Monday, 1 February 2016

وطن کا سپاہی 11


کیپٹن مکیش نے ان غنڈوں کی بھی خوب دھلائی کی اور انہیں بھی قید خانے بھجوا دیا۔ اب کیپٹن مکیش سوچ رہا تھا کہ ہو نہ ہو دوسرے 2 غنڈے جو انکے ساتھ تو تھے مگر یہ انہیں جانتے نہیں وہ میجر دانش ہی ہو سکتا ہے۔ تبھی وہ اکیلا ہی اپنی جان بچا کر بھاگ گیا۔ اور تبھی اسکی جیب سے وہیں موبائل بھی گرا ہوگا جو اس کوڑے والے کے ہاتھ لگ گیا۔ ایک لمحے کو کیپٹن مکیش کا ماتھا ٹھنکا اور اس نے سوچا بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک اکیلا نہتا شخص 4 غنڈوں کے چنگل سے ایک لڑکی کو چھڑوا کر اس طرح لے جائے کے لڑکی کو آنچ تک نہ آئے اور خاص طور پر جب ان چار غنڈوں میں سے ایک پاکیشا کا پیشہ ور آئی ڈی آئی کا ایجنٹ ہو۔ اس طرح کے ٹرینڈ ایجینٹ تو اکیلے ہی 10 لوگوں پر بھاری ہوتے ہیں مگر یہاں ایک اکیلے شخص نے 3 غنڈوں اور ایک پاکیشا کے ایجنٹ کو بری طرح بے بس کر دیا اور انکے چنگل سے لڑکی کو چھڑوا کر لے گیا۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹینا کو ان غنڈوں سے چھڑوانے والا شخص ہی میجر دانش ہو؟؟؟؟ یہ خیال آتے ہی کیپٹن مکیش کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ اس خیال نے کیپٹن کی روج کو اندر تک تڑپا کر رکھ دیا تھا۔ کیونکہ وہ ٹینا کے گھر سے ہو آیا تھا اور اس نے واپس آکر کرنل وشال کو اطلاع دی تھی کہ ٹینا میم بالکل صحیح ہیں اور وہ لڑکا بھی بہتر ہے۔ اس نے کرنل کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ ٹینا میم کو اس لڑکے سے کوئی خطرہ نہیں وہ ایک سیدھا سادھا لڑکا ہے ۔۔۔ اب جب کرنل کو پتا لگے گا کہ اصل میں وہ لڑکا کوئی عام شخص نہیں بلکہ میجر دانش تھا تو کیپٹن مکیش کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا؟؟؟ یہ سوچ کر ہی اسکی روح کانپ اٹھی تھی۔ مگر پھر اس نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ اگر وہ میجر دانش ہی ہوتا تو وہ یوں آرام سے ٹینا کے گھر سو نہ رہا ہوتا بلکہ وہ ٹینا کو کسی نا معلوم مقام پر لے جا کر کرنل وشال سے سودے بازی کرتا، اتنگ وادیوں کی رہائی کے لیے یا اپنی پاکیشا واپسی کے لیے کوئی ڈیل کرتا۔ بھلا میجر دانش کو کیا ضرورت ہے کہ خود ہی ٹینا کو اغوا کروانے کے لیے کالز کرے اور خود ہی اسکو چھڑوا کر اسکے گھر آرام سے جا کر سوجائے۔ یہ سوچ کر کیپٹن نے خود کو تسلی دی مگر دل میں یہ ارادہ بھی کیا کہ شام کو وہ لازمی اس لڑکے سے ملکر اپنی تسلی کر لے گا۔

کیپٹن مکیش ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک فوجی نے آکر بتایا سر وہ ٹیکسی ڈرائیور پکڑا گیا ہے اسکو اندر لاوں کیا؟؟ یہ سن کر کیپٹن مکیش جلدی سے بغیر کوئی جواب دیے باہر نکل گیا، باہر سامنے ہی 2 فوجیوں کے ساتھ ایک شخص کھڑا تھا جسکی عمر لگ بھگ 50 سال ہوگی اور اسکے ہاتھ میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ کیپٹن مکیش نے اسکے پاس جاتے ہی اپنی جیب سے تانیہ اور میجر دانش کی تصویریں نکالیں جو اس نے سی سی ٹی وی فوٹِج میں سے نکال کر کے موبائل میں محفوظ کر لی تھیں ، تصویریں دکھا کر کیپٹں مکیش نے پوچھا کیا ان کو جانتے ہو؟؟ ٹیکسی ڈرائیور نے کچھ لمحوں کے لیے تصویریوں کو غور سے دیکھا اور فوری بولا جی صاحب کل صبح ہی یہ میری ٹیکسی میں بیٹھے تھے، مگر پھر اس نے کیپٹن مکیش کو غور سے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے وہ بھی حیران رہ گیا، کیپٹن اسکی حیرانگی کو سمجھ گیا اور فوری بولا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ ایک اتنگ وادی ہے جو میرے حلیے میں شہر میں پھر رہا ہے اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تم نے ان لوگوں کو کہاں اتارا تھا؟؟؟ ٹیکسی والے نے پوری بات سمجھتے ہوئے فوری ہاں میں سر ہلایا اور بولا کیوں نہیں صاحب، ان لوگوں نے تو مجھے 500 روپے ٹپ بھی دی تھی۔ یہ کہ کر ٹیکسی ڈرائیور نے نہرو نگر کا پورا ایڈریس اور مکان نمبر کیپٹن مکیش کو بتا دیا جہاں اس نے تانیہ اور میجر دانش کو اتارا تھا۔

میجر دانش نے فوری ایک گاڑی نکلوائی اور اس ٹیکسی ڈرائیور کو اپنے ساتھ بٹھا کر اس گھر کی طرف چل دیا، اسکے پیچھے آرمی کی ایک اور جیپ بھی چلی آئی جس میں انڈین آرمی کے ٹرینڈ سپاہی موجود تھے۔ کیپٹن اپنی گاڑی کا ہوٹر بجاتے ہوئے بہت تیزی کے ساتھ نہرو نگر کی طرف جا رہا تھا، اسے یقین تھا کہ اب وہ میجر دانش اور تانیہ کو بہت جلد پکڑ لے گا اور جب وہ کرنل وشال کو اپنی اس کامیابی کی اطلاع دے گا تو اسکی پروموشن یقینی ہوگی۔ 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد کیپٹن نے اس گھر کے سامنے اپنی گاڑی روک لی جہاں ٹیکسی ڈرائیور نے میجر دانش کو اتارا تھا۔ اور ٹینا کے اغوا کے بعد تانیہ سیدھی واپس اسی گھر میں آئی تھی اور آتے ہی گہری نیند سوگئی تھی۔

کیپٹن مکیش اپنی گاڑی سے اترا اور اس نے پیچھے موجود جیپ میں اپنے فوجی جوانوں کو حکم دیا کہ وہ اس گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیں کہیں سے بھی کوئی شخص بچ کر نہ جانے پائے، اور اگر کوئی فرار ہونے کی کوشش کرے تو بے دھڑک اسکو گولی مار دی جائے۔ یہ حکم دیکر کیپٹن مکیش نے ٹیکسی ڈرائیور کو گاڑی میں ہی رکنے کا کہا اور خود اپنے ہاتھ میں پستول لیے دبے قدموں کے ساتھ اس گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے کے باہر پہنچ کر کیپٹن مکیش نے دروازے کے ساتھ کان لگا کر اندر سے آوازیں سننے کی کوشش کی مگر اندر مکمل سناٹا تھا اور کوئی آواز باہر نہیں آئی، کیپٹن مکیش نے پیچھے ہٹ کر ایک بار گھر کا جائزہ لیا، اسکی چھت پر کیپٹن کے فوجی پہنچ چکے تھے اور ساتھ والے گھروں کی چھتوں پر بھی فوجی جوان چوکنے کھڑے تھے ، اب کی بار کیپٹن مکیش نے دروازے پر ہلکا سا دباو ڈالا تو دروازہ ہلکی سے گر گراہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا، کیپٹن صحن میں داخل ہوا تو سامنے ایک دروازہ اور تھا جو کی بند تھا۔ کیپٹن نے کچھ دیر سانس روکے ادھر ادھر کا جائزہ لیا اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا، کیپٹن کو کھانے کی سوندھی سوندھی خوشبو آرہی تھی، کیپٹن نے اس خوشبو سے اندازہ لگایا کہ اندر چاول بن رہے ہیں، یہ سوچ کر کیپٹن نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ میجر دانش پیٹ پوجا کرے وہ یا تو کیپٹن مکیش کے شکنجے میں ہوگا یا پھر وہ کیپٹن کی گولیوں کا نشاہ بن چکا ہوگا۔ کیپٹن نے کچھ دیر بغیر سانس لیے دروازے کے باہر کھڑے ہوکر ہمت جمع کی اور پھر ایک زور دار ٹھوکر دروازے پر ماری جس سے دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ کھلتا چلا گیا، اور کیپٹن مکیش کمانڈو ایکشن میں قلابازی کھاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگیا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
ٹینا جب میجر دانش کو قصے سنا سنا کر تھک گئی تو اسکو یاد آیا کہ جس شخص نے اسکی جان بچائی ہے اسکے بارے میں تو اسنے کچھ معلوم ہی نہیں کیا۔ اب ٹینا نے میجر دانش سے پوچھا کہ ارے میں بھی کن باتوں کو لیکر بیٹھ گئی باتوں باتوں میں تمہارا نام ہی نہیں پوچھا میں نے تو۔ میجر دانش نے ٹینا کو اپنا نام عمران بتایا اور مزید پوچھنے پر عمران یعنی کے میجر دانش نے ٹینا کو بتایا کہ اس نے معمولی تعلیم حاصل کی ہے، بچپن میں وہ ایک کراٹے اکیڈمی میں بھی جاتا تھا جہاں سے اس نے لڑنے کی تربیت حاصل کی اور اسکے علاوہ وہ کمپیوٹر کی کافی معلومات رکھتا ہے، مگر ابھی تک اسکو کوئی اچھی نوکری نہیں مل پائی۔ غلط دوستوں کی صحبت کا اثر ہے کہ اس نے چھوٹی موٹی چوریاں بھی شروع کردی ۔ عمران نے مزید اپنے بارے میں کچھ جھوٹی کہانیاں ٹینا کو سنائیں جس سے ٹینا کو عمران سے ہمدردی ہونے لگی، اب ٹینا کو ایسے لگنے لگا کہ عمران ایک اچھا اور بھلا انسان ہے مگر زمانے کی سنگدلی اور نا انصافی کا شکار ہے۔ ٹینا نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے پاپا سے کہلوا کر عمران کو کسی اچھی سی فرم میں نوکری دلوائے گی اور اسکو معاشرے میں ایک اچھے انسان کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔

مگر میجر دانش زیادہ سے زیادہ ٹینا کی باتیں سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح کوئی کام کی بات ٹینا سے اگلوائی جا سکے، بجائے اپنے بارے میں کہانیاں سنانے کہ وہ چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ٹینا کو بات کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ تبھی میجر نے دوبارہ سے ٹینا کو مخاطب کیا اور اسکے پاپا کرنل وشال کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ٹینا نے بھی اپنے پاپا کی بہادری کے قصے سنانا شروع کیے اور بتانے لگی کہ کیسے اسکے پاپا نے دشمن ملک پاکیشا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بار بار انکو نقصان پہنچایا ہے۔ اور ہر بار وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر کے واپس آجاتے ہیں مگر پاکیشا کی سیکورٹی ایجینسیز کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ پھر ٹینا نے اپنی الماری سے اپنا لیپ ٹاپ نکال لیا اور اسکو آن کر کے اپنے پاپا کی تصویریں دکھانے لگی عمران کو۔ عمران نے بھی ان تصویروں میں انٹرسٹ لینا شروع کر دیا اور کرنل وشال جس کسی تصویر میں بھی نظر آتا وہیں عمران کرنل کے ساتھ موجود لوگوں کے بارے میں ٹینا سے پوچھتا کہ یہ کون ہیں؟ تو ٹینا انکا تعارف کرواتی۔

آگے کہانی میں جہاں جہاں میجر دانش کا تذکرہ ٹینا کے ساتھ آئے گا اسکا نام میجر دانش کی بجائے عمران کے طور پر لیا جائے گ اور اسکے علاوہ ہر جگہ پر میجر دانش کے طور پر ہی لیا جائے گا۔

ایسی ہی تصویریں دیکھتے دیکھتے ایک تصویر پر عمران کا ماتھا ٹھنکا۔ اس تصویر میں کرنل وشال کے ساتھ جو شخص کھڑا تھا عمران اسکو اچھی طرح سے جانتا تھا، مگر اس نے ٹینا کو نہیں بتایا کہ وہ اس شخصیت کو جانتا ہے، عمران نے اب کی بار نارمل رہتے ہوئ مگر تھوڑے تجسس کے ساتھ ٹینا سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟؟؟ تو ٹینا نے بتایا کہ یہ پاکیشا کے ایک صوبے کا مکھیہ منتری یعنی وزیرِ اعلی ہے۔ اور یہ اپنے صوبے میں ہندوستانی وچاروں کو پھیلانے میں ہمارا پورا پورا ساتھ دیتا ہے۔ پاپا کی انکے ساتھ بہت اچھی دوستی ہے اور پاپا کہ کہنے پر ہی انہوں نے اپنے صوبے میں پاکیشا سے علیحدہ ہونے کی تحریک کا بھی آغاز کر رکھا ہے، بظاہر تو یہ پاکیشا زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں مگر انہوں نے اپنے قبیلے اور پورے صوبے میں عوام کو تعلیم سے دور رکھا ہے اور وہاں پاکیشا کی بجائے ہندوستان کے پرچم لہرائے جاتے ہیں اسکے علاوہ وہاں گاندھی جی کے وچار بھی عام کیے جارہے ہیں اور وہاں کے لوگ پاکیشا کے قائد کی بجائے گاندھی جی کی تصویریں اپنے کمروں میں لگانا پسند کرتے ہیں۔ ٹینا باتوں باتوں میں جانے انجانے میں عمران کو بہت زیادہ ہی باتیں بتا گئی تھی، کچھ تو عمران کو پہلے سے ہی شک تھا کہ اسکے ملک میں ہونے والی ان تحریکوں میں منگول قبائل کے سرداروں کی بجائے ان سیاستدانوں کا ہی ہاتھ ہے جو اس صوبے کو پاکیشا سے علیحدہ کر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، مگر یہ سیاستدان انہتائی مکاری کے ساتھ ان تحریکوں کا ملبہ منگول قبائل کے سرداروں پر ڈال دیتے ہیں اور اس سے عوام میں مزید نفرت بڑھتی ہے۔ عمران کو اب ساری گیم سمجھ آگئی تھی، گو کہ ٹینا کود بھی نہیں جانتی تھی کہ اسکے پاپا کا اصل مشن کیا ہے، مگر اس وقت ٹینا نے جو کچھ عمران کو بتایا تھا عمران کے لیے یہ سب کرنل وشال کے مشن کو سمجھنے کے لیے کافی تھا۔

اصل میں کرنل وشال پاکیشا کے صوبے ہولستان میں علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینے کا کام کرنے میں مصروف تھا۔ وہ ان قبائل کے لوگوں میں اندھا دھند پیسے تقسیم کرواتا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ ذہنی طور پر پاکیشا کے خلاف اور ہندوستان کے ساتھ ہونے لگے تھے اور کرنل کا مقصد ان تحریکوں کو بامِ عروج پر پہنچا کر پاکیشا کو اپنے ایک مظبوط بازور سے علیحدہ کرنا تھا۔ اور انہی مقاصد کے لیے کرنل وشال پاکیشا کا دورہ کرتا تھا۔ اور تو اور اس وقت ہولستان کے وزیرِ اعلی ہندوستان کے دورے پر تھا ، عمران یہ بات پہلے سے جانتا تھا کیونکہ پاکیشا سے روانہ ہونے سے پہلے اس نے خبروں میں ہی سنا تھا کہ ہولستان کے وزیرِ اعلی اگلے ہفتے ہندوستان کا دورہ کریں گے جہاں ملکی سلامتی اور ہولستان میں ہندوستانی مداخلت کو رکوانے کے لیے بات چیت کی جائے گی۔

لیکن اصل میں اس دورے کا مقصد مداخلت رکوانا نہیں بلکہ مداخلت کو بڑھانا تھا اور یہ غدارِ وطن ہندوستان کے دورے سے مالی فوائد بھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ سب جان کر عمران کے اندر ایک آگ لگ گئی تھی اور اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی جا کر اس غدارِ وطن کا سر تن سے جدا کر دے۔ مگر وہ ایک تربیت یافتہ ایجنٹ تھا جو اپنے غصے پر قابو پانا جانتا تھا، ٹینا کی دی گئی معلومات کو ذہن نشین کرنے کے بعد عمران نے مزید تصاویر دیکھنا شروع کر دیں اور چند تصاویر دیکھنے کے بعد عمران نے ٹینا سے پوچھا کہ کبھی تمہیں تجسس نہیں ہوا کہ تمہارے پاپا کا اصل مقصد کیا ہے؟ وہ پاکیشا کو کس طرح نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؟

عمران کی بات سن کر ٹینا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولی دل تو بڑا کرتا ہے مگر پاپا کچھ بتاتے ہی نہیں ، ان سے جب بھی پوچھو وہ کہتے ہیں ابھی پڑھائی مکمل کرو، پھر پڑھائی مکمل کر کے آرمی جوائن کرنا تب تمہیں سب کچھ پتا چل جائے گا۔ اب کی بار عمران نے ایک رسک لینے کا فیصلہ کیا اورٹینا سے ایک سوال پوچھ ڈالا، اس سوال سے ٹینا کو عمران پر شک بھی ہو سکتا تھا مگر عمران نے سوچ لیا تھا کہ اب یہی موقع ہے اس غدار وزیرِ اعلی کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کا اور اس موقع کو عمران کسی طور ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ عمران نے ٹینا سے پوچھ لیا کہ کبھی آپ نے اپنے پاپا کا لیپٹ ٹاپ استعمال نہیں کیا؟ اس میں تو معلومات ہونگی انکے مشن کے بارے میں؟ اس پر ٹینا بولی کہ پاپا کا لیپ ٹاپ صرف پاپا ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ انکے لیپ ٹاپ پر بہت زیادہ سیکورٹی ہے، اور کوئی انکے پاسورڈ کو توڑ نہیں سکتا۔

