جا رہی تھیں، ہندو بنیے جو مظالم کرنے والے تھے ان بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے ساتھ اسکا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا ان لوگوں کو، باالآخر میجر دانش نے گہرا سانس لیا اور اپنی ہمت کو جمع کرنے لگا، تبھی اسکوموبائل پر عفت کی چیخ سنائی دی، عفت پوری آواز کے ساتھ چیخ کر کہ رہی تھی: دانش میری جان: بیوی تو اور بھی مل جائے گی، بچے بھی اور مل جائیں گے، لیکن اگر تم نے اپنے وطن سے غداری کی تو تمہیں یہ عفت کبھی نہیں ملے گی، اور نہ ہی تمہارا ہونے والا بچہ تمہیں کبھی معاف کرے گا۔
عفت کی اس بات نے میجر دانش کو وہ حوصلہ دیا جس کے نتیجے میں کوئی بھی فوجی جوان اپنے وطن کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے، آخر کار عفت کی اس بات نے میجر دانش کے اندر وہی جوش اور ولولہ پیدا کر دیا جو آرمی جوائن کرتے وقت میجر کے اندر تھا، میجر دانش نے بلٹ پروف شیشے میں اس آدمی کی طرف دیکھا جو ابھی تک حسرت بھری نگاہوں سے میجر دانش کے اشارے کا منتظر تھا، تھوڑی دیر اور ہوجاتی تو اسے دیپیکا پڈوکون کی فلم چلانی ہی پڑتی، میجر دانش نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا، ایک نعرہ ءِ تکبیر کی صدا بلند کی اور اس شخص کو لوکاٹی کی سی ڈی چلانے کی ہدایت دے دی، جیسے ہی سکرین آن ہوئی اس پر سب سے پہلا چہرہ لوکاٹی کا ہی نظر آیا، جسکو دیکھ کر جلسہ گاہ میں موجود لوکاٹی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ گئیں کیونکہ اسکو کرنل وشال نے یقین دلایا تھا کہ یہ ویڈیو جلسے میں نہیں چلے گی۔ لوکاٹی اس وقت ویدڈیو میں کرنل وشال سے باتیں کر رہا تھا جس میں وہ ہولستان میں آزادی کی تحریک چلانے کے عوض اپنے مطالبات رکھ رہا تھا کہ اسے ہندوستان کی خوبصورت اداکارائیں مہیا کی جائیں روز وہ کسی نئی اداکارہ کے ساتھ رات گزارے گا۔ پھر دوسرے سین میں لوکاٹی انڈیا کی ایک سرکاری شخصیت سے پاکیشا میں آزادی کی تحریک چلانے کے لیے سازگار ماحول بنانے کے عوض 200 ارب روپے مانگ رہا تھا۔ یہ ویڈیو دیکھ کر جلسہ گاہ میں مکمل خاموشی ہوگئی تھی سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، اتنی خاموشی تھی کہ سوئی گرنے کی بھی آواز سنائی دے، پھر اسی طرح کے کچھ اور سین چلے جس میں لوکاٹی پاکیشا سے غداری کے عوض بڑی بڑی رقوم بٹور رہا تھا اور بدلے میں ہندوستان سے الحاق کی یقین دہانی بھی کروا رہا تھا ، جبکہ اس غدار نے اپنے لوگوں کو تو آزادی کے خواب دکحائے تھے۔۔۔۔ لوکاٹی کو اپنا سب کچھ ختم ہوتا نظر آنے لگا، اس نے ساتھ کھڑَ سیکورٹی گارڈ سے گن پکڑی اور سکرین کی طرف کر کے گن چلانے لگا، مگر وہ بھول گیا تھا کہ سکرین کی حفاظت کے لیے تو وہ خود اسکے سامنے بلٹ پروف شیشہ لگوا چکا تھا، پھر اس نے جلسہ گاہ کی بجلی بند کرنے کی ہدایت دی، پورے جلسہ گاہ کی بجلی بند ہوگئی مگر سکرین کو بجلی شاید کہیں اور سے مل رہی تھی وہ بند نہ ہوئی وہ چلتی رہی۔
بالآخر سکرین پر وہ سین بھی چلا جب لوکاٹی کی حالت بری ہورہی تھی، وہ بیڈ پر لیٹا ہوا اوپر نیچے ہل رہا تھا کیمرہ اسکے چہرے پر تھا، اسکے چہرے سے صاف لگ رہا تحھا کہ وہ اس وقت بہت مزے میں ہے، اور پھر ایک لرکی یعنی تانیہ کی سسکیوں کی آواز آئی، اور انہی سسکیوں کے دوران تانیہ نے پوچھا کہ ہولستان کے سردار بھی حکومت میں حصہ مانگیں گے تو کیا کرو گے؟ تو لوکاٹی نے حقارت سے جواب دیا تھا کہ ان پاگلوں کو بھلا کیا ملنا ہے؟ آزادی کا اعلان اور ہندوستان سے الحاق کے اعلان کے بعد جب ہندوستانی آرمی ہولستان میں داخل ہوجائیں گی تو سب سے پہلے ان سرداروں کا ہی صفایہ ہوگا میں اپنی دولت اور اپنی حکومت میں کسی کو شامل نہیں کروں گا۔ یہ لائن چلنے کی دیر تھی کہ وہاں موجود تمام سردار اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے، اور ان سرداروں کی ماننے والی عوام بھی غصے سے پاگل ہوگئی، وہ سمجھ گئے تھے کہ لوکاٹی انہیں آزادی کے خواب دکھا کر صرف اپنے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس سے پہلے کہ کوئی سردار لوکاٹی کو مارتا، وہاں موجود لوکاٹی کے بیٹے نذر نے سوچا کہ یہی صحیح موقع ہے، ماریہ بی بی یعنی انجلی نے جو بتایا تھا کہ کب لوکاٹی کومارنہ ہے یہ تمہیں پتا چل جائے گا، اس نے اپنی گن نکالی اور اپنے باپ کی طرف لپکا، اس نے اپنے باپ کو غدار کہ کر پکارا اور اس پر نشانہ تان کر گولی چلا دی، اسکا خیال تھا کہ ہولستان رہے گا تو پاکیشا کے ساتھ ہی ، مگر اپنے غدار باپ کو موت کی نیند سلانے کے بعد پاکیشا کی آرمی اسی کو یہاں حکومت کےلیے چن لیں گی اور عوام بھی اس سے خوش ہوگی کہ اس نے اپنے وطن کی خاطر اپنے باپ کی جان لے لی، دوسری طرف کرم تھا جو گیم بگڑتی ہوئی دیکھ رہا تھا، وہ سمجھ گیا تھا کہ اب کوئی آزادی نہیں، اب کوئی حکومت نہیں، مگر جب اس نے دیکھا کہ نذر نے اپنے ہی باپ کو مار دیا ہے تو وہ سمجھ گیا کہ اگلا سردار اب نذر ہوگا، مگر وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا، اس نے اپنی گن نکالی اور اپنے بھائی کو گولیوں سے چھلنی کرنے لگا جبکہ نذر نے بھی آخری سانسیں لیتے ہوئے اپنی گن کا رخ کرم کی طرف کیا اور گن میں موجود باقی گولیاں کرم کے جسم میں اتار دیں۔
لوکاٹی کی گیم ختم ہوچکی تھی، کرنل وشال جو پاکیشا کو دو لخت کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا تھا وہ سب ملیا میٹ ہو چکا تھا، بارڈر کے پار جو انڈین آرمی پاکیشا پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھیں ان تک خبر پہنچ گئی تھی کہ ہولستان کی عوام پر لوکاٹی کی غداری عیاں ہوگئی ہے، اور اب وہاں کی عوام اپنی غیور افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے، لہذا ایسی صورت میں پاکیشا پر حملہ کرنا اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارنے کے برابر تھا۔ 6 ستمبر 1965 کو ابھی وہ بھولے نہیں تھے۔ ایسے میں دوبارہ سے اس ملک پر حملہ کرنا جہاں کی عوام اپنی فوج کے ساتھ گولیاں کھانے کے لیے اپنا سینہ تان کر کھڑی ہو وہاں حملہ کرنا سب سے بڑی بے وقوفی ہوگی۔
مگر دوسری طرف میجر دانش کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ جب اس نے لوکاٹی کی ویڈیو چلانے کا حکم دیا اور فون پر کرنل وشال کو معلوم ہوگیا کہ میجر دانش نے عفت کے آخری الفاظ سن کر بیوی اور بیٹے کی قربانی دینے کا سوچ لیا ہے تووہ غصے سے کانپنے لگا تھا، اسکا ذہن ماوف ہوگیا تھا، اب اسکے سامنے میجر دانش سے بدلہ لینے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ تھا اسکی بیوی اور بیوی کے پیٹ میں محض 1 سے ڈیڑھ ماہ کے بچے کو موت کے گھاٹ اتارنا تھا تاکہ میجر دانش ساری زندگی کرنل وشال کا یہ بدلہ نہ بھول سکے۔ تبھی میجر دانش کو فون پر گولی چلنے کی آواز سنائی دی، اور عفت کی ایک دلخراش چیخ میجر دانش کے کانوں کو چیرتی ہوئی چلی گئی۔۔۔۔ میجر دانش کے ہاتھ سے موبائل گر چکا تھا، اسکی دنیا اجڑ چکی تھی، اسکی پیاری بیوی جسکو ابھی اسنے جی بھر کر پیار بھی نہیں کیا تھا اسکی ایک چھوٹی سی غلطی کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ میجر دانش اپنی جگہ بیٹھا زارو قطار رو رہا تھا، جلسہ گاہ میں کیا ہورہا تھا، کب لوکاٹی کو نذر نے مارا، اور کب کرم نے نذر کو مارا، میجر دانش کو اسکا کچھ علم نہیں تھا۔ اگر اسکے ذہن میں کچھ تھا تو اسکی بے قصور بیوی اور اسکا بیٹا جو ابھی اس دنیا میں آیا ہی نہیں تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اسکی دنیا اجڑ گئی ہے، وہ اپنے آپ کو اپنی بیوی اور بچے کا قاتل سمجھ رہا تھا۔۔۔۔ مگر پھر اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میجر دانش کو ایک نئی زندگی ملی۔۔۔۔ جب اسکے کانوں میں پاکیشا زندہ باد۔۔۔۔ پاکیشا زندہ باد کے نعرے گونجنے لگے۔۔۔۔۔ ہندوستان مردہ باد، ہندوستان مردہ باد کے نعروں نے میجر دانش کو ایک نئی زندگی دی اور اسے یہ احساس دلایا کہ وہ اس وطن کا سپاہی ہے۔۔۔ اسکے سارے رشتے سارے ناطے بعد میں، سب سے پہلے یہ وطن ، اس وطن کی حفاظت۔ وطن ہے تو سب کچھ ہے۔۔۔ وطن نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
میجر دانش نے سر اٹھا کر دیکھا تو جلسہ گاہ میں لوکاٹی کی لاش عبر کا نشانہ بن چکی تھی، وہاں موجود عوام اور سرداروں نے لوکاٹی کی اصلیت جان لینے کے بعد اسکی لاش کو جلا دیا تھا۔ اور اب جلسہ گاہ کے سٹیج پر میجر دانش کا خاص آدمی موجود تھا جو مائک پر پر جوش آواز میں پاکیشا زندہ باد کے نعرے لگوا رہا تھا، اور انہیں بتا رہا تھا کہ اس غدارِ وطن نے کیسے یہاں کی عوام کو ان پڑھ رکھا اور انہیں انکی بیٹیوں کی عزت کی قسمیں دے کر اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ ہولستان کی وام کے دل میں وطن کی محبت موجود تھی، بس اس پر لوکاٹی کی جھوٹی کہانیوں نے تھوڑی گرد جما دی تھی، ویڈیو میں لوکاٹی کی اصلیت دیکھ لینے کے بعد یہ گرد اڑ گئی تھی اور وہی جذبہ جو اس قوم کے آباو اجداد کا 1947 میں تھا، آج 6 ستمبر کے موقع پر بھی اس قوم کے بیٹوں کا وہی جذبہ تھا اور لاکھوں کا مجمع تا قیامت اس ملک کی حفاظت اور اس ملک کو لوکاٹی جیسے خبیث لوگوں سے بچانے کی قسمیں کھا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میجر دانش اپنی بیوی اور بچے کی قربانی بھول گیا تھا۔ اب اسے اندازہ ہوا تھا کہ وہ ہارا نہیں، بلکہ وہ جیت گیا ہے۔ کرنل وشال کی زندگی بھر کی محنت رائیگاں گئی تھی، اسکے ناپاک منصوبے مٹی میں مل گئے تھے اور ہولستان ایک بار پھر پاکیشائی جھنڈوں سے سج گیا تھا۔
چیف آف آرمی سٹاف نے میجر دانش کو اس بڑی کامیابی پر مبارک باد دی ، وزیرِ اعظم نے بھی اس عظیم بغاوت کو کچلنے پر میجر دانش کو فون کر کے مبارک باد دی اور ترقی دینے کی خوشخبری سنائی۔ میجر دانش کو اپنی بیوی اور بچے کو کھو دینے کا غم تھا، مگر اب وہ کمزور نہیں تھا، بلکہ وہ خوش تھا کہ اس نے اپنی سب سے پیاری چیز کی قربانی دیکر اس ملک کو بچالیا تھا۔ یہی وطن کے سپاہی کی اصل دولت ہے۔ اب اسکے ذہن میں صرف ایک بات تھی۔ امجد سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرنا۔ اسکی بہن تانیہ کو با حفاظت اسکے گھر پہنچانا۔
انہی سوچوں کے ساتھ میجر دانش واپس کلاچی پہنچ چکا تھا۔ اور تانیہ کو ڈھونڈنا چاہتا تھا، اس نے میجر علینہ کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ تانیہ کہاں ہے؟؟؟ میجر علینہ نے میجر دانش کو خوشخبری سنائی کہ مبارک ہو، تانیہ مل گئی ہے، اور میں اس وقت تانیہ کو لیکر تمہارے گھر پر تمہاری امی کے ساتھ ہی ہوں، آجاو تم بھی ، تمہاری ماں اپنے بہادر بچے کو دیکھنے کے لیے بے چین ہورہی ہے۔ ماں کا سن کر میجر دانش بے اختیار اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ گھر پہنچ کر میجر دانش نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو دروازے پر ہی اسے اپنی ماں دکھائی دی، ماں کو دیکھتے ہی میجر دانش اپنی ماں سے لپٹ گیا، میجر دانش کی آنکھوں میں آنسو تھے، بہت عرصے بعد وہ اپنی ماں سے ملا تھا ، جس ماں کا چہرہ وہ روزانہ دیکھا کرتا تھا آج قریب 2 ماہ کے بعد وہ اپنی ماں سے مل رہا تھا۔ مگر اس ماں کی آنکھوں میں ایک آنسو بھی نہں تھا، بلکہ اس کی آنکھوں میں اپنے بہادر بیٹے کے لیے محبت ہی محبت تھی اور سینہ فخر سے پھولا ہوا تھا، اور چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان تھا جو شاید قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔ میجر دانش کے دل میں کہیں عفت کا بھی خیال تھا کہ اگر آج عفت بھی ہوتی تو وہ کتنی خوش ہوتی۔ ماں سے ملنے کے بعد میجر دانش نے میجر علینہ کی طرف دیکھا جو فخر سے میجر دانش کو دیکھ رہی تھی، اس نے میجر دانش کو ایک سلیوٹ کیا اور اسے اس شاندار کارنامے پر مبارک باد دی۔ میجر علینہ کے پیچھے تانیہ کھڑی تھی، وہ بھی خوش تھی اور اسکی آنکھوں میں جہاں میجر دانش کی کامیابی پر خوشی اور فخر تھا، وہیں شاید ایک کرب بھی تھا، وہ جانتی تھی کہ اب اسے میجر دانش سے جدا ہونا ہے۔ کچھ دن میجر دانش کے ساتھ گزار کر وہ اس سے پیار کرنے لگی تھی۔ اور ساری زندگی اسی کے ساتھ بتانا چاہتی تھی، مگر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔۔۔۔۔
تانیہ اپنی جگہ سے سائیڈ پر ہٹی تو اسکے پیچھے میجر دانش نے جو منظر دیکھا، اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ خوشی سے روئے یا چیخیں مارے۔ تانیہ کےپیچھے میجر دانش کو عفت نظر آئی تھی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ میجر دانش نے ایک بار اپنی آنکھیں ملیں اور پھر دوبارہ سے دیکھا تو عفت ابھی تک اپنی جگہ پر موجود تھی اور اسکی آنکھیں پر عزم اور اپنے شوہر کی بہادری پر فخر سے چمکتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ میجر دانش ایک دم سے آگے بڑھا اور سب کے سامنے ہی اپنی بیوی کو اپنے گلے سے لگا لیا، عفت بھی اپنے شوہر کے سینے سے لگ کر ساری اذیت بھول گئی تھی جو اسے کرنل وشال سے ملی تھی، یا جو جدائی کے دن اس نے سہاگ رات سے ہی گزارنا شروع کر دیے تھے، شوہر کے سینے سے لگ کر اسے اسکی دنیا واپس مل گئی تھی، اسکا پیار واپس مل گیا تھا۔ میجر دانش کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ آخر یہ سب کیسے ہوا؟
تب میجر علینہ نے میجر دانش کو کہا کہ تمہیں تانیہ کا بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہیے، جس نے کرنل وشال کی قید سے عفت کو نہ صرف بچایا بلکہ اسکو عبرت ناک سزا بھی دی، اور اسکی لاش اس وقت انڈین بارڈر پر پڑی ہے، اور کوئی اسے اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا۔ میجر دانش نے تانیہ کی طرف دیکھا اور اب کی بار آگے بڑھ کر اسے بھی گلے سے لگا لیا، اور اسکا ماتھا چوم کر اسکا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
اصل میں تانیہ جب کلاچی پہچنی تھی تو اس نے نذر کے بیٹے شاہ میر کو ایک چھوٹے سے ہوٹ میں کمرہ لیکر اسی میں ٹھہرا دیا تھا جبکہ خود وہ ائیر پورٹ چلی گئی تھی کیونکہ میجر دانش نے اسے بھی اپنی پاکیشا آمد کے بارے میں بتایا تھا اور وہ جانتی تھی کہ میجر دانش کلاچی ائیر پورٹ پر ہی آئے گا۔ اسنے اپنی حفاظت کی غرض سے ایک چھوٹی پسٹل بھی اپنے ساتھ رکھ لی تھی جو اس نے اپنے پاس موجود چھوٹے ہینڈ بیگ میں چھپا لی تھی۔ ائیر پورٹ پر پہنچ کر وہ دانش کو ڈھونڈنے لگی مگر وہاں اسکی نظر کرنل وشال پر پڑی جو عام کپڑوں میں ملبوس دیپیکا کے ساتھ ایک گاڑی میں بیٹھ رہا تھا، تانیہ نے وہیں سے ٹیکسی میں کرنل وشال کا پیچھا شروع کیا جو دیپیکا کو ایک ہوٹل میں ٹھہرا کر خود میجر دانش کے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ تانیہ کے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ کرنل وشال اسے پہچانتا نہیں تھا، وہ اتنا تو جانتا تھا کہ میجر دانش کے ساتھ کوئی تانیہ نامی لڑکی بھی ہے ، مگر وہ ابھی تک اسکو دیکھ نہیں پایا تھا اسی لیے جب کرنل وشال میجر دانش کے گھر کے پاس موجود ایک شاپنگ مال میں گیا تو تانی بھی بلا جھجک وہاں داخل ہوگئی اور وہ 2، 3 بار اسے سامنے سے بھی گزری۔ کرنل وشال بار بار اپنے فون پر کسی لڑکی کی تصویر دیکھ رہا تھا ایک بار تانیہ نے اسکے قریب سے گزرتے ہوئے اسکی طرف دیکھا تو وہ ابھی بھی کسی لڑکی کی تصویر دیکھ رہا تھا، اور پھر کچھ ہی آگے جا کر تانیہ کو ایک دکان میں وہی لڑکی نظر آئی جسکی تصویر کرنل وشال کے موبائل میں تھی ۔ یہ لڑکی عفت تھی جو کچھ دن پہلے ہی ڈاکٹر کے ہوکر آئی تھی اور اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے، اور اسی خوشی میں وہ اپنے ہونے والے بچے کی چھوٹی چھوٹی چیزیں دیکھنے شاپنگ مال میں موجود تھی۔
کرنل وشال دیپیکا کو چھوڑنے کے بعد میجر دانش کی بیوی کو اغوا کرنے آیا تھا اور یہاں موجود اسکے لوگوں نے کرنل کو اطلاع دی تھی کہ میجر کی بیوی عفت اس وقت ایک شاپنگ مال میں موجود ہے۔ تانیہ ابھی عفت سے ملی نہیں تھی وہ دور کھڑی اسے دیکھ رہی تھی، وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کون ہے۔ پھر اسے کرنل وشال دکھائی دیا جو عفت کی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔ تانیہ دور کھڑی عفت کو اور کرنل وشال کو دیکھ رہی تھی، اسکا خیال تھا کہ یہ یقینا کرنل وشال کی ساتھی ہوگی جو اسکی یہاں مدد کرتی ہوگی۔ اتنے میں کرنل وشال عفت کے قریب جا کر بولا ہیلو عفت میڈیم کیسی ہیں آپ؟؟؟؟ عفت نے کرنل وشال کو دیکھا اور حیرت سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی سوری میں نے آپکو پہچانا نہیں۔۔۔۔ کرنل وشال نے کہا آپ میجر دانش کی وائف ہیں نا؟؟؟ اس پر عفت نے کہا ہاں۔۔۔۔ مگر آپ کون؟؟؟ کرنل نے انتہائی خوش اخلاقی سے کہا میں کرنل ہوں، کرنل مشتاق، دانش سے آپکے بارے میں بہت سنا تھا، آپکی تصویر بھی دیکھی تھی، آج اپ سے ملاقات بھی ہو ہی گئی۔ پھر عفت کی خیریت پوچھ کر کرنل وشال واپس شاپنگ مال سے واپس چلا گیا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر عفت کا انتظار کرنے لگا۔ تانیہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہیے اس نے دیکھا کہ عفت بھی شاپنگ ختم کر کے شاپنگ مال سے باہر جا رہی تھی، تانیہ بھی اسکے پیچھے پیچھے جانے لگی کہ اچانک اسنے دیکھا عفت ایک کالی گاڑی کے قریب سے گزری تو گاڑی کا دروازہ کھلا اور اندر سے ایک ہاتھ نکلا جس نے عفت کو گاڑی کے اندر کھینچ لیا۔ اور گاڑی فراٹے بھرتی شہر سے دور جانے لگی۔
تانیہ نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑکی کون ہے، وہ تو بس کرنل وشال سے اپنی مظلوم ماں کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔ اسی لیے وہ کرنل وشال کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ پھر سے ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر اس گاڑی کے پیچھے پیچھے شہر سے دور ایک کچی آبادی میں داخل ہوگئی تھی جہاں دور کالی گاڑی رک چکی تھی اور ایک آدمی عفت کو گود میں اٹھائے ایک مکان کے اندر لے گیا تھا جبکہ گاڑی سیدھی نکل گئی تھی۔ عفت نے ٹیکسی اس گھر سے دور رکوائی اور گاڑی والے کو پیسے دیے اور اس گھر کی طرف چل پڑی۔ اس آبادی میں آس پاس کوئی شخص موجود نہیں تھااس نے گھر کا چاروں طرف سے جائزہ لیا اور پھر ایک چھوٹی دیوار کو دیکھ کر انہتائی مہارت کے ساتھ اس دیوار پر چھڑ کر گھر کے اندر چھلانگ لگا دی۔ چھلانگ لگاتے ہوئے اس نے اس بات کا خیال رکھا کہ زیادہ آواز پیدا نہ ہو اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی تھی، کراٹے کی ٹریننگ تو وہ پہلے ہی لے چکی تھی جب وہ ہندوستان میں تھی۔ اور امجد کے ساتھ بھی اس طرح کے کام اسکی روز مرہ زندگی کا حصہ تھے۔ گھر کے اندر جا کر وہ بڑی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے لگی اور اس نے اپنی گن نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے لوڈ بھی کر لیا تھا اور سیفٹی لاک بھی ہٹا چکی تھی۔ تب اسے ایک کمرے کے سامنے کچھ ہلچل دکھائی دی، دروازہ باہر کی طرف کھلا تھا اور اسکے نیچے سے آنے والی روشنی سے اندازہ ہورہا تھا کہ دروازے کے دوسری طرف کوئی موجود ہے، تانیہ بہت احتیاط کے ساتھ اس کمرے کے قریب گئی تو اندر کرنل وشال کا قہقہ سنائی دیا ، اور پھر اسے عفت کی آواز سنائی دی جو میجر دانش کو فون پر حوصلہ دے رہی تھی اور وطن کی خاطر اپنی بیوی کی اور ہونے والے بچے کی فکر نہ کرنے کی تلقین کر رہی تھی۔ تانیہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ یہ میجر دانش کی بیوی تھی اور امید سے تھی۔ اسکے پیٹ میں میجر دانش کا بچہ تھا۔ اور ظالم کرنل وشال اسے مارنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔
تانیہ نے کچھ دیر انتظار کیا پھر دبے قدموں کے ساتھ دروازے کی اوٹ لیکر اندر کا منظر دیکھنے لگی، جہاں کرنل وشال میجر کو سمجھا رہا تھا کہ لوکاٹی کی ویڈیو نہ چلائے تو اسکی بیوی کی جان بچ جائے گی۔ تانیہ اب اپنی ماں کا بدلہ بھول چکی تھی، اسکے نزدیک اب ایک وطن کے سپاہی کی بیوی اور اسکے ہونے والے بچے کی زندگی تھی جن کی پرواہ کیے بغیر وہ سپاہی اپنے وطن کو بچانے کی آخری کوشش کررہا تھا۔ پھر جب کرنل وشال کو فون پر لوکاٹی کی ویڈیو کی سیی ڈی چلنے کی آواز آئی تو اس نے میجر دانش کو للکارا کہ تو نہیں مانا یہ لے تیرے بیوی بچے گئے، پھر کرنل وشال نے عفت کی طرف اپنی بندوق کا رخ کیا اور گولی چلنے کی آواز آئی تو عفت کی ایک زور دار چیخ نکلی۔ یہ گولی کرنل وشال کی نہیں بلکہ تانیہ کی پسٹل سے نکلی تھی جو سیددھی کرنل وشال کے دائیں کندھے میں جا کر لگی تھی، عفت یہی سمجھی کہ یہ گولی اسکے اوپر چلی ہے جسکی وجہ سے اسکی بے اختیار چیخ نکل گئی تھی جبکہ کرنل وشال کے ہاتھ سے گن گر گئی اور دور جا گری، اس نے تکلیف کی شدت سے اپنا کندھا پکڑ لیا اور پیچھے مڑکر دیکھا جہاں ایک نوجوان لڑکی اس پر بندوق تانے کھڑی تھی۔ کرنل کی آنکھوں میں اب خوف تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنی گری ہوئی گن کی طرف جانا شروع کی اور تانیہ سے پوچھا تم کون ہو؟؟؟ تانیہ نے کہا میں بھی میجر دانش کی طرح اس ملک کی سپاہی ہوں۔ میرا نام تانیہ ہے۔۔۔ تانیہ کا نام سن کر کرنل وشال فورا سمجھ گیا کہ یہ امجد کی ساتھی ہے۔ کرنل وشال نے کہا مگر تمہارے بھائی کو تو میں آزاد کر چکا ہوں تم اب یہاں کیا لینے آئی ہو؟؟؟ تو تانیہ نے کہا اس لڑکی کو بچانے آئی ہوں میں، یہ اس وطن کے سپاہی کی عزت ہے ، اور تجھ جیسا بے غیرت انسان اسکی طرف بری نظر سے دیکھے یا اسکو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، ایسا میں ہونے نہیں دوں گی۔ اس دوران کرنل وشال اپنی گن کے قریب پہنچ چکا تھا، اس نے جھک کر اپنی گن اٹھانی چاہیے تو تانیہ کی پسٹل سے ایک اور گولی نکلی جو کرنل وشال کے پاوں میں لگی اور ہ لڑکھڑا گیا اور زمین پر آگرا، اور تانیہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر کرنل وشال سے کچھ فاصلے پر پڑی گن اپنے پاوں سے دور کر دیا اور پھر کرنل وشال ی طرف بندوق تان کر کھڑی ہوگئی۔