عمران نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر میں انکا پاسورڈ توڑ دوں تو کیا انعام ملے گا مجھے؟؟؟ ٹینا نے بھی مسکراتے ہوئے عمران کی طرف دیکھا اور بولی یہ بچوں کا کام نہیں۔ بھول جاو پاپا کے لیپ ٹاپ کو۔ عمران نے ضد کرتے ہوئے کہا نہیں تم مجھے بتاو اگر تمہارے پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ بریک کر دیا میں نے تو کیا انعام ملے گا۔ ٹینا نے عمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا جو تم مانگو گے۔ عمران نے فوری کہا ٹھیک ہے اگر میں نے تمہارے پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ توڑ دیا تو تم مجھے آرمی میں نوکری دلواو گی اپنے پاپا سے کہ کر۔ تاکہ میں بھی اپنی دیش کی کچھ سیوا کر سکوں ۔ عمران کی بات سن کر ٹینا فوری طور پر راضی ہوگئی اور عمران کو لیکر اپنے پاپا کے کمرے میں لے گئی۔ وہاں جا کر ایک الماری سے ٹینا نے اپنے پاپا کا لیپ ٹاپ نکالا اور عمران کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا، عمران ٹیبل کے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹینا کو کہا کے اسے ایک فلیش ڈرائیو یو ایس بی چاہیے۔ ٹینا دوسرے کمرے میں گئی اور 2 منٹ میں ہی ایک یو ایس بی لے آئی۔ عمران نے ٹینا سے یو ایس بی لیکر لیپ ٹاپ کے ساتھ لگائی اور لیپ ٹاپ کو کمانڈ پرامپٹ میں چلا دیا، اسکے بعد عمران نے تیزی کے ساتھ کچھ کمانڈز دینا شروع کیں اور بلیک سکرین پر تیزی کے ساتھ کچھ عبارتیں اوپر کی طرف چلنے لگیں۔ ٹینا اب عمران کی کرسی کے پیچھے کھڑی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سکرین کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ عمران کی انگلیاں تیزی کے ساتھ کی بورڈ پر چل رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد کالی سکرین پر بڑا سارا ایکسیس ڈینائڈ لکھا آگیا۔ ٹینا نے یہ دیکھا تو ہلکی آواز کے ساتھ قہقہ لگایا اور بولی میں نے کہا تھا نہ کہ یہ بچوں کا کام نہیں، مگر عمران نے ٹینا کی بات کا جواب دیے بغیر دوبارہ سے کی بورڈ پر انگلیاں چلانا شروع ہوگیا، مگر دوسری بار پھر سے ایکسیس ڈینائڈ لکھا آیا تو اب کی بار ٹینا تھوڑا زور سے ہنسی اور عمران چھوڑ دو تمہارے بس کا روگ نہیں ہے یہ۔ یہ انڈین آرمی کے کرنل کا لیپ ٹاپ ہے اتنی آسانی سے پاسورڈ بریک ہوجائیں اسکے تو پاکیشا والے ہماری بینڈ نا بجا دیں۔ ابھی ٹینا کی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ ٹینا کو لیپ ٹاپ کی سکرین پر لکھا نظر آیا یور پاسورڈ از سیوڈ ان ریموو ایبل ڈیوائس۔ اب کی بار عمران نے مڑ کی ٹینا کی طرف دیکھا، اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی جیسے کہ رہا ہو میں کامیاب ہوگیا اور پاکیشا تم لوگوں کی بینڈ بجا کر ہی رہے گا۔

ٹینا نے غیر یقینی لہجے میں عمران سے پوچھا یہ کیا ہوا ہے؟؟ تو عمران نے کہا تمہارے پاپا کا پاسورڈ اس یو ایس بی میں محفوظ ہوگیا ہے، اب اپنا لیپ ٹاپ لاو، اسمیں لگا و یہی یو ایس بی۔ ٹِنا بھاگ کر گئی اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لائی، عمران نے وہ یو ایس بی ٹینا کے لیپ ٹاپ میں لگائی اور اسمیں موجود ایک فائل کو اوپن کیا جس میں کچھ عجیب سے الفاظ دکھ رہے تھے، ان الفاظ کو نہ تو ٹینا پڑھ سکتی تھی اور نہ ہی عمران۔ عمران نے ان الفاظ کو کاپی کیا اور ایک آن لائن ڈی کوڈنگ کی ویب سائٹ کھول کر ان میں یہ الفاظ پیسٹ کر دیے۔ نیچے ڈی کوڈ کا بٹن تھا عمران نے اس پر کلک کیا تو نیچے بنے ایک باکس میں 1947 پاکیشا ڈیوائڈ 2020 لکھا آگیا۔ عمران نے ٹینا کی طرف دیکھا اور بولا یہ ہے تمہارے پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ۔۔ ٹینا نے ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں عمران کی طرف دیکھا اور دھیمی آواز میں بولی میں کیسے مان لوں کہ یہ پاسورڈ ہے؟؟؟ عمران نے کرنل وشال کا لیپ ٹاپ آن کیا اور جیسے ہی ونڈوز نے پاسورڈ مانگا عمران نے وہی پاسورڈ جو ڈی کوڈ کیا تھا وہاں درج کر دیا اور اینٹر کا بٹن دبایا تو کرنل وشال کا لیپ ٹان آن ہوگیا۔

ٹینا پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی عمران کو اور کبھی لیپ ٹاپ کو دیکھ رہی تھی، اب عمران نے کرنل کا لیپ ٹاپ بند کیا اور ٹِنا کو پکڑاتے ہوئے بولا یہ واپس رکھ دو، اور کبھی اسکو کھولنے کی کوشش نہ کرنا۔ اسے اپنے پاپا کا لیپ ٹاپ مت سمجھنا یہ ہمارے دیش کا لیپ ٹاپ ہے اور اسمیں ہمارے دیش کے بہت سے راز محفوظ ہونگے اسی طرح دشمن کے بارے میں بھی کچھ ایسی معلومات ہونگی جو کرنل صاحب کبھی نہیں چاہیں گے کہ انکے علاوہ کوئی اور جان سکے۔ اور کیا معلوم تمہیں یا مجھے ان معلومات کا پتہ چل جائے تو ہم اسکو راز رکھ بھی سکیں گے یا نہیں۔ لہذا اسکو وہیں پر رکھ دو اور اس پاسورڈ کو بھی بھول جاو۔ لیکن اپنا وعدہ یاد رکھنا کہ اب تم نے مجھے انڈین آرمی میں نوکری دلوانی ہے۔۔۔ عمران کی بات سن کر ٹینا نے اثبات میں سر ہلایا اور بولی ہاں تم صحیح کہ رہے ہو، میں اس لیپ ٹاپ میں موجود معلومات سے دور ہی رہوں تو بہتر ہے۔ یہ کہتے ہوئے ٹینا نے لیپ ٹاپ واپس الماری میں رکھ دیا اور اپنی فلیش ڈرائیو سے وہ فائل بھی ڈیلیٹ کر دی جس میں کوڈڈ پاسورڈ موجود تھا۔

اسکے بعد ٹینا نے عمران سے ہاتھ ملایا اور بولی تمہاری نوکری انڈین آرمی میں پکی سمجھو، تم انڈین آرمی جوائن کر کے پاکیشا کے سیکورٹی کوڈز کو با آسانی بریک کر سکتے ہو، جب پاپا کو پتا لگے گا کہ تم نے انکا پاسورڈ بریک کر دیا تو وہ تمہیں ضرور نوکری دلوائیں گے۔ ٹینا کی بات سن کر عمران بولا اگر تمہارے پاپا کو یہ پتا چلا تو وہ مجھے نوکری نہیں دلوائیں گے یمراج کے پاس بھجوا دیں گے مجھے گردن کٹوا کر۔ بھول کر بھی انہیں یہ نا بتانا۔ میں خود ہی انہیں اپنی آئ ٹی معلومات کے متعلق بتاوں گا تو انکو میرے انٹرویو سے اندازہ ہوجائے گا کہ میں کس قابل ہوں۔ پھر وہ مجھے انڈین آرمی کی خفیہ ایجنسی میں بھی نوکری دلوادیں گے بس مجھے کوئی ایسا شخص چاہیے جو میری مدد کر سکے۔ میرے پاس کوئی ڈگری نہیں اس لیے کہیں جاب نہیں لے سکتا، مگر مجھے آئی ٹی کا شوق ہے او رمیں نے خود سے ہی بہت سی چیزیں سیکھی ہیں جو بہت سے ڈگری والوں کو بھی نہیں پتا ہونگی۔ اب تم اگر چاہو تو میری زندگی سنور سکتی ہے۔

عمران کی چکنی چپڑی باتوں میں ٹینا کو سچائی نظر آرہی تھی۔ ٹینا کی جان بچانے کا احسان ٹینا کو اب مجبور کر رہا تھا کہ وہ بھی عمران کی مدد کر کے اس احسان کو اتار سکے، اور عمران کے اس کارنامے کے بعد تو اس نے مسمم ارادہ کر لیا تھا کہ وہ لازمی عمران کی مدد کرے گی۔ اب عمران اور ٹینا کرنل وشال کے کمرے سے نکلے اور واپس ٹینا کے کمرے میں چلے گئے۔ عمران کی چال میں ابھی بھی ہلکی ہکی تکلیف تھی وہ تھوڑا لنگڑا کر چل رہا تھا، ٹینا نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور عمران کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ ٹینا نے عمران کو گرم دودھ کا ایک بڑا گلاس لا کر دیا اور کہا یہ پی لو تمہاری طبیعت بہتر ہوجائے گی اس سے۔ عمران نے غٹا غٹ پورا دودھ کا گلاس خالی کر دیا، اسکو اس وقت خوراک کی شدید ضرورت تھی بھوک بھی تھی اور خون بہنے کی وجہ سے تھوڑی کمزوری بھی فیل ہورہی تھی۔ عمران نے بلا جھجک ٹینا کو اپنی بھوک کے بارے میں بتایا تو ٹینا کچن میں سے کچھ پھل لے آئی اور کاٹ کاٹ کر عمران کو کھلانے لگی۔ عمران کو بھی اتنی خوبصورت لڑکی سے اپنی خدمت کروانے کا مزہ آرہا تھا وہ بھی آرام سے اپنی خدمت کرواتا رہا۔

پھل کھانے کے بعد ٹینا نے عمران سے پوچھا اور کچھ چاہیے؟؟؟ تو عمران نے کہا میرے پورے جسم میں بہت درد ہورہی ہے، اگر باہر سے کسی گارڈ کو یا ملازم کو بلا دو تھوڑا تیل لگا کر میری مالش کر دے گا تو مجھے سکون مل جائے گا۔ یہ سن کر ٹینا بولی اس میں ایسی کونسی بات ہے میں کر دیتی ہوں۔ عمران نے کہا نہیں نہیں ٹینا جی آپ رہنے دیں، مجھے اچھا نہیں لگے گا آپ کسی ملازم کو کہ دیں۔ ٹینا نے کہا نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اب آپ تم غیر نہیں ہو، تم نے میری جان بھی بچائی ہے اور تم ایک قابل شخص ہو تو مجھے بھی تھوڑا موقع دو اپنی خدمت کا۔ یہ کہ کر ٹینا اپنے کمرے میں اٹیچ باتھ روم میں تیل لینے چلی گئی جبکہ عمران کے دل میں خوشی سے لڈو پھوٹنے لگے۔

ٹینا باتھ روم سے تیل کی شیشی لے آئی اور عمران کے ساتھ ہی بیڈ پربیٹھ گئی اور عمران کو الٹا لیٹنے کو کہا۔ عمران نے مروت کے طور پر ایک بار پھر سے ٹینا کو کہا کہ وہ رہنے دے مگر ٹینا تو اب دل سے عمران کی خدمت کرنا چاہتی تھی اس نے خود عمران کی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے اور ایک ایک کر کے سارے بٹن کھول دیے۔ پھر اس نے عمران کو شرٹ اتارنے کا کہا تو عمران اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنی شرٹ اتار دی، شرٹ اتار کر اس نے اپنی بنیان بھی اتار دی اور الٹا ہوکر لیٹ گیا جب کہ ٹینا عمران کا سینہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ عمران کی سِکس پیک باڈی کسی بھی لڑکی کو اپنی جانب کھینچنے کے لیے کافی تھی اور ٹینا بھی پہلی ہی نظر میں اسکی باڈی دیکھ کر دیوانی ہوگئی تھی۔ ٹینا کی اجے کے ساتھ اچھی دوستی تھی اور وہ اسکے ساتھ بہت بار سیکس بھی کر چکی تھی مگر اسکی باڈی عمران کے مقابلے میں ایسے ہی تھی جیسے پہاڑ کے سامنے ایک پتھر۔

عمران جب الٹا ہوکر لیٹ گیا تو ٹینا اسکے برابر گھٹوں کے بل بیٹھ گئی اور اسکی کمر پر شیشی سے تیل گرانے لگی۔ کندھوں سے لیکر کمر کے نچلے حصے تک تیل گرانے کے بعد ٹینا نے شیشی ایک سائیڈ پر رکھ دی اور اپنے نرم نرم ہاتھوں سے تیل کو عمران کی پیٹھ پر مسلنے لگی۔ ٹینا کے ہاتھوں کے لمس سے عمران کو سرور ملنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا کہ اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی سے مساج کروانے کا موقع مل رہا ہے۔

ٹینا نے تیل عمران کی کمر پر مسلنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے عمران کی کمر پر مساج شروع کیا، وہ عمران کے کندھوں سے اپنی انگلیوں کے پنجوں کو دباتی اور رگڑتی ہوئی کمر کے نچلے حصے تک لے آتی، پھر نچلے حصے پر ہتھیلی کا نچلہ حصہ رکھتی اور رگڑتی ہوئی اوپر کندھوں تک رکھتی۔ ٹینا کے نرم نرم ہاتھوں کا لمس پا کر عمران کو اپنے جسم میں گد گدی ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ گو کہ ٹینا مساج کرنے میں مہارت نہیں رکھتی تھی مگر پھر بھی وہ کوشش کر رہی تھی کہ وہ اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے عمران کو سکون پہنچا سکے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہی تھی۔ البتہ عمران کی پینٹ میں موجود لن کی بے چینی بڑھنے لگی تھی۔ گو کہ عمران کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر جب اتنی خوبصورت اور گرم لڑکی آپکی کمر کا مساج کر رہی ہو تو لن کہاں سکون سے بیٹھ سکتا ہے۔ عمران کا لن بھی اب اسے مجبور کرنے لگا تھا کہ وہ ٹینا کے جسم سے اپنی گرمی کو مٹائے مگر وہ اپنے اوپر کنٹرول کر رہا تھا، البتہ اسکی لذت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد ٹینا اپنی جگہ سے اٹھی اور عمران کے کولہوں سے کچھ نیچے اسکے اوپر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئی۔ ٹینا کا اپنا دل بھی عمران سے سیکس کرنے کے لیے مچل رہا تھا، وہ کوئی دودھ پیتی بچی تو نہ تھی کہ ایک جوان مرد کے ساتھ اکیلی ہو اور اسکی اتنی سیکسی باڈی دیکھ کر اسکا دل نا مچلے۔ ٹینا کا دل کر رہا تھا کہ عمران اسکو اپنی بانہوں میں بھر کر اپنے مضبوط سینے سے لگا لے جہاں ٹینا کو تحفظ کا احساس ہو اور اسکی جسمانی ضرورت بھی پوری ہو سکے۔ مگر وہ کھل کر اسکا اظہار نہیں کر پا رہی تھی، ٹینا عمران کے اوپر بیٹھی تو عمران کو ایک جھٹکا لگا اس نے اپنی گرند گھما کر ٹینا کی طرف دیکھا اور ذرا شرماتے ہوئے بولا ارے ٹینا جی یہ آپ کیا۔۔۔۔۔۔ ٹینا نے کہا فکر نہیں کرو تمہیں مزہ آئے گا، یہ کہ کر ایک بار پھر ٹینا عمران کی کمر کا مساج کرنے لگی اب کی بار ٹینا کے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ مزہ تھا، وہ بہت نرمی کے ساتھ عمران کی کمر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ اب ٹینا کا انداز مساج کرنے کا کم اور اسکو جنسی سکون پہنچانے کی نیت زیادہ تھی۔

عمران نے بھی ٹینا کے ہاتھوں سے ملنے والے سرور کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا ساتھ ساتھ اسکا ذہن اسکو بتا رہا تھا کہ ٹینا اس وقت کس موڈ میں ہے۔ اسکے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ایسے ہی ہونے دے اور ٹینا کو مزید آگے بڑھنے دے یا اسے یہیں پر روک دے۔ ایک طرف اسے کرنل وشال کے گھر میں داخل ہونے کا مقصد کہ رہا تھا کہ ٹائم ضائع کیے بغیر اپنا کام کرے دوسری طرف ایک گرم اور جوان لڑکی کی جنسی کشش تھی جو عمران کے لن کے ذریعے عمران کو مجبور کر رہی تھی کہ اپنا فرض بھلا کر اس لڑکی کے جسم سے کچھ دیر کھیلا جائے اور سکون حاصل کیا جائے۔ ٹینا اب بہت زیادہ گرم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ نا صرف عمران کی کمر کا مساج کر رہی تھی بلکہ اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا کر ہلکی ہلکی سسکیاں بھی نکال رہی تھی جسکا مقصد عمران کو اپنی طلب کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔ عمران نے محسوس کر لیا تھا کہ ٹینا اب رکنے والی نہیں اس لیے اس نے ٹینا کو روکنے کے لیے ٹینا کو اپنے اوپر سے نیچے اترنے کا کہا۔

ٹینا نے کہا نہیں ابھی مزید مساج کروا لو، مگر عمران نے کراہتے ہوئے کہا ٹینا جی آپ میری ٹانگ کے زخم پر بیٹھی ہیں مجھے وہاں درد محسوس ہورہا ہے۔ عمران کی بات سن کر ٹینا کو احساس ہوا کہ واقعی وہ اس وقت عمران کے زخم کے اوپر بیٹھی تھی، وہ فورا اچھل کر عمران کے اوپر سے اتر گئی اور عمران نے موقع غنیمت جانا اور سیدھا ہوکر لیٹ گیا تاکہ دوبار ٹینا عمران کے اوپر آکر اسکو ورغلانے کی کوشش نہ کر سکے۔ مگر عمران کی یہ حرکت اسکے خلاف ہی چلی گئی۔ عمران جیسے ہی سیدھا ہوا ٹینا کی نظریں عمران کے مضبوط اور کشادہ سینے سے ہوتی ہوئیں اسکی پینٹ تک چلی گئیں جہاں عمران کا لن کافی حد تک کھڑا ہو چکا تھا ٹینا کے ہاتھ کا ہلکا سا لمس اب اسکو پوری طرح کھڑا کر سکتا تھا۔ ٹینا کی نظریں عمران کی پینٹ پر جا کر رک گئیں تھیں۔ عمران نے فوری محسوس کر لیا کہ یہ تو معاملہ الٹ ہوگیا۔

اب عمران نے اپنا ایک بازو پکڑا اور اسکو پکڑ کر کراہنے لگا۔ ٹینا کی نظریں اب عمران کے ادھ کھڑے لن سے ہٹیں اور اس نے عمران سے پوچھا کیا ہوا تو عمران نے کہا بس بازو میں بھی درد محسوس ہورہا ہے۔ ٹینا نے اب کی بار عمران کا بازو پکڑا اور دبانے لگی۔ عمران نے منع کیا مگر ٹینا نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسکو خاموش ہونے کا اشارہ کیا، ٹینا کی آنکھوں میں ایک عجیب سا نشہ تھا اور وہ عمران کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ محبت سے زیادہ ٹینا کی نظروں میں ہوس تھی تو غلط نہ ہوگا۔ عمران مجبورا ایک بار پھر خاموش ہوکر لیٹا رہا۔ ٹینا نے عمران کا بازو اٹھایا اور اسکا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ دیا اور اسکے بازو کی ہاتھ سے لیکر کندھے تک ہلکی ہلکی مالش کرنے لگی۔

عمران کے بازو کی مالش کرتے ہوئے ٹینا نے ایک بار اپنا دایاں ہاتھ عمران کے سینے پر رکھا اور سینے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکی ناف تک لے آئی اور عمران کی طرف دیکھتی ہوئی نشیلی آواز میں بولی تمہاری باڈی تو بہت خوبصورت ہے۔ کونسے جم میں جاتے ہو؟؟ عمران نے کہا ٹینا نے ہم جیسے غریب لوگوں کے نصیب میں جِم نہیں ہوتے، یہ تو محنت مزدوری ہے جو باڈی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ٹینا نے ایک بار پھر عمران کو نشیلی نظروں سے دیکھا اور اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں لیکر دبانے لگی، یہ عمران کے لیے واضح اشارہ تھا کہ ٹینا کی چوت عمران کے لن کے لیے بے تاب ہورہی ہے۔ مگر عمران ابھی تک اپنے آپ کو روکے ہوئے تھا کیونکہ اسکا اصل مقصد کچھ اور تھا جسکے لیے وہ کرنل وشال کے گھر میں آنے کا خطرناک پلان بنا چکا تھا اور اس پر عمل بھی شروع تھا، اب جب منزل قریب تھی تو ٹینا عمران کو اسکے مقصد سے دور لے جارہی تھی۔

ٹینا نے اب عمران کے بازو کو دوبارہ سے دبانا شروع کیا، مگر اس بار اس نے عمران کا ہاتھ اپنے کندھے سے اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور خود ہی اسکے ہاتھ کو سینے سے پھیرتی ہوئی اپنی کلیویج پر لیجا کر روک لیا اور دوبارہ سے عمران کے بازو کو ہلکے ہلکے دبانے لگی۔ عمران کی انگلیاں ٹینا کے گرم گرم سینے پر تھیں جبکہ اسکی ہتھیلی ٹینا کی کلیویج پر تھی، ٹینا کے مموں کا ابھار اور بیچ میں بننے والی لائن تو شروع سے ہی عمران کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی مگر اب اسکا ہاتھ ٹِنا نے خود اپنی کلیویج پر رکھا تو عمران کی پینٹ میں موجود لن بھی ہمت ہار گیا اور پوری طرح کھڑا ہوکر دعوتِ نظارہ دینے لگا۔ ٹینا کی نظریں بھی عمران کی پینٹ میں ہونے والی حرکات کو دیکھ چکی تھی اور اسکی چوت اب گیلی ہوچکی تھی ٹینا جانتی تھی کہ اب عمران مزید انکار نہیں کر سکتا اور ابھی کچھ ہی دیر میں ٹینا اپنی چوت عمران کےلن پر رکھ کر اسکے مضبوط لن پر سواری کر رہی ہوگی۔

مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ پاکیشا کے فرزند اور آئی ڈی آئی کے ایجینٹس کے لیے سب سے مقدم اپنے فرض کی تکمیل ہوتی ہے، کسی بھی لڑکی کا جسم یا کوئی اور لالچ پاکیشا کے ایجنٹس کو اپنے فرض سے نہیں روک سکتی۔ عمران نے اب فیصلہ کر لیا تھا کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کرنا ہے بعد میں موقع ملا تو وہ اس گرم حسینہ کی گرمی بھی نکال دے گا۔ عمران اب اٹھ کر بیٹھ گیا اور ٹینا کو اپنے قریب آنے کا کہا۔ ٹینا فوری اپنی جگہ سے آگے بڑھی اور ایک بار پھر عمران کے اوپر اسکی گود میں آکر بیٹھ گئی۔ جیسی ہی ٹینا عمران کی گود میں بیٹھی اسکو اپنی چوت کے اوپر عمران کے لن کی سختی محسوس ہونے لگی۔ ٹینا اس سختی کو محسوس کرتے ہوئے اپنا پورا وزن لن کے اوپر دے کر اسکے لن پر بیٹھ گئی۔ جس سے ٹینا کی چوت پر عمران کے لن کا پریشر بڑھنے لگا اور ایک بار پھر عمران اپنے اصل ارادوں میں کمزوری محسوس کرنے لگا۔ جب اتنی گرم چوت لن کے اوپر ہو تو بڑے بڑے اپنے فرض سے غفلت برت جاتے ہیں۔

ٹینا اب عمران کے اوپر جھک گئی اور اپنے ہونٹ عمران کے ہونٹوں پر رکھ کر انکو چوسنے لگی۔ عمران نے بھی اپنے ہاتھ ٹینا کے چوتڑوں پر رکھے اور اسکے نرم نرم گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں کو ہاتھ میں لیکر دبانے لگا۔ ٹینا اب عمران کے لن سے اوپر اٹھی اور عمران کے اوپر جھک گئی اسکے چوتڑ اب ہوا میں ہل رہے تھے جن پر عمران اپنے ہاتھوں سے تھپڑ مار رہا تھا اور ٹینا اپنی زبان عمران کے منہ میں داخل کر کے اسکی زبان کو چوس رہی تھی۔ ٹینا کی یہ گرمی عمران کو بھی گرم کیے جا رہی تھی اور وہ مکمل طور پر بہک رہا تھا۔ مگر وطن کی محبت ایک بار پھر سے جاگی اور اس نے ایک لمحے میں ٹینا سے چھٹکارا پانے کا سوچا۔ عمران نے اپنا ہاتھ ٹِنا کے چوتڑوں پر رکھ کر انکو زور سے دبایا اور پھر اپنا ہاتھ ٹینا کی کمر پر پھیرتا ہوا اسکی گردن تک لے آیا، دونوں ہاتھ سے ٹینا کی گردن پکڑ کر عمران نے ٹینا کے ٹینا کے گلاب جیسے رسیلے ہونٹوں پر ایک محبت بھری پرزور کس کی اور ٹینا کی گردن پر اپنا مخصوص وار کیا جس سے ٹینا کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا اور وہ چند سیکنڈ میں ہی عمران کے اوپر ڈھے گئی۔

ٹینا بے ہوش ہو چکی تھی، عمران نے بے ہوش ٹینا کے لبوں پار ایک بار پھر زور سے کس کی اور اسکے مموں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اسکے مموں کا سائز ناپا اور پھر اسکو ایک سائڈ پر لٹا کر بیڈ سے نیچے اتر آیا۔ بیڈ سے نیچے اتر کر اس نے ٹینا کے بیڈ کے نیچے ہاتھ کیا اور وہاں سے ایک چھوٹی سی یو ایس بی نکال لی۔ یہ یو ایس بی عمران اپنی پینٹ کی جیب میں رکھ کر آیا تھا جسکا سائز بہت ہی چھوٹا تھا، اور جب ٹینا نے عمران کو ابتدائی طبی امداد دی تھی تب عمران نے ٹینا سے نظریں بچا کر یہ یو ایس بی بیڈ کے نیچے پھینک دی تھی۔ عمران نے یہ یو ایس بی اٹھائی اور جلد ہی کرنل وشال کے کمرے میں پہنچ کر اسکا لیپ ٹاپ آن کر لیا۔ پاسورڈ تو وہ پہلے ہی معلوم کر چکا تھا اب وہ اسکے لیپ ٹاپ کی تلاشی لینے لگا۔ کچھ ہی دیر میں عمران کو بہت سے راز ملنے لگے، بہت سی فائلز تھیں جن میں پاکیشا کے خلاف ہونے والی سازش کا ذکر موجود تھا کہ کیسے پاکیشا کو 2 حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ کرنل کا یہ منصوبہ سن 2020 میں پاکیشا کو اپنے صوبے ہولستان سے علیحدہ کرنے کا تھا جسکے لیے وہ زور و شور سے کام کر رہا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ اس میں پاکیشا کی کچھ بڑی شخصیات کا بھی ذکر تھا جو مختلف شہروں اور صوبوں میں طاقت رکھتے تھے۔ پاکیشا کے ہر صوبے میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت موجود تھی جو کرنل وشال کو خفیہ معلومات فراہم کرتی تھیں اور کرنل وشال کے مقاصد کو پورا کرنے میں اسکی مدد کرتی تھیں۔ اسکے ساتھ ہی کچھ ایسی فائلز بھی موجود تھیں جن میں پاکیشا کی ان با اثر شخصیات کے کچھ اہم راز موجود تھے۔ ان میں بہت سی شخصیات کی تصاویر بالی ووڈ کی مشہور اداکاراوں کے ساتھ تھیں۔

پاکیشا کی کچھ با اثر شخصیات بالی ووڈ حسیناوں کے جسم سے لطف اندوز وہ رہی تھیں اور انکے جسم کے بدلے اپنے وطنِ عزیز کی عزت و آبرو بیچنے پر بھی راضی تھیں۔ عمران سمجھ گیا تھا کہ ان شخصیات کو پہلے بالی ووڈ کی حسیناوں کے جسم پیش کیے گئے ہونگے اور جب وہ ان حسیناوں کے جسم کی گرمی سے لطف اندوز ہورہے تھے تو انکی تصاویر کھینچ لی گئی ہونگی اور انہی تصاویر اور کچھ دوسرے کرپشن کے کیسیز کی مدد سے ان کو بلیک میل کیا جاتا ہوگا تاکہ وہ کرنل وشال کے منصوبے پر عمل کرنے میں اسکا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائیں۔

عمران نے یہ سارا ڈیٹا اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا اور ساتھ ہی اس منصوبے میں شریک ہندوستانی شخصیات اور آرمی کے آفیسرز کی لسٹ بھی محفوظ کر لی تھی۔ اس منصوبے کی تمام تر تفصیلات محفوظ کرنے کے بعد عمران نے مزید سرچنگ کی تو اسے ہولستان کے مکھیہ منتری کے ہندوستان میں شیڈیول کے بارے میں بھی پتہ لگ گیا کرنل وشال نے اسکا پورا ٹور اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ کر رکھا تھا جسکے مطابق کل صبح مکھیہ منتری نے انڈیا کے مشہور شہر گوا جانا تھا۔ یہ شہر اپنے ساحلِ سمندر کے حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ ساحلِ سمندر پر قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ یہاں بہت سی خوبصورت حسینائیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ مکھیہ منتری کے گوا جانے کے بارے میں جا ن کر عمران سمجھ گیا کہ اسکا وہاں پھر کسی حسینہ کے ساتھ عیاشی کا پروگرام ہے۔

عمران نے فوری فیصلہ کیا کو وہ بھی گوا جائے گا اور اپنے وطنِ عزیز کے اس غدار کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کرے گا۔ لیپ ٹاپ سے مزید ڈیٹا محفوظ کرنے کے بعد عمران نے لیپ ٹاپ دوبارہ سے بند کر دیا اور دوبارہ اسی جگہ پر رکھ دیا جہاں سے اس نے اٹھایا تھا۔ اس ساری کاروائی میں عمران نے کسی بھی چیز کو اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوا بلکہ اس نے ایک کپڑا ہاتھوں میں پکڑ رکھا تھا جس کی مدد سے وہ الماری بھی کھول رہا تھا اور لیپ ٹاپ بھی استعمال کر رہا تھا۔ اس کاروائی کے بعد عمران نے احتیاط کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر سے وہ کپڑا الماری پر اور لیپ ٹاپ پر پھیرا تاکہ کمرے سے اپنے فنگر پرنٹس مٹائے جا سکیں۔

یہ سارا کام کرنے کے بعد عمران واپس ٹینا کے کمرے میں آیا جہاں ٹِنا بے سدھ لیٹی ہوئی تھی، عمران نے ایک نظر ٹینا پر ڈالی جو اس وقت ایک حسین پری کی طرح لگ رہی تھی، عمران نے ٹِنا کو تھوڑا سا سائیڈ پر کیا ، اپنے لیٹنے کے لیے جگہ بنائی اور اسکے بعد ٹینا کے سینے پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گیا۔ عمران جانتا تھا کہ اب ٹینا جلدی ہوش میں نہیں ائے گی کم سے کم 2 گھنٹے وہ بے ہوش رہے گی۔ عمران نے سونے سے پہلے اپنی یو ایس بی بیڈ کے میٹریس کے نیچے چھپا دی اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں عمران کو بھی نیند آگئی تھی۔

صبح 11 بجے کے قریب انٹر کام کی گھنٹی بجی تو ٹینا کی آنکھ کھلی ، ٹینا نے ریسیور اٹھا کر ہیلو کہا تو آگے سے گارڈ نے بتایا کہ باہر کیپٹن مکیش صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ ٹینا نے کہا انکو مہمانوں والے کمرے میں بٹھاو میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔ یہ کہ کر ٹینا نے فون بند کر دیا اور اپنے ساتھ لیٹے عمران کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگی، اسکے جسم پر ابھی تک قمیص نہیں تھی۔ ٹینا نے اسکے سینے پر اپنا ہاتھ پھیرا اور جھک کر اپنے لب اسکے سینے پر رکھ دیے۔ ٹینا رات ہونے والے مختصر سے سیکس کو یاد کر رہی تھی۔ اسکو جب ہوش آیا تو اس نے دیکھا تھا کہ عمران اسکے سینے پر ہاتھ رکھے سورہا تھا، تب ٹینا سوچنے لگی تھی کہ رات سیکس کرتے کرتے اچانک اسکو نیند کیوں آگئی تھی، شاید رات بھر کی تھکن اور اغوا ہونے کے خوف نے ٹینا کو نڈھال کر دیا تھا یہی وجہ تھی کہ ٹینا کو فوری نیند آگئی۔ تب ٹینا بستر سے اٹھی اور اسنے اپنے کپڑے اتار کر نائٹ گاون پہن لیا تھا اور دوبارہ سے عمران کے پہلو میں آکر لیٹ گئی تھی۔ گوکہ اسکا جسم ابھی بھی عمران کے لن کی طلب کر رہا تھا مگر وہ عمران کو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی اس لی وہ چپ چاپ عمران کے پہلے میں لیٹ گئی اور اپنی ایک ٹانگ عمران کے اوپر رکھ کر سوگئی تھی۔

اب صبح ہونے پر انٹر کام کی آواز سے آنکھ کھلی تو اسکو ایک بار پھر عمران پر پیار آرہا تھا۔ جب ٹینا نے عمران کے سینے پر کس کی تو عمران کی بھی آنکھ کھل گئی تھی۔ اس نے جواب میں ٹینا کے لبوں پر ایک کس کی اور دوبارہ سے آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا، وہ شاید ابھی مزید سونا چاہتا تھا۔ یہ دیکھ کر ٹینا اٹھی اور کیپٹن مکیش سے ملنے چلی گئی۔ مکیش کرنل وشال کے کہنے پر ٹینا کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا اور ساتھ ہی وہ اس لڑکے سے بھی ملنا چاہتا تھا جس نے ٹینا کی جان بچائی ۔ ٹِنا نے اپنی خیریت کے بارے میں کیپٹن کو آگاہ کیا اور عمران کے بارے میں بتا دیا کہ وہ ابھی سو رہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ کیپٹن کو فارغ کر کے واپس کمرے میں آئی تو اب عمران بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ٹینا کا انتظار کر رہا تھا۔ ٹینا کی غیر موجودگی میں وہ گوا جانے کا پلان بنا چکا تھا مگر اس پلان میں تانیہ کا ساتھ ہونا بھی ضروری تھا۔ اور اس وقت عمران کے پاس موبائل نہیں تھا، کیپٹن مکیش کا موبائل ٹینا کو بچاتے ہوئے وہیں گر گیا تھا ، عمران کو اس وقت جلدی میں پتا نہیں لگا مگر ٹینا کے گھر آکر اسکی غیر موجودگی میں جب اس نے موبائل نکالنا چاہا تو اسکی جیب میں موبائل نہیں تھا، تب اس نے سوچا کہ شاید موبائل کہیں گرگیا ہوگا ان غنڈوں سے لڑتے ہوئے۔