کرنل وشال اب زمین پر لیٹا تکلیف سے کراہ رہا تھا، اسکو اس چیز کی تکلیف تھی کہ اسے مارنے والا کوئی پاک آرمی کا جوان نہیں بلکہ ایک معمولی لڑکی ہے۔ یہ دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا، اسکی موت اسکی آنکھوں کے سامنے تھی، وہ ہمیشہ سے میدان جنگ میں اپنی ٹکر کے انسان سے گولی کھا کر مرنا چاہتا تھا مگر یہاں چوہے کی طرح ایک معمولی اور معصوم لڑکی کے ہاتھوں موت اسے کسی صورت قبول نہیں تھی۔ وہ ساری زندگی لڑا تھا، مگر اس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک لڑکی کے ہاتھوں کتے کی موت مارا جائے گا۔ اب تانیہ نے کرنل وشال کو کہا، صرف اس لڑکی کو بچانے ہی نہیں بلکہ میں اپنی ماں کا بدلہ لینے بھی آئی ہوں، آج سے 10 سال پہلے تو نے کشمیر کے ایک گاوں میں میرے باپ اور میری ماں کو میری آنکھوں کے سامنے مار دیا تھا، اور تجھ جیسے بے غیرت انسان نے میری ماں کو مارنے سے پہلے اسکی عزت بھی تار تار کر دی تھی، تب میں ایک چھوٹی سی 10 سال کی بچی تھی جو اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی، تب سے میں امجد کے ساتھ ہوں، صرف ایک وجہ سے، کہ اپنی مظلوم ماں کا بدلہ لے سکوں اور تجھے موت کے گھاٹ اتار کر ہزاروں معصوم عورتوں کی عزت بچا سکوں ۔۔ آج تو مل ہی گیا آخر کار آج تو تجھے میں ہیں چھوڑوں گی، یہ کہ کر تانیہ نے ایک اور گولی چلائی جو کرنل کے بازو میں لگی تھی۔
پھر تانیہ نے عفت کی طرف بڑھ کر اسکے ہاتھوں سے رسی کھول دی اور اسکی ٹانگوں کو بھی آزا د کر دیا، اس دوران وہ پوری طرح چوکنی تھی کہ کرنل وشال اپنی جگہ سے ہلنے نا پائے، وہ جانتی تھی کہ 3 گولیاں لگنے کے باوجود کرنل کسی بھِ وقت جوابی حملہ کر سکتا تھا، دشمن کو کمزور نہ سمجھنا اس نے دانش سے سیکھا تھا۔ عفت کو آزاد کروانے کے بعد تانیہ نے کمرے میں نظریں دوڑائیں ۔ تو اسے ایک لوہے کا راڈ نظر آیا، تانیہ نے پہلے کرنل وشال کی گن اپنے قبضے میں کی پھر لوہے کا راڈ اٹھا کر کرنل وشال کی طرف بڑھی اور کرنل وشال کی دونوں ٹانگوں کے درمیان تانیہ نے ایک زور دار وار کیا، لوہے کا راڈ سیدھا کرنل کے لن پر جا کر لگا جس سے اسکی دلخراش چیخیں پورے کمرے میں گونجنے لگیں، پھر تانیہ نے اسی جگہ پر ایک اور وار کیا، پھر دوسرا پھر تیسرا۔۔۔۔ لگاتار وار کر کرکے تانیہ نے کرنل کی حالت غیر کر دی تھی، 3 گولیاں کھانے کے بعد بھی شاید کرنل وشال اٹھ کر جوابی حملہ کر سکتا تھا مگر اب جس جگہ پر تانیہ نے حملے کیے تھے اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ کرنل وشال اٹھنے کی ہمت کر سکے۔ پھر تانیہ نے بندوق اٹھائی اور بولی تو ٹینا کا بدلہ اس معصوم سے لینا چاہتا تھا نہ، تو سن میجر دانش ایک فرض شناس سپاہی ہے ، اس نے تیری بیٹی کو ایک خراش تک نہیں پہنچائی، صرف تجھے دھمکی دی تاکہ تو ہمارے ساتھیوں کو چھوڑ دے، آج بھی تیری بیٹی اپنے گھر بیٹھی میجر دانش کا انتظار کر رہی ہوگی، وہ تو میجر سے محبت کرنے لگ گئی، ہمارا سپاہی تمہارے وطن گیا تو وہاں کی بیٹی ہمارے سپاہی کی محبت میں ڈوب گئی اور آج بھی میجر دانش کے انتظارمیں ہے، اور تجھ جیسا بے غیرت شخص جو مردوں کی طرح لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا ہمارے سپاہیوں کی عزت پر ہاتھ ڈالنے چلا تھا ؟؟؟ مگر تو یہ بھول گیا کہ اس قم کی بیٹیاں بھی کسی سپاہی سے کم نہیں، تجھ جیسے بھارتی چوہوں کو تو ہم اپنے پاوں تلے روند دیں گی۔
یہ کہ کر تانیہ نے کرنل وشال کے لن کا نشانہ لیکر ایک اور گولی چلائی جس سے کرنل کی چیخیں کمرے میں گونجنے لگیں۔ کچھ ہی دیر میں یہ چیخیں ختم ہوگئی تھیں کرنل بے ہوش ہوچکا تھا، درد کی شدت سے وہ اپنے ہوش و ہواس کھو چکا تھا۔ تانیہ کرنل کے لن پر اس لیے حملے کر رہی تھی کہ اسی لن سے اس نے تانیہ کی ماں کی عزت لوٹی تھی۔ تانیہ نے اس لن کا سرے سے ہی خاتمہ کر دیا تھاکرنل کو بے ہوش حالت میں چھوڑ کر تانیہ عفت کو لیکر اس مکان سے باہر آگئی، مگر اپنی پسٹل میں ایک گولی وہ کرنل کے لیے چھوڑ آئی تھی۔ کرنل کو جب ہوش آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ اب نامرد ہوچکا ہے ، تو اسنے پاس پڑی پسٹل سے خود ہی اپنے سر میں گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ کسی بزدل کی طرح خود کشی کر کے کرنل وشال نے اپنے آپکو اس ذلت سے تو بچا لیا تھا جو ناکام کی کالک منہ پر لیے اور نا مردی کا غم دل میں لیے وہ زندہ اپنے ملک واپس جاتا، مگر کسی بزدل کی طرح خود کشی کرنے کی ذلت رہتی دنیا تک اسکے لیے بدنامی کا باعث بن گئی تھی۔