عمران نے سوچا کہ تانیہ سے رابطہ کے لیے ٹینا کا موبائل استعمال کیا جائے مگر پھر یہ سوچ کر اپنا ارادہ ترک کر دیا کہ اس میں خطرہ ہو سکتا ہے ۔ ٹینا واپس آئی تو عمران نے بانہیں پھیلا کر ٹینا کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی بلا جھجک عمران کے بانہوں میں چلی گئی اور اسکے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔ عمران نے ٹینا کے بالوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور بولا رات تمہیں کیا ہوگیا تھا؟؟؟ تم نے تو میری بری حالت کر دی تھی۔ ٹینا نے عمران کی طرف سر اٹھا کر شرمیلی نظروں سے دیکھا اور بولی بس تمہارا جسم دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے ہمیشہ ایسے ہی جیون ساتھی کی خواہش کی تھی جو نہ صرف قابل شخص ہو بلکہ ایک بہترین مرد بھی ہو جو مجھے تحفظ بھی دے سکے اور میری ضروریات کو بھی پورا کر سکے۔ اور تمہارے اندر یہ تمام خوبیاں موجود ہیں، رات تم نے مجھے غنڈوں سے بچایا، مجھے میرے گھر تک پہنچایا، پھر تم نے جس طرح پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ بریک کیا وہ ہمارے بڑے بڑے ائی ٹی ماہرین بھی نہیں کر سکتے، تم اس قابل ہو کہ تمہیں آرمی میں جاب دی جائے اور مجھے امید ہے کہ تم میری ضروریات کا بھی خیال رکھ سکتے ہو۔

عمران نے ایک پیار بھری کس ٹینا کے لبوں پر کی اور دوبارہ سے اسکو اپنے سینے سے لگا لیا۔ پھر عمران بولا وہ سب تو ٹھیک ہے مگر رات کچھ کام ادھورا رہ گیا تھا۔ ٹینا عمران کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بولی تم جب چاہو اسکو پورا کیا جا سکتا ہے۔ عمران بولا وہ تو میں نے پورا کر لیا رات ہی۔۔۔۔ ٹینا ایک دم اٹھی اور عمران کو دیکھتی ہوئی بولی کیا مطلب؟ عمران نے کہا رات خواب میں تم اور میں گوا کے ساحل پر تھے اور وہیں ہم دونوں نے خوب مزے کیے۔ گوا کا نام سن کر ٹینا بولی وہ تو بہت رومینٹک جگہ ہے۔۔ مجھے بہت پسند ہے، میں نے اجے کو کہا کہ ہمیں وہاں جانا چاہیے مگر وہ مانا ہی نہیں۔ اس پر عمران نے کہا دیکھو میرے پاس پیسے تو نہیں ہیں ، مگر تم چاہو تو ہم دونوں وہاں چل سکتے ہیں ۔ ٹینا نے خوش ہوتے ہوئے عمران کی طرف دیکھا اور کہا ہاں ہم ضرور جائیں گے۔ عمران نے کہا آج ہی چلیں؟ جب تک تمہارے پاپا نہیں آجاتے ہم گوا ہو آتے ہیں۔ ویسے بھی تمہارے پاپا نے تمہیں یونیورسٹی جانے سے منع کر دیا ہے تو جب تک وہ جامنگر میں ہیں ہم یہاں کیا کریں گے۔ گوا چلتے ہیں آوٹنگ بھی ہوجائے گی اور ہو سکتا ہے وہ غنڈے دوبارہ سے تمہیں اغوا کرنے کی کوشش کریں تو اس سے بھی تم محفوظ رہو گی، کسی کو علم بھی نہیں ہوگا کہ ہم گوا میں ہیں ۔

عمران کی بات سن کر ٹینا بولی، آئیڈیا تو اچھا ہے مگر پاپا نہیں مانیں گے۔ عمران نے کہا انکو منانا تمہارا کام۔ لیکن یقین مانو اگر ہم دونوں وہاں جائیں گے تو تمہاری زندگی کا یادگار وزٹ ہوگا یہ گوا کا۔ ٹینا کی آنکھوں سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ گوا جانے کے لیے بے چین ہے۔ اس نے عمران کو کہا کہ وہ ابھی پاپا سے بات کرتی ہے اور ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کہ کر ٹینا نے کرنل وشال کے نمبر پر فون کیا جو ساری رات میجر دانش کو ڈھونڈنے کے لیے جامنگر میں مارا مارا پھرتا رہا تھا اور اب کچھ دیر پہلے ہی اسکی آنکھ لگی تھی مگر میجر دانش جامنگر میں ہوتا تو ملتا وہ تو عمران بن کر کرنل کی بیٹی کے سینے سے لگ کر خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ کرنل نے فون اٹینڈ کیا تو ٹینا نے پہلے تو اپنے پاپا کی خیریت دریافت کی اور پاکیشا کے ایجنٹ کے بارے میں پوچھا جس پر کرنل نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے اور جلد ہی اس ایجنٹ کو پکڑ لے گا۔ پھر ٹینا نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ گھر میں قید نہیں رہ سکتی، جب تک آپ واپس نہیں آجاتے تب تک میں گوا جانا چاہتی ہوں۔ کچھ دن وہاں آوٹنگ کروں گی تو رات والا واقعہ بھی ذہن سے نکل جائے گا اور اگر وہ غنڈے دوبارہ مجھے اغوا کرنے کا پلان بناتے ہیں تو میں تو ممبئی میں ہونگی نہیں تو اسطرح ان سے بھی حفاظت رہے گی۔ کرنل وشال نے فوری طور پر ٹِنا کو منع کر دیا اور سختی سے کہا کہ وہ ہرگز ہرگز کہیں نہیں جا رہی گھر پر ہی رہے گی۔ اس پر ٹِنا نے ضدی بچے کی طرح کہا کہ ٹھیک ہے اگر میں کہیں نہیں جاوں گی تو پھر آپ فورا گھر آجائیں میں آپکے بغیر بو رہی ہوں۔ کرنل وشال نے کہا بیٹا اجے کو بلا لو وہ تمہارے ساتھ رہے گا ، اجے کا نام سن کر ٹینا نے غصے سے کہا پاپا آپ آئندہ اجے کا نام مت لیجیے گا میرے سامنے۔ اب وہ میری زندگی میں نہیں آئے گا دوبارہ۔

اسکی بات سن کر کرنل نے کہا اچھا تو بیٹا اپنی یونیورسٹی کی دوستوں کو بلا لو، مگر ٹینا نے کہا میں اپنے مطلب کے لیے انکی پڑھائی کا کیوں حرج کروں۔ یا تو آپ واپس آجائیں یا پھر مجھے گوا جانے کی اجازت دیں۔ کرنل وشال نے کہا بیٹا میں ایسے کیسے واپس آسکتا ہوں؟ جب تک پاکیشا کا وہ ایجنٹ نہیں مل جاتا میں واپس نہیں آجاتا اور اس نے مختلف کاروائیاں بھی شروع کر رکھی ہیں ۔ مگر ٹینا نے پھر بچوں کی طرح ضد کی اور کہا میں کچھ نہیں جانتی، یا آپ واپس آرہے ہیں یا میں گوا جا رہی ہوں۔ ٹینا کرنل کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اپنی بات منوانا جانتی تھی۔ کرنل نے اس بار ہار مانتے ہوئے کہا مگر بیٹا مجھے تمہاری فکر رہے گی گھر میں تم محفوظ ہو۔ ٹِنا نے کہا پاپا میں وہاں بھی محفوظ رہوں گی اور ویسے بھی رات جس شخص نے مجھے بچایا ہے وہ میرے ساتھ ہی ہوگا۔ آپ فکر نہ کریں۔ اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ میں گوا میں ہوں۔ آپ اپنی آرمی کو ہمارے گھر پر ہی لگائے رکھیں وہ غنڈے سمجھیں گے کہ میں گھر پر ہی ہوں، اور میں چپکے سے گوا نکل جاوں گی۔

باالآخر کرنل کو بیٹی کے سامنے ہار ماننی پڑی اور اس نے ٹینا کو گوا جانے کی اجازت دے دی مگر اس شرط پر کہ کیپٹن مکیش بھی تم لوگوں کے ساتھ جائے گا۔ ٹینا بولی پاپا میں نے انجوائے کرنے جانا ہے گوا اس کھڑوس کے ساتھ بور ہونے نہیں جانا۔ آپ نے اسکو بھیجنا ہے تو بھیجیں مگر وہ مجھ سے دور ہی رہے۔ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ۔ اس پر کرنل نے کہا اچھا بیٹا ٹھیک ہے وہ تمہیں تنگ نہیں کرے گا مگر تم سے کچھ فاصلے پر وہ تمہارے ساتھ ساتھ جائے گا۔ ٹینا نے اوکے کہا اور فون بند کر دیا۔ فون بند کرتے ہی اس نے عمران کو یہ خوشخبری سنائی کہ پاپا نے اجازت دے دی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی عمران نے ٹینا سے کہا چلو پھر چلنے کی تیاری کریں۔ ٹینا نے کہا تیاری کیا کرنی، میں بس کپڑے چینج کر کے آتی ہوں، کچھ کپڑے ہینڈ بیگ میں رکھ کر چلتے ہیں۔

عمران نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر میں اس کٹی ہوئی پینٹ کے ساتھ تو گوا نہیں جا سکتا، مجھے بھی آخر کچھ کپڑے چاہیے۔ یہ بات سن کر ٹینا نے کہا ہاں ٹھیک ہے ہم دونوں ملکر مارکیٹ چلتے ہیں وہاں سے تم اپنے لیے شاپنگ کر لینا۔ عمران نے کہا نہیں ہم دونوں نہیں صرف میں جاوں گا۔ تم ابھی گھر پر ہی رہو۔ ہمارے گرد چاہے جتنی بھی سیکورٹی ہو ہم اس طرح مارکیٹ میں میں نہیں گھوم سکتے وہ غنڈے ہو سکتا ہے تمہاری کھوج میں ہوں۔ مجھے بس ایک گاڑی دے دو میں اس پر جاوں گا اور اپنی شاپنگ کر کے واپس آجاوں گا۔ ٹینا نے فوری اپنی گاڑی کی چابی دی مگر عمران نے انکار کر دیا اور کہا کیوں مروانا چاہتی ہو مجھے۔ کوئی اور گاڑی دو جو تمہاری نہ ہو۔ اس گاڑی کو دیکھ کر تو غنڈے میرے پر پھر سے حملہ کر دیں گے۔ پھر ٹینا نے کہا چلو گیراج میں ایک اور پرانی سی گاڑی کھڑی ہے تم وہ لے جاو لیکن پلیز جلدی آنا میں تمہارا انتظار کروں گی۔ عمران نے جلدی آنے کا وعدہ کیا اور پرانی گاڑی لیکر ٹینا کے گھر سے نکل گیا۔
آدھی رات کو سونے کے بعد دوپہر کے 4 بجے ہی امجد کی آنکھ کھلی جو ابھی جامنگر کے ڈانس کلب میں موجود ایک کمرے میں سکون سے سو رہا تھا۔ اسکا حلیہ اب کل کی نسبت تبدیل تھا اور وہ سردار کی بجائے اپنے اصل حلیے میں موجود تھا۔ بستر سے اٹھ کر امجد نے پہلے اپنے ساتھ موجود کاشف کو بھی نیند سے اٹھایا اور فریش ہونے کے بعد امجد نے کلب کے ایک ملازم کو کھانا لانے کا کہا تو کچھ ہی دیر میں وہ امجد اور کاشف کے لیے گرما گرم کھانا لے آیا۔ یہ ملازم بھی امجد کو جانتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد امجد نے سوچا کہ اب اسے یہاں سے نکلنا چاہیے اور کوئی اور کاروائی کرنی چاہیے جس سے کرنل وشال کو مزید پریشانی کا سامنا کرنا پرے اور ممبئی میں میجر دانش با آسانی اپنا کام کرسکے۔ یہی سوچ کر امجد باہر نکلا اور ریسیپشن پر موجود شخص سے ملا۔ رات کی ڈیوٹی والا شخص جا چکا تھا اور اب دوسرا شخص ریسیپشن پر موجود تھا جسکو کیپٹن مکیش جاتے ہوئے کہ کر گیا تھا کہ جیسے ہی وہ ڈانسر کلب میں واپس آئے تو وہ فوری اطلاع دے۔

ریشیپشن پر موجود اس شخص نے امجد کو فوری پہچان لیا کیونکہ امجد پہلے بھی تانیہ کے ساتھ اس ڈانس کلب میں کافی بار آچکا تھا اور یہاں کے تقریبا سبھی لوگ امجد کو اور تانیا کو جانتے تھے۔ امجد پر نظر پڑتے ہی وہ شخص چوکنا ہوگیا اور جب امجد نے اس شخص سے پوچھا کہ رات کی رہائش اور کھانے کے کتنے پیسے بن گئے تو اس شخص نے بڑی خوش اخلاقی سے امجد کو ڈیل کیا اور اسکو تفصیلات بتا کر کچھ دیر رکنے کو کہا تاکہ وہ اس سے کچھ گپیں لگا سکے۔ یوں تو امجد فوری نکلنا چاہتا تھا مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر اتنی خوش اخلاقی سے کوئی روک رہا ہے کچھ دیر کے لیے تو اسکو انکار کرنا بھی ٹھیک نہیں۔ امجد واپس اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ اس شخص نے کہا کہ میں 2 منٹ میں آتا ہوں پھر تھوڑی گپ شپ لگاتے ہیں۔

امجد کے کمرے میں جاتے ہی اس شخص نے کیپٹن مکیش کا نمبر نکالا اور اسے فون ملانے لگا۔ 2 بار بیل بجنے کے بعد کیپٹن مکیش نے فون اٹینڈ کر لیا۔ اس شخص نے کیپٹن کو فوری اپنا تعارف کروایا اور ڈانس کلب کا نام بتایا۔ ڈانس کلب کا نام سنتے ہی کیپٹن کی کان کھڑے ہوگئے اس نے فوری پوچھا کیا ہوا مجھے کیوں کال کی؟ کیپٹن کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے خیال آیا کہ شاید وہ ڈانسر تانیہ دوبارہ اس ڈانس کلب میں آئی ہوگی، مگر پھر فوری یہ خیال بھی آیا کہ وہ تو میجر دانش کے ساتھ ممبئی آچکی ہے تو وہ وہاں کیسے ہو سکتی ہے؟ اس چیز نے کیپٹن کو کنفیوژ کر دیا تھا، اور اس نے جھنجلا کر پوچھا کہ مجھے کیوں کال کی ہے؟ اس شخص نے بتایا کہ صاحب اس وقت میرے ڈانس کلب میں ایک شخص موجود ہے ۔ آپ نے جس لڑکی کے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا یہ اسکا ساتھی ہے۔ یہ کبھی کبھار اس لڑکی کے ساتھ ہی ڈانس کلب میں آتا ہے۔ یہ سن کر کیپٹن کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ اس نے فوری پوچھا اسکے ساتھ کوئی لڑکی بھی ہے یا وہ اکیلا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا صاحب اسکے ساتھ لڑکی تو کوئی نہیں مگر ایک اور شخص بھی اسکے ساتھ ہے۔ اسکو میں نے نہیں دیکھا، مگر جس کے بارے میں آپکو بتا رہا ہوں اسکا نام امجد ہے اور وہ اکثر یہاں آتا رہتا ہے۔ یہ سن کر کیپٹن مکیش نے اس شخص کو کچھ ضروری ہدایات دیں اور فون بند کر دیا۔

فون بند کر کے ریسیپشن پر موجود شخص امجد کے کمرے میں چلا گیا اور اسکے ساتھ گپیں لگانے لگا، جبکہ کیپٹن مکیش نے فوری کرنل وشال کو کال کی اور اسے بتایا کہ مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ میجر دانش کے کچھ ساتھی جامنگر کے ایک مشہور ڈانس کلب میں موجود ہیں۔ کرنل وشال نے ڈانس کلب کا ایڈریس پوچھا اور ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تو کیپٹن مکیش نے بیچ میں تانیہ کا ذکر نہیں کیا بس اتنا ہی بتایا کہ اسکی معلومات کے مطابق ان لوگوں نے میجر دانش کو قید خانے سے نکلنے میں مدد دی ہے کرنل وشال جو میجر دانش کو تلاش کر کرکے اب امید ہار بیٹھا تھا کہ اب کہ وہ نہیں ملتا اسکو دوبارہ سے ایک امید نظر آئی اور اسنے فوری اپنی فورس کے ساتھ آرمی ہیڈ کوارٹر چھوڑا اور کیپٹن مکیش کے بتائے ہوئے ڈانس کلب کی طرف روانہ ہوگیا۔

ڈانس کلب میں امجد اور کاشف اس شخص کے ساتھ گپیں لگانے میں مصروف تھے، بیچ میں تانیہ کا ذکر آیا تو اس شخص نے تانیہ کی تعریفیں کیں کہ وہ بہت اچھی ڈانسر ہے جس دن وہ ہمارے ڈانس کلب میں ڈانس کرنے آتی ہے تو ہماری تو چاندی ہوجاتی ہے۔ امجد جلد سے جلد اس شخص سے جان چھڑوا کر وہاں سے نکلنا چاہتا تھا مگر یہ شخص تو امجد کو چپک ہی گیا تھا اور جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ گو کہ دونوں ایکدوسرے کو سرسری طور پر جانتے تھے، مگر وہ شخص تو امجد سے اس طرح فری ہو رہا تھا جیسے دونوں لنگوٹیا دوست ہوں۔ آخر کا امجد نے اس شخص سے زبردستی جان چھڑوانے کا فیصلہ کیا اور کاشف کو اپنا بیگ اٹھانے کو کہا جس میں چند کپڑے تھے اور جیب سے پیسے نکال کر اس شخص کو بل ادا کرتے ہوئے بولا کہ ہمیں کافی دیر ہوگئی ہے پہلے ہی پھر دوبارہ آئیں گے تو آپ سے گپ شپ ہوگی مگر اس وقت ہم ذرا جلدی میں ہیں۔ یہ کہ کر امجد نے اس شخص سے ہاتھ ملایا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا۔

دروازہ کھولتے ہی امجد کو راہداری میں بوٹوں کی آواز سنائی دی جیسے کوئی تیزی کے ساتھ راہداری کی طرف آرہا ہو، 5، 6 قدموں کے بعد آواز رک گئی اور پھر سے بوٹوں کی آوزیں آنے لگیں۔ امجد نے کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اس نے فوری دروازہ بند کیا اور کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے گن نکالنے کا اشارہ کیا۔ کاشف نے بھی محض اشارے سے بتایا کہ اسکے پاس گن نہیں ، یہاں امجد کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، کل پولیس تھانے پر حملہ کرنے کے بعد امجد نے گاڑی تبدیل کرتے ہوئے وہاں سے کوئی گن اپنے ساتھ نہیں رکھی تھی۔ اور اب امجد نے جب بوٹوں کی آواز سنی تو وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ آرمی کے ٹرینڈ جوان ہیں جنہوں نے ڈانس کلب پر چھاپہ مارا ہے ، کاشف کی آنکھوں میں بھی خوف تھا وہ بھی خطرے کو بھانپ گیا تھا۔

ابھی امجد اور کاشف سوچ ہی رہے تھے کہ دونوں کیا کریں، ایک دم کمرے کے دروازے پر باہر سے کسی نے زور دار لات ماری اور دروازہ ایک دھماکے سے کھلتا چلا گیا۔ اس سے پہلے کہ امجد سنبھلتا یا اپنے بچاو کی کوئی تدبیر کرتا باہر سے آنے والے آرمی کے کمانڈوز نے امجد کو گردن سے پکڑ کر اسکے گھٹنے پر ایک زور دار بٹ مارا جس سے وہ گھٹنوں کے بل نیچے جھکنے پر مجبور ہوگیا جبکہ کاشف جو سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرح مزاحمت کی جائے، سامنے کھڑے 5 کمانڈوز کے ہاتھ میں جدید قسم کی رائفلز جن کا رخ کاشف اور امجد کی طرف ہی تھا دیکھ کر اسکے اوسان بھی خطا ہوگئے اور وہ بھی کچھ نہیں کر پایا۔ آن کی آن میں امجد اور کاشف گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے تھے اور انکے چہرے کالے کپڑے سے ڈھانپ دیے گئے تھے جبکہ انکے ہاتھ پیچھے کمر پر باندھے ہوئے تھے۔ ریسیپشن پر موجود شخص جو کمرے میں ہی موجود تھا اسکو بھی ایک کمانڈو نے گھٹنوں کے بل نیچے بٹھا لیا تھا مگر اس سے پہلے کہ اسکے چہرے پو کپڑا ڈالا جاتا کمرے میں ایک گرجدار آواز سنائی دی جو پوچھ رہا تھا ہوٹل کا مینیجر کون ہے؟ یہ آواز کرنل وشال کی تھی جس سے امجد اچھی طرح واقف تھا۔ کاشمیریا میں ہونے والے مظالم میں کرنل وشال کا ہاتھ تھا اور وہاں ایک بار امجد اور کرنل وشال کا آمنا سامنا ہو چکا تھا، جب امجد کے سامنے کرنل وشال نے بے گناہ مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا تھا۔ امجد اب تک اس آواز کو بھولا نہیں تھا۔ اور آج بہت عرصے کے بعد یہ آواز دوبارہ سن کر اسکا خون کھولنے لگا تھا مگر اس وقت وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

کرنل کے سوال پر وہ شخص فوری بول اٹھا سر مینیجر صاحب ابھی یہاں نہیں میں تو ریسیپشن پر ہوتا ہوں میرا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ کرنل وشال کو کیپٹن مکیش نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ مخبری ہوٹل کے ہی ایک شخص نے کی ہے اور وہ بھی اس وقت ان لوگوں کے کمرے میں ہی ہوگا تاکہ انکو باتوں میں لگا کر روک سکے۔ کرنل وشال نے فوری طور پر اس شخص کو رہا کرنے کا حکم دیا اور وہ اپنی جان بچاتا ہوا کرنل وشال کو مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ امجد اور کاشف کو اب کمانڈوز اپنے حصار میں لیکر ڈانس کلب سے باہر جا رہے تھے۔ اس وقت ڈانس کلب عام طور پر سنسان ہی ہوتے ہیں کیونکہ محفل رات کے اندھیروں میں سجتی ہے اسی لیے یہاں لوگوں کا کوئی ہجوم اکٹھا نہیں ہوا محض چند لوگ تھے جو آرمی کے کمانڈوز کو دیکھ کر اپنے اپنے کمروں میں جا کر چھپ گئے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں امجد اور کاشف کو گاڑی میں بٹھا دیا گیا اور وہ بھی چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئے کیونکہ اسکے علاوہ انکے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ آرمی کا یہ قافلہ اب ایک نا معلوم مقام کی طرف رواں دواں تھا جسکی قیادت کرنل وشال بذاتِ خود کر رہا تھا۔ اسکو پورا یقین تھا کہ اب میجر دانش زیادہ دیر تک اس سے بچ نہیں پائے گا۔
کیپٹن مکیش نے اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ کچھ دیر جاری رکھا۔ اسکی چھوٹی پسٹل جس میں 10 سے 12 گولیاں تھیں آن کی آن میں اس نے ختم کر دیں۔ اور پھر قلابازی کھا کر سامنے موجود صوفے کی اورڑ میں چھپ گیا۔ اس سارے عمل کے دوران اسکو اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ کمرے میں کوئی بھی اسکی گولی کا نشانہ نہیں بنا تھا کیونکہ اس وقت کمرہ بالکل خالی تھا۔ چند سیکنڈ کے انتظار کے بعد کیپٹن مکیش نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو کمرہ واقعی خالی تھا، کیپٹن نے کمرے سے باہر دیکھا تو 2 فوجی جوان بھاگتے ہوئے کمرے کے اندر آرہے تھے، وہ بھی کمرے کے اندر آکر اپنی پوزیشن لیکر کھڑے ہوگئے، اور کیپٹن مکیش کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ ایک طرف ایک لیڈیز لباس موجود تھا جو صوفے پر ہی پڑا تھا جبکہ اسکے ساتھ ہی ہائی ہیل سینڈل رکھے تھے، اور دوسری طرف ایک لیپ ٹاپ موجود تھا جو کہ بند تھا۔

کیپٹن مکیش نے اب کمرے کا مکمل جائزہ لیا اور ایک دروازے کی طرف بڑھنے لگا جو اسی کمرے میں موجود تھا یہ کچن کا دروازہ تھا جہاں سے کھانے کی خوشبو آرہی تھی اور ٹِپ ٹِپ پانی گرنے کی آواز بھی آرہی تھی، کیپٹن نے اب کی بار انہتائی محتاط انداز میں کچن کی طرف بڑھنا شروع کیا اور پھراپنے ایک ماتحت کو حکم دیا کہ وہ آگے بڑھے اور دیکھے کچن میں کوئی موجود ہے یا نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھے کہ گولی نا چلائی جائے تاکہ اگر اندر کوئی موجود ہو تو اسکو زندہ گرفتار کیا جائے۔ یہ جوان بھی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور کچن کی دیوار کے ساتھ کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کی مگر ٹِپ ٹیپ کی آواز کے علاوہ اندر سے اور کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ کچن کا دروازہ کھلا تھا اس فوجی نے ایک دم سے کچن کے اندر قلابازی لگائی اور زمین پر لیٹتا ہواپورے کچن کا جائزہ لیا جہاں کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا۔ چھوٹا سا کچن دیکھنے میں اس اہلکار کو زیادہ ٹائم نہیں لگا اور کچھ ہی سیکنڈز کے بعد اس نے باہر کھڑے کیپٹن مکیش کو کہا سر آل کلئیر۔ یہ سن کر کیپٹن مکیش بھی اندر گیا تو اس نے دیکھا کہ کچن میں موجود چولہے پر ایک پتیلا پڑا تھا جس میں چاول پکائے گئے تھے، کیپٹن نے پتیلے کو ہاتھ لگایا تو وہ ابھی بھی گرم تھا جسکا مطلب تھا کہ کچھ دیر پہلے کوئی نہ کوئی یہاں موجود تھا، اور کھانے کی خوشبو بھی بتا رہی تھی کہ یہ کھانا کچھ دیر پہلے تک اس پتیلے میں موجود رہا ہوگا

کچن میں کسی کو نا پا کر کیپٹن کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اب اس نے باہر والے کمرے کے ساتھ ایک اور کمرے کا بھی جائزہ لیا مگر وہاں بھی کسی کی موجودگی کے آثار موجود نہیں تھے البتہ اتنا ضرور تھا کچھ دیر پہلے تک یہاں کوئی نہ کوئی موجود تھا، واش روم میں جا کر کیپٹن نے دیکھا تو وہاں بھی فرش گیلا تھا جسکا مطلب تھا کہ کوئی آدھا گھنٹہ پہلے یہاں کوئی نہایا ہوگا، ایک طرف صابن کی جھاگ موجود تھی اور واش روم سے شیمپو کی ہلکی ہلکی خوشبو بھی آرہی تھی۔ پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد بھی جب کیپٹن کو وہاں کوئی شخص نہ ملا تو اسکا چہرہ مرجھا گیا۔ اسے امید تھی کہ میجر دانش اور اسکی ساتھی تانیہ اب ضرور پکڑے جائیں گے مگر اسکی اس امید پر پانی پھر گیا تھا۔ کیپٹن نے وہاں موجود لیپ ٹاپ اپنے قبضے میں لیا اور گھر سے باہر نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلنے لگا۔

اتنے میں وہاں موجود ایک شخص گاڑی کے سامنے آیا اور کیپٹن کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اسکے ساتھ موجود فوجیوں نے فوری اپنی رائفلز کے رخ اس شخص کی طرف کر لیے اور اس شخص نے بھی ڈر کے مارے اپنے ہاتھ ہوا میں بلند کر دیے، مگر ساتھ ہی کیپٹن کو اشارہ کیا کہ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایک فوجی نے آگے بڑھ کر اس شخص کی تلاشی لی ، اسکے پاس کوئی خطرناک ہتھیار موجود نہیں تھا، پھر دو فوجیوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور کیپٹن مکیش گاڑی سے باہر نکلا اور اس شخص سے پوچھنے لگا کہ ہاں بولو کیا بات ہے۔ کیپٹن کو سامنے دیکھ کر اس شخص نے بتانا شروع کیا کہ صاحب کل صبح ہی یہاں ایک لڑکی اور ایک لڑکا آکر رکے تھے، انکے پاس ایک کالے رنگ کی نئی گاڑی تھی جسکا نمبر وائی ایچ ڈبل یو 384 تھا۔ وہ گھر ٹیکسی پر آئے تھے مگر کچھ دیر بعد ہی کوئی شخص گھر کے باہر یہ کالے رنگ کی گاری چھوڑ گیا تھا اور اس گھر میں آئے شخص نے باہر آکر گاڑی میں سے ہی اسکی چابی نکالی اور کچھ مزید سامان نکال کر گھر میں چلا گیا تھا۔ گھر میں کچھ ہی دیر رکنے کے بعد دونوں گھر سے نکل گئے اور رات گئے لڑکی تو گھر آگئی مگر لڑکا نہیں آیا۔ مجھے یہ دونوں شروع سے ہی مشکوک لگ رہے تھے، آج بھی کچھ ہی دیر پہلے وہ لڑکی بہت جلدی میں یہاں سے کچھ سامان لیکر اپنی گاڑی میں نکلی ہے۔ نہ تو اس نے گھر کو تالا لگایا اور نہ ہی اسنے کسی کو بتایا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ بس وہ گھر سے ایسے نکلی جیسے بہت جلدی میں ہو۔ میں پولیس کو اطلاع دینے ہی والا تھا کہ ہمارے محلے میں کچھ مشکوک لوگ موجود ہیں کہ مجھے آپ لوگوں کے آنے کا پتہ لگا کہ آپ نے اس گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ تو میں نے سوچا آپکو آکر اطلاع دوں کے گھر میں اس وقت کوئی موجود نہیں ، ایک لڑکی تھی جو کچھ ہی دیر پہلے یہاں سے نکل گئی ہے۔ کیپٹن نے جیب سے تانیہ اور دانش کی تصویریں نکال کر اس شخص کو دکھائیں تو اسنے فورا ہی پہچان لیا اور بولا جی صاحب یہی لڑکی تھی جو یہاں کل آئی اور ابھی کچھ دیر پہلے یہاں سے گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔

کیپٹن مکیش نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ لڑکی کہاں گئی ہے ؟؟؟ اس شخص نے کہا نہیں صاحب وہ بہت ماڈرن لڑکی تھی ہماری تو ہمت ہی نہی ہوئی اس سے کوئی بات کرنے کی اور ویسے بھی یہ خطرناک لوگ لگ رہے تھے اس لیے میں نے دور رہنے میں ہی بہتری سمجھی۔ کیپٹن مکیش کو اس شخص کی باتیں سن کر اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹینا کے اغوا کے پیچھے یقینی طور پر میجر دانش تھا تبھی وہ ساری رات گھر نہیں آیا، اور ابھی اتنی جلدی میں یہاں سے تانیہ کا نکل جانا اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ اسے مخبری ہوگئی تھی کہ آرمی اس گھر پر چھاپہ مارنے والی ہے تبھی وہ اتنی جلدی میں یہاں سے نکل گئی۔ مگر سوال یہ تھا کہ آخر اسے بتایا کس نے ؟؟ ؟ کیپٹن مکیش کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے میجر دانش کے ٹھکانے کے بارے میں پتہ چل گیا ہے پھر مخبری کون کر سکتا ہے؟؟؟

کیپٹن مکیش اسی سوچ میں تھا کہ اسکے فون کی گھنٹی بجی، آگے سے اسے جامنگر کے ریسیپشن پر موجود شخص نے بتایا کہ وہ ڈانسر تانیہ تو نہیں آئی مگر اسکا ایک ساتھی اس وقت ڈانس کلب میں موجود ہے جو پہلے بھی کئی مرتبہ تانیہ کے ساتھ اس ڈانس کلب میں آچکا ہے۔ کیپٹن مکیش نے اسے کہا کہ کسی بھی طرح وہ اس شخص کو ڈانس کلب میں ہی روکے رکھے کچھ ہی دیر میں آرمی کی ایک ٹیم ہوٹل پر چھاپہ مارے گی اور انہیں گرفتار کر لے گی۔ اسکے بعد کیپٹن مکیش نے فون بند کیا اور فوری کرنل وشال کو کال کی اور اسے صورتحال سے آگاہ کر دیا، اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ مخبری کرنے والا شخص بھی ان کے ساتھ موجود ہوگا، اسکا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں لہذا اسکا خیال کیا جائے ۔ اسکے بعد کیپٹن مکیش فون بند کر کے واپس اپنی گاڑی میں بیٹھا اور آرمی ہیڈ کوارٹر جانے لگا۔ آرمی ہیڈ کوارٹر پہنچتے ہی کیپٹن نے اس شخص کا بتایا ہوا گاڑی کا نمبر اپنے ایک ماتحت کو دیا اور کہا فوری طور پر پتا لگاو یہ گاڑی کس کی ہے؟ اور اسکے بعد کیپٹن نے پولیس کو اطلاع دی کہ اگر یہ گاڑی کہیں نظر آئے تو اسکو فوری طور پر روک لیا جائے اور گاڑی میں جو بھی ہو اسکو گرفتار کر لے۔

کچھ ہی دیر کے بعد کیپٹن مکیش کو بتایا گیا کہ سر یہ گاڑی ممبئی کے ایک بڑے بزنس مین کی ہے جو کل ہی اندھیری ایسٹ سے چورائی گئی ہے اور وہیں کے تھانے میں اسکی ایف آئی آر بھی موجود ہے۔ یہ جان کر کیپٹں مکیش کی امیدوں پر مزید پانی پھر گیا کیونکہ میجر دانش تک لیجانے والی ہر امید راستے میں ہی ختم ہوجاتی تھی، اب جبکہ ایک گاڑی کا نمبر ملا جو میجر دانش کے استعمال میں تھی تو وہ بھی چوری کی نقلی اور مالک نے قانون کے مطابق اسکی ایف آئی آر بھی درج کروائی ہوئی تھی۔ اب قانونی طور پر گاڑی کے مالک سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی گاڑی تو چوری ہوگئی تھی اور اسنے رپورٹ بھی درج کروا دی ہوئی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد کیپٹن مکیش کے موبائل پر کرنل وشال کی کال آئی۔ کیپٹن نے کال اٹینڈ کرتے ہی اپنی انفارمیشن کے بارے میں پوچھا کہ اسکے مطابق میجر دانش کے ساتھی ملے یا نہیں؟؟ کرنل وشال کی پر سکون آواز سنائی دی کہ ہاں اسکے 2 ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انکو ہم اپنے خفیہ ہیڈ کوارٹر لے جارہے ہیں تفتیش کے لیے۔ اس پر کیپٹن مکیش نے کرنل کو مبارک دی کہ چلیں سر کوئی سراغ تو ملا اب جلد ہی وہ میجر بھی ہماری گرفت میں ہوگا۔ اس پر کرنل وشال نے کیپٹن کو شاباش دی کہ اس نے ممبئی میں رہتے ہوئے بھی اچھا کام کر دکھایا اور جامنگر میں موجود اسکے ساتھیوں کو پکڑوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی تعریف سن کر کیپٹن دل ہی دل میں خوش ہونے لگا۔ پھر کرنل وشال اصل بات کی طرف آیا جس کے لیے اس نے فون کیا تھا۔ کرنل وشال نے کیپٹن سے کہا کہ اسکی بیٹی ٹینا آوٹنگ کے لیے گوا جا رہی ہے اور تم بھی اسکے ساتھ گوا جاو گے۔ یہ سن کر کیپٹن مکیش کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے ، ٹینا کو تو وہ پہلے ہی پسند کرتا تھا اوپر سے اسکے ساتھ گوا جانے کا موقع تو ایسے ہی تھا جیسے اندھے کو آنکھیں مل گئی ہوں۔ مگر ساتھ ہی اسکی خوشیوں پر اوس پڑ گئی جب کرنل وشال نے بتایا کہ ٹینا اسی لڑکے عمران کے ساتھ جا رہی ہے جس نے رات اسکی جان بچائی ہے، تم ان سے کچھ فاصلہ رکھ کر انکے پیچھے پیچھے جاو گے، تمہارا کام صرف اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں کوئی ٹینا کا پیچھا تو نہیں کر رہا، اغوا کرنے والے دوبارہ سے حرکت میں آئیں گے تو وہ یقینی طور پر ٹینا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں لہذا تم انکے پیچھے پیچھے فاصلہ رکھ کر محض اسی بات کا خیال رکھو گے کہ اغوا کرنے والا گروپ ٹینا کے پیچھے نہیں۔ یہ کہ کر کرنل وشال نے فون بند کر دیا اور کیپٹن مکیش مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ ٹینا کو کال کرنے لگا تاکہ وہ اسکی روانگی کے بارے میں معلومات لے سکے۔
عمران کو گاڑی کی چابی دیتے ہوئے ٹینا نے اپنا کریڈیٹ کارڈ بھی ساتھ میں دے دیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ عمران کے پاس پیسے نہیں ہیں، عمران نے بھی بلا جھجک کریڈٹ کارڈ لے لیا تھا۔ یوں تو عمران ایک غیرت مند انسان تھا جو کسی بھی صورت اپنی شاپنگ کسی لڑکی کے پیسوں سے کرنا گوارا نہیں کرتا خاص طور پر ایک انجان لڑکی مگر اس وقت غیرت دکھانے کا موقع نہیں تھا، اس وقت کسی بھی طرح ٹینا کو شیشے میں اتار کر اپنا کام نکلوانے کا وقت تھا۔ یوں تو عمران کے پاس چند سو روپے تھے مگر وہ مکمل شاپنگ کے لیے ناکافی تھے اسی لیے عمران نے کریڈٹ کارڈ لیکر گاڑی نکالی اور کچھ ہی دور مارکیٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں عمران نے محسوس کیا کہ ٹینا کے گھر سے ہی ایک گاڑی اسکے پیچھے پیچھے ایک محتاط فاصلہ رکھتے ہوئے آرہی تھی، عمران سمجھ گیا کہ اسکا پیچھا ہورہا ہے لہذا اس نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے کسی کو کوئی شک ہو۔