عفت کو خیریت سے گھر پہنچانے کے بعد تانیہ جانے لگی تو عفت نے اسے روک لیا اور میجر دانش کے آنے تک رکنے کو بولا، تانیہ میجر کے آنے سے پہلے پہلے یہاں سے چلی جانا چاہتی تھی مگر ایسا نہ ہوسکا عفت کو وہ انکار نا کرسکی۔ پھر میجر علینہ بھی وہیں آگئی تو تانیہ نے میجر علینہ کو کرنل وشال کے انجام کے بارے میں بتایا، میجر علینہ نے آرمی کے کچھ نوجوان بھیج کر کرنل وشال کی موت کی تصدیق کروائی اور پھر اسکی لاش کا تحفہ بارڈر پر بھجوا دیا اسکی لاش سے نا امیدی واضح نظر آرہی تھی اور اسکی کنپٹی میں گولی کا نشان اس بات کا ثبوت تھا کہ اتنے بڑے کرنل نے خود کشی کر لی جو انڈین آرمی کے لیے کسی زلت سے کم نہیں تھی۔
میجر دانش کو یہ سب معلوم ہوا تو اس نے ایک بار پھر تانیہ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر سجدہ ءِ شکر ادا کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
تانیہ ایک دن میجر دانش کے گھر ہی رہی، پھر اگلے دن میجر دانش کی پروموشن کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد عفت اور دانش نے اپنی ادھوری سہاگ رات کو مکمل کرنے کا پروگرام بنایا، مگر یہ پروگرام اب گھر پر نہیں بلکہ آزاد کشمیر جا کر بنانا تھا۔ عفت اور دانش تانیہ کو ساتھ لیے آزاد کشمیر چلے گئے تھے جہاں مقبوضہ کشمیر کی سرحد پر لیفٹینینٹ کرنل دانش نے تانیہ کو امجد کے سپرد کر دیا تھا، امجد بھی لیفٹینینٹ کرنل دانش کو دیکھ کر اور اسکے کارنامے اور ترقی کا سن کر بہت خوش ہوا ساتھ ہی اپنا وعدہ نبھانے اور تانیہ کو صحیح سلامت واپس اسکے گھر پہنچانے پر وہ لیفٹینینٹ کرنل دانش کا بہت شکر گزار تھا۔ واپسی سے پہلے امجد نے دانش کو اپنی اور تانیہ کی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا آئندہ کبھی بھی وطنِ عزیز کو ہماری ضرورت پڑے تو ہمیں ضرور بتانا ، وطن کی خاطر جان دینے پڑے تو ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ کہ کر امجد لیفٹینینٹ کرنل دانش سے گلے ملا اور اپنی بہن تانیہ کو لیکر واپس مقبوضہ کشمیر چلا گیا، جبکہ دانش اپنی نئی نویلی دلہن کو، جسکے ساتھ اس نے محض 2 سے 3 گھنٹے ہی سہاگ رات کے گزارے تھے، لیکر ایک آرمی کے ہٹ میں چلا گیا جو اس نے سپیشل اپنی ادھوری سہاگ رات کو مکمل کرنے کے لیے بک کروایا تھا۔ اپنے کمرے میں جاتے ہی عفت واش روم میں گئی، اور جب باہر نکلی تو اسکے بدن پر ایک سیکسی نائٹی جسکو دیکھ کر لیفٹینینٹ صاحب کا 8 انچ کا لن اپنی پینٹ میں سر اٹھا چکا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ 8 انچ کا لن عفت کے منہ میں تھا جسے وہ بہت مزے سے چوس رہی تھی اور دانش سوچ رہا تھا کہ جو مزہ اپنی بیوی کے ساتھ سیکس کرنے میں ہے وہ کسی اور کے ساتھ سیکس کرنے میں نہیں۔ جسمانی لذت تو شاید کوئی اور عورت پہنچا بھی دے، مگر روح کو تسکین تبھی ملتی ہے جب پیار کرنے والی بیوی کے ساتھ سیکس کیا جائے۔
آگے لیفٹینینٹ کرنل دانش نے اپنی بیوی کو کیسے چودا، کتنی دیر چودا، کس کس پوزیشن میں چودا، یہ بتانے کی ضرورت یہاں نہیں ہے۔۔۔
امید ہے تمام میمبرز کو میری یہ کوشش پسند آئی ہوگی جس میں سیکس کے ساتھ ساتھ میں نے وطن کی محبت کو اجاگر کرنے کی بھی ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اگر پسند آئے تو ایک بار زور سے نعرہ ضرور لگائیے گا:
پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔
<<<<<<<<<<<<<<<<<<<ختم شد>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>
No comments:
Post a Comment