عمران دھیمی رفتار سے مارکیٹ کی طرف جانے لگا، راستے میں سڑک کنارے اسے ایک ٹھیلے والا نظر آیا جو ٹراوزر وغیرہ بیچ رہا تھا، عمران نے وہاں گاڑی روکی اور اس سے اپنے سائز کے مطابق ایک ٹراوزر خرید لیا۔ عمران نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اپنی پھٹی ہوئی پینٹ اتاری اور وہ ٹرازور پہن کر دوبارہ سے اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور گاڑی چلادی۔ اس دوران عمران نے دیکھا کے کافی فاصلے پر وہی گاڑی رکی ہوئی تھی جو ٹینا کے گھر سے اسکا پیچھا کر رہی تھی، مگر عمران نے اسکی کوئی پرواہ نہیں کی۔ کچھ ہی دیر بعد عمران مارکیٹ پہنچ گیا تو ایک بڑا شاپنگ پلازہ دیکھ کر عمران نے اسکی پارکنگ میں گاڑی لگائی اور پلازہ میں داخل ہوگیا،پلازہ میں داخل ہوتے ہی عمران نے ایک آنٹی جی کے پرس میں سے انکا موبائل نکال لیا جو عمران کو تب نظر آیا جب آنٹی جی پرس میں سے اپنے ساتھ موجود چھوٹے سے بچے کے لیے فیڈر نکال رہی تھیں، اور اسکو فیڈر پلانے کی جلدی میں وہ اپنے پرس کی زپ بند کرنا بھول گئیں۔

موبائل نکالتے ہی عمران نے فوری طور پر اپنے سائز کی ایک پینٹ لی اور ساتھ ہی موجود چینجنگ روم میں گھس گیا۔ عمران نے یہ سارا کام پیچھے آنے والی گاڑی کے پلازہ میں پہنچنے سے پہلے پہلے کر لیا تھا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پیچھا کرنے والوں کی نظروں میں آ کر وہ کسی کو کال کرے۔ چینجنگ روم میں جاتے ہی عمران نے تانیہ کا نمبر ملایا جو پچھلی رات ہی عمران نے تانیہ کو دیا تھا۔ کچھ دیر بیل ہونے کے بعد تانیہ نے فون اٹینڈ کیا تو آگے سے عمران نے اسکی خیریت دریافت کی اور جلدی جلدی اسکو اپنے پلان کے بارے میں چیدہ چیدہ معلومات فراہم کیں اور اس نے تانیہ کو فوری طور پر گوا کے لیے نکلنے کو کہا۔ تانیہ جو کچھ دیر پہلے ہی سو کر اٹھی تھی اس اچانک پروگرام پر حیران ہوگئی مگر عمران نے اسے کہا کہ یہ سب باتیں وہ بعد میں تفصیل سے بتا دے گا فی الحال وہ اپنی گاڑی نکالے ضرور سامان ساتھ لے اور ایک گھنٹے تک گوا کے لیے روانہ ہوجائے۔

فون بند کرنے کے بعد عمران پینٹ ٹرائی کیے بغیر ہی باہر نکل آیا اور دوبارہ سے اسی آنٹی کی تلاش کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں عمران کو وہ آنٹی دوبارہ نظر آگئیں جو ابھی تک اس بات سے بے خبر تھیں کہ انکا موبائل چوری ہو چکا ہے، ان پر نظر پڑتے ہی عمران انکے ساتھ جا کر کھڑا ہوگیا اور چپکے سے نظریں بچاتے ہوئے انکا موبائل دوبارہ انکے پرس میں ڈال دیا۔ اور پھر سے اپنے لیے کچھ کپڑے دیکھنے لگا۔ اب عمران اپنی پسند کے مطابق کپڑے پسند کر رہا تھا، اس نے 1 پینٹ ، 2 ٹراوزر اور 2 شارٹس خریدیں اور ساتھ انڈر وئیر اور کچھ اور ضرور سامان خرید کر پلازے سے نکل گیا۔ اس دوران بھی عمران نے غور کیا کہ ایک شخص مسلسل عمران سے کچھ فاصلے پر اسکے ساتھ ساتھ تھا۔ جہاں عمران جاتا وہیں وہ شخص کچھ فاصلے پر پر کھڑا ہوکر ونڈو شاپنگ کرنے لگ جاتا اور جیسے ہی عمران ٹینا کے کریڈیٹ کارڈ سے بل ادا کر کے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف گیا وہ شخص بھی پلازے سے باہر نکل آیا اور اسی گاڑی کی طرف جانے لگا جو عمران کا پیچھا کر رہی تھی۔

عمران زیرِ لب مسکرایا اور گاڑی میں بیٹھ کر دوبارہ سے ٹینا کے گھر پہنچ گیا۔ مین گیٹ پر گارڈ نے ایک بار پھر سے عمران کو روک لیا مگر رات والا واقعہ اور ٹینا کی ڈانٹ یاد آئی تو تلاشی لینے کی بجائے اس نے انٹر کام پر ٹینا کو عمران کے آںے کی اطلاع دی ٹینا نے گارڈ سے کہا انہیں فوری میرے روم تک پہنچا دو تو گارڈ عمران کے ساتھ ٹینا کے روم کی طرف جانے لگا، ٹینا کے روم تک پہنچا کر وہ گارڈ واپس چلا گیا اور عمران بلا جھجک دروازہ کھول کر ٹینا کے روم میں داخل ہوگیا۔ ٹینا اس وقت سپورٹس برا اور ٹراوزر پہنے ہوئے تھی شاید جاگنگ کر کے ہٹی تھی۔ اور اسکے ہاتھ میں ایک لوز شرٹ اور ایک شارٹ تھی ٹینا نے عمران کو مسکرا کر دیکھا اور بولی تم دوسرے کمرے میں جا کر واش روم استعمال کرو، میں اپنے کمرے میں ہی ہوں بس کچھ دیر میں نہا کر نکلتی ہوں۔ ساتھ ہی ٹینا نے عمران کو مسکراتے ہوئے کہا کہ اپنی شیو بھی بنا لو۔ بال کافی بڑھے ہوئے ہیں۔ عمران نے بھی چہرے پر ہاتھ پھیرا تو آج کافی دنوں کے بعد اسے واقعی میں احساس ہوا کہ اسکی شیو بڑھی ہوئی ہے۔

جب سے سہاگ رات کے بعد اس نے کرنل وشال کا پیچھا کرنا شروع کیا تھا اسکو اپنی صفائی کا کوئی خیال ہی نہیں تھا بس 1 دن پہلے ہی مونا جی نے دانش کے چہرے کو میک اپ کرنے کے لیے دھویا تھا مگر مکمل شیو اس نے بھی نہیں بنائی تھی تاکہ کیپٹں مکیش اور عمران کی مشابہت میں مزید بہتری آسکے۔ ٹینا کی بات سن کر عمران نے ٹینا کو آنکھ ماری اور بولا صرف شیو ہی کروں یا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ عمران کی اس لمبی سی "یا" کا مطلب ٹینا فوری سمجھ گئی تھی وہ بھی مسکراتے ہوئے اور تھوڑا شرماتے ہوئے بولی ہاں وہ بھی کیونہ ہم گوا جا رہے ہیں تو اچھی طرح صفائی کرنا ضروری ہے۔ ٹینا کی بات سن کر عمران نے ایک قہقہ لگایا اور ساتھ والے کمرے میں موجود واش روم میں گھس گیا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑے ہوکر عمران کو سکون ملنے لگا تھا۔ اتنے دنوں کی بھاگ دوڑ اور اعصابی تناو اب پانی کے ساتھ ساتھ بہنے لگا۔ اپنے اوپر اچھی طرح ٹھنڈا پانی ڈالنے کے بعد عمران نے پہلے واش روم میں پڑے ایریزر سے اپنی شیو بنائی اور پھر اسی ایریزر سے اپنے زیرِ ناف بال بھی صاف کیے۔ زیرِ ناف بال صاف کرتے ہوئے عمران کو احساس ہوا کہ وہ کافی دنوں سے انڈیا میں ہی ہے۔ کیونکہ اسکے بال خاصے بڑھے ہوئے تھے، سہاگ رات پر اس نے خصوصی طور پر اپنے زیرِ ناف بالوں کی صفائی کی تھی، مگر جہاں تک عمران کو یاد تھا وہ محض 4 یا 5 دن سے ہی انڈیا میں تھا اور کرنل وشال کی قید سے لیکر آج تک 5 دن ہی گزرے تھے۔ لیکن اپنے بڑھے ہوئے بال دیکھ کرعمران نے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی 10 سے 15 دن سے انڈیا میں ہے۔ شاید یہ باقی کے دن اسکے بے ہوشی کی حالت مِں گزرے ہونگے جب وہ کرنل وشال کی قید میں تھا۔

بالوں کی صفائی کے دوران عمران کو اپنی بیوی عفت کی بھی یاد آئی جو سہاگ رات پر اس سے جدا ہوئی تھی اور اب تک دونوں کا دوبارہ ملن نہیں ہوسکا تھا۔ عمران سوچنے لگا کہ عفت اسکے بارے میں کیا سوچتی ہوگی کہ سہاگ رات پر ہی اسکا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا اور اتنے دن گزرنے کے بعد بھی ابھی تک واپسی نہیں ہوسکی۔ عفت کی یاد آئی تو عمران کا بے اختیار دل کیا کہ وہ فورا پاکیشا چلا جائے اور جا کر اپنی نو بیاہتا بیوی کو اپنے گلے سے لگا کر بہت سا پیار کرے۔ مگر افسوس کہ ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ ایک سپاہی کے لیے وطن کی محبت پہلے اور باقی رشتے ناطے بعد میں آتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد عمران نے عفت کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیا، اس لیے نہیں کہ اسے عفت سے پیار نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ کہیں عفت کی یاد اسکو اپنے فرض سے غفلت برتنے پر مجبور نہ کر دے۔ عمران نے اپنی خوب اچھی طرح صفائی کی اور ایک گھنٹے تک ٹھنڈے پانی کا شاور لینے کے بعد وہ ایک شرٹ اور ساتھ شارٹ پہن کر واپس آگیا۔ باہر نکلا تو ٹینا اپنے کمرے میں کھڑی میک اپ کر رہی تھی ٹینا نے ایک لوز شرٹ اور ساتھ ایک چھوٹی سی نیکر پہن رکھی تھی جو بمشکل اسکی تھائیز کو ڈھانپ رہی تھیں ۔ پاوں سے لیکر گھٹنوں تک اور پھر آدھی سے زیادہ تھائیز ننگی تھیں ٹینا کی، یہ دیکھ کر عمران کی شارٹ میں موجود شارٹ سے لن کو ایک شاٹ لگا اور وہ آہستہ آہستہ لانگ ہونے لگا۔ مگر جلد ہی اسنے اپنے جزبات پر قابو پالیا کیونکہ وہ جلدی میں انڈر وئیر واش روم لیجانا بھول گیا تھا۔ اور بغیر انڈر وئیر کے کھڑا لن کچھ زیادہ ہی واضح ہوکر نظر آتا ہے اس لیے عمران نے فوری اپنے جذبات پر قابو پایا اور اپنی کچھ ضروری چیزیں ایک چھوٹے شولڈر بیگ میں ڈالنے لگا۔

کچھ ہی دیر میں ٹینا کا میک اپ بھی مکمل ہوگیا، بہت لائٹ سے میک اپ میں ٹینا بہت خوبصورت لگ رہی تھی، اس نے بھی جلدی جلدی اپنے کچھ کپڑے ایک چھوٹے بیگ میں ڈالے اور چلنے کے لیے تیار ہوگئی۔ مگر اب کی بار ٹینا نے پرانی گاڑی میں جانے کی بجائے اپنی بی ایم ڈبلیو میں ہی جانے کی ضد کی تو عمران بھی فوری مان گیا کیونکہ اتنا لمبا سفر ایک تو ویسے ہی اذیت ناک ہوتا ہے اوپر سے پرانی گاڑی میں سفر کرنا اور بھی عذاب ۔۔۔ اور پھر عمران تو جانتا ہی تھا کہ کوئی اب ٹینا کو اغوا کرنے نہیں آنے والا اور خطرے والی کوئی بات نہیں اس لیے عمران نے ٹینا کی ضد فوری مان لی اور کچھ ہی دیر میں ٹینا اور عمران بی ایم ڈبلیو میں آرمی ریذیڈینشیل ایریا سے نکل کر انڈیا کے مشہور بریج سائن پانویل بریج سے گزر رہے تھے جو ممبئی مہاراشٹرا اور ناوی ممبئی کو آپس میں ملاتا ہے اور اس بریج کی وجہ سے بہت لمبا سفر محض ایک کلومیٹر کا رہ جاتا ہے۔

ناوی ممبئی سے گزر کر اب ٹینا کی بی ایم ڈبلیو 160 کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے ہوتی ہوئی پونے کی طرف جا رہی تھی۔ گاڑی عمران خود ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ ٹینا عمران کو اپنی زندگی کے متعلق اور اپنے رہن سہن کے متعلق بتا رہی تھی، عمران بڑے غور سے ٹینا کی باتیں سن رہا تھا اسکو اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹینا ایک باتونی لڑکی ہے جو چاہتی ہے کہ وہ ہر وقت بولتی رہے اور دوسرا اسکی باتیں سنتا رہے، مگر عمران کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا ٹینا کی باتوں کو سننا کیونکہ ٹینا ایک کرنل کی بیٹی تھی اور عمران انتظار کر رہا تھا کہ شاید کوئی اور کام کی بات ٹِنا کے منہ سے نکلے جو عمران کے لیے مفید ثابت ہو سکے۔

دوسری طرف جب تانیہ کو دانش کی کال موصول ہوئی تو اسنے بھی فوری تیاری شروع کر دی۔ تانیہ کے لیے جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی وہ اتنا لمبا سفر تھا جو تانیہ نے اکیلے ہی طے کرنا تھا۔ گاڑی میں 11 سے 12 گھنٹے کا سفر اکیلے طے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ تانیہ نے فوری کچن میں جا کر کھانا بنایا، گھر میں چاول اور تھوڑا چکن موجود تھا تو تانیہ نے چکن پلاو بنا لیا اور چولہے پر ہلکی آنچ پر چاول رکھ کر تانیہ خود نہانے چلی گئی، نہا کر تانیہ باہر نکلی تو اسنے کمرے میں ہی اپنے پہلے والے کپڑے اتارے اور شاپر میں سے نیا سوٹ نکال کر پہن لیا، نیا سوٹ پہن کر تانیہ فوری کچن میں گئی اور چاولوں میں چمچ ہلایا ، پھر واپس باہر آکر تانیہ نے کچھ ضروری چیزیں سمیٹیں، گاڑی کی چابی اٹھائی، سلیپر پہنے اور دوبارہ سے کچن میں گئی تو چاول قریبا پک چکے تھے، تانیہ نے کچھ چاول پلیٹ میں ڈال کر کچن میں کھڑے ہوکر کھائے اور اسکے بعد پلیٹ دھو کر ایک سائیڈ پر رکھ کر ٹونٹی بند کردی۔ پھر تانیہ نے ایک برتن میں باقی کے چاول ڈالے جو مشکل سے ایک یا 2 پلیٹس کے برابر ہونگے، وہ برتن شاپر میں ڈالا اور اپنے کپڑوں والا شاپر اٹھا کر گاڑی کی چابی اٹھائی اور بھاگتی ہوئی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی، گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے موبائل پر جی پی ایس آن کر کے گوا کا راستہ سیو کر لیا اور گوا کی طرف نکل گئی، تانیہ کو اصل میں جلدی اس بات کی تھی کہ ایک تو اسے دانش نے کہا تھا کہ تم نے جلدی نکلنا ہے تاکہ ہم سے پہلے گوا پہنچ سکو اور دوسرا تم نے اکیلے سفر کرنا ہے اس لیے جلدی نکلو تاکہ آدھی رات سے پہلے پہلے گوا پہنچ سکو۔ تانیہ قریب 3 بجے گھر سے نکلی تھی ، اس حساب سے اگر وہ بہت جلدی بھی پہنچ جاتی تو رات کے 1 تو بج ہی جانے تھے اسی لیے تانیہ بہت جلدی میں گھر سے نکل گئی۔

ادھر ٹینا اور دانش بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے کہ راستے میں ٹینا کے موبائل پر کیپٹن مکیش کی کال آئی۔ کیپٹن کا نام دیکھ کر ٹینا نے برا سا منہ بنایا مگر اسے کال اٹینڈ کرنی ہی تھی۔ ٹینا نے ہیلو کہا تو آگے سے مکیش نے نمستے ٹینا میم کہا اور ٹینا سے پوچھنے لگا کہ میم آپ کب تک گوا کے لیے روانہ ہونگی؟؟ ٹینا نے بتایا کہ وہ گوا کے لیے روانہ ہو چکی ہے اور اب ممبئی سے کافی دور نکل چکی ہے۔ اس پر کیپٹن مکیش کو ایک شاک لگا کیونکہ اسکا خیال تھا کہ ٹینا ابھی گھر پر ہی ہوگی، مگر ٹینا تو کیپٹن کے فون آنے سے کوئی 30 سے 35 منٹ قبل ممبئی سے نکل چکی تھی۔ کیپٹن نے ٹینا کو بتایا کہ کرنل صاحب نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپکے ساتھ ساتھ گوا تک جاوں لہذا آپ اگر کسی جگہ رک کر میرا انتظار کر لیں تو میں جلد ہی آپ تک پہنچ جاوں گا، مگر ٹینا نے کہا کہ میں نے پاپا کو کہ دیا تھا کہ جس کو بھی بھیجیں وہ مجھ سے فاصلے پر ہی رہے، سیکورٹی کے نام پر میں اپنا یہ ٹور بور نہیں ہونے دے سکتی، آپ جی پی ایس پر میری لوکیشن ایڈ کر لو اور فاصلہ رکھ کر گوا تک آجاو۔ یہ کہ کر ٹینا نے فون بند کر دیا۔ اور دوبارہ سے عمران کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی جبکہ کیپٹں مکیش نے فورا اپنا موبائل اور ضروری چیزیں اٹھائیں اور اپنی آرمی جیپ میں بیٹھ کر وہ بھی گوا کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس نے اپنے موبائل پر ٹینا کا ای میل پہلے ہی ایڈ کر رکھا تھا اور جی پی ایس کے مطابق ٹینا اور کیپٹن مکیش کی گاڑی کے درمیان کوئی 35 کلومیٹر کا فاصلہ تھا جو مسلسل بڑھتا جا رہا تھا کیونکہ ٹینا شہر سے نکل چکی تھی اور کافی رفتار کے ساتھ گوا کی طرف جا رہی تھی جبکہ کیپٹن مکیش ابھی شہر کی ٹریفک میں پھنسا آہستہ آہستہ ممبئی شہر سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسکے ذہن میں میجر دانش کا بھی خیال تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ ٹینا کے اس فضول پروگرام کی وجہ سے اب وہ میجر دانش کو نہیں پکڑ سکے گا، حالانکہ وہ بہت قریب پہنچ گیا تھا انکے ٹھکانے کے بس کچھ دیر پہلے پہنچ جاتا تو اس وقت تانیہ اور میجر دانش دونوں اسکی قید میں ہوتے۔ مگر افسوس کے ایسا نہ ہوسکا۔

ٹینا نے کیپٹن سے بات کرنے کے بعد فون بند کر کے گاڑی کے ڈیش بورڈ میں ڈال دیا اور گاڑی کی روف ہٹا دی، شام کا وقت تھا اور موسم بھی کافی خوشگوار تھا، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے ٹینا کے بال اڑ رہے تھے اور وہ گاڑی میں کھڑی ہوگئی اور ٹھنڈی ہوا کا مزہ لینے لگی، ٹینا نے اپنے ہاتھ پھیلا لیے اور بچوں کی طرح سفر کا مزہ لینے لگی، عمرن اسکی یہ حرکتیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور اسکو ٹینا پر پیار آنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد ٹینا واپس بیٹھ گئی اور دانش کے کندھے پر سر رکھ لیا۔ دانش نے بھی ایک پیار بھری کس ٹینا کے سر پر کی اور گاڑی ڈرائیو کرنے میں لگا رہا۔ ٹینا کا ہاتھ اب عمران کی تھائی پر تھا اور وہ آہستہ آہستہ عمران کی تھائی کو سہلا رہی تھی۔ عمران کی تھائی کو سہلاتے سہلاتے ٹینا نے اسکی شارٹس کو تھوڑا سا اوپر اٹھا دیا تھا جس سے اب عمران کی تھائی ننگی ہوگئی تھی اور اپنی ننگی تھائی پر ٹینا کا نرم مگر گرم ہاتھ کا لمس پا کر عمران کی شارٹس میں ہلچل شروع ہوگئی تھی۔ عمران کا لن آہستہ آہستہ اپنا سر اٹھا رہا تھا جسکو ٹینا نے محسوس کر لیا تھا۔ وہ تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی، کل رات بھی اس نے عمران کے لن پر سواری کرنا چاہی تھی مگر عمران کی عدم دلچسپی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا تھا۔ لیکن اب ٹینا کا من ایک بار پھر کر رہا تھا کہ وہ اپنے نئے بوائے فرینڈ کا لن دیکھے کہ آخر اس میں کتنی جان ہے اور آیا کہ وہ اسکی جم کر چودائی کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔

کچھ دیر تھائی سہلانے کے بعد ٹینا اب پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی اور اس نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا لی اور اپنے دونوں ہاتھ بھی گاڑی کے دروازے پر ٹکا لیا، اسکے بعد ٹینا نے اپنی ٹانگیں پھیلا کر عمران کی گود میں رکھ لیں جس کی تمام تر توجہ اس وقت ڈرائیونگ پر تھی۔ وہ جلد از جلد سفر طے کرنا چاہتا تھا تاکہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے وہ تانیہ تک پہنچ سکے جو ان سے پہلے گوا کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ اور یہ تانیہ اور عمران کا پلان تھا کہ وہ راستے میں کسی بھی جگہ ملیں گے اور آگے کا سفر اکٹھے طے کریں گے۔ مگر ٹینا کا موڈ کچھ اور ہی تھا۔ اس نے عمران کی گود میں اپنی ٹانگیں رکھنے کے بعد اپنے پاوں کی ایڑی سے عمران کی ٹانگوں کے درمیان موجود لوہے کے راڈ پر دباو بڑھانا شروع کر دیا۔ ٹینا کو اپنے پاوں پر عمران کے لن کی سختی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب عمران کا لن فل جوبن پر ہے۔ اب کی بار ٹینا نے اپنے پاوں سے عمران کے لن کو سہلانا شروع کر دیا، عمران نے ایک بار مسکرا کر ٹینا کی طرف دیکھا جو اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبائے کاٹ رہی تھی اور اسکی نظریں عمران کی شارٹس کے اندر موجود لن پر ہی تھیں۔ عمران نے اب اپنا ایک ہاتھ ٹینا کے گوری گوری ٹانگ پر رکھ دیا اور اس پر اپنے ہاتھ کو نیچے سے اوپر تک پھیرنے لگا۔

ٹینا کی ٹانگ اس سرد موسم میں بھی گرم ہورہی تھی یہ اسکے اندر کی گرمی تھی جو عمران کی منی سے ہی ختم ہو سکتی تھی۔ عمران کا لن اب مکمل طور پر کھڑا ہو چکا تھا اور عمران کے شارٹس میں ایک چھوٹا سا خیمہ نما ٹینٹ بن گیا تھا۔ ٹینا اب اپنے پیروں کے تلوں سے عمران کے لن کو پکڑ کر مسل رہی تھی جس سے عمران کو بھی مزہ آنے لگا تھا اور اب اس نے اپنی گاڑی کی رفتار قدرے دھیمی کر دی تھی۔ کچھ دیر مزید اپنے پاوں سے عمران کے لن کو مسلنے کے بعد ٹینا نے اپنے پیر کا پنجا استعمال کرتے ہوئے عمران کی شارٹ سائیڈ پر ہٹا دی اور اپنا پیر اندر داخل کر کے عمران کے گرما گرم لن کو چھوا تو ٹیتا کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگا، عمران کے لن کی گرمی نے ٹینا کے پیر کو جلا کر رکھ دیا تھا، ا س سے پہلے اجے کے لن میں اسکو کبھی اتنی گرمی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی گرمی اس وقت عمران کے لن سے نکل رہی تھی۔ ٹینا نے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے رکھی اور اپنے پیر سے عمران کے لن کو شارٹس سے باہر نکال دیا۔ آٹو میٹک گاڑی ہونے کی وجہ سے عمران کا صرف ایک پیر استعمال ہو رہا تھا ڈرائیونگ کے لیے جبہ اسکا دوسرا پیر فری تھا اور اس نے اپنی ٹانگ اسطرح موڑ لی تھی کی ٹینا اپنے پیروں کو اچھی طرح استعمال کرتے ہوئے اسکے لن سے کھیل سکے۔ جیسے ہی عمران کا لن اسکی شارٹس سے باہر نکلا وہ کسی سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا سیدھا کھڑا ہوگیا، اسکی لمبائی اور موٹائی دیکھ کر ٹینا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور اسکا ایک ہاتھ اپنے منہ پر چلا گیا اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں اپنے ہونٹوں پر رکھ لیں، عمران بھی ٹینا کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا اور اشارے ہی اشارے میں ٹینا سے پوچھا کہ اسے یہ ہتھیار کیسا لگا؟؟ ٹینا نے بھی پہلے اپنی آنکھوں کے اشارے سے اسکی تعریف کی اور پھر اپنی زبان کو اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اپنی بےتابی کے بارے میں عمران کو بتانے لگی۔

اب ٹینا نے عمران کے کھڑے ہوئے لن کو ایک بار پھر سے اپنے پیروں کے تلووں کے درمیاں لیکر اپنے پیروں سے لن کا مساج شروع کردیا تھا۔ عمران کو بھی اپنے لن کا اسطرح مساج کروانا بہت اچھا لگ رہا تھا ، آج تک کسی نے اسکے لن کا اپنے پیروں سے یوں مساج نہیں کیا تھا۔ ٹینا کے پیر اسکے ہاتھوں کی نسبت سخت تھے اور انکی سختی عمران کے لن کو بھرپور مزہ دے رہی تھی۔ لن کو تلووں کے درمیان پھنسا کر ٹینا اپنے پیروں کو یوں آگے پیچھے گھما رہی تھی جیسے دہی کی لسی بنانے کے لیے اپنے ہاتھوں کے درمیان مدھانی لیکر گھمائی جاتی ہے۔ عمران کے لن کا شافٹ ٹینا کے پیروں کے بیچ میں بہت مزے میں تھا اور اپنے اس مزے کا اظہار اس نے عمران کے لن کے ٹوپے پر چند قطرے نکال کر کر دیا تھا۔ ٹینا کے نظر جب عمران کے ٹوپے پر موجود قطروں پر پڑی تو اس نے اپنے دائیں پیر کے انگوٹھے کو عمران کے لن کے ٹوپے پر مسلنا شروع کر دیا اور مذی کے وہ قطرے عمران کے ٹوپے پر ہی مسل دیے، اسکے بعد دوبارہ سے لن کا شافٹ اپنے پیروں میں دبا کر اسکی لسی بنانا شروع کر دی۔

عمران جو پہلے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے ڈرائیو کر رہا تھا اب اسکی رفتا بمشکل 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ کیونکہ اب اسکا دھیان سڑک کے ساتھ ساتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان موجود لن پر بھی تھا جسکو ٹینا اپنے خوبصورت پیروں سے کسی مدھانی کی طرح گھما گھما کر عمران کو مزہ دے رہی تھی۔ اب عمران نے مزید مزہ لینے کے لیے ٹینا کے مموں کی طرف اشارہ کیا جو اس نے اپنی چھوٹی شرٹ میں چھپائے تھے۔ عمران کے اشارہ پر ٹینا نے ایک نظر اپنے مموں پر ڈالی اور پھر اپنی شرٹ تھوڑی سے اوپر اٹھا کر اپنا ایک ہاتھ اپنی شرٹ کے اندر ڈال کر اپنے دائیں ہاتھ سے بایاں مما دبانے لگی۔ ٹینا یہ ساری حرکتیں کرتے ہوئے اپنے ہونٹ کو برابر دانتوں میں لیکر کاٹ رہی تھی جس سے اسکے اندر ہونے والی ہلچل اور لن کی طلب کا عمران کو بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ اب ٹینا نے اپنی شرٹ مزید اوپر اٹھا کر اپنے مموں سے اوپر کر لی۔ نیچے سے اب ٹینا کا گہرے نیلے رنگ کا خوبصورت برا نظر آرہا تھا۔ دونوں مموں کے درمیاں برا کے جوڑ پر ایک خوبصورت سا نگینہ لگا ہوا تھا جسکی چمک ٹینا کے مموں کو اور زیادہ خوبصورت بنا رہی تھی۔ عمران کے ایک اور اشارے پر ٹینا نے بغیر برا کی ہُک کھولے اپنا بایاں مما اپنے برا سے باہر نکال لیا۔ جیسے ہی ٹینا کا مما اسکے برا سے باہر نکلا عمران کے لن نے ایک زور دار انگڑائی لی اور اسکا اب دل کر رہا تھا کہ وہ یہیں گاڑی روک کر ٹینا کی چدائی کرے اور اسکی پھدی کی پیاس کو بجھا دے، مگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسکو جلد سے جلد تانیہ کے ساتھ ملنا تھا جو اس وقت کم سے کم ان لوگوں سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر آگے جا رہی تھی۔

ٹینا اب اپنے ممے کو مسلسل اپنے ہاتھ سے دبا رہی تھی اور اسکے ممے پر چھوٹا سا گلابی رنگ کا نپل دیکھ کر عمران کی زبان از خود باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اپنی زبان کی نوک سے وہ ٹینا کے نپل کر رگڑ رگڑ کر ٹِنا کی گرمی میں مزید اضافہ کر سکے۔ مگر اس وقت وہ نپل عمران کی زبان کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ ٹینا کے پیر اب عمران کے لن کے گرد مضبوط گرفت بنائے اوپر نیچے حرکت کر رہے تھے ، اس حرکت میں تیزی نہیں تھی مگر پیروں کی مظبوط گرفت اور انکی سختی عمران کے لن کو خوب مزہ دے رہی تھی اور وقفے وقفے سے عمران کے لن کی ٹوپی پر منی کے چند قطرے نمودار ہوتے جو دھیرے دھیرے اسکے شافٹ کی طرف بڑھتے اور ٹینا کے پیروں کی رگڑ سے عمران کے لن پر ہی مسلے جاتے۔ کچھ دیر مزید عمران کے لن کر اس طرح مزہ دینے کے بعد ٹینا نے غور کیا کہ ایک اور گاڑی تیزی سے انکے قریب آرہی ہے تو ٹینا نے فوری اپنا مما دوبارہ سے اپنے برا میں چھپا لیا اور اپنی شرٹ بھی نیچے کر لی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ گاڑی تیزی سے ان لوگوں کی گاڑی کو کراس کرتی ہوئی آگے نکل گئی تو ٹینا نے پھر سے اپنے پیروں کو عمران کے لن کے گرد حرکت دینا شروع کر دی۔

اب ٹینا اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے گھٹنے اپنی سیٹ پر رکھ کر عمران کی طرف جھکتی چلی گئی، ٹینا کا منہ سیدھا عمران کی گود میں جا کر رکا جہاں 8 انچ کا لمبا اور موٹا تازہ لن ٹینا کا انتظار کر رہا تھا، ٹینا نے اب پہلی بار عمران کا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور اسکی موٹائی اور لمبائی کو چیک کرنے لگی، پھر اس نے تعریفی نظروں سے عمران کی طرف دیکھا اور اپنی زبان نکال کر عمران کے لن کی ٹوپی پو موجود مذی کے قطروں کا نمکین ذائقہ محسوس کرنے لگی ۔ لن پر موجود مذی کو اچھی طرح چاٹنے کے بعد اب ٹینا نے اپنی زبان عمران کی ٹوپی پر موجود چھوٹے سے سوراخ پر گھمانی شروع کر دی جس سے عمران کے لن کو زبردست جھٹکے لگے، یہ عمران کا پہلا تجربہ تھا کہ کسی لڑکی نے اپنی زبان کی نوک ٹوپی پر موجود سوراخ پر گھمائی ہو۔ عمران کے پورے بدن میں ایک بار گد گدی ہوئی اور وہ اپنے مزے کی انتہا پر پہنچ گیا۔ ٹینا کی حرکت عمران کو بہت پسند آئی اور اب وہ اسے انجوائے کر رہا تھا۔ کچھ دیر ایسے ہی کرنے کے بعد اب ٹینا کی زبان عمران کی ٹوپی کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔ عمران کا لن ٹینا کوبہت پسند آیا تھا اور ٹوپی کی بناوٹ تو خاص طور پر اسے بہت اچھی لگی۔

ٹینا نے سر اوپر اٹھایا اور عمران سے پوچھا کہ یہ تمہارے لن کی ٹوپی کافی خوبصورت ہے اور علیحدہ ہی نظر آرہی ہے اجے کی تو ایسی نہیں تھی۔ تو عمران نے اسے بتایا کہ مسلمان خطنے کرواتے ہیں تو اس میں لن کی ٹوپی کی شیپ اسطرح کی بن جاتی ہے۔ یہ سیکس کے لیے بھی اچھی رہتی ہے اور خوبصورت بھی لگتی ہے۔ یہ سن کر ٹینا نے ایک بار پھر اپنی زبان باہر نکال لی اور اب کی بار وہ عمران کی ٹوپی سے زبان پھیرنا شروع کرتی اور اسکے لن کے شافٹ سے ہوتی ہوئی لن کی جڑ تک زبان لے جاتی۔ پھر ٹینا نے اپنے ہونٹوں کو عمران کی ٹوپی پر رکھا اور ہونٹوں میں دبا کر اپنے ہونٹ گول گول گھمانے لگی۔ ٹینا چوپے لگانے میں ماہر تھی اور عمران اسکے چوپوں کو بہت انجوائے کر رہا تھا۔ اسکی ہر ادا عمران کو ایک نیا مزہ دے رہی تھی۔ عمران سمجھ گیا تھا کہ اس 21 سالہ جوان لڑکی میں بہت آگ بھری ہوئی ہے اور اسکی چوت عمران کے لن کو بہت مزہ دینے والی ہے۔

کچھ دیر اپنے ہونٹوں سے عمران کی ٹوپی کو چوسنے کے بعد اب عمران کی ٹوپی ٹینا کے منہ کے اندر تھی جس کی گرمی عمران کو ساتویں آسمان تک پہنچا رہی تھی۔ ٹینا نے ایک ہاتھ عمران کے ٹٹوں کے نیچے رکھ لیا اور اپنی انگلیوں سے اسکے ٹٹوں کو ہولے ہولے دبانے لگی اور دوسرا ہاتھ عمران کے شافٹ پر رکھ کر اسکے شافٹ کو اپنے منہ کے اندر لینے لگی۔ ٹینا بہت مزے سے عمران کا لن چوس رہی تھی عمران کے لن کی لمبائی اور موٹائی دیکھ دیکھ کر ہی ٹینا کو اپنی چوت سے پانی نکلتا محسوس ہو رہا تھا جو اسکی چوت سے ہوکر تھائیز تک آرہا تھا اور اسکی چھوٹی سی نیکر سے باہر نکل کر اسکی گوری گوری تھائیز پر چمک رہا تھا۔

ٹینا نے اب تیز تیز چوپے لگانے شروع کیے تو عمران کی ہلکی ہلکی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں، ٹینا کوشش کر رہی تھی کہ وہ عمران کا پورا 8 انچ کا لن اپنے منہ میں لے جائے مگر بمشکل 5 سے 6 انچ لن ہی ٹینا کے منہ میں جا رہا تھا اور ٹینا جم کر اسکے چوپے لگا رہی تھی۔ گاڑی کی رفتار اب کم ہوتی ہوتی 20 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ چکی تھی اور ہلکا ہلکا اندھیرا بھی ہو رہا تھا۔ عمران سے اب مزید ڈرائیونگ نہیں ہو پا رہی تھی اس نے قریب ہی درختوں کا ایک جھنڈ دیکھ کر گاڑی روک لی اور ٹینا کو گاڑی سے نیچے اترنے کا کہا۔ ٹینا نے عمران کا لن اپنے منہ سے نکالا اور اپنی سائیڈ والا دروازہ کھول کر گاڑی سے نیچے اتر گئی، عمران بھی گاڑی سے نیچے اترا اور اپنا لن ہاتھ میں پکڑے دوسری سائیڈ پر گاڑی کی اوٹ میں کھڑا ہوگیا، روڈ سنسان تھا دور دور کسی گاڑی کی آمدورفت نہیں تھی۔ عمران گاڑی کے دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا جبکہ ٹینا اب پیروں کے بل نیچے زمین پر بیٹھ گئی اور عمران کا لوڑا ایک بار پھر سے اپنے منہ میں داخل کر کے اسکے چوپے لگانے لگی۔ عمران نے ٹینا کو اشارہ کر دیا تھا کہ جلدی جلدی چوپے لگا کر عمران کو فارغ کروائے تاکہ وہ دوبارہ سے اپنا سفر شروع کر سکیں۔

ٹینا نے اب اپنی نیکر کی زپ کھول کر اسے تھوڑا نیچے کر لیا اور اپنی پینٹی سائیڈ پر ہٹا کر اپنی ایک انگلی اپنی چوت میں داخل کر کے اسکو خود ہی چودنے لگی اور دوسرے ہاتھ سے عمران کا لن پکڑے اسکے چوپے لگاتی رہی ۔ ٹینا کی چوت کے اندر ایسی گرمی تھی جیسے کسی تندور میں آگ جل رہی ہو، انگلی ڈالتے ہی اسکی پوری انگلی ٹینا کی چوت کے چکنے پانی سے چپ چپ کرنے لگ گئی تھی مگر وہ مسلسل اپنی انگلی سے اپنی چوت کی چدائی کرنے میں مصروف تھی۔ جبکہ دوسری طرف عمران کا لن اب اپنے مزے کی آخری حدوں کو چھونے لگا تھا۔ ٹینا کے منہ سے بھی اب سسکیاں نکلنا چاہ رہی تھیں مگر منہ میں لن ہونے کی وجہ سے وہ سسکیاں نہیں لے پا رہی تھی، کچھ ہی دیر مزید اپنی چوت میں انگلی گھمانے کے بعد ٹینا کی چوت نے گرم گرم پانی چھوڑ دیا ، پانی چھوڑنے کے دوران ٹینا نے عمران کا لوڑا اپنے منہ سے باہر نکال لیا اور دل کھول کر سسکیاں لینے لگی۔ جب سارا پانی نکل چکا تو ایک بار پھر ٹینا نے عمران کا لوڑا منہ مِں ڈالا اور اس پے چوپے پر چوپا لگانے لگی۔

2 منٹ مزید چوپے لگانے کے بعد عمران کو اپنے لن کے اندر منی کا پریشر بڑھتا ہوا محسوس ہونے لگا تو اس نے ٹینا کو بتا دیا کہ وہ چھوٹنے والا ہے، یہ سن کر ٹینا نے لن منہ سے باہر نکالا اور عمران کے ساتھ ہوکر بیٹھ گئی مگر اس نے عمران کے لن کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور اسکی مٹھ مارنے لگی۔ ٹینا دیکھنا چاہتی تھی کہ عمران کے لن سے منی کتنے پریشر کے ساتھ نکلتی ہے۔ کچھ دیر مزید مٹھ مارنے کے بعد عمران کے لن کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور ساتھ ہی اسکے منہ سے آہ ، آہ کی آوازیں بھی نکلنے لگیں اور منی کی ایک گاڑھی اور تیز دھار عمران کے لن کی ٹوپی سے نکلی اور 4، 5 فٹ دور جا کر گری۔ وقفے وقفے سے عمران کے لن نے منی کی دھاریں نکالیں۔ ہر دھار پہلے والی دھار سے قدرے کم ہوتی اور اسکا پریشر بھی پہلے کی نسبت کم ہوتا۔ جب عمران کے لن نے خوب ڈھیر ساری منی چھوڑ دی تو ٹینا نے عمران کے لن کو ایک بار پھر اپنے منہ میں لیا اور اسکی ٹوپی پر لگی ہوئی منی کی چکناہٹ کو چاٹنے لگی۔ ٹینا نے اپنی زبان سے عمران کے لن کو اچھی طرح صاف کر دیا اور پھر عمران کی شارٹس دوبارہ سے اوپر کر کے لن شارٹس کے اندر کر دیا، اور کھڑی ہوکر پہلے اپنی پینٹی کو سیٹ کیا اور پھر اپنی نیکر کی زپ بند کر کے گاڑی میں بیٹھ گئی جبکہ عمران بھی دوسری سائیڈ سے آکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس نے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد ٹینا کو اپنے قریب کر کے اسکے ہونٹوں پر ایک زور دار کس کی اور دوبارہ سے گاڑی چلانے لگا۔

اب عمران کی گاڑی کی سپیڈ خطرناک حد تک زیادہ تھی وہ 180 کلومیٹر کی رفتار سے ڈرائیو کر رہا تھا، اور گاڑی کی روف اب بند کر دی گئی تھی کیونکہ اتنی رفتار میں ہوا کا پریشر عمران اور ٹینا کے چہروں کا بیڑہ غرق کر سکتا تھا۔ ٹینا نے ایک بار عمران کو تھوڑا آہستہ چلنے کو کہا مگر عمران نے کہا پریشان نہ ہو میں بالکل ریلیکس ہوں اور اس رفتار میں گاڑی چلانا میرے لیے معمول کی بات ہے۔ ٹینا نے پوچھا مگر تم تو کہ رہے تھے کہ تم اپنی گزر بسر کے لیے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے ہو تو پھر گاڑی تمہارے پاس کہاں سے آئی جو تم چلاتے ہو؟؟ عمران نے ٹینا کومسکرا کر دیکھا اور دل ہی دل میں اسکی زہانت کی داد دینے لگا، مگر وہ بھی آخر آئی ڈی آئی کا ایجنٹ تھا، اسکے پاس جواب پہلے سے تیار تھا۔ عمران نے مسکراتے ہوئے ٹینا کو دیکھا اور بولا تمہیں بتایا تھا نہ کہ ایک ویلے میرا دوست ہے۔ تو بس تم جیسی امیر زادیاں جب ڈانس کلب اور نائٹ کلب میں آتی ہیں اور وہاں 2، 3 گھنٹے رکتی ہیں تو میں اپنے دوست سے اپنی پسند کی گاڑی کی چابی لیکر اسکے خوب مزے کرتا ہوں، رات کے وقت تمام روڈز سنسان ہوتے ہیں تو میں دل کھول کر اوور سپیڈنگ کرتا ہوں اور اپنا شوق پورا کر لیتا ہوں۔ اسکے جواب پر ٹینا نے عمران کو مسکرا کر ںاٹی بوائے کہا اور گاڑی میں موجود ٹیپ پر ایک انگلش سونگ لگا دیا اور خاموشی سے وہ سانگ سننے لگی۔

کیپٹن مکیش جو ٹینا سے کافی فاصے پر اسکے پیچھے پیچھے آرہا تھا اس نے اپنے موبائل پر دیکھا کہ میپ میں ان دونوں کے درمیان فاصلہ کم ہورہا ہے، بلکہ اس محسوس ہوا جیسے ٹینا کی گاڑی کسی جگہ رکی ہوئی ہے اور وہ اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ یہ دیکھ کر مکیش نے اپنی رفتار اور بھی زیادہ بڑھا دی، اسکو ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ مبادہ ٹینا کو انہی غنڈوں نے پکڑ لیا ہو دوبارہ سے، مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس وقت ٹینا عمران کا 8 انچ لمبا لن منہ میں ڈالے اپنی چوت کو سہلا رہی ہے۔ جب یہ فاصلہ بہت تھوڑا رہ گیا اور دونوں کے درمیان محض 5 سے 6 کلومیٹ کا فاصلہ رہ گیا تھا تو ایک بار پھر کیپٹں مکیش نے جی پی ایس پر دیکھا کہ ٹینا کی گاڑی چل پڑی ہے اور اب کی بار دونوں کے درمیان فاصلہ بہت تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ کیپٹن مکیش نے اپنی رفتار مزید بڑھائی تاکہ وہ دیکھ سکے کہ ٹینا خیریت سے ہے یا نہیں مگر فاصلہ مسلسل بڑھ رہا تھا اور کیپٹں مکیش ایک خاص رفتار سے آگے اپنی جیپ کو نا چلا پایا جبکہ ٹینا کی بی ایم ڈبلیو 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مکیش سے خاصی دور نکل چکی تھی۔

عمران پچھلے ایک گھنٹے سے کافی تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا اسکے ذہن میں مسلسل تانیہ کا خیال تھا اس نے فون پر تانیہ کو تیز رفتاری کے ساتھ جانے کا کہا تھا مگر عمران کو اس چیز کا اندازہ نہیں تھا کہ تانیہ کس رفتار کے ساتھ گاڑی چلا سکتی ہے۔ اس لیے وہ جتنی تیز گاڑی چلا سکتا تھا چلا رہا تھا۔ 4 لین والی چوڑی سڑک بالکل خالی تھی ، دور دور تک آبادی کا کوئی نشان نہیں تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کوئی گاڑی آتی تو عمران کی گاڑی بجلی کی سی رفتار سے اسکو کراس کرتی ہوئی نکل جاتی۔ پھر عمران کو دور ایک گاڑی کے انڈیکیٹر نظر آئے ۔ ایک گاڑی سڑک سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی تھی اور اسکے دونوں اشارے مسلسل جلتے اور بجھتے دکھائی دے رہے تھے، عمران سمجھ گیا کہ یہ تانیہ کی گاڑی ہوگی، کیونکہ فون پر عمران نے تانیہ کو قریب قریب یہی جگہ بتائی تھی جہاں پہنچتے پہنچتے وہ با آسانی تانیہ کے قریب ہوگا اور تانیہ نے یہاں پہنچ کر گاڑی کے ایک ٹائر سے ہوا نکالنی تھی۔

گاڑی کے اشارے دیکھ کر عمران نے گاڑی آہستہ کرلی تھی، اور پھر کچھ ہی فاصلہ رہ جانے کے بعد عمران سمجھ گیا تھا ہ یہ تانیہ کی ہی گاڑی ہے۔ تانیہ روڈ پر کھڑی ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کرنے لگی، عمران نے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تانیہ کی گاڑی کو کراس کیا تو ٹینا ایک دم بولی گاڑی روکو، گاڑی روکو۔۔۔ یہ تو وہی لڑکی ہے۔۔ گاڑی روکو۔ عمران نے گاڑی اسی لیے آہستہ کی تھی تاکہ ٹینا اچھے سے تانیہ کو دیکھ سکے اور پہچان کر خود گاڑی روکنے کا کہے، اگر وہ نہ کہتی تو عمران نے خود ہی کہ دینا تھا کہ بیچاری اکیلی لڑکی لگ رہی ہے اسکی مدد کرنی چاہیے، مگر اسکی نوبت نہیں آئی اور ٹِنا نے ہی عمران کو گاڑی روکنے کا کہ دیا۔ عمران نے گاڑی فوری روکی اور بیک گئیر لگا کر دوبارہ سے گاڑی تانیہ کی گاڑی کے قریب لے آیا۔

گاڑی کو اپنے قریب آتا دیکھ کر تانیہ جو اس وقت ایک لوز شرٹ اور ٹراوزر پہنے ہوئے تھی تھوڑا اگے بڑھی اور گاڑی رکنے پر ٹینا کی دروازے کی طرف آکر تھوڑی سی جھکی ٹینا نے گاڑی کا شیشہ کھولا تو تانیہ نے مسکین سا چہرہ بناتے ہوئے کہا وہ در اصل میری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے اور میری گاڑی میں اس وقت سٹپنی بھی موجود نہیں کیا آپ میری ہیلپ کر سکتی ہیں؟؟ ٹینا نے مسکراتے ہوئے تانیہ کو دیکھا اور کہا لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ تانیہ نے اب ٹینا کو غور سے دیکھا اور ایسے ایکٹنگ کی جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو، پھر کچھ دیر کے وقفے سے بولی نہیں میں نے واقعی آپکو نہیں پہچانا۔ تو ٹینا بولی ارے کل رات نائٹ کلب میں آپ نے کیا خوب ڈانس کیا تھا میں بھی وہیں پر تھی، آپ انجلی ہو نا؟ تانیہ کو فوری یاد آیا کہ اس نے سبھاش کو نائٹ کلب میں اپنا نام انجلی ہی بتایا تھا، اس نے شکر کیا کہ کہیں اسے نے فوری اپنا اصل نام تانیہ نہیں بتا دیا۔ ٹینا کی بات سن کر تانیہ بولی کہ ہاں میں انجلی ہی ہوں مگرمجھے یاد نہیں کہ میں آپ سے ملی ہوں۔ یہ سن کر ٹینا نے دروازہ کھولا اور گاڑی سے نیچے اتر آئی ، عمران بھی اپنی سائیڈ والا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔ اب کی بار عمران نے آگے بڑھ کر تانیہ سے ہاتھ ملایا اور بولا جی انجلی جی ہم آپکی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ انجلی نے اب کی بار عمران سے کہا کہ اسکی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے اور گاڑی میں سٹپنی بھی نہیں ہے، میں نہیں جانتی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ رات کا ٹائم ہونے والا ہے اور میں نے سفر بھی بہت لمبا کرنا ہے۔

انجلی کی بات سن کر عمران بولا کہ کہاں جانا ہے آپ نے؟ تو انجلی نے کہا میں گوا جا رہی ہوں۔ اور آپکو پتا یہاں سے قریب 7 گھنٹے کا سفر ہے۔ انجلی کی بات سن کر عمران بولا ارے ہم بھی گوا جا رہے ہیں، آپ ہمارے ساتھ ہی چلیں کیونکہ اب اس گاڑی پر تو آپ نہیں جا سکتیں۔ یہ سن کر ٹینا نے بھی انجلی کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دے دی، اور انجلی تھوڑی سی ڈرامہ بازی کرنے کے بعد راضی ہوگئی کونکہ پلان یہی تھا کہ تانیہ آگے گوا تک ٹینا اور عمران کے ساتھ جائے گی۔ مزید عمران نے انجلی کو کہ دیا کہ گاڑی کی آپ فکر نہ کریں میرا ایک دوست پاس ہی ایک گاوں میں رہتا ہے میں اسکو فون کر دوں گا وہ آپکی گاڑی لے جائے گا اور گاڑی کا کام کروا کر جہاں آپ کہیں گی وہاں گاڑی پہنچا دے گا۔ اسکے بعد انکار کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ انجلی نے جلدی جلدی اپنا کچھ ضرور سامان جس میں ایک کپڑوں کا بیگ تھا اور ایک ٹفن باکس جس میں انجلی نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے لیے کھانا ڈال لیا تھا اٹھا کر ٹینا کی گاڑی میں رکھا۔ اور پیچھے والی سیٹ پر دروازہ کھول کر بیٹھ گئی

1 comment:

  1. Hello i am basit here, i want loving girlfriend, its my what's app and my personal number, you can call and sms me on my phone number and also you can what's app, the number is ❤ +923041845811 ❤ am decent loving caring boy, you can contact with me any time, and without any hesitation, you can trust on myself, am decent educated loving boy. Am waiting for your sincerely reply.thanks❤❤❤❤💋💓❤💋💋💓💋اگر آپ میرے ساتھ اچھی دوستی رکھنا چاہتی ہیں اور آپ میرے ساتھ ریلیشن سے بنا چی بنانا چاہتی ہیں تو آپ میرے ساتھ مکمل رازداری کے ساتھ رابطہ کر سکتی ہیں

    یہ میرا واٹس ایپ کا نمبر ہے اور میرا فون نمبر ہے آپ جب چاہیں مجھے ایس ایم ایس کال کر سکتی ہیں میرا یہ نمبر اون ہے
    03041845811

    ReplyDelete

ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ

ہائے جانانہ کی مہماں داریاں اور مجھ دل کی بدن آزاریاں ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں اُف، شکن ہائے...